صرف دِل میں خیال آنے سے نذر نہیں ہوتی

س… محترم مولانا صاحب! آپ کے جواب سے کچھ تشفی نہیں ہوتی وجہ اس کی یہ ہے کہ قرآن پاک میں ارشاد ہے، “جو کچھ تم مانو گے تو اللہ تعالیٰ کو تمہاری نیت کا علم ہوجائے گا” (سورہ بقرہ: ۲۷۰) نیت کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: “بے شک تمام اعمال کا دارومدار نیت پر ہے۔” لہٰذا ہر شخص کو وہی ملے گا جس کی اس نے نیت کی ہوگی۔(حوالہ صحیح بخاری کتاب الایمان باب النیة) دُوسری جگہ ایک اور ارشاد بھی ہے: “اور تمہارے چہروں اور تمہارے اموال کو نہیں دیکھتا وہ تو تمہارے دلوں اور تمہارے عملوں کو دیکھتا ہے۔” اور ایک روایت میں ہے، آپ نے سینہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: “تقویٰ یہاں ہوتا ہے۔”

ان احادیث سے معلوم ہوا کہ خلوص نیت کا مقام دل ہے اور چونکہ سائلہ نے خلوص نیت سے دل میں اس کی منت مانی تھی اور جس کو پورا کرنے کے لئے ابھی تک وہ اپنی ذمہ داری سمجھتی ہیں، مگر اپنے حالات کی وجہ سے معذور ہیں اور خود اس کی ادائیگی نہیں کرسکتی ہیں، لہٰذا آپ سے اس کا حل پوچھا ہے، مگر آپ کا جواب ہے کہ دل میں خیال کرلینے سے نیت نہیں ہوتی جب تک کہ زبان سے نیت کے الفاظ ادا نہ کئے جائیں۔

مندرجہ بالا قرآن کی آیت اور دونوں حدیثوں کی روشنی میں آپ کا جواب غیر تسلی بخش ہے، چونکہ سائلہ کی نیت سرسری نہ تھی اور حقیقی نیت تھی جس کی ادائیگی یا متبادل حل کے لئے وہ بے چین ہے وجہ اس کی یہ ہے کہ نذر کسی ایسی چیز کو اپنے اُوپر واجب کرلینے کو کہتے ہیں جو پہلے سے اللہ تعالیٰ کی طرف سے واجب نہ ہو اور چونکہ سائلہ نے منت مانی تھی چاہے وہ دل میں خیال کرکے کی ہو اس کی ادائیگی ان پر واجب ہوجاتی ہے بصورت دیگر وہ گنہگار ہوتی ہیں۔

دُوسری ایک اہم بات یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے نذر مت مانا کرو اس لئے کہ نذر تقدیری امور میں کچھ بھی نفع بخش نہیں ہے، بس اس سے اتنا ہوتا ہے کہ بخیل کا مال نکل جاتا ہے، (حوالہ صحیح مسلم کتاب النذر اور صحیح بخاری کتاب الأیمان و النذر) ان احادیث سے معلوم ہوا کہ اس قسم کی نذر لایعنی اور ممنوع ہیں۔ اور اگر میرے سمجھنے میں کچھ غلطی ہے تو میری اصلاح فرمائیں۔

ج… نذر کے معنی ہیں کسی ایسی عبادت کو اپنے ذمہ لازم کرلینا جو اس پر لازم نہیں تھی، اور “اپنے ذمہ کرلینا” زبان کا فعل ہے، محض دل میں خیال کرنے سے وہ چیز اس کے ذمہ لازم نہیں ہوتی، جب تک کہ زبان سے الفاظ ادا نہ کرے، یہی وجہ ہے کہ نماز کی نیت کرلینے سے نماز شروع نہیں ہوتی جب تک تکبیر تحریمہ نہ کہے، حج و عمرہ کی نیت کرنے سے حج وعمرہ شروع نہیں ہوتے جب تک کہ تلبیہ کے الفاظ نہ کہے، طلاق کا خیال دل میں آنے سے طلاق نہیں ہوتی جب تک کہ طلاق کے الفاظ زبان سے نہ کہے، اور نکاح کی نیت کرنے سے نکاح نہیں ہوتا جب تک کہ ایجاب و قبول کے الفاظ زبان سے ادا نہ کئے جائیں، اسی طرح نذر کا خیال دل میں آنے سے نذر بھی نہیں ہوتی جب تک کہ نذر کے الفاظ زبان سے نہ کہے جائیں، چنانچہ علامہ شامی نے کتاب الصوم میں شرح ملتقیٰ سے نقل کیا ہے کہ “نذر زبان کا عمل ہے ۔”

آپ نے قرآن پاک کی جو آیت نقل کی اس میں فرمایا گیا ہے”جو تم نذر مانو” میں بتا چکا ہوں کہ نذر کا ماننا زبان سے ہوتا ہے، اس لئے یہ آیت اس مسئلے کے خلاف نہیں۔

آپ نے جو حدیث نقل کی ہے کہ “اعمال کا مدار نیت پر ہے” اس میں عمل اور نیت کو الگ الگ ذکر کیا گیا ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ صرف نیت کرنے سے عمل نہیں ہوتا، بلکہ عمل میں نیت کا صحیح ہونا شرط قبولیت ہے، لہٰذا اس حدیث کی رو سے بھی صرف نیت اور خیال سے نذر نہیں ہوگی جب تک کہ زبان کا عمل نہ پایا جائے۔

دُوسری حدیث میں بھی دلوں اور عملوں کو الگ الگ ذکر کیا گیا، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ صرف دل کے خیال کا نام عمل نہیں، البتہ عمل کے لئے دل کی نیت کا صحیح ہونا ضروری ہے، اور آپ نے جو حدیث نقل کی ہے کہ “نذر مت مانا کرو” یہ حدیث صحیح ہے مگر آپ نے اس سے جو نتیجہ اخذ کیا ہے کہ “اس قسم کی نذر لایعنی اور ممنوع ہے” یہ نتیجہ غلط ہے، کیونکہ اگر حدیث شریف کا یہی مطلب ہوتا کہ نذر لایعنی اور ممنوع ہے تو شریعت میں نذر کے پورا کرنے کا حکم نہ دیا جاتا، حالانکہ تمام اکابر امت متفق ہیں کہ عبادت مقصودہ کی نذر صحیح ہے اور اس کا پورا کرنا لازم ہے۔

حدیث میں نذر سے جو ممانعت کی گئی ہے علماء نے اس کی متعدد توجیہات کی ہیں، ایک یہ کہ بعض جاہل یہ سمجھتے ہیں کہ نذر مان لینے سے وہ کام ضرور ہوجاتا ہے، حدیث میں اس خیال کی تردید کے لئے فرمایا گیا ہے کہ نذر سے اللہ تعالیٰ کی تقدیر نہیں ٹلتی، دوم یہ کہ بندے کا یہ کہنا کہ اگر میرے مریض کو شفا ہوجائے تو میں اتنے روزے رکھوں گا یا اتنا مال صدقہ کروں گا ظاہری صورت میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ سودے بازی ہے، اور یہ عبدیت کی شان نہیں۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ رہتا نہیں تھا

س… ایک طرف تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فقر و فاقے کے متعلق سیکڑوں واقعات اور احادیث شریف کا ذخیرہ ہے اور دوسری طرف انہیں کتابوں میں اچھا خاصا سامان مثلاً تیس غلام، سو بکریاں، گھوڑے، خچر، اونٹنیاں وغیرہ کی ملکیت آپ کی طرف منسوب کی گئی ہے، ابن قیم کی زاد المعاد اور مولانا تھانوی کی نشرالطیب میں اس کی پوری تفصیل ہے، یہ تضاد کیسے رفع ہو؟

ج … آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کوئی چیز رہتی نہیں تھی، آتا تھا اور بہت کچھ آتا تھا مگر چلا جاتا تھا، زاد المعاد یا نشرالطیب میں ان چیزوں کی فہرست ہے جو وقتاً فوقتاً آپ کے پاس رہیں، یہ نہیں کہ ہمہ وقت رہیں۔

س … طبقات ابن سعد میں ہے کہ حضور علیہ السلام ایک مینڈھا تمام امت کی طرف سے اور ایک اپنی آل اولاد کی طرف سے قربانی کیا کرتے تھے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر شخص قربانی نہیں کرتا تھا۔

ج… “قربانی کیا کرتے تھے” کے الفاظ تو مجھے یاد نہیں، جہاں تک مجھے یاد ہے ایک مینڈھا آپ نے قربان کیا اور فرمایا کہ یہ میری امت کے ان لوگوں کی طرف سے ہے جو قربانی نہ کرسکیں۔ مشکوٰة شریف ص:۱۲۷ میں بروایت مسلم حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ حضور علیہ السلام نے مینڈھا ذبح فرمایا اور دعا کی یا اللہ قبول فرما محمد کی طرف سے اور آل محمد سے اور امت محمدیہ کی طرف سے، ایک مینڈھے میں تو دو آدمی بھی شریک نہیں ہوسکتے، اس لئے یہ نتیجہ اخذ کرنا کہ ہر شخص قربانی نہیں کرتا تھا صحیح نہیں۔

