مولانا منصور احمد

محرم الحرام اور چند ضروری باتیں
کلمۂ حق ۔ مولانا محمد منصور احمد (شمارہ 515)
محرم الحرام کا مہینہ اسلامی ہجری قمری سال کا پہلا مہینہ ہے۔ اسلام سے پہلے زمانۂ جاہلیت کے لوگ بھی سال کے جن چار مہینوں کو حرمت والا مہینہ کہتے اور مانتے تھے، اُن میں سے ایک یہی محرم کا مہینہ ہے ۔ عرب کے لوگ آپس میں خوب لڑتے بھڑتے تھے ، ڈاکے مارنا اور خونریزی کرنا اُن کا پسندیدہ مشغلہ تھا لیکن محرم کے مہینے میں پورے عرب میں امن و امان مثالی ہوتا تھا اور حرمت والا مہینہ ہونے کی وجہ سے لوگ اس میں بلاخوف و خطر سفر کرتے تھے ۔
اسلام کی نظر میں بھی محرم الحرام بڑی فضیلت والا مہینہ ہے ۔ واقعہ کربلا کے پیش آنے سے بہت پہلے رحمت ِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے فضائل بیان فرمائے تھے ۔ ایک حدیث پاک میں ارشاد ہے:
’’ ماہ ِ رمضان کے بعد سب سے افضل روزے ماہِ محرم کے ہیں۔‘‘(ابو دائود)
محرم الحرام اگرچہ پورا ہی حرمت و عظمت کا مہینہ ہے مگر اس کی دسویں تاریخ یعنی یومِ عاشورا ء خصوصی برکات و سعادات کا دن ہے ، اس دن کی عظمت و اہمیت کے پیش نظر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن روزہ رکھنے کی ترغیب فرمائی ، صومِ عاشوراء کے سلسلے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے صحا میں متعدد روایات منقول ہیں ۔
حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما کی روایت میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ طیبہ تشریف لائے تو یہود کو دیکھا کہ وہ عاشوراء کا روزہ رکھتے ہیں ، ان سے وجہ دریافت کی گئی تو انہوں نے بتایا کہ : اس روز اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو فرعون پر غلبہ عطا فرمایا تھا ، اس لئے ہم تعظیماً اس دن کا روزہ رکھتے ہیں ، حضورﷺ نے فرمایا :
’’ہم تمہاری بہ نسبت موسیٰ کے زیادہ قریب ہیں ، اور آپﷺنے اس دن کے روزے کا حکم فرمایا ۔‘‘(ابو دائود)
صحیح مسلم کی روایت میں یہ بھی ہے کہ چند صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے دسویں محرم کے روزے کے بارے میں عرض کیا تھا کہ یوم ِ عاشوراء تو ایسا دن ہے کہ یہود و نصاریٰ جس کی تعظیم کرتے ہیں تو کیا ہمارے اس دن روزہ رکھنے سے اُن کے ساتھ مشابہت تو نہیں ہو جائے گی ؟
اس پر پیارے آقا ﷺ نے ارشاد فرمایا :
’’ اگر میں اگلے سال تک تمہارے درمیان رہا تو میں نویں تاریخ کا روزہ بھی رکھوں گا ‘‘۔
اس حدیث کے پیش نظر دسویں تاریخ کے ساتھ نویں تاریخ یا گیارہویں تاریخ کا روزہ ملا لینا افضل ہے لیکن اگر صرف دسویں محرم کا روزہ رکھا جائے تو یہ بھی جائز ہے۔
یومِ عاشوراء کے سلسلے میں روزے کے علاوہ دوسری جس چیز کا ثبوت روایات میں ملتا ہے ، وہ یہ ہے کہ رسول اللہﷺنے اس روز اہل و عیال پرکھانے پینے اور خرچے میں فراخی اور کشادگی کرنے کی ترغیب فرمائی ہے
حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ : رسول اللہﷺنے فرمایا : جو شخص عاشورا کے دن اپنے اہل و عیال کے خرچ میں فراخی کرے گا ، اللہ تعالیٰ پورے سال اس کے لئے کشادگی فرمائیں گے ۔ ( مشکوٰۃ ، بیہقی )
بہت سے محدثین فرماتے ہیں کہ ہم نے اس بات کا خود تجربہ کیا ہے اور اس کو یوں ہی پایا ہے ۔
روزہ رکھنے اور اہلِ و عیال پر وسعت یعنی عام معمول سے زیادہ خرچ کرنے کے علاوہ ہمارے معاشرے میں دیگر جو کام کیے جاتے ہیں مثلاً کچھ لوگ کالے رنگ کے کپڑے سوگ کی علامت کے طور پر پہنتے ہیں ۔ کچھ لوگ پانی کی سبیلیں لگاتے ہیں ۔ کچھ لوگ اس دن سرمہ لگانے کو باعث ِ فضیلت سمجھتے ہیں اور کچھ کھانے پینے کے شوقین لوگوں نے تو قسما قسم کے مزیدار کھانے بنانے کو بھی عبادت سمجھ رکھا ہے اور وہ یوں خیال کرتے ہیں کہ اس طرح وہ کربلا کے عظیم شہداء کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کر رہے ہیں حالانکہ شہداء کربلا نے تو اس دن بھوکے پیاسے ، جامِ شہادت نوش فرمایا تھا ۔ بہر حال ان سب باتوں اور عادتو ں کا اسلام سے کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں ہے اور قرآن و حدیث ‘ تعلیمات صحابہ کرام و اہل بیت عظام میں ان کا کوئی ذکر نہیں ملتا ۔
چونکہ یکم محرم الحرام ۲۴ھ کو سیدنا حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی شہادت ہوئی اور دس محرم الحرام ۶۱ھ کو سیدنا حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کا واقعہ پیش آیا ، اسی مناسبت سے یہ ذکر کر دینا ضروری ہے حضرات صحابہ کرام اور حضرات ِ اہل بیت دونوں ہی سے محبت و عقیدت ہمارے ایمان کا حصہ ہے ۔ اگر صحابہ کرامؓ ہمارے سروں کے تاج ہیں تو حضرات ِ اہل بیت عظام بھی ہماری آنکھوں کا نور اور دلوں کا سرور ہیں ۔ ان حضرات کے باہمی تعلقات بھی انتہائی محبت و خلوص پر مبنی ، بے مثال اور خوشگوار تھے ۔
یہاں حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ اور حسنین شریفین رضی اللہ عنہما کے باہمی بہترین تعلقات کا ایک مختصر سا نقشہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جاتا ہے۔ ہر باشعور و ذی فہم آدمی ان حضرات کے باہمی حسنِ تعلقات کا اندازہ ان واقعات سے بآسانی کر سکتا ہے۔
(۱)…حضرت عمررضی اللہ عنہ کے صاحبزادے عبداللہ بن عمرؓسے حسنینؓکے فضائل مروی ہیں :
بخاری شریف جلد اول ، کتاب الفضائل ، مناقب الحسنؓوالحسینؓمیں ابن ِ عمر ؓکا ایک واقعہ درج ہے :
’’ ایک بار ایک عراقی شخص نے ابن عمرؓسے مسئلہ دریافت کیا کہ احرام کی حالت میں کوئی شخص مکھی یا مچھر مار ڈالے تو کیا حکم ہے ؟ اور اس کی کیا سزا ہے ؟ ابن عمرؓنے جواب دیا کہ عراقی لوگ مکھی و مچھر کے قتل پر مسئلے دریافت کرتے ہیں ۔ حالانکہ انہوں نے نبی اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی کے لڑکے کو قتل کر ڈالا ۔ اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے حق میں فرمایا تھا کہ یہ دونوں (نواسے) ہماری اس عالم کی خوشبو میں سے بہترین خوشبو ہیں۔‘‘
(۲)…مختلف واقعات اور روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے ہاں سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی آمد ورفت پائی جاتی اور حضرت عمررضی اللہ عنہ کی طرف سے ان کی ’’قدردانی‘‘ اور عزت افزائی کی جاتی تھی ۔چنانچہ حافظ ابن عساکر نے اپنی’’ تاریخ ابن عساکر‘‘ میں یہ واقعہ باسند ذکر کیا ہے جس کا حاصل مطلب یہ ہے :
’’ ایک دفعہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے حسین بن علی رضی اللہ عنہ کو فرمایا کہ کسی وقت ہمارے ہاں تشریف لایا کریں ۔ ایک بار حضرت حسین ؓحضرت عمرؓکی ملاقات کے لیے پہنچے ۔ عبداللہ بن عمرؓسے ملے ۔ انہوں نے کہا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کسی کام میں مصروف ہیں ) مجھے اندر جانے کی اجازت نہیں ملی ۔ یہ صورت ِ حال دیکھ کر حسین بن علی رضی اللہ عنہ واپس آگئے ۔ اس کے بعد حضرت عمررضی اللہ عنہ سے ملنا ہوا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اے حسین ملاقات کے لیے نہیں آئے ؟ کیا بات ہوئی ؟ تو سیدنا حسینؓ نے کہا کہ میں (فلاں وقت) آپ سے ملنے کے لیے گیا تھا لیکن عبداللہ بن عمرؓ کو بھی اس وقت اجازت نہیں ملی تھی اس وجہ سے میں واپس چلا گیا ۔ حضرت عمررضی اللہ عنہ نے یہ سن کر فرمایا کہ کیا آپ ابن عمرؓکے درجہ میں ہیں؟ اس کا اور مقام ہے ۔ آپ کا اور مرتبہ ہے ۔ یعنی ہرگز ایسا نہیں ہے یہ جو کچھ ہمیں عزت نصیب ہے یہ سب آپ لوگوں کی وجہ سے حاصل ہے۔‘‘
(۳)…اسی طرح اکابر مؤرخین نے ایک واقعہ نقل کیا ہے اس میں حضرت عمرؓکی طرف سے حسنین شریفین رضی اللہ عنہما کی تکریم و توقیر کا مکمل طور پرلحاظ کیا گیا ہے ۔ اور اُن سے اپنے قلبی تعلق اور محبت کا اظہار کیا گیا ہے۔ ذہبی نے سیر اعلام النبلاء ،تذکرئہ حسین رضی اللہ عنہ میں لکھا ہے :
’’ (فتوحات ہونے پر باہر سے کپڑا آیا) تو حضرت عمرؓنے صحابہ کرامؓکی اولاد کو پوشاکیں عنایت کیں ۔ ان میں حضرت حسنؓو حضرت حسینؓکے مناسب کوئی لباس نہ تھا ۔ حضرت عمرؓنے علاقہ یمن کی طرف آدمی روانہ کر کے حکم بھیجا کہ ان دونوں صاحبزادوں کے موافق لباس تیار کر کے ارسال کیا جائے (جب یہ لباس آیا اور حسنینؓنے زیب تن کیا) تو اس وقت عمر فاروقؓنے فرمایا کہ اب میری طبیعت خوش ہوئی ہے ۔‘‘
(۴)…مستند تاریخی روایات سے ثابت ہے کہ حسنین شریفین رضی اللہ عنہماکے مالی حقوق کی رعایت حضرت عمررضی اللہ عنہ کی طرف سے مکمل طور پر کی جاتی تھی ۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ حضور نبی اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے رشتہ داروں کے حقوق کو ادا کرنا اپنا فرض منصبی اور فریضۂ دینی یقین کرتے تھے ۔ حقداروں کے حق ادا کیے بغیر ان کا انصاف و عدل نا تمام رہتا تھا ۔ جہاں بھی محدثین نے اور باانصاف غیر متعصب مؤرخین نے یہ مسئلہ لکھا ہے وہاں انہوں نے حسنین رضی اللہ عنہماکے مالی وظائف متعین کیے جانے کا ضرور ذکر کیا ہے ۔ ان سب روایات کا حاصل مضمون یہ ہے :
’’ جب عمر فاروقؓنے ( اہل اسلام کی خاطر مال فے وغیرہ سے بطور وظیفہ امداد جاری کرنے کے لیے) فہرستیں بنوائیں تو اس وقت حضرت حسنؓو حضرت حسینؓکے لیے ان کے والد شریف کے حصہ کے موافق وظیفہ مقرر کیا یعنی ( بدری صحابہ کرام کی طرح ) پانچ پانچ ہزار درہم مقرر کیا اس لیے کہ یہ دونوں حضرات ،سردارِ دوجہاں حضور نبی اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے قریبی رشتہ دار تھے۔‘‘
(۵)… مؤرخین نے امام حسن مجتبیٰ کی ایک کرامت ذکر کی ہے جس کو ہم ذیل میں ان کی عبارت میں پیش کرنا چاہتے ہیں ۔ اس سے یہ چیز ثابت ہوتی ہے کہ سیدنا حسنؓبن علیؓبن ابی طالب خلافت ِ فاروقی کے دوران اسلامی فوج میں شمولیت کیا کرتے تھے اور جنگی معاملات میں شریک ہوتے تھے ۔ شیخ عباس قمی نے اپنی تصنیف ’’ تتمتہ المنتہی فی وقائع ایام الخلفاء ‘‘ میں معتضد باللہ کی خلافت کے حالات میں لکھا ہے:
’’ شہر اصفہان میں ایک مسجد ہے اس کو’’ لسان الارض‘‘( زمین کی زبان) کہتے ہیں ۔ وہاں کے لوگ کہتے ہیں کہ عمر بن الخطاب ؓکی خلافت کے دوران اسلامی لشکر کے ساتھ امام حسن ؓ فتوحات کی خاطر اس مقام میں تشریف لائے تو اس وقت یہ زمین امام حسنؓ سے ہم کلام ہوئی اور گفتگو کی ۔ اس وجہ سے لوگ اس مقام کو ’’لسان الارض‘‘ کہتے ہیں۔‘‘
ان تمام باتوں کا خلاصہ یہ ہوا کہ :
1… حضرت سیدنا عمر بن الخطاب ؓاور اُن کی اولاد کے نزدیک حسنینؓ شر یفین کی بڑی قدرو منزلت تھی ۔
2…ان حضرات کی ایک دوسرے کی جانب آمدورفت رہتی تھی اور باہمی تو قیرو عزت کا پورا پورا خیال رکھتے تھے ۔
3…سیدنا فاروق اعظمؓکی طرف سے بعض اوقات حسنین کریمینؓ کو پوشاک و لباس بھی عنایت کیا جاتا تھا ۔
4…فاروقی خلافت کی جانب سے حسنینؓکے لیے باقاعدہ سالانہ وظائف اور عطایا و ہدایا دئیے جاتے تھے اور وہ ان کو قبول کرتے تھے ۔
5…فاروقی خلافت کے دوران سیدنا حسنؓ اسلامی فوج میں شمولیت رکھتے تھے اور شریک کار رہتے تھے ۔
نیز بعض اہل تشیع مجتہدین کی تحقیق کے موافق تو سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کو ایک بیوی اسلامی فتوحات میں سے فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے ہی عطا کی تھی اور انہوں نے بخوشی قبول کی تھی۔ اسی محترمہ خاتون سے حضرت زین العابدین ؒ پیدا ہوئے ۔
اس واقعہ کے ذریعہ ثابت ہوا کہ :
خلافت فاروقی برحق تھی اور اس کے تمام معاملات درست تھے اسی لیے اس کے غنائم کو لینا شرعاً صحیح تھا ۔ حضرت علیؓاور ان کے صاحبزادے، فاروق اعظمؓسے اپنے تمام حقوق مالی وصول فرماتے تھے ۔ اور ان حضرات کا آپس میں کوئی سیاسی و مذہبی اختلاف ہرگز نہ تھا ۔ یہ تاریخی واقعات ان حقائق پر کھلے ہوئے گواہ ہیں۔
ہم نے یہ سارے حوالہ جات ‘ محقق العصر حضرت مولانا محمد نافع ؒ کی کتاب ’’رحماء بینھم ‘‘ سے لیے ہیں ۔ یہ کتاب اپنے موضوع پر ایک ایسی جامع ‘ مدلل اور مستند دستاویز ہے کہ اردو تو کیا ‘ عربی اور فارسی لٹریچر میں بھی اس کی کوئی مثال نہیں ملتی ۔
اللہ کریم ہم سب کو حضرات صحابہ کرام و اہلِ بیت عظام کی محبت و عقیدت کے ساتھ اُن کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے ۔(آمین ثم آمین)
٭…٭…٭
سود حرام ہے
کلمۂ حق ۔ مولانا محمد منصور احمد (شمارہ 514)
سپریم کورٹ فیصلہ دے یا نہ دے … حکومت نظر ثانی کی اپیل واپس لے یا نہ لے … کمرشل بینک باقی رہیں یا کنگال ہو جائیں … سود پرمبنی معیشت چلتی رہے یا تباہ و برباد ہو جائے …سود ی نظام کو مضبوط کرنے والاکوئی فرد ہو یا ادارہ… بہر صورت ، بہر حال سود حرام ہے اور حرام رہے گا ۔
سود کو حرام ہوئے چودہ سو برس گزر چکے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب ِ لا ریب (سورۃ البقرہ ، آیت نمبر ۲۷۵ تا ۲۸۱ ) میں اس کی ممانعت کا واضح اعلان فرما دیا… رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی دینی اور دنیاوی تباہ کاریوں کو تفصیل سے سمجھا دیا … پھر سود کی حرمت پر اعتراض اور سوال کیسا ؟
اسلام صدقہ اور خیرات کی حوصلہ افزائی کرتا ہے اور سُود خوری کی حوصلہ شکنی کرتا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ صدقہ اور خیرات سے انسانی معاشرے کے درمیان احسان ، پاکیزگی اور تعاون کا جذبہ پیدا ہوتا ہے ، جب کہ سُود ایسی لعنت ہے کہ اس سے انسانوں میں بخل ، گندگی ، نفس پرستی اور خود غرضی جیسی بیماریاں جنم لیتی ہیں ۔ قرآنِ مجید کی ان آیات مبارکہ میں سے پہلی آیت میں سود خور کے ساتھ آخرت میں جو کچھ ہو گا ، وہ بتایا گیا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں بھی اس کا حال خبطیوں (پاگلوں) جیسا ہوتا ہے ، ذہنی بے چینی ، قلبی اضطراب اور کاروباری پریشانیاں اس پر رات کی نیدن اور دن کا سکون حرام کر دیتی ہیں ، نہ حقوق اللہ کی ادائیگی کی فکر نہ حقوق العباد کا خیال ، بسا اوقات وہ خود اپنی ذات کو بھی بھول جاتا ہے ۔
دیوانگی اور خبطیت کا یہ منظر ہمیں ہر اس معاشرہ میں دکھائی دیتا ہے جس معاشرہ میں سود کی لعنت رچ بس جاتی ہے ، ایسے معاشرہ میں رہنے والے انسانوں کے اخلاق بگڑ جاتے ہیں ، ایمان تباہ ہو جاتا ہے اور سکون غارت ہو کر رہ جاتا ہے ایسے لوگ مالی خوشحالی کے باوجود بے چین رہتے ہیں وہ اپنی بے چینی کو جنسی آوارگی لھو ولعب اور گانے بجانے میں چھپانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن ان کی یہ کوشش کامیاب نہیں ہوتی ۔
سُود خوری ایک ایسا وائرس ہے جو انسان کے دل و دماغ میں داخل ہو کر اُسے ایک لالچی اور دوسروں انسانوں کی مجبوریوں سے نا جائز فائدہ اٹھانے والا بنا دیتا ہے۔ سُود خور بھی دیگر مجرموں کی طرح اپنے جرم کو چھپانے کے لیے طرح طرح کے جواز پیش کرتا ہے ، جن میں سے اُن کی ایک بات کو قرآنِ مجید میں بھی نقل کیا ہے اور آج کے سُود خور بھی یہی قیاس کرتے ہیں کہ خریدو فروخت بھی تو سُود کی طرح ہے ۔ جس طرح تجارت میں نفع حاصل کیا جاتا ہے ویسے ہی سُود میں بھی اپنی رقم کا نفع لیا جاتا ہے ۔
اللہ تعالیٰ نے ان کے قیاسِ فاسد کو رد کرتے ہوئے فرمایا کہ تم کیسے ان دونوں کو ایک ہی سمجھتے ہو ، دونوں کے مقاصد اور طریقہ کار میں زمین آسمان کا فرق ہے ۔ اللہ تعالیٰ جس چیز کو حلال کہتا ہے وہ یقینا انسانیت کی ضرورت ہو گی اس میں معاشرتی فوائد پوشیدہ ہوں گے اس میں بندوں کی مصلحتیں ہوں گی اور جس چیز کو وہ حرام کہتا ہے اس میں یقینا کوئی خباثت ، غلاظت اور مضرت مخفی ہو گی یہ الگ بات ہے کہ کم عقلی کی وجہ سے وہ مضرت اور خباثت کسی انسان کی سمجھ میں نہ آئے ۔
پھر یہ کہ بیع باہمی ضروریات کی تکمیل کے لیے ہوتی ہے اور سُود محض ایک مجبور انسان کی مجبوری سے فائدہ اٹھا کر لیا جاتا ہے ۔
تجارت سے سرمایہ گردش میں رہتا ہے اور سودی نظام سے سرمایہ چند ہاتھوں میں مرتکز ہو کر رہ جاتا ہے ۔
صاحب ِ تجارت ایک صاحب ِ حوصلہ اور خود دار انسان ہوتا ہے جو مارکیٹ کے اتار چڑھائو اور ہر قسم کے خطربات کا مقابلہ کرنے کی جرأت رکھتا ہے جبکہ سود خور بزدل اور سنگدل انسان ہوتا ہے جو شریک مسرت تو ہوتا ہے مگر شریک غم نہیں ہوتا ۔
تجارت ، مسابقت ، مقابلہ محنت کا ماحول پیدا کرتی ہے جبکہ سود مفت خوری ، نکما پن ، نفع اندوزی اور خود غرضی کا سبق سکھاتا ہے ۔
تجارتی ماحول سے مارکیٹ اپنی طبعی رفتار پر چلتی رہتی ہے جبکہ سودی نظام کے غلبہ سے مارکیٹ اپنی طبعی رفتار سے ہٹ جاتی ہے اور چند سرمایہ داروں کی زر خرید لونڈی بن کر رہ جاتی ہے ۔
تجارت میں جو نفع ہوتا ہے وہ کسی چیز کے بدلے میں ہوتا ہے جبکہ سود میں جو نفع ہوتا ہے وہ عوض سے خالی ہوتا ہے ۔
سُود خور شخص اور معاشرہ صرف اپنے فائدے پر نظر رکھتا ہے ۔ اگر اُس کے سامنے کوئی بھوک سے بلبلاتا رہے یا کوئی ضرورت مند گڑگڑاتا رہے ، اُس پر ان باتوں کا کوئی اثر نہیں ہوتا کیونکہ سُود خور کی سوچ یہ ہوتی ہے کہ سود سے سرمایہ بڑھتا ہے اور صدقہ سے گھٹتا ہے ، لیکن اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ تمہاری سوچ غلط ہے حقیقت تو یہ ہے کہ میں سُود کو مٹاتا اور گھٹاتا ہوں اور صدقات کو باقی رکھتا اور بڑھاتا ہوں مگر حرام کھانے کی وجہ سے یہ ایمانی حقیقت سود خور کی سمجھ میں نہیں آ سکتی … یہ گھٹنا اور بڑھنا کئی اعتبار سے ہوتا ہے ۔
سود خور کی تجوری اور اکائونٹ میں بے شمار سرمایہ جمع ہو گا لیکن ظاہری آنکھیں بند ہوتے ہی وہ دیکھ لے گا کہ اس کا آخرت کا اکائونٹ بالکل خالی ہے ، وہاں نیکی تو کوئی نہیں البتہ گناہوں کا انبار لگا ہوا ہے ، نفع بالکل نہیں ہے نقصان ہی نقصان ہی ، دوسری طرف صدقہ خیرات کرنے والے کے چند روپے اخلاص کی برکت سے لاکھوں کروڑوں نیکیوں میں تبدیل ہو چکے ہوں گے … گھٹنے اور بڑھنے کا منظر صاف دکھائی دے رہا ہو گا ۔
سود خور کے پاس پیسہ تو بہت ہوتا ہے لیکن اس میں برکت نہیں ہوتی ، نہ حقیقی خوشی ، نہ سکون ، نہ راحت ، نہ سُکھ کی نیند ، گھر میں فساد ، بیوی نافرمان ، اولاد سرکش ، وہ خود بہت ساری اخلاقی ، نفسیاتی اور اعصابی بیماریوں میں گرفتار ہو جاتا ہے وہ اللہ کا بھی مبغوض ہوتا ہے اور انسان بھی اس سے نفرت کرتے ہیں ، جبکہ صدقہ کرنے والے کے مال میں برکت ہوتی ہے ، یہ دعویٰ پورے وثوق سے کیا جا سکتا ہے کہ اعتدال کے ساتھ صدقہ کرنے والا کوئی شخص آج تک فقیر نہیں ہوا ، خیرات کی وجہ سے لوگوں کے مالوں کو بڑھتا ہوا تو ہر کوئی دیکھتا ہے گھٹتا ہوا کسی نے نہیں دیکھا ہو گا ، اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے اسے سکون کی لازوال دولت میسر آجاتی ہے ، صدقہ کے نورانی اثرات اس کے قلب ودماغ پر ، اس کے اہل وعیال پر اور اس کے کاروبار پر واضح طور پر دکھائی دیتے ہیں وہ اللہ کا بھی محبوب ہوتا ہے اور انسان بھی اس سے محبت کرتے ہیں ۔
یوں تو ہر کاروبار میں نفع کے ساتھ نقصان کا ہر وقت اندیشہ رہتا ہے لیکن ایسا نقصان بہت کم دیکھنے میں آتا ہے کہ کل آسمان پر تھا اور آج زمین پر آگِرا ، کل کروڑوں میں کھیل رہا تھا اور آج پائی پائی کا محتاج ہو گیا لیکن سٹہ جیسی سودی اسکیموں میں ایسے مناظر اکثر دیکھنے میں آتے ہیں کہ چند لمحوں میں کل کے امیر آج کے فقیر ہو جاتے ہیں ۔
سود کا مال بظاہر بڑھتا ضرور ہے لیکن اس کی بڑھوتری پائیدار نہیں ہوتی کبھی نہ کبھی اس پر آفت آکر رہتی ہے ۔ حضرت معمر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ہم نے بزرگوں سے سنا ہے کہ سود خور پر چالیس سال گزرنے نہیں پاتے کہ اس کے مال پر امحاق (گھاٹا ) آجاتا ہے
پاکستان میں رہنے والا کون شخص نہیں جانتا کہ ایک ایسی کمپنی جو قرآن کریم چھاپتی تھی اور اس کے مطبوعہ قرآن پوری دنیا میں خریدے اور پڑھے جاتے تھے اور اس کمپنی پر اعتماد کرتے ہوئے ہزاروں مسلمانوں نے اپنا سرمایہ اس میں لگا رکھا تھا وہ کمپنی جب سُود کے چکر میں پڑی تو دیوالیہ ہو کر رہ گئی اور نہ معلوم کتنے غرباء اور بیوائوں کا سرمایہ ڈوب گیا ۔
یہاں مجھے وہ واقعہ یاد آگیا جو استاذمحترم شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی زید مجدھم نے تحریر فرمایا ہے:
’’ حضرت والد (مفتی محمد شفیع عثمانی ؒ) صاحب نے بارہا یہ واقعہ سنایا کہ (غالباً فتنہ قادیانیت کے سلسلے میں) حضرت (مولانا محمد انورکشمیریؒ) شاہ صاحب لاہور تشریف لائے۔ حضرت علامہ شبیر احمد عثمانی ؒ بھی ہمراہ تھے اور میں بھی ساتھ تھا۔ اس زمانے میں مہر اور سالک (مرحوم) پنجاب کے مشہور صحافی اور اہل قلم مانے جاتے تھے۔ ان حضرات نے حضرت شاہ صاحبؒ اور علامہ عثمانی ؒ کی تشریف آوری پر اخبارات میں یہ سرخی لگائی کہ ’’لاہور میں علم و عرفان کی بارش‘‘ اور پھر ملاقات کے لئے حاضر ہوئے۔
اثناء گفتگو میں سود کا مسئلہ چل نکلا۔ مولانا سالک مرحوم نے حضرت علامہ عثمانی ؒسے یہ سوال کیا کہ موجودہ بنک انٹرسٹ کو سود قرار دینے کی کیا وجہ ہے۔ علامہ عثمانی ؒ نے ان کو جواب دیا مگر انہوںنے پھر کوئی سوال کرلیا، اس طرح سوال جواب کا یہ سلسلہ کچھ دراز ہوگیا۔ علامہ عثمانی ؒ قدس سرہ ہر بار مفصل جواب دیتے مگر وہ پھر کوئی اعتراض کردیتے۔ وہ اپنی گفتگو میں ان لوگوں کی وکالت کررہے تھے، جو یہ کہتے ہیں کہ اگر بنکوں کے سود کو علماء جائز قرار دیدیں تو مسلمانوں کے حق میں شاید مفید ہو۔ حضرت شاہ صاحبؒ مجلس میں تشریف فرما تھے۔ حضرتؒ کی عادت چونکہ یہ تھی کہ شدید ضرورت کے بغیر نہیں بولتے تھے۔ نہ اپنا علم جتانے کا معمول تھا۔ اس لئے علامہ عثمانی ؒ کی گفتگو کو کافی سمجھ کر خاموش بیٹھے تھے۔ لیکن جب یہ بحث لمبی ہونے لگی تو حضرت ؒ نے مداخلت کی اور بے تکلفی سے فرمایا:
’’دیکھو بھائی سالک! تم ہو سالک، میں ہوں مجذوب، میری بات کا برا نہ ماننا۔ بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا بنایا ہوا جہنم بہت وسیع ہے، اگر کسی شخص کا وہاں جانے کا ارادہ ہو تو اس میں کوئی تنگی نہیں ہے۔ ہم اس کو روکنے والے کون ہیں؟ ہاں البتہ اگر کوئی شخص ہماری گردن پر پائوں رکھ کر جہنم میں جانا چاہے گا تو ہم اس کی ٹانگ پکڑ لیں گے۔‘‘(اکابر دیوبند کیا تھے، ص۴۹)
یہ تو تھے سُود کے بارے میں قرآنی اور ایمانی حقائق لیکن پاکستانی حکومتیں اور عدالتیں سُود کے خاتمے کے لیے کتنی مخلص رہی ہیں اُس کا اندازہ اس سے لگائیں کہ بانیٔ پاکستان نے یکم جولائی ۱۹۴۸ء کو اسٹیٹ بنک آف پاکستان کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے واضح طور پر یہ کہا تھا :
’’ میں بنک کے تحقیقی شعبے کے کام کو ذاتی طور پر باریک بینی سے دیکھوں گا کہ وہ ایک ایسا بینکنگ نظام واضح کریں جو اسلام کے معاشرتی اور معاشی نظامِ زندگی کے ہم آہنگ ہو۔ مغرب کے معاشی نظامِ زندگی نے انسانیت کے لیے ناقابلِ حل مسائل پیدا کر دیے ہیں‘‘۔
پھر دسمبر ۱۹۶۹ء میں اسلامی مشاورتی کونسل نے ڈھاکہ میں منعقدہ اجلاس میں بنک کے قرضوں ، سیونگ سر ٹیفکیٹ ، پرائز بانڈ ، لائف انشورنس وغیرہ سب کو سُود قرار دیتے ہوئے ان کے خاتمے کے لیے عملی اقدامات کرنے کا کہا ۔ ۱۹۷۳ء میں پاکستان کے آئین کے آرٹیکل ۳۸ ( ایف ) کے مطابق بھی حکومت کو پابند کیا گیاہے کہ جس قدر جلد ممکن ہو سکے سُود کے خاتمے کے لیے عملی اقدامات اٹھائے جائیں ۔
لیکن جب ۱۹۸۱ء میں صدر محمد ضیاء الحق نے فیڈرل شریعت کورٹ قائم کی تو دس سال تک مالی معاملات کو اُس کے دائرہ اختیار سے باہر رکھا گیا تاکہ یہ عدالت سُود کے خلاف کوئی فیصلہ جاری نہ کر سکے ۔ پھر جب دس سال کی یہ طویل مدت ۱۹۹۱ء میں ختم ہوئی تو اسی عدالت کے جج ، جسٹس تنزیل الرحمن نے طویل سماعت کے بعد ۱۴؍نومبر ۱۹۹۱ء کو سُود کے خاتمے کا تاریخی فیصلہ دیا اور حکومت ِ وقت کو چھ ماہ کی مہلت دی گئی کہ وہ بنکوں سے سُودی معاملات کا خاتمہ کریں۔ اُس وقت بھی نواز شریف کی حکومت تھی ، جس نے سُودسے محبت اور دیوانگی کا ثبوت دیتے ہوئے سپریم کورٹ میں اس فیصلے کے خلاف اپیل دائر کر دی ، اور اس سے سُودی نظام کو مزید تحفظ مل گیا۔
اس کے بعد مختلف حکومتیں آتی اور جاتی رہیں ، جنہوں نے اس معاملے کو پسِ پشت ڈالے رکھا ۔ ۲۳؍دسمبر ۱۹۹۹ء کو سپریم کورٹ کے شریعت اپیلٹ بینچ نے اپنا تاریخی فیصلہ صادر کرتے ہوئے حکومت کو ۳۰ ؍ جون ۲۰۰۱ ء تک ہر قسم کے سُود کو ختم کرنے کا حکم دیا ۔بعد ازاں اکثر ججوں نے یہ مہلت ۳۰؍ جون ۲۰۰۲ء تک بڑھا دی اور یہ مہلت ختم ہونے سے پہلے ہی حکومت ِ وقت نے اس بینچ کے اہم ترین رکن حضرت مفتی محمد تقی عثمانی زید مجدھم کو اُن کے دو ٹوک موقف کی بناء پر معزول اور الگ کر دیا ۔ پھر حکومت کی ایماء پر ایک سُودی بنک نے اس فیصلے کے خلاف نظرِ ثانی کی اپیل دائر کی ۔ تب سے لے کر اب تک یہ معاملہ عدالتوں میں ایک مذاق بنا ہوا ہے ۔
سپریم کورٹ کے موجودہ بعض جج صاحبان نے اپنے غیر اسلامی اور غیر آئینی ریمارکس کے ذریعے سُودی نظام کو بے پناہ تقویت پہنچانے کے سنگین جرم کاارتکاب کیا ہے ۔اور مجموعی طور پر پاکستانی حکومتوں اور عدالتوں کا رویہ سُود کے بارے میں یہی ہے کہ ’’ جو تُو نہ چاہے تو بہانے ہزار ہیں‘‘۔لیکن مسلمان عوام کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ سُودی لین دین قطعاً حرام ہے اور اس کا مرتکب اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر میں بد ترین مجرم ہے ۔ اس لیے سُود سے بچنا ہر مسلمان کا لازمی مذہبی فریضہ ہے ۔
اللہ کریم ہم سب کو سُود کی نحوست سے محفوظ فرمائے اور ہمارے معاشرے کو بھی اس لعنت سے پاک فرمائے (آمین ثم آمین)
٭…٭…٭
منیٰ کا غم اور قندوز کی خوشی
کلمۂ حق ۔ مولانا محمد منصور احمد (شمارہ 513)
غم اور خوشی دونوں ہی انسانی زندگی کا لازمی حصہ ہیں ۔ یہ دنیا اسی دھوپ اور چھائوں سے مل کر بنی ہے ۔ اس کائنات میں کوئی شخص ایسا نہیں ‘ جسے اپنی زندگی میں ان دونوں سے واسطہ نہ پڑا ہو ۔ خواجۂ عزیز الحسن مجذوب ؒ نے کیا خوب فرمایا ہے:
یہاں ہر خوشی ہے مبدل بہ صد غم
جہاں شادیاں تھیں وہیں اب ہیں ماتم
یہ سب ہر طرف انقلاباتِ عالم
تری ذات ہی میں تغیر ہیں ہر دم
جگہ جی لگانے کی یہ دنیا نہیں ہے
یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے
ہاں ! خوش قسمت اور عقلمند ہے وہ انسان جسے غم میں صبر کی دولت مل جائے اور خوشی میں شکر کی نعمت نصیب ہو جائے ۔ اسی بات کو زبانِ نبوت نے اپنے پیارے انداز سے یوں ارشاد فرمایا :
عجبا لا مرالمؤمن ان امرہ کلہ لہ خیر ، و لیس ذلک لا حد الاللمؤمن :
ان اصابتہ سراء شکر فکان خیراً لہ ، و ان اصابتہ ضراء ُ صبر فکان خیراً لہ (صحیح مسلم)
( ایمان والے بندے کی حالت بھی عجیب ہے کہ اُس کیلئے ہر حال میں ہی بھلائی ہے ۔ اور یہ بات ایمان والے کے علاوہ کسی اور کیلئے نہیں ہے ۔ اگر ایمان والے کو کوئی خوشی ملتی ہے تو وہ شکر کرتا ہے ‘ جو اس کیلئے بھلائی ہے ۔ اور اگر اُسے کوئی تکلیف پہنچتی ہے توہ وہ صبر کرتا ہے‘ اُس کیلئے یہ بھی بھلائی ہے )۔
منیٰ کے نام سے تو ہر مسلمان ہی واقف ہے ۔ یہ وہ جگہ ہے اہلِ ایمان ، حج کے دوران سب سے زیادہ وقت کیلئے ٹھہرتے ہیں ۔ یہیں وہ تین ستون ہیں ، جنہیں کنکریاں ماری جاتی ہیں اور حج کے اس عمل کو ’’رمئی جمرات‘‘ کہا جاتا ہے ۔ پرانے حاجی حضرات بتاتے ہیں کہ کبھی یہ کنکریاں مارنا بڑا مشکل کام ہوتا تھا اور لوگ جب کنکریاں مارنے جاتے تو پہلے اپنے خیموں میں وصیت نامہ لکھ کر رکھ دیتے تھے کہ پتہ نہیں خود چل کر واپس آنا نصیب بھی ہو گا یا دوسروں کے کندوں پر سوار ہو کر آئیں گے ۔
گزشتہ کئی برسوں سے سعودی حکومت نے حج ادا کرنے والوں کیلئے جو بے مثال اور بہترین انتظامات کیے ، اُن کے نتیجے میں اب یہ کوئی خاص مشکل کام نہیں رہا ‘ جس کا مشاہدہ ہمیں بھی دورانِ حج ہوا ، لیکن چونکہ حج کرنے والوں کی تعداد لاکھوں میں ہوتی ہے اور یہ دنیا کا سب سے بڑا انسانی اجتماع ہوتا ہے ، اس لیے معمولی سی غفلت اور ذرا سی غلطی بھی بہت بڑے حادثے کا ذریعہ بن جاتی ہے ۔
اس سال حرم شریف میں پیش آنے والے کرین حادثے کی وجہ سے پہلے ہی اہلِ ایمان کے دل زخمی تھے ‘ جب منیٰ کا حادثہ پیش آیا تو فطری طور پر ہر مسلمان اس سے رنجیدہ ہوا ۔ ہر صاحب ایمان نے اس صدمے کی کسک اپنے دل میں محسوس کی اور صاف معلوم ہو رہا تھا کہ یہ کسی خاص قوم یا علاقے کا حادثہ نہیں بلکہ پوری امت مسلمہ کا مشترکہ غم ہے ۔
البتہ اس موقع پر بھی چند عاقبت نا اندیش ایسے افراد تھے ، جنہیں صاف لفظوں میں مسلمانوں کے اندر گھسی ہوئی’’ کالی بھیڑیں ‘‘ کہنا چاہیے ‘ انہوں نے اس حادثے سے سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کی اور اعلیٰ ترین حج کے انتظامات پر تنقید برائے تنقید شروع کر دی ۔ اس صورت حال سے مسلمانوں کے دلوں میں بجا طور پر یہ شبہ پیدا ہوا کہ یہ اتفاقی حادثہ نہیں تھا ، بلکہ ایک سوچی سمجھی سازش تھی ، جس کے تانے بانے اُس ملک میں بُنے گئے ‘ جو پوری دنیا میں اہل سنت کی دشمنی کیلئے مشہور و معروف ہے ۔ عراق، شام اور یمن میں اہلِ سنت پر سفاکانہ مظالم کے بعد اب ایران کی یہ خواہش کوئی راز نہیں کہ وہ سر زمینِ حرمین شریفین پر بھی فتنہ و فساد پھیلانا چاہتا ہے تاکہ مرکزِ اسلام پر اپنا ظالمانہ قبضہ جما سکے ۔ اللہ تعالیٰ دشمنانِ اسلام کے تمام منصوبوں کو خاک میں ملائے اور بلادِ حرمین شریفین سمیت تمام عالم اسلام کی حفاظت فرمائے۔(آمین ثم آمین) ۔
منیٰ حادثے کا غم ابھی تازہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اہلِ ایمان کو فتح قندوز کی خوشی دکھائی اور اُن کے زخمی دلوں پر مرہم رکھا ۔ امارت اسلامیہ کے جانبازوں کے بارے میں اب تو بالکل یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ اُن کے حالات سے صحیح طور پر آگاہ ہونے کے بعد دو ہی صورتیں ہیں :
لا یحبھم الا مؤمن ولا یبغضھم الا منافق
(ان سے محبت صرف ایمان والا ہی رکھے گا اور ان سے بغض و نفرت رکھنے والا صرف منافق ہی ہو گا)۔
قندوز ، شمالی افغانستان کا مشہور شہر ہے اور امارتِ اسلامیہ کے دور میں یہاں بڑے بڑے معرکے ہوئے ہیں۔ برادرِ عزیز مولانا محمد مقصود احمد شہید ؒ نے اپنے سفرنامہ ’’ خاک و خون ‘‘ میں وہاں پیش آنے والے کئی دلچسپ واقعات لکھے ہیں ۔ وہ اپنا ایک مشاہدہ یوں لکھتے ہیں :
’’قندوز کا ہوائی اڈہ محض تین چار سادہ سی عمارتوں پر مشتمل ہے اور ایک طویل و عریض پہاڑی سلسلے پر واقع ہے ۔ اس ہوائی اڈے کو روسیوں نے پہاڑوں کو ہموار کر کے تعمیر کیا تھا ار اپنی اسی خصوصیت کی بناء پر وہ افغانستان کے دوسرے ہوائی اڈوں سے منفرد حیثیت رکھتا ہے ۔
ہمارے قندوز آنے سے پہلے اس کی صورتحال کیا تھی ؟… ہمیں نہیں معلوم … لیکن ہم نے جب سے اس ہوائی اڈے کا استعمال دیکھا … تو اسے ایک خطرناک … مگر بہت ہی دلچسپ کھیل کے سوا کچھ نہ سمجھا ۔
جی ہاں! قندوز میں داخل ہونے کے کچھ دن بعد تک تو طالبان نے اس ہوائی اڈے کو بالکل استعمال نہ کیا ، لیکن جب دشمن شہر سے بہت دور ہو گیا تو طالبان کے طیارے کابل اور قندہار سے یہاں آنا شروع ہو گئے ۔ مگر کس انداز میں؟ … آئیے … اس کا نظارہ کرتے ہیں!
