نمازِ اشراق کی فضیلت و اہمیت

نماز کا بیان – سبق نمبر 39:

عَنْ اَنَسٍ رضی اللہ عنہ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم

مَنْ صَلَّی الْفَجْرَفِیْ جَمَاعَۃٍ ثُمَّ قَعَدَ یَذْکُرُاللّٰہَ حَتّٰی تَطْلُعَ الشَّمْسُ ثُمَّ صَلّٰی رَکْعَتَیْنِ کَانَتْ لَہٗ کَاَجْرِحَجَّۃٍ وَّ عُمْرَۃٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم تَامَّۃٍ تَامَّۃٍ تَامَّۃٍ۔ (سنن الترمذی ج 1ص130 1)

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’ جس نے فجر کی نماز باجماعت پڑھی، پھر وہیں اللہ کا ذکر کرنے بیٹھ گیا یہاں تک کہ سورج نکل آیا۔ پھر اس نے دو رکعتیں پڑھیں تو اس کے لئے ایک مکمل حج اور عمرہ کا ثو اب ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ’’ مکمل‘‘ کا لفظ تین بار ارشاد فرمایا۔

یعنی جو شخص فجر کی نماز جماعت سے ادا کرے پھر اپنی جگہ بیٹھ کر اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتا رہے یہاں تک کہ سورج طلوع ہوجائے، پھر اس کے بعد دو رکعت پڑھے تو اس کو کامل حج و عمرہ کا ثواب ملے گا۔

بعض نوافل کا تعلق مختلف اوقات سے ہے، جیسے اشراق، چاشت، اوّابین، تہجد، تحیۃ الوضو، تحیۃ المسجد۔ او ربعض کا تعلق خاص حالات اور احوال کے ساتھ ہے۔ جیسے صلوۃ الحاجات، نماز توبہ، نماز استخارہ وغیرہ۔ حدیث شریف میں اس طرح کی مختلف حاجات واحوال سے متعلق بیس قسم کے نوافل کا ذکر ملتا ہے۔ ان نوافل کو بھی اپنے موقع پر پڑھنے کا اہتمام کرنا چاہیے۔ حدیث شریف میں آتا ہے بندہ میرا قرب حاصل کرنے کے لیے نوافل ادا کرتا رہتا ہے، یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں ۔ پھرا گر وہ مجھ سے کچھ مانگتا ہے تو میں اسے عطا کرتا ہوں ۔ اور دعا کرتا ہے تو اسے قبول کرتا ہوں ۔ آج کے سبق میں نماز شراق کی فضیلت کے بارے میں پڑھتے ہیں ۔

حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس شخص نے فجر کی نماز پڑھی پھر اپنی جگہ بیٹھ کر اللہ تعالی کا ذکر کرنے لگا یہاں تک کہ سورج نکل آیا۔ پھر اس نے دو رکعتیں پڑھیں تو اللہ تعالی آگ پر حرام کر دیں گے کہ اسے کھائے۔

حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے اسی مضمون کی روایت مروی ہے :

ثُمَّ صَلّٰی رَکْعَتَیْنِ اَوْاَرْبَعَ رَکْعَاتٍ۔

پھر وہ دو رکعتیں پڑھے یا چار رکعات۔ (الترغیب والترہیب للمنذری ج 1ص)

” جس نے فجر کی نماز جماعت سے ادا کی پھر بیٹھا اللہ کاذکر کرتا رہا تاآنکہ سورج طلوع ہوگیا، پھر اس نے دو رکعات ادا کیں تو اس کے لیے ایک حج اور عمرہ کے بقدر اجر ہے ”۔

علمائے کرام کے نزدیک طلوع آفتاب کے 12 منٹ بعد اشراق کا وقت شروع ہوجاتا ہے لیکن سورج طلوع ہونے کے پندرہ منٹ بعد پڑھی جائے تو زیادہ بہتر ہے، اور بعض علماء نے احتیاطاً سورج طلوع ہونے کے بیس منٹ بعد پڑھنے کو زیادہ بہتر کہاہے۔ اور اس کا مدار وہ روایت ہے جس میں سورج طلوع ہوجانے کے بعد ایک یا دو نیزے بلند ہونے کا ذکر ہے، اور سورج طلوع ہوکر تقریباً دس منٹ میں ایک نیزہ بلند ہوجاتاہے، اور بیس منٹ میں دو نیزہ کی مقدار، لہٰذا جن اہلِ علم نے دس منٹ مقدار لکھی ہے وہ کم سے کم وقت ہے، اور جنہوں نے بیس منٹ لکھا انہوں نے دو نیزے کی مقدار لے کر احتیاط والا قول لیا ہے۔

حدیث مبارکہ میں حج و عمرہ کے ثواب کی فضیلت بظاہر دو شرطوں پر موقوف معلوم ہوتی ہے :

