س… آپ نے اپنی کتاب میں فقہ حنفی کو ہی گویا معیار نجات قرار دیا ہے، سوال یہ ہے کہ دُوسرے ائمہ ثلاثہ کے متبعین کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ میں جہاں رہتا ہوں وہاں فقہ شافعی کے ماننے والے زیادہ ہیں اور میری زندگی بھی امام شافعی کی تقلید میں گزری ہے، میں اپنی زندگی بھر کی عبادات کے بارے میں پریشان ہوں، کیا میرے لئے مسلک کی تبدیلی ضروری ہے؟ اور یہ بظاہر مشکل ہے، کیا امام شافعی کا مسلک کتاب و سنت کے خلاف ہے؟ میری اس الجھن کو دور فرمادیں۔
ج… آنجناب کی سلامتیٴ فہم اور حق پسندی سے جی خوش ہوا، حق تعالیٰ شانہ مجھے اور آپ کو اپنی رضا و محبت نصیب فرمائیں۔
حضرت امام شافعی چار ائمہ میں سے ایک ہیں، اور چاروں امام برحق ہیں، ان کے درمیان حق و باطل کا اختلاف نہیں، بلکہ راجح و مرجوح کا اختلاف ہے، میں چونکہ حنفی ہوں اس لئے امام ابوحنیفہ کے مسلک کو اقرب الی الکتاب والسنة سمجھتا ہوں، اور امام شافعی اور دیگر اکابر ائمہ کے مسلک کو بھی برحق مانتا ہوں، ان اکابر میں سے جس کے ساتھ اعتقاد و اعتماد زیادہ ہو اسی کے مسلک پر عمل کرتے رہنا اِن شاء اللہ ذریعہٴ نجات ہے۔
چونکہ آپ کی طویل زندگی حضرت امام شافعی کے مسلک حقہ پر گزری ہے، اور چونکہ آپ جس علاقے میں رہتے ہیں وہاں فقہ شافعی کے مسائل بتانے والے بہ کثرت ہیں اس لئے میری رائے یہ ہے کہ آپ کے لئے فقہ شافعی کی پیروی میں سہولت ہے، آپ اسی کو اختیار کئے رہیں۔
کتاب و سنت کے نصوص کی تطبیق میں حضرات ائمہ کا نقطہ نظر مختلف ہوتا ہے، اس لئے امام شافعی کا پہلو بھی یقینا قوی ہوگا، اور آپ کے لئے بس اتنا عقیدہ کافی ہے، اور اگر آپ امام ابوحنیفہ کا مسلک اختیار کرنا چاہتے ہیں تو شرعاً اس کا بھی مضائقہ نہیں، بشرطیکہ فقہ حنفی کے مسائل بتانے والا کوئی شخص میسر ہو۔
پیری مریدی بذات خود مقصود نہیں
س… چند ماہ قبل حضرت نے میرے ایک عریضہ پر کتاب “اختلاف امت اور صراط مستقیم” کا مطالعہ کرنے کے لئے فرمایا تھا، چنانچہ ہم نے اس کتاب کو بہت غور سے پڑھا اور بہت ہی مفید پایا، الحمدللہ! اس کے مطالعہ سے میرے بہت سے اشکالات دور ہوگئے اور بہت سی باتوں کے متعلق ذہن صاف ہوگیا، خاص کر ایک بہت ہی اصولی بات سمجھ میں آگئی اور دلنشین ہوگئی کہ جب کسی فعل کے سنت و بدعت ہونے میں تردد ہوجائے، بعض علماء سنت کہتے ہوں اور بعض بدعت، تو ترک سنت فعل بدعت سے بہتر ہے (صفحہ ۱۲۵، ۱۲۶) یہ بالکل بے غبار اصولی بات ہے اور احتیاط پر مبنی ہے کیونکہ دفع مضرّت ہر حال میں مقدم اور اولیٰ ہے، اب صرف ایک خیال پیدا ہوتا ہے کہ ایسی باتیں تو بہت ساری ہیں جن میں علمائے کرام کا اختلاف ہے، یہاں تک کہ جو مروجہ پیری مریدی کا سلسلہ ہم لوگوں کے یہاں ہے اور نفس کی اصلاح کے لئے اس کو بہت ہی ضروری سمجھا جاتا ہے، اس کو بہت سے علماء خاص کر علمائے عرب تو بدعت ہی کہتے ہیں، بلکہ اس کو پیر پرستی اور شرک تک کہتے ہیں۔ تو اس اصول کے تحت تو یہ سب قابل ترک ہوجائیں گے، امید ہے کہ حضرت اس کے متعلق کوئی بہت ہی واضح بات ارشاد فرماکر تسلّی فرمادیں گے، کیا اس مروجہ پیری مریدی کے لئے کوئی واضح حکم قرآن مجید یا حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث وارشادات میں موجود ہے؟ یا چاروں ائمہ کرام رحمة اللہ علیہم میں سے کسی نے اس طریقہ کو دین کے فرائض و واجبات میں شامل کیا ہے؟
دُوسری بات یہ تو ظاہر ہے کہ دین میں کوئی نئی بات جو قرآن و سنت اور تعامل صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم یا ائمہ مجتہدین کے اجتہاد سے ثابت نہ ہو وہ بدعت ہے، لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اگر کوئی نئی بات یا طریقہ دینی مقاصد کے حصول کے لئے بطور تدبیر اختیار کیا جائے تو وہ بدعت نہیں ہے، یعنی احداث فی الدین تو بدعت ہے اور احداث للدین بدعت نہیں ہے، لیکن غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ زیادہ تر بدعات کی ابتدا للدِّین ہی کرکے ہوئی ہے اور رفتہ رفتہ عوام نے اس کو دین کا حصہ بنالیا اور پھر علمائے کرام نے ان کو بدعات کہنا شروع کردیا۔ مروجہ قرآن خوانی، فاتحہ خوانی، سوئم وغیرہ یہ جتنی بدعات ہیں سب میں کوئی نہ کوئی دینی فائدہ منسوب کیا جاسکتا ہے، کچھ نہیں تو یہی کہ اس طرح آج کل غفلت زدہ لوگوں کو کبھی کبھار قرآن مجید کی تلاوت کا موقع مل جاتا ہے، اس طرح تو ساری بدعات کا جواز نکل آئے گا، امید ہے حضرت کے واضح ارشادات سے میرے یہ سب اشکالات دور ہوجائیں گے، اپنے جملہ دینی و دنیوی امور کے لئے حضرت سے دعاوٴں کی بھی درخواست ہے۔
ج… بہت نفیس سوال ہے، بڑا جی خوش ہوا، جواب اس کا اجمالاً آپ کے نمبر ۲ میں موجود ہے، ذرا سی وضاحت میں کئے دیتا ہوں: متعارف پیری مریدی بذات خود مقصد نہیں، اصل مقصد یہ ہے کہ اپنے بہت سے امراض کی آدمی خود تشخیص نہیں کرسکتا، اور بیماری کی تشخیص بھی کرلے تو اس کا خود علاج نہیں کرسکتا، مثلاً مجھ میں کبر، یا عجب ہے یا نہیں؟ اگر ہے تو اس کا علاج کس طرح کروں؟ تو کسی شخص محقق متبع سنت سے اصلاحی تعلق قائم کرنا اس مقصد کی تحصیل کے لئے ہے، اور بیعت، جس کو عرف عام میں پیری مریدی کہا جاتا ہے، محض اصلاحی تعلق کا معاہدہ ہے، مرید کی جانب سے طلب اصلاح کا اور شیخ کی جانب سے اصلاح کا، اگر کوئی شخص ساری عمر بیعت نہ کرے، لیکن اصلاح لیتا رہے تو کافی ہے، اور اگر بیعت کرلے لیکن اصلاح نہ کرائے تو کافی نہیں۔ الغرض بیعت سے مقصد اصلاح ہے اور اصلاح کا واجب شرعی ہونا واضح ہے، اور مقدمہ واجب کا واجب ہوتا ہے۔
علاوہ ازیں نفس کی مثال بچے کی ہے، چنانچہ استاذ اگر مکتب کے بچوں کے سر پر کھڑا رہے تو کام کرتے ہیں، ان کو آزاد چھوڑ دیا جائے تو ذرا کام نہیں کرتے، اگر آدمی کسی شیخ محقق کو اپنا نگران مقرر کرلے تو نفس کام کرے گا، اور اگر اس کو آزاد چھوڑ دیا جائے تو کام کے بجائے لہو و لعب میں لگا رہے گا۔
علاوہ ازیں سنت اللہ یہ ہے کہ آدمی صحبت سے بنتا ہے، حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو صحبت نبوی کا شرف حاصل ہوا تو کیا سے کیا بن گئے، اگر کسی متبع سنت شیخ سے تعلق ہوگا تو اس کی صحبت اپنا کام کرے گی، اس لئے حضرات صوفیاء کی اصطلاح میں بیعت کو “سلسلہٴ صحبت” سے تعبیر کیا جاتا ہے، گویا علم و عمل کے ساتھ صحبت کا سلسلہ بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے متوارث چلا آتا ہے، الغرض بیعت و ارشاد کو بدعت سمجھنا صحیح نہیں، بلکہ یہ دین پر پابند رہنے کا ذریعہ ہے۔والله اعلم!
ائمہ اجتہاد واقعی شارع اور مقنن نہیں
س… “اِتَّخَذُوْا اَحْبَارَھُمْ وَرُھْبَانَھُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللهِ۔” اس کے مصداق تو ہم سب مقلدین بھی معلوم ہوتے ہیں کیونکہ جو ہمارے مفتی حرام و حلال بتاتے ہیں ہم بھی اس پر عمل کرتے ہیں، ہم خود نہیں جانتے وہ صحیح کہہ رہے ہیں یا غلط؟ خصوصاً اس آیت کے مصداق وہ غالی مریدین بھی ہیں جو اپنے پیر کا حکم کسی صورت نہیں ٹالتے، چاہے وہ صریح خلاف شریعت ہو، ان کے غلط اقوال کی دور ازکار تاویلوں سے صحت ثابت کرتے ہیں۔
ج… اگر کوئی احمق ائمہ اجتہاد رحمہم اللہ کو واقعتا شارع اور مقنن سمجھتا ہے تو کوئی شک نہیں کہ وہ اس آیت کریمہ کا مصداق ہے، لیکن اہل اصول کا متفقہ فیصلہ ہے کہ “القیاس مظہر لا مثبت۔” یعنی ائمہ اجتہاد کا قیاس و اجتہاد احکام شریعہ کا مثبت نہیں بلکہ “مظہر من الکتاب والسنّة” ہے، جو احکام صراحتاً کتاب و سنت میں مذکور نہیں اور جن کے استخراج اور استنباط تک ہم عامیوں کے علم و فہم کی رسائی نہیں، ائمہ اجتہاد کا قیاس و استنباط ان احکام کو کتاب و سنت سے نکال لاتا ہے، تقلید کی ضرورت اس لئے ہے کہ ہم لوگوں کا فہم کتاب و سنت کے ان احکام تک نہیں پہنچتا، پس اتباع تو دراصل کتاب و سنت کی ہے، ائمہ اجتہاد کا دامن پکڑنے کی ضرورت اس لئے ہوئی کہ ہم اتباع کتاب ہدیٰ کے بجائے اتباعِ ہویٰ کے گڑھے میں نہ گر جائیں اور اکابر مشائخ کی لغزشوں کی تاویل اس لئے ہے کہ ان کے ساتھ حسن ظن قائم رہے، اس لئے نہیں کہ ان کی ان لغزشوں کی بھی اقتداء کی جائے۔
ائمہ اربعہ حق پر ہیں
س… ایک صاحب نے کچھ سوالات کئے تھے جن کا جواب آپ نے قرآن و حدیث سے نہیں دیا بلکہ ہر سوال کے جواب میں آپ نے لکھا کہ ہمارے نزدیک یہ ناجائز ہے، یا ہمارے نزدیک یہ جائز ہے، کہیں آپ نے لکھا ہے کہ حنفی کے نزدیک اس کا جواب یوں ہے، اس جواب سے میں نے اندازہ کیا کہ آپ نبی کو نہیں مانتے ہیں، کیونکہ اگر آپ اللہ اور رسول کو مانتے تو یہی کہتے کہ قرآن و حدیث میں اس طرح ہے، یا یہ کہتے کہ نبی نے اس طرح کیا ہے، فلاں حدیث سے ثابت ہے اور فلاں حدیث سے یہ کام منع ہے؟
ج… چونکہ ہمارے یہاں اکثریت حنفی حضرات کی ہے اور یہ ناکارہ خود بھی مجتہد نہیں بلکہ امام ابوحنیفہ کا مقلد ہے، اس لئے لازمی ہے کہ فتویٰ اس کے موافق دیا جائے گا، اور ائمہ مجتہدین سب کے سب قرآن و سنت کے متبع تھے، اس لئے جب ہم کسی امام مجتہد کا حوالہ دیں گے تو گویا یہ قرآن و سنت کا حوالہ ہے، اس کے بارے میں یہ کہنا کہ ہم نعوذ باللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں مانتے، ایسی ہی غلط تہمت ہے جیسا کہ منکرینِ حدیث، حدیث کا حوالہ دینے پر کیا کرتے ہیں کہ یہ لوگ قرآن کو نہیں مانتے۔
س… کیا چاروں ائمہ، امام ابوحنیفہ، امام شافعی،امام مالک اور امام احمد بن حنبل نعوذباللہ، اللہ اور اس کے رسول کو ماننے والے نہیں تھے؟ اور اگر تھے تو پھر ہم ان کی طرف نسبت کیوں کرتے ہیں جب کہ وہ بھی سب نبی ہی کو مانتے تھے تو پھر ہم بھی کیوں نہ کہیں کہ نبی کے نزدیک اس مسئلے کا جواب یوں ہے، فلاں حدیث سے ثابت ہے؟
ج… یہ چاروں ائمہ رحمہم اللہ، اللہ و رسول کے ماننے والے تھے ان حضرات نے قرآن و حدیث سے استدلال کرکے مسائل بیان فرمائے ہیں اور بعض موقعوں پر اختلاف فہم کی وجہ سے ان کے درمیان اختلاف بھی ہوا ہے، اس لئے ان میں سے کسی ایک کا حوالہ، در اصل اس کے فہم قرآن و حدیث کا حوالہ ہے۔
س… ان چاروں اماموں میں اختلاف کیوں ہے؟ ایک کہتا ہے ہاتھ ناف پر باندھو نماز میں، دُوسرا کہتا ہے ہاتھ سینے پر باندھو، تیسرا کہتا ہے ہاتھ سینے کے نیچے باندھو، چوتھا کہتا ہے ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھو، دین میں اگر چاروں طریقے سے ہاتھ باندھنا صحیح ہے، نبی نے اس طرح نماز پڑھی ہے تو پھر ہم تین میں کیوں اختلاف پیدا کرتے ہیں کہ ہمارے نزدیک یوں ہے چاروں طریقوں کو حدیث سے ثابت کرکے بتائیے؟
ج… یہ اختلافات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے درمیان بھی ہوئے، چونکہ ان اکابر کے درمیان اختلافات ہوئے اس لئے ہمارے لئے ناگزیر ہوا کہ ایک کے قول کو لیں، اور دُوسرے کے قول کو نہ لیں۔
س… کیا چاروں اماموں میں سے ایک کی تقلید کرنا واجب ہے؟ اگر واجب ہے تو نبی نے کہاں فرمایا ہے کہ تقلید ایک امام کی ضروری ہے؟
ج… قرآن و حدیث پر عمل کرنا واجب ہے، اور اختلاف ہونے کی صورت میں، اور غلبہٴ ہویٰ اور فہم ناقص کی صورت میں قرآن و حدیث پر عمل کرنے کا ذریعہ صرف یہ ہے کہ جن اکابر کا فہمِ قرآن و حدیث مسلّم ہے، ان میں سے کسی ایک کے فتویٰ پر عمل کیا جائے، اس کا نام تقلید ہے۔
