عورت کی موت پر جہیز و مہر کے حق دار

عورت کے انتقال کے بعد مہر کا وارث کون ہوگا؟

س… عورت کے انتقال کے بعد مہر کی رقم (جائیداد، زیور یا نقدی کی صورت میں ہو) کا وارث کون ہوتا ہے؟

ج… عورت کے مرنے کے بعد اس کا مہر بھی اس کے ترکہ میں شامل ہوجاتا ہے، جو اس کے وارثوں میں حصہ رسدی تقسیم ہوگا۔

لاولد متوفیہ کے مہر کا وارث کون ہے؟

س… شادی کے ایک سال بعد بحکمِ خداوندی لڑکی کا انتقال ہوگیا، کوئی اولاد نہیں ہے۔ اس صورت میں جہیز میں سامان کی واپسی اور مہر کی رقم کا مطالبہ کیا جاسکتا ہے یا نہیں؟

ج… لڑکی کا جہیز اور مہر آدھا شوہر کا ہے، اور باقی آدھا اس کے والدین کا، اس طور پر کہ والد کے دو حصے اور والدہ کا ایک حصہ۔ گویا کل ترکہ کے اگر چھ حصے کردئیے جائیں تو تین حصے شوہر کے ہیں، دو حصے والد کے، ایک حصہ والدہ کا۔ جتنا والدین کا حق ہے اس کا مطالبہ کرسکتے ہیں۔

بیوی کے مرنے کے بعد اس کے مہر اور دیگر سامان کا حق دار کون ہوگا؟

س… میں نے دو سال پیشتر شادی کی تھی، ایک اللہ تعالیٰ کا دیا ہوا بچہ ہے جو ۵ ماہ کا ہے، لیکن بیوی اس جہانِ فانی سے رُخصت ہوگئی، یعنی انتقال کرگئی۔ میرا ۵ ماہ کا بچہ ابھی تک زندہ ہے اور اس بچے کی پروَرِش کی خاطر میں نے بیوی کی چھوٹی بہن سے شادی کرلی، یعنی میری سالی سے شادی ہوگئی۔ پہلے شادی کے وقت نکاح نامہ میں حق مہر کی رقم پچاس ہزار روپے لکھی گئی تھی، اب میرا سسر مجھے بہت تنگ کرتا ہے اور وہ یہ کہتا ہے کہ بیوی کے مرنے کے بعد پچاس ہزار روپے کا حق دار میں ہوں۔ بیوی کے مرنے کے بعد حق مہر دینا پڑتا ہے؟ اگر دینا ہے تو اس حق مہر کے حق دار کون کون ہیں؟ دُوسری بات یہ ہے کہ میرے پاس پہلی بیوی کے کچھ زیورات اور کپڑے بھی پڑے ہیں، جن کو ملاکر رقم کی کل تعداد تقریباً ۱۵ ہزار روپے بنتی ہے، ان سب کا حق دار کون ہوگا؟

ج… آپ کی مرحومہ بیوی کا کل ترکہ (جس میں اس کا مہر اور زیورات، برتن اور کپڑے بھی شامل ہیں) کے بارہ حصے ہوں گے، ان میں سے تین حصے آپ کے (یعنی شوہر کے) ہیں، دو حصے مرحومہ کے باپ کے اور باقی سات حصے مرحومہ کے لڑکے کے ہیں۔

س… پہلی بیوی کے مرجانے کے بعد میں نے اپنی چھوٹی سالی سے شادی کرلی، اس دُوسری بیوی کے نکاح نامہ میں، میں نے مہر کی رقم ایک لاکھ روپے لکھی، شادی کو تقریباً ایک سال ہوگیا، اب میرا سسر کہتا ہے کہ یہ حق مہر کا روپیہ بھی مجھے دے دیا جائے۔ صاحبِ قدر! اگر مجھے یہ روپیہ دینا ہو تو یہ اتنی بڑی رقم کہاں سے لاوٴں؟ یہ کام میرے لئے بہت مشکل ہے۔

