یہ کیسا سیلاب ہے؟
چین اکیسویں صدی کا سب سے تیز ی سے ترقی کرنے والا ملک ہے۔ حال ہی میں’’ Amazing Progress of China‘‘ نامی ایک کتاب منظر عام پر آئی ہے۔ یہ پچھلی صدی کے نصف سے لے کر آج تک ہونے والی ترقی کا مرحلہ وار جائزہ ہے۔ اس کتاب کا ایک باب چین میں آنے والی سیلابوں اور ان سے نمٹنے والی چینی پالیسیوں کے بارے میں ہے۔ شمالی چین ہر سال خوفناک سیلابوں میں بہہ جاتا تھا۔ لاکھوں افراد اس سے شدید طور پر متاثر ہوتے تھے۔ ہزاروں موت کا شکار ہو جاتے، تباہی ہر گائوں قریے میں پنجے گاڑ دیتی تھی۔ لوگ قحط کاشکار ہو جاتے تھے۔ مثلاً 1887ء میں 9 لاکھ، 1911ء میں ایک لاکھ، 1931ء میں 3 لاکھ 70ہزار اور 1938ء میں 5 لاکھ افراد سیلابوں کی نذر ہوگئے۔چینی حکومت نے 1950ء کی دہائی میں ایک سروے کیا۔ 15 بڑے دریائوں کے پانیوں کو سٹور کرنے کے لیے ڈیم بنانے کا آغاز ہوا۔ 1970ء تک چین کے شمال میں 1282 بڑے چھوٹے ڈیم اور نہریں تعمیر کردیے گئے۔ اب بارشوں کے بعد جب بھی سیلاب کی صورت حال پیدا ہوتی، ان ڈیلوں کو لبالب بھر دیا جاتا۔ چین میں سیلاب نہ صرف کم ہوگئے، بلکہ نقصان میں بھی کئی سو گنا کمی آگئی۔وہ پانی جو کبھی عذاب کا پیغامبر بن کر آتا تھا، اب خوشحالی کا نقیب بن گیا۔ چینوں نے اس کی مدد سے سستی بجلی بنائی اور
نہروں کے ذریعے ملک کو ایک چینل بنادیا۔ ملک کے ان حصوں میں بارشیں کم ہوتی تھیں، ان پانیوں سے ہریالیاں لہلانے لگیں۔ چینی اناج میں مکمل خود کفیل ہو گئے۔ بیرون ملک برآمدات سے خوش نصیبیاں سمیٹنے لگے۔ زحمت کو سہولت بنا لینے میں چینی لیڈر شپ کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ ان لوگوں نے بہترین انتظامی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا۔ بہترین پلان بنائے۔ سالوں ان پر عرق ریزی سے محنت کی۔ وہ چین جو کبھی سارے ایشیاء میں افیون کا سب سے بڑا خریدار تھا، آج کھربوں ڈالرز کی برآمدات کرتا ہے۔ چین امریکا جیسے مغرور ملک کو قرض دیتا ہے۔ یوں پاکستان کی آزادی سے 2 سال بعد غلامی کی زنجیریں توڑنے والا چین آج دنیا میں اناج اگانے والا سب سے بڑا ملک ہے۔ اس ملک کی خوشحالی کی داستانیں الف لیلوی لگتی ہیں۔ خواب و خیال کی باتوں کو حقیقت کی ٹھوس تجسیم چینی لوگوں نے ہی عطا کی ہے۔
٭ پانی جو زندگی کی علامت ہے کیوں ہمارے ہاں موت کا سمبل بنتا جا رہا ہے؟ اگر ہم ملک کے طول و عرض میں چھوٹے بڑے ڈیموں اور نہروں کا جال بچھا دیں تو ہم اس پانی سے زندگی کشید کر پائیں گے۔ ٭ یہ وقت کی اہم ترین ضرورت ہے کہ ہم بارشوں کے پانی کو ضائع ہونے سے بچائیں۔ اس کو استعمال میں لا کر بجلی بنائیں، زراعت کو چمکائیں۔ اپنے کھیت، کھیلانوں گھروں، چوباروں کو سیلابوں سے ہمیشہ کے لیے بچالیں۔ ٭
پاکستان ہر سال مون سون کی رحمت کو زحمت بنتے ہوئے دیکھتا ہے۔ ہمارے ہاں زور دار بارشوں کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ کئی کئی روز تک جاری رہتا ہے۔ ہماری لہلاتی کھڑی فصلیں تباہ و برباد ہو کر رہ جاتی ہیں۔ ہمارے دریائوں کے پل ٹوٹ جاتے ہیں۔ ہزاروں افراد ہر سال سیلابوں میںہلاک یا زخمی ہو جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں سیلابوں کے شانہ بشانہ وبائی امراض بھی پھوٹ پڑتے ہیں۔ ہم خوراک اور ادویات کے کال کا شکار ہو جاتے ہیں۔ متعدد علاقوں کا زمینی رابطہ سیلابوں میں مفلوج ہو کر رہ جاتا ہے۔ لوگ اشیائے خوردونوش پر بھوکی چیلوں کی طرح جھپٹتے ہیں۔ بے شمار افراد کرنٹ لگنے سے جاںبحق ہو جاتے ہیں۔ گھروں کی چھتیں مسمار ہو کر رہ جاتی ہیں۔ لوگ عارضی خیموں میں پناہ گزین ہوجاتے ہیں۔ ریلوے ٹریکس اور سڑکیں تندوتیز ریلوں میں بہہ جاتی ہیں۔ ہزاروں مویشی غرقاب ہو جاتے ہیں۔ انتظامی اداروں کی نااہلی اور بے حسی بے نقاب ہو جاتی ہے۔بجلی ٹرپ ہوجانے سے شہر اندھیروں کے غار میں ڈوب جاتے ہیں۔ بااثر افراد اپنی زمینیںبچانے کے لیے پانیوں کا رخ عام عوام کی بستیوں کی طرف کر دیتے ہیں۔
ہمارے حکمران ہر برس اس موسم میں ایک فوٹو سیشن کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔ اخبارات میں تصویریں اور ٹی وی پر چند منظر دکھائے جاتے ہیں۔ حاکم سیلاب زدگان میں آٹا تقسیم کرتے نظر آتے ہیں۔ کپڑوں اور دوائیوں کے پیکٹ بانٹ رہے ہوتے ہیں۔ بھوکے لوگ خوشی سے تالیاں پیٹتے نظر آتے ہیں۔ سوچتے ہیں کتنا اچھا حاکم ہے کہ جہاز میں سوار ہو کر آیا۔ انہیں خوراک کے چند لقمے اور پانی کے کچھ گھونٹ دے گیا۔ چند دنوں بعد یہ سب کچھ فراموش کر دیا جاتا ہے۔ اگلے برس پھر یہی ایکسرسائز دوہرائی جاتی ہے۔ پھر تالیاں پھر فوٹو، پھر کھوکھلی تقریریں، پھر خوراک اور پانی کی تقسیم اور ایک برس کے لیے پھر فراغت۔ یہی بے حسی ہے جو ہر سال لباس بدل بدل کر اپنا چہرہ دکھاتی ہے۔
صرف اکیسویں صدی کے ان چند برسوں کا جائزہ لیا جائے تو ایک ہولناک منظر نامہ سامنے آتا ہے۔ 2003ء میں مون سون کی بارشیں شروع ہوئیں۔ کراچی میں 2 دنوں میں 284.5 ملی میٹر بارش ہوئی۔ شہر بھر میں سیوریج کا نظام مکمل طور بیٹھ گیا۔ ٹریفک کا نظام کلی طور پر معطل ہو کر رہ گیا۔
سندھ کے 4476 گائوں ان بارشوں سے شدید طور پر متاثر ہوئے۔ 2007ء میںکے پی کے، سندھ اور ساحلی بلوچستان میں سیلاب آیا۔ سرحدی صوبے میں 152 افراد جاں بحق ہوئے۔ 2000ء سے زائد اپنا گھر بار کھو بیٹھے، سندھ اور بلوچستان میں 815 افراد کا جانی نقصان ہوا۔ 2010ء کی بارشیں اور سیلاب تاریخ کے بدترین ابواب بن گئے ہیں۔ انہوں نے سونامی 2005ء زلزلے اور کئی ارضی و سماوی عذابوں کو پیچھے چھوڑ دیا تھا۔ 2000ء سے زائد پاکستانی اپنی جانیں گنوا بیٹھے۔ 2 کروڑ پاکستانی ان سے شدید متاثر ہوئے۔ 2011ء میں 361 افراد جان سے گئے۔ 5.3 ملین افراد اپنی چھتوں کو چھوڑ کر خیموں میں پناہ گزین ہوئے۔ 1.2 ملین گھروں میں بارشوں اور سیلابوں نے نقب لگائی۔ 1.7 ملین ایکٹر زمین صرف سندھ میں طوفانی ریلوں میں بہہ گئی۔ یوں کھڑی فصلیں ضائع ہو گئیں۔ ستمبر 2013ء میں 100 سے زیادہ افراد سیلاب کی نذر ہو گئے۔ کے پی کے جنوبی پنجاب اور اپرسندھ ان سے شدید کی طرح بہہ گئے۔ یوں پچھلے برس تک ہم نے ہزاروں پاکستانیوں کی زندگی کا چراغ گل ہوتے دیکھا۔ ہمارے دیہات، فصلیں، کھیت، کھلیان منہ زور موجوں کے سامنے ڈھیر ہوگئے۔ اس برس ہم نے پھر بہت بڑے لیول پر بارشوں اور سیلاب کو بھگتا ہے۔ پچھلے سارے زخم ہرے ہو کر رہ گئے ہیں۔
