السلام علیکم..طلحہ السیف

قرآن کا اعلان

السلام علیکم..طلحہ السیف (شمارہ 515)
مزاحمت کرنے والی قوم کبھی نہیں مرتی۔
خواہ وہ مزاحمت پتھروں، جوتوں، غلیلوں اور نعروں سے ہی کیوں نہ ہو۔نہ ایسی قوم مرتی ہے، نہ اسکا نام مٹتا ہے، نہ اس کا قتل عام ہوتاہے اور نہ ہی دشمن فتح کی خوشی سنا پاتا ہے۔
ہاں!
جہاں ظلم و جبر کے سامنے سپر ڈال دی جائے۔
مظلومیت کے ساتھ لائنوں میں لگ کر اپنی باری کا انتظار کرتے ہوئے موت کا انتظار کیا جائے۔
ظالموں کے آگے ہاتھ جوڑے جائیں، ان سے زندگی کی بھیک مانگی جائے، ان کے قدموں پر گرکر گڑگڑایا جائے وہاں برما،بوسنیا، کوسوا، حیدرآباد دکن، گجرات اور بھاگل پور جیسی داستانیں جنم لیتی ہیں۔
ہلاکو خان ہلاکت بن کر امت مسلمہ پر ٹوٹا، ایک قہر بن کر مسلط ہوااور اسے عالم اسلام میں عموماً اس رویے سے واسطہ پڑا تو بغداد، حمص، اور میافارقین کے ساتھ اس نے جو سلوک کیا آج بھی تاریخ میں رقم ہے۔ مسلمان قطار میں کھڑے کردئیے جاتے باری باری آگے آتے خود زمین پر لیٹ جاتے، تاتاری ہنسی مذاق کرنے، ٹھڈے مارتے، چہرے پر تھوکتے ،کبھی پیشاب بھی کردیتے اور پھر ذبح کردیتے،اگلا مسلمان اپنی باری پر خود آگے چلا آتا۔ یوں قتل عام ہوتا رہا، شہر برباد ہوتے رہے اور عزتیں پامال کی جاتی رہیں۔ عالم اسلام کے ایک چھوٹے سے حصے مصر پر ان مسلمانوں کی حکومت تھی جو ’’ممالیک‘‘ یعنی غلام تھے،انہیں سمجھ آئی کہ اس طرح مرنے سے کیوں نہ مزاحمت کرکے مرا جائے۔ وہ جتنے تھے اور جیسے تھے مزاحمت کے لئے نکل آئے، پھر تاریخ میں نہ کسی قتل عام کا ذکر ہے اور نہ بربادی کا، ہاں اس کے بعد تاریخ میں یہ اختلاف ضرور ہے کہ ہلاکو خود کیسے ہلاک ہوا۔ چند کمزور مسلمانوں کے نظریہ مزاحمت نے ہلا کو جیسے ہلاکت خیز فاتح کو یوں قعرگمنامی میں دھکیل دیا کہ اس کے انجام کے بارے میں بھی کوئی حتمی رائے آج تک قائم نہیں کی جا سکی۔
دور کی تاریخ کو چھوڑئیے!
افغانستان پر روس حملہ آور ہوا۔ کہتے ہیں سولہ لاکھ سے زائد مسلمان شہید ہوئے، ان میں روس کے خلاف مزاحمت کرتے ہوئے شہید ہونے والوں اور مظلومیت کے ساتھ مزاحمت سے پہلے شہید ہونے والوں کاتناسب نکال لیں اعدادو شمار حیران کردیں گے کہ یہ نسبت ایک اور دس کی بھی نہیں۔
کشمیر اور فلسطین میں جاری تحریکات جہاد کو ساٹھ سال سے زائد کا عرصہ گذر چکا۔ دونوں قوموں نے جب سے مزاحمت کو اپنا شعار بنایا ہے اور جب بھی وقت آیا جس طرح بھی بن پڑا مزاحمت کر کے دکھائی بھی ہے تو آپ ان تحریکات میں ساٹھ سال میں شہید ہونے والوں کی تعداد کا موازنہ ہندوستان میں حیدرآباد دکن میں ہندوستان آرمی کی چند روزہ کارروائی، گجرات، بہار، اور دیگر علاقوں میں ہندؤوں کے ہاتھوں مارے جانے والے مسلمانوں کی تعداد، بوسنیا، کوسوا میں بلا مزاحمت قتل ہونے مسلمانوں کی تعداد، اور حالیہ دنوں میںبرما میں بدھوں کے ظلم کا نشانہ بننے والے مسلمانوں کی تعداد سے کرلیں۔
حالانکہ کشمیر اور فلسطین دنیا کی دوظالم ترین اور مسلمانوں کی بدترین دشمن اقوام اور افواج کے زیر تسلط ہیں ،باہر کی دنیا کی ان تک رسائی نہیں، وہ تاریخ انسانی کے طویل ترین محاصروں میں زندگی گذاررہے ہیں، دنیا بھر میں بسنے والے اربوں مسلمانوں کی طرف سے انہیں سوائے زبانی مدد کے اور کچھ حاصل نہیں مگر یہ مزاحمت کی فطری طاقت ہے کہ وہ نہ صرف باقی ہیں بلکہ پوری شان اور آن کے ساتھ باقی ہیں۔ ہندوستان ایک ایٹمی طاقت ہے۔ اس نے لاکھوں کی تعداد میں اپنی فوج کشمیرکے چھوٹے سے علاقے میں تعینات کررکھی ہے۔ اس نے فوج کو خصوصی اختیارات تفویض کر رکھے ہیں۔عالمی انسانی قوانین اور حقوق معطل ہیں۔ ہر طرح کا جدید ساز و سامان ان افواج کے پاس ہے لیکن وہ کیا چیز ہے جس کے سامنے یہ سارے اسباب مکمل ناکام ثابت ہوئے اور اپنے اہداف کونہیں پاسکے…
فلسطین اسرائیل کے زیر تسلط ہے۔ دنیا کی تیسری بڑی ایٹمی قوت، ساری دنیا کی حمایت اس کے ساتھ ہے۔ اقوام متحدہ اس کی پشت پناہ ہے۔ ہر طرح کی اعلیٰ تربیت وسامان حرب سے اس کی افواج لیس ہیں۔ وہ فلسطینیوں کے ساتھ کچھ بھی معاملہ کریں اس یقین کے ساتھ کرسکتے ہیں کہ ان سے نہ کوئی پوچھنے والا ہے اور نہ کوئی روکنے والا لیکن اس سب کے باوجود اسرائیل اپنے اہداف کو حاصل کرنے میں کیوں مکمل ناکام ہے؟
اس کا ظاہری سبب فلسطینی اور کشمیری قوم کا وہ جذبۂ مزاحمت ہے جو کسی حال میں سرد نہیں ہورہا…
آپ خود سوچئے!
کیا برما کا وہ بدشکل گنجا بدھ لیڈر زیادہ طاقتور ہے یا مودی اورنیتن یا ھو؟
پھر کیا وجہ ہے کہ وہ اپنا ہدف حاصل کرنے میں کامیاب رہا اور یہ دونوں ناکام؟
وہ فرق اور وجہ صرف اور صرف جذبۂ جہاد اور قوت مزاحمت ہے۔ اسے جس قوم سے واسطہ پڑا وہ ان عناصر سے محروم تھی اور یہ دونوں جن اقوام سے نبرد آزما ہیں وہ اس دولت سے مالا مال ہیں…
اس لیے آپ روزانہ ایسی درجنوں تصاویر اخبارات میں اور انٹرنیٹ کی دنیا پر دیکھتے ہیں کہ ایک طرف چھریوں اور ڈنڈوں سے مسلح لوگ مسلمانوں کو مظلومیت کی داستان بنارہے ہیں اور ایک طرف مسلح اور زرہ بند فوجی اپنے اسلحے سمیت راہ فرار اختیار کررہے ہیں اور معصوم بچوں، کمزور عورتوں اور بوڑھوں کا سامنا بھی نہیں کرپارہے۔
اللہ تعالیٰ ہر مسلمان کو اس امتحان سے بچائے اور کافروں کے تسلط سے سب کی حفاظت فرمائے لیکن مومن کی حقیقی شان یہی ہے کہ وہ جس حد تک ہوسکے مزاحمت کرے اور جو وسائل ہوسکیں ان سے لڑے۔ تلوار موجود نہ تھی تو آقا مدنیﷺنے اپنے غلاموں کو کھجور کی چھڑیاں تھمادیں لیکن اس راستے کو نہ چھوڑا۔ یہ قیامت تک کے لیے تعلیم ہے کہ مسلمان چھڑی بھی مہیا ہوتو لڑے۔ کوئی اور اسباب پاس نہیں تو پتھرتو ہیں۔
لیکن جب یہ بات معلوم ہے کہ کافر ہر حال میں مارنے کے ہی درپئے ہیں تو ایک مومن کو ایمان کی بنیاد پر لڑکر مرجانے کو اختیار کرنا چاہیے نہ کہ مظلومانہ رضا کارانہ قتل کو۔
آپ اس فرق کو سمجھنے کے لیے مودی کے ہندوستان پرہی ایک نظر کرلیں۔ اسی ماہ کتنے مسلمانوں کو گائے کے ذبح کرنے یا اس کا گوشت کھانے یا اس کی توہین کرنے کے الزام میں قتل کردیا گیا یہ سلسلہ برابر جاری ہے اور ہندو مہا سبھائی لیڈروں کے بیانات سے واضح ہورہا ہے کہ یہ مزید بڑھے گا۔ ہندوستان میں پینتیس کروڑ کے لگ بھگ مسلمان ہیں لیکن ہندو ذرا بھی خوفزدہ نہیں بلکہ مکمل دیدہ دلیری سے یہ سب کام کررہے ہیں کیونکہ انہیں یقینی معلوم ہے کہ ہندوستان کا مسلمان مزاحمت کی سوچ سے محروم ہے۔ جبکہ اسی مودی کے ہندوستان میں ہی گائے کو برسر عام روڈ پر ذبح کرنے والی ہماری بہن آسیہ اندرابی اس وقت بھی ہندوستان کی جیل میں بند ہے لیکن یہ ہندو اس کا کچھ نہیں بگاڑ رہا ہے کیونکہ انہیں علم ہے انہوں نے جو بھی قدم اٹھایا کشمیری قوم مزاحمت کرے گی۔ اس سے واضح تصویر اور کیا پیش کی جائے۔
فلسطین کا مزاحمتی محاذ اس وقت شدید گرم ہے۔ اللہ تعالیٰ اس قوم پر اپنی خاص رحمتیں نازل فرمائے اور ان کی حفاظت فرمائے۔ بلاشبہ فلسطینی مسلمان اسلام کی عزت وغیرت کا سب سے روشن مینار ہیں۔
ان سے سیکھنا چاہیے کہ مشکل حالات میں جینا اور مرمر کے نہیں سینہ تان کر جینا کسے کہتے ہیں۔ ایک اور انتفاضہ برپا ہے اور عجیب بات یہ ہے کہ اس بار اس حملے کی ابتداء غاصب یہودی کی طرف سے نہیں کمزور اور نہتے فلسطینی مسلمانوں کی طرف سے ہے۔
گزشتہ چند ہفتوں میں فلسطینی نوجوانوں نے اسرائیل کے اندر گھس کر یہودیوں پر حملوں کی ایک نئی جہت متعارف کرائی۔ چاقو بردار حملے۔ اور حملوں کے اس منظم سلسلے کا نام رکھا گیا گیا ’’ثورۃ السکاکین‘‘ چھریوں کا انقلاب۔ اسرائیل نے فلسطینی مجاہدین کے زمینی حملوں سے بچائو کے لیے دنیا کی سب سے طویل حفاظتی دیوار تعمیر کررکھی ہے۔
اس دیوار کی حفاظت کے لیے دنیا کا سب سے جدید راڈار نظام بروئے کار لایا گیا ہے۔ جگہ جگہ تلاشی چوکیاں قائم ہیں، محنت مزدوری کے لیے اسرائیل میں داخل ہونے والے فلسطینیوں کو تلاشی کے سخت مراحل سے گزرنا ہوتا ہے۔ ایسے میں کسی قسم کا اسلحہ لے کر اسرائیل میں کہیں بھی حملہ آور ہونا تقریباً ناممکن ہوچکا ہے۔ اور مجاہدین کے خود ساختہ میزائیلوں کے حملوں سے بچنے کے لیے آئرن ڈرم نامی حفاظتی نظام ہر وقت فعال رہتا ہے۔ گویا کہ اسرائیل نے اپنے گمان کے مطابق خود کو ہر طرح سے محفوظ تصور کرلیا ہے۔ لیکن سلام ہو فلسطین کے عظیم مجاہدوں کو۔ انہوں نے ان سخت حالات میں بھی ’’جہاد‘‘ کی فکر ترک نہیں کی اور نہ اپنی عظیم مزاحمت سے غافل ہوئے۔ انہوں نے یہ تدبیر کی کہ تربیت یافتہ نوجوان مزدوری کے بہانے اسرائیل میں داخل ہوں، کسی بھی دوکان سے اچھی سی چھری خریدیں اور جتنے یہودیوں کو ممکن ہوسکے قتل یا زخمی کرکے اپنی جان جان آفرین کے حوالے کریں۔ گویا صرف چھری کے ساتھ فدائی حملہ…اللہ اکبر،اللہ اکبر کبیرا…
یہ ہے جہاد، یہ ہے اسلام کا حقیقی نظریہ جہاد جو نہ اپنی کمزوریوں کو گنتا ہے نہ کفار کی طاقت اور حفاظتی قلعوں کو خاطر میں لاتا ہے بلکہ ہر طرح کے حالات میں اور ہر طرح کے اسباب کے ساتھ لڑتا ہے، لڑاتا ہے۔
ان حملوں نے اسرائیل کو چکرا کر رکھ دیا اور اس نے ان کے مقابل ہمیشہ کی طرح اندھا دھند طاقت اور وحشت کا مظاہرہ کیا اور فلسطینی علاقوں پر مسلح چڑھائی کردی ہے۔ اب یہاں فلسطینی عوام کا رد عمل دیکھئے۔
وہ اپنی جان اور املاک بچانے کے لیے کہہ سکتے ہیں کہ ہم ان حملہ آوروں کے ساتھ نہیں ہیں، ان سے اعلان براء ت کرتے ہیں۔ انہیں اپنے علاقوں سے نکال دیتے ہیں، خود ان کے خلاف آپریشن کرتے ہیں لیکن نہیں۔ پوری قوم صف بستہ ہوکر انتفاضہ کے نعرے لگاتی ہوئی گھروں سے نکل آتی ہے۔ ہر عورت، ہر بچہ ہر بوڑھا ہر جوان ہاتھوں میں پتھر لیے مزاحمت پر صف آراء ہے۔ روزانہ لاشیں گررہی ہیں، شہادتیں ہورہی ہیں، املاک تباہ ہورہے ہیں، گرفتاریوں کا طوفان برپا ہے لیکن عزائم ہیں کہ جوان تر ہوتے جارہے ہیں مزاحمت کا زور ٹوٹنے کی بجائے اور بڑھتا جارہا ہے اور حملے بھی بدستور جاری ہیں۔
اللہ تعالیٰ اس عظیم قوم کو فتح مند فرمائے۔ ان کے شہداء کو قبول فرمائے اور ان کی شش جہات سے حفاظت فرمائے۔ ہم ان کے لیے دعاء کرسکتے ہیں اور ان سے سبق حاصل کرسکتے ہیں کہ کفر کے مقابل جینا مزاحمت کی شان کے ساتھ ممکن ہے، ایسے نہیں۔ وہ لوگ مسلمانوں کے دوست اور خیر خواہ نہیں بلکہ بدترین دشمن ہیں اور اسلام کے وکیل نہیں اسلام کے لیے عار ہیں جن کی دعوت ہے کہ مسلمان مزاحمت اور جہاد کا رویہ ترک کرکے اطاعت قبول کرلیں، مسلمان جہاد سے دستبردار ہوجائیں۔
یاد رکھیے! ان امور کا ترک کردینا مسلمانوں کی تباہی کا باعث ہی بنا ہے اگرچہ ظاہر میں اس کے خلاف نظر آرہا ہو اور ان امور پر قائم ہوجانا ہی بقا اور سرفرازی کا ضامن ہے اگرچہ بظاہر اس میں تباہی نظر آتی ہو۔ یہی قرآن کا اعلان ہے اور یہی ماضی اور حال کی سچی گواہی ہے۔
٭…٭…٭
اللہ سے جنگ!