س… کیا اماموں نے بھی کہا ہے کہ ہماری تقلید تم پر واجب ہے؟ اور کیا تقلید نہ کرنے والا جنت میں نہیں جائے گا؟ جب کہ اس کا عمل قرآن و حدیث کے مطابق ہو اور وہ صرف قرآن و حدیث کو ہی مانتا ہو۔
ج… ان ائمہ دین پر اعتماد کے بغیر قرآن و حدیث پر عمل ہو ہی نہیں سکتا اور جب قرآن و حدیث پر عمل نہ ہوا تو انجام ظاہر ہے۔
س… کیا چاروں امام غلط تھے جنہوں نے کسی کی تقلید نہیں کی؟ اور صحابی اور چاروں خلیفہ جنہوں نے کسی کی تقلید نہیں کی، وہ صرف قرآن و حدیث کو مانتے تھے، فقہ کا نام و نشان نہیں تھا، تو کیا نعوذ باللہ یہ سب غلط راستے پر تھے؟ انہوں نے دین کو نہیں سمجھا تھا جو بعد کے عالموں نے سمجھا ہے؟
ج… تقلید کی ضرورت مجتہد کو نہیں غیر مجتہد کو ہے، حضرات خلفائے اربعہ رضی اللہ عنہم، اور حضرات ائمہ اربعہ رحمہم اللہ خود مجتہد تھے، ان کو کسی کی تقلید کی ضرورت نہ تھی، جو شخص ان کی طرح خود مجتہد ہو اس کو بھی ضرورت نہیں، لیکن ایک عام آدمی جو مجتہد نہیں اس کو تقلید کے بغیر چارہ نہیں۔
س… اگر دین تقلید کا نام ہے اور تقلید کرنا ضروری ہے تو کیوں نہ ہم اپنے آپ کو چاروں خلیفہ کی طرف نسبت کریں، ایک کہے میں صدیقی ہوں، دُوسرا کہے میں فاروقی ہوں، تیسرا کہے میں عثمانی ہوں، اور چوتھا کہے میں علی کو ماننے والا ہوں، اگر اس طرح کوئی کہے تو میں سمجھتا ہوں کہ سارے اختلافات ختم ہوجائیں کیونکہ ان چاروں میں کوئی اختلاف ہی نہیں تھا، یہ تو بعد میں ہوا ہے؟
ج… جس طرح چاروں ائمہ مجتہدین کا مذہب مدوّن ہے، اس طرح چاروں خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کا مذہب مدون نہیں ہوا، ورنہ ضرور ان ہی حضرات کی تقلید کی جاتی اور یہ سمجھنا کہ ان چاروں کے درمیان کوئی اختلاف نہیں تھا، بے علمی کی بات ہے، حدیث کی کتابوں میں ان کے اختلافات مذکور ہیں۔
س… کیا عورت اور مرد کی نماز میں فرق ہے؟ مثلاً عورت نماز میں سینے پر ہاتھ باندھے اور مرد ناف پر باندھے، نبی نے اسی طرح بتایا ہے کہ اس طرح کیا جائے؟ اگر ہے تو کون سی حدیث سے ثابت ہے؟ کیا مرد سینے پر ہاتھ باندھے تو اس کی نماز نہیں ہوگی؟ جب کہ سعودیہ میں حنبلی ہیں اور سینے پر ہاتھ باندھتے ہیں مرد اور عورت سب ہی اور شافعی بھی سینے پر ہی ہاتھ باندھتے ہیں تو کیا یہ غلط ہیں؟
ج… عورت اور مرد کے احکام میں بے شمار فرق ہیں، عورت کا ستر الگ ہے مرد کا الگ، اسی طرح ان کے متعلق بعض دُوسرے مسائل میں بھی فرق ہے اور وہ سب قرآن و حدیث سے ہی اخذ کئے گئے ہیں۔
س… نماز میں رکوع کرنے پر اور رکوع سے اٹھنے پر رفع یدین کرتے ہیں، یہ حدیث سے ثابت ہے یا نہیں؟ اور اگر منع ہوا تو کون سی صحیح حدیث میں ہے؟ جیسا کہ لوگ کہتے ہیں کہ لوگ بت رکھ کر لاتے تھے اور بعد میں رفع یدین منع کردیا کہ اب مت کرو، اونچی آمین کہنا کب منع ہوا؟ لوگ کہتے ہیں کہ پیچھے سے لوگ نماز میں بھاگ جاتے تھے، تو آپ نے کہا آمین اونچا کہا کرو اور بعد میں منع کردیا تو یہ صحیح حدیث سے بتائیے کہ کہاں منع ہے؟
ہم نے مل کر چار پانچ آدمیوں نے یہ سوال کئے ہیں،میں ایک جاہل آدمی ہوں، لیکن یقین صرف قرآن و حدیث پر ہے اس لئے تفصیلاً حدیث سے جواب دیں مکمل۔ میں آپ کو آپ کے رب کا واسطہ دیتا ہوں اور اگر آپ نے اپنی ماں کا دودھ پیا ہے، تو ہمارے ان سوالوں کا جواب ضرور دیں۔
ج… رفعِ یدین اور ترک رفعِ یدین دونوں طرف احادیث بھی موجود ہیں اور صحابہ و تابعین کا عمل بھی، اسی طرح آمین کے مسئلے میں دونوں طرف احادیث بھی ہیں اور صحابہ و تابعین کا تعامل بھی، اختلاف جو کچھ ہے وہ اس میں ہے کہ ان میں سے کون سی صورت افضل ہے؟
جواب تو میں نے عرض کردیا، البتہ اس جواب کو سمجھنے کے لئے بھی علمی لیاقت کی ضرورت ہے، اگر آپ اللہ تعالیٰ کا واسطہ نہ دیتے اور نہ ماں کے دودھ کا ذکر کرتے تب بھی میں جواب دیتا، کیا میں آپ سے پوچھ سکتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کا واسطہ دینا اور کسی کی ماں کے دودھ کا ذکر کرنا کس حدیث سے ثابت ہے؟ اور یہ کہ کیا حدیث میں رفعِ یدین اور آمین ہی کا مسئلہ آیا ہے یا انسانی اخلاق کے بارے میں بھی کچھ آیا ہے؟
تقدیر الٰہی کیا ہے؟
س… میں عرصہ دراز سے امریکہ میں مقیم ہوں، بعض اوقات عیسائی دوستوں یا غیرمسلموں سے مذہبی نوعیت کی باتیں بھی ہوتی ہیں، دین اسلام میں جن چیزوں کا ماننا ضروری ہے ان میں تقدیر پر ایمان لانا بھی ازحد ضروری ہے، لیکن یہ عجیب بات ہے کہ ہمیں یہ ہی نہیں معلوم ہے کہ تقدیر کیا ہے؟ میں دل سے مانتی ہوں کہ تقدیر کا مکمل طور پر نامعلوم ہونا ہی ہمارے لئے بہتر ہے، لیکن چند موٹی موٹی باتیں تو معلوم ہوں، ہمیں تو یہ کچھ معلوم ہے کہ تقدیر معلق ہوتی ہے اور تقدیر مبرم ہوتی ہے۔ اب اگر کوئی شخص میرے ہاتھ پر مسلمان ہونا چاہے اور میں اسے کہوں کہ تقدیر پر ایمان لانا ضروری ہے تو وہ لازماً پوچھے گا کہ آخر تقدیر ہے کیا؟ اور اس میں کون کون سی چیزیں شامل ہیں؟ میرا خیال ہے کہ کم از کم موٹی موٹی باتیں ضرور معلوم ہونی چاہئیں، جیسے میں نے کچھ تحقیق کی تو مجھے معلوم ہوا کہ کم از کم یہ چیزیں ہماری تقدیر میں روزِ اوّل سے لکھی ہیں، ان میں “پیدائش” یعنی جیسے جس ماں کے بطن سے پیدا ہونا ہے، “موت” جس شخص کی جب، جہاں اور جس طرح موت واقع ہونی ہے، اس کا ایک وقت معین ہے۔ “رزق” جس کے بارے میں قرآن کریم میں ہے کہ یہ اللہ ہی ہے جو بڑھاتا ہے اور گھٹاتا ہے، یا کسی کو زیادہ دیتا ہے اور کسی کو نپا تُلا دیتا ہے۔ چنانچہ آدمی ذاتی سعی کرے یا کچھ نہ کرے، رزق ایک مقدار میں مقرر ہے، چونکہ دوران سفر بھی انسان رزق پاتا ہے، سو یوں دکھائی دیتا ہے کہ سفر بھی ہمارے مقدر کا حصہ ہے، لیکن بعض چیزیں مبہم ہیں، جیسے شادی، انسان کے دکھ سکھ، شہرت، بیماریاں، غرض اور بہت سی چیزوں کے بارے میں، میں تحقیق نہ تو کرسکی، اور نہ کرنا چاہتی ہوں، مگر علمائے کرام سے گزارش ہے کہ چار چھ موٹی موٹی باتیں تو بتائیں کہ یہ چیزیں تقدیر کا حصہ ہیں، کیا آپ میری مدد کریں گے؟ بڑی ممنون رہوں گی، خاص کر مجھے یہ بھی بتائیے کہ “شادی” انسانی مقدر کا حصہ ہے؟ یعنی پہلے سے لکھا ہوا ہے کہ فلاں لڑکے، لڑکی کی آپس میں ہوگی، یا کچھ یوں ہے کہ کوشش کرکے کسی سے بھی کی جاسکتی ہے، میں نے اس طرح کی ایک حدیث پڑھی ہے کہ ایک صحابی نے کسی بیوہ سے شادی کی، تو ہمارے نبی جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: “تم نے کسی کنواری سے شادی کیوں نہ کی کہ وہ تم سے کھیلتی اور تم اس سے کھیلتے۔” اس حدیث سے اندازہ ہوا کہ گویا یہ ایک ایسا معاملہ ہے کہ آدمی کوشش کرے تو کسی سے بھی کرسکتا ہے، مگر شاید یعنی دُوسری احادیث مبارکہ بھی ہوں، آپ میرے سوال کا مکمل جواب دیجئے، ممنون رہوں گی۔
ج… تقدیر کا تعلق صرف انہی چار چیزوں سے نہیں جو آپ نے ذکر کی ہیں، بلکہ کائنات کی ہر چھوٹی بڑی اور اچھی بری چیز تقدیر الٰہی کے تابع ہے، چونکہ انسان کو یہ علم نہیں کہ فلاں چیز کے بارے میں علم الٰہی میں کیا مقدر ہے؟ اس لئے اس کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ وہ اپنے ارادہ و اختیار اور اپنے علم و فہم کے مطابق بہتر سے بہتر چیز کے حصول کی محنت وسعی کرے، مثلاً رزق کو لیجئے! رزق مقدر ہے، اور مقدر سے زیادہ ایک دانہ بھی کسی کو نہیں مل سکتا، مگر چونکہ کسی کو معلوم نہیں کہ اس کے حق میں کتنا رزق مقدر ہے؟ اس لئے وہ رزق حاصل کرنے کے لئے زیادہ سے زیادہ سعی و محنت کرتا ہے، لیکن ملتا اتنا ہی ہے جتنا مقدر میں لکھا ہے، ٹھیک یہی صورت شادی کے مسئلے میں بھی پائی جاتی ہے، والدین اپنی اولاد کے لئے بہتر سے بہتر رشتہ کے خواہشمند ہوتے ہیں، اور اپنے علم و اختیار کی حد تک اچھے سے اچھا رشتہ تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن ہوتا وہی ہے جو مقدر میں ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے جو فرمایا تھا کہ: “تم نے کنواری سے شادی کیوں نہ کی؟” اس کا یہی مطلب ہے تمہیں تو کنواری کا رشتہ ڈھونڈنا چاہئے تھا۔
س… میں ذاتی اعتبار سے بڑی خوش نصیب ہوں، مگر میں نے کئی بدنصیب لوگ بھی دیکھے ہیں۔ پیدائش سے لے کر آخر تک بدنصیب، قرآن کریم میں ہے کہ اللہ کسی شخص کو اس کی قوت برداشت سے زیادہ دکھ نہیں دیتے، لیکن میں نے بعض لوگ دیکھے ہیں جو دکھوں اور مصائب سے اتنے تنگ آجاتے ہیں کہ آخر کار وہ “خودکشی” کرلیتے ہیں، آخر ایسا کیوں ہوتا ہے؟ جب قرآن کریم میں ہے کہ کسی کی برداشت سے زیادہ دکھ نہیں دیئے جاتے تو لوگ کیوں خودکشی کرلیتے ہیں؟ کیوں پاگل ہوجاتے ہیں؟ اور بعض جیتے بھی ہیں تو بدتر حالت میں جیتے ہیں۔
اس سوال کا جواب قرآن کریم اور احادیث مبارکہ کی روشنی میں دیجئے کہ انسانی عقل کے جوابات سے تشفی نہیں ہوتی، دُنیا میں ایک سے ایک ارسطو موجود ہے، اور ہر ایک اپنی عقل سے جواب دیتا ہے، اور سب کے جوابات مختلف ہوتے ہیں، لہٰذا جواب قرآن کریم اور احادیث نبوی سے دیجئے، امید ہے جواب ضرور دیں گے،ممنون رہوں گی۔
ج… قرآن کریم کی جس آیت کا آپ نے حوالہ دیا ہے اس کا تعلق تو شرعی احکام سے ہے، اور مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ بندوں کو کسی ایسے حکم کا مکلف نہیں بناتا جو ان کی ہمت اور طاقت سے بڑھ کر ہو، جہاں تک مصائب و تکالیف کا تعلق ہے، اگرچہ یہ آیت شریفہ ان کے بارے میں نہیں، تاہم یہ بات اپنی جگہ صحیح ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی پر اتنی مصیبت نہیں ڈالتا جو اس کی برداشت سے زیادہ ہو، لیکن جیسا کہ دُوسری جگہ ارشاد فرمایا ہے: “انسان دھڑدلا واقع ہوا ہے۔” اس کو معمولی تکلیف بھی پہنچتی ہے تو واویلا کرنے لگتا ہے اور آسمان سر پر اٹھالیتا ہے، بزدل لوگ مصائب سے تنگ آکر خودکشی کر لیتے ہیں اس کی وجہ یہ نہیں ہوتی کہ ان کی مصیبت حد برداشت سے زیادہ ہوتی ہے، بلکہ وہ اپنی بزدلی کی وجہ سے اس کو ناقابل برداشت سمجھ کر ہمت ہار دیتے ہیں، حالانکہ اگر وہ ذرا بھی صبر و استقلال سے کام لیتے تو اس تکلیف کو برداشت کرسکتے تھے، الغرض آدمی پر کوئی مصیبت ایسی نازل نہیں کی جاتی جس کو وہ برداشت نہ کرسکے، لیکن بسا اوقات آدمی اپنی کم فہمی کی وجہ سے اپنی ہمت و قوت کام میں نہیں لاتا، کسی چیز کا آدمی کی برداشت سے زیادہ ہونا اور بات ہے، اور کسی چیز کے برداشت کرنے کے لئے ہمت و طاقت کو استعمال ہی نہ کرنا دُوسری بات ہے، اور ان دونوں کے درمیان آسمان و زمین کا فرق ہے۔ ایک ہے کسی چیز کا آدمی کی طاقت سے زیادہ ہونا، اور ایک ہے آدمی کا اس چیز کو اپنی طاقت سے زیادہ سمجھ لینا، اگر آپ ان دونوں کے فرق کو اچھی طرح سمجھ لیں تو آپ کا اشکال جاتا رہے گا۔
مدار حالات و واقعات پر ہے
س… ایک اور اشکال حضرت مولانا عبیداللہ سندھی پر حضرت علامہ کشمیری اور حضرت علامہ عثمانی کے کفر کے فتویٰ کی وجہ سے بھی پیدا ہوا ہے، کیا مولانا سندھی کے تفردات واقعی اس لائق ہیں؟ آخر دارالعلوم دیوبند کے صدر مدرس اور مہتمم نے فتویٰ لگایا ہے تو کوئی بات تو ہوگی نا!
