نوافل کی تعریف اوران کا اہتمام

نماز کا بیان – سبق نمبر 37:

‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ: ‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ‏‏‏‏

رَحِمَ اللَّهُ رَجُلًا قَامَ مِنَ اللَّيْلِ فَصَلَّى وَأَيْقَظَ امْرَأَتَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنْ أَبَتْ نَضَحَ فِي وَجْهِهَا الْمَاءَ، ‏‏‏‏‏‏رَحِمَ اللَّهُ امْرَأَةً قَامَتْ مِنَ اللَّيْلِ فَصَلَّتْ وَأَيْقَظَتْ زَوْجَهَا، ‏‏‏‏‏‏فَإِنْ أَبَى نَضَحَتْ فِي وَجْهِهِ الْمَاءَ.

سیدنا حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

اللہ تعالیٰ اس شخص پر رحم فرمائے جو رات کو اٹھے اور نماز پڑھے اور اپنی بیوی کو بھی بیدار کرے، اگر وہ نہ اٹھے تو اس کے چہرے پر پانی کے چھینٹے مارے، اللہ تعالیٰ اس عورت پر رحم فرمائے جو رات کو اٹھ کر نماز پڑھے اور اپنے شوہر کو بھی جگائے، اگر وہ نہ اٹھے تو اس کے چہرے پر پانی کے چھینٹے مارے ۔

فرائض کے بارے میں تو ہر مسلمان آگاہ ہے کہ دن رات میں پانچ نمازوں کی ادائیگی کا حکم دیا گیا ہے اور یہ پانچ نمازیں اسلام کااولین رکن ہیں ، یہ بات بھی ہر مسلمان کے علم میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے معراج کی شب نبی کریم ﷺکو اس امت کے لیے پچاس نمازیں عطافرمائی تھیں ، پھر ان میں تخفیف ہوتی رہی، یہاں تک کہ پانچ باقی رہ گئیں ، ساتھ ہی یہ ارشاد ہوا ’’آپﷺ کے لیے اور آپﷺ کی امت کے لیے یہ عمل کے اعتبار سے پانچ نمازیں ہیں ، البتہ ان کی ادائیگی پر ثواب پچاس نمازوں کا ہی ملے گا‘‘ یہ اللہ کی خصوصی رحمت ہے، اس امت کے لیے۔

ساتھ ہی رسول اللہ ﷺنے ان نمازوں کو انسانوں کے گناہوں کا کفارہ بھی قرار دیا ہے ، ایک حدیث میں ارشاد فرمایا:

پانچ نمازیں اسی طرح ایک جمعہ سے دوسرے جمعہ کی نماز اس درمیان میں ہونے والے گناہوں کے لیے کفارہ بن جاتی ہیں ، جب تک کہ مسلمان گناہ کبیرہ کا ارتکاب نہ کرے، یعنی نمازوں کی ادائیگی سے ہی اللہ تعالیٰ صغیرہ گناہوں کو معاف فرماتا رہتا ہے، یہ بھی اللہ کی عنایت ہے کہ فرض نماز کی ادائیگی پر ایک فریضے کی ادائیگی بھی ہوجاتی ہے ، ثواب بھی مل جاتاہے اور ساتھ ہی یہ عبادت گناہوں کا کفارہ بھی بن جاتی ہے۔

فرائض کے ساتھ ساتھ ان سے پہلے یا بعد کچھ سنتیں اور نوافل مقرر کیے گیے ہیں ، اسی طرح بعض نوافل کے لیے خاص اوقات احادیث میں ذکر کیے گئے ہیں ، ان سنتوں اور نوافل کی بھی بڑی اہمیت ہے۔

فرض نمازوں کے علاوہ جن نمازوں کا نبی کریم ﷺنے خود اہتمام فرمایا، ترغیب دی، تاکید فرمائی، وہ سنتیں کہلاتی ہیں ، پھر علمائے کرام نے ان میں دو اقسام ذکر کی ہیں ، ایک کو سنتِ مؤکدہ کہتے ہیں اور دوسری کو سنتِ غیرمؤکدہ کہتے ہیں ۔

سنتِ مؤکدہ وہ نمازیں کہلاتی ہیں کہ نبی کریم ﷺنے ان کے پڑھنے کا بڑا اہتمام فرمایا، شدید کسی عذر کے بغیر کبھی بھی انہیں ترک نہیں فرمایا، یہ سنت مؤکدہ ہیں ، ان کی حدیث میں بڑی فضیلت بیان کی گئی ہے، ان سنتوں کا بغیر کسی عذر کے چھوڑنا گناہ ہے، ان کا اہتمام کرنا ہر مسلمان کے ذمہ ضروری ہے، ہر مسلمان کو یہ باتیں سمجھنی چاہئیں ، یاد رکھنی چاہئیں اور ان پر عمل کرنا چاہیے۔