عذر کی وجہ سے دعوت قبول نہ کرنا ترکِ سنت نہیں

س… کسی مسلمان کی دعوت طعام بغیر کسی شرعی عذر کے رد کرنا کیسا ہے؟ حضور علیہ السلام سے کسی کی دعوت کا رد ثابت نہیں بلکہ آپ دعوت سے بہت خوش ہوتے تھے، ایک دعوت میں حضرت عائشہ کو اصرار کرکے شریک کیا، ایک حجام کی دعوت قبول کرنا بھی آپ سے ثابت ہے۔

ج… قبولِ دعوت بھی مسلمان کے حقوق میں سے ایک حق ہے، اس لئے بغیر عذر کے رد نہیں کرنا چاہئے، البتہ عذر کی نوعیت مختلف ہوسکتی ہے، اگر کوئی محض کسی عذر کی وجہ سے معذرت چاہتا ہے تو اس کو معذور قرار دیا جائے گا تارکِ سنت نہیں۔

میّت کے گھر کا کھانا

س… میّت کے گھر کھانا اور جو لوگ میّت کے گھر آئیں ان کو کھلانا دونوں کو علمأ منع کرتے ہیں جب کہ بہت سے صحابہ اور اہل اللہ سے منقول ہے کہ انہوں نے وصیت کی کہ میرے جنازے میں شریک لوگوں کو کھانا کھلانا، حضرت ابوذر نے بکری اور حضرت عمران بن حصین نے اونٹ ذبح کرکے کھلانے کی وصیت کی، خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک میّت کو دفن کرکے اہل میّت کے گھر کھانے کو گئے مگر بکری چونکہ مالک کی مرضی کے بغیر ذبح ہوئی تھی اس لئے بغیر کھائے واپس آگئے۔

ج… میّت والوں کو کھلانے کا تو حکم ہے اس سے منع نہیں کیا جاتا، جس چیز سے منع کیا جاتا ہے وہ میّت کے ایصال ثواب کا کھانا کھانا ہے، “طعام المیّت یمیتُ القلب” (مردے کا کھانا دل کو مردہ کرتا ہے) حضرت ابوذر کی وصیت آنے والے مہمانوں کو کھلانے کی تھی اور مہمانوں کو کھلانے سے منع نہیں کیا جاتا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جس واقعہ کی طرف آپ نے اشارہ کیا ہے اس روایت کے نقل کرنے میں صاحب مشکوٰة سے تسامح ہوا ہے، مشکوٰة میں “فاستقبلہ داعی امراتہ۔” کے الفاظ ہیں جس کا مفہوم ہے: “آپ اہل میّت کے یہاں کھانے کے لئے گئے” اصل کتاب میں جو الفاظ منقول ہیں اس کا مفہوم ہے: “واپسی میں کسی عورت کے قاصد نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بلایا۔” یہ بلانے والی عورت اہل میّت سے نہیں تھی لہٰذا اس روایت سے میّت کے گھر کا کھانا کھانے پر استدلال صحیح نہیں۔

اہلِ میّت کا گھر میں کھانا

س… آپ نے فرمایا ہے: “جس چیز سے منع کیا جاتا ہے وہ میّت کے ایصال ثواب کا کھانا کھانا ہے، اور حضرت ابوذر کی وصیت مہمانوں کو کھلانے کی تھی اور مہمانوں کو کھلانے سے منع نہیں کیا جاتا۔”

۱:…جب کسی کی موت واقع ہوتی ہے تو جو لوگ دور سے اور قریب سے جنازے میں شرکت کے لئے آتے ہیں وہ سب مہمان ہی ہوتے ہیں، بعد دفن وہی لوگ اور ان کی عورتیں کھانا کھاتے ہیں، یہ کھانا کیسا ہے؟

ج… اس کے جواز میں کیا شبہ ہے؟ مگر حکم یہ ہے کہ اہل میّت اور ان کے مہمانوں کو دوسرے لوگ کھانا دیں۔

ایصالِ ثواب کے کھانے سے خود کھانے کا حکم

س… آپ نے فرمایا “ایصال ثواب کا کھانا منع ہے” میں جب اپنے والدین یا مشائخ کے ایصال ثواب کے لئے کھانا تیار کراتا ہوں تو اس میں سے خود بھی کھاتا ہوں اور اپنے ہمسایوں اور کچھ فقرأ و مساکین کو بھی دیتا ہوں۔ ابھی عید پر ایک جانور حضور علیہ السلام کی طرف سے ایصال ثواب کیا، خود بھی کھایا اور دوسروں کو بھی کھلایا، کیا یہ سب ناجائز ہوا؟ خانقاہ مشائخ میں جو ہر وقت دیگیں چڑھی رہتی ہیں جس کو عرف میں لنگر کہتے ہیں وہ ایصال ثواب ہی کا کھانا ہوتا ہے جس کو بڑے بڑے اولیأ اللہ بڑی رغبت سے کھایا کرتے تھے، حضرت نظام الدین اولیأ کا لنگر، حضرت گنج شکر رحمہ اللہ کا لنگر مشہور ہے، جس پر وہ اپنے مشائخ کی فاتحہ ایصال ثواب کیا کرتے تھے، سچے عقیدت مند لنگر کی دال اور سوکھی روٹی کو اپنے گھر کے مرغن کھانوں پر ترجیح دیتے اور تبرک کہتے تھے، شہدائے کربلا کو کھانے اور شربت وغیرہ سے ایصال ثواب کرتے ہیں، غنی اور فقیر سب کھاتے ہیں، اور ایصال ثواب صرف کھانے ہی سے نہیں بلکہ ہر نیک کام جس سے لوگوں کو فائدہ پہنچے، کرکے، ہوسکتا ہے؟ لوگ اپنے مردوں کے ایصال ثواب کے لئے درخت لگاتے ہیں، پل، سڑک، کنواں بنواتے ہیں، اس سے غنی فقیر سب مستفید ہوتے ہیں، سو اگر ایصال ثواب کا کھانا ناجائز تو ان اشیأ سے استفادہ بھی ناجائز، حضرت سعد نے اپنی ماں کے ایصال ثواب کے لئے جو کنواں کھدوایا تھا اس سے بغیر تخصیص غنی فقیر سب مسلمان استفادہ کرتے تھے، جس زمانے کے اعراس جائز تھے وہاں بڑے بڑے مشائخ اولیأ اللہ جاتے تھے اور ایصال ثواب کا کھانا کھایا کرتے تھے۔

ج… ۱:…ایصال ثواب تو اسی طعام کا ہوگا جو مستحقین کو کھلایا جائے، جو خود کھالیا یا عزیز و اقارب کو کھلایا اس کا ایصال ثواب نہیں۔

۲:…قربانی سے مقصود “اراقة الدم” ہے، جب آپ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے قربانی کردی تو بشرط قبولیت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا ثواب پہنچ گیا۔ گوشت خود کھالیں یا محتاجوں میں تقسیم کردیں یا دعوت کرکے کھلادیں۔

۳:…مشائخ کے یہاں لنگر ایصال ثواب کے لئے نہیں ہوتے بلکہ واردین اور صادرین کی ضیافت کے لئے ہوتے ہیں اور اس کو تبرک سمجھنا مشائخ سے محبت اور عقیدت کی بنأ پر ہے، اس لئے نہیں کہ یہ کھانا چونکہ فلاں بزرگ کے ایصال ثواب کے لئے ہے اس لئے متبرک ہے۔ اور اس کھانے پر اپنے مشائخ کا نام پڑھنا بھی ان مشائخ کی نسبت کے لئے ہے گویا اپنے مشائخ کو بھی اس ایصال ثواب میں شریک کرلیا گیا ہے اور سب سے اہم تر یہ کہ مشائخ کا عمل شریعت نہیں کہ اس کی اقتدأ لازمی ہو، البتہ ان اکابر سے ہماری عقیدت اور حسن ظن کا تقاضا ہے کہ ہم ان کے افعال و اقوال اور ان کے احوال کی ایسی توجیہہ کریں کہ یہ چیزیں شریعت کے مطابق نظر آئیں، اگر ہم کوئی ایسی توجیہہ نہیں کرسکتے تب بھی ان کے ساتھ حسن ظن رکھتے ہوئے یہ سمجھیں کہ ان بزرگوں کے پیش نظر کوئی توجیہہ ہوگی، الغرض ان پر طعن بھی نہ کریں اور ان کے افعال کو شریعت بھی نہ بنائیں۔

ضیافت، ایصالِ ثواب اور مکارمِ اخلاق کا فرق

س… آپ نے فرمایا ہے کہ ایصال ثواب تو اسی کھانے کا ہوگا جو مستحقین کو کھلایا جائے، جو خود کھالیا یا عزیز و اقربأ کو کھلایا اس کا ایصال ثواب نہیں، اس جواب سے مندرجہ ذیل سوال پیدا ہوتے ہیں:

۱:…بقول حضرت تھانوی ایصال ثواب کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے کوئی نیک عمل کیا اس پر ہمیں ثواب ملا، ہم نے درخواست کی کہ الٰہی اس عمل نیک کے ثواب کو ہم اپنے فلاں عزیز یا شیخ کو بخشتے ہیں، حضور علیہ السلام نے فرمایا: “اطعموا الطعام” یہ حکم مطلق ہے اس میں غنی یا فقیر کی کوئی قید نہیں، اب اگر اس حدیث کے امتثال امر میں اپنے عزیز و اقربأ اور دوسرے بزرگوں کو کھانا کھلاوٴں اور نیت کروں کہ الٰہی اس کا ثواب میرے والدین یا شیخ کو ملے تو اس میں کیا شرعی قباحت ہے اور کھانے والوں نے کون سا گناہ کیا؟