ج… تکفیر و تفسیق کے مسئلے میں بھی مدار حالات و واقعات پر ہے، امام مسلم نے امام بخاری پر جو ردّ کیا اور امام ابوحنیفہ کے بارے میں امام بخاری نے جو کچھ لکھا وہ کس کو معلوم نہیں؟ “لیست بأوّل قارورة کسرت فی الاسلام” کی ضرب المثل تو معلوم ہی ہوگی۔
جن لوگوں کا یہ ذہن ہو وہ گمراہ ہیں
س…۱: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو دین کی تعلیم دی تھی وہ مسجد نبوی کے ماحول میں یعنی مسجد کے اندر دی، اس تعلیم کے لئے آپ نے کوئی الگ مدرسہ جیسی صورت اختیار نہیں کی، یا کوئی الگ جگہ اس کے لئے مقرر نہیں کی تو پھر آج کیوں ہمارے دینی اداروں میں مسجد تو بہت چھوٹی ہوتی ہے مگر مدارس کی عمارتیں بہت بڑی بڑی بنادی جاتی ہیں، اگر یہ چیز بہتر ہوتی تو آپ علیہ الصلوٰة والسلام اس چیز کو سب سے پہلے سوچتے، حالانکہ مسجد کا ماحول بہت بہتر ماحول ہے، وہاں انسان لایعنی سے بھی بچ سکتا ہے۔
س…۲: آپ نے اصحاب صفہ کو جو تعلیم دی، بنیادی، وہ ایمانیات اور اخلاقیات کی دی، ان کو ایمان سکھایا، لیکن ہمارے دینی مدرسوں میں جو بنیادی تعلیم دی جاتی ہے وہ بالکل اس چیز سے ہٹ کر لگتی ہے، اور برائے مہربانی میں اپنی معلومات میں اضافے کے لئے اس بات کی وضاحت طلب کرنا چاہتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو اصحاب صفہ کو تعلیم دی وہ کیا تھی؟
س…۳:ہمارے مدرسوں سے جو عالم حضرات فارغ ہوکر نکلتے ہیں ان کے اندر وہ کڑھن اور فکر دین کے مٹنے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے کے چھوٹنے کی نہیں ہوتی جو فکر اور کڑھن حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تھی یا حضرات صحابہ کی تھی اور وہ لوگوں سے اس عاجزی اور انکساری سے بات نہیں کرتے جس طرح ہمارے اکابر اور آپ یا اور جو دُوسرے بزرگ موجود ہیں، وہ بات کرتے ہیں۔
س…۴: معذرت کے ساتھ اگر اس خط میں مجھ ناچیز سے کوئی غلط بات لکھی گئی ہو تو اس پر مجھے معاف فرمائیں، اگر اس خط کا جواب آپ خود تحریر فرمائیں تو بہت مناسب ہوگا۔
ج…۱: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے شیخ کے “فضائل اعمال” نامی کتاب کی بھی تعلیم نہیں دی، پھر تو یہ بھی بدعت ہوئی، کیا آپ نے اکابر تبلیغ سے بھی کبھی شکایت کی؟
ج…۲:آپ کو کس جاہل نے بتایا کہ ہمارے دینی مدرسوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم والی تعلیم نہیں؟ کیا آپ نے کبھی مدرسہ کی تعلیم کو دیکھا اور سمجھا بھی ہے؟ یا یوں ہی سن کر ہانک دیا، اور رائے ونڈ میں جو مدرسہ ہے اس کی تعلیم دُوسرے مدرسوں سے اور دُوسرے مدرسوں کی رائے ونڈ سے مختلف ہے؟
ج…۳:یہ بھی آپ کو کسی جاہل نے کہہ دیا کہ مدارس میں سے نکلنے والے علماء میں “کڑھن” اور دین کے لئے مرمٹنے کی فکر نہیں ہوتی، غالباً آپ نے یہ سمجھا ہے کہ دین کی فکر اور کڑھن بس اسی کا نام ہے جو تبلیغ والوں میں پائی جاتی ہے۔
ج…۴:آپ نے لکھا ہے کہ کوئی غلط بات لکھی ہو تو معاف کردوں، میں نہیں سمجھا کہ آپ نے صحیح کون سی بات لکھی ہے؟
لوگ مجھ سے شکایت کرتے رہتے ہیں کہ تبلیغ والے علماء کے خلاف ذہن بناتے ہیں، اور میں ہمیشہ تبلیغ والوں کا دفاع کرتا رہتا ہوں، لیکن آپ کے خط سے مجھے اندازہ ہوا کہ لوگ کچھ زیادہ غلط بھی نہیں کہتے، آپ جیسے عقلمند جن کو دین کا فہم نصیب نہیں ان کا ذہن واقعی علماء کے خلاف بن رہا ہے، یہ جاہل صرف تبلیغ میں نکلنے کو دین کا کام اور دین کی فکر سمجھے بیٹھے ہیں، اور ان کے خیال میں دین کے باقی سب شعبے بے کار ہیں۔ یہ جہالت کفر کی سرحد کو پہنچتی ہے کہ دین کے تمام شعبوں کو لغو سمجھا جائے، اور دینی مدارس کے وجود کو فضول قرار دیا جائے، میں اپنی اس رائے کا اظہار ضروری سمجھتا ہوں کہ تبلیغ میں نکل کر جن لوگوں کا یہ ذہن بنتا ہو وہ گمراہ ہیں اور ان کے لئے تبلیغ میں نکلنا حرام ہے۔
میں اس خط کی فوٹو اسٹیٹ کاپی مرکز (رائے ونڈ) کو بھی بھجوارہا ہوں تاکہ ان اکابر کو بھی اندازہ ہو کہ آپ جیسے عقلمند تبلیغ سے کیا حاصل کر رہے ہیں․․․؟
یہ بدعت نہیں
س… سالہاسال سے تبلیغی جماعت والے شب جمعہ مناتے چلے آرہے ہیں، اور کبھی بھی ناغہ کرتے ہوئے نہیں دیکھا گیا، خدانخواستہ یہ عمل اس حدیث کے زمرے میں نہیں آتا ہے کہ: “لا تختصوا لیلة الجمعة…الخ۔” اور نیز اس پر دوام کیا بدعت تو نہ ہوگا؟
ج… تعلیم و تبلیغ کے لئے کسی دن یا رات کو مخصوص کرلینا بدعت نہیں، نہ اس کا التزام بدعت ہے، دینی مدارس میں اسباق کے اوقات مقرر ہیں، جن کی پابندی التزام کے ساتھ کی جاتی ہے، اس پر کبھی کسی کو بدعت کا شبہ نہیں ہوا․․․ !
س… میں نے ایک کتاب (تحذیر المسلمین عن الابتداع والبدع فی الدین) کا اردو ترجمہ “بدعات اور ان کا شرعی پوسٹ مارٹم” مصنف علامہ شیخ احمد بن حجر قاضی دوحہ قطر، کا مطالعہ کیا، کتاب کافی مفید تھی، بدعات کی جڑیں اکھاڑ پھینک دیں۔ البتہ کفن اور جنازے کے ساتھ چلنے کے متعلق بدعات کے عنوان سے اپنی کتاب صفحہ ۵۰۶ پر لکھتے ہیں کہ قبر میں تین لپ مٹی ڈالتے وقت ہر لپ کے ساتھ “منھا خلقناکم” اسی طرح دُوسرے لپ پر “وفیھا نعیدکم” اور اسی طرح تیسرے لپ کے ساتھ “ومنھا نخرجکم تارة اخری” کہنا بدعت ہے، آپ سے التما س ہے کہ اس بارے میں وضاحت کیجئے۔
اسی صفحہ پر لکھتے ہیں کہ میّت کے سرہانے سورہٴ فاتحہ اور پاوٴں کی طرف سورہٴ بقرہ پڑھنا بدعت ہے، اس کی بھی وضاحت فرمائیں۔ اسی طرح صفحہ ۵۲۱ پر رقمطراز ہیں کہ بعض لوگ صدقہ کی غرض سے پوری قربانی کا گوشت یا معین مقدار کو پکا ڈالتے ہیں اور فقراء کو بلاکر یہ پکا ہوا گوشت تقسیم کردیتے ہیں اس کو بدعت کہا ہے، اور یہ طریقہ عمل جائز نہیں ہے کہا ہے، مہربانی فرماکر اس کی بھی وضاحت سے نوازیں۔
ج… ان تین چیزوں کا بدعت ہونا میری عقل میں نہیں آیا۔
ا:…حافظ ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں اس آیت شریفہ کے ذیل میں یہ حدیث نقل کی ہے:
“وفی الحدیث الذی فی السنن: ان رسول الله صلی الله علیہ وسلم حضر جنازة، فلما دفن المیّت اخذ قبضة من التراب، فالقاہا فی القبر وقال: منھا خلقناکم، ثم اخذ اخریٰ وقال: وفیھا نعیدکم، ثم اخریٰ وقال: ومنھا نخرجکم تارةً اخریٰ۔” (تفسیر ابن کثیر ج:۳ ص:۱۵۶)
ترجمہ:…”اور جو حدیث سنن میں ہے، اس میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جنازہ میں حاضر ہوئے، پس جب میّت کو دفن کیا گیا تو آپ نے مٹی کی ایک مٹھی لی اور اس کو قبر پر ڈالا اور فرمایا: منھا خلقناکم (اسی مٹی سے ہم نے تمہیں پیدا کیا) پھر دُوسری مٹھی لی (اور قبر میں ڈالتے ہوئے) فرمایا: وفیھا نعیدکم (اور اسی میں ہم تمہیں لوٹائیں گے) پھر تیسری مٹھی لی (اس کو قبر میں ڈالتے ہوئے) فرمایا: ومنھا نخرجکم تارةً اخریٰ (اور اسی سے ہم تمہیں دوبارہ نکالیں گے)۔”
اور ہمارے فقہاء نے بھی اس کے استحباب کی تصریح کی ہے، چنانچہ “الدرر المنتقیٰ شرح ملتقی الابحر” میں اس کی تصریح موجود ہے۔ (ج:۱ ص:۱۸۷)
۲:…اور قبر کے سرہانے فاتحہٴ بقرہ اور پائینتی میں خاتمہٴ بقرہ پڑھنے کی تصریح حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث میں موجود ہے جس کے بارے میں بیہقی نے کہا ہے: “والصحیح انہ موقوف علیہ۔” (مشکوٰة ص:۱۴۹)
اور آثار السنن (۲/۱۲۵) میں حضرت لجلاج صحابی کی روایت نقل کی ہے کہ انہوں نے اپنے بیٹے کو وصیت فرمائی:
“ثم سُنَّ علیّ التراب سنًا، ثم اقرأ عند رأسی بفاتحة البقرة وخاتمتہا، فانی سمعت رسول الله صلی الله علیہ وسلم یقول ذالک۔ رواہ الطبرانی فی المعجم الکبیر، واسنادہ صحیح۔ وقال الحافظ الھیثمی فی مجمع الزوائد: رجالہ موثقون۔”
(اعلاء السنن ج:۸ ص:۳۴۲ حدیث:۲۳۱۷)
ترجمہ:…”پھر مجھ پر خوب مٹی ڈالی جائے، پھر میرے سرہانے (کھڑے ہوکر) سورہٴ بقرہ کی ابتدائی و آخری آیات پڑھی جائیں، اس لئے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس طرح فرماتے ہوئے سنا ہے۔”
۳:…قربانی کے گوشت کی تقسیم کا تو حکم ہے، اگر پکاکر فقراء کو کھلایا جائے تو یہ بدعت کیوں ہوگئی، یہ بات میری عقل میں نہیں آئی، والله اعلم!
بدعت کی قسمیں
س… بدعت کی کتنی اقسام ہیں اور بدعت حسنہ کون سی قسم میں داخل ہے نیز بدعت حسنہ کی مکمل تعریف بھی بیان فرمائیں جناب محترم مولانا صاحب میں اللہ تعالیٰ کو حاضر و ناظر جان کر آپ کو یہ بات بتانا چاہتا ہوں کہ اس فتویٰ سے میرا مقصود صرف اپنی اور اپنے دوستوں کی اصلاح ہے، لہٰذا آپ ضرور جواب باصواب تحریرفرما کر عنداللہ ماجور ہوں۔
ج… بدعت کی دو قسمیں ہیں۔ایک بدعت شرعیہ، دُوسری بدعت لغویہ، بدعت شرعیہ یہ ہے کہ ایک ایسی چیز کو دین میں داخل کرلیا جائے جس کا کتاب و سنت، اجماع امت اور قیاس مجتہد سے کوئی ثبوت نہ ہو، یہ بدعت ہمیشہ بدعت سیئہ ہوتی ہے، اور یہ شریعت کے مقابلے میں گویا نئی شریعت ایجاد کرنا ہے۔
بدعت کی دُوسری قسم وہ چیزیں ہیں جن کا وجود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں نہیں تھا، جیسے ہر زمانے کی ایجادات۔ ان میں سے بعض چیزیں مباح ہیں جیسے ہوائی جہاز کا سفر کرنا وغیرہ اور ان میں جو چیزیں کسی اور مستحب کا ذریعہ ہوں وہ مستحب ہوں گی، جو کسی امر واجب کا ذریعہ ہوں وہ واجب ہوں گی، مثلاً صرف و نحو وغیرہ علوم کے بغیر کتاب و سنت کو سمجھنا ممکن نہیں اس لئے ان علوم کا سیکھنا واجب ہوگا۔
اسی طرح کتابوں کی تصنیف، مدارس عربیہ کا بنانا چونکہ دین کے سیکھنے اور سکھانے کا ذریعہ ہیں اور دین کی تعلیم و تعلم فرض عین یا فرض کفایہ ہے۔ تو جو چیزیں کہ بذات خود مباح ہیں اور دین کی تعلیم کا ذریعہ و وسیلہ ہیں وہ بھی حسب مرتب ضروری ہوں گی، ان کو بدعت کہنا لغت کے اعتبار سے ہے، ورنہ یہ سنت میں داخل ہیں۔ اس تفصیل سے معلوم ہوا ہوگا کہ مدارس کے بنانے پر صلوٰة وسلام کی بدعت کو قیاس کرنا غلط ہے۔
انکارِ حدیث، انکارِ دین ہے
س… ایک صاحب کا کہنا ہے کہ چونکہ احادیث کی بنا پر ہی مسلمان مختلف فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں، اس لئے احادیث کو نہیں ماننا چاہئے، نیز ان صاحب کا یہ بھی کہنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم کی حفاظت کا ذمہ تو لیا ہوا ہے مگر احادیث کی حفاظت کا ذمہ بالکل نہیں لیا، اس لئے احادیث غلط بھی ہوسکتی ہیں، لہٰذا احادیث کو نہیں ماننا چاہئے۔
ج… احادیث آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کو کہتے ہیں، یہ تو ظاہر ہے کہ جو شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان رکھتا ہو وہ آپ کے ارشادات مقدسہ کو بھی سر آنکھوں پر رکھے گا، اور جو شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کو ماننے سے انکار کرتا ہے وہ ایمان ہی سے خارج ہے۔
ان صاحب کا یہ کہنا کہ مسلمانوں میں فرقہ بندی احادیث کی وجہ سے ہوئی، بالکل غلط ہے۔ صحیح یہ ہے کہ قرآن کریم کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ و تابعین کے ارشادات کی روشنی میں نہ سمجھنے بلکہ اپنی خواہشات و بدعات کے مطابق ڈھالنے کی وجہ سے تفرقہ پیدا ہوا، چنانچہ خوارج، معتزلہ، جہمیہ، روافض اور آج کے منکرین حدیث کے الگ الگ نظریات اس کے شاہد ہیں، اور ان صاحب کا یہ کہنا کہ اللہ تعالیٰ نے صرف قرآن کریم کی حفاظت کا ذمہ لیا ہے، احادیث کی حفاظت کا ذمہ نہیں لیا، یہ بھی غلط ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کی ضرورت جس طرح آپ کے زمانے کے لوگوں کو تھی اسی طرح بعد کی امت کو بھی ان کی ضرورت ہے اور جب امت اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات اور آپ کے ارشادات کے بغیر اپنے دین کو نہیں سمجھ سکتی تو ضرور ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بعد کی امت کے لئے اس کی حفاظت کا بھی انتظام ضرور کیا ہوگا، اور اگر بعد کی امت کے لئے صرف قرآن کریم کافی ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات و ارشادات کی اسے ضرورت نہیں، تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے لوگوں کو بھی نعوذ باللہ آپ کی ضرورت نہ ہوگی، گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے بے کار مبعوث کیا؟
اختلافِ رائے کا حکم دُوسرا ہے
س… مشہور عرب بزرگ جناب محمد بن عبدالوہاب کے بارے میں حضرات دیوبند کی اصل رائے کیا ہے؟ اور کیا وہ حقیقت حال کا سامنا کرنے سے متذبذب رہے؟
۱:…حضرت گنگوہی کی رائے اس کے بارے میں معتدل ہے۔
(فتاویٰ رشیدیہ)
۲:…حضرت علامہ انور شاہ کشمیری نے اسے خارجی کہا ہے۔
۳:…حضرت مدنی نے الشہاب الثاقب میں بہت سخت الفاظ میں تذکرہ کیا ہے اور اسے گمراہ قرار دیا ہے۔
۴:…ابھی حال ہی میں ایک کتابچہ “انکار حیات النبی۔ ایک پاکستانی فتنہ” میں (جو حضرت شیخ الحدیث کے غالباً نواسے مولانا محمد شاہد صاحب نے ترتیب دیا ہے اور اسے حضرت کے ایما پر لکھنا بتایا ہے) اسی محمد بن عبدالوہاب کو شیخ الاسلام والمسلمین لکھا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ محمد بن عبدالوہاب کیا تھا؟ حضرت گنگوہی کی نظر میں داعیٴ توحید یا حضرت علامہ کشمیری کی نظر میں خارجی یا حضرت شیخ الحدیث کی رائے کے مطابق شیخ الاسلام۔
