سوتیلے اعزّہ میں تقسیمِ وراثت کے مسائل

متوفیہ کی جائیداد، بیٹے، شوہرِ ثانی، اولاد، والد اور بھائی کے درمیان کیسے تقسیم ہوگی؟

س… کیا فرماتے ہیں علمائے دِین اس مسئلے میں کہ مہرالنساء بنت قاری احمد علی خان صاحب کی دُوسری شادی قریب ایک سال ہوا، ریاض احمد سے ہوئی تھی، مہرالنساء کا مرا ہوا بچہ پیدا ہوا اور اس کے ایک ماہ بعد مہرالنساء کا انتقال ہوگیا۔ مرحومہ کے وارثین و ملکیت درج ذیل ہیں، لہٰذا علماء سے درخواست ہے کہ وہ حصہ رسدی کی شرح سے مطلق فرمائیں۔

۱:… ریاض احمد خان شوہرِ ثانی

۲:… ظاہر علی خان بیٹا پہلے شوہر سے

۳:… حامد علی خان حقیقی بھائی

۴:… قاری احمد علی والد حقیقی

منقولہ و غیرمنقولہ جائیداد: نقد رقم، زیورات، فرنیچر، مرحومہ کے کپڑے، ایک اسکوٹر جو مرحومہ نے خرید کر شوہر کو بطور ہبہ دیا تھا، سلائی کی مشین، وقف جائیداد، یہ جائیداد کلکتہ میں اولاد کے لئے وقف ہے، اور مرحومہ کو اور اس کے بھائی حامد علی خان کو ننھیال کی طرف سے ملی ہے۔ مہر: دُوسرے شوہر ریاض کے ساتھ جب عقد ہوا تو گیارہ ہزار روپے سکہ رائج الوقت مہر بندھا تھا، جو کہ سب کا سب باقی ہے۔ کیا یہ ایک کو یا سب کو ملے گا؟ نیز پہلے شوہر سے بھی متوفیہ کا مہر مرحومہ کی ملکیت میں آتا ہے، وہ بھی اس میں شامل ہوگا یا نہیں؟

ج… اس صورت میں مسماة مہرالنساء کا مالِ متروکہ جس میں اس کے دونوں نکاحوں کا مہر بھی شامل ہے، تجہیز و تکفین کرنے، اور قرضہ ادا کرنے، اور وصیت پوری کرنے کے بعد ورثاء پر بطریقِ ذیل تقسیم ہوگا:

شوہر ریاض احمد کو ۳، والد قاری احمد علی کو ۲، بیٹا ظاہر علی خان کو ۷، بھائی حامد علی خان، محروم۔ یعنی متوفیہ کے کل مال کے بارہ حصے کئے جائیں گے، ان میں سے ایک چوتھائی یعنی ۳ حصے شوہر کو ملیں گے، اور چھٹا حصہ یعنی بارہ میں سے ۲ حصے والد کو، اور باقی سات حصے بیٹے کو ملیں گے، اور بھائی محروم ہوگا۔ اولاد کے لئے وقف شدہ جائیداد میں صرف متوفیہ کے بیٹے ظاہر علی خان کا حق ہوگا، شوہر اور والد کا کوئی حصہ نہیں ہے۔ اسکوٹر جو متوفیہ نے اپنے دُوسرے شوہر کو خرید کر بطور ہبہ دے دی تھی، وہ بھی ترکہ میں شامل نہیں ہوگی۔

دو بیویوں کی اولاد میں مرحوم کی وراثت کیسے تقسیم ہوگی؟

س… ہمارا گھرانہ مندرجہ ذیل افراد پر مشتمل تھا، ان میں سے گھرانے کے سربراہ کا انتقال ۱۹۵۹ء میں ہوگیا ہے، گھرانے کے سربراہ کی دو بیویاں تھیں، ان میں سے پہلی بیوی کا انتقال شوہر سے پہلے ہوا ہے، اس سے ایک بیٹی تھی اور ایک بیٹا ہے۔ بیٹی کا انتقال باپ کے بعد ۱۹۶۱ء میں ہوچکا ہے، اور اس میں سے ایک بیٹا ہے۔ اس طرح دُوسری بیوہ زندہ ہے اور اس سے دو بیٹے اور چار بیٹیاں ہیں۔ ان افراد میں سے ہر ایک کا جائیداد میں کیا حصہ ہوگا؟ اور جائیداد تین لاکھ روپے میں فروخت ہو رہی ہے، تو ہر ایک کے حصے میں کتنی رقم آئے گی؟

