کفار ومشرکین کو سلام

کفار ومشرکین کو سلام
ائمہ اربعہ کے نقطہائے نظر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سلام اسلامی تحیہ اور دعا یے

مسلمان سے ملاقات اور جدائی کے وقت “السلام علیکم ورحمةاللہ وبرکاتہ” کے ساتھ سلام کرنا اور اسی لفظ کے ساتھ جواب دینا مسنون ہے۔
سلام کرنا سنت ہے اور اتنی آواز میں جواب دینا واجب ہے کہ سلام کرنے والا جواب سن لے۔

عن عمران بن حصین رضي اللّٰہ عنہ قال: جاء رجل إلی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم، فقال: السلام علیکم، فرد علیہ، ثم جلس، فقال النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: عشرٌ، ثم جاء آخر، فقال: السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ، فرد علیہ فجلس، فقال: عشرون، ثم جاء آخر، فقال: السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ، فرد علیہ فجلس، فقال: ثلاثون۔ (سنن أبي داؤد، کتاب الأدب / باب کیف السلام ۲؍۷۰۶ رقم: ۵۱۹۵ دار الفکر بیروت، سنن الترمذي ۲؍۹۸ رقم: ۲۶۸۹)
والأفضل للمسلم أن یقول: السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ، والمجیب کذٰلک یرد، ولا ینبغي أن یزاد علی البرکات شيء۔ (الفتاویٰ التاتارخانیۃ ۱۸؍۷۷ زکریا)
ثم إن أکثر ما ینتہي إلیہ السلام إلی البرکۃ، فتقول: السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ، وہو الذي علیہ العمل۔ (الموسوعۃ الفقہیۃ ۲۵؍۱۵۸ کویت)

سلام کا جواب اتنی آواز میں دینا واجب ہے کہ سلام کرنے والا جواب سن لے۔
إن السلام سنۃ واستماعہ مستحب، وجوابہ أي ردّہ فرض کفایۃ وإسماع ردہ واجب۔ (شامي / کتاب الحظر والإباحۃ ۶؍۴۱۳ کراچی)
قال النووي: نقل ابن عبد البر إجماع المسلمین علی أن ابتداء السلام سنۃ وأن ردہ فرض (أي واجب)۔ (تکملۃ فتح الملہم ۴؍۲۴۵ المکتبۃ الأشرفیۃ دیوبند)
إن السلام سنۃ واستماعہ مستحب، وجوابہ أي ردہ فرض کفایۃ، وإسماع ردہ واجب۔ (شامي / کتاب الحظر والإباحۃ ۶؍۴۱۳ کراچی، ۹؍۵۹۳ زکریا)

جمہور فقہاء،  شراح حدیث اور ائمہ حنفیہ کی رائے یہ ہے کہ کسی بھی غیر مسلم بشمول ذمی کو “السلام علیکم ” کے ذریعہ ابتداء سلام کرنا جائز نہیں ہے۔اگر کوئی تعظیما کرتا ہے تو یہ صریح کفر ہے۔
ہاں اگر وہ سلام کرلیں تو اس کے جواب میں صرف ” وعلیکم ” یا وعلیک یا علیکم بغیر واو کے کہا جائے۔
جواب میں وعلیکم السلام ورحمة اللہ ” کہنا جائز نہیں ہے ۔

حنفیہ کے علاوہ  مالکیہ ، شافعیہ اور حنابلہ کا مسلک بھی یہی ہے کہ کفار ومشرکین کو ابتدا بالسلام ناجائز ہے ۔
ہاں اگر کسی ضرورت سے سلام کرنا پڑے تو جائز تو ہے لیکن اسے “السلام علی من اتبع الھدی ” کہے ۔

