حقائق
السلام علیکم..طلحہ السیف (شمارہ 503)
قرآن جہاد کی طرف بلاتا ہے…
ہر اسلوب بروئے کار لا کر…ترغیب بھی ترہیب بھی… وعدہ بھی وعید بھی…
تفہیم بھی تحریض بھی…
اور شیطان جہاد سے روکتا ہے…ہر حربہ بروئے کار لا کر…
وساوس بھی تلبیس بھی… تخویف بھی تعویق بھی…
پھر دیکھا جاتا ہے کہ کون کس کی بات مان کر اپنے لئے کیا سامان کرتا ہے…
سب سے پہلی رکاوٹ اور سب سے اولین وسوسہ جو حکم جہاد کے سنتے ہی شیطان کان میں پھونکتا ہے…
وہ ہے موت کا خوف…
جہاد میں لڑائی ہے…خوفناک دشمن اور اس کے تباہ کن اسلحہ کا سامنا ہے…
جہاد میں جاؤ گے تو مارے جاؤ گے…
شیطان خود بھی سمجھاتا ہے اور اپنے انسانی چیلوں کو بھی اسی مہم پر متحرک کرتا ہے…اسے سمجھاؤ جائے گا تو مارا جائے گا…
اب جہاد کا ارادہ کرنے والے کو اپنے اندر سے بھی اور باہر ہر طرف سے بھی بس یہی آواز سنائی دے گی کہ مت جاؤ …جاؤ گے تو مارے جاؤ گے…
مگر قرآن پڑھو…
قرآن یہ مسئلہ اچھی طرح سمجھاتا ہے…
سورۃ البقرۃ…دوسرا پارہ…آخری دو رکوع…ایک پوری قوم کا قصہ ہے…حکم جہاد آیا تو سب سے پہلے یہی بات دل میں آئی…جائیں گے تو مارے جائیں گے… عملی جواب دکھا کر انہیں بھی اور ان کی وساطت سے قیامت تک سب انسانوں کو سمجھا دیا گیا… قوم ابھی جہاد پر نکلی نہ تھی کہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے سب مر گئے…پھر زندہ کرکے ایک حقیقت سمجھائی گئی…
’’اور اللہ تعالیٰ ہی زندہ کرتا ہے اور وہی مارتا ہے‘‘ ( البقرۃ)
حقیقت سمجھانے کے بعد حکم دیا گیا:
’’اور قتال کرو اللہ تعالیٰ کے راستے میں اور جان لو اللہ تعالیٰ سننے والا جاننے والا ہے‘‘ ( البقرۃ)
جنہیں حقیقت سمجھ آ گئی اور وہ یہ جان کر نکل گئے کہ زندگی موت کا مالک اللہ تعالیٰ ہے…چاہے تو گھر بیٹھے مار دے اور چاہے تو سپر پاور سے لڑا کر زندہ لوٹا دے…انجام کیا ہوا؟…
لڑائی ہوئی،غلبہ ملا، صدیوں کی غلامی سے نجات ملی،رہنے کو عزت والی زمین ملی،بادشاہت ملی اور پورے لشکر میں کسی کو خراش تک نہ آئی…
دوسری حقیقت اسی سورۃ البقرۃ میں ہی سمجھائی گئی کہ شیطان کہتا ہے جہاد میں جاؤ گے تو مارے جاؤ گے…لوگ کہتے ہیں کہ مت جاؤ مارے جاؤ گے…قرٓن کہتا ہے جو جہاد میں نکلا اور مارا گیا بس وہی انسان ایسا ہے جسے موت نہیں آئے گی۔ جو مردہ نہ کہلائے گا۔باقی سب مارے جائیں گے یا مر جائیں گے…جو بھی ہوں جہاں بھی ہوں جیسے بھی ہوں…
تیسری حقیقت اگلی سورت آل عمران میں سمجھائی گئی…
کچھ دانشور اور محلے کے بابے کہتے تھے:
’’( جہاد میں جا کر شہید ہو جانے والے) اگر ہمارے پاس رہتے تو نہ مرتے نہ قتل کئے جاتے‘‘( آل عمران ۱۵۶)
غزوہ احد میں شہید ہونے والوں کے بارے میں انہوں نے ان کے ورثہ سے کہا:
’’اگر یہ ہماری بات مان لیتے تو قتل نہ ہوتے‘‘ ( آل عمران ۱۶۸)
اللہ تعالیٰ نے ان کا جواب سکھا دیا:
’’(ان سے) کہہ دو اپنے اوپر موت کو ہٹا دو اگر تم سچے ہو‘‘ ( آل عمران ۱۶۸)
حقیقت انہیں سنا دی گئی…
یہ دانشور اور بابے ہر گلی،ہر محلے اور ظلم یہ کہ ہر مسجد میں پائے جاتے ہیں اور یہی بات کہتے ہیں…
یہ لوگ حقیقت کو کیوں نہیں سمجھتے؟…
ہاں! اگر یہ واضح حقائق ہر کسی کو سمجھ آتے تو دنیا میں گمراہ کوئی نہ ہوتا… حقائق، اٹل حقائق،واضح اور روشن حقائق سے اغماض کی روش ہی تو جادۂ حق سے ہٹاتی ہے…اللہ تعالیٰ بچائے…
زندگی موت کا یہ فلسفہ کسی اور کو سمجھ نہیں آتا تو عجیب لیکن کراچی والوں کو سمجھ نہیں آتا تو عجیب تر…جہاں روزانہ ٹارگٹ کلنگ میں مرنے والوں کی تعداد دنیا کے تمام محاذوں پر مجموعی طور پر شہید ہونے والے مجاہدوں سے زیادہ ہے…
جہاں روزانہ ہسپتالوں میں مرنے والے دنیا بھر کے شہداء سے زیادہ ہیں…وہاں کے رہنے والے بھی کہتے ہیں جہاد میں نہ جاؤ…جاؤ گے تو مارے جاؤ گے…فیا للعجب…
انہیں یہ حقائق کون سمجھائے گا؟…
۹۸ء کی بات ہے…افغانستان کے مزار شریف کے محاذ پر ہمارے ساتھ ایک ساتھی ہوا کرتا تھا۔ بہت چلبلا اور چٹکلے باز… بعد میں کشمیر میں جام شہادت نوش کیا۔اللہ تعالیٰ اسے اعلیٰ شہداء کا مقام نصیب فرمائے۔ اس نے اپنا واقعہ سنایا۔ پہلی بار جب جہاد میں آ رہا تھا تو والد اجازت نہ دیتے تھے۔ بہت عرصے کی ضد کے بعد کچھ راضی ہوئے تو محلے کے ایک بابا جی نے بہت شور شرابا کیا اور ساری حجت بازی کا زور اس نکتے پر تھا کہ یہ گیا تو مارا جائے گا۔ کہنے لگا میں نے اللہ تعالیٰ کے بھروسے والد سے کہا کہ مجھے اجازت دے دیجئے۔ آپ دیکھ لیجئے گا میں محاذ سے زندہ واپس آ جاؤں گا اور یہ بابا جی اس وقت زندہ نہ ہوں گے۔ والد نے اجازت دے دی۔ یہ کئی ماہ محاصرے کی حالت میں لڑائی میں مشغول رہے پھر چھٹی پر گھر آئے۔قسمت کی بات کہ وہ بابا جی مر چکے تھے۔والد صاحب کو بات سمجھ آ گئی اور اگلی بار خود تیار کر کے کشمیر روانہ کیا۔
بات میں کراچی والوں کی کر رہا تھا۔قلم اور جانب بھٹک رہا ہے…
کراچی میں پچھلے دنوں گرمی کی سخت لہر آئی۔ہزاروں لوگ لقمہ اجل بن گئے۔اللہ تعالیٰ ان سب کی مغفرت فرمائے۔آمین۔ جس شہر میں بجلی بھی ہے،پنکھے بھی،اے سی بھی اور پانی بھی،سایہ بھی وہاں گرمی ہزاروں لوگوں کو نگل گئی…لیکن کراچی کے ہی ایک نوجوان کے ساتھ ایک واقعہ پیش آیا ہے…حقیقت سمجھنے کی نیت اور تڑپ ہو تو اس سے مل لیجئے بات دل میں اتر جائے گی ان شاء اللہ…
یہ نوجوان رمضان المبارک سے ایک دن قبل ہلمند کے دشت میں محاذ کی طرف محو سفر تھا۔راستے میں کمین میں پھنس گیا۔ہر طرف ہزاروں گولیاں برس رہی تھیں اور خونخوار وحشی دشمن تاک میں تھے ۔ اس کے کچھ ساتھی شہید ہو گئے اور کچھ گھیرا توڑ کر آگے نکل گئے…یہ نوجوان اس دشت میں بے یارومددگار بھٹک گیا۔نہ اسے راستے کا علم تھا نہ منزل کی خبر…شدید گرمی اور لق و دق صحرا… اور یہ صحراء اتنا ظالم اور قاتل ہے کہ مقامی لوگوں میں اس کے بارے میں ضرب المثل مشہور ہے:
’’ یہ وہ صحرا ہے جو صحرائی جانوروں کو بھی زندہ نہیں چھوڑتا…‘‘
اور اس محاورے کی صداقت کی سب سے بڑی دلیل اس دشت میں جگہ جگہ اونٹوں کی لاشیں اور ڈھانچے بکھرے پڑے ہیں… یہ نوجوان تین دن سخت گرمی میں اس صحرا میں سفر کرتا رہا…نہ پانی تھا اور نہ سایہ…لیکن وہ زندہ سلامت اپنے ساتھیوں تک پہنچ گیا اور اب سنا ہے کراچی بھی پہنچ گیا ہے…
اللہ تعالیٰ ہر مسلمان پر رحم فرمائے۔ہر مومن کی مغفرت فرمائے۔ جس حال میں اور جس طرح بھی موت آئے اسے مغفرت اور بخشش نصیب ہو… لیکن مسلمانو! یوں مت کہو کہ جہاد میں موت ہے…
اللہ تعالیٰ نے اسے منافقین کا نظریہ قرار دیا ہے اور اس بات پر ناراضگی کا اظہار فرمایا ہے…
خود بھی یہ سوچ کر جہاد سے نہ رکو…کسی اور کو بھی مت روکو…
دیکھو!
جن کی موت کا وقت آ گیا تھا وہ کراچی کی گرمی نہ سہہ سکے اور سہولتوں بھرے شہر میں چل بسے اور اللہ تعالیٰ کے راستے کا مجاہد صحرائے ہلمندکی گرمی اور پیاس سہہ کر گولیوں کی بوچھاڑ سے گزر کر گھر پہنچ گیا…
دیکھو!
جن کا بچپن میں مرنا مقدر تھا وہ جوان نہ ہو سکے…جنہوں نے جوانی میں جانا تھا وہ بڑھاپا نہ پا سکے اور بوڑھے اپنی بہت سی خواہشات سینوں میں دبائے ایک لمحہ مزید نہ جی سکے…
دیکھو!
جن کا شہروں میں مرنا مقدر تھا وہ جہاد کی طرف رخ کئے بغیر اپنے اپنے وقت پر چل دئیے…
دیکھو!
۱۰۰ لوگ اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد میں جاتے ہیں کم از کم ننانوے گھروں کو صحیح سالم لوٹ آتے ہیں اور پیچھے رہ کر مر جانے والوں کی شرح اس سے کئی گنا زیادہ ہے…
ان اٹل حقائق کو دیکھو اور پھر قرآن کی بات سنو وہ سمجھا رہا ہے:
’’ اور اللہ تعالیٰ ہی زندہ کرتا ہے اور وہی مارتا ہے‘‘ ( البقرۃ)
وہ یہ حقیقت سمجھا کر ساتھ ہی دعوت دے رہا ہے:
’’ اور اللہ تعالیٰ کے راستے میں قتال کرو اور جان لو اللہ تعالیٰ سننے والا جاننے والا ہے‘‘ ( البقرۃ)
٭…٭…٭
مغفرت اور اونچا کام
السلام علیکم..طلحہ السیف (شمارہ 502)
رمضان المبارک کادوسرا عشرہ جاری ہے، احادیث مبارکہ کی رو سے یہ عشرہ مغفرت والا عشرہ ہے۔ ان دس ایام میں اﷲ رب العزت کی مغفرتیں زمین والوں پر برستی ہیں، جی ہاں! غفور ورحیم رب کی بے پایاں رحمتیں،اور مغفرتیں، وہ رحمت ومغفرت جن کا ایک ذرہ گناہوں کے سمندروں کو خشک کردیتا ہے۔ وہ مغفرت جس سے معمور ایک نظر جبال تہامہ کے برابر گناہوں کو ریزہ ریزہ کرکے مٹادیتی ہے۔ وہ مغفرت جو ڈاکوؤں، زانیوں، شرابیوں اور سود خوروں کو پل بھر میں ولایت کبریٰ پر فائز کردیتی ہے، وہ مغفرت جو کسی سبب کی محتاج نہیں بلکہ جب چاہے کسی کے سر پر برس جائے، سوتے ، جاگتے، اٹھتے، بیٹھتے۔ کیا یہ کم عنایت ہے کہ توبہ کا درازہ بند نہیں کیا بلکہ پکار پکار کر بلا رہے ہیں، اے میرے گنہگار بندے! الذین اسرفوا علی انفسہم۔ اے میرے وہ بندے جس نے اپنے آپ پر زیادتی کی، گناہوں کے ذریعے خو کو جہنم کی آگ اور قبر کے عذاب کا حق دار بنایا، اے میرے بندے! آجا! لوٹ آ! لا تقنطوا من رحمۃ اﷲ۔ میری رحمت سے مایوس نہ ہو۔ توبہ کرلے، اگر تونے ۱۰۰ قتل کیے ہیں تب بھی مایوس نہ ہو، زنا کرکے مجھے ناراض کیا ہے تب بھی دل نہ ہار، اور بھی کبائر کا ارتکاب کرکے میرے غضب کو دعوت دی ہے، میری رحمت سے مایوس نہ ہو۔ ان اﷲ یغفر الذنوب جمیعاً۔ بے شک اﷲ تعالیٰ سب گناہوں کو معاف فرمانے والے ہیں۔ بندو! رب کی رحمت کی طرف آؤ، وہ فرماتے ہیں تم ایک بالشت آؤ وہ ایک ذراع آئیں گے، تم ایک ذراع کی بقدر آگے بڑھو وہ ایک پھلانگ کی بقدر تمہاری طرف بڑھیں گے، تم چل کر جاؤ رب کی رحمت دوڑ کر تمہاری سمت آئے گی۔ وہ فرماتے ہیں: رحمتی سبقت غضبی۔ میرے رحمت میرے غضب پر سبقت لے گئی ہے، جتنا بھی ناراض کیا ہے بس ایک بار نیت کرو کہ اب نہیں کروں گا، رحمت فوراً غضب سے آگے بڑھ جائے گی، غصے کی آگ ٹھنڈی ہوجائے گی، رحمت کے پھول کھل اٹھیں گے، جہنم ماتم کرے گی اور جنت اور اس کے ساکنین خوشیاں منائیں گے۔
دیکھو! اﷲ نے اپنی رحمت کے ۱۰۰ حصے کیے، ننانوے حصے اپنے پاس رکھے ایک حصہ اپنی مخلوقات میں تقسیم فرمادیا، وہی ایک حصہ ماں کی شفقت، باپ کی رأفت بیوی بچوں کی محبت کی شکل میں دیکھ لو اور پھر اپنے رب کی رحمت کا اندازہ لگاؤ۔ ماں باپ اپنے بچوں کو ادنیٰ سی تکلیف میں نہیں دیکھ سکتے، اس کی بے چینی کو برداشت نہیں کرسکتے، تھوڑے سے بخار کی حرارت اس کیلئے پسند نہیں کرتے کیا وہ اﷲ جو ان سے ننانوے گنا زیادہ محبت اور شفقت والے ہیں، اپنے بندوں کو آگ کا عذاب دے کر خوش ہوں گے؟ نہیں نہیں! ہر گز نہیں۔ سنو! اﷲ رب العزت کس بات سے خوش ہوتے ہیں:
آقا مدنی صلی اﷲ علیہ وسلم فرماتے ہیں، ’’اﷲ رب العزت کو اپنے اس بندے پر اتنی خوشی ہوتی ہے جو گناہوں سے توبہ کرکے اس کی رحمت مانگے۔ جتنی خوشی اس مسافر کوہوتی ہے جو لق ودق صحرا میں اونٹنی پرسوار ہو کر جارہا ہو، تھکن کی وجہ سے آرام کرنے کو رُکے اور اس کی اونٹنی بھاگ جائے، پیاس اور تھکاوٹ سے چور ہو، مایوس ہو کر موت کے انتظار میں سو جائے، جب بیدار ہو تو دیکھے کہ اونٹنی پاس ہی کھڑی ہے اور اس پر پانی بھی موجود ہے، فرط مسرت میں زبان پر قابو نہ رہے اور یوں کہہ دے یا اﷲ تو میرا بندہ اور میں تیرا اﷲ‘‘
یعنی خوشی سے اتنا بے قابو ہوجائے کہ الفاظ پر اختیار نہ رہے، میرے اﷲ اپنے تائب اور رحمت کے طلبگار بندے پر اس طرح خوش ہوتے ہیں۔
قیامت کے دن بندوں کے اعمال کا حساب کتاب ہونا ہے، اس میں رحمت دیکھئے، ایک نیکی بڑھتے بڑھتے سات سو گنا یا اس سے بھی زیادہ بڑھا کر ترازو میں رکھی جائے گی جبکہ گناہ کی مقدار ایک ہی رہے گی، فرائض کم پڑیں گے تو نوافل کا رتبہ بڑھا کر ان کی کمی پوری کی جائے گی، ایک تسبیح کا کلمہ میزان میں بڑے بڑے گناہوں پر بھاری پڑ جائے گا۔ یہ سب ہمارے رب کی رحمت ہے۔
حساب کتاب ختم ہونے کے بعد جب لوگ جنت اور جہنم میں ڈال دیئے جائیں گے تب جنت شکایت کرے گی! یا اﷲ میرے دامن میں تو ابھی کافی وسعت ہے جبکہ جنتی آنا بند ہوگئے ہیں، اﷲ رب العزت اس کی درخواست پر جہنم سے تین لپیں بھر کر لوگوں کو نکال کر اپنی رحمت سے جنت میں داخل فرمادیںگے، جنت پھر بھی کہے گی کہ جگہ ابھی باقی ہے۔ اﷲ رحمن ورحیم ایک نئی مخلوق پیدا فرمائیں گے اور انہیں بغیر عمل اور بغیر حساب وکتاب جنت میں داخل فرماکر اس کا دامن بھر دیں گے۔
جبکہ جہنم جب کہے گی کہ میرا پیٹ ابھی نہیں بھرا اور مجھ میں گنجائش باقی ہے تو اﷲ رب العزت اس پر اپنا پاؤں ماریں گے جس سے وہ سکڑ جائے گی اور اس کی گنجائش ختم ہوجائے گی، یہ ہے ان کی وہ رحمت جو غضب پر سبقت لے گئی ہے۔ ہے کوئی اس کی طرف دوڑنے والا؟
لیکن یہ بات یاد رکھنا ضروری ہے کہ دنیا میں بندوں پر ان کی رحمت کی شکلیں مختلف ہوتی ہیں، وہ کبھی آسودگی کے ذریعے رحمت فرماتے ہیں کبھی فقر وفاقہ کے ذریعے، کہیں ان کی رحمت عطا کی شکل میں کہیں بلا کی شکل میں، بدر بھی رحمت، احد بھی رحمت، فتح بھی رحمت، ظاہری شکست بھی رحمت، جی ہاں! وہ بندوں کو جس حال میں بھی رکھتے ہیں وہ رحمت ہوتا ہے بشرطیکہ بندے غور کریں۔ وہ نعمتوں کی بارش، فتح ونصرت اور غنائم کی کثرت کے ذریعے رحمت فرماتے ہیں تاکہ بندے شکر کریں اور ان کے ایمان مضبوط ہوں۔ اور کبھی ظاہری شکست، اموات کی کثرت، امراض کی شدت اور اموال کی قلت کو رحمت بناتے ہیں کہ بندے ان کی طرف متوجہ ہوں، گناہوں سے توبہ کریں، روئیں گڑگڑائیں، بندگی کا اظہار کریں، تاکہ ان کے ایمان خالص ہوجائیں۔ بندہ وہی ہے جو ان کے ہر سلوک کو رحمت سمجھے اور بندگی کے دائرے میں رہے، قرآن میں جگہ جگہ یہ مضمون ارشاد فرمایا گیا ہے۔ غور کیجئے! اگر تکلیف ان کی رحمت نہ ہوتی تو شہادت کو اتنا اونچا مقام کیسے نصیب ہوتا؟ تلواروں کے زخم، نیزوں کے گھاؤ، تیروںاور گولیوں کے سوراخ، کہیں ٹکڑے ٹکڑے کیے جانے کی اذیت، جیلیں کوڑے اور اﷲ کے راستے کی دربدری یہ سب چیزیں نعمت نہ ہوتیں تو اﷲ کے نیک بندوں کے حصے میں کیوں آتیں؟
اﷲ کے بندے تو یوں کہتے ہیں کہ ہر وہ چیز جو محبوب سے ملادے اور محبوب بھی اﷲ رب العزت جیسا وہ رحمت ہے، خواہ وہ کسی بھی شکل میں ہو۔ ہمارے ملک میں زلزلہ آیا ہوا ہے ہزاروں لوگ جاں بحق ہوگئے ہیں، کتنے ان میںسے روزے کی حالت میں اﷲ رب العزت کے حضور پیش ہوئے، بعض روایات میں بوجھ تلے دب کر مرنے والوں کو شہید کہا گیا ہے۔ اﷲ رب العزت نے ہزاروں لوگوں کو روزے کی حالت میں شہادت دے دی ان کیلئے رحمت ہے۔ کتنے گنہگاروں کو ان واقعات سے تنبیہ ہوگی، موت اور آخرت کی یاد ان کے دلوں میں بیدار ہوگی، گناہوں سے توبہ کی توفیق ہوگی، فکر آخرت نصیب ہوگی، ان کے لیے رحمت ہی رحمت ہے۔ کتنے مسلمان اپنے پاک اموال سے بے گھر ہوجانے والے مسلمانوں کی مدد کریں گے اور ایثار وقربانی کی عظیم مثالیں قائم کریں گے۔ ان کیلئے رحمتیں ہی رحمتیں ہیں۔
سب سے ضروری بات یہ ہے کہ اپنے اعمال کا محاسبہ کریں، توبہ کرکے غضب کے دروازے بند کردیں اور رحمت کی بارش اﷲ سے مانگیں، یقینا گناہوں سے رحمت دور ہوجاتی ہے لیکن توبہ اسے فوراً واپس لے آتی ہے۔حضرت موسیٰ علیہ السلام ایک مرتبہ اپنی قوم کے ساتھ بارش کی دعاء مانگنے نکلے،ساری قوم مع اپنے نبی کے رو رو کر بارش مانگتے رہے لیکن کچھ اثر نہ ہوا۔ اﷲ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو وحی فرمائی کہ قوم میں ایک گنہگار ایساموجود ہے جس کی وجہ سے بارش منقطع ہے وہ نکل جائے تو میری رحمت کی بارش آجائے گی، موسیٰ علیہ السلام نے قوم میں اعلان فرمادیا کہ وہ شخص نکل جائے تاکہ باقی لوگ رحمت سے محروم نہ رہیں۔ سب قوم کی نظریں اٹھ گئیں کہ دیکھیں کون اتنا بڑا نافرمان ہے جس کی وجہ سے پوری قوم سے رحمت دور ہوگئی، مجمع میں سے کوئی بھی نہ نکلا تھا کہ بارش شروع ہوگئی، موسیٰ علیہ السلام نے اﷲ تعالیٰ سے سوال کیا یا اﷲ! یہ کیا ماجرا ہوا؟ نکلا تو کوئی نہیں تھا اور بارش ہوگئی؟ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا اے موسیٰ! میرے اس بندے نے توبہ کرلی میری رحمت نے گوارہ نہ کیا کہ اس کی اب پردہ دری کروں۔
سبحان اﷲ سبحان اﷲ سبحان اﷲ، رحمت کی وسعت دیکھئے، ادھر توبہ کی اور ادھر رحمت ومغفرت متوجہ ہوئی، اور پھر اسی گھڑی میں اتنا تقرب کہ اب اپنے نبی کو بھی اس کی اطلاع دینا گوارہ نہیں کہ گنہگار تھا کون۔
ہم سب گنہگار ہیں، ہم نے اپنے رب کو ناراض کیا ہے، اس کی رحمت کو دور کیا ہے، آئیں! رمضان اﷲ کا بہت مقرب مہینہ ہے اسے گواہ بنا کر توبہ کرلیں، سچی اور پکی توبہ، پھر ہم بھی اپنے رب کی رحمتوں اور مغفرتوں کے مزے لوٹیں، امارت اسلامیہ کی رحمت واپس مل جائے، مجاہدین پر سے پابندیاں ہٹ جائیں، غلامی کی ذلت دور ہوجائے، مدارس آزاد ہوجائیں، اچھے حکمران نصیب ہوجائیں، آسمانی بلائیں ٹل جائیں، بس ہر طرف رحمتیں ہی رحمتیں اور مغفرتیں ہی مغفرتیں ہوں۔ اللہم اغفرلنا و ارحمنا ۔ اللہم اغفرلنا و ارحمنا ۔ اللہم اغفر لنا و ارحمنا برحمتک یا ارحم الراحمین
بھائیو!رمضان المبارک کے ایام تیزی سے گزرتے جارہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ توفیق دے کہ ہم سب اسے خوب کمالیں۔ نیکیوں کا یہ موسم بہت جلد گزر جاتا ہے، خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو اس کے دنوں اور راتوںکو اچھے اعمال کے ذریعے قیمتی بنا لیتے ہیں اور بخشش کے پروانے پا لیتے ہیں۔ اس مہینے کے تین عشروں کی الگ الگ خصوصیات حدیث میں وارد ہوئی ہیں۔ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا اس مہینے کا پہلا عشرہ رحمت ہے، دوسرا عشرہ مغفرت ہے اور تیسرا عشرہ جہنم سے آزادی ہے۔ رحمتوں والا عشرہ ختم ہونے والا ہے بلکہ یہ اخبار آپ کے ہاتھ آنے تک مکمل ہو چکا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ توفیق بخشیں کہ ہم سب خوب رحمتوں کے مستحق ہوئے ہوں۔
وہ اعمال جن پر اللہ رب العزت کی رحمت خصوصیت کے ساتھ متوجہ ہوتی ہے ان میں ’’جہاد‘‘ کا عمل سر فہرست ہے۔ اللہ رب العزت نے قرآن پاک میں کئی جگہ پر مجاہدین کے لئے خصوصی رحمت کا وعدہ فرمایا ہے، لہذا وہ لوگ جو اس ماہ مقدس کی ساعات کو ’’عمل جہاد‘‘ میں خرچ کر رہے ہیں خصوصی مبارکباد کے مستحق ہیں۔ اس مہینے کی خصوصیات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس میں نفل اعمال کا ثواب فرض کے برابر اور فرض کا اجر ستر گنا بڑھا دیا جاتا ہے۔ جہاد اللہ تعالیٰ کے محکم فرائض میں سے ایک ہے اور قرآن مجید میں دو جگہ اسے واضح الفاظ میں دیگر تمام اعمال سے افضل بتایا گیا ہے، ایک جگہ سورۃ النساء میں اور دوسری جگہ سورۃ التوبۃ میں اور پھر یہ ایسا فریضہ ہے جسے مٹانے پر زور صرف کیا جا رہا ہے اور امت مسلمہ عمومی طور پر اس کے بارے میں غفلت کا شکار ہے۔ ایسے میں کسی فریضے کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ اس کی ادائیگی پر ایک ثواب تو فرض پورا کرنے کا ملتا ہے اور دوسرا بڑا ثواب احیاء دین کا ملتا ہے اور پھر اس مبارک عمل کو اگر رمضان کے دنوں میں ادا کیا جا رہا ہو تو کیا ہی کہنے۔ اس کے اجرو ثواب کا حساب کرنا کسی انسانی کمپیوٹر اور کیلکولیٹر تو کیا دماغ کے لئے صرف تصور کر لینا بھی محال ہوگا۔ جہاد کی دعوت بھی اللہ تعالیٰ کے فرمودہ اعمال میں سے ہے، اس کام میں لگے لوگ بھی رمضان میں خوب ہمت اور محنت سے کام لیں اور خوب خوب اجر حاصل کریں۔ اسی طرح جہاد کی تقویت اور مجاہدین کے لئے اموال جمع کرنا بھی نبی کریم ﷺ کی پیاری سنت ہے۔ ہمارے آقا ﷺ نے خود جہاد کے لئے مال مانگا۔ اس کام میں جڑے ساتھی بھی مبارکباد کے مستحق ہیں کہ انہیں رمضان میں سنت پر عمل کرنے کا موقع مل رہا ہے وہ بھی اللہ تعالیٰ کی انشاء اللہ خصوصی رحمتیں لوٹ رہے ہوںگے۔ مال مانگنا بظاہر ایک عیب کا کام ہے لیکن جہاد کے لئے مال مانگنا قطعاً عیب یا عار نہیں ہو سکتا کیونکہ اس کائنات کے سب اعلیٰ، ارفع، غیور اور عزت والے انسان حضرت محمد ﷺ نے یہ کام کیا ، اگر اس میں کوئی عار ہوتی تو آقا ﷺ کو کبھی اسکا حکم نہ دیا جاتا اس لئے اس کام کو عیب سمجھنے والے لوگ اپنے ایمان اور عقیدے کی اصلاح کریں۔ نبی کریم ﷺ کے زمانے میں بھی منافقین نے اسے عار سمجھا اور نبی کریم ﷺ پر زبانیں چلائیں۔ سو اگر اس کام میں جڑے کسی بھائی کو ایسی کسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑ جائے تو اس پر بھی شکر کرنا چاہیئے کہ سنت ادا ہوئی اور کسی احساسِ کمتری کا قطعاً شکار نہ ہوں کہ یہ بہت اونچا کام ہے اس کی نسبت آقا مدنی ﷺ کی طرف ہے۔
٭…٭…٭
رحمت پالیجئے!