السلام علیکم..طلحہ السیف (شمارہ 514)
گزشتہ دنوں سود کے بارے میں پاکستانی عدالت کے ایک جج صاحب کے عجیب ریمارکس میڈیا پر نشر ہوئے جس نے درد دل رکھنے والے مسلمانوں کو ایک بار پھر سوچنے پر مجبور کردیا کہ یہ ملک کس راہ پر گامزن کر دیا گیا ہے؟
’’فرماتے ہیں کہ جو سود نہیں لینا چاہتا نہ لے اور جو لیتا ہے اس سے اللہ پوچھے گا! ‘‘
سود خوری کوئی عام گناہ ہیں بلکہ وہ خطرناک ترین گناہ ہے قرآن کریم کی سورۃ بقرۃ میں آیت(۲۷۹) کے اندر واضح طور پر فرمایا گیا ہے کہ اگر اﷲ کا حکم مان کر اسے ترک نہ کیا جائے گا تو یہ عمل اﷲ تعالیٰ سے اعلان جنگ کے مترادف ہوگا۔ دیکھئے اس آیت کی تفسیر میں مفسرین کیا فرماتے ہیں:
مسلمانو! اﷲ تعالیٰ سے ڈرو اگر تم مسلمان ہو تو جس قدر سود رہ گیا ہے اس کو چھوڑ دو اور اگر ایسا نہ کرو تو اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسول سے لڑنے کوتیار ہو جاؤ…
یقینا تمام انسانی گناہوں میں صرف یہی معیت حرب من اﷲ ورسولہ ہے کیونکہ اور کسی معصیت میں انسان،خدا کے بندوں کیلئے اس درجہ بے رحم اور خونخوارنہیں ہوجاتا،جس درجہ سود کو اپنا وسیلہ معاش بنا لینے کے بعد ازسرتاپا مجسمہ شقاوت و قساوت اور غلظت و صلابت بن جاتا ہے اور خدا کے بندوں کے آگے بے رحمی سے مغرور ہونا فی الحقیقت خدا کے آگے مغرورہو کر آمادہ جنگ وپیکار ہوناہے۔
اگر ایک شخص چورہے، ڈاکو ہے، قاتل ہے تو قانون اس کو سزادیگا اور انسانی آبادی اس سے پناہ مانگے گی لیکن ایک سود خور کہتا ہے کہ انماالبیع مثل الربوا اس نے تجارت کی ایک دو کان کھول دی ہے اور ضرورت و احتیاج انسان کے ہوش و حواس معطل کر دیتی ہے ، ڈاکو سے انسان بھاگتاہے مگر مظلوم قرضدار خودوڑ کر اس کے پاس جاتاہے پس فی الحقیقت قتل وغارت کسی قانون اورمذہب کیلئے اس درجہ سختی کی مستحق نہیں جس قدر سود اور سود خوری کی مہیب زندگی پھر کیا حرب من اﷲ و رسولہ سے اس کی تعبیر صحیح نہیں ہے۔
دنیا میں خودغرضی کے جس قدراعمال کئے جاتے ہیں ان میں سے کسی میں بھی اس درجہ استمرار اور مداومت نہیں جیسی کاروباری بے رحمی۔ سود خوار کاعمل ظلم دائمی اور انسانی عمروں خاندانوں اورنسلوں تک جاری رہتاہے اور وہ جس شکار کو پکڑتاہے اس کی بیکسی اورمظلومی کا نظارہ برسوں تک دیکھتارہتا ہے اور جب تک ہمیشہ کیلئے اس کے تڑپنے لوٹنے اور کراہنے کا تحمل اپنے اندر پیدا نہ کرے وہ سود خوارنہیں بن سکتا۔ اس لئے صرف اسی معصیت کو حرب من اﷲ و رسولہ سے تعبیر کیا گیا( تفسیر الفرقان فی معارف القرآن)
یعنی تم پر باغیوں اور مرتدوں کی طرح جہاد کیا جائے گا… اتنی شدید تہدید قرآن مجید میں کسی دوسری معصیت کیلئے نہیں آئی۔
العظمۃاﷲ!حرمت سود کا کس قدر درجہ اہتمام ہے اور اس باب میں کس درجہ شدید احکام ہیں۔ اس کے بعد کچھ حد ہے اس ڈھٹائی اور جسارت کی کہ اپنے آپ کو مسلمان کہلا کر رسالے’’جواز سود‘‘ پر شائع کئے جائیں۔ اور اپنی تحریر و تقریر سے لوگوں کو سودی کاروبار کی ترغیب دلائی جائے حضرت عمرؓجیسے جلیل القدر صحابی رسول سے یہ منقول ہے کہ سو د کوبھی چھوڑو اور اس کے مشابہ چیزوں کو بھی، وہ اسی قرآنی تہدید کا قدرتی نتیجہ ہے۔ جب جسمانی بیماریوں کا یہ حال ہے کہ کسی مریض کو طیب اگر سخت مرض کے مشابہ ہوتا ہے کہ احتیاط علاج اس سخت تر مرض کا شروع کر دیتا ہے۔ تو جو مسلمان تقویٰ کا ادنی درجہ بھی رکھتے ہیں ان پر بھی یہی لازم ہے کہ نہ صرف کھلے ہوئے سود سے بچیں بلکہ ایسی مالی اور کاروباری صورتوں سے بھی احتیاطاً بچتے رہیں جن کا سودی ہوناقطعی نہیں صرف اغلب ہے۔(تفسیر ماجدی)
نبی کریم ﷺ کے ارشادات عالیہ میں بھی اس بارے میں سخت وعید اور تہدید واضح الفاظ میں موجود ہے۔ چند احادیث ہم ذیل میں ذکر کرتے ہیں جن سے کچھ اندازہ ہوگا کہ سود اﷲ کے حبیب ﷺ کی نظر میں کتنا بڑا جرم ہے اور اس پر اﷲ رب العزت نے کیسے سخت عذاب تیار فرمائے ہیں:
(۱) رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ سات مہلک چیزوں سے بچو،صحابہ کرامؓ نے دریافت کیا: یا رسول اﷲ! وہ کیا ہیں؟ آپﷺ نے فرمایا: ایک اﷲ تعالیٰ کے ساتھ(عبادت میں یا اس کی مخصوص صفات میں) کسی غیر اﷲ کو شریک کرنا، دوسرے جادو کرنا، تیسرے کسی شخص کو ناحق قتل کرنا، چوتھے سود کھانا، پانچویں یتیم کا مال کھانا، چھٹے جہاد کے وقت میدان سے بھاگنا، ساتویں کسی پاک دامن عورت پر تہمت باندھنا۔(بخاری شریف)
(۲) رسول اﷲﷺ نے فرمایا کہ میں نے آج رات دو شخصوں کو دیکھا جومیرے پاس آئے اور مجھے بیت المقدس تک لے گئے، پھر ہم آگے چلے تو ایک خون کی نہر دیکھی جس کے اند رایک آدمی کھڑاہوا ہے، اور دوسرا آدمی اس کے کنارہ پر کھڑا ہے جب یہ نہر والا آدمی اس سے باہر آنا چاہتا ہے تو کنارہ والا آدمی اس کے منہ پرپتھر مارتاہے جس کی چوٹ سے بھاگ کرپھر وہ وہیں چلا جاتا ہے جہاںکھڑا ہوا تھا، پھر وہ نکلنے کا ارادہ کرتاہے تو پھر یہ کنارہ کاآدمی یہی معاملہ کرتا ہے آنحضرتﷺ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے ان دو ساتھیوں سے پوچھا کہ یہ کیا ماجرا ہے جو میں دیکھ رہا ہوں؟انہوں نے بتلایا کہ خون کی نہرمیں قید کیا ہوا آدمی سود کھانے والا ہے (اپنے عمل کی سزا پارہاہے) (بخاری)
(۳) رسول کریمﷺ نے سود لینے والے پر بھی لعنت فرمائی، اور سود دینے والے پربھی، اور بعض روایات میں سودی معاملہ پر گواہی دینے والے اور کا وثیقہ لکھنے والے پربھی لعنت فرمائی ہے۔
اور صحیح مسلم کی ایک روایت میں فرمایا کہ یہ سب گناہ میں برابرہیں اور بعض روایات میںشاہد وکاتب پرلعنت اس صورت میں ہے جبکہ ان کو اس کا علم ہو کہ یہ سود کا معاملہ ہے۔
(۴)رسول کریمﷺ کا ارشاد ہے کہ چارآدمی ایسے ہیں کہ ان کے بارہ میں اﷲ تعالیٰ نے اپنے اوپر لازم کر لیا ہے کہ ان کو جنت میں داخل نہ کرے اور جنت کی نعمت نہ دیکھنے دے، وہ چار یہ ہیں: شراب پینے کا عادی اور سود کھانے والا اور یتیم کا مال ناحق کھانے والا اوراپنے والدین کی نافرمانی کرنے والا(مستدرک حاکم)
(۵) نبی کریمـﷺ نے فرمایا کہ جو آدمی سود کا ایک درہم کھاتا ہے وہ چھتیس مرتبہ بدکاری کرنے سے زیادہ سخت گناہ ہے اور بعض روایات میں ہے کہ جو گوشت مال حرام سے بنا ہو اس کے لئے آگ ہی زیادہ مستحق ہے اسی کے ساتھ بعض روایات میں ہے کہ کسی مسلمان کی آبروریزی سود سے بھی زیادہ سخت گناہ ہے۔ (مستدرک الحاکم)
(۶)ایک حدیث میںہے کہ رسول کریمﷺ نے اس بات سے منع فرمایا کہ پھل کو قابل استعمال ہونے سے پہلے فروخت کیا جائے، اور فرمایا کہ جب کسی بستی میں بدکاری اور سود کا کاروبار پھیل جائے تو اس نے اﷲ تعالیٰ کے عذاب کو اپنے اوپر دعوت دیدی۔ (مسنداحمد، طبرانی)
(۷)رسول کریمﷺ نے فرمایا کہ جب کسی قوم میں سود کے لین دین کا رواج ہوجائے توا ﷲ تعالیٰ ان پر ضروریات کی گرانی مسلط کر دیتا ہے اورجب کسی قوم میں رشوت عام ہوجائے تو دشمنوں کا رعب غلبہ ان پر ہوجاتاہے۔ (مسند احمد)
(۸)رسول اﷲﷺ نے فرمایا کہ شب معراج میں جب ہم ساتویںآسمان پر پہنچے تو میں نے اپنے اوپر رعد وبرق کو دیکھا، اس کے بعد ہم ایک ایسی قوم پر گزرے جن کے پیٹ رہائشی مکانات کی طرح پھولے اور پھیلے ہوئے ہیں جن میں سانپ بھرے ہیں جو باہر سے نظر آرہے ہیں، میں نے جبرئیل امین سے پوچھا کہ یہ لوگ کون ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ یہ سود خور ہیں۔ (مسنداحمد)
(۹)رسول اکرمﷺ نے عوف بن مالکؓ سے فرمایا کہ ان گناہوں سے بچو جو معاف نہیں کئے جاتے، ان میں سے ایک مال غنیمت کی چوری ہے اور دوسرے سود کھانا۔(طبرانی)
(۱۰) حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئیگا جس میں سوائے سود خود کے اور کوئی نہیں ہوگا اگر کھلا ہوا سود نہ بھی کھایا تو اس کا دھواں بہرحال اس تک پہنچے گا۔(صحیح مسلم)
(۱۱) حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشادفرمایا :سود کے ستر گناہ ہیں کم از کم گناہ یہ ہے کہ آدمی اپنی ماں سے زنا کرے۔ (ابن ماجہ)
(۱۲)حضرت ابن مسعودؓ سے مروی ہے کہ آنحضرتﷺ نے ارشاد فرمایا:کوئی شخص سودی مال کو کتناہی بڑھالے انجام کار خسارہ اورنقصان ہی ہوگا۔ (ابن ماجہ)
(۱۳)حضرت ابن مسعودؓسے مروی ہے کہ نبی کریمﷺ نے ارشادفرمایا:قرب قیامت میں سود، زنا اورشراب نوشی عام ہوجائے گی(المعجم الاوسط)
(۱۴)حضرت عبداﷲرضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: کسی نبی کی قوم ہلاک نہیں ہوئی جب تک ان میں زنا اور سود عام نہیں ہوا( معجم الکبیر )
(۱۵)حضرت سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے آیت الذین یاکلون الربا الخ کی تفسیر میں فرمایا: جولوگ سود کھاتے ہیں قیامت کے دن پاگلوں کی طرح گلے میں رسی ڈالے ہوئے پیش کئے جائیںگے۔
مسلمانوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ کیا اتنے بڑے گناہ میں علانیہ اور بکثرت ملوث ہو کر سکون، اطمینان، معاشی آسودگی اور امن حاصل کیا جاسکتا ہے؟
یقینا جواب نہیں میں ہوگا۔
تو پھر کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ اس گھناؤ نے جرم اور گندے گناہ سے توبہ کی جائے؟
کیا اس سے بھی بدترین حالات کا انتظار کیا جائے گا؟
کیا اس عذاب کو جھیلتے رہنے کی طاقت ابھی قوم میں باقی ہے؟
معاشی بحران کے ایک جھٹکے نے ہی سب کے کس بل نکال دیئے ہیں۔ روزانہ درجنوں خود کشیاں ہو رہی ہیں۔ سرمایہ دار اسٹاک ایکسچینج کی چھتوں سے کود کر خود کشیاں کر رہے ہیں۔ اعلیٰ معیار اور آسودگی کی زندگی حاصل کرنے کے لیے اختیار کیا جانے والا راستہ گھیر کر حرام موت کے دہانے پر لے آیا ہے۔ ایسے میں قرآن کریم کے یہ واضح فرامین اور نبی اکرم رحمت للعالمین صلی اﷲ علیہ وسلم کے روشن ارشادات ہمیں نجات کا راستہ دکھا رہے ہیں۔ عقلمند وہی ہے جو اس عذاب کے اصل سبب کو سمجھ لے، ماہرین معاشیات کی چکنی چپڑی باتوں اور نت نئے منصوبوں پر غور کرنے کی بجائے قرآن وحدیث میں غور کرکے اور اس جنگ سے باز آجائے۔ ورنہ عذاب ہی عذاب رہے گا۔ پریشانی ہی پریشانی رہے گی…
٭…٭…٭
ایک خوشی، ایک غم
السلام علیکم..طلحہ السیف (شمارہ 513)
قندوز ایک پھر بازی لے گیا…
آپ کو یاد ہوگا ۱۹۹۸؁ء کا وہ زمانہ جب مزار شریف اور اس کے ملحقہ صوبوں میں جنرل عبدالملک پہلوان، جنرل عبدالرشید دوستم اور حزب وحدت ملیشیا نے بد عہدی کرکے دشتِ لیلیٰ میں طالبان کا قتل عام کیا تھا۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق دس ہزار سے زیادہ مقامی اور مہاجر مجاہدین انتہائی بے بسی کے عالم میں شہید کردیے گئے تھے۔ اس وقت کابل سے مزار شریف کی طرف پیش قدمی کرنے والا طالبان کا لشکر پل خمری میں آکر محصور ہوگیا تھا۔ تقریباً ڈیڑھ ہزار مجاہدین کا یہ لشکر چاروں طرف سے محاصرہ کی حالت میں پل خمری میں اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہا تھا۔ اسلحہ روز بروز ختم ہورہا تھا اور زخمیوں کی تعداد روزانہ بڑھ رہی تھی۔ کمک کے تمام راستے مسدود تھے۔ ایسے میں پل خمری بھی چھن گیا اور آخری ٹھکانے کے طور پر بغلان میں پناہ لے لی گئی۔ وہاں کے کمانڈر بشیر خان بغلانی نے بھی جنرل عبدالملک جیسے معاہدے کی پیشکش کی۔ مجاہدین اپنا اسلحہ اور گاڑیاں اسے دے دیں اس کے بدلے میں انہیں کابل تک محفوظ راہداری فراہم کردی جائے گی۔ سانحہ مزار کے پیش نظر اس معاہدے کو ٹھکرا کر اعلان کردیا گیا کہ ہم آخری سانس تک لڑنے کو بے بسی کی موت پر ترجیح دیں گے۔ عجیب حالات تھے۔ مجاہدین شہر کے وسط میں ایک وسیع میدان میں مقیم تھے اور چاروں طرف دشمن محاصرے میں لیے ہوئے تھا۔ ایسے میں امید کی روشنی اور فتح کی نوید بن کر آئے شہر قندوز ارباب ہاشم خان شہید اور مجاہدین کو دعوت دی کہ وہ قندوز پر حملہ آورہوں، ان کی قوم مدد کرے گی۔ قندوز شمالی اتحاد کا مضبوط گڑھ اور شورائے نظار کی آرٹلری کا مرکز تھا۔ اور ادھر حالت یہ تھی کہ مجاہدین کے پاس صرف ایک ٹینک تھا اور اس میں صرف ایک قابل استعمال گولہ موجود تھا۔ ڈیڑھ ہزار کے لشکر میں مسلح افراد کی تعداد ایک ہزار کے قریب تھی، باقی سب نہتے تھے یا نہتے ہوچکے تھے۔ مگر اللہ تعالیٰ کے بھروسے پر فیصلہ کرلیا گیا۔ مجاہدین بغلان سے چلے اور قندوز میں موجود ارباب ہاشم شہید کے ساتھیوں نے اندر سے کارروائی شروع کردی۔ اللہ تعالیٰ کی مدد اتری اور قندوز فتح ہوگیا۔ مجاہدین کا وہ اکلوتا ٹینک اس شان سے قندوز میں داخل ہوا جس شان سے ہمارے پنجاب اور کے پی کے دیہاتی علاقوں کے حاجی آیا کرتے ہیں یعنی پھولوں اور ہاروں سے سر تاپا لدا ہوا۔
اہل قندوز نے دیدہ ودل فرش راہ گئے اور شہر مجاہدین کے حوالے کرکے ہر طرف سے اس کے دفاع کی ذمہ داری سنبھال لی۔یوں شمال کے بدترین سانحہ کی کوکھ سے ایک فتح مبین نے جنم لیا۔ شدید محاصرے اور بے سرو سامانی کے عالم میں یہ ایک مثالی فتح اور عظیم خوشخبری تھی جو مجاہدین کو ملی اور اس طرح شمال میں مجاہدین کے ہاتھ ایک ایسا مفید ٹھکانہ آگیا جو آگے کی فتوحات کے لیے مرکز بنا۔ یہیں سے شمال میں ایک نئی اور منظم جنگ کا آغاز ہوا اور مجاہدین نے تخار، مزار شریف اور دیگر علاقے فتح کئے جو امریکی حملے تک امارت اسلامیہ کے زیر قبضہ رہے اور اسلامی نظام کی برکات سے مستفید ہوتے رہے۔ قندوز کی فتح اس زمانے میں امارت اسلامیہ کی تاریخ میں ایک روشن باب کی حیثیت حاصل کرگئی۔ اس پر سینکڑوں نظمیں لکھی اور پڑھی گئیں۔ وہ جرأت اور استقامت کا استعارہ بنی اور نصرت الہٰی کا ایک جیتا جاگتا شاہکار۔ پھر صلیبی جنگ مسلط ہوئی۔ مجاہدین کو بمباری کے سبب شہر چھوڑ کر جنگلوں اور پہاڑوں کی پناہ لینا پڑی۔ شہروں پر امریکی بھیڑیے اور ان کی پروردہ عیاش وبدمعاش ملیشیائیں قابض ہوگئیں اور ایک نئی جنگ کا آغاز ہوا۔ اس جنگ میں بھی قندوز ہمیشہ سرخیوں میں جگمگاتا رہا۔ حالانکہ یہ شمال میں واقع ہے اور شمال تو امریکہ کی گود میں ایک پکے ہوئے پھل کی طرح آگرا تھا اور انہیں یقین تھا کہ یہاں انہیں کسی قسم کی کوئی مشکل پیش نہ آئے گی مگر قندوز نے اپنے ماضی کی تاریخ دُہرائی اور مزاحمت کا مرکز بن کر ابھرا اور اب جبکہ چودہ سال بعد یہ جنگ اپنے فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوئی توقندوز سب سے بازی لے گیا اور اس نے سب سے پہلی بڑی فتح کا اعزاز اپنے فراخ سینے پر سجالیا۔
یہاں امارت اسلامیہ کے جھنڈے سب سے پہلے لہرائے اسی نے سب سے پہلے فتح کے نعرے سنے، یہی نصرت الہٰی کا سب سے پہلا نشان بن کر اُبھرا اور یہی افغانستان کے یقینی اور حتمی مستقبل کا نقش اولین ٹھہرا۔ زندہ باد قندوز، پائندہ باد قندوز…
ہوسکتا ہے مجاہدین قندوز کوا پنے مستقل قبضے میں نہ رکھیں۔ عین ممکن ہے کہ وہ اسے چھوڑ کر دوبارہ پہاڑوں اور جنگلوں کو ٹھکانہ بنائیں۔ یہ شکست نہ ہوگی بلکہ عین حکمت عملی ہوگی۔
مجاہدین جنوب میں اور مشرق میں اس قدر مضبوط ہیں کہ جس وقت چاہیں چند گھنٹوں میں اہم اور بڑے شہروں پر قبضہ کرسکتے ہیں لیکن جنگی حکمت عملی اور عوام الناس کی املاک کو امریکی وحشیانہ اور بلا تمیز بمباری سے بچانے کے لیے وہ ایسا کرنے سے رُکے ہوئے ہیں۔ جنوب میں روڈ ٹیکس طالبان وصول کرتے ہیں، عدالتیں ان کی قائم ہیں، فیصلے ان کے چلتے ہیں لیکن قبضہ بظاہر امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا ہے، یہ مجاہدین کی جنگی حکمت عملی ہے۔ امریکہ افغانستان سے جلد از جلد نکلنا چاہتا ہے تین بار وہ تاریخ کا اعلان کرکے منسوخ کرچکا کیونکہ افغان حکومت اس حقیقت حال سے آگاہ ہے کہ وہ مجاہدین کے مقابلے میں چند گھنٹے ٹکنے پر بھی قادر نہیں۔
اور مجاہدین نے قندوز فتح کرکے اس کا عملی نمونہ بھی دکھا دیا ہے۔ افغان حکومت کھلے الفاظ میں امریکہ کو بار بار یہ بارو کرا چکی ہے کہ افغان آپریشن کے خاتمے کا اعلان طالبان کی فتح اور افغانستان پر امارت اسلامیہ کے اقتدار کی واپسی کے اعلان کے مترادف ہوگا۔ امریکہ ہر حال میں اس آپریشن کا اختتام چاہتا ہے کیونکہ اس کی معیشت اور اندرونی حالات اب مزید مہم جوئی کے متحمل نہیں۔ لہٰذا اس کے لیے اب صورتحال جائے رفتن نہ پائے ماندن والی ہے۔ طالبان اس فتح سے جو مقاصد حاصل کرنا چاہتے تھے وہ بدرجۂ اتم پورے ہوئے۔ اب وہ اس قبضے کو برقرار رکھیں تب بھی وہ فاتح ہیں اور اگر چھوڑ کر چلے جائیں تب بھی وہی فتح مند ہیں۔ لہٰذا اس صورت میں اگر لبرل اور جہاد دشمن طبقہ بغلیں بجائے اور طعنے دے تو ہرگز پریشان نہ ہوں۔ جہادی حکمت عملی کو مجاہدین ہی سب سے بہتر سمجھتے ہیں۔ یہ ہے اسلام کی حقیقی جہادی سیاست جس میں مسلمانوں کو کبھی مات نہیں۔ جمہوری سیاست میں مسلمانوں کا ہمیشہ منہ کالا ہی ہوا ہے اور اگر روشن بھی ہوا ہے تو زیادہ سے زیادہ محمد مرسی جیسی مظلومیت ہی مقدر آئی۔ بہرحال یہ ہمارا موضوع نہیں۔ ہمارا موضوع آج یار طرحدار اور قدیم دوست ’’قندوز‘‘ کو خراج عقیدت پیش کرنا تھا۔
زندہ باد قندوز…پائندہ باد قندوز…
٭…٭…٭
خوشی کی اس خبر کے ساتھ ایک خبر غمناک بھی ہے۔ کشمیر میں جیش محمدﷺکے اہم کمانڈر بھائی عدیل کشمیری جام شہادت نوش فرما گئے ہیں۔ ان کا تعلق آزاد کشمیر کے علاقے عباس پور سے تھا۔ بھائی عدیل ان خوش قسمت نوجوانوں میں سے تھے جن کی عملی زندگی کا آغاز ہی گویا میدان جہاد میں ہوا۔ وہ بہت نو عمری میں اس میدان میں آئے۔ انہیں مجاہدین میں سب سے کم عمر استاد بننے کا اعزاز نصیب ہوا۔ عرصہ دراز تک وہ تربیت کے شعبے سے وابستہ رہے اور سینکڑوں نوجوانوں کو جہادی تربیت فراہم کی؛ پھر وہ اپنی شدید خواہش کے پیش نظر مقبوضہ وادی میں بھیجے گئے اور اپنی خداداد صلاحیتوں اور فکر سلیم کے بل بوتے پر اہم خدمات سر انجام دیں۔ اگر یوں کہا جائے کہ غازی بابا شہید کے بعد اگر کسی نے اپنی تمام تر صلاحیتیں صرف کرکے تحریک میں نئی روح پھونکی وہ بھائی عدیل ہی تھے تو ذرہ بھر بھی مبالغہ نہ ہوگا۔ ان کی شہادت پر ہندوستانی میڈیا کا چیخ چیخ کر یہ اعلان ہماری صداقت کا گواہ ہے کہ عدیل وہ نوجوان تھا جس نے کشمیری نوجوانوں میں بیداری کی حالیہ لہر اُٹھانے میں اہم کردار ادا کیا اور تحریک جہاد کشمیر کو نئی نوجوان کھیپ فراہم کی۔ وہ کشمیر گئے تو پھر آرام سے نہ بیٹھے۔ انتہائی نا مساعد حالات میں کشمیر کے اکثر علاقوں کا دورہ کرکے تحریک کو منظم کیا۔ لانچنگ کا نظام فعال کیا۔ مختصر عرصے میں کارروائیوں کا دائرہ کپواڑہ کے سرحدی علاقوں سے سرینگر اور ترال تک وسیع کردیا۔ مایوس ہوکر میدان سے ہٹ رہے کشمیری نوجوان کو نیا حوصلہ دے کر انہیں میدان میں لائے۔ انہی کی اس طوفانی محنت کا ثمر تھا کہ کشمیری طلبہ نے سرینگر میں ہندوستانی فوج کے سامنے جیش کے جھنڈے لہرا دیے۔
بھائی عدیل نو عمری میں وہ کام کرگئے جو بڑوں بڑوں کا پتہ پانی کردیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں اپنی آغوش رحمت میں مقام عطا فرمائے اور انہیں ان کی محنت کا بھر پور صلہ عطا فرمائے اور مجاہدین کو ان کا نعم البدل عطا فرمائے۔ آمین
٭…٭…٭
کشمیر …قربانی
السلام علیکم..طلحہ السیف (شمارہ 512)
گذشتہ شمارے میں آپ نے سرخی ملاحظہ کی ہو گی:
’’ اہل کشمیر نے سرینگر میں ’’جیش محمد ﷺ ‘‘ کے پرچم لہرا دئیے۔
سبحان اللہ!
