آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ رَدِّ شمس

س… گزشتہ دنوں ایک مولانا صاحب نے مقامی مسجد میں اتباعِ رسول کے موضوع پر وعظ کرتے ہوئے فرمایا کہ: ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے زانو پر سر رکھ کر لیٹے کہ اتنے میں انہیں نیند آگئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سوگئے، اِدھر عصر کا وقت ختم ہو رہا تھا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے انہیں جگانا مناسب نہ سمجھا، انہوں نے سوچا کہ نماز تو پھر مل جائے گی مگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اس طرح کی قربت نہ جانے پھر نصیب ہوگی یا نہیں؟ اتنے میں سورج غروب ہوگیا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھ کھلی تو سورج غروب ہوچکا تھا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جاگ کر حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ: نماز پڑھنا چاہتے ہو یا قضا پڑھو گے؟ حضرت علی نے فرمایا کہ: قضا نہیں پڑھنا چاہتا! تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سورج کو حکم دیا، سورج دوبارہ نکل آیا اور حضرت علی نے نماز پڑھی۔ خلاصہ کلام یہ ہوا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنی نماز تو قضا کرلی مگر زانو سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ جگایا۔

اس میں تفصیل طلب بات یہ ہے کہ آیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خود نماز پڑھ لی یا نماز پڑھنے سے پہلے سوگئے یا دونوں نے نماز نہیں پڑھی؟ اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھی تو یہ کیسے ممکن ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ وہاں بیٹھے رہے اور انہوں نے نماز نہیں پڑھی؟ اور پھر نبی جب سوتا ہے تو غافل نہیں ہوتا، نبی کا دل جاگ رہا ہوتا ہے، بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ نبی سوجائے، اس کی اپنی نماز قضا ہوجائے یا اس کے رفیق کی؟

مولانا کی گفتگو سے مندرجہ بالا اشکالات میرے ذہن میں آئے، امید ہے کہ ان کا جواب دے کر ممنون فرمائیں گے اور بتلائیں گے کہ آیا یہ واقعہ صحیح احادیث سے ثابت ہے یا واقعہ کی حد تک ہے؟

ج… حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لئے ردّ شمس کی حدیث امام طحاوی رحمہ اللہ نے مشکل الآثار (ج:۲ ص:۹) میں حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا سے روایت کی ہے، بہت سے حفاظِ حدیث نے اس کی تصحیح فرمائی ہے، امام طحاوی نے اس کے رجال کی توثیق کرنے کے بعد حافظ احمد بن صالح مصری کا یہ قول نقل کیا ہے:

“لا ینبغی لمن کان سبیلہ العلم التخلف عن حفظ حدیث اسماء الذی روی لنا عنہ، لانہ من اجل علامات النبوة۔” (مشکل الآثار ج:۲ ص:۱۱)

ترجمہ:…”جو شخص علمِ حدیث کا راستہ اختیار کئے ہوئے ہو اسے حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کی حدیث کے، جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے، یاد کرنے میں کوتاہی نہیں کرنی چاہئے، کیونکہ یہ جلیل القدر معجزاتِ نبوت میں سے ہے۔”

حافظ سیوطی رحمہ اللہ “اللآلی المصنوعہ” میں لکھتے ہیں:

“ومما یشھد بصحة ذالک قول الامام الشافعی وغیرہ ما اوتی نبی معجزة الا اوتی نبینا صلی الله علیہ وسلم نظیرھا، او ابلغ منھا، وقد صح ان الشمس حسبت علیٰ یوشع (علیہ السلام) لیالی قاتل الجبارین، فلا بد ان یکون لنبینا صلی الله علیہ وسلم نظیر ذالک فکانت ھذہ القصة نظیر تلک۔”

(مشکل الآثار ج:۱ ص:۳۴۱)

ترجمہ:…”اور من جملہ ان اُمور کے جو اس واقعہ کے صحیح ہونے کی شہادت دیتے ہیں، حضرت امام شافعی رحمہ اللہ اور دیگر حضرات کا یہ ارشاد ہے کہ کسی نبی کو جو معجزہ بھی دیا گیا ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی نظیر عطا کی گئی، یا اس سے بھی بڑھ کر، اور صحیح احادیث میں آچکا ہے کہ سورج، حضرت یوشع علیہ السلام کے لئے روکا گیا تھا، جبکہ انہوں نے جبارین سے جہاد کیا، پس ضروری تھا کہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے بھی اس کی نظیر واقع ہوتی، چنانچہ یہ واقعہ حضرت یوشع علیہ السلام کے واقعہ کی نظیر ہے۔”

امام ابن جوزی رحمہ اللہ نے اس قصہ کو موضوعات میں شمار کیا ہے، اور حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے بھی “منہاج السنة” میں بڑی شد و مد سے اس کا انکار کیا ہے، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ “فتح الباری” میں لکھتے ہیں:

“وھذا ابلغ المعجزات، وقد اخطأ ابن الجوزی فی ایرادہ فی الموضوعات، وکذا ابن تیمیة فی کتاب الرد علی الروافض فی زعم وضعہ، والله اعلم!” (ج:۶ ص:۲۲۲)

ترجمہ:…”ردّ شمس کا یہ واقعہ حضرت یوشع علیہ السلام کے واقعہ سے بلیغ تر ہے، ابن جوزی نے اس واقعہ کو موضوعات میں درج کرکے غلطی کی ہے، اسی طرح ابن تیمیہ نے اپنی کتاب میں جو ردّ روافض پر لکھی گئی ہے، اس کو موضوع قرار دے کر غلطی کی ہے۔”

حافظ سیّد مرتضیٰ زبیدی رحمہ اللہ “شرح احیا” میں لکھتے ہیں:

“وھذا تحامل من ابن الجوزی، وقد ردّ علیہ الحافظان السخاوی والسیوطی، وحالہ فی ادراج الاحادیث الصحیحة فی حین الموضوعات معلوم عند الائمة، وقد ردّ علیہ وعابہ کثیرون من اھل عصرہ ومن بعدھم کما نقلہ الحافظ العراقی فی اوائل نکتہ علی ابن الصلاح فلا نطیل بذکرہ، وھذا الحدیث صححہ غیر واحد من الحفاظ حتی قال السیوطی ان تعدد طرقہ شاھد علیٰ صحتہ، فلا عبرة بقول ابن الجوزی۔”

(اتحاف شرح احیا ٴ ج:۷ ص:۱۹۲)

ترجمہ:…”اس واقعہ کو موضوعات میں شمار کرنا ابن جوزی کی زیادتی ہے، حافظ سخاوی اور حافظ سیوطی نے ان پر ردّ کیا ہے، اور ابن جوزی جس طرح صحیح احادیث کو موضوعات میں ذکر کرجاتے ہیں وہ ائمہ کو معلوم ہے، ان کی اس رَوِ ش پر ان کے معاصرین نے بھی اور بعد کے حضرات نے بھی ان کی عیب چینی کی ہے، جیسا کہ حافظ عراقی  نے اپنی کتاب “نکت ابن صلاح” کے اوائل میں ذکر کیا ہے اور اس حدیث کو بہت سے حفاظِ حدیث نے صحیح کہا ہے۔ سیوطی کہتے ہیں کہ: اس کے طرق کا متعدد ہونا اس کی صحت پر شاہد ہے، اس لئے ابن جوزی کے قول کا کوئی اعتبار نہیں۔”

بہرکیف! یہ واقعہ صحیح ہے اور اس کا شمار معجزاتِ نبوی میں ہوتا ہے، رہا آپ کا یہ کہنا کہ: “یہ کیسے ممکن ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھ لی ہو اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نے نہ پڑھی ہو؟” اس کا جواب خود اسی حدیث میں موجود ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کام سے بھیجا تھا، جب وہ اس کام سے واپس آئے تو نماز ہوچکی تھی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سمجھا کہ یہ نماز پڑھ چکے ہوں گے۔

اور آپ کا یہ کہنا کہ: “نبی سوتا ہے تو اس کا دل جاگتا ہے، پھر نماز کیسے قضا ہوسکتی ہے؟” اس کا جواب یہ ہے کہ نماز کے اوقات کا مشاہدہ کرنا دل کا کام نہیں، بلکہ آنکھوں کا کام ہے، اور نیند کی حالت میں نبی کی آنکھ سوتی ہے، دل جاگتا ہے، یہی وجہ ہے کہ “لیلة التعریس” میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رفقا کی نمازِ فجر قضا ہوئی، والله اعلم!

اکابرِ دیوبند کا مسلک

س… کیا فرماتے ہیں علمائے دین ایسے شخص کے بارے میں جو ایک مسجد کا امام ہے اور درسِ قرآنِ کریم بھی دیتا ہے، مسجد علمائے دیوبند کے منتسبین کی تھی اور اس امام صاحب کو بھی ایک دیوبندی کی حیثیت سے رکھا گیا تھا، مگر ان کے خیالات یہ ہیں:

۱:…سورہٴ یوسف کے درس میں حضرت یوسف علیہ السلام اور زلیخا کے نکاح کی بحث میں زلیخا کے متعلق کہا کہ: وہ زانیہ، بدکارہ اور کافرہ تھی۔ بعض شرکائے درس نے جب عرض کیا کہ فلاں فلاں تفسیر میں لکھا ہے کہ نکاح ہوا تھا، مثلاً: معارف القرآن میں۔ تو فرمانے لگے کہ: جنہوں نے لکھا ہے وہ بھی بے ایمان لعنتی ہیں!

۲:…تبلیغی جماعت کی سخت مخالفت کرتا ہے، جماعت کو مسجد میں ٹھہرنے نہیں دیتا ہے اور حضرت شیخ الحدیث رحمہ اللہ کے متعلق کہا کہ وہ مشرک مرگیا اور گالی دے کر کہا کہ: اس نے تبلیغی نصاب میں گند اور شرک بھردیا ہے۔ تبلیغی نصاب کی توہین کرتے ہوئے اس کو “کتابڑی”، “شتابڑی” کے نام سے یاد کرتا ہے۔

۳:…بعض اکابرین علمائے دیوبند مثلاً: حضرت مولانا احمد علی لاہوری اور حضرت محدث العصر مولانا محمد یوسف بنوری کے بارے میں کہا کہ یہ حضرات مشرک تھے اور حالتِ شرک ہی میں مرے ہیں۔

۴:…وسیلہ بالذوات الفاضلہ (مثلاً: انبیاء علیہم السلام اور صلحائے امت) کو شرک اور کفر کہتا ہے اور جو کوئی کسی بزرگ کے وسیلہ سے دعا مانگے اس کو مشرک کہتا ہے۔

۵:…انبیاء علیہم الصلوٰة والسلام کی حیاتِ برزخی فی القبور کا انکار کرتا ہے اور قائلینِ حیات علمائے دیوبند کو مشرک کہتا ہے۔

۶:…سماعِ موتیٰ کے قائلین کو بھی مشرک کہتا ہے۔

۷:…اپنی رائے کے متعلق کہتا ہے کہ: وہ آخری اور حتمی ہے، میں کسی اور عالم حتیٰ کہ اپنے اساتذہ تک کو بھی نہیں مانتا ہوں۔

اب اہل محلہ اشتعال میں ہیں کہ ایسے آدمی کو ہم امام نہیں رکھیں گے، اب اس سلسلے میں آپ سے مندرجہ ذیل سوالات کے جوابات مطلوب ہیں:

۱:…کیا ایسا آدمی اہل سنت والجماعت میں سے ہے؟

۲:…کیا ایسا آدمی دیوبندی کہلائے گا؟

۳:…کیا ایسے آدمی کو مستقل امام رکھنا اور اس کے پیچھے نمازیں ادا کرنا جائز ہے یا نہیں؟

۴:…آیا وہ آدمی عامی کفر کے حکم کا مستحق ہوگا اور اس کی بیوی مطلقہ ہوگی؟

ج… سوال میں جن صاحب کے نظریات درج کئے گئے ہیں، اگر وہ واقعی ان نظریات کا حامل ہے تو یہ اہل سنت والجماعت سے خارج ہے، کیونکہ کسی مسلمان کو (خصوصاً کسی مسلّم الثبوت عالم اور بزرگ کو) بے ایمان، لعنتی اور مشرک جیسے الفاظ کے ساتھ یاد کرنا، عقیدہٴ اہل سنت کے خلاف ہے۔ وسیلہ بالوجہ المشروع کے اہل سنت قائل ہیں، اسی طرح حیاتِ برزخی فی القبور کو مانتے ہیں اور سماعِ موتیٰ صحابہ کے دور سے مختلف فیہ چلا آرہا ہے، اس لئے سماعِ موتیٰ کے قائلین کو مشرک کہنا، گویا -نعوذ بالله- صحابہ کو مشرک قرار دینا ہے، نعوذ بالله من الزیغ والضلال!

الغرض اس شخص کے نظریات روافض و خوارج کا سرقہ ہیں، اس لئے اہل سنت سے اس کا کوئی واسطہ نہیں۔

۲:…حضراتِ اکابرِ دیوبند بھی اہل سنت ہی کا ایک مکتبِ فکر ہے، جو کتاب و سنت پر عامل، حنفیّت کا شارح، سنت کا داعی، بدعت کا ماحی، ناموسِ صحابہ کا علم بردار، حضراتِ اولیاء اللہ کا کفش بردار ہے، لہٰذا جو شخص اہل سنت سے منحرف ہو وہ دیوبندی نہیں ہوسکتا، اکابرِ دیوبند کے نظریات زیر بحث مسائل میں وہ ہیں جو “المہند علی المفند” میں ہمارے شیخ المشائخ حضرتِ اقدس مولانا الحاج الحافظ الحجة الثقة الامین السیدی خلیل احمد سہارنپوری ثم مہاجر مدنی قدس سرہ نے قلم بند فرمائے ہیں، اور اس پر ہمارے تمام اکابر کے دستخط اور تصدیقات ہیں، جو شخص اس رسالہ کے مندرجات سے متفق نہیں وہ دیوبندی نہیں، ہمارے اکابرِ دیوبند واقعتا اس شعر کا مصداق تھے:

در کف جامِ شریعت در کف سندانِ عشق

ہر ہوسناکے نہ داند جام و سنداں باختن!

۳:…چونکہ یہ شخص طائفہ منصورہ اہل سنت سے منحرف ہے اس لئے اس کی اقتداء میں نماز جائز نہیں، اور یہ اس لائق نہیں کہ اس کو امام بنایا جائے، اہل محلہ کا فرض ہے کہ اس کو امامت کے منصب سے معزول کردیں۔

۴:…تکفیر کے مسئلے میں یہ ناکارہ احتیاط کرتا ہے، اس لئے اس شخص کو توبہ وانابت کا اور اہل حق سے وابستگی کا مشورہ دیتا ہے، اس شخص کا اصل مرض خودرائی ہے، جس کی طرف سوال کے جزو نمبر:۷ میں ان الفاظ میں اشارہ کیا گیا ہے:

“اپنی رائے کے متعلق کہتے ہیں کہ: وہ آخری اور حتمی ہے، میں کسی اور عالم کو حتیٰ کہ اپنے اساتذہ تک کو نہیں مانتا۔”

یہی خودرائی اکثر اہل علم کے ضلال و انحراف کا سبب بنتی ہے، خوارج و روافض سے لے کر دورِ حاضر کے کجرو لوگوں کو اسی خودرائی نے ورطہٴ حیرت میں ڈالا ہے، اس لئے جو شخص صراطِ مستقیم پر چلنے اور راہِ ہدایت پر مرنے کا متمنی ہو اس کو لازم ہے کہ اپنی رائے پر اعتماد کرنے کے بجائے اکابر کے علم و تقویٰ پر اعتماد کرے کہ یہ حضرات علم و معرفت، فہم و بصیرت، صلاح و تقویٰ اور اتباعِ شریعت میں ہم سے بدرجہا فائق تھے، والله اعلم!

سائنس دانوں کے اِلحاد کے اسباب

س… ماہنامہ “بینات” کراچی بابت ماہ جمادی الاُولیٰ ۱۳۹۳ھ میں جناب پروفیسر مجتبیٰ کریم صاحب کا ایک مضمون سائنس کی ابتدائی معلومات پر شائع ہوا ہے، موصوف نے پہلے پیراگراف میں لکھا ہے:

“کہا جاتا ہے کہ سائنس پڑھنے والا دہریہ ہوتا ہے، مگر یہ واقعہ نہیں ہے، سائنس کے اُصولوں کو غور سے دیکھا جائے تو خداوندِ قدوس کے کرشموں کا اعتراف کئے بغیر کوئی چارہ نہیں ہوتا، سائنس دانوں پر دہریہ ہونے کا اِلزام غلط ہے۔”

ج… راقم الحروف کے خیال میں یہ بات جزوی طور پر تو صحیح ہے، لیکن امریکہ، یورپ، رُوس اور کمیونسٹ ممالک کے سائنس دان اکثر و بیشتر نیم ملحد اور دہریے نظر آئیں گے۔ اس میں شک نہیں کہ سائنسی ایجادات نے عقل کو ورطہٴ حیرت میں ڈال دیا، اور مادّی سطح پر انسان کی راحت و سہولت کی وہ صورتیں وجود میں آئیں جن کا کچھ مدّت پہلے تصوّر بھی نہیں کیا جاسکتا تھا، مگر سائنس دان حقیقتِ کبریٰ تک رسائی سے محروم رہے۔

“ایٹم” کا جگر چیر کر اس کے بنیادی عناصر اور اس کی پنہاں قوّت کی دریافت میں وہ ضرور کامیاب ہوئے مگر انسانیت کے اجزائے ترکیبی اور اس کی قدر و قیمت کا معما ان سے حل نہ ہوسکا۔ انہوں نے تمام علویات و سفلیات کے نظامِ ارتقا کی کڑیاں بڑی محنت سے تلاش کیں، مگر خود انسان کی معراجِ ارتقا اور اس کا مبداء و منتہی کیا ہے؟ اس کا جواب ان سے نہ بن پڑا۔ وہ کائنات کی ایک ایک چیز کے اوصاف و خواص کو ڈھونڈتے پھرے، مگر انسانیت کے اخلاق و اقدار، اور اس کے بننے اور بگڑنے کے اسباب کی جستجو سے وہ ہمیشہ عاجز رہے۔ انہوں نے مختلف اعراض و جواہر کی پیمائش کے مختلف آلات ایجاد کئے، مگر پیمائشِ انسانیت کا پیمانہ ان کے ہاتھ سے گر کر ٹوٹ گیا۔ انہوں نے بڑی حساس خوردبینوں کے ذریعہ چھوٹے سے چھوٹے جراثیم تک دیکھ ڈالے، مگر انہیں “خودشناسی” کی کوئی خوردبین میسر نہ آئی، جس سے انہیں خود اپنے نفس کا کوئی جرثومہ نظر آتا۔ الغرض! سائنس کی ترقی نے ایک دُنیا بدل کر رکھ دی، مگر افسوس کہ مشرق و مغرب کے ملحد سائنس دان “خداشناسی” اور “انسان شناسی” کی دولت سے تہی دامن ہی رہے۔ بلاشبہ ایسا نہیں ہونا چاہئے تھا، مگر ہوا، اور سب کے سامنے ہو رہا ہے، ایسا کیوں ہوا؟ آئیے اس “کیوں” کا جواب کسی “خضرِ راہ” سے دریافت کریں۔ حضرت موسیٰ و خضر (علیٰ نبینا وعلیہم الصلوٰة والسلام) کا جو قصہ قرآن مجید میں ذکر کیا گیا، اسی قصے میں حضرت خضر علیہ السلام کا ایک ایسا فقرہ صحیح بخاری کی حدیث میں مروی ہے، جس سے یہ عقدہ حل ہوجاتا ہے۔ یعنی حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جب طالبِ علمانہ حیثیت میں حضرت خضر علیہ السلام کی رفاقت کی درخواست کی تو اس کے جواب میں حضرت خضر علیہ السلام نے فرمایا:

“یا موسٰی! انی علٰی علم من علم الله علمنیہ لا تعلمہ أنت، وأنت علٰی علم من الله علمک الله، لا أعلمہ۔” (صحیح بخاری ج:۲ ص:۶۸۸)

ترجمہ:… “اے موسیٰ! میں اللہ کی جانب سے (عطا کردہ) ایک ایسے علم پر ہوں، جس کو آپ نہیں جانتے، اور آپ اللہ کی جانب سے (عطا شدہ) ایک ایسے علم پر (حاوی) ہیں جس کو میں نہیں جانتا۔”

اور دُوسری روایت میں اس کے بجائے یہ الفاظ ہیں:

“أما یکفیک أن التوراة بیدیک؟ وأن الوحی یأتیک؟ یا موسٰی! ان لی علمًا لا ینبغی لک أن تعلمہ وان لک علمًا لا ینبغی لی أن أعلمہ۔” (ج:۲ ص:۶۸۹)

ترجمہ:… “کیا آپ کو اتنا کافی نہیں کہ آپ کے ہاتھوں میں توراة موجود ہے، نیز آپ کے پاس وحی آتی ہے؟ اے موسیٰ! میرے پاس جو علم ہے اس کا سیکھنا آپ کے شایانِ شان نہیں، اور آپ کے پاس جو علم ہے اس پر حاوی ہونا میرے بس کی بات نہیں۔”

حضرت خضر علیہ السلام کے اس حکیمانہ فقرے میں جو کچھ سمجھایا گیا، اس کی تشریح کے لئے مندرجہ ذیل نکات ملحوظ رکھے جائیں:

۱:… حق تعالیٰ کی جانب سے مخلوق کو دو قسم کے علم عطا کئے گئے ہیں، ایک کائنات کے اسرار و رموز، اشیاء کے اوصاف و خواص اور فوائد و نقصانات کا علم جسے “علمِ کائنات” یا “تکوینی علم” کہا جاتا ہے، تمام انسانی علوم اور ان کے سینکڑوں شعبے اسی “علمِ کائنات” کی شاخیں ہیں، مگر معلوماتِ خداوندی کے مقابلے میں انسان کا یہ کائناتی علم سمندر کے مقابلے میں ایک قطرے کی اور پہاڑ کی مقابلے میں ایک ذرّہ کی نسبت بھی نہیں رکھتا۔ اور دُوسرا وہ علم جو خالقِ کائنات کی ذات و صفات، اس کی مرضیات و نامرضیات اور انسان کی سعادت و شقاوت کی نشاندہی کرتا ہے، اسے “علم الشرائع” یا “تشریعی علوم” سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔

۲:… یہ دونوں علم حق تعالیٰ شانہ کی جانب سے ہی بندوں کو عطا کئے جاتے ہیں، مگر دونوں کے ذرائع الگ الگ ہیں۔ قسمِ اوّل کے لئے احساس، عقل، تجربہ اور فہم و فراست عطا کئے گئے ہیں، اور جہاں انسانی عقل و خرد کی رسائی نہیں ہوسکتی، وہاں وحی اور اِلہام سے اس کی راہ نمائی کی جاتی ہے، چنانچہ انسان کی دُنیوی زندگی سے متعلقہ تمام علوم کے مبادیات وحی و اِلہام کے ذریعہ سکھائے گئے: “وَعَلَّمَ اٰدَمَ الْأَسْمَآءَ کُلَّھَا”۔ مزید براں انسان کی فطرت میں عقلی و تجرباتی علوم میں ترقی کی وافر استعداد رکھی گئی۔ اسی علم کا ایک شعبہ حضرت خضر علیہ السلام کو وہبی طور پر عطا کیا گیا، اور خالقِ کائنات کی ذات و صفات کی معرفت اور اس کی مرضیات و نامرضیات کی پہچان چونکہ انسانی ادراک سے بالاتر تھی، بنابریں اس کا مدار محض عقل و تجربے پر نہیں رکھا گیا، بلکہ اس کی تعلیم کے لئے انبیائے کرام علیہم السلام کا ایک مستقل سلسلہ جاری کیا گیا، جس کی ابتداء حضرت آدم علیہ السلام سے ہوئی اور انتہاء حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ہوئی۔ حضراتِ انبیاء علیہم السلام کو معرفتِ ذات و صفات، مبداء و معاد، سعادت و شقاوت، فضائل و رذائل، عذاب و ثواب کی تفصیلات سے بذریعہ وحی مطلع کیا گیا۔ ان کے سامنے حق تعالیٰ تک پہنچنے کا صاف ستھرا راستہ کھولا گیا، ان کو اس صراطِ مستقیم کی دعوت پر مأمور کیا گیا، اور ان حضرات کو اولادِ آدم کا مقتدا بناکر پوری انسانیت کی سعادت و شقاوت کو ان کے قدموں سے وابستہ کردیا گیا، یہی وہ علم تھا جو موسیٰ علیہ السلام کو عطا کیا گیا۔

۳:… انبیائے کرام (علیہم السلام) بھی چونکہ انسانی برادری کا ایک معزّز گروہ ہے اور انہیں بھی اس ناسوتی زندگی کی ضروریات بہرحال لاحق ہیں، اس لئے وہ انسان کی دُنیوی حاجات سے بے خبر نہیں، نہ کسبِ معاش کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں، نہ اس زندگی سے متعلقہ علوم کی نفی کرتے ہیں، بلکہ بشرطِ ضرورت خود بھی کسبِ معاش کرتے ہیں۔ البتہ زندگی کی حرکت و سکون اور کسبِ معاش کے ہر طور و طریق پر وہ اس نقطہٴ نظر سے بحث کرتے ہیں کہ یہ حق تعالیٰ کے نزدیک پسندیدہ ہے یا نہیں؟ اور یہ مسافرِ آخرت کے لئے زادِ راہ ہے یا اس کی منزل کو کھوٹا کرتا ہے؟ الغرض! وہ ہر شعبہٴ زندگی کے متعلق ہر شخص کو ہدایات دیتے ہیں، جائز و ناجائز بتاتے ہیں، اچھے اور بُرے کی نشاندہی کرتے ہیں، مگر خود کسی علم اور فن کو اپنا موضوع نہیں بناتے، بلکہ “أنتم أعلم بأمور دُنیاکم” کہہ کر آگے بڑھ جاتے ہیں، گویا دُنیا کے کسی علم و فن اور فلسفہ و سائنس کو موضوع بنانا ان کی اعلیٰ و ارفع شان سے فروتر چیز ہے۔ یہی مطلب ہے حضرت خضر علیہ السلام کے اس ارشاد کا کہ: “اے موسیٰ! میرے پاس جو علم ہے اس کا سیکھنا آپ کے شایانِ شان نہیں۔” یہی وجہ ہے کہ مادّیات کی جو ترقی ان کے اُمتیوں کے ہاتھوں ہوئی خود ان حضرات کے ہاتھ اس سے ملوّث نہیں ہوئے، اور غالباً یہی نکتہ ہے کہ جہاں تک دین کی ترقی کا تعلق تھا ہمارے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی محنت کو پایہٴ تکمیل تک پہنچایا اور جب اس پر فتوحات کا دروازہ کھلا تو ہاتھ جھاڑ کر دُنیا سے تشریف لے گئے، اور یہ کام اپنے خلفاء کے سپرد فرمایا۔