السلام علیکم..طلحہ السیف (شمارہ 501)
شکر پروردگارِ عالَم کا جس نے ہمیں ایک بار پھر اپنی زندگی میں رمضان المبارک نصیب فرمایا
کبھی ہم نے یہ سوچا کہ نبی کریمﷺ کی زندگی میں جب رمضان آتا توآپﷺ کا طرزعمل کیا ہوتا تھا؟
تو سنیے ہماری پیاری امی سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں
’’جب رمضان کا مہینہ شروع ہوجاتا نبی کریمﷺ کا رنگ مبارک بدل جاتا، آپ کی نمازوں میں زیادتی ہوجاتی تھی اور دعاء میں تضرع وزاری بڑھ جاتی تھی اور آپﷺ کا رنگ سرخ ہوجاتا تھا‘‘۔
انہی سے ہی ایک اور روایت ہے:
’’جب رمضان کا مہینہ داخل ہوجاتا تو رسول اللہﷺ اپنا ازار کس لیتے، پھر اپنے بستر پر تشریف نہ لاتے یہاں تک کہ رمضان گزر جاتا‘‘۔
رمضان المبارک میں دن کی عبادت روزہ ہے، نبی کریمﷺ نے فرمایا:
’’جس نے رمضان کے روزے ایمان کی حالت میں اللہ تعالیٰ سے ثواب کی امید رکھتے ہوئے رکھے اس کے اگلے پچھلے گناہ معاف کردیئے جائیں گے‘‘۔
اور جس نے اس میں کوتاہی کی، نبی کریمﷺ نے فرمایا:
’’جو شخص قصداً بلاکسی عذر کے ایک دن بھی رمضان کا روزہ چھوڑ دے تو پھر رمضان کے علاوہ چاہے تمام عمر کے روزے رکھے اس کا بدل نہیں ہوسکتا‘‘۔
رمضان میں رات کی عبادت قیام ہے، نبی کریمﷺ نے فرمایا:
’’جس نے رمضان کی راتوں میں ایمان کی حالت میں اللہ تعالیٰ سے ثواب کی امید رکھتے ہوئے قیام کیا اس کے اگلے پچھلے تمام گناہ معاف کردیئے جائیں گے‘‘۔
اور قرآن پاک کے ساتھ تو اس ماہِ مبارک کا بہت گہرا اور خاص تعلق ہے۔
’’رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن اتارا گیا‘‘۔ (القرآن)
’’ہم نے اس قرآن کو لیلۃ القدر میں نازل کیا‘‘۔ (القرآن)
اور ’’لیلۃ القدر‘‘ کا زیادہ احتمال رمضان المبارک میں ہی ہے۔
رمضان المبارک قرآن کا مہینہ ہے اس لئے اس میں دن رات قرآن پاک کی کثرت کی جائے، یہ قرآن اس مبارک مہینے کی مقدس ساعات میں زمین پر اترا، ہم ان ساعات میں اس کا خوب ورد کریں اس دعاء کے ساتھ کہ یہ ہمارے دل میں اتر جائے، ہم صبح شام قرآن مجید کی خوب تلاوت کریں اور نبی کریمﷺ کی اس مسنون دعاء کا بھی معمول بنائیں اور پورے کیف و سرور کے ساتھ یہ دعاء کیا کریں۔
’’اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ عَبْدُکَ اِبْنُ عَبْدِکَ اِبْنُ اَمَتِکَ نَاصِیَتِی بِیَدِکَ مَاضٍ فِیَّ حُکْمُکَ عَدْلٌ فِیَّ قَضَائُ کَ اَسْأَلُکَ بِکُلِّ إسْمٍ ہُوَلَکَ سَمَّیْتَ بِہٖ نَفْسَکَ أَوْعَلَّمْتَہُ اَحَدًامِنْ خَلْقِکَ أَوْاَنْزَلْتَہُ فِیْ کِتَابِکَ أَوِ اسْتَأْثَرْتَ بِہٖ فِیْ عِلْمِ الْغَیْبِ عِنْدَکَ اَنْ تَجْعَلَ الْقُرْآنَ الْعَظِیْمَ رَبِیْعَ قَلْبِیْ وَنُوْرَ صَدْرِی وَجَلَائَ حُزْنِیْ وَذَہَابَ ہَمِّی‘‘۔
ہم سب پریشان ہیں، غموں اور مصیبتوں میں مبتلا ہیں، آقا مدنیﷺ نے وعدہ فرمایا ہے کہ میرا جو امتی غم اور پریشانی کے عالم میں یہ دعاء کرے گا اللہ تعالیٰ اس کا غم دور فرما کر اس کے بدلے خوشی اور راحت نصیب فرما دیں گے۔ آج ہر طرف پریشانیوں کا رونا ہے، ہر دل ودماغ پر غموں کا ہجوم ہے، ایسے میں یہ دعاء ہم سب کیلئے خوشی کا ایک پیغام ہے۔ مختصر سی ہے اگر ہم تھوڑی سی ہمت کرکے انہی مسنون الفاظ میں حفظ کرلیں اور معمول بنا لیں اور رمضان المبارک کے قبولیت والے دنوں اور اجابت والی راتوں میں یہ دعاء خوب پڑھیں، خوب مانگیں تو یقیناً تمام غموں سے اورپریشانیوں سے نجات مل جائے گی۔ قرآن کریم جس دل کی بہار، جس سینے کا نور بن جائے غم اس دل میں رہ بھی کیسے سکتے ہیں۔ قرآن کریم تو ہر غم کا علاج ہے، ہر درد کی دوا ہے۔
رمضان المبارک رحمت، مغفرت اور بخشش والا مہینہ ہے۔ اس کا پہلا عشرہ رحمت ہے، اللہ رب العزت کی رحمت اس عشرے کے دوران خوب جوش میں ہوتی ہے اس لئے خوب رحمت مانگی جائے۔ ہم اس وقت فتنوں کا شکار ہیں ہر طرف سے آفات کی زد میں ہیں۔ بلائیں اور فتنے بارش کی طرح ہم پر برس رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی نظرِ رحمت ہی ہمیں ان آفات وبلیات سے نکال سکتی ہے اور ہماری شقادتوں کو سعادتوں سے بدل سکتی ہے اس لئے ہم خوب رو رو کر اس رحمت والے عشرے میں وہ رحمت کی نظر مانگ لیں۔ ایسا نہ ہوکہ یہ قیمتی وقت گزر جائے اور ہماری حالت جوں کی توں رہے، اس کیلئے ضروری ہے کہ ہم خود کو ایسا بنائیں کہ رحمت ہماری طرف متوجہ ہو۔ ایسے اعمال ، ایسے اسباب، ایسا لباس، ایسی ہیبت ترک کردیں جس کی وجہ سے ہم رحمت سے محروم ہوسکتے ہیں۔ ہم اگر علانیہ بغاوتیں جاری رکھیں گے، نبی کریمﷺ کی سنتیں سرعام ذبح کرتے رہیں گے، شعائر اسلام کی توہین کا حسب سابق ارتکاب کرتے رہیں گے، ٹی وی جیسی لعنت سے اپنا تعلق جوڑے رکھیں گے، بے پردہ عورتوں کی تصویروں سے سارے ماحول کو آلودہ کئے رہیں گے تو رحمت کہاں سے نصیب ہوگی؟ ساری دنیا کے مسلم وغیرمسلم ممالک حتیٰ کہ بنگلہ دیش جیسے غریب ملک کے تاجروں نے بھی رمضان المبارک کے احترام میں اپنے صارفین کیلئے اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں رضاکارانہ کمی کردی، کئی ملکوں کی حکومتیں باقاعدہ قانون سازی کرکے عوام کو ریلیف مہیا کررہی ہیں جبکہ ہماری حکومت اور تاجر برادری نے حد درجہ بے رحمی کا ثبوت دیتے ہوئے تمام اشیائے صرف کی قیمتوں میں اضافہ کردیا ہے۔ حدیث شریف میں ہے:
’’رحم کرنے والوں پر اللہ رب العزت رحم فرماتے ہیں، زمین والوں پر رحم کرو آسمانوں والا تم پر رحم کرے گا‘‘۔
چند روپے کا منافع کمانے کیلئے پوری قوم پر بے رحمی سے چھری چلانے والے سوچ لیں کہ اس طرح وہ خود رب کی رحمت سے محروم ہورہے ہیں۔ عوام بیچارے تو جیسے تیسے گزارہ کرلیں گے لیکن یہ محروم لوگ جنہوں نے مال کی خاطر رب کی رحمت سے محرومی خریدی کہاں جائیں گے؟ یہ مال دنیا میں بھی انہیں نصیب نہ ہوگا، ڈاکٹروں کی خوراک بنے گا اور آخرت میں بھی وبال کا ذریعہ بنے گا۔ خیر ان لوگوں کا ذکر چھوڑیں ہم سب اس عشرے میں رحمت حاصل کرنے کی بھرپور جدوجہد کریں۔ خود کو ایسا بنائیں کہ رب کی رحمت متوجہ ہو، ایسے اعمال کریں جن پر رب کی رحمت برسے، دوسروں کے ساتھ ایسا سلوک کریں جو ہم پر رحمت کے نزول کا باعث بنے۔
رمضان جہاد کا مہینہ ہے۔اس بدر کا مہینہ ہے جو قیامت تک کیلئے اہل ایمان اور کفار کیلئے حجت ہے۔ جہاد کیسے ہوگا، اس کا نتیجہ کیا نکلے گا، کون سرفراز اور کون رسوا ہوگا، کسے جنت ملے گی اور کون جہنم کا ایندھن بنے گا، کون اونچے مراتب پائے گا اور کون کتوں کی طرح گھسیٹ کر بدر کے گندے کنویں میں ڈالا جائے گا، طاقت، کثرت، مادیت اور اسباب کے بل بوتے پر میدان میں آنے والوں کا کیا انجام ہو گا اور قلت، بے سروسامانی اور کمزوری کے عالم میںرب کو پکارنے والوں کو کیا ملے گا، یہ سب ہم اس ’’یوم الفرقان‘‘ سے سیکھتے ہیں جسے بدر کا کہا جاتا ہے۔ یہ عظیم معرکہ بھی اسی مقد س مہینے میں پیش آیا، اب جب بھی یہ مہینہ آتا ہے بدر والوں کے وارث اہل ایمان، اہلِ جہاد زمانے کے ابوجہلوں پر جھپٹتے ہیں اور انہیں نشانِ عبرت بناتے ہیں۔ رمضان اور جہاد کا گہرا تعلق ہے جسے مٹایا نہیں جاسکتا نہ بھلایا جاسکتا ہے۔ اس لئے ہم رمضان میں جہاد کے عمل میں ضرور حصہ لیں تاکہ ہماری نسبت بھی اہل بدر کے ساتھ ہوجائے اور ہم اس لشکر کا حصہ بن جائیں جو بدر سے چلا تھا اور دجال کے قتل تک اس کا سفر جاری رہے گا۔ اس لشکر کے جوسپاہی محاذوں پر ہیں وہ دشمنوں پر وار کرکے اس سبق کو زندہ کریں گے۔جو پیچھے ہیں وہ مجاہدین کی خدمت کیلئے اور ان کی پشت مضبوط کرنے کیلئے گلی گلی دعوتِ جہاد دیں گے اور اپنے ان بھائیوں کیلئے اموال واسباب اکٹھے کریں گے اور عام اہل ایمان اپنا مال خرچ کرکے بدر کی نسبت میں شریک ہوجائیں۔ اللہ نے جن کو زیادہ زیادہ دیا ہے وہ بہت سامال دیں گے جن کے پاس کم ہے وہ اسی نسبت سے دیں گے، اللہ تعالیٰ کے ہاں مال کو اس کی تعداد سے نہیں تولا جاتا نہ ہی مقدار دیکھی جاتی ہے بلکہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ دینے والے نے کس حالت اور کیفیت میں دیا ہے، اسی کے موافق اسے اجر سے نوازا جاتا ہے۔ اس طرزِ عمل کو اختیار کرکے انشاء اللہ ہم سب جہاد میں شریک ہوجائیں گے، اس طرح ہمیں رمضان المبارک میں بدر ’’یوم الفرقان‘‘ کی نسبت بھی حاصل ہوجائے گی اور ہمارا رمضان خوب قیمتی ہوجائے گا۔ انشاء اللہ
جہاد میں حصہ لینے والوں کیلئے اللہ رب العزت کی طرف رحمت، مغفرت اور بخشش کا وعدہ ہے۔ قرآن کریم میں کئی جگہ پر یہ مضمون آیا ہے۔ہم رمضان المبارک کی ان ساعات میں جہاد کی محنت میں بھی شریک ہوجائیں تو انشاء اللہ ہمارے لئے رحمتوں اور مغفرتوں کے دروازے کھل جائیں گے۔
اور ہاں! الرحمت کے کارکنان تو ویسے ہی اس وقت آپ کی مساجد اور آپ کے گھروں پر دستک دے رہے ہیں،آپ ان کے لیے دروازے کھول دیجئے، اللہ تعالی کی رحمت کے دروازے آپ کے لیے کھل جائیں گے۔ ان شاء اللہ
٭…٭…٭
اِلیٰ مغفرۃٍ
السلام علیکم..طلحہ السیف (شمارہ 500)
جھوٹ تو کبیرہ گناہ ہے، اُس سے اللہ تعالیٰ کی ہزار پناہ…
مبالغہ آرائی بھی بُرا عمل ہے، اُس سے بھی پناہ…
اب ایک بات سنیے!
میں نے اپنی اب تک کی زندگی میں سینکڑوں کتابوں کا مطالعہ کیا ہے…
نصابی بھی اور غیر نصابی بھی…
مطالعے کی عادت بلکہ ’’لت‘‘ سی لگی ہوئی ہے…
زندگی کا بہت سا عرصہ ایسے کاموں میں گزرا ہے جن کے ساتھ ’’مطالعے‘‘ کی ذرا سی بھی نسبت نہیں…
لیکن ایسے ماحول میں بھی مفید کتابوں کے ساتھ یاری ہمیشہ رہی اور کوئی نہ کوئی کتاب ہرحال میں زیر مطالعہ رہی…
پوری صداقت کے ساتھ عرض ہے کہ مجھے جتنا نفع ’’الیٰ مغفرۃ ‘‘ کے مطالعے سے ہوا، اتنا کسی کتاب سے نہیں ہوا…
اور اب تک ہو رہا ہے…اور اللہ کرے مرتے دَم تک ہوتا رہے…
دِل کو جو کیفیت ملی…اب دِل اس سے محروم نہ ہو…
زبان کو جو نعمتیں نصیب ہوئیں …اللہ کرے وہ ہمیشہ ان سے تر رہے…
اور زندگی کا رُخ اس کتاب کا نام بن جائے… ’’اِلیٰ مغفرۃ‘‘…
اب تو دل کرتا ہے کہ ہم ایسے بن جائیں کہ کوئی پوچھے بھائی کدھر جا رہے ہو؟…
تو جواب میں عرض کریں: ’’اِلیٰ مغفرۃ‘‘…
٭…٭…٭
اگر آپ سمجھ رہے ہیں کہ اس تاثر کی وجہ اس کتاب کی علمیت یا ادبیت ہے تو ایسا نہیں…حضرت امیر محترم حفظہ اللہ تعالیٰ کی تصنیفات میں علمی شان ملاحظہ کرنی ہو تووہ ’’یہود کی چالیس بیماریاں‘‘ اور ’’فتح الجواد‘‘ میں چھلکتی ہے…
بلاغت کا مزا لینا مطلوب ہو تو ’’ آزادی مکمل یا ادھوری‘‘ کا مطالعہ کیا جائے…
ایک مختصر سا رسالہ… اور اتنے بڑے موضوع کو کس جامعیت سے سمیٹے ہوئے… دریا بکوزہ کا مصداق… اور پھر رنگ و نور کا سلسلہ…
’’الیٰ مغفرۃ ‘‘ میں یہ سب کچھ ہے ضرور مگر اس شان سے نہیں…
اس کتاب کا اصل تاثر اس کی تاثیر ہے…
ہمیں بندگی کا مطلب سمجھ آ جائے…
ہمیں اپنی بندگی اور نقص کا احساس نصیب ہو جائے…
ہمیں یقین ہو جائے کہ ہم خطاء کار ہیں،گناہگار ہیں…
ہمیں یہ سمجھ آ جائے کہ گناہ ہمارے لئے ہلاکت خیز بیماری ہیں…
ہمیں یہ اِدراک ہو جائے کہ گناہوں کے پشتارے لادے رب کے دربار میں حاضری بربادی ہے…تباہی ہے…
لیکن یہ احساس ہمیں مایوسی اور محرومی میں نہ ڈال دیں …
اس لئے یہ یقین بھی ضروری ہے کہ
ہم کتنے بھی بُرے ہو جائیں ہمارے لئے بہرحال معافی ہے…
ہمارے گناہ کتنے بھی بڑے ہو جائیں رب کی رحمت سے چھوٹے ہیں…
ہم کتنے بھی بیمار ہو جائیں دوا دستیاب ہے…
ہم کتنے بھی دور ہو جائیں واپسی کا راستہ سامنے ہی ہے…
ہمیں مایوسی کے وقت سمجھ آئے کہ رب کی رحمت منتظر ہے…
ابلیسی وساوس کے وقت ہمارے کانوں میں آواز آئے…
’’توبوا الی اللہ‘‘
لوٹ آؤ اپنے رب کی طرف…لوٹ آؤ
’’الی مغفرۃ‘‘ وہی صدا ہے… وہی دوا ہے…وہی نشانِ راہ ہے…
٭…٭…٭
ہمیں اس کتاب کی کتنی ضرورت تھی؟ اس حقیقت کا ادراک تو تبھی نصیب ہوا جب اس کتاب کا مسودہ نصیب ہوا…
اُف! کتنی محرومی ہوتی اگر یہ نعمت نہ ملی ہوتی…
ہر صفحے نے جھنجھوڑا…
ہر پیراگراف نے اندر تک ہلا کر رکھ دیا…
ہم نے اب تک یہ کیوں نہ سوچا تھا کہ اپنے پوشیدہ گناہ تلاش کریں…
ہم اب تک کن کن ہلاکتوں میں پڑے رہے اور احساس تک سے محروم رہے… کتنے گناہ ایسے جنہیں گناہ سمجھا ہی نہ تھا…
اور جنہیں گناہ سمجھا بھی تو یہ نہ سمجھا کہ یہ گناہ کتنے بھاری ہیں…
ربا ! معافی …ربا! مغفرت…
’’الیٰ مغفرۃ ‘‘ نے یہ تو بتا دیا کہ اب آگے کرنا کیا ہے؟…
اللہ تعالیٰ ہمت دے، توفیق دے تو کرتے بھی رہیں…
پھر کتاب کی کچھ خدمت کی سعادت ملی… اسی کا فائدہ دیکھ لیجئے…
کیسی کیسی دعائیں ملیں اور مل رہی ہیں…
اور اب یہ کتاب بھی مل گئی… مجھے بھی اور آپ سب کو بھی…
اس سے رہنمائی لیجئے…
اس سے مرض بھی معلوم کیجئے اور دوا بھی…
اس سے درد بھی بانٹیے اور اس کی شفا بھی…
اس سے روشنی لیجئے اور روشنی کی بقاء بھی…
اس سے سیکھئے کہ شکست کیسے ٹلتی ہے…فتح میں کیسے بدلتی ہے… اور پھر فتح کو بقاء و دوام کیسے ملتا ہے…
اسے کحل بصر بنائیے اور چشم حقیقت سے دیکھئے…
اصل ضرورت کیا ہے؟…
اور پھر اسی سے پائیے یہ نسخہ کیمیا کہ ضرروت کیسے پوری ہو گی؟…
دوسرا قیمتی ترین تاثر یہ ہے کہ یہ عظیم نعمت ہمیں ہماری جماعت کی برکت سے ملی ہے… اپنے امیر کے مبارک ہاتھوں سے ملی ہے… گویا جماعت کا منشور منظر عام پر آ گیا… اور امیر کی دعوت بھی… کہ یہ جماعت اور اس کا امیر اپنے لوگوں کو ’’الیٰ مغفرۃ ‘‘ لے کر جا رہے ہیں…
تو دوستو! مغفرت کی طرف بلانے والا ہاتھ نہ چھوٹے…
مغفرت کی طرف بلانے والی جماعت نہ چھوٹے…
بہرحال خلاصہ یہ ہے کہ
میں نے یہ کتاب پڑھی ہے اور اپنا تاثر آپ تک پہنچا دیا ہے…
آپ بھی پڑھیے اور دل کی آنکھ سے پڑھیے…
ان شاء اللہ
صرف امید نہیں بلکہ یقین ہے کہ عنقریب آپ بھی کسی کو اسی طرح کے بلکہ اس سے بڑھ کر تاثرات دے رہے ہوں گے…
میرے عظیم دوست مولانا مقصود شہید ؒ نے حضرت امیر محترم حفظہ اللہ تعالیٰ کی ایک کتاب کے بارے میں القلم میں ہی ایک ترغیبی جملہ لکھا تھا اسی پر اس کالم کا اختتام ہو جائے تو کتنا اچھا ہو گا؟…
یہ سب باتیں پڑھتے رہیے… کیونکہ باتیں ہیں کام کی…
٭…٭…٭
اِلیٰ مغفرۃٍ
السلام علیکم..طلحہ السیف (شمارہ 499)
میانہ روی کا حکم…
قناعت کی تعلیم ہے…آہستگی سکھائی گئی ہے …ہر معاملے میں…
لیکن جہاں بات ہے اُن کی طرف جانے کی،تو حکم ہے:
پس دوڑو اللہ تعالیٰ کی طرف…(الذاریات)
اور جہاں معاملہ ہے اُن کی مغفرت اور جنت کی طرف جانے کا تو تعلیم ہے۔
’’دوڑو اپنے رب کی مغفرت اور جنت کی طرف۔ (آل عمران)
اور
’’سبقت کرو اپنے رب کی جنت اور مغفرت کی طرف…(الحدید)
پھر دوڑ بھی تو مختلف ہوتی ہے۔
کام کی بھاگ دوڑ…ورزش والی دوڑ… کبھی کبھار پریشانی کے عالم میں دوڑ اور مقابلے کی دوڑ…
ہر ایک کا انداز بھی مختلف ہوتا ہے اور رفتار بھی…
یہاں کس انداز میں دوڑنے کا حکم ہے؟
پہلی آیت میں لفظ کا مادہ ’’فرار‘‘ ہے یعنی یوں دوڑو جیسے فرار ہونے والا دوڑتا ہے۔
دشمن سے بھاگنے والا…کسی جان لیوا آفت سے بھاگنے والا دوڑتا ہے…قید خانے اور جیل کا قیدی بھاگتا ہے…
وہ کیسا دوڑتا ہے؟ کسی فرار ہونے والے سے پوچھئے!
ایک منزل متعین ہوتی ہے ذہن میں… اور جسم کی تمام تر توانائی اس پر خرچ ہورہی ہوتی ہیں کہ وہاں تک پہنچنا ہے…اگر نہ پہنچ پایا تو پکڑایا مارا جائوں گا … راستے میں تھک کر بیٹھ گیا تو ناکام ہوجائوں گا…وہاں تک پہنچنے سے پہلے سانس نہیں لینا…بس اسی دھن میں بھاگتا ہے…یہاں بھی منزل متعین کرکے ’’فرار‘‘ کی طرح بھاگنے کا حکم ہے اور منزل ہے ’’الیٰ اللہ‘‘…
دوسری اور تیسری آیت میں حکم ہے ’’مسارعت‘‘ اور ’’مسابقت‘‘ کا…
عربی دان حضرات جانتے ہیں لفظ کا معنی صرف دوڑنا اور بڑھنا نہیں بلکہ مقابلے میں دوڑنا اور بڑھنا ہے …یعنی بہت سے لوگ دوڑ رہے ہیں…ہر ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی لگن میں مگن ہے کہ کسی سے پیچھے رہا تو ہار جائے گا…یوں دوڑو جیسے ’’مقابلے‘‘ میں دوڑا جاتا ہے…ریس لگائی جاتی ہے…ایک نشان اور ہدف متعین ہوتا ہے اور ہر دوڑنے والا اس جذبے سے دوڑتا ہے کہ اسے سب سے پہلے اس ہدف تک پہنچنا ہے اور وہ نشان ہے ’’الیٰ مغفرۃ من ربکم‘‘…اور وہ منزل ہے ’’جنۃ ‘‘
’’مغفرت‘‘ کی طرف ریس لگائو…’’جنت‘‘ کی طرف مسابقت کرو…
٭…٭…٭
اس دوڑ کے کئی میدان ہیں… ہر میدان کے شاہسواروں کی دوڑ کا اپنا انداز ہے…
عابد کے آنسو اور سجدے بھی اسی دوڑ کا انداز ہیں…
سخیوں کی سخاوت بھی اور مجاہد کا گرم لہو…جسم کے ٹکڑے اور راہِ جہاد کی تھکاوٹ بھی…
دوڑ کی خاصیت ہے کہ وہ تھکاوٹ طاری کرتی ہے …جسم کو گھلاتی ہے…اس سے سانس پھولتا ہے … مشقت کے آثار طاری ہوتے ہیں اور محنت نظر آتی ہے…
سو جس کی دوڑ میں یہ مشقت اور آثار جس قدر زیادہ اور واضح ہیں اس کے لیے ’’مغفرت‘‘، ’’جنت‘‘ اور’’ اُن‘‘ کا قرب اسی قدر زیادہ ہے… سنیے!
’’برابر نہیں ایمان والوں میں بلا عذر گھروں میں بیٹھے ہوئے لوگ اور اللہ تعالیٰ کے راستے کے مجاہد … فضیلت دی ہے اللہ تعالیٰ نے اپنی راہ میں جان ومال سے لڑنے والوں کو بیٹھے ہوئوں پر درجے کی…اور اللہ تعالیٰ کا ہر ایک سے بھلائی کا وعدہ ہے۔ فضیلت دی ہے اللہ تعالیٰ نے مجاہدین کو بیٹھے ہوئوں پر اجر عظیم کی…درجات کی…مغفرت کی اور رحمت کی…‘‘(النسائ)
ہر دوڑنے والے، محنت کرنے والے سے بھلائی کا وعدہ ہے لیکن مجاہد کی بھاگ دوڑ دوسروں سے زیادہ نظر آرہی ہے، وہ زیادہ تھکے ہیں…انہوں نے زیادہ مشقت اُٹھائی ہے… انہوں نے جان ومال سب وار دیا ہے…اس لیے ان کے لیے مغفرت اور رحمت یعنی جنت کا پکا وعدہ ہے…اور کوئی ان کے برابر نہیں…
جن کو دوڑ کا یہ اونچا میدان ملا ہے انہیں خاص مبارک…وہ جلد پہنچنے والے ہیں…
٭…٭…٭
’’مغفرت‘‘ بہت بڑی دولت ہے…بلکہ سب سے بڑی…
مغفرت مل گئی اور کچھ بھی من چاہا نہ مل سکا…مکمل کامیابی…
مغفرت نہ مل سکی…زندگی کی ہر خواہش تمنا سے بڑھ کر پوری ہوئی…ہر مراد ملی…ہر سوچ پوری ہوئی لیکن …مکمل ناکامی مکمل…اللہ تعالیٰ بچائے…
اس دولت کو حاصل کرنے کے لیے ہم کمر کس کر میدان میں اُتر آئے…رب کا حکم بھی ہم نے سن لیا کہ دوڑنا پڑے گا تب ملے گی…لیکن ہمارے دشمن بھی تو ہیں…جو یہ چاہتے ہیں کہ ہم باقی سب کچھ پانے کی فکر میں مگن ہوجائیں اور اسی اصل دولت کو بھول جائیں…
نفس، شیطان، شیطان صفت انسان…یہ سب ہمیں بھلاتے ہیں…بہلاتے ہیں…پھسلاتے ہیں …اور کوئی ان کے بہکاوے میں پھنس کر میدان چھوڑ جاتا ہے، کوئی تھک کر…یہ ہمارا رخ دوسرے میدانوں کی طرف پھیر دیتے ہیں…پھرہم لا یعنی یا مضر چیزوں کے پیچھے دوڑ پڑتے ہیں اور رب کی طرف، اس کی مغفرت اور جنت کی طرف جانے والا ٹریک چھوڑ دیتے ہیں…ہائے ناکامی…وائے خسارہ…
کیا اب واپسی نہیں؟
کیا راستہ بند؟… کیا پکی محرومی؟
یہ ہم نے کیا کردیا؟…کیا ظلم کر بیٹھے…؟
’’ربا! ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کردیا…اب اگر تونے نہ بخشا اور رحمت نہ فرمائی تو ہم خسارے میں جا پڑے‘‘ (الاعراف)
جواب آتا ہے… مژدہ جانفزا…
’’اے بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کردیا، مایوس نہ ہو۔ (الزمر)
راستہ واپس مل جائے گا… مافات کی تلافی ہو جائے گی…خطاء معاف کرکے زندگی واپس کامیابی کی شاہراہ پر چلادی جائے گی…
ربا! تیرا شکر…تیرا احسان…ہم راستہ پانے کے لیے کیا کریں؟
’’جس نے برائی کا ارتکاب کیا یا اپنی جان پر ظلم کرلیا پھر اس نے اللہ تعالیٰ سے استغفار کیا وہ اللہ تعالیٰ کو بہت بخشنے والا رحم کرنے والا پائے گا‘‘ (النسائ)
سبحان اللہ!
طریقہ مل گیا…راستہ بھول گئے…بھٹک گئے، غلط رخ چل پڑے…استغفار کرو…سب کچھ واپس مل جائے گا…
اور دیکھو!
کھوئی ہوئی مغفرت تو ملی ہی، ساتھ ’’بونس‘‘ میں دنیا کی کتنی نعمتیں اور عظیم دولتیں مل گئیں…
’’استغفار کرو! وہ (رب) تم پر آسمان سے بارش برسائے گا اور تمہاری طاقت بڑھادے گا‘‘ (ھود)
’’استغفار کرو! توبہ کرو وہ رب تمہیں زندگی کا بہترین سامان مہیا کردے گا اور ہر صاحب فضل کو اس کا فضل دے گا‘‘ (ھود)
’’استغفار کرو! تمہارا رب آسمان سے تم پر بارش برسائے گا۔ تمہارے اموال اور اولاد میں اضافہ کردے گا اور تمہیں باغات اورنہریں دے گا‘‘ (نوح)
واہ واہ…
آخرت کی سب سے بڑی دولت ’’مغفرت‘‘ بھی ملے گی اور دنیا میں بھی اتنا کچھ…
اسے کہتے ہیں: ہم خرماوہم ثواب…
٭…٭…٭
انسانوں کی اکثریت بھٹک گئی…بھٹکانے اور بہکانے کے اسباب کی کثرت حدو حساب سے باہر جو ہوگئی ہے… ہر کوئی سمجھا رہا ہے…
لوگو دوڑو مال کی طرف…دوڑو ترقی کی طرف …دوڑو عیاشی کی طرف…دوڑو مادر پدر آزادی کی طرف…دوڑوبے حیائی کی طرف…دوڑو سود کی طرف…
دوڑو کفر کی نقالی اور کافروں کی غلامی کی طرف … دوڑو ناکامی اور بربادی کی طرف…
آہ! بے چارا انسان…
سرابوں کے پیچھے دوڑا دوڑا کر بے حال بلکہ بدحال کردیا گیا…
اورحقیقت نظروں سے اوجھل کردی گئی…
کتنا تھک گیا مظلوم…ظالم اس پر ہنستے ہیں … شیطان قہقہے لگاتا ہے…باجے اور شادیانے پیٹتا ہے…
لیکن بھائیو! مایوس نہ ہو…ہارو مت…دیکھو! فضائوں کو چیرتی ایک جانفزا آواز آرہی ہے…
وہ دیکھو! اندھیروں کا سینہ چیرتی ایک روشنی طلوع ہورہی ہے…
وہ دیکھو! نشان منزل…وہ دیکھو! چمکتا ہوا ستارہ راستہ دکھا رہا ہے…
’’الیٰ مغفرۃ‘‘
لوگو! رب کی طرف دوڑو…رب کی مغفرت کی طرف دوڑو…جنت کی طرف دوڑو…
جو تم کھو بیٹھے ہو اس کی تلافی ہے…
واپسی کا راستہ کھلا ہے…
رب کی رحمت منتظر ہے…
تم دوڑ کر ایک بالشت آئو…وہ گز بھر آگے بڑھے گی…
تم تھوڑا دوڑو گے…وہ بہت تیز دوڑ کر تمہاری طرف آئے گی…
واپس آئو…اپنادامن ان کانٹوں سے چھڑائو … ہر دوسری دوڑ چھوڑو اور کہو…!