نفل کے لغوی معنی زائد چیز کے ہیں ۔ نفل نماز ایک ثواب میں اضافہ کے لیے ایک زائد نماز ہے۔ سنت غیرموکدہ کی طرح اس کو پڑھنا ضروری قرار نہیں دیا گیا لیکن ان نمازوں کو پڑھ کر انسان اپنے ثواب میں اضافہ کر سکتا ہے۔

نفل نمازیں دو طرح کی ہیں ۔

اول وہ نفل نماز جن کا کوئی خاص وقت مقرر نہیں ہے۔ جب چاہو اور جتنی چاہو پڑھ لو۔ شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا صاحب کاندھلوی نور اللہ مرقدہ نے بحوالہ علامہ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نقل کیا ہے کہ ستر نوافل ایک فریضہ کی برابری کرتے ہیں ۔ اس سے معلوم ہوا کہ فرض نماز کو کتنے اہتمام سے ادا کرنا چاہیے، کیوں کہ فرائض میں کوتاہی کی تلافی کے لیے نوافل کا بہت بڑا ذخیرہ درکار ہوگا۔ لہٰذا ہر مسلمان کو فرض کی ادائیگی کے ساتھ کچھ اوقات نوافل کے لیے بھی نکالنے چاہییں ۔

اکابر کی زندگی کو ملاحظہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ علمی کاموں ودیگر دینی مشاغل کے باوجود نوافل بہت کثرت سے پڑھتے تھے۔

حضرت امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ دو سو رکعت نوافل روزانہ پڑھتے تھے،

سعید بن المسیب رحمۃ اللہ علیہ کے متعلق لکھا ہے کہ پچاس برس تک عشاء اور صبح ایک ہی وضو سے پڑھی۔

امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے متعلق تو بہت کثرت سے منقول ہے کہ چالیس برس عشاء اور صبح ایک ہی وضو سے پڑھی۔

حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ تین سو رکعتیں روزانہ پڑھتے تھے۔

امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے ابو طالب مکی رحمۃ اللہ علیہ سے نقل کیا ہے کہ چالیس تابعین سے تواتر کے طریق سے ثابت ہے کہ وہ عشاء کے وضو سے صبح کی نماز پڑھتے تھے۔ ،

اگر کسی کے پاس وقت فارغ ہو تو نماز اس کے لیے بہترین مشغلہ ہے۔ فرائض اور سنن موکدہ کے علاوہ جس قدر ہوسکے نوافل کے شغل رکھے۔ مگر شوہر یا اولاد یا ماں باپ کے حقوق میں رخنہ نہ ڈالے اور مرد ہو تو وہ بھی بیوی بچوں اور والدین کے حقوق نوافل کی مشغولیت میں تلف نہ کرے کیوں کہ شریعت پر چلنا مقصود ہے نہ کہ اپنی طبیعت اور خواہش پر۔

ہمار ے پیغمبر اعظم محمد رسول اللہ ﷺ فرض نمازوں کے ساتھ ساتھ نفلی نمازوں کابھی بکثرت اہتمام کیا کرتے تھے نفل نماز بہت اہمیت کی حامل ہے حدیث نبوی ﷺ کی رو سے روز قیامت اگر فرائض میں کمی ہوئی تو وہ نوافل سے پوری کردی جائے گی۔

حدیث قدسی میں وارد ہوا کہ اللہ فرماتا ہے:

جب تک میرا بندہ نوافل کے قریب رہتا ہے یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں ۔ پس جب میں اس سے محبّت کرتا ہوں تو اس کا کان ہو جاتا ہوں جس سے وہ سُنتا ہے۔ اور اسکی آنکھ ہو جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے اور اسکا ہاتھ ہو جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے اور اسکا پاؤں جس کے ساتھ وہ چلتا ہے اور اگر وہ مجھ سے سوال کرتا ہے تو میں اسکو دیتا ہوں ۔ اور اگر مدد طلب کرے تو میں مدد کرتا ہوں ۔ [ اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے ]

سیدناابوموسی اشعری نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا؛ وہ گھر جس میں اللہ کا ذکر ہوتا ہے اور جس میں اللہ کا ذکر نہیں ہوتا دونوں کی مثال زندہ اور مردہ کی طرح ہے۔ یعنی جس گھر میں اللہ رب العزت کا ذکر اہتمام کے ساتھ ہوتا ہے اصل میں اسی گھر کے مکیں حیات سعیدہ گزار رہے ہیں جبکہ اس کے برعکس وہ مکاں جس کے باسی ذکراللہ کا اہتمام نہیں کرتے وہ زندگی کی حقیقی لذتوں سے ناآشنا ہیں ، ذکر اللہ سے مراد نمازبھی ہے، کیونکہ قرآن حکیم نے نماز کو بھی ذکر قرار دیا ہے ۔