۴:… انبیائے کرام علیہم السلام پر جو علوم کھولے گئے ہیں، وہ صرف انہیں کے لئے نہیں ہیں بلکہ تمام انسانیت ان کی محتاج ہے، اس لئے کہ دُنیا کا کوئی بڑے سے بڑا دانشور، حکیم، سائنس دان اور فلاسفر ان علوم کو انبیاء علیہم السلام کی وساطت کے بغیر حاصل نہیں کرسکتا۔ عام انسانوں کا کمال یہی ہے کہ وہ ان علومِ نبوّت کا کچھ حصہ ان حضرات کے ذریعہ حاصل کرسکیں، نہ وہ تمام علومِ نبوّت کا احاطہ کرسکتے ہیں، اور نہ انبیاء علیہم السلام سے مستغنی ہوکر انہیں علومِ نبوّت کا کوئی شمہ نصیب ہوسکتا ہے۔ یہی مطلب ہے حضرت خضر علیہ السلام کے ارشاد کا کہ: “اور آپ کے پاس جو علم ہے اس پر حاوی ہوجانا میرے بس کی بات نہیں۔” اگر پرائمری کا طالبِ علم ریاضی کے دقیق مسائل یا ایٹمی نظریہ کی تشریحات سمجھنے سے قاصر ہے تو اس میں قصور ان مسائل کا نہیں بلکہ طالبِ علم کی پست ذہنی کا ہے۔ انبیائے کرام علیہم السلام کے سامنے دُنیا بھر کے عقلاء و حکماء اور افلاطون و جالینوس طفلِ مکتب ہیں، نہ وہ ان اساتذہٴ فطرت (علیہم السلام) سے مستغنی ہوسکتے ہیں، نہ ان کے علوم پر حاوی ہونے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔

فلسفہ و سائنس کے ماہرین، علم و دانش اور عقل و فہم کے جس مرتبے پر فائز ہیں اس کی وجہ سے کائنات کی بوقلمونیوں سے بہ نسبت دُوسروں کے زیادہ واقف اور فطرت کی نیرنگیوں کے سب سے زیادہ شناسا ہیں، ان سے یہ توقع بے جا نہیں تھی کہ وہ قدرتِ خداوندی کے سامنے سب سے زیادہ سرنگوں ہوں گے، رسالت و نبوّت کی ضرورت و اہمیت اور انبیائے کرام علیہم السلام کی قدر و منزلت سب سے زیادہ انہی پر کھلے گی، وحیٴ الٰہی سے – جو انبیائے کرام علیہم السلام پر نازل ہوتی ہے – سب سے زیادہ استفادہ وہی کریں گے، انبیائے کرام علیہم السلام سے وفاداری و جاں نثاری اور اطاعت و فرمانبرداری کا مظاہرہ سب سے بڑھ کر انہی کی جانب سے ہوگا، لیکن بدقسمتی سے سائنس کی قیادت جن ہاتھوں میں آئی وہ معرفت کے دروازے پر پہنچ کر واپس لوٹ آئے، انہوں نے انبیائے کرام علیہم السلام کی اطاعت کو عار سمجھا اور تعلیماتِ نبوّت سے استغنا کا مظاہرہ کیا، یوں ارشادِ خداوندی: “وَأَضَلَّہُ اللهُ عَلٰی عِلْمٍ” (اور گمراہ کردیا اس کو اللہ تعالیٰ نے باوجود علم کے) ان پر صادق آیا۔ دورِ قدیم کے فلاسفہ، انبیائے کرام علیہم السلام کی عظمت کے قائل تھے، مگر ان کا کہنا تھا کہ یہ حضرات تو عوام کی اصلاح کے لئے تشریف لائے ہیں جبکہ ہم تہذیب و تربیت کے اس مرتبے پر فائز ہیں جہاں سے نبوّت سے استفادہ کی ضرورت نہیں رہ جاتی: “ونحن قوم ھذبنا أنفسنا”۔ اِدھر دورِ جدید کے فلاسفہ (سائنس دان) غرور و تکبر میں ان سے ترقی یافتہ ثابت ہوئے، انہوں نے انبیائے کرام علیہم السلام اور ان کے مشن کو بنظرِ حقارت دیکھا، انبیائے کرام علیہم السلام کے زُہد و قناعت اور دُنیا سے بے رغبتی، جس کی دعوت انبیائے کرام علیہم السلام کا خاص موضوع ہے، اس سے نفرت و بیزاری کا اظہار کیا، اور وہ مخصوص علوم، جو انبیائے کرام علیہم السلام کو عطا کئے جاتے ہیں، ان کے بارے میں نہ صرف شک و شبہ بلکہ ضد و عناد کا مظاہرہ کیا، نتیجتاً وہ نہ صرف نورِ ایمان سے محروم رہے بلکہ انسانیت کے اعلیٰ اخلاق و اقدار سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے۔ اب ان کی محنت “انسان” اور “انسانیت” کے بجائے مٹی اور مٹی سے نکلنے والی چیزوں پر صَرف ہو رہی ہے، چیزیں بن رہی ہیں اور انسانیت بگڑ رہی ہے۔

سائنس اپنی تمام تر افادیت کے باوجود ان مغرور سائنس دانوں کو دہریت و الحاد کے بھنور سے نہ نکال سکی، بلکہ اس کے برعکس وہ سائنس کو ملحد اور دہریہ بنانے میں کامیاب ہوگئے۔ سائنس کے ان نیم پختہ ادھورے نظریات کی بنا پر (جن کو آج شد و مد سے ثابت کیا جاتا ہے، اور کل ان کے غلط ثابت کرنے پر دلائل دئیے جاتے ہیں) سائنس کے بہت سے مسلم طلبہ نے اسلام کے مقابلے میں دہریت کو للچائی ہوئی نظروں سے دیکھنا شروع کردیا، یوں دہریت اور بددِینی سائنسی دور کا فیشن بن کر رہ گئی۔ انبیائے کرام علیہم السلام کے مقابلے میں سائنس دانوں کی اس متکبرانہ رَوِش کا سبب مادّیت کا غلط نشہ تھا، علمائے سائنس نے یہ فرض کرلیا کہ مادّیت کا یہ عروج، یہ برق اور بھاپ، یہ سیارے اور طیارے، یہ ایٹم اور قوّت انسانیت کا کمال بس انہی چیزوں کی خیرہ سامانی ہے، فضاوٴں میں اُڑنا، دریاوٴں میں تیرنا، چاند پر پہنچنا، سورج کے طول و عرض کو ناپنا اور زہرہ و مشتری کی خبریں لانا، بس یہی انسانیت کی آخری معراج ہے، اور یہ ترقی چونکہ انبیاء علیہم السلام کے زمانے میں نہیں ہوئی اس لئے نہ صرف یہ کہ سائنسی دور، دورِ نبوّت سے افضل ہے، بلکہ یہ ترقی یافتہ لوگ خود تمام انسانوں سے بڑھ کر ہیں، اور اس کا پروپیگنڈا اس شدت سے کیا گیا کہ آج بہت سے مسلمان بھی موجودہ دور کو “مہذب دور” سے اور دورِ قدیم کو (جو انبیاء علیہم السلام کا دور تھا) “تاریک دور” سے تعبیر کرتے ہوئے نہیں شرماتے، انا لله وانا الیہ راجعون!

حالانکہ نبوّت سے کٹ کر جس ترقی پر آج کی دُنیا پھولی نہیں سماتی انبیائے کرام علیہم السلام کی نظر میں اس کی قیمت پرکاہ کے برابر بھی نہیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

“لو کانت الدنیا تعدل عند الله جناح بعوضة لما سقٰی کافرًا منھا شربةً۔” (مشکوٰة)

ترجمہ:… “اگر اللہ کے نزدیک پوری دُنیا کی قیمت مچھر کے پَر کے برابر بھی ہوتی تو کسی کافر کو اس میں سے پانی کا ایک گھونٹ تک نہ دیتے۔”

انبیائے کرام علیہم السلام کے سامنے آخرت کی لامحدود زندگی ہے، جہاں کی نعمت و لذّت اور راحت و آرام کا تصوّر بھی یہاں نہیں کیا جاسکتا۔ انسان کی کوئی چاہت ایسی نہیں جو وہاں پوری نہ کی جائے، اور کسی قسم کا غم اور اندیشہ ایسا نہیں جس کے لاحق ہونے کا خطرہ وہاں درپیش ہو، زندگی ایسی کہ موت کا احتمال تک نہیں، صحت ایسی کہ مرض کا اندیشہ تک نہیں، جوانی ایسی کہ پیری کا تصوّر تک نہیں، راحت ایسی کہ کلفت کا نام و نشان تک نہیں، سلطنت اتنی بڑی کہ اس کے مقابلے میں یہ زمین و آسمان بیضہٴ مور کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ظاہر ہے جس کی آنکھوں کے سامنے آخرت کی یہ بے حد و نہایت زندگی اپنی تمام تر جلوہ افروزی و نعمت سامانی کے ساتھ پھیلی ہوئی ہو وہ ہماری مکروہات و حوادث سے بھرپور زندگی کو کھیل تماشے سے تعبیر نہ کرے تو اس سے زیادہ صحیح تعبیر اور کیا ہوسکتی ہے․․․؟ قرآنِ کریم نے بار بار یہ کہہ کر خوابیدہ انسانیت کو خوابِ غفلت سے چونکایا ہے:

“وَمَا ھٰذِہِ الْحَیٰوةُ الدُّنْیَآ اِلَّا لَھْوٌ وَّلَعِبٌ، وَاِنَّ الدَّارِ الْاٰخِرَةَ لَھِیَ الْحَیَوَانُ، لَوْ کَانُوْا یَعْلَمُوْنَ۔”

(العنکبوت:۶۴)

ترجمہ:… “اور یہ دُنیوی زندگی (فی نفسہ) بجز لہو و لعب کے اور کچھ بھی نہیں اور اصل زندگی عالمِ آخرت ہے، اگر ان کو علم ہوتا تو ایسا نہ کرتے (کہ فانی میں منہمک ہوکر باقی کو بھلادیتے اور اس کے لئے سامان نہ کرتے)۔” (بیان القرآن)

چار پانچ سالہ بچہ اگر لکڑی کے چند ٹکڑے اِدھر اُدھر جمع کرکے اور انہیں کیف ما اتفق جوڑ کر “چاند گاڑی” بنالے تو یہ کھیل اس کی ذہانت کی دلیل ہے، اور اگر ابامیاں بھی صاحبزادے کی نقالی میں اس طرح کی “گاڑیاں” بنانے کو زندگی کا موضوع بنالیں تو یہ ذہانت کی نہیں، بلکہ دماغ چل نکلنے کی علامت ہے۔ آپ ننھے بچوں کو ریت اور مٹی کے گھروندے بناتے روزانہ دیکھتے ہیں، اور اگر آپ کسی دن کسی “بڑے صاحب” کو یہی شغل فرماتے دیکھ لیں تو ان صاحب کے بارے میں آپ کی رائے کچھ اور ہوگی۔ کپڑوں کی کترنیں جمع کرکے گڑیاں بنانا ننھی بچیوں کا پسندیدہ مشغلہ ہے، اور ان کی حوصلہ افزائی کے لئے کبھی ان کی امی جان بھی ان کی راہ نمائی فرماتی ہیں، لیکن اگر بیگم صاحبہ تمام کاموں کو چھوڑ چھاڑ کر گڑیوں کے کھیل ہی کو زندگی کا مشن بنالیں تو علاج کی ضرورت ہے۔

ٹھیک اسی طرح دُنیا کی پوری زندگی اپنی دِل فریبیوں اور فتنہ سامانیوں کے باوجود انبیائے کرام علیہم السلام کی نظر میں ایک کھیل ہے، اور جن لوگوں نے اسی کھیل کو اپنی زندگی کا واحد مقصد بنالیا ہے، جن کی ساری محنت اسی پر صَرف ہو رہی ہے، اور جو اسی کے لئے چلتے پھرتے اور جیتے مرتے ہیں، وہ اگرچہ بزعمِ خویش بہت بڑے کارنامے انجام دے رہے ہیں، نئی نئی ایجادیں کر رہے ہیں، یا بڑی بڑی جمہوریتیں چلا رہے ہیں، مگر انبیائے کرام علیہم السلام کے نزدیک ان کی انسانیت قابلِ علاج ہے۔

فرمایا گیا ہے:

“قُلْ ھَلْ نُنَبِّئُکُمْ بِالْأَخْسَرِیْنَ أَعْمَالًا۔ اَلَّذِیْنَ ضَلَّ سَعْیَھُمْ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَھُمْ یَحْسَبُوْنَ أَنَّھُمْ یُحْسِنُوْنَ صُنْعًا۔” (الکہف:۱۰۳، ۱۰۴)

ترجمہ:… “آپ (ان سے) کہئے کہ کیا تم کو ایسے لوگ بتائیں جن کے کارنامے سب سے زیادہ خسارے میں ہیں؟ (لو سنو!) یہ وہ لوگ ہیں جن کی دُنیا میں کی کرائی ساری محنت (یہیں) ضائع ہوکر رہ گئی، اور وہ (بربنائے جہل) اسی خیال میں ہیں کہ وہ (بڑا) اچھا کام کر رہے ہیں۔”

الغرض! انبیائے کرام علیہم السلام کے دور میں خود ان کے ہاتھوں مادّی ترقی کے نہ ہونے کی وجہ یہ نہیں کہ ان کا دور آج کے دور کی بہ نسبت – معاذ اللہ- تاریک اور غیرمہذب تھا اور انسانیت نے ارتقا کی ابتدائی منزلیں ابھی طے نہیں کی تھیں، بلکہ اس کا اصل سبب یہ ہے کہ ان کے بلند ترین منصب اور عظیم تر مشن کے مقابلے میں مادّیت کا یہ سارا کھیل بازیچہٴ اطفال کی حیثیت رکھتا ہے۔ انبیائے کرام علیہم السلام “ایٹم” کی دریافت کے لئے نہیں آتے، بلکہ وہ اس ذاتِ عالی سے انسانیت کو آشنا کرتے ہیں جن کے ادنیٰ اشارہ “کُنْ” میں ہزاروں “ایٹم” پوشیدہ ہیں، ان کی نگہِ بلند صرف کائنات کے باہمی ربط میں کھوکر نہیں رہ جاتی، بلکہ وہ اس پر غور کرتے ہیں کہ کائنات کا، خالق کی قدرت سے کیا ربط ہے؟ ان کا موضوع چیزوں کی محنت نہیں ہوتا، بلکہ انسان سازی کی محنت ہوتا ہے، ان کے نزدیک ان چیتھڑوں کی کوئی اہمیت نہیں جن کو دُنیا کے نابالغوں نے بڑی خوبصورتی سے الماریوں میں سجا رکھا ہے، ان مٹی کے گھروندوں کی کوئی قیمت نہیں جن کو یہ نادان بچے نقش و نگار سے آراستہ کرتے ہیں، اور دُنیا کی ظاہری زرق برق میں ان کے لئے کوئی کشش نہیں جس پر یہ طفلانِ بے شعور ریجھتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ اس کی اصل حقیقت کیا ہے؟ وہ ایک فناپذیر تودہٴ خاک کے سوا کچھ نہیں، اسی حقیقت کا اظہار بھی وہ ان الفاظ میں کرتے ہیں:

“ما لی وللدنیا؟ وما أنا والدنیا الا کراکبٍ استظل تحت شجرة ثم راح وترکھا۔” (مشکوٰة)

ترجمہ:… “مجھے دُنیا سے کیا واسطہ؟ اور میری اور دُنیا کی مثال تو ایسی ہے کہ ایک راہ رو کسی درخت کے سائے میں اُترا، تھوڑی دیر سستایا، پھر اسے چھوڑ کر چل پڑا (اور پھر اسے دوبارہ وہاں لوٹ کر آنے کی نوبت کبھی نہیں آئی)۔”

اور کبھی لوگوں کو اس حقیقتِ کبریٰ سے یوں آگاہ کرتے ہیں:

“کن فی الدُّنیا کأنک غریب أو عابر سبیل وعد نفسک فی أھل القبور۔” (صحیح بخاری)

ترجمہ:… “دُنیا میں ایسے رہو گویا تم یہاں چند روزہ مسافر ہو یا راہ نورد۔ اور یوں سمجھو کہ تم اہلِ قبور کی صف میں شامل ہو (آج نہیں تو کل تمہارا نام بھی پکارا جائے گا)۔”

ما بعد الطبعیات سے اندھی بہری سائنس، جس کے نزدیک کسی چیز کو تسلیم کرنے کے لئے اس کو مشاہدے کے ہاتھ سے ٹٹول کر دیکھنا شرط ہے، چونکہ اس حقیقت کو سمجھنے سے عاجز ہے اس لئے وہ “ایمان بالغیب” کے تمام سرمایہٴ نبوّت کو ایک خندہٴ استہزاء کی نذر کردیتی ہے، اور یہاں سے اس کی ملحدانہ شفقت کا آغاز ہوتا ہے۔

الغرض سائنس دانوں کی تمام تر محرومی کا باعث “نبوّت” سے انحراف ہے، اور اس انحراف کا باعث جہل و غرور۔ اگر ان پر کائنات کی اندرونی حقیقت کھل جاتی تو انہیں معلوم ہوجاتا کہ کائنات صرف یہی نہیں جس کا تعلق موت سے قبل کے مشاہدے سے ہے، بلکہ یہ تو اصل کائنات کا ایک حقیر ذرّہ ہے، اور اس ایک ذرّہ کی حقیقت کا بھی ایک ذرّہ آج تک ان پر منکشف نہیں ہوا، اگر اصل کائنات اور پھر کائنات سے آگے خالقِ کائنات کا راز ان پر کھل جائے تو انہیں معلوم ہوجائے کہ کھربوں ڈالر خرچ کرکے چاند سے چار سیر مٹی لے آنا ترقی کی علامت نہیں، بلکہ سفاہت و کم عقلی کا نشان ہے۔ دامنِ نبوّت سے کٹ کر سائنس کی اس “سفیہانہ محنت” نے انسانیت کو بے قراری و بے چینی اور کرب و اضطراب کا “تحفہ” عطا کیا، اوراس بے چینی کی وقتی تسکین کے لئے مختلف قسم کی مصنوعی تفریحات اور منشیات کا نسخہ تجویز کیا۔ آج کا مفلوج انسان جن اخلاقی، رُوحانی، نفسیاتی اور جسمانی امراض کا تختہٴ مشق بن کر رہ گیا ہے، اہلِ عقل کو تجزیہ کرنا چاہئے کہ ان میں “سائنسی ترقی” کا حصہ کتنا ہے․․․؟ راقم الحروف کا ایمان ہے کہ جب تک سائنس کی تگ و دو نبوّت کے تابع نہیں ہوجاتی، جب تک سائنس کا رُخ دُنیا سے آخرت کی طرف نہیں مڑجاتا اور جب تک سائنس دان انبیائے کرام علیہم السلام کے سامنے اپنے علمی عجز کا اعتراف نہیں کرتے، تب تک سائنس بدستور ملحد رہے گی اور اس کا سارا ترقیاتی کارنامہ انسانیت کی ہلاکت اور بربادی کے کام آئے گا۔ رہا یہ سوال کہ کیا سائنس کو نبوّت کے دامن سے وابستہ کرنا ممکن ہے؟ اس کا جواب مسلم سائنس دانوں کی جرأت و ہمت اور فہم و فراست کا منتظر ہے۔

سائنس کے جدید نظریات نے کٹر سے کٹر دہریت نواز سائنس دانوں کو بھی “وجودِ خدا” کے اعتراف پر مجبور کردیا ہے (اگرچہ وہ اتنی جرأت نہیں رکھتے کہ کھل کر اس کا اعلان کریں)، مگر یہ کبھی نہیں بھولنا چاہئے کہ صرف “وجودِ خدا” کا مبہم تصوّر دہریت کے مارگزیدوں کا تریاق نہیں ہے، نہ محض اس تصوّر سے ایک آدمی “خداپرست” کہلانے کا مستحق قرار پاتا ہے، بلکہ اسے یقین و ایمان کی روشنی میں اس سے آگے کے مراحل طے کرنا ہوں گے، یعنی خدا کی صفات کیا ہیں؟ اس عالم کی تخلیق کا مقصد کیا ہے؟ اس نے انسان کی اچھائی اور بُرائی کے کیا معیار تجویز کئے ہیں؟

خواب میں زیارتِ نبوی

س… کیا خواب میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت ممکن ہے؟ اگر ممکن ہے تو کیسے پتہ چلے کہ یہ خواب سچا ہے؟ بعض لوگ خواب میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی دوسری شکل میں دیکھتے ہیں، کیا وہ بھی صحیح خواب ہوگا؟

ج… صحیحین کی روایات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد متعدد اور مختلف الفاظ میں مروی ہے کہ:

“من راٰنی فی المنام فقد راٰنی، فان الشیطان لا یتمثل بی!”

ترجمہ:…”جس نے مجھے خواب میں دیکھا اس نے مجھ ہی کو دیکھا، کیونکہ شیطان میری صورت میں نہیں آسکتا!”

ایک اور روایت میں ہے:

“من راٰنی فقد رأی الحق!” (مشکوٰة ص:۳۹۴)

ترجمہ:…”جس نے مجھے دیکھا اس نے سچا خواب دیکھا!”

خواب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارتِ شریفہ کی دو صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اصلی شکل اور حلیہ مبارک میں دیکھے۔ دوم یہ کہ کسی دوسری ہیئت و شکل میں دیکھے۔ اہل علم کا اس پر تو اتفاق ہے کہ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت آپ کے اصل حلیہ مبارک میں ہو تو ارشادِ نبوی کے مطابق، واقعی آپ کی زیارت نصیب ہوئی، لیکن اگر کسی دوسری ہیئت و شکل میں دیکھے تو اس کو بھی زیارتِ نبوی کہا جائے گا یا نہیں؟ اس میں علماء کے دو قول ہیں: ایک یہ کہ یہ زیارتِ نبوی نہیں کہلائے گی، کیونکہ ارشادِ نبوی کے مطابق خواب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کا صرف یہ مطلب ہے کہ آپ کو اصلی شکل و صورت اور حلیہ مبارک میں دیکھے، پس اگر کسی نے مختلف حلیہ میں آپ کو دیکھا تو یہ حدیثِ بالا کا مصداق نہیں۔ اور بعض اہل علم کا قول یہ ہے کہ آپ کو خواہ کسی شکل و صورت اور حلیہ میں دیکھے وہ آپ ہی کی زیارت ہے، اور آپ کے اصل حلیہ مبارک سے مختلف شکل میں دیکھنا خواب دیکھنے والے کے نقص کی علامت ہے۔ شیخ عبدالغنی نابلسی رحمہ اللہ “تعطیر الانام فی تعبیر المنام” میں دونوں قسم کے اقوال نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:

“فعلم ان الصحیح بل الصواب کما قالہ بعضھم ان روٴیاہ حق علیٰ ای حالتہ فرضت ثم ان کانت بصورتہ الحقیقیة فی وقت ما، سواء کان فی شبابہ او رجولیتہ او کھولتہ او آخر عمرہ لم تحتج الیٰ تأویل۔ والا احتیجت لتعبیر یتعلق بالرائی۔ ومن ثم قال بعض علماء التعبیر: من راٰہ شیخا فھو غایة سلم، ومن راٰہ شابا فھو غایة حرب، ومن راٰہ متبسمًا فھو متمسک بسنتہ۔

وقال بعضھم: من راٰہ علیٰ ھیئتہ وحالہ کان دلیلًا علیٰ صلاح الرائی وکمال جاھہ وظفرہ بمن عاداہ، ومن راٰہ متغیر الحال عابسا کان دلیلًا علیٰ سوء حال الرائی۔

وقال ابن ابی جمرة: روٴیاہ فی صورة حسنة حسن فی دین الرائی، ومع شین او نقص فی بعض بدنہ خلل فی دین الرائی۔ لانہ صلی الله علیہ وسلم کالمراٰة الصقیلة ینطبع فیھا ما یقابلھا۔ وان کانت ذات المراٰة علی احسن حالہ واکملہ، وھذہ الفائدة الکبریٰ فی روٴیاہ صلی الله علیہ وسلم اذ بہ یعرف حال الرائی۔”

(ج:۲ ص:۲۷۶، ۲۷۷)

ترجمہ:…”پس معلوم ہوا کہ صحیح بلکہ صواب وہ بات ہے جو بعض حضرات نے فرمائی کہ خواب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت بہرحال حق ہے۔ پھر اگر آپ کے اصل حلیہ مبارک میں دیکھا خواہ وہ حلیہ آپ کی جوانی کا ہو یا پختہ عمری کا، یا زمانہ پیری کا، یا آخر عمر شریف کا، تو اس کی تعبیر کی حاجت نہیں، اور اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اصل شکل مبارک میں نہیں دیکھا تو خواب دیکھنے والے کے مناسب حال تعبیر ہوگی، اسی بنا پر بعض علمائے تعبیر نے کہا ہے کہ جس نے آپ کو بڑھاپے میں دیکھا تو یہ نہایت صلح ہے، اور جس نے آپ کو جوان دیکھا تو یہ نہایت جنگ ہے، اور جس نے آپ کو مسکراتے دیکھا تو یہ شخص آپ کی سنت کو تھامنے والا ہے۔

اور بعض علمائے تعبیر نے فرمایا ہے کہ: جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اصلی شکل و حالت میں دیکھا تو یہ دیکھنے والے کی درست حالت، اس کی کمالِ وجاہت اور دشمنوں پر اس کے غلبہ کی علامت ہے، اور جس نے آپ کو غیرحالت میں (مثلاً) تیور چڑھائے ہوئے دیکھا تو یہ دیکھنے والے کی حالت کے بُرا ہونے کی علامت ہے۔

حافظ ابن ابی جمرہ فرماتے ہیں کہ: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اچھی صورت میں دیکھنا، دیکھنے والے کے دین کے اچھا ہونے کی علامت ہے، اور عیب یا نقص کی حالت میں دیکھنا دیکھنے والے کے دین میں خلل کی علامت ہے، کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مثال شفاف آئینہ کی سی ہے، کہ آئینہ کے سامنے جو چیز آئے اس کا عکس اس میں آجاتا ہے، آئینہ بذاتِ خود کیسا ہی حسین و باکمال ہو (مگر بھدی چیز اس میں بھدی ہی نظر آئے گی)، اور خواب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارتِ شریفہ کا بڑا فائدہ یہی ہے کہ اس سے خواب دیکھنے والے کی حالت پہچانی جاتی ہے۔”

