ذبح حیوان؛ حقائق اور غلط فہمیاں


ادھر چند سال سے جیسے ہی بقر عید آتی ہے، فرقہ پرست تنظیمیں حرکت میں آجاتی ہیں اور “گاؤکشی” اور “جیوہتیا” کے خلاف بیانات شروع ہوجاتے ہیں؛ بلکہ قربانی کے خلاف ایک مہم سی چلائی جاتی ہے، حقیقت یہ ہے کہ انسانی غذا کے لیے جانوروں کو ذبح کرنا نہ مذہب کے خلاف اور نہ بے رحمی ہے؛ بلکہ ایک فطری ضرورت ہے اور اس سے بہت سے غریبوں کے معاشی مفادات متعلق ہیں، جس کو نظر انداز کرنا کسی بھی طرح قرین انصاف نہیں، ضرورت ہے کہ غیر مسلم برادران وطن غیر جذباتی ہوکر ٹھنڈے دل سے اس مسئلہ پر غور کریں اور مسلمانوں کا بھی فریضہ ہے کہ وہ جوابی اشتعال کی بجائے دلیل کی زبانی میں اپنے غیر مسلم بھائیوں کو سمجھائیں اور ان کو قائل کریں.

چند باتیں ہیں جن کا سہارا لے کر فرقہ پرست تنظیمیں اور ناواقف برادران وطن ذبح حیوان کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں اور اس کے خلاف مہم چلاتے ہیں.

(1) اسلام نے گوشت خوری کی اجازت دے کر بے رحمی کا ثبوت دیا ہے.
(2) ذبح حیوان ایک زندہ وجود کو قتل کرنا ہے. یعنی یہ “جیوہتیا” کا باعث ہے.
(3) گوشت خوری سے انسان میں تشدد اور ہنسا (violence) کا مزاج بنتا ہے اور یہ انسان پر منفی اثر ڈالتا ہے.
(4) معاشی ضرورت کے پیش نظر ذبح حیوان کی اجازت نہیں ہونی چاہئے.

(1) بعض لوگ خیال کرتے ہیں کہ اسلام نے گوشت خوری کی اجازت دے کر بے رحمی کا ثبوت دیا ہے، بلکہ ہمارے بعض ناواقف ہندو بھائیوں کے یہاں تو اسلام نام ہی گوشت خوری کا ہے، اس سلسلہ میں اول تو یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ دنیا کے تمام مذاہب میں گوشت خوری کی اجازت دی گئی ہے اور گوشت کو ایک اہم انسانی غذا تسلیم کیا گیا ہے، ہندوستانی مذاہب میں بھی “جین مذہب” کے علاوہ تمام مذاہب میں گوشت خوری کا جواز موجود ہے، آج کل ہندو بھائیوں کے یہاں یہ بات مشہور ہو گئی ہے کہ ان کے یہاں گوشت خوری سے منع کیا گیا ہے؛ لیکن یہ محض اپنے مذہب اور اپنی تاریخ سے ناواقفیت ہے، خود ویدوں میں جانوروں کے کھانے، پکانے اور قربانی کا تذکرہ موجود ہے، “رگ وید” میں ہے:
” اے اندر!  تمھارے لیے پسان اور وشنو ایک سو بھینس پکائیں.”
(رگ وید:17:11:7)

یجروید میں گھوڑے، سانڈ، بیل، بانجھ گایوں اور بھینسوں کو دیوتا کی نذر کرنے کا ملتا ہے.

(یجروید، ادھیائے:87:20)

منوسمرتی میں کہا گیا ہے :

“مچھلی کے گوشت سے دو ماہ تک، ہرن کے گوشت سے تین ماہ تک، بھیڑیے کے گوشت سے چار ماہ تک اور پرند کے جانور کے گوشت سے پانچ مہینے تک پتر آسودہ رہتے ہیں.”

(منوسمرتی، ادھیائے :268:3)

خود گاندھی جی نے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ ایک زمانے تک ہندو سماج میں جانوروں کی قربانی اور گوشت خوری کا عمل عام تھا اور ڈاکٹر تارا چند کے بقول ویدک قربانیوں میں جانوروں کے چڑھاوے بھی ہوا کرتے تھے.

حقیقت یہ ہے کہ گوشت خوری کے انسانی غذا ہونے اور اس مقصد کے لیے ذبح حیوان کے جائز ہونے پر نہ صرف یہ ہے کہ مذاہب عالم متفق ہیں؛ بلکہ تقاضائے فطرت کے تحت اور عقلی طور پر بھی اس کا حلال ہونا ضروری ہے.

(2) بعض لوگ خیال کرتے ہیں کہ ذبح حیوان یہ ایک “جیوہتیا” اور ایک زندہ وجود کو قتل کرنا ہے لیکن غور کیا جائے تو اس بات کا سمجھنا دشوار نہیں کہ کائنات کا فطری نظام یہی ہے کہ خالق کائنات نے کم تر مخلوق کو اپنے سے اعلی مخلوق کے لیے غذا اور وسیلہ حیات بنایا ہے، غور کرو کہ کیا اس جیوہتیا سے بچنا ممکن بھی ہے؟ آپ جب پانی یا دودھ کا ایک گلاس اپنے حلق سے اتارتے ہیں، تو سینکڑوں جراثیم ہیں جن کے لئے آپ اپنے زبان سے پروانہ موت لکھتے ہیں، پھر آپ جن دواؤں کا استعمال کرتے ہیں، وہ آپ کے جسم میں پہنچ کر کیا کام کرتی ہیں؟ یہی کہ جو مضر صحت جراثیم آپ کے جسم میں پیدا ہوگئے ہوں اور پنپ رہے ہوں، ان کا خاتمہ کردیں، پس “جیوہتیا” کے وسیع تصور کے ساتھ تو آپ پانی کا ایک گلاس بھی نہیں پی سکتے اور نہ ہی دواؤں کا استعمال آپ کے لیے روا ہوسکتا ہے.