رات کی تاریکی میں کابل سے بذریعہ وائر لیس قندوز کی چھائونی میں اطلاع دی جاتی ہے کہ ایک عدد امدادی جنگی طیارہ قندوز کیلئے روانہ ہو گیا ہے ، لہٰذا اس کے استقبال کیلئے تیار ہو جائیں ۔ یہ اطلاع سنتے ہی طالبان کی ایک گاڑی ، جس میں کئی وائرلیس سیٹ موجود ہیں ، ہوائی اڈے کے احاطے میں آکر کھڑی ہو جاتی ہے … جی ہاں! … یہی گاڑی کنٹرول ٹاور ہے ، جس نے طیارہ کے قندوز پہنچتے ہی نیچے اترنے میں اس کی راہنمائی کرنی ہے ۔
پھر کچھ دیر بعد اچانک فضا میں گڑ گڑاہٹ کی آواز پیدا ہوتی ہے اور سب کی نظریں آسمان کی طرف اٹھ جاتی ہیں … لیکن یہ کیا ؟… آنے والا طیارہ طالبان کا نہیں ، بلکہ دشمن کا جنگی جہاد ہے ، جو اندھیرے میں دکھلائی تو نہیں دیتا ، مگر اس کے پھینکے ہوئے بم رن وے کے اوپر آکر گرتے ہیں اور رن وے میں کئی فٹ گہرے گڑھے پڑ جاتے ہیں ۔ یہ دیکھ کر طالبان آگے بڑھتے ہیں اور جلدی جلدی قریب سے کچھ مٹی اٹھا اٹھا کر ان گڑھوں کو بھر دیتے ہیں … اور پھر مٹی پر پانی چھڑک کر اوپر سے گاڑیاں چلاتے ہیں ، تاکہ مٹی ہموار ہو جائے اور رن وے دوبارہ تیار ہو جائے ۔ اتنی دیر میں پتہ چلتا ہے کہ کابل سے آنے والے والا طیارہ فضا میں پہنچ چکا ہے اور اس کا ’’کنٹرول ٹاور‘‘ سے رابطہ بھی ہو چکا ہے ۔
کنٹرول ٹاور سے طیارے کے پائلٹ کو ہدایات دی جاتی ہے کہ وہ طیارہ ہوائی اڈے کے اوپر لائے تو رن وے کی دونوں طرف وہ بلب تین مرتبہ جلائے ، بجھائے جائیں گے جنہیں روشنی کم کرنے کی غرض سے الٹے لوٹوں میں رکھا گیا ہے … مگر یہ بھی مسلسل نہیں جلائے جا سکتے ، کیونکہ خطرہ ہے کہ دشمن نشانہ لے کر بمباری نہ کر دے ۔
یہ ہدایات پاتے ہی طیارہ ہوائی اڈے کے اوپر آجاتا ہے اور رن وے کے دونوں طرف موجود مدہم سے بلب تین مرتبہ روشن ہوتے ہیں اور پھر بجھا دئیے جاتے ہیں … اور پھر کچھ ہی لمحوں بعد طالبان کا ’’خود کش ‘‘ طیارہ ، جس کی اپنی لائٹیں بھی بند ہیں … قندوز ہوائی اڈے کے کچے ، پکے رن وے پر اتر جاتا ہے ،مگر وقت اتنا کم ہے کہ طیارے کا انجن بند کیے بغیر ، اس سے گولہ بارود اتارا جاتا ہے اور زخمی و شہداء کو اس میں سوار کر کے طیارہ بمشکل دو تین سو میٹرز مین پر دوڑنے کے بعد فضا میں بلند ہو جاتا ہے اور پھر فضا میں کوئی چکر لگائے بغیر ناک کی سیدھ میں یوں کابل کی جانب روانہ ہو جاتا ہے جیسے بزبانِ حال کہتا جا رہا ہو… ’’ جان بچی سو لاکھوں پائے‘‘
قارئین ! ممکن ہے ، میرے اس بیان کو آپ مبالغہ آمیز سمجھیں ۔ لیکن میں نے تو خود کئی بار یہ نظارہ اپنی آنکھوںسے دیکھا ہے اور جب میں نے پاکستان کے ایک پائلٹ کو یہ ساری صورتحال بتلائی تو ان کا کہنا تھا کہ ہمارے ہاں کسی پائلٹ کو لاکھوں روپے کی پیشکش کی جائے ، تب بھی کوئی اندھیرے میں طیارہ اتارنے چڑھانے کا ایسا خطرہ مول لینے کو تیار نہ ہو گا ‘‘۔
یہ بات بالکل صحیح ہے کہ کسی بھی نعمت کی صحیح قدر وقیمت اس کے چھن جانے کے بعد محسوس ہوتی ہے۔ طالبان جب برسر اقتدار تھے تو مغربی حلقے اور ان کے تمام پیروکار شب وروز انہیں طعن وتشنیع اور دشنام طرازی کا نشانہ بناتے تھے۔ انہیں طالبان کا طرز حکومت ، ان کا مسلک و مشرب، ان کی پالیسیاں اور طریق کار بہت برا محسوس ہوتا تھا اور وہ مسلسل ان پر تنقید کرتے رہتے تھے، اور پھر ایسا ہوا کہ طالبان کی حکومت واقعی ختم ہوگئی۔ عین ان لوگوں کی مرضی اور خواہشات کے مطابق اب دنیا بھر کے عوام انتظار کر رہے تھے کہ دیکھئے کب افغانستان میں امن قائم ہوتا ہے، خوشحالی آتی ہے، آزادیٔ فرد ملتی ہے، حقوق نسواں بحال ہوتے ہیں، دہشت کی فضاء کا خاتمہ ہوتا ہے، طوائف الملوکی دم توڑتی ہے اورافغان عوام عالمی برادری کے ’’تعاون‘‘ سے امریکہ اور اقوام متحدہ کی زیر سرپرستی ترقی کا نیا سفر شروع کرتے ہیں؟
یہ تمنائیں، امیدیں اور سوالات بلاجواز اور بے بنیاد نہیں تھے، اس لیے کہ ان سب باتوں کا وعدہ طالبان حکومت کا خاتمہ کرنے والوں نے بڑے زور وشور کے ساتھ کیا تھا۔ یہ اور بات ہے کہ آج یہ وعدہ کرنے والے خود حیران وسرگرداں ہیں اور سوچ رہے ہیں کہ امن وسلامتی کی ان فاختاؤں کو جو ملا محمد عمر رحمۃ اللہ علیہ کے قندھار سے نکلتے دم فضاؤں میں گم ہوگئیں، کیونکر اور کیسے بلایا جائے؟
برطانیہ میں قائم عالمی نشریاتی ادارہ بی بی سی کسی بھی دور میں امارتِ اسلامیہ کا حامی نہیں رہا ، اُس نے ہمیشہ اُن پر تنقید کی اور انہیں اپنی مخالفت کا خاص ہدف بنائے رکھا، اسی لیے آج کل بھی اس ادارے کی جاری کردہ رپوٹوں میں امارتِ اسلامیہ کے خلاف تعصب جھلکتے ہوئے ہر شخص محسوس کر سکتا ہے ۔ یہ ادارہ بھول گیا کہ اس نے امارتِ اسلامیہ کے خاتمے کے کافی عرصے بعد ۷ ؍ اکتوبر ۲۰۰۳ء کو ’’ اور جنگ جیتو گے ‘‘ کے عنوان سے جو خصوصی تجزیہ پیش کیا تھا اُس میں یہ الفاظ بھی تھے :
’’ انسانی ہمدردی کا کام کرنے والی تنظیموں نے ایک سے زیادہ رپورٹوں میں دعویٰ کیا ہے کہ آج امریکہ کے زیر تسلط افغانستان میں عورتوں، لڑکیوں اور لڑکوں کی عصمت دری طالبان کے دور کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے، پوست کی کاشت ایک بار پھر بڑھ گئی ہے۔ایک بار پھر وہاں کی عوام نہ چاہتے ہوئے ایسی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں جہاں نہ ان کے سر پر چھت ہے نہ کھانے کو روٹی، جہاں دکانوں میں مجبوری بکتی ہے اور کھیتوں میں بارودی سرنگیں اُگتی ہیں۔ طالبان نے اپنے دور حکومت میں حقوق انسانی کو اکثر پامال کیا تھا، وہ عورتوں کی تعلیم ہو، گناہگار کو سزاد ینے کا معاملہ یا بدھا کے مجسمے کا قضیہ۔ وہ آج کی دنیا کو صدیوں پرانے طریقے سے چلانا چاہتے تھے، اس لیے ان کی ناکامی پر پوری دنیا نے اطمینان کا سانس لیا۔اب اس دنیا کو یہ بھی جاننا پڑے گا کہ ان جنگلیوں نے لوگوں کی جان ومال اور عزت کی رکھوالی بھی کی تھی۔ اور یہ بھی کہ امریکی ڈالر سے خریدے گئے افغان جنگجو سردار کل بھی قاتل اور لٹیرے تھے اور آج وزیر دفاع اور صوبائی گورنر بن کر بھی وہی ہیں۔ فرق ہے تو صرف اتنا کہ امریکی سیکشن افسروں کی اشیرباد سے بننے والے یہ اہلکار آج گلی سے کسی بھی عورت مرد یا بچے کو تاوان اور ہوس کیلئے اٹھالے جاسکتے ہیں، یہ جانتے ہوئے کہ ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوگی۔ افغان عورتوں کی تنظیم ’’روا‘‘ جس نے طالبان کے دور میں عورتوں کو دبائے جانے کی ہر کوشش کا بہادری سے مقابلہ کیا تھا، اب خوفزدہ ہے۔ تنظیم کی ایک اہلکار کا کہنا ہے کہ طالبان تو صرف خواتین کو گھر سے باہر نکلنے پر سختی کرتے تھے لیکن اب تو عورتوں کو اپنی جان اور عصمت گھر کی چار دیواری میں بھی خطرے میں نظر آتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جنگجو سرداروں نے غنڈے پال رکھے ہیں جو کسی کو بھی اٹھالے جاتے ہیں اور جب تک تاوان ادا نہیں ہوتا اس سے جبری مشقت لیتے ہیں۔ ’’فاتح‘‘ فوج آج بھی افغانستان میں ہے۔ ساڑھے گیارہ ہزار فوجی اور ہزاروں ٹن اسلحہ، لیکن یہ فوجی اپنا دفاع کریں یا ان کمزوروں کا؟ جدید ترین ہتھیاروں اور حفاظتی آلات سے لیس یہ فوجی دارالحکومت کابل کے اندر ہی دبک کر رہنے میں عافیت جانتے ہیں۔
کابل میں نئی عمارتیں بن رہی ہیں، شراب خانے کھل چکے ہیں، انواع واقسام کے کھانے باآسانی دستیاب ہیں اور فوجیوں کی بیویوں کیلئے شاپنگ کے ہزاروں مواقع بھی ہیں۔ لیکن کابل سے باہر کی دنیا آج بھی ان سورماؤں کیلئے خوف سے بھرپور ہے۔ اور یہ خوف کچھ ایسا بلا جواز بھی نہیں۔ اگر تاریخ کا کام صرف خود کو دہرانا ہی ہے تو افغانستان کے دور دراز علاقوں میں ظلم وزیادتی اور بڑھے گی اور اتنی زیادہ ہوجائے گی کہ ایک اور ملا عمر جنم لے گا، جو طالبان جیسی ایک اور ملیشیا بنائے گا اور ایک اور جہاد شروع ہوگا، ظالم سرداروں کے خلاف اور پھر ان کے امریکی سرپرستوں کے خلاف۔ کیا امریکہ وہ جنگ بھی جیتنا چاہے گا؟‘‘۔
بی بی سی جیسے متعصب نشریاتی ادارے کے ان اعترافات کے بعد تو اب مان لینا چاہیے کہ امارتِ اسلامیہ خوف و دہشت کی علامت نہیں بلکہ امید اور روشنی کی کرن ہے ۔
٭…٭…٭
کشکولِ قربانی
کلمۂ حق ۔ مولانا محمد منصور احمد (شمارہ 512)
عیدالاضحی کی قربانی کرنے سے پہلے آئیں ، ایک نظر قربانی کی تاریخ اور فضیلت پر ڈالتے ہیں ۔
سورۃ المائدہ کی آیت نمبر ۲۷؍کی تفسیر میں معروف مفسر امام ابن کثیرؒ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہماسے نقل کیا ہے کہ ہابیل نے ایک مینڈھے کی قربانی پیش کی اور قابیل نے اپنے کھیت کی پیداوار سے کچھ غلہ وغیرہ صدقہ کرکے قربانی پیش کی۔ قربانی کے قبول ہونے یا نہ ہونے کی پہچان گزشتہ انبیاء علیہم السلام کے زمانے میں یہ تھی کہ جس قربانی کو اللہ تعالیٰ قبول فرمالیتے تو ایک آگ آسمان سے آتی اور اس کو جلا دیتی تھی۔اسی طریقے کے مطابق آسمان سے آگ نازل ہوئی اور ہابیل کے مینڈھے کو کھالیا اور قابیل کی قربانی کو چھوڑ دیا۔ سورہ ٔ آل عمران کی آیت نمبر۱۸۳؍ میں اس بات کا ذکر صراحتاً آیا ہے۔
پھر امتِ محمدیہ(علیٰ صاحبہا الف الف صلاۃ و سلاما) پر حق تعالیٰ کا یہ خصوصی انعام ہوا کہ قربانی کا گوشت اور مال غنیمت اس کے لئے حلال کردیے گئے۔
قربانی کا سلسلہ انسانیت کے ہر دور میں کسی نہ کسی شکل میںچلتا رہا لیکن قربانی کی ایک خاص شان حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے واقعے سے شروع ہوتی ہے اور اسی کی یادگار کی حیثیت سے شریعتِ محمدیہ (علیٰ صاحبہا الف الف صلاۃ و سلاما) میں قربانی کو واجب قرار دیاگیا ہے۔ یہ واقعہ تاریخِ انسانیت کا ایک بے مثال اور سبق آموز واقعہ ہے۔ قرآن کریم نے اس واقعہ کو سورۃٔ صافّات کی آیت نمبر ۱۰۰تا ۱۱۰ ؍میں کچھ تفصیل کے ساتھ بیان فرمایا ہے۔ اسلام میں مسئلہ قربانی کی حقیقت کو سمجھنے کیلئے بنیاد یہی واقعہ ہے۔
قرآن کریم میں ارشاد ربّانی ہے:
(ترجمہ) ’’جب یہ بچہ اس قابل ہوگیا کہ باپ کے ساتھ چل کر ان کے کاموں میں مدد گار بن سکے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس سے کہا کہ میرے پیارے بیٹے! میں نے خواب میں یہ دیکھا کہ میں تجھے ذبح کررہا ہوں، بتائو اس میں تمہاری کیا رائے ہے؟‘‘
مطلب یہ تھا کہ انبیاء کا خواب بھی بحکم وحی ہوتا ہے، اس طرح خواب میں ذبح کرتے ہوئے دیکھنا حکمِ ذبح کے مترادف ہے۔ اب تم بتائو کہ کیا تم اس حکم خداوندی کی تعمیل کیلئے تیار ہو؟
حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام کو حکم خداوندی کے بعد کسی سے مشورہ لینے کی نہ ضرورت تھی اور نہ ان کے نزدیک تعمیل حکم اس پر موقوف تھی۔ لیکن یہاں صاحب زادے سے مشورہ لینے میں حکمت یہ تھی کہ اوّل تو ان کے عزم و ہمت اور اطاعتِ خداوندی کے جذبے کا امتحان ہو جائے، دوسرے اگر وہ اطاعت اختیار کریں تو مستحق ثواب ہوجائیں، کیونکہ ثواب کا مدار قصد و نیت پر ہے۔
تاریخی روایات کے مطابق اس وقت حضرت اسماعیل علیہ السلام کی عمر نو سال ہو چکی تھی۔ (روح البیان )
ان حالات نے حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی قربانی کو کتنا صبر آزما کردیا تھا، اس کا اندازہ لگانا بھی آسان نہیں۔ والد بزرگوار نے سعادت مند بیٹے سے مشورہ لیا تو وہ بھی خلیل اللہ علیہ السلام کے صاحب زادے تھے، والد بزرگوار کا خواب سن کر فرمایا:
(ترجمہ) ’’ابا جان! آپ وہ کام کر گزریں جس کا آپ کو حکم دیا گیا ہے، مجھے آپ انشاء اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔‘‘
یہاں جس طرح حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کے لئے بڑھاپے میں اکلوتے اور ہونہار بیٹے کو قربان کرنے کا حکم ایک انتہائی سخت امتحان تھا۔ اسی طرح صاحبزادے کے لئے اطاعت شعاری میں جان کی بازی لگا دینا بھی کوئی معمولی بات نہ تھی، مگر اللہ تعالیٰ نے اس پورے خاندان ہی کو اپنے لئے بنایا تھا، اسی کے آثار ظاہر ہوئے۔
یہاں حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کا جذبۂ اطاعت تو قابل دید ہے ہی، یہ بات بھی سبق آموز ہے کہ انہوں نے اپنے ارادے اور عزم و ہمت پر بھروسا نہیں کیا بلکہ اللہ کے سپرد کرکے’’ ان شاء اللہ‘‘ فرمایا اور پھر یہ نہیں کہا کہ میں صبر کروں گا بلکہ فرمایا کہ مجھے آپ صبر کرنے والوںمیں سے پائیں گے،یہ بھی تواضع کااظہار ہے کہ صبر و استقلال تنہا میرا کمال نہیں، اللہ کے ہزاروں بندے صابر ہیں، میں بھی ان میں داخل ہوجائوں گا، اسی تواضع کی برکت تھی کہ اس دشوار گزار منزل کے کسی مرحلے میں بھی ان کے قدم کو لغزش نہیں ہوئی اور یہ یگانۂ روزگار باپ اور بیٹے طبعی تقاضوں اور زندگی کی امنگوں کو کچلتے ہوئے اپنے آپ کو قربان کرنے اور کرانے کیلئے قربان گاہ کی طرف چل پڑے۔ خلیل اللہ علیہ السلام کیلئے جو کٹھن منزل سامنے تھی، فرمانبردار صاحب زادے کے اس جواب نے اس کو کسی قدر آسان کردیا، اب یہ یگانہ روزگار باپ اور بیٹے حکم خداوندی کی تعمیل کے لئے گھر سے چل کھڑے ہوئے۔
قرآن کریم میں ہے:
(ترجمہ) ’’جب باپ اور بیٹے اس عظیم قربانی کے لئے تیار ہوگئے اور باپ نے بیٹے کو قربان کرنے کے لئے چہرے کے بل کروٹ پر لٹادیا‘‘۔
اس طرح گرانے میں تواضع بھی تھی اور یہ حکمت بھی کہ اکلوتے بیٹے کا چہرہ سامنے آکر کہیں ہاتھ میں غیراختیاری لغزش نہ آجائے، بعض روایات میں ہے کہ خلیل اللہ علیہ السلام نے اپنے نزدیک ذبح کی تکمیل کے لئے پوری قوت سے چھری چلائی، لیکن قدرت خداوندی چھری کے عمل میں حائل ہوگئی۔ اسی حالت میں غیبی آواز نے انقلاب برپا کردیا:
(ترجمہ)’’ہم نے آواز دی کہ اے ابراہیم آپ نے خواب سچا کرد کھایا‘‘۔
اس کے ساتھ ہی ایک دنبہ حضرت اسمٰعیل کے بجائے قربانی کے لئے نازل کردیا گیا۔
’’ ہم نے اسمٰعیل علیہ السلام کا فدیہ ایک عظیم قربانی بنا دیا۔‘‘
اس کو عظیم اس لئے کہاگیا کہ اوّل تو یہ ایک عظیم الشان پیغمبر کا فدیہ تھا، دوسرے اس لئے کہ اس طرح کی قربانی کو قیامت تک جاری رکھنے کا قانون الٰہی بن گیا۔ (روح البیان)
حضرت ابراہیم علیہ السلام کا یہ سب سے زیادہ سخت اور غالباً آخری امتحان تھا، جس میں وہ کوہِ استقلال ثابت ہوئے، اس سے پہلے باپ کو اور اعزّہ و احباب کو وطن اور مکان کواور عظیم الشان مال و دولت کو اللہ کے لئے قربان کرچکے تھے اور خود ہی اپنی جان کو قربانی کیلئے پیش کرچکے تھے۔ اب لخت جگر، اکلوتے صاحب زادے کی قربانی میں انتہائی ثابت قدمی نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اس قول کو سچا کر دکھایا کہ میری موت اور حیات سب اللہ کے لئے ہے۔( ملخص از : کتب ِ تفسیر)
ہمارے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی سنت ابراہیمی کے سلسلے کو جاری رکھتے ہوئے ہجرت ِ مدینہ کے بعد ہر سال ، مسلسل دس سال تک قربانی فرمائی۔ ایک روایت میں ہے کہ …قربانی کے دن رسول اللہ انے سیاہی و سفیدی مائل سینگوں والے دو خصی مینڈھوں کی قربانی کی۔ جب آپ ا نے ان کا رخ قبلے کی طرف کردیا تو یہ دعا پڑھی:
اِنِّیْ وَجَّھْتُ وَجْہِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَالسَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ عَلٰی مِلَّۃِ اِبْرَاہِیْمَ حَنِیْفًا وَمَا اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیِنْ، اِنَّ صَلٰوتِیْ وَ نُسُکِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن، لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَبِذٰلِکَ اُمِرْتُ وَاَنَا مِنَ الْمُسْلِمِیْن
’’میں نے اپنا رخ اس اللہ کی طرف کرلیا جس نے زمین و آسمان کو پیدا کیا ہے، ابراہیم علیہ السلام کے طریقے پر، ہر طرف سے یکسو ہوکر اور میں شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں۔ میری نماز و عبادت، میری قربانی اور میرا جینا اور میرا مرنا اللہ رب العالمین کیلئے ہے۔اس کا کوئی شریک نہیں اور مجھے اسی کا حکم ہے اور میں حکم ماننے والوں میں سے ہوں۔‘‘
اے اللہ یہ قربانی تیری ہی توفیق سے ہے اور تیرے ہی واسطے ہے، محمد (ا) اور اس کی امت کی طرف سے۔بِسْمِ اﷲِ وَاﷲُ اَکْبَرُ
پھر آپ ا نے انہیں ذبح کردیا۔ (جابر بن عبد اللہؓ:ابو دائود۲؍۳۰)
ایک اور حدیث ِ پاک میں قربانی کی فضیلت کا اظہار یوں کیا گیا ہے کہ… رسول اللہا کے بعض اصحابؓ نے عرض کیا: یا رسولا ان قربانیوں کی کیا حقیقت اور کیا تاریخ ہے؟ آپ نے فرمایا یہ تمہارے (روحانی اور نسلی) مورث حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے (یعنی سب سے پہلے ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کا حکم دیا گیا اور وہ کیا کرتے تھے، ان کی اس سنت اور قربانی کے اس عمل کی پیروی کا حکم مجھ کو اور میری امت کو بھی دیا گیا ہے) ان صحابہؓ نے عرض کیا۔ پھر ہمارے لئے یا رسول اللہا ان قربانیوں میں کیا اجر ہے؟ آپا نے فرمایا: قربانی کے جانور کے ہر ہر بال کے عوض ایک نیکی۔ انہوں نے عرض کیا:۔ تو کیا اون کا بھی یا رسول اللہا یہی حساب ہے؟ (اس سوال کا مطلب تھا کہ بھیڑ، دنبہ، مینڈھا، اونٹ جیسے جانور جن کی کھال پر گائے، بیل یا بکری کی طرح کے بال نہیں ہوتے بلکہ اون ہوتا ہے، اور یقیناً ان میں سے ایک ایک جانور کی کھال پر لاکھوں یا کروڑوں بال ہوتے ہیں، تو کیا ان اون والے جانوروں کی قربانی کا ثواب بھی ہر بال کے عوض ایک نیکی کی شرح سے ملے گا؟) آپ نے فرمایا: ہاں! اون والے جانور کی قربانی کا اجر بھی اسی شرح اور اسی حساب سے ملے گا کہ اس کے بھی ہر بال کے عوض ایک نیکی۔ (مسند احمد، سنن ابن ماجۃ)
آخر میں دل کی گہرائیوں میں اترنے والا اور روح کی بلندیوں کو چھونے والا یہ واقعہ بھی پڑھتے جائیں:
مالک بن دینار رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ’’گرمی کا موسم تھا اور اتنی گرمی تھی کہ پرندے بھی درختوں کے سایہ میں چھپ کر بیٹھ گئے تھے۔ ہو کا عالم تھا، سورج آگ برسا رہا تھا، باہر کوئی ذی روح نظر نہیں آرہا تھا۔ اتنے میں مجھے کسی ضروری کام کی وجہ سے نکلنا پڑا۔ میں نے دیکھا کہ ایک نوجوان دونوں ٹانگوں سے معذور ہے۔ وہ زمین پر گھسٹتا آرہا ہے میں بہت حیران ہوا۔ قریب آیا تو میں نے دیکھا کہ اس کا چہرہ گرمی کی وجہ سے سرخ ہو چکا ہے۔ کپڑے پسینے میں شرابور تھے۔ میں نے سلام کیا۔ اس نے جواب دیا، تعارف ہوا پوچھا’’کہاں جارہے ہو؟‘‘ جواب دیا: ’’حج کیلئے‘‘… میں نے اس سے کہا میرے ہاں تھوڑا سا آرام کرلو جب عصر کے وقت گرمی ذرا کم ہو تو پھر چل پڑنا۔‘‘ وہ کہنے لگا ’’آپ تو پائوں سے چل سکتے ہیں سفر جلدی طے ہوتا ہے میں تو گھسٹ گھسٹ کر چل رہا ہوں مجھے زیادہ وقت لگتا ہے، مجھے ڈر ہے سفر لمبا ہے کہیں حج کے ایام نکل نہ جائیں۔ اس لئے میں راستے میں رک نہیں سکتا۔‘‘
میںنے کہا : اللہ کے بندے تم رک جائو ہم سواری کا بندوبست کردیتے ہیں۔ یہ سن کر نوجوان نے مجھے تیز نظروں سے دیکھا اور بولا: ’’مالک! میں تمہیں عقل مند سمجھتا تھا، آج پتا چلا کہ تم عقل سے بالکل عاری ہو‘‘ میں نے کہا: وہ کیسے؟
کہنے لگا تم بتائو اگر کسی غلام نے اپنے آقا کا جرم کیا ہو، نافرمانی کی ہو پھر سوچے کہ میں اپنے آقا کو منانے کیلئے جائوں۔ اب مجھے بتائو کہ اس غلام کے لئے سوار ہو کے جانا اچھا ہے یا پیدل؟ اپنے آقا کی خدمت میں تو عاجزی کے ساتھ پیش ہونا اچھا ہے۔ مالک بن دینارؒ فرماتے ہیں کہ مجھے اس کی بات نے حیران کردیا خیر وہ چلا گیا اور میں یہ بات بھول گیا۔
میں نے بھی اسی سال حج کیا اور جب شیطان کو کنکریاں مار کر واپس لوٹا، میں نے دیکھا، ایک جگہ مجمع ہے، میں نے پوچھا: ’’کیا بات ہے؟‘‘ لوگ کہنے لگے ایک نوجوان ہے اللہ سے دعائیں مانگ رہا ہے اور اس کی دعائیں ایسی عشق و محبت میں ڈوبی ہوئی ہیں کہ لوگ کھڑے سن رہے ہیں۔ میں نے کہا ’’ذرا مجھے بھی دیکھنے دو‘‘ میں آگے بڑھا تو میں نے دیکھا وہی نوجوان دعائیں کررہا ہے۔ اور کہہ رہا تھا:’’اے اللہ تیری مہربانیاں شامل حال ہوئیں، میں نے تیرے گھر کا طواف کیا حجر اسود کو بھی بوسہ دیا، میں نے مقام ابراہیم پر بھی سجدے کئے، غلاف کعبہ پکڑ کر دعائیں مانگیں وقوفِ عرفات میں حاضر ہوا، مزدلفہ میں بھی گیا، اے مالک! میں نے شیطان کو کنکریاں مار کر اپنی دشمنی اور نفرت کا اظہارکیا ، اے اللہ اب قربانی کا وقت آگیا ہے، یہ اردگرد سب مالدار لوگ کھڑے ہیں، یہ جائیں گے اور جانور قربان کریں گے اے مالک تو جانتا ہے میرے پاس احرام کے علاوہ کچھ نہیں۔ اے اللہ میں آج اپنی جان آپ کے نام پر قربان کرنا چاہتا ہوں، یا اللہ! میری قربانی قبول فرما لے ۔ ‘‘
مجمع کے سامنے اس نے یہ بات کہی کلمہ پڑھا اور اس کی روح پرواز کرگئی۔(سبحان اللہ)
اللہ کریم تمام مسلمانوں کی قربانیوں کو قبول فرمائے اور ہمیں اپنے دین کی سربلندی کے لیے جذبۂ قربانی عطا فرمائے ۔(آمین ثم آمین)
٭…٭…٭

لوگو! خوشی خوشی قربانی کرو
کلمۂ حق ۔ مولانا محمد منصور احمد (شمارہ 511)
قربانیوں کا موسم آپہنچا ہے اور اہل ایمان‘ اللہ تعالیٰ کی رضاء کیلئے قربانی پیش کرنے کی تیاریاں بڑے ذوق و شوق سے کر رہے ہیں اور ایسا کیوں نہ کریں کہ اُن کے کانوں میں تو اپنے آقا حضرت محمد مصطفی ﷺ کا یہ ارشاد مبارک گونج رہا ہے :
ما عمل ابن آدم من عمل یوم النحر احب الی اللہ من اھراق الدم وانہ لیاتی یوم القیمۃ بقرونھا واشعارھا واظلافھا وان الدم لیقع من اللہ بمکان قبل ان یقع بالارض فطیبوا بھا نفساً ( سنن الترمذی ، کتاب الاضاحی )
’’ یوم نحر یعنی عید الاضحی کے دن انسان کا کوئی عمل ‘ اللہ تعالیٰ کو قربانی سے زیادہ محبوب نہیں اور قربانی کا جانور قیامت کے دن اپنے سینگوں ‘ بالوں اور کھروں کے ساتھ آئے گا اور قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کی رضا اور مقبولیت کے مقام پر پہنچ جاتا ہے ۔ لہٰذا تم لوگ خوشی خوشی قربانی کیا کرو ۔‘‘
اس آخری جملے کو بار بار پڑھیں ’’ تم خوشی خوشی قربانی کیا کرو ‘‘ یہ کتنا میٹھا اور پیارا جملہ ہے ، بالکل ایسا لگتا ہے جیسے منہ میں مٹھائی آگئی ہو ۔
محبوب حقیقی جلّ شانہ کی بارگاہ میں قربانی پیش کرنا ، کتنا پیارا اور دلکش کام ہے ‘ یہ تو کسی محب صادق اور سچے عاشق سے پوچھیں ۔ مادی فلسفوں کے مارے ہوئے ، دل کے اندھے ، بے چارے اس کی لذت اور مزے کو کیا جانیں ۔ سچے عاشق کی تو یہ طلب اور تڑپ ہوتی ہے کہ کس طرح میں اپنا سب کچھ محبوب پر نثار کر دوں ‘ کس طرح میرا محبوب مجھ سے راضی ہو جائے چاہے اس کے بدلے مجھے اپنی جان ، اپنا مال اور اپنا سب کچھ ہی کیوں نہ قربان کرنے پڑے ۔ محب صادق کے دل سے تو ہمیشہ یہی صدا آتی ہے :
’’ نرخ بالا کن کہ ارزانی ہنوز ‘‘۔
( اپنی قیمت بڑھا دیں کہ ابھی تو محبت کا سودا سستا ہے)
آخر کیا بات تھی کہ دونوں جہانوں کے سردار ، ہمارے پیارے آقاﷺ یوں فرمایا کرتے تھے :
’’ قسم ہے اُس ذات کی ‘ جس کے قبضے میں میری جان ہے کہ میں یہ پسند کرتا ہوں کہ میں اللہ کے راستے میں قتل کر دیا جائوں ‘پھر زندہ کیا جائوں پھر قتل کیا جائوں ‘ پھر زندہ کیا جائوں پھر قتل کیا جائوں۔‘‘ ( صحیح البخاری )
یہ ہے سچی محبت اور حقیقی عشق کہ محبوب کی رضا کیلئے سب کچھ قربان کرنے کا شوق اور جذبہ پیدا ہو جائے ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اس محبت کا کوئی حصہ عطا فرما دیں تو زہے نصیب ۔
قربانی دینے والے ‘ وہ اپنی جان کی قربانی ہو یا اپنے جانور کی ، کس خوشی سے ، کسی مستی سے اور کیسے محبت سے جھوم جھوم کر قربانی پیش کرتے تھے ، اس کی ایک ایمان افروز مثال سیدنا حضرت عبداللہ بن جحش رضی اللہ عنہ دل کی گہرائیوں سے نکلنے والی دعا ہے ۔
مدینہ منورہ کے پڑوس میں اُحد کا میدان سجا ہوا ہے ۔ ایک طرف نبی الملاحمﷺ اپنے سات سو جاں نثاروں کے ساتھ کھڑے ہیں تو دوسری طرف ابو سفیان ( جو بعد میں سیدنا حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ بنے) اپنے لشکر کے ساتھ خیمہ زن ہے ‘ جس کی تعداد تین ہزار سے بھی متجاوز ہو رہی ہے ۔ اسلام اور کفر کا معرکہ برپا ہونے ہی والا ہے کہ اتنے میں حضرت عبداللہ بن جحش رضی اللہ عنہ اپنے ساتھی اور دوست حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کو کہتے ہیں : ’’ آئو سعد ! ہم دونوں اللہ تعالیٰ سے دعا مانگیں ۔‘‘
حضرت سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم دونوں کسی گوشہ میں سب سے علیحدہ ہو کر ایک طرف بیٹھ گئے ۔ پہلے میں نے دعا مانگی :’’ اے اللہ! آج میرا ایسے دشمن سے مقابلہ ہو جو نہایت شجاع اور دلیر اور نہایت غضبناک ہو۔ کچھ دیر میں اس کا مقابلہ کروں اور وہ میرا مقابلہ کرے۔ پھر اس کے بعد اے اللہ تعالیٰ! مجھے اس پر فتح نصیب فرما یہاں تک کہ میں اسے قتل کر دوں۔‘‘
حضرت عبداللہ بن جحش نے آمین کہی اور پھر انہوں نے یہ دعا مانگی :’’ اے اللہ آج میرا ایسے دشمن سے مقابلہ ہو جو بڑا ہی سخت زور آور اور غضب ناک ہو میں محض تیرے لیے اس سے قتال کروں اور وہ مجھ سے قتال کرے بالآخر وہ مجھے قتل کر دے اور میری ناک اور کان کاٹے اور اے پروردگار! جب میں تجھ سے ملوں اور تو پوچھے: اے عبداللہ! یہ تیرے ناک اور کان کہاں کٹے‘ تو میں عرض کروں اے اللہ! تیری اور تیرے پیغمبر کی راہ میں اور تو اس وقت یہ فرمائے تو نے سچ کہا۔‘‘
حضرت سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ان کی دعا میری دعا سے بہتر تھی اور میں نے شام کو دیکھا کہ ان کے ناک کان ایک دھاگے میں لٹکے ہوئے ہیں ۔ ( المستدرک، کتاب الجہاد )
اے ایمان والو ! قربانی دینے والے ایسے ہوتے ہیں اور یوں ذوق و شوق سے اپنے رب جلّ شانہ سے اپنی جانوں کے سودے کرتے ہیں ۔ قربانی کی تاریخ نامکمل رہے گی اور عشق و وفا کی داستانیں ناقص رہیں گی ، اگر ایک سچے عاشق کا تذکرہ نہ کیا جائے اور اُن کی بے مثال قربانی کا منظر نہ پیش کیا جائے ۔ یہ سیدنا حضرت خبیب رضی اللہ عنہ ہیں ۔ انہیں مشرکین مکہ نے دھوکے سے گرفتار کر لیا اور مکہ مکرمہ لے آئے ۔
کچھ عرصہ تک قید میں رکھنے کے بعد مشرکین مکہ ان کو حرم سے باہر لائے اور سولی پر لٹکانے کے وقت آخری خواہش پوچھی ؟ انہوں نے فرمایا مجھے اتنی مہلت دی جائے کہ میں دو رکعت نماز پڑھ لوں ۔ انہوں نے دو رکعتیں نہایت اطمینان سے پڑھیں اور پھر فرمایا:’’ اگر مجھے یہ خیال نہ ہوتا کہ تم لوگ یہ سمجھو گے کہ میں موت سے ڈر کی وجہ سے زیادہ دیر کر رہا ہوں تو میں اور لمبی نماز پڑھتا ۔‘‘
حضرت خبیب ؓ نے یہ ایک اچھا طریقہ جاری فرمایا کہ قتل کے وقت دو رکعتیں پڑھی جائیں ۔ اس کے بعد ہر مسلمان کے لئے یہ طریقہ مسنون ہو گیا ۔ اس کے بعد حضرت خبیبؓ نے یہ دعا کی کہ یا اللہ کوئی ایسا شخص موجود نہیں ہے جو میرا سلام تیرے رسول پاک ﷺ کو پہنچائے لہٰذا آپ سلام پہنچا دیجئے ۔ چنانچہ اسی دن حضرت جبرئیل علیہ السلام نے آپ ﷺ کو خبیب ؓ کا سلام پہنچا دیا ۔ آپ ﷺ نے فرمایا:
’’ وعلیک السلام یا خبیب ‘‘
آپ ﷺ نے حاضرین سے فرمایا کہ خبیب ؓ کو قریش نے قتل کر دیا ۔ قتل کے بعد چالیس دن تک سولی پر جسم کو لٹکائے رکھا ‘ زخموں سے خون جاری تھا جس سے مشک کی خوشبو آرہی تھی ۔
جب حضرت خبیب ؓ کو زندہ سولی پر لٹکایا گیا تو آپ نے کفار کے حق میں یہ بد دعا کی :
اللھم احصھم عدداً و اقتلھم بددا ولا تبق منھم احدا
( اے اللہ ! ان میں سے ہر ایک کو تو اپنے شمار میں رکھ اور ہر ایک کو الگ الگ قتل فرما اور ان میں سے کسی کو بھی نہ چھوڑنا)
حضرت خبیب ؓ کو سولی پر لٹکا کر جب نیزے سے ان کا بدن چھلنی کیا گیا تو اس وقت ان سے کافروں نے قسم دے کر پوچھا :’’ کیا تجھے یہ پسند ہے کہ تیری جگہ محمد(ﷺ) ہوں ‘‘۔
حضرت خبیب ؓ نے جواب دیا :’’ واللہ العظیم! مجھے یہ بھی گوارا نہیں ہے کہ چھوٹ جائوں اور اس کے بدلے میں میرے آقا (روحی فداہ صلی اللہ علیہ وسلم) کے مبارک قدم میں ایک کانٹا بھی چبھ جائے ۔‘‘
جب یہ عاشق صادق ‘ سولی پر چڑھا دئیے گئے اور کفار ان کے جسم مبارک کو نیزوں سے چھلنی کرنے کیلئے آگے بڑھے تو یہ خوشی سے جھومتے ہوئے یہ اشعار پڑھ رہے تھے :
فلست ابالی حین اقتل مسلما
علی ای شق کان للہ مصرعی
ذلک فی ذات الا لہ وان یشاء
یبارک علٰی اوصال شلو ممزعٖ
’’ جب میں مسلمان ہونے کی حالت میں قتل کیا جا رہا ہوں تو مجھے کیا پرواہ کہ میں اللہ تعالیٰ کی رضا کیلئے کس پہلو پر گر کر تڑپتا ہوں ۔ میری یہ (قربانی کی) حالت تو اللہ تعالیٰ کی ذات کیلئے ہے جو چاہے تو ٹکڑے ٹکڑے کیے ہوئے جسم کے حصوں میں بھی برکت دے دے ۔‘‘( صحیح البخاری ، کتاب الجہاد ، باب غزوۃ الرجیع۔الشفاء فی معرفۃحقوق المصطفیٰ)
اب تو ہمیں قربانی کی لذت اور سرشاری کا کچھ اندازہ ہو گیا ہو گا اور ہم سمجھ چکے ہوں گے کہ عید الاضحی کے موقع پر یہ جانور کیوں ہمارے ہاتھوں سے ذبح کروائے جاتے ہیں ۔ اس قربانی کا تو مقصد ہی یہ ہے کہ ہم خود جب جانور کی گردن پر چھری چلائیں تو ہماری زبان اور ہمارے دل پر یہی صدا جاری ہو :
ان صلاتی و نسکی و محیای و مماتی للّٰہ رب العالمین
’’ بے شک میری نماز اور میری تمام عبادتیں ، میرا جینا اور میرا مرنا سب اللہ تعالیٰ کیلئے ہی ہے ‘ جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے۔‘‘
اسی ایک جملے میں بندگی کے جذبے کا اظہار بھی ہے اور قربانی کے فلسفے کا بیان بھی ۔ یہی سیدنا حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کا وہ نظریہ تھا ، جس کی بناء پر اُن کی طرف سے کی گئی قربانی قیامت تک ، مادی فلسفے کے اندھیروں میں بھٹکنے والوں کیلئے مینارئہ نور اور نشانِ منزل بن گئی ۔
عید الاضحی کے انہی دنوں میں چند دانشور اٹھیں گے اور مسلمانوں کو قربانی اور روحِ قربانی سے محروم کرنے کیلئے یہ کہیں گے کہ قربانی کے بجائے غریبوں کی مدد کر دی جائے تو زیادہ بہتر ہے ۔ وہ یہ نہیں سوچتے کہ جو لوگ جانور بیچنے آتے ہیں کیا وہ غریب نہیں؟ جو لوگ عید کے دن محنت سے جانور ذبح کرتے ہیں ‘ کیا وہ غریب نہیں؟ جن سینکڑوں ‘ ہزاروں بلکہ لاکھوں لوگوں تک ان جانوروں کا گوشت پہنچتا ہے ‘ کیا وہ غریب نہیں؟ کیا یہ لاکھوں قربانیاں معیشت کا پہیہ گھما کر لاکھوں غریبوں کا بھلا نہیں کرتیں ۔
لیکن نہیں! انہیں غریبوں کی مدد سے کوئی غرض نہیں ، اگر انہیں غریبوں سے کوئی ہمدردی ہوتی تو یہ اپنی شادیوں میں فضول رسموں کو ختم کر کے غریبوں کی مدد کرتے۔ اگر انہیں فاقہ کش لوگوں کا تعاون کرنا ہوتا تو یہ اپنے بچوں کی سالگرہ کی دعوت کے پیسے انہیں دیتے ، یہ کسی بے روز گار کو عزت کے ساتھ روز گار دلا دیتے یا کسی مقروض کا قرضہ یوں چپکے سے ادا کر دیتے کہ ان کے بائیں ہاتھ کو بھی نہ پتہ چلتا کہ ان کے دائیں ہاتھ نے کیا خرچ کیا ہے ۔ لیکن نہیں یہ توصرف مسلمانوں کے دلوں سے قربانی کی محبت چھین لینا چاہتے ہیں ۔ یہ اہل ایمان کو رب کریم جلّ شانہ کے در پر قربانی ہونے کی لذت سے محروم کرنا چاہتے ہیں ۔ یہ اسلام کے ایک ایسے عظیم عمل کو مٹانا چاہتے ہیں‘ جسے ہجرت ِ مدینہ کے بعد ہمارے پیارے آقاﷺنے دس سال تک خود ہر سال سر انجام دیا اور سیدنا حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کو یہ وصیت بھی فرمائی کہ میرے بعد بھی میری طرف سے قربانی کرتے رہنا ۔( سنن الترمذی ، سنن ابی دائود)
ایک طرف رحمت ِ دو عالمﷺکا یہ حکم ہے ’’ تم خوشی خوشی قربانی کیا کرو ‘‘ اور دوسری طرف گمراہ دانشوروں کی بے سروپا اور بے روح باتیں ہیں ۔ بتائیں؟ آپ کس کی بات مانیں گے ؟؟؟
’’الرحمت ٹرسٹ‘‘ کے نمائندے ‘ آپ کی قربانی کو مزید قیمتی بنانے کیلئے ‘ زیادہ سے زیادہ نفلی قربانیوں کی ترغیب اور پیغام لے کر آپ کے پاس آئیں گے ‘ تب آپ نے بھی اس جملے کی لاج رکھنی ہے:
’’ لوگو! تم خوشی خوشی قربانی کیا کرو‘‘۔
٭…٭…٭
خبردار… ہوشیار !
کلمۂ حق ۔ مولانا محمد منصور احمد (شمارہ 510)
بہت سے لوگوں کی طرح میں بھی ایک عرصے تک یہی سمجھتا تھا کہ قادیانیت کا فتنہ کافی حد تک ختم ہو چکا ہے اور ہمارے اکابر نے اس فتنے کے خاتمے کیلئے جو کوششیں کی تھیں ، اُن کے نتیجے میں اب کم از کم قادیانی اس قابل نہیں رہے کہ وہ مسلمانوں کو گمراہ کر سکیں ۔ بالخصوص جب کہ آئین پاکستان کی رو سے بھی وہ اسلام سے خارج ‘ ایک غیر مسلم اقلیت قرار دئیے جا چکے ہیں اورامتناعِ قادیانیت آرڈیننس کے ذریعے مسلمانوں کی مذہبی نشانیوں کا استعمال بھی اُن کیلئے قانونی طور پر ممنوع قرار دیا جا چکا ہے ۔
لیکن سچی بات یہ ہے کہ انگریز کا خود کا شتہ پودا ، آج بھی اپنے برگ و بار لا رہا ہے اور عالمی کفریہ طاقتوں کی شہ پر ہر جگہ مسلمانوں کے خلاف برسرپیکار ہے ۔ حکومتی سطح پر یہ اپنے اثر ورسوخ کے ذریعے پاکستان میں نفاذِ اسلام کی ہر کوشش کو ناکام بناتے ہیں اور معاشرتی سطح پر یہ مسلمانوں کو دھوکہ دے کر اُنہیں اپنے جال میں پھنسانے کی کوشش کرتے ہیں ۔
تاج ختم نبوت کے ان باغیوں کا طریقۂ واردات اتنا مختلف ‘متنوع اور عجیب ہوتا ہے کہ اچھا خاصا انسان بھی چکر اکررہ جاتا ہے ۔ ایک دن میں معمول کے مطابق دارالافتاء میں مصروف تھا کہ ایک جاننے والے کا فون آیا ۔ وہ اکثر دینی مسائل میں راہنمائی کے سلسلے میں فون کیا کرتے ہیں ۔ میں نے فون اٹھایا تو انہوں نے آج عجیب و غریب سوال کیا ۔ وہ پوچھنے لگے کہ جناب! مسلمان لڑکی کا قادیانی لڑکے سے نکاح ہو سکتا ہے یا نہیں ؟ میں نے کہا ہر گز نہیں ۔ جیسے مسلمان لڑکی کا کسی ہندو یا سکھ سے نکاح نہیں ہو سکتا ‘ اسی طرح قادیانی سے بھی نہیں ہو سکتا ۔ ابھی میں اُن کے سوال پر حیرت زدہ تھا کہ بھلا یہ بھی کوئی پوچھنے والی بات ہے کہ اتنے میں خود انہوں نے ہی زور سے ’’انا للّٰہ وانا الیہ راجعون‘‘ پڑھا اور بتایا کہ وہ فلاں صاحب ‘ جو ہمارے دونوں کے مشترکہ دوست ہیں‘ اُن کے ساتھ یہ حادثہ پیش آچکا ہے ۔
اُنہیں اپنی بیٹی کیلئے رشتے کی تلاش تھی ۔ گھر میں دین داری بھی ہے اور دنیاداری بھی ۔ بڑا شہر اور بڑا کاروبار ہونے کے باوجود خاندانی اور اخلا قی روایات نہ صرف موجود ہیں بلکہ ہر موقع پر ان کو نبھایا بھی جاتا ہے ۔ اچانک کہیں سے رشتہ آیا ‘ بظاہر بہت با اخلاق ، ملنسار اور دینی ذہن رکھنے والے ۔ بات بات پر اللہ تعالیٰ اور اُس کے پاک رسول اللہﷺکے حوالے اور قرآن و حدیث کی باتیں ۔ انہیں بھی ایسے ہی رشتے کی تلاش تھی ۔ شادی ہو گئی لیکن انہیں پھر بھی کچھ پتہ نہ چلا۔ کئی ماہ بعد لڑکے نے باہر ملک شفٹ ہونے کیلئے کاغذات تیار کرنے شروع کیے تو ایک دن اپنی بیوی کے سامنے ایک کاغذ لا کر رکھا کہ اس پر دستخط کر دو ۔
نیک سیرت خاتون نے کاغذ پڑھا تو اُس پر اپنے قادیانی ہونے کا اقرار نامہ لکھا ہوا تھا ۔ اُس نے صاف انکار کر دیا کہ ’’ یہ تو کافر ہوتے ہیں‘‘ ۔ شوہر نے یہ سنا تو کہا کہ ہم تو پہلے سے قادیانی ہیں ۔ بیوی نے کہا کہ تم نے پہلے یہ کیوں نہ بتایا ۔ اُس نے کہا تم لوگوں نے کبھی اس بارے میں پوچھا ہی نہیں ۔ خاتون نے اسی وقت سارا سامان سمیٹا ۔ ہر قسم کی لالچ کو ٹھکرایا ‘ اُن کی ہر دھمکی کو پائوں کی ٹھوکر پر رکھا اور باپ کے گھر واپس آگئی ۔ یہ واقعہ تازہ ہے ‘ پرانا نہیں ۔ خود دیکھا بھالا ہے‘ سنا سنایا نہیں ۔ قادیانی بد بختوں نے اپنی اصلیت چھپا کر بڑی مہارت سے ایک مسلمان لڑکی کی زندگی تباہ کر دی ۔
اس لیے ہمیں یہ سوچ کر بے فکر نہیں ہونا چاہیے کہ قادیانی مسئلہ بالکل ختم ہو چکا ہے اور ’’ختم نبوت ‘‘ پر بات کرنے کی اب ضرورت باقی نہیں رہی ۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہماری معمولی سی غفلت ‘ نئی نسل کے ایمان یا زندگی کی تباہی کا ذریعہ نہ بن جائے ۔ ختم نبوت کا مسئلہ کفر اور اسلام کا مسئلہ ہے اور یہ سارے دین کی بنیاد ہے ۔ اس کا منکر’’ الف ‘‘سے لے کر ’’ی ‘‘ تک پورے کے پورے اسلام کا منکر ہے ۔ عقیدئہ ختم نبوت کے بارے میں چند دلائل ‘ اپنے اکابر ؒ کے ارشادات سے یہاں نقل کرتا ہوں تاکہ ہم اس عقیدے کو بصیرت سے سمجھ سکیں ۔
محمد ﷺ کو خاتم النبیین تسلیم کرنا ان الفاظ میں کہ آپ کے بعد کسی نبی اور رسول کی بعثت ہونی ہے اور نہ ہوگی قیامت تک عقلاً واجب و لازم ہے یہی جمہور اہل اسلام کا عقیدہ ہے جو خلفا عن سلف متوارث اور اجماعی ہے اس سے اختلاف کرنا امت محمدیہ کی مخالفت، عقل و خرد سے بغاوت اور فہم و فراست سے عداوت کے مترادف ہے۔
لیکن اس پیکر حق و صداقت عقیدے کی بنیاد صرف عقل و فہم پر قائم نہیں بلکہ قرآن مجید اور احادیث نبویہ نے صاف صاف اس کا اعلان و اظہار فرما دیا ہے اور اہل اسلام کے عقیدہ ختم نبوت کی حقیقی بنیاد یہی ہے آگے انکا تذکرہ ہوگا۔ مگر پہلے اس بات کو ایک بار پھر ذہن نشین کرلیجئے کہ اگر یہ تصریحات کلیۃً مفقود بھی ہوتیں تو ہم بحیثیت مسلمان محمد ﷺ کو خاتم النبیین ہی سمجھتے عقیدہ ختم ہی اسلامی عقیدہ رہتا اور اس کی مخالفت زیغ و ضلال میں داخل ہوتی۔ کیونکہ عقیدہ نہ علم کا محتاج ہے نہ عقل کا، عقیدہ تو بلا تامل اور بے چون و چراں دل سے قبول کرلینے کا نام ہے جیسے حضرت ابو بکرؓ نے ابو جہل سے سنا کہ حضور ﷺ فرماتے ہیں کہ میں آسمانوں سے پار گیا ہوں اور اللہ کی آیات کبریٰ دیکھ کر آیا ہوں ، تو بے دھڑک آپ نے تصدیقِ رسول کردی کہ محمدﷺ نے بلاشبہ سچ فرمایا ہے یہی عقیدہ ہے۔ اس کے برعکس ابو جہل عقل اور دلیل کا محتاج تھا اس لئے محتاج ہی رہا اور محتاج ہی مرا۔
ظاہری بات ہے کہ اگر محمدﷺکے بعد کسی نبی کی بعثت ہادی حقیقی کو منظور ہوتی تو اس کی اطلاع قرآن و حدیث میں تصریح اور وضاحت کے ساتھ کردی جاتی، قرآن و حدیث کا اس مضمون سے خالی ہونا اس بات کی قطعی و یقینی دلیل ہے کہ محمد رسول اللہ ﷺ خاتم النبیین اور آخری رسول ہیں اور آپ پر سلسلہ نبوت و رسالت کا خاتمہ ہو چکا ہے۔ تاریخ انبیاء پڑھ کر بھی پتہ چلتا ہے کہ ہر نبی نے اپنے بعد آنے والے نبی کی پیشین گوئی اور ان کی تصدیق و اتباع کی ہدایت فرمائی، انبیاء کا یہ عام قاعدہ ہے لیکن یہاں پر کوئی پیشین گوئی نہیں کہ میرے بعد نبی آئے گا قرآن اور صاحب قرآن کا یہ سکوت دلیل واضح ہے اس بات کی کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) پر باب نبوت بند ہو چکا اور اب آنحضرت ﷺ کے بعد قیامت تک کوئی نبی مبعوث نہیں ہو سکتا اجرائے سلسلہ نبوت کے متعلق سکوت ہی عقیدہ ختم نبوت کی صداقت کیلئے کافی تھا مگر ہم دیکھتے ہیں کہ سکوت پر اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ قرآن مجید اور حدیث نبوی نے واضح طور پر عقیدہ ختم نبوت کو بیان کرکے خاتم النبیین کے بعد کسی نبی کے مبعوث ہونے کی کلیۃ نفی کردی ہے۔
(۱)…آیت ختم نبوت
اس سلسلہ میں سب سے پہلے ہماری نظر مندرجہ ذیل آیت کریمہ پر جاتی ہے جو آیت ختم نبوت کے نام سے موسوم ہے:
(ترجمہ) ’’محمد (ﷺ) تم میں سے کسی مرد کے باپ نہیں بلکہ اللہ کے رسول اور خاتم النبیین (یعنی آخری نبی و رسول ہیں) اور اللہ ہر چیز کو جاننے والے ہیں۔‘‘(الاحزاب:۴۰)
یہ مقدس آیت اس باب میں نصِ قطعی اور برہان جلی ہے جو صراحت کے ساتھ رسول اللہ کو آخری نبی اور انبیاء کا ختم کرنے والا ظاہر کررہی ہے۔ آیت کا پہلا جز بتا رہا ہے کہ محمد رسول اللہﷺ کے کوئی اولاد نرینہ موجود نہیں یہ جز آیت کے دوسرے جز یعنی مضمون ختم نبوت کیلئے ایک دلیل کی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ ازمنہ سابقہ میں سلسلہ نبوت انبیاء کی اولاد میں جاری رہا۔ نبی کریمﷺ کے جب اولاد نرینہ نہیں تو سلسلہ نبوت کیسے جاری رہ سکتا ہے۔ گویا اولادِ نرینہ نہ رہنے میں یہ حکمت پوشیدہ ہے کہ آپ خاتم النبیین ہیں، آیت ختم نبوت آپ نے دیکھ لی اس مسئلے پر یہ نصِ جلی اور برہان روشن ہے لیکن قرآن مجید نے اس پر اکتفا نہیںفرمایا بلکہ اللہ رب العالمین نے اس عظیم الشان مضمون کو اپنی کتاب میں متعدد مقامات پر مختلف عنوانات سے واضح فرمایا۔ پیرایہ مختلف ہے مگر یہ مضمون ثابت اور روشن ہے۔
(۲)…آیت اظہار دین
سورۂ فتح میں ہے:
(ترجمہ) ’’اللہ کی ذات وہ ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور سچا دین دے کر بھیجا تاکہ اسے ہر دین پر غالب فرما دے اور اللہ کی گواہی کافی ہے۔‘‘(الفتح :۲۸ )
اس آیت میں ہر دین و ملت پر دین محمدی کا غلبہ بیان فرمایا گیا ہے اگر ہم فرض کریں کہ کوئی دوسرا نبی مبعوث ہوتا ہے تو اس کا ایک مستقل دین ہوگا اور وہ حق ہی ہوگا اس لئے کہ نبی بہرحال دین حق لے کر آئے گا اس صورت میں اس کے دین پر دین محمدی کے غلبہ کے کیا معنی ہوں گے یہ معنی تو اس پر چسپاں نہیں ہو سکتے اس مقام پر ختم نبوت کا مسئلہ سامنے آجاتا ہے اس حالت میں دین محمدی کے غلبہ کے یہی معنی ہو سکتے ہیں کہ اس کا دین بھی رائج نہیں ہو سکتا اور قرب رضائے الٰہی کی نعمت اس پر عمل کرنے سے حاصل نہیں ہو سکتی بلکہ رواج دین محمدی کو ہوگا اور یہی دین اللہ کے قرب اور ان کے رضا کے حصول کا تنہا ذریعہ رہے گا جب یہ صورت ہے تو دوسرے نبی کے مبعوث ہونے سے فائدہ ہی کیا ہو سکتا ہے جس کے معنی دوسرے الفاظ میں یہ ہیں کہ محمدﷺ پر نبوت ختم ہو چکی اور آنحضرتﷺ کے بعد کسی دوسرے نبی کی بعثت تاقیام قیامت قائم نہیں ہو سکتی وکفٰی باللّٰہ شہیدا کا جملہ اس مسئلہ کو اور بھی روشن کر دیتا ہے اللہ کی شہادت کے معنی کتاب اللہ کی شہادت کے ہیں یعنی قرآن مجید کا قیامت تک محفوظ رہنا اس بات کی برہان جلی ہے کہ صاحب کتاب کی بعثت کے بعد نہ کسی دوسرے نبی کی بعثت ہوگی نہ اس کی ضرورت اس لئے کہ اس کتاب کی ہدایت دائمی و ابدی ہے۔
(۳)…آیت اکمال دین
اس سے مندرجہ ذیل آیت مقدسہ کی طرف اشارہ مقصود ہے:
(ترجمہ) ’’آج کے دن میں نے تمہارے لئے تمہارا دین کامل کردیا اور تم پر اپنی نعمت تمام کردی اور تمہارے لئے دین اسلام پسند کرلیا۔‘‘(المائدہ: ۳)
اس آیت میں زمانہ نزول آیت سے لے کر قیامت تک آنے والی پوری امت کو خطاب کیا جارہا ہے اور یہ مژدہ سنایا جارہاہے کہ ہم نے تمہیںایک ایسا دین عطا فرمایا ہے جس کی مدت محدود نہیں بلکہ عمر عالم کی آخری ساعت تک یہ تمہاری ہدایت اور تمہاری اخروی و دنیاوی مصالح و فلاح کیلئے بالکل کافی وشافی ہے یہ ایک سدا بہار چمن ہے جس میں خزاں کا گزر بھی نہیں ہو سکتا اس میں ترمیم و تنسیخ کی گنجائش کبھی نہیں نکل سکتی اس دین کے کامل ہوتے ہوئے کسی دوسرے دین کی ضرورت بلکہ گنجائش ہی کہاں رہتی ہے جب دین کی ضرورت نہیں تو نبی کی کیا ضرورت گویا تکمیل دین کے معنی یہ ہیں کہ نبوت و رسالت محمدﷺ پر ختم ہوگئی اور آنحضرت ﷺ کے بعد قیامت تک کسی نبی و رسول کی بعثت نہیں ہو سکتی۔
اتممت علیکم نعمتی کا فقرہ بھی ختم نبوت کو روشن کررہا ہے کہ عطاء نعمت کی جو آخری حد بنی نوع انسان کیلئے مقرر تھی ختم ہوچکی اور اس آخری اور مکمل ترین اور اعلیٰ ترین نعمت سے امت محمدیہ کو نوازا جاچکا ہے اب نعمت کا کوئی ایسا درجہ باقی نہیں رہا جو اور کسی کو دیا جائے۔ آیت کے دونوں جز اس حقیقت کا اعلان کررہے ہیں کہ حضور خاتم النبیین ہیں اور آپ کے بعد کسی نبی کی بعثت الی یوم القیام ناممکن ہے۔
حدیث کی روشنی میں
ختم نبوت کا عقیدہ قرآن کی طرح حدیث میں بھی موجود ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: میری مثال اور مجھ سے پہلے انبیاء کی مثال ایسی ہے جیسے کسی شخص نے مکان بنایا اور اسے خوب سنوارا لیکن ایک گوشہ میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی لوگ اس میں گھومنے پھرنے لگے اور اسکی خوبی پر تعجب کرنے لگے یہ اینٹ کیوں نہ لگا دی گئی رسول اللہ نے فرمایا کہ میں وہ (آخری) اینٹ ہوں اور میں خاتم النبیین ہوں۔(صحیح مسلم)
دوسری حدیث میں فرمایا:
حضرت جبیر بن معطم ؓسے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ میں محمد ہوں اور احمد ہوں، میں ماحی ہوں، یعنی اللہ میرے ذریعہ سے کفر کو مٹا دیں گے اور میں عاقب ہوں اور عاقب اسے کہتے ہیں جس کے بعد کوئی نبی نہ ہو۔(صحیح مسلم) (یعنی میرے بعد کوئی نبی مبعوث نہ ہوگا)
اجماع امت
کتاب و سنت کے بعد اجماع امت بھی ایک قوی دلیل ہے جب اس پر نظرکی جائے تو یہ بات روشن ہو جاتی ہے کہ صحابہ سے لے کر اس وقت تک ہمیشہ پوری امت کا اجماع اس بات پر رہا ہے کہ محمد اللہ کے آخری نبی ہیں اور آنحضور کے بعد قیامت تک کسی نبی کی بعثت نہیں ہو سکتی علامہ ابن حجر مکی اپنے فتویٰ میں تحریر فرماتے ہیں جو شخص محمدﷺ کے بعد وحی کا عقیدہ رکھے وہ باجماع مسلمین کافر کہا جائے گا۔
اسی طرح ملا علی قاری شرح فقہ اکبر میں ارشاد فرماتے ہیں:نبوت کا دعویٰ ہمارے نبی کریمﷺ کے بعد باجماع کفر ہے۔
آیات و احادیث اور اجماع ان سب دلائل شرعیہ کی روشنی میں یہ بات بالکل قطعی و یقینی طریقہ سے آفتاب نفس النہار کی طرح واضح ہوگئی ہے کہ سید المرسلین خاتم النبیین ہیں اور آپ کے بعد کسی نبی کی بعثت ہوئی ہے نہ قیامت تک ہوگی جو شخص اس کا انکار کرتا ہے یا اس میں شک کرتا ہے وہ یقینا اسلام سے خارج اور زمرہ مسلمین سے باہر ہے جن لوگوں نے آنحضور ﷺ کے بعد نبوت و رسالت کا دعویٰ کیا یا جو آئندہ اس قسم کا دعویٰ کریں خواہ وہ اپنے باطل دعوے پر ظلی و بروزی نبوت کی خانہ ساز اصطلاح کا پردہ ڈالیں یا اصلی نبوت کے مدعی بنیں، دونوں صورتوں میں وہ کذاب، کافر، مرتد، خارج از اسلام قرار دیئے جائیں گے اور دشمنانِ مبین کے زمرہ میں داخل ہونگے آخرت میں ان کے لئے ابد الآباد کی جہنم کے سوا اور کوئی ٹھکانہ نہیں جیسے تاریخ میںمسیلمہ کذاب کا نام آتا ہے اور زمانہ قریب میں مرزا غلام احمد قادیانی ایسے لوگوں کا کافر، مرتد اور کذاب ہونا بالکل قطعی اور یقینی ہے اس میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں۔