ج… تجہیز و تکفین، ادائے قرضہ جات اور تہائی مال سے نفاذِ وصیت کے بعد مرحوم کا کل ترکہ ۸۸ حصوں پر تقسیم ہوگا، ان میں سے بیوہ کے ۱۱، ہر لڑکے کے ۱۴، اور ہر لڑکی کے ۷ حصے ہوں گے، تین لاکھ روپے کو جب ان حصوں پر تقسیم کیا جائے تو وارثوں کے حصے میں مندرجہ ذیل رقم آئے گی:

بیوہ: سینتیس ہزار پانچ سو (۵۰۰,۳۷)

ہر لڑکا: سینتالیس ہزار سات سو ستائیس روپے ستائیس پیسے (۲۷/۷۲۷,۴۷)

ہر لڑکی: تیٴس ہزار آٹھ سو تریسٹھ روپے تریسٹھ پیسے (۶۳/۸۶۳,۲۳)

نوٹ:… جس لڑکی کا انتقال ہوچکا، اس کا حصہ اس کے لڑکے کو دیا جائے، اور اگر لڑکے کا باپ زندہ ہے تو اس کا ایک چوتھائی اس کو دیا جائے اور تین حصے لڑکے کو۔

بیوہ، سوتیلی والدہ، والد، بھائیوں اور بیٹے کے درمیان وراثت کی تقسیم

س… میرے والد صاحب کا انتقال ہوگیا، آبائی جائیداد زمین اور سرکاری طور پر سروِس سے کاٹا ہوا پیسہ چھوڑ گئے ہیں، اس میں تقسیمِ میراث کا طریقہ بتلائیں، ورثاء کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے: سوتیلی والدہ، والد، چھ بھائی، دو بیٹے اور ایک بیوہ۔

ج… مرحوم کی کل جائیداد (ان کے قرضہ جات ادا کرنے کے بعد، اگر ان کے ذمہ کچھ ہوں) اور تہائی مال میں وصیت نافذ کرنے کے بعد (اگر وصیت کی ہو) ۴۸ حصوں پر تقسیم ہوگی، ان میں سے چھ حصے ان کی بیوہ کے، آٹھ حصے ان کے والد کے، اور ۱۷، ۱۷ حصے ان کے دونوں لڑکوں کے۔ صورتِ مسئلہ:

بیوہ:۶ والد:۸ لڑکا:۱۷ لڑکا:۱۷ بھائی: محروم

دُوسری جگہ شادی کرنے والی والدہ، بیوی اور تین بہنوں کے درمیان وراثت کی تقسیم

س… ایک شخص فوت ہوگیا ہے، اور اس کی تین بہنیں ہیں، اور ایک بیوی ہے، (اولاد کوئی نہیں ہے)، اور والدہ نے دُوسری شادی کی ہے، تو تقسیمِ ترکہ فقہِ حنفی کے حساب سے کس طرح ہوگی؟ جبکہ ایک تایا بھی ہے اور وہ بھی کچھ آس لگائے بیٹھا ہے۔

ج… صورتِ مسئولہ میں مرحوم کا ترکہ (ادائے قرض و نفاذِ وصیت کے بعد) اُنتالیس حصوں میں تقسیم ہوگا، چھ والدہ کے، نو بیوی کے، اور آٹھ آٹھ تینوں بہنوں کے، تایا کو کچھ نہیں ملے گا۔ نقشہ حسبِ ذیل ہے:

بیوہ:۹ والدہ:۶ بہن:۸ بہن:۸ بہن:۸

ہبہ میں وراثت کا اطلاق نہیں ہوتا

س… میرے شوہر کا انتقال ہوگیا، اس نے اپنی زندگی میں ایک مکان بنواکر مجھے دے دیا تھا، یعنی مجھے مالک بنادیا تھا، اور اس کے ایک حصے کو کرایہ کے طور پر دیا تھا، اور ہم دونوں اس مکان کے دُوسرے حصے میں رہتے تھے، اور ایک حصے کا کرایہ میں وصول کرتی تھی، کیونکہ اس نے اپنی زندگی اور صحت میں وہ مکان میرے قبضے میں دے دیا تھا، اور اس کرایہ کی رقم کو بلاشرکتِ غیرے میں تصرف میں لاتی رہی۔ مکان مجھے دینے کا بہت سے لوگوں کے سامنے مرحوم نے ذکر کیا تھا، جن میں باشرع کئی لوگ گواہ ہیں، تو کیا اس مکان میں وراثت جاری ہوگی؟

س:۲… میرے شوہر اپنے سوتیلے بھائی کے ساتھ کاروبار میں شریک تھے، اور میرے شوہر کی کوئی اولاد نہیں (نہ لڑکے اور نہ لڑکیاں)، دیگر ورثاء درج ذیل ہیں: ۱:مرحوم کی بیوہ یعنی میں خود۔ ۲:مرحوم کا ایک سگا بھائی۔ ۳:مرحوم کے دو سوتیلے بھائی۔ ۴:اور مرحوم کی ایک سوتیلی بہن (باپ شریک)، ان کے علاوہ کوئی اور وارث نہیں ہے۔ از رُوئے شرع وراثت کیسے تقسیم کی جائے گی؟

ج… جبکہ زید نے اپنا مکان بیوی کے نام ہبہ کرکے بیوی کو مکان کا مالک بنادیا اور قبضہ بھی بیوی کا ہے، اور اس پر متعدّد لوگ گواہ بھی موجود ہیں، تو یہ ہبہ شرعاً پورا اور لازم ہوگیا، اب اس مکان میں وراثت جاری نہیں ہوگی۔ مکان کے علاوہ متوفی زید کا اثاثہ بیوی اور حقیقی بھائی پر اس طرح تقسیم ہوگا کہ کل ترکہ کا رُبع یعنی چوتھا (حصہ) اولاد نہ ہونے کی وجہ سے بیوی کو ملے گا، اور باقی ترکہ حقیقی بھائی کو دے دیا جائے گا۔ باپ شریک بھائی بہن محروم ہیں، ان کو کچھ نہیں ملے گا، تقسیم کی صورت یہ ہوگی:

بیوی:۱ حقیقی بھائی:۳ باپ شریک بہن بھائی: محروم

سوتیلے بیٹے کا باپ کی جائیداد میں حصہ

س… کیا سوتیلے بیٹے کو باپ کی جائیداد سے حصہ مل سکتا ہے؟ جبکہ شادی کے وقت وہ بچہ اپنی ماں کے ساتھ آیا ہو، اور اب اپنے بچوں کے ساتھ الگ اپنے گھر میں رہتا ہے۔