ج… دُوسری بیوی کا مہر جو آپ نے ایک لاکھ رکھا ہے، وہ بیوی کا حق ہے، اس کے باپ کا نہیں، وہ آپ کے ذمہ بیوی کا قرض ہے، وہ وصول کرنا چاہے تو آپ کو ادا کرنا ہوگا، اور اگر معاف کردے، خواہ اس کا پورا یا اس کا کچھ حصہ، تو اس کو اختیار ہے۔

مرحومہ کا جہیز ورثاء میں کیسے تقسیم ہوگا؟

س… مسماة پروین کی شادی تقریباً سوا سال پیشتر ہوئی، اس دوران ان کے ایک بیٹی گل رُخ پیدا ہوئی، جس کی عمر اس وقت تقریباً ۶ ماہ ہے، مسماة پروین اپنے خاوند کے گھر آباد رہی، سوا ماہ پیشتر پروین قضائے الٰہی سے وفات پاگئی، مرحومہ پروین کے جہیز کا جو سامان وغیرہ ہے، شرعاً قرآن پاک اور حدیث کی رُو سے کس کی ملکیت ہے؟

ج… مرحومہ کا کل ترکہ (جس میں شوہر کا مہر بھی شامل ہے، اگر وہ وصول نہ کرچکی ہو) ادائے قرضہ جات اور نفاذِ وصیت از تہائی مال (اگر کوئی وصیت کی ہو) کے بعد تیرہ حصوں میں تقسیم ہوگا، تین شوہر کے، چھ لڑکی کے، دو، دو ماں باپ کے۔ نقشہ حسبِ ذیل ہے:

شوہر بیٹی ماں باپ

۳ ۶ ۲ ۲

مرحومہ کا جہیز، حق مہر وارثوں میں کیسے تقسیم ہوگا؟

س… میری بیوی تین ماہ قبل یعنی بچی کی ولادت کے موقع پر انتقال کرگئی، لیکن بچی خدا کے فضل سے خیرت سے میرے پاس ہے، اب مسئلہ یہ معلوم کرنا ہے کہ:

الف:… مرحومہ جو سامان جہیز میں اپنے میکے سے لائی تھی، اس کے انتقال کے بعد کس کا ہوگا؟

ب:… میرے سسرال والے مرحومہ کی رقم میں مہر کا مطالبہ کر رہے ہیں، حالانکہ مرحومہ نے زبانی طور پر اپنی زندگی میں بغیر کسی دباوٴ کے وہ رقم مہر معاف کردی تھی۔

ج… مرحومہ کا سامان جہیز، حق مہر اور دُوسرا سامان وغیرہ وارثوں میں مندرجہ ذیل طریقے سے تقسیم کیا جائے گا۔

حق مہر معاف کرنے کے سلسلے میں اگر مرحومہ کے والدین منکر ہیں اور حق مہر کا مطالبہ کرتے ہیں اور شوہر کے پاس کوئی گواہ نہیں ہے تو معافی کا کچھ اعتبار نہیں ہوگا، اس لئے حق مہر بھی ورثاء میں تقسیم ہوگا، مرحومہ کی جائیداد منقولہ و غیرمنقولہ، زیورات و حق مہر وغیرہ کو تیرہ حصوں میں تقسیم کرکے، شوہر کو تین حصے، بیٹی کو چھ حصے، والدہ کو دوحصے، اور والد کو دو حصے ملیں گے۔

حق مہر زندگی میں ادا نہ کیا ہو تو وراثت میں تقسیم ہوگا

س… ایک عورت وفات پاگئی، اس کا مہر شوہر نے ادا نہیں کیا، براہِ کرم اس کا حل فرمائیں اور ہماری مشکلات کو آسان فرمائیں۔

