والدین کی زندگی میں فوت شدہ اولاد کا حصہ

قانونِ وراثت میں ایک شبہ کا ازالہ

س… شریعتِ مطہرہ نے جو قوانین بنی نوعِ انسان کے لئے بنائے ہیں، وہ سب کے سب ہمارے لئے سراسر خیر ہیں، چاہے ہماری سمجھ میں آئیں، چاہے نہ آئیں۔ اسلام کے وراثت کے قوانین لاجواب ہیں، کسی بھی دِین یا معاشرت میں ایسے حق و انصاف پر مبنی وراثت کے قوانین نظر سے نہیں گزرے، لیکن اسلامی قانونِ وراثت میں ایک شق ایسی ہے کہ شک ہوتا ہے کہ ایسا کیوں ہے؟ وہ شق یہ ہے کہ باپ کی زندگی میں اگر بیٹا فوت ہوجائے تو پوتے، پوتی کو وراثت میں کوئی حق نہیں ہے۔ خیال فرمائیں کہ یہ پوتے، پوتی یتیم ہیں ان کو تو مرحوم باپ کے ترکہ کے حق میں اگر زیادہ نہیں تو کم از کم اتنا تو ملنا چاہئے جو مرحوم باپ کو اگر زندہ ہوتے تو ملتا۔

ایک اور سوال ہے کہ دُوسرے پوتے، پوتی جو بیٹے کے زندہ ہوتے ہوئے موجود ہیں، ان کو ترکہ ملتا ہے کہ نہیں؟

ج… یہاں دو اُصول ذہن میں رکھئے۔ ایک یہ کہ تقسیمِ وراثت قرابت کے اُصول پر مبنی ہے، کسی وارث کے مال دار یا نادار ہونے اور قابلِ رحم ہونے یا نہ ہونے پر اس کا مدار نہیں۔ دوم یہ کہ عقلاً و شرعاً وراثت میں الاقرب فالاقرب کا اُصول جاری ہوتا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص میّت کے ساتھ قریب تر رشتہ رکھتا ہو، اس کے موجود ہوتے ہوئے دُور کی قرابت والا وراثت کا حق دار نہیں ہوتا۔

ان دونوں اُصولوں کو سامنے رکھ کر غور کیجئے کہ ایک شخص کے اگر چار بیٹے ہیں، اور ہر بیٹے کے چار چار لڑکے ہوں، تو اس کی جائیداد لڑکوں پر تقسیم ہوتی ہے، پوتوں کو نہیں دی جاتی، اس مسئلے میں شاید کسی کو بھی اختلاف نہیں ہوگا، اس سے معلوم ہوا کہ بیٹوں کی موجودگی میں پوتے وارث نہیں ہوتے۔

اب فرض کیجئے ان چار لڑکوں میں سے ایک کا انتقال والد کی زندگی میں ہوجاتا ہے، پیچھے اس کی اولاد رہ جاتی ہے، اس کی اولاد، دادا کے لئے وہی حیثیت رکھتی ہے جو دُوسرے تین بیٹوں کی اولاد کی ہے، جب دُوسرے بیٹوں کی اولاد اپنے دادا کی وارث نہیں، کیونکہ ان سے قریب تر وارث (یعنی لڑکے) موجود ہیں، تو مرحوم بیٹے کی اولاد بھی وارث نہیں ہوگی۔

اگر یہ کہا جائے کہ اگر چوتھا لڑکا اپنے باپ کی وفات کے وقت زندہ رہتا، تو اس کو چوتھائی حصہ ملتا، اب وہی حصہ اس کے بیٹوں کو دِلایا جائے، تو یہ اس لئے غلط ہے کہ اس صورت میں اس لڑکے کو جو باپ کی زندگی میں فوت ہوا، باپ کے مرنے سے پہلے وارث بنادیا گیا، حالانکہ عقل و شرع کے کسی قانون میں مورث کے مرنے سے پہلے وراثت جاری نہیں ہوتی۔

الغرض! اگر ان پوتوں کو جن کا باپ فوت ہوچکا ہے، پوتا ہونے کی وجہ سے دادا کی وراثت دِلائی جاتی ہے تو یہ اس وجہ سے غلط ہے کہ پوتا اس وقت وارث ہوتا ہے جبکہ میّت کا بیٹا موجود نہ ہو، ورنہ تمام پوتوں کو وراثت ملنی چاہئے، اور اگر ان کو ان کے مرحوم باپ کا حصہ دِلایا جاتا ہے تو یہ اس وجہ سے غلط ہے کہ ان کے مرحوم باپ کو مرنے سے پہلے تو حصہ ملا ہی نہیں، جو اس کے بچوں کو دِلایا جائے۔

