نسل اور قوم پرستی کے جدید علمبردار (آخری قسط)

نسل اور قوم پرستی کے جدید علمبردار (آخری قسط)
اوریا مقبول جان  جمعـء 31 مارچ 2017

پاکستان کے تعلیمی اداروں کی دیواریں جس طرح خون سے رنگین ہوتی رہی ہیں اس کی تاریخ انتہائی خوفناک اور اس کا بیان بہت تکلیف دہ ہے۔ یہ وہ طبقہ ہے جو اس پاکستان کا ایک فیصد بھی نہیں بنتا اور اس ایک فیصد میں بھی ڈنڈا بردار اور اسلحہ بردار شاید ایک فیصد بھی نہ ہوں۔ لیکن تکلیف دہ بات یہ ہے کہ ان لوگوں میں اعلیٰ انسانی نظریات کے علمبردار اور احترام انسانیت کے بعض دعوے دار بھی شامل تھے۔ قائداعظم کی مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کا چراغ علی گڑھ میں جلا اور پاکستان بننے کے بعد نسل اور قوم پرستی کی تیز و تند ہوا کے سامنے بجھ گیا۔
یہ نسل اور قوم پرستی کی ہوا آغاز میں کیمونسٹ نظریات کے دعوے داروں نے چلائی۔1953ء میں کراچی کے خالق دینا ہال میں نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کی بنیاد رکھی گئی جو مارکس اور لینن کے نظریات کی امین تھی۔ ان کا کراچی اور لاہور کے تعلیمی اداروں پر غلبہ تھا۔ اس کی پیشرو ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن جو کیمونسٹ پارٹی کا ایک حصہ تھی‘ اس پر پابندی کی وجہ سے اس کی راکھ سے نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن نے جنم لیا اور یہ تمام طلبہ ذوالفقار علی بھٹو کی تحریک کا ہر اول دستہ تھے جس نے اقتدار میں آتے ہی سرکاری وسائل سے پیپلز اسٹوڈنٹس فیڈریشن بنائی اور اسے پیپلز گارڈ کی سرپرستی میں دے دیا۔ جو ذرا کٹر نظریاتی تھے انھوں نے لبرل اسٹوڈنٹس فیڈریشن بنا لی۔ ان کے مقابلے میں جمعیت کا چراغ بہت ٹمٹاتا سا تھا۔
اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ ان تمام طلبہ تنظیموں نے یونیورسٹیوں اور کالجوں میں لسانی اور قومی گروہوں کے الائنس بنا رکھے تھے۔ 1980ء سے پہلے کا تعلیمی ماحول ان کے مضبوط قبضے کی علامت تھا۔ ان دنوں میں کوئی اکا دکا حجاب والی لڑکی نظر آتی اور داڑھی تو بہت دور کی بات تھی۔ خود اسلامی جمعیت طلبہ کے ناظم اعلیٰ تک داڑھی نہیں رکھتے تھے کہ اس طرح طلبہ میں غیر مقبول ہو سکتے تھے۔ پشاور یونیورسٹی میں صرف قاضی حسین احمد کی داڑھی تھی۔ ایک قوم پرست‘ لبرل اور کیمونسٹ ماحول کے اثرات یہ تھے کہ الیکشن میں جب جمعیت نے حصہ لینا شروع کیا تو وہ اپنے ارکان کے بجائے ذرا نسبتاً ماڈرن افراد کو کھڑا کرتے کہ کہیں ہمیں رجعت پسند سمجھ کر مسترد نہ کر دیا جائے۔
جاوید ہاشمی‘ حسین حقانی‘ حفیظ اللہ نیازی‘ شفیع نقی جامعی‘ جیسے چہروں کے پیچھے جمعیت کے نعرے ہوتے تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب مشرقی اور مغربی پاکستان دونوں ساتھ ساتھ تھے۔ وہ مطیع الرحمن نظامی جسے پاکستان کی محبت میں پھانسی دی گئی جمعیت کا ناظم اعلیٰ تھا۔ اس دوران پاکستان کے تعلیمی اداروں میں نظریات کی بنیاد پر پہلا قتل ہوا۔ یحییٰ خان نے اقتدار میں آتے ہی نئی  تعلیمی پالیسی کا اعلان کیا۔ 12 اگست 1969ء کو ڈھاکا یونیورسٹی میں جمعیت نے اسلامی نظام تعلیم پر مذاکرہ منعقد کیا جس پر کیمونسٹ اور قوم پرست شعبوں نے حملہ کیا اور جمعیت کے ناظم عبدالمالک مجاہد کو لوہے کے ڈنڈوں سے زخمی کر کے ہلاک کر دیا گیا۔ مشرقی پاکستان میں تو خوف کی فضا قائم تھی ہی لیکن مغربی پاکستان میں بھی بڑے تعلیمی ادارے اس خوف سے خالی نہ تھے۔