اس سلسلے میں مسند الہند شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی قدس سرہ کی ایک تحقیق فتاویٰ عزیزی میں درج ہے، جو حسبِ ذیل ہے:

“سوال:…آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت خواب میں اہل سنت اور شیعہ دونوں فرقہ کو میسر ہوتی ہے، اور ہر فرقہ کے لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا لطف و کرم اپنے حال پر ہونا بیان کرتے ہیں، اور اپنے موافق احکام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سننا بیان کرتے ہیں، غالباً دونوں فرقہ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں افراط کرنا اچھا معلوم نہیں ہوتا، اور خطراتِ شیطانی کو اس مقام میں دخل نہیں تو ایسے خواب کے بارے میں کیا خیال کرنا چاہئے؟

جواب:…یہ جو حدیث شریف ہے: “من راٰنی فی المنام فقد راٰنی!” یعنی جناب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ: جس نے مجھ کو خواب میں دیکھا تو اس نے فی الواقع مجھ کو دیکھا ہے، تو اکثر علماء نے کہا ہے کہ یہ حدیث خاص اس شخص کے بارے میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس صورتِ مبارکہ میں دیکھے جو بوقتِ وفات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صورتِ مبارکہ تھی، اور بعض علماء نے کہا ہے کہ یہ حدیث عام ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی وقت کی صورت میں دیکھے تو وہ خواب صحیح ہوگا، یعنی ابتدائے نبوت سے تاوقتِ وفات جوانی اور کلاں سالی اور سفر اور حضر اور صحت اور مرض میں جس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جو صورتِ مبارک تھی، ان صورتوں میں سے جس صورت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھے تو وہ خواب صحیح ہوگا، یعنی فی الواقع اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہوگا۔ اور جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت میں سنّی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا ہے اسی طرح شیعہ نے کبھی نہ دیکھا ہے، اور فرضیات کا اعتبار نہیں۔

تحقیق یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھنا چار قسموں پر ہے۔ ایک قسم روٴیائے الٰہی ہے کہ اتصال تعین کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہے۔ اور دوسری قسم ملکی ہے اور وہ متعلقاتِ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھنا ہے، مثلاً: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا دین اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ورثہ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نسبِ اطہر اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت اور محبت میں سالک کا درجہ اور اس کے مانند اور جو امور ہیں تو ان امور کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صورتِ مقدس میں دیکھنا پردہٴ مناسبات میں ہو جو فن تعبیر میں معتبر ہے۔ اور تیسری قسم روٴیائے نفسانی ہے کہ اپنے خیال میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جو صورت ہے اس صورت میں دیکھنا۔ اور یہ تینوں اقسام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھنے کے بارے میں صحیح ہیں۔

چوتھی قسم شیطانی ہے، یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صورتِ مقدس میں شیطان اپنے کو خواب میں دکھلائے، اور یہ صحیح نہیں ہوسکتا، یعنی ممکن نہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صورتِ مقدس کے مطابق شیطان اپنی صورتِ خبیث بناسکے اور خواب میں دکھلاوے، البتہ مغالطہ دے سکتا ہے، اور تیسرے قسم کے خواب میں بھی کبھی شیطان ایسا کرتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز اور بات کے مشابہ شیطان بات کرتا ہے اور وسوسہ میں ڈالتا ہے، چنانچہ بعض روایات سے ثابت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سورہٴ نجم پڑھتے تھے اور بعض آیات کے بعد جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سکوت فرمایا تو شیطان نے کچھ عبارت خود بناکر پڑھ دی کہ اس سے بعض سامعین مشرکین کا شبہ قوی ہوگیا، اور یہ روایت اوپر ایک مقام میں مفصل مذکور ہوئی ہے، تو جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہٴ حیات میں شیطان نے ایسا کیا تو خواب میں ایسا کیوں نہیں ہوسکتا؟ اسی وجہ سے شریعت میں ان احکام کا اعتبار نہیں جو خواب میں معلوم ہوں، اور خواب کی بات حدیث نہیں شمار کی جاتی۔ اور اگر کاش کوئی بدعتی کہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فلاں حکم فرمایا ہے اور وہ حکم خلافِ شرع ہو تو اس بدعتی کے قول پر اعتبار نہ کیا جائے گا، والله اعلم!” (فتاویٰ عزیزی ج:۱ ص:۲۸۵ تا ۲۸۷)

گزشتہ دنوں قادیانیوں کے نئے سربراہ مرزا طاہر احمد صاحب کی “خلافت” کی تائید میں قادیانی اخبار “الفضل ربوہ” میں آسمانی بشارات کے عنوان سے بعض چیزیں شائع کی گئیں، ان میں سے ایک کا تعلق خواب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت سے ہے، اس لئے اس کا اقتباس بلفظہ درج ذیل ہے:

“دیکھا کہ مسجد مبارک (ربوہ) میں داخل ہو رہا ہوں، ہر طرف چاندنی ہی چاندنی ہے، جتنی تیزی سے ورد کرتا ہوں سرور بڑھتا جاتا ہے اور چاندنی واضح ہوتی جاتی ہے۔ محراب میں حضرت بابا گرونانک رحمة اللہ علیہ جیسی بزرگ شبیہ کی صورت میں حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما ہیں، آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد نور کا ہالہ اس قدر تیز ہے کہ آنکھیں چندھیا جاتی ہیں، باوجود کوشش کے شبیہ مبارک پر نظر نہیں ٹکتی۔”

(الفضل ربوہ ۶/نومبر ۱۹۸۲ء)

علمِ تعبیر کی رو سے اس خواب کی تعبیر بالکل واضح ہے، صاحبِ خواب کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا سکھوں کے پیشوا کی شکل میں نظر آنا اس امر کی دلیل ہے کہ ان کا دین و مذہب -جسے وہ غلط فہمی سے “اسلام” سمجھتے ہیں- دراصل سکھ مذہب کی شبیہ ہے، اور ان کے روحانی پیشوا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بروز نہیں، بلکہ سکھوں کے پیشوا بابا نانک کے بروز ہیں۔

اور صاحبِ خواب کو انوارات کا نظر آنا جس کی وجہ سے وہ خواب کی اصل مراد کو نہیں پہنچ سکے، شیطان کی وہی تلبیس ہے جس کا تذکرہ حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی قدس سرہ نے فرمایا ہے، اور ان انوارات میں یہ اشارہ تھا کہ ان کے پیشوا نے بابا نانک کا بروز ہونے کے باوجود تلبیس و تدلیس کے ذریعہ اپنے آپ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا پیرو ثابت کرنے کی کوشش کی ہے جس سے ان کی طرح بہت سے حقیقت ناشناس لوگوں نے دھوکا کھایا۔

چونکہ خواب کی یہ تعبیر بالکل واضح تھی اسی لئے صاحبِ خواب کو مرزا بشیر احمد صاحب اور مرزا ناصر احمد صاحب نے خواب کے اظہار سے منع کیا، چنانچہ صاحبِ خواب لکھتے ہیں:

“پھر (مرزا بشیر احمد صاحب نے) فرمایا: کسی سے خواب بیان نہیں کرنی، خلافتِ ثالثہ کا انتخاب ہوا تو پھر یہ نظارہ لکھ کر (مرزا ناصر احمد صاحب کی خدمت میں) بھجوادیا۔ حضرت مولانا جلال الدین شمس صاحب کے ذریعہ پیغام ملا کہ حضور (یعنی مرزا ناصر احمد صاحب) فرماتے ہیں کہ: خواب آگے نہیں بیان کرنی۔” (مرزا عبدالرشید وکالت تبشیر ربوہ)

مناسب ہے کہ اس خواب کی تائید میں بعض دیگر اکابر کے خواب و کشوف بھی ذکر کردئیے جائیں۔

۱:…مولانا محمد لدھیانوی مرحوم “فتاویٰ قادریہ” میں لکھتے ہیں:

“مولانا صاحب (مولانا محمد یعقوب صاحب نانوتوی قدس سرہ، صدر المدرسین دارالعلوم دیوبند) نے حسبِ وعدہ کے ایک فتویٰ اپنے ہاتھ سے لکھ کر ہمارے پاس ڈاک میں ارسال فرمایا، جس کا مضمون یہ تھا کہ یہ شخص میری دانست میں غیرمقلد معلوم ہوتا ہے، اور اس کے الہامات اولیاء اللہ کے الہامات سے کچھ علاقہ نہیں رکھتے اور نیز اس شخص نے کسی اہل اللہ کی صحبت میں رہ کر فیضِ باطنی حاصل نہیں کیا، معلوم نہیں کہ اس کو کس روح کی اویسیت ہے۔” (فتاویٰ قادریہ ص:۱۷)

حضرت مولانا محمد یعقوب نانوتوی قدس سرہ نے تو اس سے لاعلمی کا اظہار فرمایا کہ مرزا صاحب کو کس روح سے “فیض” پہنچا ہے، مگر الفضل میں ذکر کردہ خواب سے یہ عقدہ حل ہوجاتا ہے کہ مرزا صاحب کو سکھوں کے مذہبی پیشوا سے روحانی ارتباط تھا، مرزا صاحب نے جو کچھ لیا ہے انہی سے لیا ہے۔

۲:…”مرزا غلام احمد قادیانی نے شہر لودیانہ میں آکر ۱۳۰۱ھ میں دعویٰ کیا کہ میں مجدد ہوں۔ عباس علی صوفی اور منشی احمد جان مع مریدان او رمولوی محمد حسن مع اپنے گروہ اور مولوی شاہدین اور عبدالقادر اور مولوی انور محمد مہتمم مدرسہ حقانی وغیرہ نے اس کے دعویٰ کو تسلیم کرکے امداد پر کمر باندھی۔ منشی احمد جان نے مع مولوی شاہدین و عبدالقادر ایک مجمع میں جو واسطے اہتمام مدرسہ اسلامیہ کے اوپر مکان شاہزادہ صفدر جنگ صاحب کے تھا، بیان کیا کہ علی الصباح مرزا غلام احمد قادیانی صاحب اس شہر لودیانہ میں تشریف لائیں گے، اور اس کی تعریف میں نہایت مبالغہ کرکے کہا کہ جو شخص اس پر ایمان لائے گا گویا وہ اول مسلمان ہوگا۔

مولوی عبداللہ صاحب مرحوم برادرم نے بعد کمال بردباری اور تحمل کے فرمایا:

اگرچہ اہل مجلس کو میرا بیان کرنا ناگوار معلوم ہوگا لیکن جو بات خدا جل شانہ نے اس وقت میرے دل میں ڈالی ہے، بیان کئے بغیر میری طبیعت کا اضطرار دور نہیں ہوتا، وہ بات یہ ہے کہ مرزا قادیانی جس کی تم تعریف کر رہے ہو بے دین ہے۔

منشی احمد جان بولا کہ: میں اول کہتا تھا کہ اس پر کوئی عالم یا صوفی حسد کرے گا۔

راقم الحروف (مولانا محمد عبدالقادر لودیانوی) نے مولوی عبداللہ صاحب کو بعد برخاست ہونے جلسہ کے کہا کہ جب تک کوئی دلیل معلوم نہ ہو بلاتأمل کسی کے حق میں زبان طعن کی کھولنی مناسب نہیں، مولوی عبداللہ صاحب نے فرمایا کہ: اس وقت میں نے اپنی طبیعت کو بہت روکا لیکن آخر الامر یہ کلام خدا جل شانہ نے جو میرے سے اس موقع پر سرزد کرایا ہے، خالی از الہام نہیں!

اس روز مولوی عبداللہ صاحب بہت پریشان خاطر رہے، بلکہ شام کو کھانا بھی تناول نہیں کیا، بوقتِ شب دو شخصوں سے استخارہ کروایا اور آپ بھی اسی فکر میں سوگئے۔ کیا دیکھتے ہیں کہ میں ایک مکان بلند پر مع مولوی محمد صاحب و خواجہ احسن شاہ صاحب بیٹھا ہوں، تین آدمی دور سے دھوتی باندھے ہوئے چلے آتے معلوم ہوئے، جب نزدیک پہنچے تو ایک شخص جو آگے آگے آتا تھا اس نے دھوتی کو کھول کر تہبند کی طرح باندھ لیا، خواب ہی میں غیب سے آواز آئی کہ مرزا غلام احمد قادیانی یہی ہے۔ اسی وقت سے بیدار ہوگئے اور دل کی پراگندگی یک لخت دور ہوگئی اور یقین کُلّی حاصل ہوا کہ یہ شخص پیرایہٴ اسلام میں لوگوں کو گمراہ کر رہا ہے۔ موافق تعبیر خواب کے دوسرے دن قادیانی مع دو ہندووٴں کے لودھیانہ میں آیا۔ (اس خواب میں بھی یہی اشارہ تھا کہ یہ صاحب ہندومت کو اسلام کا لبادہ اوڑھا رہے ہیں۔ ناقل)۔” (فتاویٰ قادریہ ص:۲)

۳،۴:… مولانا عبداللہ لدھیانوی کے ساتھ جن دو شخصوں نے استخارہ کیا تھا، ان کے بارے میں مولانا محمد صاحب لکھتے ہیں:

“استخارہ کنندگان میں سے ایک کو معلوم ہوا کہ یہ شخص بے علم ہے، اور دوسرے شخص نے خواب میں مرزا کو اس طرح دیکھا کہ ایک عورت برہنہ تن کو اپنی گود میں لے کر اس کے بدن پر ہاتھ پھیر رہا ہے، جس کی تعبیر یہ ہے کہ مرزا دنیا کو جمع کرنے کے درپے ہے، دین کی کوئی پرواہ نہیں۔” (حوالہ بالا)

۵:…اسی فتاویٰ قادریہ میں ہے کہ:

“شاہ عبدالرحیم صاحب سہارنپوری مرحوم نے (جو صاحبِ کشف و کرامت بزرگ تھے) بروقتِ ملاقات فرمایا کہ: مجھ کو بعد استخارہ کرنے کے یہ معلوم ہوا کہ یہ شخص بھینسے پر اس طرح سوار ہے کہ منہ اس کا دم کی طرف ہے۔ جب غور سے دیکھا تو زنار اس کے گلے میں پڑا ہوا نظر آیا، جس سے اس شخص کا بے دین ہونا ظاہر ہے، اور یہ بھی میں یقینا کہتا ہوں کہ جو اہل علم اس کی تکفیر میں اب متردد ہیں کچھ عرصہ بعد سب کافر کہیں گے۔ (زنار بھی بطورِ خاص کسی کے ہندو ہونے کی علامت ہے، اس سے الفضل میں درج شدہ خواب کی تائید ہوتی ہے کہ یہ صاحب ہندووٴں سے مستفید ہیں۔ ناقل)۔”(حوالہ بالا)

۶:…مولانا محمد ابراہیم میرسیالکوٹی “شہادة القرآن” میں (جو ۱۳۲۱ھ میں مرزا صاحب کی زندگی میں شائع ہوئی) لکھتے ہیں:

“جب اس فرقہ مبتدعہ مرزائی کو کوئی پچھلی تفسیر بتائیں تو کفار کی طرح “اساطیر الاولین” کہہ کر جھٹ انکار کردیتے ہیں، اور اگر ان کے روبرو حدیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پڑھیں تو اسے بوجہ بے علمی کے مخالف و معارضِ قرآن بناکر دور پھینک دیتے ہیں، اور اپنی تفسیر بالرائے کو جو حقیقت میں تحریف و تأویل منہی عنہ ہوتی ہے موٴید بالقرآن کہتے ہیں (ظاہر ہے یہ طرزِ عمل کسی مسلمان کا نہیں ہوسکتا۔ ناقل)، بیچارے کم علم لوگ اس سے دھوکا کھاجاتے ہیں اور ورطہٴ تردّدات و گردابِ شبہات میں گھر جاتے ہیں، سو ایسے شبہات کے وقت میں اللہ عزیز و حکیم نے مجھ عاجز کو محض اپنے فضل و کرم سے راہِ حق کی ہدایت کی اور ہر طرح سے ظاہراً و باطناً معقولاً و منقولاً مسئلہ حقہ سمجھایا۔ چنانچہ عنفوانِ شباب میں ۱۸۹۱ء میں حضرت مسیح علیہ السلام کی زیارت بابرکت سے مشرف ہوا، اس طرح کہ آپ ایک گاڑی پر سوار ہیں اور بندہ اس کو آگے سے کھینچ رہا ہے، اس حالتِ باسعادت میں آپ سے کادیانی علیہ ما علیہ کی نسبت عرض کی، آپ نے زبانِ وحی ترجمان سے بالفاظِ طیبہ یوں فرمایا کہ: کوئی خطرے کی بات نہیں! اللہ تعالیٰ اس کو جلدی ہلاک کردے گا۔”

(شہادة القرآن طبع اول ص:۴)

مذہب اور سائنس میں فرق

س… مولانا صاحب! گزارش یہ ہے کہ جو طلبہ سائنس پڑھتے ہیں ان کی نظر میں مذہب کے بارے میں عجیب کشمکش پیدا ہوجاتی ہے، اگر وہ سائنس کو مانتے ہیں تو مذہب کو جھٹلا بھی نہیں سکتے، لیکن سائنس میں بعض ایسے مظاہر ہیں جو ایک شش و پنج کی کیفیت میں مبتلا کردیتے ہیں۔ اب ہم سائنس میں سب سے پہلے نظریہٴ ارتقا کو لیتے ہیں کہ انسان نے بندروں اور بن مانسوں سے ترقی پائی ہے، لیکن قرآنِ کریم میں ارشاد ہے کہ پہلے خدا نے انسان کا مٹی کا بت بنایا، پھر جان ڈالی اور حوا کو آدم کی پسلی سے پیدا کیا، جبکہ سائنس کہتی ہے کہ جب سے آدم بنا ہے تو حوا اس کے ساتھ ہے بلکہ اسی نے اس کو جنم دیا ہے، اور آدم کو بہشت سے زمین پر نہیں اُتارا گیا، بلکہ اسے پیدا ہی زمین پر کیا گیا ہے۔ اس سے سوال یہ اُبھرتا ہے کہ کیا نعوذ باللہ بندر اور بن مانس یا دُوسرے جانور بھی جنت یا دوزخ میں جائیں گے؟ کیونکہ سائنس کے مطابق ان کی جان بھی تو ہماری جیسی ہے۔

ایک حدیثِ مبارکہ میں ہے کہ رات کو سورج اللہ تعالیٰ کے پاس سجدے میں گرجاتا ہے، اور صبح کو اسے مشرق کی طرف سے نکلنے کا حکم ہوتا ہے، لیکن ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ رات کو سورج امریکہ میں ہوتا ہے، یعنی زمین کی دُوسری طرف۔

ایک حدیثِ مبارکہ میں آیا ہے کہ ستارے آسمان کی چھت کے ساتھ رسوں سے باندھے گئے ہیں، قبلہ! اگر خلا میں جاکر دیکھا جائے تو زمین بھی چاند کی طرح آسمان پر نظر آتی ہے، یعنی ہر طرف آسمان ہی آسمان نظر آتا ہے۔ اور سائنس دان کہتے ہیں کہ کوئی چھت نہیں۔ یہ سب باتیں شک میں مبتلا کردیتی ہیں۔

اور “جن” کے بارے میں یہ عرض ہے کہ کیا “جن” صرف “جنوں” کو ماننے والوں ہی کو کیوں پڑتے ہیں؟ انگریز اور رُوسی وغیرہ جو کہ شراب اور دُوسری چیزیں جو کہ انسان کے لئے ناپاک سمجھی جاتی ہیں، استعمال کرتے ہین، لیکن ان کو “جن” نہیں پڑتے۔ کیا یہ تمام خیالات ایک انسان کے دماغ کو منجمد نہیں کردیتے اور وہ بلاوجہ خوف و ہراس کی کیفیت میں رہتا ہے؟ کیا مذہب اور سائنس ایک ساتھ چل سکتے ہیں؟ اگر آپ نے جواب نہ دیا تو میں سمجھوں گا کہ آپ بھی شک میں پڑ گئے ہیں۔

ج… آپ کا خط تفصیلی جواب کا متقاضی ہے، جبکہ میں فرصت سے محروم ہوں، تاہم اشارات کی زبان میں مختصراً عرض کرتا ہوں۔ پہلے چند اُصول ذہن نشین کرلیجئے:

۱:… سائنس کی بنیاد مشاہدہ و تجربہ پر ہے، اور جو چیزیں مشاہدہ یا تجربہ سے ماورا ہیں وہ سائنس کی دسترس سے باہر ہیں، ان کے بارے میں سائنس دانوں کا کوئی دعویٰ لائقِ التفات نہیں، جبکہ وحی اور نبوّت کا موضوع ہی وہ چیزیں ہیں جو انسانی عقل، تجربہ اور مشاہدہ سے بالاتر ہیں۔ ظاہر ہے کہ ایسے اُمور میں وحی کی اطلاع قابلِ اعتبار ہوگی۔

۲:… بہت سی چیزیں ہمارے مشاہدے سے تعلق رکھتی ہیں مگر ان کے مخفی علل و اسباب کا مشاہدہ ہم نہیں کرسکتے بلکہ ان کے علم کے لئے ہم کسی صحیح ذریعہٴ علم کے محتاج ہوتے ہیں، ایسے اُمور کا محض اس بنا پر انکار کردینا حماقت ہے کہ یہ چیزیں ہمیں نظر نہیں آرہیں۔

۳:… دو چیزیں اگر آپس میں اس طرح ٹکراتی ہوں کہ دونوں کو بیک وقت تسلیم کرنا ممکن نہ ہو تو یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ دونوں صحیح ہوں، لامحالہ ایک صحیح ہوگی اور ایک غلط ہوگی۔ ان میں سے کون صحیح ہے اور کون غلط ہے؟ اس کا فیصلہ کرنے کے لئے ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ کس کا ثبوت یقینی و قطعی ذریعہ سے ہوا ہے؟ اور کس کا ظن و تخمین کے ذریعہ؟ پس جس چیز کا ثبوت کسی یقینی ذریعہ سے ہو وہ حق ہے اور دُوسری باطل یا موٴوّل۔

۴:… جو بات اپنی ذات کے اعتبار سے ممکن ہو اور کسی سچے خبر دینے والے نے اس کی خبر دی ہو، اس کو تسلیم کرنا لازم ہے، اور اس کا انکار کرنا محض ضد و تعصب اور ہٹ دھرمی ہے، جو کسی عاقل کے شایانِ شان نہیں۔

۵:… انسانی عقل پر اکثر و بیشتر وہم کا تسلط رہتا ہے، بہت سی چیزیں جو قطعاً صحیح اور بے غبار ہیں، لوگ غلبہٴ وہم کی بنا پر ان کو خلافِ عقل تصوّر کرنے لگتے ہیں، اور بہت سی چیزیں جو عقلِ صحیح کے خلاف ہیں، غلبہٴ وہم کی وجہ سے لوگ ان کو نہ صرف صحیح مان لیتے ہیں بلکہ ان کو مطابقِ عقل منوانے پر اصرار کرتے ہیں۔

یہ پانچ اُصول بالکل فطری ہیں، ان کو اچھی طرح سمجھ لیجئے، ان میں سے اگر کسی نکتے میں آپ کو اختلاف ہو تو اس کی تشریح کردُوں گا۔ اب میں ان اُصول کی روشنی میں آپ کے سوالات پر غور کرتا ہوں۔

نظریہٴ ارتقا

مسٹر ڈارون کا نظریہٴ ارتقا تو اَب خود سائنسی دُنیا میں دَم توڑ رہا ہے اور سائنس دانوں میں بدنام ہوچکا ہے، لیکن آپ اسے قرآنی وحی کے مقابلے میں پیش کرکے شبہ کا اظہار کر رہے ہیں۔ یہ سوال کہ انسان کی آفرینش کا آغاز کیسے ہوا؟ ظاہر ہے کہ یہ ایک تاریخی واقعہ ہے اور کسی اندازے اور تخمینے کی بنا پر اس بارے میں کوئی دوٹوک بات نہیں کہی جاسکتی۔ موجودہ دور کا انسان نہ تو ابتدائے آفرینش کے وقت خود موجود تھا کہ وہ جو کچھ کہتا چشمِ دیدہ مشاہدہ کی بنا پر کہتا، نہ یہ ایسی چیز ہے کہ انسانی تجربے نے اس کی تصدیق کی ہو، ورنہ ہزاروں برس میں کسی ایک بندر کو انسان بنتے ہوئے ضرور دیکھا ہوتا، یا کسی ایک بندر کو انسان بنادینے کا اس نے تجربہ ضرور کیا ہوتا۔ پس جب یہ نظریہ مشاہدہ اور تجربہ دونوں سے محروم ہے تو اس کی بنیاد اَٹکل پچو تخمینوں، اندازوں اور وہم کی کرشمہ سازیوں پر ہی قائم ہوگی۔ اس کے مقابلے میں خود خالقِ کائنات کا قطعی، غیرمبہم اور دوٹوک ارشاد ہے جسے آپ نے سوال میں نقل کیا ہے۔ اب دادِ انصاف دیجئے کہ ایک مسئلے میں، جو انسانی مشاہدہ و تجربہ سے ماورا ہے، مسٹر ڈارون اور ان کے مقلدوں کا اَٹکل پچو تخمینہ لائقِ اعتبار ہے یا خدائے علام الغیوب کا ارشاد․․․؟ اگر وحیٴ الٰہی نے اس مسئلے میں ہماری کوئی راہ نمائی نہیں کی ہوتی تب بھی عقل کا تقاضا یہ تھا کہ ہم ڈارون کے غیرمشاہداتی اور غیرتجرباتی تیرتکوں کو قبول نہ کرتے، کیونکہ اہلِ عقل، عقل کی مانا کرتے ہیں، غیرعقلی قیاسات اور تخمینوں پر اندھادُھند ایمان نہیں لایا کرتے۔ پس نظریہٴ ارتقا کے حامیوں کا انسان کے سلسلہٴ نسب کو بندر سے ملانا، جبکہ وحیٴ الٰہی اور مشاہدہ و تجربہ اس کی تکذیب کرتے ہیں، تو یہ نظریہ اہلِ عقل کے نزدیک کیسے لائقِ التفات ہوسکتا ہے؟