۱:… مہر ایک ہزار ایک روپے کا ہے۔

۲:… مرحومہ کے والدین حیات ہیں۔

۳:… مرحومہ کا شوہر زندہ ہے۔

۴:… مرحومہ کے تین لڑکے اور تین لڑکیاں یعنی چھ بچے ہیں۔

ج… مرحومہ کی دُوسری چیزوں کے ساتھ اس کا مہر بھی ترکہ میں تقسیم ہوگا، مرحومہ کے ترکہ کے ۲۱۶ حصے ہوں گے، ان میں سے ۵۴ شوہر کے، ۳۶ والد کے، ۳۶ والدہ کے، بیس بیس لڑکوں کے اور دس دس لڑکیوں کے۔

مرحومہ کا زیور بھتیجے کو ملے گا

س… میرے دادا کی بہن ہمارے پاس رہتی تھیں، اب ان کا انتقال ہوچکا ہے، اور وہ بیوہ تھیں، ان کی کوئی اولاد بھی نہیں تھی، ان کا کچھ زیور جو کہ چاندی کا ہے، ہمارے پاس ہے تو آپ سے یہ پوچھنا ہے کہ اس کا کیا کیا جائے؟ کیونکہ مرحومہ نے اپنی زندگی میں اسے مسجد میں دینے سے بھی انکار کیا تھا اور کسی دُوسرے کو بھی اس کا وارث قرار نہیں دیا تھا، حالانکہ ان کی جو زمین تھی وہ انہوں نے اپنی زندگی ہی میں اپنے بھتیجے کے نام کردی تھی۔ اب مسئلہ زیور کا ہے، جو انہوں نے کسی کو نہیں دیا اور زندگی میں جب بھی ان سے کسی مسجد وغیرہ میں دینے کا کہا تو اس کے لئے بھی انکار کیا، اب وہ زیور ان کے مرنے کے بعد ہمارے پاس ہے۔ اب آپ بتائیں اس کا ہم کیا کریں؟

ج… اس زیور کا وارث مرحومہ کا بھتیجا ہے، اس کو دے دیا جائے۔

ماں کے دئیے ہوئے زیور میں حقِ ملکیت

س… میری ماں نے دو شادیاں کیں، پہلے شوہر سے صرف میں، اور دُوسرے شوہر سے ان کے ایک بیٹا ہے، ہم نے اکٹھے پروَرِش پائی، ان کے پاس کچھ زیور ہے جو انہوں نے دُوسرے شوہر کی کمائی سے بنوایا، آج کل وہ شدید علیل ہیں، انہوں نے اس میں سے ایک زنجیر (غالباً ایک تولے کی) اپنی خوشی سے مجھے دی ہے۔ بتائیے کہ ماں کے زیر استعمال چیزوں میں سے میرا حق بنتا ہے کہ نہیں؟ ب: اور اگر بنتا ہے تو کتنا؟ ج:اور کیا انہیں اور بھائی کو یہ حق دینا چاہئے؟ نیز یہ کہ وہ اب یہ چیز دے کر دوبارہ مانگ رہی ہیں، ایسی صورت میں کیا وہ اپنے حق سے بری الذمہ ہوگئیں اور اب ان کے اس فعل سے حق دار کا حق غصب کرنے کا عذاب کس پر ہوگا؟

ج… یہ زیور جو آپ کی والدہ کے زیر استعمال ہے، سوال یہ ہے کہ اس کا مالک کون ہے؟ اس کی مالک آپ کی والدہ ہیں؟ یا آپ کے سوتیلے والد؟ اگر آپ کی والدہ اس کی مالک ہیں تو وہ آپ کو دینے کی مجاز ہیں، اور ان کو چاہئے کہ اتنا ہی زیور اپنے دُوسرے بیٹے کو بھی دیں، اور اگر یہ زیور ان کی ملکیت نہیں، بلکہ شوہر کی ملکیت ہے تو وہ کسی کو دینے کی مجاز نہیں۔