اس سال چند دنوں میں اب تک 350 افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔ 838 دیہات صفحہ ہستی سے مٹ گئے ہیں۔ ہزاروں مکانات کلی یا جزوی طور پر تباہ ہو گئے ہیں۔ 22 لاکھ 60 ہزار ایکٹر فصلیں ضائع ہو چکی ہیں۔ سندھ میں گدو اور سکھر میں بیراج پر انتہائی اونچے درجے کے سیلاب کی پیشینگوئیاں ہوچکی ہیں۔ دریائے چناب میں 9 لاکھ کیوسک کا سیلابی ریلا تریموں سے گزر چلا ہے۔ ہیڈ خانکی کا حفاظتی بند توڑ کر گجرات اور گوجر انوالہ کو ڈوبنے سے بچایا لیا گیا ہے۔ ہیڈ قادر آباد میں پانی کا بہائو 7 لاکھ 74 ہزار کیوسک تک جا پہنچا۔ بھارت نے بغیر پیشگی اطلاع کے چناب میں 10 لاکھ کیوسک پانی چھوڑ دیا۔ چنیوٹ میں دریائے راوی میں پانی کا بہائو 8 لاکھ 80 ہزار کیوسک ہے۔ دریائے راوی میں بلوکی کے مقام پر پانی کی آمد ایک لاکھ 5 ہزار اور اخراج 92 ہزار 600 کیوسک میٹر میں پانی کا بہائو 30 ہزار، شاہدرہ میں 85 ہزار اور راوی سائفن میں 86 ہزار کیوسک ہے۔ پاک آرمی نے 11 ہزار 2 سو 83 افراد کو کشتیوں کے ذریعے اور 771 افراد کو ہیلی کاپٹروں کے ذریعے ریسکیو کیا۔
بارشوں اور سیلاب کا دائرہ گلگت بلتستان اور کشمیر میں بھی بھاری جانی اور مالی نقصان کے ساتھ جاری ہے۔ آزاد کشمیر میں 30 ہزار افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔ پاکستان کے تمام ڈیمز جن کی تعداد 43 ہے لبالب بھر چکے ہیں۔ ہندوستان میں بڑے چھوٹے ڈیموں کی تعداد 4 ہزار 7 سو سے زائد ہے۔ ہم نے جو قیام پاکستان کے وقت ہندوستان سے زیادہ ڈیموں کے مالک تھے۔ اس میدان میں خطرناک حد تک پسپائی اختیار کی ہوئی ہے۔ اگر ہم ملک کے طول و عرض میں صرف ڈیم بنالیتے، نہریں گھود لیتے، بیراج تعمیر کرلیتے تو آج ہم ہندوستان سے آنے والے 10 لاکھ کیوسک پانی کو خوش آمدید کہتے اور اسے اسٹور کر لیتے۔ آج پنجاب بیشتر حصہ پانی میں ڈوبا ہوا نہ ہوتا۔ ہم اناج کو سیلابوں ریلوں میں بہتا نہ دیکھ رہے ہوتے۔ ہم شہروں میں لرزہ خیز تباہی اور ہمارے دیہات میں رونگٹے کھڑے کر دینے والی بربادی نہ آتی۔ ہم چین کی طرح سیلابوں کی تعداد، مقدار اور نقصان کو کئی گنا کم کر سکتے تھے۔
افریقہ میں کتنے ہی ایسے ملک ہیں جہاں سال بھر میں پانی کی چند بوندیں آسمان سے اترتی ہیں۔ وہاں کے رہنے والے اناج کے دانے دانے کے لیے محتاجی کی زندگی بسر کرتے ہیں۔ وہ فلک کی سمت آنکھیں آٹھائے کسی مہربان بادل کے ٹکڑے کی تلاش میں رہتے ہیں۔ ان کی نظریں، لیکن ہمہ وقت قہر برساتے سورج سے ہی ٹکراتی ہیں۔ انہیں اَبر کرم جیسا گراں قدر خزانہ نصیب نہیں ہوتا۔ ہم ان کی نسبت کس درجہ خوش نصیب ہیں۔ ہمارے ہاں سال بھر تواتر سے بارشیں ہوتی ہیں۔ مون سون میں جل تھل ہو کررہ جاتا ہے۔ ہم اس پانی سے اپنی زندگیوں میں آسودگی اور آرام بو سکتے ہیں۔ خوشحالی اور افراط کی فصلیں کاٹ سکتے ہیں۔ کتنی بدنصیبی ہے کہ ہم بارشوں کی دعائیں بھی کرتے ہیں اور پھر ان میں بہہ بھی جاتے ہیں۔ جب آسمان سے بوند نہیں برستی ہم تب بھی پریشان ہوتے ہیں جب مسلسل بارش شروع ہو جائے توہم اس سے بھی زیادہ پریشان ہو کر رہ جاتے ہیں۔ ہمارے سیلابوں کا کنارہ ہماری بدنصیبی کی طرح کسی بھی حد سے آگے نکل جاتاہے۔ یہ حدودو قیود اور ہر طرح کی باونڈری سے باہر نکل جاتے ہیں۔
ہم پانی کے اس خزانے کو ملکی ترقی کے لیے گنج پائے گراں مایہ کے طور پر استعمال کر سکتے ہیں۔ ہم چھوٹے بڑے ڈیم بنا کر بجلی کی قلت کو پورا کر سکتے ہیں۔ ہم پانی کو بے آب و گیاہ زمینوں تک لے جا کر سبزے اگا سکتے ہیں۔ فصلوں کی بہتات ہماری ضرورتوں کو پورا کر سکتی ہے۔ ہم بارانی علاقوں میں نہروں کے ذریعے پانی نے جا کر بنجر زمینوںسے لہلاتی فصلیں پیدا کر سکتے ہیں۔ ہم اپنے ندی نالوں کو پختہ کر کے ان کے پشتے بنا کر پانی سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ کیا ستم ہے کہ ہم قدرت کی ایک انمول نعمت کو اپنے لیے باعث زحمت بنا لیتے ہیں۔ یہ ہمارے گھر گھر وندے تباہ کر دیتی ہے۔ ہمارا سکھ چین چھین لیتی ہے۔ ہمارے لیے باعث آزاد بن کر ہماری زندگی کو تکلیف اور اذیت سے بھر دیتی ہے۔ ہماری گزشتہ حکومتوں نے اس ضمن میں مجرمانہ غفلت برتی ہے۔ اس سمت میںہر قدم اونٹ کے منہ میں زیرہ ڈالنے کے برابر رہا ہے۔
نواز شریف کی شہرت لانگ ٹرم منصوبوں کی وجہ سے زیادہ ہے۔ انہوں نے کئی اچھے پراجیکٹ بنائے ہیں۔ انہیں ملک میں بڑے چھوٹے ڈیم بنانے کو ترجیح دینا ہوگی۔ یہ وقت کی اشد ضرورت ہے کہ باعث زحمت بن جانے والے پانی کو باعث سہولت بنایا جائے۔ پانی کی ایک ایک بوند اسٹور کی جائے اور اس سے قومی فائدہ اٹھایا جائے۔ یہ فلاح آیندہ نسلوں کو ورثہ میں دے دی جائے۔ پانی جو زندگی کی علامت ہے کیوں ہمارے ہاں موت کا سمبل بنتا جا رہا ہے؟ اگر ہم ملک کے طول و عرض میں چھوٹے بڑے ڈیموں اور نہروں کا جال بچھا دیں تو ہم اس پانی سے زندگی کشید کر پائیں گے۔ ہماری زراعت پیچھے کی طرف سرکنے کی بجائے آگے کی طرف بڑھنے لگے گی۔ ابھی تک تو ہم ہر دہائی میں گندم، مکئی، چاول، کماد اور کپاس میں مسلسل خسارے کا سامنا کیے ہوئے ہیں۔
1950ء کی دہائی میں ہمارا زراعت کا جی ڈی پی 47.7 فیصد تھا۔ یہ 1960ء کی دہائی میں کم ہو کر 45.8 ہوگیا۔ 1970ء کی دہائی میں یہ مزید پسپا ہوا اور 38.9 فیصد رہ گیا۔ 1980ء کی دہائی میں یہ اور کم ہوا۔ 30.6 فیصد تک جا پہنچا۔ 1990ء کی دہائی میں یہ مزید سکٹر کر 25.8 فیصد تک آگیا۔ 2000ء کی دہائی میں اس میں مزید تنزلی ہوئی اور یہ 22.1 تک رہ گیا۔ یوں ہم دیکھتے ہیں کہ ایک اعلی ترین زرعی ملک ہونے کے باوجود ہم تنزلی کا بدترین شکار بن کر رہ گئے ہیں۔
یہ وقت کی اہم ترین ضرورت ہے کہ ہم بارشوں کے پانی کو ضائع ہونے سے بچائیں۔ اس کو استعمال میں لا کر بجلی بنائیں، زراعت کو چمکائیں۔ اپنے کھیت، کھیلانوں گھروں، چوباروں کو سیلابوں سے ہمیشہ کے لیے بچالیں۔ ہماری حکومت کو ایک لانگ ٹرم سوچ وژن اور مسلسل محنت کی ضرورت ہے۔ یوں ہم سنہری اجلے سویروں کی منزل پر پہنچ جائیں گے۔ جہاں ہریالی ہو گی، خوشحالی ہو گی۔ خوش بختی ہوگی۔ ہمیں اب درست سمت میں پہلا قدم اٹھا لینا چاہیے۔ ہزار میل کا سفر بھی پہلے قدم سے شروع ہوتا ہے۔ ہمیں محکم یقین اور پیہم عمل کامیابی تک لے جائے گا۔
کس کی فتح، کس کی شکست؟
فری میسن (Free Mason) یہودیوں کی ایک نہایت درجہ خفیہ تنظیم ہے۔ اس کا قیام 1771ء کو برطانیہ کی کاونٹی لنکا شائر میں ہوا۔ اس کے دفاتر دنیا بھر کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے ہیں۔ ان دفاتر کو یہودی لاجز (Lodges) کے نام سے پکارتے ہیں۔ اس تنظیم کے پاس کھربوں ڈالرز کے فنڈز ہیں۔ امریکا نے صرف 2014ء میں اسے 3.115 بلین ڈالرز عطا کیے۔ اس کی رکنیت کے عمل کو بڑے پراسرار انداز میں سرانجام دیا جاتا ہے۔ رکنیت کا عمل ڈگری کہلاتا ہے۔ ایک جیسی ڈگری کے حامل افراد صرف اپنے ہم رتبہ لوگوں سے ہی واقف ہوتے ہیں۔ اس تنظیم کے اجلاس اور تمام تر کاروائیاں خفیہ رکھی جاتی ہیں۔ تمام تر گفتگو کوڈ ورڈز میں کی جاتی ہے۔ صرف آراکین ہی ان کو ڈز کو ڈی کوڈ کر کے سمجھ سکتے ہیں۔ ایک آنکھ کا نشان جو دجال کی علامت ہے، فری میسن کی شناختی علامت ہے۔ یہودی فرقوں سمارٹینز، کارائینز، ایسینی ناسٹکٹس، فریسی اور سوقی کو یہ باہم مرتکز کر کے ایک زبردست شیطانی قوت دیتی ہے۔ یہ دنیا بھر میں جاسوسی کرتی اور یہودیوں کے مفادات کو تقویت پہنچانے کے لیے ہمہ وقت سر گرم رہتی ہے۔ اس تنظیم نے گریٹر اسرائیلGreater Israelکا نقشہ پیش کیا۔ عربوں کو ان کی زمینوں سے بے دخل کرنے کا ناپاک قدم اٹھایا۔ ہر دہائی میں یہ اپنے اہداف سیٹ کرتی اور بڑی
