اللہ تعالیٰ کی محبت میں رونا

س… حدیث شریف میں اللہ کے خوف سے رونے پر بڑی فضیلت بیان کی گئی ہے، دوزخ کی آگ اس پر حرام ہے وغیرہ۔ جب کہ اللہ کی محبت، اشتیاق، طلب اور اس کے ہجر میں رونے کی کوئی حدیث یا فضیلت نظر سے نہیں گزری، اوروں کا حال تو معلوم نہیں، بندہ اپنی حالت عرض کرتا ہے کہ خوف سے تو پوری زندگی میں کبھی رونا نہیں آیا، البتہ اس کی یاد، محبت اور ذکر کرتے وقت بے اختیار رونا پہلے تو روز کا معمول تھا (ایک حالت گریہ طاری تھی) اور اب بھی اتنا تو نہیں مگر پھر بھی گریہ طاری ہوجاتا ہے، قرآن پاک سن کر، کوئی رقت آمیز واقعہ سن کر، کوئی ہجر و فراق اور محبوب کی بے اعتنائی کا مضمون سن کر، اپنی حسرت نایافت کا روزنامچہ پڑھ کر، کیا کوئی حدیث اس کے متعلق بھی ہے؟

ج… یہ تو ظاہر ہے رونا کئی طرح کا ہوتا ہے، محبت و اشتیاق میں رونا اور خوف و خشیت سے رونا۔ اور یہ بھی ظاہر ہے کہ اوّل الذکر موٴخر الذکر سے اعلیٰ و ارفع ہے، پس جب مفضول کی فضیلت معلوم ہوگئی تو افضل کی اس سے خود بخود معلوم ہوجائے گی، مثلاً: شہداء کے جتنے فضائل احادیث میں ذکر کئے گئے ہیں، صدیقین کے بظاہر اتنے نہیں ملتے، مگر سب جانتے ہیں کہ صدیقین شہدأ سے افضل ہیں، پس جو فضائل شہدأ کے ہیں صدیقین کے ان سے اعلیٰ و ارفع ہیں۔ علاوہ ازیں خشیت الٰہی سے رونے کی فضیلت اس بنا پر بھی ذکر کی گئی ہے کہ بندے کی حالتِ ضعف و ناکارگی کا تقاضا یہی ہے کہ وہ خشیت الٰہی سے روئے، اس لئے کہ حق تعالیٰ کی بارگاہِ بے چون وچگون کے لائق پوری زندگی کا ایک عمل بھی نظر نہیں آتا، بندہ اپنی بے چارگی کی بنأ پر بالکل صفر اور خالی ہاتھ نظر آتا ہے، خطاوٴں، غلطیوں اور گناہوں کے انبار در انبار ہیں، لیکن ان کے مقابلے میں نیکی ایک بھی ایسی نہیں جو اس بارگاہ عالی کے شایان شان ہو، اور جس کے بارے میں بندہ جرأت کے ساتھ یہ کہہ سکے کہ یہ نیکی لایا ہوں۔ ایسی حالت میں عشق و محبت کے سارے خیالات دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں اور سوائے خوف و خشیت کے کچھ پلّے نہیں رہتا، گویا خوف سے رونے کی فضیلت جن احادیث میں آئی ہے ان میں۔ واللہ اعلم۔ یہ رمز ہے کہ بندے کو “ایاز قدر خویش بہ شناس” پر نظر رہے اور عشق و محبت کے دعووٴں سے مغرور نہ ہوجائے۔

صنفِ نازک کا جوہرِ اصلی

س… مولانا صاحب! آج کل ہر طرف عریانی، فحاشی اور بے حیائی کے مناظر اور مظاہرے عام ہو رہے ہیں، کبھی کسی عنوان سے اور کبھی کسی عنوان سے صنفِ نازک کے جوہرِ اصلی، شرم و حیا اور عفت و عصمت کو تار تار کیا جارہا ہے، لیکن اس بے حیائی کے خلاف کوئی آواز نہیں اُٹھاتا۔ آپ سے درخواست ہے کہ اس سلسلے میں اُمت کی راہ نمائی فرمادیں، نوازش ہوگی۔

ج… کسی زمانے میں شرم و حیا، صنفِ نازک کا اصل جوہر، انسانی سوسائٹی کی بلند قدر، اسلامیت کا پاکیزہ شعار اور مشرقی معاشرے کا قابلِ فخر امتیازی نشان سمجھا جاتا تھا۔ اوّل تو انسان کی فطرت ہی میں عفت، حیا اور ستر کا جذبہ ودیعت فرمایا گیا ہے (بشرطیکہ فطرت مسخ نہ ہوگئی ہو)، پھر مسلمانوں کو اپنے محبوب پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم (باٰبائنا ھو وأمھاتنا وأرواحنا) کے یہ ارشادات یاد تھے:

۱:… چار چیزیں تمام رسولوں کی سنت ہیں: حیا، خوشبو کا استعمال، مسواک اور نکاح۔ (ترمذی)

۲:… ایمان کے ستر سے زائد شعبے ہیں، ان میں سب سے بڑھ کر “لا اِلٰہ اِلَّا الله” کہنا ہے، اور سب سے کم درجہ راستے سے تکلیف دہ چیز کا ہٹانا ہے، اور حیا، ایمان کا بہت بڑا شعبہ ہے۔ (بخاری و مسلم)

۳:… حیا سراپا خیر ہے۔ (بخاری و مسلم)

۴:… حیا، ایمان کا حصہ ہے، اور ایمان جنت میں (لے جانے والا) ہے، اور بے حیائی، بے مروّتی ہے اور بے مروّتی جہنم سے ہے۔ (مسندِ احمد، ترمذی)

۵:… ہر دین کا ایک امتیازی خلق ہوتا ہے، اور اسلام کا خلق حیا ہے۔

(موٴطا مالک، ابنِ ماجہ، بیہقی)

۶:… حیا اور ایمان باہم جکڑے ہوئے ہیں، جب ایک کو اُٹھادیا جائے تو دُوسرا خودبخود اُٹھ جاتا ہے۔ (اور ایک روایت یہ ہے کہ) جب ایک سلب کرلیا جائے تو دُوسرا بھی اس کے ساتھ ہی رُخصت ہوجاتا ہے۔ (بیہقی)

انسانی فطرت اور نبوی تعلیم کا یہ اثر تھا کہ مسلمانوں میں حیا، عفت اور پردے کا عقیدہ جزوِ ایمان تھا، خلافِ حیا معمولی حرکت بھی مذہبی اور سماجی جرم اور سنگین جرم سمجھی جاتی تھی، لیکن مغربی تہذیب کے تسلط سے اب یہ حالت ہے کہ شاید ہمیں معلوم بھی نہیں کہ شرم و حیا کس چیز کا نام ہے؟ مردوں کی نظر اور عورتوں کی حرمت و آبرو سے پہرے اُٹھادئیے گئے ہیں، سرِ بازار عورتوں کو چھیڑنے، اور بھری بسوں میں عورتوں کے بالوں سے کھیلنے کی خبریں ہم سبھی پڑھتے ہیں۔ سرِ شام کراچی، لاہور، پنڈی کے بازار عریانی اور فحاشی میں پیرس کو شرماتے ہیں۔ تعلیمی اداروں سے سینما تک مرد و عورت کے آزادانہ اختلاط اور جنسی محرکات کا طوفان برپا ہے۔ مخصوص ملازمتوں کے لئے مرد و عورت کے برہنہ معائنے ہوتے ہیں، کیا ہمارے اس گندے معاشرے کو دیکھ کر یہ غلط فہمی پیدا ہوسکتی ہے کہ یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت خیر الاُمم ہے، جسے تمام عالم کی رُوحانی قیادت سونپی گئی تھی؟

ہمارے ایمانی اقدار کا جو بچاکھچا اثاثہ ان طوفانی موجوں کی لپیٹ میں آنے سے محفوظ رہ گیا تھا، اس کے بارے میں ہمارے ناخدایانِ قوم کس ذہن سے سوچتے ہیں؟ اس کا اندازہ ذیل کی اخباری اطلاع سے کیجئے:

“خاندانی منصوبہ بندی کے بارے میں شرم و حیا کا پردہ چاک کردیا جائے”

سینتاگو ۱۶/ اپریل (ا پ پ، رائٹر) خاندانی منصوبہ بندی کو کامیاب بنانے کے لئے ضروری ہے کہ لوگوں میں منصوبہ بندی سے متعلق شرم و حیا کا پردہ چاک کرنے کے لئے موٴثر اقدامات کئے جانے چاہئیں۔ یہ بات یہاں والدین کی بین الاقوامی کانفرنس میں کہی گئی، اس موقع پر پاکستان کے خاندانی منصوبہ بندی کے کمشنر مسٹر انور عادل نے کہا کہ ضبطِ تولید کے لئے مانعِ حمل ادویات کا استعمال چوری چھپے کیا جاتا ہے، جو غلط ہے، اور اس طریقے کو ختم کیا جانا چاہئے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ضبطِ تولید کے موضوع پر واضح طور پر اور معاشرے میں ہر جگہ کھلم کھلا تبادلہٴ خیال کیا جانا چاہئے۔ مسٹر عادل نے والدین کی آٹھویں بین الاقوامی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بتایا ہے کہ پاکستان میں اکثر لوگ اپنے خاندان کی توسیع کی روک تھام کے لئے ضبطِ تولید کے خواہش مند ہیں، لیکن وہ اس بات سے خوفزدہ ہیں کہ اگر انہیں خاندانی منصوبہ بندی کے ہسپتال میں دیکھا گیا تو ان کے لئے شرمندگی کا باعث ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ عوام کو ضبطِ تولید کے لئے ہر ممکن آسانیاں اور مانع حمل اشیاء فراہم کی جائیں۔” (روزنامہ “جنگ” کراچی ۱۸/اپریل ۱۹۶۷ء)

جس اہم مقصد کی کامیابی کے لئے شرم و حیا کا پردہ چاک کرنے اور ایمان و اخلاق کی قربانی دینے کی پُرزور دعوت سے “بین الاقوامی کانفرنس” کو مشرف فرمایا جاتا ہے اس کے بدترین نتائج پر بھی ایک نظر ڈال لیجئے۔

“مغربی عورت کو ایک نئے مسئلے کا سامنا”

“ہیمبرگ ۱۴/اپریل (پ پ ا) مانعِ حمل گولیوں کے استعمال سے عورتوں کی جنسی خواہش میں اضافہ ہوتا جارہا ہے، چنانچہ معاشرتی اور سیاسی میدان میں مساوی حقوق حاصل کرنے کے بعد اب عورت جنسی معاملات میں بھی اخلاقی روایات کو پسِ پشت ڈال کر مرد جیسا کردار انجام دینے کے لئے بے چین ہے۔ یہ مسئلہ آج کل مغربی جرمنی کے ڈاکٹروں، سائنس دانوں اور ماہرینِ نفسیات و جنسیات کے درمیان موضوعِ بحث بنا ہوا ہے۔ جرمن اور امریکن ماہرین کی حالیہ تحقیقات سے واضح ہوتا ہے کہ مانعِ حمل گولیاں استعمال کرنے والی عورتوں میں ایک تہائی سے زائد عورتوں کی جنسی خواہش میں بے حد اضافہ ہوگیا ہے حتیٰ کہ بعض عورتوں کو اپنے بھڑکتے ہوئے جذبات پر قابو پانے کے لئے ڈاکٹروں سے رُجوع کرنا پڑتا ہے۔ امریکہ سوسائٹی آف فیملی پلاننگ کے سائنس دانوں، جرمن ماہرینِ جنسیات و پیدائش دونوں اس نتیجے سے متفق ہیں۔ ہیمبرگ کے ڈاکٹر ہرٹااسٹول نے لکھا ہے کہ یہی وجہ ہے کہ جدید دور کی عورت اپنے شوہر کے جذبات بھڑکانے کے نت نئے طریقے استعمال کر رہی ہے۔ یہ تمام ماہرین اس اَمر پر متفق ہیں کہ وہ دن دُور نہیں جب عاشق ہونا اور محبت میں پیش قدمی کرنا صرف مردوں کا حق نہ ہوگا، بلکہ بہت ممکن ہے کہ عورتیں اس میدان میں مردوں سے بہت آگے نکل جائیں۔”

پاکستان میں عریانی کا ذمہ دار کون؟

س… کیا خواتین کے لئے ہاکی کھیلنا، کرکٹ کھیلنا، بال کٹوانا اور ننگے سر باہر جانا، کلبوں، سینماوٴں یا ہوٹلوں اور دفتروں میں مردوں کے ساتھ کام کرنا، غیرمردوں سے ہاتھ ملانا اور بے حجابانہ باتیں کرنا، خواتین کا مردوں کی مجالس میں ننگے سر میلاد میں شامل ہونا، ننگے سر اور نیم برہنہ پوشاک پہن کر غیرمردوں میں نعت خوانی کرنا اسلامی شریعت میں جائز ہے؟ کیا علمائے کرام پر واجب نہیں کہ وہ ان بدعتوں اور غیراسلامی کردار ادا کرنے والی خواتین کے خلاف حکومت کو انسداد پر مجبور کریں؟

ج… اس ضمن میں ایک غیور مسلمان خاتون کا خط بھی پڑھ لیجئے، جو ہمارے مخدوم حضرتِ اقدس ڈاکٹر عبدالحی عارفی مدظلہ کو موصول ہوا، وہ لکھتی ہیں:

“لوگوں میں یہ خیال پیدا ہوکر پختہ ہوگیا ہے کہ حکومتِ پاکستان پردے کے خلاف ہے۔ یہ خیال اس کوٹ کی وجہ سے ہوا ہے جو حکومت کی طرف سے حج کے موقع پر خواتین کے لئے پہننا ضروری قرار دے دیا گیا ہے، یہ ایک زبردست غلطی ہے، اگر پہچان کے لئے ضروری تھا تو نیلا برقعہ پہننے کو کہا جاتا۔

حج کی جو کتاب رہنمائی کے لئے حجاج کو دی جاتی ہے اس میں تصویر کے ذریعے مرد و عورت کو اِحرام کی حالت میں دِکھایا گیا ہے۔ اوّل تو تصویر ہی غیراسلامی فعل ہے۔ دُوسرے عورت کی تصویر کے نیچے ایک جملہ لکھ کر ایک طرح سے پردے کی فرضیت سے انکار ہی کردیا۔

وہ تکلیف دہ جملہ ہے کہ: “اگر پردہ کرنا ہو تو منہ پر کوئی آڑ رکھیں تاکہ منہ پر کپڑا نہ لگے۔” یہ تو دُرست مسئلہ ہے، لیکن “اگر پردہ کرنا ہو” کیوں لکھا گیا؟ پردہ تو فرض ہے، پھر کسی کی پسند یا ناپسند کا کیا سوال؟ بلکہ پردہ پہلے فرض ہے، حج بعد کو۔ کھلے چہرے، ان کی تصویروں کے ذریعہ اخبارات میں نمائش، ٹی وی پر نمائش، یہ سب پردے کے اَحکام کی کھلی خلاف ورزی نہیں؟ ․․․․․ اور علمائے کرام تماشائی بنے بیٹھے ہیں، سب کچھ دیکھ رہے ہیں اور بدی کے خلاف، بدی کو مٹانے کے لئے، اللہ کے اَحکام سنا سنا کر پیروی کروانے کا فریضہ ادا نہیں کرتے۔ خدا کے فضل و کرم سے پاکستان اور تمام مسلم ممالک میں علماء کی تعداد اتنی ہے کہ ملت کی اصلاح کے لئے کوئی دِقت پیش نہیں آسکتی۔ جب کوئی بُرائی پیدا ہو اس کو پیدا ہوتے ہی کچلنا چاہئے، جب جڑ پکڑ جاتی ہے تو مصیبت بن جاتی ہے۔ علماء ہی کا فرض ہے کہ اُمت کو بُرائیوں سے بچائیں، اپنے گھروں کو علماء رائج الوقت بُرائیوں سے، اپنی ذات کو بُرائیوں سے دُور رکھیں تاکہ اچھا اثر ہو ․․․․․۔

