وراثت کے ٹکڑے ٹکڑے ہونے کے خوف سے زندگی میں وراثت کی تقسیم
س… اگر کوئی صاحبِ جائیداد جس کے ورثاء آدھی درجن سے زیادہ ہوں اور اس میں کچھ ورثاء خوش حال اور کچھ غریب ہوں تو صاحبِ جائیداد اگر اپنی ملکیت کو ٹکڑے ٹکڑے ہونے اور ضائع ہونے کے خیال سے بچانے کے لئے اپنی ملکیت کی رقم کو شرعی طور پر اپنی زندگی میں تمام ورثاء میں تقسیم کردے اور پھر اس ملکیت کو کسی غریب اور مستحق وارث کے نام منتقل کردے، تو اس میں شرعاً کیا مسائل پیدا ہوسکتے ہیں؟
ج… شریعت نے حصے مقرّر کئے ہیں، خواہ کوئی امیر ہو یا غریب، اس کو اس کا حصہ دیا جاتا ہے، اگر باقی وارثوں کی رضامندی سے کسی ایک کو یا چند کو دیا جائے تو کوئی حرج نہیں، اور اگر وارث راضی نہ ہوں تو جائز نہیں۔ یہ مرکر خود بھی ٹکڑے ٹکڑے ہوجائے گا، اس کو اپنے بچنے کی فکر کرنی چاہئے نہ کہ جائیداد کو بچانے کی:
بلبل نے آشیانہ چمن سے اُٹھالیا
اس کی بلا سے بوم بسے یا ہما رہے!
اولاد کا والدین کی زندگی میں وراثت سے اپنا حق مانگنا
س… کوئی اولاد لڑکا یا لڑکی (خاص طور پر لڑکا) شرعی لحاظ سے اپنے والد سے اس کی زندگی ہی میں اس کے اثاثے یا جائیداد میں سے اپنا حق مانگنے کا مجاز ہے کہ نہیں؟
ج… وراثت تو موت کے بعد تقسیم ہوتی ہے، زندگی میں والد اپنی اولاد کو جو کچھ دے دے وہ عطیہ ہے، اور ظاہر ہے کہ عطیہ دینے پر کسی کو مجبور نہیں کیا جاسکتا۔
اپنی زندگی میں کسی کو جائیداد دے دینا
س… کیا صحت مند آدمی اپنی جائیداد کسی کو اپنی مرضی سے دے سکتا ہے؟
ج… دے سکتا ہے، مگر جس کو دے اس کو قبضہ دِلادے، اور اگر وارثوں کو محروم کرنے کی نیت ہو، تو گناہگار ہوگا۔
زندگی میں بیٹے اور بیٹیوں کا حق کس تناسب سے دینا چاہئے؟
س… ایک شخص نے اپنی زندگی میں اپنی دولت سے کچھ حصہ نکال کر اس دولت سے ایک جائیداد اپنے لڑکے اور لڑکیوں کو جو کہ تمام شادی شدہ ہیں، مشترکہ طور دے دی اور اس جائیداد میں لڑکوں کے دو حصے اور لڑکیوں کا ایک حصہ مقرّر کردیا، اور یہ کہہ دیا کہ میں اپنی زندگی میں ورثہ تقسیم کر رہا ہوں، اس لئے اس جائیداد میں لڑکوں کے دو دو، اور لڑکیوں کا ایک ایک حصہ ہوگا، جو کہ ورثہ کی تقسیم کا ایک شرعی طریقہ ہے۔ جائیداد جب بیٹوں اور بیٹیوں کو دے دی گئی، تو بیٹیوں نے باپ سے کہا کہ ہمیں معلوم ہوا ہے کہ زندگی میں اگر ترکہ بانٹا جائے تو لڑکے اور لڑکیوں کا حصہ برابر ہوتا ہے، اس کے جواب میں باپ نے کہا کہ میں تو دے چکا، لیکن بیٹیوں کا اصرار ہے کہ ان کا حصہ بیٹوں کے برابر ہونا چاہئے، کیونکہ ان کے بقول شرعاً یہ پابندی ہے کہ زندگی میں اگر ترکہ بانٹا جائے تو اس میں بیٹے اور بیٹیوں کا حصہ برابر ہوتا ہے۔