بے رحمی اور سفاکیت کے ساتھ ان کی تکمیل کے لیے کام کرتی رہتی ہے۔ یہ راستے میں آنے والی ہر رکاوٹ کو روند کر صہونیت کو دنیا بھر فتح مند ی کا پرچم عطا کر تی ہے۔ دنیا کی ہر طاقت ور ریاست کے اندر فری میسن نے نقب لگا رکھی ہے۔
وکٹرای مالڈرن نامی ایک فری میسن نے ’’ببگ آف نیشنز ‘‘بنائی جو بعد میں اقوام متحدہ کی صورت دنیا کے منظر نامے پر ابھری تھی۔ یون این او کے 10انتہائی اہم اداروں کے اعلی ترین عہدوں پر فری میسن قابض ہیں۔ اقوام متحدہ کے نیویارک آفس میں 22 شعبوں میں سے 9 پر یہودی اپنا تسلط جمائے ہوئے ہیں۔ یونیسکو کے 11 شعبے مکمل طور پر یہودیوں کی ملکیت ہیں۔ ایف اے او کی 3 شاخیں یہودیوں کے گھر کی باندیاں ہیں۔ آئی ایل او کے چار شعبے یہودیوں کے غلام ہیں۔ آئی ایم ایف کے 6 سب سے بڑے عہدوں پر یہودی قبضہ جمائے بیٹھے ہیں۔ ورلڈ بینک جس نے دنیا کے 176 ملکوں کو قرض کے جال میں پھنسایا ہوا ہے، سارے کے سارے بڑے عہدے دار فری میسن یہودی ہیں۔ یوں ان ملکوں پر یہودیوں کا تسلط بہت مضبوط بنیادوں پر کھڑا ہے۔ امریکا کے 85 سب سے بڑے اداروں میں سے 54 پر یہودی بیٹھے ہوئے ہیں۔ اس طرح امریکا کا 60 فیصد درحقیقت فری میسن کے قبضہ میں ہے۔
اسرائیلی مظالم کے خلاف اب تک 500 سے زیادہ قرار دادیںسلامتی کونسل نے پاس کیں۔ 60 منظور ہوئیں پر کسی بھی قرار داد پر عمل نہ ہو پایا۔ 45 بار اسرائیل کے خلاف ایکشن لینے کی قرارداد میں امریکا نے ویٹو کر دیں، یوں فری میسن ہر بار اسرائیل کو امریکا کی مدد سے درندگی کے وحشیانہ کھیل کے نتائج سے نکال کر لے گئے۔ فری میسن یہودیوں نے 1951ء میں ’’موساد‘‘کو جنم دیا۔ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ مصر موساد فری میسن کی ایک چھوٹی ذیلی شاخ ہے۔ موساد کے آٹھ شعبے ہیں۔ پہلی شاخ کو لیکشن ڈیپارٹمنٹ ہے۔ یہ دنیا بھر میں یہودیت کی راہ میں مزاحمت کرنے والوں کو ختم کر دیتی ہے۔ دوسری شاخ پولیٹکل ایکشن ڈیپارٹمنٹ ہے۔ اس کا کام کرہ ارض پر قائم ہر حکومت کو یہودی مفاد کے تابع کرنا ہے۔ اسپیشل آپریشن برانچ کسی بھی ہنگامی صورت حال میں کسی بھی ملک میں گھس کر صہیونی مفادات کی حفاظت کرتی ہے۔ ریسرچ ڈیپارٹمنٹ میں دنیا بھر میں ہر طرح کی معلومات کی جانچ پڑتال کی جاتی ہے۔
آپ یہ جان کر حیران ہوں گے کہ جاپان جیسے ملک میں 2000 یہودی بستے ہیں۔ ان میں اسے 1600 صرف الیکٹرونکس کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ یہ جاپانی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی بن کر حساس معلومات اکھٹی کر رہے ہیں۔ موساد کی چھٹی شاخ ٹیکنالوجیکل ڈیپارٹمنٹ ہے۔ اس کا کام سائنس اور ٹیکنالوجی میں نئی سے نئی اختراحات کے ذریعے فری میسن گولز کو حاصل کرنا ہے۔ موساد کی دوشاخیں مزید ہیں جن کے بارے میں معلومات نہیں ملتیں۔
ایک اندازے کے مطابق یہ دونوں شاخیں موساد کو فری میسن اسرائیل کے ساتھ جوڑے ہوئے ہیں۔ یوں فری میسن اور موساد مل کر ہر سال کروڑوں ڈالرز کا اسلحہ اسرائیل کے لیے حاصل کرتی ہیں۔ امن کے ان غارت گروں نے میزائل، راکٹ لانچرز، بحری آبدوزیں اور خطرناک کیمیائی ہتھیاروںکا ایک بہت بڑا ذخیرہ تل ابیب میں سٹور کر دیا ہے۔ 2007ء اور 2012میں یہودیوں نے اپنی قوت کے درشن کروائے اور2014ء میں فری میسن کا سفلہ پن ننگا ہو کر سارے عالم کے سامنے آگیا۔ ظلم اپنے پچھلے ریکارڈ توڑ گیا۔
8جولائی 2014ء کی صبح اسرائیل نے آپریشن (Protective Edge) کا آغاز کیا۔ 7 ہفتوں تک دن رات آسمان سے لاکھو ں ٹن بارود برسایا گیا۔ میزائلوں کی بارش ہوتی رہی۔ 2150مظلوم فلسطینی شہید کر دیئے گئے۔ ان میں 495 سے لے کر 578 تک معصوم بچے شامل تھے۔ 11,000 زائد مسلمان شدید زخمی یا اپاہج ہو کر سسک رہے ہیں۔ آہیں بھر رہے ہیں۔ 5 لاکھ 20 ہزار فلسطینی بے گھر ہوکر رہ گئے ہیں۔ ان میں سے 4 لاکھ 85 ہزار افراد دشدید ترین خوراک کی کمی کا شکار ہو گئے ہیں۔ 17 ہزار 200 مکانات مکمل طور پر تباہ ہو گئے ہیں جبکہ 37 ہزار 650 مکانات جزوی طور پر مسمار ہو گئے ہیں۔ یہ اب قابل رہائش نہیںرہے، یہ کسی بھی وقت گر سکتے ہیں۔ یواین او کے 90 ہزار کیمپوں میں 2 لاکھ 73 ہزار مسلمان سر چھپائے بیٹھے ہیں۔ مجموعی مالی نقصان5سے 6.6 بلین ڈالرز کا ہوا ہے۔
دوسری طرف حماس نے اسرائیل کے 66فوجی اور 6سویلین جہنم وصل کیے ہیں۔ 450 فوجی اور 6 سویلین شدید زخمی ہوئے ہیں۔ اسرائیل کا 500 بلین ڈالرز کا نقصان ہوا ہے۔ حماس نے 4 ہزار 6 سو سے زیادہ راکٹ اور مارٹر گولے فائر کئے۔ 3000 یہودیوں نے نقصان کے ازالے کے لیے کلیم داخل کروائے جن میں سے 20 سے 25 فیصد کو 20 ملین ڈالرز ادا کردیے گئے ہیں۔ اقوام متحدہ کے United Nations Office for the Coordination for Humanitarian Affairsنے غزہ کے بارے میں ایک رپورٹ شائع کی ہے۔ یہ لرزہ خیز حد تک ہولناک ہے۔ 26 اگست کو مصر کی ثالثی میں اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کا ایک معاہدہ طے پا گیا ہے۔ فنانشل ٹائمزکے یروشلم میں نامہ نگار جان ریڈ نے اسے حماس کی فتح قرار دیا ہے۔ اس کے مطابق حماس نے دنیا کی طاقتور ترین فوج کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ 50 روز تک حماس نے عالمی برادری کی چشم پوشی، اقوام متحدہ کی بے اعتنائی اور مسلم ملکوں کی بے حسی کے باوجودیہودیوں کے سامنے گھٹنے نہیں ٹیکے۔ اس نے غزہ کی ناکہ بندی کا خاتمہ کر والیاہے۔ 29 اگست کو جمعہ کے دن غزہ میں مجاہدین نے ایک ولولہ انگیز پریڈ کا اہتمام کیا۔
ہزاروں افراد نے راکٹ اور اسلحہ اٹھا رکھا تھا۔ انہوں نے اسرئیل کی طرف سے غیر مسلح ہونے کے دبائو کو یکسر مسترد کر دیا۔ القدس بریگیڈ کے اس ایمان افروز اقدام کو سارے غزہ میں بہت سراہا گیا ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم کو اس کی کابینہ نے آڑے ہاتھوں لیا ہے۔ اس کی ساری پالیسیوں کے پر خچے اڑاتے گئے ہیں۔ تل ابیب کا ’’بن گوریان‘‘ ہوائی اڈا مسلسل حماس کے راکٹوں کی زد میں رہا۔ اسرائیلی سول سوسائٹی اور میڈیا نے نیتن یاہو کو ایک بے کار اور بودا لیڈر قرار دیا ہے۔ وہ جو آیندہ الیکشن میں کامیابی کے لیے غزہ کو مشق ستم بنا رہا تھا۔ اب ناکام ہو کر منہ چھپاتا پھر رہا ہے۔ خود اسرائیلی پارلیمنٹ میں پچھلے دنوں اس معاہدے کو حماس کی برتری قرار دیا گیا۔ اسرائیل کو جنگی جرائم کی وجہ سے بین الاقوامی طور پر ایک ناپاک ریاست مانا جانے لگا ہے۔ برازیل جیسے ملک نے سلامتی کونسل میں یہودیوں کو شرمناک کردار پر خوب برا بھلا کہا اور اسرائیل میں برازیلی سفیر کو واپس بلا لیا۔ اقوام متحدہ دنیا بھر میں بدنام ہونے کے بعد خواب غفلت سے جاگی ہے۔ اس نے اسرائیلی جنگی جرائم پر تین رکنی ایک پینل تشکیل دیا ہے۔ اس میں لبنان، سینیگال اور کنیڈا کے انسانی حقوق کے نامور لیڈروں کو شامل کیا گیا۔ ہے۔ یہ کمیشن مارچ 2015ء میں اپنی رپورٹ پیش کرے گا۔