کیسا زبردست طمانچہ رسید کیا جیش پر زبانیں چلانے والوں کے منہ پر…
کیسی حقیقت سمجھائی جہادِ کشمیر کے ختم ہو جانے اور کمزور پڑ جانے کی باتیں کرنے والوں کو…
کیسا ’’وجود‘‘ دکھایا کالعدم کالعدم کی رَٹ لگانے والوں کو…
ہندوستان کتنے بھی دعوے کر لے تحریک آزادی کشمیر اور جہاد کشمیر تروتازہ ہیں اور اپنا وجود منوا رہے ہیں…
ہندوستان نہ طمع دلا کر اُن کا عزم خرید سکا نہ جبر کے زور پر اُن کی عزیمت کو جھکا سکا…
بھاری بجٹ سے لے کر بھاری فورسز تک…
مراعاتی پیکج سے لے کر ظالمانہ قوانین تک…
ہر حربہ ناکام ہے…
ہندوستان یہ سب کر کے کچھ حاصل نہ کر سکا۔ تحریک کشمیر کو تو جتنا بھی نقصان پہنچایا ننگ ملت، ننگ وطن، ننگ دین پرویز مشرف علیہ ما علیہ نے پہنچایا۔ مجاہدین کو بھی کمزور کیا اور سیاسی جدوجہد میں بھی پھوٹ ڈالنے میں کامیابی حاصل کر کے ہندوستان کا مال حلال کیا لیکن ثابت ہو گیا کہ اہل عزیمت کا عزم ہی ہر سازش کا توڑ ہے۔ وہ ڈٹے رہے آج الحمد للہ جہاد بھی ایک نئی آب و تاب کے ساتھ دوبارہ جلوہ افروز ہے اور سیاسی قیادت بھی متحد ہو کر ایک ایجنڈے پر عمل پیرا نظر آ رہی ہے۔ ٹوٹی ہوئی صفیں دوبارہ جڑ رہی ہیں اور بکھری ہوئی باتیں ایک نقطے پر مرتکز ہو گئیں ہیں۔
کشمیری قوم کے عزم کا اندازہ اس واقعے سے لگا لیں کہ ہندوستانی ہائیکورٹ نے مرکزی حکومت کی ایماء پر ’’گاؤکشی‘‘ ( گائے کی قربانی) کی ممانعت کا جو آرڈر جاری کیا ابھی ذوالحجہ کی آمد میں کئی دن باقی تھے کہ فخر کشمیر محترمہ آسیہ اندرابی بہن جی نے سر عام گائے ذبح کر کے اس کی ویڈیو جاری کر دی اور ساتھ ایسا ایمان افروز بیان بھی جاری کیا جس نے بھارتی ایوانوں میں ہل چل مچا دی۔ آپ بھی ان کا وہ بیان پڑھیے انہوں نے کہا:
’’ آج ہندوستان کی ایک کورٹ سے آرڈر آیا ہے کہ انہوں نے ’’گائے کشی‘‘ یعنی گائے کے ذبح پر پابندی لگا دی ہے۔اور جو اس کا گوشت بیچنے والے ہیں ان پر بھی مقدمہ دائر کرنے کا کہا گیا ہے۔ تو ہم اس وقت یہ کہہ رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتے ہیں:
ومن یکفر بالطاغوت ویومن باللہ فقد استمسک بالعروۃ الوثقیٰ ( الآیۃ)
ترجمہ:جس نے طاغوت کا انکار کیا اور اللہ پر ایمان لایا پس اسی نے ایک مضبوط سہارا تھام لیا۔
پس ہم اللہ کے قانون کو لے کر گائے کو ذبح کر رہے ہیں اور ہندوستان کے قانون کی نفی کر رہے ہیں۔ اس عدالتی فیصلے کا ہم انکار کر رہے ہیں اور عملاً اس کا انکار ایسے کیا ہے کہ ہم نے گائے کو ذبح کر دیا۔‘‘
کشمیر کی یہ قابل فخر بہن جن کی پوری زندگی عظیم قربانیوں سے بھری ہوئی ہے حقیقی معنوں میں اسم بامسمیٰ ہیں۔ وہ اس زمانے کی ’’آسیہ‘‘ ہیں جو ہر طاغوت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنا جانتی ہیں ۔ جو ہر فرعون کو کلمہ ’’لا الہ الا اللہ‘‘ سنانے اور اس کی باطل خدائی کو ٹھکرانے کا حوصلہ رکھتی ہیں۔ جو حضرت آسیہ رضی اللہ عنہا کی طرح جنت کی طلبگار ہیں اور اس کی خاطر دنیا میں اپنے گھر لٹانے کی ہمت رکھتی ہیں۔ سلام ہو آسیہ بہن جی اور ان کے ہمراہ کشمیر کی ہر اہل عزیمت ، اہل ہمت ،اہل قربانی ماں بہن کو ۔ حقیقت میں جن کا طرز عمل مردوں کو شرماتا ہے اور مردہ عزائم میں روح پھونکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان بہنوں کی حفاظت فرمائے۔ آمین
٭…٭…٭
قربانی کا موسم ِبہار بالکل قریب آ پہنچا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو دل کی خوشی اور محبت کے ساتھ اعلیٰ درجے کی قربانی پیش کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے۔ آمین
مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس موقع پر قربانی کے کچھ فضائل اور نبی کریم ﷺ کے عمل قربانی کا کچھ مذاکرہ ہو جائے:
٭ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس شخص میں قربانی کرنے کی وسعت ہو پھر بھی قربانی نہ کرے تو (ایسا شخص) ہماری عیدگاہ میں حاضر نہ ہو۔ (مسند احمد)
٭ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس شخص نے نماز عید سے قبل قربانی کرلی تو اسے اس کی جگہ دوسری قربانی کرنی ہوگی۔ قربانی نماز عید الاضحی کے بعد بسم اللہ پڑھ کر کرنی چاہئے۔ (بخاری)
٭ نبی ا کرم ﷺ نے عرفات کے میدان میں کھڑے ہوکر فرمایا : اے لوگو! ہر سال ہر (استطاعت) والے گھر پر قربانی کرنا ضروری ہے۔ (مسند احمد )
٭حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے دس سال مدینہ منورہ میں قیام فرمایا اور اس عرصۂ قیام میں آپ مسلسل قربانی فرماتے تھے۔ (ترمذی )
٭اُم المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ذی الحجہ کی دس تاریخ کو کوئی نیک عمل اللہ تعالیٰ کے نزدیک قربانی کا خون بہانے سے بڑھ کر محبوب اور پسندیدہ نہیں اور قیامت کے دن قربانی کرنے والا اپنے جانور کے بالوں ، سینگوں اور کھروں کو لے کر آئے گا۔ (اور یہ چیزیں اجروثواب کا سبب بنیں گی)۔ نیز فرمایا کہ قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے نزدیک شرف ِ قبولیت حاصل کرلیتا ہے ، لہٰذا تم خوش دلی کے ساتھ قربانی کیا کرو۔ ( ترمذی ،ابن ماجہ)
٭حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ صحابہ کرام نے رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا کہ یہ قربانی کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: تمہارے جد امجد حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے۔ صحابہ کرام نے رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا کہ ہمارے لئے اس میں کیا اجروثواب ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ہر بال کے بدلے میں نیکی ملے گی۔ (ابن ماجہ، ترمذی، مسند احمد)
٭حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے عید الاضحی کے دن سینگوں والے ،دھبے دار خصی دو مینڈھے ذبح کئے۔ (ابوداؤد)
٭حضرت عائشہرضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ :ابن آدم (انسان) نے قربانی کے دن کوئی ایسا عمل نہیں کیا جو اللہ کے نزدیک خون بہانے (یعنی قربانی کرنے) سے زیادہ پسندیدہ ہو، اور قیامت کے دن وہ ذبح کیا ہوا جانور اپنے سینگوں، بالوں اور کھروں کے ساتھ آئے گا، اورقربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے ہاں قبول ہوجاتا ہے، لہذا تم اس کی وجہ سے اپنے دل کی خوشی سے قربانی کرو۔ (مشکوٰۃ المصابیح)
٭حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہماسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے عید الاضحیٰ کے دن ارشاد فرمایا: آج کے دن کسی آدمی نے خون بہانے سے زیادہ افضل عمل نہیں کیا، ہاں، اگر کسی رشتہ دار کے ساتھ حسن سلوک اس سے بڑھ کر ہو تو ہو۔ (الترغیب والترہیب)
٭حضرت علی ﷺسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے (حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاسے) فرمایا: اے فاطمہ! اٹھو اور اپنی قربانی کے پاس (ذبح کے وقت )موجود رہو، اس لئے کہ اس کے خون کا پہلا قطرہ گرنے کے ساتھ ہی تمہارے تمام گناہ معاف ہوجائیں گے، یہ قربانی کا جانور قیامت کے دن اپنے گوشت اور خون کے ساتھ لایا جائے گا اور تمہارے ترازو میں ستر گنا(زیادہ) کرکے رکھا جائے گا، حضرت ابوسعیدرضی اللہ عنہنے عرض کیا :اللہ کے رسولﷺ! یہ فضیلت خاندان نبوت کے ساتھ خاص ہے جو کسی بھی خیر کے ساتھ مخصوص ہونے کے حقدار ہیں یا تمام مسلمانوں کے لئے ہے؟ فرمایا: یہ فضیلت آلِ محمد کے لئے خصوصاً اور عموماً تمام مسلمانوں کے لئے بھی ہے۔ (الترغیب والترہیب)
٭…٭…٭
قربانی
السلام علیکم..طلحہ السیف (شمارہ 511)
آگ ہے، اولادِ ابراہیم ہے ، نمرود ہے
کیا کسی کو پھر کسی کا امتحاں مقصود ہے
ملت ابراہیمی کے پیروکاروں کے لئے سال کے افضل ترین ایام ’’عشرہ ذی الحجہ‘‘ کمائی اور قربانی کا موسم ہیں…
ان ایام میں کیے جانے والے اعمال محبوب ترین اور یہ راتیں مقبول ترین ہیں۔ اور ان اعمال میں سب سے محبوب ترین عمل ’’قربانی‘‘ ہے۔ عاشقانہ عبادت ’’حج‘‘ کی ادائیگی بھی انہی مخصوص ایام میں ہوتی ہے۔
گویا یہ ایام قربانی ہی قربانی ہیں۔
اعمال میں محنت اور سبقت یعنی خواہشات کی قربانی…
راتوں کی عبادت یعنی آرام کی قربانی…
’’ اُضحیہ‘‘ اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے اپنے مال سے خریدے گئے جانور کی قربانی…
’’حج ‘‘ کے لئے سفر…گھر بار کی قربانی…
پھر’’ حج‘‘ میں قربانی ہی قربانی…
اچھے لباس کی قربانی…خوشبو کی قربانی… نزاکت کی قربانی، عیش و عشرت کی قربانی…
پس جو انسان ان ایام میں ’’قربانی‘‘ کے عمل کو جس قدر اپناتا چلا جائے گا اسی قدر’’قرب‘‘ پاتا چلا جائے گا۔اسی قدر کامیابی کے قریب آتا چلا جائے گا…
دیکھئے!