’’الیٰ مغفرۃ‘‘
ہم رب کی مغفرت کی طرف دوڑ لگارہے ہیں…
اللہ تعالیٰ کے ایک درد مند بندے کا تحفہ قبول کرو …اس کی صدا سنو!
وہ تمہیں کدھر بلا رہا ہے…کتاب کا نام بتا رہا ہے…
’’الیٰ مغفرۃ‘‘…مغفرت کی طرف…
اسی میں تمہاری سب سے بڑی بھلائی پوشیدہ ہے…اور کامیابی کا سب سے بڑا راز مضمر ہے…اس پیغام کو پڑھ کر تو دیکھو!
٭…٭…٭
فورتھ شیڈول
السلام علیکم..طلحہ السیف (شمارہ 498)
ہمارے ملک کے سب سے بڑے صوبے ’’پنجاب‘‘ میں عرصہ دراز سے ایک کالا قانون رائج ہے جس کا نام ہے ’’فورتھ شیڈول‘‘ یہ قانون پنجاب پولیس کے ہاتھ میںتو اس طرح ہے جیسے کسی اندھے کے ہاتھ میں لاٹھی ہو اور وہ اسے مجمع عام میں گھمانا شروع کر دے…اس قانون کی زد میں سب سے اولیت کے ساتھ ان لوگوں کو لایا گیا ہے جو پاکستان سے جا کر افغانستان یا کشمیر کے جہاد میں شریک ہوئے اور ان کے علاوہ اور بھی کئی کیٹیگریز ہیں لیکن اولیت کا شرف بہرحال ان مجاہدین کو ہی حاصل ہے۔
کشمیر پاکستان کا حصہ ہے،وہاں کی عوام پاکستان کے ساتھ الحاق کی خواہش مند ہیں۔ آج بھی بھارت کے شدید ظلم و جبر کے سائے میں اور مودی سرکار کے ہر وحشیانہ اقدام کے باوجود آئے دن سرینگر کے چوکوں پر پاکستانی پرچم لہرائے جاتے ہیں۔ ہر گلی ہر محلہ پاکستان سے رشتہ کیا لا الہ الا اللہ کے نعروں سے گونجتا ہے۔اپنے ان بھائیوں کی مدد کے لئے کشمیر جانا جرم ہے اور جس شخص کے بارے میں علم ہو کہ وہ اس ’’جرم ‘‘ کا مرتکب ہوا ہے اس کے بارے میں قانون حرکت میں آ جاتا ہے۔اس کے گھر والوں کو ستایا جاتا ہے۔چادر و چار دیواری کا تقدس پامال کیا جاتا ہے اور ہر حربہ بروئے کار لا کر انہیں ایذاء کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
لیکن اس ہفتے ’’العربیہ‘‘ میں شائع ہونے والی یہ رپورٹ ملاحظہ کیجئے اور اپنے ان اداروں کے حسن کارکردگی پر سر دھنیے کہ ان لوگوں کے خلاف اور انہیں بھیجنے والوں کے خلاف نہ کوئی قانون حرکت میں آتا ہے اور نہ ہی ان پر کسی ظالمانہ دفع کا اطلاق ہوتا ہے اور نہ ان کے گھروں کی انکوائری ہوتی ہے اور نہ ہی مزید قافلوں کو روکنے کی کوئی پیش بندی۔ اگر اس کی جگہ رپورٹ یوں ہوتی کہ پاکستان کے کچھ نوجوان شام جا کر بشار الاسد کے خلاف برسر پیکار مجاہدین کے ساتھ شامل ہو گئے اور وہاں مارے گئے تو اب تک نہ صرف ان کے خاندان بلکہ ان کے یار دوست اور تعلق دار بھی بڑی مقدار میں زیر تفتیش آ چکے ہوتے اور ان پر عرصہ حیات تنگ کر دیا گیا ہوتا۔ رپورٹ ملاحظہ ہو:
ایران کے ذرائع ابلاغ نے اطلاع دی ہے کہ شام میں صدر بشارالاسد کی حمایت میں محاذ جنگ میں سرگرم “زینبیون” نامی ملیشیا سے تعلق رکھنے والے ایک ایرانی اور دو پاکستانی باشندے حلب میں لڑائی کے دوران مارے گئے ہیں جن کی میتیں ایران لائے جانے کے بعد تہران میں سپرد خاک کردی گئی ہیں۔
پاسدارانِ انقلاب کی مقرب خبر رساں ایجنسی ” تسنیم” کے مطابق شام کے حلب شہرمیں مارے جانے والے ایرانی فوجی افسر کی شناخت اصغر شیردل کے نام سے کی گئی ہے جبکہ اس کے ساتھ دو پاکستانی سگے بھائی ساجد حسین اور اخلاق حسین بھی مارے گئے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق 40 سالہ اصغر شیر دل کو سوموار کو تہران میں سپرد خاک کیا گیا۔
ایرانی خبر رساں ایجنسیوں “مہر”، باسیج” اور “دفاع پریس” کے مطابق شمالی شام کے شہر حلب میں “زینبیون” بریگیڈ سے منسلک دو پاکستانی جنگجو بھی مارے گئے جنہیں تہران میں دفن کیا گیا ہے۔ اطلاعات ہیں کہ کمانڈر اصغر شیردل اور دونوں پاکستانی جنگجو ایک ہی جھڑپ میں مارے گئے تھے۔
ذرائع کے مطابق پاکستانی اور ایرانی جنگجوئوں کی تدفین کے موقع پر ایران کی عسکری قیادت اور مذہبی رہنمائوں کی بڑی تعداد بھی موجود تھی جو مقتولین کی نماز جنازہ میں شرکت کے لیے قم شہر سے خاص طورپر آئے تھے۔
ادھر شامی اپوزیشن نے ایک ویڈیو فوٹیج جاری کی ہے جس میں حلب میں مارے گئے پاکستانی جنگجوئوں کے فون نمبربھی دکھائے گئے ہیں۔ ویڈیو فوٹیج میں بتایا گیا ہے کہ حلب میں جھڑپ کے نتیجے میں مارے گئے پاکستانی “زینبیون” ملیشیا سے منسلک تھے۔ رپورٹ کے مطابق حلب اور شام کے بعض دوسرے شہروں میں بڑی تعداد میں پاکستانی اور افغان جنگجو بھی صدر بشارالاسد کی حمایت میں لڑ رہے ہیں۔
یاد رہے کہ اپریل میں شام میں مارے جانے والے بارہ پاکستانیوں کی لاشیں ایران کے قم شہر میں لائی گئی تھیں جہاں انہیں سپردخاک کیا گیا۔یہ پاکستانی جنگجو دمشق کے قریب السیدہ زینب کالونی میں باغیوں کے ساتھ جھڑپوں میں ہلاک ہوئے تھے اور پھر ان مقتول پاکستانیوں اور ان کے علاوہ دیگر کئی غیر ملکی جنگجوؤں کے حوالے سے ’’العربیہ‘‘ کی یہ رپورٹ بھی قابل ملاحظہ ہے:
ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے شام کے محاذ جنگ میں صدر بشارالاسد کی حمایت میں لڑتے ہوئے مارے جانے والے ایرانی ،افغان اور پاکستانی جنگجوئوں کے خاندانوں کی بھرپور کفالت کا حکم دیا ہے۔
العربیہ ڈاٹ نیٹ کے مطابق ایران میں شہداء فائونڈیشن نامی ایک ادارے کے سربراہ نادر نصیری نے بتایا ہے کہ راہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ علی خامنہ ای نے شام میں بشارالاسد کی حمایت میں لڑنے والی تنظیم “فاطمیون” کے مقتول جنگجوئوں کے خاندانوں کی بھرپور کفالت کی ہدایت کی ہے۔
نادر نصیری نے سپریم لیڈر کا ایک بیان نقل کیا ہے جس میں انہوں نے “فاطمیون” ملیشیا کے جنگجوئوں کی تعریف کرتے ہوئے شام میں ان کی قربانیوں کا بھی اعتراف کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ “فاطمیون” ملیشیا حرم اہل بیت کے دفاع کی جنگ لڑرہے ہیں۔ ان کے لیے ہجرت اور جہاد دو اجر ہیں۔”
خامنہ ای نے فاطمیون ملیشیا کے لیے ” مدافعانِ حرم” کی اصطلاح استعمال کی۔ ایران میں یہ اصطلاح افغان، پاکستانی جنگجوئوں اور پاسداران انقلاب کے ان عناصرکے لیے استعمال کی جاتی ہے جو شام کی جنگ میں صدر بشارالاسد کی حمایت میں باغیوں سے لڑتے ہیں۔
خبر رساں ایجنسی”رسا” کے مطابق نادر نصیری کا کہنا ہے کہ حال ہی میں سپریم لیڈر نے فاطمیون ملیشیا کے جنگجوئوں کی قربانیوں کا اعتراف کیا اور حکام کو ہدایت کی کہ وہ مقتولین کے ورثاء ، بچوں اور اہل خانہ کی بھرپور کفالت کریں۔شہداء فائونڈیشن کا کہنا ہے کہ سپریم لیڈر نے فاطمیون ملیشیا کی قربانیوں اور بہادری کے پیش نظر اسے “فیلق” کے درجے پر ترقی بھی دے دی ہے۔
حال ہی میں پاسداران انقلاب کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ وہ “فاطمیون” بریگیڈ کے تحت شام میں لڑنے والے افغان جنگجوئوں کی تعداد میں اضافہ کریں گے۔ بشارالاسد کی حمایت میں لڑنے والی “فاطمیون” ملیشیا کے اب تک 200 کے لگ بھگ جنگجو ہلاک ہوچکے ہیں۔
یاد رہے کہ شام میں “فاطمیون” بریگیڈ کا نام 2012ء کے آخر میں اس وقت منظرعام پرآیا تھا جب اسد رجیم کو باغیوں کے ہاتھوں غیرمعمولی جانی اور مالی نقصان اٹھانا پڑا تھا۔ اس تنظیم میں افغانستان کے ہزارہ قبیلے سے تعلق رکھنے والے جنگجوئوں کے علاوہ پاکستان اور ایران کے جنگجو بھی شامل ہیں۔
اب دیکھتے ہیں کہ ان لوگوں اور ان کے سرپرستوں کے خلاف بھی کوئی قانون حرکت میں آتا ہے یا نہیں…
ویسے قانون کا شکنجہ اگر سب لوگوں پر برابر کسا ہو تو فرقہ واریت میں خاطر خواہ کمی ہو سکتی ہے…کیا خیال ہے آپ کا؟…
٭…٭…٭
سزائے موت
السلام علیکم..طلحہ السیف (شمارہ 497)
سزائے موت تو بنتی ہے…
اُس نے عشروں سے جاری فرعونی نظام سے ٹکر لی اور اسے ختم کر ڈالا…
اس گستاخ کی سزا تو بنتی ہے…
اور ایسے لوگوں کے شایانِ شان سزا صرف ’’موت‘‘ کی ہی ہوتی ہے…کم درجے کی سزا تو ان کے ’’جرم‘‘ کی توہین ہے…
ایک شخص آج کے زمانے کا مسلمان حکمران ہو…
وہ بھی ووٹوں سے منتخب ہو کر جمہوری حکمران…
پھر
نہ صرف نماز پڑھتا ہو بلکہ اپنے ملازمین کو پیچھے کھڑا کر ’’امامت‘‘ کرتا ہو…
جو حکمران ہو کر بڑے محل میں رہنے کی بجائے اپنے چھوٹے سے فلیٹ میں قیام اختیار کرے…
جو جمعہ کی نماز پڑھنے مسجد جاتا ہو اور بلا پروٹوکول عوام سے گھل مل جاتا ہو…
جو حرم میں جا کر اکیلا طواف و عمرہ کرے، نہ شرطہ ساتھ لے نہ پروٹوکول…
اور ہاں یہ تو انفرادی جرائم ہیں،معاف ہو سکتے ہیں ،مگر وہ تو
کئی اجتماعی اور ملی جرائم کا مرتکب ہوا…
اس نے عراق کے فرقہ پرست حکمرانوں کو خبردار کیا کہ اہل ایمان پر عرصہ حیات تنگ نہ کر یں۔اس کے سخت نتائج بھگتنا پڑیں گے…
اس نے شام میں بشار کے ستائے مظلوم مسلمانوں کے لئے اپنے ملک کی سرحد کھول دی اور ان کے زخموں پر تسلی اور نصرت کا مرہم رکھا…
اس نے فلسطینی مسلمانوں کے حقوق کی بات کی،اسرائیل پر سخت الفاظ میں تنقید کی، حماس کا ساتھ دینے کا اعلان کیا،غزہ کے محصورین کے لئے مصر کی سرحد کھول دینے کا عندیہ دیا اور حماس کے مجاہدین کو ساز و سامان فراہم کرنے کا وعدہ کیا۔
مسلمان حکمران اور اُمت کی فکر؟
جمہوری صدر اور اِسلام کی بات؟
ایوان اقتدار میں بیٹھ کر مظلوموں کی فکر؟
نہیں نہیں… ہر گز نہیں
یہ حکمران عوام کا مزاج بگاڑ دے گا…
انہیں انصاف کا عادی بنا دے گا…
انہیں حقوق دے کر خراب کر دے گا…
ایسا طرز عمل اپنائے رکھنے دیا گیا تو آئندہ کے لئے پروٹوکول کے پجاری ظالم اور بے درد حکمرانوں پر ایوان اقتدار کے دروازے بند کر دے گا…
لہٰذا اسے حکمرانی سے ہٹایا جائے…
مگر یہ کام کیسے ہو؟ عوام تو اُس کے ساتھ ہیں…
اوئے ہاں! یاد آیا؟…
اس نے ایران کو بھی تو خبردار کیا تھا کہ خطے میں اپنے مکروہ عزائم سے باز رہے…ایرانی گماشتوں پر بھی اس نے شکنجہ کسا تھا جو ملک میں فساد پھیلانے میں مشغول تھے…
انہی کو اس کے پیچھے لگا دیا جائے،وہ صدیوں سے یہی کام کرتے چلے آ رہے ہیں…
ایک اور متمرد شیطان بھی تو ہے…زندگی بھر امریکہ کی نوکری کرنے والا…
انگریزوں کے تلوے چاٹ کر پینے والا پوڈل ’’البرادعی‘‘…
یوں ’’تمرد‘‘ ہوا…
ایرانی گماشتے اور ’’البرادعی‘‘ نکلے اور حکومت گرا دی گئی…
حکمرانی کے تخت پر بٹھانے اور مصر کی ہڈیوں سے خون کی آخری رمق نچوڑنے کے لئے جس گِدھ کا انتخاب ہوا…کیا لاجواب انتخاب ہوا…
نام ’’السیسی‘‘ …
ماں نسلاً یہودی…باپ دہریہ…
یوں حکومت انہی کے ہاتھ رہی جو مصر کے فرعون ہیں…
مصری اکثر خاموش رہے اور کچھ نے اس کی رخصتی کا جشن بھی منایا…
لیکن آج وہ مصریوں کو ضرور یاد آیا ہو گا…
آج قاہرہ کے ’’التحریر‘‘ سکوائر پر ایک باپ آواز لگا لگا کر کچھ بیچنے کی کوشش کر رہا تھا…
جی ہاں! اپنے دوبیٹے…کیونکہ اب مصر میں غربت و اِفلاس کا راج ہے…
پچاس فیصد لوگوں کی یومیہ آمدنی دو ڈالر سے کم ہے…
اور اس صورتحال پر عوام کے لئے رونے والا اور انکی فکر میں تڑپنے والا کوئی نہیں…
’’السیسی‘‘ اور گدھوں کی فوج کے اثاثے تو آج بھی مزید بڑھ گئے ہوں گے مگر مصری بچے بیچنے پر آگئے ہیں…
آہ المرسی!
اقتدار سے ہٹا کر پنجرے میں بند کر دیا گیا…
جب بھی تصویر آتی ہے وہ پنجرے میں بند شیر کی طرح دکھائی دیتا ہے…
اس کی شکل بھی شیر والی ہے اور کردار بھی…
وہ آج بھی غاصبوں کے سامنے دھاڑتا ہے اور ظالموں پر چنگھاڑتا ہے…
وہ اب بھی اپنے عوام کے لئے انصاف مانگتا ہے…اور اُمت کی بات کرتا ہے…
وہ جھکنے پر آمادہ نہیں…
وہ سرنگوں نہیں ہو رہا…
وہ سربلند ہے اور اس کے عزائم بلند…
لہٰذا ایسے مجرم کے لئے
سزائے موت تو بنتی ہے…
٭…٭…٭
سود کی لعنت
السلام علیکم..طلحہ السیف (شمارہ 496)
سود کے بارے میں قرآن کریم کی سورۃ بقرۃ میں آیت(۲۷۹) کے اندر واضح طور پر فرمایا گیا ہے کہ اگر اﷲ کا حکم مان کر اسے ترک نہ کیا جائے گا تو یہ عمل اﷲ تعالیٰ سے اعلان جنگ کے مترادف ہوگا۔ دیکھئے اس آیت کی تفسیر میں مفسرین کیا فرماتے ہیں:
مسلمانو! اﷲ تعالیٰ سے ڈرو اگر تم مسلمان ہو تو جس قدر سود رہ گیا ہے اس کو چھوڑ دو اور اگر ایسا نہ کرو تو اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسول سے لڑنے کوتیار ہو جاؤ…
یقینا تمام انسانی گناہوں میں صرف یہی معیت حرب من اﷲ ورسولہ ہے کیونکہ اور کسی معصیت میں انسان،خدا کے بندوں کیلئے اس درجہ بے رحم اور خونخوارنہیں ہوجاتا،جس درجہ سود کو اپنا وسیلہ معاش بنا لینے کے بعد ازسرتاپا مجسمہ شقاوت و قساوت اور غلظت و صلابت بن جاتا ہے اور خدا کے بندوں کے آگے بے رحمی سے مغرور ہونا فی الحقیقت خدا کے آگے مغرورہو کر آمادہ جنگ وپیکار ہوناہے۔
اگر ایک شخص چورہے، ڈاکو ہے، قاتل ہے تو قانون اس کو سزادیگا اور انسانی آبادی اس سے پناہ مانگے گی لیکن ایک سود خور کہتا ہے کہ انماالبیع مثل الربوا ، اس نے تجارت کی ایک دو کان کھول دی ہے اور ضرورت و احتیاج انسان کے ہوش و حواس معطل کر دیتی ہے ، ڈاکو سے انسان بھاگتاہے مگر مظلوم قرضدار خودوڑ کر اس کے پاس جاتاہے پس فی الحقیقت قتل وغارت کسی قانون اورمذہب کیلئے اس درجہ سختی کی مستحق نہیں جس قدر سود اور سود خوری کی مہیب زندگی پھر کیا حرب من اﷲ و رسولہ سے اس کی تعبیر صحیح نہیں ہے۔
دنیا میں خودغرضی کے جس قدراعمال کئے جاتے ہیں ان میں سے کسی میں بھی اس درجہ استمرار اور مداومت نہیں جیسی کاروباری بے رحمی۔ سود خوار کاعمل ظلم دائمی اور انسانی عمروں خاندانوں اورنسلوں تک جاری رہتاہے اور وہ جس شکار کو پکڑتاہے اس کی بیکسی اورمظلومی کا نظارہ برسوں تک دیکھتارہتا ہے اور جب تک ہمیشہ کیلئے اس کے تڑپنے لوٹنے اور کراہنے کا تحمل اپنے اندر پیدا نہ کرے وہ سود خوارنہیں بن سکتا۔ اس لئے صرف اسی معصیت کو حرب من اﷲ و رسولہ سے تعبیر کیا گیا( تفسیر الفرقان فی معارف القرآن)
یعنی تم پر باغیوں اور مرتدوں کی طرح جہاد کیا جائے گا… اتنی شدید تہدید قرآن مجید میں کسی دوسری معصیت کیلئے نہیں آئی۔
العظمۃاﷲ!حرمت سود کا کس قدر درجہ اہتمام ہے اور اس باب میں کس درجہ شدید احکام ہیں۔ اس کے بعد کچھ حد ہے اس ڈھٹائی اور جسارت کی کہ اپنے آپ کو مسلمان کہلا کر رسالے’’جواز سود‘‘ پر شائع کئے جائیں۔ اور اپنی تحریر و تقریر سے لوگوں کو سودی کاروبار کی ترغیب دلائی جائے حضرت عمرذجیسے جلیل القدر صحابی رسول سے یہ منقول ہے کہ سو د کوبھی چھوڑو اور اس کے مشابہ چیزوں کو بھی، وہ اسی قرآنی تہدید کا قدرتی نتیجہ ہے۔ جب جسمانی بیماریوں کا یہ حال ہے کہ کسی مریض کو طیب اگر سخت مرض کے مشابہ ہوتا ہے کہ احتیاط علاج اس سخت تر مرض کا شروع کر دیتا ہے۔ تو جو مسلمان تقویٰ کا ادنی درجہ بھی رکھتے ہیں ان پر بھی یہی لازم ہے کہ نہ صرف کھلے ہوئے سود سے بچیں بلکہ ایسی مالی اور کاروباری صورتوں سے بھی احتیاطاً بچتے رہیں جن کا سودی ہوناقطعی نہیں صرف اغلب ہے۔(تفسیر ماجدی)
نبی کریم ﷺ کے ارشادات عالیہ میں بھی اس بارے میں سخت وعید اور تہدید واضح الفاظ میں موجود ہے۔ چند احادیث ہم ذیل میں ذکر کرتے ہیں جن سے کچھ اندازہ ہوگا کہ سود اﷲ کے حبیب ﷺ کی نظر میں کتنا بڑا جرم ہے اور اس پر اﷲ رب العزت نے کیسے سخت عذاب تیار فرمائے ہیں:
(۱) رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ سات مہلک چیزوں سے بچوصحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے دریافت کیا: یا رسول اﷲ! وہ کیا ہیں؟ آپﷺ نے فرمایا: ایک اﷲ تعالیٰ کے ساتھ(عبادت میں یا اس کی مخصوص صفات میں)کسی غیر اﷲ کو شریک کرنا، دوسرے جادو کرنا، تیسرے کسی شخص کو ناحق قتل کرنا، چوتھے سود کھانا، پانچویں یتیم کا مال کھانا، چھٹے جہاد کے وقت میدان سے بھاگنا، ساتویں کسی پاک دامن عورت پر تہمت باندھنا۔ (بخاری شریف)
(۲) رسول اﷲﷺ نے فرمایا کہ میں نے آج رات دو شخصوں کو دیکھا جومیرے پاس آئے اور مجھے بیت المقدس تک لے گئے، پھر ہم آگے چلے تو ایک خون کی نہر دیکھی جس کے اند رایک آدمی کھڑاہوا ہے، اور دوسرا آدمی اس کے کنارہ پر کھڑا ہے جب یہ نہر والا آدمی اس سے باہر آنا چاہتا ہے تو کنارہ والا آدمی اس کے منہ پرپتھر مارتاہے جس کی چوٹ سے بھاگ کرپھر وہ وہیں چلا جاتا ہے جہاںکھڑا ہوا تھا، پھر وہ نکلنے کا ارادہ کرتاہے تو پھر یہ کنارہ کاآدمی یہی معاملہ کرتا ہے آنحضرتﷺ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے ان دو ساتھیوں سے پوچھا کہ یہ کیا ماجرا ہے جو میں دیکھ رہا ہوں؟انہوں نے بتلایا کہ خون کی نہرمیں قید کیا ہوا آدمی سود کھانے والا ہے (اپنے عمل کی سزا پارہاہے) (بخاری)
(۳) رسول کریمﷺ نے سود لینے والے پر بھی لعنت فرمائی اور سود دینے والے پربھی اور بعض روایات میں سودی معاملہ پر گواہی دینے والے اور کا وثیقہ لکھنے والے پربھی لعنت فرمائی ہے۔
اور صحیح مسلم کی ایک روایت میں فرمایا کہ یہ سب گناہ میں برابرہیں اور بعض روایات میںشاہد وکاتب پرلعنت اس صورت میں ہے جبکہ ان کو اس کا علم ہو کہ یہ سود کا معاملہ ہے۔
(۴)رسول کریمﷺ کا ارشاد ہے کہ چارآدمی ایسے ہیں کہ ان کے بارہ میں اﷲ تعالیٰ نے اپنے اوپر لازم کر لیا ہے کہ ان کو جنت میں داخل نہ کرے اور جنت کی نعمت نہ دیکھنے دے، وہ چار یہ ہیں: شراب پینے کا عادی اور سود کھانے والا اور یتیم کا مال ناحق کھانے والا اوراپنے والدین کی نافرمانی کرنے والا(مستدرک حاکم)
(۵) نبی کریمـﷺ نے فرمایا کہ جو آدمی سود کا ایک درہم کھاتا ہے وہ چھتیس مرتبہ بدکاری کرنے سے زیادہ سخت گناہ ہے اور بعض روایات میں ہے کہ جو گوشت مال حرام سے بنا ہو اس کے لئے آگ ہی زیادہ مستحق ہے اسی کے ساتھ بعض روایات میں ہے کہ کسی مسلمان کی آبروریزی سود سے بھی زیادہ سخت گناہ ہے۔ (مستدرک الحاکم)
(۶)ایک حدیث میںہے کہ رسول کریمﷺ نے اس بات سے منع فرمایا کہ پھل کو قابل استعمال ہونے سے پہلے فروخت کیا جائے، اور فرمایا کہ جب کسی بستی میں بدکاری اور سود کا کاروبار پھیل جائے تو اس نے اﷲ تعالیٰ کے عذاب کو اپنے اوپر دعوت دیدی۔ (مسنداحمد، طبرانی)
(۷)رسول کریمﷺ نے فرمایا کہ جب کسی قوم میں سود کے لین دین کا رواج ہوجائے توا ﷲ تعالیٰ ان پر ضروریات کی گرانی مسلط کر دیتا ہے اورجب کسی قوم میں رشوت عام ہوجائے تو دشمنوں کا رعب غلبہ ان پر ہو جاتا ہے۔ (مسند احمد)
(۸)رسول اﷲﷺ نے فرمایا کہ شب معراج میں جب ہم ساتویںآسمان پر پہنچے تو میں نے اپنے اوپر رعد وبرق کو دیکھا، اس کے بعد ہم ایک ایسی قوم پر گزرے جن کے پیٹ رہائشی مکانات کی طرح پھولے اور پھیلے ہوئے ہیں جن میں سانپ بھرے ہیں جو باہر سے نظر آرہے ہیں، میں نے جبرئیل امین سے پوچھا کہ یہ لوگ کون ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ یہ سود خور ہیں۔ (مسنداحمد)
(۹) رسول اکرمﷺ نے عوف بن مالک ذ سے فرمایا کہ ان گناہوں سے بچو جو معاف نہیں کئے جاتے، ان میں سے ایک مال غنیمت کی چوری ہے اور دوسرے سود کھانا۔(طبرانی)
(۱۰) حضرت ابو ہریرہؓسے مروی ہے نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئیگا جس میں سوائے سود خود کے اور کوئی نہیں ہوگا اگر کھلا ہوا سود نہ بھی کھایا تو اس کا دھواں بہرحال اس تک پہنچے گا۔(صحیح مسلم)
(۱۱) حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ارشادفرمایا :سود کے ستر گناہ ہیں کم از کم گناہ یہ ہے کہ آدمی اپنی ماں سے زنا کرے۔(ابن ماجہ)
(۱۲)حضرت ابن مسعودؓ سے مروی ہے کہ آنحضرتﷺ نے ارشاد فرمایا:کوئی شخص سودی مال کو کتناہی بڑھالے انجام کار خسارہ اورنقصان ہی ہوگا۔ (ابن ماجہ)
(۱۳)ابن مسعودؓسے مروی ہے کہ نبی کریمﷺ نے ارشادفرمایا:قرب قیامت میں سود، زنا اورشراب نوشی عام ہوجائے گی(المعجم الاوسط)
(۱۴)عبداللہؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: کسی نبی کی قوم ہلاک نہیں ہوئی جب تک ان میں زنا اور سود عام نہیں ہوا ۔( المعجم الکبیر)
(۱۵) حضرت سعید بن جبیرؒ سے مروی ہے کہ انہوں نے آیت الذین یاکلون الربا الخکی تفسیر میں فرمایا: جولوگ سود کھاتے ہیں قیامت کے دن پاگلوں کی طرح گلے میں رسی ڈالے ہوئے پیش کئے جائیںگے۔
مسلمانوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ کیا اتنے بڑے گناہ میں علانیہ اور بکثرت ملوث ہو کر سکون، اطمینان، معاشی آسودگی اور امن حاصل کیا جاسکتا ہے؟
یقینا جواب نہیں میں ہوگا۔
تو پھر کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ اس گھناؤ نے جرم اور گندے گناہ سے توبہ کی جائے؟
کیا اس سے بھی بدترین حالات کا انتظار کیا جائے گا؟
کیا اس عذاب کو جھیلتے رہنے کی طاقت ابھی قوم میں باقی ہے؟
معاشی بحران کے جھٹکوں نے سب کے کس بل نکال دیئے ہیں۔ روزانہ درجنوں خود کشیاں ہو رہی ہیں۔ سرمایہ دار اسٹاک ایکسچینج کی چھتوں سے کود کر خود کشیاں کر رہے ہیں۔ اعلیٰ معیار اور آسودگی کی زندگی حاصل کرنے کے لیے اختیار کیا جانے والا راستہ گھیر کر حرام موت کے دہانے پر لے آیا ہے۔ ایسے میں قرآن کریم کے یہ واضح فرامین اور نبی اکرم رحمت للعالمینﷺ کے روشن ارشادات ہمیں نجات کا راستہ دکھا رہے ہیں۔ عقلمند وہی ہے جو اس عذاب کے اصل سبب کو سمجھ لے، ماہرین معاشیات کی چکنی چپڑی باتوں اور نت نئے منصوبوں پر غور کرنے کی بجائے قرآن وحدیث میں غور کرکے اور اس جنگ سے باز آجائے۔ ورنہ عذاب ہی عذاب رہے گا۔ پریشانی ہی پریشانی رہے گی…
لیکن ہماری حکومتیں ان حالات میں ’’مدینہ‘‘ سے رہنمائی لینے کی بجائے آج بھی آئی ایم ایف، ورلڈ بنک اور ایسے اداروں کی جبہ سائی میں مصروف ہیں۔ سود پر قرضے لے کر قوم کی حالت سنوارنے کی کوشش کی جا رہی ہے جبکہ حقیقت میں اس لعنت نے قوم کے ایک ایک فرد اور ملک کی ایک ایک چپہ زمین کو کفار کے ہاتھوں گروی کا مال بنا دیا ہے۔ سود کی ان بربادیوں اور اس پر وارد ہونے والی ان لعنتوں کو پڑھیں جو مندرجہ بالا احادیث میں مذکور ہیں۔ پھر سوچیں کیا ایسے لعنتی گناہ میں ابتلاء کے ساتھ ہمیں معاشی استحکام نصیب ہو سکتا ہے؟ رہا مسئلہ بد امنی کا تو اس کا سب سے بڑا سبب خون مسلم کی ارزانی اور مسلمانوں کا باہمی جان و مال سے تعرض کرنا ہے۔ اس پر کتنی سخت وعیدیں آتی ہیں ان کا تذکرہ آئندہ مضمون میں… ان شاء اللہ
٭…٭…٭
اﷲ سے جنگ
السلام علیکم..طلحہ السیف (شمارہ 495)
آج کل دنیا میں دو مسئلے ہیں جن پر ہر شخص پریشان ہے، انہی کے بارے میں تبصرے ہیں۔ ہر طرف انہی دو مسائل کا چرچہ ہے اور دانشوروں کی تمامتر دانش اور قلم کاروں کا سارا زور قلم انہی پر صرف ہورہا ہے۔ اخبارات کے کالم انہی کے ذکر سے پر ہیں اور خبریں بھی زیادہ تر انہی سے متعلق ہیں۔
یہ دو مسئلے ہیں ’’معیشت‘‘ اور ’’امن و امان‘‘
معیشت ڈوب رہی ہے اور امن وامان عنقا ہو رہا ہے۔ بھوک اور خوف نے ہر کسی کو موت سے پہلے ہی مار رکھا ہے، کوئی بھی آسودہ حال نہیں نہ ہی خوف سے آزاد۔ لیکن جہاں اﷲ تعالیٰ سے علانیہ بلکہ فخریہ جنگ جاری ہو وہاں یہ سب تو یقینی ہوگا اور یہ جنگ بند کرنے پر کوئی تیار نہیں۔
ذرا سوچیے! کسی معمولی سے حکمران سے کسی کی علانیہ جنگ ہو اور طاقت وقوت میں وہ اس کے مقابلے میں کچھ بھی نہ ہو تو کیا اسے امن، چین اور اچھی معیشت نصیب ہوسکتی ہے؟ کیا وہ تین وقت کا کھانا اطمینان سے کھا سکے گا؟ کیا وہ اپنی جان پر مامون ہوسکے گا؟ ہر گز نہیں۔ بادشاہوں سے لڑنے والوں کا کھانا بند کردیا جاتا ہے، وہ تنگی سے زندگی گزارتے ہیں، اپنے مال ودولت سے صحیح انتفاع نہیں کرسکتے اور ان کا خوف کبھی ختم نہیں ہوتا۔ تو پھر سوچئیے! کیا اﷲ تعالیٰ اور بندے کے درمیان طاقت کا اتنا بھی توازن ہے جتنا ایک عام شخص اور ایک حکمران کے درمیان ہوتا ہے؟ یہاں تو اتنا بھی توازن نہیں جتنا ایک انسان اور ایک حقیر مچھرکے درمیان ہوتا ہے۔ اور کسی ایک شخص یا ایک ملک تو کیا ساری دنیا کی طاقت، قوت، وسائل مل کر بھی ایک مچھر جتنی حیثیت حاصل نہیں کرسکتے۔ پھر بتائیے! ایسی جنگ میں امن کہاں اور اطمینان کہاں؟…
دو گناہ ایسے ہیں جنہیں اﷲ تعالیٰ کے ساتھ علانیہ جنگ قرار دیا گیا ہے۔
ایک ’’سود‘‘ اور دوسرا ’’اولیاء اﷲ‘‘ کو ستانا…