اگر یہ کہا جائے کہ بے چارے یتیم پوتے، پوتیاں رحم کے مستحق ہیں، ان کو دادا کی جائیداد سے ضرور حصہ ملنا چاہئے تو یہ جذباتی دلیل اوّل تو اس لئے غلط ہے کہ تقسیمِ وراثت میں یہ دیکھا ہی نہیں جاتا کہ کون قابلِ رحم ہے، کون نہیں؟ بلکہ قرابت کو دیکھا جاتا ہے۔ ورنہ کسی امیر کبیر آدمی کی موت پر اس کے کھاتے پیتے بیٹے وارث نہ ہوتے بلکہ اس کے مفلوک اور تنگ دست پڑوسی کے یتیم بچے کو وراثت ملا کرتی کہ وہی قابلِ رحم ہیں۔

علاوہ ازیں اگر کسی کے یتیم پوتے قابلِ رحم ہیں، تو شریعت نے اس کو اجازت دی ہے کہ وہ تہائی مال کی وصیت ان کے حق میں کرسکتا ہے، اس طرح وہ ان کی قابلِ رحم حالت کی تلافی کرسکتا ہے۔ مذکورہ بالا صورت میں ان کے باپ سے ان کو چوتھائی وراثت ملتی، مگر دادا وصیت کے ذریعہ ان کو تہائی وراثت کا مالک بناسکتا ہے۔ اور اگر دادا نے وصیت نہیں کی تو ان بچوں کے چچاوٴں کو چاہئے کہ حسنِ سلوک کے طور پر اپنے مرحوم بھائی کی اولاد کو بھی برابر کے شریک کرلیں۔ لیکن اگر سنگدل دادا کو وصیت کا خیال نہیں آتا، اور ہوس پرست چچاوٴں کو رحم نہیں آتا، تو بتائیے! اس میں شریعت کا کیا قصور ہے کہ محض جذباتی دلائل سے شریعت کے قانون کو بدل دیا جائے․․․؟ اگر شریعت کے ان اَحکام کے بعد بھی کچھ لوگوں کو یتیم پوتوں پر رحم آتا ہے اور وہ ان بچوں کو بے سہارا نہیں دیکھنا چاہتے تو انہیں چاہئے کہ اپنی جائیداد ان بچوں کے نام کردیں، کیونکہ شریعت کی طرف سے بے سہارا لوگوں کے ساتھ حسنِ سلوک کا بھی حکم ہے، اور اس سے یہ بھی اندازہ ہوجائے گا کہ ان بے سہارا بچوں پر لوگوں کو کتنا ترس آتا ہے․․․!

شریعت نے پوتے کو جائیداد سے کیوں محروم رکھا ہے؟ جبکہ وہ شفقت کا زیادہ مستحق ہے!

س… ۶/جنوری کے اخبار ”جنگ“ اسلامی صفحہ پر ”آپ کے مسائل اور اُن کا حل“ میں ایک مسئلہ تھا وراثت کے متعلق، اور آپ نے اس کا جواب لکھا تھا، جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی شخص کا انتقال اپنے والد سے پہلے ہوجاتا ہے تو اس کے والد کے انتقال کے بعد والد کی جائیداد میں اس کی اولاد کا کوئی حصہ نہیں۔ یہ تو بے شک شریعتِ اسلامی کا فیصلہ ہے، اور مذہبِ اسلام وہ واحد مذہب ہے جس میں انسانی زندگی کے تمام مسائل کا حل موجود ہے، اور جس حسن و خوبی سے اسلام نے تمام مسائل کا حل پیش کیا ہے، دُنیا کا کوئی دُوسرا نظام ایسی مثال پیش نہیں کرسکتا۔ تمام اَحکامِ اسلامی اپنے اندر کوئی نہ کوئی مصلحت پوشیدہ کئے ہوئے ہیں جو کہ بعض اوقات ایک عام انسان کی عقل سے بالاتر بھی ہوسکتے ہیں، اور صحیح علم نہ ہونے کی وجہ سے انسان کو خلافِ عقل معلوم ہوتے ہیں۔ مذکورہ مسئلہ بھی کچھ اسی طرح کا ہے کہ ہم جیسے انسانوں کو خلافِ عقل معلوم ہوتا ہے، اور یہ بات بظاہر انصاف کے خلاف معلوم ہوتی ہے کہ ان بے سہارا بچوں کو یونہی بے سہارا رہنے دیا جائے۔ انہیں اپنے والد کے حق سے بھی محروم کردیا جائے، جبکہ دُوسری طرف اسلام ہر طرح یتیموں کی مدد کی ترغیب دیتا ہے۔ براہِ مہربانی تفصیل سے اس مسئلے کی وضاحت کردیں تاکہ میرے جیسے اور بہت سے لوگوں کے ذہنوں میں جو یہ بات کھٹک رہی ہے، صاف ہوجائے۔

ج… جس شخص کے صلبی بیٹے موجود ہوں، اس کی وراثت اس کے بیٹوں ہی کو ملے گی، بیٹوں کی موجودگی میں پوتا شرعاً وارث نہیں، اگر دادا کو اپنے پوتوں سے شفقت ہے اور وہ یہ چاہتا ہے کہ اس کی جائیداد میں اس کے یتیم پوتے بھی شریک ہوں تو اس کے لئے شریعت نے دو طریقے تجویز کئے ہیں:

