افغانستان میں امن کی امیدیں

افغانستان میں امن کی امیدیں

تحریر یاسر محمد خان

4نومبر 2014ء کو امریکی ایوانِ اقتدار کی نصف نشستوں پر انتخابات ہوئے۔ امریکا میں قانون سازی کے لیے سینیٹرز چنے گئے۔ کئی ہفتوں تک انتخابی مہم اپنے زوروں پر رہی۔ ذرائع ابلاغ نے اس پر خصوصی نشریات شروع کیے رکھیں۔ اوبامہ کو Lame Duck (لنگڑی بطخ) کا خطاب دیا گیا۔ اسے اپنی پالیسیوں پر تصدیق کے لیے ڈیموکریٹ ممبران کی بھاری تعداد درکار تھی۔ 4 نومبر کو اسے شکست فاش ہوگئی۔ ریپبلکن ممبروں کی بھاری تعداد سینٹ اور کانگریس میں داخل ہوگئی۔ یوں اوبامہ کے پرکٹ گئے، وہ مخالف پارٹی کی توثیق کے بغیر اب نہ کوئی بل پاس کروا سکتا ہے نہ ہی بیرون ملک اخراجات کے لیے ڈالروں کی کھیپ حاصل کرسکتا ہے۔ میں نے اس الیکشن پر بیسیوں تجزیہ نگاروں کی گفتگو سنی ہے۔ سب نے افغانستان میں شرمناک شکست کو اوبامہ کے لیے کمر توڑ بوجھ قرار دیا۔ ڈیموکریٹس نے اس ذلت آمیز پسپائی پر کافی ملمع سازی کی کوششیں کیں۔ انہوں نے اعداد و شمار کی گرتی دیواروں کی آڑلی۔ انہوں نے مفروضوں کے زمیں بوس ہوتے ہوئے ستونوں کے پیچھے چھپنے کی کوششیں کیں، مگر ان کو کوئی کامیابی نہ مل پائی۔ جب انہیں مذاکروں میں شکست ہونے لگی تو انہوں نے حکمت عملی تبدیل کرلی۔ ہر ڈیموکریٹ ریپبلکن کو افغانستان میں فوج کشی کا ذمہ دار قرار دینے لگا۔ منہ سے کف بہنے لگے۔

تیوریاں چڑھ گئیں۔ آنکھوں سے شرارے پھوٹنا شروع ہوگئے۔ چہرے ٹماٹروں کی طرح سرخ ہوگئے۔ ہاتھوں کی اضطراری حرکتیں کنٹرول سے باہر ہوگئیں۔ باڈی لینگویج سے اضطرار اور اضطراب ٹپکنے لگا۔ ہر ڈیموکریٹ نے ریپبلکن اور ریپبلکن نے ڈیمو کریٹ کے خوب لتے لیئے۔ شیم شیم کی آوازوں میں ٹی وی کے مائیک کانپنے لگے۔ ہر مذاکراہ ہاہا کار پر تمام ہوا۔ دونوں فریقوں نے ایک دوسرے کو ننگا کرنا شروع کردیا۔ یوں انتخاب کا دن آگیا اور امریکی حکومت کو بدترین شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔

٭ اگر ہم ہندوستان سے امن کی آشا کی پینگیں بڑھا سکتے ہیں تو افغانستان تو ہمارا بھائی ہے۔ آئیے! ایک نیا مستقبل کاشت کریں، سرحدوں پہ چلنے والی ہوائوں میں امن کی خوشبو ہو، یہ بارود کی بو سے پاک ہو جائے۔ ٭ افغانستان سے تعلقات بہتر بنانے کے نتیجے میں منافرتوں کی جلتی بلتی آگ برساتی دو پہروں میں سکون کی چھائوں ہمیں مل جائے گی۔ دونوں ملک امریکی چنگل سے نکل آئیں گے۔ ٭

امریکی انتخابات سے تقریباً ایک ماہ قبل 29 ستمبر 2014ء کو اشرف غنی نے افغانستان کے صدر کا حلف اٹھایا۔ یہ صدارت تاریخ کے ایک عجیب موڑ پر اشرف غنی کے حصے میں آئی۔ امریکی اور برطانوی سپاہ اپنے تارتار جھنڈے تہہ کر کے کوچ کا نقارہ بجا رہے ہیں۔ افغان معیشت اپنی جانکاہی ہی کے تکلیف دہ مراحل سے گزر رہی ہے۔ ملک بھر میں انفرا سٹرکچر مکمل طور پر برباد ہو کر رہ گیا ہے۔ افغانستان بیرونی طاقتوں کے سہارے بمشکل اپنے پائوں پہ کھڑا ہے۔ ملک میں معدنیات کے خزانوں نے اسے حریص نگاہوں کا مرکز بنادیا ہے۔ پولیس کا نظام تلچھٹ ہے اور جرائم کا جھاڑ جھنکاڑ افغان گلی کوچوں میں پھیلا ہوا ہے۔ مرکزی حکومت کی عملداری کابل سے باہر خال خال دیکھنے میں آرہی ہے۔ افغان فوج جنگی پالنے میں ابھی شیر خوارگی کی گھڑیوں سے لطف اندوز ہورہی ہے۔ 13 برس کی بمباری نے عمارتیں گھر، دالان دریچے مسمار کر کے رکھ دیے ہیں۔ افغانستان میں شرح خواندگی میں بتدریج کمی دیکھنے میں آرہی ہے۔ امریکیوں نے چن چن کر ہسپتالوں کو اندھیری گپھائوں میں تبدیل کردیا ہے۔