حضرت آدم اور جنت

نظریہٴ ارتقا کے موجدوں نے انسان کا سلسلہٴ نسب بندر تک پہنچاکر انسانی عقل کی جو مٹی پلید کی ہے، اسی سے سمجھا جاسکتا ہے کہ انسانِ اوّل کے بارے میں ان کے دیگر تخمینوں اور قیاسات میں کتنی جان ہوگی، خصوصاً ان کا یہ کہنا کہ: “انسانِ اوّل کو جنت سے نہیں اُتارا گیا تھا، بلکہ اسی زمین پر بندر سے اس کی جنس تبدیل ہوئی تھی”، یا یہ کہ: “حوا اس کی بیوی نہیں بلکہ ماں تھی”۔ کون نہیں جانتا کہ جنت و دوزخ عالمِ غیب کے وہ حقائق ہیں جو اس عالم میں انسانی مشاہدہ و تجربہ سے بالاتر ہیں، اور جن کے بارے میں صحیح معلومات کا ذریعہ صرف ایک ہے اور وہ ہے انبیائے کرام علیہم السلام پر نازل شدہ وحی۔ پس جو غیبی حقائق کہ انسان کے مشاہدہ و تجربہ کی دسترس سے قطعاً باہر ہیں اور مشاہدہ کی کوئی خوردبین ان تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکتی، خود ہی سوچئے کہ ان کے بارے میں وحیٴ الٰہی پر اعتماد کرنا چاہئے یا ان لوگوں کی لاف گزاف پر جو وہم و قیاس کے گھوڑے پر سوار ہوکر ایک ایسے میدان میں ترکتازیاں کرنا چاہتے ہیں جو ان کے احاطہٴ عقل و ادراک سے ماورا ہے․․․؟ سائنس کے دقیق اسرار و رموز کے بارے میں ایک گھسیارے کا قول جس قدر مضحکہ خیز ہوسکتا ہے، اس سے کہیں بڑھ کر ان لوگوں کے اندازے اور تخمینے مضحکہ خیز ہیں جو وحیٴ الٰہی کی روشنی کے بغیر اُمورِ الٰہیہ میں تگ و تاز کرتے ہیں۔ یہ مسکین نہیں سمجھتے کہ ان کی تحقیقات کا دائرہ مادّیات ہیں، نہ کہ ما بعد الطبعیات، جو چیز ان کے دائرہٴ عقل و ادراک سے ماورا ہے اس کے بارے میں وہ جو قیاس آرائی کریں گے اس کی حیثیت رجم بالغیب اور اندھیرے میں تیر چلانے کی ہوگی۔ قطعاً ممکن نہیں کہ ان کا تیر صحیح نشانے پر بیٹھے، وہ خود بھی مدة العمر وادیٴ ضلالت کے گم گشتہ مسافر رہیں گے اور ان کے مقلدین بھی۔ مسلمانوں کو اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارنے اور ان وادیوں میں بھٹکنے کی ضرورت نہیں، بحمداللہ ان کے پاس آفتابِ نبوّت کی روشنی موجود ہے، اور وہ ان اُمورِ الٰہیہ کے بارے میں جو کچھ کہتے ہیں، دن کی روشنی میں کہتے ہیں۔

سورج کا سجدہ کرنا

سورج کے سجدہ کرنے کی جو حدیث آپ نے نقل کی ہے، وہ صحیح ہے، اور وہ کسی سائنسی تحقیقات یا عام انسانی مشاہدے کے خلاف نہیں۔ انسانی مشاہدہ یہ ہے کہ سورج چلتا ہے، لیکن اس کی رفتار خود اس کی ذاتی ہے یا کسی قادرِ مطلق ہستی کی حکمت و مشیت کے تابع ہے؟ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب اس حدیثِ پاک میں دیا گیا ہے، جس کا حاصل یہ ہے کہ آفتاب کے طلوع و غروب کا نظام خودکار مشین کی طرح نہیں، بلکہ حق تعالیٰ کی مشیت و ارادہ کے ماتحت ہے، اور وہ اپنے طلوع و غروب کے لئے حق تعالیٰ شانہ سے اجازت لیتا ہے، ایک وقت آئے گا کہ حسبِ دستور طلوع کی اجازت لے گا، مگر اس کو اجازت نہیں ملے گی، بلکہ اُلٹی سمت چلنے کا حکم ہوگا، چنانچہ اس دن آفتاب بجائے مشرق کے مغرب سے طلوع ہوگا اور قریباً چاشت کے وقت جتنا اُونچا ہوجانے کے بعد پھر مغرب کی جانب لوٹ جائے گا اور اس کے بعد قیامت برپا ہونے تک پھر حسبِ معمول طلوع و غروب ہوتا رہے گا۔

اب یہاں چند اُمور لائقِ توجہ ہیں:

اوّل:… یہ کہ نظامِ شمسی کا حق تعالیٰ شانہ کی مشیت کے تابع ہونا تمام ادیان و مذاہب کا مُسلَّمہ عقیدہ ہے، اور جو سائنس دان خدا تعالیٰ کے وجود کا اقرار کرتے ہیں انہیں بھی اس عقیدے سے انکار نہیں ہوگا۔ جو لوگ اس کارخانہٴ جہان کو خودکار مشین سمجھتے ہیں اور اسے کسی صانع حکیم کی تخلیق نہیں سمجھتے، ان کا نظریہ عقل و حکمت کی میزان میں کوئی وزن نہیں رکھتا۔ صانعِ عالم کے وجود پر دلائل کا یہ موقع نہیں کیونکہ میرا مخاطب بحمداللہ مسلمان ہے، اس لئے اس کے سامنے وجودِ باری کی بحث لے بیٹھنا غیرضروری ہی نہیں، بے موقع بھی ہے۔ یہاں صرف اس بات پر تنبیہ کرنا مقصود ہے کہ جب یہ مُسلَّم ہے کہ نہ صرف نظامِ شمسی بلکہ پورا کارخانہٴ عالم ہی اللہ تعالیٰ کی مشیت و ارادہ کے تابع ہے تو آفتاب کے روزمرّہ طلوع و غروب کو بھی اسی مشیت کے تابع تسلیم کرنا ہوگا۔ اسی نکتے کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سورج کے روزمرّہ سجدہ کرنے اور آئندہ دن میں طلوع کی اجازت لینے سے تعبیر فرمایا ہے۔

دوم:… جیسا کہ سوال میں ذکر کیا گیا ہے، مشاہدہ یہ ہے کہ ہر آن اور ہر لمحہ سورج کے طلوع و غروب کا عمل جاری ہے، اگر ایک اُفق پر ڈُوبتا ہے تو دُوسرے سے نکلتا ہے، اگر ایک جگہ سفیدہٴ صبح نمودار ہوتا ہے تو دُوسری جگہ تاریکیٴ شب کا آغاز ہوتا ہے۔ اس لئے حدیثِ پاک میں دو احتمال ہیں، ایک یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی خاص اُفق (مثلاً مدینہ طیبہ کا اُفق، یا عام آبادی کا اُفق) کو مراد لیا ہو۔ اس صورت میں حدیث کا مطلب یہ ہوگا کہ جب آفتاب اس خاص اُفق میں غروب ہوتا ہے تو اگلے دن کے طلوع کے لئے اجازت طلب کرتا ہے، اور اجازت ملنے پر طلوع ہوتا ہے۔ آپ کو معلوم ہے کہ اہلِ ریاضی نے ہفتہ کے دنوں کی تعیین کے لئے آفتاب کا ایک خاص اُفق مقرّر کر رکھا ہے جسے “ڈیٹ لائن” کہا جاتا ہے۔ اس خطِ فاصل سے اس طرف جمعہ کا دن ہوتا ہے تو دُوسری طرف ہفتہ کا دن، اگر یہ صورت اختیار نہ کی جاتی تو دنوں کا تعین ہی ممکن نہ ہوتا، کیونکہ آفتاب تو دُنیا میں کبھی غروب ہی نہیں ہوتا۔ اس لئے “ڈیٹ لائن” کے بغیر تاریخ اور دن کے تعین کی کوئی صورت نہیں تھی۔ پس جس طرح اہلِ فن کو دنوں کی تعیین کے لئے ایک خاص اُفق مقرّر کئے بغیر کوئی چارہ نہیں، اسی طرح اگر اس کے طلوع و غروب کے لئے بھی علمِ الٰہی میں اُفق کا کوئی خاص نقطہ متعین ہو جس پر پہنچنے کے بعد اسے اگلے دن کے لئے نئی اجازت لینی پڑے تو اس پر کوئی عقلی اِشکال نہیں۔

دُوسرا احتمال یہ ہے کہ اس اجازتِ طلوع کے لئے کوئی خاص اُفق متعین نہ کیا جائے، بلکہ یہ کہا جائے کہ اس کا کسی بھی اُفق سے طلوع ہونا اجازت کے بعد ہوتا ہے، اور چونکہ اس کا طلوع ہر لمحہ کسی نہ کسی اُفق سے ہوتا رہتا ہے اس لئے حدیثِ پاک کا منشا یہ ہوگا کہ آفتاب کی حرکت کا ایک ایک لمحہ خدا تعالیٰ کی اجازت و مشیت کا مرہونِ منّت ہے اور ایک لمحے کے لئے بھی اس کی حرکت (جس پر طلوع و غروب کا نظام قائم ہے) اجازت کے بغیر جاری نہیں رہ سکتی۔

سوم:… رہا سورج کا سجدہ کرنا، سو یہ چیز اگر ہم ایسے عامیوں کے لئے اچھوتی اور اچنبھا معلوم ہوتی ہے لیکن اہلِ عقل جانتے ہیں کہ کائنات کی ہر چیز اللہ تعالیٰ کے سامنے سربسجود ہے اور ہر چیز اس کی عظمت و تقدس کی تسبیح پڑھتی ہے۔ لیکن ہر چیز کی سجدہ ریزی و تسبیح خوانی اس کی حالت و فطرت اور شان کے مطابق الگ نوعیت کی ہے، ہم لوگ چونکہ ان کی “زبانِ بے زبانی” سمجھنے سے قاصر ہیں، اس لئے ہمیں یہ بات ایک اعجوبہ معلوم ہوتی ہے، اسی کی طرف قرآنِ کریم میں یہ کہہ کر اشارہ فرمایا گیا ہے: “وَلٰکِنْ لَّا تَفْقَھُوْنَ تَسْبِیْحَھُمْ” (مگر تم ان چیزوں کی تسبیح کو نہیں سمجھتے)۔ ہم لوگ جو عقل و ادراک اور شعور و فہم کا ایک عام درجہ رکھتے ہیں، یہ کہہ کر دِل کو سمجھالیتے ہیں کہ کائنات کی ہر چیز خدا تعالیٰ کے قبضہ و تصرف میں مسخر ہے، اور ان کا مسخر ہونا ہی ان کا سجدہ و تسبیح ہے۔ لیکن جو حضرات علم و ادراک اور عقل و فہم میں عام انسانوں سے بالاتر ہیں، ان کا کہنا ہے کہ کائنات صرف زبانِ حال ہی سے خدا تعالیٰ کی تسبیح خوانی اور اس کے سامنے سجدہ ریزی کے فرائض انجام نہیں دیتی بلکہ ہر چیز کو اللہ تعالیٰ نے اس کے حسبِ حال شعور و ادراک کی نعمت عطا کر رکھی ہے، اور ہر ایک کو اس کے مناسب زبانِ گویائی بھی عطا فرمائی ہے، اس لئے ہر چیز اپنے اپنے شعور و ادراک کے مطابق خدا تعالیٰ کو سجدہ کرتی ہے اور اپنی اپنی زبان میں اس کی تسبیح پڑھتی ہے:

خاک و باد و آب و آتش بندہ اند

بامن و تو مردہ باحق زندہ اند

بہرحال! آفتاب کا حق تعالیٰ کو سجدہ کرنا بلاشبہ حق اور صحیح ہے، خود قرآنِ کریم میں اس کی تصریح موجود ہے، اب وہ سجدہ زبانِ حال سے ہے یا زبانِ مقال سے؟ اس کی توجیہ ہر شخص اپنے اندازہٴ عقل و پیمانہٴ فکر کے مطابق کرسکتا ہے۔ اور اگر کسی کی عقل اس کو محض اس لئے نہ مانتی ہو کہ یہ اعجوبہ ہے، تو اس سے یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ دُنیا عجائبِ قدرت ہی کا نام ہے۔

یہ آتشیں کرہ، جسے ہم آفتاب کہتے ہیں، اس کا وجود بجائے خود عجائبِ قدرت کا ایک نمونہ ہے، اور پھر اس کے طلوع و غروب کا نظام ایک مستقل اعجوبہ ہے، اگر خدانخواستہ سورج کبھی ایک آدھ بار ہی طلوع ہوا ہوتا تو دُنیا اس اعجوبہ کے مشاہدہ کی بھی شاید تاب نہ رکھتی، پس جب دُنیا میں ہزاروں اعجوبے ہماری آنکھوں کے سامنے موجود ہیں اور ہم بغیر کسی ہچکچاہٹ اور شرمندگی کے ان عجائبات پر یقین رکھتے ہیں اور محض ان کا اعجوبہ ہونا ہمارے انکار کے لئے وجہٴ جواز نہیں بنتا، اور اس کے انکار کرنے والے کے حق میں دیوانہ اور پاگل ہونے کا فیصلہ کرتے ہیں، تو کوئی وجہ نہیں کہ جو چیز ہمارے مشاہدہ و تجربہ، ہمارے علم و ادراک اور ہماری عقل و شعور سے بالاتر ہو اور ایک شناسائے راز اور دانائے رموز ہمیں اس کی اطلاع دے، ہم محض اعجوبہ ہونے کی بنا پر اس کا انکار کرڈالیں، کیا موجودہ دور کی سائنسی ایجادات ایک عام عقل و فہم کے آدمی کے لئے کم اعجوبہ ہیں․․․؟ کیا ایک سادہ لوح آدمی کے لئے ان کا انکار کردینا محض اس بنا پر جائز ہوگا کہ اس کی عقل ان عجائب کی گرفت سے قاصر ہے․․․؟ نہیں․․․! بلکہ جو شخص اس کی جرأت کرے گا آپ اسے انتہائی درجے کا احمق قرار دیں گے۔ ٹھیک اسی طرح جو لوگ ان عجائباتِ قدرت کا انکار کرتے ہیں جو صرف نبوّت کے علم و ادراک میں آسکتے ہیں، یہ لوگ بھی اپنی عقل کی پستی کا اظہار کرتے ہیں۔

چہارم:… آفتاب کا طلوع و غروب کے لئے اجازت لینا، اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ اس کی حرکت میں ٹھہراوٴ پیدا ہوجائے، بلکہ یہ دونوں چیزیں بیک وقت جمع ہوسکتی ہیں کہ اس کی حرکت بھی جاری رہے اور وہ اپنی حرکت جاری رکھنے یا بند کردینے کے لئے اجازت بھی لیتا ہو۔ ہماری جدید دُنیا میں اس کی بہت سی مشاہداتی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں، مگر میں اس نکتے کی مزید وضاحت و تشریح ضروری نہیں سمجھتا، اہلِ فہم کے لئے صرف اشارہ کافی ہے۔

ایک حدیث کا حوالہ

آپ نے ایک حدیث کا حوالہ دیا ہے کہ: “ستارے آسمان کی چھت کے ساتھ رسوں سے باندھے گئے ہیں”۔ مجھے ایسی کوئی حدیث یاد نہیں جس کا یہ مضمون ہو، اگر آپ اس کا حوالہ دے سکیں تو اس کے الفاظ و مفہوم و مطالب کے بارے میں کچھ عرض کیا جاسکتا ہے۔ قرآنِ کریم میں دو جگہ (الاعراف:۵۴، النحل:۱۲) ستاروں کو “مُسَخَّرَات بِأَمْرِہ” فرمایا گیا ہے، یعنی ستارے حکمِ خداوندی کے مسخر ہیں۔ ان کا فضا میں معلق ہونا اسی تسخیر کا ایک مظہر ہے، یہی وہ رسے ہیں جن سے یہ فضائی کرّے بندھے ہوئے ہیں، اور جب اس کائنات کو درہم برہم کرنے کا فیصلہ کیا جائے گا تو ان کے یہ رسے کھول دئیے جائیں گے اور ستارے ٹوٹ ٹوٹ کر جھڑجائیں گے، ان کا آپس میں تصادم قیامتِ کبریٰ کا پیش خیمہ ہوگا۔ پس اگر کسی حدیث میں ستاروں کے رسوں سے بندھے ہوئے ہونے کا ذکر آتا ہے تو اس سے ارادہٴ الٰہی کی یہی آہنی زنجیریں مراد ہیں جنھوں نے فضا میں ان محیر العقول ستاروں کو تھام رکھا ہے، مادّی رسوں کی تلاش کی زحمت کیوں اُٹھائی جائے؟ اور اگر سائنس ان خلائی کروں کے استقرار و استحکام کے لئے کششِ ثقل کا کوئی اُصول پیش کرتی ہے تو ہمیں اسے جھٹلانے کی ضرورت نہیں۔ ظاہربیں نگاہیں تحریر کو دستِ کاتب کی حرکت کا کرشمہ دیکھتی ہیں لیکن ہاتھ کی حرکت دماغ کی ارتعاشی لہروں کے تابع ہے اور دماغ، رُوح کی حس و حرکت کے تابع ہے، اور رُوح کی رُوح ارادہٴ خداوندی ہے۔ اسی طرح ان خلائی سیاروں کے لئے سائنسی دُنیا میں جو اُصول و نظریات پیش کئے جاتے ہیں وہ اس کی اپنی حدِ پرواز تک صحیح ہیں، اسلام ان کی نفی نہیں کرتا، بلکہ ان اُصولوں میں ارادہٴ الٰہی کی کارفرمائی کا عقیدہ پیش کرتا ہے، اور اگر کوئی سائنس دان سلسلہٴ اسباب و علل کی کڑیوں کو درمیان میں ختم کردینے پر اصرار کرتا ہے تو یہ اس کی بصیرت و مشاہدہ کا قصور ہے۔

جنات کے بارے

جنات کے بارے میں دو باتیں قابلِ ذکر ہیں، ایک یہ کہ آیا جنات کا وجود ہے یا نہیں؟ دوم یہ کہ جنات آدمی کو کوئی تکلیف پہنچاسکتے ہیں یا نہیں؟ جس کو عرفِ عام میں “جن لگنا” کہا جاتا ہے۔

جہاں تک جنات کے وجود کا تعلق ہے، قرآنِ کریم میں جنات کا ذکر (“جن” یا “جان” کے عنوان سے) ۲۹ جگہ آیا ہے، اور “سورة الجن” کے نام سے قرآنِ کریم کی ایک مستقل سورت ہے۔ سورة الانعام آیت:۱۲۸ میں صرف جنوں کو اور سورة الانعام آیت:۱۳۰، اور سورة الرحمن آیت:۳۳ میں “یٰمَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ” کہہ کر “جن” اور “انسان” کو خطاب ہے۔ سورة الرحمن کی آیت “فَبِأَیِّ ٰالَآءِ رَبِکُمَا تُکَذِّبٰنِ” میں بھی، جو ۳۱ بار دُہرائی گئی ہے، دونوں کو خطاب ہے۔ سورة الجن آیت:۱، اور سورة الاحقاف آیت:۲۹ میں جنات کی ایک جماعت کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آکر ایمان لانے کا تذکرہ موجود ہے، وغیرہ وغیرہ۔

اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاداتِ طیبہ میں بہت سی جگہ جنات کا ذکر آتا ہے، جس کی تفصیل غیرضروری ہے۔ قرآنِ کریم اور احادیثِ شریفہ سے واضح ہوتا ہے کہ:

۱:… جنات ایک مستقل مخلوق ہے۔

۲:… ان کی پیدائش آگ سے ہوئی ہے۔

۳:… انسانوں کی طرح ان میں توالد و تناسل کا سلسلہ جاری ہے۔

۴:… انسان کی طرح وہ بھی اَحکامِ الٰہیہ کے مکلف ہیں۔

۵:… انسان کی طرح ان میں بھی بعض موٴمن ہیں اور بعض کافر۔

۶:… وہ انسان کی نظر سے اوجھل رہتے ہیں۔

۷:… ان میں سے جو کافر اور سرکش ہوں انہیں “شیطان” یا “مردة الجن” کہا جاتا ہے۔

۸:… ان کا جدِ اَبعد ابلیس ہے۔

قرآنِ کریم اور احادیثِ نبویہ میں جنات کے بارے میں جتنا کچھ ذکر کیا گیا ہے اسے سامنے رکھ کر ایک مستقل کتاب تألیف کی جاسکتی ہے، اور علمائے اُمت نے اس موضوع پر کتابیں لکھی بھی ہیں، جن میں “آکام المرجان فی أحکام الجان” عربی میں مشہور کتاب ہے۔ جو لوگ قرآنِ کریم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان رکھتے ہیں ان کو تو جنات کا وجود تسلیم کئے بغیر چارہ نہیں، اور جو لوگ ان کے وجود کی نفی کرتے ہیں ان کے پاس اس کے سوا کوئی دلیل نہیں کہ یہ مخلوق ان کی آنکھوں سے اوجھل ہے۔ اس لئے اگر یہ اُصول صحیح ہے کہ جو چیز نظر نہ آئے اس کا انکار کردیا جائے تو صرف جنات کے وجود ہی کا نہیں بلکہ ان بے شمار چیزوں کے وجود کا بھی انکار کرنا ہوگا جو آنکھوں سے نظر نہیں آتیں، ان میں سرِ فہرست انسان کی اپنی رُوح ہے جسے کسی نے آنکھوں سے نہیں دیکھا۔ موجودہ سائنس نے ایسے جراثیم کا انکشاف کیا ہے جن کو ایک لاکھ گنا بڑا کردیا جائے تب بھی ان کا نظر آنا مشکل ہے۔ پس اگر یہ اُصول صحیح ہے تو لوگوں کو مشورہ دینا چاہئے کہ تمام غیرمرئی چیزوں کا انکار کیا کریں، لیکن میں جانتا ہوں کہ ایسے مشورے کو آپ احمقانہ مشورہ کہیں گے، اس لئے کہ اگرچہ یہ چیزیں عام انسانوں کو نظر نہیں آتیں، لیکن آثار و قرائن ان کے وجود کا پتہ دیتے ہیں، اور سائنسی ایجادات نے ایسی بہت سی چیزوں کا مشاہدہ کرادیا ہے، میں بہ ادب گزارش کروں گا کہ اگر سائنسی دُوربین یا خوردبین سے نظر آنے والے کسی ننھے منے جرثومے پر “ایمان” لانا واجب ہے اور اس کو جھٹلانے والا احمق ہے تو نبوّت کی دُوربین اور خوردبین جن چیزوں کا مشاہدہ کرکے ان کے وجود کی خبر دیتی ہیں ان کے وجود پر ایمان لانا کیوں ضروری نہیں․․․؟ اور ان کو جھٹلانا کیوں حماقت نہیں․․․؟ جبکہ جھٹلانے والوں کے ہاتھ میں اس کے سوا کوئی دلیل نہیں کہ ان کی نظرِ کوتاہ ان چیزوں کے مشاہدے سے قاصر ہے۔

مجھے آپ سے شکایت ہے کہ جنات کے وجود کی بحث کو آپ نے سائنس سے پیدا شدہ اِشکالات میں کیوں جگہ دی؟ سائنس تو (مادّیات کی حد تک) علم و تحقیق کا نام ہے، جبکہ جنات کے وجود کی نفی کسی علم و تحقیق پر مبنی نہیں بلکہ ناواقفی و جہل پر اس کی بنیاد ہے۔ جنات کا وجود کسی سائنسی اُصول سے نہیں ٹکراتا، اور نہ کوئی سائنسی اُصول جنات کے وجود کی نفی کرتا ہے۔ ہمارے اس دورِ جدید کی ایک مصیبت یہ ہے کہ اس میں “جہل” کا نام “علم” رکھ لیا گیا ہے، اور “یہ بات میرے علم میں نہیں” کو اس کے وجود کی نفی پر دلیل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ گویا یہ فرض کرلیا گیا ہے کہ اشیاء کا وجود ہمارے علم کے تابع ہے، ہمیں کسی چیز کا علم ہے تو وجود بھی رکھتی ہے، اور اگر ہمیں علم نہیں تو سمجھنا چاہئے کہ واقعے میں وہ اپنے وجود سے بھی محروم ہے۔ یہ ہے دورِ جدید کا وہ منفرد اُصول جس کے ذریعہ حقائق و واقعات کو بڑی جرأت سے جھٹلایا جاتا ہے۔

دُوسری بحث یہ کہ آیا جنات آدمی کو لگ سکتے ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ عقلاً کوئی چیز اس سے مانع نہیں۔ آج مسمریزم اور عملِ تنویم کے ذریعہ دُنیا جن عجائبات کا مشاہدہ کر رہی ہے وہ کسی صاحبِ عقل سے مخفی نہیں۔ پس اگر ایک آدمی اپنے خاص مشقی عمل سے معمول کو مسخر اور کچھ دیر کے لئے اسے آپے سے باہر کرسکتا ہے، اس کی رُوح سے گفتگو کرسکتا ہے اور اس سے جو چاہے اُگلواسکتا ہے، تو کیا وجہ ہے کہ اس امکان کا انکار کیا جائے کہ یہی سب کچھ جنات بھی کرسکتے ہیں، جبکہ آدمی اور جن کی قوّت کا مقابلہ چیونٹی اور ہاتھی کا مقابلہ ہے۔ پس جو تصرف مسکین چیونٹی کرسکتی ہے کیوں انکار کیا جائے کہ وہی تصرف ہاتھی نہیں کرسکتا․․․؟

یہ گفتگو تو امکان پر تھی، جہاں تک واقعہ کا تعلق ہے، اس میں شبہ نہیں کہ اس بارے میں بہت سے لوگ توہم پرستی کا شکار ہیں، اور وہ معمولی طبّی امراض پر بھی “آسیب زدگی” کا شبہ کرنے لگتے ہیں، کسی صحیح معالج کی طرف رُجوع کرنے کے بجائے وہ غلط قسم کے عاملوں کے چکر میں ایسے پھنستے ہیں کہ مدة العمر انہیں اس جال سے رہائی نصیب نہیں ہوتی، لیکن عوام کی فضول توہم پرستی کا علاج یہ نہیں کہ واقعات کا بھی انکار کردیا جائے۔ واقعہ یہی ہے کہ بعض شاذ و نادر حالات میں آسیب کا اثر ضرور ہوتا ہے، قرآنِ کریم میں دو جگہ اس کا ذکر آیا ہے۔

ایک جگہ سورہٴ بقرہ میں سودخوروں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے:

“اَلَّذِیْنَ یَأْکُلُوْنَ الرِّبٰوا لَا یَقُوْمُوْنَ اِلَّا کَمَا یَقُوْمُ الَّذِیْ یَتَخَبَّطُہُ الشَّیْطٰنُ مِنَ الْمَسِّ۔” (البقرہ:۲۷۵)