ایک تابعی جن کا اسم گرامی حُرَیث بن قبیصہ ہے ، وہ فرماتے ہیں ، میں مدینہ منورہ آیا، اور میں نے اس موقع پر اللہ سے دعا کی کہ:

اے اللہ! مجھے کسی نیک صالح آدمی کا ساتھ نصیب فرما، چناں چہ ہوا یہ کہ اللہ نے مجھے سیدناحضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ملاقات کی دولت نصیب فرمائی، میں ان کے پاس بیٹھ گیا، اور میں نے ان سے کہا کہ میں اللہ سے یہ دعا کرکے آیا تھا کہ مجھے نیک صالح آدمی کی رفاقت ملے ، چناں چہ میں آپ کی خدمت میں پہنچا ہوں ، سومیری گزارش یہ ہے کہ:

مجھے اللہ کے رسول ﷺکے فرامین میں سے کچھ سنائیں ، جو آپ نے اللہ کے رسول ﷺسے سنے ہوں ، اللہ مجھے ان سے نفع دے گا۔

حضرت حریث رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ سیدنا حضرت ابوہریرہؓنے مجھے جو حدیث اس موقع پر سنائی وہ یہ تھی کہ انہوں نے فرمایا، میں نے رسول اللہ ﷺسے یہ سنا ہے :

قیامت میں سب سے پہلے اعمال میں سے نماز کا حساب ہوگا، اگر نماز صحیح اور کامل نکلی تو یہ آدمی کامیابی و کامرانی سے ہمکنار ہوگیا، اور اگر نماز میں کمی کوتاہی ہوئی، تو یہ آدمی بڑا خسارہ اٹھائے گا، البتہ کسی آدمی کی فرض نماز میں کچھ کمی نکلی تو اللہ تعالیٰ فرشتوں سے فرمائے گا، میرے اس بندے کے اعمال میں سے فرائض کے علاوہ نمازیں دیکھو یعنی سنن ونوافل دیکھو، اگر ا س کے اعمال میں سنتیں ہیں نوافل ہیں تو ان سنتوں اور نوافل سے فرائض میں جو کمی ہے ، اسے پورا کردیا جائے گا اور یہ آدمی نجات پاجائے گا۔ پھر نماز کے بعد تمام اعمال میں اسی طرح کا حساب ہوگا کہ فرض میں جو کمی ہوگی، اسے فرض کے علاوہ سے پورا کیا جائے گا، مثلاً زکوٰۃ فرض تھی، اس میں کمی ہوئی تو ایسے شخص نے جو صدقہ خیرات کیا ہوگا، اس سے زکوٰۃ کی کمی کو پورا کیا جائے گا، اسی طرح تمام فرائض کی کمی کو اس عمل میں فرض کے علاوہ جو آدمی نے انجام دیا ہوگا، اسے فرض کی کمی کو مکمل کردیا جائے گا۔

اس حدیث شریف سے معلوم ہوا کہ آدمی کو نفلوں کا ذخیرہ بھی اپنے پاس کافی رکھنا چاہیے کہ اگر فرضوں میں کچھ کوتاہی نکلے تو میزان پوری ہوجائے، فرض روزوں میں جو کمی ہوگی وہ نفل روزوں اور فرض زکوٰۃ میں جو کمی ہوگی وہ دیگر صدقات سے پوری ہوجائے گی۔ ان سب چیزوں میں نوافل کو ملا کر بھی اگر نیکیوں کا پلہ بھاری ہوگیا تو وہ شخص خوشی خوشی جنت میں داخل ہوجائے گا، ورنہ جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔ (فضائل ذکر، ص: 75)

یہ روایت ہم سب کے لیے ایک بڑاسبق اور تعلیم ہے کہ ہم سنتوں اور نوافل کا بھی اہتمام کرنے والے بن جائیں ، خاص طور پر سنت مؤکدہ تو کسی صورت نہ چھوڑی جائے، تاکہ قیامت میں ہمارے نامۂ اعمال میں فرائض کی کمی کو پُر کرنے کے لیے ہمارے اعمال میں سنتوں اور نوافل کی صورت میں ایسا ذخیرہ موجود ہو جو ہماری کامیابی اور کامرانی کا ذریعہ بن سکے۔ اللہ ہم سب کو نوافل کی پابندی کی توفیق نصیب فرمائے اور جو فضیلتیں رسول اللہ ﷺنے سنتوں کے اہتمام پر بیان فرمائی ہیں ، وہ ہمیں حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)