۲:…جیسے پہلے سوال میں عرض کیا تھا کہ ایصال ثواب کھانے کے علاوہ سڑک بنواکر، سایہ دار، میوہ دار درخت لگواکر، پانی کی سبیل لگواکر یا کنواں وغیرہ کھدواکر بھی کیا جاتا ہے اور اس سے غنی فقیر سب فائدہ اٹھاتے ہیں، تو اگر ایصال ثواب کا کھانا صرف فقرأ اور مساکین کے لئے ہے تو یہ امور بھی صرف ان کے ہی لئے ہونے چاہئیں مگر ایسا نہیں ہے، غنی فقیر سب سائے میں بیٹھتے ہیں، کنویں کا پانی پیتے ہیں، سڑک پر چلتے ہیں، راستے میں سبیل سے پانی پیتے ہیں، حضرت سعد بن معاذ کے کنویں سے جو انہوں نے اپنی ماں کے ثواب کے لئے بنوایا تھا سب مسلمان استفادہ کرتے تھے۔

۳:…شریعت کے فقہأ نے جس کھانے کو منع کیا ہے وہ میّت کے گھر کا کھانا ہے، اور وہ بھی مکروہ کہا گیا ہے، اور علت اس کی یہ بیان کی گئی ہے کہ ضیافت خوشی کے موقع پر ہوتی ہے سو جو کام خوشی کے موقع پر کیا جائے وہ اگر غمی میں ہو تو مکروہ ہے۔ بزرگوں اور اولیاء اللہ کے ثواب کے لئے جو کھانا پکتا ہے وہاں یہ علت نہیں پائی جاتی کیونکہ ان کی وفات کو عرصہ گزرچکا ہوتا ہے اور وہ کوئی غمی کا موقع نہیں ہوتا۔

مولانا سرفراز خان صفدر# صاحب نے “راہ سنت” کتاب میں اس سلسلے میں جتنے بھی حوالے دیئے ہیں ان سب میں موت سے تین دن کے اندر اندر جو ضیافت ہے وہ مکروہ بتائی گئی ہے، برسوں کے بعد مشائخ یا والدین کے ایصال ثواب کے لئے جو کھانا پکاتے ہیں اس کا کوئی حوالہ نہیں، براہ کرم ان تین اشکالات کا نمبروار جواب عطا فرمائیں۔

ج … کھانا کھلانا مکارم اخلاق میں سے ہے، مگر نیک کام غربأ کو کھانا کھلانا ہے، اسی کا ایصال ثواب کیا جاتا ہے، خود کھاپی لینا یا دولت مند احباب کو کھلادینا اور نیت بزرگوں کے ایصال ثواب کی کرلینا یہ عقل میں نہیں آتا، ہاں ایک صورت اور ہے اہل حرمین میں مشہور ہے کہ مکہ مکرمہ میں کوئی شخص کسی کی دعوت کرتا ہے تو یہ دعوت اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہوتی ہے کیونکہ حجاج ضیوف الرحمن ہیں اور جو مدینہ منورہ میں دعوت کرتا ہے وہ دعوت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے ہوتی ہے کیونکہ زائرین مدینہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مہمان ہیں، پس اس کھانے میں بھی ایصال ثواب کی نیت نہیں ہوتی بلکہ یہ کھانا ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مہمانوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے کھلایا جاتا ہے۔

صدقہ نہیں صلہٴ رحمی ہے

س… آپ نے سوال کے دوسرے اور تیسرے حصہ کا جواب نہیں دیا، آپ نے فرمایا: “نیک کام غرباء کو کھلانا ہے” بندے کے خیال میں ہر ایک کھلانا نیک کام ہے، “اَطْعِمُوا الطَّعَامَ” میں غرباء کی تخصیص کہاں ہے؟ “وَاٰتٰی الْمَالَ عَلٰی حُبِّہ ذَوِی الْقُرْبٰی” میں غریب کی تخصیص کہاں ہے؟ غنی فقیر ہر رشتہ دار اس میں آتا ہے۔

ج… غرباء کو کھلانا صدقہ ہے، ذوی القربیٰ کو دینا صلہ رحمی ہے اور عام لوگوں، واردین و صادرین کو کھانا دینا مکارم اخلاق ہے، بزرگوں کے ایصالِ ثواب کے لئے کھانا دینا صدقہ ہے اور علیٰ حبہ کی شرط سب میں ملحوظ ہے، البتہ بزرگوں کی طرف سے کھلانا ضیافت ہے۔

کیا یہ صدقہ میں شمار نہیں ہوگا؟

س… اس مرتبہ بھی آپ نے سابقہ سوال کے دوسرے اور تیسرے حصہ کا جواب نہیں دیا، غالباً ذہن سے نکل گیا ہوگا اس لئے وہ سوال دوبارہ منسلک کرتا ہوں، آپ نے فرمایا غریبوں کو کھلانا صدقہ، رشتہ داروں کو کھلانا صلہ رحمی اور عام لوگوں کو کھلانا مکارم اخلاق سے ہے۔ محترم! یہ سارے کام صدقہ ہی کے ذیل میں آتے ہیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا راستے سے کانٹا ہٹانا صدقہ، بیوی کے منہ میں لقمہ دینا صدقہ، ماں باپ کو محبت کی نظر سے دیکھنا صدقہ اور صلہ رحمی کے ضمن میں بھی آپ نے فرمایا: “صلہ رحمی کرو اپنے رشتہ داروں سے امیر ہوں یا غریب۔”

ج… میں پہلے لکھ چکا ہوں کہ کھانا کھلانا مکارم اخلاق میں سے ہے لیکن جو کھانا ثواب کی نیت سے کھلایا جائے اس کا ایصال ثواب کیا جاتا ہے، قرآن کریم میں ہے: “وَیُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّہ مِسْکِیْنًا وَّیَتِیْمًا وَّاَسِیْرًا” گھر والوں کو کھلانا بھی صدقہ، دوست احباب کو کھلانا بھی صدقہ مگر ان کھانوں کا ایصال ثواب کوئی نہیں کرتا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بکری ذبح کرائی اور فرمایا اس کا گوشت تقسیم کردیا جائے یہ فرماکر آپ باہر تشریف لے گئے واپسی پر پوچھا کہ گوشت سارا تقسیم ہوگیا، عرض کیا گیا کہ صرف ایک ران بچی ہے! آپ نے فرمایا سارا بچ گیا بس صرف یہی ران نہیں بچی۔ الغرض اس ناکارہ کے خیال میں ایصال ثواب اس کھانے کا کیا جاتا ہے جو صرف ثواب کی غرض سے کھلایا جائے۔ دوسرے کھانوں میں دوسری اغراض بھی شامل ہوجاتی ہیں خواہ وہ بھی خیر کی اور بالواسطہ ثواب کی ہوں، مگر ان کا ایصال ثواب نہیں کیا جاتا، آپ اگر اس کو عام سمجھتے ہیں تو میں منازعت نہیں کرتا، بس یہ بحث ختم۔

کنواں یا سڑک کا ایصالِ ثواب ؟

س… آپ نے فرمایا “بس یہ بحث ختم” اس لئے بندہ حکم عدولی تو نہیں کرے گا، تاہم اس کا جواب آپ کے ذمہ رہے گا کہ کھانا صرف غرباء کو کھلاکر ایصالِ ثواب ہوگا ورنہ نہیں تو لوگ ایصالِ ثواب کے لئے جو سڑک بنواتے ہیں، کنواں کھدواتے ہیں، درخت سایہ دار لگاتے ہیں تو کیا ان کو بھی غرباء کے نامزد کیا جائے گا جب ایصالِ ثواب ہوگا یا جو بھی فقیر غنی اس سے فائدہ اٹھائے ایصال ثواب ہوجائے گا؟

ج … یہ رفاہِ عامہ کے کام ہیں اور صدقہٴ جاریہ ہے اور صدقہٴ جاریہ کا ثواب منصوص ہے۔

فرمودہٴ رسول سو حکمتیں رکھتا ہے

س… آپ کا ارسال کردہ جواب مل گیا ہے پڑھ کر مکمل مایوسی ہوئی، آپ نے میرے صرف ایک سوال کا جواب تسلّی بخش دیا ہے، جس کے لئے میں آپ کا شکر گزار ہوں۔

میں نے آپ سے سوال کیا تھا کہ ساز سننا کیوں ناجائز ہے؟ یا جائز ہے؟ آپ نے فرمایا کہ آلات کے ساتھ راگ سننا شریعت اور تصوف میں ناجائز ہے، تو آپ کا مطلب صرف اور صرف یہی ہے کہ بعض بزرگان دین جنہیں ہم اور تاریخ تسلیم کرتی ہے، وہ شریعت اور تصوف کے خلاف کام کرتے تھے، اور میں نے سنا ہے کہ جو شخص ایک بھی عمل حضور کی سنت اور شریعت کے خلاف کرے وہ مرشد نہیں شیطان ہے، تو گویا آپ نے بالواسطہ طور پر ان تمام بزرگان دین کو جو آلات کے ساتھ محفل سماع سنتے تھے (نعوذ باللہ) ناجائز امور کا مرتکب قرار دیا؟