پہلی صورت میں آپ کو دینے کے بعد واپس لینے کا اس کو حق نہیں، اور دُوسری صورت میں یہ زیور آپ کو دینا صحیح نہیں تھا، اس لئے آپ اسے واپس کردیں۔

حق مہر میں دئیے ہوئے مکان میں شوہر کا حقِ وراثت

س… ہمارے والد صاحب نے اپنی زندگی میں ہماری والدہ کو مہر کے عوض ایک مکان دے دیا تھا، والدہ صاحبہ ۱۹۷۲ء میں انتقال کرگئیں۔ شہر کے سٹی سروے میں والد صاحب اور ہم چار بھائیوں کو وارث دِکھایا گیا، والد صاحب نے اپنی زندگی میں اپنے بڑے بیٹے کو اپنا حصہ دے دیا، معلوم یہ کرنا ہے کہ آیا مکان میں والد صاحب کا حصہ بنتا ہے؟ جبکہ انہوں نے وہ مکان مہر میں والدہ کو دیا تھا؟

ج… جو مکان آپ کے والد مرحوم نے آپ کی والدہ مرحومہ کو مہر میں دیا تھا، وہ مرحومہ کی ملکیت تھا، اور مرحومہ کے انتقال کے بعد آپ کے والد، مرحومہ کے چوتھائی ترکہ کے وارث تھے، اس ترکہ میں یہ مکان بھی شامل تھا۔ لہٰذا اس مکان کا چوتھائی حصہ بھی آپ کے والد مرحوم کو منتقل ہوگیا، گویا مکان کے ۱۶ حصوں میں سے چار حصوں کے وارث آپ کے والد مرحوم ہیں، اور تین، تین حصوں کے وارث چار لڑکے ہوئے، جب والد مرحوم نے اپنا حصہ بڑے بیٹے کو دے دیا تو ۷ حصے بڑے بیٹے کے ہوگئے اور باقی ۹ حصے تینوں بھائیوں کے ہوئے۔

مرحومہ کی چوڑیوں کا کون وارث ہوگا؟

س… ایک عورت کا انتقال ہوگیا، اس کے ہاتھوں کی چوڑیاں جس پر دو حصے اس کے بیٹے کا حق ہے، اور ایک حصہ بیٹی کا ہے، لیکن بیٹی نے یہ کہہ کر کہ چوڑیاں میں نے بنوائی ہیں، اپنے پاس رکھ لی ہیں۔ پوچھنا یہ ہے کہ کوئی بھی زیور وغیرہ مرنے کے بعد اس شخص کی ملکیت کی بنا پر تقسیم ہوتا ہے یا اگر کسی نے بنواکر دیا ہے تو اس کو ہی واپس کردیا جاتا ہے، جیسا کہ بیٹی نے ماں کی تمام چوڑیاں اپنے پاس رکھ لی ہیں؟

ج… اگر بیٹی نے یہ چوڑیاں ماں کو صرف پہننے کے لئے دی تھیں، ماں ان چوڑیوں کی مالک نہیں تھی اور بیٹی کے پاس اس کے گواہ موجود ہیں، تب تو یہ چوڑیاں بیٹی ہی کی ہیں، ورنہ مرحومہ کا ترکہ ہے، سب وارثوں پر تقسیم ہوگا۔