ج… اگر کوئی شخص اپنی زندگی میں اپنی جائیداد اولاد کے درمیان تقسیم کرتا ہے تو بعض اَئمہ کے نزدیک اس کو چاہئے کہ لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر رکھے، اور بعض اَئمہ کے نزدیک مستحب یہ ہے کہ سب کو برابر دے، لیکن اگر لڑکوں کو دو حصے دئیے اور لڑکی کو ایک حصہ دیا تب بھی جائز ہے۔ لہٰذا صورتِ مسئولہ میں اس شخص کی تقسیم صحیح ہے اور لڑکیوں کا اصرار صحیح نہیں۔
زندگی میں جائیداد لڑکوں اور لڑکیوں میں برابر تقسیم کرنا
س… جنابِ محترم! ہمارے ایک جاننے والے جو کہ دِین دار بھی ہیں، ان کے تین لڑکے اور تین لڑکیاں ہیں جو کہ سب شادی شدہ ہیں۔ ان صاحب کا یہ ارادہ ہے کہ وہ اپنی جائیداد کو اولاد میں برابر تقسیم کردیں، کیونکہ ان کا یہ کہنا ہے کہ مرنے کے بعد میں ایسا نہیں کرسکتا۔ وہ ایسا اس لئے کرنا چاہ رہے ہیں کہ وہ اپنے نالائق بے ادب لڑکوں کو سزا دینا چاہتے ہیں، اس کے بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے؟ کیا وہ ایسا کرنے کے مجاز ہیں یا نہیں؟
ج… اپنی زندگی میں اپنی جائیداد، اپنی اولاد میں (خواہ لڑکے ہوں یا لڑکیاں) برابر تقسیم کرسکتے ہیں۔
زندگی میں ترکہ کی تقسیم
س… میں لاولد ہوں، میرے پاس آباء و اجداد کی کوئی جاگیر ہے، نہ کوئی رقم ورثہ میں ملی تھی۔ میں نے خود اپنی محنت مزدوری کرکے اپنا گزارہ کیا، اور اب میرے پاس اتنی رقم ہے کہ میں چاہتا ہوں کہ اپنے کاروبار کے لئے صرف اتنی پونجی رکھ کر جس سے میرا گزارا چلتا رہے، بقایا رقم میں اپنے لواحقین میں تقسیم کردُوں، یعنی زندگی میں اپنے ہاتھ سے دے دُوں۔ لواحقین میں میرا ایک حقیقی بھائی ہے، اور دو حقیقی بہنیں ہیں۔ برائے مہربانی یہ تحریر فرمائیں کہ قرآن و احادیث کی روشنی میں تقسیمِ حصہ کیسے کیا جائے؟
ج… آپ جب تک بقیدِ حیات ہیں، اپنی املاک کو استعمال کریں، اپنی آخرت کے لئے سرمایہ بنائیں اور راہِ خدا پر خرچ کریں۔ مرنے کے بعد جس کا جتنا حصہ ہوگا خود ہی لے لے گا، اور اگر آپ کو یہ خیال ہو کہ ممکن ہے کہ بعد کے لوگ شریعت کے مطابق تقسیم نہ کریں تو دو دِین دار اور عالم اَشخاص کو اس کا ذمہ دار بنائیں کہ وہ شرعی حصوں کے مطابق تقسیم کریں۔ یہ بات میں نے آپ کے سوال سے ہٹ کر لکھی ہے۔ آپ کے سوال کا جواب یہ ہے کہ اگر آپ کی وفات کے وقت یہ سب بہن بھائی زندہ ہوں تو بھائی کو دونوں بہنوں کے برابر حصہ ملے گا، گویا چار میں سے دو حصے بھائی کے ہوں گے اور ایک ایک دونوں بہنوں کا، آپ چاہیں تو ابھی تقسیم کردیں۔
زندگی میں مال میں تصرف کرنا
