عقیدہ صحیح ہو اور عمل نہ ہو

س… عید الفطر کے دن نماز عید کے موقع پر مقامی مولوی صاحب نے کچھ الفاظ کہے کہ کسی کے علم کو مت دیکھو، اس کے عمل کو مت دیکھو عقیدہ درست ہو نا چاہئے، عقیدہ درست ہے تو عمل کے بغیر بھی جنت میں جائے گا۔ تو کیا ان کا کہنا درست ہے کہ عقیدہ درست ہونا چاہئے، علم پر عمل کی کوئی ضرورت نہیں؟

ج… مولوی صاحب کی یہ بات تو صحیح ہے کہ اگر عقیدہ صحیح ہو اور عمل میں کوتاہی ہو تو کسی نہ کسی وقت نجات ہوجائے گی، اور اگر عقیدہ خراب ہو اور اس میں کفر و شرک کی ملاوٹ ہو تو بخشش نہیں ہوگی، لیکن علم اور عمل کو غیر ضروری کہنا خود عقیدے کی خرابی ہے اور یہ قطعاً غلط ہے اس سے مولوی صاحب کو توبہ کرنی چاہئے۔

تمام علماء کو بُرا کہنا

س… ایک دن باتوں باتوں میں ایک صاحب کے ساتھ تلخ کلامی ہوگئی، وہ اس طرح کہ وہ صاحب کہنے لگے کہ ایک اسلامی ملک پاکستان سے مال نہیں منگواتا، اس لئے کہ پاکستانی مال میں بہت کچھ فراڈ اور دھوکا اور ملاوٹ کرتے ہیں تو اس لئے وہ پاکستان سے مال نہیں منگواتے، اور اس پر علماء لوگ کچھ نہیں کہتے، پھر کہنے لگے کہ یہ کیسے علماء ہیں کہ ایک دن اخبار میں کوئی خبر آتی ہے” علماء کا متفقہ فیصلہ” پھر دُوسرے دن اس علماء کے متفقہ فیصلے کی تردید آجاتی ہے کہ یہ فیصلہ غلط ہے، تو کہنے لگا کہ یہ کیسے علماء ہیں کہ کبھی کچھ کہتے ہیں اور کبھی کچھ، اور پھر کہنے لگا کہ یہ سب کچھ پیٹ کے مسئلے ہیں، کھاتے پیتے ہیں عیش کرتے ہیں، اور لوگوں سے پیسہ بٹورتے ہیں، میں نے کہا کہ آپ سب علماء کا لفظ مت استعمال کیجئے، اگر آپ کو کسی سے کوئی شکایت ہے تو اس کا نام لے کر شکایت کریں بغیر نام لئے سب علماء کو برا بھلا کہنا ایمان کے ناقص ہونے کی علامت معلوم ہوتی ہے، براہ کرم اس مسئلے پر روشنی ڈالئے کہ ان کا اس طرح سب علماء کو برا کہنا صحیح ہے؟

ج… علماء کی جماعت میں بھی کمزوریاں ہوسکتی ہیں، اور بعض عالم کہلانے والے غلط کار بھی ہوسکتے ہیں لیکن بیک لفظ تمام علماء کو برا بھلا کہنا غلط ہے، اور اس سے ایمان کے ضائع ہوجانے کا اندیشہ ہے، اس سے توبہ کرنی چاہئے۔

یہ الفاظ کلمہٴ کفر ہیں

س… میں نے ایک دن ایک شخص سے یہ کہا کہ چلو ہمارے مولوی صاحب سے مسئلے مسائل پوچھتے ہیں، اگر وہ غلط ہوگا تو ہم بھی اسے چھوڑ دیں گے، اور اس کی بات نہیں سنا کریں گے، تو اس نے جواب میں کہا کہ میں اس کے پاس قطعاً نہیں جاؤں گا چاہے کچھ بھی ہوجائے، اور اس کو نہیں مانوں گا چاہے میری گردن بھی کٹ جائے، میں نے پھر اصرار کیا کہ بات پوچھنے میں کیا حرج ہے، وہ انکار کرتا رہا اور میں اصرار کرتا رہا، حتی کہ اس نے کہا کہ اگر خدا بھی آکر کہہ دے کہ اس مولوی صاحب کو صحیح مانو اور اس کی بات سنو تو بھی میں نہیں مانوں گا، اور نہ بات سنوں گا، جواب طلب بات یہ ہے کہ اس کہنے سے اس کے ایمان و اسلام اور اعمال پر کچھ اثر پڑے گا یا نہیں؟

ج… اس شخص کے یہ الفاظ کہ “اگر خدا بھی آکر کہہ دے․․․․” کلمہٴ کفر ہیں، اس کو ان الفاظ سے توبہ کرنی چاہئے اور اپنے ایمان اور نکاح کی تجدید کرنی چاہئے، واللہ اعلم!

مسلوبُ الاختیار پر کفر کا فتویٰ

س… مولانا اشرف علی تھانوی کے ایک عقیدت مند کا بیان رسالہ “الامداد” ماہ صفر ۱۳۳۶ھ میں یوں لکھا ہے کہ :

“اور سوگیا کچھ عرصہ کے بعد خواب دیکھتا ہوں کہ کلمہ شریف”لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ “ پڑھتا ہوں، لیکن محمد رسول اللہ کی جگہ حضور کا نام لیتا ہوں، اتنے میں دل میں خیال پیدا ہوتا ہے کہ تجھ سے غلطی ہوئی کلمہ شریف کے پڑھنے میں، اس کو صحیح پڑھنا چاہئے، اس خیال سے دوبارہ کلمہ شریف پڑھتا ہوں دل میں تو یہ ہے کہ صحیح پڑھا جائے لیکن زبان سے بے ساختہ بجائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کے اشرف علی نکل جاتا ہے حالانکہ مجھ کو اس بات کا علم ہے کہ اس طرح درست نہیں، لیکن بے اختیار زبان سے یہی کلمہ نکلتا ہے… اتنے میں بندہ بیدار ہوگیا لیکن بدن میں بدستور بے حسی اور وہ اثرنا طاقتی بدستور تھا… لیکن حالت بیداری میں کلمہ شریف کی غلطی پر جب خیال آیا تو اس بات کا ارادہ ہو ا کہ اس خیال کو دل سے دور کیا جاوے اس واسطے کہ پھر کوئی ایسی غلطی نہ ہوجاوے، بایں خیال بندہ بیٹھ گیا اور پھر دُوسری کروٹ لے کر کلمہ شریف کی غلطی کے تدارک میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود شریف پڑھتا ہوں لیکن پھر بھی یہ کہتا ہوں کہ “اللّٰہم صل علیٰ سیدنا ونبینا ومولانا اشرف علی” حالانکہ اب بیدار ہوں، خواب نہیں لیکن بے اختیار ہوں، مجبور ہوں، زبان اپنے قابو میں نہیں، اس روز ایسا ہی کچھ خیال رہا تو دُوسرے روز بیداری میں رقت رہی خوب رویا۔”

کتاب “عبارات اکابر” مصنفہ مولانا محمد سرفراز خان صفدر مدظلہ اور کتاب “سیف یمانی” مصنفہ مولانا منظور نعمانی مدظلہ نے اس کا یہ جواب دیا کہ خواب کی بات تو کسی درجے میں بھی قابل اعتبار نہیں، خواب کا نہ اسلام معتبر ہے نہ کفر و ارتداد، نہ نکاح، نہ طلاق اس لئے حالت خواب میں جو کلمہ کفریہ صاحب واقعہ کی زبان سے سرزد ہوا تو اس کی وجہ سے نہ اس کو کافر کہا جاسکتا ہے، نہ مرتد، کیونکہ وہ شخص اس وقت حسب ارشاد نبوی: “مرفوع القلم” تھا اور حالت بیداری میں صاحب واقعہ کی بے اختیاری اور مجبوری جس کا وہ عذر بیان کرتا ہے وہ از روئے قرآن و حدیث و فقہ”خطا” میں داخل ہے۔ اس لئے حالت بیداری میں جو درود پاک میں اس سے محمد کی جگہ اشرف علی نکلا وہ خطا کے طور پر نکلا اور شریعت میں جس سے “خطأً “ کلمہٴ کفریہ سرزد ہوجائے تو اس پر مواخذہ نہیں اور وہ کسی کے نزدیک کافر نہ ہوگا۔

لیکن ہمارے ہاں شہر کھپرو میں فریق مخالف کے ایک مولوی صاحب نے اپنی تقریر میں اس جواب کا یہ “جواب” دیا کہ:

“یہ خطا کا بہانہ بیکار ہے جس کی کئی وجوہ ہیں:

اولاً اس لئے کہ “خطا” لاشعوری میں ہوتی ہے، خطا کرنے والے کو پتہ بھی نہیں چلتا کہ اس نے کیا کہہ دیا اور یہاں پر وہ کہتا ہے کہ اس کو شعور ہے اور وہ اس کو غلطی بھی سمجھ رہا ہے، مطلب یہ ہے کہ جو کچھ کہتا ہے جان بوجھ کر کہتا ہے۔

ثانیاً یہ کہ “خطا” لمحہ دولمحہ رہتی ہے سارا دن خطا نہیں رہتی اور یہاں پر اس کی زبان سے دن بھر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا نام کلمہ اور درود میں نہ آیا اور وہ اسی کلمہٴ کفر کی تکرار کرتا رہا، خطا کی یہ شان نہیں ہوتی۔

ثالثاً یہ کہ اگر خطا پر مواخذہ نہیں تو اس سے یہ کب ثابت ہوتا ہے کہ کلمات کفریہ بکنے والے کا دعویٰ خطا بہرحال مقبول ہے۔ شفا قاضی عیاض میں ہے “لایعذر احد فی الکفر بالجہالة ولا بدعویٰ زلل اللسان”ص:۲۸۵یعنی کفر میں نادانی و جہالت اور زبان بہکنے کا دعویٰ کرنے سے کوئی شخص معذور نہیں سمجھا جاتا، اور فقہ کی کتابوں “بزازیہ” اور “رد المحتار” میں تصریح ہے کہ اگر کوئی شخص کلمہ کفریہ بکے اور پھر خطا اور زبان کے بہک جانے کا دعویٰ اور عذر کرے تو قاضی اس کی تصدیق نہ کرے، اس لئے واقعہ مذکورہ میں اس کا دعویٰ خطأً قبول نہیں کیا جائے گا اور وہ اس کلمہ کفریہ بکنے کی وجہ سے کافر ہوگیا اور چونکہ مولوی اشرف علی تھانوی نے اس کی یہ تعبیر بتائی کہ “اس واقع میں تسلی تھی کہ جس کی طرف تم رجوع کرتے ہو وہ بعونہ تعالیٰ متبع سنت ہے۔” پس چونکہ مولوی اشرف علی تھانوی اس شخص کے کفر پر راضی رہے اور کسی قسم کا انکار نہیں کیا لہٰذا خود بھی کافر ہوگئے کیونکہ رضا بالکفر بھی کفر ہے۔

رابعاً یہ کہ خود دیوبندیوں کے مولوی محمد انور شاہ کشمیری نے اپنی کتاب “اکفار الملحدین” ص:۷۳ میں تحریر کیا ہے کہ (ترجمہ) علماء نے فرمایا ہے کہ انبیاء علیہم السلام کی شان میں جرأت و دلیری کفر ہے اگرچہ توہین مقصود نہ ہو۔ اور اسی کتاب کے صفحہ ۸۶ پر تحریر ہے کہ “کفر کے حکم کا دارومدار ظاہر پر ہے قصد و نیت پر نہیں۔”

اور اسی کتاب کے صفحہ ۷۴ پر تحریر ہے کہ “لفظ صریح میں تاویل کا دعویٰ قبول نہیں کیا جاتا اور تاویل فاسد کفر کی طرح ہے۔” ان عبارات سے معلوم ہوا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں توہین آمیز کلمات کہنا کفر ہے اور اس بارے میں قائل کی نیت کا اعتبار نہیں ہوگا۔ اگر الفاظ عرف و محاورہ میں صریح توہین آمیز ہیں تو یقینا اس کو کافر کہا جائے گا اور اس میں کوئی تاویل قبول نہ ہوگی۔ اگر باوجود صراحت کے کوئی تاویل کرے گا تو وہ تاویل فاسد ہوگی اور تاویل فاسد بمنزلہ کفر ہے۔ اور یہاں پر حالت بیداری میں صاحب واقعہ نے زبان سے صراحةً درود شریف میں اشرف علی نکالا لہٰذا اس میں کوئی تاویل قبول نہیں کی جائے گی، خامساً یہ کہ اگر یہی واقعہ واقعہ طلاق پر قیاس کیا جائے تو طلاق واقع ہوگی؟ یعنی اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو کہے کہ میں نے تجھے طلاق دی، طلاق دی، طلاق دی اور بعد میں خطا کا عذر کرے اور کہے کہ میں بے اختیار تھا، مجبور تھا، زبان میرے قابو میں نہیں تھی تو کیا اس شخص کی طلاق واقع ہوگی یا نہیں؟ اگر ہوگی اور ضرور ہوگی تو عجیب بات ہے کہ طلاق واقع ہونے میں تو یہ عذر مقبول نہ ہو اور مولوی اشرف علی کو اپنا نبی اور رسول اللہ کہنے میں عذر مقبول ہوجائے۔”

اب ہمیں ازروئے قرآن و حدیث و فقہ مندرجہ ذیل امور کی تفصیل مطلوب ہے:

۱:… ازروئے قرآن و حدیث و فقہ اسلامی “خطا” کی صحیح تعریف کیا ہے؟ نیز یہ کہ کیا “خطا” ہر حال میں لاشعوری میں ہوتی ہے یا خطا کرنے والے کو کبھی شعور بھی ہوتا ہے؟

۲:… کیا واقعہ مذکورہ میں باوجود شعور کے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جگہ اشرف علی نکل جانا اس کی “خطا “ تھی؟ اور کیا “خطا” لمحہ دو لمحہ رہتی ہے یا عرصہ تک بھی رہ سکتی ہے؟

۳:… جو شخص اپنی زبان سے کلمہ کفریہ بکے اور پھر یہ کہے کہ میں بے اختیار تھا، مجبور تھا، زبان میرے قابو میں نہیں تھی اور مجھ سے خطا سرزد ہوئی تو کیا شریعت اسلامیہ میں ا س کا یہ دعویٰ بے اختیاری و خطا کا مقبول ہے؟ مقبول ہونے کی صورت میں صاحب شفا قاضی عیاض کی مندرجہ بالا عبارت جو معترض نے پیش کی ہے اور “بزازیہ” اور “ردالمحتار” کی مندرجہ بالا عبارتوں کی تو جیہ و مطلب کیا ہے؟

۴:… اگر شریعت اسلامیہ میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کے معاملے میں کسی کی نادانی و جہالت، زبان کا بہکنا، بے قابو ہوجانا، کسی قلق اور نشہ کی وجہ سے لاچار و مضطر ہوجانا، قلت نگہداشت یا بے پروا ہی اور بے باکی یا قصدو نیت و ارادئہ گستاخی نہ ہونا وغیرہ کے اعذار مقبول نہیں اور صریح لفظ میں تاویل کا دعویٰ قبول نہیں کیا جاتا تو مذکورہ بالا واقعہ کی صحیح تو جیہ کیا ہے؟

۵:… اگر کوئی شخص اپنی زوجہ کو صریح الفاظ میں طلاق دے اور پھر کہے کہ میں بے اختیار تھا، مجبور تھا، میری نیت طلاق دینے کی نہیں تھی، خطأً میری زبان سے طلاق کے الفاظ نکل گئے تو کیا اس کی طلاق واقع ہوگی یا نہیں؟ اگر ہوگی اور ضرور ہوگی تو طلاق واقع ہونے میں یہ عذر مقبول نہ ہو اور الفاظ کفریہ صراحةًزبان سے نکالنے کے بعد”خطا” اور زلل لسانی کا عذر مقبول ہو تو دونوں واقعات میں وجہٴ فرق کیا ہے؟ اور اگر الفاظ کفریہ نکالنے کے بعد”خطا” کا عذر مقبول نہ ہو تو پھر بتایا جائے کہ صاحب واقعہ جس نے بحالت بیداری شعور کی حالت میں اور یہ محسوس کرتے ہوئے بھی کہ میں درود پاک غلط پڑھ رہا ہوں کافر ہے یا نہیں؟

ج… حدیث شریف میں اس شخص کا واقعہ مذکور ہے جس کی سواری گم ہوگئی تھی، اور وہ مرنے کے ارادے سے درخت کے نیچے لیٹ گیا، آنکھ کھلی تو دیکھا کہ اس کی سواری بمع زاد و توشہ کے موجود ہے، بے اختیار اس کے منہ سے نکلا “اللّٰہم انت عبدی وانا ربک!” (یا اللہ تو میرا بندہ ہے اور میں تیرا ربّ!)۔

یہ کلمہٴ کفر ہے، مگر اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کفر کا فتویٰ نہیں دیا بلکہ فرمایا: “خطأ من شدة الفرح” شدت مسرت کی وجہ سے اس کی زبان چوک گئی۔ آپ کے مولوی صاحب اس شخص کے بارے میں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کیا فتویٰ صادر فرمائیں گے؟ اور قرآن کریم میں ہے: “اِلَّا مَنْ اُکْرِہَ وَقَلْبُہ مُطْمَئِنٌّ بِالْاِیْمَانِ” “لاچاری کی حالت میں کلمہٴ کفر زبان سے ادا کرنے پر جب کہ دل ایمان کے ساتھ مطمئن ہو۔” اللہ تعالیٰ نے ایمان کا فتویٰ دیا ہے کفر کا نہیں، جو عبارتیں ان صاحب نے نقل کی ہیں ان کا زیر بحث واقعہ سے تعلق ہی نہیں۔ ایک شخص اپنے شیخ سے اپنی غیر اختیاری حالت ذکر کرتا ہے اگر اس کے دل میں کفر ہوتا یا زبان سے اختیاری طور پر اس نے کفر کا ارتکاب کیا ہوتا تو وہ اپنے شیخ سے اس کا اظہار ہی کیوں کرتا؟ جو شخص کسی وجہ سے مسلوب الاختیار ہو اس پر شریعت اسلامی تو کفر کا فتویٰ نہیں دیتی، “لَا یُکَلِّفُ اللهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَہَا۔” نص قرآنی ہے۔ مجھے معلوم نہیں کہ مسلوب الاختیار پر کفر کا فتویٰ کس شریعت میں دیا گیا ہے؟ رہا یہ کہ ایک شخص دعویٰ کرتا ہے کہ وہ مسلوب الاختیار ہے اس کا دعویٰ مسموع ہوگا یا نہیں؟ اگر کسی کے بارے میں ہمیں معلوم نہیں کہ مسلوب الاختیار تھا یا نہیں، وہ کوئی کلمہ کفر بکتا ہے، یا طلاق دیتا ہے اور بعد میں جب پکڑا جاتا ہے تو مسلوب الاختیار ہونے کا دعویٰ کرتا ہے تو چونکہ یہ دعویٰ خلاف ظاہر ہے اس لئے نہیں سنا جائے گا۔ جو عبارتیں مولوی صاحب نے نقل کی ہیں ان کا یہی محمل ہے، لیکن ما نحن فیہ (مسئلہٴ زیر بحث) کا اس صورت سے کوئی تعلق نہیں، کیونکہ اس کے الفاظ اس سے پہلے کسی نے نہیں سنے تھے، اس نے از خود اپنے شیخ  سے ان الفاظ کو ذکر کرکے اپنا مسلوب الاختیار ہونا ذکر کیا، بہر کیف صاحب واقعہ تو اللہ کے حضور پہنچ چکے ہیں اور میں قرآن و حدیث صحیح کے حوالہ سے ذکر کرچکا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس شخص پر کفر کا فتویٰ صادر نہیں کرتے۔ اس مولوی صاحب کو اگر اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فتوے پر اعتماد نہیں، اور وہ ایک ایسے شخص کے بارے میں کفر کا فتویٰ صادر کرتا ہے تو اس سے کہا جائے کہ اِن شاء اللہ آپ بھی بارگاہ رب العالمین میں پیش ہونے والے ہیں، وہاں تمام امور کی عدالت ہوگی، آپ کا مقدمہ بھی زیربحث آئے گا، اپنے تمام فتوے اس دن کے لئے رکھ چھوڑیں، ہم بھی دیکھیں گے کہ کون جیتتا ہے، کون ہارتا ہے؟ اللہ تعالیٰ دلوں کے مرض سے نجات عطا فرمائیں، بالکل یہی سوال چند دن پہلے بھی آیا تھا اس کا جواب دُوسرے انداز سے لکھ چکا ہوں، اور وہ یہ ہے:

الزامی جواب تو یہ ہے کہ تذکرة الاولیاء وغیرہ میں یہ واقعہ درج ہے کہ ایک شخص حضرت شبلی کے پاس بیعت کے لئے آیا، حضرت نے پوچھا کہ کلمہ کس طرح پڑھتے ہو اس نے کہا “لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ” فرمایا اس طرح پڑھو”شبلی رسول اللہ” اس نے بلا تکلف پڑھ دیا۔ حضرت نے فرمایا کہ شبلی کون ہوتا ہے؟ میں تو تمہارا امتحان کرنا چاہتا تھا فرمائیے! حضرت شبلی اور ان کے مرید کے بارے میں کیا حکم ہے؟

اور تحقیقی جواب یہ ہے کہ صاحب واقعہ کا قصد صحیح کلمہ پڑھنے کا تھا جیسا کہ پورے واقعہ سے ظاہر ہے، گویا عقیدہ جو دل کا فعل ہے وہ صحیح تھا البتہ زبان سے دُوسرے الفاظ سرزد ہورہے تھے اور وہ ان الفاظ کو کفریہ سمجھ کر ان سے توبہ کررہا ہے، اور کوشش کررہا ہے کہ صحیح الفاظ ادا ہوں، مگر زبان سے دُوسرے الفاظ نکل رہے ہیں وہ ان پر رو رہا ہے، گریہ وزاری کررہا ہے اور جب تک یہ حالت فرو نہیں ہوتی وہ اس اضطراب میں مبتلا ہے۔ اور جب غیر اختیاری حالت جاتی رہتی ہے تو وہ اس کی اطلاع اپنے شیخ کو دیتا ہے تاکہ اگر اس غیر اختیاری واقعہ کا کوئی کفارہ ہو تو ادا کرسکے۔ اس پورے واقعہ کو سامنے رکھ کر اس کو کلمہ کفر کون کہہ سکتا ہے؟ کیا اللہ تعالیٰ نے کسی کو غیراختیاری حالت پر مواخذہ کرنے کا بھی اعلان فرمایا ہے؟ اگر ہے تو وہ کونسی آیت ہے؟ یا حدیث ہے؟

۱:… مولوی صاحب کا یہ کہنا کہ خطا کا بہانہ بے کار ہے بجا ہے، مگر جو شخص مسلوب الاختیار ہوگیا اس کے بارے میں بھی یہی فتویٰ ہے؟ اگر ہے تو کس کتاب میں؟ “اِلَّا مَنْ اُکْرِہَ وَقَلْبُہ مُطْمَئِنٌّ بِالْاِیْمَانِ” میں قرآن کا فتویٰ تو اس کے خلاف ہے۔

۲:… بجا ہے کہ خطا فوری ہوتی ہے، لیکن مسلوب الاختیار ہونا تو اختیاری چیز نہیں کہ اس کے لئے وقت کی تحدید کی جاسکے، اگر ایک آدمی سارا دن مسلوب الاختیار رہتا ہے تو اس میں اس کا کیا قصور ہے؟

۳:… اس نے باختیار خود کلمہ کفر بکا ہی کہاں ہے؟ نہ وہ اس کا دعویٰ کرتا ہے، بلکہ وہ تو مسلوب الاختیار ہونے کی بات کرتا ہے، شفا قاضی عیاض کی عبارت کا محمل کیا مسلوب الاختیار ہے؟ نہیں بلکہ قصداً کلمہٴ کفر بکنے کے بعد تاویل کرنے والا اس کا مصداق ہے۔

۴:… جہالت کا، نادانی کا، زبان بہک جانے وغیرہ کا جو حوالہ درمختار اور رد محتار سے دیا ہے وہ تو اس صورت میں ہے کہ قاضی کے پاس کسی شخص کی شکایت کی گئی، قاضی نے اس سے دریافت کیا، اس نے یہ عذر پیش کیا کہ مجھے معلوم نہیں تھا کہ یہ گستاخی ہے، یا یہ کہ زبان بہک گئی تھی، یا یہ کہ میں مدہوش تھا، اور اس کے اس دعویٰ کے سوا اس کے پاس کوئی دلیل نہیں، تو قاضی اس کے ان اعذار باردہ کو نہیں سنے گا، بلکہ اسے سرزنش کرے گا(نہ کہ اس پر سزائے ارتداد جاری کرے گا)۔

جب زیر بحث مسئلے میں نہ کسی نے قاضی کے پاس شکایت کی، نہ اس نے اپنے جرم کی تاویل کی، صاحب واقعہ پر جو واقعہ غیر اختیاری گزرا تھا اور جس میں وہ یکسر مسلوب الاختیار تھا اس کو وہ اپنے شیخ کے سامنے پیش کرتا ہے، فرمائیے مسئلہ قضا سے اس کا کیا تعلق؟

۵:… زیر بحث واقعہ کا تعلق صرف اس کی ذات سے فیمابینہ و بین اللہ ہے، اور طلاق کے الفاظ ایک معاملہ ہے جس کا تعلق زوجہ سے ہے، زوجہ نے اس کی زبان سے طلاق کے الفاظ سنے چونکہ معاملات کا تعلق ظاہری الفاظ سے ہے اس لئے زوجہ اس کی بات کو قبول نہیں کرتی، اور عدالت بھی نہیں کرے گی، لیکن اگر واقعتا وہ مسلوب الاختیار تھا تو فیما بینہ وبین اللہ طلاق نہیں ہوگی۔ چنانچہ اگر عورت اس کی کیفیت پر اعتماد کرتے ہوئے اس کے مسلو ب الاختیار ہونے کو تسلیم کرتی ہے تو فتویٰ یہی دیں گے کہ فیما بینہ و بین اللہ طلاق واقع نہیں ہوئی۔

۶:…حضرت کشمیری کا حوالہ بجا ہے، مگر یہاں کفر ہی نہیں تھا رضا بالکفر کا کیا سوال؟

قضا اور دیانت میں فرق

س… جناب نے جو کچھ تحریر فرمایا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ صاحب واقعہ مسلوب الاختیار تھا اور جو شخص کسی وجہ سے مسلوب الاختیار ہوجائے تو شریعت اسلامی اس پر کفر کا فتویٰ نہیں لگاتی، لیکن جناب کے اس جواب پر کہ “وہ صاحب مسلوب الاختیار تھا” کچھ شبہات تحریر کرتا ہوں جو کہ “فتاویٰ خلیلیہ” میں حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوری  مدرس اول مدرسہ مظاہر العلوم سہارنپور نے اسی واقعہ کے متعلق تحریر کئے ہیں، یہ ایک حقیقت ہے کہ تحریر میں بہت وقت صرف ہوتا ہے پھر آپ جیسے مصروف شخص کے لئے تو اور بھی مشکل ہے لیکن اگر ان شبہات کی مفصل تحقیق ہوجائے تو جناب کی تحریر اِن شاء اللہ ہزاروں لوگوں کے لئے، جو اکابرین علمائے دیوبند کثراللہ سوادہم سے بغض و کینہ رکھتے ہیں رشدو ہدایت کا ذریعہ بن سکتی ہے، شبہات مندرجہ ذیل ہیں:

شبہ اوّل: یہ ہے کہ اس کا یہ دعویٰ کہ “میں بے اختیار ہوں اور زبان قابو میں نہیں ہے۔” اس وقت شرعاً معتبر ہوکہ جب اس کی مجبوری و بے اختیاری کا سبب منجملہ ان اسباب عامہ کے ہو کہ جو عامةً سالب اختیار ہوتے ہیں مثلاً جنون، سکر اکراہ حالت موجودہ میں جو حالت اس شخص کو پیش آئی ہے اس کے لئے کوئی ایسا سبب نہیں ہے جو اسباب عامہ سالب اختیار سے ہو، کیونکہ اس کی بے اختیاری کا سبب کوئی اس کے کلام میں ایسا نہیں پایا جاتا جس کو سالب اختیار قرار دیا جائے۔

شبہ دوئم: یہ ہے کہ اگر کوئی ایسا سبب ہے بھی تو وہ مولانا کی محبت کا غلبہ ہے اور غلبہٴ محبت سوالب اختیار میں سے نہیں ہے، غلبہٴ محبت میں اطراء کا تحقق ہوسکتا ہے جس کو شارع علیہ التحیة والتسلیم نے ممنوع فرمایا ہے: “لاتطرونی کما اطرت الیہود والنصاریٰ ولکن قولوا عبدالله ورسولہ۔” اور اگرغلبہٴ محبت اور اس کا سبب سالب اختیار ہوتا تو “نہی عن الاطراء” متوجہ نہ ہوتی بلکہ معذور سمجھا جاتا “نہی عن الاطراء” خود دال ہے کہ غلبہٴ محبت سالب اختیار نہیں ہے۔ اسی وجہ سے “اطراء” سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نہی فرمارہے ہیں لہٰذا شرعاً اس کا یہ دعویٰ معتبر نہ ہوگا۔

شبہ سوئم: یہ ہے کہ یہ شخص اگر اس کی زبان بوقت تکلم قابو میں نہیں تھی تو یہ تو اس کے اختیار میں تھا کہ وہ جب یہ جانتا تھا کہ میں بے اختیار ہوں اور مجبور ہوں اور صحیح تکلم نہیں کرسکتا تو تکلم بکلمة الکفر سے سکوت کرتا۔ لہٰذا ایسی حالت میں اس کلمہ کے تکلم کا یہ حکم ہوگا کہ اس کو اس میں شرعاً معذور نہیں سمجھا جائے گا، علامہ شامی نے حاشیہ ردالمحتار باب المرتد میں لکھا ہے:

“وقولہ لایفتی بکفر مسلم امکن حمل کلامہ علیٰ محمل حسن ظاہرہ انہ لایفتی من حیث استحقاقہ للقتل ولامن حیث الحکم ببینونة زوجتہ وقد یقال المراد الاول فقط لان تاویل کلامہ للتباعد عن قتل المسلم بان یکون قصد ذالک التاویل وھذا لاینافی معاملتہ بظاہر کلامہ فیما ہو حق العبد وھو طلاق الزوجة بدلیل ماصرحوا بہ من انہ اذا اراد ان یتکلم بکلمة مباحة فجریٰ علیٰ لسانہ کلمة الکفر خطاء بلا قصد لا یصدقہ القاضی وان کان لا یکفر فیما بینہ وبین ربہ تعالیٰ فتامل ذالک۔”

اور علامہ شامی دُوسری جگہ باب المرتد میں لکھتے ہیں:

“وفی البحر عن الجامع الصغیر اذا اطلق الرجل کلمة الکفر عمداً لکنہ لم یعتقد الکفر قال بعض اصحابنا لایکفر لان الکفر یتعلق بالضمیر علی الکفر وقال بعضہم یکفر وہو الصحیح عندی لانہ استخف بدینہ۔”

علاوہ ازیں آپ نے صاحب واقعہ کی “مسلوب الاختیاری” کے ثبوت میں قرآن مقدس کی جو آیت مبارکہ پیش کی ہے یہ آیت مبارکہ تو صاف طور پر مکرہ کے لئے ہے اور صاحب واقعہ ظاہر ہے کہ مکرہ نہیں تھا “اِلَّا مَنْ اُکْرِہَ وَقَلْبُہ مُطْمَئِنٌّ بِالْاِیْمَانِ”۔

ج… آپ حضرات کے پہلے گرامی نامہ کا جواب اپنی ناقص عقل و فہم کے مطابق میں نے قلم برداشتہ لکھ دیا تھا، میرا مزاج ردو کد کا نہیں ہے اس لئے جو شخص میرے جواب سے مطمئن نہیں ہوتا اس کو لکھ دیتا ہوں کہ اپنی تحقیق پر عمل کرے، اس لئے آپ حضرات نے دوبارہ اس کے بارے میں سوال بھیجے تو میں نے بغیر جواب کے ان کو واپس کردیا، لیکن آپ حضرات نے یہی سوالات پھر بھیج دئیے، اور بضد ہیں کہ میں جواب دوں اس لئے آپ کے اصرار پر ایک بار پھر لکھ رہا ہوں، اگر شفانہ ہو تو آئندہ کسی اور سے رجوع فرمائیں اس ناکارہ کو معذور سمجھیں۔

۱:… حضرت اقدس مولانا خلیل احمد سہارنپوری مہاجر مدنی نوراللہ مرقدہ اس ناکارہ کے شیخ الشیخ ہیں۔ اور میرے لئے سند اور حجت ہیں۔

۲:… حضرت نے اس نکتہ پر گفتگو فرمائی کہ آیا قضاءً اس شخص کو مسلوب الاختیار تسلیم کیا جاسکتا ہے؟ جب کہ حضرت نے خود بھی تحریر فرمایا ہے کہ فیما بینہ و بین اللہ نہ اس شخص پر ارتداد کا حکم کیا جاسکتا ہے اور نہ تجدید ایمان و نکاح کا اور قضا کا مسئلہ میں پہلے صاف کرچکا ہوں اس کا اقتباس پھر پڑھ لیجئے:

“… جہالت کا، نادانی کا، زبان بہک جانے وغیرہ کا جو حوالہ درمختار اور رد محتار سے دیا ہے وہ تو اس صورت میں ہے کہ قاضی کے پاس کسی شخص کی شکایت کی گئی، قاضی نے اس سے دریافت کیا، اس نے یہ عذر پیش کیا کہ مجھے معلوم نہیں تھا کہ یہ گستاخی ہے، یا یہ کہ زبان بہک گئی تھی، یا یہ کہ میں مدہوش تھا، اور اس کے اس دعویٰ کے سوا اس کے پاس کوئی دلیل نہیں، تو قاضی اس کے ان اعذار باردہ کو نہیں سنے گا، بلکہ اس کو سرزنش کرے گا(نہ کہ اس پر سزائے ارتداد جاری کرے گا)۔

جب زیر بحث مسئلے میں نہ کسی نے قاضی کے پاس شکایت کی، نہ اس نے اپنے جرم کی تاویل کی، صاحب واقعہ پر جو واقعہ غیر اختیاری گزرا تھا اور جس میں وہ ایک مسلوب الاختیار تھا اس کو وہ اپنے شیخ کے سامنے پیش کرتا ہے فرمائیے مسئلہ قضا سے اس کا کیا تعلق؟”

پس جب حضرت خود تصریح فرماتے ہیں کہ فیما بینہ و بین اللہ اس پر نہ ارتداد کا حکم ہوسکتا ہے، نہ تجدید ایمان و نکاح کا، اور یہ قضیہ کسی عدالت میں پیش نہیں ہوا کہ اس پر گفتگو کی جائے کہ قضاءً اس کا کیا حکم ہے؟ تو اس پر بحث کرنے کا نتیجہ کیا ہوا؟

۳:… یہیں سے ان تینوں شبہات کا جواب نکل آتا ہے جو آپ نے فتاویٰ خلیلیہ کے حوالے سے کئے ہیں:

اوّل:… بجا ہے کہ اسباب عامہ سالبتہ الاختیار میں سے بظاہر کوئی چیز نہیں پائی گئی، لیکن سالکین کو بعض اوقات ایسے احوال پیش آتے ہیں، جن کا ادراک صاحب حال کے سوا کسی کو نہیں ہوسکتا، قاضی تو بے شک احوال عامہ ہی کو دیکھے گا، لیکن شیخ، صاحب حال کے اس حال سے صرف نظر نہیں کرسکتا جو سالک کو پیش آیا ہے، اگر وہ مرید کے خاص حال پر نظر نہیں کرتا تو وہ شیخ نہیں بلکہ اناڑی ہے۔ صاحب فتاویٰ خلیلیہ کی بحث تو قضاءً ہے لیکن سلوکی احوال قضا کے دائرہ میں آتے ہی نہیں۔

دوم:… “غلبہٴ محبت اطراء میں داخل ہے جو بنص نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ممنوع ہے” بالکل صحیح ہے لیکن یہ اس صورت میں ہے جب کہ یہ غلبہٴ محبت قصد و اختیار سے ہو، اور اگر غلبہٴ محبت سے ایسی اضطراری کیفیت پیدا ہوجائے کہ زمام اختیار قبضہٴ قدرت سے چھوٹ جائے تو اس پر اطراء ممنوع کے احکام جاری نہیں ہوں گے، بلکہ سکرو مدہوشی کے احکام جاری ہوں گے، اولیاء اللہ کی ہزاروں شطحیات کی توجیہ آخر اس کے سوا کیا ہے؟

سوم:… “جب یہ جانتا تھا کہ زبان قابو میں نہیں تو اس نے سکوت اختیار کیوں نہ کیا، تکلم بکلمة الکفر کیوں کیا؟” جو الفاظ اس نے ادا کرلئے تھے ان کے بارے میں تو جانتا تھا کہ زبان کے بے قابو ہونے کی وجہ سے اس نے کلمہ کفر بک دیا، لیکن اس نے سکوت اختیار کرنے کے بجائے صحیح الفاظ کہنے کی کوشش دو وجہ سے کی، ایک یہ کہ اسے توقع تھی کہ اب اس کی زبان سے صحیح الفاظ نکلیں گے، جس سے گزشتہ الفاظ کی تلافی ہوجائے گی، دُوسرے یہ کہ اس کو یہ غم کھائے جارہا تھا کہ اگر اسی لمحہ اس کی موت واقع ہوگئی تو نعوذ باللہ کلمہٴ کفر پر خاتمہ ہوا۔ اس لئے وہ کوشش کررہا تھا کہ زبان سے صحیح الفاظ نکلیں، تاکہ گزشتہ الفاظ کی اصلاح بھی ہوجائے اور سوءِ خاتمہ کے اندیشہ سے نجات بھی مل جائے۔

الغرض یہ تین شبہات جو آپ نے نقل کئے ہیں وہ باب قضا سے ہیں، اور بادنیٰ تامل ان شبہات کو رفع کیا جاسکتا ہے۔

۴:… رہا یہ کہ صاحب واقعہ تو مکرہ نہیں تھا پھر میں نے آیت شریفہ “اِلَّا مَنْ اُکْرِہَ۔”کیوں پڑھی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ مکرہ میں سلب اختیار نہیں ہوتا، بلکہ سلب رضا ہوتا ہے، جیسا کہ صاحب ہدایہ نے تصریح فرمائی ہے، اور اسی بنا پر حنفیہ کے نزدیک مکرہ کی طلاق واقع ہوجاتی ہے، جب کہ صاحب واقعہ مسلوب الاختیار ہے۔ تو آیت شریفہ سے استدلال بطور دلالت النص کے ہے، یعنی جب اکراہ کی حالت میں شرط “قَلْبُہ مُطْمَئِنٌّ بِالْاِیْمَانِ۔” تکلم بہ کلمہٴ کفر پر موٴاخذہ نہیں تو جس شخص کی حالت مسلوب الاختیار کی ہو اس پر بدرجہٴ اولیٰ موٴاخذہ نہیں ہوگا۔

۵:… ہمارے بریلوی بھائیوں کو اللہ تعالیٰ نے ہمارے اکابر کے رفع درجات کے لئے تجویز فرما رکھا ہے۔ اس لئے ان حضرات کے طرز عمل سے نہ ہمارے اکابر کا نقصان ہے، نہ سوائے اذیت کے ہمارا کچھ بگڑتا ہے۔ قرآن کریم نے اخیار تک کے بارے میں فرمایا تھا: “لَنْ یَّضُرُّوْکُمْ اِلَّا اَذَیً” لیکن اپنے بریلوی دوستوں کی خیر خواہی کے لئے عرض کرتا ہوں کہ:

۱:… جن صاحب کے بارے میں گفتگو ہے مدت ہوئی کہ وہ اللہ کے حضور پہنچ چکے ہیں، اور اس احکم الحاکمین نے جو ہر ایک کے ظاہر و باطن سے واقف ہیں، ان صاحب کے بارے میں فیصلہ کردیا ہوگا، فیصلہ خداوندی کے بعد آپ حضرات کی بحث عبث ہے، اور عبث اور لایعنی میں مشغول ہونا موٴمن کی شان سے بعید ہے۔

۲:… تمام عدالتوں میں مدعی علیہ کی موت کے بعد مقدمہ داخل دفتر کردیا جاتا ہے، مرحوم کے انتقال کے بعد نہ آپ اس کو تجدید ایمان کا مشورہ دے سکتے ہیں نہ تجدید نکاح کا، یہ مشورہ اگر دیا جاسکتا تھا تو مرحوم کی زندگی میں دیا جاسکتا تھا۔

۳:… اگر آپ ان صاحب کے کفر کا فتویٰ صادر فرماتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے اس کے ایمان کا فیصلہ فرمایا ہو تو آپ کا فتویٰ فیصلہ خداوندی کے خلاف ہوا، خود فرمائیے کہ اس میں نقصان کس کا ہوا؟

۴:… آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس حقیقت کو یوں بیان فرمایا ہے:

“لاتسبوا الاموات فانہم قد افضوا الی ما قدموا” (مردوں کو برا بھلا نہ کہو! کیوں کہ انہوں نے جو کچھ آگے بھیجا اس کو پاچکے ہیں)۔

آپ حضرات ایک قصہ پارینہ کو اچھال کر ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت بھی مول لے رہے ہیں، جس مقدمہ کا فیصلہ اعلیٰ ترین عدالت میں فیصل ہوچکا ہے۔ رجم بالغیب کے ذریعہ اس فیصلہ کی مخالفت کا خدشہ بھی سر لے رہے ہیں، عقل و انصاف کے تقاضوں کو بھی پس پشت ڈال رہے ہیں، اور لایعنی کے ارتکاب میں بھی مشغول ہیں۔

ان وجوہ سے میرا خیر خواہانہ مشورہ ہے کہ آپ دیوبندیوں کی ضد میں اپنے لئے یہ خطرات نہ سمیٹیں، بحث و تکرار ہی کا شوق ہے تو اس کے لئے بیسیوں موضوع دستیاب ہیں۔ ولله الحمد أوّلًا واٰخرًا!

مراد ما نصیحت بود و کردیم

حوالت باخدا کردیم و رفتیم

کیا شیعہ اسلامی فرقہ ہے؟

س… آپ کی تألیف کردہ کتاب “اختلاف امت اور صراط مستقیم” کی دونوں جلدوں کا مکمل مطالعہ کیا کتاب بہت ہی پسند آئی اور یہاں ریاض شہر میں اکثریت چونکہ حنابلہ کی ہے جو کہ آمین بالجہر، رفع یدین اور فاتحہ خلف الامام سب کچھ کرتے ہیں مگر اس کتاب کے مطالعہ سے میں اپنے مذہب حنفیہ میں مزید پختہ ہوگیا ہوں اور چونکہ پاکستان میں بھی میرا تعلق قاضی مظہر حسین صاحب مدظلہ العالی جیسے علماء کے ساتھ رہا ہے اور ان سے بحمداللہ بیعت کا سلسلہ بھی ہے اور انہوں نے اہلسنت والجماعت کا صحیح معنوں میں جو راستہ ہے وہ ہمیں بتایا اور مذہب شیعہ سے بھی کافی واقفیت ہے کیونکہ حضرت قاضی صاحب نے روافض کے تقریباً ہر عقیدہ پر کتاب لکھی ہے اور آپ نے بھی اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ اگر شیعہ عقیدہ صحیح ہے تو اسلام معاذ اللہ غلط ہے اور اگر اسلام حق ہے تو شیعہ مذہب کے غلط اور باطل ہونے میں کسی عاقل کو شبہ نہیں ہونا چاہئے، جس کا مطلب یہی ہے کہ شیعہ دائرہ اسلام سے خارج ہیں اسلام کے ساتھ ان کا کوئی واسطہ ہی نہیں ہے، اب میں آتا ہوں اپنی مقصودی بات کی طرف کہ شیعہ پکے کافر اور زندیق ہیں تو پھر ان کو اسلامی فرقوں میں شمار کرنا میرے ذہن کے مطابق درست نہیں ہے جس طرح کہ آپ نے کتاب کے نام کے نیچے لکھا ہے کہ جس میں صراط مستقیم کی ٹھیک ٹھیک نشاندھی کرتے ہوئے مشہور اسلامی فرقوں شیعہ سنی… الخ یعنی شیعہ کے ساتھ ہمارا اصولی اختلاف ہے کہ جب ان کا کلمہ اور اذان، نماز دیگر عبادات سب کچھ ہم سے جدا ہے تو پھر اسلامی فرقہ کیسے ہوا اور آپ نے بھی اپنی کتاب میں قوی دلائل سے اس فرقہ کو کافر ثابت کیا ہے۔ اور عام لوگ تو یہی سمجھتے ہیں کہ شیعہ مسلمان ہیں اور جب وہ کتاب کے پہلے صفحہ کو دیکھتے ہیں تو نہایت تعجب ہوتا ہے۔

ج… ماشاء اللہ! بہت نفیس سوال ہے، اس کا آسان اور سلیس جواب یہ ہے کہ “اسلامی فرقوں” سے مراد ہے وہ فرقے جن کو عام طور سے مسلمان سمجھا جاتا ہے، یا اسلام کی طرف منسوب کیا جاتا ہے۔

شیخ ابو منصور ماتریدی، جو عقائد میں حنفیہ کے امام ہیں،ان کی کتاب کا نام ہے “مقالات الاسلامیین” یعنی “اسلامی فرقوں کے عقائد” اس میں شیعہ، خوارج وغیرہ ان تمام فرقوں کا ذکر آیا ہے جو اسلام کی طرف منسوب ہیں حالانکہ ان میں سے بہت سوں پر کفر کا فتویٰ ہے، میری جس تحریر کا آپ نے حوالہ دیا ہے اور جس پر اشکال فرمایا ہے، وہ گویا شیخ کی کتاب کے نام کا ترجمہ ہے۔

اطلاع:… اور بھی بعض احباب نے یہی آپ والا اِشکال ذکر کیا تھا، اگرچہ اِشکال کا صحیح جواب موجود ہے جو اُوپر ذکر کرچکا ہوں، تاہم ہم نے کتاب کے نئے ایڈیشن میں “اسلامی فرقوں” کا لفظ حذف کردیا ہے۔

امام کے نام کے ساتھ “علیہ السلام” لکھنا

س… کیا انبیاء علیہم السلام کے علاوہ کسی اور امام کے نام کے ساتھ علیہ السلام لکھنا صحیح ہے؟ کیونکہ آج کل بچوں کی اسکول کی کتابوں میں جگہ جگہ علی، فاطمہ، زینب امام جعفردرج ہوتا ہے پہلے تو مخصوص لوگوں کی کتابوں میں ملتا تھا، لیکن اب پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کے جانب سے شائع ہونے والی تمام کتب میں یہ عبارت ملے گی۔

ج… ان اکابر کے نام پر “علیہ السلام” لکھنا بھی شیعی عقیدہ کی ترجمانی ہے۔

شیعہ اثنا عشری کے پیچھے نماز

س… ہماری ایک تنظیم ہے جس کے اراکین کئی ممالک سے تعلق رکھتے ہیں، ان اراکین کی کثیر تعداد (بڑی اکثریت) سنی ہے، یہ تنظیم لندن کے امپیرئیل کالج میں ہے، کالج نے نماز کے لئے ایک کمرہ دیا ہے، طلبہ میں سے ہی کوئی پنج وقتہ نماز پڑھا دیتا ہے جمعہ کی نماز کے لئے بھی طلبہ میں سے کوئی خطبہ پڑھتا ہے اور پھر نماز جمعہ کی امامت کرتا ہے، اب تک امامت اور خطبہ دینے والے طلبہ سنی ہی رہے ہیں کچھ شیعہ (اثنا عشری) طلبہ کہتے ہیں کہ ہم بھی خطبہ دیں گے اور نماز پڑھائیں گے سوال یہ ہے کہ کیا اثنا عشری شیعہ طلبہ خطبہ دے سکتے ہیں اور کیا یہ نماز کی امامت کرسکتے ہیں، کیا ان کے پیچھے ہماری نماز ہوجائے گی، اگر فتویٰ کے کچھ دلائل بھی تحریر فرمادیں تو نوازش ہوگی۔

ج… اثنا عشری عقیدہ رکھنے والے حضرات کے بعض عقائد ایسے ہیں جو اسلام کے منافی ہیں، مثلاً:

۱:… ان کا عقیدہ ہے کہ تین چار اشخاص کے سوا تمام صحابہ کرام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مرتد ہوگئے تھے، اور یہ کہ حضرات خلفائے ثلاثہ کافر و منافق اور مرتد تھے، ۲۵ سال تک تمام امت کی قیادت یہی منافق و کافر اور مرتد کرتے رہے، حضرت علی اور دیگر تمام صحابہ نے انہی مرتدوں کے پیچھے نمازیں پڑھیں۔

۲:… اثنا عشری علمائے متقدمین و متأخرین کا عقیدہ ہے کہ قرآن کریم جو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے چھپا لیا تھا اس کو صحابہ نے قبول نہیں کیا، اور موجودہ قرآن اُنہی خلفائے ثلاثہ کا جمع کیا ہوا ہے، اور اس میں تحریف کردی گئی ہے، اصلی قرآن امام غائب کے ساتھ غار میں محفوظ ہے۔

۳:… اثنا عشری عقیدہ یہ بھی ہے کہ بارہ اماموں کا مرتبہ انبیاء سے بڑھ کر ہے، یہ عقائد اثنا عشری کتابوں میں موجود ہیں۔

ان عقائد کے بعد کسی شخص کو نہ تو مسلمان کہا جاسکتا ہے، اور نہ اس کے پیچھے نماز ہوسکتی ہے، اس لئے کسی مسلمان کے لئے اثنا عشری عقیدہ رکھنے والوں کے پیچھے نماز پڑھنا صحیح نہیں، جس طرح کہ کسی غیر مسلم کے پیچھے نماز جائز نہیں، واللہ اعلم!