معاشی بحران نے افراطِ زر کو ایسا فروغ دیا ہے کہ ضرورت زندگی کا شدید کال پڑا ہوا ہے۔ ملک میں صنعت کا پہیہ رک چکا ہے۔ ٹورازم ختم ہو گیا ہے۔ بے روزگاری کا مہیب سائے افغان بستیوں میں دراز سے دراز تر ہوئے جارہے ہیں۔ سڑکوں کے ناپید ہوجانے کی وجہ سے تجارت کے امکانات معدوم ہو کر رہ گئے ہیں۔ سرحدی کشیدگیوں نے ملک میں ٹریڈ کی صورت حال کو سخت غیرمتوازن کیا ہوا ہے۔ ریلوے کے فعال نہ ہونے اور Land Locked ہونے کی بنا پر افغانستان اپنے ہمسائیوں پر اور زیادہ انحصار کرنے پر مجبور ہے۔ دفتری نظام کی بنیادیں ایسی بیٹھی ہیں کہ شہریوں کو قدم قدم پر جکڑ بندیوں کا سامنا ہے۔ ایسے منظر نامے میں افغانستان کا پاکستان کی طرف ملتجی نظروں سے دیکھنا ہمارے دلوں کو موم کی طرح پگھلا گیا۔

پاکستان نے افغان تجارت کے حجم کو 2.5 ارب ڈالرز سے 5 ارب ڈالرز تک لے جانے کی منظوری دے دی ہے۔ 2017ء تک پاکستان 95 فیصد افغان اشیاء کو ایک دن میں اور 5 فیصد اشیاء کو 2 دن میں کلیرنس دے گا۔ پاکستانی پورٹس پر We Boc نظام لگایا جائے گا جس کے ذریعے افغان درآمد کنندگان کو اپنے مال کی آن لائن رجسٹریشن کی سہولت مہیا کی جائے گی۔ افغان تجارت کو مزید دست دینے کے لیے پاکستان غلام خان بارڈر پوسٹ کو کھول دے گا۔ بارڈر پوسٹوںپر سہولتیں، اعلیٰ معیار کے اجزاء اور ان پر عملدرآمد دونوں ملکوں کے کسٹمز حکام کریں گے۔ دونوں ملکوں کے مابین بڑی سرمایہ کاری کے علاوہ چھوٹے سرمایہ کاروں کے درمیان اشتراک کی ایک فضا بنائی جائے گی۔ دوست ملک کے ٹریڈ افسروں کو پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ٹریڈ اینڈ ڈیویلپمنٹ میں تربیت دی جائے گی۔ افغان صوبہ لوگر میں 100 بستروںپر مشتمل نعیب امین اللہ ہسپتال میں طبی آلات کی فراہمی اور کابل میں 200 بستروں کا جناح ہسپتال بنایا جائے گا۔ کاسا 1000 اور تاپی گیس پائپ لائن پروجیکٹ سے تجارتی، توانائی اور موصلات راہداری کو ترقی دی جائے گی۔ پاکستان افغانستان کو بارڈر سیکورٹی اور دفاع میں مہارت دینے پر اپنی توانائیاں مرکوز کرے گا۔ پارلیمانی وفود کا تبادلہ، تعلیمی ثقافتی سرگرمیوں اور کھیلوں میں تعاون، سٹرک اور ریل کے رابطوں کو بڑھانا۔ توانائی کے شعبے میں تعاون کرنے میں اضافہ کیا جائے گا۔ افغانستان کے شمالی علاقوںمیں پاکستانی سرمایہ کاروں کے لیے خصوصی اقتصادی زون بنائے جائیں گے جہاں سستی بجلی اور گیس مہیا کی جائے گی۔ ان علاقوں میں کاروبار پر ٹیکس کی ادائیگی نہیںکرنا پڑے گی۔ افغانستان چین کی مدد سے ریلوے گیس پائپ لائن اور معدنیات کے منصوبوں پر کام کررہا ہے۔ یوں یہ تینوں ملک اگر مل کر چلیں تو خطے میں امن کی برکھا برس سکتی ہے۔ بدامنی کا سوکھا ہمیشہ کے لیے ختم ہوسکتا ہے۔ یہ ملک تیزی سے ترقی کرسکتے ہیں۔