تعلیمی ادارے جہاں قوم بنتی ہے، غیراسلامی لباس اور غیرزبان میں ابتدائی تعلیم کی وجہ سے قوم کے لئے سودمند ہونے کے بجائے نقصان کا باعث ہیں۔ معلّم اور معلّمات کو اسلامی عقائد اور طریقے اختیار کرنے کی سخت ضرورت ہے۔ طالبات کے لئے چادر ضروری قرار دی گئی، لیکن گلے میں پڑی ہے۔ چادر کا مقصد جب ہی پورا ہوسکتا ہے جب معمر خواتین باپردہ ہوں۔ بچیوں کے ننھے ننھے ذہن چادر کو بار تصوّر کرتے ہیں، جب وہ دیکھتی ہیں کہ معلمہ اور اس کی اپنی ماں گلی بازاروں میں سر برہنہ، نیم عریاں لباس میں ہیں تو چادر کا بوجھ کچھ زیادہ ہی محسوس ہونے لگتا ہے۔ بے پردگی ذہنوں میں جڑ پکڑ چکی ہے، ضرورت ہے کہ پردے کی فرضیت واضح کی جائے، اور بڑے لفظوں میں پوسٹر چھپواکر تقسیم بھی کئے جائیں، اور مساجد، طبّی ادارے، تعلیمی ادارے، مارکیٹ جہاں خواتین ایک وقت میں زیادہ تعداد میں شریک ہوتی ہیں، شادی ہال وغیرہ وہاں پردے کے اَحکام اور پردے کی فرضیت بتائی جائے۔ بے پردگی پر وہی گناہ ہوگا جو کسی فرض کو ترک کرنے پر ہوسکتا ہے۔ اس حقیقت سے کسی کو انکار نہیں ہوسکتا، ہمارے معاشرے میں ننانوے فیصد بُرائیاں بے پردگی کی وجہ سے وجود میں آئی ہیں، اور جب تک بے پردگی ہے، بُرائیاں بھی رہیں گی۔

راجہ ظفرالحق صاحب مبارک ہستی ہیں، اللہ پاک ان کو مخالفتوں کے سیلاب میں ثابت قدم رکھیں، آمین! ٹی وی سے فحش اشتہار ہٹائے تو شور برپا ہوگیا۔ ہاکی ٹیم کا دورہ منسوخ ہونے سے ہمارے صحافی اور کالم نویس رنجیدہ ہوگئے، جو اخبار ہاتھ لگے دیکھئے، جلوہٴ رقص و نغمہ، حسن و جمال، رُوح کی غذا کہہ کر موسیقی کی وکالت! کوئی نام نہاد عالم ٹائی اور سوٹ کو بین الاقوامی لباس ثابت کرکے اپنی شناخت کو بھی مٹارہے ہیں۔ ننھے ننھے بچے ٹائی کا وبال گلے میں ڈالے اسکول جاتے ہیں، کوئی شعبہ زندگی کا ایسا نہیں جہاں غیروں کی نقل نہ ہو۔

راجہ صاحب کو ایک قابلِ قدر ہستی کی مخالفت کا بھی سامنا ہے، اس معزّز ہستی کو اگر پردے کی فرضیت اور افادیت سمجھائی جائے تو اِن شاء اللہ مخالف، موافقت کا رُخ اختیار کرے گی۔ عورت سرکاری محکموں میں کوئی تعمیری کام اگر اسلام کے اَحکام کی مخالفت کرکے بھی، کر رہی ہے تو وہ کام ہمارے مرد بھی انجام دے سکتے ہیں، بلکہ سرکار کے سرکاری محکموں میں تقرّر مرد طبقے کے لئے تباہ کن ہے۔ مرد طبقہ بیکاری کی وجہ سے یا تو جرائم کا سہارا لے رہا ہے یا ناجائز طریقے اختیار کرکے غیرممالک میں ٹھوکریں کھارہا ہے۔”

بدقسمتی سے دورِ جدید میں عورتوں کی عریانی و بے حجابی کا جو سیلاب برپا ہے، وہ تمام اہلِ فکر کے لئے پریشانی کا موجب ہے۔ مغرب اس لعنت کا خمیازہ بھگت رہا ہے، وہاں عائلی نظام تلپٹ ہوچکا ہے، “شرم و حیا” اور “غیرت و حمیت” کا لفظ اس کی لغت سے خارج ہوچکا ہے، اور حدیثِ پاک میں آخری زمانے میں انسانیت کی جس آخری پستی کی طرف ان الفاظ میں اشارہ کیا گیا ہے کہ: “وہ چوپایوں اور گدھوں کی طرح سرِبازار شہوت رانی کریں گے” اس کے مناظر بھی وہاں سامنے آنے لگے ہیں۔ ابلیسِ مغرب نے صنفِ نازک کو خاتونِ خانہ کے بجائے شمعِ محفل بنانے کے لئے “آزادیٴ نسواں” کا خوبصورت نعرہ بلند کیا۔ ناقصات العقل والدِّین کو سمجھایا گیا کہ پردہ ان کی ترقی میں حارج ہے، انہیں گھر کی چاردیواری سے نکل کر زندگی کے ہر میدان میں مردوں کے شانہ بشانہ کام کرنا چاہئے، اس کے لئے تنظیمیں بنائی گئیں، تحریکیں چلائی گئیں، مضامین لکھے گئے، کتابیں لکھی گئیں، اور “پردہ” جو صنفِ نازک کی شرم و حیا کا نشان ہے، اس کی عفت و آبرو کا محافظ اور اس کی فطرت کا تقاضا تھا، اس پر “رجعت پسندی” کے آوازے کسے گئے۔ اس مکروہ ترین ابلیسی پروپیگنڈے کا نتیجہ یہ ہوا کہ حوا کی بیٹیاں ابلیس کے دامِ تزویر میں آگئیں، ان کے چہرے سے نقاب نوچ لی گئی، سر سے دوپٹہ چھین لیا گیا، آنکھوں سے شرم و حیا لوٹ لی گئی، اور اسے بے حجاب و عریاں کرکے تعلیم گاہوں، دفتروں، اسمبلیوں، کلبوں، سڑکوں، بازاروں اور کھیل کے میدانوں میں گھسیٹ لیا گیا، اس مظلوم مخلوق کا سب کچھ لٹ چکا ہے، لیکن ابلیس کا جذبہٴ عریانی و شہوانی ہنوز تشنہ ہے۔

مغرب، مذہب سے آزاد تھا، اس لئے وہاں عورت کو اس کی فطرت سے بغاوت پر آمادہ کرکے مادر پدر آزادی دِلادینا آسان تھا، لیکن مشرق میں ابلیس کو دُہری مشکل کا سامنا تھا، ایک عورت کو اس کی فطرت سے لڑائی لڑنے پر آمادہ کرنا، اور دُوسرے تعلیماتِ نبوّت، جو مسلم معاشرے کے رگ و ریشے میں صدیوں سے سرایت کی ہوئی تھیں، عورت اور پورے معاشرے کو ان سے بغاوت پر آمادہ کرنا۔

ہماری بدقسمتی! مسلم ممالک کی نکیل ایسے لوگوں کے ہاتھ میں تھی جو “ایمان بالمغرب” میں اہلِ مغرب سے بھی دو قدم آگے تھے، جن کی تعلیم و تربیت اور نشوو نما خالص “مغربیت” کے ماحول میں ہوئی تھی، جن کے نزدیک دین و مذہب کی پابندی ایک لغو اور لایعنی چیز تھی، اور جنھیں نہ خدا سے شرم تھی، نہ مخلوق سے۔ یہ لوگ مشرقی روایات سے کٹ کر مغرب کی راہ پر گامزن ہوئے، سب سے پہلے انہوں نے اپنی بہو بیٹیوں، ماوٴں بہنوں اور بیویوں کو پردہٴ عفت سے نکال کر آوارہ نظروں کے لئے وقفِ عام کیا، ان کی دُنیوی وجاہت و اقبال مندی کو دیکھ کر متوسط طبقے کی نظریں للچائیں، اور رفتہ رفتہ تعلیم، ملازمت اور ترقی کے بہانے وہ تمام ابلیسی مناظر سامنے آنے لگے جن کا تماشا مغرب میں دیکھا جاچکا تھا۔ عریانی و بے حجابی کا ایک سیلاب ہے جو لمحہ بہ لمحہ بڑھ رہا ہے، جس میں اسلامی تہذیب و تمدن کے محلات ڈُوب رہے ہیں، انسانی عظمت و شرافت اور نسوانی عفت و حیا کے پہاڑ بہ رہے ہیں، خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ یہ سیلاب کہاں جاکر تھمے گا؟ اور انسان، انسانیت کی طرف کب پلٹے گا؟ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ جب تک خدا کا خفیہ ہاتھ قائدینِ شر کے وجود سے اس زمین کو پاک نہیں کردیتا، اس کے تھمنے کا کوئی امکان نہیں:

“رَبِّ لَا تَذَرْ عَلَی الْأَرْضِ مِنَ الْکٰفِرِیْنَ دَیَّارًا۔ اِنَّکَ اِنْ تَذَرْھُمْ یُضِلُّوْا عِبَادَکَ وَلَا یَلِدُوْٓا اِلَّا فَاجِرًا کَفَّارًا۔” (نوح:۲۶، ۲۷)

جہاں تک اسلامی تعلیمات کا تعلق ہے! عورت کا وجود فطرتاً سراپا ستر ہے، اور پردہ اس کی فطرت کی آواز ہے۔

حدیث میں ہے:

“المرأة عورة، فاذا خرجت استشرفھا الشیطان۔” (مشکوٰة ص:۲۶۹، بروایت ترمذی)

ترجمہ:… “عورت سراپا ستر ہے، پس جب وہ نکلتی ہے تو شیطان اس کی تاک جھانک کرتا ہے۔”

امام ابونعیم اصفہانی  نے “حلیة الاولیاء” میں یہ حدیث نقل کی ہے:

“عن أنس قال: قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: ما خیر للنساء؟ فلم ندر ما نقول، فجاء علیّ رضی الله عنہ الٰی فاطمة رضی الله عنھا، فأخبرھا بذٰلک، فقالت: فھلا قلت لہ: خیر لھن أن لا یرین الرجال ولا یرونھن! فرجع فأخبرہ بذٰلک، فقال لہ: من علمک ھٰذا؟ قال: فاطمة! قال: انھا بضعة منی۔

عن سعید بن المسیب عن علی رضی الله عنہ انہ قال لفاطمة: ما خیر للنساء؟ قالت: لا یرین الرجال ولا یرونھن۔ فذکر ذٰلک للنبی صلی الله علیہ وسلم فقال: انما فاطمة بضعة منی۔”

(حلیة الاولیاء ج:۲ ص:۴۰، ۴۱)

ترجمہ:… “حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم سے فرمایا: بتاوٴ! عورت کے لئے سب سے بہتر کون سی چیز ہے؟ ہمیں اس سوال کا جواب نہ سوجھا، حضرت علی رضی اللہ عنہ وہاں سے اُٹھ کر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئے، ان سے اسی سوال کا ذکر کیا، حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: آپ لوگوں نے یہ جواب کیوں نہ دیا کہ عورتوں کے لئے سب سے بہتر چیز یہ ہے کہ وہ اجنبی مردوں کو نہ دیکھیں، اور نہ ان کو کوئی دیکھے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے واپس آکر یہ جواب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ جواب تمہیں کس نے بتایا؟ عرض کیا: فاطمہ نے! فرمایا: فاطمہ آخر میرے جگر کا ٹکڑا ہے نا!

سعید بن مسیب حضرت علی رضی اللہ عنہ سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ: عورتوں کے لئے سب سے بہتر کون سی چیز ہے؟ فرمانے لگیں: “یہ کہ وہ مردوں کو نہ دیکھیں، اور نہ مرد ان کو دیکھیں۔” حضرت علی رضی اللہ عنہ نے یہ جواب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کیا تو فرمایا: واقعی فاطمہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے!”

حضرت علی رضی اللہ عنہ کی یہ روایت امام ہیثمی نے “مجمع الزوائد” (ج:۹ ص:۲۰۳) میں بھی مسندِ بزار کے حوالے سے نقل کی ہے۔

موجودہ دور کی عریانی، اسلام کی نظر میں جاہلیت کا تبرّج ہے، جس سے قرآنِ کریم نے منع فرمایا ہے، اور چونکہ عریانی قلب و نظر کی گندگی کا سبب بنتی ہے، اس لئے ان تمام عورتوں کے لئے باعثِ عبرت ہے جو بے حجابانہ نکلتی ہیں، اور ان مردوں کے لئے بھی جن کی ناپاک نظریں ان کا تعاقب کرتی ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

“لعن الله الناظر والمنظور الیہ۔”

ترجمہ:… “اللہ تعالیٰ کی لعنت دیکھنے والے پر بھی، اور جس کی طرف دیکھا جائے اس پر بھی۔”

عورتوں کا بغیر صحیح ضرورت کے گھر سے نکلنا، شرفِ نسوانیت کے منافی ہے، اور اگر انہیں گھر سے باہر قدم رکھنے کی ضرورت پیش ہی آئے تو حکم ہے کہ ان کا پورا بدن مستور ہو۔

فلمی دُنیا سے معاشرتی بگاڑ

س… محترم مولانا صاحب! السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ۔

برائے نوازش مندرجہ سوالات پر اپنا فتویٰ صادر فرمائیں:

پاکستان میں سینماوٴں اور ٹیلیویژن پر جو فلمیں دکھائی جاتی ہیں، ان میں جو ایکٹر، ایکٹرس، رقاصائیں، گویے اور موسیقی کے ساز بجانے والے کام کرتے ہیں۔ یہ ایکٹر، ایکٹرس اور رقاصائیں کسی زمانے کے کنجروں اور میراثیوں سے بھی زیادہ بے حیائی اور بے شرمی کے کردار پیش کرنے میں سبقت لے گئے ہیں۔ ایک دوسرے سے بغل گیر ہوتے ہیں، بوس و کنار کرتے ہیں،نیم برہنہ پوشاک پہن کر اداکاری کرتے ہیں، اور فلموں میں فرضی شادیاں بھی کرتے ہیں، کبھی وہی ایکٹرس ان کی ماں کا، کبھی بہن کا، اور کبھی بیوی کا کردار ادا کرتی ہے، یہ لوگ اس معاش سے دولت کماکر حج کرنے بھی جاتے ہیں، اور بعض ان میں میلاد اور قرآن خوانی بھی کراتے ہیں، ظاہر ہے کہ مولوی صاحبان کو بھی مدعو کرتے ہوں گے، ان لوگوں کے ذمہ حکومت کی طرف سے انکم ٹیکس کے لاکھوں ہزاروں روپے واجب الادا بھی ہیں، یہ لوگ حج سے آنے کے بعد بھی وہی کردار پھر اپناتے ہیں۔

س…۱: یہ ایکٹر، ایکٹرس، رقاصائیں،گویے اور طبلے سارنگیاں بجانے والے وغیرہ جو اس معاش سے دولت کماتے ہیں، کیا ایسی کمائی سے حج اور زکوٰة کا فریضہ ادا ہوتا ہے؟ کیا میلاد اور قرآن خوانی کی محفل میں ان معاش کے لوگوں کے ساتھ شامل ہونا، کھانا پینا وغیرہ شریعت اسلامی کی رو سے جائز ہے؟

س…۲: کیونکہ ان لوگوں کے کردار بے شرمی، بے حیائی کے برملا مناظر فلموں اور ٹیلیویژن پر عام طور پر پیش ہوتے ہیں، کیا شریعت اسلامی کی رو سے ان کے جنازے پڑھانے اور ان میں شمولیت جائز ہے؟

س…۳: کیا علمائے کرام پر یہ فرض عائد نہیں ہوتا کہ وہ حکومت کو مجبور کریں کہ ایسی فلمیں سینماوٴں اور ٹیلیویژن پر ایسے لچر اور بے حیائی کے کردار دکھانے بند کئے جائیں؟ اور کیا خواتین کا فلموں میں کام کرنا جائز ہے؟ والسلام

خیر اندیش خاکسار

محمد یوسف – انگلینڈ

ج… فلمی دُنیا کے جن کارناموں کا خط میں ذکر کیا گیا ہے، ان کا ناجائز و حرام اور بہت سے کبیرہ گناہوں کا مجموعہ ہونا کسی تشریح و وضاحت کا محتاج نہیں۔ جس شخص کو اللہ تعالیٰ نے صحیح فہم اور انسانی حس عطا فرمائی ہو، وہ جانتا ہے کہ ان چیزوں کا رواج انسانیت کے زوال و اِنحطاط کی علامت ہے، بلکہ اخلاقی پستی اور گراوٹ کا یہ آخری نقطہ ہے، جس کے بعد خالص “حیوانیت” کا درجہ باقی رہ جاتا ہے:

آ تجھ کو بتاوٴں میں تقدیر اُمم کیا ہے؟

شمشیر و سناں اوّل، طاوٴس و رباب آخر

(علامہ اقبال)