جس معیشت کا تمام تر دار و مدار سود کی لعنت پر ہو، لینا بھی سود پر اور دینا بھی سود پر۔ ایسی باغی معیشت کس طرح ترقی کرسکتی ہے اور کس طرح آسودگی کی ضامن بن سکتی ہے؟ سورۃ بقرۃ کی آیت ۲۷۹ میں واضح طور پر ارشاد فرمادیا گیا کہ اگر تم سود کا معاملہ ترک نہیں کرو گے تو اﷲ اور اس کے رسول کی طرف سے تمہارے خلاف واضح اعلان جنگ ہے۔ دنیا پریشان ہے کہ معیشت ڈوب رہی ہے یہ کوئی نہیں سوچتا کہ رب سے جنگ کرنے والوں کو تو ڈوبنا ہی ہوتا ہے، ہلاک ہونا ہی ہوتاہے۔ دنیا پریشان ہے کہ مال کو بڑھانے کی جتنی تدبیریں کی جارہی ہیں مال اس قدر تیزی سے کم ہو رہا ہے۔ یہ نہیں سوچتے کہ یہ اس احکم الحاکمین کا فیصلہ ہے جس کا ہر فیصلہ اٹل ہے۔ یمحق اﷲ الربوا اﷲ تعالیٰ سود کو مٹادیں گے۔ سود کو مٹنا ہی پڑے گا کم ہو نا ہی پڑے گا۔ معاشی منصوبے ناکامی کا شکار ہیں۔ دنیا کو اس بھنور سے نکالنے کی ہر تدبیر بیکار اور رائیگاں جارہی ہے۔ معیشت کو کنٹرول کرنے میں کامیابی نہیں مل رہی اس لیے کہ کامیابی سود کو چھوڑنے اور اس سے پرہیز کرنے میں رکھی گئی ہے۔ یہاں کامیابی پھر سود میں ہی ڈھونڈھی جارہی ہے وہ کہاں ملے گی؟ یہاں مرض میں ہی علاج تلاش کیا جارہا ہے تو اس سے صرف مرض بڑھے گا اور کچھ نہیں۔ ساری دنیا بھوک بھوک، قلت قلت، پریشانی پریشانی کا واویلا کر رہی ہے، ہر طرف بحران ہی بحران ہیں۔ مالیاتی ادارے تباہ ہو رہے ہیں۔ فیکٹریاں کم ہو رہی ہیں، کمپنیاں ختم ہو رہی ہیں، جبکہ جہاد بڑھ رہا ہے، دینی مدارس بڑھ رہے ہیں، مجاہدین اور طلبہ کی تعداد میں ہر طرف اضافہ ہی اضافہ ہے۔ حالانکہ ان سب کو مٹانے پر مال خوب خرچ ہو رہا ہے۔ زور خوب صرف ہو رہا ہے۔ وجہ صاف ظاہر ہے ان سارے کاموں کے پیچھے ’’صدقہ‘‘ کی طاقت ہے جس کے بارے میں احکم الحاکمین کا فیصلہ ہے صدقہ کو بڑھایا جائے گا۔ اس میں برکت دی جائے گی۔ صدقہ دینے والے کا مال بھی بڑھتا ہے اور اس سے شروع ہونے والا کام بھی۔ جبکہ سود کے مال کے زور پر ان کاموں کومٹانے کی ہر کوشش مٹتی جارہی ہے ناکامی کا شکار ہے۔ سو یاد رکھیں! جہاں معیشت کا تمام تر انحصار سود پر ہوگا وہاں بھوک ہو گی، افلاس ہوگا، خودکشیاں ہوں گی، بے یقینی ہوگی، خسارہ ہوگا، تباہی وبربادی ہوگی۔ لاکھ منصوبے بنالیے جائیں، ہزار کمیشن قائم کرلیے جائیں سینکڑوں اقدامات کرلیے جائیں، بھیک کے کشکول لے کر دنیا بھر کے چکر لگالیے جائیں، تجزیوں، تبصروں کے دفاتر بھرلیے جائیں۔ حاصل کچھ نہیں ہوگا۔ جنگ جاری رہے گی تو اطمینان کی روٹی نصیب نہیں ہوسکے گی۔ ہماری زمینیں دنیا میں سب سے زیادہ گندم اگاتی رہیں اور ہمارے ملک کا کسان بدحال رہے، اس کا سبب اس جنگ کے سوا کوئی نہیں۔ اس جنگ کو روکنا ہوگا پھر ہی اچھی معیشت نصیب ہوسکے گی ورنہ یہ خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہ ہوسکے گا۔
اور جس ملک کی حکومتوں کا تمام تر مطمح نظر اﷲ کے اولیاء کو ستانا ہو، ان کے خلاف کارروائیاں کرنا ہو، غیروں کے اشارے پر یہ سب کرکے اسے صبح شام اپنا کام قرار دینا ہو، اپنی ضرورت گرداننا ہو اور اپنا فرض منصبی سمجھنا ہو اس ملک کو امن نصیب نہیں ہوسکتا۔
مجاہدین اﷲ کے سب سے بڑے ولی ہیں کیونکہ وہ موت سے سب سے زیادہ محبت کرتے ہیں۔ قرآن نے موت کی تمنا اور شوق کو ولایت کی نشانی کے طور پر ذکر کیا ہے۔ طلبہ اﷲ کے ولی ہیں جو اﷲ کے دین کا علم حاصل کرنے اور اس کے فروغ کا جذبہ لے کر گھر بار، ماں باپ چھوڑ کر مسافرت کی زندگی اختیار کرتے ہیں اور اپنا وقت اﷲ کے راستے میں گزارتے ہیں۔ علماء اﷲ کے ولی ہیں جو دین کے فروغ کی محنت میں مصروف رہتے ہیں۔ تزکیہ نفس کی محنت کرنے والے اﷲ کے والی ہیں جو غیر اﷲ کو دلوں سے نکالنے کی محنت کرتے ہیں۔ ان سب کو جب ستایا جائے ، ان کے خلاف کارروائیاں کی جائیں، ان پر ناروا پابندیاں عائد کی جائیں، انہیں ڈرایا دھمکایا جائے تو اﷲ تعالیٰ سے جنگ ہوتی ہے۔ مظلوم بے گناہ مسلمان جنہیں دین کی نسبت سے ستایا جائے، ان کے گھروں میں گھس کر چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال کیا جائے،ان پر ناروا تنگیاں اور سختیاں کی جائیں، ان کی معاشی ناکہ بندیاں کی جائیں، انہیں گھروں سے بے گھر کیا جائے تو اﷲ تعالیٰ سے جنگ ہوتی ہے۔
من عادی لی ولیا فقد آذنتہ بالحرب
جو میرے اولیاء سے دشمنی رکھے گا انہیں ستائے گا اس کے خلاف اعلان جنگ ہے۔
کا نقارہ بجتا ہے۔ پھر بھی اس عمل پر اصرار ہو، مداومت ہو اور اس کے حق میں دلیلیں گھڑی جائیں تو جنگ شدت پکڑ لیتی ہے۔ ایسے میں امن کا کیا سوال اور خوف سے نجات کا کیا راستہ؟ ایسا ممکن نہیں کہ اﷲ سے لڑنے والوں اور اس پر خاموش رہنے والوں کو امن مل جائے۔ ایسا نہیں ہوسکتا کہ اﷲ کے اولیاء کو ستایا جائے اور باقی لوگ اطمینان پالیں۔ ایسا غیر ممکن ہے کہ ضعیفوں، کمزوروں کی زندگی داؤ پر لگی رہے اور باقی لوگ مامون ہوجائیں، یہ مشکل ہے کہ اﷲ کے ولی ظلم کی زد میں رہیں، ان کے گھر بے رحم کالے بوٹوں کی دھمک سے گونجتے رہیں، انہیں خوفزدہ کرنے کی کوششیں جاری رہیں اور ملک سے خوف کا راج ختم ہوجائے۔
اگر امن چاہیے، اگر رزق میں فراخی چاہئے، اگر سکون درکار ہے تو جنگ روکنا پڑے گی۔ ہمارے حکمران امریکہ سے نہیں لڑتے کہ ان کے خیال میں اس جنگ کے نتائج کا تحمل ان میں نہیں۔ ہمارے دانشور جہاد نہیں کرنے دیتے کہ ان کے گمان میں ہم اسے برداشت کرنے کے قابل نہیں۔ ہم ہندوستان کے آگے جھکتے جارہے ہیں کہ ہم جنگ کا خطرہ مول لینے کے اہل نہیں تو ذرا سوچئے! کیا ہم اﷲ تعالیٰ سے لڑنے اور لڑتے رہنے کے متحمل ہیں؟ کیا ہم اس جنگ کے نتائج جھیلنے کے اہل ہیں؟ کیا ہم اس جنگ کے چلتے ہوئے امن پاسکتے ہیں؟
اگر ہم اللہ کے دشمنوں سے لڑ لیتے اور اس پر کمر باندھ لیتے تو اﷲ تعالیٰ کی خصوصی رحمتوں کے مستحق بن جاتے اور رزق کے دروازے ہم پر کھل جاتے، ہم وہ آسودگی دیکھتے جو ان جہاد سے روکنے والے دانش خوروں نے خواب میں بھی نہ دیکھی ہوگی لیکن ہم وہاں کم ہمت نکلے اور جہاں ہمیں بالکل سہم جانا چاہئے تھا، دب جانا چاہئے تھا اور پناہ مانگ لینی چاہیئے تھی وہاں ہم دیدہ دلیری کے ساتھ ڈٹے ہوئے ہیں۔قومی ایکشن پلان کے نام پر ملک کے دیندار طبقے کے خلاف جو ظالمانہ اور غیر منصفانہ آپریشن شروع کیا گیا اب اس کا دوسرا مرحلہ شروع کرنے کی دھمکیاں دی جارہی ہیں۔ پہلے مرحلے میں ہزاروں بے گناہ لوگوں کو فورٹھ شیڈول نامی اندھے قانون کی زَد میں لاکر تین تین ماہ کے لیے نظر بند کردیا گیا۔ اس نظر بندی میں نہ عدالتی کارروائی ہوتی ہے اور نہ اسے عدالت میں چیلنج کیا جائے تو کوئی نتیجہ برآمد ہوتا ہے۔ سینکڑوں ائمہ مساجد، مدارس کے اساتذہ، مؤذنین اور مزدور پیشہ دیندار نوجوان اس ظالمانہ پکڑ دھکڑ کی زد میں آئے اور ان کے گھروں میں اس عرصے کے دوران پریشانیوں اور فقرو فاقے کے ڈیرے رہے۔ رہائی کے بعد بھی مقامی انتظامیہ کی طرف سے انہیں ستانے کا سلسلہ جاری رہتا ہے اور ان کی باہر کی زندگی جیل سے بھی بدتر بنادی جاتی ہے، اب رمضان المبارک کے قریب آتے ہی دین دشمنوں نے پھر دینداروں پر عرصۂ حیات تنگ کرنے کی ٹھان لی ہے اور اس حوالے سے اعلانات آنا شروع ہو چکے ہیں۔ کیا ان مقدس ایام میں اللہ والوں کو ستاکر اور ان کے اہل خانہ کی بد دعائیں لے کر حکومت کچھ خیر حاصل کرے گی؟
کیا ملک کو اس بری پالیسی سے کوئی اچھائی نصیب ہوجائے گی؟
ایں خیال است و محال است و جنوں
اﷲ تعالیٰ ہم سب کو سچی توبہ کی توفیق عطاء فرمائیں اور سب مسلمان اس جنگ سے باز آجائیں تاکہ اچھی معیشت اور امن نصیب ہوسکے۔
٭…٭…٭
ہندوستان سے مسئلہ کیا؟…
السلام علیکم..طلحہ السیف (شمارہ 494)
پاکستان اور ہندوستان کے درمیان مسئلہ کیا ہے؟…
یہ بات اگر آپ غلہ منڈی میں گدھے پر بوریاں لادنے والے’’ پلے دار‘‘ سے یا بلکہ اس گدھے سے بھی پوچھ لیں تو وہ آپ کو حقیقت بتا دے گا بشرطیکہ گدھے کا نام ’’ایاز امیر‘‘ نہ ہو اور وہ ’’مشروبی‘‘ نہ ہو…
جی ہاں!
جس کا نام ’’ایاز امیر‘‘ ہواور وہ فخریہ انداز میں اپنے ’’مشروبی‘‘ ہونے کا اعلان کرتا ہو اسے یہ بات معلوم نہیں ہو سکتی۔ایسے آدمی کی عقل،شعور،مطالعہ اور علم کا اندازہ آپ اسی سے لگا لیں کہ گوناگوں مسائل کے شکار پاکستان میں سب سے بڑا مسئلہ اس کے خیال میں یہ ہے کہ یہاں ’’مشروب‘‘ پر پابندی ہے۔ اور یہ بات وہ اپنے ہر دوسرے کام میں کھلے عام لکھتا ہے۔
ویسے آپ بتائیں اگر آپ سے سوال کیا جائے کہ ایک آدمی کہتا ہے :
پاکستان میں لوڈ شیڈنگ،دہشت گردی، معاشی تنزلی،کرپشن، بیڈ گورننس،بد امنی، سیاسی عدم استحکام،تعلیم کی کمی، بے روزگاری، وغیرہ وغیرہ مسائل صرف اس لئے ہیں کہ یہاں بھٹو کے دور سے ’’مشروب‘‘ پر پابندی لگا دی گئی ہے اور پاکستان کے آئین میں اس کا نام ’’ اسلامی جمہوریہ پاکستان ‘‘ لکھ دیا گیا ہے۔اگر یہ دو کام نہ کئے گئے ہوتے تو پاکستان آج مادی ترقی میں یورپ کے ہم پلہ ہوتا، یہاں کی یونیورسٹیوں کا لیول آکسفورڈ اور کیمبرج کو شرما رہا ہوتا، یہاں ہر طرف دودھ اور شہد کی نہریں بہہ رہی ہوتیں،یہاں ہر شخص برسرِروزگار ہوتا،امن و سکون کا ہر جگہ پڑاؤ ہوتا،ہر شخص ایماندار ہوتا اور کرپشن کا نام بھی اس ملک میں کوئی نہ جانتا وغیرہ…
اور آپ کو یہ نہ بتایا جائے کہ یہ بات کہنے والا شخص دانشور کہلاتا ہے،پاکستان کے ایک بڑے اخبار میں کالم لکھتا ہے اور قومی اسمبلی کا رکن رہ چکا ہے تو آپ اس شخص کو کیا نام دیتے؟…
یقیناً آپ کہتے کہ وہ ’’گدھا ‘‘ ہے…
اب سنیے!
یہ بات کہنے والے شخص کے بارے میں آپ کیا رائے دیں گے؟…
’’پاکستان اور ہندوستان کے درمیان مسائل کی جڑ ہمارا جہادی کلچر، ہماری جہادی سوچ، ہماری جہادی تنظیمیں اور ان تنظیموں کی قیادت ہے۔اگر پاکستان میں مولانا محمد مسعود ازہر نہ ہوتے، یہاں جہادی تنظیمیں کام نہ کر رہی ہوتیں، یہاں نظریہ جہاد کی بات نہ ہوتی اور کشمیر کے مسئلے کو بذریعہ جہاد حل کرنے کی کوششیں نہ کی گئی ہوتیں تو کوئی مسئلہ بھی نہ ہوتا‘‘…
آپکی رائے یقیناوہی ہو گی جو چند سطریں پہلے گذری ہے۔
کیا ان دانشورانِ قوم سے کوئی پوچھ سکتا ہے کہ ہندوستان نے جب روز اول سے ہی پاکستان کے وجود کو جو دل سے تسلیم نہیں کیا۔
ہندوستان نے مشرقی پاکستان میں جب مسلح دراندازی اور فوج کشی کر کے پاکستان کو دو لخت کیا…
ہندوستان نے جب ہمارے دریاؤں پر غاصبانہ قبضہ کیا اور ہمارا پانی روکا…
ہندوستان نے جب ایٹم بم بنایا…
ہندوستان نے جب تقسیم کے وقت لاکھوں مسلمانوں کا ریاستی قتلِ عام کرایا…
ہندوستان نے جب 1965ء میں پاکستان پر حملہ کیا…
ہندوستان نے جب سیاہ چن پر فوج کشی کی اور سر کریک کے علاقے کو اپنی تحویل میں لینے کے لئے فوجی کارروائی کی…
ہندوستان نے جب روس کے ساتھ فوجی معاہدے کئے…
ہندوستان نے جب تباہ کن میزائل ٹیکنالوجی حاصل کی اور دور مار میزائل بنائے…
اس وقت پاکستان میں کتنی جہادی تنظیمیں تھیں؟…
ان کے مراکز کہاں کہاں تھے؟…
کون سا جہادی کلچر ہمارے ہاں رائج تھا؟…
امیر المجاہدین مولانا محمد مسعود ازہر حفظہ اللہ اس وقت کون سے شہر میں تقریریں کیا کرتے تھے؟…
کون سے مجاہدین نے انڈیا کے اندر کارروائیاں کر کے اسے اشتعال دلایا تھا؟…
حقیقت حال سے پاکستان کاہر ذی شعور،تعلیم یافتہ تاریخ پر نظر رکھنے والا اور قیام پاکستان کے حالات سے آگاہ شخص واقف ہے کہ ہندوستان کی پاکستان سے ہی نہیں اپنے ملک کی مسلم عوام سے دشمنی بھی صرف کلمہ’’ لا الہ الا اللہ‘‘ کی بنیاد پر ہے، اگر اس کی دشمنی کا مدار ہمارا جہاد ہے تو 1948ء میں حیدر آباد دکن میں اَسّی ہزار سے زائد،بہار اور یوپی کے اَضلاع میں اب تک ہونے والے مختلف واقعات میں ایک لاکھ کے لگ بھگ مسلمان کس جرم میں قتل کیے گئے؟… گجرات کے مسلمانوں کا بھیانک قتل عام کس جرم میں ہوا؟… کیا وہاں پر بھی مولانا محمد مسعود ازہر صاحب مقیم تھے اور وہاں جیش محمد(ﷺ) کے مراکز تھے؟…
ہندو ہر اُس شخص کا دشمن ہے جو مسلمان ہے اور اسلام سے وابستگی رکھتا ہے خواہ اس کا تعلق کسی قومیت سے ہی کیوں نہ ہو۔ہندوستان نے روز اول سے ہی پاکستان کو ایک اسلامک اسٹیٹ کی نظر سے دیکھااور اس سے دشمنی رکھ لی۔اس کے تمام تر معاہدات، ہر طرح کے اقدامات اور پالیسیوں کا بنیادی ہدف پہلے دن سے پاکستان رہا ہے اور آج تک ہے۔اس نے اس دشمنی کی بناء پر 65ء میں ہم پر حملہ کیا۔ اس دشمنی کے سبب وہ مشرقی پاکستان میں لاؤ لشکر سمیت کودا اور اسے بنگلہ دیش بنا کر دَم لیا۔ مشرقی پاکستان کے علیحدگی پسندوں کے ساتھ جھگڑا پاکستان کا اندرونی معاملہ تھا،کیا اخلاقی اور قانونی جواز تھا جس کی بناء پر ہندوستان نے ہم پر فوج کشی کر کے علیحدگی پسندوں کے عزائم کو کامیاب بنایا؟…
کیا ایران اور ہندوستان کے علاوہ کوئی اور ملک ایسا کر سکتا ہے؟…
لیکن کسی ’’مشروبی‘‘ کا قلم ایران اور بھارت کے خلاف ان مسائل پر نہیں لکھ سکتا…
کوئی ہے جو ایاز امیر سے جا کر پوچھے کہ جہادی کلچر عام ہونے اور جہادی اسٹیٹ بننے سے پہلے کے پاکستان پر ہندوستان نے یہ سارے جارحانہ اقدامات کس وجہ سے کئے؟…
دوسری بات جو تواتر سے کہی اور لکھی جاتی ہے کہ کشمیر کاز کو ’’جہاد‘‘ کے لفظ نے نقصان پہنچایا ہے۔اگر اس مسئلہ کو جہادی رنگ نہ دیا جاتا،تحریک آزادی کو تحریک جہاد نہ بنایا جاتا تو یہ مسئلہ حل ہو چکا ہوتا، اب بھی اگر جہادی عنصر کا خاتمہ کر دیا جائے تو کشمیر کو پُر امن طریقے سے آزاد کرایا جا سکتا ہے وغیرہ وغیرہ… کیا یہ بات سچ ہے ؟…
سوال یہ ہے کہ کشمیر پر جس وقت ہندوستان نے قبضہ کیا اس کا محرک کیا تھا؟…
کشمیر کی زمین جغرافیائی طور پر جس قدر پاکستان سے وابستہ ہے ہندوستان سے نہیں…
یہاں سے نکلنے والے دریاؤں کا رخ پاکستان کی طرف ہے نہ کہ ہندوستان کی طرف…
لوگوں کا طرز حیات، قلبی وابستگی سب ہندوستان کی بنسبت پاکستان سے زیادہ ہے…
تب ہندوستان نے اس پر قبضہ کیوں کیا؟…
چلئے ان سوالات کو بھی چھوڑیے۔یہ جو سوال اُٹھایا جا رہا ہے اسی پر غور کیجئے کہ تحریک آزادی برپا ہوئے باسٹھ سال ہو گئے۔ان میں سے ابتدائی چالیس سال کشمیر کی سرزمین پر نہ کسی نے جہاد کا نام لیا، نہ وہاں آزادی کے لئے ہتھیار اٹھائے گئے،نہ پاکستان سے کوئی جا کر اس تحریک میں شامل ہوا،نہ وہاں کوئی جیش محمد پہنچی تو یہ مسئلہ کیوں حل نہ ہوا؟…
درمیان میں دس سال تحریک جہاد کے عروج کے آئے اس کے بعد کے حالیہ بارہ سالوں میںجب پرویز مشرف نے بھارتی خواہش کے عین مطابق تحریک جہاد کو کمزور کرنے کے لئے ہر قدم اٹھایا اور ہندوستان کو ہر طرح کی مدد فراہم کی، تو کیا ان بارہ سالوں میں تحریک آزادی کے کامیاب ہونے کی کوئی امید بندھی ؟ کوئی کرن نظر آئی؟…
ہاں! ان عقل کے اندھوں کو دکھایا جا سکتا ہے کہ ہندوستان کشمیر پر بات چیت کرنے پر آمادہ ہوا،کچھ لچک دکھائی تو محض ان دس سالوں کے دوران جب تحریک جہاد اپنے عروج پر تھی اور آج بھی وہ اگر مجبور ہوتا ہے تو مجاہدین کی پوشیدہ قوت کے خوف سے جو ہر کچھ عرصہ بعد کہیں سے نمودار ہو کر اس پر قہر بن کو ٹوٹ پڑتے ہیں اور سوچنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔
کشمیر میں جاری سیاسی تحریک کے بھی مختلف ادوار اسی حقیقت کے شاہد ہیں کہ تحریک جہاد شروع ہونے سے پہلے سیاسی موومنٹ کتنی کمزور اور غیر موثر تھی۔جہادی قوت آ جانے کے بعد وہ کس طرح طاقتور ،موثر اور مضبوط ہو گئی ہے۔آج کا سیاسی کارکن اور 1992ء سے پہلے کا سیاسی کارکن کس قدر مختلف ہے، یہ بات کسی ذی شعور سے مخفی نہیں۔کشمیری نوجوان پر مقبول بٹ اور افضل گورو جیسے ’’جہادی‘‘ مفکرین کا رنگ اور اثر گہرا ہے یا محض سیاسی مفکرین کا؟… موازنہ کرنے والے آزادی سے کر سکتے ہیں اور انصاف سے فیصلہ کر سکتے ہیں۔
ہاں! البتہ یہ اٹل حقائق سمجھنے کے لیئے شعور کی ضرورت ہے جو ’’مشروب‘‘ کے بغیر ہی قائم رہ سکتا ہے۔مشروب کی بوتل میں بیٹھ کر لکھنے والوں کی باتیں حقیقت نہیں ہوتیں۔ اُمّ الخبائث کے زیر اثر لکھے جانے والے الفاظ بھی اُم الخبائث ہی ہوتے ہیں۔اگر کسی کو’’ایاز امیر‘‘ کبھی حالت شعور میں مل جائے تو اس سے بھی یہ سوال پوچھے جا سکتے ہیں لیکن ایسا ہونا بہت مشکل ہے۔ دنیا کا قانون بھی عجیب ہے کہ ’’مشروب‘‘ پی کر گاڑی چلانے والے کا تو چالان کر دیتے ہیں لیکن جو ’’ پی‘‘ کر ملک و قوم چلانے کے چکر میں ہے ان سے کوئی نہیں پوچھتا۔
٭…٭…٭
عشر اورانفاق
السلام علیکم..طلحہ السیف (شمارہ 493)
انفاق فی سبیل اللہ ،اللہ تعالیٰ کے محبوب اعمال میں سے ایک ہے۔ قرآن و حدیث میں اس کی ترغیب اور فضائل پر درجنوں آیات اور سینکڑوں صحیح احادیث وارد ہیں۔ انسان چونکہ طبعاً مال پر حریص ہے اور اس کی محبت میں بھی گرفتار رہتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے اسے اس قدر ے مشکل عمل پر ابھارنے کیلئے عجیب اسلوب اختیار فرمایا ہے کہ یہ مال اس سے بطور قرض مانگتے ہیںاور پھر قرض کی ادائیگی بھی برابری کی سطح پر نہیں بلکہ بڑھا کر کرنے کا وعدہ فرماتے ہیں۔ انسان اپنے مال کو بڑھانے کے لئے دنیا میں یہی صورت حرام طریقے پر اختیار کرتا ہے اور سود اور ظلم کی برائی میں گرفتار ہوتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے اسے ’’اسلامی بینکنگ‘‘ سکھا دی کہ تم اگر چاہو کہ تمہارا مال بڑھتا رہے اور اضعافاً مضاعفۃاس میں اضافہ ہوتا رہے تو تم اسے اللہ کے راستے میں خرچ کردو۔ اس طرح یہ مال کبھی ضائع نہیں ہوگا اور تم آسودگی کے ساتھ زندگی گزار سکو گے۔
دوسرا حسین اسلوب یہ اختیار فرمایا کہ ’’انفاق فی سبیل اللہ‘‘ کو ایک کامیاب تجارت قرار دیا۔ انسان اپنا مال محفوظ رکھنے اور اس میں بڑھوتری کے لئے جو ذرائع استعمال کرتا ہے ان میں بہترین ذریعہ ’’تجارت‘‘ ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ کسی ایسی تجارت میں مال لگا دے جہاں ضائع ہونے کی اندیشہ بھی نہ ہو، نقصان کا احتمال بھی کم ہو اور منافع کی شرح زیادہ ہو۔ لیکن اس کے پیش نظر صرف دنیا کی چند روزہ زندگی ہوتی ہے کہ یہ کس طرح راحت و سکون سے گزر جائے جبکہ وہ اس زندگی کو فراموش کر دیتا ہے جو اس کا اصل مستقبل ہے اور ہے بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لئے۔ اس کا سکون اصل سکون اور اس کی کامیاب اصل کامیابی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے بتایاکہ تم اگر اس مال کو اللہ کے راستے میں ’’جہاد‘‘ میں خرچ کردو گے تو یہ تمہاری آخرت کی کامیابی کا ضامن بن جائیگا۔ دیکھئے سورۃ الصف۔ اور یہ تجارت ایسی ہے جس میں نقصان کا احتمال سرے سے ہے ہی نہیں کیونکہ معاملہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہے۔
یوں تو ’’انفاق فی سبیل اللہ‘‘کا مصداق عام لیا جاتا ہے کہ دین کے کسی بھی کام پر مال خرچ کرنا انفاق فی سبیل اللہ ہے لیکن یہ بات مصدقہ اور تسلیم شدہ ہے کہ اس باب میں وارد ہونے والی آیات اور احادیث کا اولین مصداق ’’جہاد فی سبیل اللہ‘‘ یعنی اللہ کے راستے میں لڑائی پر مال خرچ کرنا ہے۔ قرآن کریم میں مال خرچ کرنے کا حکم یا تو جان خرچ کرنے کے ساتھ مذکور ہے جو ظاہر ہے قتال سے ہی متعلق ہے، دیگر آیات جن میں مطلق انفاق کا حکم ہے ان کی تفسیر معتبر تفاسیر میں انفاق فی الجہاد سے کی گئی ہے۔
تفصیل کے لئے فتح الجوّاد کی مطبوعہ دونوں جلدوں میں ان آیات کے ذیل میں ملاحظہ فرما لیں اور جو حضرات عربی جانتے ہوں وہ تفسیر ابن کثیر، روح المعانی، البحر المحیط اور قرطبی وغیرہ میں دیکھ سکتے ہیں۔ اسی طرح حدیث کی کتب میں ’’انفاق فی سبیل اللہ‘‘ کی ترغیب یا فضائل پر مشتمل احادیث کو کتاب الجہاد، کتاب السیر اور کتاب المغازی میں ذکر کیا جاتا ہے جو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ محدثین کرام کے نزدیک ’’انفاق فی سبیل اللہ‘‘ کا اولین اور حقیقی مصداق ’’انفاق فی القتال‘‘ ہے۔
رئیس المحدثین شارح بخاری علامہ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے اپنی شہرہ آفاق تصنیف ’’فتح الباری‘‘ میں اسی تعامل کے پیش نظر لکھا ہے کہ لفظ’’ فی سبیل اللہ‘‘ کا اولین اور فوری ذہن میں آنے والا معنی ’’جہاد فی سبیل اللہ‘ ‘ ہے۔ (فتح الباری ج۶ صفحہ ۲۹) اور یہ اصول اہل لغت کے ہاں طے شدہ ہے کہ لفظ کے حقیقی معنی وہی ہوتے ہیں جو فوری ذہن میں آجائیں۔
’’التبادر امارۃ الحقیقۃ‘‘
اسی طرح صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے جو واقعات انفاق کے باب میں مشہور ہیں وہ زیادہ جہاد کے موقعوں پر ہی رونما ہوئے۔ مثلاً حضرت ابو بکر صدیقؓ کا اپنا تمام مال راہ خدا میں قربان کرنا، حضرت عمرفارقؓ کا نصف مال دینا، حضرت عثمان غنیؓ کا ایک ہزار دینار قدموں میں نچھاور کرکے جنت و رضاء مندی کی بشارتیں پانا اور آئندہ سرزد ہونے والی لغزشوں کی پیشگی معافی کا پروانہ حاصل کرنا اور اس طرح کے دیگر واقعات ۔اسی طرح ان مفلس صحابہ کرام کی عظیم ’’قربانی جو انفاق کا ثواب حاصل کرنے کے لئے دن بھر مزدوری کرتے اور اس کی اجرت میں سے بچوں کی روٹی کا انتظام کرکے باقی صدقہ کر دیتے یہ تمام واقعات غزوۂ تبوک کے موقع پر پیش آئے جب نبی کریم ﷺ نے اسلامی لشکر کی تیاری کے لئے مسلمانوں سے مال مانگا اور خرچ کرنے کی ترغیب دی۔ ذیل میں ہم چند احادیث ذکر کرتے ہیں جن میں ’’جہاد‘‘ میں مال خرچ کرنے کے فضائل بیان کئے گئے ہیں۔
(۱) سات سو گنا اجر
حضرت ابو مسعود انصاری ؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص لگام والی ایک اونٹنی لے کر نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ یہ میں اللہ کے راستے میں دے رہا ہوں۔ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا تیرے لئے اس کے بدلے میں قیامت کے دن سات سو لگام دار اونٹنیاں ہوں گی (صحیح مسلم)۔
حضرت علی، ابو الدردائ، ابو ہریرہ، ابو امامہ الباہلی، عبداللہ بن عمر، جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ جس شخص نے اللہ کے راستے میں جہاد کے لئے مال بھیجا اور خود گھر بیٹھا رہا اس کے لئے ہر درہم کے بدلے سات سو کا اجر ہے (ابن ماجہ، ابن حبان)۔
واضح رہے کہ یہ ثواب اس شخص کے لئے ہے جو صرف مال خرچ کرے خود جہاد پر نہ جائے جبکہ وہ شخص جو خود بھی نکلے اور مال بھی خرچ کرے اس کا اجر ایک کے بدلے میں سات لاکھ ہے جیسا کہ ابن ماجہ اور بیہقی کی دیگر روایات میں واضح ہے۔
(۲) جہاد کا اجر
زید بن خالد جہنی ؓ سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا: جس نے اللہ کے راستے میں نکلنے والے مجاہد کو سامان فراہم کیا اس نے بھی جہاد کیا اور جس نے مجاہد کے گھر والوں کی بھلائی کے ساتھ دیکھ بھال کی اس نے بھی جہاد کیا ۔ (بخاری و مسلم)
زید بن خالد جہنیؓ سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا: جس نے روزہ دار کو افطار کرایا یا مجاہد کو سامان ِ جہاد فراہم کیا یا اس کے گھر کی اچھی طرح دیکھ بھال کی اسے روزہ دار اور مجاہد کا اجر ملے گا جبکہ ان کے اجر میں کوئی کمی نہ کی جائے گی۔ (مصنف ابن ابی شیبہ)
ان دونوں احادیث میں مجاہدین اور شہداء کے گھرانوں کی کفالت کی فضیلت بھی خصوصیت سے معلوم ہوتی ہے۔ نبی کریم ﷺ خود شہداء کے گھرانوں کا خصوصیت سے خیا ل رکھا کرتے تھے۔ حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ مدینہ میں اپنے گھروں کے علاوہ صرف حضرت ام سلیم ؓ کے گھر جایا کرتے تھے اور فرماتے تھے مجھے ان پر رحم آتا ہے ان کے بھائی میرے ساتھ قتل ہوئے۔ (بخاری)
(۳) جہاد میں خرچ نہ کرنے کا وبال
حضرت ابو امامہؓ سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا : جس شخص نے خود بھی جہاد نہ کیا اور نہ کسی مجاہد کو سامان فراہم کیا نہ مجاہد کے گھر کی اچھائی کے ساتھ دیکھ بھال کی اللہ تعالیٰ قیامت سے پہلے اسے بڑی مصیبت میں مبتلا کردیں گے۔ (ابو دائود)
گزشتہ ہفتے عشر کی بات ہوئی تھی اور اس حوالے سے ’’الرحمت‘‘ کی خدمات کا بھی مختصر تعارف پیش کیا تھا۔ اب آپ کو ایک اور نفع والے سودے کی طرف متوجہ کرنا مقصود ہے کہ آپ اپنا عشر کا فریضہ بھی ادا کریں اور جہاد پر مال خرچ کرنے کا ثواب بھی حاصل کرسکتے ہیں تو دیر نہ کیجئے۔ ’’الرحمت‘‘ کے رضاء کار آپ کے قریب ہی موجود ہیں۔ ان کے خالی تھیلے بھر کر ان کے حوالے کردیں اور سعادتوں سے اپنی جھولی بھرلیں۔
٭…٭…٭
عشر…ایران
السلام علیکم..طلحہ السیف (شمارہ 492)
آپ نے گندم کاٹ لی ہو گی یا کاٹنے والے ہوں گے…
آپ کو قرآن مجید کا یہ حکم بھی معلوم ہو گا:
’’ اور کٹائی کے دن اِس ( کھیتی) کا حق ادا کرو‘‘ ( الانعام)
آپ یہ بھی جانتے ہوں گے کہ کھیتی کا حق کیا ہے؟…
جی ہاں!