۲:…محترم علامہ صاحب میں نے سوال کیا تھا کہ ٹیلیویژن یا اور طرح کی چلتی پھرتی تصاویر دیکھنا کیوں منع ہے؟ تو آپ نے جواب دیا کیونکہ رسول نے تصاویر سے منع فرمایا ہے اور بنانے والوں پر لعنت فرمائی ہے، تو محترم بزرگ اس اتنی سی بات کا تو ہمیں پہلے ہی علم تھا مگر تسلّی کس چیز کا نام ہے؟ آپ کا علم کیا کسی کو مطمئن کرنے کے لئے نہیں ہوسکتا؟ یہ کوئی جواب نہیں ہے، مجھے اتنا علم ہے کہ حضور نے ہر بات کے لئے اس کا جواز بیان فرمایا ہے اور میں وہ جواز جاننا چاہتا ہوں۔

۳:…میرا تیسرا سوال یہ تھا کہ ایک کتاب میں یہ تحریر تھا کہ اگر کسی نے اپنے مکان کی عمارت کی بلندی ساڑھے گیارہ فٹ سے زیادہ کی، اس پر خدا کا عذاب ہوا، آپ نے جواب میں فرمایا کہ میں اس حدیث سے واقف نہیں ہوں، اور اس رسالہ کی تمام روایات مستند نہیں ہیں۔ میں نے یہ نہیں پوچھا تھا کہ وہ مستند ہیں یا نہیں؟ یا آپ نے پڑھی ہیں یا نہیں؟ میں نے تو صرف یہی پوچھا تھا کہ آیا یہ درست ہے یا غلط؟

اس سے پہلے میں نے جو خط ارسال کیا تھا اس کے ساتھ ڈاک ٹکٹ بھی تھا واپسی کا، مگر مجھے بیرنگ خط موصول ہوا جس کی مجھے خوشی ہوئی کیونکہ اگر خدا نے روز قیامت یہ سوال کیا کہ تم دنیا سے کیا لائے ہو؟ تو صرف میں یہی جواب دوں گا کہ ایک عالم کی گردن پر قرض چھوڑ آیا ہوں، اور اس کے بدلے میں اپنی بخشش مانگوں گا، اگر آپ کو میرا حق رفع کرانا ہے تو اس کے لئے مجھے تلاش کریں بالکل اسی طرح جس طرح آپ نے فرمایا کہ باطنی رہنمائی کے لئے کسی بزرگ کو خود تلاش کرو۔

ج… آپ کا یہ ارشاد صحیح ہے کہ خلاف سنت کرنے والا ولی نہیں ہوسکتا، اس لئے جن بزرگوں کی طرف آلات کے ساتھ راگ سننے کی نسبت کی جاتی ہے یا تو یہ نسبت ہی غلط ہے، یا یہ کہ وہ اس کو جائز سمجھتے ہوں گے، اس لئے معذور ہیں۔

۲:…جس شخص کی تسلّی ارشاد رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں ہوسکتی، اس کی تسلّی میرے بس میں نہیں، ارشادات نبوی میں حکمتیں ضرور ہیں، اور بحمد اللہ بقدر ظرف معلوم بھی ہیں، لیکن ان کے بغیر تسلّی نہ ہونا غلط ہے، الحمد للہ ہمیں ایک بھی حکمت معلوم نہ ہو تب بھی فرمودہٴ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سو حکمتیں رکھتا ہے۔

۳:…جب میں واقف ہی نہیں تو صحیح یا غلط کا کیا فیصلہ کرسکتا ہوں۔

۴:…ہم نے ٹکٹ لگاکر بھیجا تھا، ممکن ہے اُتر گیا ہو، یا اُتار لیا گیا ہو، اگر ایک ٹکٹ کا قرض آپ کی نجات کے لئے کافی ہوجائے تو مجھے بہت خوشی ہوگی۔

مدارس و مساجد کی رجسٹریشن کا حکم

س… آج کل جو مدارس دینیہ و مکاتب قرآنیہ اور مساجد کو جو کہ وقف للہ ہوتے ہیں، رجسٹرڈ کرایا جاتا ہے، تو اس رجسٹریشن سے کیا وہ ادارہ اپنی وقف للہ کی حیثیت پر باقی رہتا ہے؟ اس رجسٹریشن سے کیا وقف کی حیثیت پر کوئی اثر تو نہیں پڑتا؟ اس سلسلہ کے درج ذیل شبہات کا جواب مطلوب ہے:

۱:…کیا اس سے وقف للہ کا تحفظ مزید ہوجاتا ہے؟

۲:…اس سے مسلک کی حفاظت ہوجاتی ہے؟

۳:…کیا اندرون و بیرون کے شرور سے وہ ادارہ اور اس کے متعلقین و متعلقات محفوظ ہوجاتے ہیں؟

۴:…شوریٰ (یعنی رجسٹرڈ باڈی) کو اخلاص و یکسوئی سے کام کرنے کی سہولت ہوجاتی ہے؟ جب کہ رجسٹریشن کے عدم جواز کے سلسلہ میں ایک فتویٰ کا بھی حوالہ دیا جاتا ہے۔

اس ضمن میں جب حضرت مولانا مفتی جمیل احمد تھانوی صاحب زید مجدہ جامعہ اشرفیہ لاہور، مولانا مفتی زین العابدین زید مجدہ دارالعلوم فیصل آباد، مولانا مفتی عبدالروٴف صاحب زیدہ مجدہ دارالعلوم کراچی، مولانا مفتی ولی حسن خان ٹونکی زید مجدہ جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاوٴن کراچی، سے رجوع کیا گیا تو انہوں نے درج ذیل تحریری جوابات دئیے:

حضرت مفتی جمیل احمد تھانوی کا فتویٰ:

س… مدرسہ مظاہر علوم سہارنپور ہمارا قدیم مدرسہ ہے، جس کی شوریٰ/ سرپرستان ممبران و اکابرین علمائے ہندوستان رہے ہیں۔ اس وقت بھی بفضلہ تعالیٰ شوریٰ کے اراکین جید علمأ اور معروف دیندار اور مخیر تجار ہیں۔ مدرسہ کی اب تک رجسٹریشن نہیں ہوئی تھی، دار العلوم دیوبند کے فتنہ کے بعد اراکین شوریٰ اور ہمدردان مظاہر علوم کی رائے ہوئی کہ مدرسہ مظاہر علوم کو استحکام بخشنے کے لئے اور اندرونی و بیرونی انسانی شرور سے محفوظ رکھنے کے لئے سبب کے طور پر رجسٹرڈ کرالیا جائے، چنانچہ مجلس شوریٰ کے باقاعدہ اجلاس میں (جو کہ حضرت مولانا انعام الحسن صاحب دامت برکاتہم کی بیماری کی وجہ سے نظام الدین میں ہوا) متفقہ طور پر طے پایا کہ مدرسہ مظاہر علوم کی شوریٰ کو رجسٹرڈ کرالیا جائے۔ سوسائٹیز رجسٹریشن ایکٹ کے ضابطہ کے مطابق کسی بھی ادارہ کے تین عہدہ داران ضروری ہوتے ہیں، نمبر ۱:صدر، نمبر۲:سیکریٹری، نمبر۳:خازن۔ سیکریٹری کی طرف سے رجسٹریشن آفس میں ادارہ کی رجسٹریشن کی درخواست پیش کرنی ہوتی ہے۔

حضرت مولانا محمد طلحہ صاحب دامت برکاتہم کو سیکریٹری مقرر کیا گیا، چنانچہ ان کے دستخط سے رجسٹریشن کی درخواست داخل کردی گئی، جس کی کاروائی جاری ہے۔

سائل نے آج سوسائٹیز ایکٹ کے تحت رجسٹریشن کرانے والے ماہرین اور وکلأ سے رجسٹریشن ایکٹ اور اس کے تحت رجسٹریشن کرانے یا ہونے والے اداروں کے بارے میں تفصیلات معلوم کیں، یہ تفصیلات بھی لف ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ رجسٹریشن سے کسی بھی ادارہ کے کسی بھی وقف کو نقصان پہنچنے کا قطعاً کوئی احتمال نہیں ہے۔ نہ ہی اس میں حکومت کی کوئی مداخلت ہے، بلکہ رجسٹریشن کے بعد ادارہ کی ملکی قانون کے اعتبار سے قانونی حیثیت اس درجہ میں بن جاتی ہے کہ واقعی یہ ایک باقاعدہ ادارہ ہے۔ اور اگر کبھی اس کو اندرونی یا بیرونی شر سے دوچار ہونا پڑتا ہے تو ملکی قانون کی طرف سے اس کو تحفظ بھی حاصل ہوتا ہے۔

اندریں صورت آپ سے درخواست ہے کہ کیا رجسٹریشن موجودہ حالات میں کرانا شرعاً جائز بلکہ ضروری نہیں ہے؟ سائل صغیر احمد۔ لاہور

از احقر جمیل احمد تھانوی سابق مدرس مدرسہ مظاہر العلوم سہارنپور، مفتی خانقاہ اشرفیہ تھانہ بھون حال مفتی جامعہ اشرفیہ لاہور یہ عرض کرتا ہے کہ آپ کے استفتاء میں صرف دو چیزیں ہیں انہی کے متعلق تفصیل سے عرض ہے:

۱:…رجسٹریشن شرعاً ضروری ہے اور نہ کرانے پر گناہ ہو، یہ تو نہیں کہاجاسکتا مگر ناجائز بھی نہیں کہا جاسکتا، جیسے تمام بیع ناموں ، ہبہ ناموں، وقف ناموں، اقرار ناموں اور اب ایک طویل عرصہ سے نکاح ناموں کا رجسٹریشن جائز ہے مگر شرعاً ضروری کہ جس کے بغیر صحیح ہی نہ ہو یا نہ ہونے پر گناہ ہو، نہیں ہے، ہاں ایک قسم کی حفاظت کا قانونی ذریعہ ضرور ہے اور صدیوں سے تمام مسلمانوں کا اس پر تعامل بلا نکیر ہے، اور عرصہ سے تو نکاحوں، مسجدوں، انجمنوں، دینی وغیر دینی مدارس، رفاہ عام کے اداروں کی رجسٹریشن کا معمول ہے، جو حفاظت کے لئے نہایت مستحسن ہے، خصوصاً اس زمانہ میں جب کہ انگریزوں کے جمہوریت کے دلفریب پروپیگنڈہ نے اعلیٰ سے اعلیٰ دماغوں کو بھی متأثر کردیا ہے، اکثریت کے بل بوتہ پر یا حکومت کی طرف سے اس کی اعانت پر شخصی قومی بلکہ خدائی اوقاف پر بھی روز روز ڈاکے ڈالے جارہے ہیں، اگر رجسٹریشن سے ان کی حفاظت ہوسکتی ہے تو چونکہ ہر شخص پر اپنی مملوکات اور ہر مسلمان پر خدائی مملوکات یعنی اوقاف کی حفاظت واجب ہے حتیٰ کہ اس کی حفاظت میں: “من قتل دون مالہ فھو شہید” تک جانے کی بھی اجازت ہے اور رجسٹریشن اسبابِ حفاظت میں سے ہے تو ایک درجہ میں استحساناً ضروری ہوجاتا ہے، خصوصاً اس زمانہ میں کہ جب یہ ڈاکے عام ہورہے ہیں، مقدمة الواجب واجب، کہنے کی بھی گنجائش ہے مگر حفاظت کے طریقے دوسرے بھی ہیں۔

اس کو مداخلت فی الدین کہنا بے اصل ہے، صدیوں سے سب کو تمام رجسٹریوں کا تجربہ ہو رہا ہے کہ رجسٹری سے کسی کی ملک نہ نکاح میں طلاق میں، کسی مسجد و ادارہ میں کوئی مداخلت ہے اور نہ رجسٹری کے قانون میں اس کی گنجائش ہے، ہاں مخالفوں کی مداخلت سے ایک گونہ بچاوٴ ہے اور یہ سب چیزوں میں ہے اور سب کے تجربہ سے ہے۔

۲: یہ فتویٰ بہ چند وجوہ ناقابلِ اعتبار ہے:

الف:… مدرسہ کے مفتی اعظم مولانا مفتی محمود حسن صاحب کے دستخط کے بغیر ہے کسی ناتجربہ کار نوآموز کی اپنی رائے ہے، حقیقت مفتی اعظم سے معلوم کی جاسکتی ہے۔

ب:… دستخط کرنے والوں میں کوئی فتوے کا ماہر نہیں اس طرح ایرے غیرے کے تو ہزار دستخط بھی کالعدم ہیں۔

ج:… مولانا محمد یحییٰ خود مدرسہ کے کہنہ مشق مفتیٴ مدرسہ ہیں برس ہا برس سے کام کرنے والے، وہ کہہ رہے ہیں: “احقر کو سوالات سے پوری لاعلمی ہے”، لہٰذا جن امور پر فتویٰ کی بنیاد ہے اگر وہ صحیح ہوتے تو مدرسہ میں کے برسوں کے مفتی صاحب کے لئے غیر معلوم کیسے ہوسکتے تھے؟

د:… مفتی محمد یحییٰ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ “معلوم نہیں واقعہ ایسا ہی ہے یا اور کچھ ہے” انہوں نے بتادیا کہ جب تک واقعات کی تحقیق نہ ہو فتویٰ درست نہیں اس لئے دستخط سے معذوری کردی۔

ہ:… کوئی بات بغیر ثبوت کے تسلیم نہیں ہوسکتی، جھوٹ کا دعویٰ بغیر ثبوت کے خود جھوٹ بن کر رہ جاتا ہے۔

و:… لاہور کے اس افسر سے جو اس محکمہ کا خوب ماہر ہے اس کی تحقیق منسلک ہے کہ “ایسا کوئی اندیشہ نہیں، کوئی مداخلت نہیں ہوتی، بلکہ مخالفوں کے خطرے کا سدباب ہے” جس سے اس کا ہونا ضروری بات ثابت ہے گو شرعی واجب نہ ہو احتیاطی واجب ہوگا اور برسوں کے سب کے تجربات الگ اور اگر کوئی اندیشہ ہوا تو علیحدگی کی کوشش بھی تو ممکن ہے وقتی مضرات سے تو حفاظت ہوگی۔

ز:… فتویٰ کا مدار چار نمبروں پر ہے:

اوّل:… سیکریٹری ہونا جھوٹ ہے، مگر اس کے لئے ان سے ثبوت لیا جاسکتا ہے، اگر نظام الدین میں مجلس شوریٰ کا اجتماع اور سب کا ان کو سیکریٹری بنادینا ثابت کردیا گیا تو یہ دفعہ خود جھوٹ بن کر رہ جائے گی۔

دوم:… اگر یہ صحیح ہو تو علم و تدبر تو ایک عام مفہوم ہے اس میں اس کے انواع داخل ہیں، علم دین کا مدرسہ بھی داخل ہے اسے جھوٹ کہنا خود جھوٹ ہوگا۔

سوم:… سوسائٹی انگریزی لفظ ہے جاننے والوں سے مفہوم معلوم کیا جائے بظاہر چند افراد کا مجموعہ ہی تو ہے تو اس کے عموم میں مجلس شوریٰ بھی داخل ہے اس کو دینا، اس کے زیر اہتمام مدرسہ کو دینا ہے نہ کہ ان کی ذاتوں کو اور زیر اہتمام وقف ہے تو وقف کو ہی دینا ہوا جھوٹ کیسے ہوا؟

چہارم:… ادارہ اور سوسائٹی کے معنی میں عام خاص کی نسبت ہے عام ہر خاص پر مشتمل ہوتا ہے تو جھوٹ کیونکر ہوا؟

پھر انہی نمبروں کی بنیاد پر چند سوالات قائم کئے گئے ہیں:

سوال…۱: کا جواب خلاف شرع کیوں ہے جب کہ مجلس شوریٰ اس کی نوع پر مبنی ہے۔

سوال…۲: مداخلت فی الدین کا امکان۔ اب امکان تو ہر کافر بلکہ ہر غیرمتدین حکومت میں ہر وقت ہر مسئلہ میں رہتا ہے آخر ہر حکومت حکومت ہی تو ہے، پھر زندگی ہی منقطع ہوکر رہ جائے گی۔

ٍ مگر ایسے امکانات حکم کے مدار نہیں ہوسکتے خصوصاً جب تجربات خلاف کا اعلان کر رہے ہیں۔

سوال…۳: ٹھیک ہے مگر کذب و ملف کا ثبوت ضروری ہے جو عدالت یا تحکیم سے ہوسکتا ہے۔

سوال…۴: جی ہاں اگر ثبوت شرعی سے فسق ثابت ہوجائے اگر نہ پائے تو جھوٹا الزام لگانے والوں پر تعزیر لازم ہے۔

سوال…۵: جب کہ زید کا کفر یا فسق ثابت ہو اور توبہ نہ کرنا ثابت ہو، اور معاون کا کفر یا کبیرہ کی مدد اور توبہ نہ کرنا ثابت ہو، ورنہ عدم ثبوت پر الزام سے تعزیر تعذیر ہے۔

ح:… جن مفتی صاحب کا فتویٰ ہے گو وہ بڑے مفتیوں کے اور ان کی تصدیق سے خالی ہوتے ہوئے ناقابل اعتبار ہے پھر بھی “اگر ایسا ہو” سے مقید ہے اس لئے جب تک سوال کے مندرجات ثابت نہ ہوں گے یہ فتویٰ ہی نہیں ہے اور اذا فات الشرط فات المشروط۔

ط:… ناواقف صاحبان کے دستخط اسی دھوکہ پر ہوئے کہ واقعہ ایسا ہے… اگر وہ واقعات ثابت نہ ہوئے تو یہ کالعدم ہیں،لہٰذا کوئی چیز قابل اعتبار نہیں۔

ی:… جب تک ثبوت عدالت یا تحکیم سے ثابت نہ ہوں ان کا الزام تعزیر کا مستحق ہے واللہ اعلم۔ جمیل احمد تھانوی

مفتی زین العابدین کا فتویٰ:

الجواب:… رجسٹریشن حفاظت کا قانونی ذریعہ ہے اور تقریباً تمام علمأ بلکہ پوری امت مسلمہ کا اس پر تعامل ہے بریں بنا بلا تردد صورت مسئولہ میں رجسٹریشن کرانا مستحسن امر ہے بلکہ بقول مفتی جمیل احمد صاحب تھانوی مدظلہ العالی مقدمة الواجب واجب کہنے کی بھی گنجائش ہے۔ فقط (مفتی) زین العابدین، فیصل آباد

مولانا مفتی عبدالروٴف سکھروی کا فتویٰ:

حامداً ومصلیاً!