مرحومہ کے چھوڑے ہوئے زیورات سے بچوں کی شادیاں کرنا کیسا ہے؟

س… زید اور اس کی بیوی دونوں حیات تھے، اس وقت انہوں نے اپنی حیثیت کے مطابق دو لڑکیوں کی شادی، زیور، کپڑے اور سامان کے ساتھ کردی۔ زید کی بیوی کا انتقال ہوگیا، اس نے اپنا زیور طلائی چھوڑا، زید نے اس کو اپنے بھائی کے پاس بازار میں امانتاً رکھ دیا اور کہا یہ یہ زیور بقایا غیرشادی شدہ اولاد کو دیا جائے گا۔ زید نے یہ وعدہ کرکے کہ اس زیور کی قیمت جو بازار میں لگی ہے، اگر ورثاء کو شرع کے موافق دینی پڑی تو میں اپنے پاس سے دُوں گا۔ زید کی زندگی میں چار اولادوں میں سے دو بچیاں شادی کے قابل ہوگئیں، تو زید نے اس زیور میں سے کپڑا، سامان وغیرہ لے کر اپنی حیثیت کے مطابق دو بچیوں کی شادی کرادی۔ اب زید کا انتقال ہوگیا، اس کے انتقال کے بعد یہ دو بچے جو غیرشادی شدہ تھے، ظاہر میں باپ نے چار بچیوں کی شادی کرادی اور دو بچے شادی سے محروم ہوگئے، اب بقایا زیورات جو کہ زید کی وصیت کے مطابق چھوٹے بھائی کے پاس رکھوائے تھے اور جو باقی ہیں، وہ ان دو بچوں کے ہیں جو غیرشادی شدہ ہیں۔ باقی اس سے محروم ہیں، کیونکہ زید نے اس زیور کے بارے میں اقرار کیا تھا کہ اس کی نقد قیمت میں خود ادا کروں گا، مگر وہ ادا نہ کرسکے۔ بصورتِ دیگر اگر بقایا زیور سے یہ دو بچے جو اَبھی غیرشادی شدہ ہیں، یہ شرعاً محروم ہوجاتے ہیں، جبکہ دو بھائی جو کہ بالغ ہیں وہ اقرار کرتے ہیں کہ یہ زیور والد صاحب کی وصیت کے مطابق دونوں بچوں کو دے دیا جائے جو کہ غیرشادی شدہ ہیں، اور بقایا زیور کی قیمت ہم اپنے پاس سے شرع کے موافق ورثاء پر ادا کردیں گے، جبکہ تقریباً دس سال پہلے کا زیور کا وزن اور قیمت کا پرچہ موجود ہے، بقایا زیور کی قیمت اب لگواکر ادا کی جائے یا پہلی قیمت تصوّر کی جائے گی، جو امانت رکھتے وقت اور وصیت کے وقت تھی؟ جواب دے کر مشکور فرمائیں۔

ج… زید کی بیوی کے انتقال کے بعد بیوی کی جائیداد منقولہ و غیرمنقولہ، زیورات وغیرہ سب ترکہ میں شامل ہیں، اس لئے ان زیورات میں سے جو کچھ بچا ہوا ہے اور جو زید نے اپنی زندگی میں لڑکی اور لڑکے کے نکاح کے موقع پر دیا ہے اس کے حق دار ورثاء ہیں، معلوم ہوا کہ زید کی بیوی کے ورثاء میں چار لڑکیاں اور دو لڑکے ہیں، اور شوہر زید موجود ہے، تو بیوی کا ترکہ اس طرح تقسیم ہوگا:

شوہر لڑکا لڑکا لڑکی لڑکی لڑکی لڑکی

۸ ۶ ۶ ۳ ۳ ۳ ۳

یعنی متوفیہ کے ترکہ کے کل ۳۲ حصے بناکر، ۸ حصے زید کو اور بقیہ ۲۴ حصے اس کی اولاد کو اکہرا دُہرا کے حساب سے ملیں گے۔ اس لئے زید نے اپنی زندگی میں بیوی کے زیورات میں سے جو لڑکی اور لڑکے کی شادی پر صَرف کیا ہے اگر وہ حصہ چوتھائی سے زیادہ ہے تو وہ زید کے ذمہ پر ورثاء کا قرض ہے، اس لئے زید کے انتقال کے بعد سب سے پہلے ورثاء کا قرضہ ادا کیا جائے اس کے بعد زید کا ترکہ ورثاء میں تقسیم کیا جائے۔