قرآنِ کریم اور حدیثِ قدسی

س… میں نے خطباتِ بھاولپور مصنفہ ڈاکٹر محمد حمید اللہ صاحب پڑھنا شروع کئے ہیں،صفحہ ۶۶ پر ایک سوال کا جواب دیا ہے وہ سوال و جواب یہاں نقل کیا جاتا ہے:

“سوال۱۰: حدیث قدسی چونکہ خدائے پاک کے الفاظ ہیں تو حدیث قدسی کو قرآن پاک میں کیوں نہیں شامل کیا گیا؟ وضاحت فرمائیں۔

جواب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مناسب نہیں سمجھا، یہی اصل جواب ہے کیونکہ ضرورت نہیں تھی کہ قرآن مجید کو ایک لا محدود کتاب بنایا جائے، بہتر یہی تھا کہ قرآن مجید مختصر ہو، ساری ضرورت کی چیزیں اس کے اندر ہوں اور وقتاً فوقتاً اس پر زور دینے کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور چیزیں بیان کریں جو حدیث میں بھی آئی ہیں اور حدیث قدسی میں بھی، اس سے ہم استفادہ کرسکتے ہیں لیکن اس کو قرآن میں شامل کرنے کی ضرورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے محسوس نہیں فرمائی، حدیث قدسی کی جو کتابیں ہیں ان میں کوئی چیز ایسی نہیں ہے جو قرآن پر اضافہ سمجھی جاسکتی ہے، بلکہ قرآن ہی کی بعض باتوں کو دُوسرے الفاظ میں زور دے کر بیان کیا گیا ہے۔”

یہاں آکر میں اٹک گیا ہوں کیونکہ ڈاکٹر صاحب قبلہ کی رائے میرے بنیادی عقیدے سے متصادم معلوم ہوتی ہے میرا ایمان ہے کہ قرآن حکیم مکمل طور پر لوح محفوظ پر لکھا ہوا ہے اور جبرئیل علیہ السلام حسب فرمان خداوندی اسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرماتے تھے، انہیں یاد کراتے تھے اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسے املا کراتے تھے اور صحابہ کرام کو یاد کرواتے تھے یہ بات کہ کیا چیز قرآن حکیم میں شامل کی جائے اور کون سی چھوڑ دی جائے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اختیار میں نہ تھی، اگر ہم یہ تسلیم کر لیں کہ قرآن حکیم ان آیتوں پر مشتمل ہے جو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مناسب خیال فرمائیں تو ہماری کتاب بھی بائبل کی طرح ہوگی آپ سے گزارش ہے کہ اس سلسلہ میں میری راہنمائی فرمائیں۔

ج… آپ کا یہ موقف صحیح ہے، قرآن کریم کے الفاظ اور معنیٰ حق تعالیٰ شانہ کی جانب سے ہیں اور حدیث قدسی کا مضمون تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے لیکن اس مضمون کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے الفاظ میں ادا فرمایا ہے، قرآن مجید میں کوئی کمی بیشی نہیں ہوسکتی، اس لئے یہ کہنا کہ احادیث قدسیہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن میں شامل نہیں فرمائیں، غلط بات ہے، ڈاکٹر حمید اللہ صاحب بیچارے جو کچھ ذہن میں آتا ہے کہہ دیتے ہیں، انہوں نے کسی استاذ سے یہ علوم حاصل نہیں کئے، اور ان خطبات بہاولپور میں بہت سی غلطیاں ہیں۔

جمعہ اور شبِ جمعہ کو مرنے والے کے عذاب کی تخفیف

س… آپ نے جمعہ ۹/ اگست کو ایک سوال کے جواب میں لکھا تھا کہ جمعہ کے دن یا جمعہ کی رات اگر کوئی انتقال کرجائے تو عذاب قبر سے بچتا ہے، جناب اگر ایک آدمی جواری، شرابی، سود خور، نیز ہر قسم کی برائیوں میں مبتلا ہو، اور وہ جمعہ کے دن یا جمعہ کی رات انتقال کرجائے تو کیا ایسا آدمی بھی عذاب قبر سے بچ سکتا ہے؟ اگر اس قسم کا آدمی مرجائے اور لواحقین اس کے ایصال ثواب کے لئے قرآن خوانی کروائیں، صدقہ و خیرات دیں تو کیا اس قسم کے مرحوم کو اجر ملتا ہے؟

ج… آپ کے اشکال کو رفع کرنے کے لئے چند باتوں کا ذہن میں رکھنا ضروری ہے:

۱:… گنہگار تو ہم سبھی ہیں، کوئی علانیہ گناہوں میں مبتلا ہے، جن کو سب لوگ گناہ گار سمجھتے ہیں اور کچھ لوگ ایسے گناہوں میں ملوث ہیں جن کو عام طور پر گناہ ہی نہیں سمجھا جاتا، مثال کے طور پر غیبت کا گناہ ہے، جس کو زنا سے زیادہ سخت فرمایا گیا ہے، اور مثال کے طور پر کسی مسلمان کی بے حرمتی کا گناہ ہے جس کو سب سے بد تر سود فرمایا گیا ہے، ان گناہوں میں ہم لوگ مبتلا ہیں جو زنا اور شراب نوشی و سود خوری سے بدتر ہیں، اگر ہم ایسے گناہ گاروں کو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا چاہئے تو کسی گناہ گار کو ہم اللہ کی رحمت سے مایوس کیوں کریں؟

۲:… حدیث میں جو فرمایا ہے کہ فلاں فلاں کاموں سے عذاب قبر ٹلتا ہے، اور فلاں فلاں چیزوں پر عذاب قبر ہوتا ہے، یہ سب برحق ہیں، اگر کم فہمی کی وجہ سے ہمیں ان کی حقیقت سمجھ میں نہ آئے تو ان پر اعتراض کرکے اپنے دین و ایمان کو غارت نہیں کرنا چاہئے۔

۳:…مرنے کے بعد انسان کے اچھے برے اعمال کی مجموعی حیثیت کے مطابق فیصلے ہوتے ہیں، کس کی نیکیوں کا پلہ بھاری ہے؟ اور کس کی بدیوں کا؟ یہ بات اللہ تعالیٰ ہی کے علم میں ہے، ہم لوگ اس کے بارے میں کوئی فیصلہ کرنے کے مجاز نہیں، بلکہ سب ارحم الراحمین کے فیصلے کے منتظر ہیں، اور امید و خوف کی حالت میں ہیں۔

۴:…خاص دنوں کی آمد پر قیدیوں کی قید میں تخفیف کا قانون دُنیا میں بھی رائج ہے، اگر یوم جمعہ یا شب جمعہ کی عظمت کے پیش نظر اللہ تعالیٰ شرابیوں اور سودخوروں کی قید میں بھی تخفیف کردیں تو آپ کو، یا مجھے اس پر کیا اعتراض ہے؟ اور اگر یہ تخفیف اس قسم کے بڑے گناہگاروں کے حق میں نہ ہو تب بھی کوئی اشکال نہیں، حدیث کا مدعا یہ ہے کہ جمعہ اور شب جمعہ کو عذاب قبر موقوف کردیا جاتا ہے، رہا یہ کہ کن کن لوگوں کا عذاب موقوف کیا جاتا ہے؟ یہ اللہ تعالیٰ ہی کو معلوم ہے۔

کشف و کرامات حق ہیں

س… ایک صاحب کہہ رہے تھے کہ ایک بزرگ تھا، ان کے پاس ایک مرید آیا اور کہنے لگا کہ میں کل مرجاؤں گا، چنانچہ دُوسرے دن ظہر کے وقت مسجد حرام میں آیا، طواف کیا اور تھوڑی دور جاکر مرگیا، میں نے اسے غسل دیا اور دفن کیا، جب میں نے اس کو قبر میں رکھا تو اس نے آنکھیں کھول دیں، میں نے کہا مرنے کے بعد بھی زندگی ہے، کہنے لگا میں زندہ ہوں اور اللہ کا ہر عاشق زندہ ہی ہوتا ہے۔

یہ کہاں تک صحیح ہے؟ اگر غلط ہے تو ان لوگوں کے بارے میں ہمارا کیا خیال ہونا چاہئے اور ان کے ساتھ کیسا سلوک کرنا چاہئے؟

ج… یہ واقعہ صحیح ہوسکتا ہے کہ بعض اوقات بزرگوں کو کشف ہوجاتا ہے اور مرنے کے بعد باتیں کرنے کے واقعات بھی حدیث میں موجود ہیں۔

کرامتِ اولیاء حق ہے

س… اسی طرح ایک اور قصہ بیان کرتے ہیں کہ ایک بزرگ تھے وہ فرماتے ہیں کہ جب میرے والد کا انتقال ہوا ان کو نہلانے کے لئے تختہ پر رکھا تو وہ ہنسنے لگے، نہلانے والے چھوڑ کر چل دیئے کسی کی ہمت ان کو نہلانے کی نہ پڑتی تھی، ایک اور بزرگ ان کے رفیق آئے انہوں نے غسل دیا۔

کیا یہ واقعہ صحیح ہے یا غلط؟ جو بزرگ اپنے مریدوں کو ایسی باتیں بتاتا ہے اس کے بارے میں آپ کا خیال کیا ہے؟ برائے مہربانی مجھے راہنمائی کریں کہیں ایسا نہ ہو کہ ان لوگوں کے ہاتھ چڑھ کر ہم اپنا ایمان خراب کرلیں کیونکہ ہمارے دیوبند عقیدے میں تو یہ چیزیں آج تک نہیں سنیں، اس لئے مجھے یہ نئی معلوم ہوتی ہیں، کہلاتے تو یہ لوگ بھی اہلسنّت والجماعت ہیں، لیکن عقیدے بہت زیادہ ہمارے عقیدے کے خلاف ہیں۔

ج… بطور کرامت یہ واقعہ بھی صحیح ہوسکتا ہے، دیوبندی اہل سنت ہیں، اور اہل سنت کا عقیدہ تمام عقائد کی کتابوں میں لکھا ہے کہ “اولیاء کی کرامات برحق ہیں” اس لئے ایسے واقعات کا انکار اہل سنت اور دیوبندی مسلک کے خلاف ہے، اور ان واقعات میں عقیدہ کی خرابی کی کوئی بات نہیں، ورنہ اہل سنت کراماتِ اولیاء کے برحق ہونے کے قائل نہ ہوتے۔

حضرت مہدی کے بارے میں چند سوالات

س… تاریخ اسلام میں خلافت بنو فاطمہ کا دور پڑھاتے ہوئے ہماری استانی نے ہمیں یہ بتایا تھا کہ اثنا عشری کے فرقے کے مطابق ان کے بارہویں امام “ امام محمد المہدی” جو گیارہویں امام حضرت امام حسن عسکری کے بیٹے تھے یہ اپنے والد کے گھر “سرمن رائی” سے بچپن میں روپوش ہوگئے تھے، ان کے ماننے والوں کا عقیدہ ہے کہ وہ قرب قیامت میں مسلمانوں کی اصلاح کے لئے آئیں گے، اس لئے امامت کو آگے نہیں بڑھایا اور ان کا لقب “المنتظر” رکھا گیا، آپ نے جو امام مہدی کے بارے میں بتایا تو کیا یہ وہی حضرت مہدی ہیں جو امام حسن عسکری کے بیٹے تھے؟

۲:… آپ نے اپنے جواب میں “حضرت مہدی “ لکھا ، میرے علم کے مطابق اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، کیونکہ ہم نے تو عام طور پر صحابہ کرام اور ان خواتین کے ناموں کے ساتھ رضی اللہ تعالیٰ عنہ لکھا دیکھا ہے جنہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا دیدار حاصل ہوا۔

۳:… امامت کیا ہے؟ کیا یہ خدا کی طرف سے عطا کیا ہوا کوئی درجہ ہے یا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا انعام یا پھر کچھ اور؟

۴:… ایک امام وہ ہیں جو مسجد کے امام ہوتے ہیں، ان کے بارے میں تو بہت کچھ پڑھا ہے لیکن وہ چار امام یعنی امام مالک اور امام احمد وغیرہ اور وہ امام جو اثنا عشری اور اسماعیلی فرقوں کے بارہ امام ہیں ان میں کیا فرق ہے؟ اور احادیث میں ان کا کیا مقام ہے؟

۵:… میں الحمدللہ مسلمان اور سنّی فرقے سے تعلق رکھتی ہوں، لیکن میری اکثر سنّی لوگوں سے ہی یہ بحث رہتی ہے اور میرا کہنا ہے کہ سنّی عقائد کے مطابق صرف چار امام ہیں جن کو ہم مانتے ہیں اور وہ امام ابوحنیفہ، امام مالک، امام شافعی اور امام احمد ہیں، مجھے یہ بات میرے استادوں سے معلوم ہوئی، ان اکثر لوگوں کا کہنا ہے کہ بارہ امام ہیں جو دُنیا میں آئے ہیں، اور ہم بھی انہیں مانتے ہیں، بالکل اسی طرح جس طرح دُنیا میں ہزاروں پیغمبر آئے اور مسلمانوں کا ان پر ایمان لانا ضروری ہے، لیکن صرف حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات پر عمل کرنا فرض ہے باقی کی تعلیمات پر نہیں، اب بتائیے کہ ہم میں کون صحیح ہے؟ اور اگر واقعی مسلمانوں کے بھی بارہ امام ہیں تو ان کے کیا نام ہیں؟

۶:… کانا دجال کون تھا؟ کیا اسے بھی زندہ اُٹھا لیا گیا یا وہ غائب ہوگیا تھا؟

ج… جی نہیں! ہمارا یہ عقیدہ نہیں، ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ امام مہدی پیدا ہوں گے، اور جب ان کی عمر چالیس برس کی ہوجائے گی تو مسلمانوں کے امیر اور خلیفہ ہوں گے۔

۲:… حضرت مہدی رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام نازل ہوں گے، اس لئے حضرت مہدی رضی اللہ عنہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے صحابی ہیں ان کو رضی اللہ عنہ کہنا صحیح ہے۔

۳:… مسلمان جس شخص کو اپنا امیر بنالیں وہ مسلمانوں کا امام ہے، امام اللہ تعالیٰ کی طرف سے نامزد نہیں کئے جاتے نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کو بطور انعام امام بنایا ہے۔

۴:… مسجد کے امام نماز پڑھانے کے لئے مقتدیوں کے پیشوا ہیں، چار امام اپنے علم و فضل اور زہد و تقویٰ کی وجہ سے مسلمانوں کے پیشوا ہیں، اور شیعہ اور اسماعیلی جن لوگوں کو امام مانتے ہیں ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر کیا ہوا معصوم سمجھتے ہیں، اور ان کا درجہ نبی کے برابر بلکہ نبیوں سے بڑھ کر سمجھتے ہیں، یہ عقیدہ اہل سنت کے نزدیک غلط بلکہ کفر ہے۔

۵:… میں اُوپر چاروں اماموں کا، اور شیعوں کے بارہ اماموں کا فرق بتا چکا ہوں۔

۶:… کانا دجال قرب قیامت میں نکلے گا، یہ یہودی ہوگا، پہلے نبوت کا پھر خدائی کا دعویٰ کرے گا اور اس کو قتل کرنے کے لئے عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے نازل ہوں گے، دجال کے زندہ اٹھائے جانے کی بات غلط ہے۔

حضرت ابراہیم نے ملائکہ کی مدد کی پیشکش کیوں ٹھکرادی؟

س… ایک حدیث ہے کہ:

۱:…”حدثنا معتمر بن سلیمان التیمی عن بعض اصحابہ قال جاء جبریل الی ابراھیم علیہ السلام وھو یوثق او یقمط لیلقی فی النار قال: یا ابراھیم! الک حاجہ؟ قال: اما الیک فلا!”

(جامع البیان فی تفسیر القرآن ج:۸ ص:۳۴)

۲:…”وروی ابی بن کعب الخ وفیہ قال فاستقبلہ جبریل فقال: یا ابراھیم! الک حاجہ؟ قال: اما الیک فلا! فقال: فاسئل ربک! فقال: حسبی من سوٴالی علمہ بحالی!” (تفسیر قرطبی ج:۱۱ ص:۲۰۳)

۳:…”فاتاہ خازن للریاح وخازن المیاہ یستأذنہ فی اعدام النار، فقال علیہ السلام: لا حاجة لی الیکم! حسبی الله ونعم الوکیل۔”

۴:…”وروی ابن کعب الخ وفیہ فقال: یا ابراھیم! الک حاجة؟ قال: اما الیک فلا!” (روح المعانی ج:۹ ص:۶۸)

۵:…اسی طرح تفسیر مظہری اُردو ج:۸ ص:۵۴ میں حضرت اُبی بن کعب کی روایت بھی ہے۔

۶:…”وذکر بعض السلف ان جبریل عرض لہ فی الھواء فقال: الک حاجة؟ فقال: اما الیک فلا!” (البدایة والنھایة ج:۱ ص:۱۴۹)

۷:…”وذکر بعض السلف انہ عرض لہ جبریل وھو فی الھواء فقال: الک حاجة؟ فقال: اما الیک فلا! واما من الله فلی۔”

(تفسیر ابن کثیر ج:۳ ص:۱۸۴)

ان مندرجہ بالا روایات کے پیشِ نظر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے واقعہ کو اس انداز سے بیان کرنا کہ: فرشتے اللہ تعالیٰ سے اجازت لے کر حاضر ہوئے اور ابراہیم کو مدد کی پیشکش کی، لیکن ابراہیم نے ان کی پیشکش کو قبول نہ کیا، درست ہے یا نہیں؟

ج:… یہ تو ظاہر ہے کہ ملائکہ علیہم السلام بغیر اَمر و اِذنِ الٰہی دَم نہیں مارتے، اس لئے سیّدنا ابراہیم علیٰ نبینا وعلیہ الصلوٰات والتسلیمات کو ان حضرات کی طرف سے مدد کی پیشکش بدوں اِذنِ الٰہی نہیں ہوسکتی، لیکن حضرت خلیل علیٰ نبینا وعلیہ الصلوٰات والتسلیمات اس وقت مقامِ توحید میں تھے، اور غیراللہ سے نظر یکسر اُٹھ گئی تھی، اس لئے تمام اسباب سے (کہ من جملہ ان کے ایک دعا بھی ہے) دست کش ہوگئے، کاملین میں یہ حالت ہمیشہ نہیں ہوا کرتی: “گاہے باشد وگاہے نہ، ولکن یا حنظلہ ساعة!” ہذا ما عندی والله اعلم بالصواب!

حضرت آدم اور ان کی اولاد کے متعلق سوالات

س… کہا جاتا ہے کہ ہم سب آدم و حوا کی اولاد ہیں اس حوالے سے حسب ذیل سوالات کے جوابات مطلوب ہیں:

س… حضرت آدم و حوا کی کیا کوئی بیٹی تھی؟

ج… بیٹیاں بھی تھیں۔

س… اگر ان کی کوئی بیٹی تھی؟ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آدم کے بیٹوں سے ہی اس کی شادی ہوئی ہوگی اور اگر ایسا ہوا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم سب یعنی پوری نوع انسانی حرامی ہے؟

ج… حضرت آدم علیہ السلام کے یہاں ایک پیٹ سے دو اولادیں ہوتی تھیں، ایک لڑکا اور ایک لڑکی، ایک پیٹ کے دو بچے آپس میں سگے بھائی بہن کا حکم رکھتے تھے، اور دُوسرے پیٹ کے بچے ان کے لئے چچا زاد کا حکم رکھتے تھے، یہ حضرت آدم علیہ السلام کی شریعت تھی، ایک پیٹ کے لڑکے لڑکی کا عقد دُوسرے پیٹ کے لڑکے لڑکی سے کردیا جاتا تھا۔

س… قصہٴ بنی آدم کی روایتی تشریح کے حوالے سے حسب ذیل قرآنی آیات کی کیا تشریح ہوگی؟

الف:… “ہم نے انسان کو مٹی کے خلاصے سے پیدا کیا” (۱۲/۲۳) یاد رہے کہ مٹی کا پتلا نہیں کہا گیا ہے۔

ج… “مٹی کے خلاصہ” کا مطلب یہ ہے کہ روئے زمین کی مٹی کے مختلف انواع کا خلاصہ اور جوہر، اس سے حضرت آدم علیہ السلام کا قالب بنایا گیا، پھر اس میں رُوح ڈالی گئی۔

ب:… تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم اللہ سے وقار کے آرزومند نہیں ہوتے اور یقینا اس نے تمہیں مختلف مراحل سے گزار کر پیدا کیا ہے… اور تمہیں زمین سے اگایا ہے ایک طرح کا اگانا۔ (۱۳،۱۷/۷۱)

یہاں مختلف “مراحل سے گزار کر پیدا کرنے” اور “زمین سے اگانے” کا کیا مطلب ہے؟

ج… یہاں عام انسانوں کی تخلیق کا ذکر ہے کہ غذا مختلف مراحل سے گزر کر مادئہ منویہ بنی، پھر ماں کے رحم میں کئی مراحل گزرنے کے بعد آدمی پیدا ہوتا ہے۔

س… سورئہ اعراف کی آیات ۱۱ تا ۲۵ کا مطالعہ کیجئے، ابتداء میں نوع انسانی کی تخلیق کا تذکرہ ہے، پھر آدم کیلئے سجدہ، پھر اس کے بعد ابلیس کا انکار اور چیلنج، لیکن چیلنج کے مخاطب صرف آدم اور اس کی بیوی نہیں، تثنیہ کا صیغہ استعمال نہیں کیا گیا بلکہ جمع کا صیغہ استعمال کیا گیا، اس کا مطلب ہے تعداد زیادہ تھی ایسا کیسے ہوگیا؟ جبکہ وہاں صرف آدم و حوا ہی تھے، اس کے بعد آدم و حوا کا تذکرہ ہے جن کے لئے تثنیہ کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے، لیکن آخر میں جہاں ہبوط کا ذکر ہے وہاں پھر جمع کا صیغہ ہے ایسا کیوں ہے؟

ج… حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق کے قصہ سے مقصود اولاد آدم کو عبرت و نصیحت دلانا ہے، اس لئے اس قصہ کو اس عنوان سے شروع کیا کہ ہم نے “تم کو پیدا کیا اور تمہاری صورتیں بنائیں۔” یہ بات چونکہ آدم علیہ السلام کے ساتھ مخصوص نہیں تھی، بلکہ ان کی اولاد کو بھی شامل تھی اس لئے اس کو خطاب جمع کے صیغہ سے ذکر کیا، پھر سجدہ کے حکم، اور ابلیس کے انکار اور اس کے مردود ہونے کو ذکر کرکے ابلیس کا یہ انتقامی فقرہ ذکر کیا کہ میں “ان کو گمراہ کروں گا۔” چونکہ شیطان کا مقصود صرف آدم علیہ السلام کو گمراہ کرنا نہیں تھا، بلکہ اولاد آدم سے انتقام لینا مقصود تھا، اس لئے اس نے جمع غائب کی ضمیریں ذکر کیں، چنانچہ آگے آیت:۲۷ میں اللہ تعالیٰ نے اس کی تشریح فرمائی ہے کہ “اے اولاد آدم شیطان تم کو نہ بہکادے، جس طرح اس نے تمہارے ماں باپ کو جنت سے نکالا۔” اس سے صاف واضح ہے کہ شیطان کی انتقامی کاروائی اولاد آدم کے ساتھ ہے۔

اور ہبوط میں جمع کا صیغہ لانے کی وجہ یہ ہے کہ حضرت آدم و حواء علیہما السلام کے علاوہ شیطان بھی خطاب میں شامل ہے۔

نیز تثنیہ کے لئے جمع کا خطاب بھی عام طور سے شائع و ذائع ہے، اور بایں نظر بھی خطاب جمع ہوسکتا ہے کہ آدم و حوا علیہما السلام کے ساتھ ان کی اولاد کو بھی خطاب میں ملحوظ رکھا گیا ہو۔

س… ابتدا میں بشرکا ذکر ہے اور ضمیر واحد غائب کی ہے لیکن جب ابلیس چیلنج دیتا ہے تو ضمائر جمع غائب شروع ہوجاتی ہیں کیوں؟

ج… اُوپر عرض کرچکا ہوں کہ شیطان کے انتقام کا اصل نشانہ اولاد آدم ہے، اور شیطان کے اس چیلنج سے اولاد آدم ہی کو عبرت دلانا مقصود ہے۔

س… اگر حضرت آدم نبی تھے تو نبی سے خطا کیسے ہوگئی اور خطا بھی کیسی؟

ج… حضرت آدم علیہ السلام بلاشبہ نبی تھے، خلیفة اللہ فی الارض تھے، ان کے زمانہ میں انہی کے ذریعہ احکامات الٰہیہ نازل ہوتے تھے، رہی ان کی خطا! سو اس کے بارے میں خود قرآن کریم میں آچکا ہے کہ: “آدم بھول گئے” اور بھول چوک خاصہٴ بشریت ہے، یہ نبوت و عصمت کے منافی نہیں، آپ کو معلوم ہوگا کہ اگر روزہ دار بھول کر کھالے تو اس کا روزہ نہیں ٹوٹتا۔

حضرت ابوبکر صدیق  کی خلافت برحق تھی

س… اگر ہمارے تین خلفاء کو حضرت علی سے محبت تھی اور جب حضرت علی رسول اللہ کے نائب و اہل بیت اور ان کے عزیز بھائی موجود تھے، اور اگر ان میں کچھ بھی نہ ہو لیکن یہ صفت تو موجود تھی، بقول حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم: “جس کا میں مولا اس کا علی مولا۔”

اور حضرت عمر نے آکر حضرت علی کو غدیر خم میں مبارک باد دی تھی کہ”اے علی آپ خدا کے تمام موٴمنین و موٴمنات و کل صحابہ کرام کے مولا مقرر ہوئے۔” تو پھر کیا وجہ ہے کہ حضرات خلفاء نے حضرت علی کو خلیفہ کیوں نہیں بنایا؟ اور کیوں سقیفہ میں ان تین خلفاء میں سے کسی نے بھی حضرت علی کو نامزد نہیں کیا؟

ج … غدیر خم میں جو اعلان ہوا تھا وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے دوستی کا تھا، خلافت کا نہیں، یہی وجہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو اپنے مصلیٰ پر کھڑا کیا، اور اپنی بیماری میں ان کو نماز پڑھانے کا حکم فرمایا، حضرت ابوبکر امام تھے، اور حضرت علی مقتدی، اس لئے خلافت بھی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو دی گئی۔

س… ہمارے تینوں خلفاء نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے جنازہ مبارک میں شرکت کیوں نہیں کی؟ اور اگر خلافت کا مسئلہ در پیش تھا تو امر خلافت ملتوی کیوں نہیں کیا؟ کیا رسول خدا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر ان کی خلافت تھی؟ اور کیوں ان حضرات نے خبر نہیں دی کہ یہاں خلافت کا مسئلہ درپیش ہے؟ اور حضرت علی سے اس بارے میں مشورہ کیوں نہ کیا؟

ج… حضرات خلفائے ثلاثہ نے جنازے میں شرکت فرمائی ہے، اور یہ طے شدہ بات ہے کہ کسی حاکم کے انتقال کے بعد سب سے پہلے اس کے جانشین کا تقرر کیا جاتا ہے، امت جانشین اور حاکم کے بغیر نہیں رہ سکتی۔

س … جس طرح ابوبکر خلیفہ ہوئے آپ اس کو اصولاً کیا کہیں گے؟ الیکشن ہو نہیں سکتا، سلیکشن یہ بھی نہیں ہوسکتا، نو مینیشن یہ بھی نہیں، تو کیا معاملہ تھا؟اور اس کا کیا نام رکھا جائے گا؟ اور کس طرح یہ خلافت جائز قرار دی جائے گی؟

ج… تمام صحابہ کرام نے (جن میں حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی شامل تھے) حضرت ابوبکر سے بیعت کی، اس سے بڑھ کر انتخاب(الیکشن) کیا ہوگا․․․؟ ایک شخص بھی نہیں تھا جو حضرت ابوبکر کے مقابلے میں خلافت کا مدعی ہو۔

س… جناب فاطمہ کی دلی حالت مرتے دم تک ان تین خلفاء سے کیسی رہی؟ اگر آپ رضا مند تھیں تو آپ نے اور آپ کے شوہر حضرت علی نے اپنی حیات تک بیعت کیوں نہ کی؟ اور اگر آپ ان لوگوں سے ناراض تھیں اور آپ نے اسی حالت میں انتقال فرمایا تو آپ کا اعتقاد مذہبی وہی ہوا نا جو شیعوں کا ہے؟

ج… حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا حضرت ابوبکر سے راضی تھیں، اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوبکر سے بیعت بھی کی تھی۔

س… مولانا صاحب میرا آخری سوال یہ ہے کہ ابوطالب کافر تھے یا مسلمان؟

ج… ان کا اسلام نہ لانا ثابت ہے۔

علاماتِ قیامت

س… ہم آئے دن لوگوں سے سنتے ہیں کہ قیامت آج آئی کہ کل آئی، مگر ابھی تک تو نہیں آئی، کیا اس کی کوئی نمایاں علامتیں ہیں جن کو دیکھ کر آدمی سمجھ لے کہ بس اب قیامت قریب ہے؟ ایسی کچھ نشانیاں بتلادیں تو احسانِ عظیم ہوگا۔

ج… آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آئندہ زمانے کے بارے میں بہت سے اُمور کی خبر دی ہے، جن میں سے بہت سی باتیں تو صدیوں سے پوری ہوچکی ہیں، بعض کو ہم نے اپنی آنکھوں سے پوری ہوتے دیکھا ہے، مثلاً: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشادِ مبارک:

“عن ثوبان رضی الله عنہ قال: قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: اذا وضع السیف فی امتی لم یرفع عنھا الٰی یوم القیامة۔”

ترجمہ:…”حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب میری امت میں تلوار رکھ دی جائے گی تو قیامت تک اس سے اُٹھائی نہیں جائے گی۔”

“ولا تقوم الساعة حتٰی یلحق قبائل من امتی بالمشرکین وحتٰی تعبد قبائل من امتی الاوثان۔”

ترجمہ:…”اور قیامت قائم نہیں ہوگی یہاں تک کہ میری امت کے کئی قبائل مشرکوں سے جاملیں گے، اور یہاں تک کہ میری امت کے کئی قبائل بت پرستی کرنے لگیں گے۔”

“وانہ سیکون فی امتی کذابون ثلٰثون، کلھم یزعم انہ نبی الله، وانا خاتم النبیین، لا نبی بعدی۔”

ترجمہ:…”اور میری امت میں تیس جھوٹے کذاب ہوں گے، ان میں سے ہر ایک یہ دعویٰ کرے گا کہ وہ اللہ کا نبی ہے، حالانکہ میں خاتم النبیین ہوں، میرے بعد کوئی نبی نہیں!”

“ولا تزال طائفة من امتی علی الحق ظاہرین، لا یضرھم من خالفھم حتٰی یأتی امر الله۔ رواہ ابوداود، والترمذی۔” (مشکوٰة ص:۴۶۵)

ترجمہ:…”اور میری امت میں ایک جماعت غالب حیثیت میں حق پر قائم رہے گی، جو شخص ان کی مخالفت کرے، وہ ان کو نقصان نہیں پہنچاسکے گا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ (قیامت) آپہنچے۔”

آخری زمانے کی جنگوں کے بارے میں “ملاحم” کے باب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک ارشاد مروی ہے:

“عن ذی مخبر قال: سمعت رسول الله صلی الله علیہ وسلم یقول: ستصالحون الروم صلحا اٰمنا، فتغزون انتم وھم عدوا من ورائکم، فتنصرون وتغنمون وتسلمون ثم ترجعون حتٰی تنزلون بمرج ذی تلول فیرفع رجل من اھل النصرانیة الصلیب فیقول: غلب الصلیب! فیغضب رجل من المسلمین فیدقہ، فعند ذالک تغدر الروم وتجمع للملحمة۔ رواہ ابوداود۔”

(مشکوٰة ص:۴۶۷)

ترجمہ:…”حضرت ذومخبر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے کہ: تم اہلِ روم (نصاریٰ) سے امن کی صلح کروگے، پھر تم اور وہ مل کر مشترکہ دشمن سے جہاد کروگے، پس تم منصور و مظفر ہوگے، غنیمت پاوٴگے اور تم صحیح سالم رہوگے۔ پھر ٹیلوں والی سرسبز و شاداب وادی میں قیام کروگے، پس ایک نصرانی، صلیب اُٹھاکر کہے گا کہ: صلیب کا غلبہ ہوا! اور ایک مسلمان اس سے مشتعل ہوکر صلیب کو توڑ ڈالے گا، تب رومی عہد شکنی کریں گے، اور لڑائی کے لئے جمع ہوں گے۔”

اسلام اور نصرانیت کی یہ جنگ حدیث کی اصطلاح میں “ملحمة الکبریٰ” (جنگِ عظیم) کہلاتی ہے، اس کی تفصیلات بڑی ہولناک ہیں، جو “ابواب الملاحم” میں دیکھی جاسکتی ہیں، اسی جنگ میں قسطنطنیہ فتح ہوگا اور فتحِ قسطنطنیہ کے متصل دجال کا خروج ہوگا۔

جس امر کی طرف یہاں توجہ دلانا مقصود ہے، وہ یہ ہے کہ اہلِ اسلام اور اہلِ نصرانیت کا وہ مشترکہ دشمن کون ہے، جس سے یہ دونوں مل کر جنگ کریں گے؟ کیا دُنیا کی موجودہ فضا اسی کا نقشہ تو تیار نہیں کر رہی․․․؟

کچھ “اِصلاحِ مفاہیم” کے بارے میں

س… علوی مالکی نام کے ایک مکی عالم کی کتاب کا اردو ترجمہ “اِصلاحِ مفاہیم” آج کل زیرِ بحث ہے، بعض حضرات اس کتاب کو دیوبندی بریلوی نزاع کے خاتمہ میں ممد و معاون قرار دیتے ہیں، تو بعض دُوسرے اسے دیوبندی موقف کی تغلیط اور بریلوی موٴقف کی تائید اور تصدیق سمجھتے ہیں، صحیح صورتِ حال سے نقاب کشائی فرماکر ہماری راہ نمائی فرمائی جائے۔

ج… جی ہاں! مکہ مکرمہ کے ایک عالم شیخ محمد علوی مالکی کی کتاب “مفاھیم یجب ان تصحح” کافی دنوں سے معرکة الآراء بنی ہوئی ہے، پاکستان میں اس کا ترجمہ “اِصلاحِ مفاہیم” کے نام سے شائع کیا گیا، اور اب ہمارے حلقوں میں اس پر اچھا خاصا نزاع برپا ہے۔ “انوارِ مدینہ، لاہور”، “الخیر، ملتان” اور “حق چار یار، چکوال” میں اس سلسلہ میں کافی مضامین شائع ہوچکے ہیں۔ کتاب کے ناشر جناب پروفیسر الحاج احمد عبدالرحمن زید لطفہ نے اس سلسلہ میں اس ناکارہ کی رائے طلب فرمائی، راقم الحروف نے ان کے خط کے جواب میں اس کتاب پر مفصل تبصرہ کا ارادہ کیا، اور چند اوراق لکھے بھی، لیکن پھر خیال آیا کہ اس کے لئے طویل فرصت درکار ہوگی، اس لئے ایک مختصر سا خط ان کی خدمت میں لکھ دیا، چونکہ اس بارے میں استفسارات کا سلسلہ جاری رہتا ہے، چنانچہ حال ہی میں ایک صاحب کا خط آیا اور اس بارے میں اس ناکارہ سے مشورہ طلب کیا گیا، اس لئے مناسب معلوم ہوا کہ اس سلسلہ میں اپنی رائے کا اظہار کردیا جائے۔

لہٰذا ذیل میں پہلے وہ مختصر سا خط دیا جارہا ہے جو جناب پروفیسر احمد عبدالرحمن کے نام لکھا گیا تھا، اس کے بعد وہ مفصل خط پیشِ خدمت ہے، جو انہی کے نام لکھنے شروع کیا تھا، لیکن اسے اَدھورا چھوڑ کر مختصر خط لکھنے پر اکتفا کیا گیا، اور اس کی تکمیل بعد میں کی گئی اور آخر میں چند حضرات کے خطوط اور اس ناکارہ کی جانب سے ان کے جوابات درج کئے جارہے ہیں، والله الموفق لکل خیر وسعادة!

پہلا خط

بسم الله الرحمن الرحیم

مخدوم و مکرم جناب پروفیسر احمد عبدالرحمن صاحب زید لطفہ

السلام علیکم ورحمة الله وبرکاتہ!

نامہ کرم مع ہدیہ مرسلہ “اِصلاحِ مفاہیم” کافی دنوں سے آیا رکھا تھا، کثرتِ مشاغل نے کتاب اُٹھاکر دیکھنے کی بھی مہلت نہ دی، ادھر خود طبیعت بھی اس طرف مائل نہ ہوئی، یہ ناکارہ تو طاقِ نسیان میں بحفاظت رکھ چکا تھا، یکایک خیال آیا کہ آنجناب منتظرِ جواب ہوں گے، چنانچہ کتاب کو پڑھا، داعیہ پیدا ہوا کہ اس پر کسی قدر مفصل تبصرہ کروں، مگر مشاغل اس کی اجازت نہیں دیتے، اس لئے مختصراً لکھتا ہوں کہ کتاب کے بعض مباحث تو بڑے ایمان افروز ہیں، مگر جنابِ مصنف نے جگہ جگہ مخمل میں ٹاٹ کی پیوندکاری کی ہے، اور شکر میں اپنے منفرد افکار و مفاہیم کا زہر ملادیا ہے، لہٰذا کتاب کے بارے میں اس ناکارہ کی رائے جناب محترم مولانا الحاج الحافظ مفتی عبدالستار دام مجدہ (صدر مفتی جامعہ خیرالمدارس، ملتان) کے ساتھ متفق ہے، یہ کتاب ہمارے اکابرِ دیوبند کے مسلک و مشرب کی ہرگز ترجمان نہیں، اور اس سے امت کے درمیان اتحاد و اتفاق کی جو اُمیدیں وابستہ کی گئی ہیں وہ نہ صرف موہوم بلکہ معدوم ہیں۔ اس کے برعکس اس ناکارہ کا احساس یہ ہے کہ امت تو امت، یہ کتاب ہمارے احباب کے درمیان منافرت و مغایرت اور تشتت و انتشار کی موجب ہوگی، اگر کتاب کے ترجمہ اور اس کی اشاعت سے قبل اس ناکارہ سے رائے لی جاتی تو یہ ناکارہ نہ ترجمہ کا مشورہ دیتا، نہ اشاعت کا۔ جن حضرات نے اس پر تقریظات ثبت فرمائی ہیں، اس ناکارہ کا احساس ہے کہ انہوں نے بے پڑھے محض موٴلف کے ساتھ حسنِ ظن اور عقیدت سے مغلوب ہوکر لکھ دی ہیں، اور اگر کسی نے پڑھا ہے تو اس کو ٹھیک طرح سمجھا نہیں، نہ ہمارے اکابر کے مسلک کو صحیح طور پر ہضم کیا ہے، بلکہ اس ناکارہ کو یہاں تک “حسنِ ظن” ہے کہ بہت سے حضرات نے کتاب کے نام کا مفہوم بھی نہیں سمجھا ہوگا، اگر ان سے دریافت کرلیا جائے کہ “مفاہیم یجب ان تصحح” کا کیا مطلب ہے؟ تو شاید تیر نشانہ پر نہ لگاسکیں۔ چنانچہ اس کا اُردو نام “اِصلاحِ مفاہیم” غمازی کرتا ہے کہ فاضل مترجم اس کا مطلب نہیں سمجھے، اُمید ہے کہ ان اجمالی معروضات کے بعد مفصل تبصرے کی حاجت نہ ہوگی، دعواتِ صالحہ کا محتاج اور ملتجی ہوں، والسلام!

محمد یوسف عفا اللہ عنہ

۲۰/۷/۱۴۱۵ھ

دوسرا خط

بسم الله الرحمن الرحیم

جناب مخدوم و مکرم زیدت الطافہم، السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ!

جناب کا گرامی نامہ موصول ہوئے کئی دن ہوئے، جس میں اس ناکارہ سے “اِصلاحِ مفاہیم” کے بارے میں رائے طلب کی گئی تھی، مگر یہ ناکارہ جناب کے حکم کی تعمیل سے بوجوہِ چند قاصر رہا:

۱:… یہ ناکارہ اپنے مشاغل میں اس قدر اُلجھا ہوا تھا کہ ڈاک کا جواب نمٹانے سے بھی عاجز رہا، اور بعض سوالات ایسے تھے جو ایک مقالے کا موضوع تھے، یہ خیال رہا کہ ذرا ان مشاغل سے فرصت ملے تو کتاب کو دیکھوں تب ہی کوئی رائے عرض کرسکوں گا۔ ایسی عدیم الفرصتی میں ایک ضخیم کتاب کا سرسری پڑھنا بھی مشکل تھا، چونکہ آنجناب کا تقاضا بھی سوہانِ رُوح بنا ہوا ہے، اس لئے دُوسرے مشاغل سے صرفِ نظر کرکے کتاب کو دیکھا اور جواب لکھنے کی نوبت آئی۔

۲:… اس ناکارہ کو اکابرِ سلف کی کتابوں سے اُکتاہٹ نہیں ہوتی، نہ ان کے مطالعہ سے سیری ہوتی ہے، لیکن ہمارے جدید محققین کے اسلوب و انداز سے ایسی وحشت ہوتی ہے کہ ان کی کتابوں کے چند صفحے دیکھنا بھی اس ناکارہ کے لئے اچھا خاصا مجاہدہ ہے، اس لئے اس کتاب کو اُٹھاکر دیکھنے ہی کو جی نہیں چاہا۔

۳:…یہ ناکارہ، زندگی بھر ملحدین و مارقین سے نبرد آزما رہا، اور اس کا ہمیشہ یہ ذوق رہا کہ:

تیغ براں بہر ہر زندیق باش

اے مسلماں! پیرو صدیق باش!

لیکن اپنوں کی لڑائی میں “دخل در معقولات” سے یہ ناکارہ ہمیشہ کتراتا رہا، “اِصلاحِ مفاہیم” کے بارے میں بھی اپنی رائے ظاہر کرنے سے “پُرحذر” رہا، کیونکہ یہ کتاب خود ہمارے شیخ نور اللہ مرقدہ کے حلقہ میں بھی متنازع فیہ بنی ہوئی ہے۔ میرے محترم بزرگ جناب صوفی محمد اقبال مہاجر مدنی اس کے پُرزور حامی و موٴید ہیں، انہی کے حکم سے یہ کتاب عربی سے اُردو میں نقل کی گئی، اور انہی کے حکم سے پاکستان میں شائع کی گئی۔ دُوسری طرف حضرت شیخ نور اللہ مرقدہ کے عقیدت مندوں کا ایک بڑا حلقہ اس کتاب کو “شکر میں لپٹا ہوا زہر” قرار دیتا ہے۔ اس ناکارہ کا یہ خیال رہا کہ تیری حیثیت “نہ تین میں، نہ تیرہ میں!”، اس لئے اگر تو اس معرکہ سے گریز ہی کرے تو بہتر ہے، بقول شاعر:

فقلت لمحرز لما التقینا

تجنب لا یقطرک الزحام

چنانچہ قبل ازیں صوفی صاحب زید مجدہ کے احباب کی جانب سے ایک رسالہ “اکابر کا مسلک و مشرب” شائع ہوا، اور پھر انہی مضامین کو “اسلامی ذوق” نامی رسالہ کی شکل میں شائع کیا گیا، اور اس ناکارہ سے ان دونوں رسالوں کے بارے میں رائے طلب کی گئی، لیکن “ایاز! بقدر خویش بہ شناس” کے پیشِ نظر اس ناکارہ نے مہرِ سکوت نہیں توڑی، اور ان دونوں رسالوں کے بارے میں کچھ لکھنے سے اغماض کیا۔

۴:… دراصل سکوت کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ اس زمانے میں کوئی کسی کی سننے کو تیار نہیں، ہر شخص اپنی رائے ایسے جزم اور اتنی پختگی کے ساتھ پیش کرتا ہے کہ گویا ابھی ابھی جبریل علیہ السلام حکمِ خداوندی سے نازل ہوئے ہیں، جب اپنی رائے پر جزم و وثوق کا یہ عالم ہو تو دُوسرے کی رائے کو کون اہمیت دیتا ہے؟ اختلاف کرنے والا خواہ کتنا بڑا عالم ربانی ہو، اور نہایت اخلاص کے ساتھ اختلافِ رائے کا اظہار کرے اس کو -اِلَّا ما شاء اللہ- ہوائے نفس اور کبر و حسد پر محمول کیا جاتا ہے، ایسی فضا میں تنقیدی و اصلاحی رائے تو مفید و کارگر ہوگی نہیں، البتہ قلوب میں منافرت اور فتنہ میں اضافہ کا سبب ضرور بنے گی، اس لئے اس ناکارہ نے ایسے نزاعی اُمور میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نصیحت کو حرزِ جان بنا رکھا ہے:

“بل ائتمروا بالمعروف وتناھوا عن المنکر، حتٰی اذا رأیت شحًا مطاعًا وھوی متبعًا دنیًا موٴثرة، واعجاب کل ذی رأی برأیہ، ورأیت امرا لا بد لک منہ فعلیک نفسک، ودع امر العوام!” (مشکوٰة ص:۴۳۷)

ترجمہ:…”نیکی کا حکم کرتے رہو، اور برائی سے بچتے رہو، یہاں تک کہ جب دیکھو کہ حرص و آز کی اطاعت اور خواہشات کی پیروی کی جارہی ہے، اور دنیوی مفاد کو ترجیح دی جارہی ہے، اور ہر صاحبِ رائے اپنی رائے پر نازاں ہے، اور تم دیکھو کہ کام ایسا ہے کہ اس کے بغیر چارہ نہیں، تو اپنی فکر کرو، اور عوام کے قصہ کو چھوڑ دو!”

حضراتِ سلف میں یہ مقولہ معروف تھا کہ اپنی رائے کو متہم سمجھو، یہ حضرات اپنی فہم کو ناقص اور اپنی رائے کو علیل جانتے تھے، اور ہمیشہ اس کے منتظر رہتے تھے کہ کوئی ان کو غلطی سے آگاہ کرے تو وہ اس سے رجوع کرلیں۔ حضرت مولانا سیّد محمد یوسف بنوری رحمة اللہ علیہ فرماتے تھے کہ: حضرت مولانا سیّد سلیمان ندوی اپنی جلالتِ قدر اور علوِ مرتبت کے باوصف فرماتے تھے کہ: ابتدائی دور میں (حضرت حکیم الامت سے تعلق سے قبل) مجھ سے کچھ غلطیاں ہوئی ہیں، میرا جی چاہتا ہے کہ آپ (حضرت بنوری) جیسے حضرات میری کتابوں کو دیکھ کر غلطیوں کی نشاندہی کردیں تو میں اپنی زندگی میں ان سے رجوع کا اعلان کردوں۔

عارف باللہ حضرتِ اقدس ڈاکٹر عبدالحی عارفی قدس سرہ فرماتے تھے کہ: ایک بار مولانا بنوری نے “بینات” میں ایک مضمون لکھا، بعد میں مجھ سے ملنے کے لئے آئے تو میں نے ان سے کہا کہ: یہ بات جو آپ نے لکھی ہے، یہ آپ کی شان کے خلاف ہے! فوراً کہنے لگے کہ: “غلطی ہوئی، معاف کردیجئے! آئندہ نہیں ہوگی۔” حضرت ڈاکٹر صاحب اس بات کو نقل کرکے فرماتے تھے کہ: “بھئی! مولانا بنوری بڑے آدمی تھے!” حضرت بار بار یہ فقرہ دہراتے۔

یہ ہمارے ان اکابر کے واقعات ہیں جن کو ان گناہگار آنکھوں نے دیکھا، ہمارے شیخ برکة العصر، قطب العالم مولانا محمد زکریا مہاجر مدنی قدس سرہ کے یہاں تو مستقل اُصول تھا کہ جب تک ان کی تحریر فرمودہ کتاب کو دو محقق عالم دیکھ کر اس کی تصدیق و تصویب نہیں فرمادیتے تھے وہ کتاب نہیں چھپتی تھی۔ اسی سے قیاس کیا جاسکتا ہے کہ ہمارے اسلاف سلف صالحین کی بے نفسی، اخلاص و للہیت اور فنائیت کا کیا عالم ہوگا؟ لیکن اب ہمارے یہاں استبدادِ رائے کا ایسا غلبہ ہے کہ نہ کوئی کسی کی سننے کو تیار، نہ ماننے کو -اِلَّا ما شاء اللہ- اس لئے یہ ناکارہ اپنے احباب کے درمیان متنازع فیہ مسائل میں اظہارِ رائے سے ہچکچاتا ہے، کہ اوّل تو اس ناکارہ کی رائے کی کوئی قیمت ہی نہیں، پھر اظہارِ رائے سے اِصلاح کی توقع بہت کم ہوتی ہے، بلکہ اگر اپنی رائے کسی صاحب کے خلاف ہوئی تو قلوب میں منافرت پیدا ہونے کا خطرہ قوی ہے۔

حیاة الصحابہ (ج:۲ ص:۱۲۰) میں حضرت ابوعبیدہ اور حضرت معاذ رضی اللہ عنہما کا ایک خط حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے نام نقل کیا ہے، جس کے آخر میں یہ بھی لکھا تھا کہ: “ہمیں بتایا جاتا تھا کہ آخری زمانہ میں اس امت کا یہ حال ہوجائے گا کہ ظاہر میں بھائی بھائی ہوں گے، اور باطن میں ایک دُوسرے کے دشمن ہوں گے، ہم نے یہ خط آپ کی ہمدردی و خیرخواہی کے لئے لکھا، خدا کی پناہ! کہ آپ اس کو کسی اور چیز پر محمول کریں۔”

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کے جواب میں تحریر فرمایا کہ:

“آخری زمانے کے بارے میں آپ حضرات نے جو کچھ لکھا ہے، آپ اس کے مصداق نہیں اور نہ یہ وہ زمانہ ہے، یہ وہ زمانہ ہوگا جس میں رغبت و رھبت ظاہر ہوجائے گی، اور لوگوں کی رغبت ایک دُوسرے سے دنیاوی مفادات کی غرض سے ہوگی، بلاشبہ آپ حضرات نے جو کچھ لکھا ہے وہ خیرخواہی و ہمدردی کے طور پر لکھا ہے، اور مجھے اس سے استغنا نہیں، اس لئے از راہِ کرم مجھے لکھتے رہا کیجئے!”

الغرض! مذکورہ وجوہات کی بنا پر یہ ناکارہ “اِصلاحِ مفاہیم” کے بارے میں آپ کے حکم کی تعمیل کرنے میں متأمل تھا، اور جی یہی چاہتا کہ میں کچھ نہ لکھوں، لیکن پھر خیال ہوا کہ آپ منتظرِ جواب ہوں گے، اور آپ کو جواب نہ ملنے کی شکایت ہوگی۔ اس لئے محض امتثالِ حکم کے لئے لکھتا ہوں، ورنہ میں جانتا ہوں کہ میں کیا اور میری تحریر کیا؟ دعا کرتا ہوں کہ میری یہ تحریر فتنہ میں اضافہ کا باعث نہ بنے۔ اللّٰھم انی اعوذ بک من شر نفسی! وہ رحیم و کریم میری تحریر کے شر سے اپنے بندوں کو محفوظ فرمائے، اور میری غلطیوں کی پردہ پوشی فرمائے، انہ رحیم ودود!

کتاب “اِصلاحِ مفاہیم” کے سرسری مطالعہ سے اس ناکارہ نے جو اُمور نوٹ کئے، اگر ان پر مفصل گفتگو کی جائے تو اچھی ضخیم کتاب بن جائے گی، اس لئے جزئیاتِ مسائل پر گفتگو کرنے کے بجائے چند اُصولی اُمور کی نشاندہی پر اکتفا کروں گا، والله ولی التوفیق!