اوّل یہ کہ اپنے مرنے کا انتظار نہ کرے، بلکہ صحت کی حالت میں اپنی جائیداد کا اتنا حصہ ان کے نام منتقل کرادے جتنا وہ ان کو دینا چاہتا ہے، اور اپنی زندگی ہی میں ان کو قبضہ بھی دِلادے۔

دُوسرا طریقہ یہ ہے کہ وہ مرنے سے پہلے اپنے یتیم پوتوں کے حق میں تہائی جائیداد کے اندر اندر وصیت کرجائے کہ اتنا حصہ اس کے مرنے کے بعد ان کو دیا جائے۔

فرض کیجئے کہ کسی شخص کے پانچ لڑکوں میں سے ایک اس کی زندگی میں فوت ہوجاتا ہے، دادا اپنے مرحوم بیٹے کی اولاد کے لئے اپنی تہائی جائیداد تک کی وصیت کرسکتا ہے، حالانکہ اگر ان بچوں کا باپ زندہ ہوتا تو اس کو اپنے باپ کی جائیداد میں سے پانچواں حصہ ملتا، جو اس کی اولاد کو منتقل ہوتا، اب وصیت کے ذریعے پانچویں حصے کی بجائے دادا ان کو تہائی حصہ دِلاسکتا ہے۔ اور اگر دادا کو اپنے پوتوں پر اتنی بھی شفقت نہیں کہ وہ اپنی زندگی میں ان کو کچھ دے دیں یا مرنے کے بعد دینے کی وصیت ہی کرجائے، تو انصاف کیجئے! اس میں قصور کس کا ہے، دادا کا یا شریعت کے قانون کا ہے․․․؟

مرحوم بیٹے کی جائیداد کیسے تقسیم ہوگی؟ نیز پوتوں کی پروَرِش کا حق کس کا ہے؟

س… میرا جوان بیٹا، عمر تقریباً ۴۰ سال، قضائے الٰہی سے داغِ مفارقت دے گیا ہے۔ سرکار کی طرف سے ملازمت کا تقریباً تین لاکھ روپیہ ملا ہے، تقریباً اَسّی ہزار کے پرائز بونڈ اور تقریباً پندرہ ہزار کا زیور جو لڑکے کی ماں نے اس کی بیوی کو پہنایا تھا، باقی کچھ اور چھوٹی موٹی چیزیں ہیں۔ میّت کے وارثوں میں اس کے بوڑھے والدین، ایک بیوہ اور تین بچے یعنی ایک لڑکی اور دو لڑکے جو ابھی نابالغ ہیں اور زیر تعلیم ہیں۔ ان کے علاوہ میّت کی تین بہنیں اور چار بھائی بھی بوقتِ وفات موجود ہیں۔ بیوہ مصر ہے کہ اسے سروِس اور پنشن وغیرہ کا تمام روپیہ اور اس کا سب سامان مع اس کے جہیز کے اور دونوں طرف کے زیورات دے دئیے جائیں اور بچے بھی خود اپنے پاس رکھنا چاہتی ہے۔ کہتی ہے کہ وہ بیوہ ہوئی ہے، طلاق تو نہیں ہوئی۔ مولانا صاحب! مجھے اپنے پوتوں کا بہت درد ہے، مگر کل کلاں کو سارا مال سمیٹ کر پوتے میرے دروازے پر ڈال گئی تو میں کیا کرسکتا ہوں اور میرا کون ساتھ دے گا؟ میں نے بہت کہا کہ دونوں طرف سے برادری کے کچھ آدمی لاوٴ، ان کے رُوبرو فیصلہ ہوجائے کہ بچے مستقل کون اپنے پاس رکھے گا؟ مگر نہیں مانتی، اور اپنے بھائیوں کو آئے دن مارکٹائی کے لئے لے آتی ہے، براہِ کرم جواب سے نوازیں تاکہ میں اسے بھی دِکھاسکوں۔

ج… آپ کے مرحوم بیٹے کا ترکہ ۱۲۰ حصوں پر تقسیم ہوگا، ان میں سے ۱۵ حصے بیوہ کے ہیں، ۲۰ حصے والدہ کے، ۲۰ حصے والد کے، ۲۶، ۲۶ دونوں لڑکوں کے، اور ۱۳ حصے لڑکی کے۔ اس لئے مرحوم کی بیوہ کا یہ دعویٰ غلط ہے کہ مرحوم کا سارا ترکہ اس کے حوالے کردیا جائے۔

۲:… بچوں کا نان و نفقہ دادا کے ذمہ ہے، اور ان کے مال کی حفاظت بھی اسی کے ذمہ ہے، لہٰذا بچوں کے حصے کی حفاظت دادا کرے گا، بچوں کی ماں کو اس کا کوئی حق نہیں۔

۳:… لڑکے سات برس کی عمر تک ماں کی پروَرِش میں رہیں گے، سات برس کی عمر ہونے پر ان کی پروَرِش دادا کے ذمہ ہوگی، اور لڑکی جوان ہونے تک والدہ کے پاس رہے گی، پھر دادا کے پاس۔