نیز اگر جیوہتیا سے بچنا ہے تو نباتاتی غذا سے بھی بچنا ہوگا، کیونکہ آج کی سائنس نے اس بات کو ثابت کردیا ہے کہ جس طرح حیوانات میں زندگی اور روح موجود ہے، اسی طرح پودوں میں بھی زندگی کارفرما ہے اور نباتات بھی احساسات رکھتے ہیں، خود ہندو فلسفہ میں بھی پودوں میں زندگی مانی گئی ہے، سوامی دیانند جی نے “آواگمن” میں روح منتقل ہونے کے تین قالب قرار دیئے ہیں؛

1. انسان،

2. حیوان اور

3. نباتات،

یہ نباتات میں زندگی کا کھلا اقرار ہے، تو اگر جیوہتیا سے بچنا ہے تو نباتاتی غذا سے بھی بچنا ہوگا، گویا اس کائنات میں ایسے انسانوں کے لیے کوئی جگہ نہیں جو مکمل طور پر جیوہتیا سے بچکر جینا چاہتے ہوں.

(3) بعض لوگ خیال کرتے ہیں کہ گوشت خوری سے انسان میں تشدد اور ہنسا (VIOLENCE)  کا مزاج بنتا ہے اور یہ انسان پر منفی اثر ڈالتا ہے؛ لیکن دنیا کی تاریخ اور خود ہمارے ملک کا موجودہ ماحول اس کی تردید کرتا ہے، آج ہندوستان میں جہاں کہیں بھی ہندو مسلم فسادات ہورہے ہیں اور ظلم و ستم کا ننگا ناچ کررہے ہیں، یہ سب کچھ ان لوگوں کے ہاتھوں اور اشاروں سے ہورہا ہے جو سبزی خور ( Vege Tarian) ہیں اور گوشت خوری کے مخالف ہیں، رہنمایان عالم میں شری گوتم بدھ اور حضرت مسیح علیہ السلام کو عدم تشدد اور رحم دلی کا سب سے بڑا داعی اور نقیب تصور کیا جاتا ہے؛ لیکن کیا یہ برگزیدہ شخصیتیں گوشت نہیں کھاتی تھیں، یہ سبھی گوشت خور تھے، گوتم بدھ نہ صرف گوشت خور تھے؛ بلکہ دم آخر میں بھی گوشت کھاکر ہی ان کی موت ہوئی تھی اور ہٹلر سے بھی بڑھ کر کوئی تشدد، جور و ستم اور بے رحمی کا نقیب ہوگا؟ لیکن ہٹلر گوشت خور نہیں تھا، صرف سبزی کو اپنی غذا بناتا تھا، اس لیے یہ سمجھنا کہ ہنسا اور اہنسا  کا تعلق محض غذاؤں سے ہے، بے وقوفی اور ناسمجھی ہی کہی جا سکتی ہے، جب تک دلوں کی دنیا تبدیل نہ ہو، انسان انسانیت سے محبت کرنا نہ سیکھے، خدا کا خوف نہ ہو اور آخرت میں جواب دہی کا احساس نہ ہو تو محض غذائیں انسان کے مزاج و مذاق کو تبدیل نہیں کرسکتیں.

(4) بعض حضرات کہتے ہیں کہ گاؤکشی وغیرہ کی ممانعت ہم مذہبی نقطہ نظر سے نہیں کرتے، بلکہ یہ ایک معاشی ضرورت ہے، جانور اگر ذبح نہ کئے جائیں تو لوگوں کو دودھ اور گھی سستے داموں میں فراہم ہوں گے اور عام لوگوں کو اس سے فائدہ پہنچے گا؛ لیکن یہ محض ایک واہمہ کا درجہ رکھتا ہے، حقیقت یہ ہے کہ جن ملکوں میں ہندوستان سے  زیادہ جانور ذبح ہوتے ہیں اور جہاں جانوروں کے ذبح پر کسی قسم کی پابندی نہیں، وہاں بہ مقابلہ ہمارے ملک کے گھی اور دودھ سستے بھی ہیں اور ان کی فراوانی بھی ہے، اس کی مثال امریکہ اور یوروپ ہیں، ہمارے ملک میں باوجودیکہ بہت سے بلکہ اکثر علاقوں میں ذبح گاؤ پر پابندی ہے اور عام جانوروں کے ذبح کرنے پر بھی خاصی تحدیدات ہیں، لیکن اس کے باوجود یہاں دودھ، گھی زیادہ مہنگے ہیں.

اس کے علاوہ ایک بات یہ بھی ہے کہ جانور ایک عمر کو پہنچ کر ناکارہ ہوجاتے ہیں، نہ ان سے دودھ حاصل ہوتا ہے اور نہ کسی اور کام آسکتے ہیں، ایسی صورت میں اگر ان کو غذا بنانے کی اجازت نہ دی جائے تو مویشی کی پرورش کرنے والوں کے لیے بہت بوجھ بن جائیں گے اور غریب کسان جو خود اپنا پیٹ نہیں بھر سکتے وہ کیوں کر اس بوجھ کو برداشت کرسکیں گے؟

ملخص از اسلام اور جدید فکری مسائل

محمد اسحاق گودھرا گجرات 9904592234