ترجمہ:… “جو لوگ کھاتے ہیں سود، نہیں اُٹھیں گے قیامت کو مگر جس طرح اُٹھتا ہے وہ شخص، جس کے حواس کھودئیے ہوں جن نے لپٹ کر۔” (ترجمہ شیخ الہند)

حضرت مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:

“ارشاد ہے کہ جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ نہیں کھڑے ہوتے مگر جس طرح کھڑا ہوتا ہے وہ آدمی جس کو شیطان جن نے لپٹ کر خبطی بنادیا ہو۔ حدیث میں ہے کہ کھڑے ہونے سے مراد محشر میں قبر سے اُٹھنا ہے کہ سودخور جب قبر سے اُٹھے گا تو اس پاگل اور مجنون کی طرح اُٹھے گا جس کو کسی شیطان جن نے خبطی بنادیا ہو۔

اس جملے سے ایک بات تو یہ معلوم ہوئی کہ جنات و شیاطین کے اثر سے انسان بیہوش یا مجنون ہوسکتا ہے اور اہلِ تجربہ کے متواتر مشاہدات اس پر شاہد ہیں۔ اور حافظ ابنِ قیم جوزی رحمة اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ اطباء و فلاسفہ نے بھی اس کو تسلیم کیا ہے کہ صرع، بیہوشی یا جنون مختلف اسباب سے ہوا کرتا ہے، ان میں بعض اوقات جنات و شیاطین کا اثر بھی اس کا سبب ہوتا ہے۔ جن لوگوں نے اس کا انکار کیا ہے ان کے پاس بجز ظاہری استبعاد کے کوئی دلیل نہیں۔”

(معارف القرآن ج:۱ ص:۶۴۷)

دُوسری جگہ سورة الانعام میں ہدایت چھوڑ کر گمراہی اختیار کرنے والوں کی مثال دیتے ہوئے فرمایا گیا ہے:

“کَالَّذِی اسْتَھْوَتْہُ الشَّیٰطِیْنُ فِی الْأَرْضِ حَیْرَانَ لَہٓ أَصْحٰبٌ یَّدْعُوْنَہٓ اِلَی الْھُدَی ائْتِنَا۔” (الانعام:۷۱)

ترجمہ:… “مثل اس شخص کے کہ راستہ بھلادیا ہو اس کو جنوں نے جنگل میں، جبکہ حیران ہو، اس کے رفیق بلاتے ہوں اس کو راستے کی طرف کہ چلا آ ہمارے پاس۔”

پہلی آیت سے معلوم ہوا کہ جنات لپٹ کر آدمی کو مخبوط الحواس بنادیتے ہیں، اور دُوسری آیت میں اسی مخبوط الحواسی کی ایک مثال ذکر کی گئی ہے کہ شیطان اس کو راستے سے بہکادیتے ہیں، وہ حیران و سراسیمہ ہوکر مارا مارا پھرتا ہے، اس کے رفقاء اس کو آواز دیتے ہیں کہ ہم اِدھر ہیں، ہمارے پاس آجاوٴ، مگر وہ اپنی اس مخبوط الحواسی کی بنا پر ان کی آواز پر بھی توجہ نہیں دیتا۔

رہا آپ کا یہ شبہ کہ: “جن صرف ماننے والوں کو کیوں لگتے ہیں؟” آپ کا یہ شبہ بھی اصل حقیقت سے ناواقفیت کی بنا پر ہے۔ تقریبِ فہم کے لئے عرض کرتا ہوں کہ بطور مثال کسی دُور افتادہ بادیہ نشین صحرائی کا تصوّر کیجئے، اسے کوئی خطرناک مرض لاحق ہوتا ہے مگر وہ مسکین اپنی ناواقفی کی بنا پر نہیں سمجھتا کہ اس مرض کے اسباب و علل کیا ہیں؟ اور اس کے علاج کی صحیح تدبیر کیا ہوسکتی ہے؟ ظاہر ہے کہ اس کے اس جہل کی وجہ سے مرض کے اسباب و علل کی نفی کرنا کسی طرح صحیح نہیں ہوگا۔ اس مثال کے بعد میں یہ عرض کروں گا کہ امریکہ اور یورپ میں نفسیانی مریضوں کی جو بہتات ہے وہ ہمارے ہاں بحمداللہ نہیں۔ ان ممالک میں ایسے مریضوں کے لئے بڑے بڑے شفاخانے بھی موجود ہیں، علاج معالجے کی سہولتوں کی بھی فراوانی ہے، ہر مرض کے لئے اعلیٰ درجے کے ماہرین اور متخصّصین بھی موجود ہیں، نفسیاتی معالج بھی ایک سے بڑھ کر ایک موجود ہے، لیکن ان تمام چیزوں کے باوجود ان کے ہاں نفسیاتی مریضوں کی تعداد روز افزوں ہے، جن پر کوئی علاج کارگر نہیں ہو پاتا۔ اور آپ، ابنِ قیم کی زبانی اطباء و فلاسفہ کا فیصلہ سن چکے ہیں کہ ان نفسیاتی امراض کے اسباب میں سے ایک سبب آسیب کا اثر بھی ہوسکتا ہے، جبکہ جدید مغرب اس سبب کا ہی منکر ہے۔ اور عرض کرچکا ہوں کہ اس کے اس انکار کا منشا جہل کے سوا کچھ نہیں۔ اندریں صورت مجھے یہ کہنے کی اجازت دیجئے کہ جدید مغرب کی مثال اس بادیہ نشین صحرائی کی ہے جو مرض کے اصل سبب سے بے خبر اور جاہل ہے۔ لطیفہ یہ کہ جو لوگ مرض کے اصل سبب کی نشاندہی کرتے ہیں، یہ جاہل ان کا مذاق اُڑاتے ہیں۔ فرمائیے! کہ ایسی صورت میں اس کے نفسیاتی مریض لاعلاج نہ ہوں تو اور کیا ہو؟ پس یہ کہنا کہ: “انگریز اور رُوسی چونکہ جنات کے وجود ہی سے منکر ہیں اس لئے ان کو جنات بھی نہیں لگتے” حقیقت پسندانہ بات نہیں، بلکہ صحیح یہ ہے کہ مشرق میں تو جنات ہزاروں لاکھوں میں سے کسی ایک آدھ کو لگتے ہیں، لیکن مغرب میں بڑی کثرت سے لگتے ہیں اور بے شمار لوگوں کو مخبوط الحواس اور نفسیاتی مریض بناتے ہیں۔ فرق اگر ہے تو یہ کہ مشرق، جنات کے وجود کا قائل ہے اور نفسیاتی مرض کے اسباب کی فہرست میں “جن” لگنے کو بھی شمار کرتا ہے، اس صحیح تشخیص کی بنا پر وہ علاج میں بھی کامیاب ہوجاتا ہے، اِلَّا ماشاء اللہ۔ اس کے برعکس مغرب اپنی ناواقفی، تعصب اور جہل کی بنا پر نفسیاتی امراض کے اس اہم سبب کی نہ تشخیص کرسکتا ہے، نہ اس کے علاج و مداوا کی قدرت رکھتا ہے۔ لیکن کیسی ستم ظریفی ہے کہ آپ قصوروار “مشرق” کو سمجھتے ہیں، اور مغرب کے جہل کو بھی ہنر تصوّر فرماتے ہیں، اور یہ کھلی ہوئی بات نہیں سوچتے کہ اگر مغرب کو جن نہیں لگتا تو مشرق کے مقابلے میں اس کے لاعلاج نفسیاتی مریضوں کی اتنی بہتات کیوں ہے؟

مذہب اور سائنس میں تصادم

رہا آپ کا یہ سوال کہ: “کیا مذہب اور سائنس ایک ساتھ چل سکتے ہیں؟” کاش! فرصت ہوتی تو اس نکتے پر تفصیل سے لکھتا، مگر یہاں صرف آپ کے جواب میں اتنا عرض کروں گا کہ مذہب سے مراد اگر وہ غیرفطری اور باطل مذاہب ہیں جو (بطور مثال) “تین ایک اور ایک تین” جیسے نظریات پر اپنی بنیادیں استوار کرتے ہیں تو میرا جواب نفی میں ہے۔ سائنس کے مقابلے میں ایسے فرسودہ و بوسیدہ مذاہب نہیں ٹھہرسکتے، نہ اس کے ساتھ چل سکتے ہیں، اور اگر مذہب سے مراد وہ دینِ فطرت ہے جس کا اعلان خالقِ فطرت نے “اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللهِ الْاِسْلَام” میں فرمایا ہے تو میرا جواب یہ ہے کہ مذہب سائنس کے ساتھ چل سکتا ہے، چلتا ہے اور اِن شاء اللہ چلے گا، کیونکہ “سائنس” (اگر واقعتا سائنس ہو) رموزِ فطرت کی نقاب کشائی کا نام ہے اور اسلام خود فطرت ہے: “فِطْرَةَ اللهِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْھَا”۔

فطرت کبھی فطرت سے نہیں ٹکراتی، اس لئے اسلام کو سائنس سے کوئی خطرہ نہیں، بلکہ واقعہ یہ ہے کہ سائنس نے بہت سے ان اسلامی نظریات کو قریب الفہم کردیا ہے جن کو قرونِ وسطیٰ کا انسان حیرت و استعجاب کی نظر سے دیکھتا تھا۔ یہیں سے ہمارے اس یقین میں اضافہ ہوجاتا ہے کہ اسلام بلاشبہ خالقِ فطرت کا نازل کردہ دینِ فطرت ہے، اور اگر سائنس دان کوئی ایسا راگ اَلاپتے ہیں جو اسلام کے قطعی نظریات سے ٹکراتا ہے تو ہمیں یقین ہے کہ وہ فطرت کے خلاف کہتے ہیں۔ اگر آج نہیں تو کل ان کے نظریہ کا غلط اور باطل ہونا ان پر آشکار ہوجائے گا۔ بادل کے سیاہ ٹکڑے آفتاب کو تھوڑی دیر کے لئے نظروں سے اوجھل ضرور کرسکتے ہیں مگر وہ نہ اس کے وجود کو ختم کرسکتے ہیں، نہ اس کی روشنی کو غائب کرسکتے ہیں۔ اسلام، پوری انسانیت کے لئے آفتابِ ہدایت ہے، اندھے اس سے آنکھیں بند کرسکتے ہیں، گمراہ اور کج رو لوگ اپنے نظریات کے بادل اُٹھاسکتے ہیں لیکن ان بادلوں کو بہرحال چھٹنا ہوگا اور آفتابِ اسلام کی تابانی کو بہرحال چمکنا ہوگا۔

الغرض! سائنس کا کوئی صحیح نظریہ اسلام سے نہیں ٹکراتا، اور جو نظریات بظاہر اسلام سے متصادم نظر آتے ہیں وہ سائنس کے فطری نظریات نہیں بلکہ یا تو خام عقل لوگوں کی ہوا و ہوس کو “سائنسی نظریہ” کا نام دے دیا گیا ہے یا وہ تحقیق و تجسّس کے خلانوردوں کے سفر کی درمیانی منزلیں ہیں جنھیں غلط فہمی و عجلت پسندی سے “حرفِ آخر” سمجھ لیا گیا ہے۔ اس لئے ہمارے نوجوانوں کو ان نظریات سے خائف ہونے یا شکوک و شبہات کی تاریکیوں میں بھٹکنے کی ضرورت نہیں، ان کے پاس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا لایا ہوا قطعی پیغامِ ہدایت اور دینِ فطرت موجود ہے، آسمان و زمین اپنی جگہ سے ٹل سکتے ہیں مگر پیغامِ محمدی میں بال برابر بھی اُونچ نیچ کی گنجائش نہیں، ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارے نوجوان ایمان و یقین کی غیرمتزلزل قوّت سے آراستہ ہوکر آگے بڑھیں، خود مسلمان بنیں، اور سائنس کو مسلمان بنائیں۔ سائنس کی مثال تلوار کی ہے، اگر وہ غازیانِ اسلام کے ہاتھ میں ہوگی تو جہاد فی سبیل اللہ کا کام دے گی، اور اگر رہزنوں کے ہاتھ میں ہوگی تو فساد فی الارض میں اضافہ کرے گی، والسلام!

مسئلہ حاضر و ناظر اور شیخ عبدالحق محدث دہلوی

س… السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ، مزاج شریف! خلاصة المرام اینکہ: بندہٴ ناچیز ماہنامہ بینات میں آپ کے مضامین پوری دلچسپی سے پڑھتا ہے جو عقائد و اعمال و اخلاق میں کافی مفید ثابت ہوتے ہیں، اور بندہ کو آپ کی علمی قابلیت پر کافی اعتماد ہے، اس لئے پیش آمدہ اشکالات کے ازالہ کے لئے آپ کی ذات ہی کو منتخب کیا ہے، امید ہے کہ آنجنابِ عالی اپنے قیمتی لمحات میں سے کچھ وقت جوابات کے لئے نکال کر محقق بات لکھ کر بندہ کی تسلی و تشفی فرمائیں گے۔

اشکال نمبر:۱:…آپ نے اختلافِ امت اور صراطِ مستقیم ص:۴۰ پر حاضر و ناظر کے مسئلہ پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا ہے:

“آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں یہ عقیدہ کہ آپ ہر جگہ موجود ہیں اور کائنات کی ایک ایک چیز آپ کی نظر میں ہے، بداہتِ عقل کے اعتبار سے بھی صحیح نہیں، چہ جائیکہ یہ شرعاً درست ہو، یہ صرف اللہ تعالیٰ کی صفت ہے اور اس کو کسی دوسری شخصیت کے لئے ثابت کرنا غلط ہے۔”

اِدھر آپ کا نظریہ پڑھا، اُدھر شیخ اجل حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمة اللہ علیہ اپنے رسالہ “اقرب التوسل بالتوجہ الی سیّد الرسل بر حاشیہ اخبار الاخیار” ص:۱۷۰ میں فرماتے ہیں:

“وبا چندیں اختلافات و کثرتِ مذاہب کہ در علمائے امت ست یک کس را اختلافے نیست کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم باحقیقت بے شائبہ مجاز تو ہم تاویل باقی ست و بر اعمال امت حاضر و ناظر است۔”

اس عبارت سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ حضرت محدث دہلوی کے زمانے تک حاضر و ناظر کے مسئلے میں امتِ محمدیہ کے کسی ایک فرد نے بھی اختلاف نہیں کیا۔ شاہ صاحب کے زمانے کے بعد کسی کا اختلاف شاہ صاحب کے قول کو باطل نہیں کرسکتا۔ نیز اس میں براعمالِ امت کا لفظ ہے، اگر امت کو امتِ اجابت و دعوت دونوں کے لئے عام رکھا جائے اور ابتدا سے انتہا تک تمام کائنات کے احوال کو نگاہِ رسالت پر منکشف مانا جائے، اس میں کون سا استحالہ لازم آتا ہے؟ جیسا کہ شیخ رحمہ اللہ خود تصریح فرما رہے ہیں:

“ہر چہ در دنیا ست از زمان آدم تا نفخہٴ اولیٰ بروے صلی اللہ علیہ وسلم منکشف ساختند تا ہمہ احوال اورا از اول تا آخر معلوم گردید۔” (مدارج النبوة ج:۱)

اور اس بارے میں طبرانی کی حدیث بھی موجود ہے:

“ان الله قد رفع لی الدنیا وانی انظر الیھا والی ما ھو کائن فیھا۔”

نیز یہی شیخ رحمة اللہ علیہ مدارج النبوة ج:۲ ص:۷۸۷ مطبوعہ نولشکور میں فرماتے ہیں:

“بدانکہ وے صلی اللہ علیہ وسلم مے بیند ومے شنود کلام ترا زیرا کہ وے متصف است بہ صفات اللہ تعالیٰ ویکے از صفات الٰہی آنست کہ “انا جلیس من ذکرنی” وپیغمبر را صلی اللہ علیہ وسلم نصیب وافر ست ازیں صفت۔”

نیز مدارج النبوة ج:۲ ص:۷۸۹ مطبوعہ نولشکور میں فرماتے ہیں:

“وصیت میکنم ترا اے برادر! بدوام ملاحظہ صورت و معنی او اگرچہ باشی تو بتکلف و مستحقر پس نزدیک است کہ الفت گیرد روح تو بوے، پس حاضر آید تراوے صلی اللہ علیہ وسلم عیانا ویابی اورا، وحدیث کنی باوے وجواب دہد تراوی وحدیث گوید باد و خطاب کند ترا، پس فائز شوی بدرجہ صحابہ عظام دلاحق شوی بایشاں انشاء اللہ تعالیٰ۔”

موجودہ علماء کی فہم و فراست بھی مسلّم، لیکن متقدمین علماء کی فہم و فراست یقینا بدرجہا فائق ہے۔ جن دلائل کی بنا پر مسئلہ حاضر و ناظر کی تردید کی جاتی ہے کیا وہ دلائل حضرت محدث مرحوم کے سامنے نہ تھے؟ اگر حاضر و ناظر کا عقیدہ شرک ہوتا تو ایسے عظیم المرتبت شیخ اس عقیدہ کو متفق علیہ علمائے امت کیسے فرماتے ہیں؟ کیا تمام اکابر شرک میں مبتلا تھے؟ نعوذ بالله من ذالک! اگر آپ کا نظریہ صحیح ہے تو ان عباراتِ بالا کا کیا جواب ہے؟

امید ہے کہ آپ میری اس بات سے پوری تحقیق سے کامل تشفی فرمائیں گے، اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے۔

الجواب

مسئلہ حاضر و ناظر کے سلسلے میں اس ناکارہ نے یہ لکھا تھا:

“آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں سب جانتے ہیں کہ آپ روضہٴ اطہر میں استراحت فرما ہیں، اور دنیا بھر کے مشتاقانِ زیارت وہاں حاضری دیتے ہیں۔ اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں یہ عقیدہ کہ آپ ہر جگہ موجود ہیں اور کائنات کی ایک ایک چیز آپ کی نظر میں ہے، بداہتِ عقل کے اعتبار سے بھی صحیح نہیں، چہ جائیکہ یہ شرعاً درست ہو۔ یہ صرف اللہ تعالیٰ کی صفت ہے اور اس کو کسی دوسری شخصیت کے لئے ثابت کرنا غلط ہے۔”

حضرت اقدس شاہ عبدالحق محدث دہلوی قدس سرہ کا عقیدہ بھی یہی ہے، چنانچہ وہ اپنے رسالہ “تحصیل البرکات بہ بیان معنی التحیات” میں (جو کتاب المکاتیب والرسائل میں اڑتیسواں رسالہ ہے) “السلام علیک ایھا النبی ورحمة الله وبرکاتہ” کے ذیل میں لکھتے ہیں:

“اگر گویند کہ خطاب مر حاضر رابود، و آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دریں مقام نہ حاضر است بس توجیہ ایں خطاب چہ باشد؟

جوابش آنست کہ چوں ورود ایں کلمہ دراصل یعنی در شبِ معراج بصیغہ خطاب بود، دیگر تغیرش ندادند وبرہماں اصلی گزاشتند۔

ودر شرح صحیح بخاری میگوید کہ صحابہ در زمان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بصیغہ خطاب میگفتند وبعد از زمانِ حیاتش ایں چین میگفتند السلام علی النبی ورحمة الله وبرکاتہ، نہ بلفظ خطاب۔”

(تحصیل البرکات بہ بیان معنی التحیات ص:۱۸۹)

ترجمہ:…”اگر کہا جائے کہ خطاب تو حاضر کو ہوتا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس مقام میں حاضر نہیں، پس اس خطاب کی توجیہ کیا ہوگی؟

جواب اس کا یہ ہے کہ چونکہ اصل میں یعنی شبِ معراج میں یہ کلمہ صیغہٴ خطاب کے ساتھ وارد ہوا تھا، اس لئے اس کو اپنی اصل حالت پر رکھا گیا، اور اس میں کوئی تغیر نہیں کیا گیا۔

اور صحیح بخاری کی شرح میں لکھتے ہیں کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں صیغہٴ خطاب کے ساتھ سلام کہتے تھے اور آپ کے وصال کے بعد “السلام علی النبی ورحمة الله وبرکاتہ” کہتے تھے، خطاب کا صیغہ استعمال نہیں کرتے تھے۔”

اور مدارج النبوة باب پنجم میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خصائص و فضائل کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

“وازاں جملہ خصائص ایں را نیز ذکر کردہ اند کہ مصلّی خطاب میکند آنحضرت را صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بقول خود السلام علیک ایہا النبی ورحمة الله وبرکاتہ وخطاب نمی کند غیر اورا۔

اگر مراد بایں اختصاص آں داشتہ اند کہ سلام برغیر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بخصوص واقع نہ شدہ است پس ایں معنی موافق است بحدیثے کہ از ابن مسعود رضی اللہ عنہ آمدہ است۔

․․․․․․ واگر مراد ایں دارند کہ خطاب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم باوجود غیبت از خصائص است، نیز وجہے دارد۔

ووجہ ایں میگویند کہ چوں دراصل شبِ معراج درود بصیغہٴ خطاب بود کہ از جانب رب العزت سلام آمد بر حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بعد ازاں ہم بریں صیغہ گزاشتند۔

ودر کرمانی شرح صحیح البخاری گفتہ است کہ صحابہ بعد از فوت حضرت السلام علی النبی میگفتند، نہ بصیغہٴ خطاب،و الله اعلم!”

ترجمہ:…”اور علماء نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خصائص میں ایک یہ بات ذکر کی ہے کہ نمازی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو السلام علیک ایہا النبی ورحمة الله وبرکاتہ کہہ کر خطاب کرتا ہے، آپ کے سوا کسی دوسرے کو خطاب نہیں کرتا۔

اگر خصوصیت سے علماء کی مراد یہ ہے کہ نماز میں سلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا خصوصیت کے ساتھ کسی دوسرے کے لئے واقع نہیں ہوا تو یہ مضمون اس حدیث کے موافق ہے جو حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔

اور اگر علماء کی مراد یہ ہو کہ غائب ہونے کے باوجود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب کرنا آپ کی خصوصیات میں سے ہے تو یہ بات بھی ایک معقول وجہ رکھتی ہے، اور اس کی وجہ یہ بتلاتے ہیں کہ چونکہ دراصل شبِ معراج میں دُرود صیغہٴ خطاب کے ساتھ تھا کہ حضرت رب العزت کی جانب سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کہا گیا، اس لئے بعد میں اسی صیغہ کو برقرار رکھا گیا۔

اور کرمانی شرح صحیح بخاری میں ہے کہ صحابہ کرام، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد “السلام علی النبی” کہتے تھے، صیغہٴ خطاب کے ساتھ نہیں کہتے تھے، والله اعلم!”

(ج:۱ ص:۱۶۵)

حضرت شیخ محدث دہلوی قدس سرہ کی ان عبارتوں سے ایک تو یہ معلوم ہوا کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حاضر و ناظر نہیں سمجھتے، بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو غائب تسلیم کرتے ہوئے سلام بصیغہٴ خطاب کی توجیہ فرماتے ہیں۔ دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ شیخ رحمہ اللہ سے پہلے کے علماء بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حاضر و ناظر ہونے کا عقیدہ نہیں رکھتے تھے۔ اور تیسری بات یہ معلوم ہوئی کہ حضراتِ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی حاضر و ناظر کا عقیدہ نہیں رکھتے تھے، چنانچہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفاتِ شریفہ کے بعد التحیات میں “السلام علیک ایہا النبی” کے بجائے غائب کا صیغہ استعمال کرتے اور “السلام علی النبی” کہا کرتے تھے۔

واضح رہے کہ شیخ رحمہ اللہ نے جو بات کرمانی شرح بخاری کے حوالے سے نقل کی ہے وہ صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ فرماتے ہیں:

“جب تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان موجود تھے ہم التحیات میں “السلام علیک ایہا النبی” پڑھا کرتے تھے، مگر جب آپ کا وصال ہوگیا تو ہم اس کے بجائے “السلام علی النبی” کہنے لگے۔” (صحیح بخاری ج:۲ ص:۹۲۶)

اس ناکارہ نے “اختلافِ امت اور صراطِ مستقیم” میں اس حدیث کو نقل کرکے لکھا تھا:

“صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا مقصد اس سے یہ بتانا تھا کہ التحیات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب کے صیغہ سے جو سلام کہا جاتا ہے وہ اس عقیدہ پر مبنی نہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہر جگہ حاضر و موجود ہیں اور ہر شخص کے سلام کو خود سماعت فرماتے ہیں، نہیں! بلکہ خطاب کا صیغہ اللہ تعالیٰ کے سلام کی حکایت ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو شبِ معراج میں فرمایا گیا تھا۔” (ص:۴۷)

اس تمہید کے بعد شیخ رحمہ اللہ کی ان عبارتوں کی وضاحت کرتا ہوں جن کا آپ نے حوالہ دیا ہے۔

۱:…”اقرب الی التوسل” کی جو عبارت آپ نے نقل کی ہے اس میں آپ کے نسخے میں شاید طباعت کی غلطی سے ایک لفظ رہ گیا ہے، جس سے مطلب سمجھنے میں اُلجھن پیدا ہوگئی ہے، میرے سامنے “المکاتیب والرسائل” مجتبائی نسخہ ہے جو ۱۲۹۷ھ میں شائع ہوا تھا، اس میں یہ عبارت صحیح نقل کی ہوئی ہے، اور وہ اس طرح ہے:

“وباچندیں اختلافات و کثرت مذاہب کہ در علمائے امت است یک کس را خلافے نیست کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بحقیقت حیات بے شائبہ مجاز و توہم تأویل دائم وباقی ہست، وبر اعمال امت حاضر وناظر، ومر طالبان حقیقت را ومتوجہان آنحضرت را مفیض و مربی است۔” (ص:۹۵)

ترجمہ:…”اور باوجود اس قدر اختلافات اور کثرتِ مذاہب کے جو علمائے اُمت میں موجود ہیں ایک شخص کو بھی اس میں اختلاف نہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حیاتِ حقیقی کے ساتھ، جس میں مجاز اور تأویل کے وہم کا کوئی شائبہ نہیں، دائم و باقی ہیں۔ اور اُمت کے اعمال پر حاضر و ناظر ہیں، اور طالبانِ حقیقت اور اپنی طرف متوجہ ہونے والوں کو فیض پہنچاتے ہیں اور ان کی تربیت فرماتے ہیں۔”

اس عبارت میں زیر بحث مسئلہ حاضر و ناظر سے تعرض نہیں بلکہ یہ ذکر کیا گیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو روضہٴ اطہر میں حیاتِ حقیقیہ حاصل ہے، آپ کی بارگاہِ عالی میں امت کے اعمال پیش کئے جاتے ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم طالبانِ حقیقت کو بدستور افاضہٴ باطنی فرماتے ہیں۔

پس “بر اعمال امت حاضر و ناظر” کا وہی مطلب ہے جو عرضِ اعمال کی احادیث میں بیان کیا گیا ہے۔ حضرت شیخ رحمہ اللہ خصائصِ نبوی کے بیان میں لکھتے ہیں:

“وازاں جملہ آنست کہ عرض کردہ می شود بر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اعمالِ امت واستغفار می کند مر ایشاں را وروایت کردہ است ابن المبارک از سعید بن المسیب کہ ہیچ روزے نیست مگر آنکہ عرض کردہ میشود بر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اعمال امت صبح و شام وی شناسد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایشاں را بسیمائے ایشاں واعمال ایشاں۔”

ترجمہ:…”اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خصائص میں سے ایک یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں امت کے اعمال پیش کئے جاتے ہیں اور آپ ان کے لئے استغفار فرماتے ہیں۔ ابن مبارک، سعید بن مسیب سے روایت کرتے ہیں کہ کوئی دن نہیں گزرتا مگر یہ کہ امت کے اعمال صبح و شام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کئے جاتے ہیں، اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم انہیں ان کی علامتوں سے اور ان کے اعمال سے پہچانتے ہیں۔”

الغرض! آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم روضہٴ اقدس میں استراحت فرما ہیں اور وہیں آپ پر امت کے اعمال پیش کئے جاتے ہیں، اور انہیں ملاحظہ فرماتے ہیں، یہ نہیں آپ ہر جگہ موجود ہیں اور ہر شخص کے ہر عمل کو بچشم خود ملاحظہ فرماتے ہیں، کیونکہ جیسا کہ اوپر معلوم ہوچکا ہے اس بات کے نہ حضرت شیخ دہلوی خود قائل ہیں، نہ ان سے پہلے کے اہل علم قائل تھے، اور نہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ہی یہ عقیدہ رکھتے تھے، ورنہ نماز میں “السلام علیک ایہا النبی” کہنے پر ان کو اشکال نہ ہوتا، اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اس کے بجائے “السلام علی النبی” بصیغہٴ غائب کہنے کی ضرورت محسوس نہ کرتے، والله الموفق!