دادا کی وصیت کے باوجود پوتے کو وراثت سے محروم کرنا

س… میرے والد صاحب پہلے فوت ہوئے ہیں، اور دادا صاحب بعد میں فوت ہوئے تھے، جو زمین میرے دادا صاحب نے اپنے مرنے سے پہلے میرے والد صاحب کو دی تھی، وہ اسی جگہ اور مکان میں فوت ہوئے تھے۔ جب میرے والد صاحب فوت ہوئے تو چند سال کے بعد دادا صاحب فوت ہوگئے، لیکن دادا صاحب نے فوت ہونے سے پہلے اپنے سب بیٹوں کو کہا تھا کہ میرے پوتے کا آپ سب نے انتقال کرانا اور اس کو اسی زمین میں رہنے دینا اور اس کے ساتھ اچھے رہنا۔ یہ سب زبانی باتیں میرے دادا صاحب نے اپنے بیٹوں کو کہی تھی، آخر وہ بھی فوت ہوگئے، یعنی دادا صاحب۔ ان کے مرنے کے بعد میرے چاچا اور تایا وغیرہ نے انتقال اپنے ساتھ کرایا تھا، اب میرے چچازاد بھائی نے میرے خلاف کیس عدالت میں کیا ہوا ہے کہ آپ کا انتقال نہیں ہے اور آپ اس زمین کے وارث نہیں ہیں۔ وہ یہ کہتے ہیں کہ آپ کا والد پہلے فوت ہوا ہے اور دادا بعد میں۔ اب میرے چچازاد بھائی یہ بولتے ہیں۔ اس لئے جناب سے عرض ہے کہ کیا میں اس رقبے کا وارث ہوسکتا ہوں یا کہ نہیں؟ میرے نام انتقال کو ۲۴ یا ۲۵ سال گزر گئے ہیں، اب میں اس جگہ پر رہتا ہوں جو میرے دادا اور والد کا مکان ہے۔

ج… جو واقعات آپ نے بیان کئے ہیں، اگر وہ صحیح ہیں تو آپ اپنے والد کی جائیداد کے مستحق ہیں، کیونکہ آپ کے دادا نے آپ کے حق میں وصیت کردی تھی، چونکہ آپ کا کیس عدالت میں ہے، اس لئے عدالت ہی واقعات کی چھان پھٹک کرکے صحیح فیصلہ کرسکتی ہے۔

پوتے کو دادا کی وراثت سے محروم کرنا جائز نہیں، جبکہ دادا نے اس کے لئے وصیت کی ہو

س… کیا دادا کی جائیداد میں پوتے کا حق نہیں ہوتا؟ میرے دو چچا ہیں، وہ کہتے ہیں کہ تمہارے والد باپ کی زندگی میں مرگئے، لہٰذا اب تمہارا جائیداد میں قانوناً اور شرعاً حق نہیں ہوتا ہے، جبکہ میرے دادا حضور نے ایک اسٹامپ پر دونوں بیٹوں کے برابر پوتے کو بھی بطور بخشش لکھ کر گئے ہیں۔ برائے مہربانی آپ شرع کی روشنی میں بتائیں یہ بات کہاں تک دُرست ہے اور کہاں تک غلط؟

ج… اگر آپ کے دادا، آپ کو بھی دونوں چچاوٴں کے برابر دے کر گئے ہیں تو ایک تہائی جائیداد شرعاً آپ کی ہے، آپ کے چچا غلط کہتے ہیں۔

دادا کی ناجائز جائیداد پوتوں کے لئے بھی جائز نہیں

س… ہمارا دادا جو وراثت ہمارے لئے ورثے میں چھوڑ کر گیا ہے، یہ وراثت اس کی جائز ملکیت نہیں تھی، بلکہ زمین کا ایک حصہ یتیم بچوں کا ناجائز غصب شدہ ہے اور دُوسرا حصہ جو ان کی جائز ملکیت تھا وہ فروخت کردیا گیا (معاوضہ لے کر)، اسی فروخت شدہ زمین کا کچھ حصہ محکمہٴ مال کے کاغذوں میں سابق مالک کے نام تھا، ایسا یا تو محکمہٴ مال کی غلطی سے ہوا یا خود مل کر کرایا گیا، سات سال مقدمہ کرکے قوانین کے ذریعے یہ بھی واپس لے لیا گیا، زمین کے یہ دونوں حصے بیٹوں کے بعد پوتے استعمال کر رہے ہیں؟ کیا اسلام و شریعت کی رُو سے یہ زمین ہمارے لئے جائز و حلال ہے؟ جواب عنایت فرمائیں۔

ج… جس جائیداد کے بارے میں یقین ہے کہ وہ یتیموں سے غصب کی گئی ہے، وہ نہ آپ کے دادا کے لئے حلال تھی، نہ اس کے بیٹوں کے لئے اور نہ اب پوتوں کے لئے۔ اس جائیداد کا کھانا قرآنی الفاظ میں: ”پیٹ میں آگ بھرنا“ ہے، اس لئے یہ جائیداد جن کی ہے ان کو واپس کردیجئے۔