جو آیتیں اور حدیثیں نقل کی گئی ہیں ان کے علاوہ بکثرت آیات و احادیث ہیں جو امت مسلمہ کے اس اجماعی اور متفقہ عقیدے کو روزِ روشن کی طرح ثابت کررہی ہیں جیسا کہ آنحضرتﷺ کی حدیث ہے کہ میرے بعد اگر نبی آنے والا ہوتا تو عمرؓ ہوتے۔ لیکن ہم اسی پر اکتفا کرتے ہیں کہ طالب حق کیلئے اسی قدر بہت کافی ہے۔
اللہ تعالیٰ قادیانی جعل سازوں سے پوری امت مسلمہ کی حفاظت فرمائے اور ہمیں غیرت دینی اور حمیت ِ اسلامی سے مالا مال فرمائے ۔ (آمین ثم آمین)
٭…٭…٭
زائرینِ حرم کے نام ایک پیغام
کلمۂ حق ۔ مولانا محمد منصور احمد (شمارہ 509)
سب سے پہلے تو وہ حضرات اور خواتین قابل ِ مبارک باد ہیں جنہیں اللہ جل شانہ نے اپنے فضل و کرم سے اس سال حج بیت اللہ اور زیارت ِ روضہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سعادت کیلئے منتخب فرمایا ہے ۔ان میں سے بہت سے تو اپنی منزل پر پہنچ چکے ہیں اور بہت سے جلد ہی حرمین ِ شریفین پہنچ کر اپنی آنکھوں سے بیت اللہ کا دیدار کریں گے اور اپنے قدموں سے بیت اللہ کا طواف کریں گے ، اسی طرح روضۂ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر حاضر ہو کر درود و سلام پیش کرنے کی سعادت حاصل کریں گے ۔
یہ وہ سعادت ہے جو اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل و کرم سے عطا فرمائی ہے ، اس پر اللہ تعالیٰ کا جتنا شکر ادا کریں کم ہے ، وہاں کی حاضری بغیر اللہ کے خاص فضل کے کسی کو نصیب نہیں ہو سکتی ، خواہ و کتنا ہی صاحب ِ ثروت اور باوسائل کیوں نہ ہو ۔
جو لوگ یوں سمجھتے ہیں کہ ہمارے پاس مال و دولت اور تعلقات و وسائل ہیں ، جب چاہیں گے حج کر آئیں گے ، یہ ان کی خام خیالی ہے ۔ وہاں کی حاضری صرف اس کو نصیب ہوتی ہے جس کا وہاں سے بلاوا آتا ہے ، اس کے بغیر وہاں کوئی قدم بھی نہیں رکھ سکتا ، اور یہ فیصلہ بہت پہلے ہو چکا ہے کے کس کو وہاں بلانا ہے اور کس کو نہیں بلانا ۔
اگر صرف مال و دولت اور تعلقات و وسائل کے بل بوتے پر حج ہوا کرتا تو ایک غریب و نادار اور بے وسیلہ آدمی کبھی حج نہ کر پاتا ۔ آپ کو بہت سے دولت مند ایسے ملیں گے جن کو خود بھی اپنی دولت کا اندازہ نہیں کہ کتنی ہے ، ہر سال لندن اور پیرس کے چکر لگاتے ہیں ، دنیا بھر میں گھومتے پھرتے ہیں ، لیکن جب اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے حرمین شریفین کی حاضری مقدر نہیں فرمائی تو زندگی میں ایک بار بھی ان کو وہاں جانا نصیب نہیں ہوتا ۔ اور بہت سے ایسے فاقہ مست ، قلندر منش ، بے سہارا جن کے بارے میں تصور بھی نہیں ہو سکتا تھا کہ وہ وہاں پہنچ سکتے ہیں ، لیکن اللہ تعالیٰ کے یہاں ان کی حاضری کا فیصلہ ہو چکا ہو تو وہ بیت اللہ کا طواف کرتے ہوئے نظر آئیں گے ۔
بعض روایات میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے خلیل سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو حکم دیا کہ آپ اُن بنیادوں پر تعمیر نو کریں جن پر ایک روایت کے مطابق سب سے پہلے سیدنا آدم علیہ السلام نے بیت اللہ کو تعمیر کیا تھا ، اور پھر طوفان نوح میں بیت اللہ کو اٹھا لیا گیا تھا یا منہدم ہو گیا تھا
چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے صاحبزادے حضرت اسماعیل علیہ السلام کے ساتھ مل کر اسی جگہ دوبارہ بیت اللہ کی تعمیر فرمائی جس کا قرآن حکیم میں ذکر ہے :
واذ یرفع ابراہیم القواعد من البیت واسمعیل ربنا تقبل منا انک انت السمیع العلیم ( سورۃ بقرہ ، آیت ۱۲۷)
بیت اللہ کی تعمیر نو کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حکم دیا کہ اب آپ کھڑے ہو کر آواز دیں کہ اے لوگو ! اللہ کا گھر بن کر تیار ہو گیا ہے ، اس کی زیارت اور حج کے لیے آئو ۔ ابراہیم علیہ السلام نے عرض کیا اے مولائے کریم ! میری آواز پہنچے گی کہاں تک ؟ حق تعالیٰ نے فرمایا : میرے خلیل ! آواز دینا آپ کا کام ہے اور اسے اپنی مخلوق کے کان تک پہنچانا میرا کام ہے ۔ آپ آواز دیجئے ۔ چنانچہ روایت میں ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ایک چٹان پر کھڑے ہو کر جب یہ آواز دی کہ اے لوگو ! اللہ کا گھر تیار ہو گیا ہے اس کی زیارت اور حج کے لئے پہنچو، تو اللہ تعالیٰ نے ان کی یہ آواز روئے زمین کے تمام لوگوں کے کانوں تک پہنچائی اور جو بچے شکم مادر میں تھے ، ان کے کانوں تک اور جو روحیں عالمِ ارواح میں تھی ان کے کانوں تک پہنچائی ۔اس آواز کو سن کر جس نے ایک بار لبیک کہاں اور اس کو ایک حج نصیب ہو گا جس نے دوبار لبیک کہا تھا اسے دو حج اور جس نے دس بار لبیک کہا تھا اسے دس حج نصیب ہوں گے ۔ جس نے جتنی بار لبیک کہا تھا اس کو اتنے ہی حج نصیب ہوں گے ۔
جب اللہ تعالیٰ نے یہ عظیم سعادت عطا فرما دی ہے تو اسے پورے آداب کے ساتھ ادا کرنا چاہیے ۔ کہیں ہماری غفلت سے ایسا نہ ہو کہ ہمارا یہ عظیم سفر ’’ نیکی برباد اور گناہ لازم‘‘ کا مصداق بن جائے ۔ اس سلسلے میں تاریخِ اسلام کا یہ سبق آموز واقعہ دل کی نگاہ سے پڑھنے کے قابل ہے:
شیخ المشائخ قطب دوران حضرت شبلی قدس سرہ کے ایک مرید حج کرکے واپس آئے تو حضرتؒ نے ان سے سوالات پوچھے۔ وہ فرماتے ہیں ’’مجھ سے حضرتؒ نے دریافت فرمایا کہ تم نے حج کا ارادہ اور عزم کیا تھا؟ میں نے عرض کیا کہ جی پختہ قصد حج کا تھا۔ حضرتؒ نے فرمایا کہ اس کے ساتھ ان تمام ارادوں کو ایک دم چھوڑنے کا عہد کرلیا تھا جو پیدا ہونے کے بعد سے آج تک حج کی شان کے خلاف کئے؟۔ میں نے کہا، یہ عہد تو نہیں کیا تھا۔ آپ نے فرمایا کہ پھر حج کا عہد بھی نہیں کیا۔
٭…حضرتؒ نے فرمایا کہ احرام کے وقت بدن کے کپڑے جدا کردئیے تھے؟ میں نے عرض کیا جی بالکل جدا کردئیے تھے۔ حضرت ؒ نے فرمایا، اس وقت اللہ کے سوا ہر چیز کو اپنے سے جدا کردیا تھا؟ میں نے عرض کیا ایسا تو نہیںہوا۔ حضرتؒ نے فرمایا، تو پھر کپڑے جدا کئے ہی نہیں۔
٭…حضرتؒ نے فرمایا، وضو اور غسل سے طہارت حاصل کی تھی؟ میں نے عرض کیا جی ہاں بالکل صاف ہوگیا تھا۔ حضرتؒ نے فرمایا: اس وقت ہر قسم کی گندگی اور لغزش سے پاکی حاصل ہوگئی تھی؟ میں نے عرض کیا یہ تو نہیں ہوئی تھی۔ حضرتؒ نے فرمایا، پھر پاکی ہی کیا حاصل ہوئی۔
٭…پھر حضرتؒ نے فرمایا، لبیک پڑھا تھا؟ میں نے عرض کیا جی ہاں لبیک پڑھا تھا۔ حضرت نے فرمایا کہ اللہ جل شانہٗ کی طرف سے لبیک کا جواب ملا تھا؟ میںنے عرض کیا، مجھے تو کوئی جواب نہیں ملا۔ حضرتؒ نے فرمایا کہ پھرلبیک پڑھا کہاں۔
٭…پھر فرمایا کہ حرم محترم میں داخل ہوئے تھے؟ میں نے عرض کیا کہ داخل ہوا تھا۔ فرمایا، اس وقت ہر حرام چیز کے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ترک کا عزم کر لیا تھا؟ میں نے کہا، یہ تو میں نے نہیں کیا۔ فرمایا کہ پھر حرم میں بھی داخل نہیںہوئے۔
٭…پھر فرمایا کہ مکہ کی زیارت کی تھی؟ میںنے عرض کیا، جی زیارت کی تھی۔ فرمایا، اس وقت دوسرے عالم کی زیارت نصیب ہوئی؟ میں نے عرض کیا اُس عالم کی تو کوئی چیز نظر نہیں آئی۔ فرمایا، پھر مکہ کی بھی زیارت نہیںہوئی۔
٭…پھر فرمایا کہ مسجد حرام میں داخل ہوئے تھے؟ میں نے عرض کیا کہ داخل ہوا تھا۔ فرمایا کہ اس وقت حق تعالیٰ شانہٗ کے قرب میں داخلہ محسوس ہوا تھا؟ میں نے عرض کیا کہ مجھے تو محسوس نہیں ہوا۔ فرمایا کہ تب تو مسجد میں داخلہ نہیں ہوا۔
٭…پھر فرمایا کہ کعبہ شریف کی زیارت کی تھی؟ میں نے عرض کیا کہ زیارت کی تھی۔ فرمایا کہ وہ چیز نظر آئی جس کی وجہ سے کعبہ کا سفر اختیار کیا جاتا ہے۔ میں نے عرض کیا کہ مجھے تو نظر نہیں آئی۔ فرمایا، پھر تو نے کعبہ شریف کو نہیںدیکھا۔
٭…پھر فرمایا کہ طواف میں رمل کیا تھا(پہلوانوں کی طرح اکڑ کر چلنا)۔ میں نے عرض کیا، جی ہاں کیا تھا۔ فرمایا کہ بھاگنے میں دنیا سے ایسے بھاگے تھے جس سے تم نے محسوس کیا ہو کہ تم دنیا سے بالکل یکسو ہو چکے ہو۔ میں نے عرض کیا کہ نہیں محسوس ہوا۔ فرمایا کہ پھر تم نے رمل بھی نہیں کیا۔
٭…پھر فرمایا کہ حجر اسود پر ہاتھ رکھ کر اس کو بوسہ دیا تھا؟ میں نے عرض کیا جی ایسا کیا تھا۔ تو حضرتؒ نے خوف زدہ ہو کر ایک آہ کھینچی اور فرمایا تیرا ناس ہو…
خبر بھی ہے کہ جو حجر اسود پر ہاتھ رکھے وہ گویا اللہ جل شانہٗ سے مصافحہ کرتا ہے اور جس سے حق سبحانہ و تقدس مصافحہ کریں وہ ہر طرح سے امن میں ہوجاتا ہے تو کیا تجھ پر امن کے آثار ظاہر ہوئے؟ میں نے عرض کیا کہ مجھ پر تو امن کے آثار کچھ بھی ظاہر نہیں ہوئے۔ تو فرمایا کہ تو نے حجر اسود پر ہاتھ ہی نہیں رکھا۔
٭…پھر فرمایا کہ مقام ابراہیم پر کھڑے ہوکر دو رکعت نفل نماز پڑھی تھی۔ میں نے عرض کیا کہ پڑھی تھی۔ فرمایا کہ اس وقت اللہ جل شانہٗ کے حضور میں ایک بڑے مرتبہ پر پہنچا تھا کیا اس مرتبہ کا حق ادا کیا؟اور جس مقصد سے وہاں کھڑا ہوا تھا وہ پورا کردیا۔میں نے عرض کیا کہ میں نے تو کچھ نہیں کیا۔ فرمایا کہ تو نے پھر تو مقام ابراہیم پر نماز ہی نہیں پڑھی۔
٭…پھر فرمایا کہ صفا مروہ کے درمیان سعی کیلئے صفا پر چڑھے تھے؟ میں نے عرض کیا کہ چڑھا تھا۔ فرمایا وہاں کیا کیا؟ میں نے عرض کیا کہ سات مرتبہ تکبیر کہی اور حج کے مقبول ہونے کی دعا کی۔ فرمایا کہ تمہاری تکبیر کے ساتھ فرشتوں نے بھی تکبیر کہی تھی؟ اور اپنی تکبیر کی حقیقت کا تمہیں احساس ہوا تھا؟ میں نے عرض کیا کہ نہیں۔ فرمایا کہ تم نے تکبیر ہی نہیں کہی۔
٭…پھر فرمایا کہ صفا سے نیچے اترے تھے؟ میں نے عرض کیا کہ اترا تھا۔فرمایا اس وقت ہر قسم کی علت دور ہو کر تم میں صفائی آگئی تھی۔ میں نے عرض کیا کہ نہیں۔ فرمایا کہ نہ تم صفا پر چڑھے نہ اترے۔ پھر فرمایا کہ صفا و مروہ کے درمیان دوڑے تھے؟ میںنے عرض کیا کہ دوڑا تھا۔ فرمایا کہ اس وقت اللہ کے علاوہ ہر چیز سے بھاگ کر اس کی طرف پہنچ گئے تھے غالباً ففررت منکم لما خفتکم کی طرف اشارہ ہے جو سورۃ شعراء میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے قصہ میں ہے۔دوسری جگہ اللہ کا پاک ارشاد ہے ففروا الی اﷲ(ذایات:۳) میں نے عرض کیا کہ نہیں۔ فرمایا کہ تم دوڑے ہی نہیں۔ پھر فرمایا کہ مروہ پر چڑھے تھے؟ میں نے عرض کیا کہ چڑھاتھا۔ فرمایا کہ تم پر وہاں سکینہ نازل ہوئی اور اس سے وافر حصہ حاصل کیا؟ میں نے عرض کیا نہیں۔ فرمایا کہ مروہ پر چڑھے ہی نہیں۔ پھر فرمایا کہ منیٰ گئے تھے؟ میں نے عرض کیا جی ہاں گیا تھا۔ فرمایا کہ وہاں اللہ جل شانہٗ سے ایسی امیدیں بندھ گئی تھیں جو معاصی کے حال کے ساتھ نہ ہوں میں نے عرض کیا کہ نہیں ہوسکیں۔ فرمایا کہ منیٰ ہی نہیں گئے۔
٭…پھر فرمایا کہ مسجد خیف میں جو (جو منیٰ میںہے) داخل ہوئے تھے؟ میں نے عرض کیا کہ داخل ہوا تھا۔ فرمایا کہ اس وقت اللہ جل شانہٗ کے خوف کا اس قدر غلبہ ہوگیا تھ جو اس وقت کے علاوہ نہ ہوا ہو؟۔ میں نے عرض کیا کہ نہیں۔ فرمایا کہ مسجد خیف میں داخل ہی نہیں ہوئے۔
٭…پھر فرمایا کہ عرفات کے میدان میں پہنچے تھے؟ میں نے عرض کیا کہ حاضر ہوا تھا۔ فرمایا کہ وہاں اس چیز کو پہچان لیا تھا کہ دنیا میں کیوں آئے تھے اور کیا کررہے ہیں اور کہاں اب جانا ہے اور ان حالات پر متنبہ کرنے والی چیز کو پہچان لیا تھا؟ میں نے عرض کیا کہ نہیں۔ فرمایا کہ پھر تم عرفات میں بھی نہیں گئے۔
٭…پھر فرمایا کہ مزدلفہ گئے تھے؟ میں نے عرض کیا کہ گیا تھا۔ فرمایا کہ وہاں اللہ جل شانہٗ کا ایساذکر کیا تھا جو اس کے ماسوا کو دل سے بھلا دے (جس کی طرف قرآن پاک کی آیت فاذکروا اﷲ عند المشعر الحرام (بقرہ آیت ۲۵۰) میں اشارہ ہے۔ میں نے عرض کیا کہ ایسا تو نہیں ہوا۔ فرمایا کہ پھر تم مزدلفہ پہنچے ہی نہیں۔
٭…پھر فرمایا کہ منیٰ میں جا کر قربانی کی تھی؟ میں نے عرض کیا کہ کی تھی۔ فرمایا کہ اس وقت اپنے نفس کو ذبح کردیا تھا؟ میں نے عرض کیا کہ نہیں فرمایا کہ پھر تو قربانی ہی نہیں کی۔
٭…پھر فرمایا کہ رمی جمار کی تھی (یعنی شیطانوں کو کنکریاں ماری تھیں) میںنے عرض کیا کہ کی تھی۔ فرمایا کہ ہر کنکری کے ساتھ اپنے سابقہ جہل کو پھینک کر کچھ علم کی زیادتی محسوس ہوئی؟ میں نے عرض کیا کہ نہیں۔ فرمایا کہ پھر تو رمی جمار بھی نہیں کی۔
٭…پھر فرمایا کہ طواف زیارت کیا تھا؟ میں نے عرض کیا کہ جی ہاں کیا تھا۔ فرمایا کہ اس وقت کچھ حقائق منکشف ہوئے تھے؟ اس لئے کہ حضور علیہ السلام کا پاک ارشاد ہے کہ حاجی اور عمرہ کرنے والا اللہ کی زیارت کرنے والا ہے اور جس کی زیارت کو کوئی جائے اس پرحق ہے کہ اپنے زائرین کا اکرام کرے۔ میں نے عرض کیا کہ مجھ پر تو منکشف نہیں ہوا۔ فرمایا تم نے طواف زیارت بھی نہیں کیا۔
٭…پھر فرمایا کہ حلال ہوئے تھے (احرام کھولنے کو حلال ہونا کہتے ہیں) میں نے عرض کیا کہ ہوا تھا۔ فرمایا کہ ہمیشہ حلال کمائی کا اس وقت عہد کرلیا تھا؟ میں نے عرض کیا جی نہیں۔ فرمایا کہ تم حلال بھی نہیں ہوئے۔ پھر فرمایا کہ الوداعی طواف کیا تھا؟ میںنے عرض کیا جی کیا تھا۔ فرمایااس وقت اپنے تن من کو کلی طور پر الوداع کہہ دیا تھا؟ میں نے عرض کیا جی نہیں۔ فرمایا کہ تم نے طواف وداع بھی نہیں کیا۔
پھر فرمایا دوبارہ اس طرح حج کرکے آئو جس طرح میں نے تم سے تفصیل بیان کی‘‘
یہ حسرت رہ گئی پہلے سے حج کرنا نہ سیکھا تھا
کفن بردوش جا پہنچے مگر مرنا نہ سیکھا تھا
یہ دیوانے اگر پہلے سے کچھ ہشیار ہو جاتے
حرم میں بن کے محرم صاحب اسرار ہو جاتے
اللہ تعالیٰ ہم سب کو بار بار ادب و عظمت کے ساتھ حرمین شریفین کی مقبول حاضری نصیب فرمائے (آمین ثم آمین)
٭…٭…٭
مذہبی طبقے کا جرم کیا ہے ؟
کلمۂ حق ۔ مولانا محمد منصور احمد (شمارہ 508)
مدارس ِ دینیہ ، مکاتب قرآنیہ ،علماء کرام اور مجاہدین عظام،سب ایک مرتبہ پھر حکومت کے نشانے پر ہیں ۔ آئے روز چھاپے اور پکڑ دھکڑ کا سلسلہ بھی جاری ہے اور تیز و تند بیانات بھی داغے جا رہے ہیں ۔ ہمیشہ کی طرح ملک کا مذہبی طبقہ آج بھی ہر قسم کی قانونی اور غیر قانونی تفتیش میں تعاون کر رہا ہے اور بڑے صبر و تحمل سے اس طوفانِ بد تمیزی کا سامنا کر رہا ہے ۔
پاکستان کا لا مذہب حلقہ اور یہاں کی بے دین لا بیاں ‘اُن کی ہر قیمت پر یہی خواہش اور کوشش ہے کہ اسلام کا نام لینے والے ہر شخص پر ملک کی سر زمین تنگ کر دی جائے اور وطنِ عزیز میں ہمیشہ کیلئے ان کو بطور مجرم کے پیش کیا جائے ۔ اس سیکو لر طبقے کی یہ خواہش بے جا نہیں ہے کیونکہ امریکہ اور بھارت کے ان وفاداروں کو یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ پاکستان کی بقاء و سا لمیت اسی مذہبی حلقے کی مرہونِ منت ہے ۔
وہ جانتے ہیں کہ اس ملک کی بنیادوں میں ’’ پاکستان کا مطلب کیا ؟ لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ ‘‘ کا نعرہ لگانے والوں کا خون اور پسینہ شامل ہے ۔ یہ آج تک نہیں بھولے کہ بانیٔ پاکستان کی ایماء پر مغربی پاکستان میں سب سے پہلے پاکستان کا پرچم لہرانے والے شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانی ؒ تھے اور مغربی پاکستان میں یہی اعزاز شیخ الاسلام علامہ ظفر احمد عثمانی ؒ کو حاصل ہے ۔
پاکستان کا یہ لادین طبقہ جو تعداد میں بہت کم ہے لیکن لا محدود اختیارات رکھتا ہے ، اس نے کبھی بھی پاکستان کو ٹشو پیپر سے زیادہ حیثیت نہیں دی ۔ یہ لوگ جب بھی حکومت اور اقتدار میں ہوتے ہیں ‘ پوری قوت کے ساتھ عوام کا خون چوستے ہیں ‘ کرپشن کا بازار گرم کرتے ہیں ‘ اپنی اولادیں اور جائیدادیں بیرون ملک منتقل کرتے ہیں اور مالِ مفت‘ دلِ بے رحم سمجھ کر خوب لوٹ مار کرتے ہیں اور جب عہدہ اور منصب سے فارغ ہوتے ہیں تو کسی بھی دوسرے ملک منتقل ہو کر عیاشی کی زندگی گزارتے ہیں۔
آپ پاکستان کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں ۔ ملک کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے والے ، ملکی راز دشمنوں کو بیچنے والے ، اپنے سیاسی مخالفین کو قتل کروانے والے ، ملکی خزانے لوٹ کر بیرون ملک منتقل کرنے والے‘ مذہبی طبقات کو ستانے والے اور احتجاج کے نام پر ملک بھر میں آگ لگانے والے آپ کو نناوے فیصد اسی طبقے کے لوگ ملیں گے۔
اس کے بر خلاف پاکستان کے مذہبی طبقے نے ہمیشہ پاکستان کی حفاظت کو عقیدہ کی حیثیت دی ہے اور اپنے پاکیزہ لہو سے سبز ہلالی پرچم کا وقار بلند کیا ہے ۔ ہاں ! ہر جگہ اور ہروقت انہوں نے ببانگ ِ دہل یہ اعلان کیا ہے کہ پاکستان اسلامی نظام کیلئے وجود میں آیا ہے اور اسلامی نظام میں ہی اس کی بقاء و سا لمیت ہے ۔ یہاں کے بسنے والے مختلف رنگ و نسل کے لوگوں کو صرف اسلام نے ہی یک جہتی عطا کی ہے اور قیامِ پاکستان کے وقت اسلامی نظام کے وعدے پر ہی لاکھوں مسلمانوں نے اپنے گھر بار کی قربانی دی اور ہندوئوں ‘ سکھوں کے ہاتھوں گاجر مولی کی طرح کٹ مرے ۔
یوم آزادی اور یوم دفاع پاکستان بڑے کروفر سے منانے والے حکمرانوں کو اگر نظریۂ پاکستان کی یاد دہانی کروانا کوئی جرم ہے تو یہ جرم بلاشبہ ہمارے مذہبی طبقے نے کیا ہے اور اسی یاد دہانی کی بڑی بھاری قیمت بھی چکائی ہے ۔
اس بات سے بھلا کون انصاف پسند پاکستانی انکار کر سکتا ہے کہ آج پاکستان میں جتنے المیے جنم لے رہے ہیں ‘ وہ سب اسلامی نظام سے محرومی کی ہی بدولت ہیں ۔ ایک طرف تو حکمرانوں کے کھانے بھی ہیلی کاپٹر کے ذریعے ’’ سفر ‘‘ کر رہے ہیں تو دوسری طرف غربت اور بھوک کی ماری ماں اپنے پانچ بچوں سمیت ٹرین کے سامنے لیٹ کر خود کشی کر رہی ہے ۔ ایک طرف اگر معمولی واقعات پر پورے مذہبی طبقے پر کیچڑ اچھالا جا رہا ہے تو دوسری طرف پاکستان میں سالہا سال سے پروان چڑھنے والے المناک اور خوفناک ’’سانحۂ قصور ‘‘ کے اصل مجرم دندناتے پھر رہے ہیں ۔ ایک طرف تو صحرائے تھر میں سینکڑوں بچے ہر سال خوراک اور پانی کی قلت کی وجہ مر رہے ہیں لیکن دوسری طرف بھٹو آج بھی زندہ ہے ۔ ایک طرف تو عام پاکستانی بد امنی کے عذاب میں جل رہا ہے تو دوسری طرف سیکیو رٹی پروٹوکول کے نام پر درجنوں گاڑیوں کے قافلے اکبر بادشاہ کے جلوس کو بھی مات دے رہے ہیں ۔
اسلامی نظام ہی وہ کنجی ہے جس سے پاکستان کی بند قسمت کے تالے کھل سکتے ہیں اور ہم صحیح معنی میں ترقی یافتہ قوم بن سکتے ہیں ۔ اسلام ہی دین و دنیا دونوں کے درمیان اعتدال کی راہ دکھاتا ہے ۔ اسلام ہی عدل و مساوات کا سبق پڑھاتا ہے ۔ اسلام ہی عوام کے پسماندہ اور محروم طبقات کو ان کا حق دلاتا ہے ۔ اسلام ہی ہررنگ و نسل کے انسان کو رشتۂ اخوت میں جوڑتا ہے ۔ اسلام ہی دھوکہ دہی ، خیانت ، چور بازاری ، جعل سازی اور ہر برائی سے روکتا ہے ۔ اسلام ہی وہ چراغ ہے جو وطن عزیز میں ہر سو پھیلے ہوئے گھٹا ٹوپ اندھیروں کو دور کر کے امن و امان اور خوش حالی کی روشنیاں بکھیرسکتا ہے ۔
نفاذِ اسلام کا مطالبہ اور اس کیلئے علمی و عملی کاوشیں ہی مذہبی طبقے کا وہ نا قابلِ معافی جرم ہے ‘ جس کی پاداش میں ہر حکمران ان کو تختۂ مشق بنانے کے چکر میں رہتا ہے اور وہ اُس وقت اپنا کام جاری رکھتا ہے ‘ جب تک اُس کا اپنا دھڑن تختہ نہیں ہو جاتا ۔ جب حکومت اور منصب چھن جاتے ہیں ‘ تب انہیں یاد آتا ہے کہ مدارس تو امن کے گہوارے ہیں اور علماء کرام تو قابلِ احترام ہستیاں ہیں ۔
اسکندر مرزا سے لے کر صدر پرویز مشرف تک ایسی بے شمار داستانیں ہر سمت بکھر ی پڑی ہیں لیکن افسوس کہ حکمرانوں نے تاریخ سے کچھ نہیں سیکھا ۔ یہ مذہبی طبقہ جسے لا وارث سمجھ کر اس پر ظلم کے پہاڑ توڑے جاتے ہیں ‘ جب بارگاہِ الٰہی میں ان کے ہاتھ بددعا کیلئے اٹھتے ہیں اور مدارس کے معصوم بچوں سے لے کر سفید ریش بزرگوں تک جب اپنے رب سے فریادی ہوتے ہیں تو بڑے سے بڑے فرعون کو غرقِ آب ہونے‘وزیر کو اسیر ہونے اور صدر کو در بدر ہونے میں دیر نہیں لگتی ۔ اس سلسلے میں تاریخ کی کتابوں میں لکھا ہوا ایک مستند واقعہ نذرِ قارئین ہے:
’’ شیخ صفوی ( متوفی ۷۶۴ھ ) ذکر کرتے ہیں کہ خلیفہ منصور کو یہ اطلاع ملی کہ سفیان ثوریؒ اس پر حق کو قائم نہ کرنے کی وجہ سے طعن و تشنیع کرتے ہیں جب منصور حج کے لیے گیا اور اُسے یہ معلوم ہوا کہ سفیانؒ مکہ میں ہیں تو اُس نے اپنے آگے ایک جماعت کو بھیجا اور اُن سے کہا کہ تم جہاں بھی سفیانؒ کو پائو پکڑ کر سولی دے دو ، چنانچہ انہوں نے مکہ مکرمہ پہنچ کر حضرت سفیان ؒ کو سولی دینے کے لیے لکڑی کھڑی کر دی ، اس وقت حضرت سفیان ثوریؒ مسجد حرام میں بایں حالت تشریف فرما تھے کہ آپ کا سر حضرت فضیل بن عیاضؒ کی گود میں تھا اور پائوں حضرت سفیان بن عیینہؒ کی گود میں ، آپ کے بارے میں کسی بھی اندیشہ کے پیش نظر آپ سے کہا گیا کہ آپ ہمارے دشمنوں کو اپنے اوپر قابو پانے کا موقع دے کر خوش نہ کیجئے ، یہاں سے اٹھ کر کہیں چھپ جائیے ، چنانچہ آپ اٹھے اور ملتزم کے پاس جا کر ٹھہر گئے اور فرمایا ’’ کعبہ کے رب کی قسم !منصور مکہ مکرمہ میں داخل نہیں ہو سکے گا ‘‘ حالانکہ منصور جبل حجون ( مکہ مکرمہ کی ایک پہاڑی) کے پاس پہنچ چکا تھا ۔ جب وہ جبل حجون پہنچا تو اس کی سواری پھسل گئی اور منصور سواری کی پیٹھ سے گرتے ہی مر گیا ۔ حضرت سفیان ثوری رحمہ اللہ مسجد ِ حرام سے باہر تشریف لائے اور اس کے جناز ہ کی نماز پڑھی۔‘‘(نفحۃ العرب ص ۳۸)
اللہ تعالیٰ پاکستان کو ہر قسم کے مصائب سے محفوظ فرمائے اور ہمارے حکمرانوں کو صحیح فیصلے کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔(آمین ثم آمین)
٭…٭…٭
سوائے آپ کے …
کلمۂ حق ۔ مولانا محمد منصور احمد (شمارہ 507)
امیر المؤ منین حضرت ملا محمد عمر مجاہد رحمۃ اللہ علیہ تو تشریف لے گئے لیکن اُن کی پاکیزہ یادیں ہر دل میں بسی ہوئی ہیں ۔ اسلام نے قیامت تک رہنا ہے اور اسی لیے ہر دور میں ایسے خوش بخت اور سعادت مند لوگ آتے رہیں گے ‘ جو اپنے کردار سے اسلامی تعلیمات کو زندہ کر کے دنیا والوں کے سامنے عملی نمونہ پیش کر تے رہیں گے ۔
اسلام کی چودہ سو سالہ تاریخ گواہ ہے کہ اس کی گود کبھی بانجھ نہیں ہوئی اور جب کبھی بھی ایسا محسوس ہوتا تھا کہ اب اُفق پر تاحد نگاہ سیاہی پھیل چکی ہے اور گھٹا ٹوپ اندھیروں نے ماحول کو اپنے خوف و دہشت میں جکڑ رکھا ہے ‘ تو اچانک ہی کہیں سے کوئی شخصیت ‘ روشن صبح کے طلوع ہونے کی نوید لیے نمودار ہوتی اور دیکھتے ہی دیکھتے ہر سُو اسلامی تعلیمات کا نور جگمگانے لگتا ۔
امیر المومنین حضرت ملا محمد عمر مجاہد ؒ نے ایک ایسے دور میں اسلام کے طرزِ حکمرانی کو زندہ کیا اور لوگوں کے سامنے تاریخ اسلام کے عظمت ِ رفتہ کی صحیح تصویر پیش کی ‘ جب اسلامی ممالک بادشاہت اور جمہوریت کے چکروں میں الجھے ہوئے تھے ۔ بادشاہت ایسی کہ جس کا اسلام میں کوئی تصور نہیں اور جمہوریت ایسی کہ جس میں عوام کی بد حالی دیکھ کر بد ترین آمریت بھی شرما جائے ۔ انہوں نے لفظی بحثوں میں الجھنے کے بجائے اپنے کردار سے ایسی روشن روایات قائم کیں ‘ جن سے عرصہ ہوا مسلمان حکمران محروم ہو چکے تھے ۔
آج کے مسلمان نے چونکہ اسلام کے عادلانہ نظامِ حکومت کو اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا ‘ اس لیے ’’ الامام العادل ‘‘ کا مقام و مرتبہ بھی رفتہ رفتہ نظروں سے اوجھل ہو گیا اور یوں سمجھا جانے لگا کہ ’’ اسلامی حکومت ‘‘ بھی دنیا کا گورکھ دھند ہ ہے ‘ اس کا بھلا دین سے کیا تعلق اور اس پر فائز شخص کی کیسی فضیلت ؟ پھر آہستہ آہستہ مزاج یہ بننے لگا کہ مسلمان کا کام تو بس اپنی انفرادی عبادات بجا لانا ہے اور اس سے زیادہ کچھ سوچنا دنیاداری ہے‘ جس سے کنارہ کشی ہی بہتر ہے ۔
قرآن مجید اور احادیث ِ مبارکہ کی روشنی میں اصل صورت حال یہ ہے کہ زمین پر اللہ تعالیٰ کا نظام نافذ کرنا ‘ نہ صرف یہ کہ بہترین عبادت ہے بلکہ خالقِ کائنات جلّ شانہ کی خلافت اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نیابت و جانشینی بھی ہے ۔ جو شخص کسی مملکت میں اسلام کا نظام نافذ کرے ‘ وہاں کے رہنے والوں کو اسلام کی برکات سے مستفید ہونے کا موقع دے اور اپنی حکومت کو حضرات خلفاء ِ راشدین رضی اللہ عنہم کی طرز پر چلائے ‘ وہ اللہ تعالیٰ کا محبوب اور مقبول ترین بندہ ہے ۔ وہ مشہور حدیث جس میں سات قسم کے بندوں کو روزِ قیامت عرشِ الٰہی کا سایہ نصیب ہونے کا ذکر ہے ‘ اُن میں سب سے پہلا نمبر ’’ الامام العادل ‘‘ کا ہے ۔
( مشکوۃ المصابیح ، باب المساجدومواضع الصلاۃ ، الفصل الاول )
اسی بناء پر اسلام کی نظر میں حکومت اور اقتدار پھولوں کی سیج نہیں بلکہ کانٹوں بھرا راستہ ہے ۔ یہ مطلق العنانی کا ذریعہ نہیں بلکہ اطاعتِ الٰہی کا وسیلہ ہے ۔ یہ عیاشی کی نت نئی صورتیں ایجاد کرنے کا نام نہیں بلکہ سادہ طرزِ زندگی اور مجاہدئہ نفس سے عبارت ہے ۔
اسلام کی نظر میں حکمران کی ذمہ داریاں کتنی سخت اور ہمہ گیر نوعیت کی ہوتی ہیں ، اس کا اندازہ اُس فہرست سے لگایا جا سکتا ہے ‘ جو اسلامی سیاست کی شہرئہ آفاق کتاب ’’ الاحکام السلطانیۃ ‘‘ کے پہلے باب ’’ الخلیفۃ و مسئولیاتہ ‘‘ میں علامہ ماوردیؒ ( ۴۵۰ھ) نے ذکر فرمائی ہے ۔ وہ تحریر فرماتے ہیں :
’’(۱)… مسلمان حکمران دین کی حفاظت کرے ، اگر کسی شخص نے مذہب میں کوئی بدعت نکالی ، یا کسی شک و شبہ پر دین سے پھر گیا تو خلیفہ کو چاہیے کہ وہ دلائل سے اس کا شبہ دور کر دے ، اور جو حق بات ہے وہ اس کہ ذہن نشین کروائے ، اور فرائض و منہیات پر اُسے کار بند کرے ، تاکہ دین میں کوئی خلل پیدا نہ ہو ، اور امت لغزشوں سے محفوظ رہے ۔
(۲)… جھگڑنے والوں میں احکام شرعیہ نافذ کرے ، اور مخاصموں(مقدمے کے فریقوں) کا فیصلہ کرے ، تاکہ انصاف کا دور دورہ ہو ، کوئی طاقتور دست ِ ظلم دراز نہ کرنے پائے اور کسی پر زیادتی نہ ہو ۔
(۳)… ملک کی حفاظت کرے ، اور دشمن سے بچائے تاکہ تمام لوگ اطمینان سے اپنی زندگی کے کاروبار میں مصروف ہوں ، اور بغیر جان و مال کے خطرے کے اطمینان سے سفر کر سکیں ۔
(۴)… حدود شرعیہ کو قائم کرے ، تاکہ جن باتوں کو اللہ نے حرام قرار دیا ہے ان میں سے کسی چیز کا کوئی شخص ارتکاب نہ کرے … نیز اس کے بندوں کے حقوق تلف و برباد نہ ہونے پائیں ۔
(۵)… سرحدوں کی پوری حفاظت کرے کہ دشمن کو اس میں اچانک دراندازی کا موقع نہ رہے تاکہ مسلمانوں اور ذمیوں(اسلامی ملک کے رہائشی غیر مسلم) کی جانیں محفوظ رہیں ۔
(۶)… پہلے اسلام کی دعوت دے ، نہ ماننے پر مخالفین ِ اسلام سے جہاد کرے ، تاکہ وہ مخالفین یا تو اسلام قبول کریں یا ذمی(اسلامی ملک کے رہائشی غیر مسلم) بن جائیں ، یعنی اسلامی حکومت کو تسلیم کر کے اپنے مذہب پر باقی رہیں ۔
(۷)… خوف ، جبر اور زیادتی کے بغیر احکامِ شرعیہ کے مطابق خراج (غیر مسلموں سے ٹیکس)اور صدقات وصول کرے ۔
(۸)… بیت المال سے مستحقین کے وظیفے اور تنخواہیں مقرر کرے ، نہ اس میں فضول خرچی ہو ، نہ بخل اور کنجوسی۔ یہ وظیفے اور تنخواہیں مستحقین کو بلا تقدیم و تاخیر وقت پر دی جائیں ۔
(۹)… دیانت داروں کو اپنا قائم مقام ، اور قابلِ اطمینان لوگوں کو حاکم و عامل مقرر کرے ، اور خزانے کو ایسے ہی لوگوں کے سپرد کرے ، تاکہ انتظام قابل لوگوں سے مضبوط ہو اور خزانے دیانت داروں کے قبضہ میں محفوظ رہیں ۔
(۱۰)… خود تمام امور ِ سلطنت کی نگرانی کرتا رہے اور تمام واقعات سے باخبر رہے ، تاکہ امت کی پاسبانی اور ملت کی حفاظت وہ خود کر سکے ، اور عیش و عشرت یا (نفلی )عبادت میں مشغول رہ کر اپنے فرائض دوسروں کے حوالے نہ کرے ، کیوں کہ ایسی صورت میں دیانت دار بھی خیانت کرنے لگتا ہے اور وفادار کی نیت میں بھی فرق پڑ جاتا ہے ۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :
یٰدا و د انا جعلنک خلیفۃ فی الارض فاحکم بین الناس بالحق ولا تتبع الھوی فیضلک عن سبیل اللہ ( ص : ۲۶)
( اے دائود ! ہم نے تم کو زمین پر خلیفہ مقرر کیا ہے ، تم لوگوں میں حق و صداقت سے حکومت کرو ، خواہشوں کے پیچھے نہ پڑ جانا ، ورنہ وہ تمہیں اللہ تعالیٰ کے راستے سے بھٹکا دیں گی)‘‘۔
اب آپ خود اندازہ لگائیں جو مسلم حکمران ان ذمہ داریوں کو صحیح طور پر ادا کرے گا اور اس کڑے معیار پر پورا اترے گا پھر اُس کی مملکت میں جتنے بھی خیر کے کام ہوں گے ‘ خواہ اُن کا تعلق رفاہِ عام سے ہو یا عبادات سے ‘ یہ اُن سب کے اجر و ثواب کا مستحق ہو گا یا نہیں ؟ ایک حدیث پاک میں تو یہاں تک فرمایا گیا :
السلطان العادل المتواضع ظل اللہ وروحہ فی الارض
( مرقاۃ شرح مشکاۃ ، الامارۃ والقضاء ، الفصل الثالث )
( وہ بادشاہ جو انصاف کرنے والا اور متواضع ہو ‘ وہ اللہ تعالیٰ کا سایہ اور اُس کی رحمت ہے)
ایک حدیث میں ارشاد ہے :
یوم من امام عادل افضل من عبادۃ ستین سنۃ
( المعجم الکبیر ، باب العین ، عکرمۃ عن ابن عباس)
( عدل و انصاف کرنے والے حکمران کا ایک دن ‘ ساٹھ سال کی عبادت سے افضل ہے )
نیز ایک اور حدیث پاک میں ارشاد ہے :
ثلاثۃ لا ترد د عوتہم ، الصائم حتی یفطر والا مام العادل و دعوۃ المظلوم
( الترغیب والترہیت ، کتاب القضاء )
( تین افراد کی دعائیں رد نہیں کی جاتیں ۔ روزے دار جب افطار کرتا ہے ، عادل حکمران اور مظلوم شخص ) ۔
حضرت امیر المومنین ملا محمد عمر مجاہد رحمۃ اللہ علیہ کے جو حالات دنیا بھر کو معلوم ہیں ‘اُن کے مطابق ہمیں اللہ تعالیٰ کی ذات سے قوی امید ہے کہ وہ اپنی قربانیوں کی بدولت ان بشارتوں کے ضرور مستحق ہوں گے ۔ اُنہوں نے ایک ایسے ملک پر کئی سال تک حکومت کی ‘ جس میں اُن سے پہلے حکمرانوں کے بنائے ہوئے محلات عالمی شہرت رکھتے ہیں اور اُن کی عیاشیوں کی داستانیں بھی مشہور و معروف ہیں ، اس سب کے باوجود حضرت امیر المومنین ؒ نے جس طرح زندگی گزاری اور اپنی عوام کے پیسوں کو اپنے لیے ممنوع سمجھا ‘ اس سے مشہور مسلمان جرنیل حضرت ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ کی یادیں تازہ ہو گئیں ۔ آپ ایک جلیل القدر صحابی ہونے کے ساتھ مملکت فاروقی کے گورنر بھی تھے ، مگر ان کا حال ایسا بوسیدہ اور رہن سہن اس قدر سادہ ہوتا تھا کہ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ دیکھ کر روپڑے تھے ۔
ایک مرتبہ آپ ان کے گھر میں اترے ، تو آپ نے گھر کے جائزہ کے لئے نظر دوڑائی ، دیکھا ان کا سارا مکان خالی پڑا ہوا ہے ، لے دے کر کل سرمایہ یہ تھا ، ایک تلوار اور ایک ڈھال ۔ آپ نے یہ حال دیکھ کر فرمایا ، کچھ سامان بنوا لیا ہوتا ۔ حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا :
’’یہی سامان ہمیں خواب گاہ ( قبر ) تک پہنچانے کے لیے کافی ہے‘‘۔
اسی طرح حضرت عمر رضی اللہ عنہ جب شام تشریف لے گئے تو حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا : گھر تشریف لے چلیں ، انہوں نے جواب میں کہا : کیا مطلب ہے ، جائزہ لینا ہے کیا ؟
پھر دونوں حضرات گھر آئے ، یہاں پہنچ کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ کچھ نہیں ہے ، صرف ایک نمدہ (اون سے بنی ہوئی چٹائی )ہے ، ایک پیالہ اور ایک مشک ۔ فرمانے لگے ، آپ یہاں کے امیر و گورنر ہیں کچھ تو سامان ہونا چاہیے ۔ آپ کھانا بھی رکھتے ہیں یا نہیں ، یہ سن کر حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ اٹھ کر اپنے تھیلے کے پاس پہنچے اور اس سے روٹی کے چند سوکھے ٹکڑے نکال کر دکھائے کہ یہ ہے میرا سامانِ خوراک ، یہ دیکھ کر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ ضبط نہ کر سکے روپڑے اور فرمانے لگے :
غیّر تنا الدنیا کلنا غیْر ک یا ابا عبیدۃ
( تاریخ مدینۃ دمشق : ج ۲۵ ص ۴۸۱)
جن دوستوں نے بذات ِ خود حضرت امیر المومنین ملا محمد عمر مجاہد رحمۃ اللہ علیہ کا رہن سہن دیکھا ہے یا جن کی نظروں سے اُن کے رہائشی کمرے کی تصویر گزری ہے وہ بلاشبہ دل کی گہرائیوں سے یہی بات کہہ سکتے ہیں :
غیّر تنا الدنیا کلنا غیْر ک یا امیر المؤمنین
(اے امیر المومنین ! آپ کے سوا ہم سب کو دنیا نے بدل ڈالا )
دعا ہے کہ اللہ کریم آپ کے درجات کو بلند فرمائے، مسلمانوں کو’’ الامام العادل ‘‘ نصیب فرمائے اور اسلامی حکومت کی برکات سے مستفید فرمائے ۔(آمین ثم آمین )۔
٭…٭…٭
وہ بہت یاد آتے ہیں
کلمۂ حق ۔ مولانا محمد منصور احمد (شمارہ 506)
بچپن سے اردو کا ایک شعر سنتے آئے ہیں لیکن آج جب عالم اسلام کی عظمت کا نشان‘ مرد غیور اور حمیت ِ اسلامی کے علمبردار ، امت ِ مسلمہ کے دلوں کی دھڑکن ، ملت اسلامیہ کے عظیم راہنما‘ سادہ مزاج اور فقیر منش اللہ والے ‘ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کے محافظ ‘ الامام العادل ‘ امیر المؤمنین ، قائد جیوش المسلمین ملا محمد مجاہد رحمۃ اللہ علیہ کے انتقال کی خبر سنی تو یہ شعر صحیح معنی میں سمجھ آگیا :
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
عالمی ذرائع ابلاگ بھی اس جستجو میں ہیں اور لوگ بھی پوچھتے ہیں کہ وہ کب مرے ہیں؟ جب کہ بندہ کہتا ہے کہ وہ بھلا کب مر سکتے ہیں جو لاکھوں دلوں کی دھڑکنوں پرراج کرتے ہیں ۔ جو دنیائے فانی کی خاطر نہیں‘ عظیم اصولوں اور نظریات کیلئے جیتے ہیں ‘ جو بادشاہی میں فقیری کرتے ہیں اور تاریخ کے صفحات پر ایسے انمٹ نقوش چھوڑ جاتے ہیں ‘ جو ہمیشہ کیلئے انسانوں کی راہنمائی کرتے رہتے ہیں ‘ ایسے لوگ مرتے نہیں‘ اَمر ہو جاتے ہیں:
ہرگز نمیرد آنکہ دلش زندہ شد بعشق
ثبت است بر جریدئہ عالم دوامِ ما
ہم سب آپ کے نام کے ساتھ ’’ دامت برکاتہم‘‘ اور ’’حفظہ اللہ تعالیٰ‘‘ لکھنے کے ایسے عادی ہو گئے تھے کہ کبھی دل میں یہ وہم بھی نہ گزرا تھا کہ اپنی زندگی میں یہ روح فرسا حادثہ دیکھنا ہو گا اور آپ کے نام کے ساتھ ’’رحمۃ اللہ علیہ ‘‘ لکھنے کی بھی ہمت کرنی پڑے گی ۔ دل آج بھی آپ کی رحلت اور جدائی کے صدمے کو سہنے سے انکاری ہے اور دماغ ہزاروں تأویلات گھڑتا ہے لیکن ساتھ ہی ہمارا یہ ایمان ہے کہ اس دنیا میں جو بھی آیا ‘ جانے کیلئے ہی آیا ہے ۔ اس لیے قضاء و قدر کے فیصلوں پر راضی ہونے اور ’’ انا للّٰہ و انا الیہ راجعون‘‘ کہے بغیرکوئی اور چارہ نہیں ہے ۔
تقریباً ایک صدی ہوئی جب خلافت ِ عثمانیہ کا سقوط ہوا اور مسلمانوں کی مرکزیت کا خاتمہ ہوا ‘ تب سے اہل ایمان کے دل تڑپتے تھے اور اللہ کے حضور سجدوں میں گڑ گڑا کر یہ دعائیں مانگی جاتی تھیں کہ اے الٰہ العالمین ! کوئی اپنا بندہ بھیج جو اس سر زمین پر ترا نظام نافذ کرے ‘ جو ’’ خلیفۃ اللہ فی الارض‘‘ ہونے کا حقیقی مصداق ہو ‘ جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا سچا عاشق اور آپ کے لائے ہوئے دین کو عملی طور پر دنیا میں لاگو کرنے والا ہو ۔ جو قرآن مجید کی بتائی ہوئی نشانیوں ’’اذلۃ علی المومنین‘‘ (ایمان والوں کیلئے نرم) اور ’’ اعزۃ ً علی الکٰفرین ‘‘ (کافروں پر سخت گیر) کا صحیح مصداق ہو ‘ جو اللہ کے دین کے معاملے میں کسی ملامت کرنے والے کی پرواہ نہ کرے۔
عشروں یہ دعائیں مانگی گئیں ‘ برسوں قربانیاں دی گئیں ‘ سینکڑوں مسلمانوں نے اسی مقصد کیلئے اپنا تن من دھن نچھاور کیا ‘ تب پردئہ غیب سے امت مسلمہ کو امیر المومنین ملا محمد عمر مجاہد رحمۃ اللہ علیہ جیسی ہستی نصیب ہوئی ۔
بی بی سی اور سی این این سن کر رائے زنی کرنا تو بہت آسان کام ہے اور ہمارے ہاں امارتِ اسلامیہ کے بارے میں لکھنے والے اکثر اہلِ قلم کا حال یہی ہے کہ وہ کبھی طور خم اور چمن سے اُس پار نہیں گئے ۔ مغرب کے متعصب اور اسلام دشمن صحافیوں کی رپورٹوں سے معلومات حاصل کرنے والے کیا جانیں کہ امیر المؤمنین ملا محمد عمر مجاہدؒ کس شخصیت کا نام ہے ؟ بامیان کے بتوں کو گرانے کا مسئلہ ہو یا حضرت شیخ اسامہ رحمۃ اللہ علیہ کو افغانستان سے بے دخل کرنے کا معاملہ ، ۱۹۹۹ء کے آخر میں انڈین ائیر لائن کا جہاز ہائی جیک ہونے کا صبر آزما وقت ہو یا عیسائیت کی تبلیغ اور ارتدادی سرگرمیوں میں ملوث عالمی اداروں کو افغانستان سے نکالنے کا معاملہ ، کئی دفعہ دنیا نے دیکھا کہ سب ایک طرف کھڑے ہیں اور امیر المومنین دوسری طرف لیکن اسلام کی سر بلندی کا پرچم اُنہی کے ہاتھ میں ہے ۔ یہ حقیقت تو دشمن بھی تسلیم کرتے ہیں کہ نفاذِ اسلام کے معاملے میں انہوں نے کوئی سمجھوتہ نہیں کیا ۔ اس سلسلے میں وہ بڑی سے بڑی طاقت کو خاطر میں لائے ، نہ ہی دنیا کے بے شمار مال و دولت کی لالچ اُن کے پائے استقامت میں کوئی لغزش پیدا کر سکی ۔
عبدالحمید مبارز …ایک شاہ پرست افغان مؤرخ ہیں ۔ ظاہر شاہ کے دور میں افغانستان کے کئی صوبوں کے گورنر رہ چکے ہیں ۔
فرانس کے اخبارات کے باقاعدہ کالم نگار ہیں ۔ انہوں نے فارسی میں ’’حقائق و تحلیل و قائع سیاسی اٖفغانستان ۱۹۷۳ء تا ۱۹۹۹ء ‘‘ کے نام سے افغانستان کے ماضی قریب میں بیتنے والے حالات سے متعلق کتاب لکھی ہے ۔ اس کتاب کا آخری باب امارت ِ اسلامیہ کے حوالے سے ہے ، جس میں انہوں نے امیر المومنین ملا محمد عمر مجاہد رحمۃ اللہ علیہ کے نظامِ حکومت کا خلاصہ مندرجہ ذیل ۱۹ ؍نکات میں بیان کیا ہے:
۱) ایک خالص اسلامی حکومت کا قیام۔
۲)اسلام کو حکومتی ومملکتی مذہب کے طور پر رائج کرنا۔
۳) نفاذ شریعت۔
۴)مساجد کو اس طرح آباد کرنا کہ ملت اسلامیہ ان میں اطمینان وسکون کے ساتھ عبادات ادا کرسکے اور زندگی گزار سکے۔
۵)سرکاری محکموں میں مخلص مسلمان ملازمین کی تعیناتی۔
۶)لسانی، قومی اور علاقائی تعصبات وتفرقات کا خاتمہ کرکے ملک کے تمام مسلمانوں میں اسلامی اخوت وبرادری قائم کرنا۔
۷) اسلامی تنظیموں اور خارجی ممالک سے دوستانہ مراسم قائم کرنا۔
۸)افغانستان میں رہنے والے غیرمسلموںکی حفاظت کا بندوبست۔
۹)اسلامی شریعت کی حدود میں رہتے ہوئے غیر مسلم ممالک کے ساتھ روابط قائم کرنا۔
۱۰) خواتین کو سرتاپا حجاب پہناکر مستور کرنا۔
۱۱)امارت اسلامیہ افغانستان کے تمام علاقوں میں مذہبی پولیس (امر بالمعروف ونہی عن المنکر) کی خدمات جاری کرنا۔
۱۲) اسلامی عدالتوں کے توسط سے شرعی احکام وقوانین کا اجرائ۔
۱۳)اسلامی امارت افغانستان کو بیرونی جارحیت سے بچانے کیلئے اور اس کے دفاع وحفاظت کیلئے اسلامی فوج کا قیام۔
۱۴)دینی مدارس قائم کرنا، تاکہ وہاں تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ بیرونی کلچر وثقافت کے اثرات سے محفوظ رہیں، ان کے دل قرآن وسنت رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کے عشق سے لبریز ہوجائیں اور وہ اﷲ کے راستے کے مجاہد بن جائیں۔
۱۵)بین الاقوامی سیاست کے پیش آمدہ تمام مسائل کو قرآن وسنت کے مطابق حل کرنا۔
۱۶) عالم وفاضل، قابل وباصلاحیت افراد میں سے قاضیوں کا تقرر۔
۱۷) حکومت کے اقتصادی نظام کو اسلامی سانچے میں ڈھالنا اور زراعت وصنعت اور معدنیات کے خزانے حاصل کرنے کیلئے کوشش کرنا۔
۱۸)افغانستان کی خوشحالی کیلئے اسلامی ممالک سے تعاون حاصل کرنا۔ کارخانے اور فیکٹریاں قائم کرنا اور اسلامی مملکت میں اقتصادی بحران کے خاتمے کیلئے زراعت کو فروغ دینا۔
۱۹)اسلامی محصولات زکوٰۃ، خراج اور جزیہ کا نظام قائم کرنا۔
قرآن و سنت پر ایمان رکھنے والا کون مسلمان ایسا ہو گا جس کا دل یہ نکات پڑھ کر نہ جھوم اٹھے ۔ آج دنیا کے نقشے پر کتنے ہی اسلامی کہلانے والے ممالک موجود ہیں لیکن اسلام کے نظامِ عبادات سے لے کر عدل و مساوات تک اُن ممالک کی جو حالت ِ زار ہے وہ یقینا کسی سے پوشیدہ نہیں ۔ امیر المؤمنین ملا محمد عمر مجاہدرحمۃ اللہ علیہ کی قابلِ رشک ذاتی خوبیوں اور لائقِ تحسین اوصاف کے علاوہ اُن کے لیے نفاذِ اسلام ہی اتنا بڑا شرف اور اعزاز ہے کہ دنیا کا کوئی تمغہ ، عہدہ یا ایوارڈ اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا ۔
غیروں کے زیر اثر بہت سے اپنے بھی آج اگر مگر کی ڈگڈگی بجا کر اپنا مداری تماشا دکھا رہے ہیں اور اُن کی نظروں میں امیر المومنین ملا محمد عمر رحمۃ اللہ علیہ کی یہی عظیم خوبی سب سے بڑا جرم ہے ، وہ کبھی اسے دقیانوسیت کا نام دیتے ہیں اور کبھی اس پر انتہاء پسندی کا لیبل چسپاں کرتے ہیں ۔ ایسے لوگوں کو امریکہ کے مظالم نظر آتے ہیں اور نہ ہی یورپ کی چیرہ دستیاں ، یہ اہلِ کفر کے سامنے کلمۂ حق کہنے کی تو جرأت نہیں رکھتے اس لیے ان کی تنقید کا سارا ملبہ بے سہارا مسلمانوں پر ہی گرتا ہے ۔ ایسے نام نہاد دانشوروں کی خدمت میں تو امیر المومنین ملا محمد عمر مجاہد رحمۃ اللہ علیہ کی طرف سے یہی عرض کیا جا سکتا ہے :
تم شہرِ اماں کے رہنے والے ، درد ہمارا کیا جانو؟
ساحل کی ہوا تم موج صبائ، طوفان کا دھارا کیا جانو؟
آغاز سر ایمان و یقین ، انجام عمل اک شام حسیں
بِن دیکھے حسن کی منزل کو ، یہ رستہ پیارا کیا جانو ؟
رستہ ہی یہاں خود منزل ہے ، ٹھوکر ہی یہاں اک حاصل ہے
اے سود و زیاں گننے والو ، کس نے ہے پکارا کیا جانو ؟
ان راہوں میں فردوسِ بریں ، ان گلیوں میں جنت کے مکیں
اِن تیکھے الجھے رستوں میں ہے کون سا دھارا کیا جانو ؟
سمجھے ہیں جسے گلزار سبھی ، اک آگ ہے عصر حاضر کی
تمہید سے تم گزرے ہی نہیں ، اب قصہ سارا کیا جانو ؟
اے قیسِ عصر جو کالج میں چھ چار جماعتیں پڑھ بیٹھے
تم واقفِ نقشِ رنگِ حنا ، خوں کا فوارہ کیا جانو ؟
ربِّ رحمان کے بندے امیر المؤمنین ملا محمد عمر مجاہدرحمۃ اللہ علیہ ،اہل پاکستان کیلئے بھی بلا شک وشبہ اللہ کا بہت بڑا احسان تھے ۔دیمک خوردہ دماغ اور زخم خوردہ روح رکھنے والے ہمارے پالیسی سازوں کو اب اس حقیقت کا احساس ہو رہا ہے کہ وہ کیا متاع عزیز تھی جو انہوں نے گم کر دی ،وہ کیا شمع تھی جس کے بجھتے ہی سر زمین افغانستان پر پاکستانی مفادات گھٹا ٹوپ اندھیروں میں گم ہوگئے ۔وہ کیا بے لوث سپاہی تھے جنہوں نے بڑے بڑے خطرات کو ہم سے روک رکھا تھا۔ وہ کیا کھرے لوگ تھے کہ بھارت سے صرف اس لیے بگاڑے رکھی کہ وہ اسلام اور پاکستان مخالف ہے ۔
گیارہ ستمبر کے خوفناک حملوں نے ورلڈ ٹر یڈ سنٹر کا سارا ملبہ ہماری عقلوں پر ڈال دیا ،اسی لیئے تو ہم بھول گئے کہ ملت فروشی اور برادرکشی جیسا المناک رویہ ہمارے ہاتھوں سرزد ہورہا ہے ۔ہم نے فراموش کر دیا کہ میر جعفر اور میر صادق جیسے کرداروں پر آج ان کی اولاد بھی چار حرف بھیجتی ہے ۔اضطراب اور بے سکونی کے ان دنوں میں جن لوگوں کی کوئی ’’سب سے پہلے پاکستان ‘‘پر اٹکی ہوئی تھی ،وہ جواب دیں کہ پاکستانی سرحدات امیر المؤمنین ملا محمد عمر مجاہدرحمۃ اللہ علیہ کے دور میں زیادہ محفوظ تھیں یا آج ؟ بلوچستان جوآج ہمارے لئے گہری دلدل اور تپتے صحرا میں تبدیل ہورہا ہے ،اس کے پس منظرمیں موجود افغان سرزمین پر بھارتی قونصل خانے کس کی مدد اور تعاون سے قائم ہوئے؟ اپنے پاؤں پر کلہاڑی چلانے والے عقل وخرد سے عاری لوگ، اب کلہاڑی کو الزام نہ دیں کہ وہ ان کے اپنے ہاتھوں میں پکڑی ہوئی ہے۔
امیر المؤمنین ملا محمد عمر مجاہدرحمۃ اللہ علیہ ایک حقیقت ہیں۔ ان کا کردار کھلی ہوئی کتاب کی مانند اقوام عالم کے سامنے ہے۔ جو لوگ روز مچھروں کی طرح وجود میں آتے ہیں اور چیونٹیوں کی طرح فناء ہوجاتے ہیں، وہ کیا جانیں کہ تاریخ کی پیشانی کا حسین جھومر، انسانیت کے چہرے کا غازہ، اعلیٰ اخلاق وکردار کے امین، بلند ہمت، باضمیر اور بامروّت امیر المؤمنین ملا محمد عمر المجاہد جیسے لوگ ہی اپنے نظریے پر حکومت اور ریاست قربان کرنے کی طاقت رکھتے ہیں، ورنہ ہر مدعی کے واسطے دار ورسن کہاں؟
اس سلسلے میں یہ گواہی قابلِ ذکر ہے کہ پاکستان کے ایک اعلیٰ فوجی افسر نے اپنی کہانی ، خود اپنی زبانی میں آپ کی جرأت اور استقامت کا یوں تذکرہ کیا ہے :
’’یہ نائن الیون سے تین برس پہلے کی بات ہے ، ستمبر ۱۹۹۸ء میں پاکستانی اعلی عہدیدار نے سعودی انٹیلی جنس کے وزیر پرنس ترکی الفیصل کے ساتھ ملا عمر سے قندھار میں ملاقات کی اور اسامہ بن لادن کو افغانستان سے نکالنے پر زور دیا ۔ شہزادے نے طالبان کے قائد سے کہا کہ آپ نے تین ماہ پہلے وعدہ کیا تھا کہ اسامہ کو ہمارے حوالے کر دیں گے ، مگر اب آپ اسامہ کو سعودی عرب کے حوالے کرنے سے گریزاں ہیں ۔ شہزادے نے ملا عمر سے شکایت کی کہ یہ صرف امریکہ کا معاملہ نہیں ، اسامہ سعودی عرب میں بھی حکومت کے خلاف تحریک کا روحِ رواں ہے ۔ طالبان اسے سعودی عرب کے حوالے کرنے کا وعدہ کیوں پورا نہیں کرتے ۔
اس موقعے پر پاکستانی اعلیٰ عہدیدار نے ملا عمر سے کہا ، روسیوں کے خلاف جہاد کو پاکستان اور سعودی عرب دونوں نے سپورٹ کیا تھا ، لہٰذا ان کو چاہیے کہ وہ پاکستان اور سعودی عرب کو ناراض نہ کریں ۔ وہ اسامہ کو یا تو افغانستان سے نکال دیںیا پھر اسے اس کے اپنے ملک کی حکومت کے حوالے کردیں ۔ پاکستانی اعلیٰ عہدیدار نے ملا عمر سے کہا ، اسامہ پاکستان سے طالبان کے تعلقات پر بھی برے اثرات ڈال سکتا ہے ۔ انہوں نے اس اندیشے کا اظہار بھی کیا کہ امریکہ اسامہ کا بہانہ بنا کر افغانستان پر حملہ بھی کر سکتا ہے ۔ اگر اسامہ کو افغانستان سے نکال دیا جائے گا تو دوسرے ممالک بھی طالبان کی حکومت کو تسلیم کر کر لیں گے ۔ شہزادے نے بار بار تین ماہ پہلے کے وعدے کا حوالہ دیا ۔ ملا عمر نے بڑی استقامت سے یہ دبائو سہا ، آخر میں کہا ، شہزادہ صاحب آپ کو جھوٹ زیب نہیں دیتا ، میں نے آپ کے ساتھ کبھی کوئی ایسا وعدہ نہیں کیا تھا ۔ ملا عمر نے کہا ، بڑے افسوس کی بات ہے کہ سعودی عرب اس موقعے پر افغانستان کی مدد کرنے کی بجائے ہم پر اسامہ کا بہانہ بنا کر دبائو ڈال رہے ہیں ۔ اسامہ کو اس وقت بے یا رو مدد گار کیسے چھوڑا جا سکتا ہے کہ جب کوئی بھی ملک انہیں پناہ دینے کے لیے تیار نہیں اور ان کو شمالی اتحادوالوں سے بھی خطرہ ہے جنہیں ایران کی مدد حاصل ہے ۔ شہزادہ کچھ دیر تک ضبط کرتا رہا لیکن پھر وہ اپنے حواس کھو بیٹھا ۔