جب حماس 2006ء میں اقتدار میں آئی تو چین نے اس کا خیر مقدم کیا تھا۔ امریکا اور اسرائیل کے دبائو کے باوجود چین نے ایک شاندار عرب کانفرنس منعقد کی اور حماس کو اس میں مدعو کیا۔ 1987ء میں اپنے قیام سے لے کراب تک چین حماس کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ سلامتی کونسل میں بھی یہ فراخ دلی ہمیں بے حساب نظر آتی ہے۔ کتنی بدقسمتی ہے کہ چند مسلمان ملکوں نے حماس پر پابندی کی توثیق کی ہے۔ مسلم دنیا ظلم کے خلاف بیانات، مذمتی ارشادات کے علاوہ حماس کی کوئی قابل قدر مدد نہیں کرتی۔ یہ ملک اور ان کی حکومتیں ’’سویا ہوا محل‘‘ کا نظارہ پیش کرتے ہیں۔ انہیں حالات کی سنگینی اور یہودیت کے تیزی سے بڑھتے ہوئے فری میسن ٹڈی دل کا اندازہ نہیں ہے۔ فر ی میسن یہودی سارے عالم اسلام کے دشمن ہیں۔ ان کی انتقام کی کتاب میں حماس محض ایک باب ہے۔ سارے مسلم ملکوں کو گراں خوابی سے نکلنا ہو گا۔ ایک مشترکہ اسٹرٹیجی بنانا ہو گی۔ حماس کی اور فلسطینیوں کی دل کھول کر ہر طرح سے مدد کرنا ہو گی۔ حماس ہمارا ہر اول دستہ ہے۔ اگر یہ کلی طور پر بے سہارا ہوتا ہے۔ تو ہم سب فری میسن یہودیوں کی زد میں ہوں گے۔
اسرائیل میں حماس کی حالیہ بمباری نے یہودیوں کی بزدلی کو بے نقاب کر دیا ہے۔ یہ قوم محض مکاری و عیاری کا لبادہ اوڑھے ہوئے ہے۔ تل ابیب یونیورسٹی کے سائیکاٹری ڈیپارٹمنٹ کے مطابق 88 فیصد یہودی خطرناک نفسیاتی عوارض کا شکار ہو گئے ہیں۔ ان کا دل مسلسل انجانے خوف سے تھر تھر کانپتا رہتا ہے۔ یہ دراصل رسی کو سانپ سمجھ کر دہشت زدہ ہو جانے والی قوم ہے۔ مسلم دنیا کو یہودیوں کی چالبازیوں اور مکاریوں کو اچھی طرح جاننے کی ضرورت ہے تا کہ فوراً تدارک کیا جاسکے۔ ہمارے پاس کلام پاک کی صورت ایک بلند مینارہ نور ہے۔ ہمیں اس سے راہنمائی لینا ہو گی۔ ’’مومنو! کسی غیر مسلم کو اپنا راز دار نہ بنانا۔ یہ لوگ تمہیں نقصان پہنچانے میں کسی طرح کوتاہی نہیں کرتے اور چاہتے ہیں کہ جس طرح ہو تمہیں تکلیف پہنچے۔ ان کی باتوں سے دشمنی ظاہر ہو چکی ہے اور جو کینہ ان کے دلوں میں مخفی ہے وہ کہیں زیادہ ہے۔ اگر تم عقل رکھتے ہو تو ہم نے اپنی آیتیں کھول کھول کر سنا دی ہیں(القرآن)‘‘۔
دو منظر / اسلام آباد کے دھرنے، شمالی وزیرستان کے متاثرین
’’دوستوضسکی‘‘ کا شمار دنیا کے عظیم ترین کہانی کاروں میں کیا جاتا ہے۔ اس کی کتابیں اب تک 72 زبانوں میں ترجمہ ہو چکی ہیں۔ اس کا ایک ناول ’’Crime and Punishment‘‘ (جرم و سزا) پاکستان کی موجودہ دھرنوں والی صورت حال کا عکس دکھائی دیتا ہے۔ ’’دوستو ضسکی‘‘ ایک عجیب و غریب وباء کا ذکر کرتا ہے۔ حیرت انگیز حد تک اثر رکھنے والے جرثومے لوگوں کے جسموں میں داخل ہوجاتے ہیں۔ ایک ہی ہلے میں لوگ عقل و شعور ہوش و حواس کھو بیٹھتے ہیں۔ ناقابل بیان قسم کا ایک پاگل پن ہر کسی پر سوار ہو جاتا ہے۔ ہر کوئی خود کو دنیا کا سب سے زیادہ ذہین شخص مان لیتا ہے۔ اپنے آپ کو سچا اور باقی سب کو جھوٹا قرار دے دیتا ہے۔ گائوں، شہر، قصبے اور صوبے سب اس وباء کی لپیٹ میں آجاتے ہیں۔ اس بیماری کا کوئی مریض دوسرے کی رائے سننے کا روا دار نہیں ہوتا۔ ہر کوئی دوسرے کو گمراہ خیال کر کے چھاتی پیٹتا، روتا اور دہائی دیتا ہے۔ سچ جھوٹ کی تفریق ختم ہو کر رہ جاتی ہے۔ کوئی نہیں جانتا جرم کس کا ہے؟مجرم کون ہے؟ فرد جرم کس پر ہو گی؟ سزا اور جزا کیا قرار پائے گی؟۔ اس سریع الاثر بیماری کے شکار لوگ گروہوں میں بٹ کر ایک دوسرے پر تلواریں سونت لیتے ہیں۔ سنگینوں، چھروں بلموں، برچھیوں اور آ ہنی ڈنڈوں سے باہم حملہ آور ہو جاتے ہیں۔ لوگ اپنے کام دھندے چھوڑ دیتے ہیں۔ وہ گروہوں اور مجموں کی صورت شہروں کا گھیرائو کر لیتے ہیں۔
دنوں، ہفتوں محاصرہ کیے رکھتے ہیں۔ کاروبارِ مملکت پر جمود طاری ہو جاتا ہے۔ حکومت اپنا وجود کھو بیٹھتی ہے۔ ہر ایک سمت بلوائیوں کے لشکر دکھائی دیتے ہیں۔ دکاندار، کاشتکار، مل مزدور، دفتری بابو، استاد، طبیب سب کے پاس اپنا ایک نظریہ زندگی ہوتا ہے جو وہ دوسرے پر ہوبہو لاگو کرنے کی کی قسم کھا لیتا ہے۔ ہر کسی کو لگتا ہے کہ ہر آسمان تلے جو جو مسائل ہیں ان کا حل صرف اور صرف اسی کے پاس ہے۔ جو ذرا برابر بھی اس سے اختلاف کرتا ہے وہ گردن زدنی قرار پا جاتا ہے۔ ہر کوئی اپنی بیماری بھول کر دوسرے کو مکمل صحت یاب کرنا اپنا اہم ترین منشور حیات مان لیتا ہے۔ ہرکسی کے ہاتھ میں ایک بڑا سا ڈنڈا ہے جس پر عقل کا ایک بڑا پھریرا گدھ کے پروں کی طرح سایہ فگن ہوتا ہے۔ لوگ اپنے جھنڈے کو دوسروں سے اونچا رکھنے کے لیے دن رات کھڑے رہتے ہیں۔ یہاں تک کہ ان کے پنجے شل ہو جاتے ہیں۔ کچھ تندرست لوگ انہیں درست راستوں کی طرف لے جانا چاہتے ہیں، ان کو فی الفور زنخا اور نامرد ہونے کا اعزاز تفویض کر دیا جاتا ہے۔ ’’سیسہ پلائی دیوار‘‘ اور ’’بیڑا اٹھا لینے‘‘ جیسے الفاظ رال کی طرح ہر کسی کی ٹھوڑی سے بہنا شروع ہو جاتے ہیں۔ اشتہار باز مقرر کھوکھلے فقروں اور یرقانی تقریروں سے لوگوں کے شعور کی نسیں بندکر دیتے ہیں۔ لوگ ایک دوسرے پر الزامات کی خاک ڈالنا شروع کردیتے ہیں۔ گرد و غبار اس درجہ بڑھ جاتا ہے کہ دن اور رات میں تفریق کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ کچھ لوگ دن کو رات اور رات کو دن قرار دینا شروع کر دیتے ہیں۔ جونہیں مانتا اس کو فاترالعقل ہونے کا خطاب دے دیا جاتاہے۔ ہرکوئی دوسرے کو الزام دیتا ہے۔ لوگ باہم لڑتے ہیں۔ یوں ملک کی اکانومی بیٹھ جاتی ہے۔ وباء کے خاتمے تک ناقابل تلافی نقصان ہوچکا ہوتا ہے۔
٭ ہم لوگ ملکی بے حسی کی شدید وبائوں کی زد میں ہیں۔ ہمارے لیڈر وہ کور چشم ہیں جو سنگین ترین مسائل کا ادراک کرنے کی صلاحیت کھو بیٹھے ہیں۔ ٭ متاثرین کی حالت زار دیکھنے اور ان کے دُکھڑے سننے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ہمارے ملک میں حکمران تو ہوتے ہیں حکمرانی نہیں۔ ٭ لانگ مارچ اور دھرنوں کے غبار میں ہم بھول گئے کہ 10 لاکھ سے زائد متاثرین ہجرت کر کے شمالی وزیرستان سے ہمارے ہاں آئے ہوئے ہیں۔ ٭