اوّل:…جناب مصنف سعودیہ میں اقامت پذیر ہیں، اور اس ماحول میں ایسے حضرات کی آواز غالب ہے جو ذرا ذرا سی باتوں پر شرک کا فتویٰ صادر کرتے ہیں، توسل کا شدّ و مدّ سے انکار کرتے ہیں، اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہٴ مقدسہ کی زیارت کے ارادے سے سفر کرنے کو بھی روا نہیں سمجھتے، جناب مصنف کا مطمحِ نظر ان حضرات کی تشدد پسندی کی اصلاح ہے، اور وہ یہ چاہتے ہیں کہ دلائل کے ساتھ ان حضرات کے رویہ میں لچک اور اعتدال پیدا کیا جائے۔ ہند و پاک کا خرافاتی ماحول جناب مصنف کے سامنے نہیں، اور وہ اس سے واقف نہیں کہ برصغیر پاک و ہند کے عوام کیسی کیسی بدعات و خرافات میں مبتلا ہیں،اس لئے ان عوام کی اصلاح جناب مصنف کے پیشِ نظر نہیں۔ اس لئے فطری بات ہے کہ جناب مصنف کی تحریر میں سلفی حضرات کی شدتِ بے جا کی اصلاح کی کوشش تو نظر آتی ہے -کہ یہی ان کی کتاب کا اصل موضوع ہے- لیکن عوام کی غلط روی و کج فکری کی اصلاح ان کی تحریر میں نظر نہیں آتی۔ اس کے برعکس ہمارے اکابرِ دیوبند کو دونوں فریقوں کے افراط و تفریط سے واسطہ رہا، سلفی حضرات کی شدت و خشکی سے بھی، اور عوام کی عامیانہ رَوِش سے بھی، اس لئے ہمارے اکابر افراط و تفریط کے درمیان راہِ اعتدال پر قائم رہے اور انہوں نے بڑی خوبصورتی و کامیابی کے ساتھ میزانِ اعتدال کے دونوں پلوں کو برابر رکھا:

در کفے جامِ شریعت در کفے سندان عشق

ہر ہوسناکے نہ داند جام و سندان باختن

الغرض! ان متنازع فیہ مسائل میں جو اعتدال و توازن ہمارے اکابر کے یہاں نظر آتا ہے، اسے یہ ناکارہ “لسان المیزان” سمجھتا ہے۔ یہیں سے معلوم ہوتا ہے کہ جناب مصنف کی یہ کتاب ہمارے اکابر کے ذوق و مسلک کی ترجمان نہیں، بلکہ اس کا پلہ اہلِ بدعت کی طرف جھکا ہوا ہے، لہٰذا جن حضرات نے یہ سمجھا ہے کہ مالکی صاحب کی یہ کتاب ہمارے اکابر کے مسلک کی ترجمانی کرتی ہے، اس ناکارہ کے خیال میں ان حضرات نے نہ تو ہمارے اکابر کے مسلک و مشرب کو ٹھیک طرح سے ہضم کیا ہے اور نہ انہوں نے مالکی صاحب کی کتاب ہی کو دقتِ نظر سے پڑھا ہے۔

دوم:… کتاب پر بہت سے بزرگوں کی تقریظیں ثبت ہیں، جن کو ایک نظر دیکھنے کے بعد قاری مرعوب ہوجاتا ہے، ان بزرگوں کی تقریظ و تصدیق کے بعد مجھ ایسے کم سواد کے لئے بظاہر اختلاف کی گنجائش نہیں رہتی، لیکن اس ناکارہ کے خیال میں جن بزرگوں نے اس کتاب پر تقریظیں ثبت فرمائی ہیں، انہوں نے حرفاً حرفاً اس کتاب کا مسودہ پڑھنے اور جناب مصنف کے مقاصد تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش نہیں فرمائی، یا تو ان بزرگوں نے کتاب کا مسودہ دیکھنے کی ضرورت نہیں سمجھی، یا ان کو غور و تأمل کا موقع نہیں ملا، محض جناب مصنف کی عقیدت و احترام میں یا بعض کسی لائقِ احترام بزرگ کی تقریظ دیکھ کر انہوں نے بھی کتاب پر صاد کردیا، ایسی تقریظیں لائقِ اعتنا نہیں۔

آج کل محض مصنف کے ساتھ حسنِ ظن کی بنیاد پر تقریظیں لکھنے کا عام رواج ہے، اور اس ناکارہ کے نزدیک یہ رَوِش لائقِ اِصلاح ہے، اور یہ رواج لائقِ ترک ہے۔ خود اس ناکارہ کو ذاتی طور پر اس کے ناخوشگوار نتائج کا تجربہ ہوا ہے، اس ناکارہ کا ذوق خود اپنی کتابوں کے بارے میں یہ رہا ہے کہ اپنی کسی کتاب پر اپنے بزرگوں کو بطورِ “تبرک” چند کلمات لکھنے کی کبھی زحمت نہیں دی، نہ اس کی فرمائش کی، کیونکہ ہمیشہ یہ خیال رہا کہ ان اکابر کے بے حد قیمتی اوقات میں اتنی گنجائش کہاں؟ کہ مجھ ایسے نابکار کی ژولیدہ تحریر پڑھیں اور اپنے قیمتی اوقات کا خون کریں۔ لامحالہ بغیر پڑھے ہی “کلماتِ تبرک” تحریر فرمائیں گے، اور نتیجہ یہ ہوگا کہ اس نادان کی غلطیاں میرے بزرگوں کے سر آن پڑیں گی۔ چنانچہ اس ناکارہ کا رسالہ “اِختلافِ اُمت اور صراطِ مستقیم” جو تمام اکابر نے پسند فرمایا، اور ہند و پاک کے بہت سے ناشرین نے ہزاروں کی تعداد میں اسے شائع کیا، مگر اس ناکارہ نے کسی بزرگ سے تقریظ نہیں لکھوائی، سنا ہے کہ ہمارے شیخ برکة العصر نور اللہ مرقدہ کی مجلس میں بھی یہ پورا رسالہ حرفاً حرفاً پڑھا گیا، اور حضرت نور اللہ مرقدہ کے سامعہ مبارک سے گزرا، لیکن اس ناکارہ کے دل میں کبھی اس کی ہوس پیدا نہیں ہوئی کہ کسی بزرگ سے اس پر تقریظ لکھوائی جائے، اور اپنے کھوٹے سکوں کو بزرگوں کی تقریظات کی مہر سے چالو کیا جائے (اس ناکارہ کی دو کتابوں پر میرے حضرت بنوری نے مقدمہ تحریر فرمایا تھا، مگر میری خواہش اور فرمائش کے علی الرغم، اس کی تفصیل کا موقع نہیں)۔

الغرض کتاب پڑھے بغیر اس پر تقریظیں لکھوانے اور لکھنے کا رواج اس ناکارہ کے خیال میں صحیح نہیں، یہ رَوِش لائقِ اِصلاح ہے، اس ناکارہ کا خیال ہے کہ جناب علوی مالکی صاحب کی کتاب “مفاھیم یجب أن تصحح” (عربی) پر تقریظات کا جو انبار نظر آرہا ہے، یہ جناب مصنف کے احترام میں بغیر کتاب پڑے لکھی گئی ہیں، یا کسی لائقِ احترام شخصیت کو دیکھ کر ان کی تقلید میں صاد کردیا گیا ہے، اس لئے اگر یہ ناکارہ اس کتاب کے بارے میں ایسی رائے کا اظہار کر رہا ہے جو تقریظ لکھنے والے بزرگوں کی توثیق و تصدیق کے خلاف ہو تو اس کو ان بزرگوں کے حق میں سوٴ ادب کا ارتکاب نہ سمجھا جائے، اور نہ ان اکابر کے علم و فضل کے منافی قرار دیا جائے، کیونکہ بزرگوں ہی کا ارشاد ہے کہ:

گاہ باشد کہ کودک ناداں

بہ غلط بر ہدف زند تیرے

سوم:… اُوپر عرض کرچکا ہوں کہ جناب مصنف کا اصل مدعا سلفی حضرات کے تشدد کی اِصلاح ہے، جو زیرِ بحث مسائل میں ان کے یہاں پایا جاتا ہے، اور جس میں وہ کسی نرمی اور لچک کے روادار نہیں، جناب مصنف ان کو اپنی اس شدت میں فی الجملہ معذور بھی سمجھتے ہیں، چنانچہ لکھتے ہیں:

“ان کو ہم اپنے حسنِ ظن کی بنا پر معذور سمجھیں گے، اور کہیں گے کہ نیت تو ان کی صحیح ہے، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی ذمہ داری سمجھتے ہوئے اس طرح ان لوگوں نے کیا ہے، لیکن ہم کہیں گے کہ ان حضرات سے ایک بات رہ گئی کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر میں حکمت و مصلحت اور عمدہ طریقہ اختیار کرنا چاہئے۔” (اِصلاحِ مفاہیم ص:۴۹)

یہ دو اُصول جو جناب مصنف نے کتاب کے آغاز ہی میں قلم بند کئے ہیں، بڑے ہی قیمتی اور زرّیں اُصول ہیں، بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ داعیانہ اسلوب کی رُوحِ رواں ہیں۔ ایک یہ کہ اپنے مخالفین، ناقدین بلکہ مکفّرین تک کے بارے میں بھی یہ حسنِ ظن رکھا جائے کہ ان کی تنقید کا منشا اگر اخلاص ہے، اور وہ واقعتا رضائے الٰہی کے لئے ایسا کر رہے ہیں، تو نہ صرف یہ کہ وہ معذور ہیں، بلکہ اِن شاء اللہ مأجور بھی۔

دوم یہ کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر جیسے بلند پایہ کام میں بھی حکمت و مصلحت کے مطابق احسن سے احسن طریق اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔

مجھے یہ توقع تھی کہ جناب مصنف نے جس داعیانہ اسلوب کی نشاندہی فرمائی ہے، وہ خود بھی اس کی پابندی فرمائیں گے اور ان کی یہ کتاب اسلوبِ دعوت کا شاندار مرقع ہوگی، اور وہ متنازع فیہ مسائل کو قلم بند کرتے ہوئے ایسا عمدہ طریق اپنائیں گے کہ ان کی بات بڑی خوشگواری سے ان کے قاری کے گلے سے اُتر جائے۔ بلاشبہ فطری طور پر ہماری یہ خواہش ہوگی کہ جس بات کو ہم حق اور صحیح سمجھتے ہیں، دُوسرے لوگ بھی اس کی حقانیت کے قائل ہوجائیں، لیکن ہم اپنی بات احسن طریق سے مخاطب کو سمجھانے کے مکلف ہیں، اس کو منوانے کے ہم مکلف نہیں، ہم نے بڑی خوش اسلوبی سے اپنی بات مخاطب کے سامنے پیش کردی، ہم اپنے فریضہ سے سبکدوش ہوگئے، آگے اسے مخاطب مانتا ہے یا نہیں؟ یہ اس کی ذمہ داری ہے، اور اس کی صوابدید ہے۔

مجھے افسوس ہے کہ جناب مصنف، جن حضرات کو حسنِ ظن کی بنا پر معذور سمجھتے ہیں، انہی سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے داعیانہ اور مصلحانہ اندازِ تخاطب اختیار نہیں فرمایا، بلکہ مناظرانہ و مجادلانہ انداز اختیار کیا ہے۔ اور اگر یہ بات یہیں تک محدود رہتی تب بھی فی الجملہ اسے گوارا کیا جاسکتا تھا، مگر افسوس ہے کہ جناب مصنف نے اپنی تحریر میں ترشی بلکہ تلخی کا عنصر اس قدر تیز کردیا ہے کہ یہ توقع از بس مشکل ہے کہ ان کی بات ان کے مخاطب کے گلے سے بہ آسانی اُتر جائے گی، مصنف نے شاید ہی کوئی نکتہ ایسا اُٹھایا ہو جس میں انہوں نے اپنے مخالفوں کو جاہل، غبی، کم عقل، کم فہم، تنگ نظر، بدفہم جیسے “خطابات” سے نہ نوازا ہو۔

مثلاً: “خالق و مخلوق کا مقام” کے زیرِ عنوان یہ ذکر کرتے ہوئے کہ حق تعالیٰ شانہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت سی خصوصیات عطا فرمائی ہیں، جن کی بنا پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دُوسرے افرادِ بشر سے ممتاز ہیں، مصنف لکھتے ہیں:

“یہ اُمور بہت لوگوں پر، ان کی کم عقلی، کم فہمی، تنگ نظری اور بدفہمی کی وجہ سے مشتبہ ہوگئے، تو انہوں نے جلدی سے ان اُمور کے قائلین پر فکر اور ملتِ اسلامیہ سے خروج کا حکم لگادیا۔” (اِصلاحِ مفاہیم ص:۵۷)

ایک جگہ مخالفین کے موقف کا ذکر کرتے ہوئے مصنف لکھتے ہیں:

“یہ واضح جہالت ہے۔” (اِصلاحِ مفاہیم ص:۶۵)

مترجم کا یہ ترجمہ اصل عربی متن کے مطابق نہیں، اصل متن کے الفاظ یہ ہیں: “وھذا جھل محض” (اور یہ “محض جہالت ہے” یا “خالص جہالت ہے”)۔

ایک اور جگہ لکھتے ہیں:

“حالانکہ حقیقت میں یہ جہالت و تعنت ہے۔”

(مفاہیم عربی ص:۹۲)

الغرض! کتاب میں مسلسل یہی انداز چلا گیا ہے، اور جناب مصنف نے اپنے موقف سے اختلاف رکھنے والوں کے بارے میں اس قسم کے الفاظ استعمال کرنے میں کسی تکلف سے کام نہیں لیا ہے، ظاہر ہے کہ اگر جناب مصنف کے پیشِ نظر واقعی اس طبقہ کی اِصلاح ہے تو ان کی اِصلاح اس اندازِ گفتگو سے مشکل ہے، بقول غالب:

نکالا چاہتا ہے کام طعنوں سے تو اے غالب!

ترے بے مہر کہنے پر بھلا وہ مہرباں کیوں ہو؟

اس ناکارہ کا خیال ہے کہ سعودیہ کے جن متشدد حضرات کی اِصلاح کے لئے جناب مصنف نے خامہ فرسائی کی ہے، وہ اس کتاب کے مطالعہ سے اِصلاح پذیر نہیں ہوں گے بلکہ ان متوحش الفاظ و خطابات کو پڑھ کر ان کے موقف میں مزید شدت پیدا ہوجائے گی، اس کتاب کے خلاف جوابی کتب و رسائل کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوجائے گا، ادھر کچھ عرب حضرات مصنف کی تائید و حمایت میں کھڑے ہوجائیں گے، اور قلمی جہاد کریں گے، یوں یہ کتاب متعلقہ حلقہ کی اِصلاح کے بجائے ایک نئے معرکہٴ کارزار کی راہ ہموار کرے گی۔

یہ تو سعودی ماحول میں اس کتاب کے آثار و نتائج ظاہر ہوں گے، جہاں تک ہمارے ہند و پاک کے ماحول کا تعلق ہے! میں اُوپر ذکر کرچکا ہوں کہ ان متنازع فیہ مسائل میں یہاں تین فریق پہلے سے موجود ہیں، ایک گروہ انہی سلفی حضرات کا ہے جن کا تذکرہ اُوپر آچکا ہے، ان پر تو وہی اثرات ہوں گے جو ابھی ذکر کرچکا ہوں، دُوسرا گروہ ہمارے اکابرِ دیوبند کا ہے، میں بتاچکا ہوں کہ یہ کتاب ہمارے اکابر کے ذوق و مشرب کے ساتھ کوئی میل نہیں کھاتی، دیوبندی حلقہ میں یہ کتاب افتراق و انتشار کو جنم دے گی، کچھ حضرات اس کتاب کی تائید و حمایت میں اکابرِ دیوبند کے مسلک کو اس کتاب کے مطابق ڈھالنے کی سعی فرمائیں گے، اور کچھ حضرات اس سے براء ت کا اعلان و اظہار فرمائیں گے۔ یوں اہلِ حق کے طبقہ میں ایک نئے انتشار و خلفشار کا دروازہ کھلے گا۔ البتہ تیسرا گروہ بریلوی حضرات کا ہے، وہ اپنے موقف کی تائید و حمایت اور ہمارے اکابر کی تجہیل و تحمیق کے لئے اس کتاب کے خوب حوالے دیں گے، اور کتاب پر ثبت شدہ بھاری بھرکم تقریظات کے ذریعہ ان کو دیوبندی حلقہ پر الزام قائم کرنے میں اچھی خاصی آسانی ہوجائے گی۔ کاش! کہ طباعت سے پہلے اس سلسلہ میں مشورہ کرلیا جاتا تو اس ناکارہ کی رائے میں اس کی اشاعت آپ کی جانب سے نہ ہوتی۔

چہارم:… جس طرح ہر شیخ کی “نسبت” اپنا ایک خاص رنگ رکھتی ہے، جو اس شیخ کے حلقہ کے اکثر منتسبین پر نمایاں ہوتی ہے، مثلاً: رائے پوری حضرات کی نسبت کا رنگ ان کے حلقہ پر اس قدر نمایاں ہے کہ آدمی دور ہی سے دیکھ کر پہچان جاتا ہے کہ یہ حضرات رائے پوری سلسلہ سے منسلک ہیں۔ اسی طرح حکیم الامت تھانوی قدس سرہ کے حلقہ پر حضرت کی نسبت کا رنگ اتنا نمایاں ہے کہ ایک صاحبِ بصیرت آسانی سے پہچان لیتا ہے کہ ان حضرات پر حضرت حکیم الامت کا رنگ غالب ہے، وعلیٰ ہذا۔ الغرض! جس طرح ہر شیخ کی نسبت کا ایک رنگ ہوتا ہے، اسی طرح ہر مصنف کا بھی ایک خاص رنگ ہوتا ہے، جو اس کے حلقہٴ عقیدت پر غالب اور نمایاں ہوتا ہے۔ مودودی صاحب کی تحریر کا ایک خاص رنگ ہے، ڈاکٹر اسرار صاحب کی تحریر کا ایک خاص رنگ ہے، وغیرہ، وغیرہ۔

جناب علوی مالکی صاحب نے بھی زیرِ گفتگو کتاب “مفاہیم” میں اپنا ایک خاص رنگ بھرا ہے، جس کی طرف اُوپر اشارہ کرچکا ہوں، یعنی اپنے موقف سے اختلاف رکھنے والوں کو کم عقل، کم فہم، تنگ نظر، جاہل، بدفہم اور متعنت سمجھنا، اب جو حضرات جناب مالکی صاحب سے عقیدت و ارادت رکھتے ہوں گے وہ اسی رنگ کو اپنائیں گے، اور یہی رنگ ان پر غالب ہوجائے گا، اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ جناب مصنف سے فرطِ عقیدت کی بنا پر ان سے ذرا سا اختلاف کرنے کو بھی تنگ نظری، جہالت و بدفہمی پر محمول کریں گے، یا اس اختلاف کا منشا ضد و عناد اور تعنت و ہٹ دھرمی کو قرار دیں گے۔ ظاہر ہے کہ جن حضرات پر یہ رنگ غالب ہو وہ دُوسرے کی بات کو نہ تو صبر و تحمل سے سنیں گے، نہ مسئلے کے دلائل پر غور کریں گے، نہ ان کے لئے ہمارے اکابر کا حوالہ مفید ہوگا، کیونکہ جب ان حضرات کے دل میں بطورِ عقیدت یہ بات جم گئی ہے کہ جناب محمد علوی مالکی صاحب ہی عاقل و فہیم ہیں، وہی عالم و خوش فہم ہیں، اور وہی منصف و وسیع النظر ہیں، تو ان کے مقابلہ میں دوسروں کی بات کیا وقعت رکھے گی؟

یہ ایک ایسی صورتِ حال ہے جس کے تصور ہی سے یہ ناکارہ پریشان ہے کہ جناب علوی صاحب کے عقیدت مندوں سے افہام و تفہیم کی کیا صورت کی جائے؟ اور ان کے دل پر کس طرح دستک دی جائے؟ والله المستعان ولا حول ولا قوة الا بالله! اور اس پریشانی میں اس وقت دوچند اضافہ ہوجاتا ہے جب دیکھتا ہوں کہ ہمارے شیخ نور اللہ مرقدہ کے حلقہ ہی کے حضرات، جناب مالکی صاحب کے دامِ عقیدت و محبت کے اَسیر ہیں، اور اپنے اکابر کے مسلک و مشرب کو علوی صاحب کے نظریات پر ڈھال رہے ہیں، فالی الله المشتکی! کاش! اللہ تعالیٰ ہمیں تواضع اور فنائیت جو ہمارے شیخ نور اللہ مرقدہ کا خصوصی رنگ تھا، اس کا کوئی شمہ بھی نصیب فرمادے، تو آپس کے تشتت و انتشار کے منحوس سائے سے ہم محفوظ رہیں۔

پنجم:… اس ناکارہ نے یہاں تک جو کچھ لکھا وہ یہ سمجھ کر لکھا کہ جناب شیخ محمد علوی مالکی صاحب خوش عقیدہ عالم ہیں، اور ان کے پیشِ نظر صرف متشدد حضرات کی اِصلاح ہے، لیکن “حق چار یار” میں حضرت مولانا قاضی مظہر حسین مدظلہ العالی نے بریلوی مکتب کے رسالہ ماہنامہ “جہانِ رضا، لاہور” کے حوالہ سے یہ عجیب و غریب انکشاف کیا ہے کہ جناب مصنف محمد علوی مالکی دراصل بریلوی عقیدہ کے حامل اور فاضل بریلوی جناب مولانا احمد رضا خان مرحوم کے بیک واسطہ خلیفہ ہیں، اور جناب علوی صاحب کی فاضل بریلوی سے عقیدت کا یہ عالم ہے کہ علوی صاحب ان کے بارے میں فرماتے ہیں:

“نحن نعرف تصنیفاتہ وتألیفاتہ فحبہ علامة السنة، وبغضہ علامة البدعة۔”

ترجمہ:…”ہم امام احمد رضا کو ان کی تصانیف اور تألیفات کے ذریعہ جانتے ہیں، پس ان سے محبت رکھنا سنت کی علامت، اور ان سے عناد، بدعت کی نشانی ہے۔”

(اس تحریر کے بعد حضرت مولانا قاضی مظہر حسین مدظلہ العالی کے پورے مضمون کا فوٹو ماہنامہ “حق چار یار” سے نقل کیا جارہا ہے۔)

حضرت قاضی صاحب مدظلہ العالی کے اس انکشاف کے بعد غور و فکر کا زاویہ یکسر بدل جاتا ہے، اور صاف نظر آنے لگتا ہے کہ:

۱:… “اِصلاحِ مفاہیم” دراصل بریلوی مکتبِ فکر کے ایک فاضل اور جناب مولانا احمد رضا خان بریلوی مرحوم کے ایک غالی عقیدت مند کی تالیف ہے، جو بریلوی عقائد و نظریات کی نشر و اشاعت کے لئے مرتب کی گئی ہے۔

۲:… اس کتاب کا مدعا صرف سلفیوں کے تشدد کی اِصلاح نہیں (جیسا کہ میں نے بطورِ حسنِ ظن اس کا اُوپر اظہار کیا تھا) بلکہ اس کا اصل ہدف دیوبندی حضرات کے مقابلہ میں بریلوی حضرات کے نقطہ نظر کی بھرپور حمایت و تائید ہے۔

۳:… جاہل، غبی، کم فہم، بدفہم اور متعنت وغیرہ الفاظ کی تکرار سے مقصود دراصل اکابرِ دیوبند (حضرت قطب العالم مولانا رشید احمد گنگوہی سے ہمارے شیخ برکة العصر مولانا محمد زکریا مہاجر مدنی تک تمام اکابر، نور اللہ مراقدہم) کی تجہیل و تحمیق ہے۔

۴:… جناب مصنف نے دیوبندی حضرات کی تقریظوں کا جو انبار لگایا ہے اس کی اصل غرض بھی ظاہر ہوتی ہے کہ تقریظات کا یہ اہتمام دراصل اکابرِ دیوبند کے خلاف خود دیوبندی حضرات سے “اجتماعی فتویٰ” لینا ہے، تاکہ یہ تمام تقریظ کنندگان بھی اپنے اسلاف کو جاہل و نادان قرار دینے میں متفق ہوجائیں۔

۵:… بریلوی حضرات کے خیالات سعودی مشائخ کے بارے میں سب کو معلوم ہیں، لیکن جناب مصنف علوی مالکی نے از راہ احتیاط شیخ الاسلام حافظ ابن تیمیہ اور شیخ محمد بن عبدالوہاب نجدی کا نام بڑے احترام سے لیا ہے، اور جگہ جگہ ان کے حوالوں سے اپنی کتاب کو مرصع و مزین کیا ہے۔

ایک ایسا شخص جو مولانا احمد رضا خان بریلوی کی محبت کو سنی ہونے کی اور ان کی مخالفت کو بدعتی ہونے کی علامت قرار دیتا ہو، اس سے ان سعودی اکابر کی مدح و تحسین کچھ عجیب سی بات معلوم ہوتی ہے، لیکن یہ شاید ان کی مجبوری ہے کہ اس کے بغیر سعودی ماحول میں اس کتاب کا شائع ہونا مشکل تھا۔

۶:… میرے محترم بزرگ جناب صوفی اقبال صاحب زید مجدہ اور ان کے رفقا جو جناب مصنف علوی مالکی صاحب کی کتاب کے بے حد مداح ہیں، اور اس کی نشر و اشاعت میں سعیٴ بلیغ فرما رہے ہیں، ان کو بھی اس ناکارہ کی طرح جناب مصنف سے حسنِ ظن رہا ہوگا، اور یہ خیال ہوا ہوگا کہ یہ بزرگ (جو بہت سی نسبتوں کے جامع ہیں) سلفی تشدد کے مقابلہ میں “جہادِ کبیر” فرما رہے ہیں، اس لئے حتی الامکان ان کی اعانت واجب ہے۔ ان حضرات کو جناب مصنف کی حقیقت معلوم نہیں ہوگی، کیونکہ بزرگوں کا ارشاد ہے کہ:

خبث باطن نہ گردد سالہا معلوم!

اگر یہ روایت صحیح ہے کہ جناب صوفی صاحب زید مجدہ جناب علوی مالکی صاحب کے باقاعدہ حلقہ بگوش بن گئے ہیں، تو یہ بھی اسی ناواقفی اور حقیقت تک رسائی نہ ہونے کی وجہ سے ہے۔ مجھے توقع ہے کہ جلد یا بدیر جیسا ان پر اصل حقائق منکشف ہوں گے تو یہ حضرات اپنے موقف پر نظرِ ثانی میں کسی پس و پیش کا اظہار نہیں فرمائیں گے۔

۷:… جب شیخ علوی مالکی صاحب کا بریلوی طبقہ سے منسلک ہونا عالم آشکارا ہوچکا ہے، تو ان کی کتاب کے نکات پر دیوبندی بریلوی اتحاد و مفاہمت کی دعوت دینا دراصل دیوبندیوں کو بریلوی حضرات کے موقف کی حقانیت کے تسلیم کرنے کی دعوت دینا ہے، اور یہ بات بھی کچھ کم اعجوبہ نہیں کہ یہ یک طرفہ دعوت دیوبندی اکابر کے منتسبین کی طرف سے دی جارہی ہے۔ مولانا احمد رضا خان مرحوم کی جماعت کا ایک فرد بھی اس دعوت میں نمایاں نہیں، اس لئے دُوسرے لفظوں میں بلاتکلف یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ دیوبندیوں کو بریلوی بن جانے کی دعوت ہے، اور یہ کہ ہمارے اکابر جو بدعات کے طوفان کے مقابلہ میں اب تک سدِّ سکندری بنے رہے ہیں، اب اس دیوار کو توڑ دیا جائے، اور عوام کو بدعات کی وادیوں میں بھٹکنے کے لئے کھلا چھوڑ دیا جائے، ولا فعل الله ذالک!

یہ اس ناکارہ نے ارتجالاً چند نکات عرض کردئیے ہیں، دل کو لگیں تو قبول فرمائیے، ورنہ “کلائے بد بریش خاوند!” امید ہے مزاجِ سامی بعافیت ہوں گے۔

والسلام!

محمد یوسف عفا اللہ عنہ

تیسرا خط

“جناب حضرت اقدس مولانا محمد یوسف لدھیانوی صاحب مدظلہ، اللہ تعالیٰ آپ کی زندگی مبارک میں برکتیں عطا فرمائے۔

السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ کے بعد عرض ہے کہ میں یہ عریضہ نہایت دکھ کے ساتھ لکھ رہا ہوں کہ ایک عرصہ سے حضرت مولانا عزیزالرحمن صاحب دامت برکاتہم کا مرید ہوں اور حضرت سے محبت بھی ہے۔ ان کے بارے میں دل بالکل صاف ہے، لیکن کتاب “اِصلاحِ مفاہیم” کی تائید کی وجہ سے ایک عالم دین کہتے ہیں کہ: اب ان کا عقیدہ ٹھیک نہیں رہا، لہٰذا تمہاری بیعت درست نہیں، حضرت نے مجھے جو معمولات بتائے ان پر عمل کر رہا ہوں۔ آپ بھی اسی سلسلہ سے تعلق رکھتے ہیں اس لئے عرض ہے کہ مجھے کیا کرنا چاہئے؟ میرے لئے جو راستہ اختیار کرنا چاہئے، ارشاد فرمائیں! کیونکہ آپ کو بھی حضرت اقدس شیخ الحدیث سے دولتِ خلافت نصیب ہوئی ہے، اس لئے بہتر رائے دیں گے، شکریہ!

آپ بزرگوں کا عقیدت مند ایک بندہٴ خدا

نوٹ:… یہ حضرات تبلیغی جماعت کے خلاف بھی ذہن بناتے ہیں، اس سے مجھے سخت تکلیف ہوتی ہے۔”

جواب

محترم و مکرم السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ!

حضرت مولانا عزیزالرحمن مدظلہ کے ساتھ اس ناکارہ روسیاہ کو بھی نیازمندی کا تعلق ہے، وہ میرے خواجہ تاش ہیں، اور اس ناکارہ سے کہیں بہتر و افضل ہیں، تاہم “اِصلاحِ مفاہیم” کے مضامین سے اس ناکارہ کو اتفاق نہیں، اور یہ ہمارے اکابر حضرت قطب العالم گنگوہی نور اللہ مرقدہ سے لے کر ہمارے شیخ برکة العصر قطب العالم قدس سرہ تک کے مذاق و مشرب کے قطعاً خلاف ہے۔ اس ناکارہ نے کتاب کے ناشر مولانا احمد عبدالرحمن صدیقی زیدلطفہ کے اصرار پر اس کتاب کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار ان کے نام ایک خط میں کردیا ہے۔

کتاب کے مصنف جناب علوی مالکی صاحب دراصل بریلوی مکتبِ فکر سے تعلق رکھتے ہیں، سنا ہے کہ ہمارے صوفی محمد اقبال صاحب زید مجدہ ان سے باقاعدہ بیعت ہوگئے، اس لئے ان کی کتاب کی اشاعت کرنے لگے، والله اعلم! یہ روایت کہاں تک صحیح ہے؟ جناب مولانا عزیزالرحمن صاحب زیدہ مجدہ صوفی صاحب سے بہت ہی اخلاص رکھتے ہیں، اس لئے وہ بھی اپنے رفقا کے ساتھ اس کے پُرزور موٴید ہوگئے، اور اس تحریک کا نام “دیوبندی بریلوی اتحاد کی مخلصانہ کوشش” رکھ لیا، حالانکہ ہمارے اکابر کی طرف سے تو کبھی افتراق ہوا ہی نہیں تھا کہ ان کو اتحاد کی دعوت دی جائے، جن حضرات (بریلویوں) کی طرف سے افتراق ہوا تھا ان کو اتحاد کی دعوت و تلقین ہونی چاہئے۔

بہرحال اس ناکارہ کے خیال میں یہ بزرگ جو “اِصلاحِ مفاہیم” کی بنیاد پر “دیوبندی بریلوی اتحاد” کی دعوت لے کر اُٹھے ہیں، یہ بزرگ اپنی اس تحریک میں مخلص ہیں، تاہم ان کا موقف چند وجوہ سے درست نہیں، والعلم عند الله!

اوّل:… یہ کہ حضرت شیخ نور اللہ مرقدہ کی خدمت میں سالہا سال رہنے اور خلافت و اجازت کی خلعت سے سرفراز ہونے کے بعد ان کا کسی علوی مالکی سے رشتہٴ عقیدت و بیعت استوار کرنا چہ معنی؟ کسی کی طرف آنکھ اُٹھاکر بھی نہیں دیکھنا چاہئے تھا، یہ حضرت شیخ نور اللہ مرقدہ سے تعلق و وابستگی سے بے وفائی ہے۔

دوم:… ان حضرات نے جناب علوی مالکی صاحب کی حقیقت اور ان کے نظریات کی گہرائی کو نہیں سمجھا، اور یہ کہ ان صاحب کی شخصیت کی تکوین کن کے ہاتھ سے ہوئی؟ اگر ان حضرات کو علم ہوتا کہ یہ حضرت دراصل جناب مولانا احمد رضا خان کے خانوادہ کے ساختہ پرداختہ ہیں، تو مجھے یقین ہے کہ یہ حضرات ان صاحب کے حلقہٴ عقیدت میں شامل نہ ہوتے، اور ان کے نظریات کی ترویج و تشہیر میں اپنی صلاحیتیں صرف نہ فرماتے۔

سوم:… “اِصلاحِ مفاہیم” کے ذریعہ ان حضرات نے دیوبندی حلقہ کی اصلاح کا بیڑا اُٹھایا ہے، جس کا مطلب یہ ہوا کہ دونوں فریقوں کے درمیان اختلاف و نزاع کا جو میدانِ کارزار پون صدی سے گرم رہا ہے، اس میں غلطی اکابرِ دیوبند ہی کی تھی، اب یہ حضرات چاہتے ہیں کہ دیوبندیوں کو ان کی غلطی کا احساس دلاکر اس غلطی کی اصلاح پر آمادہ کیا جائے۔ دُوسری طرف بریلوی حضرات کی اصلاح کی کوشش نام کو بھی نہیں، گویا سارا قصور اکابرِ دیوبند کا تھا، اہلِ بدعت اپنے طرزِ عمل میں سراسر معصوم اور حق بجانب ہیں، چنانچہ بریلوی حضرات اس کو اپنی فتح قرار دے رہے ہیں، اور رسائل میں اس کا برملا اظہار کرنے لگے ہیں، غور کیا جاسکتا ہے کہ اصلاح کی یہ یک طرفہ ٹریفک -خواہ وہ کتنے ہی جذبہٴ اخلاص پر مبنی ہو- کہاں تک مبنی برحق اور مثمرِ خیر ہوسکتی ہے؟

چہارم:… اصاغر کا کام اکابر کی اتباع و تقلید اور ان کے نقشِ قدم پر چلنا ہے، نہ کہ ان کی اصلاح! یہ ناکارہ اپنے اکابر کا کمترین نام لیوا ہے، اور اپنے اکابر کو اربابِ قوتِ قدسیہ سمجھتا ہے۔ دُوسرے لوگ برسوں کی جھک مارنے کے بعد جس نتیجہ پر پہنچیں گے، میرے یہ اکابر اپنی فراست اور قوتِ قدسیہ کی برکت سے پہلے دن اس نتیجہ پر پہنچ چکے تھے، لیکن “اِصلاحِ مفاہیم” کی تحریک کی رُوح یہ ہے کہ ہمارے اکابر نے غلطی کی تھی، اب ان کے اصاغر کو چاہئے کہ اپنے بڑوں کی غلطی کی اصلاح کریں، انا لله وانا الیہ راجعون!

پنجم:… ان حضرات نے یہ تو دیکھا کہ اگر دیوبندی، ردِّ بدعات میں ذرا ڈھیلے ہوجائیں تو دونوں گروہوں کے درمیان اتفاق و اتحاد کا خوشنما شیش محل تیار ہوسکتا ہے، مگر ان حضرات کی نظر اس طرف نہیں گئی کہ پھر تجدیدِ دین اور ردِّ بدعات کا فرض کون انجام دے گا؟ اور سنت کے اسلحہ سے لیس ہوکر حریمِ دین کی پاسبانی کون کرے گا؟ پھر تو عرس، قوالی اور اس قسم کی چیزیں ہی دین کے بازار میں رہ جائیں گی، ولا فعل الله ذالک!

ششم:… علوی مالکی نسبت ہی کا اثر ہے کہ یہ حضرات جلی یا خفی انداز سے تبلیغ کی مخالفت کرتے ہیں، اور لوگوں کو اس “بیماری” سے بچانے کے لئے فکرمند رہتے ہیں، حالانکہ ان کو معلوم ہے کہ ہمارے شیخ نور اللہ مرقدہ تبلیغ کے ستونِ اعظم تھے، اور اہلِ تبلیغ حضرت شیخ نور اللہ مرقدہ کی کتابوں اور آپ کی تعلیمات کو حرزِ جان بنائے ہوئے نقل و حرکت کر رہے ہیں، اگر علوی مالکی صاحب کی نسبت کے بجائے حضرت شیخ نور اللہ مرقدہ کی نسبت کا رنگ غالب رہتا تو ان حضرات سے بڑھ کر تبلیغ کا کوئی موٴید نہ ہوتا۔

بہرحال یہ ناکارہ سمجھتا ہے کہ یہ حضرات اپنی جگہ مخلص ہیں، لیکن اس تحریک میں ان کی نظر سے کئی چیزیں اُوجھل ہوگئی ہیں، اور میں اب بھی توقع رکھتا ہوں کہ جلد یا بدیر ان کو اپنی غلطی کا احساس ہوجائے گا۔

آپ کے لئے اس روسیاہ کا مشورہ یہ ہے کہ آپ، حضرت مولانا عزیزالرحمن صاحب کی بیعت میں بدستور شامل رہیں، اور ان کے بتائے ہوئے معمولات کو پوری پابندی سے بجالائیں، لیکن علوی مالکی نسبت کا رنگ قبول نہ کریں، بلکہ اپنے اکابر کے ذوق و مشرب پر رہیں، اگر مولانا موصوف آپ کو خود ہی اپنی بیعت سے خارج کردیں تو کسی دُوسرے بزرگ سے تعلق وابستہ کرلیں، اس کے بعد بھی مولانا موصوف کے حق میں ادنیٰ سے ادنیٰ بے ادبی کا ارتکاب نہ کریں۔

بلاقصد جواب طویل ہوگیا، سمع خراشی پر معذرت چاہتا ہوں، اور کوئی لفظ آپ کے لئے یا آپ کے شیخ کے لئے ناگوار ہو تو اس پر بلاتکلف معافی کا خواستگار ہوں۔ والسلام!

محمد یوسف عفا اللہ عنہ

۲۵/۱۲/۱۴۱۵ھ

ضمیمہ جات

۱:… قاضی مظہر حسین مدظلہ کے انکشافات

ماہنامہ “حق چار یار” کا عکس

“مکی مالکی کٹر بریلوی ہیں”:

مولانا محمد بن علوی مالکی موصوف کی تصانیف “حول الاحتفال بالمولد النبوی الشریف” اور زیرِ بحث کتاب “اِصلاحِ مفاہیم” کے مطالعے سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ موصوف بریلوی مسلک کے عالم ہیں، یہی وجہ ہے کہ حول الاحتفال کا ترجمہ بھی “میلادِ مصطفی” کے نام سے ایک بریلوی عالم نے لکھا ہے اور اس کتاب کی اشاعت بھی بریلوی مسلک والوں نے کی ہے۔ اسی طرح ان کی بعض دُوسری تصانیف کا ترجمہ بھی بریلوی علماء نے کیا ہے۔

۲:…لیکن بریلوی مسلک کے ماہنامہ “جہانِ رضا” فروری ۱۹۹۲ء کے مطالعہ سے تو اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش باقی نہیں رہتی کہ آپ کٹر بریلوی عالم ہیں، چنانچہ اس شمارہ کے ص:۲۶ پر حسبِ ذیل عنوان سے مولانا مکی مالکی کے حالات بیان کئے گئے ہیں:

“خانوادہٴ بریلی کا ایک عرب مفکر”

فضیلة الشیخ پروفیسر ڈاکٹر محمد علوی الحسنی المالکی مدظلہ

از جناب مفتی محمد خان صاحب قادری مدظلہ العالی

آپ کا اسمِ گرامی محمد، والد کا نام علوی اور دادا کا نام عباس ہے، آپ کا تعلق خاندانِ سادات سے ہے، سلسلہٴ نسب ۲۷ واسطوں سے رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچتا ہے۔ مسلکاً مالکی اور مشرباً قادری ہیں، کیونکہ آپ کے دادا اور والد گرامی دونوں شہزادہ اعلیٰ حضرت اعظم ہند شاہ مصطفی رضا خان رحمة اللہ علیہ کے خلفا تھے، اور آپ خلیفہ اعلیٰ حضرت خطیبِ مدینہ مولانا ضیاء الدین مدنی قادری رحمة اللہ علیہ کے خلیفہ ہیں۔ آپ مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے ہیں، وہیں پرورش پائی، مسجد حرام مدرسة الفلاح اور مدرسہ تحفیظ القرآن الکریم سے آپ نے تعلیم حاصل کی۔ آپ نہایت قدآور شخصیت کے مالک ہیں۔

مولانا ضیاء الدین قادری سے تعلق:

خود مولانا مالکی ایک مقام پر لکھتے ہیں کہ جن لوگوں سے میں نے سندِ حدیث حاصل کی ہے، ان میں سے ایک معمر ترین بزرگ جن کی عمر سو سال سے زائد ہے، مولانا ضیاء الدین قادری ہیں، ان کی سند نہایت اعلیٰ و افضل ہے، انہوں نے جن بزرگوں سے روایت کی ہے ان میں سے ہندوستان کی مشہور شخصیت مولانا احمد رضا خان صاحب بریلوی قدس سرہ ہے، جو شیخ زینی دحلان مفتی مکہ کے ہم عصر ہوئے ہیں۔ اس موضوع پر آپ کی کتاب “الطالع السعید” کا مطالعہ نہایت مفید ہے۔ (ص:۲۷)

یہ مولانا ضیاء الدین صاحب قادری جو مولانا احمد رضا خان کے شاگرد و مرید ہیں، وہی ہیں جن کے مکی مالکی صاحب خلیفہ ہیں۔

فنِ حدیث میں ڈاکٹریٹ:

آپ نے جامعہ ازہر مصر میں فنِ حدیث اور اُصولِ حدیث کے موضوع پر ڈاکٹریٹ کی۔ (ایضاً ص:۲۷)

آپ نے مختلف تعلیمی، تدریسی، تربیتی اور انتظامی ذمہ داریاں سنبھالنے کے ساتھ ساتھ تیس سے زائد کتب تصنیف کی ہیں، جو عالم اسلام کے لئے رہتی دُنیا تک رہنمائی کا کام دیں گی۔ (ایضاً ص:۳۰)

نمبر:۹… حول الاحتفال بالمولد النبوی الشریف، جشن میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے موضوع پر لاجواب کتاب ہے۔ (ایضاً ص:۳۲)

نمبر:۲۲… مفاہیم یجب ان تصحح الذخائر المحمدیہ، پر لوگوں نے جو اعتراض وارد کرکے غلط فہمیاں پیدا کرنے کی کوشش کی، ان کا جواب اس کتاب میں دیا گیا ہے۔ (ایضاً ص:۳۵)

بارگاہِ رضویت سے عقیدت: علامہ سید محمد علوی مالکی مکی اپنے علم و فضل کو نورانیت دینے کے لئے بارگاہِ رضویت سے اپنا حصہ لیتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ آپ اسلاف کرام کی شان میں انگشت نمائی اور زبان درازی کرنے والوں سے سخت نفرت رکھتے ہیں اور انہیں ان کی غلط حرکتوں سے باز رکھنے کی کوشش بھی فرماتے ہیں۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا فاضل بریلوی قدس سرہ کے علم و فضل کے بڑے مدعا ہیں۔

بیعت غالباً اپنے والد بزرگوار سے ہیں، حضور مفتی اعظم علامہ مولانا مصطفی رضا نوری بریلوی قدس سرہ تیسری بار جب حج و زیارت کے لئے تشریف لے گئے وہاں بہت سے علماء و مشائخ کو خلافت اجازت سے نوازا وہیں علامہ سید محمد علوی مالکی کو بھی تمام سلاسل کی اجازت عطا فرمائی۔ (ایضاً ص:۴۱)

نوٹ: یہ مولانا غلام مصطفی رضا بریلوی، لڑکے ہیں مولانا احمد رضاخان صاحب بریلوی کے۔

امام احمد رضا فاضل بریلوی سے عقیدت: مولانا غلام مصطفی مدرس شرف العلوم (ڈھاکہ) حج و زیارت کے لئے تشریف لے گئے تو وہاں حضرت مولانا مفتی سعداللہ مکی سے ملاقات کی، مفتی سعداللہ مکی کے ایما پر ان کا وفد علامہ سید محمد علوی مالکی سے ملاقات کے لئے گیا، دورانِ ملاقات مولانا غلام مصطفی نے کہا ہم اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضا خاں فاضل بریلوی رحمة اللہ علیہ کے شاگردوں کے شاگرد ہیں، اتنا سنتے ہی علامہ مالکی سروقد اُٹھ کھڑے ہوئے اور فرداً فرداً سبھی لوگوں سے مصافحہ اور معانقہ فرمایا اور بے حد تعظیم کی، شربت پلایا گیا، قہوہ پیش کیا گیا، انہوں نے اپنی پوری توجہ مولانا غلام مصطفی اور ان کے ہمراہیوں کی جانب فرمادی اور ایک ٹھنڈی آہ بھرکر فرمایا: “سیدی علامہ مولانا احمد رضا خان صاحب فاضل بریلوی کو ہم ان کی تصنیفات اور تعلیقات کے ذریعہ جانتے ہیں، وہ اہلسنّت کے علامہ تھے، ان سے محبت کرنا سنی ہونے کی علامت اور ان سے بغض رکھنا اہل بدعت کی نشانی ہے۔” (ایضاً ص:۴۱)

تبصرہ

مندرجہ بالا حالات و واقعات سے واقف ہونے کے بعد تو یقین کرنا پڑتا ہے کہ مولانا مکی مالکی جو فنا فی البریلویت ہیں، آپ کو مولانا ضیاء الدین صاحب قادری کے علاوہ مولانا احمد رضاخان صاحب کے لڑکے مولانا مصطفی رضاخان صاحب سے بھی اجازت و خلافت حاصل ہے، اور آپ اس حد تک مولانا احمد رضاخان صاحب فاضل بریلوی کے عقیدت مند ہیں کہ ان کو اہلِ حق و اہلِ باطل اور اہلِ سنت و اہلِ بدعت کے لئے معیارِ حق قرار دیتے ہیں، اور غیرمبہم الفاظ میں کہتے ہیں کہ:

“ان سے محبت کرنا سنی ہونے کی علامت ہے اور ان سے بغض رکھنا اہلِ بدعت کی نشانی ہے۔”

۲:…مولانا احمد رضاخان بریلوی کی علمِ غیب کے موضوع پر تصنیف “الدولة المکیة بالمادة الغینیة” (عربی طبع جدید ۱۹۸۷ء) کے افتتاحیہ میں ڈاکٹر محمد مسعود احمد لکھتے ہیں:

“امام احمد رضا کی محبوبیت اور مرجعیت کا جو اس وقت عالم تھا اس کے کچھ آثار اب بھی نظر آتے ہیں۔

آئیے مولانا غلام مصطفی (مدرس مدرسہ عربیہ شرف العلوم راجشاہی بنگلہ دیش) کی زبانی سنئے:

“۱۳۷۲ء میں حج بیت اللہ شریف کے موقع پر چند رفیقوں کے ساتھ مولانا سید محمد علوی (مکہ معظمہ) کے در دولت پر حاضر ہوئے، جب اپنا تعارف ان الفاظ سے کرایا نحن تلامیذ اعلٰی حضرت مولانا احمد رضا خان بریلوی رحمة الله علیہ (غلام مصطفی، سفرنامہ حرمین شریفین، بنگلہ دیش مطبوعہ ۱۹۶۰ء ص:۶۶) تو سید محمد علوی سروقد کھڑے ہوگئے اور ایک ایک سے معانقہ و مصافحہ کیا اور پھر فرمایا:

“نحن نعرف تصنیفاتہ وتألیفاتہ فحبہ علامة السنة وبغضہ علامة البدعة۔”

ہم امام احمد رضاخان کو ان کی تصانیف اور تالیفات کے ذریعہ جانتے ہیں، ان سے محبت سنت کی علامت ہے، اور ان سے عناد بدعت کی نشانی ہے۔” (ایضاً ص:۳۲)

اکابرِ دیوبند، مولانا احمد رضاخان کی نظر میں

یہ حقیقت کسی اہلِ علم سے مخفی نہیں کہ مولانا احمد رضاخان بریلوی نے اپنی کتاب “حسام الحرمین” میں قطب الارشاد حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی، حجة الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی، موٴلف “بذل المجہود” شرح ابی داوٴد و موٴلف “براہینِ قاطعہ” حضرت مولانا خلیل احمد صاحب محدث سہارنپوری، اور حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی، رحمہم اللہ، پر کفر کا فتویٰ لگایا ہے۔ چونکہ اکابر کی عبارتوں میں قطع و برید کرکے تکفیر کی مہم چلائی گئی تھی، اس لئے شیخ العرب والعجم حضرت مولانا سیّد حسین احمد مدنی رحمة اللہ علیہ نے بھی ان کے جواب میں “الشہاب الثاقب” لکھی، حضرت مولانا محمد منظور صاحب نعمانی اور حضرت مولانا مرتضیٰ حسن صاحب چاندپوری رحمة اللہ علیہ وغیرہ علمائے دیوبند نے ان کے ردّ میں کتابیں لکھیں۔ “حسام الحرمین” کے تکفیری فتووں کی بنا پر ہی علمائے حرمین شریفین نے اکابر علمائے دیوبند کو ۲۶ سوالات بھیجے جن کے جوابات حضرت مولانا خلیل احمد صاحب نے لکھے، جن پر اس وقت کے اکابرِ دیوبند اور علمائے حرمین شریفین نے اپنی تصدیقات لکھی ہیں، ہم دیوبندی بریلوی محاذ آرئی نہیں چاہتے اور نہ ہی ہماری یہ بحث بریلوی علماء سے ہے۔

اس وقت ہماری بحث خصوصی طور پر جناب صوفی محمد اقبال صاحب (مقیم مدینہ منورہ)، مولانا عبدالحفیظ صاحب مکی اور مولانا عزیزالرحمن ہزاروی سے ہے، جو حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب مہاجر مدنی رحمة اللہ علیہ کے متوسلین اور خلفاء میں سے ہیں، کیونکہ ان حضرات نے مولانا مکی مالکی کی کتاب مفاہیم کا اُردو ترجمہ “اِصلاحِ مفاہیم” کے نام سے شائع کیا ہے، اور جناب صوفی محمد اقبال صاحب موصوف نے مولانا احمد عبدالرحمن صاحب صدیقی (نوشہرہ) کے نام بعنوان “اُردو ترجمہ شائع کرنے کا مقصد” اس کتاب کی مکمل تائید کی ہے، چنانچہ لکھتے ہیں:

“زیرِ نظر کتاب “المفاہیم” کے اُردو ترجمہ میں فیصلہ ہفت مسئلہ اور المہند والے ہی مسائل کو علمی دلائل کے ساتھ خوب واضح کیا گیا ہے، جس کو عرب و عجم میں فریقین کے جید علمائے کرام نے خوب سراہا ہے۔” (ص:۱۲)

اور مولانا عزیزالرحمن صاحب خطیب جامع مسجد صدیق اکبر، چوہڑ (راولپنڈی) نے بھی اپنی تقریظ میں لکھا ہے:

“ہم نے فضیلة العلامة الجلیل السید محمد بن العلوی المالکی الحسنی المکی دامت برکاتہم کی کتاب “مفاہیم یجب ان تصحح” کا مطالعہ کیا، ہم نے اس کو ماشاء اللہ ایسی تحقیقی کتاب پایا جس میں انہوں نے مختلف انواع کے فوائد کو علماء کے وقار اور حکماء کے انداز کا التزام کرتے ہوئے عمدہ انداز میں جمع کیا ہے۔ فجزاہ الله خیرًا کثیرًا! اور ہم نے دیکھا کہ جو کچھ اس میں ہے وہ مکمل طور پر متقدمین و متأخرین جمہور اہلِ سنت والجماعت کا مذہب ہے ․․․․․․ الخ۔” (ص:۲۱)

حالانکہ انہوں نے جو نظریات عرس، انعقادِ محفلِ میلاد اور روحِ نبوی کا ان مجالسِ مولود میں حاضر ہونے وغیرہ کے پیش کئے ہیں، ان کے ردّ میں اکابر علمائے دیوبند کتابیں شائع کرچکے ہیں، تو کیا مولانا عزیزالرحمن صاحب کے نزدیک یہ اکابر علمائے دیوبند، جمہور اہلِ سنت والجماعت میں شامل نہیں ہیں۔

۲:…مولانا مکی مالکی نے مولانا احمد رضاخان صاحب کی محبت کو اہلِ سنت کی، اور ان کے ساتھ بغض کو اہلِ بدعت کی نشانی قرار دیا ہے، ان کے نزدیک مولانا احمد رضاخان صاحب معیارِ حق ہیں اور مولانا احمد رضا صاحب اکابرِ دیوبند کی تکفیر کرتے ہیں۔

قولِ فیصل

ہم دیوبندی، بریلوی تنازع بڑھانا نہیں چاہتے، لیکن جب کوئی مسئلہ درپیش آئے گا تو اس کو ہم اکابر علمائے دیوبند کی تحقیق کے مطابق حل کریں گے۔ ہم ان حضراتِ اکابر علمائے دیوبند کو، حضرات خاندان ولی اللّٰہی کے بعد مذہباً اہلِ سنت والجماعت کا ترجمان اور وارث تسلیم کرتے ہیں۔ اب آپ حضرات دو کشتیوں میں پاوٴں نہ لٹکائیں، حق واضح ہے، ہم آپ حضرات کو اس وقت تک سابق دیوبندی قرار دیتے رہیں گے جب تک کہ آپ مولانا مکی مالکی موصوف کی کتاب “المفاہیم” اور “حول الاحتفال بالمولد النبوی الشریف” سے صاف طور پر براء ت کا اعلان نہیں کرتے، وما علینا الا البلاغ!

خادمِ اہلِ سنت مظہر حسین غفرلہ

۲۶/شعبان ۱۴۱۵ھ۔”

۲:… فضیلة الشیخ ملک عبدالحفیظ مکی کا خط:

“مخدوم مکرم و محترم حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی، رزقکم الله وایانا محبتہ ورضوانہ، آمین!

السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ، وبعد!

کچھ دنوں قبل لندن پہنچا تھا، وہاں کچھ دوستوں نے رسالہ “بینات” محرم الحرام ۱۴۱۶ھ کا دکھایا، جس میں آں مخدوم کا مضمون بعنوان “کچھ اِصلاحِ مفاہیم کے بارے میں” دیکھا پڑھا، اس کتاب اور اس کے مصنف سے متعلق کافی کچھ معلومات چونکہ اس سیاہ کار کے ذہن میں ہیں، آنجناب کا مضمون چونکہ کئی جگہ ایسا رُخ اختیار کرگیا ہے جو نہیں ہونا چاہئے تھا (اس سیاہ کار کے خیال میں)، اور وجہ اس کی بظاہر صحیح معلومات کی عدم دستیابی ہے۔ اس لئے خیرخواہی کے طور پر یہ سوچا کہ آں مخدوم کی وسیع النظری اور وسعتِ صدری و کریمانہ اخلاق سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے ضرور یہ چیزیں خدمتِ عالی میں عرض کردوں، ویسے یہ سیاہ کار بھی ہمیشہ یہی کوشش کرتا رہا ہے کہ جھگڑوں میں نہ پڑے اور جو آپ نے اس بارے میں فرمایا ہے، آج کل کے حالات کے بارے میں پورا پورا اس کا موٴید ہے۔ مگر یہاں چونکہ مشکل یہ پڑگئی کہ بظاہر یہ معلومات شاید کسی اور ذریعہ سے آں مخدوم تک نہ پہنچ سکتیں اس لئے جلدی میں بے ترتیبی سے ہی سہی چند ملاحظات نمبروار عرض کروں گا۔ آنجناب اپنی عالی حوصلگی و قوی استعداد سے اِن شاء اللہ خود ہی اس کا منشا و مقصد حاصل کرلیں گے۔

۱:… آں مخدوم نے کئی جگہ پہلے دُوسرے اور تیسرے خط میں یہ اظہار فرمایا ہے کہ (جن حضرات نے اس پر تقریظات ثبت فرمائی ہیں، اس ناکارہ کا احساس ہے کہ انہوں نے بے پڑھے موٴلف کے ساتھ حسنِ ظن کی وجہ سے لکھ دی ہیں ․․․․․ الخ) حالانکہ یہ بات واقعہ کے بالکل خلاف ہے، چونکہ حضرت مولانا عاشق الٰہی صاحب مدظلہ العالی کے بارے میں بھی اس سیاہ کار کو یہ اندازہ ہوا تھا کہ ان کو بھی بعض لوگوں نے اس کے خلاف مختلف انداز سے اُبھارا اور یہی تأثر دیا تو انہوں نے حضرت مولانا عزیزالرحمن صاحب مدظلہ کے خلاف باقاعدہ بعض حضرات کو خط لکھا، جس کا اس سیاہ کار کو بہت افسوس ہوا۔ مگر حضرت مولانا عاشق الٰہی صاحب کو اس سیاہ کار نے معذور جانا کہ انہیں صحیح معلومات نہیں تھیں اور لوگوں نے غلط انداز سے بھڑکایا، لہٰذا حضرت کی خدمت میں اس سیاہ کار نے اس بارے میں مفصل عریضہ تحریر کیا، جس کی ایک فوٹو اسٹیٹ اس عریضے کے ساتھ ارسال ہے، آں مخدوم سے گزارش ہے کہ اس عریضے کو ضرور اہتمام سے پڑھ لیں، تاکہ تقریظات کے بارے میں حقیقتِ حال واضح ہوجائے۔

۲:… پہلے خط میں جو آنجناب نے اخیر میں لکھا ہے کہ (اگر کسی نے پڑھا ہے تو اس کو ٹھیک طرح سمجھا نہیں، نہ ہمارے اکابر کے مسلک کو صحیح طور پر ہضم کیا ہے بلکہ اس ناکارہ کو یہاں تک “حسنِ ظن” ہے کہ بہت سے دُوسرے حضرات نے کتاب کے نام کا مفہوم بھی نہیں سمجھا ہوگا ․․․․․ الخ) یہ سب کچھ آں مخدوم نے لکھ دیا -یا للعجب- حالانکہ آپ جانتے ہیں کہ مقرظین میں حضرت مولانا محمد مالک کاندھلوی، حضرت مولانا سید حامد میاں، حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب، حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب، اور حضرت مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر مدظلہم العالی جیسے حضرات ہیں۔ یہ سیاہ کار اس پر کیا تبصرے کرے․․․؟ بہرحال آنجناب جو کہ مجسمہ تواضع ہیں، طبیعتِ مبارکہ کے لحاظ سے ایسے جملے ایسے حضرات کے بارے میں باعثِ حیرت و تعجب ہیں، اس لئے یہ شبہ پڑتا ہے کہ کسی نے آنجناب کو بھی اس بارے میں گرما نہ دیا ہو، ورنہ ایسے کیوں لکھا جاتا؟ واللہ اعلم! لندن میں ایک صاحبِ علم و تحقیق نے آں مخدوم کا مضمون پڑھ کر از خود اس سیاہ کار سے فرمایا مسکراتے ہوئے (ایسا لگتا ہے کہ کسی نے حضرت مولانا لدھیانوی کو بھڑکایا اور ان سے یہ مضمون لکھوایا ہے) واللہ اعلم!