دورِ حاضر میں رجسٹریشن کرانا حفاظت کا ایک قانونی ذریعہ ہے، جس میں شرعاً کوئی قباحت نہیں ہے، اس لئے مساجد و مدارس اور مکاتیب قرآنیہ وغیرہ کو رجسٹرڈ کرانا نہ صرف جائز ہے، بلکہ مستحسن ہے، اور رجسٹرڈ کرانے سے وقف کا وقف ہونا ہرگز متأثر نہیں ہوتا، وقف بدستور وقف ہی رہتا ہے بلکہ اس کی حفاظت میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے جو شرعاً مطلوب ہے۔ واللہ اعلم۔

بندہ عبدالروٴف سکھروی دارالعلوم کراچی

مفتی ولی حسن ٹونکی کا فتویٰ:

الجواب:

دینی اور مذہبی تعلیمی ادارے کی بقأ اور استحکام میں رجسٹریشن ممد اور معاون ہوتا ہے اور آئندہ پیش آنے والے نزاعات کا فیصلہ بھی اس سے ہوجاتا ہے، اس لئے جائز ہی معلوم ہوتا ہے، رجسٹریشن ہوجانے کے بعد کے خطرات وہم کے درجہ میں ہیں اس لئے اعتبار نہیں جب کہ تجربہ اور عادت سے ثابت ہے کہ غیرمسلم حکومت کا دخل ادارے پر نہیں ہوتا اور وہ حسب سابق اپنی آزادی پر برقرار رہتا ہے اس لئے رجسٹریشن کی کاروائی جائز اور قابل لحاظ ہے فقط واللہ تعالیٰ اعلم۔

ولی حسن

دارالافتاء جامعة العلوم اسلامیہ

علامہ بنوری ٹاوٴن کراچی ۲۳/صفر ۱۴۰۶ھ

نوٹ:… استفتاء چونکہ مظاہر علوم سہارنپور سے متعلق ہے اس لئے اپنی رائے سے ضرور مطلع فرماویں۔

ج… ان اکابر کے تفصیلی جوابات کے بعد میرے جواب کی چنداں ضرورت نہ تھی، مگر چونکہ آنجناب کا حکم ہے اس لئے تعمیل حکم میں چند کلمات پیش خدمت ہیں:

رجسٹریشن کی حقیقت یہ ہے کہ: “کسی ادارے کی طے شدہ حیثیت پر حکومت کے بااختیار ادارے کی مہر تصدیق ثبت کرانا۔” تاکہ اس کی حیثیت کو تبدیل نہ کیا جاسکے، پس جس ادارے کی جو حیثیت بھی ہو وہ رجسٹریشن کے بعد نہ صرف یہ کہ بدستور باقی رہتی ہے، بلکہ جو شخص اس کی حیثیت کو تبدیل کرنا چاہے اس کے خلاف قانونی چارہ جوئی ہوسکتی ہے۔

چونکہ فتنہ و فساد کا دور ہے اور بہت سے واقعات ایسے رونما ہوچکے ہیں کہ غلط قسم کے لوگ دینی و مذہبی اداروں کو لاوارث کا مال سمجھ کر ان پر مسلط ہوجاتے ہیں، کبھی اہل ادارہ کو غلط روی پر مجبور کرتے ہیں، کبھی اسی نام سے دوسرا ادارہ قائم کرلیتے ہیں، جس کا نتیجہ عام مسلمانوں کے حق میں انتشار و خلفشار اور اہل دین سے تنفر کے سوا کچھ نہیں نکلتا، اس لئے اکابر کے دور سے آج تک رجسٹریشن کرانے کا معمول بغیر نکیر اور بغیر کسی اختلاف کے جاری ہے، اور فتنوں سے حفاظت کے لئے رجسٹریشن کرانا بلاشبہ مستحسن بلکہ ایک حد تک ضروری ہے، یہ “تسجیل” ہی کی ایک صورت ہے جو ہمیشہ اسلامی عدالتوں میں ہوتی رہی ہے، اور جس کے مفصل احکام فتاویٰ عالمگیری جلد ششم میں موجود ہیں، والله أعلم وعلمہ أتم وأحکم!

مدرسہ کے چندے کا استعمال

س… محترم چند باتوں کے متعلق ہر روز سوچتا ہوں اور کوئی بھی فیصلہ کر نہیں سکتا، حق کا متلاشی ہوں، خود مدرسہ جامعہ بنوریہ سے فاضل ہوں اور پشاور یونیورسٹی کا ریسرچ پی ایچ ڈی سکالر ہوں، گاوٴں میں مدرسے کی بنیاد رکھی ہے، جس کے لئے میں نے اپنے زیورات دئیے ہیں، اور مدرسہ زیر تعمیر ہے، چند شکوک و شبہات ہیں، عاجزانہ التماس ہے کہ مندرجہ ذیل مسائل کے بارے میں، میں کیا کروں؟

س…۱: مدرسہ کے لئے جو فنڈ ہے یا جو لوگ چندہ دیتے ہیں، ان میں سے میں مدرسہ کے لئے رسید بک، یا لیٹر پیڈ وغیرہ بنا سکتا ہوں؟

س…۲: مدرسہ کے ساتھ تعاون کرنے والے حضرات کے لئے میں مدرسے کی اس رقم سے کچھ اکرام مثلاً چائے یا کھانا وغیرہ کھلاسکتا ہوں؟

س…۳: مدرسہ کے لئے اپنا علیحدہ راستہ ہے، جو ایک ندی سے گزرتا ہے، کیا اس ندی پر پل مدرسہ کی رقم سے تعمیر کرسکتا ہوں، جب کہ وہ راستہ صرف مدرسہ کا ہے؟

س…۴: فی الحال مجھے پشاور یونیورسٹی میں سروس مل سکتی ہے، لیکن میرا ارادہ ہے کہ میں سروس نہیں کروں گا، صرف مدرسہ میں پڑھاوٴں گا، میں، میرے بھائی اور والد صاحب (علمی خاندان ہے) ہم اکٹھے رہتے ہیں، اور وہ میرے ساتھ تعاون کرتے ہیں، میرے اور میری بیوی کے اخراجات پورے کرتے ہیں، اگر بالفرض مجھے ضرورت پڑے تو میں مدرسہ کے فنڈ سے اپنے لئے تنخواہ مقرر کرسکتا ہوں؟ اگر کرسکتا ہوں تو کتنا لینا جائز ہوگا؟

محترم! فکر آخرت کی وجہ سے ہر وقت سوچتا ہوں کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ دین کے نام پر کام شروع کروں اور وہ میرے لئے ہلاکت کا سامان بن جائے، اس لئے آپ سے رابطہ رکھوں گا تاکہ صحیح طریقے پر چل سکوں۔

ج…۱: بناسکتے ہیں، مگر اس لیٹر پیڈ کو اپنی ذاتی ضروریات کے لئے استعمال نہیں کرسکتے، صرف مدرسہ کے کاموں کے لئے استعمال ہونا چاہئے، اور اگر ذاتی ضروریات کے لئے آپ کو اس کی ضرورت ہو تو اپنا الگ لیٹر پیڈ بنائیں، اور یہ بھی ضروری ہے کہ مدرسہ کی وہ رقم زکوٰة فنڈ کی نہ ہو۔

ج…۲: مدرسہ کے عام چندہ سے نہیں کرسکتے، البتہ خاص اسی مقصد کے لئے چندہ جمع کیا گیا ہو اس سے کرسکتے ہیں۔

ج…۳:کرسکتے ہیں۔

ج…۴: تنخواہ مقرر کرسکتے ہیں، اور اس کے لئے چند دیندار اور ذی فہم لوگوں کو مقرر کردیا جائے، جن سے آپ مشورہ کرسکیں۔

کفار اور منافقین سے سختی کا مصداق

س… “یٰٓاَیُّھَا النَّبِيُّ جَاھِدِ الْکُفَّارَ وَالْمُنَافِقِیْنَ وَاغْلُظْ عَلَیْھِمْ” آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت شریفہ کی شق اول پر کما حقہ عمل فرمایا مگر شق ثانی یعنی منافقین کے ساتھ اس کے برعکس نرمی اور شفقت فرمائی، بظاہر یہ بات آیت کے خلاف معلوم ہوتی ہے۔

ج… کفار کے مقابلہ پر غلظت سیف و سنان کے ساتھ تھی اور منافقین کے ساتھ باللسان تھی، جہاں نرمی کی ضرورت ہوتی نرمی فرماتے ورنہ سختی، چنانچہ روح المعانی میں ہے کہ ایک جمعہ کے موقع پر آپ نے نام لے لے کر منافقوں کو مسجد سے نکلوادیا۔

“قم یا فلان فانک منافق۔قم یا فلان فانک منافق” رئیس المنافقین سے نرمی فرمانا اس کے صاحبزادے کی دلجوئی اور دیگر منافقین کو اخلاق کی تلوار سے کاٹنے کے لئے تھا۔

“قریب تھا کہ انبیاء ہوجاتے” کا مفہوم

س… حدیث شریف میں ہے کہ ایک وفد کے لوگ آپ کے پاس آئے، ان کے اوصاف سن کر حضور علیہ السلام نے فرمایا: “عجب نہیں انبیاء ہوجائیں۔” اپنے صاحبزادے حضرت ابراہیم کے ساتھ بھی غالباً ایسا ہی فرمایا تھا کہ زندہ رہتے تو نبی ہوتے، سوال یہ ہے کہ جب آپ کے بعد کوئی نبی نہیں تو “انبیاء ہوجائیں” یا “نبی ہوجاتے” سے کیا مراد ہے؟