یہ وہ زمانہ تھا جب جمعیت نے یونین کے الیکشن میں جیتنا شروع کیا تھا اور حکومتوں کو ناگوار گزرا تھا۔ نواب کالا باغ گورنر تھا‘ بارک اللہ خان صدر منتخب ہوا‘ تعلیمی پالیسی کے خلاف احتجاج ہوا اور اسے لاہور کے شاہی قلعے میں تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ ان دنوں یونیورسٹی کی اسٹوڈنٹس یونین کا الیکشن اسقدر اہم تھا کہ جب جاوید ہاشمی اور جہانگیر بدر کا آپس میں مقابلہ تھا تو غلام مصطفے کھر اس الیکشن کی نگرانی پر مامور تھا۔ جاوید ہاشمی جیتا‘ بنگلہ دیش نامنظور کی مہم شروع ہوئی تو ذوالفقار علی بھٹو کا پولیس کے آئی جی کو کہا گیا وہ جملہ کسقدر معنی خیز ہے۔
Who is Hashmi, give him یہ ہاشمی کون ہے‘ Kalabagh treatment اس کا کالا باغ والا علاج کرو۔ اس زمانے میں پیپلز اسٹوڈنٹس فیڈریشن کو مسلح کیا گیا۔ سرکاری سرپرستی اور نظریاتی قوم پرستی نے مل کر ایک ایسے ماحول کو جنم دیا جس نے یونیورسٹیوں اور کالجوں کے ماحول کو ہنگامہ خیز بنا دیا۔ میں پنجاب یونیورسٹی کے آٹھ نمبر ہاسٹل میں تھا جس پر سرخوں کا قبضہ تھا اور سات نمبر ہاسٹل پر جمعیت والوں کا۔ یوں علاقے اور ہاسٹل تقسیم ہو گئے۔
1970ء سے آج تک قتل و غارت کی ایک طویل تاریخ ہے لیکن میرے ملک کا دانشور صرف ایک طرف کی کہانی سناتا ہے اور وہ بھی حقائق کے بغیر‘ صرف ایک بیان کہ ’’جمعیت کی غنڈہ گردی‘‘ لیکن آج اگر آپ حساب کرنے بیٹھیں تو ایک طویل فہرست ان افراد کی نکلے گی جو جمعیت سے تعلق رکھتے تھے اور اپنی جانوں سے گئے یا معذور کر دیے گئے۔ لڑکوں کو کمروں سے اغوا کیا جاتا اور ان پر بدترین تشدد ہوتا۔ احسان اللہ وقاص اور سعید سلیمی کو بدترین تشدد کا نشانہ اس وقت بنایا گیا جب میں یونیورسٹی میں تھا۔ فوراً بعد جب میں بلوچستان یونیورسٹی میں لیکچرر ہو گیا تو میرا بچپن کا دوست ڈاکٹر مشتاق فاروقی اپنے دو ساتھیوں سمیت مجھ سے ملنے آیا‘ اس نے غلطی یہ کی اس کے سینے پر جمعیت کا ایک چھوٹا سا بیج تھا‘ اسے پشتون اور بلوچ طلبہ نے اغوا کیا اور بدترین تشدد کے بعد پھینک دیا۔
جئے سندھ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن نے 1973ء میں گلزار احمد منگی جو جمعیت کا ناظم تھا اسے مار مار کر معذور بنا دیا گیا اور آج تک پورے سندھ میں جمعیت کو تعلیمی اداروں سے دیس نکالا ہے۔ ضیا الحق کے مارشل لاء نے مہاجر اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کی پشت پناہی کی۔ اسی ضیاالحق دور میں ایک جانب کراچی میں جمعیت کا بستر گول کرنے کی کوشش اور دوسری جانب پورے پاکستان کے باقی حصوں میں بھی اس کے کارکنان قتل ہونے لگے۔ 26 اکتوبر1986ء کو انجینئرنگ یونیورسٹی لاہور میں ملک مشتاق اور شاہد رفیق کو قتل کیا گیا‘ ایک ہفتے بعد سائنس کالج میں مسعود احمد ناصر ہلاک ہوا‘ جنوری 1988ء میں کنگ ایڈورڈ کالج میں جمعیت کے ناظم زبیر خان کو خنجروں سے قتل کیا گیا‘ دسمبر 1997ء میں اسلم فتیانہ کو فیصل آباد میڈیکل کالج میں موت کے گھاٹ اتارا گیا۔ ایک ماہ بعد نشتر میڈیکل ملتان میں جمعیت کے کارکن طارق جاوید کو قتل کیا گیا۔