بارانی زمین کی کاشت کا دسواں اور خود سیراب کی جانے والی زمین کی پیداوار کا بیسواں حصہ…
پیداوار کم ہو یا زیادہ…
سبزی ہو یا پھل…
اناج ہو یا چارہ…
حتی کہ جانوروں کے کھانے کے لئے اُگائی جانے والی گھاس اور چارے میں بھی اللہ تعالیٰ کے اس حق کی ادائیگی ضروری ہے…
مسائل ہر سال شائع کیے جاتے ہیں اور اب بھی ’’القلم‘‘ میں کئی ہفتوں سے یاد دِہانی چل رہی ہے اور مسائل سے آگہی بھی فراہم کی جا رہی ہے…
اس وقت گندم کا موسم ہے جو ہماے ملک کے تقریباً ہر گھر کی بنیادی ضروریات میں سے ایک ہے…ہمارے ملک کے اکثر حصوں میں لوگوں کی بنیادی غذا گیہوں کی روٹی ہے۔اس لئے ہر صاحب خانہ کی فکر ہوتی ہے کہ اس کے پاس سال بھر کی ضرورت کی گندم مہیا ہو جائے تاکہ کچھ اطمینان اور بے فکری حاصل ہو جائے…
آپ کے پاس ’’الرحمت‘‘ کی طرف سے عشر وصولی کی دعوت بھی پہنچی ہو گی…
آپ کے علم میں ہے کہ ’’الرحمت‘‘ والے آپ کا عشر وصول کر کے کہاں پہنچائیں گے؟
نہیں تو ایک اِجمالی سی فہرست حاضر خدمت ہے:
(الف) اللہ تعالیٰ کے راستے میں برسرپیکار غازیوں اور زیر تربیت مجاہدین تک…اور یہ وہ لوگ ہیں جن پر خرچ کرنا باقی ہر جگہ خرچ کرنے سے بہت زیادہ فضیلت رکھتا ہے،کم از کم سات سو گنا، زیادہ سے زیادہ کا علم اللہ تعالیٰ کے پاس ہے، پورا سال یہ گندم ان کی غذا بنتی ہے اور دینے والوں کے لئے اجر و ثواب کا ایسا خزانہ جس کی حدود صرف اللہ تعالیٰ کے علم میں ہیں…
(ب) شہداء کرام،اسیران اسلام اور غلبہ دین کی عملی محنت میں کل وقتی شریک حضرات کے کم از کم ڈھائی ہزار گھرانوں میں۔
شہداء کرام کے گھرانوں کا خیال رکھنا اور ان کی بھلائی کے ساتھ کفالت و دیکھ بھال کرنا وہ عمل ہے جس کی طرف حضرت آقا مدنی ﷺ نے اپنی اُمت کو ترغیب و تحریض کے ساتھ متوجہ فرمایا اور اسے ’’جہاد‘‘ میںخود شرکت کرنے جیسا عمل قرار دیا اور اللہ تعالیٰ کے دین کے لئے خود کو ’’وقف‘‘ کیے ہوئے لوگ تو مفسرین کرام کے مطابق اس آیت کا اولین مصداق ہیں:
’’خیرات اُن حاجت مندوں کے لیے ہے جو اللہ کی راہ میں رکے ہوئے ہیں ملک میں چل پھر نہیں سکتے، ناواقف ان کے سوال نہ کرنے سے انہیں مال دار سمجھتا ہے، تو ان کے چہرے سے پہچان سکتا ہے ۔یہ لوگوں سے لپٹ کر سوال نہیں کرتے اور جو کام کی چیز تم خرچ کرو گے بے شک وہ اللہ کو معلوم ہے ‘‘۔ ( سورۃ بقرۃ آیت ۲۷۳)
اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں پر مال خرچ کرنے کی بطور خاص ترغیب دی ہے۔ڈھائی ہزار تعداد بہت احتیاط کے ساتھ کافی کم بتائی ہے اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔اللہ تعالیٰ کی پناہ ہر طرح کے جھوٹ اور مبالغے سے…
(ج)دینی مدارس و مراکز
جماعت کے زیر اِنتظام چلنے والے مدارس کی تعداد تقریباً سترہ ہے، جن میں ہزاروں طلبہ زیر تعلیم ہیں۔اسی طرح جماعت کے ساتھ گہرا تعلق رکھنے والے حضرات کے بعض مدارس بھی اس سلسلے سے مستفید ہوتے ہیں جبکہ مراکز میں پورا سال جاری رہنے والے تعلیمی اور اصلاحی دورہ جات کے ہزاروں شرکاء اور مقیمین…
(د)فقرائ،مساکین اور آفت زدگان
یہ چند مصارف ’’ مشتے نمونہ خردارے‘‘ کے مصداق عرض کر دئیے ہیں۔ان کی وسعت اور ضروریات کا اندازہ آپ خود لگا سکتے ہیں۔
مال کی وسعت اور برکت کا راز صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے حقوق کی ادائیگی اور راہِ خدا میں اسے دل کی خوشی کے ساتھ خرچ کرنے میں مضمرہے۔اللہ تعالیٰ کا ایک فرشتہ روزانہ صبح بحکم الٰہی نداء لگا کر خرچ کرنے والے کو برکت و اضافے کی دعاء سے نوازتا ہے اور روکنے والے کو ہلاکت و تنگدستی کی بد دعاء دیتا ہے۔کیا اس کے باوجود بھی کوئی ذی ہوش انسان اپنے مال میں اللہ تعالیٰ کے حقوق خصوصاً فرائض کی ادائیگی میں غفلت برت سکتا ہے؟ اور عشر مال کے ان حقوق میں سے ہے جو فرض ہیں۔اس لئے جو چاہتا ہو کہ اس کی زمین بابرکت رہے،پیداوار پاکیزہ رہے اور کسب حلال ہو اسے لازم ہے کہ سب سے پہلے اس میں اللہ تعالیٰ کا حق ’’عشر‘‘ اداء کرے۔
’’الرحمت‘‘ کے جو سربکف رضاکار اس شدید گرمی میں آپ کے علاقوں میں پھر رہے ہیں۔آپ کو اس فریضے کی ادائیگی کی دعوت بھی دے رہے ہیں اور مصرف بھی بتا رہے ہیں یہ حقیقت میں آپ کے محسن ہیں ان کی قدر کیجئے۔ یہ آپ کے خیر خواہ ہیں۔ یہ چاہتے ہیں کہ فرض ادا کرکے آپ اللہ تعالیٰ کے فرمانبردار بنیں، یہ چاہتے ہیں کہ آپ کی آمدنی پاک ہو جائے اور جو غلہ آپ استعمال کریں یا فروخت کریں وہ حلال طیب ہو۔ یہ آپ کو فرض سے سبکدوش کر رہے ہیں اور آپ کی امانت کا بوجھ اپنے کندھوں پر لادنے کا ایثار کر رہے ہیں۔ یہ آپ کے نفع کی خاطر خود کو تھکا رہے ہیں اور آپ کے فائدے کے لئے اپنا پسینہ بہا رہے ہیں۔ایسے محسنین کا کیا حق ہے؟
آپ خود بہتر فیصلہ کر سکتے ہیں…
بس مقصد آپ کو اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچانا تھا:
’’ اور کٹائی کے دن اِس (کھیتی) کا حق اداء کرو‘‘ …
اور آپ کو حق کی ادائیگی کا راستہ دکھانا تھا کہ ’’الرحمت‘‘ کے ذریعے یہ حق ادا کر کے بہت سا اِضافی نفع آپ کما لیں…
٭…٭…٭
پہلے ایک رپورٹ پڑھئے جو کل ’’العربیہ نیٹ‘‘ پر شائع ہوئی ہے:
’’ایران کی بری فوج کے سربراہ بریگیڈیئر احمد رضا بوردستان نے دھمکی دی ہے کہ اگرسعودی عرب نے یمن میں حوثی باغیوں کے خلاف فوجی کارروائی بند نہ کی تو تہران، ریاض کیخلاف فوجی کارروائی سے گریز نہیں کرے گا.ایران کے عربی زبان میں نشریات پیش کرنے والے ٹیلی ویڑن چینل “العالم” کی ویب سائیٹ پر جاری ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بریگیڈیئر بوردستان نے ٹی وی کے پروگرام “ایران سے” میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان کا ملک سعودی عرب کے ساتھ کشیدگی نہیں چاہتا لیکن ریاض کو بھی یمن میں حوثیوں کے خلاف جاری فوجی آپریشن بند کرنا ہوگا۔ ان کا کہنا ہے کہ سعودی عرب نے یمن میں حوثیوں کے خلاف جاری لڑائی بند نہ کی تو جنگ کا دائرہ وسیع ہوسکتا ہے۔ ایسے میں ہمیں بھی سعودی عرب کے خلاف فوجی کارروائی پر مجبور ہونا پڑے گا۔خیال رہے کہ ایرانی فوجی عہدیدار کی جانب سے یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب سعودی عرب کی قیادت میں یمن میں حوثیوں کے خلاف “فیصلہ کن طوفان” آپریشن کامیابی کے ساتھ جاری ہے تاہم ایران اور اس کے حلیف بعض ممالک یمن میں سعودی عرب کے فوجی آپریشن کے خلاف ہیں۔
ایسے حالات میں ایرانی فوجی عہدیدار کا کہنا ہے کہ یمن میں سعودی عرب کے فوجی حملے بند نہ ہوئے تو ایرانی طیارے سعودی عرب پر بمباری کریں گے۔ مبصرین کے خیال میں ایران سعودی عرب میں عملاً فوجی کارروائی کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ اس کے کئی اسباب ہیں۔ ایران اس وقت شام میں صدر بشارالاسد کے خلاف جاری عوامی بغاوت کی تحریک کو کچلنے کے ساتھ ساتھ لبنان اور عراق میں بھی اپنی فوجی مداخلت جاری رکھے ہوئے ہے۔ ایسے میں تہران کے لیے کوئی نیا محاذ کھولنے کی صلاحیت نہیں ہے۔
سعودی عرب کی دفاعی صلاحیت کے بارے میں بات کرتے ہوئے بریگیڈیئر علی رضا بوردستان کا کہنا تھا کہ سعودی عرب کو جنگ کا کوئی تجربہ نہیں ہے۔ اس لیے سعودی عرب کی فوج ایک نا تجربہ کار عسکری گروپ سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی۔ ریاض حکومت کے لیے مناسب یہی ہے کہ وہ یمن میں فوجی کارروائی ترک کرکے بات چیت اور سیاسی عمل کے ذریعے مسئلے کا حل نکالے ورنہ جنگ خود سعودی عرب تک پھیل سکتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ تہران سعودی عرب کے ساتھ جنگ کا خواہاں نہیں ہے مگر اس کا فیصلہ اب سعودی عرب کو کرنا ہوگا کہ آیا وہ جنگ کو طول دینا چاہتا ہے یا اسے بات چیت کے ذریعے ختم کرنا چاہتا ہے۔ ہمیں مجبور کیا گیا تو سعودی عرب کی سرزمین میں بھی فوجی کارروائی سے گریز نہیں کریں گے۔
ایرانی بری فوج کے سربراہ نے بالواسطہ طورپر یمن کے حوثی باغیوں اور برطرف صدر علی عبداللہ صالح کی وفادار ملیشیا پر سعودی عرب پرحملوں کی بھی ترغیب دی اور کہا کہ حوثی باغیوں اور علی عبداللہ صالح کے وفاداروں کے پاس سعودی عرب پرحملوں کی بھی صلاحیت موجودہے۔
بریگیڈیئر علی رضا بوردستان کا بیان پاسدارن انقلاب کے ڈپٹی چیف جنرل حسین سلامی کے اس بیان سے کافی حد تک مماثلت رکھتا ہے جس میں انہوں نے یمن کے حوثی باغیوں کو سعودی عرب پر حملوں کی ترغیب دی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ حوثیوں کے پاس سعودی عرب کے تمام شہروں کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھنے والے میزائل موجود ہیں‘‘
رپورٹ آپ نے پڑھ لی؟
اب ایک سوال اُس لابی سے جو ’’یمن ‘‘ کے مسئلے پر سعودی مداخلت کو جارحیت سے تعبیر کرتی ہے اور اس کی شروع دن سے یہ دعوت ہے کہ سعودیہ،امارات،تمام عرب ممالک اور پاکستان کو اس معاملے میں غیر جانبداری کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور کسی طرح کی بھی مداخلت سے گریز و پرہیز کرنا چاہیے۔ان سے پوچھیں کہ ایران اب کن اسباب کی بناء پر اس جنگ میں کود رہا ہے اور سعودیہ کو کس بنیاد پر دھمکیاں لگا رہا ہے؟
یمن اور ایران کا آپس میں کیا رشتہ ہے؟…
جواب صاف ہے کہ ایران نے پورے خطے کو ایک فرقہ وارانہ جنگ کا میدان بنا دیا ہے۔عراق،شام اور لبنان میں اس کی ان کارروائیوں پر کوئی رد عمل عرب ممالک کی طرف سے سامنے نہیں آیا تو بات گول رہی۔ اب پہلی بار عرب ممالک نے اس مسئلے کو سنجیدگی سے لے کر تھوڑا سا اس کی دُم پر پاؤں رکھا ہے تو
’’ بلی تھیلے سے باہر آ گئی‘‘ ہے…
مسٹر بریگیڈئیر! یہ موت بھولنا کہ سعودیہ عراق و شام نہیں، اَرضِ حرمین ہے۔اس پر حملہ زندگی کا آخری حملہ ثابت نہ ہو، بس یہ خیال کر کے بڑھک لگانا…
٭…٭…٭
دوستی
السلام علیکم..طلحہ السیف (شمارہ 491)
ایک شخص نے دیکھا کہ اُس کے دوست کو کوئی بُری طرح پیٹ رہا ہے اور وہ بے چارہ بمشکل اپنا دفاع کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اسی اَثناء میں اُس کی نظر اپنے دوست پر پڑی تو اُس نے مدد کے لئے پکار لیا۔ دوست صاحب فوراً دوڑے اور آ کر اپنے دوست کے دونوں ہاتھ مضبوطی سے پکڑ لیے۔اس کے بعد دوست کے ساتھ جو کچھ ہوا ہو گا وہ آپ کو بتانے کی ضرورت نہیں آپ خود سمجھ دار ہیں۔ کچھ دنوں بعد دونوں ’’دوست‘‘ آپس میں ملے تو بے چارے مضروب نے شکوہ کیا:
’’ تم اچھے دوست ہو !…بجائے میرے دشمن کو مارنے بھگانے اور میری مدد کرنے کے تم نے میرے ہی ہاتھ پکڑ لیے…
جواب میں وہ اینکرانہ دانشوری کے ساتھ بولا:
’’ میں نے کچھ غلط نہیں کیا۔ حضرت شیخ سعدی ؒ کے فرمان پر عمل کیا ہے:
دوست آں باشد کہ گیرد دستِ دوست
در پریشاں حال و در ماندگی
(دوست وہ ہوتا ہے جو پریشانی اور مشکل کے وقت اپنے دوست کا ہاتھ ’’تھام‘‘ لے )
میں نے حق دوستی ادا کیا اور تم طعنہ زنی کر رہے ہو؟شرم کرو…
مگر ’’پاکستان‘‘ بھائی تمہیں اس شعر کا یہ مطلب کس نے بتایا؟…
ایرانی وزیر خارجہ اور میرے ساتھ رہنے والی ایرانی لابی نے اور کس نے؟…فارسی شعر کا مطلب ان سے بہتر اور کون بتا سکتا ہے۔ایرانی وزیر خارجہ تو خاص اسی کا مطلب بتانے ہنگامی دورے پر آیا تھا…
سعودی عرب کو پاکستان جیسا دوست مبارک … جس نے پریشانی اور مشکل کے وقت اس کا ہاتھ مضبوطی سے ’’تھام ‘‘ لیا ہے…
’’پاکستان کی پارلیمنٹ نے یمن کے معاملے میں غیر جانبدار رہنے کا متفقہ فیصلہ کر لیا ہے‘‘…
یہ خبر میڈیا پر آتے ہی کئی لوگ حیرانی کا اظہار کرنے لگے کہ سعودی عرب کے ساتھ تعاون کے مسئلے پر ایسا فیصلہ اور وہ بھی پاکستان کی پارلیمنٹ میں؟…
مگر صاحب! یہ تو کوئی حیرانی کی بات نہیں…
اصل حیرانی کا موقع تو تب ہوتا اگر فیصلہ اس کے خلاف آیا ہوتا…
خوئے غلامی نبھانے کا موقع تھا ہم نے خوب نبھائی ۔ امریکہ کے اتحادی بنے اور امارت اسلامیہ افغانستان کا خون کیا۔ اس وقت نہ فرقہ واریت کے مینڈک ٹرٹراتے ہوئے بلوں سے باہر آئے کہ ایسا کرنے سے ملک میں فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا ہو گی اور نہ ہی قومی مفاد کا درس دینے والے دانش وار۔نہ اس وقت کسی کو آزادی و خودمختاری یاد آئی اور نہ کسی کو یہ الہام ہوا کہ پرائی جنگ میں کودنا نقصان دِہ ہو سکتا ہے۔ نہ اس وقت ایران کے وزیر خارجہ کو ہنگامی دورہ ’’لگا‘‘ اور نہ سیاسی جماعتوں کو دانش وری سوجھی۔ سب نے بھنگ پی اور لمبی تان کر سوئے رہے اور ایک فون صرف ایک فون کال پر پوری قوم کے منہ پر کالک مل دی گئی۔ اور آج جب دوستی نبھانے اور عشروں پر محیط عظیم احسانات کا بدلہ چکانے کا وقت آیا تو ہم نے … مرادنگی پر غلامی کو ترجیح دے دی۔ دوستی اور احسان مندی کے تقاضے نبھانا ’’آزاد‘‘ لوگوں کا شیوہ ہوا کرتا ہے،غلام نہ کس کے دوست ہوتے ہیں نہ احسان مند، تو غلاموں کی پارلیمنٹ سے جس نے ’’خوئے حریت‘‘ کی امید رکھی وہ ’’ گدوبندر‘‘ میں داخلہ لے لے تو زیادہ بہتر ہو گا۔محسنوں کے ساتھ،دوستی کا اعلان کرنے اور تعلق داری میں قربانی دینے والوں کے ساتھ ہمارا رویہ ملاحظہ کرنا ہو تو بنگلہ دیش میں پھانسیوں پر جھولنے والے ’’پاکستانیوں ‘‘ کے بارے میں ہماری پارلیمنٹ کا طرز عمل کافی روشن مثال ہے۔ اس کے بعد بھی کسی مثال کی حاجت تھی تو ’’سعودیہ‘‘ کے بارے میں قرارداد ملاحظہ کر لی جائے۔ امید ہے آئندہ پاکستان کے ساتھ ’’دوستی ‘‘ کا اعلان کرتے ہوئے ہر کوئی محتاط رہا کرے گا۔ اور ہاں …کشمیری بھی تو ایک روشن مثال کے طور پر موجود ہیں۔
جی ہاں! قومی پالیسیاں جب ’’حامد میروں‘‘ کی دانش وری اور فرقہ پرستوں کی دھمکیوں سے متاثر ہو کر ’’خواجہ آصفوں ‘‘ کے ہاتھوں تشکیل پائیں گی تو اس کے سوا اور کیا ہونگی؟…
چلئے چھوڑیے! سعودی عرب میں مقیم ڈھائی ملین سے زائد پاکستانیوں میں ایک کی تحریر پڑھیے جو انہوں نے اس قرارداد پر لکھی ہے:
’’ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس نے اپنا فیصلہ سنا دیا۔پاکستان اب یمن تنازعے میں غیر جانبدار رہے گا۔سعودی عرب کو نصیحت کی گئی ہے کہ وہ یمنی دہشت گردوں کے خلاف کارروائی سے باز رہے بلکہ معاملے کو بات چیت سے حل کرے اور پاکستانی ثالثی کے لئے تیارر ہے۔ ہر مشکل گھڑی میں اپنے وسائل اور اخلاص کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے رہنے والے سعودیوں کو شائد کچھ عجیب سا لگے لیکن حقیقت یہی ہے کہ پاکستانی میڈیا کے زیر اثر سیکولر اور مغرب نواز حلقے اپنا موقف منوانے اور اسے مقبول بنوانے میں کامیاب رہے ہیں۔پاکستان کو سب سے زیادہ تعاون فراہم کرنیوالا ، چالیس لاکھ پاکستانیوں کے لئے دوسرا گھر ،مذہب اورسماجی تعلقات کی سانجھ رکھنے والا اور ایٹمی پلانٹ و عسکری منصوبوں کے لئے بے حساب فنڈز فراہم کرنیوالا سعودی عرب آج پاکستان میں سب سے زیادہ ’’ اجنبی‘‘ اور کسی حد تک متنازعہ اور مجرم بنانظر آتا ہے۔سعودی عرب کا قصور یہ ہے کہ اس نے پاک بھارت جنگوں ، افغان جنگ ، ایٹمی دھماکوں کے بعدلگنے والی پابندیوں اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے موقعے پر بغیر کسی حساب کتاب کے بے لوث تعاون فراہم کرتے ہوئے کبھی خیال ہی نہیں کیا کہ پاکستانی تو خوب سیانے ہیں یہ اس وقت پوراحساب کتاب لگائیں گے اور عالمی سیاست کے اصول و ضوابط کو پرکھیں گے کہ جب سعودی عرب کو ان کی ضرورت پڑے گی۔ پاکستانی سعودی عرب کو شک کی نگاہ سے دیکھیں گے اور اس کی سلامتی کے لئے خطرہ بن جانے والے دہشت گردوں کو فرقہ وارانہ نظر سے دیکھتے ہوئے خود سے ہی معاملے کو بات چیت سے حل کرنے کا قیمتی مشورہ بھی دیں گے۔ سنا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کے ہم خیال بہت سے ممالک صرف دوستی نبھانے کے لئے جنگ میں کود پڑے تھے۔ خیر وہ تو دوست ممالک تھے۔یہاں معاملہ کچھ اور ہے میڈیا نے ہمیں سمجھایا ہے کہ سعودی عرب کو کسی پرانے دوست کے روپ میں دیکھنے کی بجائے فرقہ واریت کی عینک لگا کر دیکھنا ہوگا۔اوریہی حقیقت ہے کہ میڈیا کے تجزیہ نگاروں اور ان کے زیر اثر سیاستدانوں نے ایسا ہی کیا جس کا مظاہرہ مشترکہ قرارداد میں کیا گیا ہے۔ سعودی عرب کا قصور یہ بھی ہے کہ اس نے زلزلے و سیلاب سے متاثر غریب پاکستانیوں کی خوب دل کھول کر مدد کی ، سکالرشپس دیگر غریبوں کے بچوں کو پڑھاتا رہا ، عام شہریوں کی ملازمتوں اور روزگار کے لئے اپنے دروازے کھولے رکھے لیکن میڈیا ، طاقتور بیوروکریسی اور سیاسی رہنماوں کو خوش کرنا بھول گیا اور اسی کا خمیازہ آج بھگت بھی رہا ہے کہ کوئی پاکستان میں اس کی بات کرنے ، اس کے مسائل سمجھنے اور اس کا موقف پیش کرنے پر تیار نہیں۔اور تو اور سعودی عرب کے تعلقات بھی تو پاکستان کی دینی جماعتوں کے ساتھ ہی ہیں جن بیچاروں کو ملکی سیاست میں کوئی گھاس بھی نہیں ڈالتا۔اب عربوں کو کون سمجھائے کہ پاکستان میں قیمتی تحائف ، عیاشی کے لئے مغربی عشرت کدوں کی زیارت ، عوامی بہبود کے ہر منصوبے میں سیاستدانوں اور بیوروکریسی کے حصے اور طاقتور میڈیا گروپس کو خوش کرنے کا رواج ہے جبکہ سعودی عرب کے بھولے بادشاہ پاکستانیوں کو حج و عمرے کے بابرکت سفر سے رام کرنے کی کوشش کرتے رہے۔سعودی عرب شائد واحد ملک ہوگا کہ جو ڈیڑھ ارب ڈالر فراہم کرنے کے باوجود اظہار تشکر کی بجائے متنازعہ بنا دیا گیا۔ حالانکہ ہم دیکھتے ہیں کہ کئی ممالک ہمارے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے اربوں ڈالر ادا نہ کرنے کے باوجود میڈیا کے ذریعے اپنا مثبت تاثر بنانے اور ہم خیال اینکرز و کالم نگاروں کے باعث اپنا موقف بھرپور طریقے سے پیش کرنے میں کامیاب رہتے ہیں۔ ابھی کہانی ختم تو نہیں ہوئی لیکن لگ ایسا رہا ہے کہ پاکستان اپنا یہ پرانا اور دیرینہ دوست کھونے جا رہا ہے۔حیران کن طور پر پوری پاکستانی پارلیمنٹ ایک ایسے ہمسایہ ملک سے خوفزدہ نظر آئی جو کہ کھل کر اس مسئلے کا فریق بھی نہیں ہے۔اور اگر تو وہ خود عالمی و علاقائی قوانین کی شدید خلاف ورزی کر رہا ہے۔پاکستانی میڈیا کے تجزیہ نگار اور ارکان پارلیمنٹ کافی سیانے اور معاملہ فہم ثابت ہوئے ہیں حکومت کوچاہیے کہ ایک اور جوائنٹ سیشن جلد از جلد بلائے کہ جس میں ان سے اس بارے میں تجاویز مانگی جائیں کہ کس طرح عرب ممالک میں موجود پچپن لاکھ پاکستانیوں کوفوری واپس بلا کر سمجھداری اور غیرت کا مظاہرہ کیا جائے جبکہ سستے اور مفت تیل کو بھی عربوں کے منہ پر دے مارنا چاہیے بلکہ ارکان اسمبلی کو چاہیے کہ اپنی دولت سے تھوڑا تھوڑا حصہ ملا کر اب تک سعودی عرب کی جانب سے پاکستان کو فراہم کیا جانیوالا سارے کا سارا تعاون ہی واپس کر ڈالیں۔‘‘
٭…٭…٭
فرق ہے…
السلام علیکم..طلحہ السیف (شمارہ 490)
کیا وجہ ہے کہ اِیران کے پاس جوہری صلاحیت اور جوہری پلانٹ بھی ہیں۔ وہ کھلم کھلا جوہری صلاحیت کا اعتراف بھی کرتا ہے، وہ ایٹم بم بنانے کی دھمکی بھی دیتا ہے،اسرائیل کو تباہ کرنے اور امریکہ پر مرگ برسانے کے دعوے بھی کھلے عام کرتا ہے پھر بھی آپ اُس سے مذاکرات کر رہے ہیں،معاہدے لکھ رہے ہیں
جبکہ
صدام حسین کے عراق میں نہ کوئی ایٹمی پلانٹ تھا نہ کوئی جوہری سرگرمی۔ نہ وہ آپ پر آگ اور موت برسانے کی باتیں کرتا تھا اور نہ اسرائیل پر،نہ اس نے جوہری ہتھیار بنانے کی دھمکی دی تھی، نہ اس کے ملک میں عالمی جوہری ادارے کے انسپکٹرز کو کوئی قابل اعتراض مواد ملا تھا مگر آپ نے اُس پر پوری قوت کے ساتھ اور اپنے اتحادیوں کو ساتھ لے کر حملہ کر دیا اور پورا ملک تہس نہس کر ڈالا۔ ایسا کیوں؟…
دیکھئے ! دونوں کے درمیان بہت فرق ہے…
سر!