۲:…مدارج النبوة جلد اول کے حوالے سے جو ذکر فرمایا ہے کہ: “دنیا اول سے آخر تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر منکشف کی گئی ہے اور آپ کو اول سے آخر تک اس کے تمام حالات معلوم ہوگئے” اور طبرانی کی جو حدیث نقل کی ہے کہ: “اللہ تعالیٰ نے میرے سامنے دنیا کو پیش کیا، درآں حالیکہ میں اس کی طرف اور جو کچھ اس میں ہونے والا ہے اس کی طرف دیکھ رہا تھا” اس سے یہ مراد نہیں کہ کائنات کے ذرّہ ذرّہ کا علم آپ کو ہر لمحہ رہتا ہے، یا یہ کہ کائنات کے ذرّہ ذرّہ کے پاس آپ حاضر و ناظر ہیں، بلکہ مراد اس سے کشف اور روٴیت ہے، اس کی مثال ایسی سمجھ لیجئے کہ آپ کسی معزز مہمان کو اپنے کارخانے کی سیر کراتے ہیں، پورا کارخانہ اس کی نظر کے سامنے ہے اور اس کے سارے حالات اسے معلوم ہوگئے، اس کے باوجود یہ نہیں کہہ سکتے کہ اس معزز مہمان کو کارخانے کی ایک ایک چیز کا تفصیلی علم ہوگیا اور نہ یہ لازم آتا ہے کہ اس کارخانے کی ادنیٰ ادنیٰ جزئیات اس کے ذہن میں ہر لمحہ محفوظ رہا کریں، حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی لکھتے ہیں:

“واز جملہ معجزاتِ باہرہ وے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بودن اوست مطلع برغیوب، وخبر دادن بانچہ حادث خواہد شد از کائنات، علمِ غیب اصالة مخصوص است بہ پروردگار تعالیٰ وتقدس کہ علام الغیوب است و ہرچہ بر زبان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وبعضے از تابعان وے ظاہر شدہ بوحی یا بالہام۔ ودر حدیث آمدہ است: والله! انی لا اعلم الا ما علمنی ربی۔”

(مدارج النبوة ج:۱ ص:۲۴۶)

ترجمہ:…”اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزاتِ باہرہ میں سے ایک آپ کا مطلع ہونا ہے غیب کی چیزوں پر، اور خبر دینا ہے کائنات کے ان حوادث کی جو آئندہ واقع ہوں گے۔ علمِ غیب دراصل مخصوص ہے پروردگار تعالیٰ و تقدس کے ساتھ جو کہ علام الغیوب ہے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانِ مبارک پر یا آپ کے بعض پیرووں کی زبان پر جو کچھ ظاہر ہوا وہ وحی و الہام کے ذریعہ ہے، اور حدیث میں آیا ہے کہ: اللہ کی قسم! میں نہیں جانتا مگر جو کچھ میرے رب نے مجھے سکھایا ہے۔”

حضرت شیخ رحمہ اللہ نے اس مقام پر جو کچھ فرمایا ہے اس ناکارہ نے یہی کچھ “اختلافِ امت اور صراطِ مستقیم” میں رقم کیا تھا، شیخ رحمہ اللہ کی اس عبارت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ علمِ غیب اور چیز ہے اور غیب کی باتوں پر بذریعہ وحی یا الہام کے مطلع ہوجانا دوسری چیز ہے۔ علمِ غیب خاصہٴ خداوندی ہے جس میں کوئی دوسرا شریک نہیں اور اطلاع علی الغیب بذریعہ وحی اور الہام کی دولت حضراتِ انبیاء کرام علیہم السلام اور اولیاء عظام رحمہم اللہ کو حسبِ مراتب حاصل ہے۔

۳:…تیسری عبارت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تصور اور آپ کی صورتِ مبارکہ کے استحضار سے متعلق ہے۔ حضرت شیخ رحمہ اللہ تعالیٰ اس سے پہلے اس امر کو بیان فرما رہے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلق پیدا کرنے اور آپ کی ذاتِ بابرکات سے فیض حاصل کرنے کی دو صورتیں ہیں۔ ایک ظاہری اور دوسری معنوی۔ اور تعلق معنوی کی دو قسمیں ہیں۔ اول یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صورتِ مبارکہ کا دائمی استحضار رکھا جائے (قسم اوّل: استحضار آں صورت بدیع مثال)۔

اور اس استحضار کے مختلف طریقے بتاتے ہوئے لکھتے ہیں کہ: تمہیں کبھی خواب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جمالِ جہاں آرا کی زیارت کا شرف حاصل ہوا ہے تو اسی صورتِ مبارکہ کا استحضار کرو جو خواب میں نظر آئی تھی، اور اگر کبھی خواب میں زیارت نصیب نہیں ہوئی تو:

“ذکر کن اورا و درود بفرست بروے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وباش در حال ذکر گویا حاضر است درپیش در حالتِ حیات، ومی بینی تو اورا متادب باجلال و تعظیم و ہمت و حیا۔”

ترجمہ:…”آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یاد کر، اور آپ پر درود بھیج اور یاد کرنے کی حالت میں ایسا ہو کہ گویا تم آپ کی حیات میں سامنے حاضر ہو، اور تم اجلال و تعظیم اور ہمت و حیا کے ساتھ آپ کو دیکھ رہے ہو۔”

آگے وہی عبارت ہے جو آپ نے نقل کی ہے، پس یہ ساری گفتگو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے معنوی تعلق پیدا کرنے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صورتِ مبارکہ کا ذہن میں استحضار رکھنے سے متعلق ہے، خود سوچئے کہ ہمارے زیر بحث مسئلہ حاضر و ناظر سے اسے کیا تعلق ہے؟

۴:…اسی طرح آپ کی نقل کردہ آخری عبارت بھی زیر بحث مسئلہ سے تعلق نہیں رکھتی، بلکہ جیسا کہ خود اسی عبارت میں موجود ہے: “دوام ملاحظہ صورت ومعنی” کے ذریعہ روحِ نبوی سے تعلق پیدا کرنے کی تدبیر بتائی گئی ہے، جس کا حاصل وہی مراقبہ و استحضار ہے۔ اور اس دوام و استحضار کا نتیجہ یہ ذکر فرمایا گیا ہے کہ: “پس حاضر آید تراوے صلی اللہ علیہ وسلم عیانا” یعنی بذریعہ کشف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت ہوجانا۔

جس طرح خواب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت ہوتی ہے، اسی طرح بعض اکابر کو بیداری میں زیارت ہوتی ہے، (اور شیخ رحمہ اللہ اسی دولت کے حصول کی تدبیر بتارہے ہیں) مگر اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حاضر و ناظر مانا جائے، یا یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم روضہٴ مقدسہ سے باہر تشریف لے آئیں، بلکہ خواب کی طرح بیداری میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت متمثل ہوجاتی ہے۔ چنانچہ شیخ رحمہ اللہ نے “مدارج النبوة” (قسم اول باب پنجم) میں اس مسئلہ پر طویل گفتگو کی ہے، اس کے آخر میں فرماتے ہیں:

“وہمچنا کہ جائز است کہ در منام جوہر شریف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم متصور و متمثل گردد بے شوب شیطان، در یقظہ نیز حاصل گردد و آنچہ نائم در نوم می بیند مستیقظ در یقظہ بہ نیند ․․․․․․ و تمثیل ملکوتی بصورت ناسوتی امرے مقرر است، وایں مستلزم نیست کہ آنحضرت علیہ السلام از قبر برآمدہ باشد۔

بالجملہ دیدن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بعد از موت مثال است، چنانچہ در نوم مرئی شود در یقظہ نیز می نماید۔ وآں شخص شریف کہ در مدینہ در قبر آسودہ وحی است ہماں متمثل میگردد و دریک آن متصور بصور متعددہ، عوام را در منام می نماید و خواص را در یقظہ۔”

ترجمہ:…”جس طرح یہ جائز ہے کہ خواب میں شیطانی تمثل کی آمیزش کے بغیر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جوہر شریف متصور اور متمثل ہوجائے اسی طرح بیداری میں بھی یہ چیز حاصل ہوجائے، اور جس چیز کو سونے والا خواب میں دیکھتا ہے، بیدار اسے بیداری میں دیکھ لے ․․․․․․ اور ملکوتی چیز کا ناسوتی شکل میں متمثل ہوجانا ایک طے شدہ امر ہے، اور اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بنفس نفیس روضہٴ اطہر سے باہر تشریف لے آئیں۔

خلاصہ یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کی وفات کے بعد دیکھنا بصورتِ مثال ہوتا ہے، وہ مثال جیسا کہ خواب میں نظر آتی ہے، بیداری میں بھی نظر آتی ہے اور وہ ذاتِ اقدس جو مدینہ طیبہ میں روضہٴ مقدسہ میں استراحت فرما ہیں اور زندہ ہیں، وہی بصورتِ مثال متمثل ہوتی ہے، اور ایک آن میں متعدد صورتوں میں متمثل ہوتی ہے، عوام کو خواب میں نظر آتی ہے اور خواص کو بیداری میں۔”

شیخ رحمہ اللہ کی اس عبارت سے واضح ہوجاتا ہے کہ خواب یا بیداری میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت بصورتِ مثال ہوتی ہے، یہ نہیں کہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم قبر شریف سے نکل کر دیکھنے والے کے پاس آجاتے ہوں۔ خلاصہ یہ کہ حاضر و ناظر کے مسئلے میں شیخ رحمہ اللہ کا عقیدہ وہی ہے جو اس ناکارہ نے لکھا تھا، شیخ رحمہ اللہ کی ان عبارتوں میں جو آپ نے نقل کی ہیں، اس مسئلہ سے کوئی تعرض نہیں۔

۵:…شیخ نور اللہ مرقدہ نے اپنی متعدد کتابوں میں بعض عارفین کے حوالے سے لکھا ہے کہ حقیقتِ محمدیہ تمام کائنات میں ساری ہے، چنانچہ “السلام علیک ایہا النبی” کی بحث میں مدارج النبوة کی جو عبارت اوپر گزر چکی ہے، اس کے متصل فرماتے ہیں:

“و در بعضے کلام بعضے عرفا واقع شدہ کہ خطاب از مصلّی بملاحظہ شہود روحِ مقدس آنحضرت و سریان وے در زواری موجودات خصوصاً در ارواحِ مصلیین است وبالجملہ دریں حالت از شہود وجود حضور از آنحضرت غافل و ذاہل نباید بود، بامید ورود فیوض از روح پر فتوح وے صلی اللہ علیہ وسلم۔”

(مدارج النبوة ج:۱ ص:۱۶۵)

یہی مضمون “تحصیل البرکات”، “لمعات” اور “اشعة اللمعات” میں بھی ذکر فرمایا ہے۔

اس سے بعض حضرات کو یہ وہم ہوا کہ شیخ رحمہ اللہ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حاضر و ناظر ہونے کا عقیدہ رکھتے ہیں، حالانکہ “حقیقتِ محمدیہ”، “حقیقتِ کعبہ” اور “حقیقتِ قرآن” حضراتِ عارفین کی خاص اصطلاحات ہیں، جن کا سمجھنا عقولِ عامہ سے بالاتر چیز ہے، حضراتِ عارفین کے حقائق و معارف اپنی جگہ برحق ہیں، مگر انہیں اپنی فہم کے پیمانے میں ڈھال کر ان پر عقائد کی بنیاد رکھنا بڑی بے انصافی ہے۔

ڈارون کا نظریہٴ ارتقا اور اسلام

“گزشتہ دنوں یہاں کے ایک ڈاکٹر صاحب نے جو “تنظیم اسلامی” کے بانی ہیں، امریکہ جاکر اپنے خطبات میں یہ فرمایا کہ: “حضرت آدم علیہ السلام کی جسمانی تخلیق کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ فرمایا (اور جو احادیثِ صحیحہ میں محفوظ ہے) وہ صحیح نہیں، کیونکہ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا میدان نہیں تھا، اس لئے اس مسئلے میں اُمت کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد لائقِ التفات نہیں، بلکہ فلاسفہ طبیعیین (ڈارون واَتباعہ) نے جو نظریہٴ ارتقا پیش کیا ہے وہ صحیح ہے۔” اس سلسلے میں متعدّد حضرات نے ہمیں خطوط بھیجے، ان میں سے ایک کا جواب مع اصل خط کے قارئین کی خدمت میں پیش کیا جارہا ہے۔” (سعید احمد جلال پوری)

س… کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرعِ متین اس مسئلے میں کہ ایک شخص عقیدہ رکھتا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام روح ڈالے جانے سے پہلے بھی زندہ تھے مگر حیوان کی شکل میں، اور اس حیوانی شکل میں بھی وہ جمادات و نباتات کے مراحل سے گزر کر پہنچے تھے۔ والله أنبتکم من الأرض نباتا۔ الآیة۔ اس آیتِ کریمہ سے وہ شخص اپنے اسی عقیدہ پر استدلال لیتا ہے، حضرت آدم علیہ السلام کی روح ڈالے جانے سے پہلے کی کیفیت کو وہ شخص “حیوان آدم” قرار دیتا ہے۔

یہ شخص حضرت آدم علیہ السلام کی جسمانی تخلیق کی بابت انہی مراحل سے گزر کر حیوان کی شکل تک پہنچنے کا عقیدہ رکھتا ہے، جن مراحل کا تذکرہ ڈارون نے اپنے “نظریہٴ ارتقا” میں کیا ہے۔

حضرت آدم علیہ السلام کی جسمانی تخلیق سے متعلق جناب رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صریح صحیح اور واضح احادیثِ مبارکہ کو یہ شخص درخور اعتنا نہیں سمجھتا، چونکہ اس کے نزدیک صرف وہ احادیث قابلِ اتباع ہیں جو علم الاحکام یا حلال و حرام سے متعلق ہوں، علم الحقائق اور حکمت سے متعلق احادیث کی بات ان کے نزدیک دوسری ہے۔

یہ شخص کہتا ہے کہ جو کوئی سمجھتا ہو کہ حضرت آدم علیہ السلام کا مٹی کا پُتلا بنایا گیا تھا اور پھر اس بے جان پُتلے میں روح پھونکی گئی تھی تو یہ کفر تو نہیں ناسمجھی ضرور ہے۔

یہ شخص حضرت آدم علیہ السلام کی جسمانی تخلیق سے متعلق تفصیل و تحقیق کو “امورِ دنیا” میں سے قرار دیتا ہے، پھر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حضراتِ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو کھجوروں کی پیوندکاری کے بابت: “أنتم أعلم بأمور دنیاکم!” والی حدیث کو اپنے لئے دلیل کے طور پر پیش کرتا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کی جسمانی تخلیق سے متعلق اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی واضح موقف اختیار نہیں فرمایا تو کوئی بات نہیں کہ یہ معاملہ اُمورِ دنیا میں سے ہے جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا میدانِ کار نہیں۔

یہ شخص مذکورہ تمام باتیں برسرِ منبر جمعہ کے خطبہ میں لوگوں کے سامنے بیان کرتا ہے، اس شخص کی متذکرہ بالا باتوں کی روشنی میں دریافت طلب اُمور یہ ہیں:

Y:…کیا اس شخص کے مذکورہ بالا عقائد کو اہل سنت والجماعت کے عقائد کہا جاسکتا ہے؟

Y:…حضرت آدم علیہ السلام کی جسمانی تخلیق سے متعلق احادیث کے بارے میں اس شخص کا رویہ گستاخی اور گمراہی نہیں ہے؟

Y:…حضرت آدم علیہ السلام کو “حیوان آدم” کہنا گستاخی نہیں ہے؟

Y:…کیا یہ شخص تفسیر بالرائے کا مرتکب نہیں ہوا؟

Y:…آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلافِ امت کا عقیدہ حضرت آدم علیہ السلام کے مٹی کے پُتلے سے بنائے جانے کا ہے یا نہیں؟

Y:…اس شخص کی بیعت یا کسی قسم کا تعلق اس کے ساتھ آپ کے نزدیک کیسا ہے؟ کتاب و سنت کی روشنی میں تفصیلات سے آگاہ فرماکر ثوابِ دارین حاصل کریں۔

ج…آنجناب نے ان صاحب کے جو افکار و خیالات نقل کئے ہیں، مناسب ہوگا کہ پہلے ان کا تنقیدی جائزہ لیا جائے، بعد ازاں آپ کے سوالوں کا جواب عرض کیا جائے۔

آنجناب کے سوال سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ بات ان صاحب کے علم میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت آدم علیہ السلام کی جسمانی تخلیق کے بارے میں کچھ تصریحات فرمائی ہیں، جن کو یہ صاحب “اُمورِ دنیا” قرار دیتے ہوئے لائقِ توجہ اور درخورِ اعتنا نہیں سمجھتے، اس لئے یہاں دو باتوں پر غور کرنا ضروری ہے۔

اول:…یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت آدم علیہ السلام کی جسمانی تخلیق کے بارے میں امت کو کیا بتایا ہے؟

دوم:…یہ کہ آیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ ارشادات امت کے لئے لائقِ توجہ نہیں؟

اَمرِ اوّل:

تخلیقِ آدم علیہ السلام کے بارے میں تصریحاتِ نبوی

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیقِ جسمانی کی کیفیت اور اس تخلیق کے مدارج کے سلسلے میں جو تصریحات فرمائی ہیں، ان کا خلاصہ یہ ہے کہ حق تعالیٰ شانہ نے جب حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق کا ارادہ فرمایا تو تمام روئے زمین سے مٹی کا خلاصہ لیا، پھر اس میں پانی ملاکر اس کا گارا بنایا گیا، پھر اسے ایک مدت تک پڑا رہنے دیا گیا، یہاں تک کہ وہ گارا سیاہ ہوگیا، اس سے بو آنے لگی اور اس میں چپکاہٹ کی کیفیت پیدا ہوگئی، پھر اس گارے سے حضرت آدم علیہ السلام کا ساٹھ ہاتھ لمبا قالب بنایا گیا، پھر یہ قالب کچھ عرصہ پڑا رہا یہاں تک کہ خشک ہوکر اس میں کھنکھناہٹ پیدا ہوگئی اور وہ ٹھیکری کی طرح بجنے لگا، اس دوران شیطان اس قالب کے گرد گھومتا تھا، اسے بجا بجا کر دیکھتا جاتا تھا اور کہتا تھا کہ: اس مخلوق کے پیٹ میں خلا ہے، اس لئے اپنے آپ پر قابو نہیں رکھ سکے گی۔

پھر اس بے جان قالب میں روح پھونکی گئی اور وہ جیتے جاگتے انسان بن گئے، جب ان کے نصفِ اعلیٰ میں روح داخل ہوئی تو انہیں چھینک آئی اور ان کی زبانِ مبارک سے پہلا کلمہ جو نکلا وہ “الحمدلله” تھا، جس پر حق تعالیٰ شانہ نے ان کو جواب میں فرمایا: “یرحمک ربک!” (تیرا رَبّ تجھ پر رحم فرمائے)۔ حضرت آدم علیہ السلام جس وقت پیدا کئے گئے اس وقت ان کا قد ساٹھ ہاتھ لمبا تھا، اور ان کے تمام جسمانی اعضا اور ظاہری و باطنی قویٰ کامل و مکمل تھے، ان کو نشو و نما کے ان مراحل سے گزرنا نہیں پڑا جن سے اولادِ آدم گزر کر اپنے نشو و نما کے آخری مدارج تک پہنچتی ہے۔

یہ خلاصہ ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ان بہت سے ارشادات کا جو حضرت آدم علیہ السلام کی جسمانی تخلیق کے بارے میں مروی ہیں۔ میں ان بہت سی احادیث میں سے یہاں صرف چار احادیث کے ذکر کرنے پر اکتفا کرتا ہوں۔

حدیثِ اوّل:

“عن ابی ھریرة رضی الله عنہ قال: قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: خلق الله عز وجل آدم علی صورتہ، طولہ ستون ذراعا، فلما خلقہ قال: اذھب فسلم علی اولئک النفر! وھم نفر من الملٰئکة جلوس، فاستمع ما یحیونک بہ؟ فانھا تحیتک وتحیة ذریتک۔ قال: فذھب فقال: السلام علیکم! فقالوا: السلام علیک ورحمة الله! قال: فزادوہ “ورحمة الله”۔ قال: فکل من یدخل الجنة علی صورة آدم وطولہ ستون ذراعا، فلم یزل الخلق ینقص بعدہ حتی الآن۔”

(صحیح بخاری ج:۲ ص:۹۱۹، صحیح مسلم ج:۲ ص:۳۸۰، مسند احمد ج:۲ ص:۲۴۴)

ترجمہ:…”حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ: اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو ان کی صورت پر پیدا کیا تھا، ان کا قد ساٹھ ہاتھ تھا، جب ان کو پیدا کیا گیا تو ان سے فرمایا کہ: جاوٴ! اس جماعت کو جاکر سلام کہو۔ یہ فرشتوں کی ایک جماعت بیٹھی تھی۔ پس سنو! کہ یہ تمہیں کیا جواب دیتے ہیں؟ کیونکہ یہی تمہارا اور تمہاری اولاد کا سلام ہوگا۔ چنانچہ آدم علیہ السلام نے جاکر ان فرشتوں کو “السلام علیکم!” کہا، انہوں نے جواب میں کہا: “وعلیک السلام ورحمة الله” فرشتوں نے جواب میں “ورحمة الله” کے لفظ کا اضافہ کیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: جتنے لوگ جنت میں داخل ہوں گے وہ آدم علیہ السلام کی صورت پر ہوں گے اور ان کا قد ساٹھ ہاتھ کا ہوگا، بعد میں انسانوں کے قد چھوٹے ہوتے رہے جس کا سلسلہ اب تک جاری ہے۔”

حافظ الدنیا ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد: “اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو ان کی صورت پر پیدا کیا” کی شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

“والمعنیٰ ان الله تعالیٰ اوجدہ علی الھیئة التی خلقہ علیھا لم ینتقل فی النشاة احوالا، ولا تردد فی الارحام اطوارا کذریتہ، بل خلقہ الله رجلا کاملا سویا من اول ما نفخ فیہ الروح، ثم عقب ذالک لقولہ: وطولہ ستون ذراعا۔”

(فتح الباری ج:۶ ص:۳۶۶، کتاب الانبیاء باب خلق آدم وذریتہ)

ترجمہ:…”اس ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو جس شکل و ہیئت میں پیدا فرمایا ان کو اسی ہیئت و شکل میں وجود بخشا، وہ اپنی ذریت کی طرح پیدائش کے مختلف حالات سے نہیں گزرے، نہ شکم مادر میں ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف منتقل ہوئے، بلکہ اللہ تعالیٰ نے ان کی تخلیق اس طرح فرمائی کہ نفخ روح کے وقت ہی سے وہ مردِ کامل تھے، اور ان کی تمام جسمانی قوتیں بدرجہ کمال تھیں، اسی بنا پر اس کے بعد فرمایا کہ اس وقت ان کا قدر ساٹھ ہاتھ تھا۔”

اس حدیث کی یہی تشریح اور بہت سے اکابر نے فرمائی ہے۔

حدیثِ دوم:

“عن ابی موسی الاشعری رضی الله عنہ قال: قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: ان الله تعالیٰ خلق آدم من قبضة قبضھا من جمیع الارض فجاء بنو آدم علی قدر الارض، منھم الابیض والاحمر والاسود وبین ذالک والسھل والحزن والخبیث والطیب۔”

(ترمذی ج:۲ س:۱۲۰، ابوداوٴد ج:۲ ص:۶۴۴، مسند احمد ج:۴ ص:۴۰۰، مستدرک حاکم ج:۲ ص:۲۶۱، صحیح ابن حبان، الاحسان ج:۹ ص:۱۱)

ترجمہ:…”حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: بے شک اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو پیدا کیا مٹی کی مٹھی سے، جس کو تمام زمین سے لیا تھا، چنانچہ اولادِ آدم زمین کے اندازے کے مطابق ظاہر ہوئی، ان میں کوئی سفید ہے، کوئی سرخ، کوئی کالا اور کوئی ان رنگوں کے درمیان، کوئی نرم، کوئی سخت، کوئی خبیث کوئی پاکیزہ۔”

حدیثِ سوم:

“عن انس رضی الله عنہ ان رسول الله صلی الله علیہ وسلم قال: لما صور الله آدم فی الجنة ترکہ ما شاء الله ان یترک، فجعل ابلیس یطیف بہ ینظر ما ھو، فلما راٰہ اجوف عرف انہ خلق خلقا لا یتمالک۔”

(صحیح مسلم ج:۲ ص:۳۲۷، مسند احمد ج:۳ ص:۲۴۰، مسند طیالسی ص:۳۷۰ حدیث:۲۰۳۴)

ترجمہ:…”حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: جب اللہ تعالیٰ نے جنت میں آدم علیہ السلام کا ڈھانچہ بنایا تو اس کو اسی حالت میں رہنے دیا جتنی مدت کہ اللہ تعالیٰ کو منظور تھی، تو شیطان اس کے گرد گھومنے لگا یہ دیکھنے کے لئے کہ یہ کیا چیز ہے؟ پس جب اس نے دیکھا کہ اس کے پیٹ میں خلا ہے تو اس نے پہچانا کہ اس کی تخلیق ایسی کی گئی ہے کہ یہ اپنے اوپر قابو نہیں رکھ سکے گا۔”

حدیثِ چہارم:

“عن ابی ھریرة رضی الله عنہ عن النبی صلی الله علیہ وسلم قال: ان الله خلق آدم من تراب، ثم جعلہ طینا، ثم ترکہ حتیٰ اذا کان حماء مسنونا خلقہ وصورہ، ثم ترکہ حتیٰ اذا کان صلصالا کالفخار، قال: فکان ابلیس یمر بہ فیقول: “لقد خلقت لامر عظیم!” ثم نفخ الله فیہ من روحہ، فکان اول شیء جری فیہ الروح بصرہ وخیاشیمہ، فعطس فلقاہ الله حمد ربہ، فقال الرب: یرحمک ربک! ․․․․․ الخ”

(فتح الباری ج:۶ ص:۳۶۴، مسند ابویعلیٰ ج:۶ ص:۹۷ حدیث:۶۵۴۹، مجمع الزوائد ج:۸ ص:۱۹۷)

ترجمہ:…”حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ: بے شک اللہ تعالیٰ نے بنایا آدم علیہ السلام کو مٹی سے، پھر اس مٹی میں پانی ڈال کر اس کو گوندھ دیا، پھر اس کو چھوڑ دیا یہاں تک کہ سیاہ گارا بن گیا تو اس کا قالب بنایا، پھر اس کو چھوڑ دیا، یہاں تک کہ وہ آگ میں پکی ہوئی چیز کی طرح کھنکھنانے لگا، ابلیس اس کے پاس سے گزرتا تو کہتا کہ: “تجھے کسی بڑے کام کے لئے بنایا گیا ہے!” پھر اللہ تعالیٰ نے اس قالب میں اپنی روح ڈالی، پس سب سے پہلی چیز جس میں روح جاری ہوئی وہ حضرت آدم علیہ السلام کی آنکھیں اور نتھنے تھے، پس ان کو چھینک آئی تو اللہ تعالیٰ نے ان کو “الحمدلله” کہنے کا الہام فرمایا، انہوں نے الحمدلله کہا تو اللہ تعالیٰ نے جواب میں فرمایا: “یرحمک ربک!” (تیرا رَبّ تجھ پر رحم فرمائے)۔”

ان احادیثِ شریفہ کا خلاصہ و مضمون پہلے ذکر کرچکا ہوں، اب اس پر غور فرمائیے کہ ان احادیثِ مقدسہ میں تخلیقِ آدم علیہ السلام کے جو مدارج ذکر کئے گئے اور اس تخلیق کی جو کیفیت بیان فرمائی گئی ہے، قرآن کریم کی بہت سی آیات میں اس کی تصدیق و تصویب فرمائی گئی ہے۔

اوّل:…یہ کہ حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق بلاواسطہ مٹی سے ہوئی اور یہ ان کی تخلیق کا نقطہٴ آغاز اور مبداء اول ہے، حق تعالیٰ شانہ کا ارشاد ہے:

“اِنَّ مَثَلَ عِیْسٰی عِنْدَ اللهِ کَمَثَلِ ٰادَمَ، خَلَقَہ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَہ کُنْ فَیَکُوْنُ۔” (آل عمران:۵۹)

ترجمہ:…”بے شک حالتِ عجیبہ (حضرت) عیسیٰ کی اللہ تعالیٰ کے نزدیک مشابہ حالتِ عجیبہ (حضرت) آدم کے ہے کہ ان (کے قالب) کو مٹی سے بنایا، پھر ان کو حکم دیا کہ (جاندار) ہوجا، پس وہ (جاندار) ہوگئے۔”(ترجمہ حضرت تھانوی)

دوم:…یہ کہ اس مٹی کو پانی سے گوندھا گیا، حق تعالیٰ کا ارشاد ہے:

“اِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلٰٓئِکَةِ اِنِّیْ خَالِقٌم بَشَرًا مِّنْ طِیْنٍ۔” (صٓ:۷۱)

ترجمہ:…”جب آپ کے رَبّ نے فرشتوں سے ارشاد فرمایا کہ: میں گارے سے ایک انسان (یعنی اس کے پتلے کو) بنانے والا ہوں۔” (ترجمہ حضرت تھانوی)

سوم:…یہ کہ گارا ایک عرصہ تک پڑا رہا، یہاں تک کہ سیاہ ہوگیا، اور اس میں سے بو آنے لگی، چنانچہ ارشاد ہے:

“وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ۔” (الحجر:۲۶)

ترجمہ:…”اور ہم نے انسان کو بجتی ہوئی مٹی سے، جو کہ سڑے ہوئے گارے کی بنی تھی پیدا کیا۔”

(ترجمہ حضرت تھانوی)

چہارم:…یہ کہ مزید پڑا رہنے سے اس گارے میں چپکنے کی صلاحیت پیدا ہوگئی، ارشاد ہے:

“اِنَّا خَلَقْنٰھُمْ مِّنْ طِیْنٍ لَّازِبٍ۔” (الصافات:۱۱)

ترجمہ:…”ہم نے ان لوگوں کو چپکتی مٹی سے پیدا کیا ہے۔” (ترجمہ حضرت تھانوی)

پنجم:…یہ کہ اس گارے سے قالب بنایا جو خشک ہوکر بجنے لگا، ارشاد ہے:

“وَاِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلٰٓئِکَةِ اِنِّیْ خَالِقٌم بَشَرًا مِّنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ۔” (الحجر:۲۸)

ترجمہ:…”اور جب آپ کے رب نے ملائکہ سے فرمایا کہ میں ایک بشر کو بجتی ہوئی مٹی سے جو کہ سڑے ہوئے گارے سے بنی ہوگی، پیدا کرنے والا ہوں۔”

“خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ کَالْفَخَّارِ۔ وَخَلَقَ الْجَآنَّ مِنْ مَّارِجٍ مِّنْ نَّارٍ۔” (الرحمن:۱۴،۱۵)

ترجمہ:…”اس نے انسان کو ایسی مٹی سے جو ٹھیکرے کی طرح بجتی تھی، پیدا کیا، اور جنات کو خالص آگ سے پیدا کیا۔” (ترجمہ حضرت تھانوی)

ششم:…یہ کہ جب حضرت آدم علیہ السلام کا قالب مندرجہ بالا مدارج سے گزرچکا تو اس میں روح پھونکی گئی اور یہ ان کی تخلیق کی تکمیل تھی، ارشاد ہے:

“اِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلٰٓئِکَةِ اِنِّیْ خَالِقٌم بَشَرًا مِّنْ طِیْنٍ۔ فَاِذَا سَوَّیْتُہ وَنَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رُّوْحِیْ فَقَعُوْا لَہ سٰجِدِیْنَ۔” (صٓ:۷۱،۷۲)

ترجمہ:…”جب آپ کے رب نے فرشتوں سے ارشاد فرمایا کہ میں گارے سے ایک انسان (یعنی اس کے پتلے کو) بنانے والا ہوں، سو جب میں اس کو پورا بناچکوں اور اس میں اپنی طرف سے روح ڈال دوں تو تم سب اس کے آگے سجدے میں گر پڑنا۔” (ترجمہ حضرت تھانوی)

اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو اپنے ہاتھوں سے بنایا

قرآن کریم میں یہ بھی صراحت فرمائی گئی ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھوں سے فرمائی، چنانچہ ارشاد ہے:

“قَالَ یٰٓاِبْلِیْسُ مَا مَنَعَکَ اَنْ تَسْجُدَ لِمَا خَلَقْتُ بِیَدَیَّ۔” (صٓ:۷۵)

ترجمہ:…”حق تعالیٰ نے فرمایا کہ: اے ابلیس جس چیز کو میں نے اپنے ہاتھوں سے بنایا اس کو سجدہ کرنے سے تجھ کو کون چیز مانع ہوئی؟” (ترجمہ حضرت تھانوی)

یہ تو ظاہر ہے کہ ساری کائنات حق تعالیٰ شانہ ہی کی پیدا کردہ ہے، مگر حضرت آدم علیہ السلام کے بارے میں جو ارشاد فرمایا کہ: “میں نے اس کو اپنے ہاتھوں سے بنایا” اس سے حضرت آدم علیہ السلام کی عظمت و شرف کا اظہار مقصود ہے۔ یعنی ان کی تخلیق توالد و تناسل کے معروف طریقہ سے نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو بدستِ خود مٹی سے بنایا اور ان میں رُوح پھونکی، چنانچہ امام ابوالسعود رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:

“ای خلقہ بالذات من غیر توسط أب وأم۔”

(تفسیر ابی السعود ج:۷ ص:۳۲۶)

ترجمہ:…”یعنی میں نے ان کو ماں باپ کے واسطے کے بغیر بذاتِ خود پیدا فرمایا۔”

اس تفسیر سے معلوم ہوا کہ حضرت آدم علیہ السلام کے بارے میں: “خَلَقْتُ بِیَدَیَّ” (بنایا میں نے اس کو اپنے ہاتھوں سے) فرمانا، اس حقیقتِ کبریٰ کا اظہار ہے کہ ان کی تخلیق تولید و تناسل کے معروف ذرائع سے نہیں ہوئی، یہیں سے اہل عقل کو یہ سمجھنا چاہئے کہ جس شخصیت کی تخلیق میں ماں اور باپ کا واسطہ بھی قدرت کو منظور نہ ہوا، اس کے بارے میں یہ دعویٰ کرنا کہ: “وہ جمادات، نباتات، حیوانات اور بندروں کی “جون” تبدیل کرتے ہوئے انسانی شکل میں آیا” کتنی بڑی ستم ظریفی ہوگی․․․! الغرض “خلقت بیدی” کے قرآنی الفاظ سے جہاں حضرت آدم علیہ السلام کے توالد و تناسل کے ذریعہ پیدا ہونے کی نفی ہوتی ہے، وہاں ان کے جمادات، نباتات اور حیوانوں اور بندروں سے ارتقائی مراحل طے کرتے ہوئے انسان بننے کی بدرجہ اَولیٰ نفی ہوتی ہے، اس لئے اہل ایمان کے نزدیک حق وہی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اور جس کی تفصیلات اوپر گزر چکی ہیں۔

حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق کے بارے میں انبیاء کرام علیہم السلام کا عقیدہ

قرآن کریم کے ارشاد: “خلقت بیدی” (بنایا میں نے اس کو اپنے ہاتھوں سے) کے مفہوم کو اچھی طرح ذہن نشین کرنے کے بعد اب اس پر بھی غور فرمائیے کہ اس بارے میں حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کا عقیدہ کیا تھا؟

حدیث کی قریباً تمام معروف کتابوں (صحیح بخاری، صحیح مسلم، ابوداوٴد، ترمذی، ابن ماجہ، موٴطا امام مالک اور مسند احمد وغیرہ) میں حضرت موسیٰ اور حضرت آدم علیہما السلام کا مباحثہ مذکور ہے، حضرت موسیٰ علیہ السلام نے حضرت آدم علیہ السلام سے فرمایا:

“انت آدم الذی خلقک الله بیدہ ونفخ فیک من روحہ واسجد لک ملٰئکتہ واسکنک فی جنتہ۔”

(مشکوٰة ص:۱۹)

ترجمہ:…”آپ وہی آدم (علیہ السلام) ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے ہاتھ سے بنایا اور اس میں اپنی طرف سے روح ڈالی اور آپ کو اپنے فرشتوں سے سجدہ کرایا اور آپ کو اپنی جنت میں ٹھہرایا۔”

حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اس ارشاد میں حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق کے بارے میں ٹھیک وہی الفاظ استعمال کئے گئے ہیں جو مذکورة الصدر آیتِ شریفہ میں وارد ہوئے ہیں، یعنی اللہ تعالیٰ کا آدم علیہ السلام کو اپنے ہاتھوں سے بنانا اور ان کے قالب میں اپنی جانب سے روح ڈالنا۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ حضراتِ انبیاء کرام علیہم السلام بھی یہی عقیدہ رکھتے تھے کہ حضرت آدم علیہ السلام کا قالب اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھوں سے بنایا اور اس میں روح ڈالی، وہ توالد و تناسل کے معروف مراحل سے گزر کر انسان نہیں بنے، نہ جمادات و نباتات اور حیوانوں اور بندروں سے شکل تبدیل کرتے ہوئے آدمی بنے۔

محشر کے دن اہل ایمان بھی اسی عقیدہ کا اظہار کریں گے

حدیثِ شفاعت میں آتا ہے کہ اہل ایمان قیامت کے دن شفاعتِ کبریٰ کے لئے سب سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور ان سے عرض کریں گے:

“انت آدم ابو الناس خلقک الله بیدہ واسکنک جنتہ واسجد لک ملٰئکتہ وعلمک اسماء کل شیء۔” (مشکوٰة ص:۴۸۸)

ترجمہ:…”آپ آدم ہیں، تمام انسانوں کے باپ ہیں، اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے ہاتھوں سے بنایا، اور آپ کو اپنی جنت میں ٹھہرایا، اور اپنے فرشتوں سے آپ کو سجدہ کرایا، اور آپ کو تمام اشیاء کے ناموں کی تعلیم فرمائی۔”

اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ قیامت کے دن اہل ایمان بھی اسی عقیدے کا اظہار کریں گے کہ حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق حق تعالیٰ شانہ نے براہِ راست اپنے دستِ قدرت سے فرمائی۔ مٹی سے ان کا قالب بناکر اس میں روح پھونکی اور ان کو جیتا جاگتا انسان بنایا، ان کی تخلیق میں نہ توالد و تناسل کا واسطہ تھا، اور نہ وہ جمادات سے بندر تک ارتقائی مراحل سے گزر کر “انسان آدم” بنے۔

قرآن کریم کی آیاتِ بینات، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاداتِ طیبات، حضرت موسیٰ علیہ السلام کے فرمودات، اور میدانِ محشر میں اہل ایمان کی تصریحات آپ کے سامنے موجود ہیں، جو شخص ان تمام امور پر بشرطِ فہم و انصاف غور کرے گا اس پر آفتابِ نصف النہار کی طرح یہ حقیقت روشن ہوجائے گی کہ حضرت آدم علیہ السلام کی جسمانی تخلیق کے بارے میں حقیقتِ واقعیہ وہی ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائی اور ان صاحب کا فلاسفہ طبیعیین کی تقلید میں تخلیقِ آدم علیہ السلام کو کرشمہٴ ارتقا قرار دینا، صریح طور پر غلط اور نصوصِ قطعیہ سے انحراف ہے، والله یقول الحق وھو یھدی السبیل!

امرِ دوم

احادیثِ نبویہ کے بارے میں اس شخص کے خیالات کا جائزہ

اس شخص کا یہ کہنا کہ: “اس مسئلے میں احادیثِ نبویہ لائق توجہ اور درخورِ اعتنا نہیں” چند وجوہ سے جہل مرکب کا شکار ہے:

اولاً:…اوپر قرآن کریم کی جو آیاتِ بینات ذکر کی گئی ہیں انہیں ارشاداتِ نبویہ کے ساتھ ملاکر پڑھئے تو واضح ہوگا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تخلیقِ آدم علیہ السلام کے سلسلے میں جو کچھ فرمایا ہے، وہ ان آیاتِ بینات ہی کی شرح و تفصیل ہے، اور جس مسئلے میں قرآن و حدیث دونوں متفق ہوں، کسی موٴمن کے لئے اس سے انحراف کی گنجائش نہیں رہتی، اور جو شخص فرمانِ الٰہی اور ارشادِ نبوی کو تسلیم کرنے سے ہچکچاتا ہے، انصاف فرمائیے کہ ایمان و اسلام میں اس کا کتنا حصہ ہے؟

ثانیاً:…بالفرض قرآن کریم سے ان احادیث کی تائید نہ ہوتی تب بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی ارشاد کو سن کر یہ کہنا کہ: “یہ لائقِ توجہ اور درخورِ اعتنا نہیں!” بارگاہِ رسالت میں نہایت جسارت اور حد درجہ کی گستاخی ہے، جس کے سننے کی بھی کسی موٴمن کو تاب نہیں ہوسکتی کہ اس کے سنتے ہی روحِ ایمان لرز جاتی ہے! کجا کہ کوئی مسلمان ایسے موذی الفاظ زبان پر لانے کی جرأت کرے، ذرا سوچئے کہ جس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تخلیقِ آدم علیہ السلام کے بارے میں ان حقائق کو بیان فرما رہے تھے، کوئی شخص (بالفرض یہی صاحب) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے یہ کہہ دیتا کہ: -نعوذ بالله- “یہ آپ کا میدانِ کار نہیں، بلکہ یہ ڈارون کا میدانِ تحقیق ہے!” تو فرمائیے کہ ایسا شخص کس صف میں شمار کیا جاتا․․․؟

حافظ ابن حزم لکھتے ہیں:

“وکل من یکفر بما بلغہ وصح عندہ عن النبی صلی الله علیہ وسلم او جمع علیہ الموٴمنون مما جاء بہ النبی علیہ السلام فھو کافر! کما قال الله تعالیٰ: ومن یشاقق الرسول من بعد ما تبین لہ الھدی ویتبع غیر سبیل الموٴمنین نولہ ما تولی ونصلہ جھنم۔”

(المحلیٰ ج:۱ ص:۱۲)

ترجمہ:…”اور ہر وہ شخص جس نے کسی ایسی بات کا انکار کیا جو اسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پہنچی اور اس کے نزدیک اس کا ثبوت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح تھا، یا اس نے ایسی بات کا انکار کیا جس پر اہل ایمان کا اجماع ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی ہے، تو ایسا شخص کافر ہے! چنانچہ ارشادِ خداوندی ہے: اور جس نے مخالفت کی رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی، بعد اس کے کہ اس پر صحیح بات کھل گئی اور وہ چلا اہل ایمان کا راستہ چھوڑ کر، تو ہم اسے پھیر دیں گے جدھر پھرتا ہے، اور ہم اسے جھونک دیں گے جہنم میں۔”

ثالثاً:…آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق کی جو تفصیلات بیان فرمائی ہیں ان کے بارے میں قابلِ غور بات یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کا علم کس ذریعہ سے ہوا؟ ظاہر ہے کہ حضراتِ انبیاء کرام علیہم السلام کے پاس وحی الٰہی کے سوا کوئی اور ذریعہ نہیں، لہٰذا دلیلِ عقل سے ثابت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سلسلے میں جو کچھ بیان فرمایا اس کا سرچشمہ وحیٴ الٰہی ہی ہوسکتا ہے، اور اس کو ردّ کرنا گویا وحیٴ خداوندی کو ردّ کرنا ہے، ظاہر ہے کہ یہ شیوہ کسی کافر و منافق کا ہوسکتا ہے، کسی مسلمان کا نہیں! خصوصاً جب یہاں اس حقیقت کو بھی پیشِ نظر رکھا جائے کہ حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق کا واقعہ اس دور کا ہے جس کو موٴرخین ’قبل از تاریخ” سے تعبیر کرتے ہیں، جب اس وقت کوئی انسانی وجود ہی نہیں تھا تو اس دور کی تاریخ اور اس واقعہ کی تفصیلات کون قلم بند کرتا؟ ہاں! اللہ تعالیٰ جو آدم علیہ السلام کی تخلیق فرما رہے تھے، یہ پورا واقعہ ان کے سامنے تھا اور اس کی ضروری تفصیلات سے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو آگاہ فرمایا، اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تفصیلات سے امت کو آگاہی بخشی، اس کے باوجود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ان ارشاداتِ صحیحہ کو ردّ کردینا اور فلاسفہ کی ہفوات کی تقلید کرنا، کیا کسی صاحبِ ایمان کی شان ہوسکتی ہے․․․؟

رابعاً:…آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ: “حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق اس طرح ہوئی” یہ ایک خبر ہے، اور خبر یا تو واقعہ کے مطابق ہوگی، یا واقعہ کے خلاف ہوگی، جو خبر واقعہ کے مطابق ہو وہ سچی کہلاتی ہے، اور خبر دینے والا سچا سمجھا جاتا ہے، اور جو خبر واقعہ کے خلاف ہو وہ جھوٹی کہلاتی ہے، اور خبر دینے والا جھوٹا قرار پاتا ہے۔ اب یہ صاحب جو کہہ رہے ہیں کہ: “آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق کے بارے میں جو خبریں دی ہیں، وہ واقعہ کے خلاف ہیں” اہل عقل غور فرمائیں کہ اس کا مطلب کیا ہوسکتا ہے؟ کیا یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صریح تکذیب نہیں؟ اور کیا یہ بات عقلاً ممکن ہے کہ ایک شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دی ہوئی خبر کو غلط بھی سمجھتا ہو اور آپ پر ایمان بھی رکھتا ہو․․․؟ ہرگز نہیں! “ضدان لا یجتمعان!” (یہ دونوں ضدیں ہیں، جو کبھی جمع نہیں ہوسکتیں)۔

خامساً:…ان صاحب کا یہ کہنا کہ: “حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق کا واقعہ اُمورِ دنیا میں سے ہے، اس لئے اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد لائقِ التفات نہیں!” ان کی دلیل کا صغریٰ و کبریٰ دونوں غلط ہیں، اس لئے کہ گفتگو حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق کے بارے میں ہے، اور ہر شخص جانتا ہے کہ تخلیق اللہ تعالیٰ کا فعل ہے اور خالقیت اس کی صفت ہے، اب ان صاحب سے دریافت کیا جائے کہ حق تعالیٰ شانہ کی صفات و افعال کو بیان کرنا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا منصب ہے یا -نعوذ بالله- ڈارون کا میدانِ کار․․․؟ اور یہ کہ اگر صفاتِ الٰہیہ کے بیان میں بھی -بقول اس کے- آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاداتِ عالیہ لائقِ التفات نہیں تو پھر اور کس چیز میں آپ کی بات لائقِ اعتماد ہوگی؟ نعوذ بالله من سوء الفہم وفتنة الصدر!

حق تعالیٰ شانہ کے صفات و افعال وہ میدان ہے جہاں دانش و خرد کے پاوٴں شل ہیں، یہ وہ فضا ہے جہاں عقل و فکر کے پَر جلتے ہیں، اور عقلِ انسانی ان حقائقِ الٰہیہ کا ٹھیک ٹھیک ادراک کرنے سے عاجز و درماندہ ہے، جہاں سیّد الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم تک یہ فرمانے پر مجبور ہوں:

“اَللّٰھُمَّ لَا اُحْصِیْ ثَنَاءً عَلَیْکَ اَنْتَ کَمَا اَثْنَیْتَ عَلٰی نَفْسِکَ!”

ترجمہ:…”یا اللہ! میں تیری تعریف کا حق ادا کرنے سے قاصر ہوں، آپ بس ویسے ہی ہیں جیسا کہ آپ نے خود اپنی ثنا فرمائی ہے۔”

وہاں کسی دوسرے کی عقلِ نارسا کے عجز و درماندگی کا کیا پوچھنا؟ یہی وجہ ہے کہ جن فلاسفہ نے انبیاء کرام علیہم السلام کا دامن چھوڑ کر محض اپنی عقلِ نارسا کے گھوڑے پر سوار ہوکر اس میدان میں ترکتازیاں کیں حیرت و گمراہی کے سوا ان کے کچھ ہاتھ نہ آیا۔ یہ حق تعالیٰ شانہ کا انعام ہے کہ اس نے حضراتِ انبیاء کرام علیہم السلام کے ذریعہ ان حقائقِ الٰہیہ میں سے اتنے حصہ کو بیان فرمادیا جس کا انسانوں کی عقل تحمل کرسکتی تھی، کیسی عجیب بات ہے کہ ایک مسلمانی کا دعویدار اس انعامِ الٰہی کا یہ شکر ادا کر رہا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کو نالائقِ التفات قرار دے کر فلاسفہٴ ملحدین کی دُم پکڑنے کی تلقین کر رہا ہے۔

سادساً:…ان صاحب کا یہ کہنا کہ: “آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق کے بارے میں کوئی واضح موقف اختیار نہیں فرمایا” خالص جھوٹ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر افتراء ہے، کیونکہ گزشتہ سطور میں آپ ملاحظہ فرماچکے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پوری وضاحت اور کامل تشریح کے ساتھ بیان فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے روئے زمین کی مٹی لے کر اس کو پانی سے گوندھا، پھر اس گارے سے آدم علیہ السلام کا ساٹھ ہاتھ کا قالب بنایا، پھر اس قالب میں روح ڈالی، وغیرہ وغیرہ۔

ان تمام صراحتوں اور وضاحتوں کے بعد کون کہہ سکتا ہے کہ: “اس مسئلے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی واضح موقف اختیار نہیں فرمایا”، اور اگر اتنی صراحت و وضاحت اور تاکید و اصرار کے ساتھ بیان فرمائے ہوئے مسئلہ کے بارے میں بھی یہ کہا جائے کہ: “آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی واضح موقف اختیار نہیں فرمایا” تو بتایا جائے کہ اس سے زیادہ “واضح موقف” کن الفاظ میں بیان کیا جاتا․․․؟

“أنتم أعلم بأمر دنیاکم!” کی تشریح

ان صاحب نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد: “أنتم أعلم بأمر دنیاکم!” سے یہ کلیہ کشید کرلیا کہ دنیا کے کسی کام میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد لائقِ الفات نہیں، اس سلسلے میں بھی چند گزارشات گوش گزار کرتا ہوں:

اوّل:…ان صاحب نے اس حدیث کو دیکھنے اور اسے غلط معنی پہنانے سے پہلے اگر قرآنِ مبین کو اُٹھاکر دیکھنے کی زحمت کی ہوتی تو اسے اس حدیث کو غلط معنی پہنانے کی جرأت نہیں ہوتی۔

قرآن کریم میں حق تعالیٰ شانہ کا ارشاد ہے:

“وَمَا کَانَ لِمُوٴْمِنٍ وَّلَا مُوٴْمِنَةٍ اِذَا قَضَی اللهُ وَرَسُوْلُہٓ اَمْرًا اَنْ یَّکُوْنَ لَھُمُ الْخِیَرَةُ مِنْ اَمْرِھِمْ، وَمَنْ یَّعْصِ اللهَ وَرَسُوْلَہ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًا مُّبِیْنًا۔” (الاحزاب:۳۶)

ترجمہ:…”اور کسی ایماندار مرد اور کسی ایماندار عورت کو گنجائش نہیں جبکہ اللہ اور اس کا رسول کسی کام کا حکم دے دیں کہ (پھر) ان (موٴمنین) کو ان کے اس کام میں کوئی اختیار باقی رہے، اور جو شخص اللہ کا اور اس کے رسول کا کہنا نہ مانے گا وہ صریح گمراہی میں جا پڑا۔” (ترجمہ حضرت تھانوی)

یہ آیتِ شریفہ ایک دنیوی معاملہ کے بارے میں نازل ہوئی، جس کا واقعہ مختصراً یہ ہے کہ: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پھوپھی زاد بہن حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کا عقد حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے کرنا چاہا، چونکہ زید غلام رہ چکے تھے، ادھر حضرت زینب بنت جحش قریش کے اعلیٰ ترین خاندان کی چشم و چراغ تھیں، اس لئے ان کے خاندان والوں کو خاندانی وقار کے لحاظ سے یہ رشتہ بے جوڑ محسوس ہوا، اور حضرت زینب اور ان کے بھائی حضرت عبداللہ بن جحش نے اس رشتہ کی منظوری سے عذر کردیا، اس پر یہ آیتِ شریفہ نازل ہوئی تو دونوں بہ جان و دل سمع و طاعت بجا لائے۔

یہاں دو باتیں بطورِ خاص لائقِ غور ہیں، ایک یہ کہ کسی لڑکی کا رشتہ کہاں کیا جائے اور کہاں نہ کیا جائے؟ ایک خالص ذاتی اور نجی قسم کا دنیوی معاملہ ہے، لیکن کسی شخص کے خالص ذاتی اور نجی معاملے میں دخل دیتے ہوئے جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جگہ رشتہ منظور فرمادیا تو قرآنِ کریم کی اس نصِ قطعی کی رو سے اس خاندان کو اپنے ذاتی دنیوی معاملے میں بھی اختیار نہیں رہا، بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تجویز کو بہ دل و جان منظور کرلینا شرطِ ایمان قرار پایا۔

دوسری قابلِ غور بات یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس رشتہ کی جو تجویز فرمائی تھی، کسی روایت میں نہیں آتا کہ یہ تجویز وحیٴ الٰہی سے تھی، لیکن قرآنِ کریم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس ذاتی تجویز کو “اللہ و رسول کا فیصلہ” قرار دے کر تمام لوگوں کو آگاہ کردیا کہ کسی دنیوی معاملے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتی تجویز بھی فیصلہٴ خداوندی ہے، جس سے انحراف کرنا کسی مسلمان کے لئے روا نہیں!