پاکستان اگست کے مہینے میں ایسی ہی شدید ترین وباء کا شکار رہاہے۔ اسلام آباد ایک قلعے کامنظر پیش کرتا ہے۔ اس کا رابطہ ملک کے دوسرے شہروں اور بیرونی ملکوں سے کٹ کر رہ گیا۔ ملک کی اسٹاک مارکیٹ میں شدید مندی کا رحجان رہا۔ ڈالر کی قیمت تیزی سے بڑھنے لگی۔ روپیہ کی بتدریج سکڑنے لگا۔ 12 دنوں میں ملک کو 490 ارب کا نقصان ہو گیا۔ بیرونی سرمایہ کاری کو بریکیں لگ گئیں۔ چین جیسے دوست ملک نے اس انتشار پر سخت تشویش ظاہر کی۔ ترقیاتی کاموں کی رفتار تقریباً ختم ہو کر رہ گئی۔ اکیسویں صدی کے ان برسوں میں اگر ہم ملک کی معاشی صورت حال دیکھیں تو یہ دن بدن گرے جارہی ہے۔ پچھلے 12 سالوں کے اکنامک سروے بتاتے ہیں کہ یکم جولائی 2001ء سے 30 جون 2014ء تک ہمارا مجموعی بجٹ خسارہ 10200 ارب روپے جارہا ہے۔ ان برسوں میں تجارتی خسارہ 166 ارب ڈالر تک پہنچ گیا ہے۔ ہمارے بیرونی قرضوں کی لاگت 4113 ارب سے بڑھ کر اب 17613 ارب روپے تک جاپہنچی ہے یعنی ان 13 سالوں میں اس میں 13500 ارب کا اضافہ ہوگیا ہے۔ بیرون ملک پاکستانیوں نے ان برسوں میں 89 ارب ڈالر ملک بھجوائے۔ پچھلے مالی سال میں ہمیں اس مد میں 15 ارب ڈالرز وصول ہوئے۔ ہم ایکسپورٹ سے 25 ارب ڈالرزکا زرمبادلہ کما رہے ہیں۔ ہمارا ملکی زرمبادلہ 14.5 ارب ڈالرز اور مجموعی تجارتی حجم 65 ارب ڈالرز ہے۔ ملکی ریونیو 2 کھرب روپے اور گروتھ ریٹ 5 فیصد سالانہ ہے۔ یہ دوسرے ملکوں کے مقابلے میں بہت آہستہ ہے۔ فضل و کرم کا اندازہ صرف اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ہمیں قدرت نے 22 ارب پائونڈ کی معدنیات اور 13 ملین اونس کے سونے کے ذخائرسے نواز رکھا ہے۔ ان کی مجموعی مالیت 500 ارب ڈالرز سے زیادہ ہے۔ قدرتی گیس میں خدا نے ہمیں 32 ارب کے ذخیرے 185 ارب ٹن ہیں۔ دنیا کا سب سے بڑا نہری آبپاشی کا نظام رکھنے کے باوجود ہم زراعت کے شعبے میں ہر دہائی نیچے پھسلتے جار ہے ہیں۔ ہماری آبادی کا 60 فیصد نوجوانوں پر مشتمل ہونے کے باوجود ہم بے روز گاری میں نئے ریکارڈ بنا رہے ہیں۔ ہم 1300 ڈالرز فی کس آمدنی کا ملک ہیں۔ یعنی کاغذات میں ہر پاکستانی 108 ڈالر کما رہا ہے، جبکہ درحقیت 12 کروڑ 70 لاکھ افراد ایک یا 2 ڈالر روزانہ سے بھی کم کے حق دار قرار پار ہے ہیں۔
لانگ مارچ اور دھرنوں کے غبار میں ہم بھول گئے کہ 10 لاکھ سے زائد متاثرین ہجرت کر کے شمالی وزیرستان سے ہمارے ہاں آئے ہوئے ہیں۔ 15 لاکھ سے زائد ان کے مال مویشی مرچکے ہیں۔ بنوں، ٹانک، لکی مروت اور ڈیراسماعیل خان میں یہ لوگ بکھرے پڑے ہیں۔ زیادہ تر اسکولوں، کالجوں اور سرکاری عمارتوں میں سر چھپا کر بیٹھے ہوئے ہیں۔ مرکزی اور صوبائی حکومتوں نے کچھ امداد دے کر اپنی ذمہ داری سے فراغت پالی ہے۔ میڈیا اور اخبارات نے اپنی تمام تر توجہ ’’نئے پاکستان‘‘ پر مرکوز کیے رکھی۔ ہم سمجھنے لگے کہ پرانے پاکستان کے سارے مسئلے مسائل مکمل طور پر ختم ہوگئے ہیں۔ میںنے ان مہاجرین کے کیمپوں تک سفر کیا۔ لوگوں سے ان کے شب و روز کا احوال پوچھا۔ متاثرین کے جواب نہایت درجہ دل فگار تھے۔ ان میں زیادہ کو غذا کے حصول کے لیے شدید تکلیف سہنا پڑ رہی ہے۔ خوراک کی وافر فراوانی ان لوگوں کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ بیشتر لوگ کثیر الاعیال ہیں۔ ان کے لیے اپنے کنبوں کو پالنا دشوار ہوتا جارہا ہے۔
مہاجر کیمپوں کے اطراف مہنگائی کا طوفان آیا ہوا ہے۔ اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ یہ مہاجرین نہایت درجہ دین دار ہیں۔ ان کے ہاں پردے کا خصوصی خیال رکھا جاتاہے۔ کیمپوں میں انہیں بے پردگی کے عذاب کا سامنا ہے۔ بجلی جیسی سہولت کی عدم دستیابی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ پینے کا صاف پانی میسر نہیں ہے۔ لوگوں کو غسل اور وضو کے لیے بھی پانی کا نہ ملنا سوہان روح بنا ہوا ہے۔ ہنگامی حالات میں گھروں سے ہجرت کرنے کے باعث ان کے پاس ملبوسات کی کمی ہے۔ زیادہ تر لوگ ایک دو جوڑے کپڑوں کے لا پائے ہیں۔ صفائی ستھرائی کا خاطر خواہ انتظام نہ ہونے کی بنا پر ان کیمپوں کی حالت ناگفتہ بہ ہے۔ سب سے بُری صورت حال بچوں اور بوڑھوں کی ہے۔ بچے بیماریوں کا شکار ہو کر علاج معالجے کی ابتری کی وجہ سے زندگی کی طرف واپس نہیں لوٹ پاتے۔ پاکستان میں ہر روز 1184 بچے غربت، غذائی قلت اورقابل علاج بیماریوں کا شکار ہوکر وفات پا رہے ہیں۔ ان میں سے بیشتر بچے ان مہاجر کیمپوں اور افلاس کے ڈھیروں پہ آباد کچی بستیوں سے تعلق رکھتے ہیں۔
یو این او نے حال ہی میں 91 ملکوں میں ایک سروے کیا ہے۔ پاکستان بزرگ شہریوں کے لیے بدترین حالات کی بنا پر تیسرے نمبر پر آیا ہے۔ ہماری 6.5 فیصد آبادی 60 سال سے زیادہ کی ہے۔ ان کے لیے ادویہ، علاج، مناسب غذا نہ ہونے کی بنا پر اموات میں تیزی آتی جارہی ہے۔ ہم بھارت، نیپال اور سری لنکا جیسے ترقی پذیر ملکوں سے بھی پیچھے ہیں۔ مہاجر کیمپوں میں میں نے اپنی آنکھوں سے بزرگوں کو سسکتے اور روتے دیکھا، زندگی کے نازک ترین مقام پر ریاست ان کی کفالت کرنے کی ذمہ داری تج چکی ہے۔ یہ بزرگ ڈھلوان پر پھسلتے ہوئے پتھر ہیں جو تیزی سے نیچے آرہے ہیں۔
خیبر پختونخواہ سالانہ 11 سے 12 لاکھ ٹن گندم پیدا کرتا ہے جو کہ اس کی ضرورت کے لیے ناکافی پڑ جاتی ہے۔ صرف جنوبی وزیرستان جس کا رقبہ 4707 مربع کلومیٹر درآمد کرنا پڑتی ہے۔ شمالی وزیرستان کے متاثرین کے لیے گندم کی فراہمی نہایت سست روی کا شکار ہے۔ پنجاب میں خود گندم کی کمی دیکھنے میں آرہی ہے۔ آٹے کی نرخ تیز ی سے بڑھ رہے ہیں۔ یواین ڈی پی کی رپورٹ کے مطابق پاکستان دنیاکا دوسرا ملک ہے جہاں زیر کاشت رقبے میں کمی آرہی ہے۔ پاکستان میں زیر کاشت زمین مجموعی رقبے کا 30 فیصد ہے۔ فی ایکڑ پیداوار کم سے کم تر ہو تی جارہی ہے۔ امریکا کا صرف 8 فیصد حد رقبہ زیر کاشت ہے اس کے باوجود 22 کروڑ امریکیوں کے لیے خوراک پیدا ہورہی ہے۔ امریکی فاضل خوراک بیرون ملک بھی بھیجی جارہی ہے۔ پاکستان کے موسم کاشت کاری کے لیے امریکا کی نسبت نہایت درجہ زیادہ ساز گار ہیں۔ اس کے باوجود ہمارا کاشت کار مفاوک الحال ہے۔ ہم اسے ارزاں نرخوں پہ بیج پانی اور کھاد مہیا نہیں کر رہے۔ اس لیے جب بھی کبھی سوات آپریشن یا وزیرستان آپریشن جیسی کوئی افتاد پڑتی ہے تو ریاست اس بوجھ کو اٹھانے کے قابل نہیں رہتی۔ غذائی معاملات میںکار سرکار دھڑام سے نیچے آگرتا ہے۔ اسے سنبھالنا ناممکن ہو جاتاہے۔
متاثرین کی حالت زار دیکھنے اور ان کے دُکھڑے سننے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ہمارے ملک میں حکمران تو ہوتے ہیں حکمرانی نہیں۔ جمہوریت کا واویلا تو ہوتا ہے حقیقی جمہوری سوچ نہیں۔ الفاظ، تبصرے اور بیانات کے طوفان تو دکھائی دیتے ہیں۔ سچی دردمندی دیکھنے میں نہیں آتی۔ شمالی وزیرستان آپریشن کے مہاجر ہوں یا طوفانی بارشوں سے سرحدی صوبے میں تباہ کاریاں خیبر پختونخواہ کا وزیراعلی اور وزراء اسلام آباد میں میوزک کی تانوں پر ناچتے ہوئے نظر آئے۔ ہم جو مدتوں دنیا بھر میں گھی پیدا کرنے میں پہلے نمبر، چنے کی فصل میں دوسرے نمبر پر، چاول اور کپاس کی پیدوار میں چوتھے نمبر پر، دودھ کی پیداوار میں پانچویں نمبر، گندم اور کھجور کی پیداوار میں چھٹے نمبر پر، آم کی پیداوار میں ساتویں نمبر پر، کینو مالٹے کی پیداوار میں آٹھو یں نمبر پر، حلال گوشت کی پیداوار میں 16 ویں نمبر پر ہیں سیاسی بے حسی کے ہر مقابلے میں بلا مقابلہ پہلے نمبر پر آتے ہیں۔ ہمیں خدا تعالیٰ نے دنیا کی زرخیز ترین زمین دی۔ ہمیں افزائش کے لیے ساز گار موسم دیے۔ ہمیں نہری پانی کے وافر ترین ذخیرے ملے۔ ہمیں بیج اور دہقان کا پسینہ عطا ہوا۔ ہم نے خدا تعالیٰ کی ان گنت نعمتوں کو شمار کرنے کی بجائے گروہی سیاست، ذاتی مفادات، گھنائونی انائوں کو اپنا راہبر بنالیا۔ ہم نے ملک کو روشن سویروں کی دہلیز پر لے جانے کی بجائے اس وحشت ناک اندھیروں کی طرف دھکیل دیا۔ ہمارے لیڈورں نے نفاق کا بیج بویا۔ پانی میں نفرتوں کا زہرملایا۔ زمینوں میں عداوت کا سیم اور تھور چھوڑ دیا۔ آج ہم خوش حالی سے کوسوں دور ہیں۔