لبنان کی حزب اللہ بھی آپ کے کاغذات کے مطابق دہشت گرد تنظیم ہے اور آپ کے بغل بچہ اسرائیل کی دشمن ہے۔اس کا سربراہ کھلم کھلا اجتماعات سے خطاب کرتا ہے،فوجی پریڈ منعقد کراتا ہے،میزائلوں کی نمائش لگاتا ہے، سر عام دھمکیاں دیتا ہے،اس تنظیم کے مراکز قائم ہیں،نظام فعال ہے، ایک ملک کے ایک پورے حصے پر اس کا قبضہ ہے اور دیگر کئی ممالک میں اُس کے دفاتر اور مراکز بھی قائم ہیں اور آپ نے اس کی طرف سے آنکھیں بند کر رکھی ہیں جبکہ
اسی کی طرح دہشت گرد قرار دی گئی نومولود تنظیم ’’داعش‘‘ کے خلاف عالمی آپریشن شروع کر رکھا ہے،ان پر ہر جگہ آگ برسائی جا رہی ہے اور مکمل قوت ان کے خاتمے پر جھونک رکھی ہے۔یہ تضاد کیوں؟…
دیکھئے! ان دونوں میں فرق ہے…
سر! کیا فرق ہے؟…
کہا ناں؟ بہت فرق ہے…نظر نہیں آتا تو بھیجوں ایک ڈرون؟…
٭…٭…٭
یمن میں سعودی مداخلت جبر ہے،ظلم ہے،سفاکی ہے،کھلی جارحیت ہے،عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہے،کسی ملک کو دوسروں کے معاملات میں مداخلت کا حق نہیں دیا جا سکتا ہے۔بمباری میں ’’معصوم‘‘ لوگوں کا قتل عام ہو رہا ہے۔پاکستان ہرگز اس آپریشن میں شامل نہ ہو، ہم اس کی بھر پور مخالفت کرتے ہیں اور سخت مزاحمت کریں گے۔کیا دنیا میں اور کوئی مثال ہے اس طرح دوسروں کے معاملات میں فوجی مداخلت کرنے کی؟…اور جو جماعتیں اس آپریشن کی حمایت کر رہی ہیں سب دہشت گرد ہیں، انہیں کیا حق ہے دوسروں کے معاملے میں مداخلت کا ؟…
علامہ صاحب! سنیے سنیے!
مگر ایران بھی تو عراق اور شام میں اس طرح بلکہ اس سے بڑھ کر دخل انداز کر رہا ہے۔اس کی باقاعدہ فوج اپنے جنرل کی قیادت میں وہاں لڑ رہی ہے بلکہ پورا کنٹرول لڑائی کا ان کے ہاتھ میں ہے مگر اس کی تو آپ حمایت کرتے ہیں…ایسا کیوں؟…
دیکھئے! ان دونوں معاملات میں بہت فرق ہے…
اس فرق کی کچھ وضاحت فرمائیے گا…
دیکھیں! شام اور عراق میں کچھ لوگوں نے حکومت کے خلاف بغاوت کر رکھی ہے،وہاں کی حکومتیں جب ان باغیوں کے مقابلے میں عاجز ہوئیں تو انہوں نے ایران سے مدد طلب کی اور ایران کو بادل نخواستہ ان کی مدد کے لئے میدان میں کودنا پڑا۔ دوسری بات یہ ہے کہ ان ممالک کی سرحدیں ایران کے ساتھ متصل ہیں اور باغیوں کا ان ممالک پر تسلط ایران کے لئے خطرہ تھا اس لئے ایران نے حفظ ماتقدم کے طور پر یہ قدم اٹھایا۔لہٰذا اس کا یہ اقدام عالمی قوانین کے مطابق ہے اور ضروری ہے…
مگر علامہ صاحب!
شام کی تو ایران کے ساتھ کوئی سرحد نہیں ملتی…پھر وہاں پر مداخلت کیوں؟…اور اگر بغاوت کی بات ہے تو یمن میں بھی بغاوت ہوئی ہے،باغیوں نے وہاں پر قائم حکومت ختم کر کے اپنی حکومت کا باقاعدہ اعلان کر دیا، پارلیمنٹ بنا لی،وزارتیں تقسیم کر لیں،فوجی عہدے بانٹ لئے تب یمن کی حکومت نے اپنے حقیقی ہمسائے سعودیہ سے مدد طلب کی اور اس نے مداخلت کی اور رہی خطرے کی بات تو شام کے ’’باغی‘‘ تو ایران کے لئے خطرہ تھے یا نہیں تھے؟ کیونکہ کوئی سرحد نہیں ملتی، حوثی باغی تو سعودیہ کے لئے یقینی خطرہ تھے اور انہوں نے سعودی علاقوں میں کارروائیوں کا آغاز بھی کر دیا تھا تو کیا سعودیہ کا یہ حملہ حفظِ ما تقدم کے اصول کے تحت جائز نہیں ہو گا؟…
دیکھئے! جہاں تک سرحدوں کی بات ہے تو سرحدیں صرف لکیروں کا نام نہیں کچھ اور سرحدیں بھی ہوتی ہیں اور ہماری’’وہ والی‘‘ سرحدیں صرف شام تک ہی نہیں، آپ نے ہمارے مذہب کی کتب کا مطالعہ کیا ہو تو اس سے بھی بہت آگے تک پہنچی ہوئی ہیں اور یمن کی سعودیہ کے ساتھ تو ایسی کوئی سرحد نہیں۔رہی بات بغاوت کی تو دونوں میں بہت فرق ہے…شام و عراق میں بغاوت ہوئی جبکہ یمن میں صرف احتجاج ہے، بغاوت نہیں۔آپ نے کل سینیٹر فیصل رضا عابدی کا بیان نہیں پڑھا؟ انہوں نے کتنے دلائل سے ثابت کیا ہے کہ یمن میں بغاوت نہیں صرف احتجاج ہو رہا تھا۔ اب احتجاجیوں کے خلاف اس طرح کی وحشیانہ فوجی کارروائیوں کی کس طرح اجازت دی جا سکتی ہے؟…
مگر جناب!
حقیقت میں تو صورتحال اس کے بالکل برعکس ہے۔شام میں بچوں کی سیکیورٹی فورسز کے ہاتھوں شہادت کے بعد پُر امن غیر مسلح احتجاج شروع ہوا تھا جس پر حکومت نے اندھا دھند فائرنگ کی اور ٹینک چڑھا دیے جس کے بعد وہ احتجاج مسلح جدوجہد میں بدل گیا اسی طرح عراق میں مقامی ملیشیاؤں کے تشدد کے خلاف ہونے والے احتجاج پر ’’خدیجہ‘‘ کے عوام کو جس طرح مارا گیا اس کے بعد وہاں مسلح دستے وجود میں آئے اور انہوں نے لڑائی شروع کی جبکہ یمن میں تو حوثیوں نے ہتھیار بند لڑائی کا آغاز کیا اور علاقوں پر قبضے کرتے کرتے دارالحکومت تک آ گئے…آپ نے تو بالکل الٹی بات کی…
آپ لوگوں کی آنکھوں پر چونکہ فرقہ واریت کی پٹی بندھی ہوئی ہے اس لئے آپ کو ہماری بات الٹی نظر آ رہی ہے۔ کیا امریکہ اور عالمی طاقتیں اندھی ہیں جو عراق و شام میں نہ صرف ایرانی مداخلت پر خاموش ہیں بلکہ فضائی بمباری کے ذریعے اس کی مدد بھی کر رہی ہیں؟…آپ کو ان سے زیادہ نظر آتا ہے؟…آپ کو عالمی قوانین کا بش اور کیمرون سے زیادہ علم ہے؟…آپ کو صحیح غلط کا زیادہ اندازہ ہے یا عالمی برادری کو؟…مرگ بر امریکہ … مرگ بر فرنگ…
اچھا جی چھوڑیے ناراض نہ ہوں۔ یہ بتائیں آپ نے مداخلت کی حامی تنظیموں کی بات کی۔اس پر حزب اللہ کے بارے میں کیا کہیں گے جو شام میں کھلم کھلا مداخلت کر رہی ہے اور اب یمن میں بھی اس کے رضاکاروں کے حوثیوں کے ساتھ ہونے کی مصدقہ اطلاعات ہیں…
دیکھیں جی!
حزب اللہ تو اسرائیل مخالف جماعت ہے اس کا ان چھوٹے چھوٹے مسائل سے کوئی تعلق نہیں ہے، البتہ شام میں وہ لڑائی میں شامل ہے تو صرف ہاتھ سیدھے کرنے کے لئے تاکہ کل جب اسرائیل سے اس کی جنگ ہو تو اچھے طریقے سے لڑ سکے۔آپ کو پتا ہے فارغ بیٹھے آدمی کے لئے وقت پر لڑنا مشکل ہو جاتا ہے، اس لئے جنگ کی مشق جاری رکھنی چاہیے جبکہ یمن میں مداخلت کی وجہ سرحدوں کا اتحاد ہے…
مگر جناب!
یمن اور لبنان کی تو کوئی سرحد آپس میں نہیں ملتی …
تو ہم نے کب کہا ہے کہ یمن اور لبنان کی سرحدیں ملتی ہیں؟ ہم یہ کہہ رہے ہیں کہ حزب اللہ اور حوثیوں کی سرحدیں آپس میں ملتی ہیں…
ٹھیک ہے جناب! مان لیتے ہیں کہ کوئی سرحدیں ملتی ہو نگی۔ اس بات کی بھی وضاحت ہو جائے کہ حزب اللہ اگر اسرائیل کی دشمن ہے تو اسرائیل سے کیوں نہیں لڑتی؟… عراق و شام اورلبنان و یمن میں مسلمانوں کے خلاف ہی سرگرم کیوں نظر آتی ہے؟…
اس لئے کہ ابھی اسرائیل کے ساتھ لڑنے کا وقت نہیں آیا۔مناسب وقت کا انتظار ہے جیسے ہی آیا اسرائیل کے ساتھ لڑائی شروع کر دی جائے گی…
اچھا چلیں حزب اللہ کے لئے اگرچہ مناسب وقت نہیں آیا مگر اس علانیہ اور برملا دشمنی کے باوجود اسرائیل خود حزب اللہ پر حملہ کیوں نہیں کرتا جیسا کہ حماس پر کرتا ہے۔آپ نے دیکھا کہ گزشتہ تین سال کے دوران اسرائیل نے حماس کے خلاف چار بار کس قدر خوفناک فوجی آپریشن کیا۔ جنگی طیارے،میزائل،توپ خانہ اور پیدل فوجی کارروائی غرضیکہ ہر طرح کے اسباب بروئے کار لایا اور اب بھی وقتا فوقتا حملے جاری رہتے ہیں، وہ ہمیشہ حماس قیادت کے بھی درپئے رہتا ہے جہاں حماس کا کوئی اہم رہنما نظر میں آئے اس کے میزائل اور ہیلی کاپٹر وہاں حملہ آور ہو جاتے ہیں۔ جبکہ حزب اللہ کے خلاف وہ ایسی کوئی کارروائی نہیں کرتا نہ اس کے رہنماؤں کو نشانہ بناتا ہے۔ یہ کیسی دشمنی ہے؟
اس کی کچھ وضاحت کریں گے؟…
اصل میں حماس اور حزب اللہ میں بہت فرق ہے…اور وہ فرق امریکہ کی طرح اسرائیل کو بھی اچھی طرح معلوم ہے…
جناب! آخر کیا فرق ہے؟ یمن اور شام میں فرق ہے، حماس اور حزب اللہ میں فرق ہے، سعودی اور ایرانی مداخلت میں فرق ہے۔حوثیوں اور شامیوں میں فرق ہے ،ایران اور عراق میں فرق ہے…مگر وہ فرق ہے کیا؟…
دیکھئے! آپ کو پہلے ہی خبردار کیا ہے کہ فرقہ واریت پھیلانے والے سوالات نہ کریں۔فرق ہے تو معاملات میں بھی فرق ہے۔بس خاموشی سے مان لیں کہ فرق ہے اور بہت فرق ہے…
٭…٭…٭
12سال
السلام علیکم..طلحہ السیف (شمارہ 489)
ایک مظلومانہ صدا ’’وامعتصماہ‘‘ گونجی تو دجلہ و فرات کے کنارے ایک تاریخ رقم ہوئی۔
اَبلق گھوڑوں کا وہ لشکر تشکیل پایا جس کی ٹاپوں کی گونج آج بھی سنائی دیتی ہے۔
اور ہاں! دریائے سندھ کے اس پار بھی تو ایسی ہی ایک مظلومانہ صدا گونجی تھی جس نے سندھ کے باب الاسلام بننے کی راہ ہموار کی اور دجلہ وفرات کیا بحیرہ عرب بھی ان شاہسواروں کے عزم کے سامنے ایک جوئے کم آب سے زیادہ کچھ نہ رہا تھا جو محمد بن قاسم کے ساتھ اس آواز پر ’’لبیک یا اختی‘‘ کہتے ہوئے لپک پڑے تھے۔
ہاں اب دیر ہو گئی کافی دیر…
مگر اندھیر ہرگز نہیں ہوئی…ان شاء اللہ ہرگز نہیں…
دورہا باید کہ تا یک مردِ کار آید بروں
کبھی کبھار یہ کام دنوں میں ہو جاتے ہیں اور کبھی کبھار زمانے لگ جاتے ہیں لیکن ’’مردکار ‘‘ آئے گا ضرور… مایوس وہ ہو جس نے اسلام کی تاریخ نہ پڑھی ہو۔ جو محمد بن قاسم، معتصم، نور الدین اور صلاح الدین ایوبی کو نہ جانتا ہو۔ جسے اسلام اور مسلمان کا مزاج معلوم نہ ہو اور جو ’’فطرت مسلم‘‘ سے نا واقف ہو۔
بارہ سال ہو گئے…
جی ہاں! ۳۰ مارچ کو ۱۲ سال پورے ہو گئے۔اس روزِ سیاہ کو جس دن قوم کی ایک بیٹی بیچ دی گئی۔ ایک ’’ بہن‘‘ بھیڑیوں کو سونپ دی گئی۔ایک زخم لگایا گیا اور ایک کلنک اُمت کے منہ پر مل دیا گیا۔
عافیہ بہن!
ہم سب شرمندہ ہیں، بہت شرمسار کہ ہم اب تک سوائے باتوں کے اور کچھ نہ کر سکے…
مگر مایوس نہ ہونا…اُمت مسلمہ بانجھ نہیں ہوئی …معتصم ضرور آئے گا…
تیس مارچ۲۰۰۳ء کو عافیہ بہن کو کراچی میں اغوا کیا گیا۔کچھ عرصہ پاکستان کے مختلف ٹارچر سینٹرز میں رکھنے کے بعد امریکہ کے حوالے کر دیا گیا۔امریکی بعد ازاں انہیں بگرام لے گئے اور بگرام میں امت کی اس بیٹی کے ساتھ کیا سلوک ہوا وہ بگرام جیل کے ایک سابق قیدی کے الفاظ میں پڑھیے:
’’ ایک خصوصی سیل میں پاکستانی شہری ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو بھی 2003میں لا کر بند کیا گیا تھا جو پوری جیل میں واحد خاتون قیدی تھی۔ اس نے بتایا کہ مختلف مواقع پر اس کی چار مرتبہ ڈاکٹر عافیہ سے ملاقات ہوئی اور اس نے انہیں دِلاسہ دیا۔سہراب خان نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے ساتھ سی آئی اے کے سلوک کی کچھ باتیں بتائیں تو میرے دماغ کی نسیں کھچ گئیں اور میرا بلڈ پریشر خطرناک حد تک ہائی ہوگیا، اخبارات اورٹی وی چینلز کی خبروں ، تجزیوں، تبصروں، کالموں، تحقیقاتی رپورٹس اور فیچرز میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے متعلق بہت کچھ پڑھا تھا، لیکن آج ایک ایسے انسان کے منہ سے عافیہ صدیقی کے ساتھ پیش آنے والے واقعات سن رہا تھاجو ان سب کاعینی شاہد تھا۔ کئی باتیں سن کر میری آنکھیں نم ہوئیں، اورکئی باتوں نے میری روح کو گھائل کردیا، ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو ان حالات سے دوچار کرنے والا کوئی پرایا نہیں تھابلکہ اپنا ہی حکمران تھا، جو خود کو بڑے فخر سے سید بھی کہتا ہے چند ٹکوں کی خاطر ڈاکٹر عافیہ صدیقی سمیت ایک ہزار کے قریب مسلمانوں کاامریکہ کے ساتھ سودا کرنے والے ڈکٹیٹر پرویز مشرف کوتاریخ کبھی معاف نہیں کرے گی ۔
2005میں امریکہ سے کچھ فوجی آئے جو عافیہ صدیقی کو ہیلی کاپٹر پر کہیں لے گئے ، تین دن کے بعد جب وہ واپس لائے تو وہ اپنے قدموں پر نہیں بلکہ اسٹریچر پر تھی ۔ ہمیں پتا چلا کہ اس کو کراچی سے آگے کھلے بین الاقوامی سمندر میں کھڑے امریکی بحری بیڑے پر لے جایا گیا تھا جہاں معلومات لینے کے نام پر اس پر بد ترین تشدد کیا گیا۔رات کے سناٹے میں اس کی دردناک چیخیں سن کر سارے قیدی روتے تھے۔سہراب خان نے بتایا کہ ایک دفعہ عافیہ بلند آواز سے قرآن پاک کی تلاوت کر رہی تھی، ایک امریکی فوجی عورت نے ان کو قرآن کی تلاوت سے منع کیا لیکن عافیہ نے تلاوت جاری رکھی ۔ غصہ میں آ کر اس بدبخت امریکی فوجی نے عافیہ بہن کو ایک کرسی پر باندھ کر ان کے منہ میں زبر دستی شراب انڈیل دی،اس فوجی عورت کی شرمناک حرکت پر تمام قیدیوں نے شام کے کھانے کی ہڑتال کر دی۔ اس بات کا جب جیل کے ایک سینئر افسر کو پتا چلا تو اس نے اس فوجی عورت کو بگرام جیل سے ٹرانسفرکرنے کا اعلان کر دیا جس کے بعد قیدیوں نے بھوک ہڑتال ختم کر دی۔سہراب خان کی زبانی یہ واقعہ سن کر مجھے اپنے آنسوؤں پر اختیار نہ رہا۔ اس نے بتایا کہ جنوری کی سخت سردی میں ایک دن صبح سویرے عافیہ صدیقی کو جیل میں موجود گرائونڈ میں لایا گیا ۔ عافیہ کے جسم پر قیدیوں کی سنگل وردی تھی جبکہ اس کے پائوں ننگے تھے جن میں زنجیر تھے ۔ ان کے ساتھ کھڑے تمام CIAاہلکاروں نے لانگ بوٹ موٹے کوٹ اور سر پر گرم ٹوپیاں پہن رکھی تھیں ۔سہراب خان نے بتایا کہ گرائونڈ ہماری بیرک کے سامنے تھا ہم سب قیدی پریشان تھے کہ معلوم نہیں یہ ظالم ہماری بہن کے ساتھ کیا ظلم کرنے والے ہیں ۔ اس وقت تک سورج نہیں نکلا تھا اور شدید دھند تھی جس کی وجہ سے گرم کپڑوں اور بیرک کی چاردیواری کے باوجود ہم سردی سے ٹھٹھر رہے تھے ۔اتنی خوفناک سردی میں ہماری آنکھوں کے سامنے دو امریکی فوجیوں نے ٹھنڈے پانی کی بالٹیاں لا کر عافیہ پر انڈیل دیں جس سے اس کے منہ سے اذیت اور کرب بھری چیخیں نکل رہی تھی ۔ اسکے بعد ایک فوجی نے ان کی کمر پر بندوق کا بٹ مارتے ہوئے گرائونڈ کا چکر لگانے کا حکم دیا ۔ وہ مشکل سے کھڑی ہو کر دوقدم چلی پھر پیروں پر پڑی زنجیروں کی وجہ سے زمین پر گر گئی۔ان ظالموں کو ذرا ترس نہ آیا بلکہ اس فوجی نے زمین پر کیچڑ میں لت پت عافیہ کی ٹانگوں پر زور سے ایک رائفل کا بٹ مارا جس سے عافیہ کے منہ سے پھر چیخیں بلند ہوئیں اور اس نے دوبارہ اٹھنے کی کوشش کی ۔ سہراب خان نے بتایا کہ اس دن وہ ظالم دو گھنٹے تک عافیہ بہن کے ساتھ یہ ظلم کرتے رہے اور ہم سب سلاخوں کے پیچھے سے یہ دردناک منظر دیکھتے رہے ۔سہراب خان نے بتایا کہ کہ 2005میں بگرام جیل میں دو نئے بلاگ تعمیر ہوئے،تو ہمیں وہاں شفٹ کر دیا گیا جس کے بعد میں نے عافیہ صدیقی کو پھر کبھی نہیں دیکھا‘‘
پھر ایک ڈرامہ رچایا گیا اور اس کے ذریعے ظاہر کیا گیا کہ عافیہ بہن کو اَفغانستان میں ایک کارروائی کے دوران گرفتار کیا گیا ہے اور انہیں امریکہ لے جایا گیا۔ایک غیر منصفانہ جھوٹا مقدمہ چلا۔امریکہ نے اپنا اصل چہرہ دکھایا۔ اپنی انصاف پسندی کی حقیقت عیاں کی اورایک نہتی کمزور عورت کو 86سال قید کی سزا سنا دی۔ہندوستان میں محمد افضل گورو شہید کو سزائے موت سنانے والے جج نے لکھا کہ مقدمہ کے لئے مواد ناکافی تھا۔سزا بنتی نہیں تھی لیکن قوم کے اِجتماعی ضمیر کو مطمئن کرنے کے لئے انہیں سزائے موت سنائی جاتی ہے۔ عافیہ بہن کے معاملے میں بھی کچھ ایسا ہی کیا گیا۔ نہ ثبوت ، نہ گواہ۔ نہ وکیل اور نہ قانونی تقاضوں کی تکمیل۔بس اپنی قوم کو مطمئن کرنے اور مسلمانوں کو بے چین کرنے کے لئے یہ سزا تجویز کر دی گئی۔
عافیہ بہن اب امریکہ کی جیل میں ہیں، قرآن پڑھتی ہیں اور اللہ تعالیٰ کی نصرت کی راہ تکتی ہیں۔قرآن انہیں یقیناً بتاتا ہو گا کہ:
’’غم نہ کرو، کمزور مت بنو، تمہی غالب ہو اگر ایمان پر رہے‘‘
اور اُسی کا عزم تو غالب ہے جو آج تک ٹوٹا نہیں، بکھرا نہیں۔
’’سن لو اللہ کی نصرت قریب ہے‘‘
کا نغمہ جانفزا اس کی ہمت بڑھاتا رہتا ہے اور اسے اُس کے رب سے کٹنے نہیں دیتا۔
عافیہ بہن! ہم شرمندہ ہیں، بہت شرمندہ۔اس قوم کو معاف کر دینا جس کے ہوتے ہوئے تمہارے ساتھ یہ سب ہو گیا اور ہاں اتنا یقین رکھنا اس قوم میں سب پرویز مشرف نہیں۔وقاص شہید جیسے بھی ہیں جو صرف اس لئے جیتے ہیں کہ تم جیسی بہنوں کو کفار کے چنگل سے چھڑا لیں اوراسی فکر میں مر جاتے ہیں۔
ان شاء اللہ دور نہیں کہ وہ اپنے اس عزم کو پایہ تکمیل تک پہنچائیں۔
دیکھو! قرآن وعدہ کر رہا ہے۔ امید دلا رہا ہے۔
’’ ہم ان ( فتح و شکست کے) دنوں کو لوگوں کے درمیان پھیرتے رہتے ہیں‘‘
٭…٭…٭
گل و بلبل
السلام علیکم..طلحہ السیف (شمارہ 488)
بگوش گل چہ سخن گفتئی کہ خندان اَست
بعندلیب چہ فرمودئی کہ نالاں است
( اے محبوب! پھول کے کان میں کیا کہہ دیا کہ ہر وقت ہنستا رہتا ہے اور بلبل کو ایسا کیا فرما دیا کہ ہر وقت محوِ نالہ وَ فریاد ہے؟)…
رُخ تو سب کا ایک ہی طرف ہے…
جانا سب کو ایک ہی منزل کی طرف ہے…
محبوب سب کا ایک ہے…تڑپ سب کی مشترک ہے…
مگر کوئی ’’ منیر‘‘ ہے…ہر وقت مسکراتا،شرارتیں بکھیرتا اور ہنستا ہنساتا…
اور کوئی ’’قاسم‘‘ …ہر وقت سرخ آنکھیں، بہتے آنسو،بات بات پر رُونا…
کوئی گُل ہے اور کوئی بلبل…انہی کے دَم سے گلشن آباد ہے…اللہ کرے آباد رہے اور یونہی مہکتا رہے…
’’قاسم‘‘ کے پاؤں میں لنگ تھا اور معمولی نہیں کافی واضح…اسے کسی نے کہہ دیا کہ تمہارے بارے میں فیصلہ مشکل ہے،تمہیں اس عذر کی وجہ سے ’’صفِ عاشقاں ‘‘ میں جگہ نہیں مل سکے گی اور تم رہ جاؤ گے۔وہ ایک دن میرے کمرے میں آیا،خاموشی سے سامنے بیٹھ گیا۔ میں نے کہا: کیا بات ہے؟…وہ کچھ بولا نہیں۔’’ فتح الجواد‘‘ ہاتھ میں تھی اور اس کے ایک صفحے پر انگلی رکھی ہوئی تھی۔ خاموشی سے وہ صفحہ کھول کر کتاب میری طرف بڑھا دی۔
آپ بھی پڑھیے کیا لکھا ہوا تھا…
عمرو بن الجموحؓ کی شہادت کا ذکر
اسی غزوہ(اُحد) میںعبداﷲ بن عمرو بن حرام کے بہنوئی عمرو بن الجموح رضی اﷲ عنہ بھی شہید ہوئے۔ ان کی شہادت کا واقعہ بھی عجیب ہے۔ عمرو بن الجموح رضی اﷲ عنہ کے پاؤں میں لنگ تھی اور لنگ بھی معمولی نہ تھی، بلکہ شدید تھی۔ چار بیٹے تھے، جو ہر غزوہ میں رسول اﷲ ﷺ کے ہمرکاب رہتے تھے، اُحد میں جاتے وقت ان سے کہا کہ میں تمہارے ساتھ جہاد میں چلتا ہوں۔ بیٹوں نے کہا آپ معذور ہیں، اﷲ نے آپ کو رخصت دی ہے، آپ یہیں رہیں۔ مگر یہ عزیمت کے شیدائی کب رخصت پر عمل کرنے والے تھے، شوقِ شہادت میں اس درجہ بے تاب اور بے چین ہوئے کہ اسی حالت میں لنگڑاتے بارگاہِ نبوی میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اﷲ! میرے بیٹے مجھ کو آپ کے ساتھ جانے سے روکتے ہیں۔
واﷲ انی لارجوان اطاء بعرجتی ہذہ فی الجنہ
خدا کی قسم تحقیق میں امید واثق رکھتا ہوں کہ اسی لنگ کے ساتھ جنت کی زمین کو جاکر روندوں۔
آپ ﷺنے ارشاد فرمایا : اﷲ نے تم کو معذور کہا ہے، تم پر جہاد فرض نہیں اور بیٹوں کی طرف مخاطب ہو کر یہ ارشاد فرمایا کہ کیا حرج ہے اگر تم ان کو نہ روکو۔ شاید اﷲ تعالیٰ ان کو شہادت نصیب فرمائے چنانچہ وہ جہاد کیلئے نکلے اور شہید ہوئے۔ رضی اﷲ عنہ (ابن ہشام ج۲ص۸۸، البدایۃ والنہایۃ ج۴ص۳۷)
اور مدینہ سے چلتے وقت قبلہ روہو کر یہ دعا مانگی:
اللہم ارزقنی الشہادۃ ولا تردنی الی اہلی
اے اﷲ مجھ کو شہادت نصیب فرما اور گھر والوں کی طرف واپس نہ کر۔
اسی غزوہ میں ان کے بیٹے خلاد بن عمرو بن الجموحؓ بھی شہید ہوئے، عمرو بن الجموح کی بیوی ہندہ بن عمرو بن حرام نے ( جو کہ عبداﷲ بن عمرو بن حرام کی بہن اور حضرت جابرؓ کی پھوپی ہیں) یہ ارادہ کیا کہ تینوں یعنی اپنے بھائی عبداﷲ بن عمرو بن حرام اور اپنے بیٹے خلاد بن عمرو بن الجموح اور اپنے شوہر عمرو بن الجموح کو ایک اونٹ پر سوار کرکے مدینہ لے جائیں اور وہیں جاکر تینوں کو دفن کریں مگر جب مدینہ کا قصد کرتی ہیں تو اونٹ بیٹھ جاتا ہے اور جب اُحد کا رخ کرتی ہیں تو تیز چلنے لگتا ہے۔
ہندہ نے آکر رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے عرض کیا۔ آپﷺ نے فرمایا: عمروبن الجموح نے مدینہ سے چلتے وقت کچھ کہا تھا؟ ہندہ نے ان کی وہ دعا ذکر کی جو انہوں نے چلتے وقت کی تھی۔ آپ نے فرمایا: اسی وجہ سے اونٹ نہیں چلتا اور یہ فرمایا:
والذی نفسی بیدہ ان منکم من لو اقسم علی اﷲ لا برہ منہم عمرو بن الجموح ولقد رائیتہ یطاء بعرجۃ فی الجنۃ
قسم ہے اس ذات پاک کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے البتہ تم میں بعض ایسے بھی ہیں اگر اﷲ پر قسم کہا بیٹھیں تو اﷲ ان کی قسم کو ضرور پورا کرے ان میں سے عمرو بن الجموح بھی ہیں البتہ تحقیق میں نے ان کو اسی لنگ کے ساتھ جنت میں چلتا ہوا دیکھا ہے۔ (زرقانی ج۲ص۵۰ ، روض الانف ج۲ص۱۳۹، عین الاثر ص۳۴۷)