جائیداد کی تقسیم اور عائلی قوانین

س… میرے والد محمد اسماعیل مرحوم مربع نمبر۲۳ کے نصف حصے کے مالک تھے، ان کی اولاد میں ہم دو بہنیں اور تین بھائی تھے، ایک بھائی عبدالرحیم ۱۹۴۹ء میں اور دُوسرے بھائی عبدالمجید ۱۹۶۶ء میں وفات پاگئے۔ ۱۹۷۲ء میں والد صاحب بھی دارِفانی سے کوچ کرگئے، اس وقت ہم دو بہنیں ہاجراں بی بی اور زبیدہ بی بی اور ایک بھائی عبدالرحمن بقیدِ حیات ہیں۔ مرحوم بھائی عبدالمجید کی پانچ بیٹیاں ہیں جن میں سے چار شادی شدہ ہیں۔ والد کے انتقال کے بعد متعلقہ حکام نے درجِ بالا جائیداد کو ورثاء میں اس طرح تقسیم کیا کہ عبدالرحمن بیٹا: ۹/۵ حصہ، زبیدہ بی بی، ہاجراں بی بی بیٹیاں: ۲۷/۱۰ حصہ، اور پانچ پوتیاں: ۹/۲، اور پھر اس طرح تقسیم کیا گیا کہ عبدالرحمن بیٹا: ۳/۱ حصہ، زبیدہ بی بی، ہاجراں بی بی بیٹیاں: ۳/۱ حصہ، اور پانچ پوتیاں:۳/۱ حصہ۔ چونکہ بھائی عبدالمجید ۱۹۶۶ء میں والد صاحب کی زندگی ہی میں انتقال کرگئے تھے، اس لئے ان کے نام کوئی جائیداد منتقل ہی نہیں ہوئی تھی، تو کیا دادا کی جائیداد میں سے اسلامی قانونِ وراثت کی رُو سے پوتیاں حصہ دار ہوسکتی ہیں؟ اگر دادا کی جائیداد میں پوتیاں اسلامی قانونِ وراثت کی رُو سے حصہ دار ہوسکتی ہیں تو دُرست، ورنہ بتایا جائے کہ ہماری آج تک شنوائی کیوں نہیں ہو رہی ہے؟ کیا متعلقہ حکام جو چاہیں وہ کرتے رہیں اور ان سے پوچھنے والا کوئی نہ ہو! اس سلسلے میں صدرِ مملکت کی خدمت میں ایک درخواست بھیجی گئی، مگر میری تمام گزارشات ردّی کی ٹوکری کی نذر کردی گئیں، آخرکار صدرِ محترم کی خدمت میں تار بھیجے گئے، مگر انہیں بھی درخورِ اعتناء نہ سمجھا گیا۔ گورنر پنجاب کی خدمت میں بھی درخواستیں بھیجی گئیں مگر انہوں نے بھی کوئی توجہ نہ دی، کمشنر فیصل آباد کی خدمت میں بھی درخواستیں بھیجی گئیں، یہ سب کچھ کرنے کے باوجود کوئی بھی کچھ کرنے کے لئے تیار نہیں۔ اتنی فریاد و پکار کے باوجود بھی اگر اربابِ اقتدار کے کانوں پر جوں تک نہ رینگے تو میں نہیں سمجھتی کہ اس مملکتِ خداداد میں کس قسم کا اسلامی قانون رائج ہے، اور ایک عام شہری کب تک نوکرشاہی کے ہاتھوں میں پریشان ہوتا رہے گا۔ آخر میں صدرِ مملکت و چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر صاحب کی خدمت میں آپ کے موٴقر جریدے کی وساطت سے یہ گزارش کروں گی کہ اگر اسلامی قانونِ وراثت کی رُو سے پوتیاں دادا کی جائیداد میں سے حصہ دار ہوسکتی ہیں تو مجھے کم از کم جواب تو دیں، اگر نہیں تو پھر درج بالا جائیداد کو قانونِ اسلام کے مطابق ہم دو بہنوں اور ایک بھائی میں تقسیم کرنے کے اَحکامات صادر فرمائیں اور متعلقہ حکام کے خلاف بھی سخت قانونی کارروائی کا حکم دیں تاکہ آئندہ کسی کو بھی اسلامی قانون کے ساتھ مذاق اُڑانے کی جرأت نہ ہو۔

ج… شرعاً آپ کے والد مرحوم کی جائیداد چار حصوں میں تقسیم ہوگی، دو حصے لڑکے کے، اور ایک ایک حصہ دونوں لڑکیوں کا، پوتیاں اپنے دادا کی شرعاً وارث نہیں۔ پاکستان میں وراثت کا قانون، خدائی شریعت کے مطابق نہیں، بلکہ ایوب خان کی ”شریعت“ کے مطابق ہے، آپ کے والد مرحوم کی جائیداد کا انتقال اسی ”ایوبی شریعت“ کے مطابق ہوا ہے۔

والد کے ترکہ کی تقسیم سے قبل بیٹی کا انتقال ہوگیا تو کیا اسے حصہ ملے گا؟

س… چار بہن بھائی والدین کے ترکہ کے وارث ٹھہرے، چاروں کی شادیاں ہوگئیں، ابھی وراثت کی تقسیم باقی تھی کہ ایک بہن کی موت واقع ہوگئی، مرحومہ والدین کے ترکہ میں سے کتنے حصے کی حق دار تھی؟