ملک 2 فیصد سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کا ورثہ بن کر رہ گیاہے۔ باقی عوام کو بدحالی کی وبائوں کے حوالے کردیا گیا ہے۔ ہر سیاست دان اپنی پٹاری سے عاقبت نا اندیش بیوروکریٹ سانپوں کو نکال رہا ہے۔ مجھے وزیرستان آپریشن کے متاثرین نے بتایا کہ ان کے لیے بنوں میں ایسی جگہ کیمپ بنائے گئے جو بچھوئوں کی آبشگا ہ ہے۔ میں ان کو کیا بتاتا کہ ہماری سیاست، ہماری جمہوریت، ہماری اپوزیشن مدتوں سے سانپوں اور بچھوئوں کے بھٹ بن چکی ہے۔ ہم لوگ ملکی بے حسی کی شدید وبائوں کی زد میں ہیں۔ ہمارے لیڈر وہ کور چشم ہیں جو سنگین ترین مسائل کا ادراک کرنے کی صلاحیت کھو بیٹھے ہیں۔
یہ کیسا نطام ہے ؟
برطانوی سیاست تین پارٹیوں کے گرد گھومتی ہے۔ یہ لیبرپارٹی، کنزرویٹو پارٹی اور لبرل ڈیموکریٹک پارٹی ہیں۔ ان میں آخری نسبتاً نئی ہے، جبکہ پہلی دو صدیوں پرانی ہیں۔ برطانیہ کی تاریخ میں یہ ’’وگ‘‘ اور ’’ٹوری‘‘ کے ناموں سے مشہور رہی ہیں۔ ان کی باہمی نفرتوں کی خلیج نہایت درجہ وسیع رہی ہے۔ گہری کدورت نے برطانوی معاشرے کو دو واضح گروہوں میں تقسیم کر دیا تھا۔ ’’ٹوری‘‘ قدامت پسند نظریات کی وجہ سے دیہی علاقوں میں مقبول عام تھی۔ ’’وگ‘‘ جدید نظریہ زندگی کی بنا پر تاجروں اور شہریوں میں خاصی مشہور تھی۔ جب ان میں سے ایک پارٹی حکومت میں آتی تو دوسری پارٹی والوں پر مصائب کا آسمان ٹوٹ پڑتا تھا۔ لیڈر شپ ملک سے فرار ہوجاتی۔ عہدیدار مفرور ہوجاتے۔ ان کی گرفتاریاں عمل میں لائی جاتیں۔ مخالف پارٹی کے اوپر سے لے کر نیچے تک کے سرکاری ملازموں کو برخاست کردیا جاتا۔
ان کے گھروں کے محاصرے کرلیے جاتے۔ اہلِ خانہ خوراک کے ایک ایک لقمے اور پانی کے ایک ایک گھونٹ کے لیے ترس جاتے۔ معتوب پارٹی کی سیاسی سرگرمیاں مکمل طور پر ٹھنڈی ٹھار ہو کر رہ جاتیں۔ اس کے دفاتر مشتعل طور پر بند کردیے جاتے۔ یوں اگر ’’وگ‘‘ پاور میں آتے
تو سارا دیہی انگلستان ہر قسم کی حکومتی نوازشات سے محروم ہو کر رہ جاتا۔ لوگوں کی زندگیاں اَجیرن بن کر رہ جاتیں۔ انہیں نہ کوئی ملازمت ملتی نہ ان کے علاقوں میں کوئی بھی ترقیاتی کام ہوتا۔ جب حکومت ٹوری پارٹی کو ملتی تو تاجروں اور بڑے شہروں کے رہائشی مسلسل عذاب کی گرفت میں آجاتے۔ حکومت درآمدات اور برامدآت روک دیتی۔ بڑے شہروں کے فلاحی منصوبے ختم ہوجاتے۔ ہر قسم کی خوشحالی گائوں دیہات کا رخ کر لیتی۔ یوں صدیوں تک ان دونوں پارٹیوں کے مابین نفرت کی آہنی دیوار کھڑی رہی۔
اس دیوار کو گرانے کے لیے دو افراد آگے آئے۔ ان کے نام ’’رچرڈ اسٹیل‘‘ اور ’’جوزف ایڈیسن‘‘ تھے۔ انہوں نے The Spectator کے نام سے ایک اخبار نکالا۔ دنوں میں اس کی اشاعت لاکھوں تک جاپہنچی۔ یہ اخبار ’’وگ‘‘ اور ’’ٹوری‘‘ دونوں پارٹیوں کو آہستہ آہستہ ایک دوسرے کے قریب لے آیا۔ اس نے نفرتوں کا زہر ختم کر کے محبت کی جوت جگا دی۔ منافرتوں کے کانٹے چن چن کر راستوں کو پھولوں سے سجا دیا۔ کدورت کی کالک کو جذبہ ایثار سے دھو دیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ سارے کا سارا انگریز معاشرہ منقلب ہوگیا۔
عداوتوں کی دیواریں مسمار ہوگئیں۔ محاذ آرائی کی خلیجیں پاٹ دی گئیں۔ روا داری کے پل تعمیر کردیے گئے۔ پھر وہ وقت بھی آیا کہ اگر ’’وگ‘‘ حکومت میں آئے تو انہوں نے ’’ٹوری‘‘ علاقوں میں فلاح و بہبود پر زیادہ خرچ کیا۔ ملازمتوں کا کوٹہ بڑھایا۔ ’’ٹوری‘‘ بچوں کے لیے نئے اسکول کھولے۔ جب ’’ٹوری پارٹی‘‘ کو پاور ملی تو اس نے دیہات کے ساتھ ساتھ شہروں اور شہریوں کو بھی لطف و عنایت سے محروم نہیں رکھا۔ ان پر بھی نواز شات کی بارش پیہم برستی رہی۔ ان دونوں پارٹیوں کی ساری سیاسی کشمکش ہائوس آف کامنز کی چار دیواری کے اندر محدود ہو کر رہ گئی۔ اس ایوان سے باہر نہ ان کی کوئی دشمنی تھی، نہ کوئی مخاصمت۔ نہ کوئی چپقلش تھی، نہ کوئی محاذ آرائی۔ حکومت خواہ کسی کی بھی ہو فلاحی منصوبوں کی کبھی کٹھائی میں نہیں ڈالا گیا۔ یوں برطانیہ جس کے دوحصوں میں تقسیم ہو جانے کی پیشینگوئیاں سارا یورپ کر رہا تھا۔ وہ نہ صرف ایک ہوگیا، بلکہ دنیا بھر میں اقوام عالم کو غلام بنانے کے لیے نکل پڑا۔ وگ اور ٹوری پارٹیوں نے ملک میں تعمیر و ترقی ہر برطانوی شہری کا حق تسلیم کر لیا۔ فلاحی منصوبوں کے گراف کو سارے ملک میں اوپر لے گئے۔ عوامی سہولتوں کا جام ہر کس و ناکس کو تھما دیا گیا۔
پاکستان بنا تو یہ مغربی اورمشرقی حصوں میں تقسیم تھا۔ شروع سے مشرقی پاکستان میں عوامی فلاح و بہبود کو پس پشت ڈال دیا گیا۔ 1954ء میں ملک کی 55 فیصد آبادی مشرقی حصے میں قیام پذیر تھی۔ 9 وفاقی سیکرٹریوں میں ایک بھی بنگالی نہ تھا۔ 41 جائنٹ سیکریٹریوں میں سے 3، 133 ڈپٹی سیکریٹریوںمیں سے 10 اور 548 انڈر سیکریٹریوں میں سے 38 کا تعلق مشرقی پاکستان سے تھا۔ ایوان صدر کے ملازمین میں سے 81 فیصد مغربی پاکستان اور 8 فیصد مشرقی حصے سے تھے۔ وزارت خزانہ میں 76 فیصد مغربی اور 24 فیصد مشرقی پاکستان سے تھے۔ ملک بھر کے گزٹیڈافسروں میں مغربی حصے کے 3708 اور مشرقی کے 1338، نان گزٹیڈ میں سے 82944 مغربی اور 26 سیکشن آفیسرز اور مشرقی حصے سے صرف 34 تھے۔ قیامِ پاکستان کے وقت مشرقی پاکستان میں 29603 پرائمری سکول تھے، جبکہ مغربی پاکستان میں 28413 ایسے اسکول تھے۔ 1971ء میں سقوط ڈھاکہ کے وقت مغربی حصے میں اسکول بڑھ کر 39000 ہوگئے، جبکہ مشرقی پاکستان میں اسکولوں کی تعداد 29603 سے کم ہو کر 28308 رہ گئی۔ 1971ء میں فوج کے 3 لیفٹیننٹ جنرل تھے۔ تینوں کا تعلق مغربی پاکستان سے تھا۔
21 میجرجنرلوں میں سے 35,1، بریگیڈیروں میں سے 51,1، کرنلوںمیں سے 218,2، لیفٹیننٹ کرنلوں میں سے 650,10، میجروں میں 60 مشرقی پاکستان سے تعلق رکھتے تھے۔ ایرفورس کے مجموعی 640 افسروں میں سے 7 اور نیوی کے 593 افسران میں سے ایک بھی مشرقی پاکستان سے نہیں لیا گیا تھا۔ پہلے پانچ سالہ منصوبے کے وقت مشرقی پاکستان کی آبادی مجموعی آبادی کا 60 فیصد تھی۔ انہیں اس پہلے منصوبے میں 26 فیصد، دوسرے پانچ سالہ منصوبے میں 32 فیصد اور تیسرے پانچ سالہ منصوبے میں 36 فیصد حصہ دیا گیا۔ پاکستان اپنے مشرقی حصے سے 21 ارب کا زرمبادلہ کماتا اور وہاں درآمدات پر 15 ارب خرچ ہوتے۔ مغربی حصہ برآمدات سے 15 ارب کماتااور 35 ارب روپے کی درآمدات کی سہولتوں سے فائدہ اٹھاتا تھا۔ مغربی پاکستان میں مزدور کی مزدوری چار روپے اور مشرقی پاکستان میں 75 پیسے تھی۔ یوں یہ وہ بنیادیں تھیں جن پر 1971ء میں پیپلزپارٹی اور عوام لیگ نے سیاست کی۔ ہندوستان نے موقعے سے فائدہ اٹھایا۔ ہم نصف سے زیادہ پاکستان گنوا کر بیٹھ گئے۔