وجہ یہ ہے کہ سلام کی اصلیت دعا کی ہے اور کافر دعا کا مستحق نہیں ہے۔ان حضرات کے پیش نظر وہ حدیث ہے جس میں ارشاد نبوی ہے
لا تبدؤوا الیہود ولا النصاریٰ بالسلام، فإذا لقیتم أحدہم في طریقٍ فاضطروہ إلی أضیقہ۔ (صحیح مسلم، کتاب السلام / باب النہي عن ابتداء أہل الکتاب بالسلام وکیف یُردُّ علیہم ۲؍۲۱۴ رقم: ۲۱۶۷، سنن أبي داؤد رقم: ۵۲۰۵، سنن الترمذي / باب ما جاء في کراہیۃ التسلیم علی الذمي ۲؍۹۹ رقم: ۲۷۰۰)
نیز دوسری روایت میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
إذا سلّم علیکم أہل الکتاب فقولوا: وعلیکم۔ (صحیح البخاري / کیف الرد علی أہل الذمۃ السلام ۲؍۱۴۲۶ رقم: ۶۲۵۸، صحیح مسلم ۲؍۲۱۳ رقم: ۲۱۶۳ بیت الأفکار الدولیۃ، سنن أبي داؤد ۲؍۷۰۷ رقم: ۵۲۰۷ دار الفکر بیروت)

اِس نظریہ  کے برخلاف علماء کی ایک دوسری جماعت کی رائے یہ ہے کہ اگر کسی ضرورت سے کسی کافر کو ابتداء اً سلام کرلیا جائے، یا اس کے جواب میں ’’وعلیکم السلام‘‘ کہہ دیا جائے تو کوئی حرج نہیں ہے، یہ رائے حضرت عبداللہ بن عباسؓ، حضرت ابوامامہؓ، حضرت حسن بصریؒ اور حضرت عمر بن عبد العزیز رضوان اللہ علیہم اجمعین کی طرف منسوب ہے، یہ حضرات اُس حدیث سے استدلال کرتے ہیں جس میں یہ مضمون ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلم اور غیر مسلم کے مخلوط مجمع پر سلام سے ابتداء فرمانے کا ذکر ہے۔ (صحیح البخاری ۲؍۹۲۴)
نیز سلام کو مطلقاً عام کرنے کی روایت سے بھی استدلال کرتے ہیں۔۔۔تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو :

( ابن عابدين 5 / 264 – 265 ط. المصرية، الاختيار 4 / 165 ط. المعرفة روح المعاني 5 / 100 ط. المنيرية.
الفواكه الدواني 2 / 425 – 426 ط. الثالثة، حاشية العدوي على الخرشي 3 / 110 ط بولاق، القرطبي 5 / 303 ط الأولى.
نهاية المحتاج 8 / 49 ط. المكتبة الإسلامية، تحفة المحتاج 9 / 226 ط. دار صادر، روضة الطالبين 10 / 230 – 231 ط. المكتب الإسلامي.

ہاں شافعیہ اور حنابلہ کے نزدیک کفار کے سلام کا جواب دینا واجب ہے ۔جبکہ احناف وموالک کے نزدیک یہ صرف جائز ہے

( وَأَمَّا رَدُّ السَّلاَمِ عَلَى أَهْل الذِّمَّةِ فَلاَ بَأْسَ بِهِ عِنْدَ الْحَنَفِيَّةِ، وَهُوَ جَائِزٌ أَيْضًا عِنْدَ الْمَالِكِيَّةِ، وَلاَ يَجِبُ إِلاَّ إِذَا تَحَقَّقَ الْمُسْلِمُ مِنْ لَفْظِ السَّلاَمِ مِنَ الذِّمِّيِّ، وَهُوَ وَاجِبٌ عِنْدَ الشَّافِعِيَّةِ وَالْحَنَابِلَةُ.
وَيَقْتَصِرُ فِي الرَّدِّ عَلَى قَوْلِهِ: وَعَلَيْكُمْ، بِالْوَاوِ وَالْجَمْعِ، أَوْ: وَعَلَيْكَ، بِالْوَاوِ دُونَ الْجَمْعِ عِنْدَ
الحنفية والشافعية والحنابلة لكثرة الأخبار في ذالك.
ابن عابدين 5 / 264 – 265 ط المصرية، الفواكه الدواني 2 / 425 – 426 ط الثالثة – نهاية المحتاج 8 / 49 ط. المكتبة الإسلامية، تحفة المحتاج 9 / 226 ط. دار صادر، الأذكار / 405 – 406 ط. الأولى، روضة الطالبين 10 / 231 ط. المغني 8 / 536 ط. الرياض.)
واللہ اعلم بالصواب
شکیل منصور القاسمی
بیگوسرائے
بہار