ج… آپ نے یہ نہیں لکھا کہ کتنے بھائی اور کتنی بہنیں، بہرحال بھائی کا حصہ بہن سے دُگنا ہوتا ہے۔

س… اس کے بچے اور میاں اس کے حصے کی جائیداد (زیور اور نقدی کی حالت میں ترکہ) کے جائز وارث ہیں کہ نہیں؟

ج… جس بہن کا انتقال والدین کے بعد ہوا ہے وہ بھی والد کے ترکہ کی شرعاً وارث ہے، اور اس کا حصہ اس کے شوہر اور اس کی اولاد میں تقسیم ہوگا۔

مرحوم کی وراثت بہن، بیٹیوں اور پوتوں کے درمیان کیسے تقسیم ہوگی؟

س… ہمارے ماموں مرحوم گزشتہ سال انتقال فرماگئے، اور اپنے پیچھے ایک بڑی جائیداد چھوڑ گئے، یعنی ۲ مکان (جن کی مالیت تقریباً ۲ لاکھ بنتی ہے) اس کے علاوہ وہ ایک ہوٹل بھی چھوڑ کر گئے ہیں، جس کی مالیت تقریباً ۱۲-۱۵ لاکھ ہے۔ اب صورتِ حال یہ ہے کہ انہوں نے ابھی تک کوئی تحریری ثبوت ایسا نہیں چھوڑا یا نہیں ملا کہ انہوں نے وہ جائیداد اپنی کسی اولاد میں تقسیم کردی ہے، ان کی ۴ بیٹیاں ہیں، اور ایک لڑکا تھا جو ان کی زندگی میں ہی وفات پاگیا، اس کا ایک لڑکا اور ایک لڑکی موجود ہے۔ لڑکی شادی شدہ اور لڑکا بھی شادی شدہ ہے (یعنی نواسہ اور نواسی) اور ۴ بیٹیاں بھی شادی شدہ ہیں۔ لیکن اب معلوم ہوا ہے کہ چاروں لڑکیوں نے مل کر کسی قانونی چکر سے وہ تمام جائیداد اپنے نام کروالی ہے، آیا یہ بات قانون اور شرعی لحاظ سے جائز ہے؟ یا یہ کہ اس جائیداد میں اور رشتہ دار بھی حق دار بنتا ہے؟ ہماری امی جو اکیلی بہن ہیں جو قریبی رشتہ رکھتی ہیں، باقی سب مرچکے ہیں۔ دریافت یہ کرنا ہے کہ کیا شرعی طور پر ہماری امی یعنی ماموں کی سگی بہن کو شریعت کوئی حصہ یا حق دار تصوّر کرتی ہے؟ جبکہ ساری جائیداد ماموں کی ذاتی ملکیت ہے، یعنی وہ ورثہ میں ملی ہوئی نہیں، اس طرح پوتا اور پوتی کا کیا حق بنتا ہے؟ اگر بنتا ہے تو کتنا بنتا ہے؟

ج… آپ کے ماموں کی جائیداد چھ حصوں میں تقسیم ہوگی، ایک ایک حصہ چاروں بیٹیوں کا، اور دو حصے بہن کے (یعنی آپ کی والدہ کے) پوتے پوتی وارث نہیں۔

والد سے پہلے فوت ہونے والے بیٹے کا والد کی جائیداد میں حصہ نہیں

س… ہم چار بھائی ہیں، ہمارے والدین حیات ہیں، مجھ سے دو بڑے بھائی ہیں، سب سے بڑے بھائی کو ہمارے والد صاحب نے ایک مکان بناکر دے دیا، ان کی شادی کردی۔ ہم تین بھائی، ایک مجھ سے بڑا اور ایک مجھ سے چھوٹا جو والد صاحب کے مکان میں رہتا ہے، والد صاحب کے ساتھ، مجھ سے بڑے بھائی کا آج سے دس سال پہلے انتقال ہوگیا اور اس کی بیوی اور چھ بچوں کو ۵ سال تک والد صاحب نے پالا اور اس کے بعد، اس بیوہ کا نکاح سب سے بڑے بھائی کے ساتھ کردیا۔ نکاح کے بعد مرحوم بھائی کے بچوں کو بھی اپنے ساتھ اپنے مکان میں لے گیا اور مرحوم کا سارا سامان ہر چیز اپنے مکان میں شفٹ کرلی، اور نکاح کے فوراً بعد ہمارے والدین سے بڑے بھائی کی ناراضگی ہوگئی اور ہمارے گھر انہوں نے آنا جانا بند کردیا، اور ۶ سال سے وہ ہمارے گھر یعنی والدین سے ملنے نہیں آئے، نہ مرحوم بھائی کے بچے، سب جوان ہوگئے ہیں، وہ بھی نہیں ملتے، یعنی کہ بالکل آنا جانا بند ہے، اور ساری غلطی بھی بڑے بھائی کی ہے، اب بڑے بھائی کہتے ہیں کہ ہمیں مرحوم بھائی کے مکان میں حصہ دیا جائے، جبکہ والد صاحب جو کہ حیات ہیں اور کام کاج کرنے کے قابل نہیں ہیں، انہوں نے مکان ہم دو بھائیوں کے نام کردیا ہے، اور ہم دونوں بھائی بھی شادی شدہ ہیں اور والدین ہمارے ساتھ رہتے ہیں، تو قرآن و سنت کی رُو سے آپ یہ فیصلہ کریں کہ والد صاحب کو اس مکان میں سے بڑے بھائی کو حصہ دینا چاہئے یا نہیں؟ آپ یہ فیصلہ کردیں تاکہ ہمارے دِل کو سکون مل جائے۔