مغربی پاکستان بنا تو ذولفقار علی بھٹو نے اقتدار سنبھالا۔ انہوں ں نےPeoples Rural Development Department کے تحت ایک پروگرام شروع کیا۔ اس پر دفاع کے بعد سب زیاد فنڈز صرف ہونا تھے۔ ملک بھر میں ضلع اور تحصیل کونسل لیول پر اسکول، کالج میں مرکز صحت بنوانے تھے۔ اگلی حکومت نے اس پروگرام کو بند کر دیا یوں پاکستان کے دیہی علاقوں میں ترقی کی رفتار یک دم ماند پڑ کر رہ گئی۔ لواری ٹنل پروجیکٹ پر پرویز مشرف کے دور میں اس پر خاصہ کام ہوا ہے۔ نواز شریف کے دور میں یہ مکمل ہونے جارہا ہے۔ یہ چترال کو ملک سے ملانے کے لیے ایک بہت بڑاپروگرام تھا۔ پرویزمشرف آج چترال میں سب سے زیادہ مشہور قومی لیڈر مانا جاتا ہے۔ موٹروے پروجیکٹس نواز شریف کے پہلے دور میں شروع ہوا۔ بے نظیر دور میں اس پر کام بند ہو گیا۔ نواز شریف نے اسے 1997ء میں مکمل کروایا۔ تب تک اس پر لاگت اربوں روپے بڑھ چکی تھی۔ نیلم ہائیڈروپاور پروجیکٹ نواز شریف شروع کیاہوا منصوبہ تھا جس پر اب وقت کی گرد بیٹھ گئی ہے۔ منگلا ڈیم ریزنگ پراجیکٹ بھی نواز شریف کا شروع کردہ منصوبہ تھا یہ اب جا کر مکمل ہواہے۔
راولپنڈی میں نالہ لئی پر ایکسپریس سے بنانے کا منصوبہ حکومتوں کی تبدیلیوں کی زد میں آکر اپنا وجود کھو بیٹھا ہے۔ نندی پور اور چیچو کی ملیاں میں پاور پراجیکٹ نواز شریف کے دوسرے دور میں شروع ہوئے یہ اب جا کر مکمل ہو رہے ہیں۔ مشرف دور میں یہ سرد خانے میں ڈال دیے گئے تھے۔ کراچی سرکلر ریلوے مشرف دور میں منظور ہوا۔ زرداری دور میں اس پر کوئی کام نہ ہو سکا۔ لیاری ایکسپریس وے بھی مشرف دور میں شروع ہوا۔ زرداری دور میں اسے ادھورا چھوڑ دیا گیا۔ پرویز الٰہی نے پنجاب میں ملتان انسٹیٹیوٹ آف کارڈیا لوجی شروع کروایا۔ شہباز شریف نے اس منصوبے پر کام رکوادیا۔ یوں اس کی تکمیل پرویز الٰہی کے دوبارہ وزیراعلی بننے کے ساتھ مشروط ہوکر رہ گئی ہے۔ پرویز الٰہی نے لاہور سرکلر ریلوے کی منظوری دی۔ یہ منصوبہ شہباز شریف کی میٹروبس کی گرد میں بیٹھ گیا ہے۔ مشرف دور میں کولہو پیکج کا اعلان ہوا جس کے تحت بلوچستان میں آٹھ کیڈٹ کالج بننا تھے۔ کوئٹہ میں بائی پاس کی تعمیر بھی منظور ہوئی تھی۔ زرداری اور نواز شریف دور میں ان پر کام رک گیا ہے۔
مشرف نے لسبیلہ اور لورالائی میں یونیورسٹیاں بنانے کا ڈول ڈالا تھا۔ آنے والے حکمرانوں نے ان پروجیکٹس کو لپیٹ کر رکھ دیا۔ خیبر پختونخواہ میں ہزارہ ایکسپریس وے نواز شریف کے پہلے دور حکومت میں بننا تھی۔ پچھلے بیس بائیس سالوں میں ہر حکومت نے اس کو داخل دفتر کیے رکھا ہے۔ اس طرح خانپور ڈیم روڈ کی تعمیر کے لیے جاپان مدد دے رہا تھا، اس کے لیے ٹیکسلا (پنجاب) میں ایک بائی پاس بننا تھا۔ یہ منصوبہ بھی عدم توجہی کی وجہ سے فائلوں میں گم ہو گیا ہے۔ اب جاپانی بھی اس سے ہاتھ اٹھا چکے ہیں۔ زرداری دور میں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام شروع ہوا۔ نواز دور میںاس کادفتر لپیٹنے کی کوشش کی گئی، چونکہ یہ ایک ایکٹ آف پارلیمنٹ کے تحت وجود میں آیا تھا، اس لیے نہ اس کا نام تبدیل ہو سکا نہ رقم کم کی جاسکی۔ خیبر پختونخواہ میں اے این پی کے امیر حیدر ہوتی نے باچا خان انکم سپورٹ اور باچا خان لون کے پروجیکٹ شروع کیے۔ تحریک انصاف کی حکومت نے بیک جنبش قلم انہیں ختم کردیا۔ یوں ہم دیکھتے ہیں کہ ہماری حکومتیں ’’ہر کہ آمد عمارت نو ساخت‘‘ کے مقولے پر کام کرتی ہیں۔ ہم وقت کی سوئیاں الٹی سمت گھومانے لگتے ہیںہم عوامی فلاح و بہبود کے منصوبوں کو نفرت کی زنجیروں میں قید کر دیتے ہیں۔ سہولتوں کافقدان پیدا کر کے خوش ہوتے رہے ہیں۔ ہمارے لیڈروں کی انائیں عوامی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹیں بن جاتی ہیں۔
معاشرتی بے انصافی نے ہم سے مشرقی پاکستان چھین لیا۔ ابھی تک ہم نے اس بڑے المیے سے کچھ نہیں سیکھا۔ ہم سب جانتے ہیں کہ بلوچستان معدنیات میں باقی پاکستان سے زیادہ دولت مند ہے۔ ہم اس صوبے سے اتنا کچھ لینے کے باوجود اسے تعمیر و ترقی کے گراف میں سب سے نیچے رکھتے ہیں۔ مدعتوں ہم پانی کی تقسیم میں چھوٹے صوبوں کا حق مارتے رہے ہیں۔ 1991ء میں ہم نے اس ضمن میں ایک معاہد کیا تھا۔ سندھ نے متعدد بار اس معاہدے کی خلاف ورزی پر پنجاب کی سرزنش کی ہے۔ ناروے کی ایک بہت بڑی ہائیڈروبجلی کی کمپنی نے چترال، کوہستان اور
خیبرپختونخواہ کے بڑے دریائوں، ندی نالوں کا سروے کے بعد بڑے وثوق سے کہا کہ ہے پانی اس درجہ تیز بہائو سے وہ 22000 میگاواٹ ہائیڈرو بجلی پیدا کر کے دے سکتی ہے۔ یہ ہماری قومی ضرورت سے کئی ہزار میگا واٹ زیادہ ہے۔ پھر بھی ہمارا بجلی مافیا ایسے منصوبوں کو فی الفور رد کر دیتا ہے۔ پیٹرول ڈیزل سے بجلی بنا کر اربوں ڈکارنے والے یہ لیڈر عوامی بہبود کے نت نئے منصوبے نہیں شروع کرنے دیتے۔ منصوبوں کو ادھورا چھوڑ دینے کے ضمن میں ہماری قومی تاریخ کا صرف ایک باب سارے دفتر پر بھاری ہے۔ خدارا! سیاسی وابستیوں سے بالاتر ہوکر ملک و قوم کی فکر کیجیے! وطن کی ترقی اور تعمیر میں بھرپور حصہ لیجیے!
دوسرا ویتنام
’’Socid Linguistic Organization‘‘ امریکا کی ایک تنظیم ہے۔ اس کا معاشرتی لسانیات کے شعبے سے تعلق ہے۔ اس کی ایک دلچسپ تحقیق کے مطابق 91 فیصد بالغ امریکی جس لفظ سب سے زیادہ خوف کھاتے ہیں وہ ’’ویتنام‘‘ ہے۔ وہ اسے سنتے ہی چڑجاتے ہیں۔ غصے میں واہی تباہی بکنا شروع کردیتے ہیں۔ امریکی میڈیا اس لفظ کے استعمال سے اجتناب برتتا ہے۔ ہالی ووڈ جو دنیا بھر کے چھوٹے سے چھوٹے واقعے کو پردہ اسکرین پر گھنٹوں کی فلموں میں ڈھال دیتا ہے۔ ویتنام پر فلمیں بنانے سے بچتا ہے۔ پروڈیوسر اور ڈائریکٹر جانتے ہیں امریکی عوام سینمائوں کا رُخ نہیں کرے گی۔ امریکا کی اڑھائی سو سالہ تاریخ کی بدترین فوجی شکست کی کہانی اُن کے لیے ناقابلِ برداشت ہوگی۔
1852ء کے اوائل میں فرانس نے ویتنام پر قبضہ کرلیا تھا۔ 100 سال تک فرانسیسی اس ملک کے حاکم رہے۔ بیسیوں صدی کے وسط میں دنیا بھر کے غلام ملک غلامی کی زنجیریں توڑنا شروع ہوگئے۔ ویتنام کو ’’ہوچی مُنہ‘‘ کی صورت ایک زبردست انقلابی جرنیل لیڈر مل گیا۔ اُس کی تقریروں نے ملک بھر میں آگ لگادی۔ ویتنام ’’ہوچی مُنہ‘‘ کی قیادت میں خواب غفلت سے جاگے۔ انہوں نے 20 دسمبر 1945ء کو ’’ڈیموکریٹک ریپبلک آف ویتنام‘‘ قائم کردی۔
فرانسیسی افواج شکست کھاکر ملک سے نکل گئیں۔ ویتنام کے درمیان سے دریائے ’’بن ہووئے‘‘ گزرتا ہے جو ملک کو شمالی اور جنوبی حصوں میں تقسیم کرتا ہے۔ جنوبی ویتنام راہنما ہوچی منہ کی لیڈر شپ پر راضی نہ ہوئے۔ ان کے ایما پر فرانسیسی فوجوں نے وہاں قدم جمائے۔ یکم جولائی 1949ء کو جنوبی ویتنام میں ’’اسٹیٹ آف ویتنام‘‘ کی الگ حکومت قائم کردی۔ شمالی ویتنام ایک لاکھ 64 ہزار کلومیٹر پر محیط تھا، جبکہ جنوبی ویتنام کے پاس 63 ہزار 344 کلومیٹر کا رقبہ تھا۔ 7 مئی 1954ء کو ’’ہوچی منہ‘‘ کی فوج نے یہاں پر فرانسیسیوں کی حکومت ختم کردی۔