نیز یہ کہ اپنے شیخ و مرشد حضرت گنگوہی سے الگ رائے قائم کرنے کے بعد کیا حضرت مدنی اور حضرت علامہ کشمیری کو حضرت گنگوہی سے انتساب کا حق رہ جاتا ہے یا نہیں؟ یا حضرت شیخ الحدیث، حضرت مدنی سے مختلف رائے اختیار کرکے ان سے ارادت مندی کا دعویٰ کرسکتے ہیں یا نہیں؟ تسکین الصدور، طبع سوم (مرتبہ مولانا محمد سرفراز خان صاحب صفدر#) میں حضرات اخلاف دیوبند نے ایک اصول طے کیا ہے کہ بزرگان دیوبند کے خلاف رائے رکھنے والے کو ان سے انتساب کا حق نہیں اگرچہ اکابرین دیوبند ان کے استاد ہی کیوں نہ رہے ہوں۔ اس فتویٰ پر اوروں کے علاوہ آنجناب کے دستخط بھی ثبت ہیں۔
ج… کسی شخصیت کے بارے میں رائے قائم کرنے کا مدار اس کے بارے میں معلوم ہونے والے حالات پر ہے، جیسے حالات کسی کے سامنے آئے اس نے ویسی رائے قائم کرلی، اس کی نظیر جرح و تعدیل میں حضرات محدثین کا اختلاف ہے، اس اختلاف رائے میں آپ جیسا فہیم آدمی الجھ کر رہ جائے، خود محل تعجب ہے۔
اکابر دیوبند سے شرعی مسائل میں اختلاف کرنے والے کا حکم دُوسرا ہے، اور واقعات و حالات کی اطلاع کی بنا پر اختلاف رائے کا حکم دُوسرا ہے، دونوں کو یکساں سمجھنا صحیح نہیں۔
س… وقت ضائع کرنے کی معذرت مگر حضرت والا! ہم علماء کے خدام ہیں، اکابرین دیوبند کے نوکر، انہیں اپنا “اسوہ” خیال کرتے ہیں، لیکن “اسوہ” مجروح ہو تو ایسے ہی تلخ سوال و اشکال پیدا ہوتے ہیں، اس لئے تلخ نوائی کی بھی معذرت۔
ج… “اسوہ” کے مجروح ہونے کی بات میری سمجھ میں نہیں آئی، ویسے ذہن میں تلخی ہو تو ظاہر ہے کہ آدمی تلخ نوائی پر مجبور و معذور ہی ہوگا۔
شریعت کی معرفت میں اعتماد علی السلف
س… شاہ ولی ا للہ محدث دہلوی فرماتے ہیں کہ: “شریعت کی معرفت میں سلف پر اعتماد کیا جائے۔” لیکن آپ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بشریت کے اثبات میں اس اصول کو ترک کردیا ہے، نیز قرآن کریم میں “قَدْ جَآئَکُم مِّنَ اللهِ نُوْرٌ وَّکِتَابٌ مُّبِیْنٌ” میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بشریت کو نہیں، نور کو ثابت کیا گیا ہے۔ جب کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود فرمایا ہے کہ آدم علیہ السلام ابھی تک گارے مٹی میں تھے کہ میرا نور پیدا ہوا تھا، اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اگر بشر تھے تو آپ کا سایہ کیوں نہیں تھا؟ تفصیل سے جواب دیں۔
ج… آنجناب نے حضرت حکیم الامت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ کے حوالے سے جو اصول نقل کیا ہے کہ “شریعت کی معرفت میں سلف پر اعتماد کیا جائے…الخ” یہ اصول بالکل صحیح اور درست ہے، اور یہ ناکارہ خود بھی اس اصول کا شدت سے پابند ہے، اور اس زمانے میں اسی کو ایمان کی حفاظت کا ذریعہ اور سلامتی کا راستہ سمجھتا ہے، یہی وجہ ہے کہ اس ناکارہ نے اپنی تالیف “اختلاف امت اور صراط مستقیم” میں جگہ جگہ اکابر اہل سنت کے حوالے درج کئے ہیں۔
“نور اور بشر” کی بحث میں آپ کا یہ خیال کہ میں نے اکابر کی رائے سے الگ راستہ اختیار کیا ہے، صحیح نہیں۔ بلکہ میں نے جو کچھ لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بیک وقت نور بھی ہیں اور بشر بھی، یہی قرآن کریم کا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا، صحابہ و تابعین اور اکابر اہل سنت کا عقیدہ ہے، قرآن کریم نے جہاں “قَدْ جَآئَکُم مِّنَ اللهِ نُوْرٌ وَّکِتَابٌ مُّبِیْنٌ” فرمایا ہے، وہیں “قُلْ اِنَّمَآ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ یُوْحٰی اِلَیَّ… الخ۔” بھی فرمایا ہے، اور جن اکابر کے آپ نے حوالے دئیے ہیں وہ بھی جہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نور ہونے کے قائل ہیں وہیں آپ کی بشریت کے بھی قائل ہیں۔
میں نے تو یہ لکھا تھا کہ نور اور بشر کے درمیان تضاد سمجھ کر ایک کی نفی اور دُوسرے کا اثبات کرنا غلط ہے، تعجب ہے کہ جس غلطی پر میں نے متنبہ کیا تھا آپ اسی کو بنیاد بناکر سوال کر رہے ہیں، اکابر امت میں سے ایک کا نام تو لیجئے جو کہتے ہوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بشر نہیں، صرف نور ہیں۔
اور پھر میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے (نور ہونے کے ساتھ ساتھ) بشر ہونے پر جو عقلی ونقلی دلائل دئیے تھے تو آنجناب نے ان کی طرف التفات نہیں فرمایا، کم سے کم شرح عقائد نسفی، جو تمام اہل سنت کی متفق علیہا ہے، اور فتاویٰ عالمگیری کے جو حوالے دئیے تھے انہی پر غور فرمالیا جاتا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رُوح مقدسہ و مطہرہ اگر حضرت آدم علیہ السلام سے قبل تخلیق کی گئی ہو، اس سے آپ کے بشر ہونے کی نفی کیسے لازم آئی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسد اطہر کا سایہ نہ ہونے کی روایت اول تو حضرات محدثین کے نزدیک زیادہ قوی نہیں، علاوہ ازیں سایہ نہ ہونے کی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ آپ پر بادل کا ٹکڑا سایہ فگن رہتا ہو، یا جس طرح رُوح کا سایہ نہیں ہوتا اسی طرح غلبہٴ نورانیت کی وجہ سے آپ کے جسد اطہر پر رُوح کے احکام جاری ہوں، حضرات عارفین تجسد ارواح اور تروح اجساد کی اصطلاحات سے واقف ہیں، بہرحال محض سایہ نہ ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بشر نہیں تھے، چنانچہ ام الموٴمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سے زیادہ جانتی ہیں، فرماتی ہیں: “کان بشر من البشر۔” (مشکوٰة شریف ص:۵۲۰) الغرض آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سراپا نور ہونے سے کسی کو انکار نہیں، نہ اس ناکارہ نے اس کا انکار کیا ہے۔بحث اس میں ہے کہ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نور ہونا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بشریت کے منافی ہے؟ میں نے یہ لکھا ہے کہ منافی نہیں، بلکہ جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم سراپا نور ہیں ٹھیک اسی طرح سراپا بشر بھی ہیں۔ اگر قرآن کریم، حدیث نبوی اور اکابر امت کے ارشادات میں آنجناب کو کوئی دلیل میرے اس معروضہ کے خلاف ملے تو مجھے اس کے تسلیم کرنے میں کوئی عذر نہ ہوگا۔
نشر الطیب میں جہا ں حضرت حکیم الامت نور اللہ مرقدہ نے نور محمدی (علی صاحبہا الصلوات والتسلیمات) کے پیدا ہونے کا لکھا ہے، وہاں حاشیہ میں اس کی تشریح بھی فرمادی ہے، اس کو بھی ملاحظہ فرما لیا جائے۔ (نشر الطیب ص:۵)
یہ حبِ صحابہ نہیں جہالت ہے
س… آپ کے ہفت روزہ ختم نبوت شمارہ ۳۰، جلد۶، صفحہ ۹ پر حضرت مولانا احمد سعید صاحب کی تحریر میں ایک جلیل القدر صحابیٴ رسول حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کو نعوذ باللہ ظالم لکھا گیا ہے، کیا یہ سہو ہوا ہے؟ یا عمداً؟ اس لئے آپ کو تکلیف دی گئی ہے کہ ختم نبوت جماعت میں وہ کون سے لوگ ہیں جو صحابہ کرام کے دشمن ہیں؟ تاکہ ان کا بندوبست کیا جائے۔
ج… مکتوب الیہم کی فہرست میں آنجناب نے ازراہِ ذرہ نوازی اس ناکارہ کا نام بھی درج فرمایا ہے، بلاتواضع عرض کرتا ہوں کہ یہ ہیچ مداں اس لائق نہیں کہ اس کا شمار -والله ثم والله- علماء میں کیا جائے، یہ ناکارہ علمائے ربانیین کا تابع مہمل اور زلّہ بار رہا ہے، اور بس۔ ہمارے حضرت عارف باللہ ڈاکٹر عبدالحی عارفی قدس سرہ اکثر یہ شعر پڑھا کرتے تھے:
گرچہ از نیکاں نیم لیکن بہ نیکاں بستہ ام
در ریاض آفرینش رشتہ گلدستہ ام
بہرحال یہ ناکارہ اس ذرہ نوازی پر آنجناب کا شکریہ ادا کرتا ہے اور اس خط کے سلسلے میں چند معروضات پیش کرتا ہے۔
۱:…سحبان الہند حضرت مولانا احمد سعید دہلوی ہمارے ممتاز اکابر میں سے تھے، جمعیة العلماء ہند کے جنرل سیکرٹری اور امام ربانی شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی قدس سرہ کے دست راست تھے، ان کا ترجمہ قرآن، جنت کی کنجی، دوزخ کا کھٹکا، موت کا جھٹکا شہرہٴ آفاق کتابیں ہیں، جناب کی نظر سے بھی گزری ہوں گی، انہی کی تصنیفات میں سے ایک ایمان افروز کتاب “معجزات رسول صلی اللہ علیہ وسلم” ہے، جو ہفت روزہ ختم نبوت میں “سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات یا پیشگوئیاں” کے عنوان سے سلسلہ وار شائع ہو رہی ہے، اور آنجناب کے خط میں جس تحریر کا حوالہ دیا گیا ہے وہ اسی کتاب کی ایک قسط ہے، اور جن الفاظ پر گرفت کی گئی ہے وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ ہیں، جنہیں حضرت مصنف نے امام بیہقی کی کتاب کے حوالے سے درج کیا ہے، وہ حدیث یہ ہے:
“بیہقی نے دلائل النبوة میں روایت کیا ہے کہ ایک دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زبیر اور حضرت علی کو باہم ہنستے ہوئے دیکھا، آپ نے حضرت علی سے دریافت کیا: اے علی! کیا تم زبیر کو دوست رکھتے ہو؟ انہوں نے کہا: ہاں، یا رسول اللہ! میں ان کو کیسے دوست نہ رکھوں، یہ میری پھوپھی کے بیٹے اور میرے دین کے پابند ہیں۔ پھر آپ نے حضرت زبیر سے دریافت کیا: اے زبیر! کیا تم علی کو دوست رکھتے ہو؟ زبیر نے کہا: میں علی کو کیسے دوست نہ رکھوں، یہ میرے ماموں زاد بھائی ہیں اور میرے دین کے پیروکار ہیں! پھر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: زبیر! ایک دن تم علی سے قتال کروگے اور تم ظالم ہوگے۔ چنانچہ جنگِ جمل میں حضرت زبیر نے حضرت علی سے مقابلہ کیا اور جنگ کی، جب حضرت علی نے ان کو یاد دلایا کہ: کیا تم کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان یاد ہے کہ: “تم علی سے قتال کروگے اور تم ظالم ہوگے”؟ حضرت زبیر نے فرمایا کہ: ہاں! یہ بات حضور نے فرمائی تھی، لیکن مجھ کو یاد نہیں رہی تھی۔ اس کے بعد زبیر واپس ہوگئے، مگر ابن جبرود نے وادی السباع میں -جو ایک مشہور وادی ہے- حضرت زبیر کو شہید کردیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جو پیشین گوئی فرمائی تھی، ویسا ہی ہوا۔ حضرت زبیر، حضرت علی کے مقابل ہوئے اور جب یہ وادی میں سو رہے تھے تو سوتے ہی میں ابن جبرود نے ان کو شہید کردیا۔”
(دلائل النبوة للبیہقی ج:۶ ص:۴۱۵، کنز العمال ج:۱۱ ص:۳۳۰ حدیث:۳۱۶۵۲)
یہ ناکارہ، انجمن سپاہ صحابہ کے احساسات کی قدر کرتا ہے، لیکن مندرجہ بالا پس منظر کی روشنی میں جناب سے انصاف کی بھیک مانگتے ہوئے التجا کرتا ہے کہ آپ کے خط کا یہ فقرہ ہم خدامِ ختم نبوت کے لئے نہایت تکلیف دہ ہے کہ:
“ختم نبوت میں وہ کون سے لوگ ہیں جو صحابہ کرام کے دشمن ہیں، تاکہ ان کا بندوبست کیا جائے۔”
انصاف کیجئے کہ اگر خدامِ ختم نبوت اس کتاب کے نقل کردینے کی وجہ سے “دشمنِ صحابہ” کے خطاب کے مستحق ہیں تو مولانا احمد سعید دہلوی اور ان سے پہلے امام بیہقی اور دیگر وہ تمام اکابر جنہوں نے یہ حدیث نقل کی ہے کس خطاب کے مستحق ہوں گے․․․؟
میں سمجھتا ہوں کہ یہ ایک ایسی زیادتی ہے کہ جو انجمن سپاہ صحابہ کی طرف سے خدامِ ختم نبوت سے کی گئی، جس کی شکایت بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں کی جائے گی، اور میں آنجناب سے توقع رکھوں گا کہ آپ اس زیادتی پر معذرت کریں۔
۲:…آپ نے جن اہلِ علم کو خطوط لکھے ہیں، آپ کے لئے زیادہ موزوں یہ تھا کہ آپ ان حضرات سے یہ استفسار کرتے کہ یہ حدیث جو “ختم نبوت” میں حضرت مولانا احمد سعید دہلوی کی کتاب میں امام بیہقی کے حوالے سے درج کی گئی ہے، جرح و تعدیل کی میزان میں اس کا کیا وزن ہے؟ وہ فنِ حدیث کی روشنی میں صحیح ہے یا ضعیف؟ یا خالص موضوع(من گھڑت)؟ اور یہ مقبول ہے یا مردود؟ اگر صحیح یا مقبول ہے تو اس کی تاویل کیا ہے؟ جو ایک جلیل القدر صحابی، حواریٴ رسول، احد العشرة المبشرة کی جلالتِ قدر اور علوِ مرتبت سے میل کھاتی ہو․․․؟
آپ کے اس سوال کے جواب میں اہلِ علم جو کچھ تحریر فرماتے آپ اسے “ختم نبوت” میں شائع کرنے کے لئے بھیج دیتے، یہ ایک بہترین علمی خدمت بھی ہوتی اور اس سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی عظمت و محبت بھی قلوب میں جاگزیں ہوتی۔
مجھے اندیشہ ہے کہ اس خط میں جس جذباتیت کا مظاہرہ کیا گیا ہے خدانخواستہ آگے نہ بڑھ جائے، اور کل یہ کہا جانے لگے کہ قرآن کریم میں جلیل القدر انبیائے کرام علیہم السلام کو -نعوذ باللہ- ظالم کہا گیا ہے، مثلاً:
آدم علیہ السلام کے بارے میں دو جگہ ہے:
“وَلَا تَقْرَبَا ھٰذِہِ الشَّجَرَةَ فَتَکُوْنَا مِنَ الظَّالِمِیْنَ۔”
(البقرة:۳۵، الاعراف:۱۹)
حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بارے میں ہے:
“رَبِّ اِنِّیْ ظَلَمْتُ نَفْسِیْ فَاغْفِرْلِیْ۔” (القصص:۱۶)
حضرت یونس علیہ السلام کے بارے میں ہے:
“لَا اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ سُبْحَانَکَ اِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظَّالِمِیْنَ۔” (الانبیاء:۸۷)
اب ایک “سپاہِ انبیاء” تشکیل دی جائے گی اور وہ، بزرگوں کے نام اس مضمون کا خط جاری کرے گی کہ: “ترتیبِ قرآن میں وہ کون لوگ گھس آئے تھے جو انبیائے کرام کے دشمن تھے؟ تاکہ ان کا بندوبست کیا جائے!”