جب اس پر غور کیا جائے کہ یہ چیزیں مسلمان معاشرے میں کیسے دَر آئیں؟ اور ان کا رواج کیسے ہوا؟ تو عقل چکرا جاتی ہے۔ ایک طرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم، خلفائے راشدین، صحابہ کرام اور قرونِ اُولیٰ کے مسلمانوں کی پاک اور مقدس زندگیاں ہیں اور وہ رشکِ ملائکہ معاشرہ ہے جو اسلام نے تشکیل دیا تھا۔ دُوسری طرف سینماوٴں، ریڈیو اور ٹیلیویژن وغیرہ کی بدولت ہمارا آج کا مسلمان معاشرہ ہے۔ دونوں کے تقابلی مطالعے سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے آج کے معاشرے کو اسلامی معاشرے سے کوئی نسبت ہی نہیں۔ ہم نے اپنے معاشرے سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک ایک اَدا اور ایک ایک سنت کو کھرچ کھرچ کر صاف کردیا ہے، اور اس کی جگہ شیطان کی تعلیم کردہ لادینی حرکات کو ایک ایک کرکے رائج کرلیا ہے، (الحمدللہ! اب بھی اللہ تعالیٰ کے بہت سے بندے ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نقشِ قدم پر بڑی پامردی و مضبوطی کے ساتھ قائم ہیں، مگر یہاں گفتگو افراد کی نہیں، بلکہ عمومی معاشرے کی ہو رہی ہے)۔ شیطان نے مسلم معاشرے کا حلیہ بگاڑنے کے لئے نہ جانے کیا کیا کرتب ایجاد کئے ہوں گے، لیکن شاید راگ رنگ، یہ ریڈیائی نغمے، یہ ٹیلیویژن اور وی سی آر، شیطانی آلات میں سرِفہرست ہیں، جن کے ذریعے اُمتِ مسلمہ کو گمراہ اور ملعون قوموں کے نقشِ قدم پر چلنے کی تربیت دی جاتی ہے۔ ہمارا “مہذب معاشرہ” ان فلموں کو “تفریح” کا نام دیتا ہے، کاش! وہ جانتا کہ یہ “تفریح” کن ہولناک نتائج کو جنم دیتی ہے․․․؟ مسلمان اس “تفریح” میں مشغول ہوکر خود اپنی اسلامیت کا کس قدر مذاق اُڑا رہے ہیں اور اپنے محبوب پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت کو کیسے کھلونا بنا رہے ہیں۔

اس فلمی صنعت سے جو لوگ وابستہ ہیں، وہ سب یکساں نہیں، ان میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جن کا ضمیر اس کام پر انہیں ملامت کرتا ہے، وہ اپنے آپ کو قصوروار سمجھتے ہیں اور انہیں احساس ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے محبوب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی میں مبتلا ہیں، اس لئے وہ اس گنہگار زندگی پر نادم ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے دِل میں ایمان کی رمق اور انسانیت کی حس ابھی باقی ہے، گو اپنے ضعفِ ایمان کی بنا پر وہ اس گناہ کو چھوڑ نہیں پاتے اور اس آلودہ زندگی سے کنارہ کشی اختیار کرنے کی ہمت نہیں کرتے، تاہم غنیمت ہے کہ وہ اپنی حالت کو اچھی نہیں سمجھتے، بلکہ اپنے قصور کا اعتراف کرتے ہیں۔ اور کچھ لوگ ایسے ہیں جن کا ضمیر ان کھلے گناہوں کو “گناہ” تسلیم کرنے سے بھی انکار کرتا ہے، وہ اسے لائقِ فخر آرٹ اور فن سمجھ کر اس پر ناز کرتے ہیں، اور بزعمِ خود اسے انسانیت کی خدمت تصوّر کرتے ہیں، ان لوگوں کی حالت پہلے فریق سے زیادہ لائقِ رحم ہے، کیونکہ گناہ کو ہنر اور کمال سمجھ لینا بہت ہی خطرناک حالت ہے۔ اس کی مثال ایسے سمجھئے کہ ایک مریض تو وہ ہے جسے یہ احساس ہے کہ وہ مریض ہے، وہ اگرچہ بدپرہیز ہے اور اس کی بدپرہیزی اس کے مرض کو لاعلاج بناسکتی ہے، تاہم جب تک اس کو مرض کا احساس ہے، توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ اپنے علاج کی طرف توجہ کرے گا۔ اس کے برعکس دُوسرا مریض وہ ہے جو کسی ذہنی و دماغی مرض میں مبتلا ہے، وہ اپنے جنون کو عین صحت سمجھ رہا ہے، اور جو لوگ نہایت شفقت و محبت سے اسے علاج معالجے کی طرف توجہ دِلاتے ہیں وہ ان کو “پاگل” تصوّر کرتا ہے۔ یہ شخص جو اپنی بیماری کو عین صحت تصوّر کرتا ہے اور اپنے سوا دُنیا بھر کے عقلاء کو اَحمق اور دیوانہ سمجھتا ہے، اس کے بارے میں خطرہ ہے کہ یہ اس خوش فہمی کے مرض سے کبھی شفایاب نہیں ہوگا۔

جو لوگ فلمی صنعت سے وابستہ ہیں، ان کے زرق برق لباس، ان کی عیش و عشرت، اور ان کے بلند ترین معیارِ زندگی میں حقیقت ناشناس لوگوں کے لئے بڑی کشش ہے۔ ہمارے نوجوان ان کی طرف حسرت کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں اور ان جیسا بن جانے کی تمنائیں رکھتے ہیں۔ لباس کی تراش خراش میں ان کی تقلید و نقالی کرتے ہیں۔ لیکن کاش! کوئی ان کے نہاں خانہٴ دِل میں جھانک کر دیکھتا کہ وہ کس قدر ویران اور اُجڑا ہوا ہے، انہیں سب کچھ میسر ہے مگر سکونِ قلب کی دولت میسر نہیں، یہ لوگ دِل کا سکون و اطمینان ڈھونڈھنے کے لئے ہزاروں جتن کرتے ہیں، لیکن جس کنجی سے دِل کے تالے کھلتے ہیں وہ ان کے ہاتھ سے گم ہے، ایک ظاہر بین ان کے نعرہ: “بابر بہ عیش کوش! کہ عالم دوبارہ نیست” کو لائقِ رشک سمجھتا ہے، مگر ایک حقیقت شناس ان کے دِل کی ویرانی و بے اطمینانی کو دیکھ کر دُعا کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ یہ سزا کسی دُشمن کو بھی نہ دے۔ جس جرم کی، دُنیا میں یہ سزا ہو، سوچنا چاہئے کہ اس کی سزا مرنے کے بعد کیا ہوگی․․․؟

ابھی کچھ عرصہ پہلے فلموں کی نمائش سینما ہالوں یا مخصوص جگہوں میں ہوتی تھی، لیکن ٹیلیویژن اور وی سی آر نے اس جنسِ گناہ کو اس قدر عام کردیا ہے کہ مسلمانوں کا گھر گھر “سینما ہال” میں تبدیل ہوچکا ہے۔ بڑے شہروں میں کوئی خوش قسمت گھر ہی ایسا ہوگا جو اس لعنت سے محفوظ ہو۔ بچوں کی فطرت کھیل تماشوں اور اس قسم کے مناظر کی طرف طبعاً راغب ہے، اور ہمارے “مہذب شہری” یہ سمجھ کر ٹیلیویژن گھر میں لانا ضروری سمجھتے ہیں کہ اگر یہ چیز اپنے گھر میں نہ ہوئی تو بچے ہمسایوں کے گھر جائیں گے۔ اس طرح ٹیلیویژن رکھنا فخر و مباہات کا گویا ایک فیشن بن کر رہ گیا ہے۔ ادھر “ٹیلیویژن” کے سوداگروں نے اَزراہِ عنایت قسطوں پر ٹیلیویژن مہیا کرنے کی تدبیر نکالی، جس سے متوسط بلکہ پسماندہ گھرانوں کی بھی حوصلہ افزائی ہوئی اور حکومت نے لوگوں کے اس رُجحان کا “احترام” کرتے ہوئے نہ صرف ٹیلیویژن درآمد کرنے کی اجازت دے رکھی ہے بلکہ جگہ جگہ ٹیلیویژن اسٹیشن قائم کرنے شروع کردئیے ہیں۔ گویا حکومت اور معاشرے کے تمام عوامل اس کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں، مگر اس کی حوصلہ شکنی کرنے والا کوئی نہیں۔ اس کا نتیجہ ہے کہ آج ریڈیو اور ٹیلیویژن کے گانوں کی آوازوں سے خانہٴ خدا بھی محفوظ نہیں، عام بسوں اور گاڑیوں میں ریکارڈنگ قانوناً ممنوع ہے، مگر قانون کے محافظوں کے سامنے بسوں، گاڑیوں میں ریکارڈنگ ہوتی ہے۔

فلموں کی اس بہتات نے ہماری نوخیز نسل کا کباڑا کردیا ہے، نوجوانوں کا دین و اخلاق اور ان کی صحت و توانائی اس تفریح کے دیوتا کے بھینٹ چڑھ رہی ہے۔ بہت سے بچے قبل اَزوقت جوان ہوجاتے ہیں، ان کے ناپختہ شہوانی جذبات کو تحریک ہوتی ہے جنھیں وہ غیرفطری راستوں اور ناروا طریقوں سے پورا کرکے بے شمار جنسی امراض کا شکار ہوجاتے ہیں، ناپختہ ذہنی اور شرم کی وجہ سے وہ اپنے والدین اور عزیز و اقارب کو بھی نہیں بتاسکتے، ان کے والدین ان کو “معصوم بچہ” سمجھ کر ان کی طرف سے غافل رہتے ہیں۔ پھر عورتوں کی بے حجابی، آرائش و زیبائش اور مصنوعی حسن کی نمائش “جلتی پر تیل” کا کام دیتی ہے۔ پھر مخلوط تعلیم اور لڑکوں اور لڑکیوں کے بے روک ٹوک اختلاط نے رہی سہی کسر بھی پوری کردی ہے۔ راقم الحروف کو نوجوانوں کے روزمرّہ بیسیوں خطوط موصول ہوتے ہیں، ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارا معاشرہ نوجوانوں کے لئے آہستہ آہستہ جہنم کدے میں تبدیل ہو رہا ہے۔ آج کوئی خوش بخت نوجوان ہی ہوگا، جس کی صحت دُرست ہو، جس کی نشوونما معمول کے مطابق ہو، اور جو ذہنی انتشار اور جنسی انارکی کا شکار نہ ہو۔ انصاف کیجئے کہ ایسی پود سے ذہنی بالیدگی اور اُولوالعزمی کی کیا توقع کی جاسکتی ہے جس کے نوّے فیصد افراد جنسی گرداب میں پھنسے ہوئے ناخدایانِ قوم کو یہ کہہ کر پکار رہے ہیں:

درمیان قعرِ دریا تختہ بندم کردہ

باز میگوئی کہ دامن تر مکن ہشیار باش!

جو شخص بھی اس صورتِ حال پر سلامتیٴ فکر کے ساتھ ٹھنڈے دِل سے غور کرے گا وہ اس فلمی صنعت اور ٹیلیویژن کی لعنت کو “نئی نسل کا قاتل” کا خطاب دینے میں حق بجانب ہوگا۔

یہ تو ہے وہ ہولناک صورتِ حال، جس سے ہمارا پورا معاشرہ بالخصوص نوخیز طبقہ دوچار ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس صورتِ حال کی اصلاح ضروری نہیں؟ کیا نوخیز نسل کو اس طوفانِ بلاخیز سے نجات دِلانا ہمارا دینی و مذہبی اور قومی فرض نہیں؟ اور یہ کہ بچوں کے والدین پر، معاشرے کے بااثر افراد پر اور قومی ناخداوٴں پر اس ضمن میں کیا فرائض عائد ہوتے ہیں․․․؟

میرا خیال ہے کہ بہت سے حضرات کو تو اس عظیم قومی المیہ اور معاشرتی بگاڑ کا احساس ہی نہیں، اس طبقے کے نزدیک لذّتِ نفس کے مقابلے میں کوئی نعمت، نعمت نہیں، نہ کوئی نقصان، نقصان ہے، خواہ وہ کتنا ہی سنگین ہو۔ ان کے خیال میں چشم و گوش اور کام و دہن کے نفسانی تقاضے پورے ہونے چاہئیں، پھر “سب اچھا” ہے۔

بعض حضرات کو اس پستی اور بگاڑ کا احساس ہے، لیکن عزم و ہمت کی کمزوری کی وجہ سے وہ نہ صرف یہ کہ اس کا کچھ علاج نہیں کرسکتے، بلکہ وہ اپنے آپ کو زمانے کے بے رحم تھپیڑوں کے سپرد کردینے میں عافیت سمجھتے ہیں۔ “صاحب! کیا کیجئے زمانے کے ساتھ چلنا پڑتا ہے” کا جو فقرہ اکثر زبانوں سے سننے میں آتا ہے وہ اسی ضعفِ ایمان اور عزم و ہمت کی کمزوری کی چغلی کھاتا ہے۔ ان کے خیال میں گندگی میں ملوّث ہونا تو بہت بُری بات ہے، لیکن اگر معاشرے میں اس کا عام رواج ہوجائے اور گندگی کھانے کو معیارِ شرافت سمجھا جانے لگے تو اپنے آپ کو اہلِ زمانہ کی نظر میں “شریف” ثابت کرنے کے لئے خود بھی اسی شغل میں لگنا ضروری ہے۔

بعض حضرات اپنی حد تک اس سے اجتناب کرتے ہیں، لیکن وہ اس معاشرتی بگاڑ کی اصلاح کی طرف متوجہ نہیں، نہ اس کے خلاف لب کشائی کی ضرورت سمجھتے ہیں، ان کا خیال ہے کہ یہ مرض لاعلاج ہے، اور اس کی اصلاح میں لگنا بے سود ہے۔ ان پر مایوسی کی ایسی کیفیت طاری ہے کہ ان کی سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا کیا جائے اور کیا نہ کیا جائے؟

بعض حضرات اس کی اصلاح کے لئے آواز اُٹھاتے ہیں، مگر ان کی اصلاحی کوششیں صدا بہ صحرا یا نقارخانے میں طوطی کی آواز کی حیثیت رکھتی ہے۔

راقم الحروف کا خیال ہے کہ اگرچہ پانی ناک سے اُونچا بہنے لگا ہے، اگرچہ پورا معاشرہ سیلابِ مصیبت کی لپیٹ میں آچکا ہے، اگرچہ فساد اور بگاڑ مایوسی کی حد تک پہنچ چکا ہے، لیکن ابھی تک ہمارے معاشرے کی اصلاح ناممکن نہیں، کیونکہ اکثریت اس کا احساس رکھتی ہے کہ اس صورتِ حال کی اصلاح ہونی چاہئے۔ اس لئے اُوپر سے نیچے تک تمام اہلِ فکر اس کی طرف متوجہ ہوجائیں تو ہم اپنی نوجوان نسل کی بڑی اکثریت کو اس طوفان سے بچانے میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔ اس کے لئے ہمیں انفرادی اور اجتماعی طور پر کچھ انقلابی اقدامات کرنے ہوں گے، جن کا خلاصہ حسبِ ذیل ہے:

۱:… تمام مسلمان والدین کو یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کرلینی چاہئے کہ وہ اپنے گھروں میں ریڈیو اور ٹیلیویژن کے ذریعے فلمی نغمے سناکر اور فلمی مناظر دِکھاکر نہ صرف دُنیا و آخرت کی لعنت خرید رہے ہیں، بلکہ خود اپنے ہاتھوں اپنی اولاد کا مستقبل تباہ کر رہے ہیں۔ اگر وہ خدا وہ رسول پر ایمان رکھتے ہیں، اگر انہیں قبر و حشر میں حساب کتاب پر ایمان ہے، اگر انہیں اپنی اولاد سے ہمدردی ہے تو خدارا! اس سامانِ لعنت کو اپنے گھروں سے نکال دیں۔ ورنہ وہ خود تو مرکر قبر میں چلے جائیں گے، لیکن ان کے مرنے کے بعد بھی اس گناہ کا وبال ان کی قبروں میں پہنچتا رہے گا۔

۲:… معاشرے کے تمام بااثر اور دردمند حضرات اس کے خلاف جہاد کریں، محلے محلے اور قریہ قریہ میں بااثر افراد کی کمیٹیاں بنائی جائیں، وہ اپنے محلے اور اپنی بستی کو اس لعنت سے پاک کرنے کے لئے موٴثر تدابیر سوچیں، اور اپنے اپنے علاقے کے لوگوں کو اس سے بچانے کی کوشش کریں۔ نیز حکومت سے پُرزور مطالبہ کریں کہ ہماری نوجوان نسل پر رحم کیا جائے اور نوجوان نسل کے “خفیہ قاتل” کے ان اَڈّوں کو بند کیا جائے۔