ج… اس بچے کا سوتیلے باپ کی وراثت میں کوئی حصہ نہیں ہے۔

سوتیلی ماں اور بیٹے کا وراثت کا مسئلہ

س… میرے والد صاحب جو پاکستانی شہری تھے، انڈیا میں انتقال کرگئے اور وہیں دفن کردئیے گئے۔ عدّت کی میعاد پڑ جانے کے باوجود سوتیلی والدہ ۱۵ دن بعد کراچی آگئیں۔ یہاں آکر عدّت میں انڈیا سے لایا ہوا مال فروخت کیا۔ میں اکلوتی اولاد ہوں، سوتیلی ماں کی کوئی اولاد نہیں ہے۔ یہ واضح رہے کہ سوتیلی والدہ سے کسی قسم کا خونی یا خاندانی رشتہ نہیں ہے۔ آنے کے بعد انہوں نے والد صاحب کی چھوڑی ہوئی نقدی اور قیمتی سامان اِدھر اُدھر کرنا شروع کردیا، والد صاحب نے ایک پلاٹ، ایک فلیٹ، نقدی، زیور، قیمتی سامان، پیپرکٹنگ مشین وغیرہ تقریباً ۵ لاکھ کی مالیت کا سامان چھوڑا، سب سے پہلے مالک مکان نے میرے دادا کے نام کی رسید (والد صاحب کے نام، میرے نام نہیں) ڈائریکٹ سوتیلی ماں کے نام پُرانی تاریخوں میں تبدیل کردی، اسے مکان سے دِلچسپی تھی، وہ بیوہ کو اکیلا سمجھ کر رسید بدلنے کے بدلے میں مکان اونے پونے میں لینا چاہتا ہے۔ رسید بدلنے سے میرے رشتہ داروں کی دِلچسپی کا مرکز میری سوتیلی والدہ بن گئیں، میں نوکری پیشہ غیر ہنر مند ہوں، محدود تنخواہ میں مشکل سے گزارا کرتا ہوں، الگ مکان میں رہتا ہوں (تقریباً ۱۰ سال سے)۔ والد صاحب سے صرف سوتیلی والدہ ہی اختلاف کا باعث تھی، وہ مصلےٰ پر بیٹھ کر کہتی تھیں: ”میں اس گھر میں رہوں گی یا تیرا بیٹا رہے گا“ روز کے جھگڑوں سے تنگ آکر آخر باپ کی خاطر میں نے قربانی دی، بیمار باپ صدمے سے بچ جائے گا اور روز کا جھگڑا ختم ہوجائے گا، باپ سے تعلقات اچھے تھے۔ ۱۹۸۰ء میں حج پر گئے تو مجھے تسلی دی کہ تو کب تک نوکریاں کرے گا، واپس آکر مکان بڑا لے کر دو حصے کرلیں گے اور دُکان (کاروبار) چھوٹی موٹی کھول لیں گے، تو سنبھالنا میں نگہداشت کرتا رہوں گا، آخر تو بھی بیمار رہتا ہے۔ لیکن والدہ نے مجھے ذلیل کرکے گھر سے نکال دیا، کہنے لگیں: ”میں تیری شکل دیکھنا نہیں چاہتی“ مالک مکان نے موقع سے فائدہ اُٹھاکر بلڈنگ میں داخلے پر پابندی لگادی، اور مجھ سے بہانہ یہ کیا کہ میں تمہارا حصہ دِلوا دُوں گا، تمہارا چودہ آنہ حصہ بنتا ہے۔ میں نے والدہ کے ساتھ ہر تعاون کی پیشکش کی لیکن وہ میرے ساتھ رہ کر دولت کھونا نہیں چاہتی تھی، کوئی رشتے دار میری حمایت میں نہیں بولتا۔ ۱۹۸۰ء میں والد صاحب نے حج فارم میں وارث کے کالم میں میرا ہی نام لکھوایا تھا، کئی دفعہ مطلع کرنے کے بعد کوئی میری حمایت کو راضی نہیں ہوا۔

چہلم پر سوتیلی والدہ نے تکبر سے لوگوں کو کہا: ”جس نے کھانا کھانا ہو، کھالے ورنہ سب یتیم خانے میں دے دُوں گی“ اور کہتی ہیں کہ: ”میں ایک پیسہ کا حصہ نہیں دُوں گی، پلاٹ مسجد میں دے دُوں گی“ کیا مجھے اس جائیداد میں وراثت کا حق نہیں؟ جو رُکاوٹ ڈال رہے ہیں ان کے لئے شریعت کیا کہتی ہے؟ شوہر کے پیچھے اسے یہ سب کچھ ملا اور بیٹے کے حق کو مار رہی ہے، کیا یہ صحیح ہو رہا ہے؟ کیا میں غلطی پر ہوں؟ وہ سب حق پر ہیں، اس پورے مسئلے پر تبصرہ کریں۔