ج… “عجب نہیں کہ انبیاء ہوجائیں” یہ ترجمہ غلط ہے، حدیث شریف کے الفاظ یہ ہیں: “حکماء علماء کادوا من فقہہم ان یکونوا انبیاء” صاحب علم، صاحب حکمت لوگ ہیں قریب تھا کہ اپنے فقہ کی وجہ سے انبیاء ہوجاتے۔ عربی لغت میں یہ الفاظ کسی کی مدح میں انتہائی مبالغے کے لئے استعمال ہوتے ہیں حقیقت کے خلاف استدلال کرنا صحیح نہیں، کیونکہ ان کا زندہ رہنا ناممکن تھا تو نبی ہونا بھی ناممکن ہوا۔ اگر نبوت مقدر ہوتی تو ان کو بھی زندہ رکھا جاتا مگر چونکہ ان کی نبوت ناممکن تھی اس لئے ان کی زندگی میں مقدر نہ ہوا۔ صاحبزادہ گرامی کے بارے میں فرمایا تھا: “اگر ابراہیم زندہ ہوتے تو صدیق نبی ہوتے۔” یہ روایت بھی بہت کمزور ہے، پھر یہاں تعلیق بالمحال ہے، یہ بحث میرے رسالے “ترجمہ خاتم النبیین” میں صفحہ:۲۷۷،۲۷۸ پر آئی ہے، اس کو یہاں نقل کرتا ہوں:

“اسماعیل بن ابی خالد کہتے ہیں کہ میں نے ابن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا کہ آپ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحبزادہٴ گرامی حضرت ابراہیم کی زیارت کی ہے؟ فرمایا: “مات صغیرًا، ولو قضی ان یکون بعد محمد صلی الله علیہ وسلم نبی عاش ابنہ، ولکن لا نبی بعدہ۔” یعنی وہ صغر سنی ہی میں خدا کو پیارے ہوگئے تھے، اور اگر تقدیر خداوندی کا فیصلہ یہ ہوتا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی ہو تو آپ کے صاحبزادہٴ گرامی حیات رہتے، مگر آپ کے بعد نبی ہی نہیں (اس لئے صاحبزادے بھی زندہ نہ رہے)۔

(صحیح بخاری باب من سمی بأسماء الانبیاء ج:۲ ص:۹۱۴)

اور یہی حضرت مُلّا علی قاری نے سمجھا ہے، چنانچہ وہ موضوعات کبیر میں ابن ماجہ کی حدیث: “لو عاش ابراہیم ․․․․ الخ” کے ذیل میں لکھتے ہیں:

“الا ان فی سندہ ابوشیبة ابراہیم بن عثمان الواسطی، وھو ضعیف لکن لہ طرق ثلثة یقوی بعضھا بعضا، ویشیر الیہ قولہ تعالیٰ: “ما کان محمد ابا احد من رجالکم ولکن رسول الله وخاتم النبیین۔” فانہ یوٴمی بانہ لم یعش لہ ولد یصل الی مبلغ الرجال، فان ولدہ من صلبہ یقتضی ان یکون لبَّ قلبہ، کما یقال: “الولد سر لابیہ۔” ولو عاش وبلغ اربعین، وصار نبیًّا لزم ان لا یکون نبیًّا خاتم النبیین۔”

(موضوعات کبیر حرف “لو” ص:۶۹ مطبوعہ مجتبائی قدیم)

ترجمہ:…”اس حدیث کی سند کا ایک راوی ابو شیبہ ابراہیم بن عثمان الواسطی ضعیف ہے، تاہم اس کے تین طرق ہیں، جو ایک دُوسرے کے موٴید ہیں، اور ارشاد خداوندی: “․․․․وخاتم النبیّن” الخ بھی اسی جانب مشیر ہے، چنانچہ یہ آیت اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ آپ کا کوئی صاحبزادہ زندہ نہیں رہا، جو بالغ مردوں کی عمر کو پہنچتا، کیونکہ آپ کا بیٹا، آپ کی صلب مبارک سے تھا، اور یہ امر اس کو مقتضی تھا کہ وہ آپ کا ثمرہٴ ادل (یعنی آپ کے محاسن و کمالات کا جامع) ہوتا، جیسا کہ مثل مشہور ہے: “بیٹا باپ پر ہوتا ہے۔” اب اگر وہ زندہ رہتا اور چالیس کے سن کو پہنچ کر نبی بن جاتا تو اس سے لازم آتا ہے کہ آپ خاتم النبیین نہ ہوں۔”

مُلّا علی قاری کی تصریح بالا سے واضح ہوجاتا ہے کہ:

الف:…آیت خاتم النبیین میں ختم نبوت کے اعلان کی بنیاد نفی أبُوَّت پر رکھ کر اشارہ اس طرف کیا گیا ہے کہ آپ کے بعد ہمیں کسی کو نبوت عطا کرنا ہوتی تو ہم آپ کے فرزندانِ گرامی کو زندہ رکھتے، اور انہیں یہ منصب عالی عطا فرماتے، مگر چونکہ آپ پر سلسلہٴ نبوت ختم تھا، اس لئے نہ آپ کی اولاد نرینہ زندہ رہی، نہ آپ کسی بالغ مرد کے باپ کہلائے۔

ب:…ٹھیک یہی مضمون حدیث: “لو عاش ابراہیم لکان صدیقًا نبیًّا” کا ہے، یعنی آپ کے بعد اگر کسی قسم کی نبوت کی گنجائش ہوتی تو اس کے لئے صاحبزادہٴ گرامی کو زندہ رکھا جاتا، اور وہی نبی ہوتے، گویا حدیث نے بتایا ابراہیم اس لئے نبی نہ ہوئے کہ آپ کے بعد نبوت کا دروازہ ہی بند تھا، یہ نہ ہوتا تو وہ زندہ بھی رہتے اور “صدیق نبی” بھی بنتے۔”

سینہٴ نبوی کی آواز

س… ایک روایت میں ہے کہ بوقت نماز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سینہٴ مبارک سے بہ جوش و خروش ہانڈی کے ابلنے کی سی آواز بہت زور شور سے آتی تھی، اور ایک جگہ میں نے یہ بھی پڑھا کہ یہ آواز ایک میل تک مسموع ہوتی تھی، یہ حدیث بظاہر درایت کے خلاف معلوم ہوتی ہے کیونکہ حضور تو رات کو گھر میں داخل ہوتے وقت سلام بھی ایسی آواز میں فرماتے تھے کہ سونے والا جاگے نہیں اور جاگنے والا سن لے، جو آواز ایک میل تک مسموع ہو تو آس پاس والوں کا کیا حال ہوگا؟ بچوں کے تو کان بھی پھٹ سکتے ہیں اور نیند کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

ج… ایک میل سے مسموع ہونے کی بات تو پہلی دفعہ آپ کی تحریر میں پڑھی ہے، میں نے ایسی کوئی روایت نہیں دیکھی، سند کے بارے میں کیا عرض کروں؟

منہ پر تعریف کرنا ہر ایک کے لئے ممنوع نہیں

س… حدیث شریف میں ہے کہ منہ پر تعریف کرنے والے کے منہ میں مٹی ڈالدو، جب کہ حضور علیہ السلام نے خود اپنی شان میں قصیدے سنے ہیں، ایک قصیدے پر حضور علیہ السلام نے کعب بن زہیر کو خوش ہوکر اپنی چادر مبارک عطا فرمائی جو بعد میں حضرت معاویہ نے ان سے بیس ہزار درہم میں خرید لی۔

ج… ہر شخص کے احوال مختلف ہیں، منہ پر مٹی ڈالنے سے مراد یہ ہے کہ اپنا نفس نہ بگڑ جائے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں اس کا دور دور تک بھی احتمال نہیں، پھر ایک شخص جس کے قتل کا حکم فرمادیا وہ اظہار امان و عقیدت کے قصیدہ پڑھتا ہے، بجاطور پر وہ انعام کا مستحق ہے۔

کیا توبہ سے قتلِ عمد معاف ہوسکتا ہے؟

س… “مَنْ قَتَلَ مُوٴْمِنًا مُّتَعَمِّدًا…الخ” اس آیت میں قتل عمد کی سزا ہمیشہ جہنم میں رہنا ظاہر کرتا ہے، اور سورہٴ فرقان میں “وَالَّذِیْنَ لَا یَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ ․․․․ اِلَّا مَنْ تَابَ” یہاں توبہ کے معافی کا وعدہ ہے، کیا پہلی آیت اس آیت سے منسوخ ہے؟

ج… پہلی آیت اہل ایمان کے بارے میں ہے اور یہ رکوع یہاں سے شروع ہوتا ہے: “وَمَا کَانَ لِمُوٴْمِنٍ اَنْ یَّقْتُلَ․․․․” اور سورہٴ فرقان کی آیت: “وَمَنْ تَابَ․․․․” کفار کے بارے میں ہے، یعنی جن لوگوں نے کفر کی حالت میں ان جرائم کا ارتکاب کیا پھر کفر و شرک سے تائب ہوگئے، ان کے کفر کی حالت کے جرائم پر موٴاخذہ نہیں ہوگا۔