اس نے ملا عمر پر انگلی تانی جو ملا عمر کو خاصی ناگوار گزری ۔ اچانک ملا عمر اٹھے اور غصے سے باہر چلے گئے ۔ ایک گارڈ بھی ان کے پیچھے گیا ۔ چند منٹ بعد ملا عمر واپس آئے تو ان کے سر کے بالوں سے پانی ٹپک رہا تھا اور قمیص بازوئوں سمیت گیلی ہو رہی تھی ۔ ملا عمر نے کہا ، میں دوسرے کمرے میں اس لیے گیا تھا تاکہ اپنے سر پر ٹھنڈا پانی ڈال کر اپنے آپ کو ٹھنڈا کر سکوں ۔ شہزادے اگر تم میرے مہمان نہ ہوتے تو آج میں تمہیں عبرت ناک سزا دیتا ، ملا عمر کی اس سخت ڈانٹ پر عرب شہزادہ سہم سا گیا ۔ اس کے بعد ملا عمر کا غصہ آہستہ آہستہ فرو ہو گیا ۔ انہوں نے کہا ، میں اسامہ کا فیصلہ کرنے کے لیے سعودی اور افغان علماء پر مشتمل ایک کونسل بنانے کے لیے تیار ہوں ۔ اس موقعے پر ملا عمر نے اسامہ ہی کی طرح سعودی عرب میں امریکی فوج کے آنے کی سخت الفاظ میں مخالفت کی اور کہا کہ سعودی عرب کو آزاد کرانے کے لیے ساری مسلم امہ کو متحد ہو جانا چاہیے ۔
ملا عمر نے کہا ، پرانے سعودیوں کو اپنی عزت کا احساس ہوتا تو وہ کبھی بھی امریکی فوجوں کو سعودی عرب میں داخل نہ ہونے دیتے ۔ انہوں نے کہا ، میں نے اسامہ سے یہ لکھوالیا ہے کہ وہ طالبان کی حکومت میں رہ کر کسی دوسرے ملک کے خلاف کاروائی میں ملوث نہیں ہوں گے ۔ انہوں نے مہمانوں کو رخصت کرتے ہوئے ایک بار پھر لگی لپٹی رکھے بغیر کہا : مجھے بہت افسوس ہے کہ سعودی عرب اور پاکستان اسامہ کے بحران میں طالبان کے بجائے امریکہ کا ساتھ دے رہے ہیں ۔ ملا عمر کی یہ جرأت گفتار ان کے ایمان و یقین کا منہ بولتا ثبوت تھی ‘‘۔
ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ امیر المؤمنین ملا محمد عمر مجاہدرحمۃ اللہ علیہ کی خارجہ پالیسی کیا تھی؟ وہ امریکہ جیسی طاقت سے کیوں مرعوب نہیں ہوتے تھے؟ انہیں اپنے پڑوس میں روس جیسی مضبوط ریاست کیوں نہیں ڈرا سکتی تھی؟ ہمیں تو بحیثیت ایک مسلمان ہونے کے اُن سے محبت وعقیدت اس لیے ہے کہ انہوں نے چند روزہ دور حکومت میں قرآن کریم کو گھروں اور مساجد کی الماریوں سے نکال کر عدالت اور بازار میں قانون کا درجہ دے دیا، انہوں نے اﷲ کی زمین پر اﷲ کا نظام نافذ کرکے ثابت کردیا کہ جدید دور، اکیسویں صدی، ماڈرن اسلام، عالمی برادری اور انسانی حقوق یہ سب نہ کرنے کے بہانے ہیں اور:
’’جو تو ہی نہ چاہے تو بہانے ہزار ہیں‘‘
انہوں نے بامیان کے بت گراکر ابراہیم خلیل اﷲ علیہ السلام کی بت شکنی کی یاد تازہ کردی، انہوں نے چیچنیا کی آزاد مسلم ریاست کو سب سے پہلے تسلیم کرکے حق اخوت ادا کردیا، انہوں نے حاکم اور رعایا کے درمیان فرق کو مٹاکر اس تیسری دنیا کی روایت ہی بدل ڈالی جہاں کے عوام بھوکوں مرتے ہیں اور اراکین پارلیمنٹ بدہضمی کی وجہ سے کوچ کر جاتے ہیں، جہاں رعایا بے گھر اور بے در ہوتے ہیں لیکن صدر اور وزیر اعظم کے ایوان پورے شہر کا منظر پیش کرتے ہیں۔
آپ کے سادہ طرز زندگی ، خوبصورت طرز ِ معاشرت اور اخلاقِ کریمانہ نے ہر اُس شخص کا دل موہ لیا تھا ، جس نے کبھی آپ سے ملاقات کی ہو۔ پاکستان کے کئی نامور صحافی اور کالم نگار اپنے جذبات کا اظہار اپنے کالموں میں کر چکے ہیں ۔ برادرِ عزیز مولانا محمد مقصود احمد شہیدرحمۃ اللہ علیہ نے اپنی مقبول و معروف کتاب ’’ میں نے کابل بستے دیکھا ‘‘ میں امیر المومنین ملا محمد عمر مجاہد رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضری کی منظر کشی یوں کی ہے :
’’ہمارے سامنے امیر المؤمنین ملا محمد عمر مجاہد کھڑے تھے۔ دراز قد، وجیہ شکل وصورت، سرپر سیاہ عمامہ رکھے، سادہ سے کپڑوں میں ملبوس ملا صاحب نے سب مہمانوں سے معانقہ کیا اور پھر انہیں بیٹھنے کی دعوت دیتے ہوئے، خود بھی اس مسہری کا سہارا لے کر بیٹھ گئے جس پر گدّا تو بچھا ہوا تھا مگر چادر غائب تھی۔ ملا صاحب نے خود اسی مسہری سے ٹیک لگائی اور مہمانوں کو گاؤ تکیے پیش کیے۔ بیٹھنے کے بعد کچھ دیر تک تو سبھی مہمان اس عظیم شخص کی جانب دیکھتے ہی رہے جو اتنے بڑے ملک پر حکمرانی کرتے ہوئے بھی اس قدر سادہ طرز میں زندگی بسر کر رہا تھا۔
جی ہاں! امیر المؤمنین کے کمرۂ ملاقات میں نہ آرام دہ صوفے تھے، نہ خوبصورت کرسیاں، نہ کاغذات صدارت سے سجی دھجی میز تھی اور نہ ہی کمرے کی چھت پر کوئی چمکتا دمکتا فانوس لٹکتا نظر آرہا تھا۔ بس ایک افغانی قالین تھا جو پورے کمرے میں بچھا ہوا تھا اور اس کی چاروں جانب افغان طرز کے مطابق روئی کے گدے رکھے ہوئے تھے۔ افغانستان کے اکثر علاقے اگرچہ گرمیوں میں بھی مناسب موسم رکھتے ہیں مگر قندھار ان میں سے نہیں۔ شہر کے آس پاس پھیلے ہوئے وسیع وعریض ریگستانی علاقے کی وجہ سے گرمیوں میں اس شہر میں شدید گرم موسم ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود امیر المؤمنین کے دفتر میں ہماری متلاشی نگاہوں کو ایک بھی ایئر کنڈیشن دکھائی نہیں دیا۔ کیونکہ ملا محمد عمر اور ان کے دیگر عہدیدارانِ امارت ایسے ہی موسم میں گزر بسر کرتے رہے ہیں۔
امیر المؤمنین نے مہمانوں سے انتہائی دھیمے انداز میں خیر وعافیت دریافت کی اور پھر باقاعدہ گفتگو کا آغاز ہوا۔ گفتگو کے دوران طالبان حکومت کی داخلی وخارجی پالیسیوں کے بارے میں مختصر مگر سیر حاصل بات چیت ہوئی۔ ملا عمر صاحب نے آنے والے مہمانوں کے مشورے خندہ پیشانی سے سنے اور مختصر الفاظ میں ان کے سوالات کے جوابات دئیے۔ گفتگو کے دوران جب بعض مہمانوں نے طالبان کے راہنما کومشورہ دیا کہ وہ بیرونی دنیا میں طالبان کیلئے رائے عامہ ہموار کرنے کیلئے طالبان کے اعلیٰ عہدیداروں پر مشتمل ایک باقاعدہ وفد ترتیب دیں تو ملا صاحب نے جواب دیا کہ یہ کام اگرآپ لوگ کریں تو زیادہ بہترہے۔ کیونکہ طالبان کے حق میں اپنوں سے زیادہ غیروں کی گواہی مؤثر ہوسکتی ہے۔
ملا صاحب سے ہمارے وفد کی گفتگو تقریباً آدھے گھنٹے تک جاری رہی اور پھر ہم نے ان سے رخصت ہونے کیلئے اجازت چاہی۔ رخصت کرتے ہوئے انہوں نے ایک مرتبہ پھر سب سے معانقہ کیا۔ اس موقع پر ہمارے ایک دوست نے جب ان سے کہا کہ ’’دعا کیجئے کہ اﷲ تعالیٰ مجھے شہادت عطا فرمائیں‘‘ تو انہوں نے بڑی سنجیدگی سے کہا ’’اﷲ تعالیٰ آپ کو وہ مقام عطا فرمائیں جو انہیں پسند ہو۔‘‘ اور پھر ہم سب امیر المؤمنین سے رخصت ہوگئے‘‘۔
انہوں نے سیدھا سادھا اور صاف ستھرا عدالتی نظام قائم کیا جہاں انصاف سربلند اور ظلم سرنگوں ہوتا تھا، انہوں نے ایک مسلمان ملک میں عیسائی مشنریوں کے عزائم کو بے نقاب کرتے ہوئے ان کو لگام دی۔ انہوں نے ہمہ وقت حالت جنگ میں ہونے کے باوجود اپنے عوام کی زندگی آسان بنانے کی ہر ممکن کوشش کی۔ سچ تو یہ ہے کہ امیر المؤمنین ملا محمد عمر مجاہدرحمۃ اللہ علیہ نے تاریخ کے دھارے کو موڑ دیا۔ دنیا بھر کے مظلوموں کو ظلم کے سامنے سینہ تان کر کھڑا ہونے کا سبق سکھایااور تہذیب کے خوشنما پردوں میں پوشیدہ عالمی غنڈوں کی ہر بات ماننے سے انکار کردیا۔
بلاشبہ امیر المؤمنین ملا محمد عمر مجاہدرحمۃ اللہ علیہ نے وہ سب کچھ کردیا، جو کچھ وہ کرسکتے تھے، اسی لیے تو دنیا بھر کا کفر اور نفاق ان کے مقابلے میں یکسو اور متحد تھا اور ہم نے میڈیا میں یہ مناظر بھی دیکھے کہ امریکی، آسٹریلو ی، برطانوی اور فرانسیسی نومسلم بھی امیر المؤمنین ملا محمد عمر مجاہدرحمۃ اللہ علیہ کے لشکر کے شانہ بشانہ برسر پیکار تھے۔ گویا آپ حق وصداقت کی وہ شمع فروزاں تھے جن کی طرف فرزندانِ توحید پروانہ وار لپکتے تھے۔
آج کی زندہ حقیقت یہ ہے کہ غیروں کی بمباری اور اپنوں کی ستم رانی کے باوجود امیر المؤمنین ملا محمد عمر مجاہدرحمۃ اللہ علیہ کے ساتھی اپنے پورے عزم وحوصلے کے ساتھ موجود ہیں۔ ذرائع ابلاغ میں جگہ پانے والے ان کے حملے ان کی توانائی اور جوانی کی دلیل ہیں۔ وہ بوریا نشین ایسے نہ تھے جنہیں صرف اپنی حکومت اور صدارت بچانے کیلئے ایمان اور غیرت کی قربانی دینی پڑتی، وہ کل قصر شاہی میں تھے تو ان کے بال وپرسلامت تھے اور آج پہاڑوں کی چٹانوں پر بسیرا کرچکے ہیں تو بھی ان میں شاہین کی ساری خوبیاں موجود ہیں۔
امیر المؤمنین ملا محمد عمر مجاہدرحمۃ اللہ علیہ یاد آتے ہیں اور بہت یاد آتے ہیں…وہ کیوںیاد نہ آئیں کہ انہوں نے جس طرح وفا کے پھولوں سے زمانے کی مانگ بھردی اس کے سامنے وفا کی تمام عشقیہ داستانیں بھی معمولی نظر آتی ہیں۔
ان للہ ما أخذ و لہ ما اعطی و کل شی ء عندہ بأ جل مسمی ۔ القلب یحزن والعین تد مع ولا نقول الا ما یرضی بہ ربنا تبارک و تعالیٰ ۔ انا للہ و انا الیہ راجعون … انا بفراقک لمحزونون … یا امیر المؤمنین۔
عجب اک شان سے دربار حق میں سرخرو ٹھہرے
جو دنیا کے کٹہروں میں عدو کے روبرو ٹھہرے
بھرے گلشن میں جن پر انگلیاں اٹھی وہی غنچے
فرشتوں کی کتابوں میں چمن کی آبرو ٹھہرے
٭٭٭
پھو نکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا
کلمۂ حق ۔ مولانا محمد منصور احمد (شمارہ 505)
اردو میں ایک محاورہ ہے کہ ’’بی مینڈ کی کو بھی زکام ہو گیا ہے ‘‘ عموماً ـــــیہ محاورہ تب بولا جاتا ہے جب کوئی شخص اپنی حد اور اوقات سے بڑھ کر کچھ کرے یا کچھ کہے۔
میری زبان پر یہ محاورہ اس وقت بلاا ختیار آگیا جب اخبارات اور سوشل میڈیا پر یہ خبر نظر سے گزری کہ شام کے موجودہ صدر بشارالٔاسد نے قرآن مجید کا ایک تحریف شدہ نسخہ تیار کروایا ہے اور وہ اس نسخے کو رائج کرنے کا ارادہ رکھتا ہے ۔
قرآن مجید کے خلاف سازشوںکی تاریخ کوئی نئی نہیں ہے ۔اللہ تعالیٰ کا یہ پاک کلام جب رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہو رہا تھا اسی وقت سے اس کے خلاف سازشوں کا آغاز ہو گیا تھا ۔اس کی دعوت کو روکنے کیلئے اور اس کے پیغام کو ختم کرنے کے لئے قسما قسم کے حربے اختیار کئے گئے ،طرح طرح کے دائوآزمائے گئے اور کفار نے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا کہ کسی طرح اس کلام پاک کی روشنی کو بجھادیں اور اس کی خوشبو کو محدود اور مقید کر دیں ۔
خود قرآن عظیم الشان نے اپنے خلاف ہونے والی سازشوں کی طرف جا بجا اشارہ کیا ہے ۔مثلا سورہ حم السجدہ کی ایک آیت میں بتایا گیا ہے :
وقال الذین کفروالاتسمعوالھذا القرآن والغوافیہ لعلکم تغلبون ۔(۲۶)
(اور یہ کافر کہتے ہیں کہ :اس قرآن کو سنو ہی نہیں اور اس کے درمیان شورمچایا کرو ۔شاید اس طرح تم غالب آجائو)
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب قرآن مجید کی تلاوت کرتے تو اُس کی تاثیر سے بڑے پتھر دل بھی موم ہو جاتے تھے اور یہ کلام اُس کے دل کی دنیا بدل ڈالا کرتا تھا ۔جب مشرکین نے یہ صورت حال دیکھی تو اپنے ایجنٹوں اور چھوٹوں کو کہا کہ دیکھو تم خود کبھی قرآن مجید نہ سننا کہ کہیں تمہارے دل پر بھی اس کا اثر نہ ہو جائے اور ساتھ شور بھی مچانا تا کہ کوئی اور بھی اس پاک کلام کو نہ سن سکے ۔اسی لئے وہ لوگ جب دیکھتے کہ قرآن مجید کی تلاوت ہو رہی ہے تو شور مچاتے ،بے تکی آوازیں نکالتے،سیٹیاں بجاتے اور تالیاں پیٹتے۔بے وقوف سمجھتے تھے کہ شاید اس طرح وہ قرآن مجید کی آواز کو دبا لیں گے اور اس کے پیغام کو روک لیں گے۔
قرآن مجید کے خلاف سازش کے اس طریقے پر آج بھی عمل ہو رہا ہے ۔جہاں سے خالص قرآن مجید کی دعوت اٹھتی ہوئی نظر آتی ہے یا اس کی تعلیم عام ہوتی ہوئی دکھائی دیتی ہے ،فوراًشور مچنے لگ جاتا ہے کہ یہ تو کمپیوٹر اور سائنس کا دور ہے۔اس دور میں بھلا صرف قرآن مجید کی تعلیم سے کیسے گزارہ ہو سکتا ہے ،اس شور اور غل کا مقصد مسلمانوں کی خیر خواہی نہیں ہوتی بلکہ اس کا واحد مقصد اُنہیں قرآن مجید سے غافل اور محروم کرنا ہوتا ہے ۔
اللہ تعالیٰ کی قدرت کا کرشمہ دیکھیں کہ اُ س نے قرآن مجید کی حفاظت کا ایسا شاندار انتظام فرمایا کہ اُس کا توڑ کسی انسان کے بس میں نہیں ۔کفار شور مچاتے رہے لیکن قرآن مجید کا پیغام پھیلتا رہا ۔قرآن مجید کا نور عام ہوتا رہا اور اس کی طاقت دلوں کو مسخر کرتی رہی ۔پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے ایسے نیک اور مقبول بندے پیدا فرمادیئے ،جن کی زندگیوں کا واحد مقصد قرآن مجید کی حفاظت اور اشاعت تھا ۔وہ اس پاک کلام کے ایسے عاشق تھے کہ اُنہیں دنیا بھر کی تمام چیزیں اس کے سامنے ہیچ نظر آتی تھیں ۔اُن کا چلنا پھرنا ،اُٹھنا بیٹھنا ،سونا جاگنا ،سب قرآن مجید کے ساتھ ہوتا تھا ۔
ایسے لوگ ہر دور میں پیدا ہوتے رہے اور آج بھی ایسے سینکڑوں اور ہزاروں لوگ موجود ہیں ،جن پر زمانے کے کسی پروپیگنڈے اور اھل زمانہ کے کسی شور شرابے کا کوئی اثر نہیں ۔ وہ جیتے ہیں تو قران مجید کیلئے اور مرتے ہیں تو قرآن مجید کیلئے ۔ اُ ن کے خیالات اور جذبات کا محور بھی قرآن مجید ہے اور اُن کے ذوق وشوق کی تسکین بھی قرآن مجید ۔قرآن مجید کی حفاظت پر مأمور یہ خدائی اہلکار دنیا کے ہر خطے میں موجود ہیں اور انہی کی قربانیوں کی بدولت دشمنان قرآن کو اس محفوظ اور مضبوط قلعے میں نقب لگانے کا کوئی راستہ نہیں ملتا ۔مدارس دینیہ اور مکاتب قرآنیہ کا موجودہ نظام ،جو کسی طرح بھی اہل باطل کو ہضم نہیں ہو رہا ،اسی سلسلے کی کڑی ہے ۔
بات شروع ہوئی تھی ’’بی مینڈ کی کے زکام سے ‘‘ شام کے صدر بشارالأسد کا تعلق فکری اعتبار سے جس قبیلے سے ہے ،اُس کی قرآن دشمنی کوئی راز نہیں۔ اسی قبیلے کے سر کردہ لوگ ’’تفصیل الخطاب فی تحریف کتاب رب الأرباب ‘‘ جیسی بے سروپا کتابیں لکھ کر اور’’ سورۃ الولایۃ ‘‘جیسی بے تکی عبارتیں جوڑکر حفاظت قرآن کو چیلنج کرنے کی ناپاک جسارتیں پہلے بھی کرتے آئے ہیں ۔
بشارالأسد نے کوئی نیا کام نہیں کیا البتہ اُ س نے اپنے افکا ر وخیالات سے ’’تقیہ ‘‘ کی چادر سرکاکراپنا خبث باطن ظاہر کر دیا ہے ورنہ اس قبیلے نے قرآن مقدس کے بارے میں جو کچھ کہا ہے ،لکھا ہے اور ساتھ ہی مسلمانوں کو دھوکہ دینے کے لیے ایسی غلاظت کو چھپانے کا جو بندوبست کیا ہے وہ سب اگر ظاہر ہو جائے تو ایران کے نام نہاد اسلامی انقلاب اور عالم عرب کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے والی حزب الشیاطین کے سارے دعووں کی قلعی کھل جائے۔
عقل مند کہتے ہیں کہ چاند پر تھوکا ،اپنے ہی منہ پر واپس آتا ہے ۔قرآن مجید کے دشمن جتنا زور اس کی دشمنی میں لگاتے ہیں ،یہ کلام پاک اتنا ہی چمکتا ہے اور اپنی خوشبوئیں بکھیرتا ہے۔قرآن مجید اور اس کے ماننے والے تو ایسے شیاطین کی بچگانہ حرکتیں دیکھ کر زیرِلب مسکراتے ہیں کہ یہ بے وقوف کن کا موں میں اپنا وقت برباد کر رہے ہیں ۔اس قرآن مجید نے تو نازل ہوتے وقت ہی یہ اعلان ایک مرتبہ نہیں ،باربار بڑی صراحت کے ساتھ واشگاف الفاظ میں کر دیا تھا:
قل لئن اجتمعت الانس والجن علی ان یأتوا بمثل ہذا القرآن لا یاتون بمثلہ ولو کان بعضہم لبعض ظہیراً (الاسراء :۸۸)
(آپ کہہ دیں کہ اگر تمام انسان اور جنات اسی کام پر اکھٹے ہو بھی جائیں کہ اس قرآن جیسا کلام بنا کر لے آئیں ،تب بھی وہ اس جیسا نہیں لا سکیں گے ،چاہے وہ ایک دوسرے کی مدد کر لیں )
اس آیت مبارکہ میں تو پورے قرآن مجید جیسی کتاب لانے کا تذکرہ ہے ،جب کفار کے لیے یہ ممکن نہ ہوا تو صرف دس سورتیں اسی جیسی بنانے کا چیلنج کیا گیا :
ام یقولون افتراہ قل فاتوا بعشرسور مثلہ مفتریت وادعوا من استطعتم من دون اللہ ان کنتم صٰدقین(ہود :۱۳)
(بھلا کیا یہ لوگ یوں کہتے ہیں کہ یہ وحی اس (پیغمبر) نے اپنی طرف سے گھڑ لی ہے ؟( اے پیغمبر!ان سے ) کہہ دو کہ :’’پھر تو تم بھی اس جیسی گھڑی ہوئی دس سورتیں بنا لاؤ،اور (اس کام میں مدد کے لیے )اللہ کے سوا جس کو بلا سکو بلا لو ، اگر تم سچے ہو ) ۔
قرآن مجید نے صرف اسی پر بس نہیں کیا بلکہ اس چیلنج کو مزید آسان کرتے ہوئے سورہ بقرہ کی آیت نمبر۲۳میں اور سورہ یونس کی آیت نمبر ۳۸ میں صرف ایک سورت اس جیسی بنانے کا مطالبہ کیا ۔نیز سورہ طور میں فرمایا گیا :
ام یقولون تقولہ بل لا یومنون،فلیأتوابحدیث مثلہ ان کانوا صدقین (۳۳۔۳۴)
(ہاں کیا وہ یہ کہتے ہیں کہ:ان صاحب نے یہ(قرآن )خود گھڑ لیا ہے ؟نہیں !بلکہ یہ (ضد میں ) ایمان نہیں لا رہے۔اگر یہ واقعی سچے ہیں تو اس جیسا کوئی کلام (گھڑ کر) لے آئیں)
تاریخ کے صفحات گواہ ہیں کہ عرب کے فصیح و بلیغ لوگ جو قرآن مجید پر ایمان نہیں لائے ،انہوں نے مسلمانوں سے سخت خون ریز جنگیں لڑیں ۔ خود بھی قتل ہوئے اور مسلمانوں کو بھی قتل کیا ۔قرآن مجید کی دعوت کو روکنے کے لیے انہوں نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا اور ایک انسان کسی کی دشمنی میں جو کچھ کر سکتا تھا ،وہ انہوں نے کیا لیکن قرآن مجید کے اس واضح چیلنج کو قبول نہیں کیا ۔
وہ لوگ جو اپنے آپ کو اتنا فصیح وبلیغ سمجھتے تھے کہ اپنے علاوہ ساری دنیا کو عجم (یعنی گونگا ) کا خطاب دے رکھا تھا ،اس میدان میں چاروں شانے چت ہو گئے اور صرف دنیا کو دکھانے کی خاطر بھی قرآن مجید جیسی کوئی کتاب پیش نہ کر سکے ۔
ہاں بشار الاسد جیسے بعض احمقوں نے
الفیل وما ادرک ما الفیل خرطومہ طویل وذنبہ قصیر
جیسی کچھ بے تکی عبارتیں بنائیں لیکن خود ان کے اہل مذہب بھی جانتے تھے کہ یہ قرآن مجید کی مثل تو کیااس کی گردِراہ کو بھی نہیں پہنچ سکتے ۔اسی لیے آج تقریباً ڈیڑھ ہزار برس گزرنے کے بعد بھی جبکہ قرآن مجید کے حافظ دنیا کے ہر خطے میں موجود ہیں ۔ہر عمر ،ہر نسل اور ہر علاقے میں قرآن مجید کی تعلیم کا چرچا عام ہے،ان بے تکی اور بے ربط عبارات کو جاننے والا بھی کوئی نہیں ہے ۔یہ ایک مسلمہ تاریخی حقیقت ہے کہ قرآن مجید کی ’’مثل ‘‘ کوئی سورت یا آیت پیش نہیں کی جا سکی اور جو انتہائی پست معیا ر کی چند عبارات سامنے آئیں تو ان کا ٹھکانہ بھی آج تاریخ کے کوڑے دان کے علاوہ کوئی نہیں ۔
آج کل ہم سن رہے ہیں کہ بر منگھم یونیورسٹی میں قرآن مجید کا ایک ۱۳۷۰سالہ قدیم نسخہ سامنے لایا گیا ہے ۔اکتوبر کے مہینے میں اس کی عام نمائش کی جائے گی اور چونکہ اس نسخے میں کئی اعتبار سے عا م نسخوں سے فرق ہے ،اس لیے اس سازش کے ذریعے مسلمانوں میں قرآن مجید کو مشکوک بنانے کی کوشش کی جائیگی۔
کاش کہ آج کوئی شخص ان احمقوں سے جا کر کہہ دے کہ تم قرآن کے خلاف جتنی سازشیں کر سکتے ہو کر لو اور جتنا زور لگا سکتے ہو لگا لو لیکن یاد رکھنا مسلمانوں کا ایک سات سال کا حافظ بچہ بھی تمہارے من گھڑت نسخوں کو دیکھ کر بتا دے گا کہ اس میں کہاں کہاں تم نے تحریف کی ہے ۔تب تمہارے اربوں ڈالروں سے بنائے منصوبے خاک میں مل جائیں گے اور قرآن مجید تمہاری حماقتوں پر مسکراتا رہے گا ۔
یہود ونصارٰ ی نے خود تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ کتابوں تورات وانجیل کو نہ صرف بدل ڈالا بلکہ دنیا کے معمولی ٹکوں کی خاطر ان کے احکامات کو بیچتے رہے ۔آج ان کی ٹیکنا لوجی کا بھوت دماغ پر سوار کرنے والے یہ کیوں نہیں سوچتے کہ کہیں دنیا میں تورات یا انجیل کا بھی کوئی حافظ ہے یا نہیں ؟ قرآن مجید کی تلاوت کرنے والے آج بھی لاکھوں نہیں ،کروڑوں انسان موجود ہیں لیکن ان کی مذہبی کتابیں ،خود ان کے معاشرے میں پڑہنے والے کل کتنے لوگ ہیں ؟
قرآن مجید کے خلاف نت نئی سازشیں اور کچھ نہیں ،صرف مسلمانوں کو قرآن مجید سے توڑنے کا بہانہ ہے اور یہودو نصاری کے حسد ، بغض اور اسلام دشمنی کا شاخسانہ ہیں ۔ یہ ظالم صرف مجھے اور آپ کو ، میری اور آپ کی نسلوں کو قرآن مجید جیسی نعمتِ کبرٰی اور نعمتِ عظمیٰ سے محروم کرنا چاہتے ہیں ورنہ یہ خود بھی اچھی طرح جا نتے ہیں !
’’پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا‘‘ ۔
یاد رکھیں ! اگر ہم خود قرآن مجید کے ساتھ وفا کرتے رہے اور ہم نے اپنی اولادوں کو قرآنی تعلیم سے جوڑے رکھا تو ان کی تمام سازشیں اپنی موت آپ مر جائیں گی۔ ان شاء اللہ تعالیٰ
٭…٭…٭
مسلمان کی عید
کلمۂ حق ۔ مولانا محمد منصور احمد (شمارہ 504)
رمضان المبارک کی محنتوں‘ قربانیوں اور نیکیوں کے صلے میں اہلِ ایمان کو عید الفطر کا انعام ملتا ہے ۔ عید کا لفظ ہی ایسا ہے کہ زبان پر آتے ہی منہ میں مٹھاس اور طبیعت میں بشاشت پیدا ہو جاتی ہے ۔
ویسے تو دنیا میں سب لوگ ہی اپنے تہوار مناتے ہیں اور ہر سال کسی خاص دن میں اپنی خوشیوں اور مسرتوں کا اظہار کرتے ہیں لیکن اہلِ اسلام کی عید میں اور غیروں کی عید میں آسمان زمین کا فرق ہے ۔ دوسری قوموں کے ہاں عید کا مطلب صرف موج مستی اور عیاشی ہے ۔ اُن کے تہوار صرف اسی سوچ پر مبنی ہوتے ہیں کہ کس طرح زیادہ سے زیادہ نفس پرستی کر لی جائے اور خوب مزے اڑا لیے جائیں ‘ اسی لیے وہ اپنے خوشی کے تہواروں پر کسی روک ٹوک یا کسی پابندی کے قائل نہیں ۔
اُن کے قومی تہواروں پر بے راہ روی کا اندازہ آپ صرف اس بات سے لگالیں کہ سیدنا حضرت عیسیٰ علیہ السلام جیسے عظیم پیغمبر کا من گھڑت یومِ پیدائش ۲۵؍ دسمبر مقرر کر لیا گیا اور پھر اس کی نسبت سے ہر سال ’’ کرسمس ڈے ‘‘ منایا جانے لگا ۔ عیسائی دنیا میں جتنی شراب اس موقع پر پی جاتی ہے پورے سال نہیں پی جاتی اور جتنی اخلاقی پستی کے مظاہرے ، ایک پاک نبی علیہ الصلاۃ والسلام کے مزعومہ یوم پیدائش پر ‘ نظر آتے ہیں ‘ سال بھر دکھائی نہیں دیتے ۔
اس کے برخلاف مسلمانوں کی جو دوسالانہ عیدیں ہیں ۔ عید الفطر اور عیدالاضحی ۔ دونوں ہی کو خاص اعمال کے بعد مقرر فرما کر اُن میں ایک خوبصورت اور ایمان افروز نظریہ سمودیا گیا ہے ۔ عید الفطر کا انعام تب نصیب ہوتا ہے ‘ جب مسلمان پورے ایک مہینہ تک اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر بھوک پیاس برداشت کر کے روزے جیسی عبادت سر انجام دیتے ہیں اور اپنے عمل سے اپنے آپ کو انعام کا مستحق بنا لیتے ہیں ۔ اسی طرح عیدالاضحی تب منائی جاتی ہے ‘ جب دنیا بھر سے آئے مسلمان حج بیت اللہ شریف کی سعادت حاصل کرتے ہیں اور مسلمانوں کی ایک عالمگیر برادری وجود میں آتی ہے‘ جس میں امیر و غریب ‘ حاکم و محکوم ‘ بادشاہ ورعایا ‘ عرب و عجم اور مشرق و مغرب کی کوئی تفریق نہیں ہوتی ۔ پھر ساتھ ہی اس عید میں ساری دنیا کے صاحب ِ حیثیت مسلمان قربانی کا عمل ادا کرتے ہیں‘ جو خود سیدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یاد گار ہونے کی حیثیت سے ایک بہت عظیم ایمانی اور روحانی پیغام ہے ۔
آگے مزید دیکھئے کہ مسلمانوں کی دونوں عیدیں جب شروع ہوتی ہیں ‘ تو اُس دن کا آغاز دو رکعت نماز ِ عید واجب سے ہوتا ہے اور مسلمان یہ نماز ادا کر کے اس بات کا عملی اظہار کرتے ہیں کہ ہماری عید صرف وہ ہی ہے ‘ جس میں ہمارے رب تعالیٰ جل شانہ کی خوشنودی اور رضا مندی ہو ۔ جس بندے سے اُس کا خالق و مالک نا خوش ہو ‘اُس کیلئے بھلا خوشی کا کیا مطلب اور مسرت کا کیا موقع ہے ۔
اسلام نے خوشی اور مسرت کے اظہار سے منع نہیں کیا اور جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ دینی زندگی اختیار کرنے کا مطلب صرف خشک مزاجی اور روکھا پن ہے تو ایسے شخص کو چاہیے کہ وہ رحمت ِ دو عالم ﷺکی سیرت ِ طیبہ کا مطالعہ کرے ، جہاں اُسے زندگی اپنی تمام تر حقیقی رعنائیوں اور خوبصورت رنگینیوں کے ساتھ نظر آئے گی ۔ خوش مزاجی ‘ دائمی تبسم ‘ خندہ پیشانی ‘ با معنیٰ اور برمحل تبصرے اور پُر لطف جاندار جملے ‘ یہ سب کچھ اُس نبیٔ رحمت ﷺکی سیرت کے ہر ورق پر ہمیں مل جائے گا ‘ جنہیں قیامت تک کے انسانوں کیلئے ’’اسوئہ حسنہ‘‘ قرار دیا گیا ہے ۔
البتہ اسلام نے ایسی تفریحات سے ضرور روکا ہے جو معاشرے میں خرابیوں کے جنم لینے کا باعث بنیں یا اُن سے کسی قسم کی اخلاقی بے راہ روی پیدا ہو ۔ اسلام نے جن کاموں پر پابندی عائد کی جیسے شراب نوشی ‘ جُوا ‘مردوزن کا اختلاط اور دیگر ایسے تمام فواحش و منکرات ‘ تو اس پابندی میں ہی انسانی معاشرے کی بقاء اور صلاح پوشیدہ ہے ۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی انسانوں نے ان پابندیوں کو توڑ کر مادرپدر آزادی کا مظاہرہ کیا تو نتیجے میں ایسے اخلاقی بگاڑ اور انسانی بحران پیدا ہوئے کہ انسانیت کا سر شرم سے جھک گیا ۔
تعجب تو اُن لوگوں پر ہے جو اپنے جیسے انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین کے احترام کو تو ضروری گرادنتے ہیں اور یہ پابندیاں اُنہیں ایک انسانی معاشرے کی اصلاح کیلئے ضروری معلوم ہوتی ہیں ۔ اُن کے نزدیک ان پابندیوں سے انسانی حقوق متاثر ہوتے ہیں اور نہ ہی وہ آزادیٔ ضمیر کے خلاف ہیں لیکن جوں ہی ایسے لوگوں کے سامنے اسلامی تعلیمات کی روشنی میں کسی پابندی کا تذکرہ کیا جائے جو کسی انسان کی طرف سے نہیں ‘ بلکہ ہم سب کے خالق و مالک اور نفع و نقصان کو جاننے والے یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے عائد کی گئی ہوں تو اُنہیں قسما قسم کے اعتراضات سوجھنے لگتے ہیں ۔ ایسے ہی لوگ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کا مصداق ہیں:
ولا تکونوا کالذین نسوا اللہ فانسھم انفسھم اولئک ھم الفسقون(الحشر )
(اور تم اُن لوگوں کی طرح نہ ہو جائو ‘ جنہوں نے اللہ تعالیٰ کو بھلا دیا تو اللہ تعالیٰ نے اُنہیں اپنا آپ بھلا دیا ۔ ایسے ہی لوگ نافرمان ہیں)۔
اسی لیے آپ دیکھیں گے کہ آج وہ معاشرے جو خدائی پابندیوں سے آزاد اور وحیٔ الٰہی کی راہنمائی سے محروم ہوئے ، وہاں اخلاقی قدروں اور انسانی اعلیٰ روایات تک کا جنازہ نکل چکا ہے ۔ ایسی ایسی اخلاقی اور معاشرتی برائیاں اور خرابیاں جنم لے رہی ہیں کہ قلم میں اُن کو تحریر میں لانے کی سکت نہیں ہے ۔ اہلِ وطن کو یورپ اور امریکہ کے عشق میں مبتلا کرنے کے لیے وہاں کے صرف ظاہری خوبیوں کو بیان کیا جاتا ہے لیکن جو لوگ ایمان کی نگاہوں سے خود وہاں کی سوسائٹی کو دیکھ کر آئے ہیں وہ جب اُن کا کھوکھلا پن اور حد سے بڑی ہوئی بے راہ روی اور مادر پدر آزادی ، رشتوں کی بے اعتباری اور انسانیت کی توہین و تذلیل کے واقعات سناتے ہیں تو انسان کانوں کو ہاتھ لگانے پر مجبور ہو جاتا ہے ۔
اسلام سے قبل دور جاہلیت میں اہل مدینہ دو تہوار مناتے تھے جوجاہلی مزاج وتصورات اور جاہلی روایات کے آئینہ دار ہوتے تھے۔ رسول اللہﷺ نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے ان قدیمی تہواروں کو ختم کرکے ان کی جگہ عید الفطر اور عید الاضحی دو تہوار اس امت کے لئے مقرر فرما دئیے جو اس کے دینی مزاج اور اصول حیات کے عین مطابق اوراس کی تاریخ و روایات اور عقائد وتصورات کی پوری آئینہ دار ہیں۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ مکہ سے ہجرت فرما کر مدینہ طیبہ تشریف لائے تو اہل مدینہ (جن کی کافی تعداد پہلے ہی سے اسلام قبول کر چکی تھی) دو تہوار منایا کرتے تھے اوران میں کھیل تماشے کیا کرتے تھے۔ رسول اللہﷺ نے ان سے پوچھا کہ: یہ دو دن جو تم مناتے ہو ان کی کیا حقیقت اور حیثیت ہے ؟ (یعنی تمہارے ان تہواروں کی کیا اصلیت اورتاریخ ہے؟) انہوں نے عرض کیا: ہم جاہلیت میں(یعنی) اسلام سے پہلے یہ تہوار اسی طرح منایا کرتے تھے (بس وہی رواج ہے جواب تک چل رہا ہے)رسول اللہﷺنے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے ان دوتہواروں کے بدلہ میں ان سے بہتر دو دن تمہارے لئے مقرر کر دئیے ہیں۔ (اب یہی تمہارے قومی اور مذہبی تہوار ہیں) یوم عید الاضحی اور یوم عید الفطر۔ (سنن ابی دائود)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عید الفطر کے دن دو رکعت نماز پڑھی اور اس سے پہلے یا بعد (یعنی نماز عید کے اوّل و آخر) آپ نے کوئی نفل نماز نہیں پڑھی۔ ( بخاری و مسلم)
حضرت بریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ معمول یہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم عید الفطر کی نماز کے لئے کچھ کھا کر تشریف لے جاتے تھے اور عید الاضحی کے دن نماز پڑھنے تک کچھ نہیں کھاتے تھے۔ (جامع ترمذی، سنن ابن ماجہ، سنن دارمی)
صحیح بخاری میں حضرت انس رضی اللہ عنہ کی روایت سے یہ بھی مروی ہے کہ عید الفطر کے دن نماز کو تشریف لے جانے سے پہلے آپ چند کھجوریں تناول فرماتے تھے اور طاق عدد تناول فرماتے تھے۔
عیدالاضحی کے دن نماز کے بعد کھانے کی وجہ غالباً یہ ہوگی کہ اس دن سب سے پہلے قربانی ہی کا گوشت منہ میں جائے جو ایک طرح سے اللہ تعالیٰ کی ضیافت ہے اور عید الفطر میں علی الصبح نماز سے پہلے ہی کچھ کھالینا غالباً اس لئے ہوتا تھا کہ جس اللہ کے حکم سے رمضان کے پورے مہینہ دن میں کھانا پینا بالکل بند رہا۔آج جب اس کی طرف سے دن میں کھانے پینے کی اجازت ملی اور اسی میں اس کی رضا اور خوشنودی معلوم ہوئی تو طالب و محتاج بندہ کی طرح صبح ہی اس کی نعمتوں سے لذت اندوز ہونے لگے کہ بندگی کا مقام یہی ہے۔(معارف الحدیث ج۳، کتاب الصلوٰۃ)
حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ عید کے دن راستہ بدل دیتے تھے۔ (صحیح بخاری)
مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی نماز کے لئے جس راستہ سے عید گاہ تشریف لے جاتے تھے، واپسی میں اس کو چھوڑ کر دوسرے راستہ سے تشریف لاتے تھے۔ علماء نے اس کی مختلف حکمتیں بیان کی ہیں۔ ان میں سے زیادہ قرین قیاس یہ ہے کہ آپ یہ اس لئے کرتے تھے کہ اس طرح شعائر اسلام اور مسلمانوں کی اجتماعیت وشوکت کا زیادہ سے زیادہ اظہار و اعلان ہو۔ نیز عید میں جشن اور تفریح کا جو پہلو ہے اس کے لئے بھی یہی مناسب ہے کہ مختلف راستوں اور بستی کے مختلف حصوں سے گزرا جائے۔
اہل ِ علم نے ان احادیث اور دیگر روایات کی روشنی میں لکھا ہے کہ عید الفطر کے دن تیرہ کام مسنون ہیں:
(۱)شرعی حدود میں رہتے ہوئے اپنی آرائش کرنا (۲)غسل کرنا (۳)مسواک کرنا (۴)اپنے کپڑوں میں سے سب سے عمدہ لباس پہننا (۵)خوشبو لگانا (۶)صبح کو بہت جلدی اٹھنا (۷)عیدگاہ جلد از جلد پہنچنا (۸)عیدگاہ جانے سے پہلے کوئی میٹھی چیز مثلاً کھجور کھانا (۹)عیدگاہ جانے سے پہلے صدقۂ فطر ادا کردینا (۱۰)نماز عید، عیدگاہ میں ادا کرنا (یعنی بلا عذر مسجد میں نہ پڑھنا) (۱۱)عیدگاہ جانے اور آنے کیلئے راستہ تبدیل کرنا (۱۲)اگر زیادہ دور نہ ہوتو پیدل جانا (۱۳)عیدگاہ جاتے ہوئے راستے میں اﷲاکبر اﷲ اکبر لا الہ الا اﷲ واﷲ اکبر اﷲ اکبر وﷲ الحمد آہستہ آواز سے پڑھنا۔
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ عید کا دن مبارک اور خوشی کا موقع ہوتا ہے۔ مسلمانوں کو اپنی خوشی کافروں کی طرح نہیں منانی چاہئے۔ ناچ گانا، فحاشی عریانی، عورتوں مردوں کا مخلوط اجتماع اور ٹی وی فلم وغیرہ دیکھنا سب اﷲ تعالیٰ کو ناراض کرنے والے کام ہیں۔ یہ خوشی جس رب نے عطا کی ہے، ہر لمحہ اس کو خوش رکھنے والے کام کرنے چاہئیں۔
اسی طرح عید کے موقع پر ہمیں امت مسلمہ کے مظلوم مردوں عورتوں اور بچوں کو بھی یاد رکھنا چاہیے کہ ان سب سے ہمارا کلمہ طیبہ لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ کا مضبوط رشتہ ہے ۔بے شک سچ ہے کہ:
اخوت اس کو کہتے ہیں، چبھے کانٹا جو کابل میں
تو ہندوستان کا ہر پیروجوان بے تاب ہوجائے
اللہ تعالیٰ اس عید کو پوری امت مسلمہ کے لیے خوشیوں ، مسرتوں ، رحمتوں ، برکتوں اور آزادیوں کا پیغام بنائے ۔(آمین)
٭…٭…٭
دینی مسائل کو کھیل نہ بنائیں
کلمۂ حق ۔ مولانا محمد منصور احمد (شمارہ 503)
رمضان المبارک کا آغاز ہوتے ہی جہاں اہل ایمان نیکیوں کی طرف لپکتے ہیں ، وہاں کچھ دکاندار اپنی دکانیں چمکانے کے لیے علماء اور صلحاء کا روپ دھار کر عوام کے دینی جذبات سے غلط فائدہ اٹھانے کیلئے میدان میں آجاتے ہیں ۔ ایسے لوگوں کے کردار کے بارے میں کچھ کہنا بیکار ہے کہ عوام ہم سے زیادہ اُن کے حالات اور خیالات سے واقف ہیں لیکن افسوس اُن لوگوں پر جو اداکاروں اور فنکاروں سے دین سیکھ کر اپنی عاقبت برباد کر رہے ہیں ۔ علاج کے لیے ہم مستند معالج تلاش کرتے ہیں ۔ کوئی کیس ہو جائے تو ماہر وکیل کا دروازہ کھٹکھٹا تے ہیں ۔کوئی تعمیراتی کام درپیش ہو تو انجینئر صاحبان سے رابطہ کرتے ہیں لیکن دینی مسائل کو اتنا غیر اہم اور معمولی سمجھ لیا گیا ہے کہ انہیں ہم گھر کے آرام دہ صوفے پر بیٹھے بیٹھے اُن لوگوں سے سیکھنا چاہتے ہیں ، جن بیچاروں کو خود دین کی ہوا بھی نہیں لگی ۔ حالانکہ دینی مسائل میں رائے دینا تو اتنا اہم اور ذمہ داری والا کام ہے کہ بڑے بڑے علماء جن کی زندگیاں قرآن و حدیث اور اسلامی کتب کے پڑھنے پڑھانے میں بیت گئیں ، وہ بھی اس سلسلے میں گفتگو کرتے ہوئے انتہائی محتاط رویہ اختیار کرتے ہیں ۔
امام مالکؒ کے نام سے علمی دنیا کا کوئی طالبعلم بھی نا واقف نہیں ہو سکتا ، اُن سے دینی مسائل کے بارے میں رائے دینے اور مسئلہ بتانے کی بابت بہت سی روایات منقول ہیں ‘ جنہیں قاضی عیاض ؒنے اپنی کتاب ترتیب المدارک وتقریب المسالک کی بحث تحریہ فی العلم والفتیاء والحدیث وورعہ فیہ وانصافہ میں خوب تفصیل کے ساتھ ذکر کیا ہے ‘ ہم اُن میں سے چند یہاں لکھتے ہیں :
عبدالرحمن العمری ؒکہتے ہیں ، مجھے امام مالک ؒنے بتا یا:
’’کبھی میرے سامنے کوئی ایسا مسئلہ آجاتا ہے جو مجھے کھانے ‘ پینے اور سونے تک سے روک دیتا ہے ۔‘‘
ابن قاسم ؒ کہتے ہیں ‘ میں نے امام مالک ؒ کو یہ فرماتے ہوئے سنا :’’ایک مسئلہ کے بارے میں مجھے غور و فکر کرتے ہوئے دس سے زائد سال ہو گئے ہیں لیکن ابھی تک اُس کے بارے میں میری کوئی حتمی رائے نہیں بنی ‘‘۔
ابن مہدی ؒکہتے ہیں کہ میں نے امام مالک ؒ کو فرماتے ہوئے سنا:
’’ بسا اوقات میرے سامنے کوئی ایسا مسئلہ آتا ہے ‘ جس میں میں اکثر شب جاگتا رہتا ہوں ‘‘۔
ابن عبدالحکمؒکہتے ہیں :جب امام مالک ؒسے کوئی مسئلہ پوچھا جاتا تو وہ سائل کو کہتے:
’’آپ واپس چلے جائیں تاکہ میں اس بارے میں غور وفکر کر سکوں‘‘۔
سائل چلا جاتا اور پھر مسلسل چکر کاٹتا رہتا ۔ ہم نے اس بارے میں جب امام مالک ؒسے بات کی تو وہ روپڑے اور فرمایا :
’’میں اس بات سے ڈرتا ہوں کہ میرا اور اس سائل کا ایک دن آمنا سامنا ہو گا اور وہ کتنا سخت دن ہو گا ‘‘( یعنی روزِ قیامت )
ابن عبدالحکم ؒ مزید یہ بھی فرماتے ہیں :
’’امام مالک ؒ جب بیٹھتے تو اپنا سر جھکا لیتے ‘ اپنے ہونٹوں کو اللہ تعالیٰ کے ذکر کے ساتھ حرکت دیتے رہتے اور دائیں بائیں نہ دیکھتے ۔ جب آپ سے کوئی مسئلہ پوچھا جاتا تو آپ کا رنگ بدل جاتا اور آپ کا رنگ زردی مائل سرخ تھا لیکن آپ بالکل زرد پڑ جاتے ‘ سرجھکالیتے اور اپنے ہونٹوں کو حرکت دیتے ‘ پھر فرماتے ’’ ماشاء اللّٰہ ولا قوۃ الا باللّٰہ ‘‘ کبھی ایسا بھی ہوتا کہ آپ سے پچاس مسائل پوچھے جاتے لیکن آپ کسی ایک کاجواب بھی نہ دیتے‘‘ ۔
بعض علماء فرماتے ہیں :
’’ اللہ کی قسم ! جب امام مالکؒ سے کوئی سوال کیا جاتا تو ایسا لگتا تھا گویا وہ جنت اور جہنم کے درمیان کھڑے ہوئے ہیں ‘‘۔
موسی بن دائود ؒ کہتے ہیں:
’’میں نے علماء میں سے کسی کو بھی امام مالکؒ سے زیادہ یہ کہتے ہوئے نہیں سنا کہ ’’ مجھے یہ مسئلہ اچھی طرح نہیں معلوم ‘‘۔
ابن مہدیؒ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے امام مالکؒ سے کوئی مسئلہ پوچھا اور ساتھ یہ بھی بتایا کہ اس مسئلہ کیلئے اُسے مغرب(افریقہ) سے چھ ماہ کی مسافت سے بھیجا گیا ہے ۔
امام مالکؒ نے اسے کہا :
’’ جس نے آپ کو بھیجا ہے ‘ آپ اُسے جا کر بتا دیں کہ مجھے اس مسئلہ کا علم نہیں ہے ‘‘۔
وہ شخص کہنے لگا کہ پھر کسے یہ مسئلہ معلوم ہو گا ؟ امام مالک ؒ نے فرمایا :
’’جس کو اللہ تعالیٰ سکھا دے ‘‘۔
امام مالکؒ سے ایک شخص نے ایک سوال کیا اور وہ سوال اُسے اہلِ مغرب(افریقی ممالک کے لوگوں) نے دے کر آپ کے پاس بھیجا تھا ۔
آپ ؒ نے فرمایا :
’’مجھے معلوم نہیں ‘ ہمارے شہر میں ہمیں کبھی یہ مسئلہ پیش نہیں آیا اور ہم نے اپنے اساتذہ میں سے بھی کسی کو اس کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے نہیں سنا ‘ لیکن تم پھر دوبارہ آنا‘‘ ۔
جب اگلا دن ہوا تو وہ شخص اس حال میں آیا کہ اُس نے اپنا سامان ایک خچر پر لاد رکھا تھا اور اُسے کھینچ رہا تھا ۔ اُس نے آتے ہی کہا : ’’ حضرت ! میر امسئلہ ؟‘‘ ۔
امام مالک ؒنے فرمایا :
’’مجھے اُس کے بارے میں علم نہیں ہے ‘‘۔
اس پر وہ شخص کہنے لگا :’’ اے ابو عبداللہ ! میں اپنے پیچھے ایسے لوگ چھوڑ کر آیا ہوں ‘ جو یہ کہتے ہیں کہ روئے زمین پر آپ سے بڑا کوئی عالم نہیں ہے ‘‘ ۔
اس پر امام مالکؒنے بغیر کسی گھبراہٹ کے فرمایا:
’’جب تم اُن کے پاس جائو تو اُنہیں بتا دینا کہ میں یہ مسئلہ اچھی طرح نہیں جانتا‘‘۔
ایک اور شخص نے آپ سے کوئی مسئلہ پوچھا اور پھر کہا ’’ مجھے جواب دیجئے !‘‘ آپ نے فرمایا :
’’تیراناس ہو ! کیا تو یہ چاہتا ہے کہ مجھے اپنے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان حجت بنا لے ؟ تو ایسی صورت میں پہلے مجھے اس کی ضرورت ہے کہ میں یہ دیکھ لوں کہ میری بچت اور خلاصی کیسے ہو گی ‘ پھر میں تجھے بچائوں گا‘‘۔
ابن ابی حازمؒ کہتے ہیں کہ امام مالکؒنے فرمایا :
’’ جب کوئی انسان آپ سے کوئی مسئلہ پوچھے تو آپ پہل اپنی ذات سے کریں کہ اُس کی حفاظت کر لیں ‘‘( یعنی غلط مسئلہ بتا کر اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈال دیں)۔
خالد بن خراش ؒکہتے ہیں:میں عراق سے امام مالکؒکی خدمت میں چالیس مسائل لے کر آیا تو انہوں نے مجھے صرف پانچ کا جواب دیا۔
امام مالکؒ فرماتے ہیں ‘ میں نے ابن ِ ہرمزؒ کو یہ فرماتے ہوئے سنا:
’’عالِم کو چاہیے کہ اپنے پاس بیٹھنے والوں کو ’’ لا أدری ‘‘ (میں نہیں جانتا ) خوب سکھا دے ۔ تاکہ یہ جملہ اُن کے ہاتھوں میں ایک بنیادی ضابطہ بن جائے اور وہ گھبراہٹ (اور لا علمی )میں یہی کہا کریں ۔ جب بھی اُن میں سے کسی سے ایسی بات پوچھی جائے جو اس نے روایت نہیں کی تو وہ صاف کہہ دے ’’ لا أدری ‘‘ ۔
ابنِ وہب ؒ کہتے ہیں کہ امام مالکؒ اکثر سوالات جو اُن سے پوچھے جاتے‘ اُن کے جواب میں ’’لاأدری ‘‘ کہہ دیتے تھے ۔
عمر بن یزیدؒ کہتے ہیں کہ اس بارے میں جب میں نے امام مالکؒسے بات کی (کہ لوگ جواب نہ ملنے سے پریشان ہوتے ہیں) تو آپ ؒ نے فرمایا :
’’شام والے شام واپس چلے جائیں گے ‘ اہلِ عراق عراق کو لوٹ جائیں گے اور مصر کے رہنے والے وہاں پہنچ جائیں گے ‘ پھر میں شاید اُن فتاویٰ کی طرف اکیلا ہی لوٹ جائوں گا جو میں اُن کو دیتا رہا ہوں‘‘۔
عمر بن یزید ؒکہتے ہیں میں نے یہ بات لیثؒکو بتائی تو وہ روپڑے اور فرمایا ’’ اللہ کی قسم! مالک ؒ تو لیث سے زیادہ مضبوط تھے ‘‘ یا ایسا ہی کوئی اور جملہ فرمایا ۔
ابن وہبؒ فرماتے ہیں :
’’ میں نے امام مالک ؒسے تیس ہزار مسائل ایسے پوچھے جو اُن کی زندگی میں پیش آئے، تو انہوں نے ان مسائل میں سے ایک تہائی ( یا آدھے یا جتنے مسائل اللہ تعالیٰ نے چاہے ) اُن کے بارے میں فرمایا :
’’ مجھے اچھی طرح معلوم نہیں اور میں نہیں جانتا ‘‘۔
کسی نے امام مالکؒکو کہہ دیا کہ ’’ جب آپ یہ کہتے ہیں کہ ’’ لا ادری‘‘ تو پھر کون جانتا ہو گا ‘‘ ؟
امام مالک ؒ نے اُسے فرمایا :
’’تیراناس ہو ! تو نے مجھے پہچانا نہیں؟ اور میری حیثیت ہی کیا ہے ۔ میرا مرتبہ ہی کیا ہے جب تک میں وہ نہ جان لوں ‘ جو تم نہیں جانتے ‘‘ ۔ پھر آپؒ نے حضرت ابن عمرؓ کی بات بطور حجت پیش کرتے ہوئے فرمایا :’’ میں کون ہوں ؟ لوگوں کو صرف خود پسندی اور سرداری کی طلب نے برباد کر دیا ہے اور یہ چیز تو بہت جلدختم ہو جانے والی ہے‘‘ ۔
مصعب ؒ کہتے ہیں : امام مالک ؒسے کوئی مسئلہ پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا ’’ لا ادری‘‘( مجھے معلوم نہیں) ۔
سوال کرنے والے نے کہا :
’’یہ تو بالکل ہلکا اور آسان مسئلہ ہے اور میں تو یہ چاہتا تھا کہ امیر کو یہ مسئلہ جاکر بتائوں‘‘۔
یہ سوال کرنے والا کچھ صاحب ِ حیثیت شخص تھا ۔
امام مالکؒ غضبناک ہو گئے اور فرمایا :
’’ہلکا اور آسان مسئلہ ؟ علمِ دین میں کوئی چیز ہلکی نہیں ہے‘‘۔
کیا آپ نے اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد نہیں سن رکھا ہے :
اِنَّا سَنُلْقِیْ عَلَیْکَ قَوْلًا ثَقِیْلاً
(ہم آپ پر ایک بھاری کلام نازل کرنے والے ہیں)(المزمل : ۵)
لہٰذا علم سارا ہی بھاری ہے اور خاص طور پر وہ علم‘ جس کے بارے میں قیامت کے دن پوچھا جائے گا ‘‘۔
قعنبی ؒ کہتے ہیں کہ میں امام مالکؒ کے پاس حاضر ہوا تو آپ کو روتا ہوا پایا، میں نے پوچھا تو آپ ؒ نے فرمایا :
’’ مجھ سے زیادہ کسے رونا چاہیے ؟ کہ میںکوئی بات کرتا ہوں تو اُسے قلم سے لکھ لیا جاتا ہے اور پھر دوردراز کے علاقوں تک پھیلا دیا جاتا ہے ‘‘۔
امام مالک ؒ کی طرح بے شمار علماء ِ اسلام سے ایسے ہی حالات اور خیالات منقول ہیں لیکن دینی مسائل میں یہ احتیاط تب ہی حاصل ہو سکتی ہے جب دل میں خوفِ خدا اور فکرِ آخرت کا جذبہ ہو ۔ ورنہ نام و نمود اور شہرت طلبی کے جذبات ایسی احتیاط حاصل ہونا بالکل نا ممکن ہے ۔
اللہ کریم ہم سب کو ہر گمراہی اور ہر گمراہ سے محفوظ رکھے ۔ (آمین ثم آمین)
٭…٭…٭
رمضان المبارک اور غزوئہ بدر
کلمۂ حق ۔ مولانا محمد منصور احمد (شمارہ 502)
رمضان المبارک اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے اور عبادات کا مہینہ ہے ۔ روزہ اور تراویح اپنے ساتھ کئی رونقیں اور بہاریں لے کے آتے ہیں ۔ یہی ماہِ مبارک قرآنِ مجید فرقانِ حمید کے نازل ہونے کی سالگرہ ہے اور یہی ماہِ مبارک یوم الفرقان یعنی غزوئہ بدر کے پیش آنے کا بھی مہینہ ہے ۔ بدر کا لفظ ہی کچھ ایسا پُر کشش اور روحانی اثرات کا حامل ہے کہ آج صدیاں بیت جانے اور مسلمانوں کی غفلت کے باوجود بھی جب ایک صاحب ِ ایمان بدر کا لفظ زبان سے ادا کرتا ہے تو اُس کے دل و دماغ میں ایمانی بجلیاں کوند پڑتی ہیں ‘ اُس کے ایمانی جذبات جوش مارنے لگتے ہیں اور اُس کو اپنا ایمان واضح طور پر بڑھتا ہوا محسوس ہوتا ہے ۔
ایسا کیوں نہ ہو کہ قرآن عزیز نے جن اہم غزوات کا تذکرہ کیا ہے ان میں سب سے زیادہ نمایاں حیثیت ’’غزوہ بدر‘‘ کو حاصل ہے۔ اس لیے کہ یہ غزوہ غزوات اسلام میں سب سے بڑا غزوہ ہے اور اسلام کی عزت و شوکت کی ابتداء اور کفر و شرک کی ذلت و رسوائی کی ابتداء بھی اسی غزوہ سے ہوئی اور اللہ جل شانہٗ کی رحمت سے اسلام کو بغیر ظاہری اور مادی اسباب کے محض غیب سے قوت حاصل ہوئی اور کفر و شرک کے سر پر ایسی کاری ضرب لگی کہ کفر کے دماغ کی ہڈی چکنا چورہوگئی۔ اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اس دن کو قرآن کریم میں ’’یوم الفرقان‘‘ فرمایا، یعنی حق اور باطل میں فرق اور امتیاز کا دن۔اس غزوہ کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگائیں کہ حضرت رفاعہ بن رافع ؓ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ جبرئیل علیہ السلام،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور یہ سوال کیا کہ آپ اہل بدر کو کیا سمجھتے ہیں؟ آپ نے فرمایا ’’سب سے افضل اور بہتر‘‘۔ جبرئیل علیہ السلام نے کہا ’’اسی طرح وہ فرشتے جو بدر میں حاضر ہوئے سب فرشتوں سے افضل اور بہتر ہیں‘‘۔(بخاری)
۱۷؍ رمضان المبارک ۲ ہجری میں مدینہ منورہ سے قریب مقام بدر میں یہ اہم غزوہ پیش آیا جس نے دنیا کی تاریخ ادیان و ملل کا ہی نہیں بلکہ ہر شعبۂ حیات کا رخ پلٹ کر ظلم سے عدل کی جانب پھیر دیا۔
٭…٭…٭
یہ رمضان المبارک کے شروع کے دن تھے کہ آپ ا کو اطلاع ملی کہ قریش کا قافلہ شام سے واپس آرہا ہے۔ اسی قافلے میں قریش کے ایک ہزار اونٹ سامان سے لدے ہوئے آرہے تھے اور اس میں قریش کے پچاس ہزار دینار نقد کی صورت میں موجود تھے اور ابو سفیان بن حرب اس کی سرپرستی کر رہا تھا۔ قریش کے ہر غریب و امیر کا پیسہ اس قافلہ میں لگا ہوا تھا اور ہرگھر قافلے کی واپسی کا شدت سے انتظار کر رہا تھا۔ آپ ا نے مسلمانوں کو جمع کرکے اس کی خبر دی اور فرمایا ۔
’’یہ قریش کا کاروانِ تجارت ہے، جو مال و اسباب سے بھرا ہوا ہے، تم اس کی طرف نکلو، عجیب نہیں کہ حق تعالیٰ تم کو وہ قافلہ غنیمت میں عطا فرمائے۔‘‘
اس اعلان پر بعض حضرات نے تو بخوشی اس مقابلے کے لیے آمادگی کا اظہار کیا اور بعض حضرات نے یہ سمجھ کر کہ کسی اہم جنگ کا معاملہ نہیں ہے اس لیے اس کے تعاقب پر آمادگی کا ثبوت نہیں دیا۔ ان کا مقصد حکم عدولی نہیں تھا بلکہ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ سمجھ رہے تھے کہ نبی علیہ السلام کسی جنگ کے ارادے سے نہیں جا رہے ہیں بلکہ صرف قریش کے قافلے کے ارادے سے نکل رہے ہیں۔ چنانچہ ابن سعد فرماتے ہیں :
’’ابوسفیان کا قافلہ یہ وہی قافلہ تھا جس کے لیے آپ غزوہ عشیرہ میں دو سو مہاجرین کو ہمراہ لے کر نکلے تھے لیکن قافلہ بچ نکلا تھا۔ اب یہ قافلہ شام سے واپس آرہا تھا۔ چونکہ آپ کا خروج فقط قافلہ کی غرض سے تھا اس لیے عجلت میں بہت تھوڑے آدمی آپ کے ہمراہ ہوسکے اور یہ سفر چونکہ جہاد و قتال کے لیے نہ تھا اس لیے نہ جانے والوں پر کسی قسم کا عتاب اور کسی قسم کی ملامت نہیں کی گئی۔‘‘
حضور علیہ السلام کے اعلان پر تین سو تیرہ (یا چودہ یا پندرہ) صحابیؓ اپنی جان کی بازی لگانے کے لیے تیار ہوگئے۔ جلدی نکلنے کی وجہ سے جنگی سامان کی اس قدر کمی تھی کہ سواری کے لیے صرف دو گھوڑے اور ستر اونٹ تھے۔ اور لڑنے کیلئے صرف آٹھ تلواریں اور چھ زرہیں تھیں۔