۳:… آں مخدوم نے دُوسرے خط کے دُوسرے صفحہ پر “اکابر کا مسلک و مشرب” کا ذکر بھی فرمایا ہے، اس رسالے کا تازہ ایڈیشن بھی یہ سیاہ کار بھجوارہا ہے، جس میں اس نابکار کا مفصل مقدمہ بھی ہے، اور وہ اسی غرض سے ارسال ہے کہ جیسے حضرت مولانا عاشق الٰہی صاحب کی خدمت میں بھی عرض کیا ہے، اسی طرح آں مخدوم کی خدمت میں بھی عرض ہے کہ اسے بغور و اہتمام سے ملاحظہ فرمایا جائے اور مقدمہ یا اصل رسالہ میں جو اصلاحات آپ تجویز فرماویں گے، اِن شاء اللہ ان پر عمل کیا جائے گا، بشرطیکہ مقصودِ رسالہ کے خلاف نہ ہو۔ یہ بات حضرت مولانا عزیزالرحمن صاحب سے بھی طے ہوچکی ہے، وہ بھی بالکل تیار ہیں کہ جو اصلاح و ردّ و بدل فرماویں گے اِن شاء اللہ کردیا جائے گا، بشرطیکہ رسالہ کا مقصد فوت نہ ہو، اس سے متعلق اصلاحات کے بارے میں چاہے اس سیاہ کار کو مطلع فرمادیا جائے اور چاہے حضرت مولانا عزیزالرحمن صاحب کو راولپنڈی۔

۴:… آں مخدوم نے دُوسرے اور تیسرے خط میں حضرت صوفی محمد اقبال صاحب کے بارے میں تحریر فرمایا ہے کہ وہ سید علوی مالکی سے بیعت ہوگئے ہیں، تو اس بارے میں عرض ہے کہ اس سیاہ کار کے علم کے مطابق تو سید محمد علوی مالکی کسی کو بیعت ہی نہیں کرتے۔ اس سیاہ کار نے ایک دفعہ صراحتاً ان سے پوچھا تھا تو انہوں نے فرمایا تھا کہ: میں کسی کو بیعت نہیں کرتا، البتہ یہ صحیح ہے کہ انہوں نے حضرت صوفی صاحب کو سلسلہ شاذلیہ میں اجازت و خلافت دی ہے، اور یہ آنجناب کے علم میں ہوگا کہ حضرت صوفی صاحب کو کئی مشائخ نے حضرت کے بعد اجازت مرحمت فرمائی، اس سیاہ کار کے علم کے مطابق ان میں حضرت مولانا محمد میاں، حضرت مولانا فقیر محمد اور ایک نقشبندی بزرگ جو کہ غالباً ڈیرہ غازی خان میں تھے، اسی طرح ایک اور جگہ سے بھی غالباً ہوئی ہے، اور تصوف کے لحاظ سے اس میں بظاہر کوئی حرج بھی نہیں، جیسا کہ خود آں مخدوم کو حضرت اقدس ڈاکٹر عبدالحی صاحب قدس سرہ نے اجازت مرحمت فرمائی، اسی طرح اور حضرات کو کئی اور حضرات نے۔

۵:… حضرت مولانا عزیزالرحمن صاحب کے ایک مرید نے آں مخدوم کو جو خط لکھا، اس میں انہوں نے نوٹ دیا کہ: “یہ حضرات تبلیغی جماعت کے خلاف بھی ذہن بناتے ہیں، اس سے مجھے سخت تکلیف ہوتی ہے” اور اس کو من و عن آں مخدوم نے مان کر یہ بھی بے چارے سید محمد علوی مالکی کے کھاتے میں ڈال دیا، حالانکہ اس سیاہ کار کے یقینی علم کے مطابق سید محمد علوی مالکی تبلیغی کام اور تبلیغی اکابرین سے قلبی تعلق رکھتے ہیں، اور خود وہ سعودی حضرات مکہ مکرمہ، جدہ و مدینہ منورہ والے جو پختگی سے تبلیغی کام میں لگے ہوئے ہیں، وہ ہمیشہ ان کی مجلس میں پابندی و اہتمام سے آتے ہیں، بلکہ سید محمد علوی صاحب کے ہاں سبقاً سبقاً اور درساً درساً “حیاة الصحابہ” پڑھائی جاتی ہے، جسے سید صاحب طلبہ کو خود پڑھاتے ہیں۔

بہرحال حضرت مولانا عزیزالرحمن صاحب مدظلہم العالی کے متعلق یہ الزام کہ وہ تبلیغ کے خلاف ذہن بناتے ہیں، اس سیاہ کار کے خیال میں غلط فہمی پر مبنی ہے۔ چونکہ رائے ونڈ والوں نے حضرت شیخ قدس سرہ کے انتقال کے فوراً بعد تبلیغی نصاب سے “فضائلِ درود شریف” کو نکال دیا تھا، اور جب ان کا محاسبہ کیا گیا تو ان میں سے ایک صاحب نے غلط بیانیوں سے پُر ایک خط لکھا، جس کے جواب میں ان کی غلط بیانیاں واضح کی گئیں اور یہ کہ یہ کام تبلیغی اُصول کے بھی خلاف ہے ․․․․․ الخ۔ چونکہ ایسے عناصر کی مخالفت ہوگئی ہوگی اس لئے اس مرید نے یہ سمجھ لیا کہ نعوذ باللہ حضرت مولانا عزیزالرحمن صاحب مدظلہ نے نفس تبلیغی کام کی مخالفت کی ہے۔ حالانکہ یہ سیاہ کار جانتا ہے کہ حضرت مولانا کے کتنے ہی مریدین اگر کہا جائے کہ ان کے سینکڑوں بلکہ ہزاروں مریدین تبلیغی جماعت میں اہتمام سے لگے ہوئے ہیں اور حضرت مولانا خود ان کا تعارف کئی بار اس سیاہ کار سے کرواچکے ہیں، کئی ان میں سے اپنے اپنے محلوں اور علاقوں کے امیر و ذمہ دار ہیں۔ یہ سیاہ کار یہ سب چیزیں خود دیکھ چکا ہے تو کیسے یقین کرلیا جائے اس الزام کا؟ ہاں! البتہ وہ بات برحق ہے کہ بعض ایسے افراد و عناصر کی ضرور مخالفت کرتے ہوں گے اور کی ہوگی جنہوں نے فضائلِ درود شریف نکالا یا اور کوئی بے اُصولی کی ہو، اور اس طرح کی تنقید و اَفراد کی مخالفت، جماعت کی مخالفت تو نہیں ہوتی، وحاشا ان یکون ذالک! اور حضرت مولانا عزیزالرحمن صاحب تو حضرت شیخ قدس سرہ کے عاشقِ صادق ہیں، ان سے کیسے ایسی توقع کی جاسکتی ہے؟ نعوذ بالله!

۶:… آخری اور اہم بات یہ کہ آنجناب نے حضرت مولانا قاضی مظہر حسین صاحب مدظلہ کے “حق چار یار” میں مضمون کی وجہ سے یہ طے کرلیا کہ “سید محمد علوی مالکی دراصل بریلوی عقیدہ کے حامل اور فاضل بریلوی جناب مولانا احمد رضاخان مرحوم کے بیک واسطہ خلیفہ ہیں” اھ۔

اس بارے میں یہ سیاہ کار اپنی معلومات آں مخدوم کی خدمت میں بھی اور آپ کے توسط سے حضرت قاضی صاحب کی خدمت میں بھی پیش کرنا چاہتا ہے جو مندرجہ ذیل ہیں (پھر اس کے بعد اِن شاء اللہ حضرت قاضی صاحب کے پیش کردہ حوالہ جات و دلائل پر بھی کچھ عرض کروں گا):

عرض ہے کہ سید محمد علوی مالکی جن کی پیدائش غالباً ۱۳۶۴ھ یا ۱۳۶۵ھ کی ہے، مکہ معظمہ میں پیدا ہوئے، سادات حسنی خاندان ہے، دسیوں پشتوں سے ان کے ہاں علم کا سلسلہ چلا آرہا ہے، علمی لحاظ سے نہایت وجیہ خاندان ہے، ان کے والد سید علوی بن عباس مالکی مرحوم کے ہمارے تمام اکابر سے تعلقات تھے، اور ہمارے اکابر کے بہت زیادہ مداح تھے۔ بچپن سے یہ سیاہ کار خود دیکھ رہا ہے کہ مدرسہ صولتیہ میں ان کا ہمیشہ آنا جانا رہتا تھا، ہمارے آقا حضرت شیخ قدس سرہ کی خدمت میں جب تک حیات رہے ہمیشہ بہت ہی محبت و تعلق سے آتے رہے، طرفین سے عجیب مودت و محبت کا معاملہ ہوتا، مرحوم سید علوی صاحب کی طرف سے بہت ہی زیادہ حضرت کا اکرام ہوتا، بالکل حضرت کے شایانِ شان۔ اسی طرح حضرت مولانا خیر محمد صاحب بہاولپوری مکی کے ہاں بھی ان سید علوی مالکی صاحب کی ہمیشہ آمد و رفت رہتی تھی، حضرت مولانا سعید احمد خان صاحب کا ان کے ہاں ہمیشہ جانا اور ان کا بہت اہتمام سے ان کے ہاں آنا۔ ایک دفعہ یہ سیہ کار بھی حضرت مولانا کے ساتھ سید صاحب مرحوم کے ہاں تھا تو سید صاحب نے حضرت مولانا سعید صاحب کے بہت محبت سے ہاتھ پکڑے اور سب لوگوں کو (حاضرین کو) مخاطب کرکے فرمایا: “اشھدوا انی احب ھذا الرجل!” کئی بار جوش و جذبہ میں یہ جملے دہرائے۔ اسی طرح جو بھی اپنے اکابر ہند و پاک سے مکہ مکرمہ جاتے سب ہی سے تعلق و محبت کا معاملہ فرماتے، اسی وجہ سے جب ان کے بیٹے یہ سید محمد علوی مالکی مصنف “مفاہیم” تعلیم سے فارغ ہوگئے تو انہوں نے ان کو دارالعلوم دیوبند تکمیلِ تعلیم کے لئے بھیجا اور جیسا کہ سید محمد علوی صاحب نے اس سیاہ کار کو خود سنایا کہ وہ چھ ماہ تک دارالعلوم دیوبند میں مقیم حضرت مولانا معراج الحسن صاحب رحمة اللہ علیہ کی مہمانی و نگرانی میں رہے اور سب اساتذہ خصوصاً حضرت مولانا سید فخرالدین صاحب اور حضرت مولانا فخرالحسن وغیرہ سے استفادہ کیا، مگر وہاں طبیعت سخت خراب ہوگئی جس کی وجہ سے رہنا مشکل ہوگیا اور مجبوراً حسرت سے رخصت لے کر پاکستان سے ہوتے ہوئے واپس مکہ مکرمہ چلے گئے اور پھر جامعہ الازہر سے پی ایچ ڈی کیا۔

خود ان سید محمد علوی مالکی کا حال یہ ہے کہ بہت محبت سے اپنے دارالعلوم دیوبند کے قیام کے قصے سناتے ہیں، بلکہ جب رابطہ کی طرف سے ندوة العلماء کے پچاس سالہ جشن میں گئے تو اس کے بعد خاص طور سے حضرت مولانا سید اسعد مدنی کے ہمراہ دارالعلوم دیوبند اور مظاہرالعلوم وہاں کے اکابر سے ملنے و استفادہ کرنے کے لئے گئے۔

حضرت مفتی شفیع صاحب اور حضرت بنوری قدس سرہ سے بہت زیادہ تعلق تھا اور ہے، ہمیشہ ان کے تذکرے کرتے ہیں۔ حضرت مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر صاحب نے اپنی تقریظ میں اس تعلق کا حوالہ بھی دیا ہے، جب حضرت بنوری ختم نبوت کی تحریک سے قبل حرمین شریفین آئے تو اس وقت اس سیاہ کار نے خود دیکھا کہ مدینہ منورہ میں کئی روز تک لگاتار سید محمد علوی مالکی بڑے اہتمام سے حضرت بنوری قدس سرہ کے ساتھ ساتھ رہتے تھے۔

اسی طرح جتنے بھی اکابر علمائے دیوبند ہند و پاک سے حرمین میں آتے، سید محمد علوی کا معمول ہے کہ ان کی خدمت میں حاضری دیتے ہیں۔ رہا ہمارے حضرت شیخ کے ساتھ ان کا تعلق، تو وہ بیان سے باہر ہے، ہمیشہ اپنے والد صاحب کے انتقال کے بعد سے حضرت شیخ کو اپنے والد کی جگہ جانا، بلکہ “ابی” کہہ کے ہی مخاطب کرتے، جب بھی حضرت کی خدمت میں آتے (اور اکثر آتے ہی رہتے تھے) ہمیشہ پہلے حضرت شیخ کے دستِ مبارک کو بوسہ دیتے، پھر کبھی کندھے کو بوسہ دیتے، پھر ماتھے پر بوسہ دیتے، پھر کبھی گھٹنوں کو اور کبھی پاوٴں کو بھی بوسے دے دیتے، اور حضرت اس پر محبت و شفقت سے ان کو لپٹالیتے، حضرت شیخ ان سے بہت بے تکلف رہتے اور مزاح بھی فرماتے، بالکل جیسے اپنے خواص کے ساتھ معاملہ فرماتے ہیں۔ حضرت شیخ قدس سرہ کے تقریباً تمامی خدام اس بات کو جانتے ہیں کہ حضرت نے ہمیشہ سید محمد علوی مالکی کے ساتھ باپ کی طرح معاملہ فرمایا اور انہوں نے بیٹے کی طرح۔ حضرت ہی کی نسبت سے انہیں اس سیاہ کار اور دیگر حضرات کے خدام و متعلقین سے نہایت زیادہ اُنس و محبت ہے، ان کے اسباق میں ہمیشہ موقع بموقع اکابر علمائے حرمین و سلف صالحین کے ساتھ ساتھ ہمارے اکابر کا بھی تذکرہ آتا رہتا ہے، اسی ذیل میں ایک واقعہ سناتا جاوٴں کہ کئی سال قبل مولانا سید عبدالقادر آزاد صاحب نے مجھ سے فرمایا کہ: سید محمد علوی مالکی صاحب سے وقت لے لیں، ہم نے ملاقات کرنی ہے اور چونکہ وقت تھوڑا ہے اس لئے مختصر ملاقات ہوگی۔ میں نے وقت لے لیا مغرب سے عشاء تک، یہ حضرات یعنی مولانا آزاد صاحب اور ان کے ساتھی مولانا حنیف جالندھری، مولانا عبدالقوی ملتان اور مولانا ضیاء القاسمی عین مغرب کے قریب آئے، چائے کے بعد مولانا ضیاء القاسمی صاحب نے فرمایا کہ: آزاد صاحب فرما رہے ہیں کہ سید محمد علوی سے ملنے جانا ہے، اور میرا دل تو نہیں چاہ رہا چونکہ سنا ہے کہ وہ بریلوی ہے اس کے ہاں مولود ہوتا ہے۔ میں نے کہا کہ: بریلوی دیوبندی جھگڑا ہند و پاک کا ہے! ایک بات یاد رکھیں کہ عرب نہ کوئی پکا دیوبندی ہوتا ہے نہ بریلوی، البتہ اگر آپ مولود شریف کی مجلس ان کے ہاں ہونے کی وجہ سے انہیں بریلوی کہتے ہیں یا جس نے آپ کو بتایا ہے تو یہ بڑی مشکل پڑجائے گی کیونکہ مولود تو عربوں میں عام ہے۔ شیخ عبدالفتاح ابوغدہ بھی ان میں شریک ہوتے ہیں، شیخ محمد علی صابونی جن کی کتابیں مختصر تفسیر وغیرہ دارالعلوم دیوبند میں پڑھائی جاتی ہیں، ان کے ہاں بھی مولود ہوتا ہے، اور شیخ زینی دحلان و شیخ سید برزنجی جن کی اسانیدِ حدیث ہمارے اکابر رحمہم اللہ نے لی ہیں، ان کے ہاں بھی ہوتا تھا اور خود سیدالطائفہ مکہ مکرمہ میں شرکت فرماتے تھے اور خود حضرت امام ربانی گنگوہی قدس سرہ کو مکہ مکرمہ کے مولود پر اِشکال نہیں تھا، ہندوستان میں وہاں کے حالات کی وجہ سے منع فرمایا تھا ․․․․․ الخ۔ اس طرح کی بات کی اور یہ صاف کہہ دیا کہ دیکھئے! بہرحال سید محمد علوی مالکی میری معلوماتِ یقینیہ کے مطابق بریلوی تو قطعاً نہیں ہیں، البتہ کٹر دیوبندی بھی نہیں ہیں، البتہ انہیں ہمارے حضراتِ اکابر و اصاغر سے خوب تعلق ہے، اگر شرحِ صدر سے جانا چاہیں تو بسم اللہ، ورنہ میں فون کرکے معذرت کرلیتا ہوں کہ یہ حضرات نہیں آرہے۔ انہوں نے آخر طے کیا کہ نہیں، چلتے ہیں، چلنے میں کیا حرج ہے؟ لہٰذا گئے، وہاں پہنچے مغرب کو تقریباً آدھا گھنٹہ ہوچکا تھا، سید محمد علوی صاحب ہمارے دیر سے پہنچنے کی وجہ سے طلبہ کو درس دے رہے تھے، غالباً حدیث شریف ہی کا درس تھا، ہمیں دیکھتے ہی انہوں نے اعلان کردیا کہ سبق ختم، چونکہ مہمان حضرات آگئے ہیں، طلبہ نے جو کہ تیس چالیس غالباً ہوں گے، تپائیاں اُٹھانی شروع کردیں۔

اور ہم لوگوں نے آگے بڑھ کر باری باری مصافحہ شروع کیا سب سے پہلے سید عبدالقادر آزاد صاحب کا تعارف ہوا، پھر مولانا محمد حنیف جالندھری کا، جس پر خیرالمدارس کا بھی تذکرہ آیا اور ساتھ حضرت مولانا خیر محمد صاحب اور حضرت اقدس تھانوی کا بھی، پھر اخیر میں مولانا ضیاء القاسمی صاحب نے مصافحہ کیا، جب اس سیاہ کار نے ان کا نام بتایا تو سید صاحب نے فرمایا: “القاسمی نسبة الیٰ من؟” تو عرض کیا گیا کہ: “الیٰ قاسم العلوم مدرسة فی ملتان” تو سید صاحب نے فرمایا: “والمدرسة نسبة الی الشیخ محمد قاسم النانوتوی الیس ھٰکذا؟” تو ہم نے کہا کہ: “نعم!” تو جھٹ سید صاحب نے اپنے ایک شاگرد کو جو تپائی اُٹھا رہا تھا پوچھا: “تذکر الشیخ محمد قاسم النانوتوی این ذکرناہ الیوم فی الدرس؟” تو طالب علم نے تپائی دُوسرے کو پکڑاکر کہا کہ: “نعم․․․․” اور پھر تفصیل بتائی کہ فلاں مسئلہ چھڑا تھا تو آپ نے حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی کی رائے بتائی تھی اور اس پر اعتراض اور پھر اس اعتراض کا جواب۔ یہ ساری بات ہو رہی تھی اور سید صاحب نے مولانا قاسمی کا ہاتھ محبت سے پکڑا ہوا تھا چھوڑا نہیں، سید صاحب نے پوچھا طالب علم سے کہ اور کن علماء و مشائخِ ہند کا ہم نے اس بحث میں تذکرہ کیا؟ تو انہوں نے حضرت انور شاہ صاحب اور حضرت بنوری کا بھی نام لیا تو اس پر پھڑک کر مولانا ضیاء القاسمی نے اپنے انداز میں ہاتھ لہراکر فرمایا: “واہ قاسم نانوتوی! تیرے ڈنکے مکے تے مدینے!”

سید صاحب نے قاسمی صاحب کا جوش دیکھا تو مجھ سے پوچھا کہ کیا کہا انہوں نے؟ تو میں نے ٹالا کہ “انہوں نے خوشی کا اظہار کیا ہے!” تو سید صاحب اَڑ گئے کہ انہیں ان کے جوش والے جملے کا لفظی ترجمہ کرکے بتائیں، تو اس سیاہ کار نے اس کا حرفاً حرفاً ترجمہ کردیا، تو اس پر سید صاحب سنجیدہ ہوگئے اور جوش میں فرمایا کہ: “نعم! کیف لا ھو الامام الکبیر المجاھد العظیم الذی جمع بین العلم والعمل والجھاد والرد علی النصاریٰ والہندوس ․․․․․ الخ۔” بہت کچھ تقریباً دوچار منٹ حضرت نانوتوی قدس سرہ کی ہی سیرتِ مبارکہ، ان کے کارنامے، ان کے علوم و معارف کو ہی بیان کرتے رہے، جس کا ردّعمل یہ ہوا کہ جب مجلس برخاست ہوئی تو مولانا ضیاء القاسمی مصر ہوئے کہ سید صاحب انہیں کوئی ہدیہ دیں اور انہوں نے اپنے سبز ردا جو کندھوں پر تھا (غالباً) وہی ان کو پیش فرمادیا۔

بہرحال یہ ایک واقعہ ہے جس کے گواہ سب کے سب زندہ سلامت ہیں، ان سے تحقیق کی جاسکتی ہے۔

البتہ یہ بات ضرور ہے کہ چونکہ اس وقت سعودی عرب و خلیجی ممالک میں جو ایک فکری و عقائدی معرکہ برپا ہے، اس میں اگر سلفی حضرات کے بڑے شیخ بن باز ہیں تو اہلِ حق و جمہور اہلِ سنت کے بڑے سید محمد علوی مالکی ہی لوگوں کی نظروں میں شمار ہوتے ہیں، اس وجہ سے بریلوی حضرات کی یہ پوری کوشش ہے کہ وہ سید محمد علوی مالکی کو بریلوی ثابت کردیں، اس لئے بعض جگہ غلط بیانیاں بھی ہو رہی ہیں اور کہیں مبالغہ بھی (جیسے کہ اخیر میں یہ سیاہ کار ثابت کرے گا) لیکن حقیقتِ حال یہ ہے کہ خود سید محمد علوی مالکی صاحب اپنے آپ کو کس پلڑے میں ڈالتے ہیں؟ اس سیاہ کار کی یقینی و حتمی معلومات کے مطابق وہ اکابرِ دیوبند کی طرف مائل ہیں، خود اسی تقاریظ کے مسئلے میں دیکھئے کہ انہوں نے صرف علمائے دیوبند ہی کی تقاریظ لی ہیں، یہ نہ کہا جائے کہ بریلوی علماء کی تقاریظ شاید اس لئے نہ لی ہوں کہ “یہ نجدی سلفی علماء کے مخالف مشہور ہیں، تو اس سے فائدہ نہ اُٹھاسکتے” چونکہ انہوں نے عرب کے کئی ملکوں کے ایسے علماء کی تقاریظ لی ہیں جو کہ بریلویوں ہی کی طرح ان حضرات نجدی سلفی علماء کے کٹر مخالف سمجھے جاتے ہیں۔

بلکہ اسی سیاہ کار کی قطعی رائے ہے کہ انہوں نے قصداً و عمداً ایسا کیا ہے تاکہ عملاً وہ اکابر علمائے اہل سنت وجماعت (دیوبند) ہی کے پلڑے میں پڑیں، اس کی تائید میں عرض کروں کہ حضرت مولانا عزیزالرحمن صاحب کی تقریظ میں جو یہ الفاظ لکھے ہوئے ہیں:

“فقد رأینا دائمًا شیخنا الامام القطب محمد زکریا الکاندھلوی المدنی قدس الله سرہ یحبہ حبًّا شدیدًا ویعتبرہ کأحد ابنائہ وھو ایضًا من اعظم المحبین لشیخنا فی حیاتہ وبعد مماتہ کما انہ عظیم المحبة والتقدیر لمشایخہ ومشایخنا الذین استفاد من علومھم وفاضت علیہ برکاتہم کامام العصر المحدث الجلیل السید محمد یوسف البنوری الحسینی، والامام المحدث الکبیر السید فخرالدین المرادآبادی شیخ الحدیث بدار العلوم دیوبند، والامام المفتی محمد شفیع الدیوبندی المفتی الاعظم لباکستان، والامام الداعیة المحدث الشیخ محمد یوسف الکاندھلوی وامثالھم قدس الله سرھم، والارواح جنود مجندة ما تعارف منھا ائتلف وما تناکر منھا اختلف۔”

تو جب یہ جملے سید صاحب نے تقریظ میں پڑھے تو ہمارے سامنے تقریظ والے ورق کو محبت و عقیدت سے اپنے سر پر رکھا اور یہ الفاظ فرمائے: “نعم! علی الرأس والعین!” تو بتائیے ایسے کوئی بریلوی کرسکتا ہے؟ ہاں! یہ ضرور ہے کہ چونکہ یہ دیوبندی بریلوی جھگڑا ہند و پاک کا ہے، انہیں ان زیادتیوں کی خبر نہیں جو بریلوی حضرات نے اکابرِ دیوبند کے ساتھ کی ہیں، اس لئے علمائے عرب کے دل میں بریلویوں کے بارے میں وہ حساسیت (الرجک) بھی نہیں جو عام طور پر دیوبندیوں میں ہوتی ہے، اور یہ ایک طبعی امر ہے اس لئے جب کوئی بریلوی عالم ان کے ہاں جاتا ہے تو وہ حضرات نقاء قلب سے اس سے ملتے ہیں اور اگر وہ عقیدت و محبت کا اظہار بھی کرے اور ان کے فکری و عقائدی مخالفین کے ساتھ اپنی بدعقیدگی اور دشمنی کا کھل کر اظہار بھی کرے تو وہ ان سے کھل جاتے ہیں۔

ہر علاقے کے کچھ معروضی حالات ہوتے ہیں، جن کے اثرات لازمی ہوتے ہیں، عرب علاقوں خصوصاً سعودیہ اور خلیجی علاقوں میں و مصر و شام میں تین مسائل میں اختلافات چوٹی پر ہیں:

۱:… سلفیت اور اس کے مقابل اشعریت و ماتریدیت۔

۲:… تقلید و عدمِ تقلید۔

۳:… تصوف کی حقانیت اور انکارِ تصوف۔

خود ہمارا حال یہ ہے کہ جب کوئی شخص اس سیاہ کار کے پاس مصر و شام و عرب کا آتا ہے تو حکمتِ عملی سے ان تینوں چیزوں کے بارے میں تحقیق کرتا ہوں کہ وہ ہمارا موافق ہے یا مخالف؟ تو جب کوئی ان تینوں اُمور میں ہمارے اکابر کے موافق ہوتا ہے تو اگر ایسا شخص اجازتِ حدیث وغیرہ مانگتا ہے تو دے دیتا ہوں اور ایسوں سے بے تکلفی ہوجاتی ہے۔ اب کوئی مصر و شام وغیرہ ان ملکوں میں ان کا کوئی مقامی جھگڑا یا اختلافات ہوں اور ان میں سے کسی میں کوئی گمراہی ہونی بھی ممکن ہے تو یہ سیاہ کار معذور ہوگا کہ اس سے لاعلم تھا، اسی طرح وہاں کے علمائے حرمین شریفین کا عموماً حال ہے، گو اب بہت سی باتیں کھل کر سامنے آرہی ہیں۔ سید محمد علوی مالکی کے بارے میں یہ سیاہ کار اپنی یقینی معلومات کے مطابق عرض کرتا ہے کہ وہ اپنے اکابر کے بہت ہی قریب اور انتہائی محب و چاہنے والے اور ان کے علم و بزرگی کے نہایت اعلیٰ درجے کے مداح، اور ان کے دین و معرفت میں قربِ خداوندی میں اعلیٰ مراتب پر فائز ہونے کے مقر و معترف ہیں۔ دیوبندی بریلوی اختلافات کا کچھ ان کو علم ہے اور دل سے چاہتے ہیں کہ یہ اختلافات ختم ہونے چاہئیں اور ان حضرات (بریلویوں) کی طرف سے اکابرِ دیوبند کی تکفیر کا انہیں علم ہے، جس کی وجہ سے اس امر کی شدید اور پُرزور مذمت کرتے ہیں اور اس پر شدید ترین نکیر کرتے ہیں، البتہ یہ چاہتے ہیں دل سے کہ اس وقت جبکہ عالمی کفر، اسلام و مسلمانوں کے خلاف متحد ہوچکا ہے تو دیوبندی بریلوی اختلافات کو بھی ختم ہونا چاہئے (یہ ان کی خواہش ہے جس کا وہ ہمیشہ اس سیاہ کار سے اظہار کرتے رہتے ہیں)، گو اس کتاب مفاہیم میں یہ جذبہ کار فرما نہیں تھا، بلکہ یہ کتاب تو سلفی حضرات کی طرف سے جب تکفیربازی کی گئی تو اس کے ردّ میں یہ لکھی گئی کہ تکفیر کرنی غلط ہے۔

اب یہ سیاہ کار حضرت قاضی مظہر حسین صاحب مدظلہ کے دلائل کی طرف آتا ہے، جس سے انہوں نے سید محمد علوی مالکی کا بریلوی بلکہ “کٹر بریلوی” ہونا مستنبط فرمایا ہے۔ یہاں سفر میں یہ سیاہ کار اصل رسالہ “حق چار یار” کی طرف تو رجوع نہ کرسکا، البتہ آنجناب نے جو “بینات” میں ان کا پورا مضمون اس امر سے متعلق نقل فرمایا ہے، اسی پر اکتفا کیا گیا ہے، اور اسی لئے “بینات” ہی کے صفحات و سطور کے حوالے ہوں گے۔

دعویٰ نمبر:۱:… بینات ص:۴۸ سطر:۱۹ پر ہے کہ: “آپ خلیفہ اعلیٰ حضرت خطیبِ مدینہ مولانا ضیاء الدین قادری رحمة اللہ علیہ کے خلیفہ ہیں ․․․․․ الخ۔”

یہ تو دعویٰ ہے جناب مفتی محمد خان صاحب قادری کا، ماہنامہ “جہانِ رضا” میں، مگر اس دعویٰ کی دلیل جو چند سطروں کے بعد دی گئی ہے، اسے بھی ملاحظہ فرمائیے “بینات” ص:۴۸ سطر:۲۴ جو بلفظہ یہ ہے:

“خود مولانا مالکی ایک مقام پر لکھتے ہیں کہ جن لوگوں سے میں نے سندِ حدیث حاصل کی ہے،ا ن میں سے ایک معمر ترین بزرگ جن کی عمر سو سال سے زائد ہے مولانا ضیاء الدین قادری ہیں ․․․․․ الخ۔”

تو قصہ اجازتِ طریق و خلافت کا نہیں ہے، بلکہ اجازتِ حدیث کا ہے، اور اس سے کوئی کسی کا خلیفہ نہیں بنتا، بلکہ اجازتِ حدیث کے لئے معتقد ہونا اور ہم مذہب اور ہم عقیدہ ہونا کچھ بھی ضروری نہیں ہے، جیسا کہ اہلِ فن سے مخفی نہیں، لہٰذا یہ دعویٰ تو باطل ہوگیا کہ سید محمد علوی مالکی صاحب مولانا ضیاء الدین قادری مدنی کے خلیفہ ہیں۔

دوسرا دعوی:… ملاحظہ ہو بینات ص:۵۰ سطر:۲۴:

“بیعت غالباً اپنے والد بزرگوار سے ہیں، حضور مفتی اعظم علامہ مولانا مصطفی رضا نوری بریلوی قدس سرہ تیسری بار جب حج و زیارت کے لئے تشریف لے گئے تو وہاں بہت سے علماء و مشائخ کو خلافت و اجازت سے نوازا وہیں علامہ سید محمد علوی مالکی کو بھی تمام سلاسل کی اجازت عطا فرمائی۔”

اس سیاہ کار کی رائے یہاں بھی یہی ہے کہ یا تو یہ بھی اجازتِ حدیث ہے، جس کو خلافت و طریقت پر محمول کیا گیا ہے، پھر یہ واقعہ کس زمانہ کا ہے؟ اس کی بھی کچھ خبر نہیں، اور کیا نوعیت ہوئی؟ بہرحال دعوے کی کوئی دلیل نہیں ذکر کی گئی۔

بہرحال تیسرے دعوے و دلیل کو ملاحظہ فرمائیے اور بریلویوں کی غفلت اور ہمارے حضرت قاضی صاحب مدظلہ کی سادگی بھی ملاحظہ ہو:

تیسرا دعویٰ:… بینات ص:۵۱ سطر:۸ اور اسی طرح ص:۵۳ سطر:۸ پر اور ص:۴۹ سطر:۱۵ پر یہ ہے کہ:

“مولانا غلام مصطفی مدرس شرف العلوم ڈھاکہ حج و زیارت کے لئے تشریف لے گئے تو وہاں حضرت مولانا مفتی سعداللہ مکی سے ملاقات کی، مفتی سعداللہ مکی کے ایما پر ان کا وفد علامہ سید محمد علوی مالکی سے ملاقات کے لئے گیا، دوران ملاقات مولانا غلام مصطفی نے کہا کہ: ہم اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضاخان فاضل بریلوی رحمة اللہ علیہ کے شاگردوں کے شاگرد ہیں، اتنا سنتے ہی علامہ مالکی سروقد اُٹھ کھڑے ہوئے اور فرداً فرداً سبھی لوگوں سے مصافحہ و معانقہ فرمایا اور بے حد تعظیم کی، شربت پلایا گیا، قہوہ پیش کیا گیا، انہوں نے پوری توجہ مولانا غلام مصطفی اور ان کے ہمراہیوں کی جانب فرمادی اور ایک ٹھنڈی آہ بھرکر فرمایا:

سید علامہ احمد رضا خان صاحب فاضل بریلوی کو ہم ان کی تصنیفات اور تعلیقات کے ذریعہ جانتے ہیں، وہ اہل سنت کے علامہ تھے، ان سے محبت سنی ہونے کی علامت ہے اور ان سے بغض رکھنا اہلِ بدعت کی نشانی ہے۔”

اسی طرح ص:۵۱ اور ص:۴۹ پر ہے، مگر دیکھئے ص:۵۲ پر بعینہ یہی قصہ جب ڈاکٹر محمد سعود احمد صاحب “الدولة المکیہ” کے افتتاحیہ میں نقل فرماتے ہیں تو ذرا تحقیقی انداز سے اس کا سن بھی درج فرماتے ہیں، تو لکھتے ہیں بلفظہ بینات ص:۵۲ سطر:۶ ملاحظہ ہو:

“آئیے مولانا غلام مصطفی مدرسہ عربیہ اشرف العلوم راجشاہی بنگلہ دیش کی زبانی سنئے، ۱۳۷۲ھ میں حج بیت اللہ شریف کے موقع پر چند رفیقوں کے ساتھ مولانا سید محمد علوی مالکی (مکہ معظمہ) کے در دولت پر حاضر ہوئے ․․․․․ الخ۔”

تو اس سے یہ ثابت ہوا کہ یہ حاضری ۱۳۷۲ھ میں ہوئی، یہاں یہ شبہ نہ کیا جائے کہ ممکن ہے کہ سہو ہوگیا ہو اور یہ حاضری ۱۹۷۲ عیسوی سن میں ہوئی ہو، اس لئے کہ جس سفرنامہ سے یہ حکایت نقل کی جارہی ہے وہ ۱۹۰۶ء میں چھپا ہے جیسا کہ اسی بنیات ص:۵۲ سطر:۱۱ پر مذکور ہے۔

اب آئیے دیکھئے ۱۳۷۲ھ میں سید محمد علوی مالکی کی عمر شریف مشکل سے آٹھ سال کی ہوگی، اور ظاہر ہے کہ اس عمر میں مذکورہ وفد ان سے ملنے نہیں آیا بلکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ وفد ان کے والد بزرگوار سید علوی بن عباس مالکی رحمة اللہ علیہ سے ملنے آیا ہوگا اور انہوں نے حرمین شریفین کے عام علماء و اشراف کے طریقہ پر جیسے ہر مہمان خصوصاً اگر علماء ہوں تو ان کا بھی اکرام شربت و قہوہ سے کیا، البتہ جو عبارت نقل کی گئی وہ “اگر ثابت ہوجائے” اور اس میں بھی مبالغہ نہ ہو تو اسی پر محمول کی جائے گی کہ اس سے مراد انہی مذکورہ تین مسائل “سلفیت، تقلید، تصوف” کی بنا پر، بربنائے مخاصمت سلفیوں غالیوں کے یہ الفاظ استعمال کئے گئے ہوں نہ کہ بمقابل اکابرِ دیوبند، چونکہ ۱۳۷۲ھ یعنی آج سے تقریباً چوالیس سال پہلے علمائے نجد وہابیین سلفیین اور علمائے حجاز اہل سنت و جماعت کا آپس میں اختلاف بہت زوروں پر نہایت گرم تھا۔ دیکھئے “الشہاب الثاقب” میں حضرت شیخ الاسلام مدنی قدس سرہ کے قلمِ مبارک سے اس کا کچھ نمونہ مل جائے گا۔

بہرحال یہ ملاقات جو کہ سید محمد علوی کی طرف منسوب کی گئی اور حضرت قاضی مظہر حسین صاحب مدظلہ بھی اس کے دھوکے میں آگئے اور اس کی بنا پر سید محمد علوی پر کٹر بریلویت کا الزام لگاتے ہیں اور اپنی معلومات کے مطابق “حق واضح” قرار دیتے ہیں، یہ صاف صاف ثابت ہوگیا کہ نہ ملاقات ہمارے ان سید محمد علوی سے ہوئی اور نہ ہی وہ عبارت انہوں نے کہی۔

اس لئے اس سیاہ کار کا یہ پختہ خیال ہے کہ جیسے پہلے دعویٰ میں خلافت مولانا ضیاء الدین سے قطعاً غلط ہے، وہ صرف اجازتِ حدیث ہے، اور یہ تیسرا دعویٰ بھی قطعاً غلط ہے، اسی طرح دُوسرا دعویٰ بھی یا تو اجازتِ حدیث پر ہی محمول ہے اور یا وہ ان کے والد صاحب کا قصہ ہے ان کا نہیں، اور ہے بھی اس زمانے کا جب سارے اُمور مخفی تھے اور وہ تین اُمور جو اُوپر اس سیاہ کار نے ذکر کئے ہیں کہ انہی کو اصل سب سمجھتے ہیں، چونکہ سید علوی کو پتہ چلا ہوگا کہ یہ لوگ (بریلوی) ۱:․․․غالی سلفی نہیں، اشعری یا ماتریدی ہیں۔ ۲:․․․حنفی کٹر ہیں۔ ۳:․․․تصوف کو مانتے ہیں بلکہ قادری ہیں، تو انہوں نے ان کو بتایا کہ ہم ان کو اہل سنت سمجھتے ہیں، یقین کرتے ہیں اور یہ سب کچھ بمقابل سلفی منکرینِ تصوف و تقلید کے، نہ کہ بمقابلہ اکابرِ دیوبند کے، چونکہ سید علوی مالکی مرحوم کی زندگی بھی ساری ہمارے سامنے ہے کہ ہمارے اکابر کے ہمیشہ مداح و معترف و اکرام و تعظیم میں ہمیشہ مبالغہ کرنے والے رہے، خود اپنے بیٹے کو دارالعلوم دیوبند بھیجا، تو کیسے یہ تصور کیا جاسکتا ہے کہ یہ عبارت انہوں نے مقابلہ علمائے دیوبند کہی ہوگی؟

یہ کچھ معلومات ہیں جو عرض کردی گئی ہیں، آں مخدوم سے گزارش ہے کہ اسے خالی الذہن ہوکر ماحول سے متأثر ہوئے بغیر پڑھیں، اور ارشادِ ربانی:

“یٰٓأیھا الذین اٰمنوا اذا جائکم فاسق بنباٍ فتبینوا ان تصیبوا قوما بجھالة فتصبحوا علی ما فعلتم نادمین۔”

کو ملحوظ رکھا جائے، مزید کسی استیضاح کی ضرورت سمجھیں تو یہ سیاہ کار حاضر ہے، البتہ جو کچھ غلط بنا پر لکھا گیا، گزارش ہے کہ احسن انداز سے اس کا تدارک ضرور فرمالیا جائے، یہی آں مخدوم سے اُمید ہے۔

وزادکم الله توفیقا لمحابہ وقربا لدیہ بفضلہ وکرمہ، اٰمین

والسلام علیکم روحمة الله وبرکاتہ

عبدالحفیظ، لندن

۱۹/جولائی ۱۹۹۵ء۔”

راقم الحروف کا جواب

بسم الله الرحمن الرحیم

الحمدلله وسلام علی عبادہ الذین اصطفی!

بخدمت عالی قدر مخدوم و معظم جناب الشیخ المحترم مولانا عبدالحفیظ مکی، حفظہ اللہ، السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ!

کرامت نامہ بسلسلہ “اِصلاحِ مفاہیم” جناب محترم حافظ صغیر احمد زیدلطفہ کے ذریعہ موصول ہوا تھا، اور لندن سے واپسی پر اس کی نقل مولوی محمد رفیق میمن کے ہاتھ بھی موصول ہوئی، جواب لکھنے بیٹھا تو ہجومِ مشاغل نے آدبوچا، بقول صائب:

دیدن یک روئے آتشناک را صد دل کم است

من بیک دل عاشق صد آتشیں رخسارہ ام

بہرحال مختصراً عرض کرتا ہوں:

۱،۲:… آنجناب نے پہلے اور دُوسرے نمبر میں حصولِ تقریظات کی تفصیل (بحوالہ خط بنام مولانا عاشق الٰہی مدظلہ) درج فرمائی ہے، اسے پڑھ کر اندازہ ہوا کہ ان تقریظات کا مہیا ہونا دراصل آنجناب کی جدوجہد اور وجاہت و شہامت کی کرامت ہے:

کار زلف تست مشک افشانی اما عاشقاں

مصلحت را تہمتے بر آ ہوئے چیں بستہ اند

قارئین کی سہولت کے لئے مناسب ہوگا کہ آنجناب کے مکتوب بنام مولانا عاشق الٰہی مدظلہ کا وہ حصہ جس میں آپ نے حصولِ تقریظات کی تفصیل تحریر فرمائی ہے، یہاں نقل کردیا جائے:

“․․․․․․ جس زمانے میں یہ سیاہ کار مدینہ منورہ میں مقیم تھا تو غالباً ربیع الاول یا ربیع الآخر ۱۴۰۸ھ کے کسی دن سید محمد علوی مالکی کا لندن سے فون آیا کہ میں کچھ دن کے لئے لندن آیا ہوا ہوں، حضرت مولانا یوسف متالا صاحب کے ہاں دو روز دارالعلوم بری گزار کر آیا ہوں، انہوں نے جزاہ الله خیراً میری بہت خاطر مدارات کی، بڑا جلسہ بھی کرایا، جس میں ہزاروں کا مجمع ہوا، وغیرہ وغیرہ ․․․․․․ پھر یہ بھی بتایا کہ میں نے اپنی کتاب “مفاہیم یجب ان تصحح” کا ایک نسخہ بھی انہیں ہدیہ دیا جسے پڑھ کر وہ بہت خوش ہوئے اور خصوصاً جو عالم اسلام کے مختلف علمائے کرام نے تقاریظ لکھی ہیں، ان کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے، تو میں نے کہا کہ: گویا یہ اجماع ہے علمائے اسلام کا نجدیوں کے غلط عقائد و نظریات کے خلاف۔ جس پر حضرت مولانا یوسف متالا نے ہنس کر کہا: مگر اس میں ایک کمی ہے! میں نے پوچھا: وہ کیا؟ تو انہوں نے کہا کہ: اس میں علمائے اہل السنت والجماعہ دیوبندی حضرات کی تقاریظ نہیں اور ان کے بغیر اجماع نہیں ہوسکتا، چونکہ ایک عالم ان کے علم کا لوہا مانتا ہے۔ جس پر میں نے کہا کہ: یہ آپ نے سچ کہا اور میں اب فوراً اس کی کوشش کروں گا۔ کچھ اور تفصیل بھی اس ذیل کی بتائی اور پھر یہ کہا کہ: میں ابھی تو فوراً انڈونیشیا، سنگاپور وغیرہ جارہا ہوں، غالباً ایک ڈیڑھ ماہ بعد فلاں فلاں تاریخوں میں چار پانچ دن میرے پاس ہیں، اگر تم بھی ان تاریخوں میں فارغ ہو تو میں سنگاپور سے کراچی آجاوٴں گا اور کراچی سے لاہور اکٹھے چلیں گے، چونکہ مجھے تقاریظ میں زیادہ اہمیت ایک تو حضرت مولانا محمد مالک کاندھلوی کی ان کے علم کی وجہ سے، اور دُوسرے مولانا عبدالقادر آزاد کی ان کی سیاسی وجاہت کی بنا پر۔ میں (عبدالحفیظ) نے ان سے وعدہ کرلیا کہ آپ احتیاطاً ایک ہفتہ اس تاریخ سے قبل مجھے فون کرلیں تاکہ بات پکی ہونے پر ان شاء اللہ پاکستان پہنچ جاوٴں گا۔

لہٰذا ایک ہفتہ قبل ان کا فون آگیا اور متعین تاریخ سے ایک روز قبل یہ سیاہ کار کراچی پہنچ گیا۔ معہد الخلیل میں حضرت مولانا یحییٰ مدنی مدظلہ کے ہاں مہمان رہے، وہاں سے میں نے سید محمد علوی مالکی سے کہا کہ یہاں کراچی میں ہمارے تین بڑے علمی مراکز ہیں (دارالعلوم، فاروقیہ، بنوری ٹاوٴن)، ان کی بھی اگر تقاریظ لے لیں تو بہتر ہوگا، تو انہوں نے اس کو مناسب جانا لہٰذا رابطہ کیا تو پتہ چلا کہ حضرت مولانا سلیم اللہ خان صاحب تو وہاں نہیں ہیں، البتہ دونوں جگہ وقت طے کرکے ہم دونوں مع حضرت مولانا یحییٰ مدنی صاحب کے گئے، دونوں جگہ کے حضرات نے نہایت محبت و اکرام کا معاملہ فرمایا اور دونوں نے یہ مناسب سمجھا کہ کتاب ہمیں دے دی جائے، جب آپ پنجاب سے واپس آویں گے تو ہم اچھی طرح مطالعہ کرکے تقریظ لکھ دیں گے۔ سید صاحب اس پر راضی ہوگئے اور ہم لاہور روانہ ہوگئے، وہاں ہم رات کو پہنچے، حضرت حافظ صغیر احمد صاحب وغیرہ حضرات لینے آئے ہوئے تھے، مطار لاہور پر حضرت حافظ صاحب سے پتہ چلا کہ حضرت مولانا محمد مالک کاندھلوی تو اگلے دن کسی سفر پر جارہے ہیں، لہٰذا مطار لاہور سے سیدھا حضرت مولانا کاندھلوی کے گھر ہی گئے، وہ منتظر تھے کہ انہیں خبر کردی گئی تھی، مل کر بہت خوش ہوئے، اور جب سید صاحب نے مقصود بتایا تو انہوں نے بھی یہی فرمایا کہ ابھی تو مجھے کتاب دے دیں رات کو اِن شاء اللہ مطالعہ کرلوں گا اور صبح آپ میرے ہاں ناشتہ کریں، اسی وقت تقریظ بھی دے دوں گا۔ صبح ہم لوگ ناشتہ کے لئے پہنچے تو حضرت مولانا محمد مالک کاندھلوی نے بہت ہی زیادہ اس کتاب پر خوشی کا اظہار فرمایا، وہاں کے بعض نجدیوں کے غلو کے کچھ لطیفے بھی سنائے اور کتاب کو بہت سراہا، پھر اپنے دست مبارک سے لکھی ہوئی تقریظ مرحمت فرمائی، جس کے یہ الفاظ ملاحظہ فرمائیں:

“وفی الحقیقة ان ھذا الکتاب یحتوی علٰی موضوع مبتکر ومضامین عالیة تحتاج الیہ العلماء والطلاب، وفیہ من حسن ذوق الموٴلف وعلو فکرتہ ما تحل بہ المغلقات فی موضوعات کثیرة فی اصول الدین، ولا شک ان ھذا الکتاب کشف الحجاب عن نکات مستورة وبعیدة عن انظار العلماء فجزاہ الله احسن الجزاء واسبغ علیہ من نعمہ الظاھرة وباطنة۔ نسأل الله تعالٰی ان یمتع المسلمین وخاصة اھل العلم بہ ویعلوہ دائما فی مشارق الارض ومغاربھا۔”

یہ الفاظ اپنے قلمِ مبارک سے شیخ الحدیث علامہٴ جلیل حضرت مولانا محمد مالک کاندھلوی قدس سرہ نے لکھے ہیں، اور خوشی و مسرت کے اس بارے میں جو آثار ان کے چہرے مبارک پر تھے وہ بیان سے باہر ہیں، اور بہت ہی محبت و شفقت اور اکرام و اعزاز کا معاملہ سید محمد علوی صاحب سے کیا جس سے سید صاحب بہت محجوب بھی ہوئے، پھر حضرت مولانا عبیداللہ اور حضرت مولانا عبدالرحمن اشرفی کے ہاں دار الاہتمام میں گئے، انہوں نے بھی بہت زیادہ اعزاز و اکرام فرمایا، جامعہ اشرفیہ دکھایا اور دونوں حضرات نے حضرت کاندھلوی کی تقریظ کی تائید و تصدیق کی۔ پھر یہاں سے مولانا سید عبدالقادر آزاد صاحب سے وعدہ تھا، وہاں گئے، انہوں نے جب حضرت کاندھلوی کی تقریظ دیکھی تو بہت خوش ہوئے، اس وقت مولانا آزاد صاحب نے اپنے کچھ رفقاء و علماء کو بھی مدعو کر رکھا تھا، جن میں حضرت شاہ نفیس صاحب، مولانا عبدالغنی صاحب، مولانا علی اصغر صاحب اور مولانا عبدالواحد صاحب بھی تھے، مولانا آزاد صاحب نے سید صاحب کو پیشکش کی کہ جن الفاظ میں آپ چاہیں ہم تقریظ لکھنے کے لئے تیار ہیں۔ جب ہمارے علمی پیشوا حضرت مولانا محمد مالک کاندھلوی نے پوری رات مطالعہ کے بعد اس کتاب پر یہ تقریظ لکھ دی ہے تو پھر جو چاہیں اس کے بارے میں ہم سے لکھوالیں، مگر سید صاحب نے کہا کہ: نہیں! جس طرح آپ لوگ مناسب سمجھیں لکھ دیں، پھر سب نے مشورہ سے ایک مختصر جامع مضمون تیار کیا، جسے اسی وقت ہاتھوں ہاتھ حضرت نفیس شاہ صاحب مدظلہ العالی نے تحریر فرمادیا، جس کے یہ الفاظ ملاحظہ ہوں:

“باننی اصالة عن نفسی ونیابة عن مجلس علماء باکستان واعضائہ المنتشرین بفضل الله فی کل مدینة من مدن باکستان وخارجھا والذی یضم نحو عشرین الف عالم لقد اطلعنا علٰی کتاب مفاھیم یجب ان تصحح الذی صنفہ فضیلة العلامة السید الشریف محمد بن السید علوی مالکی المکی فوجدناہ یحتوی علٰی ما علیہ اھل السنة والجماعة سلفًا وخلفًا، وقد اجاد فیہ وافاد بالادلة القرآنیة والحدیثیة ونرجوا من الله سبحانہ وتعالٰی ان یجمع کلمة المسلمین علی الحق المبین ونحن معہ فی جھادہ فی الدعوة الی الله ونصرة اھل الحق، اھل السنة والجماعة ․․․․․ الخ۔”

مولانا عبدالقادر آزاد صاحب نے تقریظ پر دستخط کئے اور اُوپر مذکورہ بالا چاروں حضرات نے اس پر تائید و تصدیق فرمائی ․․․․․۔”

نیز یہ بھی اندازہ ہوا کہ اس ناکارہ نے تقریظات کے بارے میں جو بات محض ظن و تخمین سے کہی تھی، وہ بڑی حد تک صحیح نکلی، چنانچہ جناب نے مولانا محمد تقی عثمانی زید مجدہ کی تقریظ کا بھی حوالہ دیا ہے، یہ اس ناکارہ کی نظر سے نہیں گزری، مگر اب “البلاغ” (ربیع الاول ۱۴۱۶ھ، اگست ۱۹۹۵ء) میں شائع ہوچکی ہے، اس کی تمہید سے واضح ہے کہ یکسوئی کے ساتھ کتاب کو دیکھنے کا موقع ان کو نہیں ملا، یہ ان کی ذہانت و دقیقہ رسی تھی کہ انہوں نے ایک شب کے طائرانہ مطالعہ میں بھی کتاب کے اصلاح طلب چند پہلووٴں کی نشاندہی کردی، ورنہ ان کے لمحاتِ فرصت میں اس کی گنجائش نہیں تھی، اس لئے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ “البلاغ” ۱۴۱۶ھ میں شائع شدہ حضرت مولانا محمد تقی عثمانی مدظلہ کی تقریظ مع ترجمہ اور اس کے ملاحظات بھی یہاں نقل کردئیے جائیں۔

وہ لکھتے ہیں:

“بسم الله الرحمن الرحیم

شیخ محمد علوی مالکی کی عربی کتاب “المفاہیم یجب ان تصحح” آج کل بعض علمی حلقوں میں موضوعِ بحث بنی ہوئی ہے، بالخصوص اس کے اُردو ترجمہ کی اشاعت کے بعد یہ بحث شدت اختیار کرگئی ہے، اس بحث کے دوران یہ حوالہ بھی دیا جارہا ہے کہ احقر نے اس کتاب پر کوئی تقریظ لکھی تھی، اس بنا پر صورتِ حال کی وضاحت کے لئے درج ذیل تحریر شائع کی جارہی ہے:

اس کتاب کے مصنف شیخ محمد علوی مالکی مکہ مکرمہ کے ایک ممتاز و مشہور عالم شیخ سید علوی مالکی کے صاحبزادے ہیں، ان کے والد سے اکابر علمائے دیوبند مثلاً: احقر کے والدِ ماجد حضرت مولانا مفتی شفیع صاحب، حضرت مولانا بدرِعالم صاحب اور حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری صاحب، رحمہم اللہ، کے تعلقات رہے ہیں، اور انہی تعلقات کی بنا پر ان کے صاحبزادے محمد علوی مالکی علومِ دین کی تحصیل کے لئے کچھ مدت پاکستان میں رہے، اور احقر کے والدِ ماجد اور حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری صاحب سے تلمذ اور استفادے کا شرف حاصل کیا۔ اس زمانہ میں ان سے احقر کی بھی ملاقاتیں رہیں، لیکن ان کے واپس سعودی عرب جانے کے بعد مدتوں ان سے کوئی رابطہ نہ ہوا۔

اب سے چند سال پہلے کی بات ہے کہ اچانک ان کا فون آیا کہ میں کراچی میں ہوں، اور انڈونیشیا سے سعودی عرب جاتے ہوئے صرف آپ سے ایک ضروری بات کرنے کے لئے کراچی میں ٹھہرا ہوں، اور ملاقات کرنا چاہتا ہوں، چنانچہ وہ دارالعلوم تشریف لائے، ان کے ساتھ محترم مولانا ملک عبدالحفیظ صاحب بھی تھے، اس وقت انہوں نے ذکر کیا کہ نجد کے علماء جن مسائل میں غیرضروری تشدد کرتے ہیں، ان کی وضاحت کے لئے انہوں نے “مفاہیم یجب ان تصحح” کے نام سے ایک کتاب لکھی ہے، اور وہ چاہتے ہیں کہ اس کتاب پر برادرِ معظم حضرت مولانا مفتی محمد رفیع صاحب مدظلہم اور احقر تقریظ لکھے، اتفاق سے اس وقت میں انتہائی مصروف تھا اور ایک دن بعد ایک سفر پر جانے والا تھا۔ احقر نے عذر کیا کہ اس مختصر وقت میں کتاب کو پڑھنا اور تقریظ لکھنا میرے لئے مشکل ہوگا، اس پر انہوں نے عالمِ عرب اور پاکستان کے بعض علماء کی تقریظات دکھائیں، جن میں کتاب کی بڑی تعریف کی گئی تھی، ان کا کہنا تھا کہ آپ ان تحریروں میں سے کسی پر دستخط کرسکتے ہیں، یا ان کی بنیاد پر چند تائیدی سطریں لکھ سکتے ہیں، جس کے لئے زیادہ وقت درکار نہ ہوگا۔

اس کے جواب میں احقر نے عرض کیا کہ: اگرچہ یہ حضراتِ علماء احقر کے لئے قابلِ احترام ہیں، لیکن تقریظ ایک امانت ہے، اور کتاب کو دیکھے بغیر اس کے بارے میں کوئی مثبت رائے ظاہر کرنا میرے لئے جائز نہیں! انہوں نے اس بات سے اتفاق کیا، لیکن ساتھ ہی یہ اصرار بھی فرمایا کہ میں کسی نہ کسی طرح کتاب پر نظر ڈال کر اس پر ضرور کچھ لکھوں۔

وقت کی تنگی کے باوجود میں نے ان کے اصرار کی تعمیل میں کتاب کے اہم مباحث کا مطالعہ کیا، اس مطالعہ کے دوران جہاں مجھے ان کی بہت سی باتیں درست اور قابلِ تعریف معلوم ہوئیں، وہیں بعض اُمور قابلِ اعتراض بھی نظر آئے، اس لئے میں نے انہیں فون کیا کہ میں کتاب کی کلی تائید و تقریظ سے قاصر ہوں، کیونکہ اس میں بعض اُمور ایسے موجود ہیں جو قابلِ اعتراض ہیں۔ فاضل موٴلف نے مجھ سے کہا کہ میں وہ قابلِ اعتراض اُمور بھی اپنی تقریظ میں شامل کردوں۔ احقر نے پھر یہ درخواست کی کہ یہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ میری تحریر پوری شائع کی جائے اور اس میں کوئی حصہ چھوڑا نہ جائے۔ انہوں نے اس بات کا وعدہ کیا۔ اس کے بعد میں نے ایک تحریر لکھی جس میں کتاب کے قابلِ تعریف اور قابلِ اعتراض دونوں پہلووٴں کی ممکنہ حد تک وضاحت کی کوشش کی۔ میرے برادرِ بزرگ حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب مدظلہم نے بھی کتاب کے متعلقہ حصوں کو دیکھنے کے بعد اس تحریر سے اتفاق کرتے ہوئے اس پر دستخط فرمائے، اور یہ تحریر موٴلف کے حوالے کردی گئی۔

اس کے بعد مجھے اس بات کا انتظار رہا کہ کتاب کے نئے ایڈیشن میں یہ تحریر شائع ہو، لیکن باوجودیکہ کتاب کے کئی ایڈیشن اب تک نکل چکے ہیں، غالباً اس کے کسی ایڈیشن میں میری یہ تحریر شامل نہیں کی گئی۔

اب جبکہ بعض حضرات نے اس کتاب کا اُردو ترجمہ کرکے اسے پاکستان میں شائع کیا تو میرے بارے میں بعض جگہ یہ حوالہ بھی دیا گیا کہ ہم نے بھی اس کتاب پر تقریظ لکھی تھی۔ اس لئے عزیز گرامیٴ قدر مولانا محمود اشرف عثمانی صاحب سلّمہ نے ضرورت محسوس کی کہ ہماری اس تحریر کا اُردو ترجمہ شائع کردیا جائے، تاکہ لوگوں کو معلوم ہوسکے کہ ہماری تحریر میں کیا بات لکھی گئی تھی۔

چنانچہ انہوں نے ہماری اس عربی تحریر کا سلیس اور واضح ترجمہ کیا ہے، جو ذیل میں پیش کیا جارہا ہے، اس کے ساتھ ہی شروع میں اہلِ علم کے لئے اصل عربی تحریر کا متن بھی شائع کیا جارہا ہے۔

یہاں یہ بھی واضح رہنا ضروری ہے کہ جب میں نے یہ تحریر لکھی تھی تو کتاب عربی میں شائع ہو رہی تھی، اور اس کے مخاطب اہلِ علم تھے، اس لئے کتاب کے اچھے یا برے پہلووٴں کی طرف مختصر اشارہ کرکے کتاب میں اس تحریر کی اشاعت میں ہم نے کوئی حرج نہیں سمجھا۔ لیکن چونکہ کتاب کے قابلِ اعتراض پہلو عوام کے لئے مضر اور مغالطہ انگیز ہوسکتے تھے، اس لئے ہماری رائے میں اس کے اُردو ترجمہ کی اشاعت مناسب نہیں تھی، لہٰذا اس تحریر کے اُردو ترجمہ کو کتاب کے اُردو ترجمہ پر تقریظ ہرگز نہ سمجھا جائے، اور نہ تقریظ کی حیثیت میں اسے شائع کرنے کی ہماری طرف سے اجازت ہے۔

یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ اصل عربی تحریر مصروفیت اور عجلت کی حالت میں لکھی گئی تھی، جس میں اشارے کافی سمجھے گئے۔ کتاب کے ہر ہر جز پر تبصرہ اس وقت پیشِ نظر نہیں تھا، لہٰذا یہ بات خارج از امکان نہیں کہ جن باتوں پر اس تحریر میں تنقید کی گئی ہے، کتاب میں اس کے علاوہ بھی قابلِ تنقید حصے موجود ہوں، والله سبحانہ وتعالی الموفق!

محمد تقی عثمانی

۵/صفر المظفر ۱۴۱۶ھ

بسم الله الرحمن الرحیم

تقریظ علٰی کتاب

“مفاہیم یجب ان تصحح”

الحمد لله رب العالمین، والصلٰوة والسلام علٰی سیدنا ومولانا محمد النبی الامین، وعلٰی آلہ واصحابہ اجمعین، وعلٰی کل من تبعھم باحسان الٰی یوم الدین۔

وبعد! فقد طلب منا الاخ الکریم فضیلة العلامة المحقق الشیخ السید محمد علوی المالکی، حفظہ الله ورعاہ، ان اتقدم الیہ برأی فی کتابہ “مفاھیم یجب ان تصحح” وما ذالک الا من تواضعہ لله، فانہ من اسرة علمیة نبیلة ھی اجل من ان تحتاج الٰی تقریظ مثلنا لموٴلفاتہ، وان والدہ رحمہ الله تعالٰی معروف فی عالم الاسلام بعلمہ وفضلہ، وورعہ وتقواہ، وانہ بفضل الله تعالٰی خیر خلف لخیر سلف، بارمہ، ورجاء لدعواتہ، وابداء لما اخذنا من السرور والاعجاب بأکثر مباحثہ، وما سنح لنا من الملاحظات فی بعضھا۔

ان الموضوعات التی تناولھا الموٴلف بالبحث فی ھذا الکتاب موضوعات خطیرة ظھر فیھا من الافراط والتفریط ما فرق کلمة المسلمین، وآثار الخلاف والشقاق بینھم بما یتألم لہ کل قلب موٴمن، وقلما یوجد فی ھذہ المسائل من ینقحھا باعتدال واتزان، ویضع کل شیء فی محلہ، سالکا مسلک الانصاف، محترزا عن الافراط والتفریط۔

وان کثیرا من مثل ھذہ المسائل مسائل فرعیة نظریة لیس مدارا للایمان، ولا فاصلة بین الاسلام والکفر، بل وان بعضھا لا یسئل عنھا فی القبر، ولا فی الحشر، ولا عند الحساب، ولو لم یعلمھا الرجل طول حیاتہ لم ینقص ذالک فی دینہ ولا ایمانہ حبة خردل، مثل حقیقة الحیاة البرزخیة وکیفیتھا، وما الی ذالک من المسائل النظریة والفلسفیة البحتة، ولکن من الموٴسف جدا انہ لما کثر حولھا النقاش وطال الجدال، اصبحت ھذہ المسائل کأنھا من المقاصد الدینیة الاصلیة، او من عقائد الاسلام الاساسیة فجعل بعض الناس یتشدد فی امثال ھذہ المسائل، فیرمی من یخالف رأیہ بالکفر والشرک والضلال، وان ھذہ العقلیة الضیقة ربما تتسامح وتتغاضی عن التیارات الھدامة التی تھجم الیوم علٰی اصول الاسلام واساسہ، ولکنھا تتحمس لھذہ الابحاث النظریة الفرعیة اکثر من حماسھا ضد الالحاد الصریح، والاباحیة المطلقة، والخلاعة المکشوفة، والمنکرات المستوردة من الکفار والاجانب۔

لقد تحدث اخونا العلامة السید محمد علوی المالکی حفظہ الله عن ھذہ العقلیة بکلام موفق، واثبت ان من یوٴمن بکل ما علم من الدین بالضرورة، فانہ لا یجوز تکفیرہ لاختیارہ بعض الآراء التی وقع فیھا الخلاف بین علماء المسلمین قدیما۔

ثم تحدث عن بعض ھذہ المسائل الفرعیة التی وقع فیھا الخلاف بین المسلمین، وطعن من اجلھا بعضھا بعضا بالتکفیر والتضلیل، مثل مسئلة التوسل فی الدعاء، والسفر لزیارة قبر النبی صلی الله علیہ وسلم، والتبرک بآثار الانبیاء والصحابة والصالحین، وحقیقة النبوة والبشریة، والحیاة البرزخیة، وان الموقف الذی اختارہ فی ھذہ المسال موقف سلیم موٴید بالدلائل الباھرة من الکتاب والسنة، وتعامل الصحابة والتابعین والسلف الصالحین، وقد اثبت بادلة واضحة واسلوب رصین، ان من یجیز التوسل فی الدعاء، او التبرک بآثار الانبیا والصلحاء، او یسافر لزیارة روضة الرسول صلی الله علیہ وسلم ویعتقدہ من اعظم القربات، او یوٴمن بحیاة الانبیاء فی قبورھم حیاة برزخیة تفوق الحیاة البرزخیة الحاصلة لمن سواھم، فانہ لا یقترف اثما فضلا عن ان یرتکب شرکا او کفرا، فان کل ذالک ثابت بادلة القرآن والسنة، وتعامل السلف الصالح واقوال جمہور العلماء الراسخین فی کل زمان۔

وکذالک تحدث الموٴلف عن الاشاعرة ومسلکھم فی تأویل الصفات، لا شک ان الموقف الاسلم فی ھذا ھو ما یعبر عنہ المحدثون بقولھم: “امرھا بلا کیف” ولکن التأویل اتجاہ ادّی الیہ اجتھاد الاشاعرة حفاظا علی التنزیہ، ومعارضة للتشبیہ، وما اداھم الیٰ ذالک الا شدة تمسکھم بعقیدة التوحید، وصیانتھا عن شوائب التجسیم، وقد نحا ھذا المنحی کثیر من فطاحل العلماء المتقدمین الذین لا ینکر فضلھم الا جاھل او مکابر، فکیف یجوز رمی ھوٴلاء الاشاعرة بالکفر والضلال، واخراجھم من دائرة اھل السنة، واقامتھم فی صف المعتزلة والجھمیة، اعاذنا الله من ذالک!

وما احسن ما قالہ اخونا الموٴلف فی ھذا الصدد:

افما کان یکفی ان یقول المعارض: انھم رحمہم الله اجتھدوا فأخطاوٴا فی تأویل الصفات، وکان الاولٰی ان لا یسلکوا ھذا المسلک، یدل ان ترمیھم بالزیغ والضلال، نغضب علٰی من عدھم من اھل السنة والجماعة۔ (ص:۳۹)

وان ھذا المنھج للتکفیر الذی سلکہ الموٴلف سلمہ الله فی امثال ھذہ المسائل، لمنھج عادل لو اختارہ المسلمون فی خلافاتھم الفرعیة بکل سعة فی القلب ورحابة فی الصدر، لانحلت کثیر من العقد، وفشلت کثیر من الجھود التی یبذلھا الاعداء فی التفریق بن المسلمین۔

ثم لا بد من ذکر الملاحظات التی سنحت لنا خلال مطالعة ھذا الکتاب، ولا منشأ لھا الا اداء واجب الود والنصح لله، وامتثال امر الموٴلف نفسہ، وھی کالتالی:

۱:… ان المباحث التی تکلم عنھا الموٴلف حفظہ الله، مباحث خطیرة قد اصبحت حساسة للغایة ووقع فیھا من الافراط والتفریط ما وقع، وان ترمیم ناحیة ربما یفسد الناحیة الاخری والترکیز علی جھة واحدة قد یفوت حق الجھة الثانیة، فالمطلوب من المتکلم فی ھذہ المسائل ان یأخذ باحتیاط بالغ، ورعایة للجانبین، ویکون علٰی حذر ممن یستغل عباراتہ لغیر حق۔

وبما ان ھذا الکتاب متجہ الٰ ردّ الغلو فی تکفیر المسلمین ورمیھم بالشرک من اجل تعظیمھم ومحبتھم للرسول الکریم صلی الله علیہ وسلم، او الاولیاء والصلحاء، فمن الطبیعی ان لا یکون فیہ ردّ مبسوط علٰی من یغلو فی ھذا التعظیم غلوا نھی عنہ الکتاب والسنة، وعلماء الشریعة فی کل زمان ومکان، ومع ذالک، کان من الواجب فیھا اریٰ نظرا الٰی خطورة الموضوع، ان یکون فیہ المام بھذہ الناحیة ایضا، فیرد فیہ، ولو بایجاز، علٰی من یجاوز الحد فی ھذا التعظیم بما یجعلہ موھما للشرک علی الاقل۔

۲:… وجدنا فی بعض مواضع الکتاب اجمالا فی بعض المسائل المھمة ربما یخطی بعض الناس فھمہ، فیستدلون بذالک علٰی خلاف المقصود، ویستغلونہ لتأیید بعض النظریات الفاسدة، ومنھا مسئلة “علم الغیب”، فان الموٴلف حفظہ الله تعالٰی مر علیھا مرا سریعا، فذکر ان علم الغیب لله سبحانہ وتعالٰی، ثم اعقبہ بقولہ: “وقد ثبت ان الله تعالٰی علم نبیہ من الغیب ما علمہ، واعطاہ ما اعطاہ” وھذا کلام حق ارید بہ انباء الغیب الکثیرة التی اوحاھا الله سبحانہ وتعالٰی الٰی نبیہ الکریم صلی الله علیہ وسلم، ولکن من الناس من لا یکتفی بنسبة ھذہ الانباء الیہ صلی الله علیہ وسلم، بل یصرح بکونہ علیہ السلام عالم الغیب، علما محیطا بجمیع ما کان وما یکون الی قیام الساعة، فنخشی ان یکون ھذا الاجمال موھما الی ھذہ النظریة التی طال رد جمہور علماء اھل السنة علیھا۔

۳:… وکذالک قال الموٴلف فی نبینا الکریم صلی الله علیہ وسلم: “فانہ حی الدارین دائم العنایة بامتہ، متصرف باذن الله فی شوٴونھا، خبیر بأحوالھا، تعرض علیہ صلوات المصلین علیہ من امتہ ویبلغہ سلامھم علٰی کثرتھم۔” (ص:۹۱) والظاھر انہ لم یرد من التصرف التصرف الکلی المطلق، ولا من کونہ “خبیرا بأحوالھا” العلم المحیط التام بجمیع الجزئیات، فان ذالک باطل لیس من عقائد اھل السنة، وانما اراد بعض التصرفات الجزئیة الثابتة بالنصوص، کما یظھر من تمثیلہ بعرض الصلوات والسلام علیہ، واجابتہ علیھا، ولکن نخشی ان یکون التعبیر موھما لخلاف المقصود، ومتمسکا لبعض المغالین فی الجانب الآخر۔

۴:… لقد احسن الموٴلف، کما سبقت الاشارة منا الٰی ذالک، فی تأکیدہ علی الاحتیاط اللازم فی امر تکفیر مسلم، فلا یکفر مسلم ما دام یوجد لکلامہ محمل صحیح، او محمل لا یوجب التکفیر علی الاقل، ولکن التکفیر شیء، ومنع الرجل من استعمال الکلمات الباطلة او الموھمة شیء آخر، والاحتیاط فی التکفیر الکف عنہ ما وجد منہ مندوحة، ولکن الاحتیاط فی الامر الثانی ھو المنع من مثل ھذہ الکلمات بتاتا۔

ومن ذالک قول الموٴلف: “فالقائل: یا نبی الله اشفنی واقض دینی، لو فرض ان احدا قال ھذا، فانما یرید اشفع لہ فی الشفاء، وادع لی بقضاء دینی، وتوجہ الی الله فی شأنی، فھم ما طلبوا منہ الا ما اقدرھم الله علیہ وملکھم ایاہ من الدعاء والتشفع، فالاسناد فی کلام الناس من المجاز العقلی۔” (ص:۹۵) وھذا تأویل حسن للتخلص من التکفیر، وھو من قبیل احسان الظن بالموٴمنین، ولکن حسن الظن ھذا انما یتاتی فیمن لا یرفض تأویل کلامہ بذالک، اما من لا یرضی بھذا التأویل بنفسہ، کما ھو واقع من بعض الناس، فیما اعلم، فکیف یوٴول کلامہ بما لا یرضٰی بہ ھو؟

وبالتالی، فان ھذا التأویل وان کان کافیا للکف عن تکفیر القائل، ولکنہ ھل یشجّع علی استعمال ھذہ الکلمات؟ کلا! بل یمنع من ذالک تحرزا من الابھام والتشبہ علی الاقل، کما نھی رسول الله صلی الله علیہ وسلم عن استعمال لفظ “عبدی” للرقیق لکونہ موھما، فالواجب عندی علٰی من یلتمس التأویل لھوٴلاء القائلین ان یصرح بمنعھم عن ذالک، لئلا یشجعھم تأویلہ علی استعمال الکلمات الموھمة، فان من یرعی حول الحمٰی اوشک ان یقع فیہ، ومثل ذالک یقال فی کل توسل بصورة نداء، وباطلاق “مفرج الکربات” و “قاضی الحاجات” علٰی غیر الله سبحانہ وتعالٰی۔

۵:… قد ذکر الموٴلف حفظہ الله ان البدعة علٰی قسمین: حسنة وسیئة! فینکر علی الثانی دون الاول، وان ھذا التقسیم صحیح بالنسبة للمعنی اللغوی لکلمة البدعة، وبھذا المعنی استعملھا الفاروق الاعظم رضی الله عنہ حین قال: “نعمت البدعة ھذہ!” واما البدعة بمعناھا الاصطلاحی، فلیست الا سیئة، وبھذا المعنی قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: کل بدعة ضلالة!”

۶:… لقد کان الموٴلف موفقا فی بیان الخصائص النبویة حیث قال: “والانبیاء صلوات الله علیہم وان کانوا من البشر یأکلون ویشربون ․․․․․ وتعتریھم العوارض التی تمر علی البشر من ضعف وشیخوخة وموت، الا انھم یمتازون بخصائص ویتصفون بأوصاف عظیمة جلیلة ھی بالنسبة لھم من الزم اللوازم ․․․․․ الخ۔” (ص:۱۲۷) ثم ذکر عدة خصائص الانبیاء، ولا سیما خصائص النبی الکریم صلی الله علیہ وسلم لئلا یزعم زاعم انہ علیہ السلام یساوی غیرہ فی الصفات والاحوال، والعیاذ بالله! والحق ان خصائصہ صلی الله علیہ وسلم فوق ما نستطیع ان نتصورہ ولکننا نعتقد ان رسول الله صلی الله علیہ وسلم اجل من ان نحتاج فی اثبات خصائصہ الی الروایات الضعیفة، فان خصائصہ الثابتة بالقرآن والسنة الصحیحة اکثر عددا، واعلٰی منزلة، واقویٰ تأثیرا فی القلوب من الخصائص المذکورة فی بعض الروایات الضعیفة، مثل ما روی انہ لم یکن لہ ظل فی شمس ولا قمر، فانہ روایة ضعیفة عند جمہور العلماء والمحدثین۔

۷:… یقول الموٴلف سلمہ الله تعالٰی: “ان الاجتماع لأجل المولد النبوی الشریف ما ھو الا امر عادی، ولیس من العبادة فی شیء، وھذا ما نعتقدہ وندین الله تعالٰی بہ۔” ثم یقول: “ونحن ننادی بأن تخصیص الاجتماع بلیلة واحدة دون غیرھا ھو الجفوة الکبریٰ للرسول صلی الله علیہ وسلم۔”

ولا شک ان ذکر النبی الکریم صلی الله علیہ وسلم وبیان سیرتہ من اعظم البرکات، وافضل السعادات اذا لم یتقید بیوم او تاریخ، ولا صحبہ اعتقاد العبادة فی اجتماع یوم مخصوص بھیئة مخصوصة، فالاجتماع لذکر رسول الله صلی الله علیہ وسلم بھذہ الشروط جائز فی الاصل، لا یستحق الانکار ولا الملامة۔

ولکن ھناک اتجاھا آخر ذھب الیہ کثیر من العلماء المحققین المتورعین، وھو ان ھذا الاجتماع، وان کان جائزا فی نفس الامر، غیر ان کثیرا من الناس یزعمون انہ من العبادات المقصودة، او من الواجبات الدینیة، ویخصون لہ ایاما معینة، علٰی ما یشو بہ بعضھم باعتقادات واھیة، واعمال غیر مشروعة، ثم من الصعب علٰی عامة الناس ان یراعوا الفروق الدقیقة بین العادة والعبادة۔

فلو ذھب ھوٴلاء العلماء، نظرا الیہ ھذہ الامور التی لا ینکر اھمیتھا، الٰی ان یمتنعوا من مثل ھذہ الاجتماعات رعایة لاصل سد الذرائع، وعلما بأن درء المفاسد اولٰی من جلب المصالح، فانھم متمسکون بدلیل شرعی، فلا یستحقون انکارا ولا ملامة۔

والسبیل فی مثل ھذہ المسائل کالسبیل فی المسائل المجتھد فیھا، یعمل کل رجل ویفتی بما یراہ صوابا ویدین الله علیہ، ولا یفوق سھام الملامة الی المجتھد الآخر الذی یخالفہ فی رأیہ۔

وبالجملة فان فضلیة العلامة المحقق السید محمد علوی المالکی حفظہ الله تعالٰی ونفع بہ الاسلام والمسلمین، علی الرغم من بعض ھذہ الملاحظات، نقح فی ھذا الکتاب کثیرا من المسائل التی ساء عند بعض الناس فھمھا، فاتی بمفاھیمھا الحقیقة، وادلتھا من الکتاب والسنة، فارجوا ان یدرس کتابہ بعین الانصاف، وروح التفاھم، لا بعماس الجدل والمراء، واسأل الله تعالٰی ان یوفقنا نحن وجمیع المسلمین ان نکون قائمین بالقسط شھداء لله ولو علٰی انفسنا، انہ تعالٰی سمیع قریب مجیب الداعین، وصلی الله تعالٰی علٰی سیدنا ومولانا محمد وآلہ واصحابہ اجمعین!

مفتی محمد رفیع عثمانی

خادم طلبہ بدارالعلوم کراتشی

مفتی محمد تقی عثمانی

رئیس دارالعلوم کراتشی ۱۴

ترجمہ:․․․

“بسم الله الرحمن الرحیم

الحمد لله رب العالمین والصلاة والسلام علی سیدنا ومولانا محمد النبی الامین، وعلی آلہ واصحابہ اجمعین، وعلی کل من تبعھم باحسان الی یوم الدین!

برادر مکرم، علامہ محقق جناب شیخ السید محمد علوی مالکی، حفظہ الله ورعاہ، نے خواہش ظاہر فرمائی ہے کہ ان کی کتاب “مفاہیم یجب ان تصحح” پر ہم اپنی رائے تقریظ کی صورت میں پیش کریں، وہ جس شریف علمی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں، اس کی بنا پر وہ اپنی تصانیف میں ہم جیسوں کی تقریظ سے بے نیاز ہیں، ان کے والد اپنے علم و فضل اور زہد و تقویٰ کی بدولت عالم اسلام میں معروف شخصیت کے حامل تھے اور خود مصنف بحمداللہ اپنے والد گرامی کے جانشین ہیں۔ اس لئے ان کی یہ خواہش درحقیقت ان کی تواضع فی اللہ، علم اور طالبانِ علم سے ان کی محبت، اور ان کی طرف سے تلاشِ حق کی آئینہ دار ہے۔

بہرحال آئندہ سطور کی تحریر کا مقصد ان کی خواہش کی تکمیل بھی ہے اور ان کی دعاوٴں کا حصول بھی، نیز جہاں اس تحریر کا مقصد اپنی مسرت کو ظاہر کرنا ہے، کیونکہ کتاب کے اکثر مباحث کو دیکھ کر ہمیں بہت مسرت ہوئی وہاں اس تحریر کے ذریعہ کتاب کے بعض مباحث کے بارے میں اپنا تبصرہ ظاہر کرنا بھی پیشِ نظر ہے۔

موٴلف نے اپنی کتاب میں جن مسائل کو موضوع بحث بنایا ہے، بلاشبہ وہ نازک موضوعات ہیں، ان مباحث میں افراط و تفریط نے مسلمانوں کے اتحاد کو پارہ پارہ کرکے ان میں اختلاف و افتراق کی فضا کو جنم دیا ہے، جس سے آج ہر موٴمن کا دل دکھا ہوا ہے، ان مباحث میں ایسے افراد کی تعداد بہت کم ہے، جو اعتدال اور توازن کے ساتھ ان مسائل کو پَرکھیں، ہر بات کو اپنی صحیح جگہ پر رکھیں، اور افراط و تفریط سے بچتے ہوئے انصاف کا راستہ اختیار کریں۔

ان مسائل میں اکثر مسائل وہ ہیں جو فروعی بھی ہیں اور نظریاتی بھی، نہ ان پر ایمان کا دار و مدار ہے، نہ یہ مسائل اسلام اور کفر کے درمیان حدِ فاصل کی حیثیت رکھتے ہیں، بلکہ ان میں سے بعض مسائل تو وہ ہیں کہ ان کے بارے میں نہ قبر میں سوال ہوگا، نہ حشر میں، نہ حساب و کتاب کے وقت ان کے بارے میں بازپُرس کی جائے گی۔ اگر کسی شخص کو عمر بھر ان مسائل کا علم نہ ہو تو نہ اس کے دین میں کوئی کمی آتی ہے اور نہ اس کے ایمان میں رائی برابر فرق آتا ہے، جیسے مثلاً: یہ مسئلہ کہ حیاتِ برزخی کی کیا حقیقت اور اس کی کیا کیفیت ہے؟ اس جیسے مسائل محض نظریاتی اور فلسفیانہ حیثیت رکھتے ہیں۔

لیکن کس قدر افسوس کی بات ہے کہ انہی جیسے مسائل میں جب بحثیں کھڑی ہوجاتی ہیں اور طویل مناظرے کئے گئے تو یہی مسائل “دین کے اصلی مقاصد” یا “اسلام کے بنیادی عقائد” سمجھے جانے لگے اور کتنے ہی لوگ ان جیسے مسائل میں تشدد کی راہ اختیار کرکے اپنے مخالفین پر کفر، شرک اور گمراہی کے الزامات عائد کرنے لگے۔ بسااوقات اس انتہاپسندانہ تنگ نظری کا یہ خاصہ ہوتا ہے کہ وہ ان جیسے فروعی نظریاتی مسائل میں تو بہت پرجوش ہوتی ہے، مگر اسلام کے اساسی اصولوں پر حملہ آور ان قوتوں کے مقابلہ میں چشم پوشی سے کام لے کر ان سے صرف نظر کرلیتی ہے جو کھلی دہریت، مادر پدر آزادی اور کھلی عریانی کو پھیلانا، اور کفار و اغیار سے درآمد شدہ منکرات کو فروغ دینا چاہتی ہوں۔

برادرم جناب علامہ سید محمد علوی مالکی -حفظہ اللہ- نے اس ذہنیت کے بارے میں خاص توفیق کے ساتھ گفتگو کی ہے اور یہ بات ثابت کی ہے کہ جو آدمی دین کی تمام ضروریات پر ایمان رکھتا ہو تو محض اس بنا پر اس کی تکفیر جائز نہیں کہ اس نے ان اختلافی مسائل میں کسی ایک جانب کی رائے کو اختیار کرلیا ہے، جن میں علمائے اسلام کے مابین شروع سے اختلاف رہا ہے۔

پھر موٴلف نے ان فروعی مسائل میں سے بعض کا ذکر کیا ہے، جن میں مسلمانوں کے درمیان اختلاف واقع ہوا، اور کچھ لوگوں نے محض ان مسائل کی وجہ سے دوسروں کو کافر یا گمراہ قرار دیا۔ ان مسائل میں دعا میں وسیلہ کا جواز، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر اطہر کی زیارت کی نیت سے سفر کی اجازت، انبیائے کرام، صحابہ اور صلحاء کی نشانیوں سے برکت حاصل کرنا، نبوت، بشریت اور حیاتِ برزخی کی حقیقت میں اختلاف جیسے مسائل شامل ہیں۔

موٴلف نے ان جیسے مسائل میں جو درست موقف اختیار کرلیا وہ بلاشبہ قرآن و سنت کے روشن دلائل، اور صحابہ اور سلف صالحین کے تعامل سے ثابت ہے، موٴلف نے واضح دلائل اور قوی اسلوب کے ساتھ یہ بات ثابت کی ہے کہ جو شخص دعا میں توسل کو جائز سمجھتا ہو، یا انبیاء اور صلحاء کی باقی ماندہ نشانیوں کو باعثِ برکت جانتا ہو، یا روضہٴ اطہر کی زیارت کو باعثِ ثوابِ عظیم سمجھ کر اس کے لئے سفر کرتا ہو، یا انبیاء علیہم السلام کے لئے قبروں میں ایسی حیاتِ برزخی پر ایمان جو دوسروں کے مقابلہ میں کہیں زیادہ بڑھی ہوئی ہے، تو ایسا شخص کسی گناہ کا بھی مرتکب نہیں چہ جائیکہ وہ شرک یا کفر میں مبتلا گردانا جائے، چونکہ یہ سب باتیں قرآن و سنت کے دلائل سے ثابت ہیں، سلف صالحین کا ان پر عمل رہا ہے، اور جمہور علمائے راسخین ہر زمانہ میں اس کے قائل رہے ہیں۔

اسی طرح موٴلف نے اشاعرہ اور ان کی جانب سے صفاتِ باری تعالیٰ میں تأویل کے مسلک پر بھی گفتگو کی ہے، اس میں تو کوئی شک نہیں کہ سب سے بہتر سلامتی کا موقف تو وہی ہے جسے محدثین نے اپنے اس قول سے تعبیر کیا ہے: “امروھا بلا کیف” یعنی بلاکیفیت بیان کئے ان کے قائل رہو، لیکن بہرحال تأویل کا وہ مسلک جسے اشاعرہ نے تشبیہ کے بالمقابل تنزیہ باری تعالیٰ کے پیشِ نظر اجتہادی طور پر اختیار کیا ہے وہ بھی ایک جائز توجیہ ہے، جسے اشاعرہ نے محض عقیدہٴ توحید پر مکمل تمسک اور تجیم کے شبہات سے بچنے کے لئے اختیار کیا، اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ متقدمین میں سے بہت سے ایسے اکابر علماء نے اس مسلک کو اختیار فرمایا ہے، جن کے علم و فضل سے وہی شخص انکار کرسکتا ہے جو یا جاہل ہو، یا حقائق کا منکر، اس لئے ان اشاعرہ پر کفر و گمراہی کی تہمت لگانا یا انہیں اہلِ سنت کے دائرہ سے نکال کر معتزلہ اور جہمیہ کی صف میں لاکھڑا کرنا کیسے جائز ہوسکتا ہے؟ اعاذنا الله من ذالک!

برادر موٴلف نے اس سلسلہ میں کتنی اچھی بات کہی ہے:

“کیا معترض کے لئے اتنا کافی نہیں کہ وہ یہ کہہ دے کہ ان (علمائے اشاعرہ) نے اجتہاد کیا تھا، جس میں ان سے تأویلِ صفات کے مسئلے میں چوک ہوگئی، اور بہتر یہ تھا کہ وہ یہ راستہ اختیار نہ کرتے، بجائے اس کے کہ ہم ان پر کجی اور گمراہی کی تہمتیں لگائیں اور جو شخص انہیں اہل سنت والجماعت میں سے سمجھتا ہو اس پر غضبناک ہوں۔” (ص:۳۹)

ان جیسے مسائل میں موٴلف سلمہ اللہ نے جو فکری راستہ اختیار کیا ہے بلاشبہ وہ اعتدال کا راستہ ہے، جسے اگر مسلمان کشادہ قلبی اور وسعتِ صدر کے ساتھ اختیار کریں تو بہت سی اُلجھنیں دور ہوسکتی ہیں، اور مسلمانوں میں تفرقہ ڈالنے والی دشمن کی کوششوں پر پانی پھیرا جاسکتا ہے۔

اس کتاب کے مطالعہ کے دوران بعض ایسے اُمور بھی سامنے آئے جن کے بارے میں اپنا تبصرہ پیش کرنا ضروری ہے اور اس کا مقصد بھی ادائیگیٴ محبت، جذبہٴ خیرخواہی نیز موٴلف کے حکم کی اطاعت کے سوا کچھ اور نہیں ہے، وہ اُمور درج ذیل ہیں:

ا:…جن مباحث کے بارے میں موٴلف -حفظہ اللہ- نے گفتگو چھیڑی ہے، وہ مباحث نازک بھی ہیں اور انتہائی درجہ کے حساس بھی، ان مسائل میں افراط و تفریط کی بہت گرم بازاری ہوچکی ہے، ان مسائل میں کسی ایک جانب کی اصلاح بعض اوقات دُوسری جانب میں فساد پیدا کردیتی ہے، اور کسی ایک جہت میں پوری توجہ مرکوز کرلینے سے بھی کبھی دُوسری جہت کا حق بالکل ضائع ہوجاتا ہے، لہٰذا ان مسائل میں گفتگو کرنے کے لئے لازم ہے کہ وہ دونوں جانب کا پورا خیال رکھتے ہوئے انتہائی احتیاط کو اپنائے تاکہ اس کی عبارات خلاف حق میں استعمال نہ ہوسکیں۔

چونکہ اس کتاب کا موضوع یہ ہے کہ ان لوگوں کے غلو پر ردّ کیا جائے جو عام مسلمانوں کو کافر قرار دیتے ہیں، یا ان لوگوں کو مشرک قرار دیتے ہیں، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اولیاء و صلحاء کے ساتھ محبت و تعظیم کا معاملہ کرتے ہیں، اس لئے یہ فطری امر ہے کہ کتاب میں ان دُوسرے لوگوں پر تفصیلی ردّ موجود نہ ہو جو اس تعظیم کے اندر ایسے غلو میں مبتلا ہیں، جس سے کتاب و سنت نے بھی منع کیا ہے، اور علمائے شریعت بھی ہر زمانے میں اور ہر جگہ اس پر ردّ کرتے آئے ہیں، مگر اس کے باوجود ہمارے خیال میں موضوع کی اہمیت کے پیشِ نظر یہ بات ضروری تھی کہ اس جانب بھی توجہ دی جاتی اور چاہے مختصراً ہی سہی، مگر ان لوگوں پر ضرور ردّ کیا جاتا جو اس تعظیم میں ایسا غلو کرتے ہیں جو کم از کم موہمِ شرک ضرور ہوجاتا ہے۔

۲:…ہم نے محسوس کیا کہ بعض اہم مسائل میں اتنے اجمال سے کام لیا گیا ہے کہ جس سے لوگوں کو غلط فہمی ہوسکتی ہے، اور وہ اس سے خلافِ مقصود پر استدلال کرتے ہوئے (ان مجمل عبارات کو) اپنے فاسد نظریات کے لئے استعمال کرسکتے ہیں۔ ان مسائل میں سے ایک “علمِ غیب” کا مسئلہ ہے، جس پر موٴلف -حفظہ الله- بہت تیزی سے گزرگئے ہیں، انہوں نے اتنا تو ذکر کیا کہ علمِ غیب اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے لئے (خاص) ہے، مگر اس کے فوراً بعد لکھا:

“یہ بات ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو غیب کا جو حصہ سکھایا تھا وہ سکھادیا اور جو دینا تھا وہ دے دیا۔”

یہ بات تو حق ہے جس سے موٴلف کی مراد یہ ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بذریعہ وحی انباء الغیب کی ایک بڑی تعداد عطا فرمائی۔ لیکن بعض لوگ ان انباء الغیب کی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب اس نسبت پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ وہ صراحتاً یہ بات کہتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم “عالم الغیب” تھے، اور انہیں قیامت تک کا جمیع ما کان وما یکون (جو کچھ ہوچکا اور جو کچھ ہونے والا ہے) کا علمِ محیط حاصل تھا۔ ہمیں ڈر ہے کہ موٴلف کا یہ اجمال کہیں اس نظریہ کا وہم نہ پیدا کردے جس کی جمہور علمائے اہلِ سنت تردید کرتے چلے آئے ہیں۔

۳:… اسی طرح موٴلف نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں تحریر فرمایا ہے:

“بے شک وہ دارین میں زندہ ہیں، اپنی امت کی طرف مسلسل متوجہ ہیں، امت کے معاملات میں اللہ کے حکم سے تصرف فرماتے ہیں، امت کے احوال کی خبر رکھتے ہیں، آپ کی امت کے درود پڑھنے والوں کا درود آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر پیش کیا جاتا ہے، اور ان کی کثیر تعداد کے باوجود ان کا سلام آپ تک پہنچتا رہتا ہے۔” (ص:۹۱)

ظاہر تو یہی ہے کہ تصرف سے موٴلف کی مراد تصرفِ کلی مطلق نہیں، اور نہ امت کے احوال سے باخبر رہنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ کو تمام جزئیات کا علمِ محیط حاصل ہے، کیونکہ ایسا سمجھنا بالکل باطل بھی ہے اور اہلِ سنت والجماعت کے عقائد کے خلاف بھی۔ بظاہر موٴلف کی مراد یہ ہے کہ آپ کے لئے بعض جزئی تصرفات، نصوص سے ثابت ہیں جیسا کہ خود موٴلف نے مثال میں صلاة و سلام کا پیش ہونا اور آپ کا جواب دینا ذکر کیا ہے۔ لیکن ہمیں ڈر ہے کہ یہ تعبیر بھی خلافِ مقصود کا وہم پیدا کرنے والی ہے، اور دُوسری جانب کے بعض غلو پسند افراد اس کو اپنا مستدل بناسکتے ہیں۔

۴:… ہم پہلے عرض کرچکے ہیں کہ موٴلف نے یہ موقف بہتر اختیار کیا ہے کہ کسی بھی مسلمان کی تکفیر میں پوری احتیاط لازم رکھی جائے، اور جب تک کسی مسلمان کے کلام کا صحیح محمل ممکن ہو یا کم از کم اس کے کلام کا ایسا مطلب مراد لینا ممکن ہو جو اسے کفر سے بچاتا ہو، حتی الامکان اس کی تکفیر نہ کی جائے۔ لیکن (یہ بات ملحوظ رہنی چاہئے) کہ کسی مسلمان کی تکفیر کرنا اور بات ہے اور مسلمان کو باطل کلمات یا موہم کلمات سے روکنا دُوسرا معاملہ ہے، تکفیر میں تو احتیاط یہ ہے کہ جب تک ممکن ہوسکے تکفیر سے بچا جائے، لیکن دُوسرے معاملے میں احتیاط ہی یہ ہے کہ ان کلمات کے استعمال سے بالکلیہ روکا جائے۔

موٴلف نے اس سلسلے میں لکھا ہے:

“کہنے والے کا یہ کہنا کہ: “اے اللہ کے نبی! مجھے شفا دے دے اور میرے قرض ادا کردے”، اگر فرض کرلیا جائے کہ کسی نے یہی کہا تو بھی تو اس کی یہی مراد ہوگی کہ اے نبی! آپ شفا کے لئے سفارش فرمادیں اور میرے قرض کی ادائیگی کے لئے دعا فرمادیں اور میرے معاملے میں اللہ تعالیٰ کی جانب توجہ فرمائیں، تو انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے صرف وہی چیز طلب کی ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے آپ کو قدرت دی اور مالک بنایا ہے، یعنی دعا اور سفارش، تو عوام کے کلام میں یہ اسناد مجاز عقلی کے قبیل سے ہے۔” (ص:۹۵)

تکفیر سے بچنے کے لئے یہ اچھی تأویل ہے، اور یہ موٴمنین کے ساتھ حسنِ ظن رکھنے پر مبنی ہے، مگر یہ حسنِ ظن وہیں کام دے سکتا ہے جہاں قائل خود اپنے کلام کی اس تأویل کو ردّ نہ کرتا ہو، لیکن اگر کوئی قائل اس تأویل کو بذاتِ خود قبول نہ کرے، جیسا کہ ہمارے علم کے مطابق بعض حضرات کا یہی حال ہے تو پھر اس کے کلام کی وہ تأویل کیسے ممکن ہے جس پر وہ خود راضی نہیں۔

مزید برآں یہ تأویل اگر اس قائل کو تکفیر سے بچا بھی لے تو کیا ان جیسے کلمات کے استعمال کی حوصلہ افزائی کی جاسکتی ہے؟ ہرگز نہیں! بلکہ ان جیسے کلمات سے اس قائل کو روکا جائے تاکہ ایہام شرک اور مشرکین کے ساتھ تشبیہ کم از کم پیدا نہ ہو۔ اس کی مثال یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث شریف میں اپنے غلام کو “عبدی” کہنے سے صرف اس لئے منع فرمایا کہ یہ لفظ موہم تھا۔ (رواہ مسلم، مشکوٰة ص:۴۰۷)

اس لئے ہمارے خیال کے مطابق جو شخص ان قائلین کے کلام میں تأویل کا خواہش مند ہو اس پر واجب ہے کہ وہ صراحتاً انہیں اس جیسے کلام سے روکے تاکہ موہم شرک کلمات کے استعمال کی حوصلہ افزائی نہ ہو، اس لئے کہ جو شخص حمی (سرکاری چراگاہ) کے گرد چراتا ہے اس کے حمی میں چلے جانے کا امکان بہت غالب ہے۔ (اشارة الی الحدیث الذی اخرجہ الشیخان وفیہ: “ومن وقع فی الشبھات وقع فی الحرام، کراعی یرعی حول الحمی یوشک ان یرتع فیہ، الا وان لکل ملک حمی الا ان حمی الله محارمہ!” مشکوٰة المصابیح ص:۲۴۱)

اسی طرح ہر وہ توسل جس میں الفاظِ ندا اختیار کئے جائیں یا غیراللہ کے لئے “مفرجِ مکروبات” یا “قاضی الحاجات” جیسے الفاظ استعمال کئے جائیں، اسی حکم میں داخل ہیں۔

۵:… موٴلف -حفظہ اللہ- نے ذکر کیا ہے کہ بدعت کی دو قسمیں ہیں: حسنہ اور سیئہ، دُوسری قسم منکر ہے مگر پہلی نہیں۔ بدعت کے لغوی معنی کے اعتبار سے یہ تقسیم صحیح ہے، اور سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنے معروف قول: “نعمت البدعة ھذہ!” (رواہ البخاری، مشکوٰة المصابیح ص:۱۱۵) میں بدعت کو اسی لغوی معنی میں استعمال کیا ہے، لیکن بدعت اگر اپنے معنی اصطلاحی میں لی جائے تو وہ سیئہ ہی سیئہ ہے، اور اسی لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “کل بدعة ضلالة!” (رواہ مسلم، مشکوٰة المصابیح ص:۲۷) یعنی ہر بدعت گمراہی ہے۔

۶:… موٴلف نے بتوفیقِ خداوندی اپنی کتاب میں خصائصِ نبویہ کا بھی ذکر کیا اور فرمایا:

“انبیائے کرام علیہم السلام اگرچہ انسانوں میں سے ہوتے ہیں، کھاتے اور پیتے ہیں ․․․․․․ اور ان پر بھی وہ تمام عوارض پیش آتے ہیں جو باقی انسانوں کو پیش آتے ہیں، کمزوری، بڑھاپا، موت وغیرہ، مگر وہ اپنی بعض خصوصیات کے ذریعہ عام انسانوں سے ممتاز ہوتے ہیں، اور ان جلیل القدر عظیم الشان صفات کے حامل ہوتے ہیں جو ان کے حوالہ سے لازم و ملزوم کی حیثیت رکھتی ہیں۔” (ص:۱۲۷)

پھر موٴلف نے انبیائے کرام علیہم السلام اور خصوصاً نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیات ذکر فرمائیں تاکہ کسی کے ذہن میں یہ بات نہ آجائے کہ العیاذ باللہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم صفات اور احوال میں دُوسرے عام انسانوں کے برابر ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیات ہمارے تصورات سے بھی کہیں بالاتر ہیں، لیکن ساتھ ساتھ ہم یہ بھی اعتقاد رکھتے ہیں کہ آپ کی ذاتِ مبارک اس سے بالاتر ہے کہ ہم ضعیف روایات سے آپ کی خصوصیات ثابت کریں۔ اس لئے کہ قرآن کریم اور احادیثِ صحیحہ سے آپ کی جو خصوصیات ثابت شدہ ہیں وہ تعداد میں بھی زیادہ ہیں اور فضیلت میں بھی، نیز قلوبِ انسانی میں ان کی تأثیر، روایاتِ ضعیفہ سے ثابت ہونے والی خصوصیات کے مقابلہ میں کہیں زیادہ قوی ہے، مثلاً: کتاب میں ذکر کردہ یہ روایت کہ آپ کا سایہ مبارک نہ تھا، جمہور علماء اور محدثین کے نزدیک ضعیف ہے۔

۷:… موٴلف سلمہ اللہ لکھتے ہیں:

“مولد نبوی شریف کے لئے اجتماعات عادت پر مبنی ایک معاملہ ہے، اس کا عبادت سے کوئی تعلق نہیں، ہم اسی کا اعتقاد رکھتے ہیں اور فیما بیننا وبین اللہ اسی کے قائل ہیں۔”

پھر آگے لکھتے ہیں:

“ہم اعلان کرتے ہیں کہ صرف ایک رات کے ساتھ اجتماع کو مخصوص کرلینا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بڑی بے وفائی ہے۔” (ص:۲۲۵)

اس میں کوئی شک نہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذِکرِ مبارک اور آپ کی سیرتِ مبارکہ کا بیان انتہائی بابرکت اور اور باعثِ سعادت عمل ہے، جبکہ اسے کسی خاص دن یا خاص تاریخ کے ساتھ مقید نہ کیا جائے، اور یہ بھی اعتقاد نہ ہو کہ کسی خاص دن میں، کسی خاص ہیئت کے ساتھ اجتماع کرنا عبادت ہے، ان شروط کا لحاظ رکھتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذِکرِ مبارک کے لئے اجتماع فی نفسہ جائز ہے، جو انکار یا ملامت کا مستحق نہیں۔

لیکن یہاں ایک اور نقطہ نظر ہے جسے محقق اور اہلِ تقویٰ علماء کی ایک بڑی جماعت نے اختیار فرمایا، اور وہ یہ کہ یہ اجتماع خواہ فی نفسہ جائز ہو، لیکن بہت سے لوگ اسے عباداتِ مقصودہ یا واجباتِ دینیہ میں سے سمجھتے ہیں، اور اس کے لئے مخصوص دنوں کو متعین کیا جاتا ہے، اور پھر اس میں غلط اعتقادات اور ناجائز افعال کا ارتکاب کیا جاتا ہے، مزید برآں عام لوگوں سے یہ توقع رکھنا کہ وہ عادت اور عبادت کے درمیان دقیق فرق کا خیال رکھیں گے، بڑا مشکل ہے، لہٰذا ان مذکورہ بالا اُمور کے پیشِ نظر کہ جن کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا، اگر ان متقی علمائے کرام نے یہ موقف اختیار فرمایا کہ سدِّ ذرائع اور جلبِ مصالح پر دفعِ مفاسد کو مقدم رکھنے جیسے اُصولوں کی بنا پر ان جیسے اجتماعات سے رکنا ہی ضروری ہے، تو یقینا ان کا موقف دلیلِ شرعی پر مبنی ہے اور ان پر انکار و ملامت بھی ہرگز جائز نہیں۔

ان جیسے مسائل میں وہی راستہ درست ہے جو مجتہد فیہ مسائل میں اختیار کیا جاتا ہے کہ ہر آدمی اپنے عمل اور فتویٰ میں وہ راستہ اختیار کرے جو اس کی نگاہ میں درست ہے اور جس کا وہ فیما بینہ وبین اللہ جواب دہ ہوگا، اور اسے چاہئے کہ دُوسرے اجتہادی موقف کے قائل حضرات پر ملامت کے تیر برسانے سے گریز کرے۔

خلاصہ یہ کہ ہم نے مذکورہ تبصرہ میں جو گزارشات پیش کی ہیں، ان کو ملحوظ رکھتے ہوئے محترم جناب علامہ محقق السید محمد علوی المالکی -حفظہ الله ونفع بہ الاسلام والمسلمین- نے اپنی کتاب میں ان بہت سے دلائل کو منقح کیا ہے جن کے سمجھنے میں لوگوں کو غلطی ہوتی ہے۔ موٴلف نے ان کا حقیقی مفہوم کتاب و سنت کے دلائل کی روشنی میں ذکر کیا ہے۔

ہم اُمید کرتے ہیں کہ ان کی کتاب مخاصمت اور مخالفت کے جوش کے بجائے انصاف کی آنکھ سے مفاہمت کی فضا میں پڑھی جائے گی۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اور تمام مسلمانوں کو اس کی توفیق عطا کرے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے لئے حق کی گواہی دیتے ہوئے انصاف قائم کرنے والے بنیں، اگرچہ ہمارے اپنے خلاف ہی کیوں نہ ہو؟ انہ تعالٰی سمیع قریب مجیب الداعین وصلی الله تعالٰی علٰی سیدنا ومولانا محمد وآلہ واصحابہ اجمعین!”

