میاؤں میاؤں
گزشتہ نشست میں عرض کیا تھا کہ ہمارے دوست مسٹر کلین آج کل تبدیلی اور انقلاب کے داعی بنے ہوئے ہیں۔ عمران خان اور طاہر القادری سے زیادہ انقلابی تقریریں کرتے پائے جاتے ہیں۔ عمران خان کے بارے میں ان کے نظریے کی تبدیلی کی وجہ تو عرض کی تھی کہ اسلام آباد کی شاہراہ دستور پر نوجون لڑکیوں اور لڑکوں کو نچانے کے ’’جرأت مندانہ اقدام‘‘ کے بعد مسٹر کلین جیسے دانش وروں کے پاس عمران خان کو ’’طالبان خان‘‘ سمجھنے کی کوئی وجہ باقی نہیں رہی تھی۔ بقو ل کسے شاید یہی عمران خان کا بھی مقصد تھا کہ ڈرون حملوں کی مخالفت کی وجہ سے عالمی طاقتوں اور ملک کے لبرل حلقوں میں جو ان کا ’’امیج‘‘ متاثر ہوگیا تھا۔ اس کا زالہ کرنے کے لیے تبدیلی اور نیا پاکستان کے نعرے کے تحت پاکستان کی نوجوان نسل کو تحریکِ انصاف کے پر چم تلے ناچ گانے میں مشغول دکھایا جائے تاکہ دنیا دیکھ لے کہ خان صاحب پر اسلام پسندی کا ’’الزام‘‘ کتنی بڑی ’’تہمت‘‘ ہے۔
ہمیں اصل تجسس اس بات کا تھا کہ آخر مسٹر کلین کو طاہر القادری میں ایسی کیا خاص بات نظر آئی کہ وہ علامہ صاحب کے بھی مرید بن گئے، حالانکہ علامہ صاحب ایک مذہبی جماعت کے سر براہ ہیں، ان کی ڈاڑھی بھی ہے جس کا سائز اگرچہ آہستہ آہستہ کم ہوتا جارہا ہے، مگر تاحال ابھی بالکل غائب تو نہیں ہوئی۔
موصوف ٹوپی اور پگڑی پہنتے ہیں۔ وہ اپنی گفتگو میں قرآن وسنت کے حوالے بھی دیتے ہیں۔ یہ وہ ساری چیزیں ہیں جن سے ہمارا لبرل طبقہ الرجک رہتا ہے۔ پھر ہم نے سوچ کر خود ہی اس کی ایک وجہ تلاش کی کہ علامہ صاحب چونکہ انقلاب کی بات کرتے ہیں، ’’مصطفوی انقلاب‘‘ کا نعرہ اب نہیں لگاتے، حالانکہ اس سے پہلے ان کا یہی ایک نعرہ ہوتا تھا، بلکہ علامہ اقبال کا یہ شعر علامہ صاحب کی جماعت منہاج القرآن نے اپنے اسٹیکروں میں شائع کرکے گویا علامہ صاحب کے نام ہی ’’الاٹ‘‘ کیا ہوا تھا کہ؎ بازو ترا توحید کی قوت سے قوی ہے
اسلام تیرا دیس ہے تو مصطفوی ہے مگر چونکہ اب علامہ موصوف ’’مصطفوی انقلاب‘‘ کو مختصر کرکے صرف ’’انقلاب‘‘ کا نعرہ بلند کرتے ہیں اور قرآن و سنت سے زیادہ آئین پاکستان کے حوالے دے کر تقریریں کرتے ہیں، اس لیے وہ بھی اب بہت سے لبرل حلقوں کی آنکھ کا تارہ بن گئے ہیں۔ ایاز میر جیسا شخص بھی اگر علامہ صاحب کے انقلاب کا نقیب بنا ہوا ہے تو اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس انقلاب کے خدو خال کیا ہوں گے۔
لبرل لابی کی جانب سے ’’علامہ‘‘ طاہر القادری کی تحریک کی حمایت کی یہ توجیہہ ہمارے ذہن میں تو آرہی تھی، مگر دل اس پر بیٹھ نہیں رہا تھا۔ ہمیں ایسا لگ رہا تھا کہ بلی ابھی تھیلے کے اندر ہی ہے اور جب تک وہ باہر تشریف نہیں لاتی، کوئی حتمی بات نہیں کی جاسکتی۔ اس دن ہم نے سوچا کہ کیوں نہ اپنے دوست مسٹر کلین سے ہی پوچھ لیں کہ آپ لوگوں نے علامہ طاہر القادری کے ٹوپ میں آخر کیا چھپا دیکھا ہے جو ان کی حمایت میں اتنے ہلکان ہوئے جارہے ہیں؟ آخر کو وہ ایک مولوی ہی ہے، کیا آپ پاکستان میں کسی مولوی کا انقلاب برداشت کرسکتے ہیں؟ ہم ابھی اپنا یہ سوال لے کر مسٹر کلین کی طرف نکلنے کا سوچ ہی رہے تھے کہ ہاکر اخبارلے کر آگیا اور اخبار اٹھاتے ہی ہمارے کانوں میں ’’میاؤں میاؤں‘‘ کی آوازیں آنے لگیں۔ ہم نے ادھر ادھر دیکھا، ہمیں بلی تو کہیں دکھائی نہ دیا، البتہ ہم نے اخبار پڑھنا شروع کردیا تو یہ ایک سرخی تھی جو طاہر القادری کے انقلاب کی بلی کی تھیلے سے باہر آمد کی اطلاع دے رہی تھی۔ سرخی کیا تھی پوری میاؤں میاؤں تھی؟ ’’مدارس کو ختم کرکے سیکولر تعلیمی دارے بنانا چاہتا ہوں‘‘،میاؤں میاؤں۔ ’’مسلم دنیا کو درست سمت میں لے جانے کی کوشش کر رہا ہوں‘‘، میاؤں میاؤں۔ ’’قدامت پرستی کا ذمہ دار سعودی عرب ہے‘‘ میاؤں میاؤں۔ علامہ طاہر القادری کا امریکی اخبار کو انٹرویو، میاؤں میاؤں، میاؤں میاؤں!!!