عبداﷲ بن عمرو بن حرام اور عمرو بن جموح رضی اﷲ عنہما اُحد کے قریب دونوں ایک ہی قبر میں دفن کیے گئے۔ (فتح الجوّادجلد اول ص 198)
میں نے واقعہ پڑھ کر مسکرا کر اس کی طرف دیکھا ۔ اس نے حسبِ عادت زور زور سے رونا شروع کر دیا اور میرے گلے سے لپٹ گیا،پھر وہ چلا گیا۔کبھی کبھار بات ہوتی رہی اور خیر و عافیت کا علم ہوتا رہا۔ہر کوئی یہی بتاتا کہ بلبل روتا ہی رہتا ہے…
٭…٭…٭
منیر! اگر تم ایم کیو ایم میں ہوتے تو پتا ہے تمہارا پورا نام کیا ہوتا؟…
نہیں پتا ۔آپ بتائیں…
تمہارا نام ہوتا ’’ منیر مسکراہٹ‘‘…
ہر وقت مسکراہٹ، ہر بات پر مسکراہٹ،وہ کوئی غم، پریشانی یا نقصان کی خبر سنا رہا ہوتا تو مسکراتے ہوئے سناتا۔وہ تو جلدی جانے کی منت بھی مسکراتے ہوئے کیا کرتا تھا…بالکل کھلے ہوئے گلاب کی طرح مسکراہٹ اس کے بھی چہرے کا حصہ بن گئی تھی۔چند دن پہلے ایک شادی کے موقع پر ’’شادی‘‘ کے انتظار میں بیٹھے اس دولہا سے بھی ملاقات ہو گئی۔واپس آیا تو مفتی صاحب نے پوچھا: منیر کیسا تھا؟…
مسکرا رہا تھا…ظاہر ہے منیر کے بارے میں اور کیا جواب دیا جا سکتا تھا؟…
٭…٭…٭
پھر یوں ہوا کہ جمعہ کے دن ہمارا ’’گل‘‘ گیا اور مسکراتے مسکراتے رُلا گیا۔ہمیں بھی اور انہیں بھی جن پر چھ گھنٹے قہر الٰہی بن کر برستا رہا… ؎
عمر گلاں دی دو دن…
کوئی بات نہیں!تھوڑی ہی سہی مگر ’’منیر‘‘ جیسی عمر مل جائے تو کیا کہنے…مسکراتے ہوئے جیو اور مسکراتے ہوئے چل دو…
ہفتے کو ’’بلبل‘‘ نے بھی رَختِ سفر باندھ لیا۔اس کے رونے کو بھی قرار آ گیا۔اب وہ ان شاء اللہ کبھی نہ روئے گا، پیچھے والے ہی اسے یاد کر کے روتے رہیں گے ۔خاص طور پر ’’القلم‘‘ کا دفتر۔جہاں کئی سال بلبل چہکتا رہا اور اپنی انمٹ یادیں چھوڑ کر چل دیا۔
بنا کردند خوش رسمے بخاک و خون غلطیدن
خدا رحمت کندایں عاشقانِ پاک طینت را
٭…٭…٭
مسجد بنائیے
السلام علیکم..طلحہ السیف (شمارہ 487)
’’بے شک مساجد اللہ تعالیٰ کی ہیں پس ( ان میں) اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو نہ پکارو‘‘ ( الجن: ۱۸)
اُس چیز کی عظمت،رفعت اور اہمیت کا اندازہ کون لگا سکتا ہے جس کی نسبت عظمتوں والے رب نے اپنی طرف فرمائی ہو؟ ہر گھر کا مرتبہ اِسی نسبت سے متعین ہوتا ہے۔ یہ صدر کا گھر ہے،وزیر اعظم کا گھر ہے،فلاں بڑے بزرگ کا گھر ہے، یہ زمانے کے کسی بادشاہ،وزیر یا رئیس کا گھر ہے،یہ پرانے زمانے کے کسی بڑے شخص کا گھر ہے۔ہر گھر اِس طرح کی نسبتوں سے ہی معزز و مکرم ہوتا ہے نہ کہ اپنی تعمیر کی وجہ سے۔ فن تعمیر کے اعتبار سے اچھا سے اچھا گھر نہ کوئی امتیاز حاصل کر پاتا ہے نہ اختصاص۔بس ایک گھر ہی کہلاتا ہے۔جبکہ نسبت کسی ظاہری طور پر معمولی گھر کو بھی اونچا کر دیتی ہے۔کائنات کی ساری نسبتیں قربان اُن سارے گھروں پر جن کی نسبت اللہ رب العزت نے اپنی ذات کی طرف فرما دی۔ یہی سب سے اونچے گھر ہیں، سب سے معزز و مکرّم گھر ہیں اور ہاں ! سب سے محبوب بھی…
ان سے محبت بھی اب ایمان کا لازمی تقاضا بن گئی ہے کیونکہ محبوب حقیقی نے محض ان کی نسبت اپنی طرف نہیں فرمائی بلکہ انہیں اپنی محبوب ترین جگہ ہونے کے اعزاز سے بھی نواز دیا ہے۔اب جو ’’اُن‘‘ سے محبت کا دعویدار ہو اُس پر لازم ہے کہ محبوب کی پسندیدہ جگہ سے بھی محبت کرے،والہانہ محبت،قلبی محبت، گہری محبت اور دائمی محبت
احب البلاد الی اللّٰہ مساجدھا وابغض البلاد الی اللّٰہ اسواقھا ( مسلم)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے پسندیدہ جگہ مساجد اور سب سے ناپسندیدہ جگہ بازار ہیں۔
محبوب حقیقی نے تو اپنی پسند، نا پسند بتا دی۔ اب عاشقوں کا معیار کیا ہے؟ اپنے گریبان میں جھانک کر باآسانی معلوم کیا جا سکتا ہے۔
اور محبت بھی کیسی مطلوب ہے؟
ایسی جیسی اپنے گھر سے ہوتی ہے بلکہ اس سے بھی بڑھ کر…
ایک مسلمان ’’متقی‘‘ ہو چکا ہے یا نہیں؟ اسے عشق و محبت حاصل ہو چکے یا نہیں؟
پتا کیسے چلے گا؟
مسجد کے ساتھ اس کے تعلق سے پتا چل جائے گا…
فرمایا:
المسجد بیت کل تقی( ابو نعیم)
’’مسجد ہر متقی مومن کا گھر ہے‘‘…
جس کا دل مسجد کی طرف یوں کھنچا رہتا ہو جیسے مسافرت اور غربت میں اپنے گھر کی طرف کھنچتا ہے،جسے مسجد بنانے کی فکر اپنا گھر بنانے کی طرح ہو، مسجد میں یوں قرار و سکون آتا ہو جیسے اپنے گھر میں آتا ہے،مسجد کی صفائی ستھرائی کی اپنے گھر جیسی فکر ہو ، مسجد میں وقت گزارنا اچھا لگتا ہو، گویا ہر طرح سے مسجد اس کا گھر ہی بن چکی ہو اسے مبارک ہو۔ اسے ’’تقویٰ‘‘ نصیب ہو چکا ہے اور تقویٰ ہی تو ایمان ہے،تقویٰ ہی تو محبت ہے،تقویٰ ہی تو راہِ نجات ہے…
مالدار لوگوں کا ایک شوق یہ بھی ہوتا ہے کہ وہ ہر جگہ اپنے گھر بنائیں۔اس طرح ان کی مالداری کا اظہار اور شہرہ ہوتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے جن کو دین میں مالداری اور غناء عطا فرمایا ہے وہ اسی طرح ہر جگہ اللہ تعالیٰ کے گھر بنانے کی فکر کرتے ہیں۔اس سے ان کی دینی ترقی کا اظہار ہوتا ہے۔
ہمارے آقا حضرت محمد ﷺ جہاں گئے ،جہاں رُکے مسجد بنائی۔مدینہ منورہ تشریف لاتے ہوئے سفر کا اختتام بعد میں ہوا، اسلام کی سب سے پہلی مسجد ’’قبائ‘‘ پہلے تعمیر ہوئی۔ مدینہ منورہ تشریف لے آئے تو مسجد کی فکر فرمائی، اس کی ترغیب فرمائی،اس کے لئے مال طلب فرمایا،اور اس کی تعمیر میں مشقت اٹھائی،گارا ڈھویا اور زمین کھودی۔جب مسجد بن گئی تو بعد میں اپنے بھی چھوٹے چھوٹے حجرے تعمیر فرمائے۔بتا دیا کہ ایک مسلمان جہاں جائے مساجد بناتا جائے،جہاں رہنا چاہے مسجد کا قرب اختیار کرے اور پہلے مسجد کی فکر کرے بعد میں اپنے گھر کی ۔پھر ان کے غلام دین کے جھنڈے لے کر دنیا بھر میں نکلے تو ہر جگہ زمین کو اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ ﷺ کی محبت سے اسی طرح آباد کرتے چلے گئے۔ مسجد پکی بنا دیتے اور خود خیمے میں یاکچی کوٹھڑیوں میں رہ لیتے۔ یوں زمین کا سینہ محبوب گھروں سے سجاتے گئے۔ آج دنیا میں ان کے آثار نہ تو اونچے محلات ہیں نہ بلند وبالا قلعے۔ نہ برج ہیں اور نہ مینار۔اگر ہیں تو بس مساجد ہیں۔
اس لئے اب مساجد بنانا اِتباع رسول ﷺ اور اِقتدائے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کا تقاضا ٹھہرا۔سوچئے ! اس کا بدلہ کچھ بھی نہ ہوتا تو بھی یہ کام کرنا لازم تھا مگر رحمت ہی رحمت۔اتنا بڑا بدلہ مقرر فرما دیا کہ اب اس کام سے پیچھے رہنا کیسے گوارا ہو سکتا ہے؟…
من بنی للّٰہ مسجدا من مالہ بنی اللّٰہ لہ بیتافی الجنۃ ( ابن ماجہ)
’’جس نے اپنے مال سے اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے مسجد بنائی اللہ تعالیٰ اس کے لئے جنت میں ایک گھر بنا دے گا‘‘…
جنت کا گھر …سبحان اللہ! جنت …جس کی ایک اینٹ دنیا کی ساری دولت کو دس گنا بڑھا دیا جائے تو اس سے بھی قیمت میں بڑھ کر ہو گی۔اس جنت کا پورا گھر…اس پوری دنیا سے بھی بڑا گھر…اچھا یہ گھر بڑی مسجد بنانے پر ملے گا یا چھوٹی پر بھی؟… لیجئے وضاحت آ گئی:
وعن انس رضی اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللہ ﷺ:
من بنی للّٰہ مسجدا صغیرا کان اوکبیرا بنی اللّٰہ لہ بیتا فی الجنۃ ( ترمذی)
’’جس نے اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے مسجد بنائی چھوٹی ہو یا بڑی اللہ تعالیٰ اس کے لئے جنت میں گھر بنا دے گا‘‘…
ایمان والوں میں جو لوگ اتنی حیثیت بھی نہیں رکھتے کہ ایک چھوٹی سی مسجد ہی تعمیر کر سکیں کیونکہ چھوٹی سی مسجد بھی آج کے زمانے میں تو لاکھوں روپے میں جا کر بنتی ہے تو کیا وہ اس اجر سے محروم رہ گئے؟
ہرگز نہیں۔اس سے آگے کی وضاحت بھی ارشاد فرما دی گئی ہے جسے حاصل کرنا تو سب کی دسترس میں ہے:
وعن ابن عباس رضی اللّٰہ عنہ عن النبی ﷺ انہ قال:من بنی للّٰہ مسجداولوکمفحص قطاۃ لبیضہا بنی اللّٰہ لہ بیتا فی الجنۃ ( مسند احمد)
’’جس شخص نے اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے مسجد بنائی اگرچہ چکور انڈے دینے کے لئے جو گھونسلا بناتے ہیں اس کے بقدر اللہ تعالیٰ اس کے لئے جنت میں گھر بنا دے گا‘‘…
سبحان اللہ!
یعنی دنیا میں اللہ تعالیٰ کی رضاء کے لئے چند فٹ جگہ مسجد کی بنا دی اس کے بدلے میں جنت کا بے بدل گھر اللہ تعالیٰ عطا فرمائیں گے۔
اب یہ کام بھی کوئی مشکل ہے؟چند دن کھانے پینے اور دیگر ضروری اخراجات میں معمولی احتیاط کر کے ہر غریب سے غریب آدمی بھی اتنا حصہ اللہ تعالیٰ کی مسجد میں ضرور ڈال سکتا ہے۔
تو پھر دیر کیسی؟
’’الرحمت‘‘ کی تعمیر مساجد مہم آپ کے لئے اس عظیم سعادت کے حصول کا ذریعہ بن سکتی ہے۔چند دن باقی رہ گئے،ہمت کر لیجئے۔کسی دوردراز علاقے میں آپ کے مال سے زمین کا ایک ٹکڑا ’’مسجد‘‘ بن جائے گا۔ اس پر سجدے ہوں گے۔ذکر ہو گا۔تلاوت قرآن مجید ہو گی اور یہ سب کچھ آپ کی زندگی میں اور آپ کی قبر میں اجر بن کر آپ کو پہنچتا رہے گا۔ ایک ایسا اکاؤنٹ کھل جائے گا جو کبھی بند نہیں ہو گا، ایک ایسی تجارت شروع ہو جائے گی جسے کبھی خسارہ نہیں اور صدقہ جاریہ کا ایک ایسا دروازہ کھل جائے گا جہاں سے رحمت برستی رہے گی۔ تازہ مہم سات مساجد کی تعمیر کے لئے ہے۔جن کی تفصیل آپ ’’القلم‘‘ میں شائع ہونے والے اشتہار میں پڑھ سکتے ہیں۔ساتھی بھی آپ کے قریب ہی موجود ہوتے ہیں۔اس لئے وہ اہل ایمان جو تعمیر مساجد کے نبوی کام میں اپنا حصہ شامل کرنا چاہیں جلد ان سے رابطہ کر لیں۔
یہ کام محض آپ کے اپنے فائدے کے ہیں اور اپنے فائدے سے کوئی عاقل غافل نہیں رہتا۔
٭…٭…٭
یَا خَیْرَ مَنْ
السلام علیکم..طلحہ السیف (شمارہ 486)
چند شمارے قبل قصیدۂ بردہ شریف اور امام بوصیری رحمہ اللہ تعالیٰ کے حوالے سے ایک مضمون بعنوان ’’ ومن تکن‘‘ تحریر کیا تھا۔اُس میں لکھا تھا کہ قصیدہ بردہ شریف کا ایک شعر مسجد نبوی میں مواجہہ مبارکہ کے ستون پر درج ہے:
لا طیب یعدل تربا ضم اعظمہ
طوبی لمنتشق منہ وملتثم
یہ بات دراصل ایک بزرگ سے سنی تھی۔انہوں نے بڑے درد کے ساتھ اِمام بوصیری رحمہ اللہ تعالیٰ کے احوال بھی سنائے تھے اور اس شعر کا واقعہ بھی۔ لیکن ہوا یوں کہ اس مضمون کے لکھنے کے تین دن بعد بندہ کا سفر عمرہ درپیش آ گیا اور اگلے شمارے کا مضمون مدینہ منورہ سے لکھنے کی سعادت نصیب ہوئی۔وہاں مواجہہ مبارکہ پر حاضری کے بعد نظریں خودبخود اُس ستون کی جانب اٹھ گئیں جس کے بارے میں بتایا گیا تھا۔وہاں شعر تو درج تھا لیکن یہ نہیں۔ وہاں تو ایک اور ’’عاشق‘‘ سچے اورپکے بلکہ والہانہ عاشق براجمان ہیں۔ اس وقت خیال آیا کہ مضمون میں جو خلافِ واقعہ بات تحریر ہو گئی اُس کی وضاحت لکھ دی جائے۔ ارادہ کر لیا لیکن بھول گیا۔بات بالکل ذہن میں بھی نہ رہی۔تین دن قبل حضرت مفتی منصور اَحمد صاحب زید مجدہم کے ساتھ اس مضمون کا تذکرہ ہوا تو بات یاد آ گئی۔ جو اَب نذر قارئین ہے۔
مواجہہ مبارکہ کے دائیں بائیں کے دو ستون جن کی تصویر آپ مضمون کی سرخی میں دیکھ رہے ہیں ان پر جہاں سرخ نشان لگایا گیا ہے وہاں یہ دو شعر مکتوب ہیں :
یَا خَیْرَ مَنْ دُفِنَتْ فِی الْقَاعِ اَعْظُمُہُ
فَطَابَ مِنْ طِیْبِہِنَّ الْقَاعُ وَالْاُکَمُ
(اے زمین میں دفن کی جانے والی سب سے بہترین ہستی! (ﷺ)
آپ کے جسم مبارک کی خوشبو سے وادیاں اور ٹیلے معطر ہو گئے)
نَفْسِی الْفِدَائُ لِقَبْرٍ اَنْتَ سَاکِنُہُ
فِیْہِ الْعَفَافُ وَفِیْہِ الْجُوْدُ وَالْکَرَمُ
(میری جان اس قبر مبارک پر قربان ہو جائے جس میں آپ ﷺ تشریف فرما ہیں۔
اس قبر میں پاکیزگی ہے،سخاوت ہے،اور عطاء ہے)
یہ اَشعار ایک اَعرابی کے ہیں۔اِن کا واقعہ امام بوصیریؒ سے بھی عجیب ہے۔
قرآن مجید کی مستند تفسیر ’’ابن کثیر‘‘ میں یہ واقعہ اِس طرح درج ہے کہ یہ عاشق مسجد نبوی شریف میں نبی کریم ﷺ کی قبر مبارک پر آئے اور آ کر عرض کیا:
یا رسول اللہ! آپ پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے رحمت اور سَلام نازل ہو۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
ترجمہ:’’اور جب انہوں نے اپنے نفسوں پر ظلم کیا تھا تیرے پاس آتے پھر اللہ سے معافی مانگتے اور رسول بھی ان کی معافی کی درخواست کرتا تو یقینا یہ اللہ کو بخشنے والا رحم کرنے والا پاتے‘‘۔
لہٰذا میں آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں۔اپنے گناہوں سے اِستغفار کرتا ہوں اور آپ سے اللہ تعالیٰ کے حضور شَفاعت کا طالب ہوں۔اس کے بعد یہ اَشعار پڑھے اور چلا گیا۔
فقہ مالکیہ کے بڑے اَئمہ میں سے ایک محمد بن احمد بن عبد العزیز فقیہ الاندلس جو ’’العتبی‘‘ کے لقب سے مشہور ہیں وہ وہاں موجود تھے اور وہی اس واقعہ کے راوی بھی ہیں، فرماتے ہیں کہ اس اَعرابی کے چلے جانے کے بعد مجھے نیند آ گئی۔خواب میں مجھے نبی کریم ﷺ کی زیارت ہوئی۔آپ ﷺ نے فرمایا:
’’اُس اعرابی کے پاس جاؤ اور اسے خوشخبری دے دو کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی بخشش فرما دی ہے‘‘…
بہرحال یہ اَشعار اِمام بوصیریؒ کے نہیں، اُس اَعرابی عاشق کے ہیں جو مواجہہ مبارکہ کے ستونوں پر درج، آج بھی اس واقعہ کی یاد دِلاتے ہیں اور غالباً اس واقعہ کی سچائی کی دلیل بھی ہیں۔جو لوگ وہاں صاحبِ اختیار ہیں انہیں اس سے اختلاف ہے کئی متشدد مخالفین بھی ہیں لیکن اس کے باوجود یہ سچائی آج تک وہاں درج ہے، مٹائی نہیں جا سکی کیونکہ عشق کی بات ہے اور عشق مٹتا نہیں۔
امام ابو الطیب احمد بن عبد العزیز المقدسی رحمہ اللہ تعالیٰ نے اَعرابی کے مندرجہ بالا اِن دو اَشعار پر تضمیناً کچھ اَشعار کہے ہیں وہ بھی ملاحظہ ہوں:
اَقُوْلُ وَالدَّمْعُ مِنْ عَیْنَیَّ مُنْسَجِمٌ
لَمَّا رَأَیْتُ جِدَارَ الْقَبْرِ یُسْتَلَمُ
وَالنَّاسُ یَغْشَوْنَہُ بَاکٍ وَمُنْقَطِعٌ
مِنَ الْمَھَابَۃِ اَوْ دَاعٍ فَمُلْتَزِمُ
فَمَا تَمَالَکْتُ اَنْ نَادَیْتُ فِیْ حُزْنٍ
فِی الصَّدْرِ کَادَتْ لَہَا الْاَحْشَائُ تَضْطَرِمُ
( میں نے جب پُر نم آنکھوں سے یہ منظر دیکھا کہ لوگ ( آپ ﷺ کی) قبر مبارک کو سلام کر رہے ہیں۔روضہ اقدس پر روتے ہوئے حاضر ہو رہے ہیں،پھر کوئی رُعب اور ہیبت کی وجہ سے کونے میں کھڑا ہے اور کوئی دعا کرتے ہوئے لپٹ رہا ہے تو مجھے بھی اپنے آپ پر قابو نہ رہا اور میں نے عشق کی اس گرمی سے مجبور ہو کر جو میرے اندر کو جلا رہی تھی کہا:
یَا خَیْرَ مَنْ دُفِنَتْ فِی الْقَاعِ اَعْظُمُہُ
فَطَابَ مِنْ طِیْبِہِنَّ الْقَاعُ وَالْاُکَمُ
نَفْسِی الْفِدَائُ لِقَبْرٍ اَنْتَ سَاکِنُہُ
فِیْہِ الْعَفَافُ وَفِیْہِ الْجُوْدُ وَالْکَرَمُ
ان اشعار کا ترجمہ گذر چکا۔
وَفِیْہِ شَمْسُ الْہُدٰی وَالدِّیْنِ قَدْ غَرِبَتْ
مِنْ بَعْدِ مَا اَشْرَقَتْ مِنْ نِیْرِھَا الظُّلَمُ
اس قبر میںہدایت اور دین کا سورج چھپا ہے بعد اس کے کہ اس کی روشنی سے اندھیر نگری روشن ہو گئی
لَقِیْتَ رَبَّکَ وَالْاِسْلَامُ صَارِمُہُ
مَاضٍ وَ قَدْ کَانَ بَحْرُ الْکُفْرِ یَلْتَطِمُ
آپ ﷺ اپنے رب سے اس حال میں جا کر ملے کہ اسلام کی تلوار قائم ہو چکی تھی حالانکہ پہلے دنیا میں کفر کا سمندر ٹھاٹھیں مار رہا تھا۔
فَقُمْتَ فِیْہِ مَقَامَ الْمُرْسَلِیْنَ اَلٰی
اَنْ عَزَّ فَہُوَ عَلٰی الْاَدْیَانِ مُحْتَکِمُ
اور آپ ﷺ اس دنیا میں بحیثیت رسول مقیم رہے حتی کہ اسلام غالب آ گیا اور ادیان باطلہ پر اس کا سکہ چلنے لگا۔
لَئِنْ رَأَیْنَاہُ قَبْرًا اِنَّ بَاطِنَہُ
لَرَوْضَۃٌ مِنْ رِیَاضِ الْخُلْدِ تَبْتَسِمُ
یہ جگہ اگرچہ بظاہر دیکھنے میں قبر نظر آتی ہے لیکن حقیقت میں جنت کا ایک مسکراتا ہوا باغ ہے۔
طَافَتْ بِہِ مِنْ نَوَاحِیْہِ مَلَائِکَۃٌ
تَغْشَاہُ فِیْ کُلِّ یَوْمٍ مَّا وَتَزْدَحِمُ
عالَم کے ہر گوشے سے ملائکہ اس جگہ کی زیارت کو دن رات آتے رہتے ہیں اور یہاں ان کی بھیڑ رہتی ہے
امام قرطبی رحمہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مایہ ناز تفسیر ’’الجامع لاحکام القرآن‘‘ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی روایت سے نبی کریم ﷺ کی وفات سے تین دن بعد ایک اَعرابی کی قبر مبارک پر حاضری اوراسی طرح کے الفاظ میں دعاء کرنا نقل کیا ہے لیکن اُس میں یہ اَشعار نہیں ہیں۔ اَشعار والا واقعہ بعد کے زمانے کے اَعرابی کا ہے اور حافظ عماد الدین ابن کثیر رحمہ اللہ تعالیٰ نے اپنی تفسیر میں نقل کیا ہے۔
بہرحال مقصد اُس غلطی کی تصحیح ہے جو گذشتہ مضمون میںہوئی۔جن بزرگوں نے یہ بات بتائی تھی اُن سے بھی حقیقتِ حال عرض کی اور ان اَشعار کی تصویر بھی دکھائی۔انہوں نے بہت خوشی کا اظہار کیا اور پہلے غلط شعر پڑھنے کی توجیہ بھی امام بوصیری رحمہ اللہ تعالیٰ کے ایک شعر سے پیش کر دی:
وَمَا لِعَیْنَیْکَ اِنْ قُلْتَ اکْفُفَا، ہَمَتَا
وَمَا لِقَلْبِکَ اِنْ قُلْتَ اسْتَفِقِ یَہِمِ
(اے عاشق! تیری آنکھوں کو کیا ہوا؟تو انہیں رکنے کا کہتا ہے تو وہ اور زیادہ بہنے لگتی ہیں اور تیرے دل کو کیا ہوا؟ تو اسے تھمنے کا کہتا ہے تو وہ اور بے قرار ہو تا ہے)
بھائی! اس جگہ آنکھیں صاف تو ہوتی نہیں۔ ڈبڈباتی آنکھوں سے جیسا پڑھا جا سکتا ہے، پڑھ لیا۔ اَلفاظ ملتے جلتے تھے اور قصیدہ بُردہ کا یہ شعر پہلے سے ذہن میں مستحضر تھا۔اس لئے ایسا لگا کہ یہی لکھا ہوا ہے ۔
یَا رَبِّ صَلِّ وَسَلِّمْ دَائِمًا اَبَدا
عَلٰی حَبِیْبِکَ خَیْرِ الْخَلْقِ کُلِّہِم
ھُوَ الْحَبِیْبُ الَّذِی تُرْجٰی شَفَاعَتُہ
لِکُلِّ ھَوْلٍ مِّنَ الْاَھْوَالِ مُقْتَحِم
٭…٭…٭
سازش کا توڑ
السلام علیکم..طلحہ السیف (شمارہ 485)
اَمریکہ نے طالبان سے شکست کھائی ہے…
یہ حقیقت اَب ہر درودیوار پر نقش ہے اور کوئی ذی شعور شخص اس کا انکار کرنے کی مجال نہیں پاتا۔یہ شکست اس نے صرف عسکری میدان میں نہیں کھائی، بلکہ وہ ہر جگہ ہارا ہے اور ہر جگہ نیچا نظر آیا ہے۔ میدان جنگ سے لے کر قطر،استنبول اور چین میں مذاکراتی میزوں تک۔بگرام اور گوانتاناموبے کے قید خانوں سے لے کر جرمنی اور سویڈن کے خفیہ عقوبت خانوں تک۔طالبان قیدی کی رہائی سے لے کر اپنے یرغمالیوں کی سودے بازی تک، ہر جگہ پگڑی کا شملہ اونچا اور ہیٹ کا کونا جھکا ہوا دیکھا گیا ہے۔ایک وقت دنیا نے دیکھا کہ امریکہ پاکستان اور دیگر افغان ہمسایہ ممالک پر یہ دباؤ ڈال رہا تھا کہ ہر طالبان اور ان کے ہر ہمدرد کو گرفتار کیا جائے اور ایک دن وہ ڈھونڈ ڈھونڈ کر طالبان رہنماؤں کو اپنی ضمانتوں پر رہا کرانے پر مجبور نظر آیا۔کبھی اس نے ان ممالک کے خفیہ اداروں سے اپنی نگرانی میں طالبان کمانڈرز اور رہنماؤں پر عالمی پابندیاں لگوائیں اور دنیا کے دروازے ان پر بند کئیے، ایک دن وہ ان تمام رہنماؤں کو سفارتی استثناء والے خصوصی پاسپورٹ جاری کروا رہا تھا۔جس نے طاقت کی زبان کو واحد آپشن قرار دیا تھا، اسی نے پھر مذاکرات کی بھیک بھی مانگی۔وہ جو دندناتا ہوا آیا اور قابض ہوا، دنیا نے دیکھا کہ اس نے ’’واپسی‘‘ کے لئے محفوظ راستے کی استدعا کی اور ہر قیمت ادا کرنے پر آمادگی ظاہر کی۔وہ جس نے دنیا سے جبراً یہ قانون منظور کرایا کہ ’’دہشت گردوں‘‘ کی کسی کارروائی کے عوض انہیں ہرگز کچھ نہ دیا جائے گا اور نہ ان کی بات سنی جائے گی،پھر یہ فرعون ایک کے بدلے پانچ دینے پر مجبور ہوا اور کئی بار بڑی بھاری بھاری قیمتیں ادا کرنے پر بھی۔
کوئی ہے جو ان باتوں کا انکار کرے؟…