ج… آپ کے والد کی جائیداد میں آپ کی سوتیلی والدہ کا آٹھواں حصہ ہے، اور باقی سات حصوں کے وارث آپ ہیں۔ اگر وہ اس میں کوئی ناجائز تصرف کریں گی تو اپنی عاقبت برباد کریں گی۔ آپ کو بہرحال مطمئن ہونا چاہئے۔ آپ اگر عدالت سے رُجوع کرسکتے ہیں تو کریں، اور اگر اتنی ہمت نہیں تب بھی آپ کی چیز آپ ہی کی ہے۔ یہاں نہ ملی تو آخرت میں ملے گی، جبکہ آپ وہاں یہاں سے زیادہ ضرورت مند اور محتاج ہوں گے۔ آپ نہ تو اپنی سوتیلی والدہ کی بے ادبی کریں اور نہ کسی دُوسرے کی شکایت کریں، جتنے لوگ آپ کو والد کی وراثت سے محروم کرنے کی کوشش میں حصہ لے رہے ہیں وہ سب اپنے لئے جہنم خرید رہے ہیں۔ کسی بزرگ کا ارشاد ہے کہ سب سے بڑا احمق وہ ہے جو دُنیا کی خاطر اپنے دِین کو برباد کرتا ہے، اور اس سے بڑھ کر احمق وہ ہے جو دُوسروں کی دُنیا کے لئے اپنے دِین کو تباہ و برباد کرتا ہے۔

مرحوم کے ترکہ میں دونوں بیویوں کا حصہ ہے

س… ہمارے والد کی دو شادیاں تھیں، پہلی بیوی سے ہم دو بھائی اور دُوسری بیوی سے ایک لڑکی ہے، ہمارے والد کو فوت ہوئے تقریباً دس سال گزرچکے ہیں، اور اس عرصے میں ہماری دُوسری والدہ نے دُوسرا عقد کرلیا ہے، جس سے ان کے تین بچے ہیں۔ اب ہم اپنے والد کی وراثت منقولہ و غیرمنقولہ کو تقسیم کرنا چاہتے ہیں۔ اب آپ بتائیں کہ ہم میں سے ہر ایک کو کتنا حصہ ملتا ہے؟ اور ہماری دُوسری والدہ کو کتنا حصہ، اگر شرعاً ان کا حق ہو؟ ذرا تفصیل سے بتائیں، مہربانی ہوگی۔

ج… آپ کے والد مرحوم کا ترکہ اس کی دونوں بیویوں اور اولاد میں اس طرح تقسیم ہوگا:

پہلی بیوی:۵ دُوسری بیوی:۵ لڑکا:۲۸ لڑکا:۲۸ لڑکی:۱۴

یعنی کل ترکہ کے ۸۰ حصے بناکر آٹھویں حصے کی رُو سے دونوں بیویوں کو ۱۰ حصے (ہر ایک کو ۵، ۵ حصے کرکے ملیں گے، اور بقیہ ۷۰ حصے اس کی اولاد میں اکہرا دُہرا کے حساب سے تقسیم ہوں گے) دونوں لڑکوں کو ۲۸، ۲۸ کرکے، اور لڑکی کو ۱۴ حصے ملیں گے۔ الغرض مرحوم کے ترکہ میں دُوسری بیوی کا حصہ بھی ہے۔

دو بیویوں اور ان کی اولاد میں جائیداد کی تقسیم

س… ایک شخص کی دو بیویاں ہیں، ایک سے ایک لڑکا اور دُوسری سے تین لڑکے ہیں، وہ اپنی جائیداد ان پر تقسیم کرنا چاہتا ہے، بعض لوگ کہتے ہیں کہ جائیداد دونوں بیویوں میں تقسیم ہوگی، اور بعض لوگ کہتے ہیں کہ نہیں چاروں لڑکوں میں تقسیم کرنا ہوگی۔ شریعت کی رُو سے اس جائیداد کو کس طرح تقسیم کیا جائے؟

ج… شرعاً اس کی جائیداد کا آٹھواں حصہ دونوں بیویوں کے درمیان، اور باقی سات حصے چاروں لڑکوں کے درمیان مساوی تقسیم ہوں گے، گویا اس کی جائیداد کے اگر ۳۲ حصے کرلئے جائیں تو ان میں سے دو دو حصے دونوں بیویوں کو ملیں گے، اور باقی ۲۸ حصے چار لڑکوں پر سات حصے فی لڑکا کے حساب سے برابر تقسیم ہوں گے۔

والدہ مرحومہ کی جائیداد میں سوتیلے بہن بھائیوں کا حصہ نہیں

س… ہماری والدہ صاحبہ فوت ہوچکی ہیں، اور ہم دو بھائی ہیں، اور تین بھائی سوتیلے ہیں، آپ بتائیے کہ جائیداد کا وارث کون ہوگا؟

ج… جو چیزیں آپ کی والدہ کی ملکیت تھیں، ان کی وراثت تو صرف ان کی اولاد ہی کو پہنچے گی، سوتیلے بھائی بہنوں کو نہیں۔ البتہ آپ کے والد کی جائیداد میں سوتیلے بھائیوں کا بھی برابر کا حصہ ہے، والله اعلم!