٭…٭…٭
یہ بھی رمضان المبارک ہی کے ایمان افروز لمحات تھے کہ جب مسلمانوں کو ایک طرف تو یہ پتہ چلا کہ ابو سفیان کی قیادت میں تجارتی قافلہ بچ نکلا ہے اور دوسری طرف یہ معلوم ہے کہ ابو جہل کی قیادت میں ایک ہزار کے قریب مشرکین جنگ کے لیے مکہ مکرمہ سے بدر کی طرف روانہ ہو چکے ہیں۔ تب نبی کریم ا نے صحابۂ کرام ؓ سے دوبارہ مشورہ ضروری سمجھا، کیونکہ معاملہ کٹھن تھا، مسلمان بے سرو سامان اور پھر تھوڑی تعداد میں تھے اور انصار کے ساتھ (بیعت عقبہ ثانیہ کے موقع پر) صرف یہ معاہدہ طے تھا کہ انصار مدینہ میں رہتے ہوئے حضور علیہ السلام کی امداد کریں گے۔ مدینہ سے باہر نکل کر دشمن پر حملہ کرنے کے لیے انصار سے کوئی معاہدہ نہیں ہوا تھا۔ لہٰذا اب اندیشہ یہ پیدا ہوگیا کہ کہیں لشکرکے ساتھ آمنا سامنا نہ ہو جائے اور جنگ و قتال کی نوبت نہ آجائے۔ ان وجوہات کے پیش نظر آپ ا نے صحابہ کرام ؓ سے مشورہ فرمایا۔
’’أشیرو اعلّی أیھا الناس‘‘
’’لوگو! مجھے مشورہ دو‘‘۔ آپ ا کے اس ارشاد پر پہلے حضرت ابوبکر صدیق ؓ پھر حضرت عمر ؓ کھڑے ہوئے اور نہایت خوبصورتی کے ساتھ اظہار جاں نثاری فرمایا اور اپنی وفاداری کا یقین دلایا۔ آپ ا نے پھر فرمایا۔
’’أشیرو اعلّی أیھا الناس‘‘
تو حضرت مقداد بن اسود ؓ کھڑے ہوئے اور فرمانے لگے۔
’’أمض لما أمرک اللّٰہ، فنحن معک، واللّٰہ لانقول کما قال بنواسرائیل لموسٰی۔ ’’اذھب أنت وربک فقاتلا انّا ھٰھنا قاعدون‘‘ ولکن اذھب انت وربک فقاتلا انّا معکما مقاتلون‘‘
’’یا رسول اللہ! جس چیز کا اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا ہے اس کو انجام دیجئے۔ ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ خدا کی قسم! ہم بنی اسرائیل کی طرح ہرگز یہ نہیں کہیں گے کہ اے موسیٰ تم اور تمہارا رب جا کر لڑو، ہم تو یہیں بیٹھے ہیں۔ لیکن ہم یہ کہیں گے کہ آپ اور آپ کا پروردگار جہاد و قتال کرے ہم بھی آپ کے ساتھ جہاد و قتال کریں گے۔‘‘
یہ سن کر آپ ا کا چہرئہ انور فرطِ مسرت سے چمک اٹھا۔ مگر آپ ا اب بھی نگاہِ مبارک سے کسی بات کے طالب نظر آرہے تھے۔ یہ دیکھ کر انصار میں سے حضرت سعد بن معاذ ؓ کھڑے ہوئے اور انہوں نے عرض کیا۔
’’یا رسول اللہ! ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ شاید آپ انصار کی رائے معلوم کرنا چاہتے ہیں؟ اس پر آپ ا نے فرمایا ’’ہاں‘‘۔
تو حضرت سعد بن معاذ ؓ نے جاں نثارانہ تقریر کرتے ہوئے فرمایا :
’’اے اللہ کے رسول! ہم آپ پر ایمان لائے اور آپ کی ٰتصدیق کی اور اس بات کی گواہی دی کہ آپ جو کچھ لائے ہیں وہی حق ہے اور اس پر ہم آپ کو پختہ عہدو میثاق بھی دے چکے ہیں۔ اے اللہ کے رسول! آپ مدینہ سے کسی اور ارادے سے نکلے تھے اور اللہ تعالیٰ نے دوسری صورت پیدا کر دی، جہاں چاہیں تشریف لے چلیں، جس سے چاہیں تعلقات قائم کریں اور جس سے چاہیں تعلقات توڑ دیں، جس سے چاہیں صلح کریں اور آپ جس سے چاہیں دشمنی کرلیں۔ (اور اے اللہ کے رسول!) آپ ہمارے اموال میں سے جتنا چاہیں لے لیں اور جتنا چاہیں ہمیں دیدیں اور جو آپ ہمارے اموال میں سے لیں گے وہ ہم کو زیادہ محبوب ہوگا بہ نسبت اس کے جو آپ ہمارے پاس چھوڑیں گے اور آپ جو حکم دیں گے ہم اس کی تابعداری کریں گے اور آپ ’’برک الغماد‘‘ تک جانا چاہیں تو ہم آپ کے ساتھ ضرور جائیں گے، ہم اس اللہ کی قسم کھا کر کہتے ہیں جس نے آپ کو یہ دین حق عطا فرمایا ہے، اگر آپ ہمیں سمندر میں کودنے کا حکم دیں گے تو ہم سمندرمیں کود پڑیںگے اور ہم میں سے کوئی پیچھے نہیں رہے گا۔ دشمنوں سے مقابلہ کرنا ہم پر بار نہیں، ہم جنگ میں دشمن سے لڑتے وقت ثابت قدم رہتے ہیں۔ اے اللہ کے رسول! امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سے وہ عمل آپ کو دکھلائیں گے جس سے آپ کی آنکھیں ٹھنڈی ہوںگی پس اللہ کے بھروسے پر چلئے۔‘‘
٭…٭…٭
یہ بھی رمضان المبارک کا ہی واقعہ ہے کہ جب مجاہدین بدر کے میدان کی طرف روانہ ہو رہے تھے، تو ایک صحابی جن کا نام عمیر بن ابی وقاص تھا ان کی عمر صرف سولہ سال تھی، یہ بھی ذوق و شوق کے ساتھ چل پڑے، ان کو ڈر تھا کہ کہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کو چھوٹا سمجھ کر واپس نہ کر دیں چنانچہ پورے راستے وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہوں سے بچتے رہے ۔
ان کے بھائی سعدؓ بن ابی وقاص نے ان سے چھپنے کی وجہ پوچھی تو عمیرؓ نے کہا :
’’مجھے ڈر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے کم سن سمجھ کر واپس نہ فرما دیں، میں اس جہاد میں شریک ہونا چاہتا ہوں شاید اللہ تعالیٰ مجھے بھی شہادت نصیب فرمائے۔‘‘
ان کو جس بات کا ڈر تھا وہی ہوا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو چھوٹا سمجھ کر واپس فرمانا چاہا تو یہ رونے لگے۔ یہ دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر بڑا اثر ہوا اور آپ نے انہیں شرکت کی اجازت دے دی۔ اللہ تعالیٰ نے اس نوعمر صحابی کی تمنا کو پورا کیا اور یہ شہدائِ غزوۂ بدر میں شامل ہوئے۔
مہاجرین و انصار کی یہ تقاریر سن کر اور اپنے جانباز صحابہ ؓ کا یہ حال دیکھ کر سرور عالم ا کا چہرئہ مبارک مسرت سے تمتما اٹھا اور آپ نے ارشاد فرمایا۔
’’اب اللہ کے نام پر آگے بڑھو اور بشارت حاصل کرو، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مجھ سے وعدہ فرمایا ہے کہ ’’ابوجہل یا ابوسفیان کی دو جماعتوں میں سے کسی ایک جماعت پر ضرور فتح و نصرت عطا کرے گا۔‘‘ اور خدا کا وعدہ بلاشبہ سچا ہے اور قسم بخدا! میں جنگ سے قبل ابھی سے قوم کے سرداروں کی قتل گاہ کو دیکھ رہا ہوں۔‘‘
صحیح مسلم میں ہے کہ آپ انے بدر پہنچ کر زمین پر ہاتھ رکھ کر بتایا کہ اس جگہ فلاں قریشی مارا جائے گا اور یہاں فلاں قتل ہوگا۔
٭…٭…٭
یہ بھی رمضان المبارک ہی کے دن تھے جب رسول اللہ ا اپنے اصحاب کے ساتھ بدر پہنچے،جہاں قریش نے پہلے سے پہنچ کر پانی کے چشمہ پر قبضہ کر لیا تھااور مناسب جگہوں کو اپنے لیے چھانٹ لیا تھا بخلاف مسلمانوں کے کہ ان کو نہ پانی ملا اور نہ مناسب جگہ، رتیلا میدان تھا جہاں چلنا ہی دشوار تھا، ریت میں پیر دھنس جاتے تھے۔ حق تعالیٰ نے بارش نازل فرمائی، جس کی وجہ سے ریت جم گئی اورپانی بھی مل گیا اور جہاں مشرکین کھڑے تھے وہاں کیچڑ ہو گیا اور ان کے لیے دشواری پیدا ہوئی۔
غرض اسی حالت میں دونوں فریق جنگ کے لیے صف آرا ہوئے…
تو اول آپ انے مسلمانوں کی صفوف کو درست فرمایا اور پھر اس عریش (خس پوش جھونپڑی) کے نیچے جا کر جو آپ کے لیے میدان جنگ میں بنادی گئی تھی بار گاہ الٰہی میں الحاح و تضرع کے ساتھ دعا شروع کی۔
’’أللھم انجزلی ماوعدتنی أللھم ان تھلک ھذہٖ العصابۃ من اھل الاسلام لاتعبد فی الارض‘‘
’’اے اللہ! تو نے مجھ سے جو وعدئہ (نصرت) فرمایا اس کو پورا فرما۔اے اللہ! اگر یہ مٹھی بھر مسلمان ہلاک ہوگئے تو پھر خطۂ زمین پر کوئی تیرا عبادت گزار باقی نہیں رہے گا۔‘‘
دعا کے دوران آپ کی ہچکی بندھ گئی تھی اور چادر مبارک آنسوئوں سے تر ہوگئی تھی۔ یہ دیکھ کر صدیقِ اکبر ؓ آپ کے قریب آئے اور عرض کیا ’’اللہکے رسول! بس کیجئے اللہ تعالیٰ اپنا وعدہ ضرور پورا کرے گا۔‘‘
آخر یہی ہوا کہ ہر قسم کے ناسازگار حالات اور اس درجہ کمزوری کے باوجود مسلمانوں کو غیبی نصرت و امداد نے بامراد اور کامیاب کیا، فتح و نصرت نے قدم چومے اور تاریخ عالم کا ایک بے نظیر اور حیرت انگیز انقلاب پیش کر دیا۔
٭…٭…٭
یہ بھی رمضان المبارک کی روح پرور گھڑیاں تھیں جب دونوں لشکر گتھم گتھا ہوئے اور ایک دوسرے سے بالکل قریب ہو کر جنگ شروع ہوگئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’چلو بڑھو اس جنت کی طرف جس کی چوڑائی آسمانوں اور زمین کے برابر ہے۔‘‘عمیر ؓبن الحمام نے یہ جملہ سنا تو عرض کرنے لگے:’’یا رسول اللہ وہ جنت آسمانوں اور زمین کے برابر ہے؟‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ہاں‘‘کہنے لگے :’’واہ واہ‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’یہ بات کیا کہہ رہے ہو؟‘‘
انہوں نے عرض کیا: ’’یا رسول اللہ ! اور کوئی بات نہیں یہ میں صرف اس خیال سے کہہ رہا ہوں کہ شاید میری قسمت میں بھی یہ جنت ہو۔‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ہاں ہاں تمہیں یہ جنت نصیب ہوگی۔‘‘
اس کے بعد انہوں نے اپنے ترکش سے کچھ کھجوریں نکالیں اور کھانے لگے پھر اچانک کہنے لگے :
’’اگر میں نے ان کھجوروں کے ختم کرنے کا انتظار کیا تو بہت دیر لگا دوں گا، اتنا جینے کی تاب نہیں‘‘
یہ کہہ کر جو کھجوریں رہ گئیں تھیں پھینک دیں اور میدان جنگ میں کود پڑے بالآخر شہادت سے سرفراز ہوئے اور غزوۂ بدر کے پہلے شہید قرار پائے۔
٭…٭…٭
پھر رمضان المبارک میں خدائی مدد کا ایسا ظہور ہوا کہ غزوئہ بدر میں مشرکین کے بڑے بڑے آدمی مارے گئے اور دشمنوں کے پیر اکھڑ گئے، وہ بھاگتے تھے لیکن بھاگنے کا موقع نہ پاتے تھے۔ چنانچہ ان کے ستر آدمی قتل ہوئے اور ستر گرفتار اور باقی نے راہِ فرار اختیار کی۔ تاہم بائیس مجاہدین نے بھی جام شہادت نوش کیا۔
معرکۂ بدر ایک ہنگامی معرکہ نہیں تھا بلکہ اس نے قریش کی قوت کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ کر دیا اور مسلمانوں کے لیے اعلاء کلمۃ اللہ کی راہیں کھول دیں اور یہ جنگ صرف مشرکین مکہ اور مسلمانوں کے درمیان حق و باطل کا معرکہ ہی نہیں بلکہ جس زمانے میں یہ واقعہ پیش آیا اس وقت دنیا ایک موڑ پر کھڑی تھی۔ صفحہ ٔ عالم پر اگر بدر کا معرکہ پیش نہ آتا اور مشرکین مکہ کو شکست نہ ہوتی تو بلاشبہ نہ صرف حجاز اور عرب و عجم بلکہ کائنات کا ہر ایک بحرو بر ظلم، سرکشی اور باطل سے دوچار رہتا۔صدائے اسلام فنا ہو جاتی اور جذبات حق مٹ کر رہ جاتے۔ اس لیے خدا کا یہ عظیم الشان احسان صرف مسلمانوں ہی کے لیے نہیں تھا بلکہ تمام کائناتِ انسانی پراحسان عظیم تھا۔
غزوئہ بدر کو قرآنِ مجید نے بہت اہتمام اور شان و شوکت سے بیان کیا ہے ۔ آدھے پارے پر مشتمل سورئہ الانفال تقریباً مکمل ہی اس کے حالات و واقعات پر مشتمل ہے ۔ قرآنِ مجید قیامت تک کے لیے کامیابی کی ضمانت اور نجات کا پیغام ہے ، اس لیے جب تک مسلمان قرآنِ مجید پڑھتے رہیں گے بدر کے روح پرور تذکرے بھی ہوتے رہیں گے اور بدر کے ماننے والے رب کی نصرتوں پر یقین کر کے غزوئہ بدر جیسے میدان بھی سجاتے رہیں گے ۔
٭…٭…٭
ایک قدم … تبدیلی کی طرف
کلمۂ حق ۔ مولانا محمد منصور احمد (شمارہ 501)
ماہِ مبارک اپنی پوری رحمتوں اور برکتوں سمیت سایہ فگن ہو چکا ہے ۔ اس مہینے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے کیا کیا رحمتیں نازل ہوتی ہیں اور کس طرح رحمت ِ الٰہی کی بارش چھم چھم برستی ہے ‘ اس کا سہی اندازہ تو وہی لوگ کر سکتے ہیںجو اس ماہِ مبارک کو پوری قدر و قیمت کے ساتھ گزارتے ہیں ۔ البتہ ایک بات تو ایسی ہے جسے ہم جیسے گناہگار بھی با آسانی محسوس کر سکتے ہیں اور وہ یہ کہ اس ماہِ مبارک کے شروع ہوتے ہی انسان کی طبیعت نیک کاموں کیلئے مچلنے لگتی ہے ، دل میں خود بخود اطاعتِ الٰہی کے جذبات کا سمندر ٹھاٹھیں مارنے لگتا ہے اور برائی کے کاموں سے نفرت بھی دل میں پیدا ہو جاتی ہے ۔ لگتا ایسے ہے جیسے جسمانی طور پر انسان مختلف موسموں سے متاثر ہوتا ہے ۔ گرما ، سرما ، بہار اور خزاں کے آنے جانے سے انسانی طبیعت پر واضح اثرات پڑتے ہیں ، اسی طرح اللہ تعالیٰ کے انعامات کے اس موسم سے بھی انسان روحانی طور پر متاثر ہوتا ہے پھر ایک روایت میں آتا ہے کہ رمضان المبارک میں روزانہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے فرشتے یہ صدا لگاتے ہیں :
یا باغی الخیر اقبل و یا باغی الشراقصر
’’ اے نیکی کے متلاشی ! جلدی کر اور آگے بڑھ ۔ اے برائی کے طلبگار ! رک جا اور بس کر دے ‘‘
ممکن ہے دلوں اور طبیعتوں کا یہ فرق اسی ملکوتی صدا کے اثرسے پیدا ہوتا ہو ۔
اس مہینے میں ہر مسلمان روزے دار اپنے ظاہری معمولاتِ زندگی کو تو تبدیل کر ہی لیتا ہے ۔ صبح ‘ دوپہر اور شام کے کھانے کی ترتیب بدل جاتی ہے ۔ تراویح اور سحری کی وجہ سے سونے جاگنے کے معمولات میں بھی فرق آ ہی جاتا ہے ۔ لیکن ان سب سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ انسان کی زندگی میں روحانی انقلاب اور تبدیلی آے اگر انسان رمضان المبارک سے پہلے نماز کا پابند نہیں تو اس ماہِ مبارک کے بعد نمازوں کو بروقت ‘ آداب کی رعایت کرتے ہوئے ادا کرنے والا بن جائے ۔ اگر کوئی شخص ‘ پہلے نمازوں کے معاملے میں غفلت ، سستی اور کوتاہی کی بیماری میں مبتلا ہے تو ان تیس روزوں کا فائدہ یہ ہونا چاہیے کہ اب یہ بیماری دور ہو جائے ۔ اگر رمضان المبارک سے پہلے ہماری زبان جھوٹ ‘ غیبت ‘ بہتان اور گالیوں جیسے گناہِ کبیرہ کی عادی ہے تو تبدیلی کے اس ماہ میں ہمیں اتنی مشق کر لینی چاہیے کہ ہماری زبان ہر وقت اللہ تعالیٰ کے ذکر ‘ تلاوت ِ کلام پاک ‘ درود شریف ِ اور توبہ استغفار سے تروتازہ رہے ۔ اگر پہلے ہم حلال و حرام کی فکر اور جائز و نا جائز کی سوچ سے آزاد تھے تو اب اس ماہِ مبارک کی عبادات کا اتنا اثر تو ہونا چاہیے کہ ہمارے اندر یہ فکر اور کڑھن پیدا ہو جائے ۔ اگر پہلے ہمارے شب و روز صرف دنیائے فانی کی فکروں میں بیتتے تھے اور ہماری سوچوں کا محور صرف ہمارے لباس ، برتن ، جوتے اور نت نئے فیشن ہی تھے تو اب ہمارے دلوں میں آخرت کی فکر اور دین کیلئے کچھ کرنے کی تڑپ پیدا ہو جانی چاہیے ۔
رمضان المبارک تبدیلی کا مہینہ ہے اور جس کی زندگی میں اس کے بعد بھی برائی سے بھلائی کی طرف تبدیلی نہ آئے تو اُس کیلئے سخت حسرت ‘ گہرے افسوس اور بے کار ندامت کے سوا کچھ نہیں ۔ ایک حدیث پاک سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد منقول ہے : ۔
من لم یدع قول الزور والعمل بہ فلیس للہ حاجۃ فی ان یدع طعامہ و شرابہ
’’ جو شخص (روزے کے دوران ) غلط بات اور غلط کام نہیں چھوڑتا تو اللہ تعالیٰ کو اس کی تو کوئی ضرورت نہیں کہ وہ بس اپنا کھانا پینا چھوڑ دے ‘‘۔
رمضان المبارک رحمت الٰہی کی برسات کا موسم ہے اور یہ ہر سال بھولے بھٹکے انسانوں کو رب سے ملانے کیلئے آتا ہے اور کتنے ہی خوش نصیب مرد اور خوش نصیب خواتین ایسے ہوتے ہیں ‘ جو اس مہینے میں تقویٰ کی دولت سے مالا مال ہو کر اپنی زندگیوں میں صالح تبدیلی اور خوشگوار انقلاب لانے کا عمل شروع کر دیتے ہیں ۔ ’’تقوی ‘‘ ہی انسان کی زندگی میں سب سے اہم اور مبارک تبدیلی کا نام ہے ، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ انسان اپنی من چاہی زندگی گزارنے کے بجائے ، رب چاہی زندگی گزارنا شروع کر دے اور نفس و شیطان کے دجل و فریب سے نکل کر اطاعتِ الٰہی کے مضبوط قلعے میں آجائے ۔ ایک اللہ والے عالم دین نے تقویٰ کا مطلب یوں سمجھایا:
ان لایراک مولاک حیث ینہاک وان لا یغیبک حیث امرک
’’تقویٰ یہ ہے کہ آپ کا خالق و مالک آپ کو ایسی جگہ نہ دیکھے جہاں سے اُس نے آپ کو روکا ہے اور ایسی جگہ سے غائب نہ پائے ، جہاں پہنچنے کا اُس نے حکم دیا ہے ۔ ‘‘
قرآن مجید میں جب اہل ِ ایمان کو روزے کا حکم دیا گیا تو اُس کی غرض و غایت بھی یہی بیان کی گئی کہ :
لعلکم تتقون
’’تاکہ تم پرہیز گار بن جائو‘‘
جب انسان مسلسل تیس دن ‘ دن کے پورے وقت حلال چیزوں سے بھی پرہیز کرتا ہے اور صبح سے لے کر شام تک کھانا پینا چھوڑ دیتا ہے تو اس کے نتیجے میں اُس کے اندر اتنی روحانی قوت اور ایمانی طاقت پیدا ہو جاتی ہے کہ وہ رمضان المبارک کے بعد ناجائز اور حرام کاموں سے با آسانی بچ سکتا ہے ۔
رمضان المبارک کا اصل مقصد حاصل کرنے کیلئے اور اپنی زندگی کا رخ درست کرنے کیلئے ہمیں کم از کم مندرجہ ذیل معمولات کا اہتمام کرنا چاہیے :
ظ… صدق دل سے تمام گناہوں سے توبہ کریں اور کثرت سے توبہ و استغفار کا اہتمام رکھیں۔
ظ …روزہ رکھنے کا پورا اہتمام کریں، بلا عذر شرعی ترک نہ کریں۔
ظ …روزے میں آنکھ، کان، ناک، زبان، دل ودماغ اور تمام اعضاء کو ہر گناہ سے بہت ہی بچائیں۔
ظ …نماز باجما عت کا مکمل اہتمام کریں۔
ظ …اشراق، چاشت اوابین اور تہجد کے نوافل کا معمول بنالیں۔
ظ… مستند دینی کتابوں اور رسول اکرم اکی تعلیمات کا مطالعہ کریں۔
ظ …تلاوت ،قرآن کریم اور ذکر وتسبیح اور درود شریف کا جس قدر زیادہ ہوسکے معمول بنائیں۔
ظ …برے خیالات سے اپنے ذہن کو حتی الوسع فارغ رکھ کر اپنی اصلاح کی طرف زیادہ توجہ دیں اور آخرت کی فکر پیدا کریں۔
ظ …جنت الفردوس طلب کریں اور عذاب دوزخ سے پناہ مانگیں۔
رمضان کا مبارک اور مقدس مہینہ تیزی سے گزر رہا ہے ۔ نیکیوں کا یہ موسمِ بہار ہر سال ہمیں یہ دعوت دینے کیلئے آتا ہے کہ ہم بھولے بھٹکے انسان اپنے رب تعالیٰ کی طرف دوڑ پڑیں ۔ مادیت کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں حیران و پریشان انسان ‘ اللہ تعالیٰ کے ساتھ گہرے اور مضبوط تعلق کی روشنی میں آجائے اور یہ تب تک ممکن نہیں ہوگا ‘ جب تک ہم اپنی زندگی کے معمولات پر نظر ثانی کر کے ‘اُنہیں نئے سرے سے مرتب نہ کریں ۔
رمضان المبارک سے پہلے اگر ہم صرف اسی فانی دنیا کیلئے جیتے تھے تو اب ہماری نظر فانی دنیا سے بڑھ کر ہمیشہ باقی رہنے والی آخرت پر ہونی چاہیے ۔ اگر اس ماہِ مبارک سے پہلے ہم ہر کام کو اس نظر سے دیکھتے تھے کہ مخلوق اس سے راضی ہو گی یا ناراض ‘ تو آئندہ ہم اپنے ہر قول و فعل کو اس معیار پر پرکھیں کہ اس کے نتیجے میں مجھے خالقِ کائنات کی رضا مندی نصیب ہو گی یا ناراضگی ؟ اگر ہم پورے ماہ کے اصلاحی اور روحانی کورس سے پہلے اللہ تعالیٰ کی نافرمانیوں اور بغاوت میں مصروف تھے تو اب ہماری مصروفیات اطاعتِ خدا وندی اور انابت الی اللہ ہونی چاہیے ۔
رمضان المبارک میں یہ یاد دہانی اس لیے بھی ضروری ہے کہ آج کل مادیت کا دور دورہ ہے اور ہر شخص( ہم سب سمیت) غفلت کی زندگی بسر کر رہا ہے ۔ ہم اس دنیا میں ایسے رہتے ہیں گویا ہم نے ہمیشہ یہیں رہنا ہے اور کبھی یہاں سے کوچ نہیں کرنا ۔ ہم سب پر غفلت و بے حسی اس قدر طاری ہو چکی ہے کہ ہم سمجھتے ہیں کہ
’’ بابر بہ عیش کو ش کہ عالم دوبارہ نیست ‘‘
(بابر خوب مزے کر لے کہ یہ دنیا دوبارہ ملنے والی نہیں ہے )
ہی شاید صحیح اور سچا نظریہ ہے ۔ ہر آئے دن جان لیوا حادثات ہماری آنکھوں کے سامنے ہوتے ہیں ‘ درجنوں جنازے اٹھتے ہیں ‘ بیسیوں گھر اجڑتے ہیں اور ہزاروں ارمان اور خواہشیں خاک میں ملتی ہیں مگر ہم ٹس سے مس نہیں ہوتے : ؎
انقلابات جہاں واعظِ رب ہیں سن لو !
آتی ہے ہر تغیر سے صدا پیہم فافھم فافھم
ایک صحابیٔ رسول کسی جنازے میں تشریف لے جا رہے تھے ۔ راستے میں ایک شخص نے اُن سے پوچھا کہ یہ کس کا جنازہ ہے ؟ انہوں نے فرمایا کہ بھائی ! یہ تیرا جنازہ ہے اور اگر تجھے برا لگے تو یہ میرا جنازہ ہے یعنی یہ وقت ان فضول باتوں کا نہیں بلکہ عبرت پکڑنے کا ہے : ؎
جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے
یہ عبرت کی جاہے تماشا نہیں ہے
اور ایک شاعر نے ہمیں غفلت سے بیدار کرنے کیلئے بہت اچھی بات کہی : ؎
جہاں میں ہیں عبرت کے ہر سو نمونے
مگر تجھ کو اندھا کیا رنگ و بو نے
اگر کوئی شخص روزہ تو رکھے لیکن روزے کے دوران ناجائز باتوں اور حرام کاموں سے نہ بچے ۔ روزہ گزارنے کیلئے لا یعنی مشاغل اختیار کرے یا خدا نخواستہ روزے کا مبارک وقت ٹی وی کے سامنے گزار دے تو اُس کا روزہ بھلا اُسے کیسے تقویٰ کا فائدہ دے سکتا ہے ۔ یہ تو ایسا ہی ہے جیسے کوئی اپنا کمرہ ٹھنڈا کرنے کیلئے فل پاور کا اے سی لگا کر آن کر لے لیکن کھڑکیاں ‘ دروازے بدستور کھلے رکھے تو کبھی بھی وہ کمرہ ٹھنڈا کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکتا ۔
رمضان المبارک کا مہینہ اندھیروں سے اجالے کی طرف ، برائیوں سے نیکیوں کی طرف اور مکرو فریب سے عدل و راست بازی کی طرف تبدیلی کا پیغام لے کر آپہنچا ہے ۔ آئیں ! ہم بھی اس پیغام کو قبول کر نے والوں میں شامل ہو کر اپنے اس رمضان المبارک کو زندگی بھر کا یاد گار ترین رمضان بنا لیں ۔
٭…٭…٭
رمضان المبارک کو قیمتی بنانے کے چند نسخے
کلمۂ حق ۔ مولانا محمد منصور احمد (شمارہ 500)
رمضان المبارک اپنی تمام تر رحمتوں اور برکتوں کے ساتھ ہم پر سایہ فگن ہونے والا ہے ۔ نیکیوں کے اس موسمِ بہار سے خوب فائدہ اٹھانے کیلئے یہ چند باتیں پیش خدمت ہیں :
٭… اس ماہِ مبارک میں قرآن مجید کی تلاوت پر خصوصی توجہ دیں۔ رمضان در حقیقت ماہ قرآن ہے اور اس مہینے کو کلام الٰہی سے خصوصی مناسبت ہے ۔ اس لئے جہاں تک ہو سکے ماہ مبارک میں قرآن مجید کے ساتھ اپنا تعلق مضبوط کر لیں۔ اگر ساتھ ساتھ علماء حق کی مستند تفاسیر میں سے کسی کا مطالعہ اور ان کے حلقۂ درسِ قرآن میں شمولیت کی سعادت بھی مل جائے تو کیا کہنے!
٭… دعا، استغفار ، ذکر الٰہی اور درود شریف کی خوب کثرت کریں۔ چلتے پھرتے اور اٹھتے بیٹھتے اپنی زبان کو ان مبارک کلمات کا عادی بنائیں۔ فضول باتوں اور بیہودہ گوئی سے مکمل پرہیز اور احتراز کریں۔
٭… اپنی استطاعت کے مطابق مسلمانوں کو روزہ افطار کروانے کا اہتمام کریں کہ یہ بہت بڑی نیکی ہے ۔ اس کے علاوہ بھی اللہ کے راستے میں نیز فقراء و مساکین پر خوب خرچ کریں۔ کیونکہ رمضان المبارک میں صدقات و خیرات کا اجر بھی کئی گنا بڑھا دیا جاتا ہے۔
٭… تراویح اور نماز تہجد کو مکمل توجہ اور اہتمام سے ادا کرنے کی عادت بنا لیں۔ سستی اور غفلت کی بجائے چستی اور تندہی سے تمام عبادات ادا کریں۔
٭…رمضان المبارک کا ایک منٹ کتنا قیمتی ہے؟ اندازہ لگائیں کہ ماہ مبارک کے صرف ایک منٹ میں ہم کیا کچھ کر سکتے ہیں:
(۱)… ایک منٹ میں آپ سورہ فاتحہ جتنی سورت بآسانی تلاوت کر سکتے ہیں اور قرآن کریم کے ہر حرف پر کم از کم دس نیکیاں تو یقینی ہیں۔ اس طرح ایک منٹ میں سینکڑوں نہیں ہزاروں نیکیاں جمع کی جا سکتی ہیں۔
(۲)… آپ کوشش کر کے ایک چھوٹی آیت کریمہ ایک منٹ میں زبانی بھی یاد کر سکتے ہیں۔
(۳)… آپ ایک منٹ میں کئی مرتبہ با سہولت یہ کلمہ پڑھ سکتے ہیں:
لَا اِلٰہَ اِلاّ اللّٰہُ وَحْدَہُ لَا شَرِیْکَ لَہُ لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَ ھُوَ عَلیٰ کُلِّ شَیْیئٍ قَدِیْرْ
(۴)… ایک منٹ میں آپ با آسانی درجنوں مرتبہ یہ کلمہ پڑھ سکتے ہیں:سُبْحَانَ اللّٰہِ وَ بِحَمْدِ ہْ
(۵)… ایک منٹ میں آپ با آسانی بیس سے پچیس مرتبہ ان الفاظ کے ساتھ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود شریف پڑھ سکتے ہیں۔صَلّٰی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ
(۶)… ایک منٹ میں آپ سو مرتبہ ان الفاظ کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی بخشش اور معافی مانگ سکتے ہیں۔
اَسْتَغْفِرُاللّٰہَ الْعَظِیْمَ
(۷)… ایک منٹ میں آپ کسی کو کوئی اچھی بات بتا سکتے ہیں یا کسی کو برے کام سے روک سکتے ہیں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا یہ فریضہ ادا کرنے کیلئے اور اس کا اجر و ثواب حاصل کرنے کیلئے فون یا موبائل بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔
(۸)… ایک منٹ میں آپ کسی مسلمان کے ساتھ غم خواری کر سکتے ہیں، کسی بیمار مسلمان کی عیادت کر سکتے ہیں، کسی فوت شدہ مسلمان کی تعزیت کر سکتے ہیں اور کسی رشتے دار کے ساتھ صلہ رحمی کر سکتے ہیں۔
(۹)… ایک منٹ میں آپ دین کی کوئی بات ، عبادات معاملات وغیرہ کے بارے میں کوئی دینی مسئلہ یا فتوٰی معلوم کرسکتے ہیں اور اس طرح آپ علم دین حاصل کرنے کا ثواب حاصل کر لیں گے۔
(۱۰)… ایک منٹ میں آپ کئی اچھی نیتیں اور ارادے کر سکتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہر نیک نیت پر بھی ایک اجر ہے۔
٭… ایک اللہ والے نے رمضان المبارک کی برکات کا یوں بھی حساب لگایا ہے:
٭ رمضان المبارک کا ایک ایک روزہ سال بھر کے تین سو چوّن مسلسل روزوں سے زیادہ ثواب رکھتا ہے۔
٭ بلا عذر اگر اس کا ایک روزہ بھی نہ رکھا گیا تو عمر بھر کے روزے بھی اس کی جگہ کافی نہیں ہونگے۔
٭ رمضان میں ہر فرض کا ثواب ستر گنا، ہر نفل ، اعتکاف و ذکر اور ہرنیک کام کا ثواب ستر گنا ہو کر فرض کے برابر ہو جاتا ہے۔
٭ نماز کا ثواب گھر پر ایک کا ، مسجد میں پچیس کا ، جامع مسجد میں پچاس کا تھا، لیکن رمضان میں ستر گنا اور زائد ہو گا اس لئے رمضان میں گھر پر ستر ، مسجد میں سترہ سو پچاس ، جامع مسجد میں تین ہزار پانچ سو ہو جاتا ہے اور پانچوں نماز کا گھر پر 250 کا ، مسجد میں آٹھ ہزار سات سو پچاس کا اور جامع مسجد میں سترہ ہزار پانچ سو کا روزانہ ثواب ہو گا۔
٭ جماعت کا ستائیس گنا ، پنج وقتہ ایک سو پینتیس اور رمضان کا ستر گنا نو ہزار چار سو پچاس ثواب ہو گا۔
٭ قرآن مجید کے ہر حرف پر دس نیکیاں تو رمضان میں سات سو ہونگی قرآن کے کل حروف تین لاکھ تیس ہزار چھ سو اکہتر ، اس طرح پورے قرآن مجید کا ثواب رمضان میں بائیس کروڑ پینسٹھ لاکھ انہتر ہزار سات سو بنتا ہے۔ سننے والے کو بھی اتنا ہی ثواب اور جو سمجھ کر پڑھے یا سنے اسے اتنا ہی مزید ثواب اور جو پڑھے بھی ، خود سنے بھی اور سمجھے بھی اسے اس ثواب کا تین گنا یعنی سڑسٹھ کروڑ چھیانوے لاکھ نو ہزار ایک سو ثواب ملئے گا ۔ اس کے علاوہ قرآن کو مس کرنا یعنی چھونا اور دیکھنا یہ بھی دس دس گنا زیادہ عبادات ہیں۔ اسی طرح پورا قرآن مجید پڑھنے پر تیرہ ارب انسٹھ کروڑ اکیس لاکھ بیاسی ہزار ثواب ہو گا۔
٭قرآن مجید پڑھنے کا یہ عظیم الشان ثواب شبینہ کی رات میں حاصل ہو سکتا ہے، بشرطیکہ کسی مکروہ یا خلاف شرع یا ریاء و نمود سے اس شبینہ کو ملوث نہ کیا جائے۔
٭بسم اللہ الرحمن الرحیم جو سب کو یاد ہے اس کے انیس حرف ہیں اور رمضان میں تیرہ ہزار تین سو نیکیاں صرف بسم اللہ کے پڑھنے پر ملیں گی اور جو جو سورتیں حفظ ہوں ، وضو یا بے وضو چلتے پھرتے ہر حرف پر اتنی ہی نیکیاں مفت ملیں گی۔
٭ ہر ادنیٰ سے ادنیٰ نیک کام کا ثواب ستر گنا ہے۔ خواہ راستہ سے کانٹا ہٹانا ہی ہو۔
٭ ایک بار درود شریف پر دس نیکیاں اوردس رحمتیں جو رمضان میں سات سو ہوتی ہیں ۔سب سے مختصر درودصلی اللہ علیہ وسلمہے ، جو ایک منٹ میں سو بار ہو سکتا ہے اور جس کا ثواب رمضان میں ستر ہزار فی منٹ ہوا تو ڈیڑھ منٹ میں ایک لاکھ پانچ ہزار نیکیوں سے لکھ پتی ہو گئے۔
٭ شب قدر ہزار ماہ یعنی تیس ہزار دن اور تیس ہزار رات کے برابر یعنی ساٹھ ہزار گنا ثواب ہے ۔ غروب شمس سے صبح صادق تک ہر منٹ کا ثواب ساٹھ ہزار منٹ کے برابر ہے ۔ ایک منٹ کا ضائع کرنا بھی کس قدر خسارہ کی بات ہے۔
٭نیکی کی ترغیب پر اتنا ہی ثواب ہے جتنا کرنے والے کو ہے اس لئے ہر وقت ہر نیک کام کی ترغیب دی جائے تا کہ ا سکے برابر ثواب ملتا رہے اور ہربرے کام سے روکنے کی تدبیر بھی تا کہ اس سے بچنے کے برابر بھی ثواب حاصل ہو۔
٭ اعتکاف پر انسان اور دوزخ کے درمیان تین خندق کا فاصلہ ہو جاتا ہے۔ مسجد میں قدم رکھتے ہی واپسی تک کے نفلی اعتکاف کی نیت سے مفت کا یہ ثواب حاصل ہو گا۔
٭ زکوٰۃ و عشر میں اور صدقہ و خیرات میں رمضان کی وجہ سے ستر گنا ثواب زائد ہو گا ۔
٭ ان سب کاموں میں ایصال ثواب کی بھی نیت کی جا سکتی ہے۔ خواہ مردہ کو خواہ زندہ کو خواہ ان لوگوں کو جو ابھی پیدا بھی نہیں ہوئے۔ فقہاء نے لکھا ہے کہ ایصال ثواب میں سب مسلمانوں کی نیت کرنی چاہئے کیونکہ ثواب تقسیم نہیں ہو سکتا بلکہ پورے کا پورا ہر ایک کو ملتا ہے۔ واللہ اعلم بالصواب
سب سے اہم بات جس کا ماہ مبارک میں خیال رکھنا بہت ضروری ہے وہ یہ ہے کہ اپنے آپ کو گناہوں سے اور اللہ تعالیٰ اور اس کے حبیب پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کی خلاف ورزی سے بچانے کی پوری پوری کوشش کی جائے یہ وہ پہلی شرط اور بنیادی بات ہے جس کو پورا کئے بغیر انسان ماہ مبارک سے ہر گز کما حقہ فائدہ نہیں اٹھا سکتا کیونکہ روزہ تو ہے ہی ہم سے نافرمانی اور گناہ چھڑانے کیلئے اور نیکی اور فرمانبرداری کے راستے پر چلانے کیلئے جسکا دوسرا نام تقویٰ ہے۔
کھانا پینا اور حلال ازدواجی تعلقات عام دنوں میں مسلمانوں کیلئے حلال تو ہیں لیکن رمضان المبارک میں کچھ وقت کیلئے ان سے روک دیا جاتا ہے ۔ اس کے بجائے جھوٹ غیبت سود رشوت غیر محرم کو دیکھنا گانا سنانا ، تصویر بنوانا، داڑھی مونڈنا ، پردہ نہ کرنا، گالی دینا دھوکہ دینا اور ان جیسے دوسرے گناہ تو وہ ہیں جو سرے سے ہیں ہی حرام اب اگر کوئی بندۂ خدا ان روزوں میں حلال سے تو رُک گیا لیکن حرام سے نہ رُکا تو اس کا کیا روزہ ہوا؟ کہ حلال سے بچا رہا اور حرام سے نہیں بچا جبکہ حق تعالیٰ شانہ فرماتے ہیں کہ روزہ کا مقصد ہی یہ ہے کہ تمہارے اندر پرہیز گاری یعنی گناہ سے بچنے کا جذبہ بیدار ہو جائے آج اس تناظر میں تمام مسلمان روزہ داروں کو اپنا محاسبہ کرنے کی شدید ضرورت ہے کہ آیا وہ ناجائز امور جن کو شریعت مطہرہ نے منع فرمایا ہے ہم نے رمضان المبارک میں روزہ رکھنے کے بعد چھوڑ دیئے یا نہیں اور اگر جواب نفی میں ہے تو فوراً ہی اسے چھوڑنے کی کوشش شروع کر دی جائے۔ یہ روزے کا سب سے اولین تقاضہ ہے۔
ایک حدیث شریف میں آتا ہے کہ اس روئے زمین پر اللہ جل شانہ کے نزدیک سب سے پیاری جگہ ’’ مسجدیں‘‘ ہیں اور سب سے بری جگہ ’’ بازار ‘‘ ہیں۔ مسلمان مردوں کو چاہئے کہ وہ زیادہ سے زیادہ وقت مسجد میں آ کر عبادت الٰہی میں مشغول رہیں جس کی ایک شکل اعتکاف ہے۔ لیکن مسلمان عورتوں کے لئے تو اس کائنات کی سب سے اچھی اور پسندیدہ جگہ یعنی مسجد میں جانے کی بھی حوصلہ افزائی نہیں کی گئی بلکہ ان کیلئے حکم یہ ہے کہ وہ گھر کے اندر عبادت کریں تو زیادہ فضیلت اور ثواب کا باعث ہے۔سوچنے کی بات یہ ہے کہ جب مسلمان عورتوں کیلئے مساجد میں جانا جو سب سے اچھی جگہیں ہیں اتنا اچھا نہیں تو بازار جو سب سے بری جگہیں ہیں وہاں بلا ضرورت اور بغیر شدید مجبوری کے بے پردہ گھومتے رہنا وہ بھی ماہ مبارک کی نورانی راتوں میں کس قدر خطرناک اورآخرت کے اعتبارسے نقصان دہ ہوگا۔
نیکیوں کے اس موسم میں سرکش شیاطین تو قید کر دیے جاتے ہیں لیکن گزشتہ کئی سالوں سے میڈیا پر بہت سے انسان نما شیاطین مسلمانوں کے روزے خراب کرنے کیلئے نمودار ہو جاتے ہیں ۔ پورے سال تو یہ لوگ ناچنے گانے میں گزارتے ہیں لیکن اس ماہِ مبارک میں نیک لوگوں کے لبادے میں لوگوں کا رمضان برباد کرنے کے لیے خوب محنت کرتے ہیں ۔ ایسے فنکاروں اور عیاروں سے اپنے ایمان کو بچانے کی سخت ضرورت ہے ۔
حضرت حکیم الامت ؒ نے روزہ کو خراب کرنے والے گناہوں ( غیبت وغیرہ)سے بچنے کی تدبیر بتلائی ہے، جو صرف تین باتوں پر مشتمل ہے اور ان پر عمل کرنا بہت ہی آسان ہے۔
’’مخلوق سے بلا ضرورت تنہا اور یکسو رہنا۔ کسی اچھے شغل مثلاً تلاوت وغیرہ میں لگے رہنا اور نفس کو سمجھانا ۔ یعنی وقتاً فوقتاً یہ دھیان کرتے رہنا کہ ذرا سی لذت کیلئے صبح سے شام تک کی مشقت کو کیوں ضائع کیا جائے اور تجربہ ہے کہ نفس بہلانے سے بہت کام کرتا ہے، سو نفس کو یوں بہلائے کہ ایک مہینے کیلئے تو ان باتوں کی پابندی کر لے پھر دیکھا جائے گا ۔ پھر یہ بھی تجربہ ہے کہ جس طرز پر آدمی ایک مدت رہ چکا ہووہ آسان ہو جاتا ہے۔ بالخصوص اہل باطن کو رمضان میں یہ حالت زیادہ نصیب ہوتی ہے کہ اس مہینے میں جو اعمال صالحہ کئے ہوتے ہیں سال بھر ان کی توفیق رہتی ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ اس ماہِ مبارک کو پوری امت مسلمہ کے لیے خیرات و برکات اور فتوحات کا مہینہ بنائے (آمین ثم آمین)
٭…٭…٭
اپنے رب جَلَّ شَانُہٗ کو خوش کر دیں
کلمۂ حق ۔ مولانا محمد منصور احمد (شمارہ 499)
ایک نئی ،خوب صورت ،مفید ،مبارک اور منورکتاب اس وقت میرے سامنے ہے اور ایک مسلمان بھائی ہونے کے ناطے،بطور نصیحت اور خیر خواہی اس کتاب سے استفادہ کی دعوت آپ کے سامنے پیش کرنی ہے۔
ہم سب اللہ تعالیٰ کے بندے ہیں اور بندوں کا کام عاجزی اور انکساری ہے ۔عوامی حلقوں میں یہ جملہ زبان زد ِعام ہے’’نوکر کی تے نخرے کی ‘‘ یعنی نوکری اور ملازمت میں نخرے اور بڑائی نہیں چلتی ۔اسی طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ ’’بندہ کی تے نخرا کی‘‘ یعنی جو اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہو‘ مملوک ہو اور ہر لمحے اس کی نعمتوں سے سرفراز ہو رہاہو ،اسے تکبر اور بڑائی زیب نہیں دیتی ،اس کے ساتھ بندگی ہی اچھی لگتی ہے ۔
اگر ہم سچ مچ اللہ تعالیٰ کے بندے بن جائیں تو ہماری حالت وہ ہی ہوگی ،جو علامہ ابن قیم ؒ نے نقل فرمائی ہے ۔وہ تحریر فرماتے ہیں :
’’ایک عارف (اللہ والے ) ایک گلی سے گزررہے تھے ،انہوں نے دیکھا کہ ایک گھر کا دروازہ کھلا اور ایک بچہ روتا ،چلاتا ہوا اس میں سے نکلا ۔اس کی ماں اس کو گھر سے دھکے دے دے کر نکال رہی تھی ،جب وہ دروازے سے باہر ہو گیا توماں نے اندر سے دروازہ بند کر لیا۔ بچہ اس طرح روتا ،بلکتا،بڑبڑاتا کچھ دور تک گیا ،پھر ایک جگہ پہنچ کر کھڑا ہو گیا اور سو چنے لگا کہ میں اپنے ماں باپ کے گھر کے سوا کہاں جاسکتا ہوںاور کون مجھے اپنے پاس رکھ سکتا ہے ۔یہ سوچ کر وہ ٹوٹے ہوئے دل کے ساتھ اپنے گھر کی طرف لوٹ آیا ۔دروازے پر پہنچ کر اس نے دیکھا کہ دروازہ اندر سے بند ہے تو وہ بے چارا وہیں چوکھٹ پر سر رکھ کے پڑگیا اور اسی حالت میں سو گیا ۔
جب ماں باہر آئی ،اس نے دروازہ کھولا اور اپنے بچے کو اس طرح چوکھٹ پر سر رکھ کے پڑا دیکھا تو اس کا دل بھر آیا اور ممتا کا جذبہ اُبھرآیا ۔اس کی آنکھوں سے آنسوبہنے لگے ،بچے کو اس نے اُٹھا کر سینے سے لگایا اور اسے پیار کرنے لگی ۔وہ ساتھ ساتھ یوں کہہ رہی تھی :
’’بیٹے !تو نے دیکھ لیا کہ تیرے لئے میرے سوا کون ہے ۔تو نے نالائقی ،نافرمانی اور نادانی کا راستہ اختیار کر کے اور میرا دل دکھا کے مجھے وہ غصہ دلایا جو تیرے لئے میری فطرت نہیں ہے ۔میری فطرت کا تقاضہ تو یہی ہے کہ میں تجھے پیار کروں ،تجھے راحت وآرام پہنچانے کی کوشش کروں اور تیرے لئے ہر خیر اور بھلائی چاہوں ۔میرے پاس جو کچھ ہے وہ تیرے ہی لئے ہے ‘‘
اس اللہ والے نے بیٹے اور ماں کا یہ ماجراء دیکھا تو اس سے وہ ہی سبق لیا جو ان کے لئے مناسب اور مفید تھا ‘‘(مدارج السالکین)
اگر ہم دنیاوی بکھیڑ وں سے چند لمحات نکال کر یہ سوچنا گوارا کر لیں کہ جس طرح بچے کا گزارہ ماں باپ کے بغیر نہیں ہو سکتا بھلا ہمارا گزارہ اپنے رب جل شانہ کے بغیرکیسے ہو سکتا ہے ۔اُسی نے ہمیں پیدا کیا ،اُسی نے ہمیں ایمان ،روزی ،عزت اور دیگر تمام نعمتوں سے نوازا ۔ وہ چاہے تو لمحوں میں ہمیں صفر پر پہنچا دے ۔وہ چاہے تو عقل وشعور چھین کر ہمیں پاگلوں کی صف میں کھڑا کر دے ۔وہ چاہے تو سیکنڈوںمیں ہماری سانس کی ڈور کٹ جائے اور ہم پیوند خاک ہو جائیں ۔پھر یہاں بھی تو قصہ ختم نہیں ہو گا ،آگے بھی تو اُسی کریم رب جل شانہ سے واسطہ پڑنا ہے ۔اُسی کو اپنے اعمال کا حساب دینا ہے اور صرف اُسی کے کرم سے ہمارا کام چل سکتا ہے ۔
افسوس کہ ہم دنیا میں تو ہر اُس شخص سے تعلق بنانے کی کو شش کرتے ہیں ،جس سے مستقبل میں واسطہ پڑنے کی کوئی موہوم سی امید بھی ہوتی ہے لیکن اُس رب جل شانہ سے تعلق بنانا بھول جاتے ہیں ،جس کے کرم سے ہی ماضی میں ہمارا ہر کام بنا ،اُ سی کی مہربانی سے ہمارا حال لاکھوں کروڑوں انسانوں سے اچھا گزررہا ہے اور مستقبل میں تو بس وہ ہی ہے اور کوئی نہیں ۔کوئی ظاہری سہارا بھی اُس کے سوا نہیں ۔ایسی ذات پاک سے زیادہ کس سے تعلق بنانے کی ضرورت ہو گی ۔ہم بھول جاتے ہیں کہ :
ملے خاک میں اہل شاں کیسے کیسے
مکین ہو گئے لا مکاں کیسے کیسے
ہوئے نام ور بے نشاں کیسے کیسے
زمین کھا گئی ،آسماں کیسے کیسے
سوچیں! کیا ایسے حالات میں بغیر رب تعالیٰ کے تعلق کے گزارہ چل سکتا ہے ؟ ہرگز نہیں۔
اللہ تعالیٰ سے مضبوط تعلق بنانے کا ایک انتہائی مقبول‘ اہم اور مبارک لیکن بہت ہی آسان راستہ دل سے توبہ واستغفار کرنا ہے ۔اپنے بندوں کی توبہ و استغفار سے رب جل شانہ کتنے خوش ہوتے ہیں ،اس کا کچھ اندازہ آپ اس حدیث پاک سے لگاسکتے ہیں :
’’حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ۔انہوں نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے تھے :خدا کی قسم !اللہ تعالیٰ اپنے مؤمن بندے کی توبہ سے اس مسافر آدمی سے بھی زیادہ خوش ہوتے ہیں جو (اثنائے سفر میں ) کسی ایسی غیر آباد اور سنسان زمین پر اُتر گیا جو سامان حیات سے خالی اور اسباب ہلاکت سے بھر پور ہو اور اس کے ساتھ بس اُس کی اونٹنی کی سواری ہو ‘ اُسی پر اُس کے کھانے پینے کا سامان ہو ‘ پھر وہ (آرام لینے کیلئے ) سر رکھ کے لیٹ جائے ‘ پھر اُسے نیند آجائے ‘ پھر اُس کی آنکھ کھلے تو دیکھے کہ اس کی اونٹنی ( پورے سامان سمیت) غائب ہے ‘ پھر وہ اس کی تلاش میں سرگردا ںہو ‘ یہاں تک کہ گرمی اور پیاس وغیرہ کی شدت سے جب اس کی جان پر بن آئے تو وہ سوچنے لگے کہ (میرے لیے اب یہی بہتر ہے کہ ) میں اُسی جگہ جا کر پڑ جائوں (جہاں سو یا تھا ) یہاں تک کہ مجھے موت آجائے ‘ پھر وہ ( اسی ارادے سے وہاں آکر ) اپنے بازو پر سر رکھ کر مرنے کیلئے لیٹ جائے ‘ پھر اس کی آنکھ کھلے تو وہ دیکھے کہ اس کی اونٹنی اس کے پاس موجود ہے اور اس پر کھانے پینے کا پورا سامان ( جوں کا توں محفوظ) ہے تو جتنا خوش یہ مسافر اپنی اونٹنی کے ملنے سے ہو گا ‘ خدا کی قسم! مؤمن بندے کے توبہ کرنے سے اللہ تعالیٰ اس سے بھی زیادہ خوش ہوتے ہیں‘‘( بخاری و مسلم)
توبہ و استغفار ایک عظیم الشان نعمت ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے جس بندے سے راضی ہوتے ہیں ‘ جسے اپنا بنانا چاہتے ہیں‘ جسے دنیا و آخرت کی سعادتوں سے نوازتا چاہتے ہیں اور جسے کامیابی کے اعلیٰ ترین مراتب پر فائز کرنا چاہتے ہیں ‘ بس اُسی کو یہ نعمت عطا فرماتے ہیں ۔ ہمارے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے توبہ و استغفار کی اہمیت کتنے پیارے انداز میں سمجھائی ہے ۔ ایک حدیث پاک میں ارشاد ہے:
کلکم خطائون وخیر الخطائین التوابون (مشکوٰۃ )
(لوگوں ! تم سب سے گناہ سرزد ہو جاتے ہیں لیکن غلطی کرنے والوں میں سے بہترین لوگ وہ ہیں‘ جو توبہ کر لیتے ہیں)۔
اب گناہگار تو ہم سب ہیں ۔ گناہوں سے پاک تو صرف حضرات ِ انبیاء علیہم السلام ہیں یا فرشتے ۔ ہمارے سامنے تو دوہی راستے ہیں ۔ ایک یہ کہ گناہ کرنے کے بعد اُس پر اصرار شروع کر دیں ‘ اُسے حالات کا تقاضہ قرار دیں یا موجود زمانے کی ضرورت کہہ کر اپنے نفس کو مطمئن کر لیں ۔ گناہ میں تاویلات کا یہ راستہ شیطان کا راستہ ہے ‘ جس کا انجام ہمیشہ کی بربادی ہے ۔ ایسے شخص کو عام طور پر کبھی توبہ کی توفیق بھی نصیب نہیں ہوتی کیونکہ توبہ تو وہ ہی کرے گا ‘ جو اپنی غلطی کو جرم سمجھے اور اپنے آ پ کو مجرم جانے ۔
دوسرا راستہ کامیابی و کامرانی کا ہے ۔ یہ وہ ہی پاکیزہ شاہراہ اور خوبصورت راستہ ہے جس کی نشاندہی حضرت امیر المجاہدین مولانا محمد مسعود ازہر حفظہ اللہ تعالیٰ کی نئی کتاب ’’ الیٰ مغفرۃ ‘‘ کر رہی ہے ۔ یہ توبہ و استغفار کا راستہ ‘ انبیاء علیہم السلام ‘ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین اور تمام اولیاء اللہ کا راستہ ہے ۔ استغفار کا مطلب ہے اپنے مہربان رب جل شانہ سے اپنے گناہوں اور قصوروں کی معافی اور بخشش مانگنا ۔ توبہ اس کے آثار اور نتائج میں سے ہے ‘ جس کی حقیقت آسان الفاظ میں یوں سمجھنی چاہیے کہ جو گناہ اور جرم بندے سے سرزد ہو جائے ‘ اُس کے برے انجام کو سوچے ‘ اُس پر جو عذاب ہونا ہے اُس کا خوف دل میں پیدا کرے اور پھر دلی ندامت اور غم کے ساتھ آئندہ کیلئے اس جرم اور قصور سے دور رہنے کا پکا عزم اور فیصلہ کر لے ۔ پھر جب توبہ اور استغفار دونوں جمع ہو جائیں تو ’’مغفرت اور بخشش‘‘ کا وہ انعام ملتا ہے ‘ جس کے سامنے دنیا کی تمام نعمتیں معمولی اور بے حیثیت ہیں ۔
حضرت امیر المجاہدین حفظہ اللہ تعالیٰ کے قلم سے ’’تحفۂ سعادت ‘‘ ’’لطف اللطیف جل جلالہ ‘‘ اور ’’سات دن روشنی کے جزیرے پر ‘‘ کے بعد اب ’’ الیٰ مغفرۃ ‘‘بھولے بھٹکے انسانوں کو کامیابی کا راستہ دکھانے ‘ گناہوں کی دلدل میں پھنسے ہوئے لوگوں کو پاکیزہ زندگی کی طرف لانے اور نفس و شیطان کی غلامی میں جکڑے ہوئے افراد کو اپنے پاک رب جل شانہ سے ملانے کی ایک عظیم کاوش اور کامیاب کوشش ہے ۔ فجزاہ اللہ عناوعن جمیع المسلمین خیرا الجزاء ۔
یہاں کتاب ’’ الیٰ مغفرۃ ‘‘کا تفصیلی تعارف کروانا مقصد ہے نہ ہی اس کی اجازت ہے‘ لیکن اتنا کہے بغیر نہیں رہا جا سکتا کہ ’’آفتاب آمد دلیل آفتاب‘‘ (سورج کا نکلنا اور اس کی روشنی کا ہر سمت پھیلنا ہی سورج کے وجود کی سب سے بڑی دلیل ہے ) اور ’’مشک آنست کہ خود ببوید نہ کر عطار بگوید ‘‘( اعلیٰ درجے کی خوشبو مشک وہ ہے ‘ جو خود بتائے کہ میں مُشک ہوں ۔ خوشبو بیچنے والے کو یہ نہ بتانا پڑے کہ یہ مُشک ہے) کے مطابق یہ کتاب آیات ِ قرآنیہ ‘ احادیثہ شریفہ اور مقبول دعائوں کا ایسے مبارک ‘ منور اور معطر مجموعہ ہے کہ جس کی خوشبو سے دل و دماغ مہک اٹھتے ہیں ۔ یہ ایک ایسا روشن چراغ ہے ‘ جس سے بھولے بھٹکے مسافر نشانِ راہ پاتے ہیں ۔ یہ کامیابی اور کامرانی کا ایسا نصاب ہے جسے اپنانے والا کبھی ناکامی کا تصور بھی نہیں کر سکتا ۔
آپ کتاب ’’ الیٰ مغفرۃ ‘‘ پڑھتے جائیں اور اپنے رب سے جُڑتے چلے جائیں ۔ اس کا ایک ایک صفحہ الٹتے جائیں اور موتیوں سے اپنا دامن بھرتے جائیں ۔ اس میں تحریر کردہ دعائیں اور استغفار پڑھتے جائیں اور اپنے رب جل شانہ کو خوش کرتے جائیں ۔ جب آپ کتاب مکمل کر لیں گے تو یقینا آپ بھی میری طرح یہ سوچیں گے کہ اس کتاب نے مجھ سے کتنا تھوڑا سا وقت لے کر کتنے عظیم خزانے میرے جھولی میں ڈال دئیے ہیں ۔ ان شاء اللہ تعالیٰ ۔
٭…٭…٭
ترک پھر بازی لے گئے
کلمۂ حق ۔ مولانا محمد منصور احمد (شمارہ 498)

اللہ تعالیٰ بہت غنی ہے ‘ وہ کسی کا محتاج نہیں‘ سب اس کے محتاج ہیں ۔ وہ جب چاہے‘ جس سے چاہے خیر کا کام لے اور جس کو چاہے محروم کر دے ۔ اس لیے رب کریم سے خوب مانگنا چاہیے کہ وہ ہمیں نیکی اور خیر کی توفیق سے مالا مال فرماتا رہے ۔ اُس رب کے پاس بندے تو بے شمار ہیں ۔ ہم اُس کے دین کا کام نہیں کریںگے تو وہ کسی اور کو کھڑا کر دے گا ۔ ہمارا اس کے سوا کوئی نہیں کہ جس کا دروازہ ہم کھٹکھٹا سکیں اور جس سے سعادت والے کاموں کا سوال کر سکیں ۔
روہنگیا مسلمان‘ جن پر بیتنے والے مظالم سے اکیسویں صدی میں ہلاکو خان اور چنگیز خان کی یادیں تازہ ہو گئی ہیں ‘ وہ کسمپرسی کے عالم میں سمندر کی خوفناک لہروں کے تھپیڑوں کی زد میں آئے ہوئے ایک ارب سے زائد مسلمانوں کی طرف دیکھ رہے تھے کہ کون ان کی مدد کیلئے آگے بڑھتا ہے ‘ کون ان کے ہاتھ کو تھامتا ہے ‘ کون کلمۂ طیبہ کی لاج رکھتا ہے اور کون دربدر ہونے والے معصوم مسلمان بچوں کے سر پر شفقت کا ہاتھ رکھتا ہے ۔
۵۷؍ سے زائد اسلامی ممالک کے سربراہان ‘ امت مسلمہ کے ان افراد کی بے بسی کے رقت آمیز مناظر دیکھتے رہے لیکن ٹس سے مس نہ ہوئے ۔ نہ انہیں انسانیت یاد آئی ‘ نہ اخوت ِ اسلامی ۔ ایسے وقت میں اللہ تعالیٰ نے ترکی کے صدر محترم جناب اردگان کو ان مظلوم مسلمانوں کیلئے نجات دھندہ بنا کر بھیجا اور ترکی کے جنگی بحری جہازوں نے ان ڈوبتے مسلمانوں کو ہی نہیں بچایا ‘ اسلام اور مسلمانوں کی عزت کو بچا لیا ۔ بلاشبہ تاریخ کے اوراق میں ایک مرتبہ پھر زریں حروف سے یہ لکھا جائے گا کہ تُرک سب پر بازی لے گئے ۔
یہ پہلی مرتبہ نہیں کہ ترکوں نے پورے عالم اسلام پر اپنی برتری اور سبقت ثابت کر دی ہو بلکہ صدیوں تک تُرکوں کی ’’خلافت عثمانیہ ‘‘ پورے دنیا کے مسلمانوں کی پشت پناہ بنی رہی ۔ یہ خلافت ‘ سلطان غازی عثمانؒ کی طرف منسوب ہے اور ان کے والد کا نام ارطغرل تھا اور یہ خوارزم کے رہنے والے تھے ۔ آلِ عثمان کی حکومت ۶۹۲ھ سے ۱۳۴۲ھ تک ۶۴۳برس قائم رہی اور اس خاندان کے آخری فرماں روا خلیفہ عبدالمجید ثانی کو یہودی سازشوں کے نتیجے میں معزول کر کے مصطفی کمال اتا تُرک نے خلافت کا خاتمہ کر دیا ۔
تاریخ ِ اسلام میں ترکوں کی عظمت کا ایک اہم باب ایسا ہے ‘ جسے کبھی بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا ۔ ترکی کا شہر ’’ استنبول ‘‘ اسی عظمت رفتہ کی یاد گار ہے ۔ اس شہر کا تاریخی نام ’’ قسطنطنیہ ‘‘ ہے اور اقبال مرحوم نے اسی کے بارے میں یہ وجد آفریں اشعار کہے تھے :
خطہ قسطنطنیہ یعنی قیصر کا دیار
مہدیٔ امت کی سطوت کا نشانِ پائیدار
صورتِ خاکِ حرم ‘ یہ سر زمیں بھی پاک ہے
آستانِ مسند آرائے شہہ لولاکؐ ہے
نکہتِ گل کی طرح پاکیزہ ہے اس کی ہوا
تُربتِ ایوب انصاریؓ سے آتی ہے صدا
اے مسلماں ! ملتِ اسلام کا دل ہے یہ شہر
سینکڑوں صدیوں کی کشت و خوں کا حاصل ہے یہ شہر
اسی شہر پر جہاد کرنے والے لشکر کو صحیح احادیث میں رحمت ِ دو عالم ﷺ کی زبانی مغفرت کی بشارت سنائی گئی ہے ۔
حضرت انس ؓ کی خالہ حضرت ام حرام ؓ بنت ملحان ‘ پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی رضاعی رشتہ دار تھیں ۔ ایک روز آپ صلی اللہ علیہ وسلم اُن کے گھر میں دوپہر کے وقت سوئے ہوئے تھے کہ اچانک بیدار ہوئے تو آپ کے چہرئہ مبارک پر تبسم تھا ۔ حضرت ام حرامؓ نے مسکرانے کی وجہ پوچھی تو آپ نے ارشاد فرمایا :