۳:… سب سے بڑی ذمہ داری حکومت پر عائد ہوتی ہے۔ یہ اُصول طے شدہ ہے کہ حکومت کے اقدام سے اگر کسی نیکی کو رواج ہوگا تو تمام نیکی کرنے والوں کے برابر ارکانِ حکومت کو بھی اَجر و ثواب ہوگا۔ اور اگر حکومت کے اقدام یا سرپرستی سے کوئی بُرائی رواج پکڑے گی تو اس بُرائی کا ارتکاب کرنے والوں کے برابر ارکانِ حکومت کو گناہ بھی ہوگا۔ اگر ریڈیو کے نغمے، ٹیلیویژن کی فلمیں اور راگ رنگ کی محفلیں کوئی ثواب کا کام ہے تو میں ارکانِ حکومت کو مبارک باد دیتا ہوں کہ جتنے لوگ یہ “نیکی اور ثواب کا کام” کر رہے ہیں ان سب کے “اَجر و ثواب” میں حکومت برابر کی شریک ہے۔ اور اگر یہ بُرائی اور لعنت ہے تو اس میں بھی حکومت کے ارکان کا برابر کا حصہ ہے۔ سینما ہال حکومت کے لائسنس ہی سے کھلتے ہیں، اور ریڈیو اور ٹی وی حکومت کی اجازت ہی سے درآمد ہوتے ہیں، اور حکومت ہی کی سرپرستی میں یہ ادارے چلتے ہیں، جو اپنے نتائج کے اعتبار سے انسانیت کے سفاک اور قاتل ہیں۔ میں اپنے نیک دِل اور اسلام کے علمبردار حکمرانوں سے بصد ادب و احترام اِلتجا کروں گا کہ خدا کے لئے قوم کو ان لعنتوں سے نجات دِلائیے، ورنہ: “تیرے رَبّ کی پکڑ بڑی سخت ہے․․․!” خصوصاً جبکہ ملک میں اسلامی نظام کا سنگِ بنیاد رکھا جارہا ہے، ضروری ہے کہ معاشرے کو ان غلاظتوں سے پاک کرنے کا اہتمام کیا جائے، ورنہ جو معاشرہ ان لعنتوں میں گلے گلے ڈُوبا ہوا ہو اس میں اسلامی نظام کا پنپنا ممکن نہیں۔

۴:… حضراتِ علمائے اُمت سے درخواست ہے کہ وہ اپنے خطبات و مواعظ میں اس بلائے بے درماں کی قباحتوں پر روشنی ڈالیں، اور تمام مساجد سے اس مضمون کی قراردادیں حکومت کو بھیجی جائیں کہ پاکستان کو فلمی لعنت سے پاک کیا جائے۔

الغرض! اس سیلاب کے آگے بند باندھنے کے لئے ان تمام لوگوں کو اُٹھ کھڑے ہونا چاہئے جو پاکستان کو قہرِ الٰہی سے بچانا چاہتے ہیں۔

کہا جاسکتا ہے کہ ہزاروں افراد کا روزگار فلمی صنعت اور ٹیلیویژن سے وابستہ ہے، اگر اس کو بند کیا جائے تو یہ ہزاروں انسان بے روزگار نہیں ہوجائیں گے؟ افراد کی بے روزگاری کا مسئلہ بلاشبہ بڑی اہمیت رکھتا ہے، لیکن سب سے پہلے تو دیکھنے کی بات یہ ہے کہ کیا چند انسانوں کو روزگار مہیا کرنے کے بہانے سے پوری قوم کو ہلاکت کے گڑھے میں دھکیلا جاسکتا ہے؟ اُصول یہ ہے کہ اگر کسی فرد کا کاروبار ملت کے اجتماعی مفاد کے لئے نقصان دہ ہو تو اس کاروبار کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ چوروں اور ڈاکووٴں کا پیشہ بند کرنے سے بھی بعض لوگوں کا “روزگار” متأثر ہوتا ہے، تو کیا ہمیں چوری اور ڈکیتی کی اجازت دے دینی چاہئے؟ اسمگلنگ بھی ہزاروں افراد کا پیشہ ہے، کیا قوم و ملت اس کو برداشت کرے گی؟ شراب کی صنعت اور خرید و فروخت اور منشیات کے کاروبار سے بھی ہزاروں افراد کا روزگار وابستہ ہے، کیا ان کی بھی کھلی چھٹی ہونی چاہئے․․․؟ ان سوالوں کے جواب میں تمام عقلاء بیک زبان یہی کہیں گے کہ جو لوگ اپنے روزگار کے لئے پورے معاشرے کو داوٴ پر لگاتے ہیں ان کو کسی دُوسرے جائز کاروبار کا مشورہ دیا جائے گا، لیکن معاشرے سے کھیلنے کی اجازت ان کو نہیں دی جائے گی۔ ٹھیک اسی اُصول کا اطلاق فلمی صنعت پر بھی ہوتا ہے، اگر اس کو معاشرے کے لئے مضر ہی نہیں سمجھا جاتا تو یہ بصیرت و فراست کی کمزوری ہے، اور اگر اس کو معاشرے کے لئے، خصوصاً نوجوان اور نوخیز نسل کے لئے مضر سمجھا جاتا ہے تو اس ضرَرِ عام کے باوجود اسے برداشت کرنا حکمت و دانائی کے خلاف ہے۔

جو لوگ فلمی صنعت سے وابستہ ہیں ان کے لئے کوئی دُوسرا روزگار مہیا کیا جاسکتا ہے، مثلاً: سینما ہالوں کو تجارتی مراکز میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ اگر غور کیا جائے تو نظر آئے گا کہ یہ فلمی کھیل تماشے قوم کے اخلاقی ڈھانچے ہی کے لئے تباہ کن نہیں، بلکہ اقتصادی نقطہٴ نظر سے بھی ملک کے لئے مہلک ہیں۔ جو افرادی و مادّی قوّت ان لایعنی اور بے لذّت گناہوں پر خرچ ہو رہی ہے وہ اگر ملک کی زرعی، صنعتی، تجارتی اور سائنسی ترقی پر خرچ ہونے لگے تو ملک ان مفید شعبوں میں مزید ترقی کرسکتا ہے، اس کا مفاد متعلقہ افراد کے علاوہ پوری قوم کو پہنچے گا۔

الغرض! جو حضرات فلمی لائن سے وابستہ ہیں ان کی صلاحیتوں کو کسی ایسے روزگار میں کھپایا جاسکتا ہے جو دینی، معاشرتی اور قومی وجود کے لئے مفید ہو۔

موت کی اطلاع دینا

س… چند احادیث مبارکہ آپ کی خدمت میں ارسال ہیں، جو کہ درج ذیل ہیں ان کا مفہوم لکھ کر مشکور فرمائیے:

۱:… “عن عبد الله عن النبی صلی الله علیہ واٰلہ وسلم قال ایاکم والنعی فان النعی من عمل جاہلیة۔” (ترمذی)

۲:… “ عن حذیفة قال اذا مت فلا توذنوا بی احدًا فانی اخاف ان یکون نعیاً وانی سمعت رسول الله صلی الله علیہ واٰلہ وسلم ینہیٰ عن النعی۔” (ترمذی)

جناب مولانا صاحب! یہ تو احادیث مبارکہ ہیں اور ہمارے علاقہ میں یہ رسم و رواج ہے کہ جب کوئی بھی (چاہے امیر ہو یا غریب) مرجائے تو مسجد کے لاؤڈ اسپیکر کے ذریعے یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ فلاں بن فلاں فوت ہوا ہے، نمازِ جنازہ ۳ بجے ہوگا، یا جنازہ نکل گیا ہے، جنازہ گاہ کو جاؤ، تو کیا یہ اعلان جائز ہے یا احادیث کے خلاف ہے؟ اگر خلاف و ناجائز ہو تو انشأ اللہ یہ اعلانات وغیرہ آئندہ نہیں کریں گے، مدلل جواب سے نوازیں۔ نیز یہ بھی سنتے ہیں کہ مسجد کے اندر اذان دینا مکروہ ہے؟

ج… عام اہلِ علم کے نزدیک موت کی اطلاع کرنا جائز بلکہ سنت ہے، ان احادیث میں اس “نعی” کی ممانعت ہے جس کا اہل جاہلیت میں دستور تھا کہ میّت کے مفاخر بیان کرکے اس کی موت کا اعلان کیا کرتے تھے۔

اعلانِ وفات کیسے سنت ہے؟

س… آپ کا فتویٰ پڑھ کر تسلی نہیں ہوئی آج کل ہمارے محلے میں یہ مسئلہ بہت ہی زیر بحث ہے، اس لئے اس کا فوٹو اسٹیٹ کرکے آپ کو دوبارہ بھیج رہا ہوں تاکہ تفصیل سے دلیل سے جواب دے کر مشکور فرمائیں، موت کی اطلاع کرنا سنت لکھا ہے تو مہربانی کرکے اس کی دلیل ضرور لکھئے گا۔

س…۱: زمانہٴ جاہلیت میں جو دستور تھا اعلان کا، تو وہ کن الفاظ سے اعلان کرتے تھے؟

س…۲: مسجد کے اندر اذان دینا کیسا ہے؟ اس کا جواب شاید بھول گیا، مہربانی کرکے اس کا جواب جلدی دینا تاکہ اُلجھن دُور ہو، بہت بہت شکریہ۔

ج…

۱:…”فی الحدیث ان النبی صلی الله علیہ

وسلم نعی للناس النجاشی، اخرجہ الجماعة۔”

ترجمہ:…”حدیث میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے شاہ نجاشی کی موت کا اعلان فرمایا تھا۔”

۲:…”وفی فتح الباری ( ۳، ۱۱۷): قال ابن العربی، یوٴخذ من مجموع الاحادیث ثلاث حالات، الاولیٰ اعلام الاہل والاصحاب واہل الصلاح فہذا سنة، الثانیة دعوة الحفل للمفاخرة فہٰذہ تکرہ، الثالثة الاعلام بنوع آخر کالنیاعة ونحو ذالک فہٰذا حرام، وقد نقلہ الشیخ فی الاوجز(۱، ۴۴۳) عن الفتح۔”

ترجمہ:…”فتح الباری میں ہے کہ ابن عربی فرماتے ہیں کہ موت کی اطلاع دینے کی تین حالتیں ہیں: ۱:-اہل و عیال اور احباب و اصحاب اور اہل صلاح کو اطلاع کرنا یہ تو سنت ہے۔ ۲:-فخر و مباحات کے لئے مجمع کثیر کو جمع کرنے کے لئے اعلان کرنا یہ مکروہ ہے۔ ۳:-لوگوں کو آہ و بکا اور بین کرنے کے لئے اطلاع کرنا اور بلانا یہ حرام ہے۔

۳:… “ وفی العلائیة: ولا بأس بنقلہ قبل دفنہ وبالاعلام بموتہ …الخ۔ وفی الشامیة: قولہ وبالاعلام بموتہ: ای اعلام بعضہم بعضاً، لیقضوا حقہ۔ ہدایة: وکرہ بعضہم ان ینادیٰ علیہ فی الازقة والاسواق، لانہ یشبہ نعی الجاہلیة، والاصح انہ لا یکرہ اذا لم یکن معہ تنویہ بذکرہ وتفخیم… فان نعی الجاہلیة ماکان فیہ قصد الدوران مع الضجیج والنیاحة وہو المراد بدعوی الجاہلیة فی قولہ صلی الله علیہ وسلم: “لیس منامن ضرب الخدود وشق الجیوب ودعا بدعوی الجاہلیة… شرح المنیة (شامی ۲۔۲۳۹) وکذا فی الفتح (۱۔ ۴۶۳)۔”

ترجمہ:…”اور علائیہ میں ہے کہ میّت کو دفن کرنے سے پہلے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے اور موت کے اعلان کرنے میں کوئی حرج نہیں…الخ۔ اور فتاویٰ شامی میں ہے: “اور اس کی موت کی اطلاع دینا یعنی ایک دوسرے کو اس لئے اطلاع دینا تاکہ اس کا حق ادا کرسکیں، (جائز ہے) اور بعض حضرات نے بازاروں اور گلیوں میں کسی کی موت کے اعلان کو مکروہ کہا ہے کیونکہ یہ زمانہ جاہلیت کی موت کی اطلاع دینے کے مشابہ ہے، صحیح یہ ہے کہ یہ مکروہ نہیں ہے، جب کہ اس اعلان کے ساتھ زمانہ جاہلیت کا سا نوحہ اور مردے کی بڑائی کا تذکرہ نہ ہو․․․․․ پس بے شک جاہلیت کی سی موت کی اطلاع وہ ہے کہ جس میں دل کی تنگی اور بین کا تذکرہ ہو، اور یہی مقصود ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کا کہ: وہ ہم میں سے نہیں ہے جس نے منہ کو پیٹا اور گریبان پھاڑے اور جاہلیت کے دعوے کئے۔”

ج…۲: مسجد میں اذان کہنا مکروہِ تنزیہی ہے، البتہ جمعہ کی دُوسری اذان کا معمول منبر کے سامنے چلا آتا ہے۔

تصویر کا حکم

س… اسی دن ہی آپ نے ایک سوال کے جواب میں لکھا تھا کہ تصویر حرام ہے جس کے لئے حضرت مفتی محمد شفیع دیوبندی کا حوالہ دیا تھا۔ پوچھنا یہ ہے کہ اگر تصویر حرام ہے تو ہمارے ملک سمیت کئی اسلامی ممالک میں کرنسی نوٹوں پر تصویریں ہیں، ہم لوگ یہ تصویری نوٹ جیب میں رکھ کر نماز پڑھتے ہیں، آیا ہماری نماز قبول ہوجاتی ہے؟

ہمارے ملک کے بڑے بڑے علماء سیاسی جماعتوں سے وابستہ ہیں، آئے دن اخبارات و رسائل میں ان کے انٹرویوز آتے رہتے ہیں، جس کے ساتھ ان کی تصویر بھی چھپتی ہے، لیکن کسی عالم نے اخبار یا رسالے کو منع نہیں کیا کہ انٹرویو چھاپ دیں، اور تصویر مت چھاپنا۔

حج کے دوران مناسک حج بھی ٹی وی پر براہ راست دکھائے جاتے ہیں کیا یہ بھی ٹھیک نہیں ہے؟ اور دیکھنے والا بھی گناہ گار ہے؟ جب کہ یہ بھی ایک عکس ہے، اس قسم کی بے شمار چیزیں ہیں، جو کہ آپ کو بھی معلوم ہے۔

ج… اس سوال میں ایک بنیادی غلطی ہے، وہ یہ کہ ایک ہے قانون، اور دُوسری چیز ہے قانون پر عمل نہ ہونا۔ میں تو شریعت کا قانون بیان کرتا ہوں، مجھے اس سے بحث نہیں کہ اس قانون پر کہاں تک عمل ہوتا ہے، اور کہاں تک عمل نہیں ہوتا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تصویر کو حرام قرار دیا ہے، اور تصویر بنانے والوں پر لعنت فرمائی ہے، اب اگر بالفرض ساری دُنیا بھی اس قانون کے خلاف کرنے لگے تو اس سے قانونِ شرعی تو غلط نہیں ہوجائے گا۔ ہاں! قانون کو توڑنے والے گناہ گار ہوں گے، جو لوگ نوٹوں پر تصویریں چھاپتے ہیں، اخبارات میں فوٹو چھاپتے ہیں، حج کی فلمیں بناتے ہیں، کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقرر کردہ قانون کے مقابلہ میں ان لوگوں کا قول و فعل حجت ہے؟ اگر نہیں تو ان کا حوالہ دینے کے کیا معنی؟

خوب سمجھ لیجئے کہ پاکستان کا سربراہ ہو، یا سعودی حکمران، سیاسی لیڈر ہو، یا علماء، مشائخ! یہ سب اُمتی ہیں، ان کا قول و فعل شرعی سند نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلے میں ان کا حوالہ دیا جائے، یہ سب کے سب اگر امتی بن کر اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قانون پر عمل کریں گے تو اللہ تعالیٰ کے یہاں اجر پائیں گے، اور اگر نہیں کریں گے تو بارگاہِ خدا وندی میں مجرم کی حیثیت سے پیش ہوں گے، پھر خواہ اللہ تعالیٰ ان کو معاف کردیں یا پکڑ لیں، بہرحال کسی مجرم کی قانون شکنی، قانون میں لچک پیدا نہیں کرتی، ہم لوگ بڑی سنگین غلطی کے مرتکب ہوتے ہیں جب قانون الٰہی کے مقابلے میں فلاں اور فلاں کے عمل کا حوالہ دیتے ہیں۔

تصویر والے نوٹ کو جیب میں رکھنے سے نماز فاسد نہیں ہوتی بغیر کسی شدید ضرورت کے تصویر بنوانا جائز نہیں ا ور حج فلم کا بنانا اور دیکھنا بھی جائز نہیں۔

نعرہٴ تکبیر کے علاوہ دُوسرے نعرے

س… جیسا کہ آپ کو معلوم ہوگا کہ افواجِ پاکستان کے جوان جذبہ جہاد، جذبہ شہادت اور حب الوطنی سے سرشار ہیں اور ملک کے لئے کسی قربانی سے دریغ نہیں کرتے، جنگ ایک ایسا موقع ہے کہ اس میں موت یقینی طور پر سامنے ہوتی ہے اور ہر سپاہی کی خواہش شہادت یا غازی بننا ہوتی ہے۔