ظاہر ہے کہ انبیائے کرام کا مرتبہ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ سے برتر ہے اور “ختم نبوت” کو قرآن کریم سے کیا نسبت؟
اب اگر انبیائے کرام علیہم السلام کے حق میں قرآن کریم کے مقدس الفاظ کی کوئی مناسب تاویل کی جاسکتی ہے تو اسی قسم کی تاویل حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کے حق میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ کی بھی کیوں نہ کرلی جائے؟ ختم نبوت میں “دشمنانِ صحابہ” کو تلاش کرنے کی ضرورت نہیں؟
حقوق اللہ اور حقوق العباد
س… حضرت مولانا صاحب! اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ: “جہل کا علاج سوال ہے۔” عہد رسالت میں ایک شخص کو جو بیمار تھا غسل کی حاجت ہوئی، لوگوں نے اسے غسل کرادیا وہ بیچارہ سردی سے ٹھٹھر کر مرگیا، جب یہ خبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی تو آپ بہت ناراض ہوئے اور فرمایا: “اسے مار ڈالا خدا اسے مارے، کیا جہل کا علاج سوال نہ تھا۔”
حضرت ام سلیم نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: “خدا حق بات سے نہیں شرماتا، کیا عورت پر بھی غسل ہے (احتلام کی حالت میں)؟”
حضرت عائشہ فرمایا کرتی تھیں: خدا کی رحمت ہو انصاری عورتوں پر، شرم انہیں اپنا دین سیکھنے سے باز نہ رکھ سکی۔
حضرت اصمعی سے پوچھا گیا: آپ نے یہ تمام علوم کیسے حاصل کئے؟ تو فرمایا: “مسلسل سوال سے اور ایک ایک لفظ گرہ میں باندھ کر۔”
حضرت عمر بن عبدالعزیز فرمایا کرتے تھے: “بہت کچھ علم مجھے حاصل ہے لیکن جن باتوں کے سوال سے میں شرمایا تھا ان سے اس بڑھاپے میں بھی جاہل ہوں۔”
ابراہیم بن مہدی کا قول ہے: “بے وقوفوں کی طرح سوال کرو اور عقلمندوں کی طرح یاد کرو۔”
مشہور مقولہ ہے: “جو سوال کرنے میں سبکی اور عار محسوس کرتا ہے اس کا علم بھی ہلکا ہوتا ہے۔” (العلم والعلماء علامہ ابن البر اندلسی)
اس تمہید کے بعد مجھے چند سوالات کرنے ہیں:
“اذا جاء حق الله ذھب حق العبد” اور دُوسرا قول بالکل اس کے برعکس ہے: “حق العبد مقدم علی حق الله” کون سا قول مستند ہے؟ اور کیا یہ اقوالِ حدیث ہیں؟
ج… یہ احادیث نہیں بزرگوں کے اقوال ہیں اور دونوں اپنی جگہ صحیح ہیں، پہلے قول کا مطلب یہ ہے کہ جب حق الله کی ادائیگی کا وقت آجائے تو مخلوق کے حقوق ختم اور یہ ایسا ہی ہے جیسا حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے ساتھ مشغول ہوتے تھے اور جب نماز کا وقت آجاتا تو “قام کأن لم یعرفنا”، اس طرح اٹھ کر چلے جاتے گویا ہمیں جانتے ہی نہیں۔
دوسرے قول کا مطلب یہ ہے کہ حقوق العباد اور حقوق اللہ جمع ہوجائیں تو حقوق العباد کا ادا کرنا مقدم ہے۔
کیا موت کی موت سے انسان صفتِ الٰہی میں شامل نہیں ہوگا؟
س… آخرت میں موت کو ایک مینڈھے کی شکل میں لاکر ذبح کردیا جائے گا، اس سے تو ہمیشہ کی زندگی لازم آگئی جو حق تعالیٰ کی صفت ہے، پھر “مَا دَامَتِ السَّمٰوٰتُ وَالْاَرْضُ اِلَّا مَاشَآءَ رَبُّکَ” بھی فرمایا ہے حالانکہ زمین آسمان سب لپیٹ دئیے جائیں گے، “یَوْمَ نَطْوِی السَّمَآءَ کَطَیِّ السِّجِلِّ لِلْکُتُبِ”۔
ج… اہل جنت کی ہمیشہ کی زندگی امکان عدم کے ساتھ ہوگی اور حق تعالیٰ شانہ کے لئے ہمیشہ کی زندگی بغیر امکان عدم کے ہے اور امکان ایک ایسا عیب ہے جس کے ہوتے ہوئے اور کسی نقص کی ضرورت نہیں رہ جاتی: “اِلَّا مَاشَآءَ رَبُّکَ۔” میں اسی امکان کا ذکر ہے۔
رُوحِ انسانی
س… رُوحِ انسانی جو من امر ربی ہے، مجرد اور لا یتجزیٰ ہے، پھر کیا وجہ ہے کہ ایک بچے کی رُوح اور جوان کی رُوح کیفیت اور کمیت کے اعتبار سے متفاوت ہے، دُوسرے یہ کہ جوان کی رُوح کے لئے تزکیہ درکار ہے کیونکہ وہ نفس کی ہمسائیگی سے شہوات اور رذائل میں ملوث ہوگئی ہے، مگر بچے کی رُوح تو ابھی بے لوث ہے تو چاہئے کہ اس پر حقائق اشیاء منکشف ہوں، مگر ایسا نہیں ہوتا کیونکہ اس پر ابھی عقل کا فیضان نہیں ہوا، اس سے ثابت ہوا کہ رُوح بذات خود ادراک نہیں رکھتی، یعنی گونگی اور اندھی ہے اور بغیر عقل اس کی کوئی حیثیت نہیں، اور وہ حدیث شریف جس میں منکر نکیر کے بارے میں سن کر حضرت عمر نے پوچھا تھا کہ یا رسول اللہ! اس وقت ہماری عقل بھی ہوگی یا نہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس سے زیادہ ہوگی۔ انہوں نے کہا پھر کچھ ڈر نہیں۔ اس سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ عقل کے بغیر رُوح کسی کام کی نہیں، دُوسری طرف رُوح کے بڑے بڑے محیر العقول کارنامے اور واقعات کتابوں میں ملتے ہیں، بہت سے علماء اور صوفیاء نے فرمایا ہے کہ عقل رُوح اور قلب ایک ہی چیز ہے، نسبت بدلنے سے ان کے نام جدا بولے جاتے ہیں، امام غزالی نے بھی احیاء العلوم میں باب عجائبات قلب میں یہی کہا ہے صوفیاء کا شعر ہے:
عقل و رُوح و قلب تینوں ایک چیز
فعل کی نسبت سے کر ان میں تمیز
ج… یہ سوال بھی آپ کے حیطہٴ علم و ادراک سے باہر ہے، جیسا کہ: “من امر ربی” میں اس طرف اشارہ فرمایا گیا ہے، تقریب فہم کے لئے بس اتنا عرض کیا جاسکتا ہے کہ اس مادی عالم میں رُوح مجرد کے تمام مادی افعال کا ظہور مادی آلات (عقل و شعور) کے ذریعہ ہوتا ہے اور مادیت کی طرف احتیاج رُوح کا قصور نہیں بلکہ اس عالم مادیت کا قصور ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس عالم مادیت میں حضرات انبیاء علیہم السلام بھی خورد و نوش کے فی الجملہ محتاج ہیں، کیونکہ رُوح کا جسم کے ساتھ علاقہ پیوستہ ہے، جیسا کہ: “وَمَا جَعَلْنٰھُمْ جَسَدًا لَّا یَأْکُلُوْنَ الطَّعَامَ ․․․․” میں اس کی طرف اشارہ ہے، اور یہی وجہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان پر خورد و نوش کے محتاج نہیں، اور یہی وجہ ہے کہ نزول فرمائیں گے تو آسمان سے مشرقی مینار تک کا سفر تو فرشتوں کے ساتھ ہوگا اور مینار پر قدم رکھتے ہی سیڑھی طلب فرمائیں گے، کیونکہ اب مادی احکام شروع ہوگئے۔
خلاصہ یہ کہ اس مادی عالم میں رُوح اپنے تصرفات کے لئے مادی آلات کی محتاج ہے، آپ چاہیں تو اپنے الفاظ میں اسے اندھی، بہری، گونگا اور لا یعقل کہہ لیں، اور رُوح کا تفاوت فی الافعال بھی اس کے آلات کے تفاوت سے ہے، مگر مادی آلات کے ذریعہ جو افعال رُوح سے سرزد ہوتے ہیں وہ ان کے رنگ سے رنگ جاتے ہیں اور نیک و بد اعمال سے مزکی اور ملوث ہوتی ہے، قبر کا بھی تعلق فی الجملہ عالم مادیت سے ہے اور فی الجملہ عالم تجرد سے، اس بنا پر اس کو عالم برزخ کہا جاتا ہے کہ یہ نہ تو بکل وجوہ عالم مادیت ہے اور نہ عالم مجرد محض ہے، اس لئے عقل و شعور یہاں بھی درکار ہے۔ (والتفصیل فی التفسیر الکبیر ج:۲۱ ص:۳۶ تا ۵۲)
س… بندہ ایک عامی اور جاہل شخص ہے، علم سے دور کا بھی مس نہیں، کسی دینی ادارے میں نہیں بیٹھا، علمائے کرام سے تخاطب کے آداب اور سوال کرنے کا طریقہ بھی نہیں معلوم، اس لئے گزارش ہے کہ کہیں بھول چوک یا بے ادبی محسوس ہو تو ازراہ کرم اس کو میری کم علمی کے سبب در گزر فرمادیا کریں۔
ج… آپ کے سوالات تو عالمانہ ہیں، اور آداب تخاطب کی بات یہاں چسپاں نہیں کیونکہ یہ ناکارہ خود بھی مجہول مطلق ہے، یہ تو ایک دوست کا دوست سے مخاطبہ ہے۔
چرند پرند کی رُوح سے کیا مراد ہے؟
س… انسان کے علاوہ دُوسری ہزاروں مخلوق چرند، پرند، درند، آبی، صحرائی وغیرہ کی تخلیق کس طرح ہوئی؟ اور کیا ان کو “قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ” والی رُوح سے بھی کچھ حصہ ملا ہے یا ان میں صرف رُوحِ انسانی ہوتی ہے جو غذا سے حاصل ہوتی ہے؟ اور کیا ان کی ارواح بھی فرشتہ قبض کرتا ہے؟
ج… یہ تو ظاہر ہے کہ ہر جاندار کی رُوح اَمرِ رَبّ سے ہی آتی ہے، آیت میں ہر رُوح مراد ہے یا صرف رُوحِ انسانی، دونوں احتمال ہیں۔ مجھے اس کی تحقیق نہیں اور تلاش کی فرصت نہیں۔
یہ ذوقیات ہیں
س… شیخ عبدالحق محدث دہلوی فرماتے ہیں: “آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مظہر ذات الٰہی اور دُوسرے انبیاء مظہر صفات الٰہی ہیں، اور عام مخلوق مظہر اسمائے الٰہی ہے۔” جب کہ حضرت مجدد صاحب اپنے مکتوب ۴۵ بنام خوا جہ حسام الدین میں لکھتے ہیں: “تمام کائنات حق تعالیٰ کے اسماء و صفات کا آئینہ ہے، لیکن اس کی ذات کا کوئی آئینہ ہے اور نہ مظہر، اس کی ذات کو عالم کے ساتھ کوئی مناسبت نہیں۔”
ج… یہ امور منصوص تو ہیں نہیں، اکابر کے ذوقیات ہیں اور ذوقیات میں اختلاف مشاہد ہے، بہرحال یہ امور اعتقادی نہیں ذوقی ہیں۔
“تخلقوا باخلاق الله” کا مطلب
س… “تخلقوا باخلاق الله” سلوک میں مطلوب ہے، اللہ تعالیٰ کی صفات میں جبار، قہار، منتقم، متکبر اور اسی قسم کے اور بھی اسماء ہیں، پھر یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اللہ کی صفات میں شریک ہونا شرک ہے اور دُوسری طرف اس کی صفات سے متصف ہونا درجات کی بلندی کا معیار بھی ہے۔
ج… اسمائے الٰہیہ دو قسم کے ہیں، ایک وہ ہیں کہ مخلوق کو بقدر پیمانہ ان سے کچھ ہلکا سا عکس نصیب ہوجاتا ہے، ان صفات کو بقدر امکان اپنے اندر پیدا کرنا مطلوب ہے، “تخلقوا باخلاق الله” سے یہی مراد ہے، مثلاً روٴف، رحیم، غفور، ودود وغیرہ۔ دُوسری قسم وہ اسماء ہیں جن کے ساتھ ذات الٰہی متفرد ہے، وہاں ان اسمائے حسنیٰ سے انفعال (اثر لینا) مطلوب ہے، مثلاً قہار کے مقابلے میں اپنی مقہوریت تامہ کا استحضار، عزیز کے مقابلے میں اپنی ذلت تامہ اور غنی کے مقابلے میں اپنے فقر کا رسوخ، یہاں “تخلقوا باخلاق الله” کا ظہور انفعال کامل کی شکل میں ہوگا۔
کیا بغیر مشاہدہ کے یقین معتبر نہیں؟
س… “وَکَذٰلِکَ نُرِیَ اِبْرَاہِیْمَ مَلَکُوْتَ… الٰی… مُوْقِنِیْنَ۔” اس سے معلوم ہوا کہ بغیر مشاہدے کے یقین معتبر نہیں، حضرت ابراہیم علیہ السلام اولوالعزم پیغمبروں میں سے ہیں ان پر صحیفے بھی نازل ہوئے (صحف ابراہیم و موسیٰ) اور بہت سے عجائبات قدرت انہوں نے دیکھے، ہر وقت ان کا اللہ تعالیٰ سے قلبی رابطہ تھا، ان کو ملکوت السمٰوات والارض کی سیر بھی کرائی گئی، اس کے باوجود ان کا قلب مطمئن نہیں ہوتا اور “کَیْفَ تُحْیِ الْمُوْتٰی” کا سوال کرتے ہیں، تو پھر ایک عام سالک جو اللہ کے راستے پر چل رہا ہے اور اپنی لذات کی قربانی دے کر اپنی جان کھپا رہا ہے اور عالم قدس سے بشکل صوت و صورت اس پر کوئی فیضان نہیں ہو رہا پھر بھی اس کی طاعت میں کوئی کمی نہیں آتی، ایسی صورت میں وہ زیادہ اس بات کا حقدار ہے کہ اس کو ملکوت سے کچھ مشاہدہ کرادیا جائے تاکہ اس کی حوصلہ افزائی ہو اور استقامت نصیب ہو۔ انبیاء تو ویسے بھی ہر وقت ملکوت کی سیر کرتے رہتے ہیں۔
ج… یقین کے درجات مختلف ہیں، یقین کا ایک درجہ عین الیقین کا ہے جو آنکھ سے دیکھنے کے بعد حاصل ہوتا ہے اور ایک حق الیقین کا ہے جو تجربہ کے بعد حاصل ہوتا ہے، اسی طرح عامہ موٴمنین، ابرار و صدیقین، انبیاء و مرسلین علیہم السلام کے درجات میں بھی تفاوت ہے، ایمان کا درجہ تو عامہ موٴمنین کو بھی حاصل ہے اور ابرار و صدیقین کو ان کے درجات کے مطابق یقین کی دولت سے نوازا جاتا ہے اور حضرات انبیائے کرام علیہم السلام کے مراتب کے مطابق ان کو درجات یقین عطا کئے جاتے ہیں، پس حضرت ابراہیم علیہ السلام کا سوال “کَیْفَ تُحْیِ الْمُوْتٰی” اس درجہ یقین اور اطمینان جو بلا روٴیت ہو پہلے بھی حاصل تھا۔ سالکین اور اولیاء اللہ کو بھی مشاہدات کی دولت سے نوازا جاتا ہے اور بغیر مشاہدات کے بھی ان کو یقین و اطمینان “ایمان بالغیب” کے طور پر حاصل ہوتا ہے لیکن ان کے ایمان اور اطمینان کو انبیائے کرام علیہم السلام کے ایمان و اطمینان سے کوئی نسبت نہیں اور وہ ان کے اطمینان اور یقین کا تحمل بھی نہیں کرسکتے ورنہ ہوش و حواس کھو بیٹھیں۔
آلِ رسول کا مصداق
س… حضرات حسنین رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی اولاد کو آلِ رسول کہا جاتا ہے، حضرت بی بی فاطمہ کی وجہ سے، تو کیا وجہ ہے کہ آپ کی دُوسری صاحبزادیوں کی اولاد کو آلِ رسول نہیں کہتے؟ حالانکہ حضرت عثمان کی ازواج حضرت ام کلثوم اور حضرت رقیہ رضی اللہ عنہما سے بھی اولاد بہت پھیلی ہے؟
ج… یہ عزت حضرت فاطمہ کی خصوصیت تھی کہ ان کی اولاد آلِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کہلائی، دُوسری صاحبزادیوں سے نسل چلی نہیں۔
ذاتِ حق کے لئے مفرد و جمع کے صیغوں کا استعمال
س… اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام پاک میں اپنے لئے کبھی تو “اَنَا” واحد کا صیغہ استعمال کیا ہے اور کبھی “نَحْنُ” جمع کا صیغہ جیسے: “اِنِّیْ اَنَا اللهُ” ، “نَحْنَ نَزَّلْنَا عَلَیْکَ الْقُرْاٰنَ” اس تفریق کی کیا وجہ ہے؟
ج… اصل تو صیغہ واحد ہے لیکن کبھی کبھی اظہار عظمت کے لئے صیغہ جمع استعمال کیا جاتا ہے “اِنِّیْ اَنَا اللهُ” میں توحید ہے اور توحید کے لئے واحد کا صیغہ موزوں تر ہے اور “اِنَّا نَحْنَ نَزَّلْنَا عَلَیْکَ الْقُرْاٰنَ” میں اس عظیم الشان کتاب کی تنزیل اور حفاظت کا ذکر ہے اور یہ دونوں منزل (نازل کرنے والے) اور محافظ (حفاظت کرنے والے) کی عظمت وقدرت کو مقتضی ہیں اس لئے یہاں جمع کا صیغہ لانا بلیغ تر ہوا، والله أعلم بأسرارہ!