اس ملک نے افغانستان میں بدیسی لڑائیاں لڑکر 50 ہزار پاکستانیوں کی زندگی کے چراغ گل ہوتے دیکھے۔ ملک کو مجموعی طور پر ایک کھرب ڈالرز سے زیادہ کا نقصان اٹھانا پڑا۔ اکتوبر 2001ء میں پرویز مشرف نے افغان پالیسی کی پیٹھ میں وہ چھرا گھونپا کہ نسلوں کو اس بدقماش انسان کے اس فعل کی قیمت چکانا پڑی۔ ملک کے در و دیوار کان پھاڑ خود کش دھماکوں سے لرز اُٹھے۔ اسکولوں، دفتروں، کچہریوں، تھانوں، ہوٹلوں میں بم پھٹنے لگے۔ مارکیٹیں زمیں بوس ہوگئیں۔ اعلیٰ حکام کے علاوہ غریب غربا بھی بدبختی کی اس آندھی میں پتوں کی طرح اڑگئے۔ ملکی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔ پاک افغان بارڈر ایک رستا ہوا ناسور بن گیا۔ ہم پر حامد کرزئی الزامات کے تیر مسلسل برساتا رہا۔ ایک بے چہرہ جنگ نے ملک کا چہرہ نوچ لیا۔ ہم اقوام عالم میں تیرہ بختیوں کی بنا پر ممتاز ہونے لگے۔ ملک سے سرمایہ پر لگا کر اُڑنے لگا۔ داخلی شورش نے معاشی ترقی کی ہر پرواز پر ضرب لگائی۔ ہم جس شاخ پر بیٹھے تھے اسی پر پیہم کلہاڑے برسانے لگے۔ ریاست اپنے ہی بچوں کا لہو چاٹنا شروع ہوگئی۔ ہم نے افغانستان کے قابل احترام سفیر کو ملکوں اور ٹھڈوں سے مارا، اسے جی بھر کے گالیاں دیں۔ آنکھ پر پٹی اور ہاتھوں پیروں کو رسیوں سے کس کر اسے امریکا کے حوالے کردیا۔ ان دی لائن آف فائر جیسی بے ہودہ اور شرمناک کتاب میں ہم نے اپنی بردار اور دختر فروشی کی قیمتوں کا تذکرہ کیا۔ ہم کسی گواہی اور ثبوت کے بغیر لوگوںکو غائب کرنا شروع ہوگئے۔ ہم نے اس ناگ کا روپ دھار لیا جو اپنے ہی بچوں کو کھا جاتا ہے۔ انہی کی ہڈیاں چبا جاتا ہے۔ سایۂ عاطفت سایۂ خباست بن گیا۔

ملک اپنے ہمسائے تبدیل نہیں کرسکتے۔ ہمیں خود کو بدلتے وقت کے سانچوں میں ڈھالنا ہوگا۔ خود کو تبدیل کرنا ہوگا۔ ہمیں اپنی پالیسیوں کو درست سمت موڑنا ہوگا۔ ہمیں آیندہ نسلوں کے لیے ایک ایسا پاکستان بنانا ہوگا جس میں خوشحالیاں لہلائیں، جس میں امن کی راگنی گونجے۔ افغانستان کی بربادی میں ہم نے جو رول پلے کیا، اس کے لیے ہمیں خدا سے معافی کا خواستگار ہونا چاہیے۔ خدا نے امریکی اور دوسری ابلیسی طاقتوں کو افغانستان سے نامراد اور ناکام لوٹایا ہے۔ امریکی حکومتیں اسی دلدل میں مزید گہر ی دھنستی جارہی ہے۔ امریکیوں نے بھائیوں کو بھائیوں سے لڑایا ہے۔ انہوں نے طالبان کی سربراہی میں ترقی کرتے ملک کی بنیادیں کھود ڈالیں۔ ہم انجانے میں اس کے مددگار بن گئے۔ امریکا ہمارے بغیر افغانستان کا کچھ نہ بگاڑ سکتا تھا۔

2014ء گل ہونے کو ہے۔ 31 دسمبر تک منظر نامہ نکھر کر سامنے آجائے گا۔ ہمیں افغانستان کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار نمایاں طور انجام دینا ہوگا، تاکہ ہم بدنامی کی کالک کو اپنے ماتھے سے صاف کرسکیں۔ ہم تاریخ سے سیکھ سکتے ہیں۔ چین اور جاپان دہائیوں تک آپ میں دست و گریبان رہے۔ پھر انہوں نے صلح کی اور دونوں ملک ترقی کے روشن افق تک جاپہنچے۔ برطانیہ اور فرانس کے درمیان صدیوں تک جنگ و جدل رہا۔ جب دونوں نے صلح کی تو دونوں سپر پاورز کی صف میں آگئے۔ اگر ہم ہندوستان سے امن کی آشا کی پینگیں بڑھا سکتے ہیں تو افغانستان تو ہمارا بھائی ہے۔ آئیے! ایک نیا مستقبل کاشت کریں، سرحدوں پہ چلنے والی ہوائوں میں امن کی خوشبو ہو یہ بارود کی بو سے پاک ہو جائے۔ منافرتوں کی جلتی بلتی آگ برساتی دو پہروں میں سکون کی چھائوں ہمیں مل جائے گی۔ دونوں ملک امریکی چنگل سے نکل آئیں گے۔