ہمیں یہ ’’تقرب‘‘ کا موسم کن کی اتباع میں ملا؟…
سیدنا ابراہیم خلیل اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام…
ان سے کیا کیا قربانی مانگی گئی؟…
باپ کے تعلق کی قربانی…بخوشی پیش کر دی…
علاقے اور قوم کے تعلق کی قربانی… وہ سب چھوڑ چھاڑ کر چل دئیے…
بڑھاپے کی اولاد اور بیوی سے بُعد کی قربانی… انہوں نے اللہ تعالیٰ کی خاطر شیر خوار بچے اور بے سہارا اکیلی عورت کو لق و دق صحراء میں چھوڑا اور پیچھے مڑ کر بھی نہ دیکھا…
اپنی جان کی قربانی… وہ دیوانہ وار بے خطر آتش نمرود میں کود پڑے…
اولاد کی جان کی قربانی…انہوں نے بڑھاپے کے سہارے کی گردن پر چھری چلا دی…
وہ جب یہ ساری قربانیاں پیش کر چکے تو انہیں ’’قرب‘‘ کا ایک خاص انعام ملا…
وہ اللہ تعالیٰ کے ’’خلیل‘‘ یعنی خالص دوست کہلائے…وہ ہزاروں انبیاء کرام کے مقتدیٰ و پیشوا بنے اور سب سے افضل امت کو ان کی نسبت سے ’’ملت ابراہیم ‘‘ کا اعزاز بخشا گیا۔ انہوں نے اپنی ہر متاع اپنے محبوب حقیقی اپنے رب کے لئے قربان کر دی۔ بدلے میں ہر بلندی اور رفعت کا ہر مقام انہیں نصیب ہوا۔ یہ کم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ پر درود پڑھنے کا حکم فرمایا اور نبی کریم ﷺ نے اپنی امت کو جو درود شریف سکھایا اس میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا نام مبارک اپنے نام کے ساتھ لینے کا حکم فرمایا۔
اللہم صل علی محمد وعلیٰ آل محمد کما صلیت علیٰ ابراہیم وعلیٰ آل ابراہیم انک حمید مجید…
اللہم بارک علیٰ محمد وعلیٰ آل محمد کما بارکت علیٰ ابراہیم وعلیٰ آل ابراہیم انک حمید مجید…
اور یہ درود پاک مشہور ہی درود ابراہیمی کے نام سے ہو گیا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام پر ایمان لانے والے بہت کم تھے۔ بعد میں بھی ان کی امت باقی نہ رہی۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے ہاں ’’قربانی‘‘ وہ عمل ہے جس کا بدلہ بہت بڑا اور بہت اونچا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سب سے بڑی، سب سے آخری اور سب سے ’’خیر‘‘ امت کو ان کے لئے درود و سلام پر لگا دیا تاکہ ان کا نام قیامت تک لیا جاتا رہے، اور انہی کے صدقے ’’قربانی‘‘ کے عمل کو یہ خاصیت عطاء فرمائی کہ جو بھی اس عمل کو اپنائے گا رفعت و بلندی پائے گا اور اسکا نام باقی رہے گا۔
حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین انبیاء کرام علیہم السلام کے بعد سب سے افضل قرار دیے گئے۔ انہیں معیار حق بنا دیا گیا۔ان کی محبت ایمان کی علامت اور ان کا بغض نفاق کا شعار ٹھہرا۔ جو ان سے محبت کرے گا خوش نصیب ہو گا، جو ان کے راستے پر چلے گا یقینی کامیابی پائے گا، جو ان پر زبان چلائے گا نفاق کا شکار ہو گا، جو ان کا بغض دل میں رکھے گا ایمان سے محروم ہو گا۔ لیکن یہ مقامات دے کر ان سے جو قربانیاں لی گئیں ہم اور آپ ان کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ معلوم ہوا کہ اللہ رب العزت جس قوم کو محبوب رکھتے ہیں ان سے قربانی لیتے ہیں۔جو لوگ آج بھی صحابہ کرام کی طرح دین کی خاطر قربانیاں دے رہے ہیں،گھر بار چھوڑ رہے ہیں، جانیں اور اموال قربان کر رہے ہیں ، اپنے جسموں کے ٹکڑے پیش کر رہے ہیں، ہنستے مسکراتے چہروں کے ساتھ اپنے جوان بیٹوں کی لاشیں اٹھا رہے ہیں، جن کے جسموں کو چھیدا جا رہا ہے اور ان پر آسمان سے آگ برسائی جا رہی ہے یہ سب اللہ تعالیٰ کے محبوب بندے ہیں اس لئے قربانی جیسے ابراہیمی عمل کے لئے منتخب کئے گئے ہیں، امن و سلامتی میں رہنے والے ان پر زبانیں تو چلا سکتے ہیں، ان کے بارے میں شکوک و شبہات تو پھیلا سکتے ہیں لیکن ان کے مقام کی گرد کو بھی نہیں پہنچ سکتے۔ وہ بہت اونچے لوگ ہیں بڑے اونچے مقامات پر فائز ہیں۔ یہ اہل عزیمت ہیں جنہوں نے آرام طلبی اور عیش کوشی کا راستہ ٹھکراکر یہ بلندی والا راستہ چنا ہے۔ یہ ان پر حالات کا جبر نہیں ان کا اپنا انتخاب ہے۔ آپ بتائیے! کہ کشمیر کے تعلیم یافتہ نوجوان کے لئے دنیا طلبی کا کون سا راستہ بند ہے؟
ہندوستان مراعات دینے پر آمادہ ہے…
یورپی ممالک کے ویزے فراوانی سے دستیاب ہیں…
اپنی تعلیمی قابلیت اور خداداد ذہانت کی بنیاد پر یہ قوم ہر میدان میں سبقت حاصل کر سکتی ہے…
لیکن نہیں…
انہوں نے اپنے لئے خود ابراہیمی راستہ چن لیا ہے…
انہوںنے غلامی کو مسترد کر دیا ہے…
ہر باطل نظام کو ’’لا‘‘ کہہ دیا ہے…
اسلام اور مکمل آزادی کے علاوہ ہر نظام کو ٹھکرا دیا ہے اور اس کی خاطر آنے والی ہر تکلیف کو ابراہیمی شان کے ساتھ بخوشی قبول کر لیا ہے…
اب دیکھ لیجئے گا۔ یہ وقت گذر جائے گا۔ آج کا دن کل کے لئے تاریخ بن جائے گا اور تاریخ اپنے سینے میں صرف چند قربانی دینے والوں کو یاد رکھ کر باقی سب کچھ مٹا دیتی ہے۔ تاریخ اس زمانے کے ان سارے کرداروں کو یا تو فراموش کر دے گی یا اگر یاد رکھا تو برے الفاظ سے یاد کرے گی جنہوں نے وقتی سلامتی کو عزیمت و قربانی پر ترجیح دے دی،تاویل و تلبیس کا طریقہ اپنایا، ہر آنے والی تبدیلی اور وقت کے ہر جبر کے آگے سرنگوں ہونے کی پالیسی کو ذہانت اور مصلحت قرار دے کر اپنایا۔ تاریخ اگر نہ بھلا سکی تو ملا عمر کو نہ بھلاپائے گی۔اسامہ بن لادن کو فراموش نہ کر سکے گی۔ ان اہل عزیمت کو یاد رکھنے پر مجبور ہو گی جنہوں نے ہر جبر کو جوتے کی نوک پر رکھا اور اپنی قدامت کو ہی اپنا مایۂ افتخار بنائے رکھا۔ یہ ہوا ہر زمانے میں چلتی ہے ، اس کے زیر اثر اہل مصلحت معزز ہو جاتے ہیں اور اہل عزیمت بدنام۔ لیکن تاریخ گواہ ہے وقت نے اپنا فیصلہ ہمیشہ اہل عزیمت کے حق میں سنایا اگرچہ ان کی قربانی بہت لگی۔ یہ وقت بھی گذر جائے گا اور تاریخ اپنا وہی فیصلہ سنانے پر مجبور ہو گی جو اس کے لئے ہمیشہ ہمیشہ سے لکھ دیا گیا ہے۔
بات قربانی کی چل رہی تھی اس کے ایک خاص پہلو کی نذر ہو گئی۔عشرہ ذی الحجہ قربانی کا موسم ہے اور اس میں ہم سے ہمارے خالق و مالک اللہ عزوجل نے کچھ مال خرچ کر کے جانور ذبح کرنے کی قربانی مانگی ہے۔کامیابی اسی میں ہے کہ بخوشی یہ قربانی مالک کے حضور پیش کر دی جائے۔
نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرام کا عمل واجب قربانی کے ساتھ نفل قربانی پیش کرنے کا تھا۔ یعنی جتنی قربانی مانگی گئی ہے اس سے بڑھ کر پیش کی جاتی تھی۔ ہمارے لئے بھی اسوہ حسنہ یہی ہے۔ تو اپنی واجب قربانی اہتمام سے اداء کر کے اللہ تعالیٰ کو راضی کریں اور نفل قربانی ان لوگوں کے نام کر دیں جو زمانے کے نمرودوں کے مقابل ابراہیمی کردار کو زندہ کر رہے ہیں، یوں قربانیوں کا موسم ہمارے لئے مزید خاص بن جائے گا۔ ان شاء اللہ تعالیٰ…
اپنی واجب قربانی گھر پر ادا کریں اور اللہ تعالیٰ کی توفیق سے جس قدر نفل قربانیوں کی استطاعت ہو وہ ’’الرحمت‘‘ کے حوالے کر دیں، یہ بڑی اونچی جگہوں پر پہنچائی جائے گی، یہ اللہ تعالیٰ کے راستے کے غازیوں کی ضیافت ہو گی اور شہداء کے اہل خانہ کو بھیجی جائے گی…
٭…٭…٭
جذبۂ حریت
السلام علیکم..طلحہ السیف (شمارہ 509)
کشمیر زندہ ہے، کشمیر سربلند ہے…
تحریک آزادیٔ کشمیر کے ختم ہو جانے اور کشمیری قوم کا جذبہ ماند پڑ جانے کی باتیں کرنے والے آج کھسیانی بلی کی طرح کھمبا نوچ رہے ہیں… بھارت اور پاکستان کے وہ تجزیہ نگار جو گذشتہ دس سالوں سے تواتر کے ساتھ یہ بات کر رہے تھے کہ بھارتی حکومت کی پالیسیوں، کشمیری عوام کو دی جانے والی تعلیمی اور اقتصادی مراعات، تحریک آزادی کی خارجی سپورٹ کے کمزور ہونے اور پاکستان میں موجود جہادی تنظیموں پر قدغن کے سبب ’’جہاد کشمیر‘‘ اب قصہ پارینہ بن چکا اور تحریک جہاد دم توڑ چکی۔ انہیں یہ سب اب ایک ایسے خواب کی طرح دکھائی دے رہا ہے جو شرمندۂ تعبیر نہ ہو سکا۔ کشمیر گولیوں کی تڑتڑاہٹ ، اللہ اکبر کے نعروں اور آزادی کے ولولوں سے گونج رہا ہے۔ آج کا کشمیری نوجوان جسے اعلیٰ تعلیم، روزگار اور روشن مستقبل کا جھانسہ دے کر کوشش کی گئی کہ وہ جذبۂ حریت سے عاری ہو جائے اور ہندوستان کی غلامی کو کھلے دل سے قبول کر کے اپنے قومی موقف سے انحراف کر لے، وہ نوجوان ہندوستان کے تعلیمی اداروں سے ڈگری کی بجائے ’’گن‘‘ ساتھ لے آیا اور ایک نئے جذبے کے ساتھ قافلۂ حریت میں شامل ہو چکا ہے۔کشمیر کا جنوبی علاقہ تحریک جہاد کا نیا مرکزبن رہا ہے اور پلوامہ و ترال کے جنگلات ایک بار پھر مجاہدین کے قدم چوم رہے ہیں۔ ’’القلم‘‘ کے انہی صفحات پر بارہا لکھا گیا کہ شہید مظلوم ’’محمد افضل گورو‘‘ کی روشن فکر جو ’’آئینہ‘‘ کی شکل میں منظر عام پر آئی اور کشمیری نوجوان کے ہاتھوں میں پہنچی ایک انقلاب عظیم برپا کرے گی اور بھولے بھٹکے کشمیری نوجوان کو دوبارہ میدانوں کی طرف کھینچ لائے گی۔ یہ بات اس وقت پڑھنے والوں کو دیوانے کی بڑ لگی ہو شائد کیونکہ ہندوستانی حکومت نے مسئلہ کشمیر کو ایک چیلنج کی طرح لے کر اس عرصے میں ہر وہ طریقہ بروئے کار لایا جو جہاد کشمیر کو ختم کر سکے۔ فوج کو ہر طرح کے اختیارات ،پولیس اور خفیہ اداروں کو کھلی جھوٹ، جلوسوں پر اندھادھند فائرنگ۔ اور ان سب سے بڑھ کر طمع کا ہر حیلہ جو کشمیری نوجوان کو اس راستے سے ہٹا دے۔ کشمیر کے لئے اربوں کھربوں کے خصوصی بجٹ کی منظوری،سہولیات کے وعدے اور مراعات کے رنگارنگ پیکج۔ لیکن نتیجہ کیا نکلا؟ آج نہ صرف ہندوستان بلکہ دنیا بھر کا میڈیا چلا چلا کر کہہ رہا ہے کہ جہاد کشمیر ختم نہیں ہوا بلکہ اس کا دوسرا اور پہلے سے زیادہ خونی اور جذبات سے لبریز راؤنڈ شروع ہو رہا ہے۔ جنوبی کشمیر کا ہر وہ علاقہ جو شہباز جرنیل غازی بابا شہید کا خاص مسکن اور افضل گورو شہید کی فکری تگ و تاز کا مرکز رہا آج اس تحریک کا نیا علمبردار ہے۔ یہاں سے سید آفاق شاہ جیسے فدائی اور شوکت درانی جیسے مدبر قائد منظر عام پر آ رہے ہیں۔ آئیے معروف عالمی نشریاتی ادارے بی بی سی کی دو تازہ رپورٹوں کے بین السطور تحریک آزادی کشمیر اور جہاد کشمیر کی نشاۃ ثانیہ کا منظر عامہ ملاحظہ فرمائیے:
ایک ایسے وقت جب بھارت اور پاکستان کئی سطحوں پر مذاکراتی کوششوں میں مصروف ہیں، بھارت کے زیرانتظام کشمیر میں مسلح مزاحمت میں شدت آگئی ہے۔لیکن ایسا لگتا ہے کہ مسلح مزاحمت کی اس نئی لہر کا مرکز جنوبی کشمیر کے دو اضلاع شوپیاں اور پلوامہ ہیں۔
منگل کو ہونے والا طویل تصادم بھی پلوامہ کے ہی راتانی پورہ گاؤں میں ہوا۔ اس تصادم میں گلزار بٹ اور شوکت لون نامی دو مقامی مسلح مزاحمت کار ہلاک(شہید) ہوئے۔ گلزار بٹ کے بارے میں پولیس نے بتایا کہ وہ مسجدوں میں جمعے کے روز خطاب کرتے تھے اور ’گلزار مولوی‘ کے نام سے مشہور تھے۔ جبکہ ان کے ساتھی شوکت نے آٹھ ماہ پہلے بندوق اُٹھائی تھی۔
تازہ جھڑپ کے بارے میں پولیس نے بتایا کہ پیر کی رات ہی انہیں مسلح شدت پسندوں(کشمیری مجاہدین) کے بارے میں خفیہ اطلاع ملی تھی اور فوراً راتانی پورہ علاقے کا محاصرہ کیا گیا، لیکن وہاں پہنچتے ہی شدت پسندوں نے فوج، پولیس اور نیم فوجی اہلکاروں کے مشترکہ دستے پر فائرنگ کی اور فائرنگ کا تبادلہ رات بھر جاری رہا۔
طویل تصادم کے بعد منگل کی دوپہر کو فوج اور پولیس نے دعویٰ کیا کہ دو مقامی شدت پسند گلزار بٹ اور شوکت لون مارے گئے۔ تصادم کے دوران لوگوں نے اینکاؤنٹر کی جگہ مظاہرے کیے لیکن پولیس نے ان کو منتشر کیا۔ پولیس کارروائی میں ایک شہری زخمی ہوا اور اس آپریشن میں پولیس کی ٹاسک فورس کا ایک جوان بھی زخمی ہوا۔
واضح رہے کہ کشمیر کے جنوبی اضلاع میں مسلح شدت پسندوں اور بھارتی فورسز کے مابین تصادم میں اضافہ ہو رہا ہے۔ پولیس کے مطابق جولائی سے اب تک یہاں سات ایسی جھڑپیں ہوئی ہیں جن میں پولیس، نیم فوجی سی آر پی ایف اور فوج نے مشترکہ آپریشن کیے۔ ان آپریشنوں میں سات مقامی شدت پسند مارے گئے لیکن کئی بار ایسا بھی ہوا کہ طویل محاصروں کے بعد مسلح مزاحمت کار فرار ہوگئے۔
غور طلب بات یہ ہے کہ جنوبی کشمیر میں جب بھی مقامی شدت پسند کسی تصادم میں مارے جاتے ہیں تو مقامی افراد مظاہرے کرتے ہیں اور بڑی تعداد میں مارے جانے والے شدت پسندوں کے جنازے میں شریک ہوتے ہیں۔پولیس کے ایک افسر نے بی بی سی کو بتایا کہ جنوبی کشمیر میں اس وقت کل ساٹھ شدت پسند سرگرم ہیں جن میں سے تیس نے اسی سال مسلح مزاحمت کا راستہ اپنایا ہے۔جنوبی کشمیر کے پلوامہ اور شوپیان ضلعوں میں اس طرح کے واقعات اب معمول بن گئے ہیں۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ سنہ 2008 میں عوامی مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوا جو 2010 تک جاری رہا۔ غیر مسلح مظاہرین پر پولیس اور نیم فوجی اہلکاروں کی فائرنگ کے واقعات میں ڈیڑھ سو سے زائد کم سن لڑکے مارے گئے۔ ہلاکتوں کے اس سلسلے پر کئی حلقوں نے تشویشن ظاہر کی تھی کہ حالات کو پرتشدد بنا سکتی ہے۔
اس دوران ہزاروں نوجوانوں کو گرفتار کیا گیا اور پولیس کے تعاقب اور ٹارچر سینٹرز میں رہنے کے بعد کئی نوجوانوں نے جنگلوں میں روپوش ہوکر مسلح مزاحمت شروع کردی۔ اس کی ایک مثال جنوبی کشمیر کے ترال قصبے میں رہنے والے برہان ہیں، جن کے والدین کا کہنا ہے کہ انہیں سنہ 2010 میں پولیس نے اذیت کا نشانہ بنایا۔ برہان کی قیادت میں آٹھ کم سن نوجوانوں کی ایک ویڈیو فیس بک پر وائرل ہوگئی جس میں سبھی مسلح نوجوان فوجی وردی میں ملبوس جدید ترین موبائل فونز کے ساتھ مصروف نظر آ رہے تھے۔
پولیس کا کہنا تھا کہ یہ کم سن لڑکے جنوبی کشمیر میں مسلح مزاحمت کو گلیمرائز کر رہے ہیں۔ لیکن انسانی حقوق کے لیے سرگرم اداروں کا کہنا ہے نوجوانوں کو پولیس اور خفیہ ایجنسیاں ہراساں کر رہی ہیں اس لیے وہ اعلیٰ تعلیمی قابلیت کے باوجود مسلح مزاحمت کو آخری راستہ سمجھ رہے ہیں۔
نو فروری دو ہزار تیرہ کو کشمیر کے سابق مزاحمت کار افضل گورو کو اہل خانہ سے ملاقات کے بغیر خفیہ طور پر دلّی کی تہاڑ جیل میں پھانسی دے دی گئی اور وہیں دفنایا گیا۔ اس کے بعد کشمیر میں دوبارہ مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوا جس میں کئی نوجوان مارے گئے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ پھانسی کے اس واقعے نے بھی کشمیر کی نئی نسل میں امن یا امن کی کوششوں کو حد درجہ غیر مقبول کردیا ہے۔
بھارت کی مغربی ریاست مہاراشٹرا کی ناگپور یونیورسٹی سے فزیکل ایجوکیشن کی ڈگری لینے کے بعد 24 سالہ طالب علم طالب حسین شاہ واپس کشمیر لوٹے تو یہاں فرضی جھڑپوں کی ہمہ گیر احتجاجی تحریک عروج پر تھی۔
یہ سنہ 2010 کا موسم گرما تھا اور کم سن لڑکوں کی چھاتیاں گولیوں سے چھلنی دیکھ کر بعض مظاہروں میں طالب حسین نے بھی شرکت کی لیکن فوراً ہی انھیں مزید تعلیم کا شوق ہوا۔چنانچہ انھوں نے اندرا گاندھی اوپن یونیورسٹی کے شعبہ تاریخ میں داخلہ لیا۔ ایم اے کی ڈگری کے بعد انھوں نے فیزیکل ایجوکیش میں اعلیٰ ڈگری حاصل کرنے کے لیے کشمیر یونیورسٹی میں درخواست دی لیکن پولیس ان پر کڑی نگاہ رکھے ہوئے تھی۔ان کے بڑے بھائی فردوس شاہ کہتے ہیں کہ پولیس کا یہی تعاقب طالب حسین کی طبیعت میں تبدیلی کا باعث بنا۔ ’پھر وہ زیادہ تر اسلام کے انقلابی لٹریچر کا مطالعہ کرنے لگے۔ ظاہر ہے ان تحریروں کا انھوں نے گہرا اثر لیا، اور اسی دوران ان کے خلاف پولیس نے دو درجن مقدمے درج کیے۔فردوس کہتے ہیں کہ مارچ سنہ 2014 میں ایک دن ایسا آیا کہ طالب کو یونیورسٹی میں داخلے کے امتحان کے لیے جانا تھا اور اسی روز انھیں عدالت میں بھی پیش ہونا تھا۔ ’وہ بہت تناؤ میں تھے، اور اچانک روپوش ہوگئے۔ نہ عدالت گئے اور نہ کمرۂ امتحان، انھوں نے جنگل کا راستہ لیا اور بندوق تھام لی۔
واضح رہے طالب شاہ اْن چار نوجوانوں میں شامل ہیں جو رتانی پورہ گاؤں میں ہونے والے الگ الگ تصادموں کے دوران مارے گئے۔ ضلعے میں نوجوانوں نے مارے جانے والے مسلح کمانڈروں کے حق میں مظاہرے کیے اور دس روز تک ہڑتال کی گئی۔
یہ اب ایک معمول بن چکا ہے۔ مارے جانے والے مسلح مزاحمت کاروں کے جنازوں میں ہزاروں لوگ شرکت کرتے ہیں، بچے نعرے بازی کرتے ہیں اور خواتین نوحہ خواں نظر آتی ہیں۔ فردوس کہتے ہیں کہ طالب جیسے نوجوانوں کو اب ’ڈگری سے بندوق بہتر لگتی ہے۔‘
طالب جیسے درجنوں نوجوان ہیں جو اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود مسلح گروپوں میں شامل ہوچکے ہیں
فوجی کمانڈر لیفٹنٹ جنرل سوبرت ساہا کے مطابق نوجوانوں کا مسلح مزاحمت کی طرف مائل ہونا واقعی تشویشناک ہے، لیکن ان کا کہنا ہے کہ مزاحمت کی اس لہر کے خلاف کامیاب آپریشن ہورہے ہیں۔پولیس ریکارڈ کے مطابق کشمیر میں فی الوقت 142مسلح مزاحمت کار سرگرم ہیں جن میں سے 54 غیر کشمیری ہیں اور 88 مقامی ہیں جبکہ 30 سے زائد نوجوان رواں برس کے سات ماہ میں مسلح گروپوں میں شامل ہوئے ہیں۔ان میں سے بیشتر نے ایک سے زیادہ شعب? علم میں اعلیٰ ڈگریاں حاصل کر رکھی ہیں اور پولیس کا کہنا ہے کہ جنوبی کشمیر کے اضلاع پلوامہ اور شوپیاں کے جنگلات میں یہ نوجوان منظم ہورہے ہیں۔
جنوبی کشمیر کے ہی ترال قصبے کے رہنے والے 21 سالہ برہان مظفر وانی اس نئی تحریک کے اعلیٰ کمانڈر کے طور معروف ہیں۔ہتھیاروں سے لیس ہوکر وہ تصویروں میں نظر آتے ہیں اور سوشل میڈیا پر مقبول ہورہے ہیں۔ انھوں نے اپنے تازہ ویڈیو پیغام میں نوجوانوں سے ’جہاد‘ کرنے کی اپیل کی ہے۔پولیس کا کہنا ہے کہ اس ویڈیو پیغام کے بعد شمال میں سات نوجوان روپوش ہوکر مسلح مزاحمت کاروں کی صفوں میں شامل ہوچکے ہیں۔
برہان اور ان کے بھائی خالد کو سنہ 2010 میں پولیس نے ہراساں کیا، انھیں حراست میں اذیتیں دی گئیں جس کے بعد بْرہان روپوش ہوگئے۔
قابل ذکر ہے کہ کشمیر میں اب پستول بردار اچانک پولیس یا نیم فوجی اہلکاروں کو نزدیک سے گولی مار کر ہلاک کرتے ہیں اور ان کا اسلحہ چھین کر فرار ہوجاتے ہیں۔
اسلحہ چھیننے کے ان واقعات سے متعلق کشمیر میں تعینات فوجی کمانڈر لیفٹنٹ جنرل سوبرت ساہا کا کہنا ہے: ’’لائن آف کنٹرول پر نگرانی سخت ہے، اور ہتھیاروں کی سمگلنگ اب ممکن نہیں۔ اسی لیے یہ لوگ اب ہتھیار چھیننے کی حکمت عملی اپنا رہے ہیں۔‘‘
بی بی سی کی ان دونوں رپورٹوں سے واضح ہے کہ کشمیر کے شیر انگڑائی لے رہے ہیں۔ضرورت اس بات کی ہے کہ اہل پاکستان بھی جاگیں اور پہلے کی طرح کشمیری بھائیوں کے دوش بدوش صف آراء ہوں۔
٭…٭…٭
۷ ستمبر… یوم الفتح
السلام علیکم..طلحہ السیف (شمارہ 510)
اسلام کے نام پر وجود میں آنے والی دنیا کی واحد ریاست پاکستان ..ہمارا پیارا ملک پاکستان..ہمیں جان سے زیادہ عزیز پاکستان..ہم پر عہد ہے اس نسل کا جس نے پاکستان بنانے میں اپنا تن من دھن قربان کیا اور تاریخ عالَم کے جریدے پر عزیمت کی انمٹ مثال ثبت کی..ہمارے بازو شل ہو جائیں اگر ہم لمحہ بھر بھی اس ملک کی نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کے دفاع سے غافل ہوں..ہمارا ملک بنتے ہی دو سانپوں نے قسم کھائی کہ وہ اس ملک کو قائم نہیں رہنے دینگے
(1)ہندوستان
(2)قادیانی
روزاول سے وہ اپنی قسم پوری کرنے کی ہرکوشش بروئے کار لا رہے ہیں اور ہم حالت دفاع میں ہیں.