مفتی محمد رفیع عثمانی

رئیس جامعہ دارالعلوم کراچی

مفتی محمد تقی عثمانی

خادم الطلبہ بدارالعلوم کراچی

یہی قصہ مولانا محمد مالک کاندھلوی کے ساتھ ہوا، کہ ان کو بھی ایک رات کی مہلت ملی، چونکہ ان کو کتاب کے اصل ہدف سے پہلے ہی آگاہ کردیا گیا تھا کہ یہ کتاب تکفیر کرنے والے سلفی متشددین کی اصلاح کے لئے لکھی گئی ہے، اس لئے انہوں نے اسی نقطہ نظر سے سرسری دیکھا اور راتوں رات تقریظ لکھ کر صبح ناشتہ پر آپ کے حوالہ کردی، مرحوم زندہ ہوتے اور متنازع فیہ نکات کے بارے میں ان سے رجوع کیا جاتا تو ان کی رائے مولانا محمد تقی صاحب سے مختلف نہ ہوتی، باقی بزرگوں نے مولانا مرحوم کی بھرپور تقریظ دیکھ کر ان کے احترام میں کتاب کو پڑھنے کی ضرورت ہی نہ سمجھی، حد یہ کہ ایک بزرگ نے اپنی طرف سے اصالةً اور بیس ہزار علماء کی جانب سے نیابتاً صاد کردیا، یہ شاید اپنی نوعیت کی منفرد اور بے نظیر مثال ہوگی۔

۳:… آنجناب نے “اکابر کا مسلک و مشرب” نامی رسالہ کے بارے میں (جس کا ذکر میری تحریر میں اسطرداداً آگیا تھا) رائے طلب فرمائی ہے، اور یہ کہ “جو اصلاحات تجویز کی جائیں ان پر عمل کیا جائے گا، بشرطیکہ مقصودِ رسالہ کے خلاف نہ ہو” یہ ایک مستقل اور تفصیل طلب موضوع ہے، تاہم یہ ناکارہ اتنا عرض کردینا کافی سمجھتا ہے کہ اس ناکارہ کے خیال میں “مقصودِ رسالہ” ہی محلِ نظر ہے، جن حضرات نے ہمارے اکابر قدس اللہ اسرارہم کے خلاف فتوے لگائے (اور جن کا سلسلہ تا دَمِ تحریر پوری حدت و شدت کے ساتھ جاری ہے) ان کو اس سے باز رکھنے کی کوشش کی جاتی، نہ کہ ہمارے اکابر کے حاشیہ برداروں کو “ودوا لو تدھن فیدھنون” کی راہ پر ڈالنے کی کوشش کی جاتی، اور اہلِ بدعت کو اہلِ سنت منوانے کی راہ اختیار کی جاتی، کیا ہمارے “اکابر کا مسلک و مشرب” یہی تھا؟

۴:… جناب صوفی محمد اقبال دام اقبالہ کے بارے میں اس ناکارہ نے سماعی روایت نقل کردی تھی کہ وہ جناب سید علوی سے بیعت ہوگئے ہیں، میں آنجناب کا ممنون ہوں کہ آپ نے اس کی اصلاح فرمادی کہ سید علوی تو کسی کو بیعت ہی نہیں کرتے، “البتہ یہ صحیح ہے کہ انہوں نے حضرت صوفی صاحب کو سلسلہ شاذلیہ میں اجازت و خلافت دی ہے” انتہٰی بلفظکم الشریف۔ جن صاحب نے مجھ سے نقل کیا تھا، غالباً انہوں نے خلافت و اجازت ہی کو بیعت کرنے سے تعبیر کردیا ہوگا، بہرحال اس اصلاح پر جناب کا تہِ دل سے ممنون ہوں، گو اس ناکارہ کی تقریع اب بھی صحیح ہے، یعنی شیخ علوی سے حضرت صوفی صاحب کی ہم مشربی و ہم رنگی، اور ان کے مسلک و مشرب کی اشاعت کا جذبہ۔

۵:… حضرت مولانا عزیزالرحمن کے مسترشد کا نوٹ کہ “یہ حضرات تبلیغی جماعت کے خلاف ذہن بناتے ہیں” آنجناب نے غلط فہمی قرار دیا ہے، کیونکہ “حضرت موصوف کے ہزاروں مرید اس کام میں لگے ہوئے ہیں، ہاں البتہ یہ بات برحق ہے کہ بعض افراد و عناصر کی ضرور مخالفت کرتے ہوں گے، جنہوں نے فضائلِ درود شریف کو تبلیغی نصاب سے نکالا” چلئے! یہ غلط فہمی ہی سہی، اللہ تعالیٰ کرے کہ ہمارے شیخ نور اللہ مرقدہ کے لوگوں میں کوئی اس مبارک کام کی مخالفت کرنے والا نہ ہو، حضرتِ موصوف کو بھی اس غلط فہمی سے جو ان کے مرید کو ہوئی، رنجیدہ نہ ہونا چاہئے کہ بقول عارف:

دریائے فراواں نشود تیرہ بہ سنگ

عارف کہ برنجد تنک آب است ہنوز

۶:… آنجناب نے شیخ علوی کا ہمارے اکابر خصوصاً ہمارے شیخ نور اللہ مرقدہ کے ساتھ والہانہ تعلق بہت ہی تفصیل کے ساتھ زیبِ رقم فرمایا ہے، اور بریلویت کے ساتھ ان کے تعلق کی تردید فرمائی ہے، اور بریلوی ماہنامہ سے “حق چاریار” میں جو کچھ نقل کیا ہے، اس کی بھرپور تغلیط فرمائی ہے، اس سے اس ناکارہ کو بہت ہی انشراح ہوا، فجزاکم الله احسن الجزاء! چونکہ قاضی مظہر حسین صاحب اس ناکارہ کی طرح سید علوی کے حالات سے واقف نہیں ہوں گے اس لئے ان کا بریلوی پرچہ “جہانِ رضا” پر اعتماد کرکے ان کو بریلوی قرار دینا ایک فطری امر تھا۔ اس لئے ان کو (اور ان کی تقلید میں اس ناکارہ کو) تو معذور سمجھنا چاہئے، “جہانِ رضا” کا یہ پرچہ فروری ۱۹۹۲ء میں شائع ہوا، جس میں بڑے دھڑلے سے سید علوی کو بریلوی ثابت کیا گیا، پورے تین سال کے عرصہ میں شیخ علوی کی جانب سے یا ان کے مداحوں کی جانب سے کوئی تردید نہیں آئی، نہ کسی وضاحت کی زحمت کی گئی، پھر سید علوی کے رسالہ “حول الاحتفال بالمولد النبوی الشریف” کا ترجمہ بریلوی حلقہ کی جانب سے “میلادِ مصطفی” کے نام سے شائع کیا جاتا ہے، ادھر ان کی کتاب کا ترجمہ “اِصلاحِ مفاہیم” کے نام سے ہمارے سامنے آتا ہے، جس میں متنازع فیہ مسائل میں مصنف کا جھکاوٴ بریلویت کی طرف نظر آتا ہے، جبکہ “جہانِ رضا” میں ان کا فقرہ بلاخوفِ تردید نقل کیا جاچکا ہے کہ: “سیدی علامہ احمد رضاخان فاضل بریلوی کو ہم ان کی تصنیفات و تعلیقات کے ذریعہ جانتے ہیں، وہ اہلِ سنت کے علامہ تھے، ان سے محبت کرنا سنی ہونے کی علامت ہے، اور ان سے بغض رکھنا اہلِ بدعت کی نشانی ہے” اور یہ کہ: “سید علوی کو فاضل بریلوی کے خلیفہ ضیاء الدین قادری سے، جو معمر ترین بزرگ تھے، اور جن کی عمر سو سال سے زائد ہے، تمام سلاسل میں اجازت و خلافت حاصل ہے۔”

ان تمام اُمور کو پیشِ نظر رکھ کر انصاف کیجئے کہ ایک خالی الذہن آدمی کو جناب مصنف کے بارے میں کیا رائے قائم کرنی چاہئے؟ جناب قاضی مظہر حسین صاحب پر خفا ہونے کے بجائے ہونا یہ چاہئے تھا کہ خود شیخ علوی مالکی کی جانب سے “جہانِ رضا” کے مندرجات کی تردید کرادی جاتی، اور انتساب الی البریلویت سے اظہارِ براء ت کرادیا جاتا، جب تک یہ نہ ہو میں یا آپ اس کی ہزار تردید کریں اس کی کیا قیمت ہے․․․؟ تین سال سے علیٰ روٴوس الاشہاد اعلان کیا جارہا ہے کہ وہ بریلوی ہیں، اور جنابِ شیخ اپنے سکوت سے اس پر مہرِ تصدیق ثبت فرما رہے ہیں، آپ کی تردید کو کون مانے گا․․․؟ اس لئے اگر بریلویت کے انتساب سے ان کی براء ت کرانی ہے تو خود انہی کی جانب سے براء ت کا اعلان کرائیے، اگر شیخ علوی کی حیات میں یہ کام نہ ہوا تو نہ صرف یہ کہ ہماری توجیہات رائیگاں اور بے سود قرار پائیں گی، بلکہ اندیشہ ہے کہ آپ تینوں بزرگوں (قبلہ صوفی صاحب، آپ اور جناب مولانا عزیزالرحمن صاحب زید مجدہ) کو بھی یار لوگ اسی لپیٹ میں نہ ڈالیں کہ: “یہ تینوں حضرت شیخ محمد مالکی بریلوی کے حلقہ نشین دراصل دیوبندی نما بریلوی تھے، اسی بنا پر دیوبندیوں کو بریلویوں کے ساتھ متحد ہوجانے کے داعی تھے، لہٰذا دیوبندیوں کے مقابلہ میں بریلوی مذہب برحق ہے۔” یہ صرف خدشات نہیں بلکہ آپ حضرات کی دعوتِ اتحاد پر بریلوی صاحبان نے ایسے شوشے چھوڑنے شروع کردئیے، مرورِ ایام کے بعد نہ جانے اس کو کیا کیا رنگ دیا جائے گا؟ الغرض جناب کی یہ وضاحتیں ہم خدام کے تو سر آنکھوں پر! آمنا وصدقنا! لیکن جب تک آپ خود جناب شیخ علوی مالکی کی جانب سے بریلویت سے اظہارِ براء ت نہیں کراتے، اور خصوصاً اس فقرے سے جو فاضل بریلوی مولانا احمد رضاخان کے بارے میں “جہانِ رضا” نے ان سے منسوب کیا ہے، تب تک مخالفوں پر حجت نہیں قائم ہوگی، اور وہ برابر یہ کہتے رہیں گے کہ فروری ۱۹۹۲ء میں شیخ موصوف کے بریلوی ہونے کا مدلل اعلان کیا گیا، لیکن شیخ نے خود خاموشی اختیار کرکے اس کی تائید کردی، اس کے بعد دوسروں کی وضاحت اور عذر، معذرت کا کیا اعتبار․․․؟

آخر میں گزارش کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ اگر میرے کسی لفظ سے قبلہ صوفی صاحب کی، مولانا عزیزالرحمن صاحب کی، آپ کی یا کسی اور کی دل آزاری ہوئی ہو، اس سے بصد ندامت غیرمشروط معافی کا خواستگار ہوں، جن ایسے الفاظ کی نشاندہی کردی جائے، نشاندہی کے بعد ان کو قلم زَد کردوں گا، حلفاً کہتا ہوں! مجھے نہ ان بزرگوں سے پرخاش ہے، نہ کدورت، بلکہ جیسا کہ پہلے بھی لکھ چکا ہوں ان کو اپنے سے بدرجہا افضل جانتا ہوں۔

جہاں تک شیخ علوی کی کتاب “اِصلاحِ مفاہیم” کا تعلق ہے، وہ آپ کے عرب ماحول میں مفید ہو یا نہ ہو، مگر ہمارے یہاں کے ماحول میں مفید ہونے کے بجائے مضر ہے، کاش! کہ اسے یہاں شائع نہ کیا جاتا۔

آنجناب نے ایک بزرگ کا مقولہ نقل فرمایا ہے کہ لدھیانوی کو بھی کسی نے بھڑکادیا ہے، یوں تو اس فقرہ کی کوئی اہمیت نہیں، بے چاری مٹی پر ہزار جوتے رسید کردو، اس کو شکایت نہیں ہوگی، تاہم یہ عرض کردینا بے جا نہیں ہوگا کہ مجھے میرے اکابر کے تقدس نے بھڑکایا تھا، بقول عارف رومی:

گفتگوئے عاشقاں در امر ربّ

جو شش عشق است نے ترکِ ادب

جن “اکابر” کے انتساب سے ہماری دُنیا و آخرت وابستہ ہے، ایک طبقہ ان کی عزت و حرمت سے کھیل رہا ہو، اور ہم بالواسطہ یا بلاواسطہ ان کے پلڑے میں اپنا وزن ڈال رہے ہوں، تو مجھ ایسی مٹی کے لئے بھڑکنا لازم ہے، آپ یا آپ کے محترم بزرگ اس بارے میں جو رائے بھی قائم فرمائیں، آپ کا حق ہے۔

ربنا اغفر لنا ولاخواننا الذین سبقونا بالایمان ولا تجعل فی قلوبنا غلا للذین ٰامنوا ربنا انک رؤف رحیم۔

والسلام

محمد یوسف عفا اللہ عنہ

کراچی

۳:…مولانا زر ولی خان کا خط

محترم و مکرم حضرت مولانا محمد یوسف صاحب لدھیانوی زیدت معالیکم

السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ!

اللہ کرے مزاج سامی بخیر ہوں، آنجناب کا بلادِ عرب کے مشہور اور محقق عالم شیخ محمد علوی مالکی پر تبصرہ اور ان کی کتاب مفاہیم اور اس کے ترجمہ اِصلاحِ مفاہیم پر مبسوط تبصرہ نظر سے گزرا، تبصرہ خالص مخلصانہ مگر حد درجہ غیرناقدانہ اور غیرمحتاط ہے، کیونکہ موصوف کی صرف ایک کتاب بلکہ اس کے ترجمہ کو دیکھ کر انہیں بریلوی اور رضاخانی سمجھنا کم از کم ہمارے بزرگوں کا اور آپ جیسے دانش مند شاہکار لکھنے والے کی شان کے لائق نہیں، یہ دیکھ کر حد درجہ حیرت ہوئی کہ تبصرہ نگار کو شیخ علوی اور ان کی مطبوعہ اور متداول کتب کے بارے میں معلومات نہیں ہیں یا ان کے تبصرہ میں کوئی کام نہیں لیا گیا۔ حضرت اقدس قاضی مظہر حسین صاحب دامت برکاتہم بوجوہ ہم سب کے مخدوم اور کریم بزرگ ہیں، مگر ان کی تحریر اور مزاجِ اقدس کی پُرتشدد جولانیوں میں کبھی کبھی اپنے ہی زیر و زبر ہوجاتے ہیں۔ حضرت والا ہی کے فاضلانہ قلم سے قافلہٴ حق کے سالار محمود الملة والدّین حضرت اقدس مولانا مفتی محمود صاحب رحمة اللہ علیہ کے خلاف “احتجاجی مکتوب بنام مولانا مفتی محمود” جیسا سوہانِ رُوح رسالہ شائع ہوا ہے، جس کے بارے میں حضرت مولانا مفتی احمد الرحمن صاحب سے گفتگو کرتے ہوئے حضرت مولانا مفتی محمود صاحب نے فرمایا تھا کہ: ہم اہلِ باطل سے مقابلہ کرتے ہیں تو بفضلہ تعالیٰ کامیاب ہوتے ہیں، لیکن اپنے جو پیچھے سے چھرا گھونپتے ہیں تو اس سے چلا نہیں جاتا۔ حضرت قاضی صاحب کا اخلاص، تدین، منصب احقاقِ حق و ابطالِ باطل ہم جیسے خوردہ نالائق تو کیا اکابر صلحاء کے ہاں مسلّمہ ہیں، مگر مسلسل ردّ و قدح کے میدان نے شاید ان کی تحریر میں کچھ اس طرح کی شدت بھی پیدا فرمائی ہے۔ آپ نے اپنی پوری تحریر کی اساس و بنیاد حضرت قاضی صاحب کے انکشافات جو مبتدعین کی جاہلانہ اور مقلوب حکایات پر مشتمل ہے، رکھی ہے۔ میرے خیال میں شیخ علوی کی کتاب آپ نے دیکھی ہی نہیں جس میں انہوں نے محدثِ کبیر حضرت اقدس الشیخ السید محمد یوسف بنوری کے ساتھ اپنا شرفِ تلمذ بخاری و ترمذی میں اور حضرت شیخ الحدیث مولانا زکریا صاحب سے موٴطا امام مالک اور سنن ابی داوٴد میں بلکہ صحیح مسلم میں بھی اور حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب اور دیگر اجلہ علمائے دیوبند سے اپنا شرفِ تلمذ کا ذکر فرمایا ہے۔ شیخ کی کتاب کا نام “الطالع السعید المنتخب من المسلسلات والاسانید” ہے، نیز شیخ علوی جامعہ ازہر جانے سے پہلے جامعہ اسلامیہ (مدرسہ عربیہ) میں سال دو پڑھ چکے ہیں، اور اس کا والہانہ عقیدت و محبت بھرا تذکرہ وہ اپنے حضرات میں اور مجالس میں کرتے رہتے ہیں، حضرت شیخ الحدیث صاحب نے “آپ بیتی” وغیرہ میں ان کا محبت بھرا برتاوٴ اور ان پر اعتماد کا اظہار فرمایا ہے، بلاشبہ شیخ علوی ہمارے علمائے دیوبند کی طرح محدثات مرسومہ میں متشدد نہیں ہیں، لیکن وہ رضاخانی یا بریلوی یا بدعتی ہرگز نہیں ہیں، انعقادِ میلاد کا مسئلہ خود اجلہ محدثین اور سیدالطائفہ حضرت حاجی صاحب بلکہ اوائل عمر میں خود حکیم الامت کے ہاں بھی رہا ہے، علماء کو وسیع علم اور بسیط معلومات کے ساتھ کچھ علاقائی مسائل کا بھی کبھی ساتھ دینا ہوتا ہے جس میں خطا و صواب کا ایک پہلو غالب رہتا ہے، خدانخواستہ اگر اس قسم کے تبصرے ہمارے جانے پہچانے اور معروف معتمدین پر بغیر تحقیق اور چھان بین کے ہونے لگیں تو کہیں مولوی یونس سہارنپوری کی طرح شیخ ابوالوفاء افغانی اور اپنے زمانے کے امام شیخ زاہد الکوثری جیسے اکابرِ امت پر بدعتی کے احکام صادر نہ ہونے لگیں، آنجناب کے بارے میں تو کبھی ہم سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ آپ صوفی اقبال صاحب یا مولوی عزیزالرحمن صاحب کی جماعت تبلیغ یا حضرت شیخ الحدیث صاحب کی نسبتِ کریمہ کے دُوسری طرف ملتفت ہونے سے متأثر ہوکر اس قدر غیرمحتاط تبصرہ فرمائیں گے اور یہ کوئی مشکل بات نہیں تھی۔ حضرت مولانا عبدالرزاق صاحب اسکندر دامت برکاتہم اور خود حضرت مولانا حبیب اللہ مختار صاحب مدظلہ شیخ علوی اور ان کے نظریات مجھ سے زیادہ بہت قریب سے جانتے ہیں، کم از کم ان سے مشورہ ضروری تھا، “بینات” جو ملک و ملت کا نمائندہ شمارہ ہے اسے کسی ایک فردِ متشدد کے صرف اخلاص اور تقدس کا سہارا لے کر ایسے رجال کے خلاف استعمال نہیں کرنا چاہئے جن پر ہمارے بڑے اعتماد کرچکے ہیں، میں نے یہ چند سطور حضرتِ والا سے قریبی عقیدت اور حضرت کی تحریر اور شوکت تنقید کا غیر مصیب پہلو دیکھ کر لکھی ہیں، اگر تیر نشانے پر بیٹھا تو مناسب اعتذار بینات میں کرنا ہمارے اسلاف کا وطیرہٴ دیانت رہا ہے، ورنہ سقطة المتاع کی جگہ ردّی کی ٹوکری ہے:

بشنود یا نشنود من ہائے ہوئی می کنم

قاضی صاحب دامت برکاتہم کا انکشاف کہ شیخ علوی بریلوی عقیدے کے حامل اور مولوی احمد رضاخان کے بیک واسطہ خلیفہ ہیں، اور جناب علوی کی فاضل بریلوی کی عقیدت کا یہ عالم ہے کہ وہ احمد رضاخان کے بارے میں لکھتے ہیں:

“نحن نعرف تصنیفاتہ وتألیفاتہ فحبہ علامة السنة وبغضہ علامة البدعة۔”

واقعی یہ انکشاف و تحقیق عجیب تو کچھ نہیں، غریب و مسکین ضرور ہے، کیونکہ اس کا حوالہ مولوی غلام مصطفی مبتدع ہے، اگر واقعی شیخ علوی کو مولوی احمد رضا سے یہ عقیدت ہے تو اجلہ علمائے دیوبند کو انہوں نے مشائخِ حدیث کیسے تسلیم کیا ہے جن کے بارے میں مولوی احمد رضا خان لکھتے ہیں:

“دیوبندی عقیدہ رکھنے والے کافر اور اسلام سے خارج ہیں۔” (فتاویٰ رضویہ ج:۴ ص:۲۲۲)

اور ملفوظات میں لکھتے ہیں کہ:

“مولوی خلیل احمد، رشید احمد اور غلام احمد اور اشرف علی من شک فی کفرھم وعذابھم فقد کفر!”

صرف ضیاء الدین مقدسی سے اوراد میں اجازت لینے سے علوی صاحب علمائے دیوبند کے مخالف اور رضاخانی بدعتی بنتے ہیں، تو حضرت بنوری، حضرت مفتی محمد شفیع اور حضرت شیخ الحدیث اور حضرت مولانا عبدالغفور مدنی رحمہم اللہ سے اسانیدِ حدیث اور اجازتِ اوراد سے اہلِ حق کے قریب کیوں نہیں مانے جاتے؟ امید ہے کہ ان مختصرات پر آپ غور فرمائیں گے:

اندک پیش تو گفتم غم دل ترسیدن

کہ دل آزردہ شوی ورنہ سخن بسیار است

یہ خوش فہمیاں تو اہلِ حق کو بھی لاحق ہوجاتی ہیں، جیسے آپ کی تحریر میں اور قاضی صاحب کی تحریر میں احمد رضا کے لئے “مولانا” اور “مرحوم” کے الفاظ لکھنا بھی مبتدع کے ساتھ لائق برتاوٴ روش کے خلاف ہے، جس کے ردّ میں بہت کچھ مواد موجود ہے، تاہم شیخ علوی کی ضیاء مقدسی بدعتی اور مولوی احمد رضا جیسے مبتدع کے بارے میں خوش فہمی اس درجہ کی ہے ورنہ وہ علمائے دیوبند کے شاگرد اور ان کے مستفید اور ان کے حد درجہ معتقد اور معترف ہیں، جو اِن شاء اللہ العزیز آپ کے سامنے بتدریج آئے گی، والسلام مع التحیة والاکرام! خادمکم الفقیر

محمد زر ولی خان عفی عنہ

۲۴/محرم الحرام ۱۴۱۶ھ

راقم الحروف کا جواب

بسم الله الرحمن الرحیم

بخدمت مخدوم و محترم جناب مولانا زر ولی خان صاحب، زیدت مکارکم

السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ!

۱:… “اِصلاحِ مفاہیم” کے بارے میں اس ناکارہ و نابکار کی جو تحریر شائع ہوئی ہے، اس کے بارے میں آنجناب کا کرامت نامہ موصول ہوکر موجبِ امتنان ہوا، آنجناب کو اس ناکارہ کی “غیرناقدانہ و غیرمحتاط” تحریر سے اذیت پہنچی، اس پر نادم ہوں، میرے قلم سے جو لفظ ایسا نکلا جو رضائے الٰہی کے خلاف ہو، اس پر بارگاہِ الٰہی سے صدقِ دل سے توبہ کرتا ہوں، اور آنجناب سے اور آپ کی طرح دیگر احباب سے، جن کو اس تحریر سے صدمہ پہنچا ہو، غیرمشروط معافی کا خواستگار ہوں۔

۲:… جو جو الفاظ آنجناب کو غیرناقدانہ اور غیرمحتاط محسوس ہوئے ہوں، ان کو نشان زدہ کرکے بھیج دیجئے، میں ان سے رجوع کا اعلان کردوں گا، اور ان کی جگہ جو محتاط الفاظ استعمال ہونے چاہئیں وہ بھی لکھ دئیے جائیں۔

۳:… شائع شدہ تحریر کے صفحہ:۲۹ سے صفحہ:۴۱ تک جو کچھ لکھا ہے، وہ جناب شیخ محمد علوی مالکی کو “ایک خوش عقیدہ عالم” سمجھ کر لکھا ہے، جس کی تصریح صفحہ:۴۱ کے نکتہ:۵ کی پہلی دو سطروں میں موجود ہے، البتہ نمبر:۵ سے جو عبارت شروع ہوتی ہے، وہ جناب قاضی صاحب کے انکشافات پر مبنی ہے، یعنی صرف دو صفحے کی تحریر، لیکن آنجناب نے میری پوری تحریر ہی کو جناب قاضی صاحب کی تقلید کا نتیجہ قرار دے دیا۔

۴:… قاضی صاحب نے “جہانِ رضا” کا حوالہ دیا ہے، جو فروری ۱۹۹۲ء میں شائع ہوا، ساڑھے تین سال بعد اس ناکارہ نے قاضی صاحب کے حوالہ سے اس کا فوٹو شائع کردیا تو سارا نزلہ اس “غریب مسکین” پر آگرا، تین ساڑھے تین سال تک کسی عقیدت کیش کو خیال تک نہیں آیا کہ شیخ علوی کو خانوادہٴ بریلویت سے منسلک کیا جارہا ہے۔

۵:… “جہانِ رضا” میں “خانوادہٴ بریلی کا ایک عرب مفکر” کے عنوان سے “فضیلة الشیخ پروفیسر ڈاکٹر محمد علوی الحسنی المالکی مدظلہ” پر پورا ایک مضمون شائع ہوتا ہے، جس میں اعلان کیا جاتا ہے کہ: “آپ کے دادا اور والد گرامی دونوں شہزادہ اعلیٰ حضرت، مفتی اعظم ہند شاہ مصطفی رضاخان رحمة اللہ علیہ کے خلفا تھے، اور آپ، خلیفہ اعلیٰ حضرت، خطیبِ مدینہ مولانا ضیاء الدین مدنی قادری رحمة اللہ علیہ کے خلیفہ ہیں” پاکستان کے کسی دیوبندی حلقہ سے اس کے بارے میں “صدائے برنخواست” تین سال کے بعد اگر قاضی صاحب “جہانِ رضا” کے اس مضمون کا فوٹو شائع کر رہے ہیں، اور یہ روسیاہ اس کا حوالہ دے ڈالتا ہے، تو یہ روسیاہ بھی مجرم اور قاضی صاحب بھی متشدد، انا لله وانا الیہ راجعون!

۶:… شیخ علوی کی تالیفِ لطیف “الطالع السعید” کا مطالعہ واقعی اس مجہولِ مطلق نے نہیں کیا، اس میں ملاحظہ فرمالیا جائے، اس میں کسی بدعتی کا تذکرہ تو نہیں ہے؟ اگر واقعی ایسا ہو تو کیا تعجب کہ “جہانِ رضا” کی روایت (جس کی تردید آج تک اس روسیاہ کے علم میں نہیں آئی) بھی کچھ غلط نہ ہو، کیونکہ خواجہ حافظ بہت پہلے فرماگئے ہیں:

اے کبک خوش خرام کجا مے روی بناز

غرہ مشو کہ گربہ زاہد نماز کرد․․․

اور یہ بھی ممکن ہے کہ:

معشوق ما بہ مشرب باہر کس برابر است

با ما شراب خورد و با زاہد نماز کرد

۷:… جناب علوی صاحب کی دُوسری کتابوں میں ان کی کتاب “حول الاحتفال النبوی” بھی تو ہے، جس کو بریلوی حضرات نے اُردو میں شائع کیا ہے، آنجناب نے انعقادِ میلاد کے لئے “سید الطائفہ” کا حوالہ تو دے دیا، لیکن یہ نہیں دیکھا کہ اعاظم خلفاء (اور ہمارے اکابرِ دیوبند) کا طرزِ عمل اس بارے میں کیا رہا؟ اور آج شیخ علوی مالکی کی کتاب پر جو “دیوبندی بریلوی اتحاد” کی تحریک چل رہی ہے، اس کا انجام کیا ہوگا․․․؟

۸:… اس ناکارہ نے تو “اِصلاحِ مفاہیم” کے ایک دو حوالے، بطورِ نمونہ دئیے تھے، جس میں موصوف نے اپنے نقطہ نظر سے اختلاف کرنے والوں پر کم عقلی، کم فہمی، تنگ نظری، بدفہمی اور جہالت و تعنت کے فتوے صادر فرمائے ہیں، کتاب کا خود مطالعہ فرمالیجئے اور پھر بتائیے کہ ہمارے اکابر تو ان فتووں کی زد میں نہیں آئے؟

آخر میں سمع خراشی کی معافی چاہتے ہوئے اصلاح کا طالب ہوں، یہ ناکارہ تو واقعی “نہ تین میں ہے نہ تیرہ میں!” میرے اکابر جو فرمائیں ان کا مقلدِ محض ہوں، اور آپ حضرات جو اصلاح فرمائیں وہ سر آنکھوں پر!

اللّٰھم انی اعوذ بک من شر نفسی ومن شر الشیطان وشرکہ، ومن الفتن ما ظھر منھا وما بطن!

والسلام

محمد یوسف عفا اللہ عنہ

۲۹/۱/۱۹۱۶ء

۴:…جناب محمد ابوزبیر سکھر کا خط

بخدمت اقدس حضرت مولانا محمد یوسف صاحب دامت برکاتہم

سلام مسنون!

ماہنامہ بینات کا بندہ مستقل خریدار ہے، محرم الحرام کا رسالہ پڑھ کر بندہ حیران ہوا کہ اِصلاحِ مفاہیم کے سلسلے میں اختلاف کچھ کم ہوا تھا کہ جناب کے مضمون نے تیل چھڑکنے کا کام کیا، آپ تو جانتے ہیں کہ حضرت شیخ نور اللہ مرقدہ کی تڑپ خانقاہوں کو آباد کرنے کی تھی، اس کے لئے آپ نے آخری عمر میں مختلف سفر بھی کئے، حضرت کے وصال کے بعد حضرت شیخ کی تڑپ کو لے کر چلنے والے اگر کوئی ہیں تو وہ یہ ہیں حضرت صوفی صاحب دامت برکاتہم، حضرت مولانا عبدالحفیظ مکی صاحب دامت برکاتہم، حضرت مولانا عزیزالرحمن صاحب دامت برکاتہم، یہ وہ حضرات ہیں جنہوں نے خانقاہوں کو آباد کرنے کے لئے رات دن ایک کردیا اور اس اہم کام کے لئے اپنے آپ کو وقف کردیا اور پوری دُنیا میں جگہ جگہ اس کام کے لئے یہ حضرات سفر فرمارہے ہیں، اس وقت ان حضرات کے اخلاص کی برکت ہے کہ جگہ جگہ ذکر و درود شریف کی مجالس قائم ہوگئیں اور روزانہ لاکھوں مرتبہ درود شریف پڑھا جارہا ہے، غالی مماتیوں نے پوری کوشش کی کہ کسی طرح ان کا راستہ بند کیا جائے، آخر کار ان کو یہ موقع ملا اور اصلاح مفاہیم کے اختلاف کو اتنا بڑھایا گیا گویا کہ کفر و اسلام کی جنگ ہو رہی ہے، اور ہمارے مخلص حضرات نے اپنے رسالے میں اس اختلاف کو بڑھانے کے لئے وقف کردئیے، اس کتاب کو مشہور کرنے والے درحقیقت یہی لوگ ہیں ورنہ اس کتاب کو کوئی جانتا بھی نہیں تھا۔

اور عجیب بات یہ ہے کہ اصلاحِ مفاہیم پر تقریظیں لکھنے والے کئی ایک بزرگ ہیں، لیکن جب تبصرہ کیا جاتا ہے تو سب کو چھوڑ کر حضرت مولانا عزیزالرحمن صاحب دامت برکاتہم پر نزلہ اُتارا جارہا ہے، اس کو ناانصافی نہ کہیں اور تو کیا کہیں آنجناب نے بھی اپنے تبصرہ میں اس ناانصافی کا مظاہرہ کیا ہے، آپ جیسے مخلصوں سے ایسی توقع نہ تھی، یہیں سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ حضرت شیخ کے مشن کو لے کر چلنے والوں کے خلاف ایک بہت بڑی سازش کی جارہی ہے اور ان کو بدنام کیا جارہا ہے، اور اب تو ذاتیات تک نوبت پہنچ گئی ہے، جس کی لپیٹ میں آنجناب بھی ہیں کہ ایک نجی خط کو شائع کرکے عوام کو ان حضرات سے دور کرنے کی کوشش کی ہے، ایک نجی خط تھا اس کو ویسے ہی جواب دے دیا جاتا، آنجناب کا قلم غیروں کے مقابلے میں اپنوں کے لئے بہت سخت تھا۔

دُوسری بات یہ ہے کہ مکی مالکی صاحب نے وہ کتاب سلفیوں کے خلاف لکھی ہے، تبصرہ کے شروع میں آنجناب نے بھی یہی فرمایا لیکن آگے چل کر حضرت قاضی صاحب نے انکشاف فرمادیا کہ وہ ہمارے علماء کے بارے میں لکھا ہے، عجیب بات ہے کہ ہم خود اپنے اکابرین کو گالیاں دلوا رہے ہیں، مکی مالکی صاحب نے اپنی کتاب شفاء الفواد میں ہمارے اکابر کا تذکرہ بڑے عمدہ طریقہ سے کیا ہے، اور “المہند” سے تقریباً چھ صفحات اپنی کتاب میں ذکر کئے اور ہمارے اکابرین کا کبار محدثین فی الہند کے نام سے تذکرہ کیا۔ حضرت مولانا عبدالحفیظ مکی صاحب نے بتایا کہ مکی مالکی صاحب حضرت شیخ کی خدمت میں حاضری دیتے اور حضرت شیخ ان کو سید ہونے کی وجہ سے اپنے ساتھ بٹھاتے تھے، اور آج بھی مالکی صاحب کے ہاں حیات صحابہ کی تعلیم کرائی جاتی ہے۔ حضرت مولانا عبدالحفیظ صاحب مکی نے بتایا کہ مکی مالکی صاحب جب پاکستان تشریف لائے تو میں خود ان کے ساتھ تھا، مختلف علمائے کرام سے انہوں نے اصلاح مفاہیم پر تقریظیں لکھوائیں، تو حضرت مکی صاحب نے عرض کیا کہ: کچھ تقریظیں بریلوی علماء سے بھی لکھوالیں، اس پر مکی مالکی صاحب نے فرمایا کہ: ان میں کوئی بڑا عالم نہیں ہے۔ اب آپ بتائیں ایسے شخص کو جو ہمارے اکابر کی خدمت میں بھی حاضری دے، ہمارے بزرگوں کا تذکرہ بھی کرے اور ہمارے حضرات کی کتاب کی تعلیم بھی کرائے، اس کو ہم زبردستی بریلوی بنانے کی کوشش کریں اور سلفیوں کے متعلق اس نے جو کچھ لکھا، اس کو اپنے اکابر پر چسپاں کردیں، یہ کہاں کا انصاف ہے؟ آنجناب کو اگر مالکی صاحب کے بارے میں کچھ معلوم ہی کرنا تھا تو وہ آپ حضرت مولانا عبدالحفیظ صاحب مکی سے معلوم کرتے، حضرت قاضی صاحب کو ان کے بارے میں کیا علم ہے؟ ان کے حالات تو وہی بتاسکتا ہے جو مکہ شریف میں ان کے قریب ہو، حضرت قاضی صاحب کا حال تو یہ ہے کہ بندہ کی پچھلے مہینہ ملاقات ہوئی، نعل شریف پر کچھ بحث چل پڑی، بندہ نے عرض کیا کہ: میرا تعلق حضرت شیخ نور اللہ مرقدہ سے ہے، اور انہوں نے اپنی کتابوں میں اس کے فوائد ذکر کئے ہیں، اس پر حضرت قاضی صاحب نے فرمایا کہ: حضرت شیخ کو چھوڑ دو، ان کی بات کیوں مانتے ہو؟ حضرت تھانوی کی بات مانو! اب ان کو تو حضرت شیخ سے اتنا بغض ہے اور آنجناب ان کے نقشِ قدم پر چل رہے ہیں۔

پھر مکی مالکی صاحب مکہ شریف میں ہیں، وہاں پر دُنیا بھر کے لوگ آتے ہیں، ہر مسلک والے آتے ہیں، اور ان سے بھی مل لیتے ہیں، اور ملاقات کے دوران مالکی صاحب ان کی تعریف فرمادیتے ہیں، تو کیا اس کی وجہ سے وہ کٹر بریلوی ہوگئے؟

آنجناب نے یہ بھی الزام لگایا کہ حضرت صوفی صاحب دامت برکاتہم نے حضرت شیخ رحمہ اللہ سے بے وفائی کی ہے کہ مالکی صاحب کے حلقہ میں داخل ہوگئے ہیں۔

کاش کہ آنجناب اس کی تحقیق فرمالیتے، مالکی صاحب کی کیا حیثیت ہے، حضرت صوفی صاحب زید مجدہ کے مقابلے میں یہ سراسر حضرت پر بہتان ہے، قیامت کے دن ان جھوٹے الزامات کا جواب دینا ہوگا، حضرت صوفی صاحب دامت برکاتہم پر ہزار مکی مالکی جیسے قربان ہوجائیں۔

ماہنامہ بینات کے مدیر حضرت ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر صاحب بھی مکی مالکی صاحب کے اور ان کی کتاب کے مداح ہیں، آنجناب ان سے تحقیق فرمالیتے۔

چند دن قبل بندہ کا صوبہ سرحد جانا ہوا، کئی علماء سے اس سلسلہ میں بات ہوئی، اکثر علماء کی رائے یہ تھی کہ آنجناب ایک بڑی شخصیت ہیں، آپ کا ایک علمی مقام ہے، آپ کو ایسی باتیں نہیں لکھنی چاہئیں تھیں۔

تحریر کی طوالت کی معافی چاہتا ہوں، اگر کوئی سخت بات محسوس ہو تو اس کی معافی چاہتا ہوں، اللہ پاک تمام قلوب کو حق پر جمع فرمادے، امید ہے کہ دعواتِ صالحہ میں فراموش نہیں فرمائیں گے۔ والسلام محمد ابوزبیر سکھر۔”

محمد ابوزبیر سکھروی کے خط کا جواب

بسم الله الرحمن الرحیم

مخدوم و مکرم! زید مکارکم، السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ!

نامہ کرم لائقِ صد احترام و اکرام ہوا، یہ ناکارہ تو واقعتا “نہ آناں میں ہے نہ ایناں میں”، “نہ تین میں، نہ تیرہ میں۔”

آنجناب کا گرامی نامہ تین مضامین پر مشتمل ہے:

۱:… اکابرِ ثلاثہ (صوفی صاحب، مولانا مکی اور مولانا عزیزالرحمن دامت برکاتہم وزیدت فیوضہم) کا شیخ نور اللہ مرقدہ کے فیض کو عام کرنا، اللہ تعالیٰ ان حضرات کو اخلاص کے ساتھ مزید ترقیات سے نوازیں، یہ ناکارہ ان پر اسی طرح رشک کرتا ہے جس طرح ایک فقیرِبے نوا کسی رئیس پر رشک کرے، اس لئے اس ناکارہ نے بلاتکلف اپنے خط میں لکھا ہے:

“حضرت مولانا عزیزالرحمن مدظلہ کے ساتھ اس ناکارہ و روسیاہ کا بھی تعلق ہے، وہ میرے خواجہ تاش ہیں، اور اس ناکارہ سے کہیں بہتر و افضل ہیں۔”

لہٰذا اس ضمن میں تو آنجناب نے میری معلومات، اور میرے حسنِ ظن میں کوئی اضافہ نہیں فرمایا۔

۲:… شیخ علوی مالکی کے بارے میں جو کچھ لکھا وہ بریلویوں کے پرچہ “جہانِ رضا” کے حوالے سے لکھا، اگر یہ غلط ہے تو بہت آسان بات ہے، شیخ علوی مالکی صاحب سے “جہانِ رضا” کے مندرجات کی تردید کرادی جائے، میں اس تردید کو شائع کرکے اپنی تفریعات واپس لے لوں گا۔

۳:… حضرت صوفی صاحب مدظلہ کے بارے میں ایک ثقہ راوی کی سماعی روایت درج کی ہے، اگر یہ غلط ہے تو اس سے توبہ کرتا ہوں، اور موصوف سے بھی معافی چاہتا ہوں، مناسب ہوگا کہ اس روایت کی تردید حضرت صوفی صاحب زید مجدہ ہی سے کرادی جائے تاکہ اس کو شائع کرکے اس کے ساتھ اپنا توبہ نامہ بھی شائع کردوں۔

ان اُمور کے علاوہ جو بات بھی اس ناکارہ نے غلط لکھی ہو اس کی نشاندہی فرمادی جائے، اس سے بلاتکلف رجوع کرلوں گا، اُمید ہے مزاجِ بعافیت ہوں گے، دعاوٴں کا محتاج اور ملتجی ہوں۔ والسلام

محمد یوسف عفا اللہ عنہ

۲۱/۲/۱۴۱۶ھ

۵:…جناب اختر علی عزیزی کا خط

بسم الله الرحمن الرحیم

تا تو بیدار شوی نالہ کشیدم ورنہ

عشق کاریست کہ بے آہ و فغان نیز کنند

محترمی جناب مولانا محمد یوسف لدھیانوی صاحب زید مجدہ

السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ، مزاج بخیر!

اگرچہ بندہ ماہنامہ “بینات” کا خریدار نہیں تاہم مستقل قاری ضرور ہے، اور آپ کے اداریے اور بیانات محبت سے دیکھتا ہے، لیکن اس شمارہ محرم الحرام میں آپ کا مضمون “کچھ اِصلاحِ مفاہیم کے بارے میں” نظر سے گزرا، اپنے پیر و مرشد، ولی کامل، عالم باعمل حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا مہاجر مدنی نور اللہ مرقدہ کے باغِ تصوف اور چمنستانِ سلوک کے حقیقی وارث و نگران مجاہدِ ملت حضرت مولانا محمد عزیزالرحمن صاحب دامت برکاتہم کے متعلق آپ کے تحریر کردہ مضمون کا مطالعہ کیا، فطری بات ہے کہ حزن و ملال سے رنجیدہ اور غم و فکر سے نڈھال ہوا۔ جنابِ محترم! آپ نے ایک ایسے عظیم مجاہد کے خلاف (بدون تحقیق کے) اوراقِ کثیرہ سیاہ کئے ہیں جو کہ ہر باطل کے خلاف سیفِ بے نیام ہوکر میدانِ عمل میں کودتے ہیں۔ ردّ روافض کا فریضہ ہو، یا مودودی صاحب کے غلط نظریات پر ضربِ کاری کا، مرزائیت کا جنازہ نکالنا ہو یا توہینِ رسالت کیس، ڈاکٹر اسرار احمد کا تعاقب ہو یا پروفیسر طاہر القادری کا مقابلہ ہر موقع پر یہ مجاہد فی سبیل اللہ اغیار اور اسلام دشمن قوتوں کا قلع قمع کرتے ہیں اور مع ہذا مثبت رویہ اور تعمیری سوچ رکھتے ہوئے اکابرِ دیوبند کے نقشِ قدم پر خصوصاً اپنے شیخ قدس سرہ کی نیابت کرتے ہوئے ہزاروں مخلوقِ خدا کو اللہ کا پیارا نام سکھایا اور ان کی وساطت سے ان بندگانِ خدا کا تعلق اپنے مولیٰ سے بن گیا (اگر اغماض نہ فرمائیں تو آپ بھی اس کے قائل ہوں گے)، آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ ان کی توجہ و برکات سے اور اسلوبِ اکابر اپنانے کی وجہ سے راولپنڈی میں (اور جہاں جہاں ان کے مسترشدین ہیں، ان کے علاقوں میں بھی) کتنی مساجد بریلوی مکتبِ فکر والوں سے آزاد ہوکر دیوبندیوں کے ہاتھ آگئی ہیں، خود راقمِ سطور کا جو علاقہ ہے کاٹنگ ضلع مردان، پہلے بریلویوں کے قبضہ میں تھا، ہمارے پانچ چھ علمائے کرام (جو کہ جید مدرس عالم ہیں، اکوڑہ خٹک اور امداد العلوم پشاور سے فارغ التحصیل ہیں اور حضرت مولانا عزیزالرحمن صاحب زید مجدہ سے بیعت ہیں) نے یہاں اپنے شیخ کے اُصول پر کام شروع کیا، الحمدللہ کہ کافی علاقہ بریلویت کے زہر سے بچ گیا، لیکن نہ جھگڑا ہوا، نہ خون خرابہ، اپنے اکابر کے طرز پر ذکر و دورد شریف اور تصوف کا راستہ اختیار کرکے بریلویت کا جنازہ نکل گیا، جس کی تصدیق آپ مولانا عطاء الرحمن صاحب اور مولانا امداد اللہ صاحب مدرسین جامعہ بنوری ٹاوٴن سے کرسکتے ہیں، کیونکہ وہ ہمارے علاقہ کے رہنے والے ہیں۔

میرے محترم! آپ نے کتاب “اِصلاحِ مفاہیم” اور اصل عربی کتاب پر جو تبصرہ کیا ہے، عجیب ہے، آپ نے لکھا ہے: “جن حضرات نے اس پر تقریظات ثبت کی ہیں، اس ناکارہ کا احساس ہے کہ انہوں نے بے پڑھے محض موٴلف کے ساتھ حسنِ ظن اور عقیدت سے مغلوب ہوکر لکھ دی ہیں۔” (ص:۳۰) بات یہ ہے کہ آپ نے صرف کتاب کو دیکھا ہے لیکن کتاب کے پسِ منظر اور پیشِ منظر سے اطلاع حاصل نہیں کی ہے، واقعہ اس کا شاہد ہے کہ جن حضرات نے تقریظات ثبت کی ہیں وہ بعد مطالعہ کتاب کی ہیں، مثلاً: شیخ الحدیث مولانا محمد مالک کاندھلوی مرحوم نے بغیر مطالعہ کے تقریظ کرنے سے معذرت ظاہر کی تھی، پھر جب مطالعہ فرمایا تو تقریظ ثبت فرمائی (اس کی آپ معلومات کرسکتے ہیں)، اس طرح باقی حضرات کے تقاریظ بھی، لہٰذا نتیجہ یہ نکلا کہ آپ کا احساس مبارک مبنی بر غلط ہے اور ان حضرات نے تقریظات کتاب پڑھ کر عقیدہ رکھتے ہوئے اظہارِ حق کی بنیاد پر ثبت فرمائی ہیں۔ پھر آپ نے لکھا ہے: “اگر کسی نے پڑھا ہے تو اس کو ٹھیک طرح سمجھا نہیں، نہ ہمارے اکابر کے مسلک کو صحیح طور پر ہضم کیا ہے ․․․․․ الخ۔” (بینات ص:۳۱) تو یہ بھی علم کے سمندر پر اجارہ داری اور ٹھیکیداری کا دعویٰ ہے کہ صرف آپ کا مطالعہ اور فہم ٹھیک ہے، باقی تمام حضرات (شیخ الحدیث مولانا محمد مالک کاندھلوی، شیخ الحدیث مولانا سید حامد میاں صاحب، خلیفہ شیخ الاسلام حضرت مدنی نور اللہ مرقدہ امیر جمعیت علمائے اسلام، جامعہ العلوم الاسلامیہ کے ناظم تعلیمات مولانا عبدالرزاق اسکندر صاحب، شیخ الحدیث مولانا عبدالکریم صاحب کلاچی، مولانا عبدالقادر آزاد، شیخ الحدیث مولانا مفتی محمد فرید صاحب دامت برکاتہم العالیہ اور ان جیسے بیسیوں حضراتِ علمائے کرام کا ہاضمہ خراب ہے۔ نہ کتاب کے نام کا مفہوم سمجھتے ہیں اور نہ اکابر علمائے دیوبند (کثر اللہ جماعتہم) کے مذاق سے واقفیت، شاباش! بایں عقل و دانش بباید گریخت۔

پھر تو وہی بات ثابت ہوئی جس سے آپ انتہائی حد تک اظہارِ بیزاری کرچکے ہیں کہ “اب ہمارے استبدادِ رائے کا ایسا غلبہ ہے کہ نہ کوئی کسی کے سننے کو تیار نہ ماننے کو ․․․․․ الخ۔” (بینات ص:۳۴)

لیکن اس تحریر کے باوجود آپ اپنی رائے کو حرفِ آخر اور وحدہ لا شریک لہ مانتے ہیں، باقی تمام اکابر علماء کا ہاضمہ خراب ہوگیا بلکہ کتاب کے نام تک نہیں پہنچ سکے، پس مثل سائر صادق ہوا: “فر من المطر ووقع تحت المیزاب”۔

آپ نے صاحبِ کتاب پر تنقید کی ہے کہ اس نے داعیانہ اسلوب اور مصلحانہ اندازِ تخاطب اختیار نہیں فرمایا ․․․․․ الخ، (بینات ص:۳۸) تو راقم کہتا ہے:

غیر کی آنکھوں کا تنکا تجھ کو آتا ہے نظر

دیکھ اپنی آنکھ کا غافل ذرا شہتیر بھی

آپ نے خود حضرت شیخ الحدیث نور اللہ مرقدہ کے محبوب خلیفہ سرحلقہ عشاق جناب حضرت صوفی اقبال صاحب زید مجدہ ہوشیارپوری ثم المدنی اور مجاہد ملت حضرت مولانا عزیزالرحمن صاحب اور داعی کبیر مولانا عبدالحفیظ صاحب مکی اور دیگر خلفائے کرام کو (جو ابھی تک حقیقی طور پر حضرت قدس سرہ کے مشن کے نگہبان ہیں) اپنے شیخ کے ساتھ بے وفائی کا طعنہ دیا ہے اور اپنے شیخ سے بے وفائی نعوذ باللہ من ذالک وہ شخص ہی کرسکتا ہے جو کم عقل، کم فہم، تنگ نظر، جاہل، بدفہم اور متعنت ہو، تو جو الفاظ علوی مالکی نے اپنے مخالفین (متشدد سلفی حضرات) کے حق میں استعمال کئے ہیں وہ آپ نے حضرت شیخ کے محبوب خلفائے کرام کے حق میں لکھ دئیے، تو پھر کیوں آپ کا اندازِ تخاطب داعیانہ اور مصلحانہ ہے، اور شیخ علوی کا مناظرانہ و مجادلانہ؟

ایں گناہیست کہ در شہر شما نیز کنند

باقی ہمارے شیخ مولانا عزیزالرحمن صاحب مدظلہ کے کسی مرید کا خط جو آپ نے نقل کیا ہے کہ حضرت مولانا تبلیغی جماعت کے خلاف ذہن بناتے ہیں، (بینات ص:۴۵)۔ تو یہ محض جھوٹ، بہتان اور ان پر افتراء ہے، لعنت الله علی الکاذبین! راقم کا تعلق حضرت مولانا کے ساتھ اس وقت سے قائم ہے جبکہ بندہ مختصر المعانی پڑھ رہا تھا، اور الحمد للہ سالِ رواں بندہ کی تدریس کا چھٹا سال ہے، لیکن تاہنوز ہم نے حضرت مولانا صاحب سے اہلِ تبلیغ اور جماعت والوں کے متعلق سوائے خیرخواہی کے کچھ نہیں سنا۔ رہا بعض مبلغین کی کچھ خامیوں کی نشاندہی کرنا، تو اسے تبلیغ کی مخالفت کہنا اور حضرت شیخ کے مشن سے وفائی ٹھہرانا سوءِ ظن ہے، اگر بعض مفاد پرست علماء پر اعتراض برداشت کیا جاتا ہے اور اسے علم اور علماء کی مخالفت سے تعبیر نہیں کیا جاتا، یا بعض جاہل متصوفین پر بغرضِ اصلاح طعن کی جاتی ہے اور اسے تصوف کی مخالفت نہیں سمجھا جاتا (بلکہ حق پرست لوگ خیرخواہی سمجھتے ہیں) تو پھر ناواقف مبلغین کی اصلاح کے لئے اگر ایک عالم باعمل (جو کہ حضرت شیخ کے مشن کا باغبان بھی ہو) کسی غلطی کی نشاندہی فرمائے تو وہ کیسے تبلیغی جماعت کی مخالفت اور حضرت شیخ رحمہ اللہ سے بے وفائی ہوگی؟ آپ نے بغیر تحقیق کئے ایک شخص کے خط پر (خدا جانے وہ کون ہے؟ اصدق واکذب) ہمارے شیخ پر بے جا تنقیدات و اعتراضات کا دروازہ کھولا ہے، اور اپنے دل کی بھاپ نکالی ہے، کاش کہ آپ اوراق لکھتے وقت فتبینوا أن تصیبوا قوما بجھالة فتصبحوا علی ما فعلتم نٰدمین ذہن میں لاتے اور ایک مجہول شخص کی وجہ سے ایک معروف خدا رسیدہ عالم پر نہ برستے، پھر ظلم یہ کہ اس شخص نے آپ سے استفسار کیا ہے، آپ اسے جواب دیتے، لیکن ماہنامہ “بینات” میں اس کے چھاپنے کی کیا ضرورت تھی؟ صرف حضرت مولانا صاحب کے متوسلین کے قلوب کو آزار؟

مع ہذا ستم بالائے ستم یہ کہ کتاب “مفاہیم” پر تقریظات تو مختلف علمائے کرام نے کی ہیں، لیکن ہدفِ اعتراض صرف مولانا عزیزالرحمن صاحب ہیں، کیا انہوں نے کسی کا باپ مارا ہے؟ آپ کم از کم جامعہ کے ناظمِ تعلیمات سے نمٹ جائیں:

تمہاری زلفوں میں آئی تو حسن کہلائی

وہ تیرگی جو میرے نامہ سیاہ میں تھی

باقی آپ نے جن اکابر کے متعلق لکھا ہے کہ انہوں نے اکابر کا مسلک صحیح طور پر ہضم نہیں کیا ہے، ان میں سے شیخ الحدیث حضرت مولانا حامد میاں صاحب اور شیخ الحدیث مولانا محمد مالک کاندھلوی اب اس دارِ فنا سے تشریف لے جاچکے ہیں، اور آپ مکرر سہ کرر ان کے متعلق ارشاد فرماتے ہیں کہ: انہوں نے حسنِ ظن سے کام لیا ہے، مطالعہ نہیں کیا ہے، ایسا نہیں کرنا چاہئے وغیرہ وغیرہ، تو کیا اموات کے متعلق ایسے اقوال کہنا (جبکہ وہ مبنی برحقیقت بھی نہیں جیسا کہ سابق میں گزرا) بے ادبی نہیں ہوگی؟ اگرچہ آپ کہتے ہیں کہ: “اس کو ان بزرگوں کے حق میں سوٴ ادب کا ارتکاب نہیں سمجھنا چاہئے۔” (بینات ص:۳۷) لیکن یہ ضرور سوءِ ادب ہوگا جبکہ اکابر کے سروں پر ایسے اُمور تھوپ دئیے جائیں جن سے وہ بری ہیں کہ انہوں نے فرمایا ہے ہم نے کتاب دیکھا مطالعہ کیا اور اسے معتدل اور جامع پایا وغیرہ، اور آپ احتمالات کا سہارا لے کر فرماتے ہیں محض حسنِ ظن ہے، تو آپ کی توجیہ برائے کلام اکابر توجیہ الکلام بما لا یرضٰی بہ قائلہ کے قبیل سے ہے۔

یہ تمام اُمور اس پر دلالت کرتے ہیں کہ آپ قاضی مظہر حسین صاحب سے متأثر ہیں، اور ان کا پریشر آپ پر پڑا ہے، لیکن یاد رہے کہ قاضی مظہر حسین صاحب نے کسی کو معاف نہیں کیا ہے، پرائے تو پرائے ہیں، اپنوں پر ایسی یلغار کرتے ہیں جیسے کہ کفر و اسلام کی جنگ ہو۔ حضرت مولانا مفتی محمود اور حضرت مولانا غلام غوث ہزاروی کے ساتھ ان کی لڑائی ہوتی رہی، اس کے بعد مولانا حق نواز شہید کے ساتھ، مولانا سمیع الحق صاحب، مولانا فضل الرحمن صاحب، مولانا ضیاء الرحمن فاروقی، مولانا عبداللہ صاحب خطیبِ اسلام آباد، مولانا اعظم طارق، مولانا اسحاق سندیلوی اور ان کے علاوہ مختلف علمائے کرام کے ساتھ جہادِ کبیر کرتے رہے، یہی وجہ ہے کہ تحریک خدام اہل سنت سن صغر سے شروع ہوچکی ہے اور ابھی تک صرف چکوال اور جہلم کے مضافات سے باہر نہ نکل سکی، کیونکہ کل قاضی صاحب جن کے دوست تھے، آج ان کے دشمن، اور آج جن کے دوست ہیں کل ان کے ساتھ میدانِ کارزار میں ہوں گے۔

آپ لکھتے ہیں کہ: “اگر حضرت شیخ کی نسبت کا رنگ غالب رہتا ․․․․․ الخ۔” (بینات ص:۴۷) تو جناب مکرم! حضرت شیخ نور اللہ مرقدہ کی نسبت کا رنگ جتنا حضرت مولانا عزیزالرحمن زید مجدہ پر چڑھ گیا ہے، اس کی نظیر نہیں ملتی، بلکہ کئی چیدہ چیدہ علمائے کرام سے سنا ہے کہ حضرت شیخ نور اللہ مرقدہ کے حقیقی وارث اور نعم البدل حضرت مولانا عزیزالرحمن صاحب ہیں، اور جتنا کام ردّ فرَقِ ضالہ و باطلہ کا ان سے اللہ تعالیٰ نے لیا وہ بھی قابلِ رشک ہے، لہٰذا ایسی شخصیت کے متعلق بدون تحقیق ایسی باتیں منسوب کرنا کسی طرح زیب نہیں دیتا۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو صراطِ مستقیم پر چلنے کی توفیق مرحمت فرمائے، ممکن ہے خط میں بعض جملے ناخوشگوار ہوں، لیکن مجروح قلب سے نکلے ہیں لہٰذا برداشت کیا جائے، مع ہذا معافی کا خواستگار ہوں۔ راقم السطور

بندہ اختر علی عزیزی

خادم دارالعلوم عناروقیہ کاٹنگ ضلع مردان

۳/صفر ۱۴۱۶ھ۔”

جناب اختر علی عزیزی کے خط کا جواب

بسم الله الرحمن الرحیم

مخدوم و معظم زیدت الطافہم، السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ!