س… میری شادی ہوئی اور بیوی فوت ہوگئی تھی، کوئی اولاد نہیں ہے، میں لاولد ہوں۔ میں نے جو کمایا اور جو دولت میرے پاس ہے، میرے اپنے ہاتھوں سے کمائی ہوئی ہے، آباء و اجداد کی وراثت سے کوئی جائیداد نہیں ہے، اور نہ کوئی دولت میرے حصے میں آئی۔ میں کرائے کے مکان میں ہوں، میرا ایک حقیقی بھائی ہے، جو صاحبِ اولاد ہے، دو حقیقی بہنیں ہیں، وہ بھی صاحبِ اولاد ہیں۔ میں زندگی میں ہی ان تینوں بھائی اور بہنوں کو اپنی دولت سے حصہ دینا چاہتا ہوں، کیا ان کا حق ہے؟ اگر میں پہلے ان کا حصہ دے دُوں لیکن بعد میں جو ہوگا یعنی بچے گا وہ میں جہاں اور جس کو چاہوں وصیت نامہ لکھ کر رکھوں گا تاکہ بعد میں کوئی مطالبہ نہ کرسکے، لہٰذا قرآن و حدیث کی روشنی میں وضاحت سے جواب دیں۔
الف:… اگر میرا بھائی اور دو بہنیں حق دار ہیں تو میں اپنے کاروبار اور خود کے اخراجات کے لئے موجودہ مال سے خود کتنا مال اپنے لئے رکھوں؟
ب:… بقایا مال میں سے ایک بھائی اور دو بہنوں میں تقسیم کا شرعی طریقہ کیا ہے؟
ج… جب تک آپ زندہ ہیں وہ مال آپ کا ہے، اس میں جو جائز تصرف آپ کرنا چاہیں آپ کو حق ہے، آپ کے مرنے کے بعد جو وارث اس وقت موجود ہوں گے ان کو شریعت کے مطابق حصہ ملے گا، اور تہائی مال کے اندر اندر آپ وصیت کرسکتے ہیں کہ فلاں کو دے دیا جائے، یا فلاں کارِخیر میں لگادیا جائے۔
مرنے سے قبل جائیداد ایک ہی بیٹے کو ہبہ کرنا شرعاً کیسا ہے؟
س… ہمارے والد وفات پاگئے ہیں، ہم پانچ بھائی، ایک بہن اور ہماری والدہ ہیں، لیکن ہمارے والد انتقال سے پہلے اپنی جائیداد، مکان ہمارے ایک ہی بھائی نوشاد علی کے نام کر گئے ہیں۔ بھائی کا کہنا ہے کہ والد نے مجھے یہ مکان، جائیداد گفٹ کی ہے، اس لئے اس پر اب کسی کا حق نہیں ہے۔ لہٰذا آپ سے درخواست ہے کہ اسلامی نقطہٴ نظر سے بتائیں کہ کیا اب اس پر یعنی جائیداد اور مکان پر ہمارا کوئی حق نہیں؟ یا اگر تقسیم ہوگی تو کس طرح ہوگی؟
ج… سوال کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے والد صاحب نے اپنی جائیداد اپنے بیٹے نوشاد علی کے نام انتقال سے پہلے بیماری کی حالت میں کی تھی، اور پھر اس بیماری کی حالت میں انتقال کرگئے۔ اگر آپ کے سوال کا مطلب میں نے صحیح سمجھا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ مرض الوفات کے تصرف کی حیثیت وصیت کی ہوتی ہے، اور وصیت وارث کے لئے جائز نہیں، لہٰذا آپ کے والد صاحب کا یہ تصرف وارثوں کی رضامندی کے بغیر باطل ہے اور یہ جائیداد سب وارثوں پر شرعی حصوں کے مطابق تقسیم ہوگی۔
اور اگر نوشاد علی کے نام جائیداد کردینا مرض الوفات میں نہیں ہوا، بلکہ صحت و تندرستی کے زمانے میں انہوں نے یہ کام کیا تھا، تو اس کی دو صورتیں ہیں، اور دونوں کا حکم الگ الگ ہے۔
ایک صورت یہ ہے کہ سرکاری کاغذات میں جائیداد بیٹے کے نام کرادی، لیکن بیٹے کو جائیداد کا قبضہ نہیں دیا، قبضہ و تصرف مرتے دم تک والد صاحب ہی کا رہا، تو یہ ہبہ مکمل نہیں ہوا، لہٰذا صرف وہی بیٹا اس جائیداد کا حق دار نہیں، بلکہ تمام وارثوں کا حق ہے اور یہ جائیداد شرعی حصوں پر تقسیم ہوگی۔