یہ عباد الرحمن کی صفات ہیں
س… “وَالَّذِیْنَ لَا یَدْعُوْنَ مَعَ اللهِ اِلٰہً آخَرَ وَلَا یَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللهُ اِلَّا بِالْحَقِّ وَلَا یَزْنُوْنَ ․․․․ الٰی ․․․․ وَیُبَدِّلُ اللهُ سَیِّئَاتِھِمْ حَسَنَاتٍ ․․․․ الخ” آپ نے فرمایا کہ یہ آیت کفار کے بارے میں ہے جب کہ یہ آیت عبادالرحمن کے بارے میں بہت آگے سے چلی آرہی ہے “وَعِبَادُ الرَّحْمٰنِ الَّذِیْنَ یَمْشُوْنَ․․․․” سے لے کر “وَکَانَ اللهُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا” اور پھر آگے بھی عباد الرحمن کی صفات بیان کی گئی ہیں تو درمیان میں کفار کا تذکرہ کہاں ہے؟ معارف القرآن میں بھی یہی لکھا ہے جو آپ نے فرمایا مگر قرینے سے اوصاف اور عیوب عبادالرحمن ہی کے معلوم ہوتے ہیں۔
ج… اگر جاہلیت میں یہ افعال سرزد ہوئے ہوں اور پھر وہ “اِلَّا مَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا” کے ذیل میں آگئے تو عباد الرحمن کے عنوان سے ان کا ذکر کیا جاتا، اور بندہ کا یہ کہنا کہ یہ کفار کے بارے میں ہے جو کہ بعد میں مسلمان ہوگئے تھے ان دونوں باتوں میں تعارض کیا ہے؟ صفات تو عبادالرحمن ہی کی بیان ہو رہی ہیں ان میں یہ ذکر کیا کہ شرک نہیں کرتے، قتل نہیں کرتے، زنا نہیں کرتے اور الَّا کے بعد بتایا گیا کہ جنہوں نے بحالت کفر ان گناہوں کا ارتکاب کیا مگر بعد میں ایمان اور عمل صالح کرکے اس کا تدارک کرلیا وہ بھی عبادالرحمن میں شامل ہیں۔
س… “اِلَّا مَنْ تَابَ” کے متعلق آپ نے فرمایا کہ جنہوں نے بحالت کفر ان گناہوں کا ارتکاب کیا۔ اس میں صرف اتنا اور پوچھنا ہے کہ “بحالت کفر” کی صراحت آیت میں کہاں ہے؟ بحالت ایمان مرتکب گناہ بھی تو توبہ سے پاک ہوجاتا ہے۔
ج… درمنثور میں شانِ نزول کی جو روایات نقل کی ہیں ان سے یہ بات معلوم ہوتی ہے۔
ڈارون کا نظریہ نفیٴ خالق پر مبنی ہے
س… درندے پرندے اور ہزارہا مخلوق اللہ کی کس طرح پیدا ہوئی، آپ نے جواب میں فرمایا کہ: “اس بارے میں کوئی تصریح نظر سے نہیں گزری۔” تو اس بارے میں عقیدہ کیا رکھا جائے؟ اگر مذہب اس بارے میں کوئی رہنمائی نہیں کرتا تو مخلوق کے بارے میں ڈارون کے نظریہٴ ارتقاء کو تقویت ملتی ہے۔
ج… ڈارون کا نظریہ تو نفی خالق پر مبنی ہے، اتنا عقیدہ تو لازم ہے کہ تمام اصناف مخلوق کو تخلیق الٰہی نے وجود بخشا ہے، لیکن کس طرح اس کی تفصیل کا علم نہیں۔
انسان کس طرح وجود میں آیا؟
س… جناب مولانا صاحب قرآن و حدیث سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان میں حضرت آدم کو بنایا اور ہم سب ان کی اولاد ہیں مگر ۱۵/۴/۱۹۸۹ء بروز جمعہ کو ہم نے ٹی،وی پر دن کے ۱۰ بجے ایک فلم دیکھی جس میں یہ بتایا گیا کہ انسان مرحلہ وار اس شکل میں آیا یعنی پہلے جراثیم پھر مچھلی بندر وغیرہ اور اس کی آخری شکل آج کے انسان کی ہوئی۔
اب آپ وضاحت کے ساتھ بتائیں کہ شریعت کا اس بارے میں کیا فیصلہ ہے اور ایک مسلمان کا اس بارے میں کیا ایمان ہونا چاہئے۔اگر یہ ٹی وی والی فلم غلط ہے تو اس کا ذمہ دار کون ہے؟
ج… یہ ڈارون کا نظریہٴ ارتقاء ہے کہ سب سے پہلا انسان (حضرت آدم علیہ السلام) یکایک قائم وجود میں نہیں آیا، بلکہ بہت سی ارتقائی منزلیں طے کرتے ہوئے بندر کی شکل وجود میں آئی، اور پھر بندر نے مزید ارتقائی جست لگا کر انسان کی شکل اختیار کرلی، یہ نظریہ اب سائنس کی دُنیا میں بھی فرسودہ ہوچکا ہے، اس لئے اس طویل عرصے میں انسان نے کوئی ارتقائی منزل طے نہیں کی، بلکہ ترقیٴ معکوس کے طور پر انسان تدریجاً “انسان نما جانور” بنتا جارہا ہے۔
جہاں تک اہل اسلام کا تعلق ہے ان کو ڈارون کے نظریہٴ ارتقا پر ایمان لانے کی ضرورت نہیں، ان کے سامنے قرآن کریم کا واضح اعلان موجود ہے کہ “اللہ تعالیٰ نے مٹی سے آدم کا قالب بنایا، اسی میں رُوح پھونکی، اور وہ جیتے جاگتے انسان بن گئے۔”
جس فلم کا آپ نے ذکر کیا ہے ممکن ہے کہ ان کا قرآن و حدیث پر ایمان نہ ہو، اور جن لوگوں نے ٹی وی پر یہ فلم دکھائی وہ بھی قرآن و حدیث کے بجائے ڈارون پر ایمان رکھتے ہوں گے، لیکن جس چیز پر مجھے تعجب ہے وہ یہ ہے کہ پاکستان میں اس فلم کے دکھائے جانے پر کسی نے احتجاج نہیں کیا، ایسا لگتا ہے کہ وطن عزیز کو غیرشعوری طور پر لادین اور ملحد بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔
کیا حدیث کی صحت کے لئے دِل کی گواہی کا اعتبار ہے؟
س… حضرت ابی اسید سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “جب تم مجھ سے مروی کوئی حدیث سنو جس کو تمہارے دل مان لیں اور تمہارے شعور نرم پڑجائیں اور تم یہ بات محسوس کرو کہ یہ بات تمہاری ذہنیت سے قریب تر ہے تو یقینا تمہاری نسبت میری ذہنیت اس سے قریب تر ہوگی (یعنی وہ حدیث میری ہوسکتی ہے) اور اگر خود تمہارے دل اس حدیث کا انکار کریں اور وہ بات تمہاری ذہنیت اور شعور سے دور ہو تو سمجھو کہ تمہاری نسبت وہ بات میری ذہنیت سے دور ہوگی اور وہ میری حدیث نہ ہوگی۔” یہ حدیث کس پائے کی ہے؟ اور اس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کس کو حکم بنایا ہے؟ کیونکہ ہر فرد تو مخاطب ہو نہیں سکتا، اور ہر ایک کی ذہنیت اور سطحِ علم ایک جیسی نہیں۔
حضرت علی سے مروی ہے کہ: “جب تم کوئی حدیث سنو تو اس کے بارے میں وہی گمان کرو جو زیادہ صحیح گمان ہو۔ زیادہ مبارک اور زیادہ پاکیزہ ہو۔” اس حدیث کی سند کیسی ہے؟
ج… یہ حدیث شریف مسند احمد میں دو جگہ (ایک ہی سند سے) مروی ہے (ج:۵ ص:۴۲۵، ج:۳ ص:۹۷)، مسند بزار (حدیث:۱۸۷)، صحیح ابن حبان میں ہے، ہیثمی نے مجمع الزوائد میں، امام ابن کثیر نے تفسیر میں، زبیدی شارح احیا نے اتحاف میں اور ابن عراق نے “تنزیہ الشریعة المرفوعة” میں قرطبی کے حوالے سے اس کو صحیح کہا ہے، علامہ ابن جوزی نے اس کو موضوعات میں شمار کیا ہے اور عُقیلی نے اس پر جرح کی ہے، شوکانی “الفوائد المجموعة” میں کہتے ہیں کہ میرا جی اس پر مطمئن نہیں۔
آپ کا یہ ارشاد صحیح ہے کہ ہر فرد اس کا مخاطب نہیں ہوسکتا، اس کے مخاطب یا تو صحابہ کرام تھے، جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کلمات طیبات سے خاص مناسبت رکھتے تھے، یا ان کے بعد محدثین حضرات ہیں جن کے مزاج میں الفاظ نبوی کو پہچاننے کا ملکہ قویہ پیدا ہوگیا ہے، بہرحال عامة الناس اس کے مخاطب نہیں اور یہ ایسا ہی ہے جیسے کہ دُوسری حدیث میں فرمایا: “استفت قلبک ولو افتاک المفتون” یعنی اپنے دل سے فتویٰ پوچھو (چاہے مفتی تمہیں فتوے دے دیں) یہ ارشاد ارباب قلوب صافیہ کے لئے ہے، ان کے لئے نہیں جن کے دل اندھے ہوں۔
عذابِ شدید کے درجات
س… قرآن پاک میں ہدہد کی غیرحاضری کے لئے بطور سزا یہ الفاظ آئے ہیں: “لَأُعَذِّبَنَّہ عَذَابًا شَدِیْدًا اَوْ لَأَذْبَحَنَّہ” سورہ مائدہ میں من و سلویٰ کی ناشکری پر بھی یہ الفاظ ہیں: “فِاِنِّیْ اُعَذِّبُہ عَذَابًا لَا اُعَذِّبُہ…” پہلا قول حضرت سلیمان علیہ السلام کا اور دُوسرا حق تعالیٰ کا، تقریباً ملتے جلتے ہیں، جب کہ ہدہد اور قوم بنی اسرائیل کے جرم میں زمین آسمان کا فرق ہے، ایک چھوٹے سے پرندے کے لئے عذاباً شدیداً کچھ مبالغہ آمیز معلوم ہوتا ہے۔
ج… “عَذَابًا شَدِیْدًا” اور “عَذَابًا لَا اُعَذِّبُہ اَحَدًا مِّنَ الْعَالَمِیْنَ” کے درمیان وہی زمین آسمان کا فرق ہے جو ہدہد اور بنی اسرائیل کے جرم میں ہے، عذاب شدید کے درجات بھی مختلف ہوتے ہیں اور جن کو عذاب دیا جائے ان کے حالات بھی مختلف ہیں، ہدہد غریب کو کسی ناجنس کے ساتھ پنجرے میں بند کردینا بھی عذاب شدید ہے، انبیائے کرام علیہم السلام کے کلام میں بے جا مبالغہ نہیں ہوتا۔
قرآن میں درج دوسروں کے اقوال قرآن ہیں؟
س… قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے دوسروں کے اقوال بھی دہرائے ہیں، جیسے عزیز مصر کا قول: “اِنَّ کَیْدَکُنَّ عَظِیْمٌ۔” یا بلقیس کا قول: “اِنَّ الْمُلُوْکَ اِذَا دَخَلُوْا۔” کیا ان اقوال کی بھی وہی اہمیت اور حقیقت ہے جو کلام اللہ کی ہے؟ بعض واعظین اس طرح بیان کرتے ہیں دیکھو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: “اِنَّ کَیْدَکُنَّ عَظِیْمٌ” حالانکہ یہ غیراللہ کا قول ہے، اللہ تعالیٰ نے صرف اس کو نقل کیا ہے۔
ج… اللہ تعالیٰ نے جب ان اقوال کو نقل فرمادیا تو یہ اقوال بھی کلام الٰہی کا حصہ بن گئے اور ان کی تلاوت پر بھی ثواب موعود ملے گا(یہ ناکارہ بطور لطیفہ کہا کرتا ہے کہ قرآن کریم میں فرعون، ہامان، قارون اور ابلیس کے نام آتے ہیں اور ان کی تلاوت پر بھی پچاس، پچاس نیکیاں ملتی ہیں) پھر قرآن کریم میں جو اقوال نقل فرمائے گئے ہیں ان میں سے بعض پر رد فرمایا ہے جیسے کفار کے بہت سے اقوال، اور بعض کو بلا تردید نقل فرمایا ہے، تو اقوال مردود تو ظاہر ہے کہ مردود ہیں، لیکن جن اقوال کو بلا نکیر نقل فرمایا ہے وہ ہمارے لئے حجت ہیں، پس عزیز مصر کا قول اور بلقیس کا قول اسی دُوسری قسم میں شامل ہیں اور ان کے بارے میں یہ کہنا صحیح ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔
کلامِ الٰہی میں درج مخلوق کا کلام نفسی ہوگا؟
س… آپ نے فرمایا “جب غیراللہ کے اقوال اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام میں نقل کئے ہیں تو وہ بھی کلام الٰہی کا حصہ بن گئے۔” اس سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ اقوال کلام الٰہی کا حصہ بن گئے تب بھی یہ کلام نفسی تو نہ ہوئے کیونکہ کلام نفسی تو قدیم ہے اور یہ قول کسی زمانے میں کسی انسان سے ادا ہوئے، اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے انہیں دہرادیا، تو یہ اقوال تو مخلوق ہوئے اور ہمارا عقیدہ ہے کہ قرآن سارا غیرمخلوق ہے۔
ج… مخلوق کے کلام کا کلام الٰہی میں آنا بظاہر محل اشکال ہے، لیکن اس پر نظر کی جائے کہ اللہ تعالیٰ کے علم میں ماضی و مستقبل یکساں ہیں تو یہ اشکال نہیں رہتا، یعنی مخلوق پیدا ہوئی، اس سے کوئی کلام صادر ہوا، اللہ تعالیٰ نے بعد از صدور اس کو نقل فرمایا تو واقعی اشکال ہوگا، لیکن مخلوق پیدا ہونے اور اس سے کلام صادر ہونے سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ کے علم میں تھا، اور اس علم قدیم کو کلام قدیم میں نقل فرمادیا۔
“اَلصَّحَابَةُ کُلُّہُمْ عَدُوْلٌ” کی تشریح
س… “الصحابة کلہم عدول” ، “أصحابی کالنجوم” کیا یہ احادیث کے اقوال ہیں؟ لیکن حدیث تو مستند ہے کہ: “لوگ حوض کوثر پر آئیں گے، فرشتے انہیں روکیں گے، میں کہوں گا یہ میرے اصحاب ہیں، جواب ملے گا تمہیں نہیں معلوم انہوں نے تمہارے بعد کیا کیا؟” اس حدیث شریف سے تمام صحابہ کا عدول ہونا بظاہر ثابت نہیں ہوتا(یہ ایک اشکال ہے صرف)، اسی طرح یہ حدیث شریف کہ جس صحابی کی اقتداء کروگے ہدایت پاوٴگے۔ تو اگر کوئی کہے کہ میں تو عمرو بن العاص اور مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہما کی اقتداء کرتا ہوں اور معاملات میں انصاف نہ کرے اور حوالہ دے ان کے واقعات کا مثلاً عمرو بن العاص نے ابو موسیٰ اشعری کے ساتھ جو کیا جب کہ دونوں صفین میں حکم بنائے گئے، تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اقتداء جس سے ہدایت ملے وہ صحابہ کرام کے عقیدے اور رسوخِ ایمان کی ہے جس کی مثال مشکل ہے، ان کے اعمال عادات و اطوار کی اقتداء مراد نہیں؟