مرحوم کی میراث سوتیلے باپ کو نہیں ملے گی

س… میرا ایک پیارا دوست جو کہ ایک بینک میں ملازم تھا، عین عالمِ جوانی میں بجلی کے شاٹ کے بہانے مالکِ حقیقی سے جاملا، اس کو بینک کی طرف سے کچھ معاوضہ ملنے والا ہے، اور بینک کے قرضے سے اس نے ایک مکان بنوایا تھا، مکان بند پڑا ہے، خود اور والدین کی رہائش دُوسرے اپنے ذاتی مکان میں ہے۔ مرحوم شادی شدہ تھا اور اس کے تین بچے بھی ہیں۔ دو لڑکے، ایک لڑکی۔ اب آئیے مسئلے کی طرف! وہ یہ ہے کہ اس کا جو والد ہے جس کے پاس وہ رہتا تھا، وہ اس کا سگا باپ نہیں ہے، سوتیلا باپ ہے، اس کی ماں نے اس کے ساتھ نکاح کیا تھا، جس کی قومیت بھی دُوسری ہے، ماں زندہ ہے۔ جب تک مرحوم زندہ تھا اس پر یہ باپ بڑا ظلم کرتا تھا، اب کہتا ہے: ”اس کا وارث میں ہوں، جو کچھ ہے اور مکان میرا ہے، میرے نام ہونا چاہئے“ جبکہ اس کی بیوی کہتی ہے کہ: ”میں اس کی بیوی ہوں اور اس کے تین بچے صغیر ہیں، جو کچھ ملے، مجھے اور میرے بچوں کو ملے، تم اس کے سگے باپ بھی نہیں ہو“ باپ کہتا ہے: ”یہ تمام کی ملکیت ہے، جس کے گھر میں جتنے بھی آدمی ہیں، دس بارہ حصہ دار ہیں۔“ بیوی کہتی ہے: ”میں اور میرے بچے دربدر ہوجائیں گے۔“

ج… مرحوم کے ترکہ سے پہلے اس کا قرض ادا کیا جائے، اور جو کچھ باقی بچے اس میں چھٹا حصہ مرحوم کی والدہ کا ہے، آٹھواں حصہ اس کی بیوی کا ہے، سوتیلے والد کا اس میں کوئی حصہ نہیں، نہ مکان میں، اور نہ روپے پیسے میں، باقی اکہرا دُہرا کے حساب سے بچوں کا ہے۔

تفصیل یہ کہ کل ترکہ کو ۱۲۰ حصوں پر تقسیم کرکے، بیوہ کو ۱۵، ماں کو ۲۰، ہر لڑکے کو ۳۴، ۳۴، اور لڑکی کو ۱۷ حصے دئیے جائیں گے۔

والد مرحوم کا ترکہ دو بیویوں کی اولاد میں تقسیم کرنا

س… ہمارے والد صاحب کا انتقال ہوگیا، والد صاحب کی دو بیویاں تھیں، ایک سے ۳ اور دُوسری سے ۵ بچے ہیں، پہلی بیوی کا انتقال ہوگیا، ورثاء کی تفصیل یہ ہے: پانچ لڑکے اور تین لڑکیاں، اور ایک بیوہ ہے۔ جبکہ کل جائیداد، زیورات بیوہ کے قبضے میں ہے اور وہ عدّت میں ہے۔

ج… مرحوم کا کل ترکہ بعد از ادائے قرض و نفاذِ وصیت ۳۱۲ حصوں پر تقسیم ہوکر وارثوں کو حسبِ ذیل حصے ملیں گے:

بیوہ:۳۹ لڑکا:۴۲ لڑکا:۴۲ لڑکا:۴۲ لڑکا:۴۲ لڑکا:۴۲

لڑکی:۲۱ لڑکی:۲۱ لڑکی:۲۱

مرحوم کی بیوہ کا اس کی جائیداد پر اپنے حصے سے زیادہ قابض ہونا ناجائز ہے۔

مرحوم کا ترکہ کیسے تقسیم ہوگا جبکہ والد، بیٹی اور بیوی حیات ہوں؟

س… میرا نام غزالہ شفیق احمد ہے، میں اپنے والد کی اکلوتی بیٹی ہوں، میری پیدائش کے دو سال بعد میرے والدین میں علیحدگی ہوگئی تھی، اس کے پانچ سال بعد میرے والد نے دُوسری شادی کرلی تھی، لیکن ان سے کوئی اولاد نہیں ہوئی۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ میرے والد کا انتقال ہوگیا ہے اور ان کا ایک مکان اور دُکان جو ۸۰گز پر ہے، جو کہ پہلے میرے دادا نے (جو ماشاء اللہ حیات ہیں) خریدا اور بنوایا تھا، اور اپنے بیٹے شفیق کے نام گفٹ کردیا تھا، اور اس کے تین سال بعد میرے والد کا انتقال ہوگیا۔ اب جبکہ میں ان کی اکلوتی بیٹی، ان کی دُوسری بیوی اور ان کے والد حیات ہیں، مہربانی کرکے آپ یہ بتائیں کہ والد کے انتقال کے بعد ہم سب کا کتنا حصہ بنتا ہے؟

ج… آپ کے مرحوم والد کا کل ترکہ (ادائے ما وجب کے بعد) آٹھ حصوں میں تقسیم ہوگا، آٹھواں حصہ آپ کی سوتیلی والدہ کا، چار حصے (یعنی کل ترکہ کا آدھا) آپ کا، اور باقی ماندہ تین حصے آپ کے دادا کے ہیں۔

اور ہاں! آپ نے یہ نہیں لکھا کہ آپ کی دادی صاحبہ بھی زندہ ہیں یا نہیں؟ اگر دادی صاحبہ نہ ہوں تب تو مسئلہ وہی ہے جو میں نے اُوپر لکھ دیا، اور اگر دادی صاحبہ بھی موجود ہوں تو کل ترکہ کا چھٹا حصہ ان کو دیا جائے گا، اس صورت میں ترکہ کے ۲۴ حصے ہوں گے، ان میں ۳ مرحوم کی بیوہ کے، ۴ والدہ کے، ۱۲ بیٹی کے اور ۵ والد کے۔

تین شادیوں والے والد کا ترکہ کیسے تقسیم ہوگا؟

س… ہم تین بھائی اور تین بہنیں ہیں، صرف میں پاکستان میں ہوں، باقی سب ہندوستان میں ہیں۔ والد صاحب کا ہندوستان میں انتقال ہوچکا ہے، والد صاحب نے تین شادیاں کی تھیں، پہلی والدہ سے ایک بھائی اور ایک بہن، دُوسری والدہ سے میں تنہا، اور تیسری والدہ سے ایک بھائی اور دو بہنیں ہیں۔ صرف تیسری والدہ بقیدِ حیات ہیں۔ والد صاحب کے ترکہ کی تقسیم جو ایک مکان اور زمین کی شکل میں ہیں اس کی فروخت کس طور پر ہوگی؟ وضاحت سے جواب دیجئے گا۔

ج… آپ کے والد مرحوم کا ترکہ (ادائے قرض و نفاذِ وصیت از ثلث مال کے بعد) ۷۲ حصوں پر تقسیم ہوگا، ان میں سے ۹ حصے بیوہ کے ہیں، ۱۴، ۱۴ لڑکوں کے، اور ۷، ۷ لڑکیوں کے، نقشہ حسبِ ذیل ہے:

بیوہ:۹ لڑکا:۱۴ لڑکا:۱۴ لڑکا:۱۴ لڑکی:۷ لڑکی:۷ لڑکی:۷