6ستمبر کو ہم نے ایک دشمن کے دانت میدان جنگ میں کھٹے کیے اور 7ستمبر کو دوسرے کے دانت قومی اتفاق رائے سے توڑدئیے ..
اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کو دونوں میدانوں میں سرخرو کیا اور دشمن خائب وخاسر ہوئے..
ہم نے کل 65 کے شہیدوں کی یاد میں یوم الفتح منایا آج 53 کے شہداء اور 74 کے غازیوں کے ساتھ منا رہے ہیں..مگر یاد رکھئے فتح کی خوشی ضرور روا ہے شکست خوردہ دشمن سے غفلت نہیں..دونوں دشمن تاک میں ہیں اور دن رات انتقام کی محنت میں مشغول .سو تجدید عہد کریں کہ ہم نہ اپنے ایمان کے دشمنوں کے مقابل غافل ہوں گے نہ زمین کے..
پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں ۷ ستمبر ایک عہد ساز دن ہے۔ ہم اسے یوم تحفظ ختم نبوت اور یومِ تجدید عہد قرار دیتے ہیں۔ اس روز عقیدہ ختم نبوت اور ناموس رسالت کے تحفظ کی سو سالہ طویل ترین جد وجہد ، فتح مبین سے ہمکنار ہوئی۔ ۷ستمبر۱۹۷۴ء کو پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے مشترکہ اجلاس میں متفقہ طور پر قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا۔
عقیدہ ختم نبوت، مسلمانوں کے ایمان کی اساس اور روح ہے۔ اگر اس پر حرف آجائے تو اسلام کی ساری عمارت دھڑام سے نیچے آگرے گی۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے سرِ اقدس پر تاجِ ختمِ نبوّت سجایا اور تختِ ختم نبوّت پر بٹھا کر دنیا میں مبعوث فرمایا۔ حضور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے بنی نوعِ انسان کو عقیدہ توحید کی عظیم نعمت عطا فرمائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے منصبِ ختم نبوّت پر ایمان، نجات و مغفرت اور حصولِ جنت کا ذریعہ ہے۔
حضور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ کے آخری زمانے میں بعض جھوٹے مدعیان نبوت نے سراٹھایا اور کفر وارتداد پھیلانے کی مذموم کوشش کی مگر نبی ختمی مرتبت سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت یافتہ جماعت صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے آپ ہی کے حکم پر ان فتنوں کے خلاف جہاد کر کے انہیں کچل کر رکھ دیا۔ اسود عنسی، طلیحہ اور مسیلمہ کذاب کو اْن کے انجام تک پہنچایا۔ امیر المومنین خلیفہ بلافصل ِرسول سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے مسیلمہ کذاب کے ارتداد کے خلاف جہاد کر کے قیامت تک تحریکِ تحفظ ختم نبوّت کا علم بلند کر دیا۔
ماضی کے مختلف ادوار میں کئی بد بخت افراد نے دعویٰ نبوت کرکے مسلمانوں میں افتراق پیدا کرنے اور انہیں گمراہ کرنے کی سعی مذموم کی۔ مگر ہر دور میں اہل ایمان اور حق کے طرف داروں نے ان کے خلاف بھرپور مزاحمت کی، منصب ختم نبوت کی حفاظت کی اور مسلمانوں کو گمراہی اور ارتداد سے بچایا۔
برصغیر میں فرنگی اقتدار کے خلاف ہندوستان کی تمام اقوام متحد ہوئیں اور سامراج کی غاصب وظالم حکومت کے خلاف ہر محاذ پر زبردست جدوجہد کی۔ خاص طور پر مسلمانوں نے انگریز کے خلاف بغاوت کو جہاد قرار دیا اور اسے توشۂ آخرت سمجھ کر اس محاذ پر سرگرم رہے۔ قربانی و ایثار سے معمور مسلمانوں کی جدوجہد تاریخِ آزادی میں منفرد و بے مثال ہے۔انگریز… دانا اور عیار دشمن تھا۔ یہ بات ہمیشہ اس کے پیش نظر رہی کہ ہم نے اقتدار مسلمانوں سے چھینا اور مسلمان ہی ہمارے سب سے بڑے دشمن ہیں۔ علمائِ حق نے نہ صرف انگریز کے خلاف جہاد کا فتویٰ دیا بلکہ اس فریضہ کی ادائیگی کے لیے مسلمانوں کی قیادت بھی کی۔
انگریز نے اسی جذبہ جہاد کو مسلمانوں کے دل ودماغ سے نکالنے کے لیے جعلی اور جھوٹا نبی پیدا کیا۔ ’’قادیان‘‘ کے ایک لالچی اور بدکردار شخص ’’مرزا غلام احمد‘‘ کو دعویٰ نبوت کے لیے آمادہ وتیار کیا اور آخر کار اس بدبخت نے نبوت کا دعویٰ کردیا۔ مرزا قادیانی نے پہلا کام یہ کیا کہ انگریز کے خلاف جہاد کو حرام قرار دیا اور انگریز کی اطاعت وفرمانبرداری کو ہی اصل ایمان قراردیا۔
یہ لمحہ مسلمانوں کے لیے بہت بڑی آزمائش تھا۔ تب علمائِ حق نے مسلمانوں کا حوصلہ بڑھایا اور اس فتنہ کی سرکوبی کے لیے میدانِ عمل میں آئے۔ فتنہ قادیانیت کو انگریز کی مکمل سرپرستی حاصل تھی اور آج بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس فتنے کو کچلنے کے لیے مسلمانوں کے نوے سال صرف ہوئے۔
۱۹۲۹ء سے پہلے فتنہ قادیانیت کے خلاف جتنی جدوجہد ہوئی وہ انفرادی نوعیت کی تھی۔ حضرت پیر سید مہر علی شاہ گولڑوی، حضرت مولانا محمد انور شاہ کشمیری، حضرت مولانا ثناء اللہ امرتسری اور سب سے پہلے علماء لدھیانہ نے علمی محاذ پر اپنی زبان و قلم سے فتنہ قادیانیت کے تار و پود بکھیر رکھ دیے۔ انہی علمائِ حق کی انفرادی محنت آگے چل کر اجتماعی جدوجہد میں تبدیل ہوئی۔ ۱۹۲۹ء میں حضرت امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے مجلس احرارِ اسلام کی بنیاد رکھی اور اس کے اغراض و مقاصد میں فتنہ قادیانیت کا تعاقب و احتساب کلیدی حیثیت کا حامل تھا۔ چنانچہ مجلس احرارِ اسلام نے قادیانیت کا عوامی اور سیاسی احتساب شروع کیا۔ ۱۹۳۰ء کی ’’کشمیر کمیٹی‘‘ قادیانیوں کی کمین گاہ تھی۔ مجلس احرار نے اس کشمیر کمیٹی کا بائیکاٹ کیا۔ علامہ محمد اقبال، جو قادیانی لابی کے دھوکے سے اس کمیٹی کے سیکرٹری بن گئے تھے۔ اکابرِ احرار خصوصاً امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری نے ملاقاتیں کر کے قادیانی عقائد و نظریات اور اُمّتِ مسلمہ کے خلاف ان کی سازشوں سے باخبر کیا۔ علامہ مرحوم نے نہ صرف اس کمیٹی سے استعفیٰ دیا بلکہ قادیانی عقائد کی تردید میں انگریزی میں چار مقالے تحریر کیے۔ اقبال مرحوم نے قادیانیوں کو ’’اسلام اور وطن کا غدار‘‘ قرار دیا۔ ۱۹۳۴ء میں مجلس احرار نے اس جدو جہد کو وسیع تر کرتے ہوئے شعبہ تبلیغ تحفظ ختمِ نبوت قائم کیا۔ اسی شعبہ کے تحت ’’قادیان‘‘ میں اپنا دفتر قائم کیا۔ قادیان… مرزائیت کا مرکز اور انگریز کی سرپرستی میں بظاہر اُن کی خود مختار ریاست تھی۔ احرار رہنمائوں اور کارکنوں نے مرزائیوں کے ریاستی جبر و تشدد اور اقتدار کی نخوت کو خاک میں ملا دیا۔ مقامی مسلمانوں کو معاشی و سیاسی اور دینی تحفظ فراہم کیا۔ ۱۹۳۴ء میں قادیان میں ’’احرار تبلیغ کانفرنس‘‘ منعقد کی اور ہندوستان بھر کے مسلمانوں کو مرزائیت کے خلاف ہم زبان اور ہم قدم کر کے ارتداد کی تبلیغ کا راستہ پوری قوت سے روک دیا۔
قیامِ پاکستان، مرزائیوں کے لیے سب سے بڑا سانحہ اور صدمہ تھا۔تقسیم ملک کے وقت بائونڈری کمیشن میں مسلم لیگ کے قادیانی نمائندہ سر ظفر اللہ خان آنجہانی نے بھرپور وار کیا اور پٹھانکوٹ، فیروز پور، گورداس پور، قادیان اور آدھے کشمیر کو پاکستان میں شامل نہ ہونے دیا۔
قیامِ پاکستان کے بعد اس وقت کے گورنر پنجاب سر فرانسس موڈی نے چنیوٹ سے متصل دریائے چناب کے کنارے ایک پوری بستی اپنے اس چہیتے اور پالتو بچے کے نام الاٹ کر دی۔ جو آج چناب نگر (ربوہ) کے نام سے معروف ہے۔ یہاں قادیانیوں نے اپنا ہیڈ کوارٹر اور بیس کیمپ بنایا اور پاکستان کے خلاف سازشیں شروع کر دیں۔ مرزا بشیر الدین نے پاکستان کے اقتدار پر قبضہ کا پروگرام بنایا اور بلوچستان کو ’’احمدی سٹیٹ‘‘ بنانے کی منظم منصوبہ بندی مکمل کر لی۔ سر ظفر اللہ (قادیانی) وزیرِ خارجہ تھا۔ اس نے نہ صرف داخلی محاذ پر قادیانیوں سے مکمل تعاون کیا بلکہ خارجی محاذ پر بھی مکمل سیاسی تحفظات فراہم کیے۔ یہ ۱۹۵۲ء بات ہے تب مجلس احرارِ اسلام نے گہرے غور و خوض کے بعد تحریکِ تحفظِ ختمِ نبوّت کا آغاز کیا۔ پاکستان کے تمام مکاتبِ فکر کے علما کو دعوت دی اور انہیں عقیدہ ختمِ نبوّت کے تحفظ کی عظیم الشان اساس پر متحد و منظم کر دیا۔ امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری کی قیادت و سیادت میں زور دار تحریک چلی مگر وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین کی لیگی حکومت نے گولی کے زور پر تحریک کو کچلنے کی کوشش کی۔ جنرل اعظم خان نے۶ مارچ۱۹۵۳ء کو جنرل ایوب خان کی ہدایت پرلاہور میں پہلا مارشل لاء لگا کر ہزاروں فدائین ختمِ نبوّت کے سینے گولیوں سے چھلنی کردیے۔ بظاہر تحریک کو تشدد کے ذریعے کچل دیا گیا مگر… مسلمانوں کے دلوں میں ہمیشہ کے لیے ایک جوش، ولولہ اور جذبہ بیدار کر گیا۔حضرت امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری، حضرت مولانا ابوالحسنات، حضرت مولانا احمد علی لاہوری، حضرت مولانا محمد علی جالندھری، مولانا لال حسین اختر، مولانا محمد حیات، مولانا غلام غوث ہزاروی، شیخ حسام الدین، ماسٹر تاج الدین انصاری، مولانا سید ابوذر بخاری اور دیگر علماء و قائدین نے تمام صعوبتوں کو برداشت کر کے تحفظِ ختمِ نبوّت کی جدوجہد جاری رکھا۔
۲۲ مئی ۱۹۷۴ء میں مرزائیوں نے پھر سر اٹھایا۔ ربوہ ریلوے سٹیشن پر نشتر میڈیکل کالج ملتان کے مسافر طلباء پر حملہ کر کے انہیں زدو کوب کیا۔ یہ حادثہ شعلہ جوالہ بن گیا۔ اور پورا ملک تحریک تحفظ ختمِ نبوّت کا میدان بن گیا۔ تحریک اتنی شدید اور طاقت ور تھی کہ اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے اس مسئلہ کو قومی اسمبلی میں حل کرنے کا فیصلہ کیا۔
اسمبلی سے باہر کل جماعتی مجلس عمل تحفظ ختمِ نبوّت، محدث العصر مولانا سید محمد یوسف بنوری رحمہ اللہ کی قیادت میں سرگرم عمل تھی۔ حضرت مولانا خواجہ خان محمد، قائد احرار جانشین امیر شریعت مولانا سید ابوذر بخاری، نواب زادہ نصر اللہ خان، آغا شورش کاشمیری، حافظ عبدالقادر روپڑی، میاں طفیل محمد، غلام احسان الٰہی ظہیر، مولانا سید عطاء المحسن بخاری، مولانا سید عطاء المومن بخاری، مولانا سید عطاء المہیمن بخاری اور تحریک کے دیگر مرکزی رہنمائوں نے قدم بہ قدم شب و روز ایک کر کے تحریک کو بامِ عروج پر پہنچایا۔ ادھر اسمبلی کے اندر مولانا غلام غوث ہزاروی، مولانا مفتی محمود، مولانا عبدالحق، مولانا شاہ احمد نورانی، پروفیسر عبدالغفور احمد اور ان کے رفقاء نے آئینی جنگ کر کے تحریک کا مقدمہ جیت لیا۔ آخر۷ستمبر ۱۹۷۴ء کو ذوالفقار علی بھٹو نے قومی اسمبلی کے تاریخی فیصلے کا اعلان کرتے ہوئے مرزائیوں کو غیر مسلم اقلیّت قرار دے دیا اور یہ فیصلہ ایک ترمیم کے ذریعے پاکستان کے قانون کا حصہ بنا۔
آج اس آئینی فیصلے کو ۳۹ برس بیت گئے ہیں مگر مرزائیوں نے اسے تسلیم نہیں کیا۔ وہ آئے روز مسلمانوں کے خلاف اپنی سازشوں کا جال پھینکتے رہتے ہیں۔ علما کے خلاف نفرت پیدا کرنا۔ فرقہ وارانہ کشیدگی کو ہوا دینا اور سیاسی طور پر پاکستان کو بدنام اور غیر مستحکم کرنا اور ملکی سلامتی کے خلاف سازشیں کرنا مرزائیوں کا نصب العین ہے۔
تحریک ختمِ نبوّت ۱۹۸۴ء میں جنرل محمد ضیاء الحق شہید نے حضرت مولانا خواجہ خان محمد رحمہ اللہ کی قیادت میں قائم کل جماعتی مجلس عمل تحفظ ختم نبوّت کے مطالبات منظور کرتے ہوئے قانون امتناع قادیانیت جاری کر کے مرزائیوں کو شعائر اسلامی اور اسلامی اصطلاحات استعمال کرنے سے روک دیا۔ یہود و نصاریٰ کی مکمل سرپرستی و تعاون کی وجہ سے اس قانون کا موثر نفاذ تو نہ ہو سکا لیکن بہت حد تک مرزائیوں کے اثر و نفوذ کا راستہ روک دیا گیا۔
پاکستان میں موجود سیکولر انتہا پسند، لبرل فاشسٹ اور نام نہاد دانش وربھی امریکہ و برطانیہ کے یہود و نصاریٰ کی زبان بول رہے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ مرزائیت کا مسئلہ حل ہو چکا ہے۔ اب ان کے خلاف کام کرنا ’’مولویوں کے پیٹ کا دھندہ‘‘ ہے۔ دوسری طرف وہ قادیانیوں کو مسلمان قرار دلوانے کے استعماری مطالبے کی بھی حمایت کرتے ہیں۔ یہ محض پروپیگنڈہ نہیں بلکہ عالمِ کفر کا ایجنڈا۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ یہود و نصاریٰ، قادیانیوں کو مسلمان قرار دلوانے کی محنت کر رہے ہیں۔ قادیانیت کو سمجھنے کے لیے یہی بات کافی ہے۔ مرزائی آج بھی ارتداد کی تبلیغ اور ملک کے خلاف سازشوں میں مصروف ہیں۔ تل ابیب، لندن اور چناب نگر (ربوہ) ان سازشوں کے مراکز ہیں۔ عقیدہ ختمِ نبوّت کے خلاف مرزائی لٹریچر مسلسل شائع ہو رہا ہے اور حکومت خاموش تماشائی ہے۔ بلکہ موجودہ حکومت میں ختمِ نبوّت کے لٹریچر کو بھی نعوذ باللہ فرقہ وارانہ تناظر میں لیا جا رہا ہے۔ توہین رسالت آرڈینینس کی مخالفت، شناختی کارڈ پر مذہب کے اندراج کی مخالفت میں مرزائی پیش پیش رہے ہیں اور آج فرقہ وارانہ دہشت گردی کے پس منظر میں بھی قادیانی سازشیں ہی کار فرما ہیں۔
ان حقائق کی روشنی میں ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ۷ ستمبر مسلمانوں کے لیے تجدیدِ عہد کا دن ہے۔مسلمان عقیدہ ختمِ نبوّت کے تحفظ کی جدوجہد کو پوری قوت سے جاری رکھیں گے اور پرچمِ ختمِ نبوّت ہمیشہ لہراتا رہے گا۔
اور مرزا قادیانی کے جھوٹے دعویٰ نبوت کے پس پردہ جو اصل محرک تھا کہ اللہ تعالیٰ کے نازل فرمودہ محکم فریضے’’جہاد فی سبیل اللہ‘‘ سے مسلمانوں کو دور کیاجائے ۔ مسلمانوںمیں وہ وساوس اور تلبیسات عام کی جائیں جن سے یہ نہ صرف جہاد سے دور ہوجائیں بلکہ اس کے معنیٰ تک کو فراموش کر بیٹھیں اور یہ سلسلہ آج بھی زور وشور سے جاری ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے اس میدان میں بھی جھوٹے مرزا کو رسوا کیا اور اس نے جس جہاد کو مٹانے کے لئے دعویٰ نبوت کیا، آج پوری دنیا اس کی لپیٹ میں ہے۔ الحمد للہ! قرآن کی آیات جہاد کی تفسیر مسلمانوں کے پاس ہے، دعوت جہاد کا وہ عظیم لٹریچر آج مسلمانوں کو میسر ہے جو اب سے پہلے کبھی نہ تھا۔ جہاد کے میدان آباد ہیں، اور فدائیوں کی یلغار ہرسمت جاری ہے۔ بے شک مرزا ناکام ہوا…اس کے ماننے والے ناکام ہوئے…اس کا مشن ناکام ہوا اور آج بھی جو جس لبادے میں اس کے مشن کی تکمیل کے لئے سرگرم ہے وہ اسی طرح ناکام ہوگا۔
٭…٭…٭
مودی اور ’’سودی‘‘
السلام علیکم..طلحہ السیف (شمارہ 508)
’’مسجدوں کے سپیکر اتروانے والوں کا اپنا اسپیکر اتر گیا ہے ‘‘…