’’خواب میں مجھے اپنی امت کے لوگ دکھائے گئے ،جو جہاد کیلئے سمندر کی موجوں پر اس طرح سفر کریں گے ‘ جیسے تخت پر بادشاہ بیٹھے ہوں‘‘۔
حضرت ام حرامؓ نے عرض کیا : ’’ اے اللہ کے رسول! آپ دعا فرمادیں کہ اللہ تعالیٰ مجھے بھی اس میں شامل فرمادیں‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمادی اور دوبارہ محوِ خواب ہو گئے ۔ تھوڑی دیر بعد پھر بیدار ہوئے تو دوبارہ چہرئہ مبارک تبسم سے کھلا ہوا تھا ۔ حضرت ام حرامؓ نے دوبارہ وجہ پوچھی تو آپ نے فرمایا :
’’ میری امت کا پہلا لشکر جو قیصر ( روم) کے شہر ( قسطنطنیہ ) پر جہاد کرے گا ‘ اس کی مغفرت کی بشارت دی گئی ہے ‘‘ ۔
حضرت ام حرامؓ نے دوبارہ دعا کی درخواست کی کہ اللہ تعالیٰ مجھے اس لشکر میں شامل فرما لے لیکن اس مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا :
’’ نہیں ! تم پہلے لشکر میں شامل ہو‘‘۔
( صحیح البخاری ‘ کتاب الجہاد ‘ باب ماقیل فی قتال الروم )
اسی طرح حضرت بشر بن سحیم رضی اللہ عنہ سے ایک روایت ان الفاظ میں مروی ہے :
لتفتحن القسطنطنیۃ ، فلنعم الا میرا میر ھا ولنعم الجیش ذلک الجیش (مسند احمد ‘ احادیث ِ بشر بن سحیم)
( تم ضرور قسطنطنیہ فتح کر لو گے ‘ پس بہتر امیر اس کا امیر ہو گا اور بہتر لشکر ‘ وہ لشکر ہو گا)
اللہ تعالیٰ کی شان دیکھیں کہ یہ سعادت حاصل کرنے کیلئے بہت سے عظیم مسلمان حکمرانوں نے اس شہر پر حملے کیے ‘ جن میں سیدنا حضرت امیر معاویہ ؓ ، حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ ، ہشام بن عبدالملک ، مہدی عباسی اور ہارون الرشید جیسے تاریخی نام شامل ہیں ۔ لیکن یہ سعادت اللہ تعالیٰ نے ایک تُرک جوان ‘ سلطان محمد کے نصیب میں لکھی ہوئی تھی ‘ جنہیں اب سلطان محمد فاتح کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔ انہی کے ہاتھوں قسطنطنیہ فتح ہو کر بشارت ِ نبوی کی تکمیل ہوئی ۔
سلطان محمد فاتح ؒ کے اسی معرکے میں عسکری تاریخ کا وہ عظیم الشان واقعہ پیش آیا ‘ جسے عیسائی مؤرخین بھی ایک ’’معجزہ ‘‘ کہتے ہیں ۔ قسطنطنیہ کا محاصرہ مکمل کرنے کیلئے لازمی تھا کہ اسلامی ترک لشکر کے کچھ بحری جہاز ’’آبنائے باسفورس‘‘ سے ’’گولڈن ہارن‘‘ والے حصے میں داخل ہوں لیکن درمیان میں لوہے کی ایک بہت بڑی زنجیر تھی ، جس کی حفاظت کیلئے ہر وقت شہر کی توپیں تیار رہتی تھیں ‘ جس کی وجہ سے بحری راستے سے ترک بحری جہازوں کا داخلہ گولڈن ہارن میں تقریباً ناممکن تھا ۔
اس صورت ِ حال کو دیکھ کر سلطان محمد فاتح ؒ نے یہ محیر العقول فیصلہ کیا کہ بحری جہازوں کو دس میل خشکی پر چلا کر لایا جائے گا اور اتنے لمبے ‘ ناہموار اور پہاڑی راستے کے ذریعے اوپر سے ان کو ’’گولڈن ہارن‘‘ میں اتارا جائے گا ۔ پھر یہ سارا کام بھی صرف ایک رات میں مکمل کیا جانا تھا ۔
سلطان کے حکم پر خشکی کے اُس راستے پر لکڑی کے تختے بچھائے گئے اور انہیں چکنا کرنے کیلئے اُن پر چربی مَلی گئی ، پھر ستّر جہاز نما بڑی کشتیوں کو باسفورس سے ان تختوں پر چڑھادیا گیا ۔ ہر کشتی میں دو ملاح تھے اور ہوا کی مدد لینے کیلئے بادبان بھی کھول دئیے گئے تھے ۔ ان کشتیوں کو بیل اور آدمی کھینچتے ہوئے دس میل کی یہ پہاڑی مسافت طے کر کے گولڈن ہارن تک لے گئے ۔ پوری رات یہ مشقت بھرا کام جاری رہا اور جب صبح ہوئی تو قسطنطنیہ کی فوج نے دیکھا کہ سلطان کے بحری جہاز گولڈن ہارن میں اُن کے سروں پر پہنچ کر شہر کا محاصرہ مکمل کر چکے ہیں ۔
یہ ۲۰؍جمادی الاولیٰ ۸۵۷ ھ مطابق ۲۹؍مئی ۱۴۵۳ء کی تاریخ تھی ‘ جب عیسائی دنیا کے سب سے مرکزی شہر پر توحید کے متوالوں نے اسلام کا پرچم لہرایا اور یوں ترک لشکر نے صدیوں سے مسلمانوں کے ذمہ چلے آنے والا قرض چکا دیا ۔ اس دن پوری اسلامی دنیا میں خوشیاں منائی گئیں اور اہلِ ایمان نے شکرانے کے نوافل ادا کیے ۔
اللہ تعالیٰ بہت غنی ہے ‘ وہ کسی کا محتاج نہیں‘ سب اُس کے محتاج ہیں ۔ جو قوم اللہ تعالیٰ کے دین کی عظمت کیلئے کھڑی ہوتی ہے ‘ وہ خود عظیم بن جاتی ہے اور جو قوم اسلام سے پیچھے ہٹ جائے اور اپنے فرائض کو بھلا بیٹھے تو اللہ تعالیٰ اُس کی جگہ کسی اور قوم کو کھڑا کر دیتے ہیں جو اسلام کی وفادار ہوتی ہے اور ایمان والوں کی محافظ اور پشت پناہ ۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کے دامن سعادتوں سے مالا مال فرمائے کلمۂ طیبہ کی لاج رکھنے والے تمام مسلمانوں کی حفاظت فرمائے اور انہیں ترقیات عطا فرمائے ۔ (آمین)
٭…٭…٭
ایک اہم فرض کی ادائیگی
کلمۂ حق ۔ مولانا محمد منصور احمد (شمارہ 497)
اللہ تعالیٰ کے دین کی سربلندی اور مظلوم مسلمانوں کی آزادی کیلئے کفار سے برسرِ پیکار ہونا،اسلام کے عظیم ترین اور اہم ترین فرائض میں سے ہے۔ راہِ خدا میں اپنے وطن کو چھوڑنا، دوست احباب سے جدا ہونا اور پھر اپنے تن من دھن کو اپنے خالق و مالک کے حکم پر نچھاور کردینا، ایسی اعلیٰ عبادت ہے کہ رب کائنات خود ایسے لوگوں سے اپنی محبت کا اظہار فرماتے ہیں، چنانچہ قرآن مجید میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِہٖ صَفًّا کَاَنَّھُمْ بُنْیَانٌ مَّرْصُوْصٌo
(بے شک اللہ تعالیٰ اُن لوگوں سے محبت کرتا ہے جو اُس کے راستے میں صف بنا کر لڑتے ہیں گویا کہ وہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں۔)(الصف:۴)
سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو جہاد سے جو تعلق اور وابستگی تھی، اُس کا اندازہ غزوات و سرایا کی اُس غیر معمولی تعداد سے لگایا جا سکتا ہے جو زیادہ نہیں صرف مدینہ منورہ کے دس سالہ دور میں پیش آئے۔ احادیثِ رسول اور سیرت نبوی کی کتابوں کے سینکڑوں صفحات ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی شجاعت، دلیری اور بہادری پر گواہ ہیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مل کر صحابہ کرامؓ نے جس سرفروشی اور اعلیٰ ترین جنگی مہارت کے نمونے پیش کئے، وہ نہ صرف آج کے مسلمانوں کی غفلت اور بزدلی کیلئے، تازیانہ ہیں بلکہ جنگی تاریخ کے نادر اور بے مثال واقعات بھی ہیں۔
جنگ اور لڑائی انسانیت کی تاریخ میں کوئی نایاب اور انوکھی چیز نہیں۔ جب سے انسان نے اس سرزمین پر قدم رکھا ہے، باہمی کشمکش اور زور آزمائی کے مناظر دیکھتا آیا ہے۔ تاریخ کو وہ وقت یاد ہے جب بختِ نصر اُٹھا اور بیت المقدس کو برباد کردیا، ایرانی آئے اور بابل کے تمدن کو تاخت و تاراج کرکے چلے گئے، رومی نکلے اور کارتھیج کی سرزمین کو آگ اور خون سے بھر دیا، سکندر یونان سے نکلا اور ایران کے در و دیوار سے زندگی کے ایک ایک نقش کو مٹا ڈالا، تاتاری ابھرے اور بغداد کے قدیم آثار کو دجلہ میں ڈبو دیا۔ یہ سب مشہور فاتحین کس مقصد کیلئے میدانوں میں اُترے، انہوں نے کس غرض سے لاکھوں انسانوں کا خون بہایا اور انہوں نے کس ادارے سے انسانی بستیوں کو کھنڈرات میں تبدیل کیا؟ یہ ایسا سوال ہے جس کا جواب ہر بچہ دے سکتا ہے کہ ان جنگجو بادشاہوں کے پیش نظر انسانیت کی کوئی فلاح و بہبود یا انسانوں کیلئے بلند مقصدِ حیات نہیں تھا، یہ تو محض اپنے اقتدار کو وسعت دینے کیلئے ہوسِ ملک گیری میںمبتلا ہو کر انسانوں کا خون بہاتے رہے۔
لیکن رحمت دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ماننے والے جب ظلم اور کفر سے برسرِ پیکار ہوئے اور انہوں نے معرکہ آرائیوں کی ایک نئی تاریخ رقم کی تو اُن کے سامنے کیا عزائم تھے؟ اقبال مرحوم کی زبانی اس کا جواب یہ ہے:
تھے وہی ایک ترے معرکہ آرائوں میں
خشکیوں میں کبھی لڑتے کبھی دریائوں میں
دیں اذانیں کبھی یورپ کے کلیسائوں میں
کبھی افریقہ کے تپتے ہوئے صحرائوں میں
شان آنکھوں میں نہ جچتی تھی جہانداروں کی
کلمہ پڑھتے تھے وہ چھائوں میں تلواروں کی
وہ جو جیتے تھے تو جنگوں کی مصیبت کیلئے
اور مرتے تھے ترے نام کی عظمت کیلئے
تھی نہ کچھ تیغ زنی اپنی حکومت کیلئے
سربکف پھرتے تھے کیا دہر میں دولت کیلئے؟
کس کی ہیبت سے صنم سہمے ہوئے رہتے تھے
منہ کے بل گر کر ھو اﷲ احد کہتے تھے
پھر ایک طرف دنیاوی بادشاہوں کی جنگیں ہیں، جن میں بے دریغ انسانی خون بہایا جاتا ہے۔ لیکن اس کے برعکس نبیٔ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی لشکر کو روانہ فرماتے تو یہ ہدایات جاری ہوتی تھیں:
’’میں تمہیں اللہ سے ڈرنے کی اور اپنے اہل لشکر کے ساتھ اچھا برتائو کرنے کی نصیحت کرتا ہوں، اللہ کے نام پر قتال کرنا اور اللہ ہی کے راستے میں اُس شخص سے قتال کرنا جس نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر اختیار کیا ہو۔ غدّاری نہ کرنا، مال غنیمت میں چوری نہ کرنا، کسی بچے، عورت اور بے کار بوڑھے یا کسی عبادت گاہ میں بیٹھے گوشہ نشین کو قتل نہ کرنا، کسی کھجور کو ہاتھ نہ لگانا، کسی درخت کو نہ کاٹنا، کسی عمارت کو نہ گرانا۔‘‘(نبیٔ رحمت بحوالہ واقدی ۴۹۷)
حیرت اور تعجب تو اُس پڑھے لکھے طبقے پر ہے جو اسلامی غزوات اور جہاد کے بارے میں اُس قوم کو صفائی پیش کرتا رہتا ہے، جس کے اپنے ہاتھ انسانیت کے خون سے رنگین ہیں اور اُس کے جبڑوں سے معصوم مسلمان بچوں کے لہو کی بو آرہی ہے۔ رحمت للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کے دس سالہ مدنی دورِ حیات میں جتنے غزوات و سرایا پیش آئے، ان سب میں شہید ہونے والے مسلمانوں کی کل تعداد ۳۸۷ ہے جبکہ ہلاک ہونے والے کفار کی تعداد ۷۵۹ ہے، گویا صرف ۱۰۱۸ ؍انسانی زندگیوں کے خاتمے کے نتیجے میں عرب کے ریگزاروں میں اُس عالمگیر انقلاب کی بنیاد پڑی جس نے غلامی اور بے بسی کی چکی میں پسنے والی اقوام کو آزادی اور حرّیت کا پیغام دیا اور بدامنی کے گڑھ عرب میں جہاں بڑے بڑے کارواں بھی غیر معمولی حفاظتی اقدامات کے بغیر نہیں چل سکتے تھے، اب یہ حالت ہوگئی کہ ’’ایک خاتون حیرہ سے چلتی اور کعبہ کا طواف کرکے واپس چلی جاتی اور اللہ کے سوا اس کو کسی کا ڈر نہ ہوتا (بخاری)‘‘ اور ’’ایک اکیلی عورت قادسیہ سے اپنے اونٹ پر چلتی اور بیت اللہ کی زیارت کرتی اور اس کو کسی کا خوف نہ ہوتا (سیرت ابن ہشام)‘‘
جہاد اسلام کا ایک اہم ترین فریضہ ہے۔ یہ اللہ کریم کا محکم حکم ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک سنت ہے، فقہ اسلامی کا متفقہ مسئلہ ہے، اسلافِ امت کا اجماعی عقیدہ ہے اور یوں کہنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے اسلام کی شکل میں ہمیں جو ضابطۂ حیات عطا فرمایا، جہاد اِس سرزمین پر اُس کا محافظ بھی ہے اور اُس کے نفاذ کا واحد راستہ بھی۔
تاریخ اسلام میں جہاد کی اس اہمیت اور خصوصی حیثیت کے باوجود مسلمانوں کا ایک طبقہ ایسا ہے جو ببانگ دہل اس کو دہشت گردی سے تعبیر کرتا ہے اور اپنے دین کے تحفظ کیلئے اور ممالکِ اسلامیہ کے دفاع کیلئے اسلحہ استعمال کرنے کو غلط سمجھتا ہے۔ ان حضرات کی دو رُخی اور تضاد بیانی کا اندازہ صرف اسی سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک طرف تو یہ مسلمانوں کو اسلحہ سے دور بھاگنے کو کہتے ہیں اور اہل اسلام کی ہر جہادی تحریک کو شدت پسند اور انتہا پسند جیسے القابات سے نوازتے ہیں لیکن دوسری طرف یہ لوگ عالمی استعماری طاقتوں کے ظالمانہ کردار پر نہ صرف راضی ہیں بلکہ اُن کی طرف سے برپا ہونے والے ہر ظلم و ستم کی حمایت کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ ایسے ہی لوگوں کو سمجھانے کیلئے اقبال مرحوم نے کہا تھا:
تعلیم اس کو چاہئے ترکِ جہاد کی
دنیا کو جس کے پنجۂ خونیں سے ہو خطر
باطل کے فال و فر کی حفاظت کے واسطے
یورپ زرہ میں ڈوب گیا دوش تا کمر
ہم پوچھتے ہیں شیخ کلیسا نواز سے
مشرق میں جنگ شر ہے تو مغرب میں بھی شر
حق سے اگر غرض ہے تو زیبا ہے کیا یہ بات
اسلام کا محاسبہ، یورپ سے درگزر
ایک اور طبقہ مسلمانوں میں ایسا پیدا ہوا جس نے تلوار اور اخلاق کو ایک دوسرے کے مقابل لاکھڑا کیا اور پھر اپنے دل و دماغ سے یہ فیصلہ سنا ڈالا کہ چونکہ ہم با اَخلاق قوم ہیں، اسلام میں اخلاق کی اہمیت پر بڑا زور دیا گیا ہے اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اخلاقِ کریمانہ کے اعلیٰ درجے پر تھے، اس لئے جہاد و قتال (نعوذ باللہ) بداخلاقی ہے اور ہم اس کے مرتکب نہیں ہو سکتے۔ ظاہر ہے کہ یہ فلسفہ بھی اسلامی تعلیمات سے سو فیصد متصادم ہے، اسلام میں اخلاق صرف ہنسنے مسکرانے کا نام نہیں، مقابلے اور لڑائی میں پیٹھ دکھانے اور راہِ فرار اختیار کرنے کو ہر عقل مند بے غیرتی اور بزدلی قرار دیتا ہے، اخلاق و کردار نہیں۔ پھر نبی ٔ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاقِ نبوت کا تذکرہ تو بغیر جہاد کے مکمل ہی نہیں ہوسکتا، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسماء گرامی میں ہمیں نبی السیف (صلی اللہ علیہ وسلم) یعنی تلوار والے نبی اور نبی الملحمۃ (صلی اللہ علیہ وسلم) یعنی گھمسان کی جنگوں والے نبی جیسے اسماء مبارکہ ملتے ہیں۔
رحمان کیانی نے کیا خوب کہا ہے:
جب بھی سپاہیوں سے پیمبرا کو پوچھئے
خندق کا ذکر کیجئے، خیبر کو پوچھئے
بدر و احد کے قائدِا لشکر کو پوچھئے
یا غزوۂ تبوک کے سرورا کو پوچھئے
ہم کو حنین و مکہ و موتہ بھی یاد ہیں
ہم امتیِٔ بانی رسمِ جہاد ہیں
مسلمانوں کے ان دو طبقات کا تذکرہ تو بطورِ مثال نوکِ قلم پر آگیا ورنہ ایسے درجنوں وساوس اور لایعنی باتوں کے ذریعے امت مسلمہ کے دلوں سے جہادی جذبات اور شہادت کے ولولوں کو کرید کرید کر صاف کرنے کی کوشش کی گئی اور انتہائی حیرت انگیز بات یہ ہے کہ جہاد کے خلاف پھیلائے جانے والے وساوس و شبہات کے تانے بانے قادیان کے اُس شیطان کے افکار سے بُنے گئے ہیں جو سیالکوٹ کچہری میں سولہ روپے ماہوار پر انگریزی حکومت کا ملازم تھا اور پھر انگریز نے مسلمانوں کے جذبات حریّت سے بیگانہ کرنے کیلئے اس فاتر العقل شخص کو دعویٰ نبوت کرنے کیلئے منتخب کیا۔ افسوس کہ آج اپنے آپ کو بہت بڑا دانش ور اور متقی پرہیزگار باور کرنے والے مخلص مسلمان بھی جہاد کے خلاف اُسی کے الفاظ کو چبا رہے ہیں اور اُس کے غلیظ پس خوردہ سے اپنے آپ کو آلودہ کررہے ہیں۔
ان حالات میں ضروری تھا کہ مسلمانوں کو جہاد کی اہمیت سے آگاہ کیا جائے، اہلِ اسلام کو اُن کے اصل سرچشموں یعنی قرآن و سنت سے جہاد کی آفاقی حیثیت بتائی جائے اور مرزا ملعون کے افکار کو ہمیشہ کیلئے مسلمانوں کے دل و دماغ سے کھرچ کھرچ کر نکال دیا جائے۔
الحمد للہ تعالیٰ! کاروانِ رحمت کے زیر اہتمام پورے ملک میں ہونے والے چھ روزہ دروس قرآن کے مبارک اجتماعات اس فرضِ کفایہ کو بحسن و خوبی ادا کر رہے ہیں اور ان کی برکات سے مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد مستفید ہو رہی ہے ۔ اللہ تعالیٰ انہیں ہر شریر کے شر ، ہر فتین کے فتنہ اور ہر حاسد کے حسد سے محفوظ فرمائے ۔ (آمین ثم آمین)
٭…٭…٭
ایک اہم سبق، جو ہم بھول گئے
کلمۂ حق ۔ مولانا محمد منصور احمد (شمارہ 496)
امت مسلمہ کی داستانِ خونچکاں کے تین اہم باب سامنے ہیں:
(۱) روہنگیا نسل کے برمی مسلمانوں کی جلا وطنی۔
(۲) صدر محمد مرسی کو مصری عدالت سے سزائے موت۔
(۳)محترمہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے بارے میں قومی بے حسی اور خاموشی۔
یہ تینوں عنوانات اتنے کربناک‘ المناک اور اذیت ناک ہیں کہ اگر قلم اور روشنائی کے بجائے انہیں اپنے لہو سے لکھا جائے، پھر بھی ان کا حق ادا نہیں ہو سکتا۔ افسوس، غم اور مذمت کے تمام الفاظ ان واقعات کے سامنے کمتر محسوس ہوتے ہیں۔ انہی واقعات کو دیکھ کر پتہ چلتا ہے کہ عالمی ضمیر اور عالمی برادری یا انسانیت کے الفاظ صرف ایک ڈھکوسلہ ہیں، جنہیں دنیا کی شاطر قومیں صرف اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرتی ہیں۔
میانمار ( برما ) کی ظالم بدھ حکومت نے لاکھوں روہنگیا مسلمانوں کو اپنا شہری تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے برسہا برس سے ان کی نسل کشی کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ بدھ مذہب کے راہنما، جنہیں بھکشو کہا جاتا ہے اور امن و سکون کی علامت سمجھا جاتا ہے، اس قتلِ عام میں پیش پیش ہیں۔
حالیہ تازہ ترین واقعات میں لاکھوں مسلمان جوان، بوڑھے، عورتیں اور بچے دم توڑ چکے ہیں۔ ہزاروں کھلے سمندروں میں ادھر اُدھر دھکے کھاتے پھر رہے ہیں۔ ان کی کشتیاں بنگلہ دیش، تھائی لینڈ، انڈونیشیا اور ملائشیا میں سے جس کے ساحل کے قریب بھی پہنچتی ہیں، اُنہیں دوبارہ سمندر میں دھکیل دیا جاتا ہے اور دنیا کا کوئی ملک انہیں قبول کرنے کیلئے تیار نہیں ہے۔
عالمی میڈیا پر ان کی بے بسی اور غم و اَلم سے بھر پور تصاویر آچکی ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ اگر ایسی تصاویر مسلمانوں کے بجائے، جانوروں کی بھی ہوتیں تو کب کے عالمی امدادی ادارے متحرک ہو چکے ہوتے۔ اقوامِ متحدہ کے کارٹون بھی بیان بازی شروع کر دیتے اور مسلم حکمران بھی امدادی سامان روانہ کر چکے ہوتے۔
صدر محمد مرسی، مصر کے منتخب جمہوری صدر تھے۔ وہ براہ راست عوام کے پچپن فیصد ووٹ لے کر منتخب ہوئے تھے۔ ہماری اُن سے قلبی محبت کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے ایک غیرت مند مسلمان کی طرح اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں کھڑے ہو کر دو ٹوک انداز میں یہ اعلان کیا تھا:
’’ہم صرف اُسی کی عزت کریں گے، جو ہمارے آقا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت کرے گا اور جو اُن کی توہین کرے گا‘ اُس سے دشمنی رکھی جائے گی۔ ‘‘
اس مردِ غیور نے قبلۂ اول کی آزادی اور اہلِ فلسطین کی حمایت کر کے اہلِ ایمان کے دل جیت لیے۔ یہود و نصاریٰ اور منافقین سر جوڑ کر بیٹھ گئے اور پھر مصر کے فوجی جنرل عبدالفتاح سیسی نے ان سب کی ایماء پر پہلے جمہوری حکومت کا تختہ الٹا اور پھر ظلم و ستم کا وہ بازار گرم کیا کہ فرعون کے زمانے کی یادیں تازہ ہو گئیں۔ اس وقت سے آج تک صدر محمد مرسی اور ان کے ساتھی سخت آزمائش کے مرحلے میں ہیں اور اب ایک مصری عدالت نے، جسے عدالت کہنا بھی عدل و انصاف کی توہین ہے، انہیں ایک سو پانچ ساتھیوں سمیت سزائے موت سنا دی ہے۔
آج جمہوریت کے نام لیوائوں پر سکوتِ مرگ طاری ہے اور عالمی سطح پر کوئی توانا اور مضبوط آواز اس نا انصافی کے خلاف بلند نہیں ہوئی۔ اس صورت حال سے پتہ چلتا ہے کہ یورپ اور اس کے حواریوں کا اصل مسئلہ جمہوریت یا بادشاہت نہیں، اسلام دشمنی ہے اور اُنہیں ’’اسلام‘‘ دنیا کے کسی علاقے میں بھی کسی صورت بطورِ نظامِ زندگی قبول نہیں۔ خواہ اسلام براستہ جمہوریت آئے یا بذریعۂ جہاد فی سبیل اللہ۔
پاکستان کی عزت مآب، عفت مآب بیٹی محترمہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی، جنہیں واپس لانے کے وعدے ہمارے موجودہ حکمرانوں نے میڈیا کے سامنے کیے تھے۔ امریکی عدالت نے اُنہیں ۸۶ برس قید کی ظالمانہ سزا سنائی اور اب اخبارات میں آرہا ہے کہ وہ کینسر جیسی موذی مرض میں مبتلا ہو چکی ہیں۔ ان کی با حوصلہ لیکن ضعیف اور بوڑھی والدہ نے پاکستان کے ہر صاحب ِ اقتدار اور صاحب ِ اختیار کا درکھٹکھٹایا ہے لیکن افسوس کہ مایوسی کے سوا کچھ بھی اُن کے ہاتھ نہیں آیا۔
اب تو نوبت یہاں تک آپہنچی ہے کہ صاحبانِ اقتدار کسی مناسب موقع پر بھی اس مظلوم بیٹی کا نام نہیں لیتے کہ کہیں ان کے منہ کا ذائقہ خراب نہ ہو جائے اور اُن کی پیشانی پر سلوٹیں نمودار نہ ہو جائیں۔
کوئی سوچ سکتا ہے کہ یہ مظلوم مسلمان، اُن ایک ارب مسلمانوں کے ساتھ رشتہ، اخوت میں جڑے ہوئے ہیں، جن کے پاس دنیا کی تمام نعمتیں بھی ہیں اور ہر طرح کے وسائل بھی۔ جو عسکری اعتبار سے بھی مضبوط ہیں اور سیاسی اعتبار سے بھی۔ جو چاہیں تو آج صرف اپنی زکوٰۃ کی رقم سے ہی تمام روہنگیا مسلمانوں کی کفالت کر سکتے ہیں اور اپنے اقتدار، عہدہ اور منصب سے فائدہ اٹھا کر مسلمانوں کے بے شمار اجتماعی مسائل حل کر سکتے ہیں۔
ایک حدیث شریف جو حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: نہ تو مسلمان کسی دوسرے مسلمان پر ظلم کر تا ہے۔ اور نہ اس کو دشمنوں کے حوالے کرتا ہے۔ یعنی نہ اس کو بے یارو مدد گار چھوڑتا ہے۔ اور جو شخص اپنے کسی بھائی کی کسی ضرورت کے پورا کرنے میں لگا ہوا ہو ۔ اس کا کوئی کام کر رہا ہو۔ تو جب تک وہ اپنے بھائی کا کام کرتا رہے گا۔ اللہ تعالیٰ اس کے کام بناتے رہیں گے اور اس کی حاجتیں پوری کرتے رہیں گے۔ اور جو شخص کسی مسلمان سے کسی تکلیف یا مشقت کی بات دور کرے۔ یعنی وہ کوئی ایسا کام کرے جس سے کسی مسلمان کی مشکل آسان ہو جائے اور اس کی دشواری دور ہو جائے تو اس دور کرنے والے پر قیامت کے روز جو سختیاں آنے والی تھیں اللہ تعالیٰ ان سختیوں میں سے ایک سختی کو اس سختی کے مقابلے میں دور فرما دیتے ہیں۔
اور جو شخص کسی مسلمان کی پردہ پوشی کرے۔ مثلاً کسی مسلمان کا ایک عیب پتہ چل گیا کہ اس کے اندر فلاں عیب ہے، یا فلاں خرابی ہے، یا فلاں گناہ کے اندر مبتلا ہے۔ اب یہ شخص اس عیب کی پردہ پوشی کرے اور دوسروں تک اس کو نہ پہنچائے تو اللہ تعالیٰ قیامت کے روز اس کی پردہ پوشی فرمائیں گے اور اس کے گناہوں کو ڈھانپ دیں گے۔ (ابوداؤ د‘ کتاب الادب ‘ باب المؤ اخاۃ)
یہ بڑی جامع حدیث ہے اور متعدد جملوں پر مشتمل ہے۔ جس میں سے ہر جملہ ہماری اور آپ کی توجہ چاہتا ہے، ان پر غور کرنے اور ان کو اپنی زندگی کا دستور بنانے کی ضرورت ہے۔
اس حدیث میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے پہلے جو جملہ ارشاد فرمایا۔ اس میں ایک اصول بیان فرما دیا کہ ’’ المسلم اخوالمسلم‘‘ یعنی مسلمان مسلمان کا بھائی ہے۔ لہٰذا انسان کا اپنے بھائی کے ساتھ جو معاملہ ہوتا ہے ہر مسلمان کے ساتھ وہی معاملہ ہونا چاہیے۔ خواہ وہ مسلمان اجنبی ہو۔ اور بظاہر اس کے ساتھ کوئی رشتہ داری نہ ہو۔ بظاہر اس کے ساتھ دوسروں کا کوئی تعلق نہ ہو۔ لیکن تم اس کو اپنا بھائی سمجھو۔ اس ایک جملے کے ذریعہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے معاشرے میں پھیلے ہوئے امتیازات اور تعصبات کی جڑ کاٹ دی کہ یہ تو فلاں وطن کا رہنے والا ہے۔ اور میں فلاں وطن کا رہنے والا ہوں۔ یہ فلاں زبان بولنے والا ہے۔ میں فلاں زبان بولنے والا۔ یہ فلاں خاندان اور قبیلے سے تعلق رکھنے والا، میں فلاں خاندان اور قبیلے سے تعلق رکھنے والا۔ اس ایک جملے نے ان امتیازات اور تعصبات کی جڑ کاٹ دی جو آج ہمارے معاشرے میں پھیلے ہوئے ہیں۔ یعنی ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے۔ چاہے وہ کوئی بھی زبان بولتا ہو۔ کسی وطن کا باشندہ ہو۔ کسی بھی پیشے سے اس کا تعلق ہو، کسی بھی ذات یا نسل سے اس کا تعلق ہو۔ ہر حالت میں وہ تمہارا بھائی ہے۔
حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت دیکھئے کہ ابو لہب جو آپ کا چچا تھا اور آپ کے خاندان کا ایک بڑا سردار، اس کا تو یہ حال ہے کہ قرآن کریم کے اندر اس کے اوپر لعنت آئی۔ اور ایسی لعنت آئی کہ قیامت تک جو مسلمان بھی قرآن کریم کی تلاوت کرے گا وہ ’’تبت یدا ابی لھب و تب‘‘ کے ذریعہ ابو لہب پر لعنت بھیجے گا کہ اس کے ہاتھ ٹوٹیں اور اس پر لعنت ہو۔ بدر کے میدان میں اپنے چا چا اور تایوں کے ساتھ جنگ ہو رہی ہے، ان کے خلاف تلواریں اٹھائی جا رہی ہیں۔
دوسری طرف حضرت بلال رضی اللہ عنہ جو حبشہ کے رہنے والے سیاہ فام ہیں۔ ان کو سینے سے لگایا جا رہا ہے۔ بلکہ آپ ان سے یہ پوچھتے ہیں کہ اے بلال! وہ عمل تو ذرا بتائو جس کی وجہ سے میں نے آج کی رات خواب کے اندر جنت دیکھی تو وہاں تمہارے قدموں کی چاپ اور آہٹ اپنے آگے آگے سنی۔ یہ سوال بلال حبشی سے کیا جا رہا ہے جو سیاہ فام ہیں اور حبشہ کے رہنے والے ہیں۔ اور جن کو سارے عرب کے لوگ حقارت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ جواب میں حضرت بلال رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ یا رسول اللہ، اور کوئی خاص عمل تو میں نہیں کرتا۔ البتہ ایک عمل ہے جس پر میں شروع سے پابندی کرتا آرہا ہوں، وہ یہ کہ جب کبھی میں دن یا رات میں وضو کرتا ہوں تو اس وضو سے دو چار رکعت نفل ضرور پڑھ لیتا ہوں۔ ( جس کو تحیۃ الوضو کہتے ہیں) حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ جواب سن کر اس کی تصدیق فرمائی کہ شاید یہی بات ہو گی جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے تمہیں اتنا بڑا مقام عطا فرمایا ۔( صحیح بخاری ‘ فی التھجد ، باب فضل الطہور باللیل والنھار و فضل الصلاۃ بعدالوضو باللیل)
یہ مقام اس شخص نے پایا جس کو غلام کہا جاتا تھا، سیاہ فام اور حقیر سمجھا جاتا تھا، نسل اور خاندان کے اعتبار سے اس کی کوئی وقعت نہیں سمجھی جاتی تھی ۔ اس کے مقابلے میں ’’ابو لہب‘‘ پر قرآن کریم میں لعنت نازل ہو رہی ہے کہ تبت یدا ابی لھب و تب روم کے رہنے والے ’’حضرت صہیب‘‘ تشریف لاتے ہیں اور بڑا اونچا مقام پاتے ہیں۔ ایران کے رہنے والے حضرت سلمان فارسی نے آکر اتنا اونچا مقام پایا کہ ان کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’سلمان منا اھل البیت ‘‘ یعنی سلمان فارسی ہمارے گھر والوں میں شامل ہیں۔ اس طرح آپ نے وطن کے، نسل کے، رنگ کے اور زبان کے بتوں کو توڑ دیا، اور یہ اعلان فرما دیا کہ ہم تو اس ایک اللہ کو ماننے والے ہیں جس نے سارے انسانوں کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا فرمایا۔ انما المومنون اخوۃ اور فرمایا کہ تمام مسلمان بھائی بھائی ہیں۔
جب آپ مدینہ طیبہ تشریف لائے اس وقت مدینہ طیبہ میں اوس اور خزرج کے قبیلوں کے درمیان لڑائی اور جنگ کی آگ سلگ رہی تھی، باپ جب مرتا تو بیٹے کو وصیت کر جاتا کہ بیٹا ! اور سب کام کرنا ، لیکن میرے دشمن سے انتقام ضرور لینا، زمانہ جاہلیت میں ایک لڑائی ہوئی ہے ۔ جس کو ’’حرب بسوس‘‘ کہا جاتا ہے ، چالیس سال تک یہ لڑائی جاری رہی ۔
بسوس بنت منقذ ایک خاتون تھی، جس کا تعلق قبیلہ بکر سے تھا، اس کی اونٹنی غلطی سے جساس بن مرہ کی چراگاہ میں چلی گئی اور اس شخص کا تعلق قبیلہ تغلب سے تھا۔ بس ایک معمولی سی بات سے جو جنگ چھڑی تو ۴۹۴ء تا ۵۳۴ ء جاری رہی اور ایک اونٹنی کی غلطی کی قیمت نہ جانے کتنے انسانوں نے اپنے خون سے ادا کی
لیکن حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے تشریف لانے کے بعد ان کو ایمان کی اور کلمہ ’’لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ‘‘ کی لڑی میں پرو دیا کہ ان کے درمیان عداوت کی آگ ٹھنڈی ہو گئی اور بعد میں ان کو دیکھ کر یہ پتہ نہیں چلتا تھا کہ یہ وہی لوگ ہیں جو آپس میں ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہوتے تھے اور ان کے درمیان بھائی چارہ پیدا فرما دیا۔ قرآن کریم نے اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:
’’واذ کروا نعمۃ اللّٰہ علیکم اذ کنتم اعداء فالف بین قلوبکم فا صبحتم بنعمتہ اخوانا۔‘‘ ( سورۃ آل عمران : ۱۰۳)
یعنی اس وقت کو یاد کرو جب تم آپس میں ایک دوسرے کے دشمن تھے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے تم کو آپس میں بھائی بھائی بنا دیا۔ اب ایسا نہ ہو کہ یہ بھائی بھائی کا رشتہ ختم ہو جائے۔ اور پھر دوبارہ اسی جاہلیت کے طریقے کی طرف لوٹ جائو۔
پوری تاریخ اسلام اس بات کی گواہ ہے کہ جب کبھی مسلمانوں کو شکست یا زوال کا سامنا کرنا پڑا ہے، اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ مسلمان یہ اصول بھول گئے کہ مسلمان مسلمان کا بھائی ہے۔ اور کسی نے درمیان میں پھوٹ ڈال دی کہ یہ توفلاں قوم کا ہے۔ وہ فلاں نسل کا ہے، بس لڑائی شروع ہو گئی اور اس کے نتیجے میں مسلمان تباہ و برباد ہو گئے۔
اسلام کے یہ وہ زریں اصول اور ضابطے ہیں، جن کی بدولت مسلمانوں کی جان و مال صدیوں تک ایسی محفوظ تھی کہ آج اُس کا تصور بھی شاید ممکن نہیں۔ آج ان روشن تعلیمات کو قومیت، لسانیت، علاقائیت اور وطنیت کے گرد و غبار میں ایسا چھپا دیا گیا ہے کہ دنیا بھر کے مسلمانوں پر جتنے بھی غموں او ر صدموں کے پہاڑ ٹوٹتے رہیں، ہم اس کی تکلیف اور کسک تک اپنے دلوں میں محسوس نہیں کرتے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں ایسی بے حسی اور غفلت سے نجات عطافرمائے اور تمام مسلمانوں کی جان مال اور عزت و آبرو کی حفاظت فرمائے۔ (آمین ثم آمین)
٭…٭…٭
بہت خیر ہے ہم سے
کلمۂ حق ۔ مولانا محمد منصور احمد (شمارہ 495)
ہمارے ایک استاذ محترم جو جا مع المعقول والمنقول بھی تھے اور اللہ تعالیٰ کے بڑے ولی بھی تھے ‘ جب وہ مسند تدریس پر تشریف فرما ہوتے تو علمائِ متقدمین کے علوم کی یادیں تازہ ہو جاتیں اور جب وہ بے حس و حرکت طویل نوافل ادا کرتے تو اسلافِ امت کی نمازیں نظروں کے سامنے آجاتیں ۔
ہمیں اُن سے تفسیر بیضاوی اور سنن ابی دائود پڑھنے کی سعادت نصیب ہوئی ۔ شمس العلماء حضرت مولانا شمس الحق خان صاحب رحمۃ اللہ علیہ انتہائی باوجاہت تھے اور درس کے دوران غیر درسی باتوں کا ذکر آپ کے ہاں نا پید تھا لیکن کبھی کبھار بڑے کام کی باتیں ‘ بہت مختصر انداز میں کہہ جاتے ‘ جو دلنشین بھی ہوتیں اور کار آمد بھی ۔
ایک دفعہ فرمانے لگے :
کلمۃ الحکمۃ ضالۃ المومن یا خذ ھا حیث وجدھا
(دانائی کی بات مؤمن کی گمشدہ چیز ہے ‘اُسے جہاں سے بھی مل جائے وہ لے لیتا ہے)
اس کی مثال دیتے ہوئے بتانے لگے کہ میں ایک مرتبہ کراچی کی بس میں سفر کر رہا تھا ۔ پچھلی نشست پر بیٹھے دو مسافر مسلسل آپس میں گفتگو کر رہے تھے ۔ دونوں سیدھے سادے اَن پڑھ افراد تھے ۔ اُن میں سے ایک مسافر اپنی گفتگو میں بار بار کسی کے بارے میں کہتا تھا کہ وہ شخص تو بہت ’’ تعلیم آفتہ ‘‘ ہے ۔ فرماتے ہیں‘ پہلے پہل تو مجھے اس کی بات سن کر ہنسی آئی کہ بے چارہ تعلیم یافتہ کا لفظ بھی درست نہیں کہہ رہا لیکن ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں یہ بات ڈالی کہ یہ مسافر صحیح تو کہہ رہا ہے ۔ کچھ لوگ واقعی ’’تعلیم آفتہ ‘‘ ہوتے ہیں کہ اُن کی تعلیم اُن کیلئے راحت اور رحمت بننے کے بجائے نری آفت بن جاتی ہے ۔
آپ خود غور فرمائیں کہ جس تعلیم کے نتیجے میں انسان دین سے اتنا بے بہرہ ہو جائے کہ اپنے والدین کی نمازِ جنازہ بھی نہ پڑھ سکے ‘ اُسے یہ بھی معلوم نہ ہو کہ قرآنِ مجید کے تیس پارے ہیں یا چالیس اور قرآن مجید کی سورئہ اخلاص بھی اُسے نہ آتی ہو ‘ وہ شخص تعلیم یافتہ کہلانے کا مستحق ہے یا تعلیم آفتہ ۔ ایسی تعلیم کا کیا فائدہ کہ جسے حاصل کرنے کے بعد انسان کو انگریزی تو اتنی آجائے کہ وہ انگریزوں کو بھی سکھا سکے لیکن قرآن مجید اتنا بھی نہ آئے کہ وہ فرض نماز ہی ادا کرسکے ۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزیر اطلاعات نے جس بھونڈے اور غیر مہذب ‘ انداز سے مدارس اور ایک انتہائی مفید اور مؤثر دینی کتاب ’’موت کا منظر ‘‘ کا تذکرہ کیا ہے ‘ اس سے علومِ قرآن و سنت کی شمعیں فروزاں کرنے والے اداروں کے وقار اور شعائر اسلام کی عظمت پر تو کوئی فرق نہیں پڑا لیکن خود وزیر موصوف کی گھٹیا ذہنیت ضرور آشکارا ہو گئی ہے ۔
علمائِ حق نے کالج اور یونیورسٹیوں کی کوتاہیوں پر ہمیشہ ہمدردی سے توجہ دلائی ہے اور مسلمانوں کے دونوں طبقات ‘ دینی تعلیم یافتہ اور عصری تعلیم یافتہ ‘ ان کو جوڑنے اور قریب لانے کی کوشش کی ہے ۔
علماء دیوبند کے سرخیل اور سرتاج حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن ؒ کے یہ الفاظ پڑھیں اور غور فرمائیں کہ کیا اس سے زیادہ انصاف اور اعتدال پر مبنی بات ہو سکتی ہے۔ حضرت نے جامعہ ملیہ کی افتتاحی تقریب میں ۲۹؍ اکتوبر ۱۹۲۰ء کو خطبہ صدارت کے دوران فرمایا :
’’ آپ میں سے جو حضرات محقق اور باخبر ہیں‘ وہ جانتے ہوں گے کہ میرے بزرگوں نے کسی وقت بھی ‘ کسی اجنبی زبان سیکھنے یا دوسری قوموں کے علوم و فنون حاصل کرنے پر کفر کا فتویٰ نہیں دیا ۔ ہاں ! یہ بے شک کہا کہ انگریزی تعلیم کا آخری اثر یہی ہے جو عموماً دیکھا گیا ہے کہ لوگ نصرانیت (عیسائیت ) کے رنگ میں رنگے جائیں یا ملحدانہ گستاخیوں سے اپنے مذہب اور اپنے مذہب والوں کا مذاق اڑائیں یا حکومت ِ وقت (انگریز ) کی پرستش کرنے لگیں ‘ تو ایسی تعلیم پانے سے ایک مسلمان کیلئے جاہل رہنا اچھا ہے ۔‘‘
یہاں حضرت شیخ الہند ؒ کی بصیرت اور دور اندیشی کو داد بھی دیجئے کہ انہوں نے وزیر اطلاعات جیسے ’’تعلیم آفتہ ‘‘ لوگوں کے پیدا ہونے کی پیشین گوئی کتنے واضح اور خوبصورت انداز میں فرما دی تھی ۔
وزیر اطلاعات نے مدارس ِ دینیہ اور مکاتب ِ قرآنیہ کیلئے جو زبان اور انداز استعمال کیا ہے ’’ جواب ِ آں غزل ‘‘ کے طور پر کوئی بھی عالِم اس کا جواب ‘ اسی انداز میں دینے کا حق محفوظ رکھتے ہیں لیکن ہم تو صرف اُنہیں آئینہ دکھانے کیلئے ‘ ایک انگریزی تعلیم یافتہ شخصیت ‘ لسان العصر حضرت اکبر الہ آبادی مرحوم کے یہ اشعار ہی پیش کر سکتے ہیں :
تعلیم جو دی جاتی ہے ہمیں ‘ وہ کیا ہے ‘ فقط بازاری ہے
جو عقل سکھائی جاتی ہے ‘ وہ کیا ہے ‘ فقط سرکاری ہے
حکام پر بم کے گولے ہیں اور مولویوں پر گالی ہے
کالج نے یہ کیسے سانچوں میں لڑکوں کی طبیعت ڈھالی ہے
ہم ایسی کُل کتابیں قابلِ ضبطی سمجھتے ہیں
کہ جن کو پڑھ کر لڑکے باپ کو خبطی سمجھتے ہیں
یوں قتل سے بچوں کے وہ بد نام نہ ہوتا
افسوس کہ فرعون کو کالج کی نہ سوجھی
وزیر اطلاعات جیسے لوگوں کی ذہنیت پر طنز کرتے ہوئے مزید وہ فرماتے ہیں :
چھوڑ لٹریچر کو اپنی ہسٹری کو بھول جا
شیخ و مکتب سے تعلق ترک کر ‘ اسکول جا
چار دن کی زندگی ہے ‘ کوفت سے کیا فائدہ
کھا ڈبل روٹی ‘ کلر کی کر ‘ خوشی سے پھول جا
معلوم نہیں وزیر اطلاعات کو مدارسِ دینیہ اور علماء پر اتنا غصہ کیوں ہے ؟ اگر پاکستان نے سائنس میں ترقی نہیں کی تو اُنہیں چاہیے کہ وہ سائنسدانوں کو کوسیں ۔ اگر پاکستان میڈیکل کے شعبے میں پیچھے رہ گیا ہے تو اُنہیں چاہیے کہ ڈاکٹروں کا احتساب کریں ۔ اگر پاکستان میں انجینئرنگ ‘ اکیسویں صدی کے معیار کے مطابق نہیں تو اُنہیں چاہیے کہ انجینئرز کا احتساب کریں ۔ اگر پاکستان عصری تعلیم میں ابھی تک کوئی قابل تسلی کردار ادا نہیں کر سکا تو اُنہیں چاہیے کہ محکمۂ تعلیم سے روز گار حاصل کرنے والے ماہرین تعلیم کو ذمہ دار ٹھہرائیں ۔ اگر یہ تمام شعبے قومی خزانے کے اربوں روپے کھانے کے باوجود بھی کوئی قابلِ تحسین کارکردگی نہیں دکھا سکے تو اس میں اُس مولوی کا کیا قصور ہے ‘ جس کیلئے قومی خزانے میں ایک روپیہ بھی نہیں لیکن اس کے باوجود اُس نے کراچی سے خیبر تک کسی مسجد کو ویران نہیں رہنے دیا ‘ کسی آبادی کو بنیادی دینی تعلیم سے محروم نہیں رہنے دیا اور تمام دینی مراسم کی نگہبانی اپنے خون پسینے سے کی ہے ۔
اس مولوی نے ہی پہلے تحریک پاکستان کے خاکے میں اپنے خون سے رنگ بھرا ‘ پھر بانیٔ پاکستان کے کہنے پر مشرقی اور مغربی پاکستان میں سب سے پہلے اس نے پرچم لہرایا ۔ اُس دن سے مولوی نے دینی تعلیم کا بیڑا اٹھایا اور فضلِ خد ا وندی سے اس میدان میں مولوی اتنا کامیاب ٹھہرا کہ جس طرح پاکستان کے لوگ دنیاوی تعلیم کیلئے فخر سے اپنے بچے برطانیہ ، فرانس ، جرمنی اور چین بھیجتے ہیں ‘ ویسے ہی دنیا بھر کے مسلمان اعلیٰ دینی تعلیم کیلئے اپنی اولادوں کو پاکستان کے ان دینی اداروں میں بھیجتے ہوئے فخر محسوس کرتے ہیں ۔
ہم تو سمجھتے تھے کہ وزیر اطلاعات کے پاس ملک بھر میں سب سے زیادہ اطلاعات ہوتی ہیں لیکن اب پتہ چلا کہ سب سے زیادہ جہالت نے یہیں ڈیرے لگا رکھے ہیں ۔ پانچ وقت روزانہ مسجد سے اذان دے کر بندگانِ خدا کو بارگاہِ الٰہی کی طرف بلانا مولوی کا کوئی جرم نہیں‘ یہ تو قابلِ فخر کارنامہ ہے ۔ مسلمان تو جب اس مبارک‘ منور اور معطر آواز کو سنتے ہیں تو ان کے دل کیف و سرور سے بھر جاتے ہیں ۔ مجھے اپنے ایک قریبی عزیز ‘ ہمیشہ ہر اذان کے وقت یاد آجاتے ہیں ‘ اللہ تعالیٰ اُن کی جان اور اُن کے ایمان کی حفاظت فرمائے ‘ وہ جب برسہابرس کے بعد کینیڈا سے پاکستان آئے تو اذان کی آواز کانوں میں پڑتے ہی اُن کے آنسو چھلک پڑے ۔ جب ہم نے تعجب سے اُن سے اس کیفیت کی وجہ پوچھی تو وہ کہنے لگے کہ تم پاکستان کے رہنے والے ‘ اس آواز کی قدر و قیمت کیا جانو ؟ تمہیں تو ہر نماز کے وقت کئی سمت سے یہ صدائے دلربا سننے کو ملتی ہے ۔ ہم دیار غیر میں بسنے والوں سے پوچھو کہ ہم کیسے اس نعمت ِ عظمیٰ کیلئے ترستے ہیں اور کبھی کبھی اذان کی ریکارڈنگ سن کر ہی اپنے دلوں کو تسکین دیتے ہیں اور اپنی اولادوں کو بتا دیتے ہیں کہ یہ مسلمانوں کی ’’اذان ‘‘ ہے ۔
وزیر اطلاعات نے جن اداروں کو جہالت کا طعنہ دیا ہے ‘ کبھی وہ دیانتداری کے ساتھ حکومتی تعلیمی اداروں کے ساتھ ان کا موازنہ کریں تو یقینا اُن کا سر شرم سے جھک جائے گا ۔ کالجوں اور یونیورسٹیوں کا ماحول کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ۔ وہاں طلبہ تنظیموں میں خون ریز تصادم ‘ پُرتشدد ہڑتالیں ‘ اساتذہ پر جسمانی تشدد اور احتجاجی مظاہرے معمول کی بات ہے ۔ جب کہ مدارس میں ان باتوں کا تصور تک نہیں ہو سکتا ۔ سندھ میں آج کل بورڈ کے سالانہ امتحانات ہو رہے ہیں‘ جن میں سرعام نقل ہو رہی ہے ۔ اخبارات میں تصاویر اور تفصیلی خبریں شائع ہو چکی ہیں لیکن وزیر اطلاعات سمیت کسی قوم و ملت کے ہمدرد کے کان پر جوں بھی نہیں رینگی ۔ مدارس کے سالانہ امتحانات بھی ٹھیک ڈیڑھ ہفتے بعد شروع ہو رہے ہیں اور کراچی سے خیبر تک وفاق المدارس العربیہ کے تحت ہزاروں طلبہ و طالبات تحریر ی امتحان دیں گے ۔ وزیر اطلاعات اور اُن کی صف کے دیگر دانشوروں میں اگر کوئی اخلاقی جرأت ہے تو انہیں چاہیے کہ آئیں اور ان امتحانات کا جائزہ لیں اور ان مدارس کی عمدہ اور بے مثال کارکردگی دیکھیں ۔ پھر چاہیں تو اِ ن خاک نشینوں سے کچھ سیکھیں اور چاہیں تو چُلّو بھر پانی میں ڈوب مریں ۔
وزیر اطلاعات نے پنج وقتہ اذان اور مرنے کے بعد زندہ ہونے کے عقیدے کا جس طرح مذاق اڑایا ہے‘ یہ ایک سنگین مسئلہ ہے ۔ معلوم نہیں اس طرزِ فکر کے بعدبھی یہ اپنے آپ کو کیسے مسلمان کہتے اور سمجھتے ہیں ۔ ایمان اور بد عملی توجمع ہو سکتے ہیں لیکن ایمان اور استہزاء (مذاق اڑانا ) جمع نہیں ہو سکتے ۔ پاکستانی قوم کو بھی وزیر اطلاعات کے ان ’’افکار ِ کالیہ ‘‘ سننے کے بعد یہ یقین ہو جانا چاہیے کہ دنیا بھر کے دشمنانِ اسلام کی مدارس اور علماء کے خلاف مہم ‘ کسی دہشت گردی یا مہم جوئی کی وجہ سے نہیں بلکہ صرف اور صرف اس بنیاد پر ہے کہ یہ ادارے اور یہ لوگ اسلام کے محافظ ہیں ۔ ورنہ وطن عزیز کو دو ٹکڑے کرنا ‘ کرپشن اور چور بازاری پھیلانا ‘ وی آئی پی کلچر متعارف کروانا ‘ اہلِ وطن کو صوبہ‘ زبان اور قوم کی بنیاد پر تقسیم کرنا سمیت کوئی اخلاقی جرم ان کے نامۂ اعمال میں نہیں ہے ۔
آخر میں وزیر اطلاعات اور اُن کے ہم فکر لوگوں سے یہی عرض ہے کہ :
مانا کہ تمہیں بہت بیر ہے ہم سے
حالانکہ زمانہ میں بہت خیر ہے ہم سے
٭…٭…٭
وقت ، وقت کی بات ہے
کلمۂ حق ۔ مولانا محمد منصور احمد (شمارہ 494)
کچھ باتیں انسان کو وقت کے ساتھ ساتھ سمجھ آتی ہیں ۔ بچپن میںطلبہ کتنی باتیں پڑھتے ہیں لیکن وہ سر کے اوپر سے گزر جاتی ہیں ‘ بڑے ہو کر پتہ چلتا ہے کہ یہ بھی کوئی سنجیدہ اور اہم مسئلہ ہے ۔ مثال کے طور پر سکول کی ابتدائی کلاسوں میں ہم نے پڑھا تھا کہ آلودگی کی کئی قسمیں ہیں‘ جن میں سے ایک شور کی آلودگی بھی ہے ۔ اُس وقت ہم یہی سمجھے تھے کہ یہ سائنسدان بھی کیا احمق اور بے وقوف ہوتے ہیں ۔ بھلا شور بھی کوئی آلودگی ہے ۔ شور و غوغا نہ ہو تو گھر ویران لگتا ہے ‘ سب اُداس اُداس محسوس ہوتے ہیں ۔
لیکن اب عمر کے اس مرحلے میں آکر جب انسان کبھی پڑھ لکھ رہا ہو یا تھکاوٹ سے چور ہو کر سورہا ہو اور بچے اچانک شور مچاتے ہوئے آسمان سر پر اٹھالیں تو اُس وقت واقعی محسوس ہوتا ہے کہ شور کو آلودگی قرار دینے والوں کی بات میں بہر حال وزن ہے ۔
اسی طرح آپ نے دیکھا ہو گا کہ بچے بچپن میں جن گولیوں ‘ تنکوں یا کنکروں سے کھیلتے ہیں ‘ اگر وہ کھیل میں اپنی یہ متاعِ عزیز ہار بیٹھیں تو کیسے افسردہ ہو جاتے ہیں بلکہ کئی کمزور دل بچے تو باقاعدہ دھاڑیں مار کر رونا بھی شروع کر دیتے ہیں ۔ جب یہ بچے بڑے ہو جاتے ہیں اور خود بچوں والے بن جاتے ہیں ‘ اگر کبھی ان کو یاد دلایا جائے کہ جناب آپ فلاں موقع پر چند کنکروں یا گولیوں کیلئے روئے تھے تو انہیں کتنا عجیب محسوس ہو گا اور ان کے دل میں ضرور یہ خیال آئے گا کہ ہم بچپن میں کتنے احمق اور بے وقوف تھے کہ کن معمولی ‘ بے کار اور نا پائیدار چیزوں پر مرتے تھے اور ان کے کھو جانے پر روتے تھے ۔
اصل بات جو میں عرض کرنا چاہ رہا ہوں وہ یہ ہے کہ جس طرح بچپن کی یہ باتیں ‘ ہمیں بڑے ہو کر حماقت محسوس ہوتی ہیں اور ہمارے سامنے بچپن کی کھیلوں میں جیتنے یا کھو دینے والی چیزوں کا بے وقعت ، بے حیثیت اور بے کار ہونا ظاہر ہو جاتا ہے ‘ ٹھیک اسی طرح مرنے کے بعد ہمیں دنیا کا یہ سازو سامان‘ یہ گاڑیاں ‘ یہ کوٹھیاں اور یہ بینک بیلنس سب بے کار لگے گا اور تب پتہ چلے گا کہ اوہ! ہم تو ساری زندگی کس حماقت میں مبتلا رہے ۔ کن حقیر چیزوں کے ملنے کو کامیابی باور کرتے رہے اور اُن کے نہ ملنے پر افسوس کرتے رہے ۔ اُس وقت اصل دولت یعنی نیکیوں کی قدرو قیمت سمجھ آئے گی ، جن کو حاصل کرنے کیلئے آج ہمارے پاس وقت ہی نہیں ہوتا ۔ ہاں !لیکن ایک بات ہے کہ اُس وقت سمجھ آنے کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا کیونکہ وہ سمجھ اپنے دیکھنے سے آئے گی ‘ جب کہ ہم سے مطالبہ ’’ایمان بالغیب‘‘ کا ہے کہ بغیر دیکھے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کو مان لو۔ دیکھنے کے بعد تو کافر بھی مان لیں گے ‘ سب کچھ ظاہر ہو جانے کے بعد تو مؤمن اور کافر میں کوئی فرق نہیں رہے گا ۔
یہاں یہ بات بھی ذہن میں آگئی کہ یہ ’’ اللہ والے‘‘ جو اپنی زندگی کے اوقات دنیا کی فانی دولت کمانے میں نہیں لگاتے بلکہ نماز ‘ روزہ ‘ ذکر اور جہاد جیسے نیکی کے کاموں میں اپنے آپ کو کھپائے رکھتے ہیں‘ یہ کتنے سمجھدار ہوتے ہیں ۔ دنیا والوں کے برخلاف یہ ایسی دولت کماتے ہیں‘ جو کبھی فناء نہیں ہوتی ‘ نہ ہی اس پر زوال آتا ہے ۔
جب بھی جہاز میں سفر کا اتفاق ہوتا ہے تو ایک خیال دل میں ضرور آتا ہے ۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ جہاز جیسے جیسے بلند ہوتا ہے ‘ زمین پر بنے ہوئے مکانات اور اس پر چلنے پھرنے والے انسان چھوٹے دکھائی دینے لگتے ہیں ۔ بلندی جتنی بڑھتی جاتی ہے ‘ یہ ساری چیزیں ہماری آنکھوں میں حقیر سے حقیر تر ہوتی چلتی جاتی ہیں اور پھر مکانات اور گاڑیاں کھلونے اور انسان بونے محسوس ہوتے ہیں ۔
حضرات انبیاء کرام علیہم السلام اور ان کے سچے پیرو کار بھی چونکہ روحانی بلندیوں کی انتہاء پر ہوتے ہیں‘ اس لیے اُنہیں دنیا کا یہ سارا سازو سامان ‘ جو دنیا والوں کی نظر میں بڑی حیثیت اور اہمیت رکھتا ہے‘ انتہائی معمولی اور حقیر نظر آتا ہے ۔ قرآن مجید چونکہ بلند کتاب ہے اور بلندیوں سے نازل ہوئی ہے ‘ اس لیے وہ بھی جب اس دنیا ئے فانی کا تذکرہ کرتا ہے تو بڑی حقارت کے ساتھ کرتا ہے ۔
کہیں قرآن مجید ہمیں یوں سمجھاتا ہے :
لا یغر نک تقلب الذین کفروا فی البلاد متاع قلیل ثم ماوا ھم جھنم و بئس المہاد (آلِ عمران: ۱۹۶،۱۹۷ )
ترجمہ : ’’ جن لوگوں نے کفر اپنا لیا ہے ان کا شہروں میں (خوشحالی کے ساتھ) چلنا پھرنا تمہیں ہرگز دھوکے میں نہ ڈالے یہ تو تھوڑا سا مزہ ہے ( جو یہ اڑا رہے ہیں) پھر ان کا ٹھکانہ جہنم ہے ‘ اور وہ بد ترین بچھونا ہے ‘‘۔
پھر کہیں کلام الٰہی یوں تلقین کرتا ہے :
لا تمدن عینیک الی ما متعنابہ ازواجاً منھم ولا تحزن علیہم واخفض جنا حک للمومنین (الحجر: ۸۸)
ترجمہ : ’’ اور تم اُن چیزوں کی طرف ہرگز آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھو جو ہم نے ان (کافروں) میں سے مختلف لوگوں کو مزے اڑانے کے لئے دے رکھی ہیں ، اور نہ ان لوگوں پر اپنا دل کڑھائو ، اور جو لوگ ایمان لے آئے ہیں ‘ اُن کے لئے اپنی شفقت کا بازو پھیلا دو‘‘۔
کہیں کتاب اللہ شریف ہمیں یوں متنبہ کرتی ہے:
ان وعد اللہ حق فلا تغرنکم الحیوۃ الدنیا ولا یغر نکم باللہ الغرور (لقمان،۳۳ )
ترجمہ : ’’ یقین جانو کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے ، اس لئے ایسا ہرگز نہ ہونے پائے کہ یہ دنیوی زندگی تمہیں دھوکے میں ڈال دے ، اور ایسا ہرگز نہ ہونے پائے کہ وہ (شیطان) تمہیں اللہ کے معاملے میں دھوکے میں ڈال دے جو سب سے بڑا دھوکا باز ہے ‘‘۔
ایک مرتبہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرامؓ سے فرمایا کہ اس وقت تمہارا کیا حال ہو گا جب تمہارے نیچے قالین بچھے ہوں گے ؟ صحابہ کرام کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بات پر بہت تعجب ہوا کہ قالین تو بہت دور کی بات ہے ہمیں تو بیٹھنے کے لیے کھجور کے پتوں کی چٹائی بھی میسر نہیں ہے ، ننگے فرش پر سونا پڑتا ہے ، لہٰذا قالین کہاں ، اور ہم کہاں؟ چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ اے اللہ کے رسول !