ج… “أصحابی کالنجوم” کا مضمون صحیح ہے، مگر الفاظ حدیث کے نہیں۔ صحابہ کرام کے افعال دو قسم کے ہیں، بعض تو اتباع نصوص کی وجہ سے اور بعض بنا بر اجتہاد۔ پھر اجتہادی امور بھی دو قسم کے ہیں، ایک وہ جن پر کسی ایک فریق کا صواب یا خطا پر ہونا ظن غالب سے متعین نہیں ہوا، ایسے اجتہادی امور میں مجتہد کے لئے کسی ایک قول کا اختیار کرلینا صحیح ہے جو مجتہد کے نزدیک ترجیح رکھتا ہو، اور دُوسری قسم وہ ہے کہ ایک فریق کا خطا پر ہونا ظن غالب سے ثابت ہوجائے، ایسے اقوال و افعال میں مخطی کا اتباع نہیں کیا جائے گا، البتہ ان کو اپنے اجتہاد کی بنا پر معذور بلکہ ماجور قرار دیا جائے گا، اس لئے: “بایھم اقتدیتم اھتدیتم” کو اس شرط کے ساتھ مشروط کیا جائے گا کہ ان کا خطا پر ہونا غلبہ ظن سے ثابت نہ ہو، البتہ یوں کہا جائے گا کہ انہوں نے بھی اتباع ہدایت کا قصد کیا لہٰذا ان پر ملامت نہیں۔ جہاں تک “الصحابة کلہم عدول” کا تعلق ہے یہ بھی حدیث نہیں بلکہ اہل سنت کا قاعدہ مسلّمہ ہے اور ان اکابر کے “کلہم عدول” ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ معصوم تھے، جس ہدایت کو ہم صحابہ کرام سے منسوب کرتے ہیں وہ دو چیزیں ہیں: ایک یہ کہ وہ کبائر سے پرہیز کرتے تھے اور ان کے نفوس طیبہ میں اجتناب عن الکبائر کا ملکہ راسخ ہوچکا تھا، دوم یہ کہ اگر کسی سے بتقاضائے بشریت احیاناً کسی کبیرہ کا شاذ و نادر کبھی صدور ہوا تو انہوں نے فوراً اس سے توبہ کرلی اور بہ برکت صحبت نبوی ان کے نفوس اس گناہ کے رنگ سے رنگین نہیں ہوئے اور : “التائب من الذنب کمن لا ذنب لہ” ارشادِ نبوی ہے اس لئے ان ارتکاب کبیرہ کے باوجود توبہ کی وجہ سے عادل رہے، فاسق نہیں ہوئے، حضرت نانوتوی اور دیگر اکابر نے اس پر طویل گفتگو فرمائی ہے میں نے خلاصہ لکھ دیا جو حل اشکال کے لئے اِن شاء اللہ کافی ہے۔
صحابہ کرام نجومِ ہدایت ہیں
س… “أصحابی کالنجوم” اور “الصحابة کلہم عدول” آپ نے فرمایا کہ دونوں اقوال حدیث شریف کے نہیں، اگر ایسا ہے تو کوئی اشکال نہیں، اگر حدیث شریف ہے تو درایت پر پوری نہیں اترتی، اس لئے کہ بہت سے صحابہ سے بڑی بڑی لغزشیں ہوئیں، جیسے حضرت امیر معاویہ، عمرو بن العاص، مغیرہ بن شعبہ، عبیداللہ بن عمر، عبداللہ بن ابی سرج وغیرہ۔
ج… “الصحابة کلہم عدول” حدیث تو نہیں لیکن اہل حق کا مسلّمہ عقیدہ ہے، اور اکابر کی تقلید میں میرا عقیدہ یہ ہے کہ صحابہ کرام بلا استثنا نجومِ ہدایت تھے، اور سب کے سب عادل تھے، لیکن آنجناب نے عدل کے معنی عصمت کے سمجھے ہیں، صحابہ کرام عادل تھے، معصوم نہ تھے، اور عدل کے معنی ہیں عمداً ارتکاب کبائر سے اور اصرار علی الصغائر سے بچنا اور اگر احیاناً معاصی کا صدور ہوجائے تو فوراً توبہ کرلینا۔
جن صحابہ کرام کا نام لے کر آپ نے فرمایا ہے کہ ان سے بڑی بڑی لغزشیں ہوئیں، ان میں سے کون سی غلطی ایسی ہے جس کی معافی کا اعلان اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہ ہوچکا ہو؟ اور وہ “کُلًّا وَّعَدَ اللهُ الْحُسْنٰی” کے وعدہٴ خداوندی سے مستثنیٰ ہوں، ابن ابی سرج مرتد ہوکر مسلمان ہوگئے تھے، اس کے بعد ان سے کون سی غلطیاں ہوئیں؟ حضرت عمرو بن العاص، مغیرہ بن شعبہ اور امیر معاویہ نے جو کچھ کیا وہ ان کی اجتہادی غلطی تھی اور آنجناب کو معلوم ہے کہ اجتہادی لغزش تو عصمت کے بھی منافی نہیں چہ جائیکہ عدل کے منافی ہو۔ قرآن کریم میں نبی معصوم کے بارے میں فرمایا گیا ہے: “وَعَصٰی ٰادَمُ رَبَّہ فَغَوَیٰ” اس میں عصیان اور غوایت کی نسبت کی گئی ہے، مگر یہ فعل اجتہاداً تھا اس لئے یہ عصیان بھی صورتاً ہوا نہ حقیقتاً، اسی طرح صحابہ کرام کی جن جن بڑی غلطیوں کا آپ ذکر کر رہے ہیں وہ بھی اجتہاداً تھیں جن پر وہ ماجور ہیں نہ کہ مازور۔ خلاصہ یہ ہے کہ ان حضرات نے جو کچھ کیا اپنے اپنے اجتہاد کے مطابق رضائے الٰہی کے لئے کیا، اگر کسی کا اجتہاد خطا کرگیا تب بھی وہ نہ لائق ملامت ہے اور نہ اس کی اجتہادی خطا کو حقیقتاً غلطی کہنا صحیح ہے، نہ ان کے اجتہاد کی غلطی عدل کے منافی ہے اور نہ ان کے نجوم ہدایت ہونے کے خلاف ہے۔
سوءِ ادب کی بو آتی ہے
س… صحابہ کرام سے محبت رکھنا، عزت و عقیدت سے ان کا ذکر کرنا بندہ کا بھی جزو ایمان ہے، بلکہ اکثر اس میں غلو بھی ہوجاتا ہے، میرا سوال صرف یہ تھا کہ یہ جو قول ہے کہ جس کی اقتداء کرو گے ہدایت پاوٴگے، تو یہ اقتداء میں نے عرض کیا تھا کہ ان کے عقائد اور ایمان کی معلوم ہوتی ہے کہ اس میں جتنا ان کو رسوخ تھا اس کی مثال مشکل ہے، مگر ان کے اعمال میں اقتداء کا حکم نہیں ہے، مجھے خوشی ہے کہ میرے اس قول میں امام مزنی کا قول بھی تائید میں ملا ہے، أصحابی کالنجوم کی شرح میں فرماتے ہیں:
“اگر یہ حدیث صحیح ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ روایت دین میں تمام صحابی ثقہ اور معتبر ہیں اس کے علاوہ اور کوئی معنی میرے نزدیک درست نہیں کیونکہ اگر خود صحابہ اپنی رائے ہمیشہ صائب اور غلطی سے مبرا سمجھتے ہوتے تو نہ آپس میں ایک دُوسرے کی تغلیط کرتے اور نہ اپنے کسی قول سے رجوع کرتے حالانکہ بے شمار موقعوں پر وہ ایسا کرچکے ہیں۔”
الحمدللہ ثم الحمدللہ بس یہی مراد تھی، اور یہ میرے اس قول کا مطلب ہے کہ اقتداء صحابہ کرام کے عقائد اور ایمان کی معلوم ہوتی ہے، ان کے اعمال، عادات و اطوار کی نہیں، آپ اس سے کہاں تک متفق ہیں؟
ج… آپ نے حضرت معاویہ، حضرت عمرو بن العاص اور حضرت مغیرہ بن شعبہ کے متعلق جو الفاظ لکھے تھے ان سے کچھ سوءِ ادب کی بو آتی ہے، عقائد و ایمان تو سب کا ایک ہی تھا اور بیشتر اعمال بھی اور بعض اعمال میں اجتہادی اختلاف بھی تھا، تاہم “جس کی اقتداء کرو گے ہدایت پاوٴگے” کا یہی مصداق ہے، یعنی سب اپنی جگہ حق و ہدایت پر ہیں، جیسا کہ ائمہ اربعہ کے بارے میں اہل سنت قائل ہیں کہ وہ سب برحق ہیں ان کا ایک دُوسرے کی تردید و تغلیط کرنا بھی بنا بر اجتہاد ہے، ہر مجتہد اپنی رائے صائب اور غلطی سے مبرا سمجھتا ہے مگر ضنًّا۔
صحابہ کے بارے میں تاریخی رطب و یابس کو نقل کرنا سوءِ ادب ہے
س… آپ نے فرمایا کہ صحابہ کرام کے بارے میں جو الفاظ بندے نے لکھے تھے ان سے سوءِ ادب کی بو آتی ہے۔ حق تعالیٰ سوءِ ادب سے محفوظ رکھے، صحابہ تو بہت بڑے مرتبوں کے مالک ہیں، بندہ تو ایک فاجر و فاسق مسلمان کی ذات کو بھی عزت کی نظر سے دیکھتا ہے، اس پر بندے کے کچھ اشعار سماعت فرمائیں:
ہر مسلمان کو محبت ہے رسول اللہ سے
ہر مسلمان کو رسول اللہ کی نسبت سے دیکھ
ہر مسلمان محترم تجھ کو نظر آئے گا پھر
جب بھی دیکھے تو مسلمان کو اسی نسبت سے دیکھ
اس سے آگے بھی ایک ادب ہے جو خالق و مخلوق کی نسبت سے ہے:
وہ شرابی ہو کہ زانی فعل مطلق ہے برا
فعل کی تحقیر کر پر ذات کو عزت سے دیکھ
پھر بندے کی نظر میں اس سے بھی آگے اک ادب ہے:
کنبہ سب خالق کا ہے مخلوق ہے جتنی یہاں
کیا نصاریٰ کیا مسلمان سب کو تو عزت سے دیکھ
میرے یہ اشعار عام مخلوق خدا کے بارے میں ہیں تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ادب کا اسی سے اندازہ ہوسکتا ہے، کسی واقعہ کو جو متفق علیہ ہو تاریخ سے یا حدیث سے نقل کرنا مجھ ناچیز کے خیال میں تو سوءِ ادب میں نہیں آتا کیونکہ اس کے مرتکب تو سیکڑوں موٴرخین، مفسرین، محدثین اور علماء و فضلاء ہوئے ہیں، پھر تو وہ سب بے ادب ٹھہرتے ہیں؟
اگر آپ امام مزنی کے قول سے متفق ہیں تو بس وہی بندے کی مراد تھی کہ صحابہ کی اقتداء ان کی روایت دین اور ثقاہت ایمان میں معلوم ہوتی ہے نہ کہ ان کے افعال و اقوال و عادات و اطوار اور ذاتی اعمال میں۔ بہت موٹی سی بات ہے کہ جب شارع علیہ السلام کے عادات و اطوار نشست و برخاست جو سنن زوائد کہلاتی ہیں، ان کے اتباع کی امت مسلمہ مکلف نہیں ہے تو اصحاب رسول کے عادات و اطوار اور افعال کی کیسے مکلف ہوسکتی ہے؟ بندہ کم علم ہے اس لئے شاید اپنے مافی الضمیر کو اچھی طرح بیان نہیں کرسکا، آپ صاحب علم ہیں یقینا سمجھ گئے ہوں گے کہ میری مراد کیا ہے؟
ج… تاریخ میں تو رطب و یابس سب کچھ بھردیا گیا ہے، لیکن ان واقعات کو بطور استدلال نقل کرنا سوءِ ادب سے خالی نہیں، ان کے محاسن سے قطع نظر کرتے ہوئے یہ کہنا کہ ان سے بڑی بڑی غلطیاں ہوئیں ہم جیسے لوگوں کے حوصلے سے بڑی بات ہے۔
امام مزنی کا قول میری نظر سے نہیں گزرا تاکہ یہ دیکھتا کہ ان کی مراد کیا ہے؟ جہاں تک صحابہ کرام کی اقتداء کا مسئلہ ہے بعض ظاہریہ تو ان کے اقوال و افعال کو حجت ہی نہیں سمجھتے، ابن حزم ظاہری اکثر یہ فقرہ دہراتے رہتے ہیں : “لا حجة فی قول صاحب ولا تابع”، لیکن عامة العلماء کے نزدیک صحابہ کے اقوال و افعال بھی لائق اقتداء ہیں البتہ تعارض احوال و افعال کی صورت میں ترجیح کا اصول چلتا ہے جس کو مجتہدین جانتے ہیں، بہرحال ہمارے لئے اس مسئلے پر گفتگو بے سود ہے، ہمارے لئے اتنی بات بس ہے کہ وہ حضرات لائق اقتداء ہیں۔
حضرت خضر علیہ السلام کے جملہ پر اِشکال
س… “فَاَرَدْنَا اَنْ یُّبْدِلَھُمَا رَبُّھُمَا” خضر علیہ السلام نے بظاہر یہاں شرکیہ جملہ بولا کہ اللہ تعالیٰ کے ارادے کے ساتھ اپنا ارادہ بھی شامل کردیا حالانکہ بظاہر: “فَاَرَادَ رَبُّکَ اَنْ یُّبْدِلَھُمَا” زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے۔
ج… اس قصے میں تین واقعات ذکر کئے گئے ہیں: ۱:کشتی کا توڑنا۔ ۲:لڑکے کو قتل کرنا۔ ۳:دیوار بنانا۔ ان تینوں کی تاویل بتاتے ہوئے حضرت خضر علیہ السلام نے “اَرَدْتُّ”، “اَرَدْنَا” اور “اَرَادَ رَبُّکَ” تین مختلف صیغے استعمال فرمائے ہیں، اس کو تفنن عبارت بھی کہہ سکتے ہیں اور ہر صیغے کا خاص نکتہ بھی بیان کیا جاسکتا ہے:
۱:…مسکینوں کی کشتی توڑدینا خصوصاً جب کہ انہوں نے کرایہ بھی نہیں لیا تھا، اگرچہ اپنے انجام کے اعتبار سے ان کا نقصان تھا جس کا بظاہر کوئی بدل بھی نہیں ادا کیا گیا اور ظاہر نظر میں بھلائی کا بدلہ برائی تھا اور شر بلا بدل بلکہ بعدالاحسان تھا، اس لئے ادباً مع اللہ اس کو اپنی طرف منسوب فرمایا اور “اَرَدْتُّ” کہا۔
۲:…بچے کا قتل کرنا بھی بظاہر شر تھا، مگر اللہ تعالیٰ نے اس کا بدل والدین کو عطا فرمایا جو ان کے حق میں خیر تھا، پس یہاں دو پہلو جمع ہوگئے، ایک بظاہر شر، اس کو اپنی طرف منسوب کرنا تھا اور دُوسرا خیر یعنی بدل کا عطا کئے جانا، اس کو حق تعالیٰ شانہ کی طرف منسوب کرنا تھا، اس لئے جمع کا صیغہ استعمال فرمایا تاکہ شر کو اپنی طرف اور اس کے بدل کو حق تعالیٰ کی طرف منسوب کیا جاسکے۔
۳:…اور یتیموں کی دیوار کا بنادینا خیر محض تھا، جس میں شر کا ظاہری پہلو بھی نہیں تھا، نیز ان یتیموں کا سن بلوغ کو پہنچنا ارادہٴ الٰہی کے تابع تھا، اس لئے یہاں خود بیچ میں سے نکل گئے اور اس کو حق تعالیٰ شانہ کی طرف منسوب فرمایا: “فَاَرَادَ رَبُّکَ” اس سے معلوم ہوا کہ دُوسرے نمبر پر شرکیہ جملہ نہیں بولا بلکہ شرکت کا جملہ بولا تاکہ شر اور خیر کو از خود تقسیم کرکے بظاہر شر کو اپنی طرف اور اس کے بدل کو جو خیر تھا، حق تعالیٰ کی طرف منسوب کریں، والله أعلم بأسرار کلامہ!