مسلم لیگ ن کے بارے میں یہ سوچنے والوں نے بالکل غلط سوچا تھا کہ پرویز مشرف کی بد عہدی اور بعد میں پیش آنے والے حالات نے شاید ان لوگوں کو کچھ بدل دیا ہو گا اور اب اگر یہ اقتدار میں آئے تو پہلی والی حرکتیں نہیں دہرائیں گے۔ ان کا پہلا دور حکومت تھا تو پشاور میں مقیم پُر امن عرب مجاہدین پر چڑھ دوڑے۔ یہ عرب اس وقت پشاور میں درجنوں رفاہی ادارے چلا رہے تھے۔ افغان مہاجرین اور شہداء کے اہل خانہ کی کفالت کر رہے تھے،مساجد تعمیر کر رہے تھے اور علم دین کے فروغ کی محنت میں اپنا مال صرف کر رہے تھے، نہ انہوں نے کبھی پاکستان کو کمزور کرنے والا کوئی کام کیا تھا اور نہ کوئی قانون توڑا تھا، لیکن یہ بد مست حکمران ان پر چڑھ دوڑے، ان کے گھروں کا تقدس پامال کیا، انہیں بیوی بچوں سمیت ان ظالم حکمرانوں کے حوالے کیا جنہوں نے ان پر انسایت سوز مظالم ڈھائے۔ اس طرح وہ عرب مجاہدین جنہوں نے افغانستان میں پاکستان کے تحفظ کی جنگ لڑی تھی اور وہ پاکستان کو اپنے گھر کی طرح محترم سمجھتے تھے ہمیشہ کے لئے اس ملک کے دشمن بن گئے۔ دوسری بار حکومت ملی تو انہوں نے پولیس گردی، ماورائے عدالت قتل و غارت اور عدلیہ کو اپنے حق میں استعمال کر کے غیر منصفانہ فیصلے کروانے کو وطیرہ بنایا۔ ان پالیسیوں کے نتیجے میں پاکستان میں فرقہ وارانہ تشدد کا وہ دور چلا جس کی تلخ یادیں آج تک ذہنوں سے محو نہیں ہو سکیں۔بلا شبہ فرقہ وارانہ فسادات کے حوالے سے یہ پاکستان کا بدترین دور تھا۔ اس پر مستزاد یہ کہ اس فساد کی جڑ جو کہ باآسانی عدلیہ کے سہارے سے کاٹی جا سکتی تھی یعنی ایسی قانون سازی جس کے بعد اس قتل و غارت کا کوئی جواز باقی نہ رہے اور عدلیہ نے جسٹس سجاد حسین شاہ کی سربراہی میں اس عمل کا آغاز بھی کر دیا تھا حکومت بجائے اس کے کہ اس عمل کی حوصلہ افزائی اور سرپرستی کرتی خود اس کے راستے میں آڑ بن گئی اور سپریم کورٹ آف پاکستان پر بدنام زمانہ حملے کے ذریعے ایسے تمام امکانات ختم کر کے ملک کو ایک ختم نہ ہونے والے فساد کی آگ میں جھونک دیا۔ اور اس مرض کا علاج یہ تجویز کیا گیا کہ کچھ لوگوں کو ماورائے عدالت قتل کرا دیا جائے اس طرح یہ مسئلہ ختم ہو جائے گا لیکن اس کا جو نتیجہ نکلا وہ پوری قوم کے سامنے ہے۔
پھر ان کی حکومت ایک بغاوت کے ذریعے ختم ہوئی اور یہ پس دیوار زنداں ڈال دیے گئے۔ پوری قوم نے انہیں عام سپاہیوں کے ہاتھوں ذلیل ہوتے، عدالتوں کے دھکے کھاتے اور سلاخوں کے پیچھے آنسو بہاتے دیکھا۔ اس حالت میں وہ لوگ بھی ان کے لئے دعاء کرتے اور اپنے دلوں میں ہمدردی پاتے جو ان کے ان اقدامات کی وجہ سے نالاں تھے۔ اس کے بعد انہیں ایک طویل جلا وطنی کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک بار یہ ملکی فضاؤں میں آنے کے بعد واپس بھگا دئیے گئے، اس وقت بھی ان کے ساتھ ہمدردی جتلائی… پھر یہ اقتدار میں آ گئے۔ دیندار طبقہ جس نے پورے گیارہ سال ان کے ساتھ ہمدردی اور خیر خواہی کا معاملہ کیا اسے خاص طور پر امید تھی کہ یہ لوگ اب شاید وہ غلطیاں نہیں دہرائیں جن کی وجہ سے ماضی میں تلخیاں پیدا ہوئیں لیکن
اے بسا آرزو کہ خاک شد
اقتدار کو ذرا سی مضبوطی ملتے ہی وہی پرانی پالیسیاں زور شور سے نافذ۔ دیندار طبقے کا ناطقہ بند، مجاہدین پر سخت ناروا پابندیاں، مدارس پر شک کی نظر اور ان کے ساتھ توہین آمیز سلوک۔ کبھی رجسٹریشن کے نام پر اور کبھی سرچنگ کے نام پر۔ مساجد پر پابندیاں، لاؤوڈ اسپیکر پر خطبہ دینے والے پر امن علماء پر سنگین مقدمے وغیرہ وغیرہ۔ اب ان پالیسیوں کا وہی نتیجہ نکلتا نظر آ رہا ہے اور یہ حکمران اپنی ان بد اعمالیوں کی وجہ سے پکڑ میں آتے دکھائی دے رہے ہیں۔ان کا خیال ہے کہ معصوم مہمانان رسول ﷺ قرآن مجید اور علوم دینیہ کے حصول میں مشغول ننھے ننھے طلبہ کی ٹوپیاں اتروا کر، لائنیں لگوا کر،ویڈیوز بنانے درسگاہ حدیث کا تقدس پامال کرنے، بے گناہوں کے خون سے ہاتھ رنگنے، مجرموں کو پناہ دینے جیسے جرائم پر ان کی پکڑ نہ ہو گی؟…
پکڑ آ رہی ہے اور کل تک ہتھوڑے بجا بجا کر اپنے آرڈر نافذ کرنے والے آج خود ہتھوڑے والے فیصلے کی زد میں آ چکے ہیں۔ ابھی نہ جانے اور کیا کیا کھلے گا۔ مظلوموں کی آہیں ضائع نہیں جاتیں۔
٭…٭…٭
نواز شریف صاحب کی ایک اور بڑی ناکامی ہندوستان کی طرف سے مذاکرات کے لئے بلا کر انکار کرنا بھی ہے۔میاں صاحب جب بھی اقتدار میں آتے ہیں ان کی بڑی ترجیحات میں یہ بات شامل ہوتی ہے کہ ہندوستان کے ساتھ آزادانہ تجارت کے راستے کھل جائیں خواہ اس کے لئے کیسی بھی ذلت اٹھانا پڑے،کوئی بھی قربانی پیش کرنا پڑے اورکسی بھی قومی موقف سے کیسا انحراف کرنا پڑے۔ اس بار بھی یہ ان کی دو سالہ اقتدار میں دوسری ناکام ٹرائی ہے۔ ہندوستان نے ان کی طرف سے ہر جھکاؤ کو ہر بار تذلیل کے ساتھ ٹھکرایا ہے۔ انہوں نے یہ مذاکرات شروع کرنے کے لئے روسی شہر ’’اوفا‘‘ میں مانگ کر ملاقات کی، اس میں قومی امنگوں کے برعکس کشمیر کے معاملے پر چپ سادھے رکھی۔ ایجنڈہ طے کرنے میں ہندوستان کی مکمل من مانی قبول کی تاکہ کسی طرح ان کے لئے تجارت کا راستہ کھل جائے۔اسٹیل کنگ کہلائے جانے والے لکشمی متل کو سٹیل مل خریدنے اور انہیں بیچنے کی مبینہ جلدی کی خبریں قومی اخبارات میں شائع ہو چکی ہیں۔ لیکن اوفا سے واپسی پر کشمیر کو نظر انداز کرنے پر ملک کے اندر سے بھی اور مقبوضہ کشمیر کے عوام کی طرف سے بھی جو ردعمل سامنے آیا اس نے انہیں مجبور کیا کہ کشمیر کے مسئلے کو کورایشو کے طور پر بحث کا موضوع بنایا جائے گا۔اس حوالے سے جب پاکستانی مذاکراتی ٹیم نے حریت کانفرس کی قیادت سے ملاقات پر اصرار کیا تو ہندوستان نے روایتی ہٹ دھرمی اور تذلیل کا مظاہرہ کرتے ہوئے مذاکرات معطل کر دئیے اور اب تین دن سے مسلسل جنگ کی دھمکیاں اور پاکستان میں گھس کر کارروائیاں کرنے کا عزم دہرایا جا رہا ہے۔ ہمارے حکمران اپنی کاروباری ذہنیت کے سبب یہ سوچنے سے عاری ہیں کہ انڈیا پر اس وقت آر ایس ایس کے نظریاتی اور عملی کارکن کی حکومت ہے۔ جس نے اس اسلام دشمن تنظیم کے نظرئیے کو محض کتابوں میں نہیں پڑھا بلکہ ایک جھاڑو پھیرنے والے رضاکار سے ایک قومی لیڈر بننے تک کے تمام مراحل کو عملی طور پر طے کیا ہے۔ہمارے یہ لیڈر چونکہ خود ہر طرح کی نظریاتی سوچ اور تربیت سے عاری ہیں اس لئے وہ ایک نظریاتی کارکن کی نفسیات سمجھنے سے قاصر ہیں۔ وہ تاجر نہیں جو چند روپوںکے فائدے پر اپنے نظریے کو قربان کرے۔ وہ سیاست دان نہیں کہ اقتدار کے چکر میں نظرئیے کو فراموش کر دے۔ افسوس کہ مودی کے مقابلے میں ہمارے پاس صرف ’’سودی‘‘ حکمران ہیں۔ مودی اپنے ملک کو اپنے نظریے کی اساس پر آگے بڑھا رہا ہے اور پورا ملک ایک جنونی ریاست میں بدلتا جا رہا ہے۔ہمیں یقین ہے کہ اس کی یہ پالیسیاں خود انڈیا کے لئے تباہی کا پیش خیمہ ثابت ہونگی لیکن ہمارے حکمرانوں کی بے حمیتی کا رونا ہے کہ انہوں نے کاروبار کے آگے ہر نظریہ قربان کر دیا اور ہندوستان سے بات چیت کے وقت انہیں بنیادی نظریہ پاکستان کا بھی پاس نہیں رہتا۔ اللہ کرے انڈیا کی طرف سے تذلیل کا یہ رویہ اب ان کی آنکھیں کھول دے۔
٭…٭…٭
انسان کے اعضاء اس کے گناہوں اور جرائم کے سب سے بڑے گواہ ہو نگے۔ کچھ لوگوں کے خلاف یہ دنیا میں بھی گواہ بن جاتے ہیں۔ سنا ہے لندن والے ’’بھائی‘‘ آج کل اسی پریشانی میں مبتلا ہیں کہ ان کے اعضاء ایک ایک کر کے ان کے خلاف گواہ بنتے جا رہے ہیں۔ بھائی نے کچھ عرصہ پہلے یہ پالیسی اپنائی کہ جو ’’عضو‘‘ گواہ بننے والا ہو اسے کاٹ کر پھینک دیا جائے۔ چند ایک پر یہ فارمولہ آزما بھی لیا۔ اس وقت تو کار آمد رہا لیکن پھر مصیبت بننے لگا۔ حالیہ واقعہ میں بھی قرائن یہی بتا رہے ہیں کہ یہ بھی ایسا ہی ایک ’’عضو‘‘ کاٹنے کی کوشش تھی مگر وہ کٹنے کی بجائے لٹک گیا۔ اور آپ کو پتا ہے کہ لٹکا ہوا عضو کٹے ہوئے سے زیادہ تکلیف دیتاہے۔ اس لئے بھائی آج کل پھر زیادہ تکلیف میں ہے۔ اللہ کرے اس کی عمر دراز ہو اور اسے یہ تکلیفیں پہنچتی رہیں۔
٭…٭…٭
ایک ریاست تھی
السلام علیکم..طلحہ السیف (شمارہ 507)
آپ نے یہ واقعہ ضرور سنا ہوا ہو گا ایک بار پھر سن لیجئے:
ایک ریاست تھی جس کا نام تھا ’’ انیائے پور‘‘ جدید اردو میں اس کا ترجمہ کریں تو بنے گا ’’نا انصاف آباد‘‘ … اس ریاست کے راجہ کا نام تھا ’’ ایک شریف شکاری جانور ‘‘ وہاں ہر کام اُلٹے طریقے سے کیا جاتا تھا۔ مثلاً سیلابوں پر قابو پانے کے لئے ہر سال نئے بوٹ خریدے جاتے تھے اور متاثرین میں تقسیم کرنے کے لئے رقم پہلے سے مختص کر لی جاتی تھی۔ سیلاب زدگان کی بہبود کے لئے ان کے جانور سستے داموں خریدنے اور مہنگے داموں بیچنے کا معقول انتظام ہر وقت مہیا رکھا جاتا تھا۔ حکمران عوام کی بہبود کے لئے ہر وقت ہیلی کاپٹر تیار رکھتے تھے۔ جہاں بھی کوئی آفت آتی تو فوراً اس علاقے کا فضائی دورہ کیا کرتے اور فضاؤں سے عوام پر محبت کے پھول اور ہمدردی کے آنسو نچھاور کیا کرتے۔ چھوٹے شہروں کے لوگوں کے مسائل کے حل کا بھی وہاں عجیب و غریب طریقہ رائج تھا۔ اس مقصد کے لئے بڑے شہروں میں میٹرو چلائی جاتی، اوور ہیڈ برج بنائے جاتے، سڑکیں پختہ کی جاتیں،شہروں کے گرد رِنگ روڈ، رِنگ روڈ تک پہنچنے کے لئے لنک روڈ اور لنک روڈ تک رسائی کے لئے سگنل فری روٹ بنائے جاتے، یوں جب چھوٹے شہروں کے باسی بڑے شہر والوں کو دن رات عذاب میں مبتلا دیکھتے تو اپنی مشکلات پر صبر کرتے، اس ریاست میں امن و امان بہت تھا۔ انصاف کی فراوانی تھی۔ روزانہ سڑکوں پر سینکڑوں ڈاکے پڑتے لیکن امن و امان سے ٹریفک چلتی رہتی، بنک لٹتے، دوکانوں پر ڈکیتیاں ہوتیں، گھروں میں گھس کر لوٹ مار کی جاتی، اے ٹی ایم مشینیں لوٹی جاتیں لیکن امن و امان کا دور دورہ رہتا اور سارے کام پورے امن سے جاری رہتے۔اس ریاست کے کسی بھی ڈاکو، قاتل،چور اور وارداتیے سے پوچھ لیا جاتا تو وہ یہی کہتا کہ ایسا امن دنیا میں کہیں نہیںاور یہ امن تھا بھی بہت سستا، دس فیصد مال امن کے ذمہ داروں تک پہنچا دیا جاتا تو گارنٹی کے ساتھ امن مل جاتا۔ یہی حال انصاف کا تھا۔ بہت سستا اور فوری انصاف دستیاب تھا۔ قاتل کی فوری اور کرپٹ کی قبل از گرفتاری ضمانت ہو جاتی تھی اور پھر بہت جلدی براء ت بھی۔ اس ریاست میں ’’زیادتی‘‘ نامی جرم بکثرت ہوتا تھا۔ پہلے سادہ انداز میں ہوتا تھا بعد میں فلمایا اور فروخت کیا جانے لگا۔ اس سے ریاست کے لوگوں کی معاشی حالت بہتر ہوئی اور وہ یہ فلمیں بیچ بیچ کر خوشحال ہو گئے۔ اس جرم میں بھی فوری انصاف فراہم کیا جاتا۔ معاوضے کا ناقابل کیش چیک، خود کشی کے لئے ہر جگہ دستیاب ریلوے لائن اور خود سوزی کے لئے پٹرول کی کھلی تجارت۔خود کشی کرنے والے یا والی پر مقدمہ بھی درج نہ کیا اور نہ ہی گرفتار کیا جاتا۔ اخبارات کے مطابق ریاست میں اس ’’جرم‘‘ کی کسی دن بھی چھٹی نہیں تھی نہ سرکاری اور نہ غیر سرکاری۔ اس ریاست میں ایک علاقے کا نام تھا ’’قصور‘‘ اس میں ایک شرمناک، اندوہناک ، افسوسناک اور …لیکن ٹھہریے:
جن کی ناک نہیں ہو گی ان کے لئے کونسا ناک؟…
بس ایک واقعہ ہوا۔ راوی لکھتے تھے کہ اس واقعہ کی وجہ سے قوم کے سر شرم سے جھک گئے حالانکہ جن دنوں یہ واقعہ منظر عام پر آ رہا تھا انہی دنوں کرکٹ ٹیم ایک سیریز جیتی تھی اور حکمران کہہ رہے تھے کہ قوم کا سر فخر سے بلند ہو گیا ہے۔ اسی طرح انہی دنوں کچھ شرپسند عناصر دن رات یہ لکھتے جارہے تھے کہ ان واقعات نے قوم کو سکتے میں مبتلا کر دیا ہے۔ حالانکہ چند دنوں بعد اسی علاقے کے لوگوں نے جشن آزادی پر وہ کچھ کیا کہ انگریز بھی آ کر دیکھ لیتے تو سکتے میں رہ جاتے، بہرحال ’’قصور‘‘میں جو کچھ ہوا ریاست کے وزیر ’’انیائے‘‘ نے کہا کہ اول تو جھوٹ ہے، ثانیاً اس پیمانے کا جرم نہیں جیسے بنایا جا رہا ہے اور ثالثاً یہ کہ قصور بچوں کا اور ان کے والدین کا ہے۔ متاثرین نے بھی مانا کہ ’’قصور‘‘ انہی کا ہے اور وہ ’’قصور‘‘ کے ہیں۔ اس طرح ان کے اعتراف قصور کے بعد چیک تقسیم کر کے انصاف کے تقاضے پورے کر دئیے گئے۔
اس ریاست میں دو بڑے مسئلے تھے (۱) دہشت گردی ( ۲) فرقہ واریت
یہ مسائل اردگرد کی ریاستوں کو بھی درپیش تھے اور ہر ایک اس کا حل تلاش کرنے کے لئے کوشاں تھا مگر جیسا حل ریاست ’’انیائے پور‘‘ نے تلاش کیا اس تک کسی کی عقل بھی نہ پہنچی۔ ہوتی تو پہنچتی۔
اس ریاست نے دونوں مسئلوں کا اکھٹا حل تلاش کر لیا اب کون الگ الگ ایک ایک مسئلے کو حل کرتا پھرے۔
جتنے فرقے تھے ان کی لسٹ بنائی گئی۔
جتنے کاموں کو دہشت گردی کہا جاتا تھا ان کی لسٹ بنائی گئی۔
پھر جو کچھ کیا گیا وہ کوئی جینئس ہی کر سکتا ہے۔
ایک فرقے کو دہشت گرد قرار دے دیا گیا اور ان کے ہر عمل کو دہشت گردی باقی سب کو آزاد چھوڑ دیا گیا۔
مثلاً
دہشت گردوں پر قابو کے لئے بنایا جانے والا چار نمبر قانون صرف ایک فرقے کے لئے مختص کر دیا گیا۔
صرف ایک فرقے کے مدارس کو دہشت گردوں کی پناہ گاہیں قرار دے کر ان کی نگرانی کے لئے ادارے بنائے گئے۔ ان پر چھاپے مارے جاتے، بچوں کے کوائف جمع کئے جاتے، لائن لگا کر ویڈیو بنائی جاتی، بکسے توڑ کر تلاشی لی جاتی اور بستر الٹ کر، سامان پلٹ کر دہشت گردی اور فرقہ واریت کے کھٹمل تلاش کر کے مارے جاتے۔
ایک فرقے کے علماء پر پابندیاں عائد کی جاتیں، ان پر لازم تھا کہ شہر سے نکلیں تو اطلاع کر کے جائیں تقریر کریں تو بتا کر کریں اور پیشاب کرنے کی چھٹی لے کر جائیں۔
ایک فرقے کے جلوس ممنوع تھے باقی سب کو اجازت تھی۔
ایک فرقے کے لوگ جہاد کی بات کریں تو دہشت گردی ایکٹ میں اندر اور نہ بھی کریں تو بھی اندر۔ دوسرے وہی بات کرتے،دارالحکومت میں لاکھوں کے جلوس نکال کر کرتے تو یکجہتی…
قریبی ملک میں مجاہدین کے ایک بڑے رہنما انتقال فرما گئے۔ ایک فرقے نے ملک میں جگہ جگہ ان کے غائبانہ جنازے کے اجتماعات کئے حتی کہ ریاست کی راجدھانی میں راجہ کے محل کے بالکل قریب بھی، لیکن انہیں کچھ نہ کہا گیا۔ دوسرے فرقے نے ایک اخبار نکالا جس میں ان کی تعریف میں کچھ لکھا گیا تھا۔ اخبار تقسیم کرنے پر ان کے سینکڑوں لوگ اندر اور دہشت گردی کے پرچے۔
اس طرح کے درجنوں اقدامات کئے گئے۔ اس معاشرتی انصاف اور راجہ کے سب کو ایک نظر سے دیکھنے اور ایک جیسا سلوک کرنے کی برکت سے اس ریاست میں نہ دہشت گردی رہی اور نہ فرقہ واریت۔ باقی پوری دنیا جب اس آگ میں جل رہی تھی یہ ریاست امن کے گیت گا رہی تھی، میٹروز پر سیر کر رہی تھی اور بارش کے پانی میں نہا اور کاغذ کی کشتیاں چلا کر تفریح کے مزے لے رہی تھی۔
اس ریاست میں سب کے لئے ہر طرح کی رعایت تھی لیکن اس فرقے کے لوگوں کے لئے بالکل نہ تھی، نہ باہر اور نہ جیلوں میں۔امن کے اس دیس کے راجہ سب کو یہی بھاشن دیا کرتے کہ
سب کو ایک آنکھ سے دیکھو…
سب کا خیال رکھو…
سب کو انصاف دو…
خود تھوڑے پانی پر گزارہ کرو اور اپنی رعایا کو سیلاب دو…
خود کم مال بناؤ…عوام کو خوشحالی دو…
خود تکلیف اٹھاؤ لیکن عوام کو امن دو…
اور لوگ ان کی ان باتوں پر مسکرایا کرتے (خوش ہو کر)
آپ کو یہ ’’فرضی کہانی‘‘ سنانے کا مقصد یہ نہیں کہ آپ رہائش اختیار کرنے کے لئے اس ریاست کی تلاش شروع کر دیں۔ یہ ریاست اب دنیا میں موجود نہیں ہے۔ اگر کوئی ملتی جلتی جگہ نظر آ جائے تو آپ کا اپنا ’’قصور‘‘ ہے میرا نہیں…
٭…٭…٭
امیر المومنین
السلام علیکم..طلحہ السیف (شمارہ 506)
میں اقبال کے الفاظ میں کہوں…
عمرھا در کعبہ و بت خانہ می نالد حیات
تا ز بزم عشق یک دانائے راز آید بروں
( زندگی عرصہ دراز تک ہر جگہ روتی پھرتی ہے، تب جا کر بزم عشق سے کوئی دانائے راز بر آمد ہوتا ہے)
یا سنائی کے لفظ دہراؤں…
دور ہا باید کہ تا یک مرد کار آید بروں
با یزید اندر خراساں یا اویس اندر قرن
ہاں!