جنگ کے دوران اور مشقوں میں فوجی جوان جوش میں مختلف نعرے لگاتے ہیں مثلاً نعرہٴ تکبیر: اللہ اکبر، نعرہٴ حیدری: یاعلی مدد۔

اب اصل مسئلہ “یا علی مدد” کا ہے ملک بھر کے فوجی جوان “یا علی مدد” پکارتے ہیں، لیکن اکثر علماء سے سنا ہے کہ شرکِ عظیم اور گناہ ہے، جسے اللہ تعالیٰ معاف نہیں کرتا، تو کیا “یاعلی مدد” کا نعرہ دُرست ہے یا نہیں؟کیونکہ اس نعرے کے بعد اگر موت واقع ہوجائے اور یہ واقعی شرک ہو تو معمولی سی ناسمجھی کی وجہ سے کتنا بڑا نقصان ہوسکتا ہے؟

نیز اکثر مسجدوں اور مختلف جگہوں پر یااللہ، یامحمد، یارسول کے نعرے درج ہوتے ہیں ان کے بارے میں بھی تفصیل سے بیان کریں۔

ج… اسلام میں ایک ہی نعرہ ہے، یعنی نعرئہ تکبیر: اللہ اکبر۔ باقی نعرے لوگوں کے خود تراشیدہ ہیں، نعرئہ حیدری شیعوں کی ایجاد ہے، کیونکہ وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ میں خدائی صفات کا عقیدہ رکھتے ہیں، یہ نعرہ بلاشبہ لائقِ ترک ہے اور شرک ہے۔

“یا محمد” اور “یا رسول اللہ” کے الفاظ لکھنا بھی غلط ہے، اس مسئلے پر میری کتاب “اختلافِ اُمت” میں تفصیل سے لکھا گیا ہے اسے ملاحظہ فرمالیں۔

الٹرا ساؤنڈ سے رحمِ مادر کا حال معلوم کرنا

س… قرآن میں کئی جگہ یہ ذکر کیا گیا ہے کہ بعض چیزوں کا علم سوائے اللہ کی ذات کے علاوہ کسی کے پاس نہیں ہے اس سلسلے میں سورة لقمان کی آخری آیات کا حوالہ دوں گا جس کا مفہوم کچھ اس طرح ہے کہ چند چیزوں کا علم سوائے اللہ کے کسی کے پاس نہیں ہے، ان میں قیامت کے آنے کا، بارش کے ہونے کا، کل کیا ہونے والا ہے، فصل کیسے اگے گی، اور ماؤں کے پیٹ میں کیا ہے (لڑکا یا لڑکی)۔

جیسا کہ آپ کو علم ہوگا کہ آج کل ایک مشین جس کا نام “الٹراساؤنڈ مشین” (Altra Sound Machine) ہے جوکہ شاید اب پاکستان میں بھی موجود ہے، ڈاکٹروں کا دعویٰ ہے کہ اس مشین کے ذریعے یہ آسانی سے بتایا جاسکتا ہے کہ حاملہ عورت کے پیٹ میں کیا ہے؟ یعنی لڑکی یا لڑکا؟ اور کئی ڈاکٹروں نے اس کو ثابت کر بھی دکھایا ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ آیا قرآن و حدیث کی روشنی میں ڈاکٹروں کا یہ دعویٰ کس حد تک درست ہے؟ اور اس مشین کی کیا حقیقت ہے؟ کیا یہ اسلام کے احکام اور قرآن کے خلاف نہیں ہے؟

ج… قرآنِ کریم کی جس آیت کا حوالہ آپ نے دیا ہے، اس میں یہ فرمایا گیا کہ “اللہ تعالیٰ جانتے ہیں جو کچھ رحم میں ہے۔” اگر اللہ تعالیٰ بذریعہ وحی کے یا کشف و الہام کے ذریعہ کسی کو بتادے تویہ اس آیت کے منافی نہیں، اسی طرح اگر آلات کے ذریعہ یا علامات کے ذریعہ یہ معلوم کرلیا جائے تو یہ بھی علم غیب شمار نہیں کیا جاتا، لہٰذا اس آیت کے خلاف نہیں۔ یہ جواب اس صورت میں ہے کہ آلات کے ذریعہ سو فیصد یقین کے ساتھ معلوم کیا جاسکے، ورنہ جواب کی ضرورت ہی نہیں، کیونکہ نفی، علمِ یقینی اور بغیر ذرائع کے حاصل ہونے والے کی ہے، جبکہ علم ایک تو ظنی ہوتا ہے، اور دُوسرا اسبابِ عادیہ کے ذریعہ حاصل ہوتا ہے، اور جو علم کسی کے ذریعہ سے حاصل ہو وہ علمِ غیب نہیں کہلاتا، لہٰذا یہ آیت کے منافی نہیں۔

فارمی مرغی کے کھانے کا حکم

س… آپ کو معلوم ہوگا کہ آج کل تقریباً ہر ملک میں مشینی سفید مرغی کا کاروبار عام ہے اور مرغیوں کی پرورش کے لئے ایسی خوراک دی جاتی ہے جس میں خون کی آمیزش کی جاتی ہے، جس سے مرغی جلد جوان ہوتی ہے اور اس غذا کی وجہ سے مرغی کے اندر خود بخود انڈے دینے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ قرآن و حدیث کی روشنی میں ایسی مرغی اور اس کے انڈے کھانے جائز ہیں؟

ج… مرغی کی غذا کا غالب حصہ اگر حرام ہو تو اس کا کھانا مکروہ ہے، اس کو تین دن بند رکھا جائے اور حلال غذا دی جائے اس کے بعد کھایا جائے، اور ان کی خوراک میں حلال غالب ہو تو کھانا جائز ہے۔

حقا کہ بنائے لا اِلٰہ است حسین

س… گزارش اینکہ حضرت خواجہ معین الدین اجمیری رحمة اللہ علیہ کی طرف منسوب ایک رباعی جو شیعہ فرقہ کے علاوہ اہل سنت والجماعة مقررین و علمائے کرام کی زبانوں پر بھی گشت کررہی ہے، میری مراد ہے:

شاہ است حسین بادشاہ است حسین

دین است حسین دین پناہ است حسین

سرداد ونداد دست در دست یزید

حقا کہ بنائے لا الٰہ است حسین

اسی طرح علامہ اقبال مرحوم کا ایک شعر:

بہر حق در خاک و خوں غلطیدہ است

تا بنائے لا الٰہ گر دیدہ است

اور ظفر علی خان مرحوم کا شعر جس کا آخری حصہ:

اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد

یہ اور اشعار مذکورہ بالا کا خط کشیدہ حصہ دِل میں بہت زیادہ کھٹکتا ہے، میرے ناقص علم کے مطابق یہ قرآن و سنت کی تعلیمات سے مطابقت نہیں رکھتا، واضح ہو کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا میرے دل میں نہایت بلند مقام ہے، آپ براہ کرم اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں مدلل تحریر فرمائیں کہ یہ صحیح ہے یا غلط؟

اگر بنائے لاالٰہ حسین نہیں تو از روئے شرع بنائے لاالٰہ کیا ہے؟ ایک عالم دین فرماتے ہیں کہ یہ رباعی ملا معین کا شفی رافضی کی ہے، حضرت خواجہ اجمیری کی نہیں، چونکہ ان کے دیوان و رسائل میں نہیں ملتی، جواب مدلل و مبرہن اور مفصل لکھیں۔

ج… ظفر علی خان مرحوم کے شعر میں تو کوئی اِشکال نہیں، “ہر کربلا” سے مراد “ہر شہادت گاہ” ہے ، اور شعر کا مدعا یہ ہے کہ قربانی و شہادت احیائے اسلام کا ذریعہ ہے۔

جہاں تک اوّل الذکر رباعی اور اقبال کے شعر کا تعلق ہے یہ خالصتاً رافضی نقطہٴ نظر کے ترجمان ہیں، خواجہ اجمیری کی طرف رباعی کا انتساب غلط ہے، اور اقبال کا شعر “فِیْ کُلِّ وَادٍ یَّہِیْمُوْنَ” کا مصداق ہے۔ لطف یہ ہے کہ رباعی میں “سرداد و نہ داد دست در دست یزید” کو، اور اقبال کے شعر میں “بہر حق در خاک و خوں غلطیدن” کو “بنائے لاالٰہ” ہونے کی علت قرار دیا گیا ہے، حالانکہ توحید، جو مفہوم ہے “لاالٰہ” کا حق تعالیٰ کی صفت ہے، بندہ کا ایک فعل اللہ تعالیٰ کی توحید و یکتائی کی علت کیسے ہوسکتا ہے؟ ہاں جو لوگ ائمہ معصومین میں خدا اور خدائی صفات کے حلول کے قائل ہوں ان سے ایسا مبالغہ مستبعد نہیں۔ الغرض یہ رباعی کسی رافضی کی ہے، اور اقبال کا شعر اس کا سرقہ ہے، واللہ اعلم!

سرکاری افسران کی خاطر تواضع

س… آڈٹ کے محکمے سے متعلق ہونے کی وجہ سے دوسرے محکموں میں جاکر آڈٹ کرنا پڑتا ہے، وہ لوگ مہمان سمجھ کر کھانے کا یا چائے کا بندوبست کرتے ہیں، نہ کھانے پر ناراض ہوتے ہیں یا آڈٹ کرنے میں تعاون میں سستی کرتے ہیں، کھانے یا چائے کے پیسے بھی ہمیں ادا نہیں کرنے دیتے، دُوسری جگہ جاکر ان چیزوں کا اپنے بندوبست سے حاصل کرنا مشکل ہوتا ہے، اس کھانے سے نہ ہم اپنے فرائض میں کوتاہی کرتے ہیں اور نہ وہ اس وجہ سے تقاضا کرتے ہیں کہ اعتراض معاف کردیئے جائیں، ایسی حالت میں کھانا یا چائے قبول کرنا چاہئے یا نہیں، ہمارے افسران نہ اس چیز کو منع کرتے ہیں نہ قبول کرنے کو کہتے ہیں ہاں خود جائیں تو کھاپی لیتے ہیں۔

ج… ہمارے معاشرے میں سرکاری افسران کو کھلانے پلانے کا معمول ہے، اس لئے لوگ اس پر بضد ہوتے ہیں، اگر ممکن ہوتو ان سے کہہ دیا جائے کہ ہمیں سفر کے لئے سرکاری خرچ ملتا ہے، اس لئے کھانے پینے کے مصارف ہم خود ادا کریں گے، البتہ تیاری کے انتظامات کردئیے جائیں، اگر لوگ اس پر راضی ہوجائیں تو یہ انتظام کرلیا جائے، ورنہ بحالتِ مجبوری ان کی ضیافت کو گوارا کرلیا جائے، لیکن اس ضیافت کا اثر فرائض کی بجا آوری پر واقع نہ ہو۔

خرچ سے زیادہ بل وصول کرنا

س… جب مقام سے باہر جاتے ہیں تو یومیہ خرچہ اور سفر خرچ سرکاری ملتا ہے، اور ہوٹل کا خرچ بھی، مثلاً ایک شخص ریلوے میں اے سی کلاس میں جاسکتا ہے، مگر کسی وجہ سے فرسٹ یا سکینڈ کلاس میں جاتا ہے اور حکومت سے پیسے اے سی کے لے لیتا ہے تو کیا یہ جائز ہے؟ اگر اضافی پیسے فقرأ میں تقسیم کردے بلا ثواب کی نیت کے تو پھر کیسا ہے؟

ایسے ہی مثلاً دوسو روپے یومیہ پر ہوٹل میں رہ سکتا ہے مگر وہ پچاس روپے والے کمرے میں رہتا ہے لیکن حکومت سے دوسو روپے لے لیتا ہے، کیا یہ جائز ہے؟ اگر اضافی ۱۵۰ روپے فقرأ میں تقسیم کردے تو پھر کیا جائز ہے؟ جبکہ بغیر نیت ثواب کے ہو۔

ج… اگر سرکار کی طرف سے اس کی اجازت ہے پھر تو کوئی اِشکال نہیں لیکن اگر اجازت نہیں تو بہتر صورت یہ ہے کہ جتنا خرچہ ہوا ہو اتنا ہی وصول کیا جائے، اور اگر یہ صورت بھی ممکن نہ ہو تو زائد خرچہ کسی تدبیر سے گورنمنٹ کے خزانے میں جمع کرادیا جائے، اور اگر یہ صورت بھی نہ ہوسکے تو مساکین کو بغیر نیت صدقہ کے دیدیا جائے۔

موٴثرِ حقیقی اللہ تعالیٰ ہیں نہ کہ دوائی

س… میرے ایک سوال کا جواب آپ نے دیا ہے جس سے میری ذہنی پریشانی ابھی تک ختم نہیں ہوسکی، میں دوبارہ آپ کو تکلیف دے رہی ہوں امید ہے آپ مجھے معاف کردیں گے۔ میرا سوال یہ تھا کہ:

“کیا دوائی کھانے سے بیٹا پیدا ہوسکتا ہے جس کے جواب میں آپ نے لکھا ہے کہ: “بیٹا بیٹی خدا ہی کے حکم سے ہوتے ہیں، اور دوائی بھی اسی کے حکم سے موثر ہوتی ہے اس لئے اگر یہ عقیدہ صحیح ہے تو دوائی کے استعمال میں کوئی حرج نہیں۔”

گستاخی معاف! مولانا صاحب میں چاہتی ہوں کہ آپ اس سوال کا جواب ذرا وضاحت سے دیں کیونکہ میرا دل ابھی بھی مطمئن نہیں ہوا کہ اگر دوائی کھانے سے بھی بیٹا پیدا ہوسکتا ہے تو پھر ہر عورت ہی دوائی کھانی شروع کردے اور دُنیا میں بیٹے ہی بیٹے نظر آئیں، بیٹیاں تو ختم ہوجائیں کیونکہ ہمارے ملک میں تو پہلے ہی بہت جہالت ہے، پہلے تو لوگ داتا صاحب کے مزار پر اور دُوسرے مزارات پر جاکر بیٹا مانگتے ہیں اور اب دوائی سے اگر بیٹا ملنے لگا تو عورتوں کا ہجوم ان کے گھر لگ جائے گا جو دوائی بیچ رہے ہیں اور دوائی بھی ہزاروں میں بیچ رہے ہیں کیا یہ شرک نہیں ہوگا؟ جب کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ میں جس کو چاہتا ہوں بیٹا دیتا ہوں جس کو چاہتا ہوں بیٹی دیتا ہوں، جب اللہ نے دینا اپنی مرضی سے ہے تو دوائی کیا اثر کر سکتی ہے؟

ج… میری بہن! دواؤں کا تعلق تجربہ سے ہے، پس اگر تجربہ سے ثابت ہوجائے (محض فراڈ نہ ہو) کہ فلاں دوائی سے بیٹا ہوسکتا ہے تو اس کا جواب میں نے لکھا تھا کہ دوائی کا موٴثر ہونا بھی اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہے جیسے بیماری سے شفا دینے والا تو اللہ تعالیٰ ہے، لیکن دوا دارو بھی کیا جاتا ہے، اور اس کا فائدہ بھی ہوتا ہے، تو یوں کہا جائے گا کہ جس طرح اللہ تعالیٰ بغیر دواؤں کے شفا دے سکتے ہیں اور دیتے ہیں اسی طرح کبھی دوائی کے ذریعے شفا عطا فرماتے ہیں، دوائی شفا نہیں دیتی، بلکہ اس کا وسیلہ اور ذریعہ بن جاتی ہے، اور جب اللہ تعالیٰ چاہتے ہیں دوائی کے باوجود بھی فائدہ نہیں ہوتا۔

اسی طرح اگر کوئی دوائی واقعی ایسی ہے جس سے بیٹا ہوجاتا ہے تو اس کی حیثیت بھی یہی ہوگی کہ کبھی اللہ تعالیٰ دوائی کے بغیر بیٹا دے دیتے ہیں، کبھی دوائی کو ذریعہ بنا کر دیتے ہیں، اور کبھی دوائی کے باوجود بھی نہیں دیتے، جب موٴثر حقیقی اللہ تعالیٰ کو سمجھا جائے اور دوائی کی تاثیر کو بھی اسی کے حکم و ارادہ کی پابند سمجھا جائے تو یہ شرک نہیں، اور ایسی دوائی کا استعمال گناہ نہیں۔