اتنا بڑی جنت کی حکمت
س… حدیث شریف میں ہے کہ سبحان اللہ والحمد للہ اور اللہ اکبر کہنے والے کے لئے جنت میں ہر کلمے کے عوض ایک پیڑ لگایا جاتا ہے، اس طرح بہت سے اعمال پر ایک محل عطا ہونے کی بشارت آئی ہے، انسان اپنی زندگی میں یہ کلمہ طیبہ لاکھوں کی تعداد میں کرتا ہے، تو ان لاکھوں محلات اور باغات کی اس کو کیا ضرورت ہوگی؟ اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ اگر آدمی فلاں عمل اپنی زندگی کے آخر تک کرتا رہے اور اس پر مرے تو اس کے لئے ایسا ایسا محل تیار کیا جائے گا؟
ج… دوام کی قید نہیں بلکہ مطلق عمل پر یہ اجر ہے، رہا یہ کہ اتنے لاکھوں محلات کی کیا ضرورت؟ یہ “قیاس غائب علی الشاہد” ہے۔ یہ حدیث تو علم میں ہوگی کہ ادنیٰ جنتی کو آپ کی پوری دُنیا سے دس گنا زیادہ جنت عطا کی جائے گی۔ یہاں بھی آپ کا یہ سوال متوجہ ہوگا کہ اتنی بڑی جنت کو کیا کرے گا؟ بہرحال آخرت کے امور ہماری عقل و قیاس کے پیمانوں میں نہیں سماسکتے، “اعدت لعبادی الصالحین ما لا عین رأت ولا اذن سمعت ولا خطر علی قلب بشر” حدیث قدسی ہے۔ ایک مرتبہ تبلیغی سفر میں ایک بزرگ فرمانے لگے کہ مولویو! یہ بتاوٴ کہ اتنی بڑی جنت کو کوئی کیا کرے گا؟ پھر خود ہی فرمادیا کہ تمام اہل جنت ایک جنتی کی برادری ہے، کبھی آدمی کا جی چاہے کہ پوری برادری کی دعوت کرے، کیونکہ سب معزز مہمان ہیں اس لئے ہر فرد کے لئے ٹھہرنے کو الگ جگہ ہونی چاہئے، لہٰذا ایک جنتی کے پاس اتنی بڑی جنت ہونی چاہئے کہ یہ بیک وقت تمام اہل جنت کو مع ان کے حشم و خدم کے ٹھہراسکے۔
(مشکوٰة ج:۲ ص:۲۹۵)
جنات کے لئے رسول
س… کہا جاتا ہے کہ انسانوں میں انسان ہی رسول ہوتا ہے اور یہ امر ربی ہے، جیسا کہ سورہ بنی اسرائیل کی آیت :۹۶،۹۵ میں فرمایا:
ترجمہ:…”اور لوگوں کو کوئی چیز ایمان لانے سے مانع نہیں ہوئی، جب ان کے پاس ہدایت آئی، مگر یہ کہ انہوں نے کہا اللہ نے ایک انسان کو رسول بنا کر بھیجا ہے، کہہ اگر زمین میں فرشتے اطمینان سے چلتے پھرتے تو ضرور ہم ان پر آسمان سے فرشتہ رسول بنا کر بھیجتے۔”
اس آیت کی روشنی میں وضاحت فرمائیے کہ حدیث میں ایک جگہ ذکر آتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک گروہ سے ملاقات کی تھی اور انہوں نے اسے جنوں کا گروہ قرار دیا تھا، کہ کیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم انسانوں کے علاوہ جنوں کی طرف بھی رسول تھے، یا جنات کے لئے جن ہی رسول ہونا چاہئے؟
ج… آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جنوں کے لئے بھی رسول تھے، قرآن کریم میں جنات کا بارگاہ عالی میں حاضر ہوکر قرآن کریم سننااور ایمان لانا مذکورہ ہے (سورة احقاف) فرشتے کھانے پینے وغیرہ کی ضروریات سے پاک ہیں اس لئے ان کو انسانوں کے لئے نبی نہیں بنایا گیا، جنات کے لئے انسانوں کو نبی بنایا گیا ، جنات کے لئے جن کا رسول بنایا جانا منقول نہیں۔
حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام دُنیا کے لئے بعثت
س… رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ساتویں صدی عیسوی میں ساری دُنیا کے لئے مبعوث ہوئے تھے، “ساری دُنیا میں” براعظم امریکہ بھی شامل ہے مگر وہاں تک اسلام کی دعوت خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بلکہ تابعین، تبع تابعین، اور اس کے بہت عرصہ بعد تک صوفیائے کرام کے ذریعہ بھی نہیں پہنچی، تا آنکہ پندرہویں صدی میں امریکہ دریافت ہوا، ساتویں صدی عیسوی سے پندرہویں صدی عیسوی تک -آٹھ سو سال- امریکہ مکمل جہالت کی تاریکی میں ڈوبا رہا۔
امریکہ کے قدیم باشندے، جنہیں ریڈ انڈین کا نام دیا گیا، وہ مظاہر پرست ہی رہے، وہ حضرت نوح علیہ السلام کے کسی بیٹے کی اولاد ہیں؟ جیسا کہ ایشیائی اقوام کو سام کی، افریقی اقوام کو حام کی اور یورپی اقوام کو یافث کی اولاد تسلیم کیا گیا ہے۔
حضرت عقبہ بن نافع نے جس وقت “بحرظلمات” میں گھوڑا ڈال دیا اور زمین ختم ہوجانے پر حسرت کا اظہار کیا تھا اس وقت بھی وہاں سے بہت دور امریکہ کی سرزمین موجود تھی۔ سوال یہ ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر اور صحابہ کرام اور صوفیائے عظام کی بصیرت سے امریکہ کیسے بچا رہا؟
ج… جب معلوم دُنیا میں امریکہ کا وجود ہی کسی کو معلوم نہ تھا تو وہاں دعوت پہنچانے کا بھی کوئی مکلف نہیں تھا، اور جب امریکہ دریافت ہوا تو وہاں دعوت بھی پہنچ گئی، جن امور کا آدمی مکلف ہے اور جس پر اس سے قیامت کے دن باز پرس ہوگی، آدمی کو ان امور میں غور کرنا چاہئے، اور جن امور کا وہ مکلف ہی نہیں ان میں غور و فکر لایعنی اور بے مقصد ہے، جس کا کوئی نتیجہ نہیں، واللہ اعلم!
کیا قبرِ اَطہر کی مٹی عرش و کعبہ سے افضل ہے؟
س… میرے پاس ایک کتاب ہے جس کا نام ہے “تاریخ المدینة المنورہ” جس کے موٴلف جناب محمد عبدالمعبود ہیں، اور اس پر تقریظ شیخ القرآن مولانا غلام اللہ خان صاحب مدظلہ مہتمم دارالعلوم تعلیم القرآن راجہ بازار راولپنڈی والوں کی ہے، تقریظ کی تاریخ یکم فروری ۱۹۷۸ء ہے، مولانا غلام اللہ خان صاحب نے بڑی تعریف فرمائی ہے، اور ایران سے آغا محمد حسین تسبیحی مدظلہم نے کتاب کو اس قدر پسند فرمایا کہ اس کا فارسی ترجمہ کرنے کی پیش کش فرمائی، مزید یہ کہ ولی زماں مفسر قرآن حضرت لاہوری کے خلف الرشید حضرت مولانا عبیداللہ انور دامت مجدہم کی تقریظات نے اس کی افادیت پر مہر تصدیق ثبت فرما کر اسے اور بھی چار چاند لگادئے ہیں۔ اس کتاب کی فہرست مضامین میں یہ ہے نمبر۱: مکہ معظمہ افضل ہے یا مدینہ طیبہ؟ نمبر۲: مدینہ طیبہ کی مکہ معظمہ پر فضیلت۔ نمبر۳: مدینہ طیبہ مکہ معظمہ سے افضل ہے، اب اس کے متعلق تفصیل بڑی طویل ہے میں کوشش کروں گا کہ مختصر بیان کروں، لکھا ہے کہ:
“امت کا اس بات پر اجماع ہے کہ تمام روئے زمین پر افضل مقامات اور بزرگ ترین شہروں میں مکہ مکرّمہ اور مدینہ منوّرہ ہے زادھما الله تشریفًا وتعظیمًا۔ اب ان دو شہروں میں سے کس کو دُوسرے پر فضیلت اور ترجیح دی جائے؟ تو اس میں علمائے کرام کے عقول و اذہان بھی متحیر ہیں بایں ہمہ علمائے کرام اس بات پر متفق ہیں کہ زمین کا وہ خطہ اور متبرک حصہ جو رحمت للعالمین فخرِ موجودات صلی اللہ علیہ وسلم کے جسدِ اطہر اور اعضائے شریفہ سے مس کئے ہوئے ہیں وہ نہ صرف مکہ مکرّمہ بلکہ کعبة اللہ سے بھی افضل ہے، سمواتِ سبع تو کجا عرشِ عظیم سے بھی اس کی شان، بالا، اعلیٰ، برتر، اَرفع اور انتہائی بلند ہے۔”
آگے ایک حوالہ یہ بھی تحریر ہے کہ:
“امیر الموٴمنین سیدنا عمر فاروق اور سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اور دیگر صحابہٴ کرام کی ایک جماعت اور حضرت مالک بن انس اور اکثر علمائے مدینہ، مکہ مکرمہ پر مدینہ منورہ کو فضیلت دیتے ہیں، اسی طرح بعض علمائے کرام بھی مدینہ طیبہ کی فضیلت کے قائل ہیں، مگر وہ شہر مدینہ طیبہ کو مکہ مکرمہ کے شہر پر تو فضیلت دیتے ہیں البتہ کعبة اللہ کو مستثنیٰ کرتے ہیں اور کعبہ معظمہ کو سب سے افضل قرار دیتے ہیں، لیکن یہ بات طے شدہ ہے اور اسی پر علمائے متقدین و متأخرین کا اتفاق ہے کہ قبر اطہر سید کائنات رحمت موجودات صلی اللہ علیہ وسلم مطلقاً اور بالعموم افضل و اکرم، انصب و ارفع ہے خواہ شہر مکہ مکرمہ ہو یا کعبة اللہ ہو یا عرش مجید ہو، اس کتاب میں حضرت علامة العصر الشیخ محمد یوسف بنوری مدظلہ نے معارف السنن جلد:۳ ص:۳۲۳ میں نہایت شرح و بسط کے ساتھ اس موضوع پر بحث کی ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ قبر اطہر، سات آسمانوں، عرش مجید اور کعبة اللہ سے افضل ہے اور اس میں کسی کا بھی اختلاف نہیں ہے۔”
میرے محترم بزرگ میں اس پر مکمل اتفاق کرتا ہوں اور یہ میرا ایمان ہے کہ اول ذات اللہ کی ہے اس کے بعد کوئی افضل ذات ہے تو اللہ کے آخری نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہے جو افضل و اعلیٰ ہے، باقی ساری چیزیں افضلیت میں کم ہیں، یہ سچ ہے کہ کعبة اللہ شریف کی بڑی عظمت و افضلیت ہے اور عرش عظیم، لوح و قلم وغیرہ کی اپنی اپنی عظمت اور افضلیت ہے، اس کا کوئی بھی مسلمان انکار کرنہیں سکتا، اگر انکار کرے تو وہ مسلمان نہیں، لیکن پہلے اللہ اور پھر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، میرے محترم بزرگ میرے دوستوں اور احبابوں میں سے بعض حضرات اس کو تسلیم نہیں کرتے اور کہتے ہیں کہ روضہٴ اطہر صلی اللہ علیہ وسلم کعبة اللہ اور عرش اعظم سے افضل ہو نہیں سکتا اور ایسی باتیں کہنا نہیں چاہئے، اور وہ قرآن کی ٹھوس دلیل چاہتے ہیں، تو لہٰذا میں بہت پریشان ہوں کس کو سچ مانوں اور کس کو غلط، میں حضرت والا سے نہایت ادب و احترام سے گزارش کرتا ہوں کہ قرآن کی دلیل اور احادیث کی روشنی میں تحریری جواب سے نوازیں کہ درست کیا ہے؟
ج… جو مسئلہ اس کتاب میں ذکر کیا ہے وہ قریب قریب اہل علم کا اجماعی مسئلہ ہے، وجہ اس کی بالکل ظاہر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم افضل الخلق ہیں، کوئی مخلوق بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے افضل نہیں اور ایک حدیث میں ہے کہ آدمی جس مٹی سے پیدا ہوتا ہے اسی میں دفن کیا جاتا ہے، لہٰذا جس پاک مٹی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جسد اطہر کی تدفین ہوئی اسی سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تخلیق ہوئی، اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم افضل الخلق ہوئے تو وہ پاک مٹی بھی تمام مخلوق سے افضل ہوئی۔
علاوہ ازیں زمین کے جن اجزاء کو افضل الرسل، افضل البشر، افضل الخلق صلی اللہ علیہ وسلم کے جسد اطہر سے مس ہونے کا شرف حاصل ہے وہ باقی تمام مخلوقات سے اس لئے بھی افضل ہیں کہ یہ شرف عظیم ان کے سوا کسی مخلوق کو حاصل نہیں۔
آپ کا یہ ارشاد بالکل بجا اور برحق ہے کہ “پہلے اللہ اور پھر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں” مگر زیر بحث مسئلے میں خدانخواستہ اللہ تعالیٰ کے درمیان اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان تقابل نہیں کیا جارہا، بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان اور دُوسری مخلوقات کے درمیان تقابل ہے، کعبہ ہو، عرش ہو، کرسی ہو، یہ سب مخلوق ہیں، اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تمام مخلوق سے افضل ہیں، اور قبر مبارک کی جسد اطہر سے لگی ہوئی مٹی اس اعتبار سے اشرف و افضل ہے کہ جسد اطہر سے ہم آغوش ہونے کی جو سعادت اسے حاصل ہے وہ نہ کعبہ کو حاصل ہے، نہ عرش و کرسی کو۔
اور اگر یہ خیال ہو کہ ان چیزوں کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہے، اور روضہٴ مطہرہ کی مٹی کی نسبت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہے، اس لئے یہ چیزیں اس مٹی سے افضل ہونی چاہئیں، تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس پاک مٹی کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ملابست کی نسبت ہے، اور کعبہ اور عرش و کرسی کو حق تعالیٰ شانہ سے ملابست کا تعلق نہیں، کہ حق تعالیٰ شانہ اس سے پاک ہیں۔
حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عقدِ نکاح
س… یکم فروری ۱۹۸۹ء کو “تفہیمِ دین” پروگرام میں ٹی وی پر جناب ریاض الحسن گیلانی صاحب نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ: حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ۲۱ نکاح کئے، جن میں ۱۳ ازواج کو قائم رکھا جبکہ ۸ کو طلاق دی۔ جہاں تک میرے ناقص علم میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے طلاق کو ایک بُرا فعل ظاہر کیا ہے، جو مجبوراً دینے کی اجازت ہے، اس کے علاوہ ہمارے علم میں کوئی طلاق حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی کسی زوجہ کو نہیں دی۔ برائے مہربانی اس کی حقیقتِ حال بیان کی جائے۔
ج… ۲۱ عقد میرے علم میں نہیں، جہاں تک مجھے معلوم ہے دو عورتوں کو نکاح کے بعد آبادی سے پہلے ان کی خواہش پر طلاق دی تھی۔ میری کتاب “عہدِ نبوّت کے ماہ و سال” میں اس کی تفصیل ہے۔
معجزہٴ شق القمر
س… ہمارے یہاں ایک مولوی صاحب جو مسجد کے امام بھی ہیں ان کا عقیدہ یہ ہے کہ شق قمر والا جو معجزہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے ظاہر ہوا تھا وہ صحیح نہیں ہے اور نہ ہی اس کا ثبوت ہے براہ کرم اس کے متعلق صحیح احادیث لکھ دیں تاکہ ان کی تسلی ہو۔
ج… شق قمر کا معجزہ صحیح احادیث میں حضرت ابن مسعود، حضرت ابن عباس، حضرت انس بن مالک، حضرت جبیر بن مطعم، حضرت حذیفہ، حضرت علی رضی اللہ عنہم وغیرہم سے مروی ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے:
“انشق القمر علی عہد رسول الله صلی الله علیہ وسلم فرقتین،فرقة فوق الجبل وفرقة دونہ فقال رسول الله صلی الله علیہ وسلم اشہدوا۔”
(صحیح بخاری ج:۲ ص:۷۲۱، صحیح مسلم ج:۲ ص:۳۷۳، ترمذی ج:۲ ص:۱۶۱)
ترجمہ:…” رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں چاند دو ٹکڑے ہوا، ایک ٹکڑا پہاڑ سے اُوپر تھا اور ایک پہاڑ سے نیچے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: گواہ رہو۔”
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے:
“انشق القمر فی زمان النبی صلی الله علیہ وسلم۔”
(صحیح بخاری ج:۲ ص:۷۲۱ ، صحیح مسلم ج:۲ ص:۳۷۳، ترمذی ج:۲ ص:۱۶۱)
ترجمہ:…”آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں چاند دو ٹکڑے ہوا۔”
حضرت انس رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے:
“ان اہل مکة سألوا رسول الله علیہ وسلم ان یریہم اٰیة فاراہم انشقاق القمر مرتین۔”
(صحیح بخاری ج:۲ ص:۷۲۲، صحیح مسلم ج:۲ ص:۳۷۳، ترمذی ج:۲ ص:۱۶۱)
ترجمہ:…”اہل مکہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ کوئی معجزہ دکھائیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو چاند کے دو ٹکڑے ہونے کا معجزہ دکھایا۔”
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث میں ہے:
“انفلق القمر علی عہد رسول الله صلی الله علیہ وسلم ، فقال رسول الله صلی الله علیہ وسلم اشہدوا۔” (صحیح مسلم ص:۳۷۳ ج:۲ ترمذی ص:۱۶۱ ج:۲)
ترجمہ:…”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں چاند دو ٹکڑے ہوا، پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا گواہ رہو۔”
حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے:
“انشق القمر علی عہد رسول الله صلی الله علیہ وسلم حتی صار فرقتین علی ہذا الجبل وعلیٰ ہذا الجبل، فقالوا سحرنا محمد، فقال بعضہم لان سحرنا فما یستطیع ان یسحر الناس کلہم۔” (ترمذی ج:۲ ص:۱۶۱)
ترجمہ:…”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں چاند دوٹکڑے ہوا، یہاں تک کہ ایک ٹکڑا اس پہاڑ پر تھا، اور ایک ٹکڑا اس پہاڑ پر، مشرکین نے کہا کہ محمد(ﷺ) نے ہم پر جادو کردیا، اس پر ان میں سے بعض نے کہا کہ اگر اس نے ہم پر جادو کردیا ہے تو سارے لوگوں پر تو جادو نہیں کرسکتا ( اس لئے باہر کے لوگوں سے معلوم کیا جائے چنانچہ انہوں نے باہر سے آنے والوں سے تحقیق کی تو انہوں نے بھی تصدیق کی)۔”
حافظ ابن کثیر نے البدایة والنہایة (ج:۳ ص:۱۱۹) میں حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کی حدیث بھی نقل کی ہے، اور حافظ ابن حجر نے فتح الباری (ج:۶ ص:۶۳۲) میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی حدیث کا بھی حوالہ دیا ہے۔
امام نووی شرح مسلم میں لکھتے ہیں:
“قاضی عیاض فرماتے ہیں کہ چاند کا دو ٹکڑے ہوجانا ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اہم ترین معجزات میں سے ہے، اور اس کو متعدد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے روایت کیا ہے، علاوہ ازیں آیت کریمہ: “اِقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ” کا ظاہر و سیاق بھی اسی کی تائید کرتا ہے۔
زجاج کہتے ہیں کہ بعض اہل بدعت نے، جو مخالفین ملت کے مشابہ ہیں، اس کا انکار کیا ہے، اور یہ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے دل کو اندھا کردیا ہے، ورنہ عقل کو اس میں مجال انکار نہیں۔” (نووی:شرح مسلم ج:۲ ص:۳۷۳)