انا لنا الا نمار ، قال انھا ستکون
’’قالین ہمارے پاس کہاں سے آئیں گے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں فرمایا کہ اگرچہ آج تو تمہارے پاس قالین نہیں ہیں ۔ لیکن وہ وقت آنے والا ہے جب تمہارے پاس قالین ہوں گے ‘‘۔
(صحیح بخاری ،کتاب المناقب ، باب دلائل النبوۃ )
اس لیے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے تم پر فقر کا اندیشہ نہیں ہے لیکن مجھے اس وقت کاڈر ہے جب تمہارے نیچے قالین بچھے ہوں گے اور دنیاوی سازو سامان کی ریل پیل ہو گی اور تمہارے چاروں طرف دنیا پھیلی ہوئی ہو گی اس وقت تم کہیں اللہ تعالیٰ کو فراموش نہ کر دو ، اور اس وقت تم پر کہیں دنیا غالب نہ آجائے ۔
حدیث شریف میں ہے کہ ایک مرتبہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس شام سے ریشمی کپڑا آگیا ، ایسا کپڑا صحابہ کرام نے اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا ، اس لئے صحابہ کرام اٹھ اٹھ کر ہاتھ لگا کر اس کو دیکھنے لگے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ دیکھا کہ صحابہ کرام اس کپڑے کو اس طرح دیکھ رہے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فوراً ارشاد فرمایا کہ :
’’ لمنا دیل سعد بن معاذ فی الجنۃ افضل من ھذا ‘‘ ( صحیح بخاری ، کتاب بدء الخلق باب ماجاء فی صفۃ الجنۃ )
’’ کیا اس کپڑے کو دیکھ کر تمہیں تعجب ہو رہا ہے اور کیا یہ کپڑا تمہیں بہت پسند آ رہا ہے ؟ ارے سعد بن معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اللہ تعالیٰ نے جنت میں جو رومال عطا فرمائے ہیں وہ اس کپڑے سے کہیں زیادہ بہتر ہیں ‘‘۔
گویا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فوراً دنیا سے صحابہ کرام کی توجہ ہٹا کر آخرت کی طرف متوجہ فرمایا ، کہیں ایسا نہ ہو کہ دنیا کی محبت تمہیں دھو کے میں ڈال دے اور تم آخرت کی نعمتوں سے غافل ہو جائو ، قدم قدم پر حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کی گھٹی میں یہ بات ڈال دی کہ یہ دنیا بے حقیقت ہے ، یہ دنیا ناپائیدار ہے اس دنیا کی لذتیں ، اس کی نعمتیں سب فانی ہیں اور یہ دنیا دل لگانے کی چیز نہیں ۔
ایک حدیث میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ
’’ لو کانت الدنیا تعدل عند اللہ جناح بعوضۃ ما سقی کافراً منھا شربۃ ‘‘( ترمذی ، کتاب الزھد،باب ماجاء فی ہوان الدنیاعلی اللّٰہ )
’’یعنی اگر اس دنیا کی حقیت اللہ تبارک و تعالیٰ کے نزدیک مچھر کے ایک پر کے برابر بھی ہوتی تو کسی کافر کو دنیا سے پانی کا ایک گھونٹ بھی نہ دیا جاتا ‘‘۔ لیکن تم دیکھ رہے ہو کہ دنیا کی دولت کافروں کو خوب مل رہی ہے اور وہ خوب مزے اڑا رہے ہیں باوجود یکہ وہ لوگ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کر رہے ہیں ، اللہ تعالیٰ کے خلاف بغاوت کر رہے ہیں ، مگر پھر بھی دنیا ان کو ملی ہوئی ہے ۔ اس لیے کہ یہ دنیا اللہ تعالیٰ کے نزدیک بے حقیقت ہے پوری دنیا کی حیثیت مچھر کے ایک پر کے برابر بھی نہیں ہے ۔اگر اس کی حیثیت مچھر کے پر کے برابر بھی ہوتی تو کافروں کو ایک گھونٹ پانی بھی نہ دیا جاتا ۔
ایک مرتبہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام ؓ کے ساتھ ایک راستے سے گزر رہے تھے ، راستے میں آپ نے دیکھا کہ ایک بکری کا مرا ہوا‘ کان کٹا بچہ پڑا ہوا ہے ، اور اس کی بد بو پھیل رہی ہے ۔ آپ نے بکری کے اس مردہ بچے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے صحابہ کرام سے پوچھا کہ تم میں سے کون شخص اس مردہ بچے کو ایک درہم میں خریدے گا ؟ صحابہ کرام نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! یہ بچہ اگر زندہ بھی ہوتا تب بھی کوئی شخص اس کو ایک درہم میں لینے کے لیے تیار نہ ہوتا ، اس لئے کہ یہ عیب دار بچہ تھا اور اب تو یہ مردہ ہے ۔ اس لاش کو لے کر ہم کیا کریں گے ؟ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ، یہ ساری دنیا اور اس کے مال و دولت اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس سے زیادہ بے حقیقت اور بے حیثیت ہے جتنا بکری کا یہ مردہ بچہ تمہارے نزدیک بے حقیقت ہے ۔
میں نے اپنی بات اس سے شروع کی تھی کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تو بات سمجھ آہی جاتی ہے ‘لیکن پوری بات یہ ہے کہ خوش قسمت اور سعادت مند وہ ہے ‘ جسے وقت پر بات سمجھ میں آجائے کہ وقت گزرنے کے بعد تو سمجھ آنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے ۔
ہمارے وطن عزیز کے حالات بھی بالکل اسی طرح کے ہیں کہ وقت کے ساتھ ساتھ سمجھ آتے ہیں ۔ پہلے ہم یہ سمجھتے تھے کہ مجرم ‘ مجرم ہوتا ہے اور ہر مجرم قابلِ گرفت ہوتا ہے ۔ اسی لیے ہم اپنی سادگی کی وجہ سے اس بات کے منتظر رہے کہ شاید بلدیہ ٹائون میں فیکٹری کو آگ لگا کر سینکڑوں زندہ انسانوں کو نذرِ آتش کرنے والے مجرم ‘ درجنوں بے گناہ انسانوں کے قاتل اور ڈاکوئوں لٹیروں کے پشت پناہ اب قانون کے شکنجے میں آئیں گے ۔ اخبارات میں اُن کیلئے انتہائی مطلوب افراد کا اشتہار چلایا جائے گا ۔ پوری دنیا سے اُنہیں پکڑ پکڑ کر پاکستان لا کر کیفرِ کردار تک پہنچایا جائے گا ۔ صحافی اُن کی درندگیوں اور وحشتناک حرکتوں کے خلاف رپورٹیں پیش کریں گے ‘ دانشور مذاکروں اور مباحثوں میں ان کے خلاف آواز اٹھائیں گے ‘ اہل قلم ان کے خلاف مضامین لکھیں گے اور اہلِ اقتدار ‘ انسانیت کے اس ناسور کو جڑ سے اکھاڑ دیں گے اور اس دہشت گردی کے خاتمے کیلئے ہماری فورسز کسی حد تک بھی جائیں گی ۔
لیکن پھر وقت کے ساتھ ساتھ سمجھ آیا کہ ہماری سوچ خام تھی ۔ مجرم ‘ مجرم میں بڑا فرق ہوتا ہے ۔ کہیں تو مدرسے کے معصوم بچے بھی بمباری کی زد میں آجاتے ہیں اور کہیں اعلانیہ قاتل بھی معزز شہری کہلاتے ہیں ۔ کہیں ہر پگڑی ‘ ٹوپی اور داڑھی والا قابل گردن زدنی قرار پاتا ہے تو کہیں برٹش پاسپورٹ کا حامل ‘ پاکستانی فوج کو سرِ عام مغلظات سے نوازنے والا بھی سیاسی لیڈر تسلیم کیا جاتا ہے ۔
ہاں! لیکن ہم نے بڑوں سے یہ بھی سنا ہے اور کتابوں میں پڑھا ہے کہ وقت ہمیشہ یکساں نہیں رہتا اور اللہ تعالیٰ کے ہاں دیر ہے‘اندھیر نہیں ہے ۔ وقت ‘ وقت کی بات ہوتی ہے ۔ کبھی کے دن لمبے اور کبھی کی راتیں لمبی ۔ یقین ہے کہ مظلوموں کی آہیں اور فریادیں ضرور عرش الٰہی تک پہنچیں گی اور ظالم بھی ضرور اپنے انجام تک پہنچیں گے ۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔
٭…٭…٭
ایک یادگار اجتماع
کلمۂ حق ۔ مولانا محمد منصور احمد (شمارہ 493)
مدرسہ مرکز الجمیل الاسلامی ‘ کاروانِ رحمت کی زیر سرپرستی چلنے والے اداروں میں سے ایک ہے ۔ اس کا آغاز آج سے سات سال پہلے تخصص فی الافتاء کی کلاس سے ہوا تھا ‘ جس میں دس سے کچھ زائد علماء کرام شریک تھے ۔دوسرے ہی سال ناظرہ اور حفظ قرآن مجید کا سلسلہ شروع ہو گیا ، جس کی بحمد للہ تعالیٰ اب باقاعدہ تین کلاسیں ہیں ۔
ادارے کا جب تیسرا تعلیمی سال شروع ہوا تو ساتھ ہی درس نظامی یعنی درجۂ کتب کا آغاز کر دیا گیا ‘ جو اس سال درجۂ سادسہ تک تھا اور رمضان المبارک کے بعد اس میں درجۂ موقوف علیہ (مشکوٰۃ شریف ) کا اضافہ بھی ہو جائے گا ۔ ان شاء اللہ تعالیٰ ۔
اس جمعۃ المبارک کو اسلام آباد کے مضافات میں واقع اس تعلیمی ادارے کا دوسرا سالانہ اجتماع تھا ‘ جو بہت ہی ایمان افروز ‘ روح پرور اور پُر رونق ثابت ہوا ۔ والحمد للہ علی ذٰلک ۔
اس اجتماع کے مہمان خصوصی برادرِ محترم مولانا مفتی عبدالرئوف اصغر زید مجدہم‘ برادرِ محترم مولانا طلحۃ السیف زید مجدہم اور برادرِ محترم قاری ابو جندل حسان زید مجدہم تھے ۔ اسی طرح ناظم شعبۂ ہدایت مولانا محمد اشفاق زید مجدہم ‘ ناظم شعبۂ مدارس مولانا محمد خادم قاسمی زیدمجدہم اور ناظم شعبۂ ہدایت ‘ صوبہ خیبر پختونخوا، محترم بھائی علی محمد زید مجدہم نے بھی کافی دیر تک اجتماع کو اپنی تشریف آوری سے رونق بخشی ۔چونکہ اس موقع پر حفظِ قرآن مجید مکمل کرنے والے چھ طلبۂ کرام اور تخصص فی الافتاء کی تکمیل کرنے والے نو علماء کرام کی دستار بندی تھی ‘ اس لیے عمومی مہمانوں کے علاوہ ان طلبہ کے رشتے دار دور دراز علاقوں سے تشریف لائے تھے اور یہاں کی وسیع و عریض مسجد اپنی کشادگی کے باوجود تنگ دامنی کا شکوہ کر رہی تھی ۔
اجتماع کے آغاز میں طلبۂ کرام نے اپنی صلاحیتوں کا اظہار بھر پور انداز میں کیا ۔ تلاوت ِ کلام پاک اور منظوم کلام کے ساتھ اردو اور عربی میں بہترین تقاریر ‘ بڑے اعتماد کے ساتھ پیش کیں،بعض طلبہ نے تو ایسا سماں باندھ دیا جیسے کوئی نو عمر اور نا تجربہ کار بچہ نہ کھڑا ہو بلکہ کوئی عمر رسیدہ اور جہاں دیدہ بزرگ مجمع سے مخاطب ہو ۔
اس اجتماع میں طلبہ کرام کو بھر پور نمائندگی دینے کا فیصلہ بھی اسی لیے کیا گیا تھا کہ ایک طرف تو ان میں خود اعتمادی پیدا ہو ‘ ان کی حوصلہ افزائی ہو اور ان کی صلاحیتوں میں نکھار آئے تو دوسری طرف عام مسلمان‘ جن کے دل و دماغ کو مدارس سے متنفر کرنے کیلئے ایک زبردست عالمی مہم چل رہی ہے ‘ اُنہیں خود یہ دیکھنے کا موقع ملے کہ یہ مدارس دینیہ اور مکاتب قرآنیہ بچوں کو کیا سکھا رہے ہیں ۔
یہ میرا برسہا برس کا تجربہ ہے کہ اس طرزِ عمل سے میڈیا کی پھیلائی ہوئی ساری غلط فہمیاں از خود دور ہو جاتی ہیں اور لوگوں کو قائل کرنے کیلئے مزید دلائل کی ضرورت ہی باقی نہیں رہتی ۔ ایک مسلمان خواہ نام کا مسلمان ہو یا کام کا مسلمان‘ دینی مدارس کی خدمات کو خود دیکھ لینے کے بعد کبھی ان کی مخالفت نہیں کر سکتا بلکہ سچی بات تو یہ ہے کہ دین اسلام کی حفاظت کا یہ زبردست نظام دیکھ لینے کے بعد ہر صاحب ِ ایمان کا دل احساس تشکر سے لبریز ہو جاتا ہے ۔
جب معصوم بچے جو ابھی تک اپنے آپ کو مکمل طور پر سنبھالنے کے قابل بھی نہیں ہوتے ‘ جب انتہائی مسحور کن انداز میں قرآن مجید کی تلاوت، احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور دعائیں پیش کر رہے ہوں تو کونسا پتھر دل ہو گا ‘ جو موم نہ ہو جائے ۔ اس تقریب میں بھی خاص طور پر تین بچوں نے سامعین کو سب سے زیادہ متاثر کیا ۔ ایک بچے نے بھرے مجمع کے سامنے سٹیج پر بڑے اعتماد سے مسنون دعائیں سنائیں ۔ دوسرے بچے نے چالیس احادیث مبارکہ ‘ ترجمہ کے ساتھ پیش کیں اور تیسرے بچے نے شمائل کی وہ مکمل عربی روایت جس میں ہمارے پیارے آقاصلی اللہ علیہ وسلم کے حلیہ مبارکہ کا بیان ہے ‘ زبانی پڑھ کر سنائی ۔
جب یہ بچے یہ سب کچھ سنا رہے تھے تو شرکاء کے چہروں پر خوشی دیدنی تھی اور ہر دل میں گویا یہ خواہش مچل رہی تھی کہ اللہ کرے کہ ہماری اولادیں بھی ان سعادتوں سے بہرہ ور ہوں اور ان کے دامن بھی ایسی مبارک صلاحیتوں سے مالا مال ہوں ۔
مہمانانِ گرامی قدر میں سے سب سے پہلے استاذ المجاہدین مولانا ابو جندل حسان صاحب کو دعوت دی گئی ۔ شدید علالت کے باوجود انہوں نے مختصر خطاب بھی فرمایا اور ساتھ ہی اپنی مسحور کن آواز میں تلاوتِ قرآن مجید اور نعت شریف سنا کر سامعین کو محظوظ بھی فرمایا ۔
ان کے بعد صاحب ِ قلم و مدیرِ’’ القلم‘‘ حضرت مولانا طلحۃ السیف صاحب کو دعوت دی گئی ‘ جنہوں نے بہت مربوط انداز سے طلبہ اور علماء سے نا صحانہ گفتگو کی ۔ انہوں نے طلبہ کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ اس مدرسہ کی دو بہت خصوصی اور اہم نسبتیں ہیں ۔ ایک نسبت شہید ِ اسلام حضرت مولانا مفتی محمد جمیل خان ؒ کی طرف اور دوسری نسبت امیر المجاہدین حضرت مولانا محمد مسعود ازہر حفظہ اللہ تعالیٰ کی طرف ۔ یہاں پڑھنے والے طلبہ کو چاہیے کہ وہ ان نسبتوں کے امین بنیں اور اپنی زندگیوں کو انہی کے تقاضوں کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کریں ۔
پھر انہوں نے ہر عالم دین کیلئے چند اوصاف کو لازمی قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ صحیح معنیٰ میں عالم کہلانے کا مستحق صرف وہ ہی شخص ہے ‘ جس کے دل میں اللہ تعالیٰ کا خوف اور خشیت ہو ۔ جو آخرت کے احتساب سے لرزاں اور ترساں رہتا ہو ۔ اسی طرح اُس کے دل میں علوم نبوت کی قدر و عظمت ہو اور وہ اپنی تمام صلاحیتیں غلبۂ اسلام کیلئے وقف کر دے ۔
اس بصیرت افروز خطاب کے بعد بندہ نے تشریف لانے والے مہمانوں کا شکریہ ادا کیا اور اس بات کی طرف توجہ دلائی کہ آج کا یہ اجتماع رسمی تشہیر کا سلسلہ نہیں ۔ بہت سے دیگر دینی فائدوں کے ساتھ یہ اجتماع درحقیقت اس سوال کا عملی جواب ہے کہ مدارس کیا ہیں اور کیا کر رہے ہیں ؟
میں نے عرض کیا کہ آج کل ایک بات بہت زور و شور سے کہی جاتی ہے کہ مدارس کو قومی دھارے میں لانا چاہیے ۔ اس جملے کا آخر مطلب کیا ہے ؟ ہمارے ہاں تمام طلبہ اور اساتذہ پاکستانی ہیں اور یہی حال کم و بیش تمام مدارس کا ہے کہ ان درسگاہوں میں تعلیم حاصل کرنے والے بچے اسی سر زمین سے تعلق رکھتے ہیں ۔ پھر ان مدارس کے فضلاء کرام کی خدمات کا حلقہ بھی کراچی سے خیبر تک پھیلا ہوا ہے ‘ جو اسی ارضِ وطن کا حصہ ہیں ۔ یہ مدارس تو پہلے سے قومی دھارے میں موجود ہیں اور اسی قوم اور ملت کے خادم ہیں ۔
میں نے عرض کیا کہ مدارس کا تعلق اور ناطہ دہشت گردی سے جوڑنے والوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ ابھی تو اس نعرے کو ایجاد ہوئے ہی چند سال گزرے ہیں ‘ جب کہ مدارس کی تاریخ ساڑھے چودہ سو برس قدیم ہے ۔ سب سے پہلے مدرسہ کی بنیاد ہمارے پیارے آقا حضرت محمد مصطفیﷺنے مسجد نبوی شریف کے ساتھ ‘ ایک چبوترے کی شکل میں رکھی تھی ‘ جسے عربی میں ’’صفہ ‘‘ کہتے ہیں اور آج بھی مسجد نبوی شریف میں اُس جگہ کی نشاندہی موجود ہے ۔
پھر مدارس کا یہ سلسلہ چلتا رہا ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین جنہوں نے علوم نبوت براہِ راست نبی آخرالزماںﷺسے حاصل کیے تھے ‘ انہوں نے تابعین تک یہ امانت پہنچائی۔ تابعین نے تبع تابعین کو یہ علم سکھایا اور پھر جہاں کوئی استاذ بیٹھ کر یہ میراثِ نبوت بانٹنے لگے اور طلبہ یہ دولت سمیٹنے لگیں‘ بس وہ ہی جگہ مدرسہ بن گئی ۔ خواہ وہ صحراء ہو یا دریا ‘ کسی درخت کے نیچے ہو یا کھلے آسمان تلے مدرسہ کسی خاص عمارت کا نام نہیں‘ یہ تو کتاب و سنت کے سیکھنے اور سکھانے کا نام ہے ‘ یہ عظیم کام جس جگہ بھی سرانجام پائے گا ‘ وہ ہی جگہ مدرسہ بن جائے گی ۔
مدارس دینیہ اور مکاتب قرآنیہ دہشت گردی اور انتشار کا سبق تو کیا دیتے ‘ یہ ادارے تو پاکستان بھر میں اتفاق و اتحاد کے سب سے بڑے داعی ہیں ۔ ان مدارس کی چھت تلے جیسے مختلف حیثیتوں ‘ مختلف قوموں ‘ مختلف زبانوں اور مختلف علاقوں کے بچے باہمی محبت اور یگانگت کے ساتھ رہتے ہیں‘ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں اُس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا ۔
دراصل ساری خرابی تب جنم لیتی ہے‘ جب ہم اغیار کی نظر سے ان مدارس کو دیکھتے ہیں اور از خود چل کر کسی مدرسے میں جا کر تحقیق حال کرنے کے بجائے دجالی میڈیا کے پھیلائے ہوئے پروپیگنڈے کو ہی سچ باور کرنے لگتے ہیں ۔
بندہ کے بیان کے بعد حفاظِ کرام اور متخصصین کرام کی دستار بندی ہوئی اور انہیں قیمتی انعامات کے ساتھ شمشیر فضیلت سے بھی نوازا گیا ۔اب اس اجتماع کا آخری اور خصوصی خطاب تھا ‘ جو برادرِ محترم محبوب المجاہدین حضرت مولانا مفتی عبد الرئوف اصغر زید مجدہم نے فرمانا تھا، یہ بیان ایسا مؤثر ‘ دلنشین اور جامع تھا کہ اسے پورے اجتماع کا عطر اور نچوڑ کہنا چاہیے ، انہوں نے تفصیل سے اسلام اور قوم و ملت کیلئے مدرسہ اور مولوی کی خدمت پر روشنی ڈالتے ہوئے ‘ حاضرینِ مجمع کو اصلاحِ احوال کی طرف متوجہ فرمایا ۔
بالخصوص عوام کو قرآن مجید کے ساتھ جڑنے کی تلقین کرتے ہوئے توبہ و استغفار کا راستہ اختیار کرنے کا کہا ۔ انہوں نے مدارس اور عصری تعلیمی اداروں میں بڑا منصفانہ تجزیہ پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ ایک طرف تو مدرسہ میں نو عمر معصوم بچے مکمل قرآن مجید بغیر کسی غلطی کے سنا دیتے ہیں اور دوسری طرف بیس کروڑ عوام کے نمائندوں کو سورئہ اخلاص تک نہیں آتی ۔
حضرت مفتی صاحب زید مجدہم نے اپنے خطاب کا اختتام ‘ اجتماعی ذکرِ الٰہی پر کیا ‘ جس سے ہر شخص کو اپنے دل سے گناہوں کا زنگ اترتا ہوا محسوس ہوا اور کلمۂ طیبہ کے ورد سے پوری مسجد میں انوار و برکات محسوس ہونے لگیں ،خطبۂ جمعہ اور نمازِ جمعہ کی ادائیگی کے بعد حضرت مفتی صاحب زید مجدہم کی ہی پرسوز دعا پر اس مجلس کا اختتام ہوا ۔
الحمد للہ تعالیٰ! اس اجتماع میں راولپنڈی ‘ اسلام آباد کے علاوہ ڈیرہ اسماعیل خان ‘ کوہاٹ اور ہنگو جیسے دور دراز کے علاقوں سے بھی اہلِ ایمان شریک تھے ۔ ٹیکسلا اور گوجر خان سے بھی بڑی تعداد میں مہمان تشریف لائے تھے اور سب نے ہی اجتماع کے بعد اس کی افادیت اور روحانیت کا اظہار کیا ۔ یہ سب اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم اور اُن مخلص احباب کی شبانہ روز بے لوث کوششوں کا ثمر تھا ‘ جو انہوں نے اس اجتماع کے سلسلے میں کی تھیں ۔ اللہ کریم اُن سب کو دنیا و آخرت کی سعادتوں سے مالا مال فرمائے اور ان رونقوں ‘ بہاروں کو تاقیامت ‘ سلامت رکھے ۔ (آمین ثم آمین)
وصلی اللّٰہ علی النبی الکریم و علی آلہ و صحبہ اجمعین
٭…٭…٭
’’المرابطون کا قافلۂ سید احمد شہید ؒ ‘‘ نمبر
کلمۂ حق ۔ مولانا محمد منصور احمد (شمارہ 492)
الحمد للہ تعالیٰ! آپ کا محبوب رسالہ ماہنامہ ’’المرابطون‘‘ اپنی مختصر سی عمر پانچ وقیع ، مفید اور منفرد سالنامے آپ کی خدمت میں پیش کر چکا ہے :
(۱) …سب سے پہلا خصوصی شمارہ ’’ علم اور جہاد ‘‘ کے خوبصورت موضوع پر تھا ۔
(۲)…دوسرا خصوصی شمارہ ’’جہاد اور سیرت النبی ﷺ‘‘ کے ایمان افروز عنوان سے معنون تھا ۔
(۳)… تیسرا خصوصی شمارہ ’’ جہاد اور تصوف ‘‘ کے بارے میں تھا۔
(۴)… چوتھا خصوصی شمارہ ’’ حضرت شاہ محمد اسماعیل شہیدؒ ‘‘ کی شخصیت اور کارناموں پر مشتمل تھا ۔
(۵)… پانچواں خصوصی شمارہ ’’ حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ ‘‘ کے تاریخ ساز کردار اور واقعات پر مشتمل تھا ۔
ان پانچوں شماروں نے وقت کی بڑی اہم ضرورت کو پورا کیا اور اہلِ علم و فضل نے ان کو خوب سراہا ۔ آج اسی سلسلے کی اہم کڑی اور تاریخی سنگ میل ’’ قافلہ سید احمد شہیدؒ ‘‘ نمبر ہم اپنے قارئین کی خدمت میں پیش کرتے ہوئے رب ذوالجلال کے شکر گزار ہیں کہ اس نے یہ توفیق اور سعادت ہمیں نصیب فرمائی ۔
یہ تازہ شمارہ جن قیمتی مضامین اور پُر اثر تحریروں پر مشتمل ہے ‘ وہ کچھ یوں ہیں :
٭… ’’مثالی قافلہ ‘‘ از: حضرت امیرالمجاہدین مولانا محمد مسعود ازہر حفظہ اللہ تعالیٰ ۔
٭… ’’قافلہ سید احمد شہید ؒ کے نظریات و خصوصیات ‘‘ از: مولانا محمد مدثر جمال تونسوی ۔
٭…’’ قافلہ سید احمد شہید ؒ اور کشمیر ‘‘از: مولانا محمد کامران طالب ۔
٭… ’’ قافلہ سید احمد شہیدؒ کے پیروکار‘‘ از : مولانا عبیدالرحمن ۔
٭… ’’ قافلہ سید احمد شہیدؒ کے نقوش ِ زندگی ‘‘ از : مولانا محمد عمر فاروق ۔
٭… ’’ قافلہ سید احمد شہیدؒ کا مقصد جہاد ‘‘از : مولانا محمد شعیب بخاری۔
٭… ’’المرابطون عملی کردار کے آئینے میں‘‘از : مولانا محمد سعد جلیل ۔
٭…’’ قافلہ سید احمد شہیدؒ پر چند کتب ‘‘ از : مولانا محمد زبیر طیب ۔
امیر المؤ منین حضرت سید احمد شہید ؒاور ان کے قافلے کے دیگر جاں نثاروں کا تذکرہ کیے بغیر ہندوستان کے مسلمانوں کی کوئی تاریخ مکمل نہیں ہو سکتی ۔ چند سو نفسوسِ قدسیہ پر مشتمل یہ قافلۂ اہلِ حق جو یوپی اور اس کے مضافات سے اٹھا ‘ پھر حمیت و استقامت اور جہاد و دعوت کے پھریرے لہراتا ہوا موجودہ پاکستان کے بالائی علاقوں تک پہنچا ‘ اس قافلے کے عزم و ہمت اور جرأت و شجاعت کے سامنے ہمالیہ کی بلندی بھی معمولی محسوس ہوتی ہے اور بلند و بالا چنار بھی ان عالی حوصلہ لوگوں کے سامنے پست نظر آتے ہیں ۔
موسم کی سختیاں اور حالات کی شدت بڑے بڑے پہاڑوں کو بھی پگھلا دیا کرتی ہیں لیکن آفریں ہے اس قافلۂ خدا مست کے عزائم پر کہ جیسے جیسے راستے کے مصائب بڑھتے گئے ‘ مخالفت کی آندھیاں تیز ہوتی گئیں اور جانی و مالی آزمائشوں کے طوفان تیز ہوتے گئے ‘ ساتھ ہی ان کے جذبوں اور ولولوں میں بھی پختگی آتی گئی ۔
آئیں ! ایک نظر اُن حالات پر ڈالتے ہیں ‘ جن میں یہ قافلہ پروان چڑھا ۔
دنیا کی تاریخ میں اور روئے زمین پر کسی جگہ کبھی کسی حکومت نے اپنی رعایا کے ساتھ یا انسانوں کے کسی فرد یا جماعت نے اپنے ہم جنسوں پر ایسا ظلم ، ایسی بربریت ، ایسی بد عیدہ و بے ایمانی اور درندگی کا معاملہ نہ کیا ہو گا ، جیسا تاجر کے بھیس میں ہندوستان میں آنے والے غنڈے ، ذلیل ، لالچی انگریزوں نے اپنے محسنوں ( مغل حکمراں ) اور اپنی رعایا ( عام ہندوستانی باشندوں) یہاں کے امراء ، تعلق داروں ، زمین داروں ، کاشت کاروں ، ریاست کے حاکموں ، عالموں اور تمام شرفائے وطن کے ساتھ روا رکھا ۔
تفصیل تو بڑی اندوہ ناک اور طویل ہے ، مختصراً زندگی کے اہم شعبوں میں اس ناپاک قوم کی نا انصافی کا محض تذکرہ اور ایک دو مثالیں یہ واضح کرنے کو کافی ہوں گی کہ ان بد بخت مغربی لٹیروں نے اپنے میزبانوں ، جہانگیر سے لے کر بہادر شاہ ظفر تک کو جنہوں نے انہیں مہمان سمجھ کر اپنے وطن میں آنے کی اجازت دی اور وقتاً فوقتاً ان کی طلب پر مختلف قسم کی مراعات عطا کیں ، ان سب کو اور اس ملک کے قدیم شرفا کو کیسا ذلیل و رسوا کیا ، مدارس ہائی کورٹ کا انگریز جج اس کا نقشہ اس طرح کھینچتا ہے :
’’ ہم نے ہندوستانیوں کی ذاتوں کو ذلیل کیا ، اُن کے قانونِ وراثت کومنسوخ کیا ، شادی بیاہ کے قاعدوں کو بدل دیا ، عبادت خانوں کی جاگیریں ضبط کر لیں ، سرکاری کاغذات میں انہیں کافر لکھا ، امراء کی ریاستیں ضبط کر لیں ، لوٹ کھسوٹ کر ملک کو تباہ کر دیا ، سب سے اونچے خاندانوں کو برباد کر کے انہیں آوارہ بنا دیا ‘‘ ۔
مغل بادشاہ پورے ملک میں با عزت مانے جاتے تھے ، انگریز نے اُن کا کیا حال کیا ؟ سخت تو ہین آمیز برتائو کیا ، قلعے سے نکال دیا ، اُن کے زنانہ محلات میں بے دھڑک گھس جاتے ، عورتوں سے نازیبا سلوک کرتے ، کم و بیش یہی توہین آمیز رویہ تمام والیانِ ریاست کے ساتھ کرنے لگے ، اپنی ذلیل فطرت سے ہندوستانیوں کے اعلیٰ اخلاق برباد کر دیے ، نشے کی عادت ڈال کر پست ہمت ، بد عقل بنا دیا ، تعلیم گاہیں ، مدرسے ، اوقاف بند کر کے قبضہ کر کے ہندوستانیوں کو جاہل نکما بنا دیا ، ہندوستان کو لوٹ کر غریب اور مفلس بنا دیا ۔
اس ظلم و ستم نے عام ہندوستانیوں کے قلوب میں حکومت کے خلاف نفرت کی آگ بھڑکا دی بالخصوص علماء کے طبقے میں آزادی کی تڑپ پیدا کر دی ، اس سے پہلے شاہ عبدالعزیز ؒ اور سید صاحب ؒ نے ملک کے والیانِ ریاست امراء و رئو سا ء کو خطوط کے ذریعے متوجہ کیا ، بعض خدا ترس حکمرانوں نے ہمت بھی کی ، مگر پلاسی ۱۷۵۷ء ، بکسر ۱۷۶۴ء ، ٹیپو شہید ۱۷۹۹ء ، اودھ وغیرہ کی شکست کے بعد ظالم اور شیر ہو گیا اور مظلوم مایوس ہو کر بیٹھ گیا ۔ اب علماء کمرِ ہمت باندھ کر میدان میں کود پڑے ، شاہ عبدالعزیز ؒ نے جب ہندوستان کے دارالحرب ہونے کا فتویٰ دیا ، اس کے بعد ہی بعض مسلمانوں میں جذبۂ آزادی بیدار ہوا اور وہ ملک کو آزاد کرانے اور جہاد کے لیے کفن بردوش نکل پڑے ۔
یہ تھے وہ شدید حالات جن سے اس قافلے کو نبرد آزما ہونا پڑا ۔ قدم پر قدم صعوبتیں ‘ ہر موڑ پر مخالفتتیں ‘ غیروں سے معرکہ آرائیاں اور اپنوں کی غداریاں‘ یہی تھے وہ نقوشِ قدم جن پر چلتے ہوئے یہ قافلہ بالاکوٹ پہنچا اور اپنی ابدی کامیابیوں سے ہم کنار ہو گیا ۔ اس قافلے کے کردار کو سمجھنے اور پیغام کو پانے کیلئے ضروری ہے کہ ہم دل کی آنکھوں سے اس خصوصی شمارے کا مطالعہ کریں ۔ آج علم و فضل کی تو کوئی کمی نہیں لیکن یہ حوصلے اور یہ وفائیں ہم کہاں سے لائیں گے ‘ جو انسان کو دہلی سے چلا کر بالاکوٹ کے اس مضافاتی علاقے تک پہنچا دیتی ہیں ‘ جو ایک مردِ مؤمن کو راہِ الٰہی میں قربان ہونے کی تڑپ سے آشنا کرتی ہیں اور اُس کے سینے میں شمع ِ ایمان کو فروزاں رکھتی ہیں ۔افسوس کہ آج انہی جذبوں اور ولولوں کی کمی ہے ۔
اس شمارے کا مقصد صرف یہی نہیں کہ آپ اسے تفریح طبع کے لیے پڑھ لیں بلکہ ان اوراق کا ہم سب سے یہ تقاضا ہے کہ ہم اپنی زندگیوں کو ان کے مطابق ڈھالیں ‘ اپنے جذبات اور خیالات کو بدلیں اور قافلۂ سید احمد شہید ؒ کا دردِ دل اور ایمانی جذبہ لے کر زندگی کی حسین راہوں پر ایک نئے سفر کا آغاز کریں ۔آج بھی حالات ناساز ہیں اور آزمائش کی یلغار ہے لیکن اہلِ حق کا قافلہ رواں دواں ہے ۔ اس خصوصی شمارہ کا آپ کے نام یہی پیغام ہے کہ چوکنّے اور بیدار رہیں کہیں اہل عزیمت اور اصحاب ِاستقامت کا یہ قافلہ آپ سے چھوٹ نہ جائے ۔
اللہ کریم ہم سب کا حامی و ناصر ہو ۔ (آمین ثم آمین)
و صلی اللّٰہ علی النبی الکریم و علی آلہٖ و صحبہ اجمعین
٭…٭…٭
دفاع حرمین شریفین کا راز
کلمۂ حق ۔ مولانا محمد منصور احمد (شمارہ 491)
آج ہم اپنی بات کا آغاز تاریخ کے ایک دلچسپ اور سبق آموز واقعہ سے کرتے ہیں ۔ اس واقعہ کا تعلق بیت اللہ شریف کو گرانے کیلئے یمن سے آنے والے سالار ِ لشکر ابرھہ اور ہمارے پیارے آقا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا محترم جناب عبدالمطلب سے ہے ۔
ابرھہ جب ایک غدارِوطن و ملت ابو رغال کی راہنمائی میں مکہ مکرمہ کے قریب ایک جگہ ‘ جس کا نام ’’ مغمس ‘‘ تھا ‘ وہاں پہنچا تو اس نے یہاں چرنے والے قریش کے سارے اونٹ پکڑ لیے ۔ ان اونٹوں میں دو سو اونٹ جناب عبدالمطلب کے بھی تھے ۔ پھر ابرھہ نے اپنا ایک سفر ’’حناطہ حمیری ‘‘ مکہ مکرمہ بھیجا کہ وہ قریش کے سرداروں کو یہ اطلاع دے کہ ہم لوگ تم سے جنگ کرنے نہیں آئے ‘ ہمارا مقصد صرف کعبہ کو ڈھانا ہے ۔ اگر تم نے اس میں رکاوٹ نہ ڈالی تو تمہیں کوئی نقصان نہ پہنچے گا ۔
حناطہ حمیری ‘ مکہ مکرمہ پہنچا ۔ سرداران قریش سے بات چیت کی اور باہمی مذاکرات ہوئے ۔ آخر کار حناطہ نے جناب عبدالمطلب کو پیشکش کی کہ آپ میرے ساتھ چلیں‘ میں آپ کو ابرھہ سے ملواتا ہوں ۔ ابرھہ نے جب جناب عبدالمطلب کو دیکھا کہ یہ بڑے وجیہ آدمی ہیں تو اپنے تخت سے نیچے اتر آیا اور اُن کو اپنے برابر بٹھایا ۔ پھر ابرھہ نے اپنے ترجمان سے کہا کہ ان سے پوچھے کہ یہ ہمارے پاس کس غرض سے آئے ہیں ؟
جناب عبدالمطلب نے اس سوال کے جواب میں کہا :
’’ میری ضرورت صرف اتنی ہے کہ آپ کے لشکر نے میرے اونٹ جو پکڑ لیے ہیں‘ وہ مجھے واپس کر دئیے جائیں‘‘۔
اس پر ابرھہ نے ترجمان کے ذریعے جناب عبدالمطلب سے کہا :
’’ میں نے پہلی نظر جب آپ کو دیکھا تو میرے دل میں آپ کیلئے بڑی عزت اور عظمت آئی تھی ۔ لیکن آپ کی اس گفتگو نے تو بالکل اُسے ختم کر دیا ہے ۔ آپ اپنے دو سو اونٹوں کی بات تو کر رہے ہیں لیکن وہ کعبہ جو آپ کے دین کا مرکز ہے اور میں اُسے ڈھانے آیا ہوں‘ اُس کے بارے میں آپ نے کوئی بات تک نہیں کی ‘‘۔
جناب عبدالمطلب نے اس کا یہ پُر لطف اور چشم کشا جواب دیا ۔ فرمایا :
’’انی انا رب الابل ‘ وان للبیت ربا سیمنعہ ‘‘ ۔
( میں تو اونٹوں کا مالک ہوں اور اس گھر کا بھی تو کوئی مالک ہے ‘ وہ خود ہی اس کی حفاظت کر لے گا )۔
( تفسیر القرآن العظیم ‘ ابن ِ کثیر ‘ سورۃ الفیل)
پھر کعبہ کے رب نے اپنے گھر کی کیسے حفاظت کی ‘ یہ دنیا جانتی اور مانتی ہے ۔ معمولی سے پرندوں کے پھینکے گئے چھوٹے چھوٹے سنگریزوں نے ہاتھی والے لشکر کو تباہ کر کے رکھ دیا اور قرآن مجید کے الفاظ میں وہ ’’ کھائے ہوئے بھوسے ‘‘ کی طرح ہو گئے ۔ جو سارا اِدھر اُدھر بکھر کر ختم ہو جاتا ہے اور اُس کی کوئی حیثیت یا قدر و قیمت باقی نہیں رہتی ۔
اگر آج بیت اللہ شریف اور اُس کو ڈھانے اور خراب کرنے کے ناپاک عزئم رکھنے والے دشمن موجود ہیں تو یقینا ’’ رب البیت ‘‘ بھی موجود ہے اور وہ اپنے جن بندوں سے چاہے گا ‘ اُن پرندوں کی طرح اپنے پاک گھر کے تحفظ اور دفاع کا کام لے گا ۔ عام طور پر ان پرندوں کو جنہوں نے ابرھہ کے لشکر پر حملہ کیا تھا ’’ ابابیل ‘‘ کہہ دیا جاتا ہے ، جو اردو میں ایک خاص قسم کی چڑیا کا نام ہے ‘ لیکن یاد رکھنا چاہیے کہ قرآن مجید میں اس موقع پر سورۃ الفیل میں جو لفظ ’’ ابابیل ‘‘ آیا ہے ‘ اُس کے یہ معنی ہر گز نہیں ہیں ۔ اس کے معنی پرندوں کے غول اور جھنڈ کے ہیں ‘ یعنی وہ پرندے بہت زیادہ تھے ‘ تعداد میں کم نہ تھے ۔
مفسرین کرام نے بعض روایات نقل کی ہیں کہ وہ پرندے کبوتر سے کسی قدر چھوٹے تھے اور پرندوں کی کوئی ایسی قسم تھی جو پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی ۔ ( تفسیر القرطبی)
اس سے یہ بھی سوچا جا سکتا ہے کہ شاید اللہ تعالیٰ اپنے پاک گھر کے دفاع کا کام کسی ایسی قوت سے لیں‘ جس کا کسی نے نام سنا ہو ‘ نہ اُس کی طرف ہمارا ذہن جاتا ہو۔ خود قرآن مجید میں بھی تو یہ فرمایا گیا ہے :
وما یعلم جنود ربک الاھو ( المدثر )
( اور تیرے رب کے لشکروں کو خود اس کے سوا کوئی اور نہیں جانتا ) ۔
پاکستانی پارلیمنٹ اگر گومگو کی کیفیت میں ہے اور تذبذب کا شکار ہے تو کیا ہوا ‘ اللہ تعالیٰ کے فیصلے اور قدرت ِ الٰہی کے قوانین تو اٹل اور ناقابل تبدیلی ہیں ۔ مسلمانوں کیلئے اصل سوچنے کی بات یہ ہے کہ حرمین شریفین اور مملکت سعودی عرب ہو یا دنیا بھر کی دیگر مساجد اور ممالک اسلامیہ ‘ ان کے تحفظ اور دفاع کا اصل راز کیا ہے ؟ اہل ایمان کیلئے اپنی عبادت گاہوں کی حفاظت اور اپنے ممالک کے دفاع کا درست طریقۂ کار کیا ہے ؟
اس سلسلے میں راہنمائی کیلئے جب ہم اللہ تعالیٰ کی لاریب کتاب قرآن ِ مجید سے رجوع کرتے ہیں تو وہ کئی آیات مبارکہ کے ذریعہ واضح طور پر ہمیں اس سوال کا جواب دیتا ہے ۔ ہم یہاں اپنے کالم کی جگہ کا لحاظ کرتے ہوئے صرف ایک آیت ِ مبارکہ پیش کرتے ہیں ۔ یہ آیت ِ مبارکہ ‘ سورۃ البقرۃ کی ہے :
و من اظلم ممن منع مسجد اللہ ان یذکر فیھا اسمہ وسعی فی خرابھا اولئک ما کان لھم ان یدخلوھا الا خائفین لھم فی الدنیا خزی ولھم فی الاخرۃ عذاب عظیم۔ (سورۃ البقرہ،آیت نمبر ۱۱۴)
( اور اس سے بڑھ کر کون ظالم ہو گا‘ جس نے اللہ تعالیٰ کی مسجدوں میں اس کا نام لینے کی ممانعت کر دی اور ان کو ویران کرنے کی کوشش کی ۔ ایسے لوگوں کا حق نہیں ہے کہ ان میں داخل ہوں مگر ڈرتے ہوئے ۔ ان کیلئے دنیا میں بھی ذات ہے اور ان کیلئے آخرت میں بہت بڑا عذاب ہے ) ۔
اس آیت مبارکہ کے پسِ منظر کے بارے میں تو مفسرین کرام نے کئی باتیں تحریر فرمائی ہیں کہ یہ آیت ِ مبارکہ یہودیوں کے بارے میں نازل ہوئی یا مشرکینِ مکہ کے بارے میں اور یا اس میں قیامت تک آنے والے مساجد کے دشمنوں کا انجامِ بد بتایا گیا ہے ‘ لیکن اس بات کو کئی مفسرین کرام نے کافی وضاحت کے ساتھ لکھا ہے کہ اس آیت ِ مبارکہ کے ذریعے دراصل اہل ایمان کو یہ حکم دیا جا رہا ہے کہ تم کفار کو جہاد کے ذریعے اتنا خوف اور دہشت میں مبتلا رکھو کہ وہ مساجد کے بارے میں غلط بات سوچ بھی نہ سکیں اور وہ ان کی حرمت کو پامال کرنے کی جرأت نہ کر سکیں ۔
اب اس میں کتنی واضح راہنمائی ہے اس بات کی طرف کہ حرمین شریفین ہوں یا دنیا بھر کی دیگر مساجد ‘ اُن کا تحفظ اسی میں ہے کہ مسلمان اپنے دلوں میں جذبۂ جہاد کو بیدار رکھیں‘ اللہ کے دین کی سربلندی کیلئے مرمٹنے کے ولولہ کو تازہ دم رکھیں اور عملی طور پر جہاد کے ذریعے کفار کو اتنا مرعوب اور دہشت زدہ رکھیں کہ وہ مساجد کی طرف بری نگاہ اٹھانے کے قابل رہیں ‘ نہ ہی ان کی سمت غلط قدم اٹھانے کے لائق ۔
اب جب ہم اس قرآنی ہدایت اور خدائی راہنمائی کا مقابلہ ‘ ممالکِ اسلامیہ کے ماحول اور اُن کے حکمرانوں کے خیالات سے کرتے ہیں تو ہمیں شدید مایوسی کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ مسلم عوام کو جذبۂ جہاد سے دور کرنے کیلئے سکولوں اور کالجوں کے تعلیمی نصابوں تک سے قرآنِ مجید کی آیات ِ جہاد کو نکال دیا گیا ہے ۔ ہماری قوم کو کرکٹ اور اہلِ عرب کو فٹبال کا ایسا جنون سوار ہوا ہے کہ ہم سب بھول گئے کہ مسلمانوں کے ’’قومی کھیل ‘‘ کیا ہیں اور کفار سے مقابلے کے اصل میدان کیا ہیں ۔ ہمیں تو یہ ہی بھلا دیا گیا ہے کہ ہماری تاریخ کی قابل فخر شخصیات (ہیرو) کون ہیں ۔
آیا ہم خالد بن ولید ؓ ، طارق بن زیادؒ ، محمد بن قاسمؒ ، نور الدین زنگی ؒ ، صلاح الدین ایوبی ؒ ، محمود غزنوی ؒ اور احمد شاہ ابدالی ؒ کے نام لیوا ہیں یا خدانخواستہ میر جعفر اور میر صادق ہمارے لیے قابل رشک اور لائق تقلید ہیں ۔
ایک مسلمان کیلئے اس سے بڑا ذہنی دھچکا کیا ہو گا کہ وہ ایک طرف تو قرآن ِ مجید میں سینکڑوں آیات ِ جہاد تلاوت کرتا ہے ان آیات مبارکہ کے بغیر اُس کے ہاں نہ ختمِ قرآن مکمل ہو سکتا ہے ‘ نہ ہی تراویح میں قرآن مجید سننے اور سنانے والی سنت ادا ہو سکتی ہے ۔ اسی طرح جب وہ اپنے پیارے آقا رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کا مطالعہ کرتا ہے تو اُسے کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم بدر کے میدان میں نظر آتے ہیں تو کبھی احد پہاڑ کے دامن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے جاں نثاروں کی صفیں درست فرماتے دکھائی دیتے ہیں ۔ کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم بنفسِ نفیس خود مدینہ منورہ کے ارد گرد خندق کی کھدائی میں مصروف نظر آتے ہیں تو کبھی ساڑھے نو سو کلو میٹر کی مسافت پر ‘ باسٹھ سال کی عمر میں ‘ سفر جہاد کی منازل طے کرتے ہوئے تبوک کی طرف جاتے نظر آتے ہیں ۔
پھر وہ ہی مسلمان دوسری طرف دیکھتا ہے تو اُسے ممالکِ اسلامیہ میں بھی سب سے مشکل کام جہاد کا نام لینا ہی نظر آتا ہے ۔ اپنے اور پرائے سب ہی اُسے جہاد کے نام سے بھی دور رکھنے کی کوشش کرتے ہیں اور اسی فریضۂ ربانی اور سنت ِ نبویہ کو یا تو منوں مٹی تلے چھپا دیا جاتا ہے یا اس کا تذکرہ تحقیر اور تو ہین کے انداز میں کیا جاتا ہے ۔ وہ ذرائع ابلاغ میں پڑھتا اور دیکھتا ہے تو دنیا بھر میں جو بھی غلط کام ہو ‘ اُسے جہاد کے کھاتے میں ڈال کر مجاہدین کو ہی موردِ الزام ٹھہرانا نظر آتا ہے ۔ ایسے میں اُس کے دل میں اللہ تعالیٰ کے دین پر مرمٹنے اور اللہ تعالیٰ کے گھروں کے تحفظ کیلئے اپنا تن من دھن قربان کرنے کا جذبہ کیسے پروان چڑھ سکتا ہے ۔
ہم سب کی جانیں‘ مال اور اولادیں ‘ سب کچھ حرمین شریفین کی عظمت پر فدا ‘ لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ دفاع حرمین شریفین اور تحفظِ ممالک ِ اسلامیہ کا درست طریقۂ کار کیا ہے ۔ آج کے دور میں جلسے ‘ جلوس ‘ سیمینار ز اور تحریروں کی اہمیت اپنی جگہ مسلّم لیکن ان سب سے اگر اصل روح جذبۂ جہاد ہی نکل جائے تو پھر خالی خولی نعروں کے ذریعے تو کسی دشمن کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے ‘ نہ دفاع حرمین شریفین اور تحفظ ِ ممالک اسلامیہ کے عزائم کو عملی جامہ پہنایا جا سکتا ہے ۔
مسلمانوں کا قبلۂ اول مسجد اقصیٰ ، اندلس کی جامع قرطبہ اور بھارت کی بابری مسجد ‘ یہ سب اللہ تعالیٰ کے گھر ہمیں یہی کچھ بتا اور سمجھا رہے ہیں ۔ کاش کہ ہم ان کا پیغام سن سکیں اور سمجھ سکیں !