ایک مردِ کار کے ظہور میں صدیاں لگتی ہیں…
بے شک…
اور پھر لمحہ بھر لگتا ہے کہ صدیوں کا عطر اور خلاصہ بھری بزم روتی چھوڑ کر دامن جھاڑ کر چل دیتا ہے…
دوستو!
اسے تو یقیناخوش نصیبی کے سوا اور کچھ نہیں کہتے کہ ہم نے اس انسان کو دیکھا ہے…سنا ہے…چھوا ہے اور محبت کی ہے جسے ہم سے پہلے کئی صدیوں نے نہیں دیکھا…
مگر اسے کیا کہئے ہیں کہ ہم آج اس کا مرثیہ لکھ رہے ہیں…
ہم نے نبی کریم ﷺ کی احادیث مبارکہ میں وارد
من یجدد لہادینہا
کی عملی تفسیر کو بھی دیکھا ہے…
ہم نے خلافت راشدہ کے نمونے کو دیکھا ہے…
ہم نے ابوالکلام کی شہرہ آفاق ’’تذکرہ‘‘ کے اس بے نام کردار کو دیکھا ہے…
’’جو زمانے پر اس لئے نظر نہیں کرتا کہ کیا کیا ہے جو سمیٹ لوں بلکہ اس لئے دیکھتاہے کہ کیا کیا نہیں ہے جسے پورا کر دوں‘‘…
ہم نے حلقۂ یاراں میں بریشم کی طرح نرم اپنے رفقاء کرام کے ساتھ گاڑی کی ریس لگانے والے، کشتیاں لڑنے والے ’’امیر المومنین‘‘ کو رزم حق و باطل میں فولاد کی مثال بنے بیس سال دیکھا ہے…
جی ہاں!
ہم نے ’’امیر المومنین ملا محمد عمر مجاہد‘‘ کو دیکھا ہے…
اسے خوش بختی کہتے ہیں…
مگر اب ہم انہیں کھو چکے ہیں…اسے کیا کہتے ہیں؟؟؟…
کیا لغت میں اس کے لئے کوئی لفظ ہے؟…
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
٭…٭…٭
واہ امیر المومنین واہ…
آپ پر اللہ تعالیٰ کی کروڑوں اربوں بلکہ ان گنت رحمتیں صبح و شام اُتریں اور آپکو رضائے محبوب کا اعلیٰ مقام نصیب ہو…
زندگی بھر سب کو حیران کئے رکھا…
چھ سال کی عمر میں یتیم ہو جانے والا… کپڑے کے دروازے والے گھر میں جنم لینے والا غریب بچہ…
طالب علم تھا تو سب کو حیران کئے رکھا…
میدان جہاد میں آیا تو نگاہیں خیرہ رہ گئیں … مشت استخواں اور اتنی قوت، بہادری اور جذبہ…
یہ نوجوان روس کے خلاف میدان میں اُترا تو اس کے ساتھی بتاتے ہیں کہ ہم ابتداء میں گنا کرتے تھے کہ کتنے ٹینک تباہ کیے۔ پھر یہ کام چھوڑ دیا کہ آخر کوئی کہاں تک گنے؟…
بے سروسامانی کے عالم میں محض اللہ تعالیٰ کے بھروسے پر اور مظلوموں کی فریاد پر لبیک کہتے ہوئے ایک تحریک کا آغاز کیا…ابتدائی رفقاء ایک درجن بھی نہ تھے مگر پھر سب کو حیران کر دیا…
مقابل وہ کمانڈر ہیں جو عسکری مہارت اور تجربے میں ممتاز ہیں اور ادھر مدرسے کی چٹائی سے اٹھ کر آنے والے گمنام بے نام طلبہ… مگر یہ کیا؟…
علاقوں پر علاقے زیر نگیں آتے چلے جا رہے ہیں اور بڑے بڑے نام آگے سے پسپائی میں عافیت جان رہے ہیں…
یہ کابل ہے…اسے فتح کرنا مشکل ہی نہیں،نا ممکن ہے…مگر جو ناممکن کو ممکن نہ کر سکے وہ ’’عمر‘‘ ہی کیا، لیجئے کابل بھی فتح ہوتا ہے اور یوں کہ دنیا بھر حیران ہے…فتح کرنے والے بھی، مفتوحین بھی اور تماش بین بھی…
ارے یہ ملا… نرا ملا اسے کیا علم حکومت کس طرح کی جاتی ہے؟… اسے کیا خبر ملک گیری کے کیا تقاضے ہیں؟…
اسے کیا سمجھ کہ عالمی قوتوں سے کس طرح نبرد آزما ہوا جاتا ہے؟…اسے خارجہ پالیسی کی کیا شدبد؟…
یہ ناکام ہو جائیں گے، افغان عوام کو قابو میں نہ رکھ پائیں گے، خانہ جنگی ہو گی اور ان کے زیر قبضہ علاقے خلفشار کا شکار رہیں گے… اہل دانش یہی رائے دے رہے تھے مگر سب حیران رہ گئے…
حکومت چلی…جمی اور خوب پھولی پھلی… اس ملا جتنا نہ کوئی امن قائم کر سکا اور نہ اس جتنا کوئی اپنی عوام کی خدمت کر سکا…نہ کوئی ایسا انصاف فراہم کر سکا اور نہ کسی کا اقتدار اس طرح قتل و غارت گری کا سدباب کر سکا … خارجہ پالیسی میں کامیابی اگر نام ہے ایمان فروشی، ضمیر فروشی اور بھیک مانگنے کا تو پھر یہ ملا واقعی ناکام رہالیکن اگر کامیاب خارجہ پالیسی کہتے ہیں اپنی آزادی،خودمختاری اور قومی وقار و تشخص کے قیام کے ساتھ دنیا سے بات کرنے کا۔ اگر کامیاب خارجہ پالیسی نام ہے دوسرے کی مرضی ٹھکرا کر اپنی رائے منوانے کا، اگر خارجہ پالیسی میں کامیابی کسی کا رعب اور دباؤ لیے بغیر اپنے فیصلے کرنے اور منوانے کو کہتے ہیں تو پھر دکھاؤ ملا محمد عمر مجاہد جتنا کامیاب حکمران…
کہتے ہیں غربت اور غیرت کو ایک ساتھ جمع کرکے حکومت نہیں چلائی جا سکتی… یہ آج کی ڈپلومیسی کا بنیادی اصول ہے۔ مگر دنیا کیا وہ سات سال بھول گئی کہ ایک درویش خدامست نے کس طرح ان دونوں کو جمع کر کے ایک کامیاب ترین حکومت چلائی…
کیا امریکہ کے لالچ اس ’’غریب‘‘ کو رابن رافیل سے ملاقات کے لئے مجبور کر سکے؟…
وہ فقیر جو علماء سے گھنٹوں ملتا تھا…جو طلبہ سے گھل مل جاتا تھا…جو ایمانی جہادی نسبت سے آنے والے مہمانوں سے ترجیحاًملتا تھا…کیا کروڑوں ڈالر کے لالچ اور سیاسی فوائد کا جھانسہ دے کر اس کی ایک ملاقات خریدی جا سکی؟…
کیا جاپان والے اربوں ڈالر امداد اور پورے ملک میں اعلی درجے کی سڑکیں مفت بنا کر دینے کی لالچ دے کر اپنے بت اس کے ہاتھوںگرنے سے بچا سکے؟…
اور ہاں کوئی تو پوچھے ملکوں ملکوں پھرنے، حکمرانوں سے مذاکرات کرنے اور باتیں منوانے کے عادی، سفارتکاری کے ماہر اس عربی شہزادے ’’ترکی‘‘ سے کہ نام بتائے بغیر تعارف کے اس سے ملنے والے ایک افغانی دیہاتی ملا نے اس کی کیا ایسی درگت بنائی کہ جب مجلس سے باہر آیا تو پیشانی کا پسینہ چھپائے نہ چھپتا تھا… کیا دنیا کی کسی سپر پاور کے حکمرانوں نے کبھی ایسا کیا؟…
ہاں! اسے جو بھی خریدنے آیا اس نے اپنا خزانہ کم پایا…
اور پھر امریکہ آیا… لاؤ لشکر لے کر …اتحادی لے کر…تباہ کن ٹیکنالوجی اور اسلحہ لے کر…
دنیا نے کہا ملا نے جنگ کا فیصلہ کیا ہے بڑی غیر دانشمندی کا ثبوت دیا ہے… جمع تفریق ہوئی اور اندازہ لگایا گیا کہ ملا محمد عمر مجاہد اور ان کا لشکر بس چند دن کی بات ہے… پھر یہ بات چند مہینوں تک پہنچی اور پھر ایک سال آخری حد…مگر انہوں نے پھر حیران کر دیا…
پہلے ایک دم خاموشی…پھر آہستہ آہستہ چھوٹی چھوٹی گوریلا کارروائیاں… پھر کچھ علاقوں میں تشکیلات اور منظم جنگ اور پھر پورے ملک میں منظم تشکیلات…ہر صوبے کا انتظامی مسئول الگ، حربی مسئول جدا… متساوی عدلیہ… متوازی گورنریاں… مستقل انتظامیہ… ہر شعبے کے مسئول کمیشن… افغانستان کے بہت سے علاقوں میں کابل حکومت سے زیادہ طاقتور اور فعال حکومت… اگر کسی کو مبالغہ لگے تو آئے اور افغانستان چلے… کرایہ فقیر کے ذمے رہا… اگر ایک بات بھی غلط نکلے تو سزا کا مستحق…مگر الحمد للہ یہ بات ادنی تامل کے بغیر عرض ہے کہ آج بھی ملا محمد عمر کے طالبان کا سکہ افغانستان پر اشرف غنی سے زیادہ چلتا ہے…
یوں وہ درویش خدا مست دنیا کو حیران کئے رہا…
وہ اپنی پالیسی پر، اپنے نظریے پر قائم رہے… دنیا کو ان کے بارے میں اپنی پالیسیاں بدلنا پڑیں…
کل تک جو ان کے رفقاء کو پکڑتے تھے اور انعام لیتے تھے انہیں بدلنا پڑا اور ملا محمد عمر کے ساتھیوں کو عزت دینا پڑی…
جنہوں نے طالبان کو کالعدم قرار دیا تھا…دہشت گرد کہہ کر ان کا آنا جانا ہر جگہ بند کر دیا تھا انہیں بدلنا پڑا اور امیر المومنین کے نمائندوں کو ’’نیلے پاسپورٹ‘‘ جاری کرنا پڑے…دنیا کے کئی ممالک میں دفاتر قائم کر کے دینا پڑے…
جو کہتے تھے طالبان دہشت گرد ہیں ان سے بات چیت نہیں ہو سکتی بس انہیں ختم کیا جائے گا انہیں بدلنا پڑا اور انہوں نے مذاکرات کی بھیک مانگی…
حق اسی طرح اپنا آپ منواتا ہے لیکن اپنی راہ اور موقف نہیں بدلتا… حضرت امیر المومنین بھی نہیں بدلے… انہوں نے جو کہا اسی پر قائم رہے، حکومت میں رہے تو اپنے ہر شرعی موقف پر بے لچک رہے… اقتدار چھوڑ کر میدان جہاد کی کمان سنبھالی تو بھی اپنے موقف پر ڈٹے رہے۔ کاش ان کے اس طرز عمل کو مشعل راہ بنایا جائے اور معمولی دباؤ کے سامنے اپنا کام بچانے کی غرض سے اِدبار کی پالیسی کو ترک کیا جائے…امیر المومنین قدس سرہ کی حیات مبارکہ یہ سبق سکھا رہی ہے کہ حق پر ثبات کی وجہ سے اگرچہ تکلیف ہوتی ہے،اگرچہ قربانی لگتی ہے، اگرچہ پریشانی ہوتی ہے لیکن اس کا انجام یقینی فتح ہے ،یقینی سرفرازی ہے…
بہرحال وہ ہر میدان میں اسی طرح حیران کن شخصیت بنے رہے مگر وفات پا کر وصال محبوب سے ہمکنار ہو کر تو انہوں نے شدید حیران کر دیا…
دو سال سے زائد عرصہ ان کا رعب، دبدبہ اور ان کا قائم کردہ مضبوط نظام ’’عصائے سلیمانی‘‘ کے سہارے دنیا کے سامنے قائم رہا، اس نے اپنوں پرایوں کی نظر میں انہیں زندہ رکھا۔ ان کے رعب کے تحت سارا نظام چلتا رہا… مذاکرات کی میز سے سنگین کے سخت ترین محاذ تک، مورچوں پر پہرہ دینے والے مجاہد سے فدائی حملہ آوروں تک سب انہی کے نظام کے تحت کام میں لگے رہے، نہ کوئی کام رُکا اور نہ نظام میں کوئی خلل آیا…
ان کے دشمن ان کی تلاش پر جو اربوں ڈالر خرچ کر رہے تھے اسی طرح کرتے رہے،سیارچے گھومتے رہے، جاسوس اپنے کام میں لگے رہے، دنیا بھر کے ادارے اور حکومتیں مذاکرات کے حوالے سے ان کے موقف اور ان کی مرضی کے سامنے آنے کی منتظر رہیں بال کی کھال اتارنے والا میڈیا ان کے بارے میں تجزئیے اور رپورٹیں شائع کرتا رہا اور ان کا حکومت کرتا رعب یہ سب دیکھ کر اپنی طاقت، ٹیکنالوجی اور معلومات پر ناز کرنے والوں کی بے بسی پر ہنستا رہا… اور پھر جب اللہ تعالیٰ نے چاہا یہ عصا ٹوٹ گیا اور
آہ! …
انا للہ وانا الیہ راجعون
تیز رکھناسر ہر خار کو اے دشتِ جنوں
شاید آ جائے کوئی آبلہ پا میرے بعد
منہ پر رکھ دامن گل روئیں گے مرغان چمن
ہرروش خاک اڑائے گی صبا میرے بعد
مجھ سے پہلے تو کئی قیس ہیں گذرے لیکن
ختم ہو جائے گا یہ نامِ وفا میرے بعد
امیر المومنین اس دنیا سے چلے گئے…
انہوں نے اس دنیا سے کیا لیا؟…
نہ گھر… نہ گاؤں، نہ بینک بیلنس اور نہ کسی فرد کا احسان…
وہ اس دنیا کو کیا دے گئے؟…
انہوں نے اس زمین کو قرآن کے نظام سے مہکایا… اس زمین پر اقامۃ الصلوۃ کا نظام قائم فرمایا…اس زمین پر حدود اللہ نافذ کر کے رحمتوں کے نزول کا دروازہ کھولا…اس زمین کو جہاں تک ہو سکا شرک سے پاک کیا… طاغوت کے نظام سے پاک کیا…انہوں نے جہاد کیا جو رحمت ہی رحمت ہے…پورے عالم کے مسلمانوں کی قیادت کی…ایک عظیم جہادی سلسلے کا آغاز کیا جس میں کفر کا نظام بہتا دکھائی دے رہا ہے… سب سے بڑھ کر انہوں نے عزیمت کے راستے کو عملی کردار سے روشن کیا اور اب جو چلنا چاہے ان کی مثال لے کر چلے…
واہ امیر المومنین واہ…
آپ جئے بھی شان سے اور گئے بھی شان سے…
ہر انسان کو دنیا میں اپنی زندگی کے معین دن بھی پورے کرنے ہیں اور مرنا بھی ہے…
امیر المومنین نے سکھا دیا کہ جینا کسے کہتے ہیں اور مرنا کیسے چاہیے…
ہمارے دامن میں ان کی محبت کے پھول تو ہیں، عمل بھی ان کے کردار سے روشن ہو جائے تو بات بن جائے…
٭…٭…٭
ناکافی ثبوت
السلام علیکم..طلحہ السیف (شمارہ 505)
یہ بکری ہے۔مگر اسے کچھ اور قرار دے کر ’’اندر‘‘ کر دیا گیا ہے۔میری معزز عدالت سے گزارش ہے کہ اسے بکری قرار دیا جائے اور رہا کیا جائے۔
مگر آپ کے پاس کیا ثبوت ہے کہ یہ بکری ہے؟…
یور آنر!