ج… آپ کے بڑے بھائی جو اپنے والد کی حیات میں انتقال کرگئے ہیں ان کا والد کی جائیداد میں کوئی حصہ نہیں۔

لڑکوں، لڑکیوں اور پوتوں کے درمیان وراثت کی تقسیم

س… میرے والد کے پاس کچھ زمین اور ایک مکان ہے، لیکن میرے والد وفات پاچکے ہیں، انہوں نے اپنی اولاد میں تین لڑکے اور تین لڑکیاں شادی شدہ چھوڑی ہیں، جو موجود ہیں۔ چوتھا نمبر لڑکا جو پانچ سال پہلے وفات پاچکا تھا، اس کی اولاد میں بھی چار لڑکے اور ایک لڑکی ہے، یعنی میرے بھائی کی اولاد (میرے والد کے پوتے ہوئے)، والدہ، والد کی زندگی میں ہی فوت ہوچکی تھیں، اب وراث کی تقسیم کیسے ہوگی؟

ج… اگر آپ کے والد نے اپنے ان پوتوں کے حق میں، جن کا والد پہلے انتقال کرگیا تھا، کوئی وصیت کی تھی تو اس وصیت کو پورا کیا جائے، اور اگر آپ کے والد صاحب نے کوئی وصیت نہیں کی تو اخلاق و مروّت کا تقاضا یہ ہے کہ آپ اپنے مرحوم بھائی کی اولاد کو بھی برابر کا حصہ دے دیں، شرعاً یہ آپ کے ذمہ واجب تو نہیں۔ آپ کے والد کی جائیداد نو حصوں پر تقسیم ہوگی، دو دو حصے لڑکوں کے، اور ایک ایک حصہ لڑکیوں کا۔

مرحومہ کی جائیداد، ورثاء میں کیسے تقسیم ہوگی؟

س… مرحومہ والدہ کی اولاد میں ۳ بیٹیاں اور ۳ بیٹے شامل تھے، ایک بیٹے کا انتقال ان کی موجودگی میں ہی ہوچکا تھا، جبکہ دُوسرے بیٹے کی وفات ان کے بعد ہوئی، ہر دو کی بیوائیں اور بچے موجود ہیں، اس وقت تین بیٹیاں شادی شدہ اور ایک بیٹا بقیدِ حیات ہیں، مرحومہ کی جائیداد کس طرح تقسیم ہوگی؟

ج… مرحومہ کا ترکہ ادائے قرض و نفاذِ وصیت از ثلث مال کے بعد سات حصوں پر تقسیم ہوگا، دو دو حصے ان دو بیٹوں کے جو والدہ کی وفات کے وقت زندہ تھے، اور ایک ایک حصہ تینوں بیٹیوں کا۔

جو بیٹا، مرحومہ کے بعد فوت ہوا اس کا حصہ اس کی بیوہ اور بچوں پر تقسیم ہوگا، اور جو بیٹا، مرحومہ سے پہلے انتقال کرگیا اس کے وارثوں کو مرحومہ کے ترکہ سے کچھ نہیں ملے گا، البتہ اگر مرحومہ ان کے بارے میں کچھ وصیت کرگئی ہیں تو ان کی وصیت کے مطابق ان کو دیا جائے۔

مرحومہ کا ورثہ بیٹیوں اور پوتوں کے درمیان کیسے تقسیم ہوگا؟

س… ماں کے بیٹے، ماں کی وفات سے چودہ برس پہلے فوت ہوچکے ہیں، مگر پوتے اور پوتیاں موجود ہیں، ماں کی بیٹیاں بھی ہیں، کیا ماں کے فوت ہونے کے بعد ان کی بیٹیاں اور پوتے، پوتیاں ماں کی ذاتی ملکیت کے حق دار برابر کے ہوتے ہیں؟ کہتے ہیں کہ پوتے، پوتیاں اسلامی نقطہٴ نظر سے حق دار نہیں ٹھہرتے، لیکن ایوبی دور میں وراثت کے کسی آرڈی ننس کے تحت حق دار ٹھہرتے ہیں، برائے مہربانی اس کی وضاحت کردیں۔