٭…٭…٭
اولاد ِ ابراہیم اور ابرہہ کی نسل
کلمۂ حق ۔ مولانا محمد منصور احمد (شمارہ 490)
تاریخ کے کچھ کردار ایسے ہوتے ہیں ‘ جن کی شخصیات سے زیادہ اُن کے اوصاف مشہور ہو جاتے ہیں ور پھر دنیا میں جب بھی ‘ جہاں بھی اُن کا نام لیا جائے تو ذہن میں فوراً ہی اُن کے اوصاف آجاتے ہیں ۔ پھر کبھی یہ اوصاف اعلیٰ اور بہترین ہوتے ہیں تو رہتی دنیا تک ایسی شخصیت کے حسین اور دلربا تذکرے باقی رہتے ہیں ‘ لوگ اُن کے ذکر ِ خیر سے برکت حاصل کرتے ہیں اور اُن کے مثالی کردار کو اپنانے کے خواہش مند ہوتے ہیں ۔ اور کبھی یہ اوصاف اتنے گھٹیا اور قابل نفرت ہوتے ہیں کہ لوگ اُن کا تذکرہ کر کے عبرت حاصل کرتے ہیں اور ایسے لوگوں کے انجامِ بد سے نصیحت حاصل کر کے کانوں کو ہاتھ لگاتے ہیں۔
ابو الا نبیاء سیدنا حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کے مختلف کارنامے قرآن مجید نے ذکر فرمائے ہیں ۔ اُن کی دعوت ِ توحید ‘ استقامت ‘ انابت اور اطاعت کے بے مثال نمونے ایسے ہیں کہ ہمیشہ انسانوں کے دل اُن کی طرف کھنچتے ہیں اور قیامت تک لوگ ان سے ہدایت حاصل کرتے رہیں گے ۔
ان کے قابل فخر کارناموں میں سے ایک اللہ کے مقدس گھر کی تعمیر اور آبادی بھی ہے ۔ اللہ کا وہ مقدس گھر ‘ جو درحقیقت اس دنیا میں اہلِ ایمان کی سب سے پہلی عبادت گاہ تھی ‘ اس کی دوسری تعمیر سیدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کی اور اس کام میں اُن کے ساتھ اُن کے جلیل القدر فرزند سیدنا حضرت اسماعیل علیہ السلام بھی شریک تھے ۔
قرآن مجید نے اُن کی اس تعمیر کا وجد آفرین تذکرہ کیا ہے اور اس مقبول وقت میں اُن کی زبانوں پر جو دل نواز اور عاجزانہ دعائیں تھیں‘ وہ بھی بیان کی گئی ہیں ۔ ان دعائوں میں سے پہلی دعا یہ تھی :
ربنا تقبل منا انک انت السمیع العلیم (البقرۃ ۔۱۲۷ )
’’اے ہمارے رب ! اس کام کو ہماری طرف سے قبول فرما ‘ بے شک تو ہی خوب سننے والا جاننے والا ہے ‘‘ ۔
اللہ اکبر ! وقت کے دو عظیم پیغمبر ‘ اللہ کا مقدس گھر بنا رہے ہیں ۔ کام کتنا اعلیٰ اور کام کرنے والے کتنے عظیم لیکن پھر بھی سب سے پہلے جو دعا مانگی تو وہ قبولیت کی دعا مانگی ۔ اپنے کام پر کوئی گھمنڈ یا کوئی تکبر یا ہمہ دانی کا دعویٰ نہیں ‘ کوئی عجب یا اکڑ نہیں بلکہ عاجزی اور انکساری ‘ تو اضع اور فروتنی سے قبولیت کا سوال ہے ۔ ہم لوگوں کیلئے جن کے بارے میں کسی نے صحیح کہا کہ :
’’ صلی الحائک رکعتین وانتظرالوحی ‘‘
ایک جولاہا تھا ‘ جس نے کبھی نماز نہیں پڑھی تھی ۔ ایک مرتبہ غلطی سے دو رکعت نماز پڑھ لی تو اپنی جگہ پر بیٹھا رہا ‘ اٹھتا نہیں تھا ۔ کسی نے پوچھا تو کہنے لگا کہ آج دو رکعت نماز پڑھی ہے ‘ کیا مجھ پر وحی نہیں آئے گی؟ اسی سے یہ مثل بن گئی کہ ’’ جولاہے نے دو رکعت نماز کیا پڑھی کہ وحی کا انتظار کرنے ہی بیٹھ گیا ‘‘ ۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے صرف بیت اللہ شریف کی تعمیر ہی نہیں فرمائی بلکہ اُس کو آباد کرنے کی ہر ممکن کوشش بھی فرمائی ۔ قرآن مجید میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اُن کو یوں حکم دیا :
واذبّوأنا لا براہیم مکان البیت ان لاتشرک بی شیئاً و طہر بیتی للطائفین والعاکفین والرکع السجود واذن فی الناس بالحج یا ٔتوک رجالاً وعلی کل ضامر یا تین من کل فج عمیق ( الحج ۲۶ ۔۲۷)
’’ اور یاد کرو وہ وقت جب ہم نے ابراہیم کو اس گھر (یعنی خانہ کعبہ) کی جگہ بتا دی تھی ( اور یہ ہدایت دی تھی کہ ) ’’ میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا ، اور میرے گھر کو اُن لوگوں کے لیے پاک رکھنا جو (یہاں) طواف کریں ، اور عبادت کے لئے کھڑے ہوں ، اور رکوع سجدے بجا لائیں ۔ اور لوگوں میں حج کا اعلان کر دو ، کہ وہ تمہارے پاس پیدل آئیں ، اور دور دراز کے راستوں سے سفر کرنے والی اُن اونٹنیوں پر سوار ہو کر آئیں جو (لمبے سفر سے ) دبلی ہو گئی ہوں ‘‘۔
بیت اللہ شریف کی تعمیر اور آبادی سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا وہ قابل رشک وصف ہے ‘ جو مسلسل اُن کی اولاد میں بھی چلتا رہا اور ہر دور میں اہلِ ایمان اللہ کے گھر بناتے رہے ‘ اُن کی تعمیر و ترقی کیلئے کو شاہ رہے اور اُن کو آباد کرتے رہے ۔ خاص طور پر مرکزِ انسانیت بیت اللہ شریف ‘ جسے ہم خانۂ کعبہ کہتے ہیں ‘ ہر زمانے میں اہلِ ایمان کے دلوں کی دھڑکن رہا ہے ۔ آج بھی ساری دنیا کے کروڑوں مسلما ن ہر دن اور رات میں پانچ مرتبہ اُسی کی طرف منہ کر کے نماز ادا کرتے ہیں اور اُس کی ایسی عزت و تکریم کرتے ہیں کہ اُس کی طرف پائوں پھیلانا بھی گوارا نہیں کرتے ۔
کچھ لوگ حج یا عمرہ پر جاتے ہیں اور وہاں چند جاہل لوگوں کو دیکھتے ہیں کہ وہ ایسے کام کر رہے ہیں جو صاف لفظوں میں بے ادبی اور توہین کہلاتے ہیں تو یہ اُن ناواقف لوگوں کو سمجھانے کے بجائے یوں سمجھ بیٹھتے ہیں کہ شاید یہ سارے کام درست ہیں حالانکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا ۔ حرمِ محترم میں بیٹھا ہوا ہر عرب‘ مستند عالم یا قابلِ اقتداء شخص نہیں ہوتا ۔ اس لیے کسی ہم جیسے گناہگار کو کوئی کام کرتے ہوئے دیکھ کر اُسے درست نہیں خیال کرلینا چاہیے بلکہ اپنے علماء سے اُس کی تحقیق کرنی چاہیے ۔
خود قرآن مجیدنے بیت اللہ شریف اور دیگر اسلام کی علامتوں اور نشانیوں کے ادب کو ایمانی تقاضا قرار دیا ہے اور ان کی تعظیم کرنے والوں کے بارے میں وہ بتاتا ہے :
و من یعظم شعائر اللہ فانھا من تقوی القلوب (الحج ،۳۲)
(اور جو شخص اللہ تعالیٰ کے شعائر کی تعظیم کرے تو یہ بات دلوں کے تقویٰ سے ہی حاصل ہوتی ہے)
اسی لیے علامہ ابن عابدین شامی ؒ نے ردالمحتار میں لکھا ہے :
ولقولھم : یکرہ مد الرجلین الی القبلۃ فی النوم وغیرہ عمداً
’’ یعنی فقہاء نے فرمایا ہے کہ قبلہ کی طرف نیند میں یا جاگتے ہوئے جان بوجھ کر پائوں پھیلانا مکروہ ہے ‘‘ ۔
پھر آگے چل کر علامہ حصکفی ؒ کے الفاظ ’’ وکذامدرجلہ الیھا ‘‘ کے تحت بعض صورتوں میں تو قبلہ کی طرف پائوں پھیلانے کو ‘ جب کوئی اس کو عادت ہی بنا لے ‘ مکروہِ تحریمی بھی کہا ہے ۔
(ردالمحتار ، کتاب الطہارۃ ،۱؍۶۰۸‘ طبع دارالمعرفۃ)
بہر حال بات کہیں سے کہیں نکل گئی ۔ اصل بات یہ عرض کرنی تھی کہ اللہ تعالیٰ کے گھر کی محبت ‘ اُس کی تعمیر اور آبادی ‘ ملت ابراہیمی کا حصہ ہے اور اسی وجہ سے ہر صاحب ِ ایمان کے دل میں حرم محترم کی محبت رچی بسی ہوتی ہے ۔
سیدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام کے طریقۂ کار کے بالکل بر خلاف ‘ تاریخ کا ایک اور کردار بھی ہے‘ جسے ابرھہ کہا جاتا ہے ۔ ۵۲۵ء میں جب حبشہ کی عیسائی سلطنت نے یمن پر حملہ کر کے حمیری حکومت کا خاتمہ کیا تو ابرھہ اس عیسائی فوج کا سپہ سالار تھا ۔ رفتہ رفتہ یہ خود ہی یمن کا خود مختار بادشاہ بن گیا ۔
یہ شخص چونکہ دل سے عربوں کا سخت دشمن تھا ‘ اس لیے اسے بیت اللہ شریف ایک آنکھ نہیں بھاتا تھا ۔ یہ ہر وقت اسی جلن اور کڑھن میں مبتلا رہتا کہ ساری دنیا سے لوگ جوق در جوق بیت اللہ شریف کا رخ کیوں کرتے ہیں اور اس گھر کی وجہ سے مکہ مکرمہ کو اتنی عظمت اور مرکز یت کیوں حاصل ہے ۔
حسد کے مارے اس شخص نے یمن کے دارالحکومت صنعاء میں ایک عظیم الشان کلیسا بھی تعمیر کروایا تاکہ لوگوں کا رخ اُس کی طرف ہو جائے ۔ لیکن کہاں اللہ تعالیٰ کا مقدس گھر اور سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی پر خلوص تعمیر اور کہاں صرف ظاہری شان و شوکت اور ناپاک ہاتھوں سے بنا ہوا مکان ۔ جب ابرھہ کو اس طرح کوئی کامیابی نہیں ہوئی تو اب ساٹھ ہزار فوجی اور تیرہ ہاتھی لے کر مکہ مکرمہ پر حملہ کرنے کیلئے چلا ۔
یہ ایک طویل واقعہ ہے اور قرآن مجید کے آخری پارے میں ایک مختصر سورۃِ مبارکہ ’’ سورۃ الفیل‘‘ اسی بارے میں نازل ہوئی ہے ، جس میں اس بیت اللہ کے دشمن اور اس کے لشکر کا انجام بد بتایا گیا ہے ۔ جب ابرھہ مکہ مکرمہ میں داخل ہونے کیلئے آگے بڑھا تو اُس کا خاص ہاتھی ‘ جس کا نام محمود تھا ‘ اپنی جگہ ایسا بیٹھ گیا کہ ہلتا بھی نہ تھا ۔ ابھی لشکر آگے بڑھنے کی تیاری ہی کر رہا تھا کہ پرندوں کے جھنڈ کے جھنڈ اپنی چونچوں اور پنجوں میں چھوٹے چھوٹے پتھر لیے ہوئے آئے اور اہل لشکر پر اُن کی بارش کر دی ۔ اس سے سارا لشکر تتر بتر ہو گیا اور بہت سے لوگ موقع پر ہلاک ہو گئے ۔ یہ واقعہ مزدلفہ اور منیٰ کے درمیان وادیٔ محصب کے قریب محسّر کے مقام پر پیش آیا ۔
جب پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا عبدالمطلب کو ابرھہ کے لشکر کی آمد کا پتہ چلا تو انہوں نے چند اشعار کی شکل میں بارگاہِ الٰہی میں فریاد کی تھی ۔ آج چونکہ یہ اشعار ہمارے دلی جذبات اور کیفیات کے صحیح ترجمان ہیں ۔ اس لیے اُنہیں ترجمہ کے ساتھ یہاں نقل کرتا ہوں :
لا ھم ان العبدیمنع رحلہ فامنع حلالک
لا یغلبن صلیبھم و محالھم غدو ا محالک
ان کنت تار کھم و قبلتنا فامر مابدالک
وانصر نا علی آلِ الصلیب وعابدیہ الیوم آلک
یا رب لا ارجو لھم سواکا یا رب فامنع منھم حماکا
ان عدو البیت من عادا کا امنعھم ان یخربوا قراکا
’’ الٰہی! بندہ اپنے گھر کی حفاظت کرتا ہے ‘ تو بھی اپنے گھر کی حفاظت فرما‘‘
’’کل ان کی صلیب اور ان کی تدبیر تیری تدبیر کے مقابلے میں غالب نہ آنے پائے‘‘
’’ اگر تو ان کو اور ہمارے قبلے کو اپنے حال پر چھوڑ دینا چاہتا ہے تو جو تو چاہے کر ‘‘
’’ صلیب کی آل اور اس کے پرستاروں کے مقابلے میں آج اپنی آل کی مدد فرما ‘‘
’’ اے میرے رب! تیرے سوا میں ان کے مقابلے میں کسی سے امید نہیں رکھتا ۔اے میرے رب ! ان سے اپنے حرم کی حفاظت فرما ‘‘۔
’’ اس گھر کا دشمن تیرا دشمن ہے ۔ اپنی بستی کو تباہ کرنے سے ان کو روک ‘‘۔
آج بھی ابرھہ کے اوصاف ِ بد رکھنے والے ‘ حرم محترم کی طرف غلیظ نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں اور کچھ تو ان میں سے برسرِ عام ابرھہ کے نقشِ قدم پر چلنے کا اعلان کر چکے ہیں ۔ ان بد بختوں کی مذہبی کتابوں سے پتہ چلتا ہے کہ ان کا مطمح نظر ’’حرمین شریفین‘‘ پر قبضہ ہے ۔ حرم مکہ یعنی بیت اللہ شریف سے دشمنی تو ان کو ابرھہ سے وراثت میں ملی ہے اور حرم مدینہ سے اُن کا بُغض وعناد اس لیے ہے کہ وہاں رحمت ِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو مبارک میں اُن کے دو وفادار جاں نثار سیدنا حضرت صدیق اکبر اور سیدنا حضرت فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہما ‘ قیامت تک کیلئے آرام فرما ہیں ۔
اقبال مرحوم نے ایسے ہی حالات کیلئے کہا تھا:
آگ ہے ‘ اولادِ ابراہیم ہے ‘ نمرود ہے
کیا کسی کو ‘ پھر کسی کا امتحاں مقصود ہے
اور یہاں یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ
آج بھی ہو جو ابراہیم کا ایماں پیدا
آگ کر سکتی ہے ‘ اندازِ گلستاں پیدا
٭…٭…٭
ایک ’’ ہیں ‘‘ مسلم حرم کی پاسبانی کیلئے
کلمۂ حق ۔ مولانا محمد منصور احمد (شمارہ 489)
یمن کا مسئلہ اب صرف ایک خطے اور علاقے کا مسئلہ نہیں رہا ‘ بلکہ یہ امت مسلمہ کا اجتماعی مسئلہ بن چکا ہے ۔ آئیں پہلے یمن کے تاریخی حالات پر مختصر انداز سے ایک نظر ڈالتے ہیں ۔
یہ جزیرہ نمائے عرب کے جنوب مغربی حصے پر مشتمل ہے ۔ قبل از اسلام یمن میں حارث ‘ خولان‘ مراد ‘ کہلان ‘ عک اور ہمدان نامی قبائل آباد تھے ۔ صنعا ‘ مأرب ‘ مخا اور عدن مشہور شہر تھے ۔ بیشتر اہل یمن مذہبا ً یہودی تھے ۔ دیگر قبائل بت پرست تھے ۔ نجران ‘ مأرب اور ہمدان کے علاقے میں عیسائی آباد تھے اور جنوبی یمن میں مجوس بھی تھے ۔
قدیم یمن (سبا ) کا دارالحکومت مأرب تھا جو موجودہ دارالحکومت صنعاء کے شمال مشرق میں تقریباً ۱۳۰؍کلو میٹر کے فاصلے پر ہے ۔ قوم سبا ( ۱۰۰ ق م تا ۱۵ ق م) قحطان کے پوتے عبد شمس سبا بن یعرب سے منسوب تھی ۔ سبا کا اصل مرکز حکومت جزیرہ نمائے عرب کے جنوب مغرب میں یمن کا مغربی حصہ تھا لیکن رفتہ رفتہ اس کا دائرہ مشرق میں حضرموت تک وسیع ہو گیا ۔
حضرت سلیمان علیہ السلام کے عہد ( ۹۵۰ ق م ) میں سبا پر ملکہ ( بلقیس ) حکمران تھی جس کا ذکر سورۃ نمل میں آتا ہے ۔ سبا کے بادشاہ یثعمر نے تقریباً ۸۰۰ ق م میں شہر مأرب کے جنوب میں وادیٔ اذینہ میں ایک آبی بند تعمیر کیا تھا جو ۱۵ ۱؍فٹ لمبا اور ۵۰ فٹ چوڑا تھا ۔ اس کی ایک تہائی دیوار اب بھی باقی ہے ۔ اس بند کو حجازی عرب ’’ سدّ‘‘ اور یمنی عرب ’’ عَرِم ‘‘ کہتے ہیں ۔ (’’تاریخ ارض القرآن‘‘از علامہ سید سلیمان ندوی ص ۲۰۰، ۲۰۱)
سورۃ سبا میں سَیل العرم ( بند کا سیلاب ) سے تباہی مچنے کا ذکر ہے ۔
۵۵۰ ق م تک سبا (یمن ) پر ’’ مکارب ‘‘ یعنی ’’ کاہن بادشاہ‘‘ حکمران رہے ۔ پھر ملوکِ سبا کا دور شروع ہوا جو ۱۱۵ ق م تک حکمرانی کرتے رہے ۔ ان کے بعد یمن کے مغربی قبیلہ حمیر نے ۱۱۵ ق م میں قوت حاصل کی جو سباہی کی ایک شاخ تھا ۔ بعد میں حِمیری سلطنت میں تمام یمن ‘ حضر موت ‘نجد اور تہامہ تک شامل ہو گئے ۔ آخر کار ۵۲۵ء میں آخری حمیری بادشاہ ذونواس نے اکسومی حبشیوں سے شکست کھائی ۔ حبشی تقریباً ۷۲ برس یمن پر حکمران رہے ۔ ۵۹۸ء میں ایرانی یہاں قابض ہو گئے ‘ چنانچہ ۶ھ ( ۶۲۸ئ) میں جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے شاہان وقت کو دعوت اسلام دی ‘ اس وقت شہنشاہ فارس خسرو پرویز کی طرف سے باذان یمن کا گورنر تھا ۔
۸ھ ( ۶۳۰ئ) میں یمن میں اسلام کو فروغ ملا ۔ عباسی خلافت کمزور ہونے پر یہاں زیدی ‘ مہدی ‘ رسولی اور صلیحی خانوادے برسرِ اقتدار رہے ۔ ۱۷۵۰ء میں عثمانی تسلط قائم ہونے کے باوجود یمن نیم خود مختار رہا ۔ ۱۸۲۹ء میں برطانیہ نے اس پر قبضہ جما لیا ۔ ۱۹۶۲ء میں شمالی یمن (دارالحکومت صنعاء ) آزاد ہو گیا ‘ تاہم جنوبی یمن (دارالحکومت عدن) کو ۱۹۶۷ء میں آزادی ملی ۔ ۱۹۹۰ ء میں دونوں یمن متحد ہو گئے ۔
احادیث میں یمن اور اہلِ یمن کے بڑے فضائل وارد ہوئے ہیں ۔ نیز یہ سر زمین انبیاء کرام ؑ ، صحابہ ؓ ، تابعینؒ اور بزرگانِ دین ؒ کی سر زمین رہی ہے ۔ اور ایک مسلمان کے لئے اس میں کشش کا بہت بڑا سامان ہے ۔ قرآن و حدیث میں یمن کے جن فضائل کا صراحۃ ً یا اشارۃً بیان آیا ہے ، ان سب کو جمع کیا جائے تو ایک کتاب تیار ہو سکتی ہے ۔ لیکن ان میں سے چند نمایاں فضائل یہ ہیں :
حدیث ہے کہ جب یمن کا وفد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’اتا کم اھل الیمن ھم ارق افئدۃ والین قلوباً ، الایمان یمان والحکمۃ یمانیۃ ‘‘ ( الصحیح للبخاری ، کتاب المغازی ، باب قدوم الاشعر یین و اھل الیمن حدیث ۴۱۲۷)
( تمہارے پاس یمن کے لوگ آئے ہیں جن کے سینے بڑے رقت والے اور جن کے دل بڑے نرم ہیں ۔ ایمان یمن کا ہے اور حکمت یمن کی ہے )
ایک اور روایت میں الفاظ یہ ہیں :
’’ الفقہ یمان والحکمۃ یمانیۃ ‘‘ ( الصحیح للبخاری ایضاً ، حدیث ۴۱۲۹)
( فقہ یمن کا ہے اور حکمت یمن کی ہے )
ایک اور موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یمن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :
’’ الایمان ھھنا ‘‘ ( الصحیح للبخاری ، مغازی ، حدیث ۴۱۲۶)
(ایمان اس کی طرف ہے)
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ایک مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یمن کی طرف دیکھا اور یہ دعا فرمائی :
’’ اللھم اقبل بقلوبھم‘‘ ( الجامع للترمذی ، ابواب المناقب ، باب فی فضل الیمن ، حدیث ۳۹۳۴ حسن صحیح)
( یا اللہ ! ان کے دلوں کو ( ایمان کی طرف )متوجہ فرما دیجئے )۔
حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ سر اقدس آسمان کی طرف اٹھا کر فرمایا :
’’ اتاکم اھل الیمن کقطع السحاب خیر اھل الارض ‘‘
(تمہارے پاس اہلِ یمن بادل کے ٹکڑوں کی طرح آتے ہیں ، جو سارے اہلِ زمین میں سب سے بہتر ہیں)
ایک صحابی ؓ نے پوچھا : ’’ یا رسول اللہ کیا ہم سے بھی ؟ ‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’ سوائے تمہارے ‘‘ ۔ ( مجمع الزوائد ،۱۰:۵۴،بحوالہ مسند احمد)
حضرت عمرو بن عبسہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ عینیہ بن حصن فزاری نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اہل نجد کو سب سے بہتر لوگ قرار دیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’ کذبت ، بل خیر الرجال اھل الیمن ، والا یمان یمان ، وانا یمان ‘‘ ۔( مجمع الزوائد ج ۱۰ص ۴۴بحوالہ طبرانی و احمد و رجال الجمیع ثقات)
( تم نے غلط کہا ، بلکہ سب سے بہتر لوگ اہل یمن ہیں ، اور ایمان یمنی ہے ، اور میں بھی یمنی ہوں)۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آپ کو جو یمن کی طرف منسوب فرمایا ، اس کی وجہ یا تو یہ ہو سکتی ہے کہ یمن دراصل عربوں کے جدامجد قحطان کے بیٹے کا نام تھا جو حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے تھے اور اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نسبی تعلق اہل یمن سے بنتا ہے ۔ نیز اس کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اہل یمن کے اخلاق و عادات چونکہ مجھے پسند ہیں ‘ اس لئے گویا میں بھی یمنی ہوں ۔ بہر صورت ! وجہ کچھ بھی ہو ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے آپ کو اہل یمن کی طرف منسوب فرمانا اتنی بڑی فضیلت ہے کہ اس پر جتنا فخر کیا جائے کم ہے ۔
ایک اور حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد مروی ہے :
’’ الایمان یمان و ھم منی والی ، وان بعد منھم المربع و یوشک ان یاتو کم انصارا وأعوانا فامر کم بھم خیراً ‘‘
( ایمان یمنی ہے ، اور وہ ( یعنی اہل یمن ) مجھ سے ہیں ، اور ان کا رخ میری طرف ہے ، خواہ قیام کے اعتبار سے وہ کتنے دور ہوں۔ اور وہ وقت قریب ہے جب وہ (اسلام اور مسلمانوں کے ) مدد گار بن کر آئیں گے ، میں تمہیں حکم دیتا ہوں کہ ان سے بھلائی کرنا ‘‘۔
اس کے علاوہ ایک حدیث میں یہ بھی مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل یمن کی یہ خصوصیت بھی بیان فرمائی کہ مصافحے کا طریقہ سب سے پہلے انہوں نے جاری کیا ۔
( اول من جاء بالمصافحۃ ‘‘ سنن ابی داؤد ، کتاب الادب ، باب المصافحۃ ، حدیث ۵۲۱۳)
جس مسلمان کو ان احادیث کے ذریعے یمن اور اہل یمن کے فضائل کا علم ہو ، اسے یقینا اس ملک اور اس کے باشندوں سے دلی تعلق اور لگائو ہو گا ۔ البتہ یہ ذہن میں رہنا چاہیے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل یمن کے یہ فضائل اپنے زمانے کے اعتبار سے بیان فرمائے تھے اور ضروری نہیں ہے کہ چودہ سو سال گزرنے کے بعد بھی یہ اوصاف مکمل طور پر باقی ہوں ۔
افسوس کہ یمن کے زیدی ‘ ایران کے جو صدیوں تک اہل سنت کے بہت قریب سمجھے جاتے تھے ، اب ابن سباء کے پیرکاروں کے ورغلانے میں آکر اُن کے آلۂ کاربن گئے اور وہ بھول گئے کہ یہ وہ دغاباز ہی تھے ، جنہوں نے اُن کے امام ‘حضرت زید بن علی رحمہما اللہ تعالیٰ کو بہت نازک وقت میں اکیلا چھوڑ دیا تھا ۔ امام ابن تیمیہ ؒ اسی تاریخی واقعہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
’’ رہا لفظ رافضہ ‘‘ تو یہ سب سے پہلے اسلام میں اس وقت ظاہر ہوا جب حضرت زید بن علی بن الحسین رحمۃ اللہ علیہ نے دوسری صدی ہجری کے اوائل میں ہشام بن عبدالملک کی خلافت میں جہاد کے لئے نکلے اور کچھ لوگوں نے اُن کی پیروی کی ۔ جب ان لوگوں نے ان سے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے ان دونوں حضرات سے محبت کا اظہار کیا اور ان پر رحمت بھیجی تو اس قوم نے ان کاساتھ چھوڑ دیا تو انہوں نے کہا : ’’ رفضتمونی رفضتمونی ‘‘ ’’ تم نے مجھے چھوڑ دیا ، تم نے مجھے چھوڑ دیا ‘‘ اس کے بعد ان کو روافض کہا جانے لگا ‘‘۔ ( مجموعۃ فتاوی ابن تیمیۃ ؒ ، ج : ۳،ص : ۱۴۶)
یا د رہے کہ امام ابو حنیفہ ؒ نے اس موقع پر حضرت زید بن علی ؒ کی مکمل اور بھر پور تائید اور حمایت کی تھی ۔
دشمنانِ صحابہ ؓ کے حرمین شریفین کیلئے ناپاک عزائم کوئی ڈھکے چھپے نہیں ۔ نوّے کی دہائی میں حج کے موقع پر ان کی مذموم کاروائیوں سے پوری دنیا آگاہ ہے اور آج امت مسلمہ کا ہر باشعور شخص جانتا ہے کہ اصل مسئلہ یمن نہیں بلکہ حرمین شریفین ہے اور یمن کا واویلا تو صرف چور مچائے شور کا مصداق ہے ۔
اقبال مرحوم نے بہت پہلے اس آرزو اور تمنا کا اظہار کیا تھا کہ :
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کیلئے
نیل کے ساحل سے لے کر تابخاکِ کاشغر
الحمد للہ! آج صرف عرب ممالک ہی نہیں‘ پاکستان سے لے کر تُرکی تک کے تمام مسلمان بھی اس مسئلہ پر متفق اور متحد ہیں اور ہم بجا طور پر یہ کہہ سکتے ہیں کہ :
ایک ہیں مسلم حرم کی پاسبانی کیلئے
نیل کے ساحل سے لے کر تابخاکِ کاشغر
٭…٭…٭
پاکستان کی ترقی کیسے؟
کلمۂ حق ۔ مولانا محمد منصور احمد (شمارہ 488)
کئی سالوں کے بعد اس سال ۲۳ مارچ ، یومِ پاکستان بڑی شان وشوکت سے منایا گیا ۔پاکستان کی عسکری برتری اور مختلف مہارتیں دیکھ کرہر پاکستانی شہری نے دل میں خوشی محسوس کی ۔اللہ تعالیٰ نظر بد سے بچائے اور یہ تمام قوت اور طاقت وہیں خرچ ہو جہاں اس کی ضرورت ہے ۔اسلام آباد کی مرکزی تقریب میں جو آیت مبارکہ تلاوت کی گئی ،اسکا ترجمہ یہ ہے :
’’(اے ایمان والو!)اور ان کے مقابلے کے لیے تم تیاری کرو ،جو کچھ تم سے ہو سکے ،قوت سے بھی اور پلے ہوئے گھوڑوں سے بھی کہ تم اس کے ذریعے ڈراتے رہو اللہ کے دشمن کو اور اپنے دشمن کو اور ان لوگوں کو بھی جو ان کے علاوہ ہیں، تم انہیں نہیں جانتے ، اللہ ان کو جانتا ہے اور جو بھی چیز تم اللہ کی راہ میں خرچ کرو گے ،تمہیں اس کا پورا پورا اجر دیا جائے گا اور تم پر ظلم نہیں کیا جا ئے گا ‘‘(التوبۃ: ۷)
یقیناً اس آیت ِ مبارکہ کا انتخاب بہت سوچ سمجھ کر کیا گیا ہو گا ۔اس لیے ہمیں صرف ایک تقریب منا کر ہی فارغ نہیں ہو جانا چاہیے بلکہ سوچنے کی بات یہ ہے کہ وہ سرزمین کہ جسے مسلمانوں نے اپنے خون سے سینچا ہے، کیا ہم وہ حق ادا کررہے ہیں جس کی توقع اور امید پر ہمارے آباواجداد نے جانوں کے نذرانے پیش کئے۔ آج اس موقع پر اگر ہم اپنے گریبانوں میں جھانکیں تو جواب یقینا نہیں میں ملے گا۔ اس لئے کہ مسلمان تو ایک آزاد اور خودمختار اسلامی ریاست قائم کرنا چاہتے تھے جہاں وہ آزادی سے اسلام کے مطابق زندگی گزار سکیں۔۲۳ مارچ ۱۹۴۰ء کو منٹو پارک (موجودہ اقبال پارک )میں قرار داد پاکستان پیش کرتے وقت ہندوستان کے مسلمانوں سے یہی وعدہ کیا گیا تھا ، تو کیا آج ہم نے جو اسلامی ریاست اللہ اور اس کے رسول کے نام پر حاصل کی ،اس میں اسلام نافذ کرنے کیلئے کوئی عملی کام بھی کیا ہے یا اسے محض عمارات کی خوبصورتی، رنگ برنگ جھنڈیوں اور برقی قمقموں ، مغرب کی اندھی پیروی اور اپنے ہی مذہب سے دوری کی نذر کرڈالا۔
جب تک مسلمانوں نے قرآن و سنت کو اپنا اوڑھنابچھونا بنا رکھا تھا تو خدا کی مدد سے تھوڑی مدت میں مسلمان مشرق سے مغرب تک پھیل گئے اور دنیا کے اکثر ملکوں میں اسلامی پرچم لہرانے لگا۔ مسلمانوں میں بڑے بڑے جرنیل پیدا ہوئے جیسے جرنیل طارق بن زیاد جیسے محمد بن قاسم جنہوں نے اسلامی حکومت کی بنیاد رکھی اور اپنی جانوں کے نذرانے پیش کئے۔ لیکن جب مسلمان قرآن وسنت کو بھول گئے توپورے ہندوستان پر حکومت کرنے والے غلامی کی زد میں آگئے اور آٹھ سو سال کی حکومت کے بعد زوال پذیر ہوگئے۔
سو سالہ غلامی کے دور کے بعد جب مسلمان دوبارہ متحد ہوئے اور ان کا سو یا ہوا ضمیر جاگا تو انہوں نے اپنے لئے ایک علیحدہ ملک بنانے کا فیصلہ کیا اور یہ طے پایا کہ وہ ملک وہ ریاست اسلامی ہوگی اور عہد کیا کہ وہ وطن جو حاصل کیا جائے گا اس میں لا الہ الا اللہ کا راج ہوگا۔ طویل جدوجہد کے نتیجے میں ۱۴؍اگست ۱۹۴۷ء کو معرض وجود میں آنے والی ریاست کو پاکستان کا نام دیا گیا اور اس کا مطلب لا الہ الا اللہ ہر فرد کی زبان سے گونجتا تھا۔
مگر افسوس کہ جب پاکستان ایک اسلامی ملک بن کر دنیا کے نقشے پر ابھر چکا تو ہم اپنا نعرہ بھول گئے اور وہ ملک کہ جسے اسلامی تعلیمات سے لبریز ہونا چاہئے تھا اس کی عین مخالفت میں چل رہا ہے۔ کیا ہمارا دین اسلام ہمیں بے حیائی، فضول خرچی اورخرافات کا حکم دیتا ہے؟ ہر گز نہیں۔ تو پھر کیا ہم نے اپنے ۶۸سالہ آزادی کے دور میں اس پاک سرزمین میں نفرت، بے راہ روی، بددیانتی، جھوٹ، افلاس، بے روز گار، ثقافت کے نام پر مغربی دنیا کی پیروی اور بے حیائی جیسے مہلک امراض کے بیج نہیں بوئے؟۔
صرف اپنے ذرائع ابلاغ کوہی دیکھ لیں کہ یہ کن راہوں پر چل رہا ہے ۔کیا یہ کسی بھی طرح ایک مسلمان ملک کا میڈیا محسوس ہوتا ہے ۔اس کی ساری کوششوں اور کاوشوں کا تو محور ہی یہ محسوس ہوتا ہے کہ کسی طرح قوم کے نوجوانوں اور عرتوں کو شر م و حیا سے عاری کر دے ۔حالانکہ حضرت عبداﷲ بن عمر صسے روایت ہے کہ رسول اﷲا نے ارشاد فرمایا :
’’حیا اور ایمان دونوںساتھی ہیں پس جب ان دونو ںمیں سے ایک اٹھایا جاتا ہے تو دوسرا بھی اٹھالیا جاتا ہے۔‘‘
اس حدیث سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ حیا اور ایمان دونوں لازم و ملزوم ہیں حیا دین اسلام کا ایک جزو ہے بغیر حیا کے دین نامکمل ہے۔
حیاء وہ صلاحیت اور قوت ہے جو انسان کو بھلائی کی طرف لے جاتی ہے اور برائیوں سے روکتی ہے لہذا جس انسان میں یہ صلاحیت جتنی زیادہ ہوگی، اتنا ہی اس سے زیادہ نیکیوں اور بھلائیوں کے کام ہوں گے۔اور جتنی یہ صلاحیت کمزور ہوگی، اتنے ہی اس سے زیادہ برے اعمال سرزد ہوں گے۔
قرآن مجید نے حیا کے متعلق ایک خوبصورت واقعہ کے ذریعے اشارہ کیا ہے اور اس سے مسلمان عورت کو یہ سبق دیا ہے کہ اس کا کردار کیسا ہونا چاہیے۔
حضرت موسیٰ ں ایک بڑے بلند مقام کے پیغمبر بنی اسرائیل میں گزرے ہیں جو اﷲ تعالیٰ سے براہ راست ہم کلام ہوئے۔ ایک سفر میں تھے گرمی کا موسم تھا پاؤں ننگے تھے۔ سفر کی تھکاوٹ اور پیدل چل چل کر پاؤں میں چھالے پڑچکے ہیں ،ذرا آرام کرنے کے لئے ایک درخت کے سائے میں بیٹھ گئے۔ کیا دیکھتے ہیں کہ کچھ فاصلے پر ایک کنواں ہے وہاں سے کچھ نوجوان اپنی بکریوں کو پانی پلا رہے ہیں اور ان سے کچھ فاصلے پر باحیا دو لڑکیاں کھڑی ہیں۔ جب آپ ں نے ان کو دیکھا تو حیرانگی کی انتہا نہ رہی کہ یہ دونوں لڑکیاں اس جنگل میں کیوں کھڑی ہیں اور کس کا انتظار کررہی ہیں؟ حضرت موسیٰںنے جب وجہ دریافت کی تو پتہ چلا کہ ان کا کوئی بھائی نہیں، باپ بوڑھا ہے وہ اس قابل نہیں کہ چل پھرسکے اور وہ دونوں اپنی بکریوں کو پانی پلانے کے لئے آئی ہیں کہ جب تمام لوگ اپنے جانوروں کو پانی پلاکر چلے جائیں گے تو آخر میں یہ اپنی بکریوں کو پانی پلائیں گی۔حضرت موسیٰ ں ان کی بات سننے کے بعد آگے بڑھے اور خود پانی کنوئیں سے نکالا اور ان کی بکریوں کو پلادیا۔ لڑکیاں جب خلاف معمول جلد گھر پہنچیں تو باپ نے جلدی آنے کی وجہ پوچھی تو دونوں نے باپ کو پوری حقیقت سے آگاہ کردیا۔ باپ خود بھی پیغمبر (شعیبں) تھے فرمایا کہ جاؤ اس نوجوان کو بلاکر لاؤ تاکہ ہم اس کو پورا پورا بدلہ دیں۔ اب ایک لڑکی جب موسیٰںکو بلانے آئی تو وہ کس طرح آئی ، اس کا انداز کیا تھا۔ قرآن نے اس کے چلنے کا انداز جوکہ شرم و حیا سے لبریز تھا اس طرح بیان کیا ہے:
ترجمہ ’’پھر آئی ان دونوں میں سے ایک شرم و حیا سے چلتی ہوئی۔ بولی میرا باپ آپ کو بلاتا ہے تاکہ وہ بدلہ دے جوتو نے ہمارے جانوروں کو پانی پلایا ہے۔‘‘(القصص ؍ ۲۵)
شعیب ںکی بیٹی موسیٰں کو بلانے آئی۔ شرم و حیا کا دامن نہیں چھوڑا نگاہ نیچے تھی۔بات بھی شرما کر زیادہ کھل کر نہیں کی۔اﷲ تعالیٰ کو اس کی حیا اس قدر پسند آئی کہ اس حیا کو قرآن بناکر محمد رسول اﷲا پر نازل کردیا تاکہ پوری امت کی عورتوں کو پتہ چل جائے کہ جب وہ گھروں سے نکلیں تو کس طرح نکلیں ۔ حیا کی اہمیت بتانے کے لیے آپ ا نے ارشاد فرمایا:
ترجمہ ’’ جب تو نے حیا نہ کی تو جو تیرے دل میں آئے وہی کر۔‘‘
اسی طرح صحیح بخاری میں آپ اکا فرمان ہے:
اَلحَیَائُ شُعبَۃُ مِنَ الایمَانِ
الحَیائُ لاَیَأتِی الا بِخَیر
یا د رکھیں یورپ میں شرم وحیا ایک بیماری ہے ، جبکہ اسلام کی نظر میں شرم وحیا ایک اعلیٰ ایمانی صفت ہے جو انبیاء اور صلحاء کی نشانی ہے۔
بہر حال اہلِ پاکستان کی ساری مصیبتوں اور پریشانیوں کی بنیاد یہ ہے کہ ہم اس عہد سے بد عہدی کے مرتکب ہوئے ہیں کہ جو کبھی ہندوستان کے بچے بچے کی آواز میںگونجتا تھا:
لے کر رہیں گے پاکستان
بن کے رہے گا پاکستان
پاکستان کا مطلب کیا… …لا الہ الا اللہ
جی ہاں یہی وعدہ جو ہم نے کسی عام و خاص شخص سے نہیں بلکہ رب ذوالجلال سے کیا تھا اور آج اسے فراموش کردیا۔ ہم جس عہد و قرار کو اپنی منزل سمجھتے تھے آج اس کا تذکرہ کرنا بھی ہمیں ناگوار گذرتا ہے اور اگر کوئی ہمیں یہ عہد یاد دلانا چاہے تو اسے بنیاد پرستی کا طعنہ تو ضرور ہی سننے کو ملتا ہے ۔
سورۃ البقرہ میں ارشاد ربانی ہے’’اور پورا کرو اس عہد و قرار کو جو تم نے مجھ سے کیا تھا میں اسے عہدو قرار کو پورا کروں گا جو میں نے تم سے کیا تھا اور صرف مجھ ہی سے ڈرو۔‘‘
اگر ہم واقعی پاکستان کے ساتھ مخلص ہیں اور اس کی ترقی کے خواہش مند ہیں تو آخر کار ہمیں وہ عہد پورا کرنا ہوگا ،جو عہد ہم نے تقریباً پون صدی پہلے باندھا تھا۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم اس جبارو قہار سے بدعہدی کرکے سزا سے بچ جائیں۔
اللہ تعالیٰ ہمارے وطن اور اہل وطن کو ہر قسم کے مصائب سے محفوظ فرمائے۔ (آمین)
٭…٭…٭
گواہی
کلمۂ حق ۔ مولانا محمد منصور احمد (شمارہ 487)
کرا چی پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے اور لاہور اس کے بعد دوسرے نمبر پر ہے ۔دونوں ہی شہروںمیں گذشتہ ہفتے کے دوران دو ایسے واقعات رونما ہوئے ،جنہو ں نے یہ ثابت کر دیا کہ پاکستان کے امن کے اصل دشمن کون ہیں اور وہ کون لوگ ہیںجو اہل ِدین کی تو معمولی سی غلطی کو بھی آڑے ہاتھوں لینے کے لیے ہر وقت تیار رہتے ہیں لیکن انہیں دین دشمن طبقات کی ہر بڑی سے بڑی غلطی بھی بآسانی ہضم ہو جاتی ہے۔
’’چور مچائے شور ‘‘ کا محاورہ تو بچپن سے ہی ہم کتابوں میں پڑھتے چلے آئے تھے لیکن جب سے کراچی کے ایک تشدد پرست گروہ نے دہشت گردی کے خلاف شور و غوغا برپا کر رکھا تھا ،ہم نے اس محاورے کی عملی تعبیر دیکھی۔لاشوں کی سیاست ،بھتہ خوری ،بوری بند لاشیں ،بو گس الیکشن اور قائد سے غداری پر موت کی سزا کا اعلان ، دہشت گردی کی ان مختلف صورتوں کے بارے میں کراچی کے شہر ی علاقو ں کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ کون ان کا موجد اور بانی ہے۔
کراچی دین سے محبت رکھنے والے ،با شعور مسلمانوں کا شہر تھا ۔یہی وجہ ہے کہ دینی مدارس ہوں یا میدانِ جہاد ، خانقاہی نظام ہو یا دعوت و تبلیغ کا سلسلہ کراچی والے ہر سمت چھائے رہتے تھے ۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس شہر کو ایک سے بڑھ کر ایک علمی اور روحانی شخصیت عطا فرمائی ، جن کی بدولت پوری دنیا تک اس شہر کا دینی فیض پہنچا۔
اہلِ کراچی کی دین سے یہی وابستگی اور بے لوث تعلق دشمن کی آنکھوں میں کھٹکتا رہا اور پھر کراچی کی شناخت تبدیل کرنے کے لیے عالم شاطروں نے بساطِ سیاست پر اپنے مہرے چلنے شروع کر دیئے۔کراچی کے امن کو تباہ کرنے میں کون کتنا شریک ہے اور کس کس پارٹی کے کا رندے اس کے لیے استعمال ہوتے رہے ہیں ،یہ ایک الگ داستان ہے ،لیکن کراچی کے چہرے کو تشدد اور ظلم کے بد نما داغ سے آلودہ کرنے میں یہی گروہ پیش پیش رہا ہے ، جس کی اصلیت آ ج برسوں بعد قوم کو دکھائی جا رہی ہے۔
کراچی میں کتنے علما ء حق شہید ہوئے ، کتنے طلباء ِ علومِ دینیہ کو خاک وخون میں تڑپایا گیا ، کتنی گودیں اجڑیں اور کتنے سہاگ اجڑے ، آج یہ سر بستہ راز سامنے آرہے ہیں اور قوم حیران اور پریشان انگشت بد نداں ہے کہ یہ نوبت یہاں تک پہنچی کیسے؟کیا سیاست دانو ں نے اپنی حکو متوںکے تحفظ کے لیے اس قتل و غارت گرٰ سے آنکھیں بند رکھیں یا قانون نافذ کرنے والے برسہا برس اتنے بے بس رہے کہ وہ حقائق جنہیں ہر شخص جا نتا تھا ، ان کی آنکھوں سے اوجھل رہے۔
کراچی کے موجودہ آپریشن سے قوم میں بہت سی اچھی امیدیں وابسطہ کر لی ہیں اور لوگوں کو اپنے خوابوں میں دوبارہ وہ ہی روشنیوں بھرا، پُر امن اور غریب پرور شہر نظر آرہا ہے ۔کراچی کے لوگ اپنے بچوں کے قاتلوں کو چشمِ تصور سے تختۂِ دار پر لٹکتا ہوا دیکھ رہے ہیں ۔لیکن مجھ جیسے چند لوگ جنہوں نے ایک طویل عرصہ کراچی میں گذارا ہے ، ابھی تک وساوس اور اندیشوں کا شکار ہیں کہ کہیں عوام کی خوابوں کا محل چکنا چور نہ ہو جا ئیں اور ’’ الٹا چور کو توال کو ڈانٹے‘‘ والا معاملہ نہ ہو جائے کہ اس سے پہلے بھی ایسا بہت کچھ دیکھا اور سنا گیا لیکن نتیجہ کیا رہا ؟ قاتل دندنا تے پھرتے رہے اورانسانیت منہ چھپا تی پھرتی رہی۔اللہ کرے کہ ہمارے یہ اندیشے غلط ثابت ہوں اور مجرم اپنے منطقی انجام کو پہنچیں ۔
کراچی کے اس واقعے کے بعد بڑی شدت سے انتظار تھا کہ ردِعمل کس شکل میں آئے گا کیو نکہ اہلِ پاکستان کے خون پر پلنے والی جوئیں اتنی آسانی سے اپنا شکار چھورنے والی نہیں ہیں ،کراچی کے وقعہ کے بعد موم بتیاں روشن کرنے والی مخلوق المعروف ’’ سول سوسائٹی‘‘ ایسے غائب تھی جیسے گد ھے کے سر سے سینگ ۔ہر وقت مولوی ، مُلا اور مدارس کے خلاف لٹھ لے کر دوڑنے والے دانشور چپ سادھے بیٹھے تھے اور انہیں اس بات پر سخت پریشانی تھی کہ جن اداروں کو انہوں نے بڑی محنت کر کے دینی قو تو ں کے خلا ف آمادہ ٔ پیکار کیا تھا ، وہ ان ہی کے سیکو لر بھائیوں کے خلاف صف آراء ہو گئے ہیں اور جس بد امنی اور دہشت گردی کو یہ لوگ دوسروں کے سر تھوپ رہے تھے ، اس کے ذمہ دار تو خود ان کے پیٹی بھائی نکل آئے۔
لا ہور میں ہونے والے افسوس ناک اور خوفناک واقعات کے وقت نے بہت سے سوالات کھڑے کر دئیے ہیں ، جن پر غور کرنا اہلِ اقتدار کا کام ہے لیکن چرچوں پر حملے کے بعد عیسائی کہلانے والے مظاہرین کا غیر انسانی ، وحشیانہ اور پُر تشدد رویہ تو پورے ا ہلِ پاکستان کے لیے کرب اور تکلیف کا ذریعہ بنا ہے ۔
پاکستان کی کسی دینی شخصیت نے کبھی غیر مسلم اقلیتوں کو نقصان پہچانے کی با ت نہیں کی ۔ کبھی ان کی عبادت گا ہوں پر حملے کی اجازت نہیں دی بلکہ ایسے افسوس ناک واقعات پر سب نے ہی کھل کر مذمت کی ہے ،پھر ایسے میں ان مظاہرین کا زندہ افراد پر خوفناک تشدد اور پھر انہیں نظرِ آتش کر دینا ، صرف اس جرم میں کہ ان کے چہروںپر سنتِ رسول ﷺداڑھی سجی ہوئی تھی، انتہا ئی کرب ناک اور ناقابلِ قبول فعل ہے ۔ یہ ایک ایسا صدمہ اور دکھ ہے جس کی کسک ،پاکستان کا ہر باشعور شہری محسوس کر رہا ہے ۔
پھر پہلے دن کی اسی درندگی پر بس نہیں کی گئی بلکہ اگلے روز لاہور کی مرکزی شاہراہ پر ٹی وی کیمروں کے سامنے کھلم کھلا جس طرح خواتین اور بچوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا ، راہ چلتے بے گناہ شہریوں کو ستایا گیا اور پاکستانی پرچم کو سرِعام نذر آتش کیا گیا ۔ یہ سب واقعات بتا رہے ہیں کہ دشمن نے پاکستان کو پرتشدد حالات میں دھکیلنے کیلئے صرف آگ ہی نہیں لگائی بلکہ وہ مسلسل اس آگ کو بھڑکا نے کے لئے پٹرول بھی چھڑک رہا ہے ۔
پاکستان کے محب اسلام اور محب وطن عوام اس موقع پر دل گرفتہ ہیں اور وہ بے چینی سے اھل اقتدار اور قانون نافذ کر نے والے اداروں کی طرف دیکھ رہے ہیں کہ وہ اس صورت حال سے کیسے نمٹتے ہیں ۔ مسلمانون پاکستان جانتے ہیں کہ پاکستان کسی کا فر کی ضرورت نہیں ، وہ تو ایسی حرکتیں کر کے با آسانی یورپ منتقل ہو جاتے ہیں اور وہاں سے انہیں ہر طرح کی امداد اور حمایت میسر آجاتی ہے ، اسی طرح یہ پاکستان کسی شرابی کبابی کی بھی ضرورت نہیں کہ انہیں اپنی عیاشیوں کے لئے دنیا بھر کے ممالک میں زیادہ سہولتیں دستیاب ہیں ،
البتہ یہ پاکستان ان درد مند اہل اسلام کی ضرورت ہے ، جو جانتے ہیں کہ یہ وطن ،اسلام کے نام پر اور سولہ لاکھ مسلمانوں کی قربانیوں کے نتیجے میں وجود میں آیا ۔ جو پاکستان کی بنیاد کے مطابق یہاں اسلام کا بول بالا دیکھنا چاہتے ہیں ۔جو یہاں ایک آزاد ، باوقار مسلمان شہری ہونے کی حیثیت سے اسلامی احکامات پر عمل پیرا ہونا چاہتے ہیں ۔
جو یہا ں کی املاک کو نقصان پہنچانا جرم عظیم سمجھتے ہیں اور قتل ناحق ، خواہ کسی مسلمان کا ہو یہ غیر مسلم کا ،اُسے غلط اور ناجائز ہی نہیںملک اور ملت کیلئے تباہ کن خیال کرتے ہیں ۔ یہ وہ دین اور وطن سے محبت کرنے والے لوگ ہیں ، جو اپنے لئے بجلی چوری کرنا بھی حرام سمجھتے ہیں اور ان کی پاکستان کے علاووہ دنیا کے کسی اور ملک میں کوئی پراپرٹی ہے ، نہ ہی کوئی بینک اکاؤنٹ اربوں روپے قرض معاف کروانے والوں اور سرکاری اداروں میں کھربوں روپے کی کرپشن کرنے والوں میں ان کا کبھی نام آتا ہے ۔
پا کستان کے پُر امن شہری اور یہا ں کا محب دین اور محب وطن طبقہ آج حیران و پریشان ہے کہ آج اسے مشکوک بنایا جا رہا ہے ، اسے سر پر ٹوپی ، پگڑی اور چہرے پر داڑھی سجانے کی وجہ سے میڈیا ’’ دہشت گرد ‘‘ باور کروا رہا ہے اور کس کے پڑوسی کو بھی کبھی اس سے ایذاء اور تکلیف نہیں پہنچی ، اسے پورے ملک میں فسادات کا ذمہ دار ٹھہرایا جا رہا ہے ۔
کراچی اور لا ہور کے واقعات نے بہت سے چہروں سے نقاب الٹ دی ہے ، کئی دین دشمن صحافیوں اور دانشوروں کی اصل حقیقت کھو ل کر رکھدی ہے اور تاریخ کے اوراق پر ایک اور گواہی ثبت کر دی ہے کہ سر زمینِ وطن کا مخلص کون ہے اور دشمن کون؟ یہاں امن کا داعی کون ہے اور فسادات برپا کرنے والا کون ؟ یہا ں عوام کی کھو پڑیوں سے اپنی عظمت کے مینار بنانے اور انکی لاشوں پا اپنے محل بنانے کا مکروہ دہندا کس کا ہے اور عوام کو نیکی ، حیا ، غیرت ، حمیت اور شرافت کا سبق دینے والا کون ہے ؟؟؟
یقیناً یہ گواہی ، تاریخ کے منصف کی نگاہوں میں بڑی کارآمد ثابت ہو گی۔
٭…٭…٭