بعض عوارض کی و جہ سے مفضول عبادت افضل سے بڑھ جاتی ہے

س… ایک کتاب میں ایک قول میری نظر سے گزرا، کتاب اور مصنف کا نام یاد نہیں، مفہوم یہ تھا کہ اشراق کی نماز کے لئے طلوع آفتاب تک بیٹھنے سے ہوا خوری اور صبح کی سیر زیادہ بہتر ہے۔ یہ بات اس نالائق پر بہت گراں گزری ہے، علامہ عبدالوہاب شعرانی نے طبقات الکبریٰ میں لکھا ہے کہ شیخ عبدالغفار قوسی اپنے بیٹے کے ساتھ کھانا کھارہے تھے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت شریفہ کی اتباع میں کدو کی قاشیں انگلی سے تلاش کرکرکے کھانے کے لئے نکال رہے تھے، انہوں نے بیٹے سے کہا کہ بیٹا یہ کدو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت پسند تھا اور اس طرح آپ قاشیں تلاش کرکرکے کھاتے تھے۔ بیٹے نے کہا ابا! مجھے تو کدو بہت گندا لگتا ہے۔ یہ بات سن کر آپ کو اتنی غیرت آئی کہ اسی وقت تلوار سے بیٹے کا سر تن سے جدا کردیا۔ حالانکہ یہ کوئی شرعی خلاف ورزی نہیں تھی، حضور علیہ السلام کی عادت مبارکہ اختیار کرنا محبت کی بات ہے کوئی شرعی حکم نہیں۔

ایک طریقہ نفل عبادت کا جو حضور علیہ السلام سے متفقہ منقول ہے اس کے مقابلے میں اپنی ایک تجویز پیش کرنا اور اس کو افضل بتانا اس کی برائی صاحبان علم پر مخفی نہیں۔ یقینا یہ ملفوظ بہت سے علماء اور مشائخ نے بھی کہیں پڑھا ہوگا اور لکھنے والا بھی عالم فاضل ہوگا، کیا اچھا ہوتا اگر حاشیہ میں اس کی تاویل بھی لکھ دیتا تاکہ مجھ جیسے کم فہم لوگ کسی غلط فہمی کا شکار نہ ہوتے۔ اور تاویل کے بارے میں کیا عرض کروں ایک واقعہ سن لیجئے! حضرت عمر فاروق  کے پوتے حضرت بلال سے روایت ہے کہ میرے والد عبداللہ ابن عمر نے یہ حدیث سنائی کہ “رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے کہ عورتوں کو مسجد میں جانے کے حق سے محروم مت کرو۔” میرے منہ سے بے اختیار یہ لفظ نکل گیا کہ “میں تو اپنی بیوی کو مسجد میں نہ جانے دوں گا۔” اس پر والد نے مجھے بڑی غضبناک نظروں سے دیکھا اور کرخت آواز میں کہا: “تجھ پر خدا کی لعنت میں تجھے رسول اللہ کا حکم سناتا ہوں اور تو اس کے مقابلے میں یہ کہتا ہے۔ (جامع البیان العلم وفضلہ علامہ ابن عبدالبر اندلسی) حالانکہ اس کی بڑی معقول تاویل ہوسکتی تھی اور اب بھی اس تاویل کی بنا پر عورتیں مسجد میں نہیں جاتیں۔ لیکن بات وہی غیرت ادب اور محبت و عقیدت کی ہے اور فقیر درویش تو سراپا نیاز وادب ہوتے ہیں جناب کا اس بارے میں کیا تأثر ہے؟

ج… آپ نے جتنے واقعات نقل کئے ہیں وہ غیرمتعلق ہیں، اس قول کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک عبادت جو کہ منصوص ہے اور اس کی بڑی فضیلت ہے لیکن بعض عوارض کی وجہ سے دوسری چیز اس سے بڑھ جاتی ہے، اس میں نہ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی ارشاد سے معارضہ ہے کہ اس پر آنجناب کے ذکر کردہ واقعات کو لاگو کیا جائے اور نہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی قول کا رد کرنا ہے اور یہ اصول ہے کہ بعض اوقات مفضول عبادت عوارض کی وجہ سے افضل سے بڑھ جاتی ہے اور شریعت میں اس کی بے شمار نظائر موجود ہیں۔

رزق کے اسبابِ عادیہ اختیار کرنا ضروری ہے

س… “وَمَا مِنْ دَآبَّةٍ فِي الْاَرْضِ اِلَّا عَلَی اللهِ رِزْقُھَا” جب سب کا رزق اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے تو ہر سال سیکڑوں لوگ بھوک سے کیوں مرجاتے ہیں؟ اور یہ اموات ساری غریب ملکوں ہی میں کیوں ہوتی ہیں؟ مثلاً ایتھوپیا، سوڈان اور دوسرے افریقہ کے غریب ممالک۔ برطانیہ، امریکہ اور فرانس یا یورپ کے دوسرے مالدار ملکوں میں لوگ بھوک سے کیوں نہیں مرتے؟ قحط آسمانی بلا ہے مگر اس میں بھی غرباء کی جانیں جاتی ہیں، مالدار لوگ کسی نہ کسی صورت سے اپنا بچاوٴ کرلیتے ہیں۔ ان مشاہدات سے معلوم ہوا کہ یہ آیت اسباب معیشت سے مشروط ہے کہ جس نے اپنے حصول زرق کے مروجہٴ زمانہ اسباب اختیار کئے اللہ اس کو رزق ضرور بھیجے گا۔

ج… آپ کی رائے صحیح ہے، رزق کے اسبابِ عادیہ کا اختیار کرنا بہرحال ضروری ہے اِلَّا یہ کہ اعلیٰ درجہ کا توکل نصیب ہو۔ پرندے اور چرندے اسباب رزق اختیار کرتے ہیں، تاہم ان کو اختیار اسباب کے ساتھ فطری توکل بھی نصیب ہے۔

شریعت نے اسباب کو مہمل نہیں چھوڑا

س… “وَمَا مِنْ دَآبَّةٍ فِي الْاَرْضِ” اس سوال کے جواب میں آپ نے فرمایا: “آپ کی رائے صحیح ہے۔” کیا سلف نے بھی اس رائے کے بارے میں کچھ کہا ہے کیونکہ میں نے پڑھا ہے کہ جس نے قرآن پاک کے بارے میں اپنی رائے سے کچھ کہا اس نے… اس لئے جب کسی بزرگ سے اس رائے کی تصدیق ہوجائے گی تو پھر یہ اپنی رائے نہ رہے گی اور اس وعید کے دائرے سے باہر ہوجائیں گے۔

ج… صحیح بایں معنی ہے کہ شریعت نے اسباب کو مہمل نہیں چھوڑا ہے، اگرچہ اسباب، اسباب ہیں ارباب نہیں، رزق تو سب کا اللہ نے اپنے ذمہ رکھا ہے لیکن ہماری نظر چونکہ اسباب سے بالاتر نہیں جاتی اس لئے ہمیں رزق بذریعہ اسباب طلب کرنے کا حکم فرمایا ہے، اور رزق کو بظاہر مشروط بہ اسباب رکھا ہے، ورنہ اس کی مشیت کے بغیر نہ اسباب، اسباب ہے اور نہ روزی کا حصول اسباب کا مرہونِ منّت ہے۔

نمرود کے مبہوت ہونے کی وجہ

س… “فَاِنَّ اللهَ یَأْتِيْ بِالشَّمْسِ مِنَ الْمَشْرِقِ فَأْتِ بِھَا مِنَ الْمَغْرِبِ” تفسیر عثمانی میں لکھا ہے کہ یہ بات سن کر نمرود کچھ جواب نہ دے سکا حالانکہ جیسے پہلے جواب دے چکا تھا ویسا جواب دینے کی یہاں بھی گنجائش تھی، پوچھنا یہ ہے کہ وہ گنجائش کیا تھی؟ پہلے سوال کے جواب میں تو اس نے ایک بے گناہ کو قتل کردیا اور ایک مجرم کو آزاد کردیا، دوسرے سوال میں کیا کہہ سکتا تھا؟

ج… ایک گنوار کا لطیفہ ہے کہ اس نے کسی پڑھے لکھے آدمی سے پوچھا: “بابو جی زمین کا بیچ (مرکز) کہاں ہے؟” جواب نفی میں ملا، گنوار کہنے لگا تم نے خواہ مخواہ اتنا پڑھ لکھ کر سب ڈبودیا، اتنی بات تو مجھ گنوار کو بھی معلوم ہے، بابو جی نے پوچھا: “وہ کیسے؟” اس نے ہاتھ کی لاٹھی سے ایک گول دائرہ بنایا اور اس کے درمیان لاٹھی گاڑ کر کہنے لگا: “یہ ہے زمین کا درمیان، اگر یقین نہ آئے تو ناپ کر دیکھ لو۔” اس کو معلوم تھا کہ نہ کوئی پیمائش کرسکے اور نہ اس کے دعوے کو توڑ سکے گا۔

نمرود بھی اگر اس گنوار کے مسلک پر عمل کرتا تو کہہ سکتا تھا کہ آفتاب کو مشرق سے تو میں نکالتا ہوں، تیرا رب اب اس کو مغرب سے نکال کر دکھائے۔ لیکن اس کو یہ دعویٰ ہانکنے کی جرأت نہیں ہوئی کیونکہ اسے یقین ہوگیا کہ جو مالک مشرق سے نکالتا ہے وہ مغرب سے بھی نکال سکتا ہے، اگر میں نے یہ دعویٰ کردیا تو ایسا نہ ہو کہ ابراہیم علیہ السلام کا رب مغرب سے نکال کر دکھادے، “فبھت الذی کفر”۔