محبت نامہ موصول ہوکر موجبِ عزت افزائی ہوا، یہ ناکارہ اپنے اسی مضمون میں لکھ چکا ہے کہ یہ “نہ تین میں ہے، نہ تیرہ میں!” میں کیا، اور میری رائے کیا؟ کوئی لفظ صحیح لکھا گیا تو مالک کی عنایت، ورنہ اس روسیاہ کی تحریر حرفِ غلط کی طرح مٹادینے کے لائق ہے، اس ناکارہ کو علم کجا؟ انسانوں کی صف میں شمار کرنے کی گنجائش نہیں، کہ یہ خود اپنے کو بہائم سے بدتر سمجھتا ہے، الا أن یتغمدنی الله برحمتہ!

میرے اکابر، میری تحریر کے جس لفظ کے بارے میں فرمادیں کہ یہ غلط ہے، اس سے بغیر کسی بحث کے توبہ کرتا ہوں، اس ناکارہ نے کتاب کے بارے میں لکھا تھا کہ یہ ہمارے اکابر کے ذوق و مسلک کی ترجمان نہیں، دیوبندی بریلوی متنازع فیہ مسائل میں ہمارے اکابر کو مخالفین کی جانب سے جو کہا گیا، اور کہا جارہا ہے، ان مسائل میں ہمارے اکابر حق پر تھے، یہ ناکارہ، کم فہم ان مسائل میں کسی لچک کو گوارا نہیں کرتا، نہ مصالحت کو صحیح سمجھتا ہے، جن بزرگوں نے اس کتاب کو ہمارے اکابر کے مسلک کی ترجمان قرار دیا ہے، ان کے بارے میں اپنا احساس لکھا کہ یا تو انہوں نے اس کتاب کو ٹھیک طرح سے پڑھا نہیں یا اس کے مالہ و ما علیہ کا احاطہ نہیں کیا، آنجناب کے تیزوتند عنایت نامہ کے بعد بھی مجھے افسوس ہے کہ یہ ناکارہ اپنے اس احساس میں کوئی تبدیلی نہیں پاتا، ان تقریظ کنندگان کی بے ادبی مقصود نہیں تھی، بلکہ بقول عارف رومی:

گفتگوئے عاشقاں در امر ربّ

جوشش عشق است نے ترکِ ادب

بہرحال اگر اس روسیاہ کا کتاب کے بارے میں یہ خیال غلط ہے تو اس سے سو بار توبہ کرتا ہوں، وما أبریٴ نفسی ان النفس لأمارة بالسوء الا ما رحم ربی! اور جن بزرگوں کے بارے میں “ترکِ ادب” سمجھا گیا ہے، اس سے بھی توبہ کرتا ہوں۔

جن بزرگوں کے آنجناب نے فضائل و مناقب رقم فرمائے ہیں، اس ناکارہ کے علم میں کوئی اضافہ نہیں فرمایا، کیونکہ یہ ناکارہ خود ان کو “اپنے سے بدرجہا افضل” لکھ چکا ہے، (اور اس ننگِ بہائم کا ان بزرگوں سے تقابل ہی کیا؟) سید علوی کے بارے میں “جہانِ رضا” کے حوالے سے جو کچھ لکھا ہے، مصنف ما شاء اللہ بقیدِ حیات ہیں، ان سے “جہانِ رضا” کے مضمون کی تردید کرادی جائے تو یہ ناکارہ اپنی تفریعات و نتائج کو بھی علی الاعلان واپس لے لے گا۔

آنجناب نے اس ناکارہ کے بارے میں جو تند و تیز الفاظ استعمال فرمائے ہیں، ان کے لئے حافظ بہت پہلے فرماگئے ہیں:

بدم گفتی وخر سندم عفاک الله نکو گفتی

یہ میرے مالک کی ستاری ہے کہ اس روسیاہ کے سارے عیوب پر آنجناب کو مطلع نہیں فرمایا، ورنہ “بتر زانم کہ گفتی”، اللہ تعالیٰ اس روسیاہ کے عیوب کی پردہ پوشی فرمائیں، اور میرے اکابر کے درجاتِ عالیہ کو بلند سے بلند تر فرمائیں۔

دعواتِ صالحہ کی درخواست ہے، اور کوئی لفظ جناب کی شان کے خلاف صادر ہوا ہو تو ندامت کے ساتھ معذرت اور معافی کی التجا کرتا ہوں، والسلام!

محمد یوسف عفا اللہ عنہ

۲۶/۲/۱۴۱۶

۶:…مولانا عزیزالرحمن کے ایک مرید کے خط کا جواب

بسم الله الرحمن الرحیم

محترم حضرت اقدس جناب مولانا محمد یوسف صاحب دامت برکاتہم

السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ!

خیریت کے بعد عرض ہے کہ بندہ آپ کی رہنمائی چاہتا ہے، مسئلہ یہ ہے کہ بندہ کا اصلاحی تعلق مولانا عزیزالرحمن صاحب دامت برکاتہم سے ہے، ان کا اور حضرت مولانا قاضی مظہر حسین صاحب دامت برکاتہم کا اختلاف پیدا ہوا ہے، چنانچہ ان کی طرف سے میں نے خود سنا ہے کہ اب وہ فرماتے ہیں کہ یہ بدعتی ہے، فتنہ اقبالیہ یا فتنہ عزیزیہ کہہ کر پکارتے ہیں۔

یہ خط میں اس لئے لکھ رہا ہوں کہ ایک بات کی تصدیق چاہتا ہوں، اور وہ یہ کہ حضرت مولانا عزیزالرحمن صاحب دامت برکاتہم کے خلیفہ کی مجلس میں میں خود بیٹھا ہوا تھا، تو انہوں نے یہ بات آپ کی طرف نسبت کرکے فرمائی کہ حضرت مولانا محمد یوسف صاحب دامت برکاتہم نے حضرت مولانا عزیزالرحمن صاحب دامت برکاتہم سے مسجدِ حرام میں معافی مانگی ہے، کیا آپ کے نزدیک ایسی کوئی بات ہوئی ہے یا نہیں؟ برائے مہربانی اس کی حقیقت سے بندہ کو مطلع فرمادیں کہ ایسا ہوا یا نہیں؟ اور قاضی صاحب کا ہر رسالہ میں ان کا تذکرہ کرنا کیسا ہے؟ اور اب ان میں سے حق پر کون ہے؟ یعنی کون اعتدال پر ہے؟ اور کون اپنے اکابرین کی اتباع کر رہا ہے؟ اور ان کو بدعتی کہنا اور سابق دیوبندی کہنا کیسا ہے؟ مہربانی فرماکر بندہ کی رہنمائی فرمائیں، بندہ بہت زیادہ پریشان ہے کیونکہ اصلاحی تعلق کا معاملہ ہے اور اس میں آج کل کے دور میں دیر نہیں کرنی چاہئے، نیز بندہ کے لئے خصوصی دعا کی درخواست ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے مخلص بندوں کے ساتھ رکھے اور ان کے ساتھ اُٹھائے، ایمان پر خاتمہ فرمائے اور ہر بدعت سے بچائے، تحریر میں غلطی کی معافی چاہتا ہوں، والسلام!

دعاوٴں کا محتاج

اجمل حسین

الجواب

برادرِ محترم ․․․․․․․․․․․․․․․ السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ!

حضرت مولانا عزیزالرحمن صاحب سے اس بندہ کو اختلاف تھا، اور ہے، مگر اس ناکارہ کی عادت کسی کے پیچھے پڑنے کی نہیں ہے، اور یہ جو آپ نے فرمایا ہے کہ:

“حضرت مولانا عزیزالرحمن صاحب دامت برکاتہم کے خلیفہ کی مجلس میں میں خود بیٹھا تھا، انہوں نے آپ کی طرف نسبت کرکے فرمایا کہ: محمد یوسف نے حضرت مولانا عزیزالرحمن دامت برکاتہم سے مسجدِ حرام میں معافی مانگی ہے۔”

یہ واقعہ اُلٹ گیا ہے، اصل قصہ یہ ہے کہ ہمارے دوستوں نے حضرت مولانا عزیزالرحمن صاحب دامت برکاتہم سے گفتگو شروع کردی، اور یہ گفتگو بیت اللہ شریف کے دروازے تک جاری رہی، مولانا عزیزالرحمن پٹھان آدمی ہیں، انہوں نے غصہ سے کہہ دیا کہ میں اس پر مباہلہ کرنے کے لئے تیار ہوں، میں اس گفتگو سے لاتعلق تھا، لیکن جب انہوں نے مباہلہ کا تذکرہ کیا تو میں نے مولانا محترم کا دامن پکڑا اور کہا کہ: بیت اللہ شریف سامنے ہے، چلئے میں اسی وقت آپ سے مباہلہ کرتا ہوں! اس پر وہ ڈھیلے پڑگئے اور بات گئی گزری ہوگئی، بعد میں انہوں نے اس پر معذرت کی، یہ خلاصہ ہے ساری کہانی کا۔

مولانا عزیزالرحمن میرے پیر بھائی ہیں، میں ان کا احترام کرتا ہوں اور ان کو اپنے سے ہزارہا درجہ بہتر جانتا ہوں، لیکن مسلکِ علمائے دیوبند کے نام سے جو کچھ انہوں نے لکھا ہے، میں اس سے بیزار ہوں، اور اس کو اپنے شیخ کے مسلک کے خلاف سمجھتا ہوں۔

آپ ان سے اصلاحی تعلق رکھیں اور ان سے اکتسابِ فیض کریں، لیکن ان فضولیات اور لغویات میں اپنے اوقات کو ضائع مت کریں۔ میرا دین و عقیدہ یہ ہے کہ:

“حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم جو کچھ اللہ کی طرف سے لے کر آئے، اور جو کچھ سلف صالحین، صحابہ و تابعین، اور ہمارے شیخ نور اللہ مرقدہ تک ہمارے اکابرِ دیوبند نے سمجھا وہ برحق ہے، اگر میری رائے یا کسی اور کی رائے کسی مسئلے میں ان کے خلاف ہو تو وہ قابلِ ردّ ہے!” والسلام

محمد یوسف عفا اللہ عنہ

۲۰/۴/۱۴۱۸ھ

۷:…دیوبندی بریلوی اختلاف حقیقی یا فروعی؟

دارالعلوم دیوبند کا فتویٰ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرعِ متین مسئلہ ذیل میں ہمارے یہاں تقریباً دو تین سال سے یہ اختلاف روز افزوں ہوتا جارہا ہے اور ہمارے اکابرِ دیوبند کے منتسبین فریقین میں منقسم ہوتے جارہے ہیں، لہٰذا مندرجہ ذیل اُمور کا مفصل و مدلل بحوالہ کتب جواب باصواب تحریر فرماکر ہماری رہنمائی فرمائیں۔ بریلوی، دیوبندی اختلاف فروعی ہے یا اُصولی اور اعتقادی؟ ایک جماعت کہتی ہے کہ فریقین کے درمیان یہ اختلاف فروعی ہے، اور ہمارے علمائے دیوبند اور اکابرِ دیوبند نے جو سختی اختیار کی تھی عارضی اور وقتی تھی، کیونکہ دونوں فریق اہلِ سنت والجماعت میں سے ہیں اور مسلکِ حنفی پر قائم ہیں، اشاعرہ اور ماتریدیہ کے بیان کردہ عقائد پر قائم ہیں، بیعت و ارشاد میں بھی دونوں فریق صحیح طریقہ پر موجود ہیں۔

اب چونکہ اسلام دشمن عناصر قوت سے اُبھر رہے ہیں، لہٰذا دیوبندیوں اور بریلویوں کو متحد ہوکر ان کا مقابلہ کرنا چاہئے، ماضی کے تجربات کی روشنی میں بتلائیں کہ کیا ایسا اتحاد عملاً کامیاب ہوگا؟ کیا اس مقصد کے لئے دیوبندیوں کو اپنے اُصولی موقف اور مسائل سے ہٹنا اور عرس و میلاد اور فاتحہ وغیرہ میں شریک ہونا جائز ہے؟

دُوسری جماعت یہ کہتی ہے کہ اکابرِ دیوبند کا اختلاف بریلویوں سے فروعی ہی نہیں بلکہ اُصولی اور اعتقادی بھی تھا اور ہے، مثلاً: نور و بشر کا اختلاف، علمِ غیب کلی کا اختلاف، مختارِ کل ہونے کا اختلاف، حاضر و ناظر، قبروں پر سجود کا اختلاف وغیرہ وغیرہ اہم اور عظیم ہیں، نیز اکابرِ دیوبند کے بارے میں تکفیری فتاویٰ ان کی کتابوں میں ہیں، لہٰذا ان سے اتحاد کے لئے ضروری ہے کہ پہلے وہ اپنی کتابوں سے تکفیری فتاویٰ نکال دیں اور ان سے براء ت ظاہر کریں اور اپنے عقائد درست کریں۔

اول الذکر حضرات میلاد شریف اور عرس وغیرہ کے جواز اور استحباب پر اکابرِ دیوبند کے بعض اقوال سے استدلال کرتے ہیں، مثلاً: رسالہ ہفت مسئلہ مصنفہ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمة اللہ علیہ ، نیز حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب رحمة اللہ علیہ کے بعض اقوال سے۔

اب دریافت طلب امر یہ ہے کہ کیا بریلویوں کی مجالسِ میلاد و عرس وغیرہ میں مصلحتاً شریک ہونا جائز ہے؟ کیا ان کے اعمال کو مصلحتاً برداشت کرکے متحد ہونے کی دعوت دینا جائز ہے؟ کیا یہ اختلاف اُصولی اور اعتقادی ہے یا فروعی؟ کیا بریلوی بھی اہل سنت والجماعت ہیں؟

کیا بریلویوں کی بدعات فی نفسہ ہمارے حضراتِ دیوبند کے یہاں بھی جائز ہیں اور مباح؟ نقشِ نعلین شریفین کی کیا حقیقت ہے؟ کیا اس سے استبراک، چومنا، سر پر رکھنا وغیرہ جائز ہے؟ یہ مسائل پاکستان میں بہت عام ہوتے جارہے ہیں، ابھی تک علمائے دیوبند کے فتاویٰ کو یہ لوگ اہمیت دیتے ہیں، اُمید ہے کہ یہ لوگ خلافِ شرع اُمور سے باز آجائیں، بینوا وتوٴجروا! فقط والسلام!

المستفتی اسماعیل بدات

از مدینہ منورہ

۱۸/۱۰/۱۴۱۷ھ

الجواب ومن الله التوفیق

حامدًا ومصلیاً ومسلماً، اما بعد!

دُوسری جماعت کا خیال صحیح ہے کہ دیوبندیوں کا بریلویوں سے اختلاف فروعی نہیں بلکہ اُصولی اور اعتقادی بھی ہے، اور پہلی جماعت کا خیال صحیح نہیں ہے کہ فریقین کے درمیان صرف فروعی اختلاف ہے اور دونوں فریق اہل السنت والجماعت میں سے ہیں اور مسلکِ حنفی پر قائم ہیں، نیز اشاعرہ و ماتریدیہ کے بیان کردہ عقائد پر قائم ہیں، بیعت و ارشاد میں بھی دونوں فریق صحیح طریقہ پر موجود ہیں، کیونکہ بریلویوں (رضاخانیوں) نے اہل السنت والجماعت کے عقائد میں بھی اضافہ کیا ہے، اور ایسے فروعی مسائل کو بھی دین کا جزو بنایا ہے جن کی فقہ حنفی میں واقعی کوئی اصل نہیں ہے، مثلاً: عقائد میں چار اُصول اور بنیادی عقائد بڑھائے ہیں: ۱:․․․نور و بشر کا مسئلہ۔ ۲:․․․علمِ غیب کلی کا مسئلہ۔ ۳:․․․حاضر و ناظر کا مسئلہ۔ ۴:․․․مختارِ کل ہونے کا مسئلہ۔ اور فروعی مسائل میں غیراللہ کو پکارنا، قبروں پر سجدہ کرنا، قبروں کا طواف کرنا، غیراللہ کی منتیں ماننا، قبروں پر چڑھاوے چڑھانا، میلادِ مروّجہ اور تعزیہ وغیرہ سینکڑوں باتیں ان کی ایجاد ہیں، جو صریح بدعات ہیں۔ اور بیعت و ارشاد میں بھی ان لوگوں نے بہت سی غیرشرعی چیزوں کی آمیزش کرلی ہے، مثلاً: قوالی اور وجد و سماع وغیرہ۔ نیز فریقِ اوّل کا یہ موقف خلافِ واقعہ ہے کہ ہمارے علمائے دیوبند اور اکابرِ دیوبند نے جو سختی اختیار کی تھی وہ عارضی اور وقتی تھی، بلکہ صحیح بات یہ ہے کہ دیوبندیت نام ہی تمسک بالسنہ اور تنفیر عن البدعہ کا ہے، اکابرِ دیوبند کا عمل ہمیشہ “فاصدع بما توٴمر” پر رہا ہے، انہوں نے کبھی دین کے معاملے میں مداہنت نہیں فرمائی، البتہ انہوں نے مقابلہ آرائی اور محاذ آرائی اور تکفیر بازی سے بھی گریز کیا ہے، اور ہمیشہ نرمی اور حکمت سے اصلاحِ حال کی کوشش کی ہے، پس آج بھی ان کے اَخلاف کو یہی طریقہ اختیار کرنا چاہئے۔

رسالہ “فیصلہ ہفت مسئلہ”، “مسلک منقح” سے پہلے کی تصنیف ہے، اس سے استدلال صحیح نہیں ہے، اور حضرت شیخ سہارنپوری رحمة اللہ علیہ کے ایسے اقوال ہمارے علم میں نہیں۔ اور بریلویوں کی مجالسِ میلاد اور عرس وغیرہ میں مصلحتاً شریک ہونا بھی جائز نہیں ہے، اور اس کی ممانعت “ودوا لو تدھن فیدھنون” میں مذکور ہے، اور “لکم دینکم ولی دین” میں اشارہ بھی اسی طرف ہے، اور حضرت تھانوی رحمة اللہ علیہ نے امداد الفتاویٰ ج:۵ ص:۳۰۲ میں تحریر فرمایا ہے کہ:

“رسومِ بدعات کے مفاسد قابلِ تسامح نہیں!”

اور ج:۴ ص:۳۸۰ کے سوال و جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ عرس وغیرہ بدعات میں جو لوگ شریک ہوتے ہیں، ان کی بے ضرورت تعظیم و تکریم کرنے والے بھی “من وقر صاحب بدعة فقد اعان علی ھدم الاسلام” کا مصداق ہیں۔

اور بعض بدعات کے فی نفسہ جائز ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ اُمور فی نفسہ تو جائز ہوتے ہیں، جیسے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادتِ مبارکہ کا تذکرہ، مگر التزام اور شرائط و قیود کی پابندی کی وجہ سے وہ چیزیں بدعت کے زمرہ میں داخل ہوجاتی ہیں، اور وہ ناجائز ہوجاتی ہیں۔

اور نقشہ نعل مبارک کی کوئی اصل نہیں ہے، اور استبراک اور اس کو چومنا، سر پر رکھنا بے اصل ہے، اور حضرت تھانوی رحمة اللہ علیہ نے امداد الفتاویٰ ج:۴ ص:۳۷۸ میں اپنے رسالہ “نیل الشفاء بنعل المصطفٰی” سے رجوع فرمالیا ہے، والله اعلم وعلمہ اتم واحکم! حررہ

الجواب صحیح

العبد نظام الدین

مفتی دارالعلوم دیوبند

۲۵/۱۱/۱۴۱۷ھ

محمد ظفیرالدین

مفتی دارالعلوم دیوبند

۲۵/ذوالقعدہ ۱۴۱۷ھ

سعیداحمدپالن پوری عفا اللہ عنہ

خادم دارالعلوم دیوبند

۲۳/ذوالقعدہ ۱۴۱۷ھ

۸:… مظاہر العلوم سہارنپور کا فتویٰ

بسم الله الرحمن الرحیم

کیا فرماتے ہیں علمائے دین (دیوبند) اس بارے میں کہ حضراتِ اکابرینِ دیوبند کا جماعتِ بریلویہ سے جو اَب تک اختلاف رہا ہے، یہ اختلاف فروعی ہے یا اُصولی و عقائد کا اختلاف ہے؟ اور جو بدعات بریلویوں نے اختیار کر رکھی ہیں، مثلاً: تیجہ، بیسواں، چالیسواں، برسی، قبروں پر سالانہ عرس، میلاد کا قیام، اجتماعی سلام وغیرہ ان اُمور کی اکابرِ دیوبند خصوصاً حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی اور حضرت مولانا شیخ الاسلام سیّد حسین احمد مدنی اور ان کے خلفاء و تلامذہ نے جو شدت سے ان کی تردید کی تھی، کیا موجودہ علمائے دیوبند اس پر قائم ہیں؟ یا اس میں کچھ خفت آگئی ہے؟ اور کیا جماعتِ بریلویہ کو کسی بھی اعتبار سے اہل سنت والجماعت میں شمار کیا جاسکتا ہے؟

کیا ان لوگوں کا مذہب حضراتِ اشاعرہ اور حضراتِ ماتریدیہ کے موافق ہے؟

بعض ایسے لوگ ہیں جو حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلوی رحمة اللہ علیہ سے انتساب کے مدعی ہیں، انہوں نے یوں کہنا شروع کیا ہے کہ: اکابرِ دیوبند جو بدعات سے منع فرماتے تھے وہ سدًّا للباب تھا، اور عارضی طور پر ان سے بچنے کی تاکید فرماتے تھے، اور یہ کہ مصلحتوں کی بنا پر ان بدعات کو اختیار کرلینا چاہئے۔

دریافت طلب امر یہ ہے کہ کیا واقعی موجودہ حضرات علمائے دیوبند نے بریلویوں کی بدعات کی مخالفت میں کچھ ہلکا پن اختیار کرلیا ہے؟ اور کیا مصلحتاً ہلکا ہوجانا مناسب ہے؟

اور کیا حضرت شیخ الحدیث صاحب قدس سرہ کچے دیوبندی تھے؟ ان کے اکابر نے جو سوچ سمجھ کر بدعات، بریلویہ کا سختی سے مقابلہ کیا تھا، کیا یہ شیخ الحدیث کو گوارا نہیں تھا، ان سے انتساب رکھنے والے جو بعض لوگ بریلویوں کی بدعات (جیسا کہ حال ہی میں ایک پاکستانی صاحب نے “اکابر کا مسلک و مشرب” کے نام سے ایک کتابچہ شائع کیا ہے) والے اعمال کو مصلحت کے نام سے اختیار کرنا مناسب سمجھتے ہیں، ان لوگوں کی رائے کا کیا وزن ہے؟ کیا ان لوگوں کے انتساب سے حضرت شیخ الحدیث صاحب قدس سرہ کی شخصیت پر حرف نہیں آرہا ہے؟ بینوا توٴجروا!

السائل

اسماعیل بدات، مدینہ منورہ

الجواب

حضراتِ علمائے دیوبند جن کے اسمائے گرامی سوال میں مذکور ہیں، اور ان کے تلامذہ اور خلفاء سب پکے متبعِ سنت تھے، اور ہر ایسی چیز کے شدت کے ساتھ مخالف ہے جو شرعی اُصول کے مطابق بدعت کے دائرہ میں آتی ہو، چونکہ حسبِ فرمانِ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہر بدعت گمراہی ہے، اس لئے اس گمراہی سے امت کو محفوظ رکھنے کا اہتمام فرماتے تھے، اس سلسلہ میں ان کی چھوٹی بڑی کتابیں معروف و مشہور ہیں، اور ان کے تردیدی مضامین اور فتاویٰ، اور “البراہین القاطعہ”، “المہند علی المفند” اور “الشہاب الثاقب”، “امداد الفتاویٰ” اور “اصلاح الرسوم” میں موجود ہیں، انہوں نے سوچ سمجھ کر اپنی عالمانہ ذمہ داری کو سامنے رکھ کر خوب کھل کر نہ صرف بریلویوں کی بدعات کی بلکہ ہر اس بدعت کی (جو اعتقادی ہو یا عملی) جس کا کسی بھی علاقہ میں علم ہوا، سختی سے تردید فرمائی، ان کی یہ تردید عارضی نہیں تھی۔

بدعت کبھی سنت نہیں ہوسکتی، لہٰذا اس کی تردید بھی عارضی نہیں ہوسکتی، اور اس کی تردید میں ہلکاپن اختیار کرنے کی شرعاً کوئی اجازت نہیں۔

حضراتِ اکابرِ دیوبند نے جو بدعت کی تردید کی اور اس بارے میں جو مضبوطی کے ساتھ اہلِ بدعت کے ساتھ جم کر مقابلہ کیا، ان کی اس محنت اور کوشش سے کروڑوں افراد نے بدعتوں سے توبہ کی، اور سنتوں کے گرویدہ ہوئے۔

آج اگر کوئی شخص یوں کہتا ہے کہ اب بدعتوں کی تردید میں سختی نہ کرنی چاہئے یا مصلحتاً ان کو کسی تأویل سے اپنالینا چاہئے، ایسا شخص دیوبندی نہیں ہے، اگرچہ اکابرِ دیوبند سے متعلق ہونے کا مدعی ہو۔ حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب کاندھلوی قدس سرہ بہت ہی پکے دیوبندی تھے، اپنے اکابر کے مسلک سے سرِمو انحراف کرنا انہیں گوارا نہ تھا، ان کی ساری زندگی اور ان کی کتابیں اس پر گواہ ہیں، جو کوئی شخص ان کی طرف بدعت کے بارے میں ڈھیلاپن منسوب کرتا ہے، وہ اپنی بات میں سچا نہیں ہے۔

لفظ “اہلِ سنت والجماعت” کا اطلاق حضراتِ اشاعرہ و ماتریدیہ پر ہوتا ہے، احمد رضاخاں بریلوی اور ان کی جماعت کا ان دو جماعتوں سے کوئی تعلق نہیں، احمد رضا خاں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے علمِ غیب کلی مانتے ہیں یا یوں کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سارے اختیارات سپرد کردئیے گئے تھے، یہ دونوں باتیں اشاعرہ اور ماتریدیہ کے یہاں کہیں بھی نہیں، نہ کتبِ عقائد میں کسی نے نقل کی ہیں، اور نہ ان کی کتابوں میں ان کا کوئی ذکر ہے، اور یہ دونوں باتیں قرآن و حدیث کے صریح خلاف ہیں، یہ سب بریلویوں کی اپنی ایجاد ہیں، اگر کوئی شخص بریلوی فرقہ کو اہلِ سنت والجماعت شمار کرتا ہے تو یہ اس کی صریح گمراہی ہے۔

ہم سب دستخط کنندگان کی طرف سے تمام مسلمانوں پر واضح ہوجانا چاہئے کہ اب بھی ہم اسی دیوبندی مسلک پر شدت کے ساتھ قائم ہیں، جو ہمارے عہدِ اوّل کے اکابر سے ہم تک پہنچا ہے، ہمیں کسی قسم کی خفت گوارا نہیں ہے، وبالله التوفیق!

محمد عاقل عفا اللہ عنہ

صدر المدرسین

مقصود علی

مفتی مدرسہ

محمد سلمان

قائم مقام ناظم

عبدالرحمن عفی عنہ

مفتی مدرسہ

(مہر دار الافتاء مظاہر العلوم سہارنپور)

۹:… سبحانک ھٰذا بھتان عظیم!

بسم الله الرحمن الرحیم

میرے بعض مخلص احباب نے مجھے اطلاع دی ہے کہ علوی مالکی صاحب کی کتاب “اِصلاحِ مفاہیم” پر میرے تأثرات اور “بینات” میں اس کی اشاعت کے بعد کچھ ناعاقبت اندیش حضرات سیدھے سادے مسلمانوں اور میرے احباب میں یہ غلط فہمی پیدا کر رہے ہیں کہ میں نے اپنی تحریر سے براء ت کا اعلان کردیا ہے، اور جناب علوی مالکی صاحب نے “چشمِ بد دور!” مجھے شاذلیہ سلسلہ میں خلافت دے دی ہے۔ سبحانک ھٰذا بھتان عظیم! میں اپنے شیخ حضرت اقدس شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا مہاجرِ مدنی نور اللہ مرقدہ کے بعد کسی دُوسرے سے بیعت و اجازت تو کجا، اس نیت سے کسی دُوسرے کی طرف دیکھنا بھی گناہ سمجھتا ہوں! جو لوگ میری طرف یہ بات منسوب کرتے ہیں، میں ایسے حضرات کو اللہ سے ڈرنے اور عنداللہ مسئولیت کی یاد دہانی کراتے ہوئے عرض کروں گا کہ کل قیامت کے دن اگر اللہ تعالیٰ آپ سے اس بہتان و افتراء کے بارہ میں پوچھ لیں تو آپ کے پاس اس کا کیا جواب ہوگا․․․؟

میں آج بھی علوی مالکی کو بریلوی عقیدہ کا حامل اور مبتدع سمجھتا ہوں، میں نے آج تک اس کی شکل نہیں دیکھی، اور نہ ہی دیکھنا چاہتا ہوں، اور اللہ تعالیٰ سے بدعت و ہویٰ کے فتنہ سے پناہ مانگتا ہوں، اور خاتمہ بالخیر کی دعا کرتا ہوں۔

والسلام

محمد یوسف عفا اللہ عنہ

۲۰/۸/۱۴۱۹ھ

سایہٴ اصلی کا مفہوم

س… فقہائے کرام رحمة اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی ایک عبارت ہے: “بلوغ ظل کل شیٴ سویٰ فیٴ زوال” اس کا کیا مطلب ہے؟ اور اس استثناء سے کیا مراد ہے؟

ج… عین نصف النہار کے وقت جو کسی چیز کا سایہ ہوتا ہے، یہ اصلی سایہ کہلاتا ہے، مثل اوّل اور مثل دوم کا حساب کرتے ہوئے سایہٴ اصلی کو مستثنیٰ کیا جائے گا، مثلاً عین نصف النہار کے وقت کسی چیز کا سایہ ایک قدم تھا تو مثل اوّل ختم ہونے کے لئے کسی چیز کا سایہ ایک مثل مع ایک قدم کے شمار ہوگا۔

نماز چھوڑنا کافر کا فعل ہے

س… احادیث میں آتا ہے کہ جس نے ایک نماز جان بوجھ کر چھوڑی اس نے کفر کیا، آپ مہربانی فرما کر یہ بتائیں کہ کفر سے مراد اللہ نہ کرے آدمی کافر ہوگیا یا یہ کہ کفر کیا ہے یہ چھوڑی جانے والی نماز کے بعد جو نماز پڑھی جائے تو درمیان میں جو وقت گزرے کفر کی حالت میں رہا حالانکہ جس نے ایک دفعہ کلمہ طیبہ پڑھا اسے کافر نہیں کہنا چاہئے۔

ج… جو شخص دین اسلام کی تمام باتوں کو سچا مانتا ہو، اور تمام ضروریات دین میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کرتا ہو، اہل سنت کے نزدیک وہ کسی بدفعلی کی وجہ سے کافر نہیں قرار دیا جائے گا، اس حدیث شریف میں جس کفر کا ذکر ہے وہ کفر اعتقادی نہیں بلکہ کفر عملی ہے، حدیث شریف کا قریب ترین مفہوم یہ ہے کہ اس شخص نے کفر کا کام کیا یعنی نماز چھوڑنا مومن کا کام نہیں، کافر کا فعل ہے، اس لئے جو مسلمان نماز چھوڑ دے اس نے کافروں کا کام کیا۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے کسی کو بھنگی کہہ دیا جائے، یہ مطلب نہیں ہوتا کہ وہ واقعتا بھنگی ہے بلکہ یہ کہ وہ بھنگیوں کے سے کام کرتا ہے، اسی طرح جو شخص نماز نہ پڑھے وہ اگرچہ کافر نہیں لیکن اس کا یہ عمل کافروں جیسا ہے۔

بے نمازی کو کامل مسلمان نہیں کہہ سکتے

س… ایک آدمی پورا سال نماز نہ پڑھے تو اسے کامل مسلمان کہا جاسکتا ہے، جمعہ اور عید کی نماز بھی نہیں پڑھتا۔

ج… اگر وہ شخص اللہ اور رسول پر ایمان رکھتا ہے اور نماز کی فرضیت کا بھی قائل ہے مگر سستی یا غفلت کی بنا پر نماز نہیں پڑھتا تو ایسا شخص مسلمان تو ہے لیکن کامل مسلمان اسے نہیں کہا جاسکتا کہ وہ نماز جیسے اہم اور بنیادی رکن کا تارک ہونے کی وجہ سے سخت گنہ گار اور بدترین فاسق ہے قرآن و احادیث میں نماز کے چھوڑنے پر سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں۔

بے نمازی کے دیگر خیر کے کام

س… بعض حضرات ایسے ہیں کہ غریبوں کی مدد کرتے ہیں، زکوٰة دیتے ہیں، ہر طرح غربأ کی مدد کرتے ہیں، صلہ رحمی کرتے ہیں لیکن جب ان سے کہا جائے بھائی نماز بھی پڑھ لیا کرو، تو کہتے ہیں یہ بھی تو فرض عبادت ہے، کیا بے نمازی کے یہ سارے اعمال قبول ہوجاتے ہیں؟

ج… کلمہٴ شہادت کے بعد اسلام کا سب سے بڑا رکن نماز ہے نماز پنج گانہ ادا کرنے سے بڑھ کر کوئی نیکی نہیں، اور نماز نہ پڑھنے سے بڑھ کر کوئی گناہ نہیں، زنا، چوری وغیرہ بڑے بڑے گناہ نماز نہ پڑھنے کے گناہ کے برابر نہیں، پس جو شخص نماز نہیں پڑھتا وہ اگر خیر کے دوسرے کام کرتا ہے تو ہم یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ وہ قبول نہیں ہوں گے، لیکن ترک نماز کا وبال اتنا بڑا ہے کہ یہ اعمال اس کا تدارک نہیں کرسکتے۔

ان حضرات کا یہ کہنا کہ “یہ بھی تو فرض عبادت ہے” بجا ہے، لیکن “بڑا فرض” تو نماز ہے، اس کو چھوڑنے کا کیا جواز ہے؟

مسجد میں نمازِ جنازہ

س… گزارش یہ ہے کہ ہمارے علاقہ کی جامع مسجد میں کافی عرصہ سے نماز جنازہ بیرون مسجد ہورہی تھی، اور یہاں مسجد سے متصل ایک بہت بڑا میدان بھی ہے، لیکن تھوڑے ہی دنوں سے مسجد کے امام صاحب نے فرمایا کہ نماز جنازہ مسجد کے اندر ہونے میں کوئی حرج نہیں ہے، اور اب اس کو عملی جامہ پہنایا جاچکا ہے، اس نماز جنازہ کا طریق کار کچھ یوں ہے۔

امام صاحب کے محراب کے آگے جنوبی طرف ایک دروازہ اور کھڑکیاں کھلتی ہیں، اور وہاں مسجد کی پچھلی طرف یعنی جنوب سے محراب کے اندر داخل ہونے کے لئے سیڑھیوں کے ساتھ ایک چبوترہ بنا ہوا ہے، جس پر جنازہ رکھ دیا جاتا ہے، امام صاحب اسی چبوترہ پر کھڑے ہوکر اپنے پیچھے ۵،۷ نمازی کھڑے کردیتے ہیں، اور باقی نمازیوں کی صفیں بدستور مسجد کے اندر رہتی ہیں، یہ چبوترہ محراب سے باہر اور مسجد سے متصل ہے، بس اسی طریق کار سے نماز جنازہ ادا کی جارہی ہے۔

مزید برآں مولانا صاحب کا یہ فرمان کہ چونکہ نماز جنازہ فرضِ کفایہ ہے لہٰذا فرضوں کے فوراً بعد سنتوں سے پہلے نماز جنازہ ادا کی جاتی ہے، اور سنتیں اور نفل بعد میں ادا کی جاتی رہتی ہیں، کیا یہ صورتِ حال دُرست اور شرع کے مطابق ہے؟

ج… امام ابو حنیفہ کے نزدیک بغیر مجبوری کے مسجد میں نمازِ جنازہ مکروہ ہے، خواہ میت مسجد سے باہر ہو، جب مسجد کے ساتھ کھلا میدان موجود ہے تو مسجد میں جنازہ نہ پڑھا جائے، کسی مجبوری اور عذر کی بنا پر مسجد میں جنازہ پڑھنا پڑے تو دُوسری بات ہے۔

بہتر تو یہی ہے کہ جنازہ فرضوں کے بعد اور سنتوں سے پہلے پڑھا جائے لیکن اگر سنتوں کے بعد پڑھ لیا جائے تو اس کی بھی گنجائش ہے، کیونکہ سنتوں سے پہلے جنازہ پڑھنے میں بعض اوقات نمازیوں کو اور اہلِ میّت کو تشویش ہوتی ہے۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نمازِ جنازہ کس طرح پڑھی گئی؟

س… آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز جنازہ کی امامت کس نے کرائی تھی؟ تفصیل سے لکھیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز جنازہ کس ترتیب سے پڑھی گئی تھی؟

ج… حاکم (ج:۳ ص:۶۰) حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ ہم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا یارسول اللہ! آپ کی نماز جنازہ کون پڑھے گا؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میری تجہیز و تکفین سے فارغ ہوجاؤ تو تھوڑی دیر کے لئے حجرہ سے باہر نکل جانا، سب سے پہلے مجھ پر جبریل نماز پڑھیں گے، پھر میکائیل، پھر اسرافیل، پھر ملک الموت، پھر باقی فرشتے، اس کے بعد میرے اہل بیت کے مرد نماز پڑھیں گے، پھر اہل بیت کی عورتیں، پھر گروہ در گروہ آکر تم سب مجھ پر صلوٰة و سلام پڑھنا۔

چنانچہ اسی وصیت کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز جنازہ پڑھی گئی، اس نماز میں کوئی امام نہیں تھا بلکہ صحابہ کرام گروہ در گروہ حجرئہ شریفہ میں داخل ہوکر صلوٰة و سلام پڑھتے تھے، یہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز جنازہ تھی۔ ابن سعد کی روایت میں ہے کہ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما ایک گروہ کے ساتھ حجرہٴ نبوی میں داخل ہوئے اور جنازہ پڑھا، اس طرح تیس ہزار مردوں اور عورتوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز جنازہ پڑھی، اس مسئلے کی تفصیل حضرت مولانا محمد ادریس کاندہلوی کی کتاب “سیرة المصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم” (جلد:۳ ص:۱۸۷ وما بعد) میں اور اس ناکارہ کی کتاب “عہدِ نبوت کے ماہ و سال” (ص:۳۸۰) میں ملاحظہ کی جائے۔

گاؤں میں جمعہ

س… ایک بستی جو تقریباً بیس مکانات پر مشتمل ہے، گاؤں میں ایک مسجد ہے اور بازار نہیں اس گاؤں کے آس پاس قریب قریب چند متفرق مکانات پر مشتمل بستیاں ہیں، ہر بستی کی اپنی اپنی مسجد ہے، کل آبادی مردم شماری کے اعتبار سے تقریباً دو اڑھائی سو ہوگی، یہاں ایک عالم بھی موجود ہے، تو ان سب بستیوں کے باشندوں کے مطالبہ پر گزشتہ رمضان المبارک سے ان مولوی صاحب نے لوگوں کو جمع کرکے اس گاؤں کی مسجد میں نماز جمعہ جاری کی ہے اب علاقہ کے حنفی دیوبندی علماء نے اس جمعہ کی تائید کی ہے اس بنا پر کہ تین چار ماہ سے لوگ شوق و رغبت سے حاضر ہورہے ہیں اور جمعہ بند کرنے کی صورت میں لوگوں میں انتشار و افتراق اور شکوک و شبہات پیدا ہوکر فتنہ و فساد کا قوی خدشہ ہے، اور مصر جامع کی تعریف بھی علمائے احناف میں مختلف فیہ ہے اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ حجة اللہ میں جمعہ کے لئے ایک نوع تمدن کی ضرورت پر زور دینے کے بعد ایک نوع تمدن کی تعریف بحوالہ حدیث یہ لکھتے ہیں کہ جہاں عاقل بالغ پچاس مرد رہتے ہوں، ان کے نزدیک جامع کی یہی تعریف ہے اسی پر عمل کیا جائے اور جمعہ کو بند نہ کیا جائے۔

ج…جو صورت جناب نے تحریر فرمائی ہے حنفی مذہب کے مطابق اس میں جمعہ جائز نہیں، “مصر جامع” کی تعریف میں حضرات فقہاء کے الفاظ مختلف ضرور ہیں، لیکن کوئی تعریف میری نظر سے ایسی نہیں گزری جس کی رُو سے بیس مکانات کی بستی میں “مصر جامع” کے لقب سے سرفراز ہوسکے۔

رہا یہ کہ لوگوں کے فتنہ و فساد میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہے یہ کوئی عذر نہیں، کیا شریعت کو لوگوں کی خواہشات کے تابع کیا جائے گا؟ کہ اگر مسئلہ ان کی خواہش کے مطابق ہے تو ٹھیک ورنہ وہ اسلام ہی کو جواب دے جائیں گے؟ ہاں! ان مولوی صاحب سے برگشتہ ہونا ضروری ہے لیکن اگر مولوی صاحب بھی یہ اعلان کردیں کہ مجھ سے حماقت ہوئی کہ میں نے محض خود رائی سے جمعہ شروع کرادیا تو اُمید ہے کہ لوگ ان کو بھی معاف کر دیں گے، اور اگر شرعی مسئلہ کے علی الرغم لوگ جمعہ پڑھتے رہے تو سب کے ذمہ ظہر کی نماز باقی رہے گی، جس کا وبال نہ صرف جمعہ پڑھنے والوں کی گردن پر ہوگا، بلکہ سب کی نمازہی غارت ہونے کا وبال جمعہ پڑھانے والے مولوی صاحب پر بھی ہوگا۔ اوّل تو شاہ صاحب کا مطلب آپ سمجھے نہیں، علاوہ ازیں شاہ صاحب کسی فقہی مذہب کے امام نہیں کہ ان کی تقلید کی جائے، اور جس حدیث کا حوالہ دیا گیا ہے وہ ضعیف ہے۔

عورتوں کا جمعہ اور عیدین میں شرکت

س… بعض حضرات اس پر زور دیتے ہیں کہ عورتوں کو جمعہ، جماعت اور عیدین میں ضرور شریک کرنا چاہئے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں جمعہ، جماعت اور عیدین میں عورتوں کی شرکت ہوتی تھی، بعد میں کون سی نئی شریعت نازل ہوئی کہ عورتوں کو مساجد سے روک دیا گیا؟

ج… جمعہ، جماعت اور عیدین کی نماز عورتوں کے ذمہ نہیں ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بابرکت زمانہ چونکہ شرو فساد سے خالی تھا، ادھر عورتوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے احکام سیکھنے کی ضرورت تھی، اس لئے عورتوں کو مساجد میں حاضری کی اجازت تھی اور اس میں بھی یہ قیود تھیں کہ باپردہ جائیں، میلی کچیلی جائیں، زینت نہ کریں، خوشبو نہ لگائیں اس کے باوجود عورتوں کو ترغیب دی جاتی تھی کہ وہ اپنے گھروں میں نماز پڑھیں۔

چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

“تمنعوا نسائکم المساجد وبیوتہن خیر لہن۔” (رواہ ابوداؤد مشکوٰة ص:۹۶)

ترجمہ:…”اپنی عورتوں کو مسجدوں سے روکو، اور ان کے گھر ان کے لئے زیادہ بہترہیں۔”

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

“صلوة المرأة فی بیتہا افضل من صلاتہا فی حجرتہا وصلاتہا فی مخدعہا افضل من صلوتہا فی بیتہا۔” (رواہ ابو داؤد مشکوٰة ص:۹۶)

ترجمہ:…”عورت کا اپنے کمرے میں نماز پڑھنا اپنے گھر کی چار دیواری میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے، اور اس کا پچھلے کمرے میں نماز پڑھنا اگلے کمرے میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے۔”

مسند احمد میں حضرت ام حمید ساعدیہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ انہوں نے عرض کیا یارسول اللہ! میں آپ کے ساتھ نماز پڑھنا پسند کرتی ہوں، آپ نے فرمایا:

“قد علمت انک تحبین الصلٰوة معی، وصلاتک فی بیتک خیر لک من صلاتک فی حجرتک، وصلاتک فی حجرتک خیر من صلاتک فی دارک، وصلاتک فی دارک خیر لک من مسجد قومک، وصلاتک فی مسجد قومک خیر لک من صلاتک فی مسجدی۔ قال: فامرت فبنیت مسجد فی اقصیٰ شیٴ من بیتہا واظلمہ، فکانت تصلی فیہ حتی لقیت الله عزوجل۔”(مسند احمدج:۶ ص:۳۷۱)

“وقال الہیثمی ورجالہ رجال الصحیح غیر عبدالله بن سوید الانصاری، و ثقہ ابن حبان۔”

(مجمع الزوائد ج:۲ ص:۳۴)

ترجمہ:… “مجھے معلوم ہے کہ تم کو میرے ساتھ نماز پڑھنا محبوب ہے، مگر تمہارا اپنے گھر کے کمرے میں نماز پڑھنا گھر کے صحن میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے، اور گھر کے صحن میں نماز پڑھنا گھر کے احاطے میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے، اور احاطے میں نماز پڑھنااپنے محلے کی مسجد میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے، اور اپنے محلہ کی مسجد میں نماز پڑھنا میری مسجد میں (میرے ساتھ) نماز پڑھنے سے بہتر ہے۔