اس کے چار پاؤں اور بڑے بڑے کان ہیں اس لئے یہ بکری ہے…
لیکن چار پاؤں اور بڑے کان تو گدھے سے لے کر بھینس تک بہت سے حلال و حرام جانوروں میں قدر مشترک ہیں۔اسے ملزم کے بکری ہونے کی دلیل قرار نہیں دیا جا سکتا…
محترم!
اسے عرف میں بکری کہا جاتا ہے…
لوگوں کا کسی کو بکری کہنا اس کے بکری ہونے کا شافی ثبوت نہیں۔اگر یہ بات ہوتی تو میرا بچپن کا دوست مراد کِرلا انسان نہیں کِرلا ہوتا،زمین میں بل بنا کر رہتا اور اور کیڑے مکوڑے کھاتا۔نبیل ککڑ گھر کی بجائے ڈربے میں رکھا جاتا، اقبال سنڈے کو روٹی کی جگہ اس کے گھر والے ’’پٹھے‘‘ ڈالتے اور خود مجھے بچپن میں سارا محلہ،پورا سکول اور تمام اہل تعارف ’’ کھگا مچھلی‘‘ کہا کرتے تھے تو کیا یہ ثابت ہو گا کہ میں انسان نہیں کگھا مچھلی ہوں؟…فاضل وکیل عدالت کا وقت ضائع کرنے کی بجائے کوئی ٹھوس ثبوت پیش کریں…
جناب!
یہ ’’ میں میں ‘‘ کرتی ہے۔اور ایسا کرنا بکری کی صفت کے طور پر معروف ہے…
اگر یہ بات مان لی جائے تو پاکستان میں سب سے بڑی بکری پرویز مشرف اور حسن نثار ہوں گے۔کیا آپ کے خیال میں وہ دونوں بکریاں ہیں؟…
نہیں یور آنر!
بکری ایک حلال اور کار آمد جانور ہے…
تو پھر مدعا علیہ کے بکری ہونے کا کوئی قابل قبول ثبوت پیش کریں
معذرت یور آنر!
جن فاضل عدالتوں کو آج تک الطاف حسین کے دہشت گرد اور غدار ہونے…آصف علی زرداری کے کرپٹ ہونے…وزراء اور بیوروکریسی کے چور ہونے …پرویز مشرف کے قومی مجرم ہونے…2013؁ء کے الیکشن میں دھاندلی ہونے…اور خادم اعلیٰ کے ابنارمل ہونے کا کوئی ٹھوس ثبوت نہیں مل سکا ان کی خدمت میں اس جانور کے بکری ہونے کا قابل قبول ثبوت پیش کرنا میرے بس کی بات نہیں۔یہ بکری ’’ایان‘‘ بھی نہیں کہ ’’نامعلوم‘‘ وجوہات کی بناء پر اس کے حق میں فیصلہ سنایا جا سکے اور اس کے خلاف سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ اسے حکمرانوں نے کچھ اور قرار دیا ہے اور اس لئے اب اس کے حق میں کوئی دلیل اور ثبوت لانے کی کوشش بھی فضول ہے۔عدالت عالیہ سے استدعا ہے کہ اس کو جو چاہے قرار دیا جائے اور اس کے ساتھ جو سلوک مناسب ہو کرنے کا حکم جاری فرمایا جائے…
آرڈر…آرڈر…آرڈر…
کٹہرے میں کھڑا وہ جانور جو ’’ میں میں ‘‘ کر رہا ہے۔جسے عرف عام میں بکری کہا جاتا ہے۔جو بظاہر شکل سے بھی بکری ہی لگتا ہے۔اس کے خصال واطوار بھی بکریوں والے ہیں لیکن ناکافی ثبوتوں کی بنیاد پر عدالت اسے بکری قرار دینے سے قاصر ہے…جب تک کہ حکومت اس کے بارے میں اپنی پالیسی تبدیل نہ کر لے۔اس وقت تک اسے ایسا ہی سمجھا جائے…
٭…٭…٭
عید کی چھٹیوں کے ہنگام فوجی ٹرین نشانہ بنائی گئی۔پل کی پلیٹیں کھل گئیں،پٹڑی لڑھک گئی اور ٹرین نہر میں جا گری۔ کافی شدید جانی نقصان ہوا۔ باوجود ٹھوس ثبوتوں کے کہ ٹرین دہشت گردی کا نشانہ بنائی گئی ہے کسی نے دہشت گرد کا نام لینا تو دور کی بات ہے اس کی طرف اشارہ بھی نہ کیا تاکہ ’’دوستی مشن‘‘ پر حرف نہ آ جائے۔ پھر ’’یافا‘‘ میں ملاقات ہو گئی۔ دوستی کے نئے عہد و پیمان باندھے گئے،مذاکرات کے وعدے ہوئے،اطمینان بخش اقدامات کے معاہدے لکھے گئے،کشمیر کا ذکر فراموش کر کے کروڑوں اصلی پاکستانیوں کے دل جلائے گئے تاکہ دوست کی پیشانی پر بل نہ آئے۔پھر دوست نے بارڈر کے قریب آبادی کی عید غارت کر ڈالی،خوشیوں کو ماتم میں بدل دیا،عید کی نماز کے ساتھ جنازے اٹھوائے مگر ادھر سے صرف یہی بیان آیا کہ دوستی پر فرق نہ آئے گا،معاہدے تبدیل نہ ہوںگے۔تیس بار سرحد پر فائر بندی کی خلاف ورزی کی گئی مگر یکطرفہ دوستی ٹرین بگٹٹ دوڑتی رہی اور زبان بند رکھی گئی مگر کل کیا ہوا؟…
دوست کے گھر میں گھر کے چراغ سے ہی آگ لگی۔ اس نے منٹ بھی نہ لگایا اور الزام سیدھا ادھر دھر دیا۔ کرکٹ سیریز منسوخ،دھواں دار بیانات، آج امید ہے وہ سرنگ بھی پکڑ لی گئی ہو گی جہاں سے دراندازوں نے بارڈر کراس کیا ہو گا۔ راستے میں ٹافیوں کے خالی ریپر،جوس کے ڈبے،،دودھ کی بوتلیں اور چاکلیٹ کے پیکٹ بھی بر آمد ہو چکے ہوںگے،جو وردیاں راستے میں اتاری گئی ہوں گی وہ بھی مل چکی ہوں گی اور پاکستانی جوتوں کے سیٹ بھی مل گئے ہوں گے۔ بارڈر پر اندھا دھند فائرنگ جاری ہو گی اور شام تک چند لاشیں گرا دی جائیں گی۔ مگر ’’یکطرفہ دوستی‘‘ ایکسپریس اسی رفتار سے دوڑتی رہے گی اور اس کی سرگرمی و سرمستی میں فرق نہ آئے گا۔
ہندوستان کے چند شہری اور پولیس والے مرے ہیں،وزیر داخلہ کا بیان آیا ہے…
’’ایک ہندوستانی کی جان کرکٹ سے زیادہ اہم ہے۔پاکستان ان ہلاکتوں کا ذمہ دار ہے اس سے کرکٹ نہیں کھیلی جا سکتی‘‘…
بارڈر پر ہر ہندوستانی جارحیت میں کئی جوان اور بہت سے شہری جان سے جاتے ہیں مگر ہماری طرف سے کیا بیان آتا ہے؟…
’’بارڈر کی صورت حال سے بنتے رشتوں پر فرق نہیں پڑے گا۔کرکٹ سیریز ہر حال میں وقت پر منعقد کرانے کی کوشش کی جائے گی‘‘…
جس دوست سے بے حیائی،شراب نوشی،ایکٹنگ اور بے راہ روی مسلسل امپورٹ کی جا رہی ہے،جس کی ثقافت دن رات پھیلائی جا رہی ہے، جس کے طور طریقوں کو پورے معاشرے میں رائج کیا جا رہا ہے اسی سے ہی تھوڑی سی قومی غیرت بھی سیکھ لیجئے…اسلام اور اپنے اسلاف سے سیکھنے کا کہا جائے گا تو دہشت گردی ہو جائے گی اور شدت پسندی پھیلانے کا پرچہ کٹ جائے گا۔
٭…٭…٭
تین باتیں
السلام علیکم..طلحہ السیف (شمارہ 504)
تین باتیں اچھی طرح سمجھا دی گئیں… قرآن مجید میں بھی اور احادیث مبارکہ میں بھی…
(۱) جہاد فرض ہے…
امام سرخسیؒ نے انہی آیات اور احادیث کی ترجمانی کی ہے…
’’جہاد اللہ رب العزت کی طرف سے عائد کیا گیا قطعی فریضہ اور مقدس امر ہے… اس کا منکر کافر ہے… اس کے بارے میں معاندانہ رویہ رکھنے والا گمراہ ہے‘‘…
یہ مسئلہ بے غبار ہے… اجماعی ہے اور قطعی ہے…
’’کُتِبَ‘‘ کا لفظ فرمایا گیا …
ہلکے بوجھل ہر حال میں نکلنے کا فرما دیا گیا اور ہلکے بوجھل کی تفسیر میں کوئی حالت بھی نہیں چھوڑی گئی… دیکھئے تفاسیر…
تفسیر مظہری میں ہے:
’’خفافا اور ثقالاً کی تفسیر مختلف طور پر کی گئی ہے:
(۱) جوان ہو یا بوڑھے (حسن، ضحاک، مجاہد، قتادہ، عکرمہ)
(۲) چست ہو یا چست نہ ہو۔
(۳) نادار (یعنی فقیر) ہو یا مالدار۔
(۴) ہتھیار کم ہوں یا زیادہ۔ (ابن عباسؓ)
(۵) سوار ہو یا پیدل۔ (عطیہ عوفی)
(۶) جائداد اور جاگیر والے نہ ہو یا جائداد اور جاگیر والے ہو، جس کا چھوڑنا تم کو پسند نہ ہو۔ (ابن زید)
(۷) کاموں میں مشغول ہو یاخالی ہو۔ (حکیم بن عتبہ)
(۸) بیمار ہو یاتندرست۔ (ہمدانی)
(۹) مجرّد (غیر شادی شدہ) ہو یا بیوی بچے والے۔
(۱۰) تمہارے متعلقین (یعنی) نوکر، چاکر نہ ہوں یا ہوں۔ (یمانی)
(۱۱) مال سے ہلکے ہو یعنی محتاج ہو یا مال کا بوجھ رکھتے ہو یعنی غنی ہو۔ (ابوصالح)
(۱۲) بعض کے نزدیک مراد یہ ہے کہ دعوت جہاد سنتے ہی فوراً بلا تأمّل نکل کھڑے ہو یا تأمّل وغور اور تیاری کے بعد نکلو۔ زہریؒ کی روایت ہے کہ حضرت سعید بن مسیب کی ایک آنکھ جاتی رہی، اسی حالت میں آپ جہاد کو نکلے، کسی نے کہا آپ تو بیمار اور دکھی ہیں، فرمایا:اﷲ نے خفیف اور ثقیل سب کو جہاد کی دعوت دی ہے، اگر مجھ سے لڑائی نہ ہوسکے گی تو میں مسلمانوں کی جماعت میں اضافہ کا ہی سبب بن جاؤں گا اور سامان کی حفاظت کرتا رہوں گا۔ (تفسیرمظہری)
(۱۳) خفافا سے مراد چھوٹے چھوٹے دستے اور ثقالاً سے مراد پورا لشکر۔
(۱۴) خفافا سے مراد بہادر اور ثقالاً سے مراد بزدل۔
(۱۵) خفافا سے مراد لشکر کے اگلے دستے اور ثقالاً سے مراد عام لشکر یعنی اگلے اقدامی دستوں میں نکلو یا عام لشکر کا حصہ بن کر نکلو۔ (فتح الجواد: ۵۳۲)
اس کے علاوہ درجنوں آیات ہیں اور فرضیت کا تقریباً ہر صیغہ استعمال کر کے اس مسئلے کو بے غبار کر دیا گیا… اب بھی کسی کو شک ہوتا ہے تو اس کی مرضی ہے…
عجیب طرز عمل ہے اللہ کے بندوں کا… قرآن مجید میں روزے کی فرضیت کی ایک آیت ہے… سورۃ البقرہ میں… دوسرے پارے میں… اس میں روزہ ’’کُتِبَ‘‘ کے لفظ سے فرض کیا گیا… لفظ ’’کُتِب‘‘ کے ساتھ لازم کر دیا گیا… اور پھر دیگر درجنوں آیات میں دوسرے الفاظ سے اس کی تاکید بھی نازل کر دی گئی… جو بات ایک آیت سے ثابت ہے اس میں کسی کو شک نہیں،جو بار بار دہرائی گئی اسی میں شک کیا جاتا ہے… فسد کا کوئی علاج نہیں اور جسے اللہ تعالیٰ گمراہی پر پختہ کر دے اس کے لئے کوئی راہ نجات نہیں…
(۲) جہاد جاری ہے…
جہاد کسی مخصوص زمانے کا فریضہ نہیں جب سے اتارا گیا مسلسل جاری ہے… اس کا ایک ہدف بنا دیا ہے اور ایک انتہاء… اب اس ہدف کے حصول اور انتہا کے آ جانے تک یہ بلا انقطاع جاری رہے گا… ہدف ہے:
’’اور ان سے لڑتے رہو۔ یہاں تک کہ فتنہ ختم ہو جائے اور دین خالص اللہ کا ہو جائے۔‘‘ ( الانفال)
فتنہ یعنی کفر کی ہر طرح کی قوت کا ختم ہونا اور حکم و امر صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کا جاری ہو جانا اس کا ہدف ہے اور انتہا دجال کا قتل ہے…
’’جہاد برابر جاری رہے گا۔ یہاں تک کہ میری امت کا آخری لشکر دجال کو قتل کر دے۔‘‘ (مسلم)
جہاد کا جاری رہنا امر ربی ہے اس لئے سورۃ المائدہ میں وضاحت کے ساتھ یہ مسئلہ بھی بیان فرما دیا گیا کہ مسلمان اگر عموماً جہاد سے غافل ہو گئے تو بھی اس کام کو رکنے نہیں دیا جائے گا بلکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ لے لیا کہ وہ جہاد والی جماعت پیدا کرے گا اور ان سے جہاد کا کام لے گا۔
’’اے ایمان والو! اگر کوئی تم میں سے اپنے دین سے پھر جائے گا تو خدا ایسے لوگ پیدا کر دے گا جن کو وہ دوست رکھے اور جسے وہ دوست رکھیں اور جو مومنوں کے حق میں نرمی کریں اور کافروں سے سختی سے پیش آئیں خدا کی راہ میں جہاد کریں اور کسی ملامت کرنے والی کی ملامت سے نہ ڈریں یہ خدا کا فضل ہے وہ جسے چاہتا ہے دیتا ہے اور اللہ بڑی کشائش والا اور جاننے والا ہے ۔‘‘ (سورۃ المائدہ آیت: ۵۴)
اسی طرح سورۃ محمد میں یہی مضمون اس عنوان سے مذکور ہے کہ اگر مسلمان جہاد پر مال خرچ سے کرنے سے غافل ہو جائیں اور جہاد بالمال کے فریضے کو ترک کر دیں تو بھی جہاد نہ رکے گا اللہ تعالیٰ اس کام پر بھی افراد کھڑے کر دے گا۔
’’دیکھو تم وہ لوگ ہو کہ خدا کی راہ میں خرچ کرنے کے لئے بلائے جاتے ہو۔ تو تم میں ایسے شخص بھی ہیں جو بخل کرنے لگتے ہیں۔ اور جو بخل کرتا ہے اپنے آپ سے بخل کرتا ہے۔ اور خدا بے نیاز ہے اور تم محتاج۔ اور اگر تم منہ پھیرو گے تو وہ تمہاری جگہ اور لوگوں کو لے آئے گا اور وہ تمہاری طرح کے نہیں ہوں گے۔‘‘ (سورۃ محمد آیت: ۳۸ )
اور نبی کریمﷺکی متعدد احادیث میں بھی اس امر کا اعلان کرا دیا گیا کہ جہاد اپنے اہداف کی تکمیل اور انتہا کے آ جانے تک برابر جاری رہے گا۔ زمین کا عدل و انصاف سے بھر جانا بھی جہاد بند کرنے کی دلیل نہ بن سکے گا اور زمین کا جور و جبر سے پُر ہو جانا اور جابروں کا جہاد کو روک دینے کا اعلان کر دینا بھی اس کے رکنے کا موجب نہ بنے گا۔
’’میری امت کی ایک جماعت برابر حق کی خاطر لڑتی رہے گی اور اپنے مخالفین پر غالب رہے گی۔ یہاں تک کہ میری امت کا آخری لشکر دجال کو قتل کر دے گا۔‘‘ (مسلم)
’’جہاد جاری ہے ( یا فرض ہے) جب سے اللہ تعالیٰ نے اس کا حکم فرمایا ہے حتی کہ میری امت کا آخری لشکر مسیح دجال کو قتل کر دے گا۔‘‘ ( ترمذی)
(۳) جہاد میں جان و مال سے شرکت کامیابی ہے اور اس سے اعراض وبال، خسران اور ناکامی ہے:
’’اور جب کوئی سورت نازل ہوتی ہے کہ خدا پر ایمان لاؤ اور اس کے رسول کے ساتھ ہو کر لڑائی کرو تو جو ان میں دولت مند ہیں وہ تم سے اجازت طلب کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمیں تو رہنے ہی دیجئے کہ جو لوگ گھروں میں رہیں گے ہم بھی ان کے ساتھ رہیں۔ یہ اس بات سے خوش ہیں کہ عورتوں کے ساتھ جو پیچھے رہ جاتی ہیں۔ (گھروں میں بیٹھ) رہیں ان کے دلوں پر مہر لگا دی گئی ہے تو یہ سمجھتے ہی نہیں۔ لیکن پیغمبر اور جو لوگ ان کے ساتھ ایمان لائے سب اپنے مال اور جان سے لڑے۔ انہیں لوگوں کے لیے بھلائیاں ہیں۔ اور یہی مراد پانے والے ہیں۔ خدا نے ان کے لیے باغات تیار کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں ہمیشہ ان میں رہیں گے۔ یہ بڑی کامیابی ہے۔ ( سورۃ توبہ: ۸۶، ۸۷، ۸۸۔۸۹)
’’اور جو لوگ ایمان لائے اور وطن سے ہجرت کر گئے اور خدا کی راہ میں لڑائیاں کرتے رہے اور جنہوں نے (ہجرت کرنے والوں کو) جگہ دی اور ان کی مدد کی۔ یہی لوگ سچے مسلمان ہیں۔ ان کے لیے (خدا کے ہاں) بخشش اور عزت کی روزی ہے۔‘‘ (سورۃ انفال: ۷۴)
’’جو لوگ ایمان لائے اور وطن چھوڑ گئے اور خدا کی راہ میں مال اور جان سے جہاد کرتے رہے۔ خدا کے ہاں ان کے درجے بہت بڑے ہیں۔ اور وہی مراد کو پہنچنے والے ہیں۔ ان کا پروردگار ان کو اپنی رحمت کی اور خوشنودی کی اور بہشتوں کی خوشخبری دیتا ہے جن میں ان کے لیے نعمت ہائے جاودانی ہے۔ (اور وہ) ان میں ابدالاآباد رہیں گے۔ کچھ شک نہیں کہ خدا کے ہاں بڑا صلہ (تیار) ہے۔ (سورۃ توبہ: ۲۰،۲۱،۲۲)
’’جس شخص نے نہ خود جہاد کیا، نہ اللہ تعالیٰ کے راستے کے مجاہد کو سامان جہاد فراہم کیا اور نہ کسی مجاہد کے گھر کی دیکھ بھال کی اللہ تعالیٰ اسے دردناک عذاب میں مبتلا کر دے گا۔‘‘ ( ابو داؤد)
’’جو شخص اس حال میں مرا کہ نہ تو جہاد کیا نہ جہاد کی خالص نیت کی وہ نفاق کے ایک شعبے پر مرے گا۔‘‘ ( ترمذی)
سو اے اہل ایمان!
یہ تینوں باتیں سامنے رکھیے اور غور کیجئے! یہ باتیں ہم سب کے لئے ہیں…
٭…٭…٭