ج… صورتِ مسئولہ میں ماں کی وراثت کا دو تہائی حصہ اس کی بیٹیوں کو ملے گا، اور ایک تہائی اس کے پوتے، پوتیوں کو۔ لڑکے کا حصہ لڑکی سے دُگنا ہوگا۔ یہ فقیر تو خدا تعالیٰ کی نازل کردہ شریعت پر ایمان رکھتا ہے، کسی جنرل خان کی شریعت پر ایمان نہیں رکھتا، جس کو اپنی قبر آگ سے بھرنی اور اپنی عاقبت برباد کرنی ہو وہ شوق سے ایوب خان کی ”شریعت“ پر عمل کرے۔

مرحوم سے قبل انتقال ہونے والی لڑکیوں کا وراثت میں حق نہیں

س… ایک خاندان میں والدین کی وفات سے قبل دو شادی شدہ لڑکیوں کا انتقال ہوجاتا ہے، جو کہ صاحبِ اولاد تھیں، ان کی وفات کے بعد والدین انتقال کرجاتے ہیں، اب باقی ورثائے جائیداد کا کہنا ہے کہ جو لوگ پہلے مرگئے ہیں، ان کا اس میں حق نہیں بنتا۔ جناب سے درخواست ہے کہ کتاب و سنت کی روشنی میں بتائیں کہ شریعت کیا کہتی ہے؟ آیا جو دو لڑکیاں والدین کی وفات سے پہلے وفات پاگئی تھیں ان کی اولاد کا اس ورثہ میں حق بنتا ہے کہ نہیں؟

ج… شرعاً صرف وہی لڑکیاں، لڑکے وارث ہوتے ہیں جو والدین کی وفات کے وقت زندہ ہوں، جن لڑکیوں کی وفات والدین سے پہلے ہوگئی وہ وارث نہیں، نہ ان کی اولاد کا حصہ ہے۔

باپ سے پہلے انتقال کرنے والی لڑکی کا وراثت میں حصہ نہیں

س… میرے نانا کی تین لڑکیاں اور پانچ لڑکے ہیں، میری ماں کا انتقال نانا کی حیات میں ہوگیا تھا، اب نہ تو نانا ہے اور نہ نانی، نانا کا مکان تھا جو کہ تقریباً تین لاکھ کا ہے، میں اپنی مرحومہ ماں کا اکلوتا بیٹا ہوں، کیا نانا کی جائیداد میں، میں بھی حق دار ہوں؟ اگر ہوں تو میرا کتنا حصہ ہوگا؟ اس وقت وراثت کے حق دار پانچ لڑکے اور دو لڑکیاں ہیں، جبکہ میری ماں اس دُنیا میں نہیں۔

ج… آپ کے نانا صاحب کے انتقال کے وقت جو وارث زندہ تھے انہی کو حصہ ملے گا، آپ کی والدہ کا انتقال آپ کے نانا سے پہلے ہوا اس لئے آپ کی والدہ کا حصہ نہیں۔

نواسہ اور نواسی کا وراثت میں حصہ

س… میری ماں کے انتقال کو ساڑھے تین مہینے ہوگئے، ان کے پاس سونے کے دو کڑے اور ایک گلے کا بٹن تھا، انہوں نے اپنی زندگی میں کہا تھا کہ بٹن (جو تقریباً ڈھائی تولے کا ہے) میرے بیٹے یعنی مجھ کو دے دیا جائے، میں بھائیوں میں اکیلا ہوں اور میری چار بہنیں ہیں۔ ان میں سے دو میری والدہ سے پہلے انتقال کرگئی تھیں، دونوں کے ایک ایک بچہ ہے۔ ہاتھ کے کڑے کے لئے انہوں نے کہا کہ چاروں میں آدھا آدھا تقسیم کردیا جائے، یعنی دونوں بہنوں اور ایک نواسی اور نواسہ کو۔ آپ شرع کے مطابق بتائیں کہ ان کو وصیت کے مطابق اسی طرح کردُوں؟ دونوں بہنیں جو حیات ہیں ان کے ساتھ کوئی زیادتی تو نہیں ہوگی، جن میں سے چھوٹی بہن کو طلاق ہوگئی ہے اور وہ میرے پاس ہی رہ رہی ہے۔

ج… نواسی اور نواسہ آپ کی مرحومہ والدہ کے وارث نہیں، اس لئے ان کے حق میں جو وصیت کی اس کو پورا کیا جائے، یعنی ہاتھ کا ایک کڑا دونوں میں تقسیم کیا جائے۔ آپ کے اور آپ کی بہنوں کے بارے میں جو وصیت کی، وہ صحیح نہیں، کیونکہ وارث کے حق میں وصیت نہیں ہوتی۔ اس لئے آپ کی والدہ نے جو ترکہ چھوڑا ہے (اگر ان کے ذمہ کچھ قرضہ ہے تو ادا کرنے کے بعد، اور جو وصیت کی تھی اس کو پورا کرنے کے بعد) چار حصوں میں تقسیم ہوگا، دو حصے آپ کے، اور ایک ایک حصہ دونوں بہنوں کا، پھر بہن بھائی اگر والدہ کی ہدایت پر خوشی سے عمل کرلیں تو کوئی حرج نہیں۔