راوی کہتے ہیں کہ حضرت ام حمید رضی اللہ عنہا نے یہ ارشاد سنکر اپنے گھر کے لوگوں کو حکم دیا کہ گھر کے سب سے دور اور تاریک ترین کونے میں ان کے لئے نماز کی جگہ بنادی جائے، چنانچہ ان کی ہدایت کے مطابق جگہ بنادی گئی، وہ اسی جگہ نماز پڑھا کرتی تھیں، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ سے جاملیں۔”

ان احادیث سے عورتوں کے مساجد میں آنے کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا منشائے مبارک بھی معلوم ہوجاتا ہے، اور حضرات صحابہ و صحابیات رضوان اللہ علیہم اجمعین کا ذوق بھی۔

یہ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دور سعادت کی بات تھی، لیکن بعد میں جب عورتوں نے ان قیود میں کوتاہی شروع کردی جن کے ساتھ ان کو مساجد میں جانے کی اجازت دی گئی تو فقہائے امت نے ان کے جانے کو مکروہ قرار دیا، ام الموٴمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا ارشاد ہے:

“لو ادرک رسول الله صلی الله علیہ وسلم ما احدث النساء لمنعہن المسجد کما منعت نساء بنی اسرائیل۔”

(صحیح بخاری ج:۱ ص:۱۲۰، صحیح مسلم ج:۱ ص:۱۸۳، موٴطا امام مالک ص:۱۸۴)

ترجمہ:…”عورتوں نے جو نئی روش اختراع کرلی ہے اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو دیکھ لیتے تو عورتوں کو مسجد سے روک دیتے، جس طرح بنو اسرائیل کی عورتوں کو روک دیا گیا تھا۔”

اذان سے قبل مروّجہ صلوٰة و سلام پڑھنے کی شرعی حیثیت

س…۱: کچھ دنوں پہلے میری ایک شخص سے اس بات پر تکرار ہوئی کہ اذان سے قبل مروّجہ صلوٰة و سلام جس کا رواج آج کل عام ہوگیا ہے یہ بدعت ہے یا نہیں، میرا موقف یہ تھا کہ اذان سے قبل مروّجہ صلوٰة وسلام چونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام سے ثابت نہیں لہٰذا یہ بدعت ہے اور سنت کے خلاف ہے جبکہ اس شخص کا کہنا تھا کہ مروجہ صلوٰة و سلام بدعت تو ہے لیکن بدعت حسنہ ہے اور اس کے کرنے والے کو اجر و ثواب ملے گا اور اپنے موقف کی وضاحت کے لئے اس نے در مختار اور چند اور فقہ کی کتابوں اور بعض علمائے دیوبند کی عبارتوں سے مثلاً مولانا عبدالشکور لکھنوی فاروقی  کی کتاب “علم الفقہ” کے حوالے سے کہا کہ ان بزرگوں نے بھی مروّجہ صلوٰةو سلام قبل الاذان کو بدعتِ حسنہ قرار دیا ہے اور اس کے کرنے کو باعث اجرو ثواب لکھا ہے، مزید اس نے یہ بھی کہا کہ مدارس عربیہ وغیرہ بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کے دور میں نہیں تھے لہٰذا یہ بھی بدعت ہیں پھر تم مدارس وغیرہ کیوں بناتے ہو، ازراہ کرم آپ ان چند اُمور کا جواب باصواب عنایت فرما کر میرا اور میرے چند ساتھی دوستوں کا خلجان دُور فرمائیں، اللہ آپ کو اجر عظیم عطا فرمائے۔

ج… درمختار میں صلوٰة وسلام قبل الاذان کو ذکر نہیں کیا بلکہ بعد الاذان کو ذکر کیا ہے، در مختار کی عبارت کا ترجمہ یہ ہے: فائدہ: اذان کے بعد سلام کہنا ربیع الآخر ۷۸۱ھ میں سوموار کی رات کو عشاء کی اذان میں ایجاد ہوا، پھر جمعہ کے دن، پھر دس سال بعد مغرب کے علاوہ تمام نمازوں میں، پھر مغرب میں دو مرتبہ اور یہ بدعتِ حسنہ ہے۔

لیکن محشّی نے اس کو ناقابلِ التفات کہا ہے۔ جو چیز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے آٹھ سو سال بعد ایجاد ہوئی ہو اس کو دین میں کیسے داخل کیا جاسکتا ہے؟

الغرض در مختار کا حوالہ تو اس نے بالکل غلط دیا اور مولانا عبدالشکور لکھنوی کی کتاب “علم الفقہ” میرے پاس نہیں۔ اس سے کہا جائے کہ اس کا فوٹو اسٹیٹ مجھے بھیج دیں۔

بیوی کے زیور پر زکوٰة

س…۱: میں نے جمعہ کے اخبار میں پڑھا کہ بیوی کو اپنے زیور کی زکوٰة خود دینی چاہئے۔ تو مہربان! وہ بیوی تو اپنے زیور کی زکوٰة خود دے سکتی ہے جو کسی بھی قسم کی سروس کرتی ہو، لیکن وہ بیوی کہاں سے دے گی جس کا دار و مدار میاں کی تنخواہ پر ہو؟ اور تنخواہ بھی کم۔ اس کے لئے شریعت کیا حکم دیتی ہے؟

س…۲: میری عمر تقریباً ۴۰سال ہے، اور میری شادی کو ۵ سال گزرچکے ہیں، میرے یہاں اولاد کوئی نہیں ہوئی، ذرا مہربانی کرکے بتائیں کہ کیا رُکاوٹ ہے؟ میں ڈاکٹر، حکیموں کا اپنی حیثیت کے مطابق علاج کراچکی ہوں، سب کہتے ہیں نارمل ہے، میں اس لئے زیادہ پریشان ہوں کہ میری عمر ویسے ہی کافی ہے اگر اور زیادہ ہوگئی تو کیا ہوگا؟ کیونکہ میرے سسرال والے طرح طرح کی باتیں کرتے ہیں، ویسے میرے شوہر کی عمر میرے سے کم ہے۔

ج…۱: اگر بیوی کے پاس روپیہ پیسہ زکوٰة دینے کے لئے نہیں تو اس کی دو صورتیں ہوسکتی ہیں، ایک یہ کہ اتنا زیور رکھا ہی نہ جائے جس پر زکوٰة واجب ہو، دُوسری یہ کہ زیور ہی کا کچھ حصہ فروخت کرکے زکوٰة ادا کردی جائے۔

ج…۲: اَٹھارویں پارے میں سورہٴ النور ہے، اس کی آیت نمبر:۴۰ جو “اَوْ کَظُلُمٰتٍ” سے شروع ہوکر “فَمَا لَہ مِن نُّوْرٍ” پر ختم ہوتی ہے، چالیس لونگ لے کر یہ آیت ہر لونگ پر سات سات مرتبہ پڑھیں، جس دن حیض کے غسل سے پاک ہوں ایک ایک لونگ رات کو سوتے وقت کھایا کریں، مسلسل چالیس دن تک کھائیں، اور اُوپر پانی نہ پیا کریں، اور کبھی کبھی اپنے میاں سے ملا کریں، اللہ تعالیٰ کو منظور ہوگا تو اولاد ہوگی، اور یہ نیت کرلیں کہ انشاء اللہ اولاد کو قرآن مجید حفظ کرائیں گے اور دین کا خادم بنائیں گے۔

تھوڑی تھوڑی کرکے زکوٰة ادا کرنا

س… میرے پاس ایک لاکھ روپیہ ہے اور جس کی زکوٰة ۲۵۰۰ روپیہ ہوتی ہے اور میں زکوٰة کو اس طرح ادا کرتا ہوں، کہ سال شروع ہوتے ہی زکوٰة دینا شروع کردیتا ہوں کبھی ۵۰، کبھی ۱۰۰ جیسے جیسے ضرورت مند ملتا ہے ویسے دیتا رہتا ہوں اور جیسے ہی سال ختم ہوتا ہے میں اس سے پہلے ہی زکوٰة ادا کردیتا ہوں تو کیا یہ زکوٰة ادا ہوجائے گی؟

ج… اگر تھوڑی تھوڑی کرکے زکوٰة دی جائے تو بھی ادا ہوجاتی ہے۔

س… میں واپڈا ملازم ہوں اور مجھے میڈیکل سہولت ملی ہوئی ہے میں نے ڈاکٹر سے جو واپڈا کا میڈیکل آفیسر ہے اس سے دوا لکھوائی اور واپڈا کے میڈیکل اسٹور پر دوالینے گیا تو اسٹور کیپر نے کہا کہ کچھ دوا ہے وہ لے لو اور جو دوا نہیں ہے اس کے پیسے لے لو تو وہ پیسے لے کر گھر پہنچا تو گھر میں معلوم ہوا کہ آٹا وغیرہ یا اور کوئی ضرورت کی چیز نہیں ہے تو میں نے ان پیسوں کو استعمال کرلیا تو میرے لئے یہ جائز ہے یا نہیں؟ یا ان کی دوا ہی لینی چاہئے تھی۔

ج… اگر واقعی ضرورت کے لئے دوا لکھوائی تھی تو وہ پیسے آپ کے ہوگئے، ان کا جو چاہیں کریں۔

اِضطباع ساتوں چکروں میں ہے

س… مجھ کو جو بھی کتاب دیکھنے کا اتفاق ہوا ہے میں نے اس میں یہی لکھا ہوا پایا ہے کہ اِضطباع “جس طواف میں اِضطباع مسنون ہے” پورے طواف یعنی ساتوں چکروں میں مسنون ہے۔ لیکن ہماری مسجد کے امام صاحب کا کہنا ہے کہ رَمل کی طرح یہ بھی صرف پہلے تین چکروں میں مسنون ہے، ان کو لوگوں نے ٹوکا کہ مسئلہ غلط بتلا رہے ہیں، لیکن وہ اپنی بات پر اَڑے رہے۔ برائے مہربانی بتلائیں کہ حنفی فقہ میں واقعی ایسی کوئی روایت ہے؟

ج… مناسک ملاعلی قاری میں لکھا ہے کہ اِضطباع ساتوں پھیروں میں مسنون ہے علامہ شامی رد المحتار میں لکھتے ہیں:

“وفی شرح اللباب: واعلم ان الاضطباع سنة فی جمیع اشواط الطواف۔ کما صرح بہ ابن الضیاء۔”

(رد المحتار ص:۴۹۵، ج:۲)

ترجمہ:…”اور شرح لباب میں ہے: واضح ہو کہ اِضطباع تمام چکروں میں مسنون ہے، جیسا کہ ابن ضیاء نے اس کی تصریح کی ہے۔”

س… میں نے کتابوں میں یہی لکھا ہوا پایا ہے کہ اگر کوئی شخص اِحرام میں مرجائے تو غیرمحرِم کی طرح اس کو کفن دیا جائے، اس کا سر ڈھانکا جائے، کافور اور خوشبو وغیرہ لگائی جائے، لیکن ہماری مسجد کے امام صاحب کا کہنا ہے کہ اس کو اِحرام ہی کے کپڑوں میں دفن کیا جائے، لیکن اگر عورت ہو تو اس کو کفن دیا جائے۔ برائے مہربانی بتلائیں کہ اس معاملت میں حنفی فقہ کیا ہے؟ کیا واقعی مرد کے لئے الگ حکم ہے اور عورت کے لئے الگ؟

ج…حنفیہ کے نزدیک موت سے اِحرام ختم ہوجاتا ہے، لہٰذا اگر کوئی شخص حالتِ اِحرام میں فوت ہوجائے تو اسے بھی عام مرنے والوں کی طرح مسنون کفن دیا جائے گا، اس کا سر ڈھانکا جائے گا اور خوشبو بھی لگائی جائے گی۔ یہ بات دُوسری ہے کہ قیامت کے دن اس کو حالتِ اِحرام میں اُٹھایا جائے گا۔

وزارتِ مذہبی اُمور کا کتابچہ

س… گزارش ہے کہ آج آپ کی توجہ ایک اہم مسئلے کی طرف مبذول کرانا چاہتی ہوں، وہ یہ کہ اس سال “وزارتِ مذہبی اُمور و اقلیتی اُمور اسلام آباد” سے ایک کتابچہ حجاجِ کرام کے نام بھیجا گیا ہے جس کا نام ہے “آپ حج کیسے کریں؟” یہ ذی الحجہ ۱۴۰۰ھ اور اکتوبر ۱۹۸۰ء کا شائع شدہ ہے، اس کے صفحہ:۸۹ پر رَمی کے سلسلے میں تحریر ہے کہ: “بھیڑ زیادہ ہوتی ہے اس لئے عورتیں، بوڑھے اور کمزور مرد وہاں نہ جائیں، وہ اپنی کنکریاں دُوسروں کو دے دیں۔” اور صفحہ:۹۴ پر بھی عورتوں کو کنکریاں مارنے کے لئے منع کیا ہے۔ چنانچہ اس سال بہت سی عورتوں نے اس مسئلے پر آنکھ بند کرکے عمل کیا اور تین دن میں ایک دن بھی کنکریاں مارنے، نہ دن میں اور نہ رات میں گئی تھیں، اسی صفحہ:۸۹ پر لکھا ہے کہ: “عورتیں اگر جانا چاہیں تو مغرب کی نماز کے بعد جائیں۔” چنانچہ میں نے بھی اسی پر عمل کیا اور میری خوش دامن نے بھی جو میرے ہمراہ تھیں، اور بھی بہت سی عورتوں نے کہا کہ جب مذہبی اُمور کی وزارت نے اور اپنے اسلامی جمہوریہ پاکستان کی حکومت نے لکھا ہے تب تو بالکل صحیح ہی ہوگا۔

یہاں آنے پر علماء سے معلوم ہوا کہ عورتوں کا کنکریاں مارنا واجب ہے، اگر دن میں بھیڑ تھی تو رات کو دیر کرکے جب بھیڑ کم ہوجاتی تب جانا چاہئے تھا، اور اس طرح سے ترکِ واجب پر ہر عورت پر ایک ایک دَم واجب ہوتا ہے جو کہ حدودِ حرم ہی میں دیا جائے گا۔ لہٰذا ہم اب کیسے وہاں دَم دینے کا بندوبست کریں؟ اور دَم نہ دینے کی وجہ سے جن جن عورتوں کو معلوم بھی نہیں ہے اور وزارتِ مذہبی اُمور پاکستان کے کتابچے کے مطابق عمل کرکے مطمئن ہیں کہ ہمارا حج مکمل ہوگیا ہے، ان ہزاروں عورتوں کو کس طرح بتلادیا جائے کہ ایک ایک دم حدودِ حرم میں مزید دینے کا بندوبست کرو؟ اور اس کا گناہ کس پر آئے گا؟ اور اس طرح ہزاروں عورتوں کا حج ناقص کرانے کا گناہ کس پر ہوگا؟ جو حکمِ شرعی ہو مطلع فرمائیں۔ (نوٹ) فوٹواسٹیٹ کتابچے کا منسلک ہے۔

ج… مسئلہ وہی ہے جو علمائے کرام نے بتایا، خود رَمی نہ کرنا بلکہ کسی دُوسرے سے رَمی کرالینا، اس کی اجازت صرف ایسے کمزور مریض کے لئے ہے جو خود وہاں تک جانے اور رَمی کرنے پر قادر نہ ہو۔

عورتوں کے لئے یہ سہولت دی گئی ہے کہ وہ رات کے وقت رَمی کرسکتی ہیں، اس لئے جن عورتوں نے بغیر عذرِ صحیح کے خود رَمی نہیں کی، وہ واجبِ حج کی تارک ہیں، اور ان کے ذمہ دَم لازم ہے، وہ کسی ذریعہ سے اتنی رقم مکہ مکرّمہ بھیجیں جس کا جانور خرید کر ان کی طرف سے حدودِ حرم میں ذبح کیا جائے، ورنہ ان کا حج، ترکِ واجب کی وجہ سے ہمیشہ ناقص رہے گا، اور وہ گناہگار رہیں گی۔

رہا یہ کہ ہزاروں عورتوں نے اس غلط مشورے پر عمل کرکے جو اپنے حج خراب کئے اس کا گناہ کس کے ذمہ ہوگا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ دونوں گناہگار ہیں، ایسی غلط کتابیں لکھنے والے بھی، اور ایسے کچے پکے کتابچوں پر عمل کرنے والے بھی۔

جو لوگ حج کا طویل سفر کرتے ہیں، ہزاروں روپے کے مصارف اور سفر کی صعوبتیں برداشت کرتے ہیں، وہ تھوڑی سی یہ زحمت بھی برداشت کرلیا کریں کہ حج پر جانے سے پہلے محقق اور معتبر علمائے دین سے حج کے مسائل معلوم کرلیا کریں، محض غلط سلط کتابچوں پر اعتماد کرکے اپنا سفر کھوٹا نہ کیا کریں۔

ہم وزارتِ مذہبی اُمور سے اور اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین سے بھی اپیل کرتے ہیں کہ وہ غلط قسم کے کتابچے شائع کرکے ہزاروں لوگوں کا حج برباد نہ کریں۔

کرسچن بیوی کی نومسلم بہن سے نکاح

س… میں ایک کرسچن عورت ہوں، میرا شوہر میری بہن کو بھگاکر اوکاڑہ لے گیا، جب کہ وہ لڑکی بھی عیسائی ہے، دونوں مسلمان ہوئے اور نکاح کرلیا، جبکہ میرے چھ بچے ہیں، نہ مجھے طلاق دی اور نہ بتایا۔ آپ سے عرض یہ ہے کہ آپ کا مذہب اسلام شرعی طور پر اس کی کیا اجازت دیتا ہے کہ دونوں بہنوں سے نکاح جائز ہے؟ اور دونوں کو نکاح میں رکھ سکتا ہے؟ جبکہ ایک عیسائی ہو اور دُوسری مسلمان، تفصیل سے جواب دیں، میرا مقدمہ عدالت میں چل رہا ہے۔

ج … شرعاً دو بہنوں کو نکاح میں جمع کرنا جائز نہیں، اور عیسائی (اہلِ کتاب) میاں بیوی کے جوڑے میں سے اگر شوہر مسلمان ہوجائے تو نکاح باقی رہتا ہے، لہٰذا آپ کا نکاح بدستور باقی ہے، جب تک کہ اس نے طلاق نہ دی ہو، اور جب تک آپ کا نکاح باقی ہے وہ آپ کی بہن سے نکاح نہیں کرسکتا۔ عدالت کا فرض ہے کہ ان دونوں کے درمیان علیحدگی کرادے، والله اعلم!

ہر ایک سے گھل مل جانے والی بیوی کا حکم

س… ایک صحابی نے شکایت کی یہ میری بیوی کسی طلبگار کا ہاتھ نہیں جھٹکتی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسے طلاق دے دو۔ صحابی نے عرض کیا کہ میں اس کے بغیر نہیں رہ سکتا، حضور نے فرمایا تو پھر اس سے فائدہ اٹھاوٴ۔ یہ روایت کیسی ہے؟ یہ بھی درایت کے خلاف معلوم ہوتی ہے؟

ج … مشکوٰة شریف باب اللعان فصل ثانی میں یہ روایت ہے ابن عباس سے اور اس کے رفع و وقف میں اختلاف نقل کرکے امام نسائی کا قول بھی نقل کیا ہے: “لیس ثابت” اگرچہ اس کی تأویل بھی ہوسکتی ہے کہ: “لا ترد ید لابس” سے مراد یہ ہے کہ ہر ایک سے گھل مل جاتی ہے، یا یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ اندیشہ ہوگا کہ اس کی محبت کی وجہ سے یہ حرام میں مبتلا ہوجائے گا۔

حضرت سودہ کو طلاق دینے کے ارادہ کی حکمت

س… ایک آدمی اپنی بیوی کو اس لئے طلاق دے دے کہ وہ بوڑھی ہوگئی اور اس کے قابل نہیں رہی، اس بات کو کوئی بھی بنظرِ استحسان نہیں دیکھتا۔ ایک روایت میں ہے کہ حضور علیہ السلام نے حضرت سودہ کو ان کے بڑھاپے کی وجہ سے طلاق دینا چاہی، پھر جب حضرت سودہ نے اپنی باری حضرت عائشہ کو دے دی تو آپ نے طلاق کا ارادہ بدل لیا۔ یہ بات حضور کی ذاتِ اقدس سے بعید معلوم ہوتی ہے اور مخالفوں کے اس اعتراض کو کہ نعوذباللہ تعدّدِ ازواج کی غرض شہوت رانی تھی، تقویت ملتی ہے، حالانکہ حضور کو یتیموں اور بیواوٴں کا ملجا و ماویٰ قرار دیا جاتا ہے۔

ج … عرب میں طلاق معیوب نہیں سمجھی جاتی جتنی کہ ہمارے ماحول میں اس کو قیامت سمجھا جاتا ہے، علاوہ ازیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں “تُرْجِیْ مَنْ تَشَآءُ مِنْھُنَّ وَتُوٴْوِیْ اِلَیْکَ مَنْ تَشَآءُ” فرماکر آپ کو رکھنے نہ رکھنے کا اختیار دے دیا گیا تھا، اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کسی کی علیحدگی کا فیصلہ کر لینا کسی طرح بھی محل اعتراض نہیں۔ اور ازدواجی زندگی صرف شہوت رانی کے لئے نہیں ہوتی موانست اور موالفت اس کے اہم مقاصد میں سے ہے۔ بہت ممکن ہے کسی وقت کسی بی بی سے موانست نہ رہے اور طلاق کا فیصلہ کرلیا جائے اور حضرت عائشہ کو اپنی باری دے دینا اور اپنے تمام حقوق سے دستبردار ہوجانا حضرت اُمّ الموٴمنین سودہ کا وہ ایثار تھا جس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ تبدیل فرمالیا، اس پر اس سے زیادہ گفتگو کرتا لیکن یہاں اشارہ کافی ہے۔

نصرانی عورت سے نکاح

س… نصاریٰ خود حق تعالیٰ کے قول: “وَلَا تَقُوْلُوْا ثَلَاثَة” سے مشرک ہیں اور مشرک عورتوں سے نکاح جائز نہیں، جیسا کہ ارشاد الٰہی: “وَلَا تَنْکِحُوا الْمُشْرِکَاتِ” میں اس کی تصریح ہے، پھر نصاریٰ کی عورتوں سے نکاح کیوں جائز ہے؟ جس وقت قرآن اُترا تھا اس وقت بھی قرآن کے مطابق وہ مشرک تھے، لہٰذا یہ کہنا کہ پہلے ان سے نکاح جائز تھا اور اب ناجائز ہے کچھ معقول نہیں معلوم ہوتا۔

ج… بہت سے اہلِ علم کو یہی اشکال پیش آیا اور انہوں نے کتابیات سے نکاح کو عام مشرکین کے ساتھ مشروط کیا، لیکن محققین کے نزدیک کتابیات کی حلّت “وَلَا تَنْکِحُوا الْمُشْرِکَاتِ” کے قاعدے سے مستثنیٰ ہے۔

س … آپ نے فرمایا کہ محققین کے نزدیک کتابیات کی حلّت “وَلَا تَنْکِحُوا الْمُشْرِکَاتِ” کے قاعدے سے مستثنیٰ ہے، اس جواب سے تسلّی نہیں ہوئی۔

ج … مطلب یہ کہ نصرانیات کا مشرکات ہونا تو واضح ہے اس کے باوجود ان سے نکاح کی اجازت دی گئی ہے اس سے واضح ہوتا ہے کہ “وَلَا تَنْکِحُوا الْمُشْرِکَاتِ” کا حکم کتابیات کے لئے نہیں غیرکتابیات کے لئے ہے۔

نیوتہ کی رسم

س… شادی کی تقریب میں جو کھانا کھلاتے ہیں جسے ولیمہ کہا جاتا ہے جو شادی کے دوسرے دن کیا جاتا ہے بعض حضرات تو کئی دنوں کے بعد ولیمہ کرتے ہیں اور اس کھانے کے بعد وہ لوگ کھانا کھانے والوں سے کچھ رقم لیتے ہیں ۵۰یا ۱۰۰ جیسی بھی حیثیت ہو اس حساب سے یا پھر جتنے دیئے ہوتے ہیں اتنے یا اس سے زیادہ وصول کرتے ہیں جسے نیوتہ کہتے ہیں اور لینے والا اس نیت سے لیتا ہے کہ میں آئندہ اس کے ولیمہ میں ۱۰۰ کی بجائے ۱۵۰ دوں گا اور دینے والا بھی اس نیت سے دیتا ہے کہ مجھے آئندہ اس سے زیادہ رقم ملے گی تو کیا اس نیت سے نیوتہ لینا اور دینا جائز ہے، اور اگر لینے کی نیت نہ ہو صرف اس لئے دے کہ کہیں رشتہ داروں سے قطع تعلقی نہ ہو یا پڑوس والے برا نہ محسوس کریں اور نہ لینے کی نیت سے کچھ رقم دے کر ولیمہ کھالے تو کیا اس طریقہ سے کھانا کھانے والے پر بھی گناہ ہوگا حالانکہ اس کی واپس لینے کی نیت نہیں ہے۔

ج… میاں بیوی کی تنہائی جس رات ہو اس سے اگلے دن ولیمہ حسب توفیق مسنون ہے، نیوتہ کی رسم بہت غلط ہے، اور بہت سی برائیوں کا مجموعہ ہے، اس لئے واپس لینے کی نیت سے ہرگز نہ دیا جائے، جو کچھ دینا ہے، ہدیہ کی نیت سے دے دیا جائے، واپسی کی نہ نیت ہو نہ توقع ہو۔

“مجھ پر حلال دنیا حرام ہوگی” کہنے سے طلاق؟

س… ایک شخص مثلاً زید اپنے گھر بار سے بے ربط عرصہٴ تقریباً دو سال سے بالغدو والآصال بہروپ کی زندگی بسرکررہا ہے، گزشتہ سال ماہ اکتوبر میں متعلقین نے زید سے حقائق معلوم کرنے کے لئے باز پرس کی، منازعت کے بعد مذکور شخص نے روبرو گواہاں کے مندرجہ ذیل تحریر دی:

۱:… ماہ فروری ۱۹۸۸ء تک اپنے اہل و عیال کے پاس پہنچنے کا پابند رہوں گا۔

۲:… معینہ مدت تک مبلغ تین سو روپیہ ماہوار اپنی منکوحہ اور بچوں کے نان و نفقہ کے لئے بھیجتا رہوں گا۔

۳:… انحراف کا نتیجہ مجھ پر حلال دنیا حرام ہوگی۔ یہ یاد رہے مندرجہ ذیل الفاظ سے منحرف ہونے والے کی منکوحہ کو مقاطعہ سمجھا جاتا ہے، لہٰذا زید نے اس سے تجاوز کیا، اس صورت میں قرآن و سنت کی روشنی میں زید کے لئے کیا حکم ہے؟

ج… فی الخانیة:

“رجل قال کل حلال علی حرام او قال کل حلال او قال حلال الله او قال حلال المسلمین ولہ امراة ولم ینو شیئاً اختلفوا فیہ قال الشیخ الامام ابوبکر محمد بن الفضل والفقیہ ابو جعفر وابوبکر الاسکاف وابوبکر بن سعید رحمہم الله تعالیٰ تبین منہ امرأتہ بتطلیقة واحدة وان نویٰ ثلاثا فثلاث، وان قال لم انو بہ الطلاق، لا یصدق قضاءً لانہ صار طلاقًا عرفًا۔ ولہٰذا لا یحلف بہ الا الرجال۔”

(فتاوی قاضی خان بر حاشیہ فتاویٰ ہندیہ ص:۵۱۹ ج:۱)

ترجمہ:…”خانیہ میں ہے کہ اگر کسی آدمی نے کہا کہ: سب حلال مجھ پر حرام ہے، یا ہر حلال، یا یہ کہ اللہ کی جانب سے تمام حلال، یا مسلمانوں کا حلال مجھ پر حرام ہے، اور اس کی بیوی بھی ہے، یا اس نے کوئی نیت نہیں کی، اس میں (علماء کا) اختلاف ہے، شیخ امام ابوبکر محمد بن فضل، فقیہ ابو جعفر، ابوبکر اسکاف اور ابوبکر بن سعید کے نزدیک (یہ الفاظ کہنے سے) اس کی بیوی پر ایک طلاق بائنہ واقع ہوجائے گی، اگر اس نے تین طلاق کی نیت کی تھی تو تین طلاق واقع ہوجائیں گی، اگر وہ یہ کہتا ہے کہ میں نے ان الفاظ سے طلاق کی نیت نہیں کی تھی تو قضاءً اس کو سچا نہیں سمجھا جائے گا، کیونکہ عرف میں یہ طلاق کے الفاظ ہیں۔”

اس روایت سے معلوم ہوا کہ صورت مسئولہ میں زید کے الفاظ:”انحراف کا نتیجہ مجھ پر حلال دنیا حرام ہوگی۔” تعلیق طلاق کے الفاظ ہیں، پس جب اس نے شرط پوری نہیں کی تو اس کی بیوی پر فروری ۱۹۸۸ء گزرنے پر طلاق بائن واقع ہوگئی، عدت پوری ہونے کے بعد عورت دوسری جگہ اپنا عقد کرسکتی ہے۔

تین طلاق کا حکم

س… گزارش خدمت ہے کہ آپ کا کالم بہت مفید ہے، اور لوگ اس سے استفادہ کرتے ہیں، لیکن ایک بات سمجھ نہیں آئی جو طلاق کے بارے میں ہے کہ تین طلاقیں ایک ہی وقت میں دینے کے بعد بغیر مقررہ تین ماہ گزرنے کے طلاق ہوجاتی ہے۔

میاں بیوی کئی سال اکٹھے رہتے ہیں، ان کے پیارے پیارے بچے بھی ہوتے ہیں، انسان ہونے کے ناطے کسی وقت غصہ آہی جاتا ہے، اور بکواس منہ سے نکل جاتی ہے، لیکن بعد میں ندامت ہوتی ہے، تو یقینا خدا تعالیٰ جو بہت ہی غفور الرحیم ہے معاف فرمادیتا ہے، ورنہ تو کئی گھر اجڑ جائیں۔

قانون کے تحت تین طلاقیں تین ماہ میں پوری ہوتی ہیں، خواہ ایک ہی وقت میں دی جائیں، تین ماہ گزر جانے کے بعد تو خدا تعالیٰ بھی معاف نہیں فرمائے گا کیونکہ تین ماہ کی مہلت سے فائدہ نہیں اٹھایا گیا۔ اگر تین طلاقیں ایک دم دینے پر فوری طور پر طلاق ہوجاتی ہو تو پھر تو یورپ وامریکہ والی طلاق بن جاتی ہے، جو یقینا اسلامی نہیں۔

اب اصل بات لکھتا ہوں، جو امید ہے کہ آپ من و عن شائع فرمائیں گے اور جواب سے نوازیں گے تاکہ سب لوگ اس سے فائدہ اٹھاسکیں۔

آپ کے کالم میں متعدد بار جواب میں پڑھا کہ تین بار ایک ہی وقت دی گئی طلاق، طلاق ہوگئی، مدت کا ذکر نہیں ہوتا کہ کتنے عرصہ کے بعد طلاق واقع ہوگی، یعنی فوری طلاق ہوگئی، قرآن کریم میں تو خدا تعالیٰ نے طلاق کو سخت ناپسند فرمایا ہے، اور صرف انتہائی صورت میں جب گزارے کی صورت نہ ہو، طلاق کی اجازت دی ہے، اور اس میں بھی تین طلاقیں رکھی ہیں تاکہ تین ماہ کے عرصہ میں احساس ہونے پر رجوع ہوسکے۔

انگریزی حکومت میں (یہ قانون اب بھی ہوگا) اگر کوئی شخص بغیر اطلاع دئیے ڈیوٹی سے غیرحاضر ہوتا تو اگر چھ ماہ کے اندر واپس آجاتا تو وہ فارغ نہیں کیا جاتا تھا، بلکہ اپنی ملازمت میں ہی رہتا تھا، دہلی میں ایک دوست کے ساتھ ایسا واقعہ ہوا تھا کہ چھ ماہ کے اندر واپس حاضر ہوجانے سے اس کی ملازمت ختم نہیں ہوئی بلکہ جاری رہی۔

اسی طرح طلاق کے لئے جو تین ماہ کی مدت ہے اس سے طلاق دینے والے کو اس کے اندر طلاق واپس لینے کا حق ہے، ہاں تین ماہ گزر جانے کے بعد واپسی کی صورت نہیں رہے گی، اگر تین طلاقیں ایک ہی وقت میں دینے سے فوراً طلاق ہوجاتی ہے، تو پھر تو یورپ و امریکہ والی طلاق ہوجائے گی جو یقینا اسلامی نہیں۔

میری ناقص رائے میں ایک ہی وقت میں تین طلاقیں دی جانے پر آپ کے جواب میں تین ماہ کی مہلت کا بھی ذکر آنا چاہئے، بصورت دیگر گھر بھی اُجڑیں گے اور بچے بھی۔

ج … شرعی مسئلہ تو وہی ہے جو میں نے لکھا، اور ائمہ اربعہ اور فقہائے امت اسی کے قائل ہیں، آپ نے جو شبہات لکھے ہیں ان کا جواب دے سکتا ہوں، مگر ضرورت نہیں سمجھتا، اگر کسی طرح کی گنجائش ہوتی تو اس کے اظہار میں بخل نہ کیا جاتا، لیکن جب گنجائش ہی نہ ہو تو کم از کم میں تو اپنے آپ کو اس سے معذور پاتا ہوں۔

زہر کھانا قانوناً منع اور شرعاً حرام ہے، لیکن اگر کوئی کھا بیٹھے اور اس کے نتیجے میں ڈاکٹر یہ لکھ دے کہ اس زہر سے اس کی موت واقع ہوگئی ہے تو مجرم ڈاکٹر نہیں کہلائے گا، اس کا قصور صرف اتنا ہے کہ اس نے زہر کے اثر اور نتیجہ کو ذکر کردیا۔

حرمتِ مصاہرت کے لئے شہوت کی مقدار

س… علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کیا فرماتے ہیں کہ جب کوئی مرد کسی عورت کو لمس کرتا ہے شہوت کے ساتھ، لیکن اس کو شہوت پہلے موجود تھی، بعد میں اس نے کسی عالم سے پوچھا پھر اس عالم نے کہا کہ اگر پہلے شہوت موجود ہے تو شہوت کا بڑھنا شرط ہے، پھر اس شخص نے کہا کہ چلو میں کسی اور مسلک کو اختیار کرتا ہوں جس میں حرمت مصاہرت لمس سے نہ ہو، پھر تقریباً ایک سال گزرا تو اس شخص نے ہدایہ ثانی اور شرح وقایہ میں وضاحت سے پڑھا کہ شہوتِ لمس وہ معتبر ہے جس سے اس کا ذکر منتشر ہو، اگر ذکر پہلے سے منتشر ہے تو لمس کی وجہ سے انتشار زیادہ ہوگیا ہو، اب اس نے غور کیا کہ لمس کی وجہ سے انتشار بڑھایا نہیں؟ تو اس کو شبہ نظر آیا اور پہلے کنزالدقائق میں صرف یہ پڑھا کہ لمس بشہوت سے حرمتِ مصاہرت ثابت ہوتی ہے، یہ معلوم نہ تھا کہ لمس بشہوت کی تعریف کیا ہے؟ اور میرے دماغ میں صرف یہ تھا کہ لمس بشہوت وہ ہے جو عورت کو لمس کرنے سے مذی نکلے، پھر عالم سے اس بنأ پر سوال کیا تھا کہ اگر شہوت پہلے موجود ہے؟ تو اس نے کہا کہ پھر شہوت زیادہ ہو، تو اب ہدایہ ثانی پڑھنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ لمس بشہوت کی تعریف یہ ہے اور تعریف معلوم ہونے کے بعد عقل سے غور کرتا ہوں تو شبہ نظر آرہا ہے تو اب اس شبہ کا اعتبار کروں یا نہیں؟ کیا اس صورت میں شادی کرنا جائز ہے یا نہیں، اور علمأ نے بھی یہ نہ پوچھا کہ لمس بشہوت کی تعریف آپ کو معلوم ہے؟ اور اب عقل سے غور کرتا ہوں تو شبہ نظر آتا ہے تو اس مسئلہ میں علمائے کرام کیا فرماتے ہیں؟ ایک سال تقریباً سوچنے کے بعد شبہ کا اعتبار کیا جائے گا یا نہیں؟ اب دریافت طلب امور یہ ہیں:

س…۲: اگر شبہ کا اعتبار کیا جائے گا تو وہ عورت سے کیسے پوچھے کہ آپ کو شہوت تھی یا نہیں یا عورت کی شہوت کا اعتبار نہیں کیا جائے گا؟

س…۳: اگر دوسرے مذہب پر کلی طور پر چلے تو صحیح ہے یانہیں؟ حالانکہ سارے مذاہب حق ہیں جو بھی آدمی راستہ لے لے۔

ج…۱: “دع ما یریبک الی ما لا یریبک” حدیثِ نبوی ہے، جب شہوت کا وجود متیقن ہے اور ازدیادِ شہوت میں شبہ ہے تو حلال و حرام کے درمیان اشتباہ ہوگیا، اور مشتبہ کا ترک بھی اسی طرح واجب ہے جس طرح حرام کا۔

علاوہ ازیں اقرب یہ ہے کہ انتشار آلہ بھی تصور لمس سے ہوا ہوگا، اور لمس سے اس میں زیادتی اقرب الی القیاس ہے، اس لئے نفس کی تاویلات لائق اعتبار نہیں، حرمت ہی کا فتویٰ دیا جائے گا۔

ج…۲: مذاہب اربعہ برحق ہیں، لیکن خواہشِ نفس کی بنا پر ترک مذہب الی مذہب حرام ہے۔ اور اس پر مذاہب اربعہ متفق ہیں، لہٰذا صورت مسئولہ میں انتقال مذہب کی اجازت نہیں، ھذا ما ظہرلی والله اعلم بالصواب!

عورتوں کے لئے سونے چاندی کا استعمال جائز ہے

س… پچھلے دنوں ایک ماہنامہ بنام “حکایت” میں ایک مضمون پڑھا جس کو پروفیسر رفیع اللہ شہاب نے تحریر کیا تھا! اس مضمون میں پروفیسر صاحب نے ابو داؤد کی چند ایک احادیث کا حوالہ دے کر سونے کے زیورات کو عورتوں پر بھی حرام قرار دے دیا، احادیث کے حوالے پیش خدمت ہیں:

۱:… حضرت اسماء رضی اللہ عنہا بنت یزید نے روایت بیان کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس عورت نے بھی اپنے گلے میں سونے کا گلو بند پہنا تو قیامت کے دن اسے ویسا ہی آگ کا گلو بند پہنایا جائے گا، اور جو عورت بھی اپنے کانوں میں سونے کی بالیاں پہنے گی تو قیامت کے دن انہیں کی مانند آگ اس کے کانوں میں ڈالی جائے گی۔

۲:…حضرت حذیفہ کی ایک بہن سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے عورتوں کی جماعت! تم چاندی کے زیورات کیوں نہیں پہنتیں کیونکہ تم میں سے جو عورت سونے کا زیور پہنے گی اور اس کی نمائش کرے گی تو قیامت کے دن اسے اس زیور سے عذاب دیا جائے گا۔

(سنن ابوداؤد جلدنمبر۲ صفحہ نمبر ۴۱۰ مصری ایڈیشن)

مولانا صاحب! مندرجہ بالا احادیث سے تو پروفیسر صاحب کی تحقیق صحیح ثابت ہوئی جب کہ ہمارے علمائے کرام کا فیصلہ اس کے بالکل برعکس ہے، صحیح احادیث سے فیصلہ فرما کر اس مسئلہ کو واضح فرمائیں۔

ج … ابوداؤد ج:۲، ص:۲۲۵ (مطبوعہ ایچ، ایم، سعید، کراچی)کے حاشیہ میں ہے:

“ھذا الحدیث وما بعدہ وکل ما شاکلہ منسوخ، وثبت اباحتہ، للنساء بالاحادیث الصریحة الصحیحة وعلیہ انعقد الاجماع، قال الشیخ ابن حجر: النہی عن خاتم الذہب او التختم بہ مختص بالرجال دون النساء، فقد انعقد الاجماع علیٰ اباحتہ للنساء، والله تعالیٰ اعلم و علمہ احکم واتم۔”

ترجمہ:… “یہ حدیث، اس کے بعد کی حدیث اور اس مضمون کی دوسری احادیث منسوخ ہیں، اور سونے کا عورتوں کے لئے جائز ہونا صریح اور صحیح احادیث سے ثابت ہے، اور اس پر امت کا اجماع منعقد ہوچکا ہے، شیخ ابن حجر فرماتے ہیں کہ: “سونے کی انگوٹھی اور اس کے پہننے کی ممانعت صرف مردوں کے لئے ہے، عورتوں کے لئے نہیں، چنانچہ اس پر اجماع منعقد ہوچکا ہے کہ سونے کا پہننا عورتوں کے لئے جائز ہے۔”

ابوداؤد کی شرح بذل المجہود (ج:۵، ص:۸۷ مطبوعہ کتب خانہ یحیوی، سہارنپور) میں ہے:

“قال ابن رسلان ہذا الحدیث الذی ورد فیہ الوعید علیٰ تحلی النسا بالذہب یحتمل وجوہًا من التاویل:احدہا انہ منسوخ کما تقدم من ابن عبدالبر، والثانی انہ فی حق من تزینت بہ وتبرجت واظہرتہ والثالث ان ہذا فی حق من (لا) توٴدی زکوٰتہ دون من اداہا، الرابع انہ انما منع منہ فی حدیث الاسورة والفتخات، لمارائی من غلظہ فانہ من مظنة الفخر والخیلاء۔”

ترجمہ:… “ابن رسلان کہتے ہیں: یہ حدیث جس میں عورتوں کے سونے کے زیور پہننے پر وعید آئی ہے اس میں چند تاویلوں کا احتمال ہے، ایک یہ کہ یہ منسوخ ہے، جیسا کہ امام ابن عبدالبر کے حوالے سے گزر چکا ہے،دوم یہ کہ یہ وعید اس عورت کے حق میں ہے جو اپنی زینت کی عام نمائش کرتی پھرتی ہو، سوم یہ کہ یہ اس عورت کے حق میں ہے جو اس کی زکوٰة نہ دیتی ہو، اس کے بارے میں نہیں جو زکوٰة ادا کرتی ہو، چہارم یہ کہ ایک حدیث میں کنگنوں اور پازیبوں کی ممانعت کی گئی ہے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ یہ بڑے موٹے موٹے زیور فخر و تکبر کا ذریعہ ہوسکتے ہیں۔”

ان دونوں حوالوں سے معلوم ہوا کہ عورتوں کے لئے سونے کے استعمال کی ممانعت کی احادیث یا تو منسوخ ہیں یا موٴول ہیں، اور یہ بھی معلوم ہوا کہ عورتوں کے لئے سونے کے استعمال کی اجازت احادیث صحیحہ سے ثابت ہے اور یہ کہ اس پر امت کا اجماع ہے، اب اجازت کی دو حدیثیں لکھتا ہوں:

اوّل:… “عن علی رضی الله عنہ ان نبی الله صلی الله علیہ وسلم اخذ حریرا فجعلہ فی یمینہ واخذ ذہبا فجعلہ فی شمالہ ثم قال ان ہذین حرام علی ذکور ا متی و فی روایة ابن ماجة حل لانا ثہم۔”

(ابوداؤد ج:۲، ص:۲۲۵ نسائی ج:۲،ص:۲۸۴، ابن ماجہ ص:۲۵۷)

ترجمہ:…”حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دائیں ہاتھ میں ریشم اور بائیں ہاتھ میں سونا لیا، پھر فرمایا کہ یہ دونوں چیزیں میری امت کے مردوں پر حرام ہیں،اور ابن ماجہ کی روایت میں ہے کہ میری امت کی عورتوں کے لئے حلال ہیں۔”

دوم:…”عن ابی موسیٰ الاشعری رضی الله عنہ ان رسول الله صلی الله علیہ وسلم قال حرم لباس الحریر والذہب علی ذکور امتی واحل لانا ثہم۔” (ترمذی ص:۲۰۵ ج:۱، نسائی ۲۸۴ ج:۲) وقال الترمذی: وفی الباب عن عمر، وعلی، وعقبة بن عامر، وام ہانی، وانس، وحذیفة، وعبدالله بن عمرو، وعمران بن حصین، وعبدالله بن الزبیر وجابر، وابی ریحانة، وابن عمر، والبراء، ہذا حدیث حسن صحیح۔”

ترجمہ:… “حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ، سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “ریشمی لباس اور سونا میری امت کے مردوں پر حرام ہے اور ان کی عورتوں کے لئے حلال ہے۔” امام ترمذی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے اور اس باب میں مندرجہ ذیل صحابہ سے بھی احادیث مروی ہیں، حضرت عمر، حضرت علی، حضرت عقبہ بن عامر، حضرت ام ہانی، حضرت انس، حضرت حذیفہ، حضرت عبداللہ بن عمرو، حضرت عمران بن حصین، حضرت عبداللہ بن زبیر، حضرت جابر، حضرت ابوریحانہ، حضرت ابن عمر، اور حضرت براء رضی اللہ عنہم۔”

منّت ماننا کیوں منع ہے؟

س… بعض لوگوں سے سنا ہے کہ نذر کی شریعت میں ممانعت آئی ہے، اس کی کیا وجہ ہے؟

ج… حدیث میں نذر سے جو ممانعت کی گئی ہے علماء نے اس کی متعدد توجیہات کی ہیں، ایک یہ کہ بعض جاہل یہ سمجھتے ہیں کہ نذر مان لینے سے وہ کام ضرور ہوجاتا ہے، حدیث میں اس خیال کی تردید کے لئے فرمایا گیا ہے کہ نذر سے اللہ تعالیٰ کی تقدیر نہیں ٹلتی، دوم یہ کہ بندے کا یہ کہنا کہ اگر میرے مریض کو شفا ہوجائے تو میں اتنے روزے رکھوں گا، یا اتنا مال صدقہ کروں گا، یہ ظاہری صورت میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ سودے بازی ہے، اور یہ عبدیت کی شان نہیں۔

کعبہ کی نیاز

س… “وَالْبُدْنَ جَعَلْنٰھَا لَکُم مِّنْ شَعَائِرِ اللهِ” کعبے کی نیاز کے اونٹ، ہر تفسیر اور ترجمے میں کعبہ کی نیاز یا کعبہ پر چڑھانے یعنی قربانی کرنے کے اونٹ لکھا ہے، جو ترجمہ ہے: “وَالْھَدْیَ وَالْقَلائِدَ” کا، سوال یہ ہے کہ کعبہ شریف بھی تو غیراللہ ہے پھر اس کی نیاز کیسے ہوسکتی ہے؟

ج… کعبہ بیت اللہ ہے اس لئے کعبہ کی نیاز دراصل رب کعبہ کی نیاز ہے۔

کیا نبی کی نیاز اللہ کی نیاز کہلائے گی؟

س… حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں ان کی نیاز بھی رب کعبہ ہی کی نیاز ہے اسی طرح تمام اولیاء کی نیاز سے پھر کیوں منع کیا جاتا ہے؟

ج… بہت نفیس سوال ہے، ہدی کے جانور رب کعبہ کی نیاز ہے ان کی نیاز کی جگہ مشاعر حج یعنی حرم شریف ہے، اس لئے مجازاً ان کو کعبہ کی نیاز کے جانور کہا جاتا ہے، بخلاف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور اولیاء کرام کے کہ ان کی نیاز اللہ کے لئے شرع میں معہود نہیں اس لئے درمختار میں لکھا ہے کہ اولیاء اللہ کے مزارات پر جو نذریں لائی جاتی ہیں اگر اس سے مقصد وہاں کے فقراء پر صدقہ ہو تو یہ نذر اللہ کے لئے ہے، اس لئے جائز ہے اور اگر خود اولیاء اللہ کی نذر گزارنی مقصود ہو تو یہ حرام ہے کیونکہ نذر عبادت ہے اور عبادت غیر اللہ کی جائز نہیں، اس کی مثال بیت اللہ کی طرف سجدہ ہے کہ سجدہ تو حق تعالیٰ شانہ کو کیا جاتا ہے اور جہت سجدہ بیت اللہ ہے، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سجدہ جائز نہیں۔

اولیاء اللہ کے مزارات پر نذر

س… کعبہ کی نیاز کے اونٹ کے سلسلے میں آپ نے فرمایا کہ اولیاء اللہ کے مزارات پر اگر نذر سے مراد وہاں کے فقراء پر تصدق ہو اور ایصال ثواب صاحب مزار کو ہو تو یہ جائز ہے۔

بے شک ربط شیخ اور فیضان شیخ کے حصول کا یہ بہت بڑا ذریعہ ہے اور تمام مشائخ میں اس کا معمول ہے، مگر افسوس کہ ہمارے سلسلے میں اس کا فقدان ہے بلکہ منع کیا جاتا ہے، میں نے نہیں دیکھا اور سنا کہ کسی نے اپنے شیخ کے لئے صدقہ کیا ہو۔ نقد، کھانا، کپڑا کسی قسم کا بھی نہ گھر پر نہ مزار پر اور نہ دُوسرے اولیاء اللہ کے مزارات کی زیارت کا اہتمام ہے، جب کہ حدیث شریف میں تو عام موٴمنین کی قبور کی زیارت کی تاکید کی گئی ہے، اسی طرح اور بہت سے طریقت کے اعمال جن سے تزکیہٴ نفس اور تصفیہٴ قلب میں مدد ملتی ہے اور بغرض علاج ہر سلسلے میں رائج ہیں (بدعات کو چھوڑ کر) ہمارے سلسلے میں رائج نہیں، حلقہ بنا کر ذکر کرنے سے بھی اجتناب کرتے ہیں، نماز، روزہ اور دُوسرے فرائض و واجبات تو سالک وغیر سالک دونوں میں مشترک ہیں، تمام مشائخ اس بات پر متفق ہیں خالی نماز روزہ وغیرہ سے نفس کا تزکیہ اور وصول نہیں ہوتا جب تک اس کے ساتھ باطنی اعمال، تصحیح نیت، غنٰی، توکل ماسوا سے گریز اور دُوسری ریاضت و مجاہدات جو متقدمین میں رائج تھے خصوصاً طعام، کلام، منام، انام کی تقلیل وغیرہ نہ ہو۔ مختصر یہ کہ مشائخ ہیں، خلفاء کی لمبی لمبی فہرستیں ہیں، مریدین کی فوج کی فوج ہے، مگر وہ رُوح نہیں اور نہ وہ آثار کسی میں نظر آتے ہیں، جو مجاہدات سے مرتب ہوتے ہیں، الا ما شاء اللہ، جب کہ دُوسرے سلاسل مثلاً سلسلہ عالیہ نقشبندیہ کے بہت سے بزرگوں میں وہ صفات دیکھی گئی ہیں جو اس طریق کے لوازم میں سے ہیں، بعد وفات بھی اپنے مریدین اور عقیدتمندوں پر بذریعہ خواب یا مراقبہ یا واقعہ اپنے فیضان جاری رکھتے ہیں اور ان کی نگہداشت کرتے رہتے ہیں اس طرح جیسے ایک چرواہا اپنی بکریوں کی۔

دُوسری بات یہ کہ شیخ اور پیر طریقت بننے کے لئے جن شرائط اور اوصاف اور باطنی کمالات کا ہونا ضروری ہے جیسا کہ تمام مستند کتب تصوف میں لکھا ہے اور خاص طور پر امداد السلوک میں تو یہاں تک لکھا ہے کہ اگر یہ اوصاف شیخ میں نہ ہوں تو اس کا شیخ طریقت بننا حرام ہے، توجناب یہ باتیں آج کل اکثر مشائخ میں نہیں پائی جاتیں (آپ جیسے کچھ بزرگ یقینا ان اوصاف کے حامل ہوں گے مگر میں اکثریت کی بات کر رہا ہوں)َ۔

ج… ربط شیخ بذریعہ ایصال ثواب اور بذریعہ زیارت قبور ضرور ہونا چاہئے، یہ کثیر النفع ہے، الحمد للہ اس ناکارہ کو اس کا فی الجملہ اہتمام رہتا ہے۔

امداد السلوک کی شرط پر تو آج شاید ہی کوئی پورا اترے، یہ ناکارہ حلفاً عرض کرے کہ اس شرط پر پورا نہیں اترتا تو حانث نہیں ہوگا، اس لئے یہ ناکارہ مشائخ حقہ کی طرف محول کرنا ضروری سمجھتا ہے، پہلے تو مطلقاً انکار کردیتا تھا کہ میں اہل نہیں ہوں لیکن میرے بعض بڑوں نے مجھے بہت ڈانٹا کہ تم حضرت شیخ کی اجازت کی توہین کرتے ہو، تب سے اپنی نااہلی کے باوجود بیعت لینے لگا اور اب تو بلاشبہ اور ڈھیٹ ہوگیا ہوں، اللہ تعالیٰ ان لوگوں پر رحم فرمائے جن میں پیر اور شیخ اس روسیاہ جیسے لوگ ہوں، بس وہی قصہ ہے جو تذکرة الرشید میں حضرت گنگوہی قدس سرہ نے ایک ڈاکو کے پیر بننے کا لکھا ہے۔