نوٹ: مجھے اس سے بحث نہیں کہ کوئی دوائی ایسی ہے بھی یا نہیں۔

مریخ وغیرہ پر انسانی آبادی

س… کیا ایک انسانوں کی آبادی اس زمین (جس پر ہم لوگ خود رہتے ہیں) کے علاوہ کہیں اور بھی ہوسکتی ہے؟ جیسے مریخ وغیرہ میں۔ میرا مطلب ہے کہ اسلامی رو سے یہ ممکن ہے یا نہیں اگر ہے تو انبیأ کرام کو تو صرف اس زمین پر خدا تعالیٰ نے بھیجا ہے جیسے ہم لوگ رہتے ہیں، اگر ممکن ہے تو وہ لوگ حج وغیرہ کس طرح ادا کریں گے؟

ج… آپ اس زمین کے انسانوں کی بات کریں، مریخ اور عطارد پر اگر انسانی مخلوق ہوگی تو اللہ تعالیٰ نے ان کی ہدایت اور حج وغیرہ کا بھی انتظام کیا ہوگا، آپ ان کا معاملہ خدا پر چھوڑ دیں۔

عورت کی حکمرانی

س… روزنامہ جنگ کراچی کے اسلامی صفحہ پر گزشتہ تین مسلسل جمعة المبارک (مورخہ ۲۷ جنوری، ۳ فروری اور ۱۰فروری ۱۹۸۹ء) سے ایک تحقیقی مقالہ بعنوان عورت بحیثیت حکمران از جناب مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب شائع ہورہا ہے۔

مفتی صاحب نے ان مقالات میں قرآن حکیم، احادیث مبارکہ، ائمہ کرام، فقہا اور علماء کے اقوال اور حوالوں سے یہ قطعی ثابت کیا ہے کہ ایک اسلامی مملکت کی سربراہ “عورت” نہیں ہوسکتی۔

سیاسی وابستگی سے قطع نظر بحیثیت ایک مسلمان میں خالصتاً اسلامی نقطہٴ نگاہ سے آپ سے یہ سوال کرنے کی جسارت کررہا ہوں کہ موجودہ دور کی حکمران چونکہ ایک خاتون ہے، جبکہ قرآن، حدیث، علماء اور فقہاء نے اس کی ممانعت اور مخالفت کی ہے، لیکن اس کے باوجود اہلِ پاکستان نے مشترکہ طور پر ایک عورت کو حکمران بنا کر قرآن اور حدیث کے واضح احکامات سے روگردانی کی ہے۔ کیا پوری قوم ان واضح احکامات سے روگردانی پر گناہ گار ہوئی اور کیا پوری قوم کو اس کا عذاب بھگتنا ہوگا․․․؟ نیز ہمارے موجودہ اسلامی شعائر اور فرائض پر تو اس کا کوئی اثر نہیں پڑرہا ہے؟

ج… حق تعالیٰ شانہ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور اجماعِ اُمت کے دو ٹوک اور قطعی فیصلہ اور اس کی کھلی مخالفت کے بعد کیا ابھی آپ کو گنہ گاری میں شک ہے؟ براہ راست گناہ تو ان لوگوں پر ہے جنھوں نے ایک خاتون کو حکومت کی سربراہ بنایا، لیکن اس کا وبال پوری قوم پر پڑے گا، مستدرک حاکم کی روایت میں بسند صحیح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نقل کیا ہے:

“ہلکت الرجال حین اطاعت النساء۔”

(مستدرک حاکم ج:۴ ص:۲۹۱)

ترجمہ:…”ہلاک ہوگئے مرد جب انہوں نے اطاعت کی عورتوں کی۔”

اب یہ تباہی اور ہلاکت پاکستان پر کن کن شکلوں میں نازل ہوتی ہے؟ اس کا انتظار کیجئے․․․!

اِبلیس کے لئے سزا

س… قرآن شریف میں اِبلیس کو جن کہا گیا ہے، جس نے حضرت آدم کو سجدہ کرنے سے اس لئے انکار کیا کہ اس کی تخلیق آگ سے ہے جبکہ انسان کی مٹی سے۔ اِبلیس کو اس کی نافرمانی کی وجہ سے ملعون قرار دیا گیا، اور اس کے اعمال پر چلنے والے انسانوں کو دوزخ کے درد ناک عذاب کی خبر دی گئی۔

لیکن کہیں بھی نہیں کہ اِبلیس کی ان حرکات پر اس کے لئے دوزخ کی سزا ہے یا نہیں؟ اگر ہے تو کیا جس کی تخلیق آگ سے ہے اس پر دوزخ کوئی اثر کرے گی؟

ج… اِبلیس کے لئے دوزخ کی سزا قرآنِ کریم میں مذکور ہے۔ جنوں کی تخلیق میں غالب عنصر آگ ہے، جیسا کہ انسان کی تخلیق میں غالب عنصر مٹی ہے، اور مٹی کا ہونے کے باوجود جس طرح انسان مٹی سے ایذا پاتا ہے، مثلاً: اس کو مٹی کا گولا مارا جائے تو اس کو تکلیف ہوگی، اسی طرح جنوں کے آگ سے پیدا ہونے کے باوجود ان کو آگ سے تکلیف ہوگی۔

گھوڑے کا گوشت

س… صحیح بخاری شریف جلد نمبر ۳ صفحہ نمبر ۲۵۵ سے ۲۵۶ تک مختلف احادیث میں یہ بات لکھی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے گھوڑے کا گوشت کھانا جائز قرار دیا ہے۔ ہمیں بتائیں کہ ان احادیث کا کیا مطلب ہے اور پھر اگر جائز ہے تو آج تک علمائے کرام نے کیوں نہیں بتایا؟

ج… سننِ ابی داؤد ص:۱۷۵، ج:۲ مطبوعہ کراچی میں حدیث ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے گھوڑے کے گوشت سے منع فرمادیا تھا، چونکہ ایک حدیث سے جواز معلوم ہوتا ہے، اور دوسری سے ممانعت معلوم ہوتی ہے، اس لئے امام ابو حنیفہ اور امام مالک کے نزدیک گھوڑے کا گوشت مکروہ ہے آپ نے یہ مسئلہ پہلے کسی عالم سے پوچھا نہیں ہوگا اگر پوچھتے تو بتایا جاتا۔

کیا سب دریائی جانور حلال ہیں؟

س… جس طرح قرآن مجید کی یہ آیت ہے کہ دریاؤں کے جانوروں کو حلال قرار دیا گیا ہے مگر ہم صرف مچھلی حلال سمجھتے ہیں جبکہ سمندروں میں اور بھی جاندار ہوتے ہیں۔

ج… قرآنِ کریم کی جس آیت کا آپ نے حوالہ دیا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ اِحرام کی حالت میں دریائی جانوروں کے شکار کو حلال فرمایا گیا ہے، خود ان جانوروں کو حلال نہیں فرمایا گیا۔ اور شکار حرام جانور کا بھی ہوسکتا ہے، جیسے: شیر اور چیتے کا شکار کیا جاتا ہے۔ حدیث شریف میں صرف مچھلی کو حلال فرمایا ہے، اس لئے ہم صرف مچھلی کو حلال سمجھتے ہیں۔ (نصب الرایہ ج:۲ ص:۲۰۲)

جانور کو خصی کرنا

س… قربانی کے لئے جو بکرا پالتے ہیں اس کو خصی کردیتے ہیں صرف اس نیت سے کہ اس کی نشو و نما اچھی ہو اور گوشت بھی زیادہ نکلے اور خصوصاً فروخت کرنے والے زیادہ تر خصی کردیتے ہیں تاکہ دام اچھے لگیں۔ جب خصی کرتے ہیں تو بکرا بُری طرح سے چیخ و پکار کرتا ہے، تو کیا جانور پر یہ ظلم ہے یا نہیں؟

ج… جانور کا خصی کرنا جائز ہے، اور اس کی قربانی بھی جائز ہے۔ جہاں تک ممکن ہو کوشش کی جائے کہ جانور کو تکلیف کم سے کم پہنچے۔

داڑھی کٹانا حرام ہے

س… آپ نے ارشاد فرمایا ہے کہ ڈاڑھی بڑھانا واجب ہے اور اس کو منڈانا یا کٹانا (جبکہ ایک مشت سے کم ہو) شرعاً حرام اور گناہ کبیرہ ہے۔

۱:… جنابِ عالی! میں نے پاکستان میں ماہِ رمضان میں کئی حافظ دیکھے جو تراویح پڑھاتے تھے اور ڈاڑھی صاف کرتے تھے۔

۲:…سب سے اعلیٰ مثال ہمارے حکیم سعید احمد صاحب ہمدرد والے الحاج حافظ ہیں،۹۰ سال کی عمرمیں ہیں، اپنے رسالے “ہمدرد صحت” میں پہلا مضمون قرآن اور حدیث کا ہوتا ہے، خود لکھتے ہیں، کیا ان کو یہ مسئلہ نہیں معلوم؟

۳:… یہاں ریاض میں اکثریت لوکل آبادی ذراسی داڑھی رکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ امام شافعی اور امام احمد بن حنبل کی فقہ میں جائز ہے۔

۴:… اس مسئلہ پر ایک قابل، تعلیم یافتہ جو عربی اور حدیث و فقہ کی ڈگریاں رکھتے ہیں، نے گفتگو کی، انہوں نے بھی کہا کہ چھوٹی داڑھی حرام نہیں۔

براہِ کرم تفصیل سے جواب دیں کیونکہ اکثر پاک و ہند کے مسلمان بھی یہاں آکر ان جیسی ڈاڑھی رکھنے لگے ہیں کیونکہ عمرہ، حج کرنے کے بعد سے نماز کی پابندی بھی کرتے ہیں۔

ج… فاسق ہیں، ان کی اقتداء میں نماز مکروہِ تحریمی ہے۔

۲:… یہ بات حکیم صاحب ہی کو معلوم ہوگی کہ ان کو مسئلہ معلوم ہے یا نہیں؟

۳:… یہ لوگ غلط کہتے ہیں کسی فقہ میں جائز نہیں۔

۴:… ان کے پاس ڈگریاں ہیں، لیکن صرف ڈگریوں سے دین آجایا کرتا تو مغرب کے مستشرقین ان سے بڑی ڈگریاں رکھتے ہیں، اس موضوع پر میرا مختصر سا رسالہ ہے “داڑھی کا مسئلہ” اس کا مطالعہ کریں۔

علماء کے متعلق چند اِشکالات

س… میں چند سوالات لکھ رہا ہوں یہ تمام سوالات کتاب (تبلیغی جماعت، حقائق و معلومات) سے لئے ہیں جس کے مولف (علامہ ارشد القادری) ہیں:

۱:… دیوبندی گروہ کے شیخ الاسلام مولانا حسین احمد صاحب نے اس فرقے اور اس کے بانی محمد ابن عبدالوہاب نجدی کے متعلق نہایت سنگین اور لرزہ خیز حالات تحریر فرمائے ہیں، وہ لکھتے ہیں:

“محمد ابن عبدالوہاب نجدی ابتدائے تیرہویں صدی میں نجد عرب سے ظاہر ہوا، اور چونکہ خیالات باطلہ اور عقائد فاسدہ رکھتا تھا، اس لئے اس نے اہل سنت والجماعة سے قتل و قتال کیا ان کو بالجبر اپنے خیالات کی تکلیف دیتا رہا، ان کے اموال کو غنیمت کا مال اور حلال سمجھا گیا، ان کے قتل کرنے کو باعثِ ثواب و رحمت شمار کرتا رہا، محمد ابن عبدالوہاب کا عقیدہ تھا کہ جملہ اہل عالم اور تمام مسلمانان دیار مشرک و کافر ہیں، اور ان سے قتل و قتال کرنا اور ان کے اموال کو ان سے چھین لینا حلال اور جائز بلکہ واجب ہے۔” (الشہاب ص:۴۲،۴۳)

جبکہ فتاویٰ رشیدیہ ج:۱ ص:۱۱۱ میں حضرت گنگوہی صاحب ایک سوال کے جواب میں لکھتے ہیں:

“محمد ابن عبدالوہاب کے مقتدیوں کو وہابی کہتے ہیں، ان کے عقائد عمدہ تھے۔”

حضرت پوچھنا یہ چاہتا ہوں کہ دیوبند کے شیخ مولوی حسین احمد مدنی صاحب نے وہابیوں کے متعلق اتنی سنگین باتیں لکھیں جب کہ حضرت گنگوہی نے ان کے عقائد عمدہ لکھے۔ برائے مہربانی میری اس پریشانی کو دور فرمائیں اللہ آپ کو جزا عطا فرمائیں گے۔

ج… دونوں نے ان معلومات کے بارے میں رائے قائم کی جو ان تک پہنچی تھیں، ہر شخص اپنے علم کے مطابق حکم لگانے کا مکلف ہے بلکہ ایک ہی شخص کی رائے کسی کے بارے میں دو وقتوں میں مختلف ہوسکتی ہے، پھر تعارض کیا ہوا؟ علاوہ ازیں تبلیغی جماعت کے بارے میں اس بحث کو لانے سے کیا مقصد؟

۲:…”فتاویٰ رشیدیہ ج:۲،ص:۹ میں کسی نے سوال کیا ہے کہ لفظ رحمة للعالمین، مخصوص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے یا ہر شخص کو کہہ سکتے ہیں؟

جواب میں حضرت گنگوہی فرماتے ہیں کہ لفظ رحمة للعالمین صفت خاصہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نہیں ہے۔”

حضرت پوچھنا یہ چاہتا ہوں کہ ہم بھی آج تک یہی سمجھ رہے ہیں اور غالباً یہ درست بھی ہے کہ یہ صفت حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی ہے۔

ج… بالکل صحیح ہے کہ رحمةللعالمین، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صفت ہے لیکن دُوسرے انبیاء و اولیاء کا وجود بھی اپنی جگہ رحمت ہے، اسی کو حضرت گنگوہی قدس سرہ، نے بیان فرمایا، اس کی مثال یوں سمجھو کہ سمیع و بصیر حق تعالیٰ شانہ کی صفت ہے لیکن انسان کے بارے میں فرمایا۔”فَجَعَلْنَاہُ سَمِیْعًا بَصِیْرًا” (سورئہ الدہر) کیا انسان کے سمیع و بصیر ہونے سے اس کا صفتِ خداوندی کے ساتھ اشتراک لازم آتا ہے؟

۳:…”مولانا قاسم نانوتوی صاحب اپنی ایک کتاب تحذیر الناس میں تحریر فرماتے ہیں کہ… انبیاء اپنی امت سے ممتاز ہوتے ہیں باقی رہا عمل اس میں بسا اوقات بظاہر امتی مساوی ہوجاتے ہیں بلکہ بڑھ جاتے ہیں۔” (تحذیر الناس ص:۵)

حضرت پوچھنا یہ چاہتا ہوں کہ نبی پر تو اللہ وحی بھی بھیجتے ہیں، کتابیں بھی اترتی ہیں، اللہ سے ہمکلام بھی ہوتے ہیں حتی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو تو معراج بھی ہوئی، پھر نبی کے عمل میں اور امتی کے عمل میں تو بہت فرق ہوگیا کیا یہ بات صحیح نہیں؟

ج… حضرت نانوتوی کی مراد یہ ہے کہ عبادات کی مقدار میں تو غیر نبی بھی نبی کے برابر ہوجاتا؟ بلکہ بسا اوقات بڑھ بھی جاتا ہے مثلاً جتنے روزے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم رکھتے تھے مسلمان بھی اتنے ہی رکھتے ہیں بلکہ بعض حضرات نفلی روزہ کی مقدار میں بڑھ بھی جاتے ہیں، اسی طرح نمازوں کو دیکھو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے رات کی نماز میں تیرہ یا پندرہ رکعت سے زیادہ ثابت نہیں، اور بہت سے بزرگان دین سے ایک ایک رات میں سیکڑوں رکعتیں پڑھنا منقول ہے، مثلاً امام ابو یوسفقاضی القضاة بننے کے بعد رات کو دو سو رکعتیں پڑھتے تھے، الغرض امتیوں کی نمازوں کی مقدار نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ نظر آتی ہے لیکن جاننے والے جانتے ہیں کہ پوری امت کی نمازیں مل کر بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک رکعت کے برابر نہیں ہوسکتیں اس کی وجہ کیا ہے؟ وجہ یہ ہے کہ علم باللہ، ایمان و یقین اور خشیت و تقویٰ کی جو کیفیت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل تھی وہ پوری امت کے مقابلہ میں بھاری ہے، اسی کو حضرت نانوتوی بیان فرماتے ہیں کہ حضرات انبیائے کرام علیہم السلام کا اصل کمال وہ علم و یقین ہے جو ان اکابر کو حاصل تھا، ورنہ ظاہری عبادات میں تو بظاہر امتی، انبیائے کرام کے برابر نظر آتے ہیں، بلکہ ان کی عبادات کی مقدار بظاہر ان سے زیادہ نظر آتی ہے، جیسا کہ اُوپر مثالوں سے واضح کیا گیا۔