نماز فجر جماعت سے پڑھے ۔ نماز فجر تنہا ادا کرنے والا یہ فضیلت نہیں پائے گا۔۔ ۔ ۔ ۔ سورج طلوع ہونے کے بعد اشراق کی نماز پڑھنے تک نماز کی جگہ پر ہی بیٹھا اللہ کا ذکر، تلاوت، درودشریف اوراستغفار وغیرہ کرتا رہے اگرفرض نماز پڑھ کراپنی جگہ سے اٹھ گیا یا سوگیا پھر اشراق کی نماز ادا کی تو مذکورہ فضیلت نہیں ملے گی۔

محدثین کرام نے اس حدیث کی تشریح میں یہ بات فرمائی ہے کہ اس فضیلت کو حاصل کرنے کے لیے کسی دینی ضرورت درپیش ہوتے ہوئے اپنی جگہ بیٹھے رہنا ضروری نہیں ۔ بلکہ اس مخصوص وقت کو اللہ کے ذکر کے ساتھ گزارنا کافی ہے لہٰذا طواف کے لیے، علمی مذاکرہ کے لیے یا وعظ و نصیحت کی مجلس میں شامل ہونے کے لیے نماز کی جگہ سے اٹھ کر مسجد میں ہی دوسری جگہ یہ کام کیے جائیں یا مسجد سے اٹھ کر اپنے گھر یا چہل قدمی کے لیے کسی جگہ جایاجائے اور اس حالت میں مسلسل ذکر میں مشغول رہے پھر اشراق کی نماز ادا کرے تب بھی اس فضیلت کو حاصل کرنے والا شمارہوگا۔

البتہ اگر اس مخصوص وقت میں اللہ کے ذکر کے بجائے کوئی اور کام کیا یا سوگیا پھر اشراق کی نماز ادا کی تو اب حج و عمرہ کی فضیلت پانے والا توشمار نہ ہوگا۔ البتہ اس صورت میں اشراق کی مستقل فضیلت کو پائے گا۔ اشراق کی نماز ادا کرنے کی حدیث مبارک میں مستقل فضیلت وارد ہوئی ہے ۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالی فرماتے ہیں :

” اے آدم کے بیٹے! تو میرے لیے دن کی ابتدا ء میں چار رکعات پڑھنے سے عاجز نہ ہو۔ میں دن بھر تیرے لیے کافی ہوجاؤں گا”(دن بھر کی حاجتوں اور ضروریات میں کافی ہوجاؤں گا)۔ (سنن الترمذي)

رسول اللہ ﷺفرماتے ہیں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

“اے فرزند آدم! تو دن کے ابتدائی حصے میں چار رکعتیں میرے لیے پڑھا کر میں دن کے آخری حصے تک تجھے کفایت کروں گا “۔

حضرت ابو زر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم خاتم النبیین حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ واصحابہ وبارک وسلم نے فرمایا جس کا مفہوم ہے کہ:

(تم میں سے ہر ایک کے ہر ہر جوڑ پر ایک صدقہ واجب ہے، چناں چہ “سبحان اللہ” کہنا (بھی) صدقہ ہے، “الحمد للہ” کہنا (بھی) صدقہ ہے، “لا الہ الا اللہ” کہنا (بھی) صدقہ ہے، “اللہ اکبر” کہنا (بھی) صدقہ ہے، نیکی کا حکم دینا (بھی) صدقہ ہے، برائی سے روکنا (بھی) صدقہ ہے اور اس صدقے سے (نماز) اشراق کی 2 رکعتیں کافی ہو جاتی ہیں) مسلم: (1181)

حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ:

جو شخص صبح کی نماز پڑھنے کے بعد اپنی نماز کی جگہ پر بیٹھا رہے یہاں تک کہ سورج طلوع ہونے اور روشن ہونے کے بعد دو رکعت پڑھے اور اس دوران صرف خیر ہی کہے تو اس کے گناہ معاف کردیے جائیں گے اگرچہ وہ گناہ سمندر کی جھاگ کے برابر ہوں ۔

اور اشراق کی نماز کی مذکورہ مخصوص فضیلت اور مکمل ثواب کا مستحق وہ شخص ہے جو فجر کی نماز جماعت کے ساتھ ادا کرے یا عذر کی وجہ سے گھر میں ادا کرکے وہیں ذکر و اَذکار میں مشغول رہے، اور اس درمیان کسی دنیاوی کام میں مصروف نہ ہو، یہاں تک کہ اشراق کا وقت ہوجائے تو اشراق کی نماز ادا کرلے۔

ان نوافل کو پڑھنے کا اہتمام کرنا چاہیے۔ کیوں کہ نوافل کے ذریعے قرب خدواندی، تکمیل فرائض، قبولیت دعا اور درجات کی بلندی جیسی نعمتیں حاصل ہوتی ہیں ۔ پنچ وقتہ نماز کے پابند حضرات بھی صرف فرائض، واجبات اور سنن مؤکدہ پر اکتفا کرتے ہیں ، اللہ کا مزید قرب اور درجات کی بلندی کے لیے نوافل کا بھی اہتمام کرنا چاہیے۔