ایک طویل فہرست ہے جو یہاں تحریر کی جا سکتی ہے۔ یہ سب میں نے اس لیے تحریر کیا کہ جمعیت کے جرائم لکھنے کے لیے کئی سو لبرل‘ سیکولر اور روشن خیال دانشور موجود ہیں جو پاکستان کے عوام کو صرف ایک چہرہ دکھانے کے عادی ہیں کہ صرف مذہب کا نام لیوا ہی متشدد ہوتاہے لیکن اس قوم نے جتنا تشدد اور جس قدر بربریت قوم اور نسل کی بنیاد پر برداشت کی ہے اس کا حساب کرنا ہی نا ممکن ہے۔ پاکستان میں یہ نسل پرستی اتحاد‘ سیکولر ازم‘ کمیونزم اور لبرل ازم کے لبادے میں ہم پر مسلط ہوتا ہے۔ ان نظریات کو ایک تعصب چاہیے ہوتا ہے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ اگر لوگوں نے اسلام یا دین کا تعصب اختیار کر دیا تو یہ ایک دن ہمارے خلاف متحد ہو سکتے ہیں‘ یہ اپنے اختلاف بھلا بھی سکتے ہیں‘ یہ قادنیوں کے خلاف متحدہ ہوئے تھے تو آج تک آئینی ترمیم ہمارے گلے کی ہڈی ہے‘ یہ قرار داد مقاصد منظور کروائے گئے تھے۔ عوام کو کیمونزم یا سیکولر ازم سمجھ نہیں آتا لیکن بلوچ‘ پشتون اور سندھی پنجابی تعصب ضرور سمجھ آتا ہے۔ لیکن قوم پرستی ایسا ناسور ہے کہ یہ برادری‘ گوت اور قبیلے تک جاتا ہے۔
رئیسانی اور رند‘ سلیمان خیل، مندو خیل  اچکزئی اور غیبے زئی‘ جاٹ اور گجر‘ مہر اور چانڈیو لڑنے لگتے ہیں اور لاکھوں لوگ قتل ہوتے ہیں اور ہزاروں گھرانے برباد۔ لیکن یہ نعرہ ہر اس شخص کو پسند آتا ہے جو اسلام یا مسلمان کو ایک اساس پر اکٹھا نہیں دیکھنا چاہتا۔ ہم تین ہزار سال سے پشتون بلوچ‘ پنجابی اور سندھی ہیں‘ چودہ سو سال سے مسلمان اور 70 سال سے پاکستانی ایک ایسا نعرہ ہے جو رسول اکرم ﷺ کے مقابلے میں ابوجہل اور ابو لہب نے پیش کیا تھا‘ اور ذلت آمیز شکست کھائی تھی۔  یہی نعرہ چودہ صدیاں بعد کیمونزم کے کندھے پر سوار ہو کر جمال عبدالناصر کے حصہ میں آیا جب اس نے کہا ہم تین ہزار سال سے فرعون کی اولاد ہیں۔
عربوں نے عصبیت کا نعرہ بلند کیا۔ ہر قبیلے کا ملک بنا اور آج ان پر ذلت مسلط ہو چکی۔ نسل اور قوم پرستی ایک ایسا ناسور ہے جس کی وجہ سے پہلی جنگ عظیم اور دوسری جنگ عظیم میں کروڑڑوں لوگ لقمہ اجل بنے اور پھر جب اس نسل اور قوم پرستی کے گھوڑے پر سیکولرازم‘ لبرل ازم اور کمیونزم سوار ہو جاتے تو وہ اسے عظیم جدوجہد کا نام دے دیتے ہیں۔ سید الانبیاﷺ نے فرمایا ’’جو عصبیت کی خاطر غیظ و غضب میں مبتلا ہو رہا تھا یا عصبیت کی خاطر لڑائی لڑ رہا تھا یا عصبیت کی خاطر بلاوا دے رہا تھا تو اس کی موت جاہلیت کی موت ہے (مسند احمد)۔ جاہلیت کی موت ابوجہل اور ابولہب کی موت۔ شاید کوئی مسلمان یہ موت نہ مرنا چاہے لیکن انھیں اس کی کوئی خبر ہی نہیں ہونے دیتا۔