۴:…”حضرت تھانوی کے کسی مرید نے مولانا کو لکھا کہ میں نے رات خواب میں اپنے آپ کو دیکھا کہ ہر چند کلمہ تشہد صحیح ادا کرنے کی کوشش کرتا ہوں لیکن ہر بار ہوتا یہ ہے کہ “لاالہ الا اللہ” کے بعد اشرف علی رسول اللہ منہ سے نکل جاتاہے۔ اس کے جواب میں تھانوی صاحب فرماتے ہیں کہ تم کو مجھ سے غایت محبت ہے یہ سب کچھ اسی کا نتیجہ اور ثمرہ ہے۔”

(“برہان” فروری ۱۹۵۲ ص:۱۰۷)

حضرت پوچھنا یہ چاہتا ہوں کہ کسی کی محبت میں ہم ایسا کلمہ پڑھ سکتے ہیں؟

ج… کسی کی محبت میں ایسا کلمہ نہیں پڑھ سکتے نہ اس واقعہ میں اس شخص نے یہ کلمہ پڑھا، بلکہ غیر اختیاری طور پر اس کی زبان سے نکل رہا ہے، وہ تو کوشش کرتا ہے کہ یہ کلمہ نہ پڑھے، لیکن اس کی زبان اس کے اختیار میں نہیں، اور سب جانتے ہیں کہ غیراختیاری امور پر مواخذہ نہیں، مثلاً کوئی شخص مدہوشی کی حالت میں کلمہ کفر بکے تو اس کو کافر نہیں کہا جائے گا، اور اس شخص کو اس غلط بات سے جو رنج ہوا اس کے ازالے کے لئے حضرت تھانوی نے فرمایا کہ یہ کیفیت محبت کی مدہوشی کی وجہ سے پیدا ہوئی، چونکہ غیر اختیاری کیفیت تھی لہٰذا اس پر موٴاخذہ نہیں۔

۵:…” ملفوظات الیاس کا مرتب اپنی کتاب میں ان کا یہ دعویٰ نقل کرتے ہوئے لکھتا ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد:

“کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ” کی تفسیر خواب میں یہ القا ہوئی کہ تم مثل انبیاء کے لوگوں کے واسطے ظاہر کئے گئے ہو۔”

(ملفوظات ص:۵۱)

حضرت پوچھنا یہ چاہتا ہوں کہ کیا حضرت جی یعنی مولانا الیاس کا یہ دعویٰ صحیح ہے؟

ج… انبیاء کے مثل سے مراد ہے کہ جس طرح ان اکابر پر دعوتِ دین کی ذمہ داری تھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت کے طفیل میں یہ ذمہ داری امت مرحومہ پر عائد کردی گئی، اس میں کون سی بات خلافِ واقعہ ہے، اور اس پر کیا اشکال ہے؟

۶:… مولوی عبدالرحیم شاہ باڑہ ٹونئی صدر بازار دہلی والے ان کی کتاب (اصول دعوت و تبلیغ) کے آخری ٹائٹل پیج پر مولوی احتشام الحسن صاحب یہ مولانا الیاس کے برادر نسبتی ان کے خلیفہ اول ہیں ان کی یہ تحریر “انتظار کیجئے” کے عنوان سے شائع ہوئی ہے یہ تحریر انہوں نے اپنی ایک کتاب (زندگی کی صراط مستقیم) کے آخر میں ضروری انتباہ کے نام سے شائع کی ہے لکھتے ہیں:

نظام الدین کی موجودہ تبلیغ میرے علم و فہم کے مطابق نہ قرآن و حدیث کے موافق ہے اور نہ حضرت مجدد الف ثانی اور حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اور علمائے حق کے مسلک کے مطابق ہے، جو علمائے کرام اس تبلیغ میں شریک ہیں ان کی پہلی ذمہ داری ہے کہ اس کام کو پہلے قرآن و حدیث، ائمہ سلف اور علمائے حق کے مسلک کے مطابق کریں، میری عقل و فہم سے بہت بالا ہے کہ جو کام حضرت مولانا الیاس کی حیات میں اصولوں کی انتہائی پابندی کے باوجود صرف”بدعت حسنہ” کی حیثیت رکھتا تھا اس کو اب انتہائی بے اصولیوں کے بعد دین کا اہم کام کس طرح قرار دیا جارہا ہے؟ اب تو منکرات کی شمولیت کے بعد اس کو بدعت حسنہ بھی نہیں کہا جاسکتا، میرا مقصد صرف اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہونا ہے۔”

حضرت برائے مہربانی اس سوال کا جواب ذرا تفصیل سے عنایت کریں کیونکہ میں اس کی وجہ سے بہت پریشان ہوں اللہ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائیں، آمین۔

ج… ان بزرگ کے علم و فہم کے مطابق نہیں ہوگی، لیکن یہ بات قرآن کی کس آیت میں آئی ہے کہ ان بزرگ کا علم و فہم دوسروں کے مقابلے میں حجتِ قطعیہ ہے؟

الحمدللہ! تبلیغ کا کام جس طرح حضرت مولانا الیاس کی حیات میں اصولوں کے مطابق ہورہا تھا آج بھی ہورہا ہے، ہزاروں نہیں لاکھوں انسانوں کی زندگیوں میں انقلاب آرہا ہے، بے شمار انسانوں میں دین کا درد، آخرت کی فکر، اپنی زندگی کی اصلاح کی تڑپ اور بھولے ہوئے انسانوں کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم والی لائن پر لانے کا جذبہ پیدا ہورہا ہے، اور یہ ایسی باتیں ہیں جن کو آنکھوں سے دیکھا جاسکتا ہے، اب اس خیرو برکت کے مقابلہ میں جو کھلی آنکھوں نظر آرہی ہے، تبلیغ سے روٹھے ہوئے ایک بزرگ کا علم و فہم کیا قیمت رکھتا ہے؟

اور ان بزرگ کا اس کام کو “بدعت حسنہ” کہنا بھی ان کے علم و فہم کا قصور ہے، دعوت الی اللہ کاکام تمام انبیائے کرام علیہم السلام کا کام چلا آیا ہے، کون عقل مند ہوگا جو انبیائے کرام علیہم السلام کے کام کو بدعت کہے؟

میں نے اِعتکاف میں قلم برداشتہ یہ چند الفاظ لکھ دئے ہیں، امید ہے کہ موجب تشفی ہوں گے، ورنہ ان نکات کی تشریح مزید بھی کی جاسکتی تھی، مگر اس کی نہ فرصت ہے اورنہ ضرورت۔

ایک خاص بات یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جو لوگ علم میں کمزور ہوں ان کو کچے پکے لوگوں کی کتابیں اور رسالے پڑھنے سے پرہیز کرنا چاہئے، کیونکہ ایسے لوگوں کا مقصود تو محض شبہات و وساوس پیدا کرکے دین سے برگشتہ کرنا ہوتا ہے، اعتراضات کس پر نہیں کئے گئے؟ اس لئے ہر اعتراض لائق التفات نہیں ہوتا۔

عورت کے لئے کسبِ معاش

س… مورخہ ۲۰ جنوری ۱۹۹۲ء روزنامہ جنگ میں محترم بیگم سلمیٰ احمد صاحبہ نے کراچی اسٹاک ایکسچینج کے نو منتخب عہدیداران کے استقبالیہ میں تقریر کرتے ہوئے سورہٴ نسأ کی آیت: ۳۱ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ “عورت جو کماتی ہے وہ اس کا حصہ ہے اور مرد جو کماتا ہے وہ اس کا حصہ ہے” لہٰذا عورتوں کو کاروبار کرنے کی اجازت ہے، جب کہ قرآن مجید میں اس آیت کا ترجمہ یہ ہے: “کہ مردوں کے لئے ان کے اعمال کا حصہ ثابت ہے اور عورتوں کے لئے ان کے اعمال کا حصہ ثابت ہے۔”

قرآن مجید کے ترجمہ سے کہیں یہ ثابت ہوتا ہے کہ عورتیں کاروبار اعلانیہ کرسکتی ہیں؟ جب کہ ہر شخص کی طرح عورتوں کو بھی ان کے اعمال کا حصہ ملے گا اور مردوں کو بھی ان کے اعمال کا حصہ ملے گا، تو محترمہ بیگم سلمیٰ احمد صاحبہ نے کاروبار کا مفہوم کہاں سے نکال لیا، اس سے قبل جناب مولانا طاہر القادری صاحب نے بھی مرحوم جنرل محمد ضیاء الحق صاحب کے ریفرنڈم کے زمانہ میں خطاب کے دوران اسی قسم کا ترجمہ کیا تھا، کیونکہ مرحوم نے بھی اس زمانہ میں پاک پتن شریف میں تقریر کرتے ہوئے خواتین کے اجتماع سے خطاب کے دوران یہی ترجمہ کیا تھا کہ عورت کاروبار کرسکتی ہے، جس کی تائید کرنے پر مولانا محترم کو مجلس شوریٰ کا ممبر نامزد کیا گیا۔

لہٰذا آپ سے مودبانہ گزارش ہے کہ آپ براہ کرم مندرجہ بالا آیت مبارکہ کا صحیح ترجمہ شائع فرما کر امت مسلمہ کو کسی نئے تنازعہ سے بچائیں۔

ج… یہاں دو مسئلے الگ الگ ہیں۔ اوّل یہ کہ عورت کے لئے کسب معاش کا کیا حکم ہے؟ میں اس مسئلہ کی وضاحت پہلے بھی کرچکا ہوں کہ اسلام نے بنیادی طور پر کسبِ معاش کا بوجھ مرد کے کندھوں پر ڈالا ہے، اور خواتین کے خرچ اخراجات ان کے ذمہ ڈالے ہیں، خاص طور پر شادی کے بعد اس کے نان و نفقہ کی ذمہ داری مرد پر ڈالی گئی ہے، اور یہ ایک ایسی کھلی ہوئی حقیقت ہے، جس پر دلائل پیش کرنا کار عبث نظر آتا ہے، ابلیس مغرب نے صنف نازک پر جو سب سے بڑا ظلم کیا ہے وہ یہ کہ “مساوات مرد و زن” کا فسوں پھونک کر عورت کو کسب معاش کی گاڑی میں جوت کر مردوں کا بوجھ ان پر ڈال دیا، اور جن حضرات کا آپ نے تذکرہ کیا ہے وہ اسی مسلک کے نقیب اور داعی ہیں، اور اس کی وجہ سے جو جو خرابیاں مغربی معاشرہ میں رونما ہوچکی ہیں وہ ایک مسلمان معاشرہ کے لئے لائق رشک نہیں بلکہ لائق شرم ہیں۔

ہاں! بعض صورتوں میں بے چاری عورتوں کو مردوں کا یہ بوجھ اٹھانا پڑتا ہے، ایسی عورتوں کا کسب معاش پر مجبور ہونا ایک اضطراری حالت ہے، اور اپنی عفت و عصمت اور نسوانیت کی حفاظت کرتے ہوئے وہ کوئی شریفانہ ذریعہ معاش اختیار کریں تو اس کی اجازت ہے۔

دُوسرا مسئلہ بیگم صاحبہ کا قرآن کریم کی آیت سے استدلال ہے، اس کے بارے میں مختصراً یہی عرض کیا جاسکتا ہے کہ اس آیت شریفہ کا موصوفہ کے دعویٰ کے ساتھ کوئی جوڑ نہیں بلکہ یہ آیت ان کے دعوے کی نفی کرتی ہے، کیونکہ اس آیت شریفہ کا نزول بعض خواتین کے اس سوال پر ہوا تھا کہ ان کو مردوں کے برابر کیوں نہیں رکھا گیا؟ مردوں کو میراث کا دوگنا حصہ ملتا ہے، چنانچہ حضرت مفتی محمد شفیع  تفسیر معارف القرآن میں لکھتے ہیں:

“ما قبل کی آیتوں میں میراث کے احکام گزرے ہیں، ان میں یہ بھی بتلایا جا چکا ہے کہ میت کے ورثأ میں اگر مرد اور عورت ہو، اور میت کی طرف رشتہ کی نسبت ایک ہی طرح کی ہو تو مرد کو عورت کی بہ نسبت دوگنا حصہ ملے گا، اسی طرح کے اور فضائل بھی مردوں کے ثابت ہیں، حضرت ام سلمہ نے اس پر ایک دفعہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ ہم کو آدھی میراث ملتی ہے، اور بھی فلاں فلاں فرق ہم میں اور مردوں میں ہیں۔

مقصد اعتراض کرنا نہیں تھا بلکہ ان کی تمنا تھی کہ اگر ہم لوگ بھی مرد ہوتے تو مردوں کے فضائل ہمیں بھی حاصل ہوجاتے، بعض عورتوں نے یہ تمنا کی کہ کاش ہم مرد ہوتے تو مردوں کی طرح جہاد میں حصہ لیتے اور جہاد کی فضیلت ہمیں حاصل ہوجاتی۔

ایک عورت نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا مرد کو میراث میں دوگنا حصہ ملتا ہے اور عورت کی شہادت بھی مرد سے نصف ہے تو کیا عبادات و اعمال میں بھی ہم کو نصف ہی ثواب ملے گا؟ اس پر یہ آیت نازل ہوئی جس میں دونوں قولوں کا جواب دیا گیا ہے، حضرت ام سلمہ کے قول کا جواب :”وَلَا تَتَمَنَّوْا” سے دیا گیا اور اس عورت کے قول کا جواب “لِلرِّجَالِ نَصِیْبٌ” سے دیا گیا۔ (تفسیر معارف القرآن ص:۳۸۸، ج:۲)

خلاصہ یہ کہ آیت شریفہ میں بتایا گیا کہ مرد و عورت کے خصائص الگ الگ اور ان کی سعی و عمل کا میدان جدا جدا ہے، عورتوں کو مردوں کی اور مردوں کو عورتوں کی ریس کیا؟ اس کی تمنا بھی نہیں کرنی چاہئے، قیامت کے دن ہر شخص کو اپنی سعی و عمل کا پھل ملے گا، مردوں کو ان کی محنت کا، اور عورتوں کو ان کی محنت کا، مرد ہو یا عورت کسی کو اس کی محنت کے ثمرات سے محروم نہیں کیا جائے گا۔

بیگم صاحبہ نے جو مضمون اس آیت شریفہ سے اخذ کرنا چاہا ہے وہ یہ ہے کہ مردوں کی دُنیوی کمائی ان کو ملے گی، عورتوں کا اس میں کوئی حق نہیں، اور عورتوں کی محنت مزدوری ان کی ہے، مردوں کا اس میں کوئی حق نہیں، اگر یہ مضمون صحیح ہوتا تو دنیا کی کوئی عدالت بیوی کے نان و نفقہ کی ذمہ داری مرد پر نہ ڈالا کرتی، اور عدالتوں میں نان نفقہ کے جتنے کیس دائر ہیں ان سب کو یہ کہہ کر خارج کردینا چاہئے کہ بیگم صاحبہ کی “تفسیر” کے مطابق مرد کی کمائی مرد کے لئے ہے، عورت کا اس میں کوئی حق نہیں، استغفراللہ! تعجب ہے کہ ایسی کھلی بات بھی لوگوں کی عقل میں نہیں آتی۔

بچہ اگر دَب کر مرجائے

س… ہمارے علاقے کی عورتیں بچوں کو اپنے ساتھ ایک بستر پر رات کے وقت سلاتی ہیں، چند واقعات ایسے رونما ہوئے ہیں کہ عورتوں کے یہ بچے اکثر سوتے میں ان عورتوں کے نیچے آکر مرجاتے ہیں، تو یہاں کے لوگ ان عورتوں کو دو مہینے تک متواتر روزے رکھنے پر مجبور کرتے ہیں، یہاں بہت سے علماء سے اس کے بارے میں جواب طلب کیا، لیکن صحیح جواب سے محروم ہوں۔ اس لئے آپ صاحبان سے اس کے بارے میں صحیح جواب اور راہنمائی کی ضرورت ہے۔

ج… اگر عورت کی کروٹ کے نیچے آکر بچہ مرجائے تو یہ “قتل خطا” ہے، اور “قتل خطا” کا حکم خود قرآنِ کریم میں منصوص ہے کہ ایک تو دیت واجب ہوگی جو عورت کے قبیلہ کے لوگ اولیائے مقتول کو ادا کریں گے، دُوسرے قاتل کے ذمہ دو مہینے کے پے درپے روزے لازم ہوں گے، اس لئے ایسی عورتوں پر دو مہینے کے پے در پے روزے لازم ہیں۔