دُوسری صورت یہ ہے کہ آپ کے والد صاحب نے جائیداد بیٹے کے نام کرکے قبضہ بھی اس کو دِلادیا، اور خود قطعاً بے دخل ہوکر بیٹھ گئے تھے، بیٹا اس جائیداد کو بیچے، رکھے، کسی کو دے، ان کو اس پر کوئی اعتراض نہیں تھا، تو اس صورت میں یہ ہبہ مکمل ہوگیا۔ یہ جائیداد صرف اسی بیٹے کی ہے، باقی وارثوں کا اس میں کوئی حق نہیں رہا، لیکن دُوسرے وارثوں کو محروم کرکے آپ کے والد صاحب ظلم و جور کے مرتکب ہوئے جس کی سزا وہ اپنی قبر میں بھگت رہے ہوں گے۔ اگر وہ لائق بیٹا اپنے والد صاحب کو اس عذاب سے بچانا چاہتا ہے تو اسے چاہئے کہ اس جائیداد سے دستبردار ہوجائے اور شرعی وارثوں کو ان کے حصے دے دے۔
اپنی حیات میں جائیداد کس نسبت سے اولاد کو تقسیم کرنی چاہئے؟
س… میری چھ اولادیں ہیں، جن کی تفصیل حسبِ ذیل ہے: ۴ لڑکیاں شادی شدہ، ایک لڑکا شادی شدہ، ایک لڑکا غیرشادی شدہ۔ میری کچھ جائیداد لالوکھیت میں ہے، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ میں چاہتا ہوں کہ اپنی زندگی میں جس جس کا جو حصہ نکلے اس کو ان کا حصہ دے دُوں۔ معلوم یہ کرنا ہے کہ پہلے غیرشادی شدہ لڑکے کا حصہ نکال کر (یعنی شادی کے اخراجات) باقی رقم کی تقسیم کس طرح ہوگی؟ ایک روز چاروں لڑکیاں اور چاروں داماد موجو تھے، میں نے ان کے سامنے یہ مسئلہ رکھا، چونکہ چاروں لڑکیاں صاحبِ نصاب ہیں، انہوں نے متفقہ طور پر یہ کہا کہ اللہ تعالیٰ نے ہم کو بہت دیا ہے، ہم چاروں اپنے حصے اپنے دونوں بھائیوں کو دینا چاہتی ہیں۔ اب فرمائیے کہ اس جائیداد کی تقسیم کس طرح ہوگی؟
ج… آپ اپنے غیرشادی شدہ لڑکے کی شادی کے اخراجات نکال کر اس لڑکے کے حوالے کرکے باقی جائیداد اپنی زندگی ہی میں اپنی تمام اولاد میں تقسیم کرسکتے ہیں۔ البتہ اس تقسیم کے لئے ضروری ہے کہ لڑکے اور لڑکی دونوں کو برابر کا حصہ دیں اور جو جائیداد منقولہ یا غیرمنقولہ ان کے درمیان تقسیم کریں، وہ ان کے قبضے میں دے دیں، اور اگر آپ نے جائیداد ان کے قبضے میں نہیں دی بلکہ محض کاغذی طور پر تقسیم کی ہے اور جائیداد اپنے قبضے میں رکھی ہے تو آپ کے انتقال کے وقت وہ جائیداد منقولہ و غیرمنقولہ جو آپ کے قبضے میں ہے، اس کی تقسیم میراث کے اُصولوں کے مطابق ہوگی، یعنی لڑکی کا ایک حصہ اور لڑکے کے دو حصے۔ آپ کی لڑکیاں اگر اپنے حصے سے دست بردار ہونا چاہتی ہیں تو آپ اپنی تمام جائیداد اپنے لڑکوں کے دے سکتے ہیں، لیکن اس صورت میں بھی اگر آپ نے لڑکوں کے درمیان جائیداد تقسیم کرکے ان کو قبضہ دے دیا تو آپ کے انتقال کے بعد آپ کی لڑکیوں کو اس میں حصے کا مطالبہ کرنے کا حق نہ ہوگا، اور اگر آپ نے انتقال تک لڑکوں کو قبضہ نہ دیا تو آپ کے انتقال کے بعد لڑکیاں اس جائیداد میں اپنے حصے کا مطالبہ میراث کے اُصولوں کے مطابق کرسکتی ہیں۔