سازشی تھیوریاں پڑھنے والے امریکہ کو سازشوں کا دیوتا قرار دیتے ہیں۔ان کا خیال ہے کہ دنیا میں جو کچھ بھی ہوتا ہے وہ دراصل امریکہ کی پلاننگ سے ہوتا ہے۔حتی کہ اگر امریکہ کے خلاف بھی کچھ ہو جائے تو وہ اس میں بھی امریکہ کی مرضی ڈھونڈ لیتے ہیں۔امریکہ کی ہر شکست میں انہیں اس کی فتح کا پہلو نظر آ جاتا ہے۔ نائن الیون سے لے کر عراق و اَفغانستان کی ذلت آمیز شکست تک ہر رُسوائی اور پسپائی میں وہ امریکہ کی مرضی کا پہلو ڈھونڈ نکالتے ہیں۔وجہ ان کتابوں کا مطالعہ ہے جو امریکی خود لکھتے ہیں اور اسی مقصد کے لئے لکھتے ہیں کہ حقیقت کو مسخ کریں اور اپنی ڈوبتی ٹوٹتی طاقت کا بوم کسی طرح بچائیں۔ وہ طلسم ہوشربا کے انداز میں اپنی سفارتی کامیابیوں کی داستانیں لکھتے ہیں۔ان کے دنیا بھر میں پھیلے ایجنٹ، ریٹائر منٹ کے بعد اپنی کامیاب سازشوں کی داستانیں لکھتے اور چھاپتے ہیں کہ کس طرح حکمرانوں سے لے کر نچلے طبقے تک ان کی سازشوں کا جال کس طرح پھیلا ہوا ہے اور دنیا اس میں کس طرح جکڑی ہوئی ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکہ نے اسی طرح دنیا پر حکومت کی ہے اور حکومتوں کا نظام اپنے قبضے میں رکھا ہے لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اس موضوع پر جو کچھ لکھا جاتا ہے وہ حقیقت سے بہت بڑھ کر ہے اورحد درجہ مبالغہ ہے۔چلئے اگر مان بھی لیجئے کہ امریکہ نے عرب و عجم میں اپنے ایجنٹوں کے ذریعے جو سازش رچی اس میں کامیاب رہا اور نتائج اس کی پلاننگ کے عین مطابق نکلے، تب بھی گواہی موجود ہے کہ اس نے اس میدان میں بھی درویش منش طالبان سے شکست کھائی ہے۔جنگ شروع ہونے سے آج تک طالبان نے اسکی ہر سازش کو ناکام کیا ہے۔اسے ہر جگہ منہ کی کھانی پڑی ہے۔اس نے روز اول سے طالبان کو توڑنے،مرکز سے کاٹنے ،امیر المومنین ملا محمد عمر مجاہد حفظہ اللہ سے دور کرنے،ان کے کسی متبادل پر راضی کرنے یا انہیں متنازعہ بنانے کی محنت شروع کی لیکن وہ آج تک ایسا نہ کر سکا۔ طالبان کی صفت اطاعت ہی اس کی تمام سازشوں کا توڑ واقع ہوئی۔اور یہ دنیا بھر کی جہادی تحریکوں کے لئے اہم سبق ہے کہ مجاہدین اگر اسی صفت کو مضبوطی سے اختیار کر لیں تو کفر کی کوئی سازش کامیاب نہیںہو سکتی۔ مجتمع اور مرکز سے جڑے مجاہدین بظاہر کتنے بھی کمزور نظر آتے ہوں اور مد مقابل دشمن امریکہ جیسا خوفناک کیوں نہ ہو، فتح بہرحال مجاہدین کی ہو گی۔ قرآن و حدیث نے یہ مسئلہ اچھی طرح سمجھا دیا ہے۔دنیا کی تاریخ اس پر شاہد ہے اور طالبان اس کا بہترین نمونہ ہیں۔
آئیے! ایک مایہ ناز امریکی ایجنٹ کی زبانی گھر کی گواہی پڑھتے ہیں جس نے بڑی ذہانت سے طالبان میں پھوٹ ڈالنے کی کوشش کی اور ایک درویش، خدامست کے سادہ مگر اطاعت و مرکزیت میں گندھے مختصر سے جواب نے اس کی ساری ذہانت کی نہ صرف بتی گل کر دی بلکہ اس کے الفاظ میں اسے کرسی سے گرنے کے قریب کر دیا۔
اسلام آباد میں طویل عرصے تک سی آئی اے کے سٹیشن ماسٹر کی ذمہ داری نبھانے والے امریکی جاسوس ’’رابرٹ ایل گرینٹر‘‘ نے حال ہی میں اپنی یاداشتوں پر مشتمل کتاب بعنوان ’’ایٹی ایٹ ڈیز ٹو قندھار‘‘ تحریر کی ہے۔اس میں اس نے عظیم طالبان رہنما ملا محمد اختر عثمانی شہید رحمۃ اللہ علیہ سے اپنی ایک ملاقات اور اپنی سازش کے حشر نشر کا احوال رقم کیا ہے
آپ بھی پڑھئے:
’’شمالی افغانستان کے کمانڈر، بھاری جسامت کے مالک ملّا اختر محمد عثمانی کے ساتھ یہ میری دوسری ملاقات تھی۔ یہ 2اکتوبر 2001کی بات ہے جب امریکا پر نوگیارہ کے حملوں کے بعد حالات کا دباؤ بڑھتا جارہا تھا۔ صدر جارج ڈبلیو بش 20ستمبر کو اپنے اسٹیٹ آف دی یونین خطاب میں طالبان کو دھمکی چکے تھے کہ طالبان یا تو القاعدہ کی قیادت امریکاکے حوالے کردیں یا پھر اُس انجام کے لیے تیار ہوجائیں جو امریکا القاعدہ کے لیے طے کرچکا ہے۔ ابھی افغانستان پر امریکی حملے کا آغاز نہیں ہوا تھا۔ اس مسئلے کے پُر اَمن حل کے امکانات بہت کم تھے لیکن میں اپنی کوششیں جاری رکھے ہوئے تھا۔ اِسلام آباد میں سی آئی اے کا اسٹیشن چیف ہونے کی وجہ سے پاکستان اور طالبان کے زیر اِنتظام اَفغانستان کی ذمے داریاں میں ہی سنبھالتا تھا اور اسی لیے میں طالبان کے اعلیٰ حکام کے ساتھ مذاکرات کی کوشش کررہا تھا۔ جس دن صدر بش نے اپنے خطاب میں دھمکی دی اسی دن افغانستان میں علما کی سپریم کونسل کا ایک اجلاس بلایا گیا، اس میں 700 علما نے شرکت کی۔ یہ اجلاس طالبان کے امیر ملا عمر نے اسامہ بن لادن کے معاملے پر مشاورت کے لیے بلایا تھا۔ یہ مشاورتی اجلاس بلانے کے اعلان کے ساتھ ہی اس معاملے کا کوئی پرامن حل نکلنے کی امید بھی پیدا ہوئی۔ کونسل نے تجویز پیش کی کہ اسامہ رضاکارانہ طور پر افغانستان چھوڑ دیں۔ ایک دن بعد 21ستمبر کو ملّا عمر نے بیان دیا کہ نہ ہی وہ اسامہ کا ساتھ چھوڑیں گے اور نہ ہی انھیں ملک چھوڑنے کا کہیں گے، اس بیان کے ساتھ ہی کسی پرامن حل کی تمام امیدیں دَم توڑ گئیں۔ 28ستمبر کو آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل محمود احمد آٹھ معروف مذہبی پاکستانی علما کے ہمراہ ملا عمر سے ملے۔ جنرل محمود کے بقول ’’ہم بندوقوں کا رُخ موڑنا چاہتے تھے‘‘۔ جنرل محمود کا خیال تھا کہ اگرچہ اُسامہ کے معاملے پر کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی لیکن طالبان کی جانب سے کچھ ایسے اقدامات کیے جاسکتے ہیں جن کے باعث فوری خطرے کو ٹالنے میں مدد مل پائے گی۔ ان کی تجاویز تھیں کہ: طالبان افغانستان میں تبدیلی مذہب کرانے کے الزام میں گرفتار آٹھ سماجی کارکنوں کو چھوڑ دیں یا اُسامہ بن لادن کے کچھ قریبی ساتھی حوالے کرنے پر راضی ہوجائیں، یا کم از کم امریکیوں کو القاعدہ کے اُن کیمپوں میں جا کر تفتیش کرنے کی اجازت دے دیں جو خالی ہوچکے تھے۔ ان میں سے کوئی تجویز قبول نہیں کی گئی۔ طالبان کے خلاف جنگ کا متبادل تلاش کرنے کی راہیں ایک ایک کرکے بند ہوتی چلی گئیںاور ساتھ ہی ساتھ میں یہ محسوس کررہا تھا کہ واشنگٹن کا رویہ بھی سخت تر ہوتا جارہا ہے۔ کچھ ہی عرصہ قبل کم از کم وائٹ ہاؤس کا لہجہ قدرے مختلف محسوس ہورہا تھا۔‘‘
کچھ آگے چل کر ’’گرینٹر‘‘ لکھتا ہے:
’’سوال یہ ہے کہ افغانستان کو کس طرح اس جنگ سے بچایا جائے؟‘‘ عثمانی کچھ دیر کے لیے خاموش ہوگئے اور کرسی پر ٹیک لگا کر بیٹھ گئے، اچانک ان پر تھکن کے آثار نمایاں ہونے لگے۔ کمرے کی فضا پر خاموشی طاری ہوگئی۔ عثمانی نے اپنی پگڑی اتار کر ایک طرف رکھ دی اور میری طرف دیکھتے ہوئے کہا:’’تو پھر تم ہی کوئی حل بتاؤ!‘‘ مجھے وہ موقع مل گیا جس کی میں امید لگائے بیٹھا تھا۔ اس ملاقات سے سال بھر پہلے کی بات ہے جب میں بغداد میں فوجی بغاوت کے لیے منصوبہ بندی کررہا تھا، تو اس زمانے میں مجھے Edward Luttwak کی کتاب Coup d’État: A Practical Handbook پڑھنے کا موقع ملا۔ اس کتاب میں لٹواک نے کسی بھی بغاوت کو کام یاب بنانے کے لیے ترتیب وار کچھ روایتی مراحل کا تذکرہ کیا تھا۔ میں نے اس ترتیب کو ذہن میں دُہرانا شروع کردیا۔ اب میں نے عثمانی کو ان کے ساتھیوں کے انداز میں مخاطب کیا:’’ملّا صاحب! آپ طالبان قیادت میں دوسرے نمبر پر تصور کیے جاتے ہیں۔ ہرکوئی آپ کا احترام کرتا ہے۔ آپ بے پناہ طاقت اور اثر رکھتے ہیں۔ آپ قندھار میں طالبان کی قیادت کرتے ہیں۔ آپ ہی اپنے ملک کو بچا سکتے ہیں۔ آپ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ ملّا عمر، اسامہ سے کیے گئے وعدے کی وجہ سے پابند ہیں۔ اس کے نتیجے میں وہ خود بھی ختم ہوجائیں گے اور ان کے ساتھ طالبان بھی۔ لیکن آپ یا طالبان شوریٰ کے دوسرے لوگ کسی ایسے وعدے کے پابند نہیں۔ اس سلسلے میں آپ ہی کوئی ضروری اقدام کرسکتے ہیں۔‘‘ اب میں نے لٹواک کی بیان کردہ فوجی بغاوت کے مراحل کی فہرست کو ذہن میں رکھتے ہوئے بات کرنا شروع کی۔ ’’سب سے پہلے آپ اپنے سپاہیوں کی مدد سے قندھار کی اہم شاہ راہوں اور راستوں سمیت تمام سرکاری عمارتوں کا کنٹرول سنبھال لیں۔ جو بھی آپ کے خلاف مزاحمت کرے اسے گرفتار کرلیں۔ ان میں سب سے پہلے ملّا عمر کو گرفتار کرنا ہوگا۔ یہ کوئی نہیں کہہ رہا کہ انھیں کسی قسم کی گزند پہنچائی جائے۔ لیکن انھیں کسی سے رابطہ رکھنے کی اجازت نہ دی جائے۔ آپ کا سب سے اہم ہدف شریعت ریڈیو کا کنٹرول حاصل کرنا ہوگا جو طالبان کا ترجمان ہے اور اس کے ذریعے سے فوری اعلانات کیجیے۔‘‘ میں نے عثمانی کو تجویز کیا کہ وہ افغان عوام کو یہ بتائے کہ وہ بنیادی طور پر افغانستان کے علما کی ہدایات پر عمل کروانا چاہتے ہیں اور یہ کام ہوتے ہی ملّا عمر ہی دوبارہ حکومت کی قیادت کریں گے۔ ’’آپ یہ جواز دیں کہ ملّا عمر نے چوں کہ علما کے احکامات ماننے سے انکار کردیا اس لیے آپ کو مجبوراً اختیارات سنبھالنے پڑے۔‘‘ پھر میں نے کہا:’’اس کے ساتھ ہی آپ یہ اعلان کردیں کہ افغانستان میں مزید کسی عرب کو آنے کی اجازت نہیں دی جائے گی اور القاعدہ سے افغانستان چھوڑنے کا مطالبہ بھی کردیں۔‘‘ اب میں اپنے اصل مدعا کی طرف بڑھ رہا تھا:’’اس کے فوری بعد آپ اسامہ بن لادن کے خلاف کارروائی کا آغاز کردیں۔ وہ اور اس کے ساتھی اس کارروائی کی شدید مزاحمت کریں گے اور اس کے نتیجے میں مارے جائیں گے۔ کسی کو پتا بھی نہیں چلے گا کہ اس کارروائی کے پیچھے آپ کا ہاتھ تھا۔ القاعدہ کے کئی دشمن ہیں۔ عرب جنگ جُو جو پہلے ہی آپ کے احکامات سن چکے ہوں گے اور جب انھیں معلوم ہوگا کہ بن لادن کو بھی ٹھکانے لگایا جاچکا تو انھیں واضح پیغام مل جائے گا۔ وہ بھاگ جائیں گے۔‘‘ ساتھ ہی میں نے عثمانی کو یہ بھی سمجھایا کہ اس منصوبے کے مطابق انھیں اُسامہ کے 14قریبی ساتھیوں کو بھی فوری طور پر گرفتار کرکے ہمارے حوالے کرنا ہوگا، کسی کو اس بات کی کانوں کان خبر بھی نہیں ہوگی کہ وہ ہماری حراست میں کیسے آگئے۔ جب بہت سے عرب ملک چھوڑ کر فرار ہورہے ہوں گے تو لوگ یہی سمجھیں گے کہ وہ پڑوسی ممالک میں گرفتارہوگئے۔ ’’یہی وہ موقع ہے کہ آپ اپنے ملک کو بچا سکتے ہیں۔‘‘ اس کے بعد میں نے آخری نکتہ یہ رکھا:’’آپ کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ یہ کام کرنے کے لیے ہم آپ کو کچھ بھی دینے کے لیے تیار ہیں۔‘‘ملّا عثمانی اس بات کا یہ مطلب سمجھے کہ شاید میں انھیں اس کام کے بدلے میں کوئی بھاری معاوضہ دینے کی بات کررہا ہوں۔ عثمانی نے جواب دیا:’’مجھے کسی قسم کی مدد نہیں چاہیے۔‘‘ کمانڈر عثمانی کے تاثرات بہت واضح تھے اور معلوم ہوتا تھا کہ انھوں نے میرے منصوبے پر غور شروع کردیاہے۔ وہ اسامہ اور اس کے 14ساتھیوں کے خلاف میری مجوزہ کارروائی کرنے کے لیے تیار تھے۔ لیکن یہ بات ماننے میں عثمانی کو تردد تھا کہ آخر عربوں کو ملک بدر کرنے کا اعلان کیوں کیا جائے؟ میں نے یہ بات سمجھانے کی کوشش کی کہ طالبان اگر یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ القاعدہ کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرنے کے حوالے سے ان کی پالیسی تبدیل ہوچکی ہے تو اس کے لیے واضح اعلان کرنا ضروری ہوگا۔ اس کے بعد ہمارے مطالبات اور اپنی پالیسی پر عمل کرنے کے لیے جو بھی اقدامات کیے جائیں گے انھیں نتائج برآمد ہونے تک صیغہ راز میں رکھا جائے گا۔ ان کارروائیوں کو خفیہ رکھنے کی پیش کش اس وقت اتنی مضحکہ خیز نہیں تھی جتنی آج یہ محسوس ہوتی ہے۔ اس وقت افغانستان میں موبائل فون کا کوئی نظام نہیں تھا۔ پاکستان میں ان کے چند دفاتر کے علاوہ ان کے پاس انٹرنیشنل فون سروس کی سہولت بھی نہیں تھی اور نہ ہی افغانستان میں آزاد میڈیا کا کوئی وجود تھا۔ اس وقت افغانستان دنیا کے دوردراز تاریک گوشے کی طرح تھا۔ ملّا عثمانی نے پوچھا: ’’ٹھیک ہے، لیکن اگر ہم اسامہ اور القاعدہ کے حوالے سے اپنی پالیسی تبدیل کررہے ہیں تو اس صورت میں ہم دیگر عربوں کو اپنے ہاں پناہ کیوں نہیں دے سکتے؟‘‘ اب مجھے غصہ آنا شروع ہوگیا تھا :’’مٹھی بھر عربوں کی خاطر آپ پوری دنیا سے بڑھنے والے خطرات کیوں مول لینا چاہتے ہیں؟ آپ اپنی اوراُن لاکھوں افغانیوں کی فکر کیوں نہیں کرتے جو برسوں سے پناہ گزینوں کی زندگی گزار رہے ہیں۔‘‘ عثمانی نے ہنستے ہوئے آہستگی سے اپنا سر ہلایا اور کہا:’’تم ٹھیک کہتے ہو!‘‘ میں موضوع پر رہنا چاہتا تھا:’’دیکھیے! ہم یہ تسلیم کرتے ہیں کہ سوویت یونین کے جانے کے بعد ہم نے افغانستان کو تنہا چھوڑ کر بہت بڑی غلطی کی۔ ہم یہ غلطی دوبارہ نہیں کریں گے۔ ایک دوست افغان حکومت کے لیے ، جو دہشت گردوں کے خلاف ہمارے ساتھ کھڑی ہونے کو تیار ہو، امریکا بڑے پیمانے پر امداد فراہم کرے گا۔ ہم افغان مہاجرین کو وطن لوٹنے میں مدد فراہم کریں گے۔ ‘‘ اس وقت میں تنہا یہ بات نہیں کررہا تھا۔ کچھ دن پہلے ہی کونڈولیزا رائس نے افغانستان پر ہونے والی گھنٹوں پر محیط ایک بریفنگ میں یہ بات کہی تھی کہ امریکا کو طویل عرصے تک افغانستان سے معاملات طے کرنے ہوں گے۔ عثمانی نے مسکراتے ہوئے اِثبات میں سر ہلایا اور کہا’’بہت اچھا! میں تمہارا تجویز کردہ منصوبہ عمر کے سامنے پیش کردیتا ہوں۔‘‘ یہ سنتے ہی قریب تھا کہ میں کرسی سے گر پڑتا کیوں کہ یہ تو بات کچھ سے کچھ ہونے جارہی تھی۔ میرا مجوزہ منصوبہ عثمانی کے لیے تھا ، ملا عمر کے لیے نہیں۔ ‘‘
٭…٭…٭
حل
السلام علیکم..طلحہ السیف (شمارہ 484)
ہیلو!
چھوٹے بھائی! لندن سے تین مسلمان لڑکیاں ترکی کے راستے شام چلی گئی ہیں۔پورے ملک میں شدید پریشانی کی لہر ہے۔تمام سیکیورٹی اداروں کی جان پر بنی ہوئی ہے۔خطرہ ہے کہ مزید بھی ایسے واقعات پیش آئیں گے۔شدت پسندوں کا نیٹ ورک بہت مضبوط ہو چکا ہے۔لوگ بہت تیزی سے ان کی طرف مائل ہو رہے ہیں۔نوجوان ہر آئے دن شام و عراق کا سفر کر رہے ہیں۔غیر مسلم بھی بہت تیزی سے مسلمان ہو رہے ہیں اور ان میں نظریۂ جہاد پروان چڑھ رہا ہے۔ان تین نو عمر لڑکیوں کے جانے سے تو پورا ملک سکتے کے عالم میں ہے۔پچھلے دنوں میرا دوست ’’دو رنگا‘‘ یعنی گولڈن براؤن پاکستان آیا ہوا تھا تو اس نے کہا ہے کہ آپ اس سلسلے میں ہماری مدد کریں۔اب تم ہی بتاؤ میں انہیں کیا حل بتاؤں؟…وہ میرے ساتھ بیٹھا ہے اور تمہارے جواب کا منتظر ہے۔
اوہو پائی جان!
یہ بھی کوئی مسئلہ ہے۔آپ انہیں بتائیں کہ فوری طور پر پورے برطانیہ میں فورتھ شیڈول کا قانون لاگو کر دیں اور تمام مسلمانوں اور نو مسلموں کو اس میں داخل کر دیں۔کوئی بھی مسلمان بغیر علاقہ ایس ایچ او اور سپیشل برانچ کو اطلاع کئے اپنے ضلع سے باہر نہ جا سکے۔اس طرح کوئی بھی شام و عراق نہیں جا سکے گا۔ساتھ ہی ساتھ ایس ایچ او کی تنخواہ میں خاطر خواہ اضافہ اور دیگر جرائم کے حوالے سے انہیں کمیشن کمانے کی کھلی چھوٹ بھی دیں تاکہ وہ شدت پسندوں سے رشوت لے کر انہیں ڈھیل نہ دیں۔مسئلہ فوراً حل ہو جائے گا…
مگر چھوٹے! وہاں جمہوریت ہے اس میں ایسا کرنا ممکن نہیں…
اچھا تو پھر انہیں کہیں فوری طور پر ملک میں فوجی عدالتیں قائم کریں۔وزیر اعظم، چیف آف آرمی سٹاف کو ساتھ لے کر پورے ملک کا دورہ کرے۔تمام وزراء اعلی اور اداروں کے سربراہان سے چیف آف آرمی سٹاف خطاب کریں، وزیر اعظم صرف سنیں اور سر ہلائیں، بولیں نہیں۔شدت پسندی کے حوالے سے سخت قانون بنائیں اور فوج سے لاگو کروائیں۔فوج کو مکمل اختیارات دیں اور بنیادی آئین اور انسانی حقوق معطل کر دیں۔
چھوٹے…تمہیں بتایا ہے کہ وہاں جمہوریت ہے۔اگر حکومت نے ایسا کیا تو عوام اس کی ایسی تیسی کر دیں گے۔
کوئی اور حل بتاؤ…
اچھا پائی جان…جمہوریت میں ایسا نہیں ہوتا؟…پھر اپنے ہاں جو نظام ہے اسے اردو میں کیا کہتے ہیں؟…
اسے کھچ کھانہ کہتے ہیں…تمہیں جو کام بتایا ہے وہ کرو…جلدی حل بتاؤ ہماری عزت کا سوال ہے…
ایک حل ہے…
جلدی بتاؤ…
ان کے ملک میں اپنے چوہدری صاحب کی شکل کا ایک آدمی ہے بالکل ہم شکل۔اسے ملک کا وزیر داخلہ لگا دیں۔شاید مسئلہ حل ہو جائے…
براؤن کہہ رہا ہے کہ اس شکل کے لوگ ہمارے ہاں صرف مزاحیہ ڈرامے بنا سکتے ہیں، مزید کچھ نہیں کر سکتے۔یہ حل قابل قبول نہیں۔انہیں سنجیدہ حل چاہیے۔
پھر ایسا کریں مساجد کے سپیکر بند کروا دیں … اذان،تقریر، خطبہ وغیرہ اور جو مولوی خلاف ورزی کرے اسے فوراً اندر کر دیں۔سخت سزا اور بھاری جرمانہ عائد کریں…
یہ قانون وہاں پہلے سے رائج ہے…
اچھا!!!… تو پھر ایسا کریں کہ جو بچہ یا بچی ’’جہاد‘‘ کے لئے جائے اس کے باپ،بھائی،دادا،چچا وغیرہ تمام رشتہ داروں بلکہ پورے خاندان کو اُٹھا لیں۔ایجنسیاں ان کے پیچھے لگا دیں،ناطقہ بند کر دیں۔روزانہ تین چار ایجنسیوں والے ان کے گھر جائیں گے تو والدین خود ہی اپنے بچوں کو سیدھا کر لیں گے…کیوں پائی جان! ہے نا سو فیصد حل؟…
چھوٹے!…وہاں قانون کی عمل داری ہے۔ایسا نہیں ہوتا کہ اولاد کے جرم میں ماں،باپ اور خاندان کو تنگ کیا جائے…
ہوںںں…ضرور یہ شدت پسند مدرسوں سے پڑھتے ہوں گے۔حکومت کو کہیں فوری طور پر مدارس کی سخت نگرانی کریں۔غیر رجسٹرڈ مدارس بند کر دیں۔اساتذہ طلبہ کی مکمل چھان بین کریں۔ذلت ناک فارم بنوائیں اور ان سے پُر کروائیں۔فنڈگ کی چھان بین کریں۔ پڑھائے جانے والے نصاب کی پڑتال کریں اور اس میں قابل اعتراض مواد خارج کر دیں۔بس جیسے بھی ہو سکے مدرسہ بند کر دیں، مسئلہ حل ہو جائے گا اور مزا بھی آئے گا…
مدارس کا وہاں پہلے ہی یہی نظام ہے اور ویسے بھی جتنے لوگ جا رہے ہیں عصری تعلیمی اداروں سے جا رہے ہیں،مدرسے سے کوئی نہیں گیا ابھی تک…اس لئے مدارس پر پابندی لگانے سے مسئلہ حل نہیں ہو گا…
پائی جان! جاتے تو اپنے ہاں سے بھی زیادہ عصری اداروں کے لوگ ہیں پھر ہم مدارس کے پیچھے کیوں لگے ہوئے ہیں؟…
چھوٹے…ہمیں ایسا کرنے کا حکم ہے۔ہم یہ باتیں آپس میں بعد میں کر لیں گے، فی الحال مجھے کوئی حل بتاؤ تاکہ میں اس سے جان چھڑواؤں…
اچھا…تو پھر ایسا کریں عصری تعلیمی ادارے انگلش میڈیم کر دیں۔جیسے اپنے ملک میں انگلش میڈیم سکول بچوں کو مذہب سے بیگانہ کر دیتے ہیں۔جو تھوڑی بہت شدت پسندی ان اداروں میں باقی ہے وہ اردو میڈیم میں ہی ہے…
اُف!…کیا ہو گیا ہے تمہیں چھوٹے…برطانیہ کے سکول اردو میڈیم…تمہارا ’’وہ‘‘ والا ٹائم تو شروع نہیں ہو گیا…
نہیں پائی جان! ابھی پونے بارہ ہوئے ہیں، 15منٹ باقی ہیں…
تو پھر سوچ سمجھ کر کوئی صحیح حل بتاؤ…
صحیح حل تو پائی جان ایک ہی ہے پھر…
وہ کیا؟…
انہیں باور کرائیں کہ ان کے ملک میں جو شدت پسندی پھیل رہی ہے اس کی اصل جڑیں ہمارے ملک میں ہیں۔ہمارے مدارس اور جہادی تنظیمیں دنیا بھر میں شدت پسندی پھیلانے کے کارخانے ہیں۔ان بچیوں تک بھی جہاد کی دعوت ہمارے ہاں سے پہنچی ہے۔یہ اصل میں جس علاقے سے تعلق رکھتی ہیں وہاں مدارس کی بہتات ہے۔جہادی جماعتوں کے دفاتر ہیں۔ان کے دور پرے کے رشتہ داروں کا تعلق پاکستانی جہادی تنظیموں اور مدارس سے ہے۔جن لوگوں نے انہیں ورغلا کر گھروں سے نکالا ہے ہماری معلومات کے مطابق وہ یہاں کی جہادی تنظیموں کے تربیت یافتہ اور مدارس کے فیض یافتہ ہیں۔اگر ہمارے ملک سے جہادی جماعتوں کو ختم کر دیا جائے۔مجاہدین بند کر دئیے جائیں اور مدرسہ پابند کر دیا جائے، تو دنیا بھر کو شدت پسندی کے بخار میں اِفاقہ ہو گا خصوصاً برطانیہ کو…لہٰذا یہ ہمیں پیسے دیں، ہم یہ کام کریں گے، مسئلہ حل ہو جائے گا…
واہ چھوٹے واہ… مجھے تم پر فخر ہے…
بس پائی جان! آپ کی دعائیں ہیں…
مگر وہ کہہ رہا ہے کہ اس فارمولے سے خود آپ کو اور آپ سے پہلے اپنانے والے عرب ممالک کو کتنا فائدہ پہنچا ہے؟اس طرح کے اقدامات سے آپ کے اپنے ملکوں میں شدت پسندی بڑھی ہے یا کم ہوئی ہے؟ شام، عراق، یمن وغیر میں ساٹھ ستر سال شدت سے یہ فارمولا اپنایا گیا نتیجہ آج کیا نکل کر سامنے آیا ہے؟ پاکستان میں پرویز مشرف نے آٹھ سال مکمل قوت اور جبر کے ساتھ یہ کام کیا۔اَعداد و شمار بتاتے ہیں کہ مسئلہ حل ہونے کی بجائے بڑھا۔ اب کیا گارنٹی ہے کہ ایسا نہیں ہو گا؟…
پائی جان! اسے کہیں پیسے نہیں دینے تو نہ دے مگر یہ فضول باتیں کر کے ہمارا مزا اور آپریشن خراب نہ کرے،دنیا میں ہر کام انسان فائدے کے لئے نہیںکرتا، کچھ کام محض لذت اندوزی کے لئے بھی کئے جاتے ہیں۔ان بے وقوفوں کو کیا پتا کہ کسی کو پکڑنے،مارنے ،اُلٹا لٹکانے ،اَذیت دینے میں کتنی لذت آتی ہے۔بددعائیں سمیٹنے میں کیا مزا ہے اور نفرتیں جمع کرنے میںکتنا سرور آتا ہے۔آج بھی ہم نے درجنوں لوگ اٹھا لئے۔نتیجہ نکلے یا نہ نکلے۔سیدھا نکلے یا اُلٹا نکلے…
ہمیں اس سے کیا…ہم نے اپنا کام کرنا ہے، کرتیں رہیں گے…دنیا جائے بھاڑ میں…
چھوٹے!… لگتا ہے بارہ بج گئے ہیں…
جی پائی جان! 10 منٹ اُوپر ہو گئے ہیں…
٭…٭…٭