طالبان اسلامی تحریک

س…۱: مسلمانوں کا جہاد فی سبیل اللہ کی ادائیگی کے لئے طالبان اسلامی تحریک یعنی “امیر الموٴمنین ملا محمد عمر# مجاہد دامت برکاتہم العالیہ” کے جہادی نظم میں شامل ہوکر کفار و فساق فجار کے خلاف عملی جہاد کرنا شرعی طور پر جائز ہے یا نہیں؟

س…۲: پوری دُنیا کے کفار و فساق طالبان اسلامی مملکت کے خلاف ہر محاذ پر سرگرم ہیں اس صورت حال میں دنیا کے عام مسلمانوں کا طالبان کے ساتھ شامل ہوکر جہاد کرنا کیسا عمل ہے، وضاحت فرمائیں؟

ج… جہاد فی سبیل اللہ فرض ہے اور امیر الموٴمنین ملا عمر کی قیادت میں افغانستان میں طالبان کی جو تحریک شروع ہوئی وہ ٹھیٹھ اسلامی تحریک ہے، اور طالبان کی قائم کردہ حکومت خالص شرعی حکومت ہے اور جو لوگ اس کی مخالفت کر رہے ہیں، ان کا حکم اسلامی حکومت کے باغیوں کا ہے۔ اس لئے ملا عمر کی زیر قیادت کفار اور باغیوں سے جہاد کرنا بالکل جائز ہے، بلکہ ضروری ہے، ان کی اسلامی حکومت ہونے کی دلیل یہ بھی ہے کہ تمام اسلامی قوتیں اس کے موافق ہیں اور تمام غیر اسلامی قوتیں اس کے خلاف، اگر افغانستان کے حالات معلوم کرنے ہوں، تو تھوڑے سے سفر کی زحمت اٹھاکر اپنی آنکھوں سے وہاں اسلامی اقدار کا نقشہ دیکھا جاسکتا ہے۔

جہادِ افغانستان

س… ایک آدمی مسلمان ہوتے ہوئے علی الاعلان بزبان خود یوں کہنے لگے کہ موجودہ افغانستان کا جہاد بالکل جہاد ہی نہیں بلکہ ایک طرف رُوس کی حمایت اور دوسری طرف امریکہ کی حمایت میں لڑتے ہیں اور دونوں ہی گروہ کافر ہیں، بتائیں کہ ایسا آدمی دائرہ اسلام سے خارج ہے یا نہیں؟

ج… افغانستان کا جہاد ہمارے نقطہٴ نظر سے توصحیح ہے، لیکن ہر شخص اپنی فکر و فہم کے مطابق گفتگو کیا کرتا ہے۔ یہ صاحب جو دونوں فریقوں کو کافر قرار دے رہے ہیں یہ ان کی صریح زیادتی ہے، اور ان کا یہ سمجھنا کہ ایک فریق امریکہ کی حمایت میں لڑرہا ہے، یہ ناقص معلومات کا نتیجہ ہے، میں اس شخص کو دائرہٴ اسلام سے خارج قرار دینے کی جرأت تو نہیں کرتا، بشرطیکہ وہ ضروریات دین کا قائل ہو، لیکن یہ ضرور کہوں گا کہ اپنی ناقص معلومات کی بنا پر اتنا بڑا دعویٰ کرکے، اور مسلمانوں کو کافر ٹھہراکر یہ شخص گنہگار ہورہا ہے، اس کو توبہ کرنی چاہئے، اور دُوسرے لوگوں کو چاہئے کہ اس موضوع پر اس سے گفتگو ہی نہ کریں۔

مروّجہ میلاد

س… ہمارے ہاں یہ مسئلہ زیر بحث ہے کہ مروّجہ میلاد کیوں ناجائز ہے، حالانکہ اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکار مقدس ہوتا ہے، پھر حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی نے رسالہ ہفت مسئلہ میں اس کو جائز فرمایا ہے، جب کہ دیگر اکابر دیوبند مروّجہ میلاد کو بدعات اور مفاسد کی بنا پر اس کو بدعت کہتے ہیں، اس سلسلہ میں حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر صاحب سے بھی رجوع کیا گیا، مگر ان کے جواب سے بھی تشفی نہیں ہوئی۔

آنجناب سے اس مسئلے کی تنقیح کی درخواست ہے کہ صحیح صورتحال کیا ہے؟

ج… محترمان و مکرمان بندہ! زیدت مکارہم، السلام علیکم ورحمة اللہ و برکاتہ۔

نامہ کرم موصول ہوا، یہ ناکارہ ازحد مصروف ہے، اور جس موضوع پر لکھنے کی آپ نے فرمائش کی ہے اس پر صدیوں سے خامہ فرسائی ہورہی ہے، جدید فتنوں کو چھوڑ کر ایسے فرسودہ مسائل پر اپنی صلاحیتیں صرف کرنے سے دریغ ہے، اس لئے اس پر لکھنے کے لئے طبیعت کسی طرح آمادہ نہیں، خصوصاً جب یہ دیکھتا ہوں کہ حضرت مخدوم مولانا محمد سرفراز خان صاحب مدظلہ العالی(جن کے علم و فضل اور صلاح و تقویٰ کی زکوٰة بھی اس ناکارہ کو مل جاتی تو بڑا غنی ہوجاتا) کی تحریر بھی شافی نہیں سمجھی گئی تو اس ناکارہ و ہیچ میرز کے بے ربط الفاظ سے کیا تسلی ہوگی؟ لیکن آپ حضرات کی فرمائش کا ٹالنا بھی مشکل، ناچار دوچار حروف لکھ رہا ہوں، اگر مفید ہوں تو مقام شکر،”ورنہ کالائے بد بریش خاوند۔”

مسئلے کی وضاحت کے لئے چند امور ملحوظ رکھئے!

اوّل:… اس میں تو نہ کوئی شک و شبہ ہے نہ اختلاف کی گنجائش کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکار مقدس اعلیٰ ترین مندوبات میں سے ہے، اور اس میں بھی شبہ نہیں کہ “میلاد” کے نام سے جو محفلیں سجائی جاتی ہیں ان میں بہت سی باتیں ایسی ایجاد کرلی گئی ہیں جو حدود شرع سے متجاوز ہیں، یعنی مروجہ میلاد دو چیزوں کا مجموعہ ہے، ایک مستحب و مندوب، یعنی تذکار نبوی صلی اللہ علیہ وسلم دوم وہ خلاف شرع خرافات جو اس کے ساتھ چسپاں کردی گئی ہیں اور جن کے بغیر میلاد کو میلاد ہی نہیں سمجھا جاتا، گویا ان کو “لازمہٴ میلاد” کی حیثیت دے دی گئی ہے۔

دوم:… جو چیز اپنی اصل کے اعتبار سے مباح یا مندوب ہو، مگر عام طور سے اس کے ساتھ قبیح عوارض چسپاں کرلئے جاتے ہوں، اس کے بارے میں کیا طرز عمل اختیار کرنا چاہئے؟ اس میں ذوق کا اختلاف ایک فطری چیز ہے، جس کی نظر نفس مندوب پر ہوگی اس کا ذوق یہ فیصلہ کرے گا کہ ان عوارض سے توبے شک احتراز کرنا چاہئے، مگر نفس مندوب کو کیوں چھوڑا جائے، بخلاف اس کے جس کی نظر عوام کے جذبات و رجحانات پر ہوگی اس کا فتویٰ یہ ہوگا کہ خواص تو ان عوارض سے بلاشبہ احتراز کریں گے، لیکن عوام کو ان عوارض سے روکنا کسی طرح ممکن نہیں، اس لئے عوام کو اس سیلاب سے بچانے کی یہی صورت ہے کہ ان کے سامنے بند باندھ دیا جائے، یہ دونوں ذوق اپنی اپنی جگہ صحیح ہیں، اور ان کے درمیان حقیقی اختلاف نہیں، کیونکہ جو لوگ جواز کے قائل ہیں وہ نفس مندوب کے قائل ہیں، خلاف شرع عوارض کے جواز کے وہ بھی قائل نہیں، اور جو عدم جواز کے قائل ہیں وہ بھی نفس مندوب کو ناجائز نہیں کہتے، البتہ خلاف شرع عوارض کی وجہ سے ناجائز کہتے ہیں۔

سوم:… اس ذوقی اختلاف کے رونما ہونے کے بعد لوگوں کے تین فریق ہوجاتے ہیں، ایک فریق تو ان بزرگوں کے قول و فعل کو سند بنا کر اپنی بدعات کے جواز پر استدلال کرتا ہے، دُوسرا فریق خود ان بزرگوں کو مبتدع قرار دے کر ان پر طعن و ملامت کرتا ہے، اور تیسرا فریق کتاب و سنت اور ائمہ مجتہدین کے ارشادات کو سند اور حجت سمجھتا ہے، اور ان کے بزرگوں کے قول و فعل کی ایسی توجیہ کرتا ہے کہ ان پر طعن و ملامت کی گنجائش نہ رہے، اور اگر بالفرض کوئی توجیہ سمجھ میں نہ آئے تب بھی یہ سمجھ کر کہ یہ بزرگ معصوم نہیں ہیں ان پر زبان طعن دراز کرنے کو جائز نہیں سمجھتا، پہلے دونوں مسلک افراط و تفریط کے ہیں اور تیسرا مسلک اعتدال کا ہے۔

ان امور کے بعد گزارش ہے کہ حضرت حاجی صاحب نوراللہ مرقدہ کے فعل سے اہل بدعت کا استدلال قطعاً غلط ہے، کیونکہ ہماری گفتگو “میلاد” کے ان طریقوں میں ہے جن کا تماشا دن رات اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں۔ اس میلاد کو تو حضرت حاجی صاحب بھی جائز نہیں کہتے، اور جس کو حاجی صاحب جائز کہتے ہیں وہ اہل بدعت کے ہاں پایا نہیں جاتا، اس کی مثال بالکل ایسی ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی کہتا ہے کہ “مسیح موعود” کا آنا مسلمان ہمیشہ مانتے آئے ہیں،اور میں “مسیح موعود” ہوں لہٰذا قرآن و حدیث کی ساری پیشگوئیاں میرے حق میں ہیں، پس اگر مرزا قادیانی، قرآن و حدیث والا “مسیح موعود” نہیں، اور اس کا قرآن و حدیث کو اپنی ذات پر چسپاں کرنا غلط ہے تو ٹھیک اسی طرح اہل بدعت کے ہاں بھی حضرت حاجی صاحب والا “میلاد” نہیں، اس لئے حضرت کے قول و فعل کو اپنے “میلاد” پر چسپاں کرنا محض مغالطہ ہے۔

بہرحال صحیح اور اعتدال کا مسلک وہی ہے جو حضرات اکابر دیوبند نے اختیار کیا کہ نہ ہم مروجہ میلاد کو صحیح کہتے ہیں اور نہ ان اکابر کو مبتدع کہتے ہیں یہ تو مسئلے کی مختصر وضاحت تھی، آپ کے بارے میں میری مخلصانہ نصیحت یہ ہے کہ اپنی صلاحیتوں کو دین کی سربلندی اور اپنی اصلاح پر صرف کریں، تاکہ ہم آخرت میں خدا تعالیٰ کی بارگاہ میں سرخ رو ہوں، موجودہ دور میں حق طلبی کا جذبہ بہت کم رہ گیا ہے۔ جس شخص نے کوئی غلط بات ذہن میں بٹھالی ہے ہزار دلائل سے اسے سمجھاؤ اسے چھوڑنے کے لئے تیار نہیں، بس آدمی کا مذاق یہ ہونا چاہئے کہ ایک بار حق کی وضاحت کرکے اپنے کام میں لگے، کوئی مانتا ہے یا نہیں مانتا؟ اس فکر میں نہ پڑے۔

حافظ و ظیفہٴ تو دُعا گفتن است و بس

دربند آں مباش کہ نہ شنید یا شنید

فکری تنظیم والوں کے خلاف آواز اُٹھانا

س… ہم ایک دینی مدرسہ کی مجلس شوریٰ کے ارکان ہیں، مجلس شوریٰ باقاعدہ رجسٹرڈ ہے، مہتمم صاحب، حضرت مولانا خیر محمد صاحب کے خلیفہ ہیں، قواعد و ضوابط میں درج ہے کہ یہ مدرسہ حضرت مولانا نانوتوی اور مولانا تھانوی کے مسلک و مشرب کے مطابق ہوگا، مہتمم صاحب کے دو صاحبزادے فکری تنظیم سے وابستہ ہیں، اور مجلس شوریٰ کی ناگواری کے باوجود مہتمم صاحب نے انہیں مدرّس تعینات کیا ہوا ہے، باپ کی سادہ لوحی سے فائدہ اٹھاکر صاحبزادوں نے زیادہ مدرّسین دور دور سے لاکر اپنے ہم ذہن بھرتی کروالئے ہیں، اور اپنے باپ (مہتمم صاحب) کو صدرِ مملکت کی طرح بے اختیار کرکے مدرسہ پر اپنا ہولڈ کیا ہوا ہے، جیسا کہ آپ کے علم میں ہوگا کہ یہ حضرت شاہ ولی اللہ اور مولانا عبیداللہ سندھی کا نام لے کر لوگوں کو اپنی تنظیم کی طرف مائل کرتے ہیں، ان کے اپنے ایک استاد کی رپورٹ کے مطابق یہ لوگ ذاتی ملکیت کے قائل نہیں، خمینی کے مداح، جہادِ افغانستان کے مخالف اور روسی نظام کے حامی ہیں، عورت کی سربراہی کے قائل ہیں، تبلیغی جماعت کو گمراہ کہتے ہیں، اسی بنا پر اپنے خلاف ذہن کے اساتذہ کو پریشان کرکے نکلنے پر مجبور کردیا اور جو طلباء ان کے ہم ذہن نہیں بنے انہیں بھی مدرسہ سے نکال دیا ہے، پشاور کے اخبار نجات مارچ ۱۹۹۸ء کے مطابق اس تنظیم کے ذہن والے طلباء کا داخلہ صوبہ سرحد کے مدارس میں بند کردیا گیا ہے، مولانا محمد سرفراز صاحب صفدر# نصرت العلوم والوں نے بھی ایک سوال کے جواب میں انہیں اسلاف کا مخالف لکھا ہے، اور شر شیطان اور اس کے دوستوں کے شر سے پناہ مانگی ہے، علاوہ ازیں حساب و کتاب میں بھی کچھ گڑ بڑ ہونے لگ گئی ہے، مجلس شوریٰ میں مہتمم صاحب اور شیخ الحدیث صاحب جامعہ خیر المدارس ملتان، مدرسہ خیر العلوم خیرپور ٹامیوالی کے مہتمم اور ناظم مدرسہ جامعہ عباسیہ صادقیہ منچن آباد کے علاوہ کچھ مقامی ارکان ہیں، مہتمم صاحب یہ تو تسلیم کرتے ہیں کہ میرے بیٹوں کے نظریات درست نہیں لیکن کہتے ہیں کہ اولاد ہونے کے باعث میں مجبور ہوں، ان کے خلاف کاروائی نہیں کرسکتا، بچوں کی وجہ سے مہتمم صاحب نے شوریٰ کا اجلاس بلانا بھی چھوڑ دیا ہے، قواعد و ضوابط کے خلاف، جمع شدہ رقم اپنے ذاتی اکاوٴنٹ میں جمع کرواکر اپنی مرضی سے خرچ کرتے ہیں، ارکانِ شوریٰ اگر ان کو پوچھنا چھوڑ دیں تو مزید جری ہوکر اپنے نظریات پھیلانے میں بہت بڑھ جائیں گے، پوچھ گچھ کرتے رہنے سے قدرے محتاط رہتے ہیں، اس عظیم اور مثالی درسگاہ کو صحیح رخ پر لانے کے لئے ان کا نکالنا ضروری ہے، پوچھنا یہ ہے کہ مسئلے کی رُو سے ہم ارکانِ شوریٰ ان کو نکالنے کی کوشش کرتے رہیں یا خاموش ہوجائیں؟ مہتمم صاحب یہ بھی کہتے ہیں کہ میں نے آج تک ان کے پیر صاحب سے ان کے غلط عقائد کی وجہ سے ہاتھ نہیں ملائے۔

ج… میرا مسلک تو اپنے اکابر کے موافق ہے، مدرسہ کے یہ حضرات اگر اس مدرسہ میں اکابر کے مسلک پر عمل کریں تو دُنیا و آخرت میں ان کو برکتیں نصیب ہوں گی ورنہ اندیشہ ہی اندیشہ ہے۔

رہا یہ کہ آپ حضرات کو اس کے خلاف آواز اٹھانا چاہئے یا خاموش رہنا چاہئے؟ اس سلسلہ میں گزارش یہ ہے کہ اگر آپ کا آواز اٹھانا مفید ہوسکتا ہے تو ضرور آواز اٹھانی چاہئے اور اگر فتنہ و فساد کا اندیشہ ہو تو حق تعالیٰ شانہ سے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو ان کے شر سے محفوظ رکھے۔