قرآنِ کریم تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتی رائے کو بھی اللہ تعالیٰ کا حتمی فیصلہ قرار دیتا ہے، مگر اس بدمذاقی کی داد دیجئے کہ کہنے والے یہ کہہ رہے ہیں کہ: “آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ کسی دنیوی کام میں معتبر نہیں!”

پھر قرآنِ کریم امت کو تلقین کرتا ہے:

“وَمَآ ٰاتٰکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ، وَمَا نَھٰکُمْ عَنْہُ فَانْتَھُوْا۔” (الحشر:۷)

ترجمہ:…”رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) تمہیں جو کچھ دے دیں اسے لے لو، اور جس سے روک دیں رُک جاوٴ!”

لیکن آج بتایا جاتا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں جو خبر دیں اسے قبول نہ کرو بلکہ ڈارون کی تقلید میں انسان کو بندر کی اولاد قرار دو، انا لله وانا الیہ راجعون!

دوم:…آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانی زندگی کے بے شمار پہلووٴں میں انسانیت کی راہ نمائی کی اور اُمورِ دنیا کی ہزارہا ہزار گتھیوں کو سلجھایا، جس کو علمائے امت نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات میں شمار کیا ہے۔

قاضی عیاض رحمہ اللہ “الشفاء” میں لکھتے ہیں:

“ومن معجزاتہ الباھرة ما جمعہ الله لہ من المعارف والعلوم وخصہ بہ من الاطلاع علیٰ جمیع مصالح الدنیا والدین ․․․․․․ الخ۔”

ترجمہ:…”اور من جملہ آپ کے روشن معجزات کے ایک وہ علوم و معارف ہیں جو اللہ تعالیٰ نے آپ کے لئے جمع فرمائے اور آپ کو (انسانی ضرورت کے) تمام مصالح دنیا و دین کی اطلاع کے ساتھ مخصوص فرمایا۔”

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانی زندگی کے تمام شعبوں میں جو ہمہ گیر تعلیمات فرمائی ہیں، بلاشبہ اسے معجزہٴ نبوت اور تعلیم الٰہی ہی کہا جاسکتا ہے۔ مثال کے طور پر طب و معالجات کا باب لیجئے! ظاہر ہے کہ علاج معالجہ ایک خالص بدنی و جسمانی اور دنیوی چیز ہے، لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے طب کے ایسے اصول و کلیات اور فروع و جزئیات بیان فرمائے ہیں کہ عقل حیران ہے، حافظ شیرازی رحمہ اللہ کے بقول:

نگار من کہ بہ مکتب نرفت و خط ننوشت

بغمزہ مسئلہ آموز صد مدرس شد

اہل علم نے طب نبوی کے نام سے ضخیم کتابیں لکھی ہیں، اور حافظ ابن قیم نے “زاد المعاد” میں اس کا اچھا خاصا ذخیرہ جمع کردیا ہے، یہاں بے ساختہ اس واقعہ کا ذکر کرنے کو جی چاہتا ہے، جو صحیح بخاری، صحیح مسلم، ترمذی اور حدیث کی بہت سی کتابوں میں مروی ہے کہ: ایک صاحب آئے اور عرض کیا کہ: میرے بھائی کو اسہال کی تکلیف ہے۔ فرمایا: اسے شہد پلاوٴ! اس نے شہد پلایا اور آکر عرض کیا کہ: میں نے شہد پلایا تھا مگر اس سے اسہال اور بڑھ گئے۔ فرمایا: اس کو شہد پلاوٴ! چار بار یہی قصہ پیش آیا کہ اس کے اسہال میں اضافہ ہوگیا، آپ نے چوتھی مرتبہ فرمایا کہ:

“صدق الله وکذب بطن اخیک!”

(جامع الاصول ج:۷ ص:۵۱۷)

ترجمہ:…”اللہ کا کلام سچا ہے اور تیرے بھائی کا پیٹ جھوٹا ہے!”

اس نے پھر شہد پلایا تو اسہال بند ہوگئے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کریم کی آیات کی روشنی میں حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق کا جو واقعہ ارشاد فرمایا، اس کے مقابلے میں ان صاحب کا یہ کہنا کہ: “حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق اس طرح نہیں ہوئی” اس کے بارے میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ:

“صدق الله ورسولہ! وکذب داروین والدکتور!”

ترجمہ:…”اللہ و رسول کا فرمان برحق ہے! اور ڈارون اور ڈاکٹر جھوٹ بولتے ہیں!”

اور ایک طب اور معالجہ پر ہی کیا منحصر ہے، زندگی کے کسی ایک شعبہ کا تو نام لیجئے جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے راہ نمائی نہ فرمائی ہو، اور جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات سے محروم رہا ہو، چلنا پھرنا، اُٹھنا بیٹھنا، سونا جاگنا، بیوی بچوں، عزیز و اقارب اور دوست احباب سے ملنا جلنا، صلح و امن، حرب و ضرب، نکاح و طلاق، بیع و شراء، سیاست و ادب، الغرض دنیوی اُمور میں سے کون سا امر ایسا ہے جس میں معلّمِ انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات و تعلیمات کے نقوش ثبت نہ ہوں؟ صحیح مسلم ابوداوٴد، نسائی اور ترمذی کی حدیث میں ہے کہ: یہود اور مشرکین نے حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ پر اعتراض کیا:

“قد علمکم نبیکم کل شیء حتی الخرائة؟ قال: اجل!” (جامع الاصول ج:۷ ص:۱۳۳)

ترجمہ:…”تمہیں تو تمہارا نبی ہر چیز سکھاتا ہے یہاں تک کہ ہگنا موتنا بھی؟ فرمایا: ہاں! (ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بول و براز کے یہ آداب سکھائے ہیں)۔”

اس اعتراض سے یہود ی کا مقصود -والله اعلم- یا تو مسلمانوں پر نکتہ چینی کرنا تھا کہ تم ایسے نادان اور کودن ہو کہ تمہیں ہگنا موتنا بھی نہیں آتا، تم اس کے لئے بھی نبی کی تعلیم کے محتاج ہو؟ یا اس لعین کا مقصد رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم پر اعتراض کرنا تھا کہ انبیاء کرام علیہم السلام علومِ عالیہ سکھانے کے لئے آتے ہیں، یہ کیسا نبی ہے کہ لوگوں کو ہگنے موتنے کے طریقوں کی تعلیم دیتا ہے۔

حضرت سلمان رضی اللہ عنہ اس کے اس بے ہودہ اعتراض سے مرعوب نہیں ہوئے بلکہ یہ فرمایا کہ: “ہاں! ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بول و براز کا طریقہ بھی سکھاتے ہیں، اور آپ نے اس ضمن میں فلاں فلاں آداب کی تعلیم دی ہے۔” اگر اس کا مقصود مسلمانوں پر اعتراض کرنا تھا تو اس کا جواب یہ ہوگا کہ اللہ کا شکر ہے کہ ہم نے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بیت الخلاء میں جانے کا طریقہ سیکھ لیا، تم اپنی فکر کرو کہ تم جانوروں کی طرح یہ طبعی حوائج پوری کرتے ہو، مگر تم انسانوں کے طریقہ سے ابھی تک محروم ہو۔ اور اگر اس کا مقصود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نکتہ چینی کرنا تھا تو جواب کا حاصل یہ ہوگا کہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کمال یہ ہے کہ ان طبعی انسانی ضرورتوں کی ایسی تعلیم فرماتے ہیں کہ انسان کی یہ طبعی حاجات بھی تقرب الی اللہ کا ذریعہ بن جائیں، اور یہ چیزیں بھی عبادات کے زمرے میں شمار ہونے لگیں، بلاشبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کی رعایت کرتے ہوئے استنجاخانے میں جانا بھی عبادت کے زمرے میں آتا ہے۔ چنانچہ ہمارے شیخ المشائخ شاہ عبدالغنی مجددی دہلوی مہاجر مدنی قدس سرہ حاشیہ ابن ماجہ میں لکھتے ہیں:

“قال علمائنا ان اتیان السنة ولو کان امرا یسیرا کادخال الرجل الایسر فی الخلا ابتداء اولیٰ من البدعة الحسنة وان کان امرا فخیما کبناء المدارس۔”

(حاشیہ ابنِ ماجہ ص:۳)

ترجمہ:…”ہمارے علماء فرماتے ہیں کہ: سنت کا بجالانا اگرچہ وہ معمولی بات ہو، مثلاً: بیت الخلا میں جاتے ہوئے بایاں پاوٴں پہلے رکھنا، بدعتِ حسنہ سے بہتر ہے، اگرچہ وہ عظیم الشان کام ہو، جیسے مدارس کا بنانا۔”

خلاصہ یہ ہے کہ انسانی زندگی کا کوئی شعبہ اور کوئی گوشہ ایسا نہیں جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کی راہ نمائی نہ فرمائی ہو، اسی بنا پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے:

“انما انا لکم بمنزلة الوالد اعلمکم!”

(ابوداوٴد ص:۳)

ترجمہ:…”میں تو تمہارے لئے بمنزلہ والد کے ہوں، میں تم کو تعلیم دیتا ہوں!”

اس لئے ان صاحب کا یہ کہنا کہ: “اُمورِ دنیا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا میدان نہیں تھا، اس لئے اُمورِ دنیا میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا قول -نعوذ بالله- لائقِ التفات نہیں” قطعاً غلط در غلط ہے․․․!

سوم:…یہ صاحب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد: “أنتم أعلم بأمر دنیاکم” کا مدعا ہی نہیں سمجھے، اس لئے اس سے کشید کرلیا کہ دُنیوی معاملات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد لائقِ التفات نہیں۔ خوب سمجھ لیا جائے کہ اس واقعہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ فرمایا تھا وہ بطور مشورہ کے تھا، شیخ المشائخ شاہ عبدالغنی محدث دہلوی رحمة اللہ علیہ حاشیہ ابن ماجہ میں اس سلسلہ کی روایات کو جمع کرنے کے بعد تحریر فرماتے ہیں:

“فعلم ان ھذا الامر منہ صلی الله علیہ وسلم کان بطریق الاجتھاد والمشورة فما کان واجب الاتباع۔” (حاشیہ ابن ماجہ ص:۱۷۸)

ترجمہ:…”پس معلوم ہوا کہ اس واقعہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ فرمایا وہ بطورِ رائے اور مشورہ کے تھا، اس لئے واجب الاتباع نہیں تھا۔”

مشورہ اور حکم کے درمیان فرق حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا کے قصہ سے واضح ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے حضرت بریرہ کو آزاد کردیا، یہ شادی شدہ تھیں، آزادی کے بعد انہوں نے اپنے شوہر مغیث کو قبول کرنے سے انکار کردیا تھا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سفارش فرمائی کہ: بریرہ! تم مغیث کو قبول کرلو! انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ حکم ہے یا مشورہ؟ فرمایا: حکم تو نہیں، مشورہ ہے! عرض کیا کہ: اگر مشورہ ہے تو میں قبول نہیں کرتی!

اس واقعہ سے بھی معلوم ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم خواہ کسی دنیوی امر میں ہو واجب التعمیل ہے، البتہ اگر بطورِ مشورہ کچھ ارشاد فرمائیں تو اس کا معاملہ دوسرا ہے۔

آیت سے غلط استدلال

اس شخص کا آیتِ شریفہ: “والله انبتکم من الارض نباتا” سے ڈارون کے نظریہٴ ارتقا پر استدلال کرتے ہوئے یہ کہنا کہ: “حضرت آدم علیہ السلام بھی جمادات و نباتات اور حیوانات کے مراحل سے گزر کر “انسان آدم” بنے تھے” سراسر مہمل اور لایعنی ہے، کیونکہ:

اوّلاً:…یہ شخص خود تسلیم کرتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیقِ جسمانی کی ایک کیفیت بیان فرمائی ہے، جو ان صاحب کے ذکر کردہ نظریہ سے متضاد ہے۔ اب ان صاحب کو دو باتوں میں سے ایک بات تسلیم کرنی ہوگی۔ یا تو یہ کہ خود صاحبِ قرآن صلی اللہ علیہ وسلم -نعوذ بالله- قرآن کی اس آیت کا صحیح مفہوم نہیں سمجھے، کیونکہ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر آیت کا وہ مفہوم منکشف ہوگیا ہوتا جو ان صاحب کو القا ہوا ہے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیقِ جسمانی کے بارے میں اس سے متضاد اور مختلف کیفیت بیان نہ فرماتے۔ یا ان صاحب کو یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ وہ اپنے ذہن سے تراش کر جو معنی قرآنِ کریم کو پہنانا چاہتے ہیں وہ سراسر لغو و لایعنی ہے، اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس سے بَری ہیں۔

ممکن ہے کہ یہ شخص بھی مرزا غلام احمد قادیانی کی طرح یہ عقیدہ رکھتا ہو کہ وہ قرآن کے حقائق و معارف کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر بیان کرسکتا ہے، چنانچہ مرزا غلام احمد قادیانی لکھتا ہے:

“پس یہ خیال کہ گویا جو کچھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآنِ کریم کے بارے میں بیان فرمایا اس سے بڑھ کر ممکن نہیں، بدیہی البطلان ہے۔”

(کرامات الصادقین ص:۱۹، مندرجہ روحانی خزائن ج:۷ ص:۶۱)

الغرض کسی آیتِ شریفہ سے کسی ایسے نظریہ کا استنباط کرنا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تصریحات کے خلاف ہو، اس سے دو باتوں میں سے ایک بات لازم آتی ہے، یا تو اس سے – نعوذ بالله- آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تجہیل لازم آتی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس آیت کا مطلب نہیں سمجھے۔ یا اپنی خام خیالیوں کو قرآنِ کریم میں ٹھونسنا لازم آتا ہے، جس کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

“من قال فی القرٰان برأیہ فلیتبوأ مقعدہ من النار!” (مشکوٰة ص:۳۵)

ترجمہ:…”جس شخص نے اپنی رائے سے کوئی مفہوم قرآن میں ٹھونسا، اسے چاہئے کہ اپنا ٹھکانا دوزخ میں بنائے!”

ثانیاً:…یہ آیتِ شریفہ، جس سے ان صاحب نے نظریہٴ ارتقا کو حضرت آدم علیہ السلام کی جسمانی تخلیق پر چسپاں کرنے کی کوشش کی ہے، سورہٴ نوح کی آیت ہے، جس میں اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح (علیٰ نبینا وعلیہ الصلوٰة والسلام) کا وہ خطاب نقل کیا ہے جو انہوں نے اپنی قوم کے کافروں سے فرمایا تھا۔ جو شخص معمولی غور و فکر سے بھی کام لے گا اس سے یہ بات مخفی نہیں رہے گی کہ حضرت نوح علیہ السلام اپنی قوم کے افراد کو ڈارون کے نظریہٴ ارتقا کی تعلیم و تلقین نہیں فرمارہے بلکہ ان لوگوں میں سے ایک ایک فرد کی تخلیق میں حق تعالیٰ شانہ نے اپنی قدرت کے جن عجائبات کا اظہار فرمایا ہے اس کو ذکر فرما رہے ہیں کہ حق تعالیٰ شانہ نے زمین کی مٹی سے غذائیں پیدا فرمائیں، ان غذاوٴں سے اس قطرہٴ آب کی تخلیق ہوئی جس سے تم پیدا ہوئے ہو، پھر اس قطرہٴ آب کو شکمِ مادر میں مختلف شکلوں میں تبدیل کرکے اس میں روح ڈالی اور تم زندہ انسان بن گئے، پھر نفخِ روح کے بعد بھی شکمِ مادر میں زمین سے پیدا شدہ غذاوٴں کے ذریعہ تمہارے نشوونما کا عمل جاری رہا، یہاں تک کہ شکمِ مادر سے تمہاری پیدائش ہوئی اور پھر پیدائش کے بعد بھی تمہارے نشوونما کا سلسلہ جاری رہا، اور یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ نے زمین کی مٹی اور اس سے پیدا شدہ غذاوٴں کے ذریعہ کیا۔ الغرض “والله انبتکم من الارض نباتا” میں انسانی افراد کے اس طویل سلسلہٴ نشوونما کی جانب اشارہ فرمایا گیا ہے جس سے گزرتے ہوئے ہر انسان نشوونما کے مدارج طے کرتا ہے، اس سلسلہ کی ابتداء مٹی سے ہوتی ہے اور اس کی انتہا نشوونما کی تکمیل پر۔ چنانچہ حضرت مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر “معارف القرآن” میں “خلاصہٴ تفسیر” کے عنوان سے اس آیتِ شریفہ کی حسبِذیل تفسیر فرمائی ہے، جو حضرت حکیم الامت تھانوی رحمہ اللہ کی “بیان القرآن” سے مأخوذ ہے:

“اور اللہ تعالیٰ نے تم کو زمین سے ایک خاص طور پر پیدا کیا، (یا تو اس طرح کہ حضرت آدم علیہ السلام مٹی سے بنائے گئے اور یا اس طرح کہ انسان نطفہ سے بنا، اور نطفہ غذا سے، اور غذا عناصر سے بنی اور عناصر میں غالب اجزاء مٹی کے ہیں۔”

(معارف القرآن ج:۸ ص:۵۶۲)

لہٰذا اس آیت شریفہ سے (یا دوسری آیاتِ کریمہ سے) ڈارون کے نظریہٴ ارتقا کو کشید کرنا اپنی عقل و فہم سے بھی زیادتی ہے اور قرآن کریم کے ساتھ بھی بے انصافی ہے۔

ان صاحب کے جو دلائل آپ نے ذکر کئے ہیں، ان کی علمی حیثیت واضح کرنے کے بعد اب میں آپ کے سوالات کے جواب عرض کرتا ہوں، چونکہ بحث طویل ہوگئی، اس لئے نمبروار آپ کا سوال نقل کرکے اس کے ساتھ مختصر سا جواب لکھوں گا۔

س…۱: کیا اس شخص کے مذکورہ بالا عقائد کو اہل سنت والجماعت کے عقائد کہا جاسکتا ہے؟

ج… اس شخص کے یہ عقائد اہل سنت والجماعت کے عقائد نہیں، ائمہ اہل سنت بالاجماع اسی کے قائل ہیں جو حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیقِ جسمانی کے بارے میں احادیثِ نبویہ میں بیان کیا گیا ہے، اس لئے اس شخص کا یہ نظریہ بدترین بدعت ہے۔

س…۲: حضرت آدم علیہ السلام کی جسمانی تخلیق سے متعلق احادیث کے بارے میں اس شخص کا رویہ گستاخی اور گمراہی ہے؟

ج… حضرت آدم علیہ السلام کی جسمانی تخلیق سے متعلق وارد شدہ احادیث کے بارے میں اس شخص کا رویہ بلاشبہ گستاخانہ ہے جس کی تفصیل اوپر عرض کرچکا ہوں اور یہ رویہ بلاشبہ گمراہی و کج روی کا ہے۔

س…۳: حضرت آدم علیہ السلام کو “حیوان آدم” کہنا گستاخی نہیں ہے؟

ج… حضرت آدم علیہ السلام کو نصوصِ قطعیہ اور اجماعِ سلف کے علی الرغم “حیوان آدم” کہنا اور ان کا سلسلہٴ نسب بندروں کے ساتھ ملانا “اشرف المخلوقات” حضرتِ انسان کی توہین ہے، اور یہ نہ صرف حضرت آدم علیہ السلام کی شان میں گستاخی ہے، بلکہ ان کی نسل سے پیدا ہونے والے تمام انبیاء کرام علیہم السلام کی بھی توہین و تنقیص ہے۔ ظاہر ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام تمام انسانوں کے باپ ہیں، اب اگر کسی کے باپ کو “جانور” یا “بندر” کہا جائے تو سوچنا چاہئے کہ یہ گالی ہے یا نہیں؟ اسی طرح اگر کسی (مثلاً: انہی صاحب کو) “جانور کی اولاد” یا “بندر کی اولاد” کہا جائے تو یہ صاحب اس کو گالی سمجھیں گے یا نہیں؟ اور اس کو اپنی توہین و تنقیص تصور کریں گے یا نہیں؟

س… ۴:کیا یہ شخص تفسیر بالرائے کا مرتکب نہیں؟

ج… اوپر ذکر کرچکا ہوں کہ اپنے مزعومہ نظریہ پر قرآنِ کریم کی آیاتِ شریفہ کا ڈھالنا تفسیر بالرائے ہے اور یہ شخص، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادِ گرامی: “فلیتبوأ مقعدہ من النار!” کا مستحق ہے، یعنی اسے چاہئے کہ اپنا ٹھکانا دوزخ میں بنائے۔

س…۵: آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلافِ امت کا عقیدہ حضرت آدم علیہ السلام کے مٹی کے پُتلے بنائے جانے کا ہے یا نہیں؟

ج… اوپر ذکر کرچکا ہوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہ کرام اور تمام سلف صالحین کا یہی عقیدہ ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کا قالب مٹی سے بنایا گیا، پھر اس قالب میں روح ڈالی گئی تو وہ جیتے جاگتے انسان بن گئے، فلاسفہ طبیعیین نے اس بارے میں جو کچھ کہا ہے وہ محض اٹکل مفروضے ہیں، جن کی حیثیت اوہام و ظنون کے سوا کچھ نہیں، اور ظن و تخمین کی حق و تحقیق کے بازار میں کوئی قیمت نہیں، حق تعالیٰ کا ارشاد ہے:

“وَمَا لَھُمْ بِہ مِنْ عِلْمٍ، اِنْ یَّتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ، وَاِنَّ الظَّنَّ لَا یُغْنِیْ مِنَ الْحَقِّ شَیْئًا۔” (النجم:۲۸)

ترجمہ:…”اور ان کے پاس اس پر کوئی دلیل نہیں، صرف بے اصل خیالات پر چل رہے ہیں، اور یقینا بے اصل خیالات امر حق کے مقابلے میں ذرا بھی مفید نہیں ہوتے۔”

جو قومیں نورِ نبوت سے محروم ہیں، وہ اگر قبل از تاریخ کی تاریک وادیوں میں بھٹکتی ہیں تو بھٹکا کریں، اور ظن و تخمین کے گھوڑے دوڑاتی ہیں تو دوڑایا کریں، اہل ایمان کو ان کا پس خوردہ کھانے اور ان کی قے چاٹنے کی ضرورت نہیں! ان کے سامنے آفتابِ نبوت طلوع ہے، وہ جو کچھ کہتے ہیں دن کی روشنی میں کہتے ہیں، ان کو قرآن و سنت کی روشنی نے ظن و تخمین سے بے نیاز کردیا ہے۔

س…۶: اس شخص کی بیعت یا کسی قسم کا تعلق اس کے ساتھ آپ کے نزدیک کیسا ہے؟

ج… اوپر کی تفصیل سے واضح ہوچکا ہے کہ جو کچھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہی برحق ہے، اور اس شخص کا فلاسفہ کی تقلید میں ارشاداتِ نبویہ سے انحراف، اس کی کج روی و گمراہی کی دلیل ہے، اس لئے اس شخص کو لازم ہے کہ اپنے عقائد و نظریات سے توبہ کرکے رجوع الی الحق کرے اور ندامت کے ساتھ تجدیدِ ایمان کرے، اور کسی شخص کے لئے جو اللہ تعالیٰ پر اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان رکھتا ہو، اس شخص کی ہم نوائی جائز نہیں، اگر کوئی مسلمان اس کی بیعت میں داخل ہے تو اس کے خیالات و نظریات کا علم ہوجانے کے بعد اس کی بیعت کا فسخ کردینا لازم ہے۔