اقوام متحدہ نے اس مرحلے پر مداخلت کی۔ جنوبی ویتنام کو 39 اور شمالی ویتنام کو 22 صوبوں میں تقسیم کرتے ہوئے 2 سال تک الگ الگ ملک رکھنے کا فیصلہ دیا۔ 1956ء میں ریفرنڈم تجویز یکا گیا کہ آیا دونوں ملک مدغم ہوں گے یا اپنا الگ وجود برقرار رکھیں گے۔ ’’ہنوئی‘‘ اور ’’سائیگا ساکو‘‘ دو دارالحکومت بنادیے گئے۔ 1955ء میں فرانس اپنی فوجوں، تنصیبات اور اَثاثوں کے ہمراہ واپس چلاگیا۔ جیسے ہی آخری فرانسیسی فوجی ملک سے نکلا امریکا نے جنوبی ویتنام میں اپنے قدم جمانے شروع کردیے۔ یہ پہلے این جی اوز کی صورت آئے۔ خوراک، صحت اور تعلیم کے پھیلائو کا بہانہ بنایا۔ 1960ء کا عشرہ شروع ہوتے ہی امریکی فوجی کثیر تعداد میں یہاں آنا شروع ہوگئے۔ 1963ء میں 25 ہزار، 1964ء میں 60 ہزار، جنوری 1965ء میں ایک لاکھ 6 ہزار، فروری میں 2 لاکھ 82 ہزار، مارچ میں 3 لاکھ 91 ہزار اور اپریل 1965ء میں 5 لاکھ 43 ہزار 400 امریکی فوجی ویتنام پہنچ گئے۔
نیٹو ملکوں نے بھاری جانی و مالی نقصان کے بعد اس جنگ سے ہاتھ اُٹھالیے۔ ان کے فوجی اپنے اپنے ملکوں کو روانہ ہونے لگے۔ امریکی ایک بند گلی میں اکیلے کھڑے ہوگئے۔
پورے کا پورا جنوبی ویتنام امریکا کی کالونی بن گیا۔ سارے ایرپورٹ، بندرگاہیں، حکومتی دفاتر پر اُس کا مکمل قبضہ ہوگیا۔ شمالی اور جنوبی ویتنام کے گوریلوں نے ’’نیشنل لبریشن فرنٹ‘‘ کے نام سے ایک خفیہ فوج بناکر امریکی افواج پر مسلسل حملے شروع کردیے۔ 30 جنوری 1969ء کو امریکا اور شمالی ویتنام کے درمیان باقاعدہ جنگ کا آغاز ہوا۔ 31 اکتوبر کو امریکا نے فضائیہ کے ذریعے ماہانہ 800 ٹن بارود برسانا شروع کردیا۔ لاکھوں ویتنام نامی باشندے ہلاک ہوئے۔ گوریلوں کے حملے زور پکڑنے لگے۔ 60 ہزار امریکی فوجی جوان ہلاک کردیے گئے۔ 12 امریکی لیفٹیننٹ جنرل اور 20 میجر جنرل موت کے گھاٹ اُتر گئے۔ 3 لاکھ شدید زخمی ہوگئے۔ 2 لاکھ جنوبی ویتنامی فوجی مارے گئے۔ 7 لاکھ امریکی فوجی پاگل پن کی سرحدوں میں داخل ہوگئے۔ ایک لاکھ نے خودکشی کرلی۔ 1969ء سے 1971ء تک جونیئر امریکی فوجیوں نے اپنے سینئرز پر 730 حملے کیے۔ ان میں سے 83 کامیاب رہے۔ کرنل، بریگیڈیئر اور جنرل اُن میں مارے گئے۔ ایک لاکھ 55 ہزار امریکی فوجی جنگ کے دوران لاپتہ ہوگئے۔ انہیں ویتنام گوریلوں نے اپنا شکار بنالیا۔ دوران جنگ 5 لاکھ 3 ہزار 926 امریکیوں نے فوج سے استعفیٰ دینے کا ریکارڈ بنایا جو آج تک ٹوٹ نہیں پایا۔ امریکا روزانہ 66 ملین ڈالر اس جنگی جنون کی بھٹی میں جھونکتا رہا۔ جنوبی ویتنام کے حامیوں پر 30 ارب ڈالر سالانہ صرف کرتا رہا تاکہ وہ اُس کے زیر نگیں رہیں۔ (باقی صفحہ5پر) امریکی صدر جانسن کے خلاف اندرون ملک مظاہرے روز مرہ کا معمول بنگ ئے۔ دسمبر 1964ء کو 25 ہزار شہریوں کا جلوس نیویارک کی سڑکوں پر نکلا۔
1970ء میں 50، 50 لاکھ امریکی جلوس دیکھنے میں آنے لگے۔ صدر جانسن کا اقتدار رخصت ہوگیا۔ اُس کی جگہ رچرڈ نکسن نے لے لی۔ اُس نے ویتنام کے دو شہروں ’’ہنوئی‘‘ اور ’’ہائی فونک‘‘ پر 11 دنوں میں ایک لاکھ بم گرائے۔ ان کی مجموعی طاقت ہیروشیما اور ناگاساکی پر گرائے جانے والے ایٹم بموں سے 5 گنا زیادہ تھی۔ ان حملوں کے جواب میں امریکی فوجیوں پر گوریلوں کے حملوں میں دن بدن تیزی آتی گئی۔ امریکا کا سارا غرور خاک میں مل گیا۔ اُس کی فوجیں فنا کے گھاٹ اُترے جارہی تھیں۔ ملکی قرضے کے انباروں میں مسلسل اضافہ ہوتا جارہا تھا۔ حکومت کے خلاف اندرون ملک مظاہروں کی شدت بڑھتی جارہی تھی۔ مجبوراً امریکا اقوام متحدہ کی طرف دوڑا۔ وہاں
27 جنوری 1973ء کو اُس نے اپنی ہار مان لی۔ بلامشروط انخلا پر بخوشی راضی ہوگیا۔ یوں 2 ماہ کی مدت میں 29 مارچ 1973ء کو آخری امریکی دستہ ویتنام کی سرحدوں سے نکل گیا۔ وہ جو بھوکے بھیڑیوں کی طرح ملک میں داخل ہوا تھا، چہرے بارود کے دھویں سے سیاہ، شیو مہینوں سے بڑھی ہوئی۔ اُن کے پاس نہ کھانے کو روٹی تھی، نہ پینے کو پانی۔ وہ گدھا گاڑیوں، ریڑھیوں اور سائیکلوں پر فرار ہورہے تھے۔ اُن کی فوجی گاڑیاں، ٹینک تباہ ہوچکے تھے۔ وہ راستے میں اپنی رائفلیں اور کارتوس بیچ کر خوراک کے چند لقمے خریدتے رہے۔ بھیک مانگ کر گزارا کرتے رہے۔ ویتنامی بستیوں سے جب اُن کا گزر ہوتا تو لوگ اُن پر تھوکتے تھے۔ اُنہیں گالیاں سننا پڑتی تھیں۔ امریکی غرور مکمل طور پر سرنگوں ہوچکا تھا۔ تکبر کے غبارے سے ہوا ساری کی ساری نکل چکی تھی۔ اُس کی سپاہ پھٹی پتنگ کی طرح اونچائی سے زمین پر آن گری تھی۔ یہ راکٹ کی طرح آسمانوں کی سمت گئی اور چھڑی کی طرح نیچے آگئی تھی۔ ایک گمنام سے ملک نے اپنے انتہائی محدود وسائل کے ساتھ ایک سپر پاور کو شکست دے دی تھی۔ ذلت اور ہزیمت کی سیاہی اُس کے چہرے پر مل دی تھی۔ اُسے خاک چاٹنے پر مجبور کردیا تھا۔ معاشی طور پر امریکا بھکاری بن چکا تھا۔ اُس ایک مارکیٹ اکانومی تاریخ میں پست ترین سطح پر آچکی تھی۔ وہ کشکول لیے یورپی ملکوں میں پھررہا تھا۔ برطانیہ، فرانس، جرمنی، آسٹریلیا اور اسرائیل نے اُس کی مدد کی۔ یوں اُسے واپس اپنے پیروں پر کھڑا کیا۔ بھیڑیے اپنے دانت گنوا بیٹھتے ہیں، پر اپنی خصلت نہیں چھوڑ سکتے۔ وقت کے ساتھ امریکی فطرت کی شیطنت دوبارہ عریاں ہوکر دنیا کے سامنے آنے لگی۔ سی آئی اے ایک بار پھر متحرک ہوئی۔ اُس نے دنیا بھر میں پراکسی جنگیں شروع کردیں۔ درجنوں ملکوں میں امریکا نے اپنے پنجے گاڑ دیے۔ وہاں کے حاکموں کو خریدلیا۔ مخالف حکومتوں کے تختے الٹ دیے۔ سرابلریان کو قتل کروادیا۔ یوں بدی کا پیکر امریکا بیسیویں صدی کے آخری ماہ و سال میں ایک بار پھر دنیا کی سپر پاور بن گیا۔ سوویت یونین کے انہدام کے بعد اس نے دنیاوی خدائی کے دعوے شروع کردیے۔ ویتنام کے بعد آج افغانستان وہ ملک ہے جس نے
نامرادی و ناکامی کی وافر راکھ اس کے چہرے پر مل دی ہے۔ اس کے تکبر و غرور کو پائوں تلے روند دیا ہے۔ 5 اگست کی صبح افغان ملٹری ٹریننگ اکیڈمی میں امریکا اور نیٹو کے اعلیٰ فوجی حکام موجود تھے۔ یہ افغانستان کو ملنے والے ’’ثمرات‘‘ پر لیکچر دے رہے تھے۔ اچانک ایک افغان فوجی نے آٹو میٹک گن سے اُن پر فائرنگ کردی۔ ایک ٹاپ امریکی میجر جنرل موقع پر ہلاک ہوگیا۔ ویتنام کی جنگ کے بعد یہ پہلا بڑا امریکی فوجی تھا جو ہلاک ہوا۔ زخمی ہونے والوں میں ایک امریکی بریگیڈیر جنرل، ایک جرمن بریگیڈیر جنرل اور افغان آرمی کا ایک جنرل شامل ہے۔ اس بڑے نقصان کے بعد واشنگٹن کی بدحواسیاں دیکھنے کے قابل ہیں۔ امریکا اور نیٹو ہر سال افغانستان میں 120 بلین ڈالر کا خرچہ اُٹھاتے رہے ہیں۔ امریکا نے 13 برسوں میں مجموعی 537.8 بلین ڈالر اس بے چہرہ جنگ میں جھونک دیے۔ 2152 امریکی فوجی اپنی جانیں گنوا بیٹھے۔ 19 ہزار 600 امریکی معذور ہوگئے۔ نیٹو کی سپاہ کے علاوہ 8 لاکھ 31 ہزار 576 امریکی فوجی افغان سرزمین پر آگ اور خون کا کھیل کھیلنے اُترے۔ انہوں نے کابل کے میئر کرزئی کو طالبان کی جگہ تخت پر بٹھایا۔ برسوں کی مسلسل کوششوں کے بعد وہ افغان سرزمین کے صرف ایک چھوٹے سے حصے پر قابض ہوسکے۔ اُن کے جنگی جہاز تباہ ہوئے۔ ٹینک اور بکتر بند گاڑیاں ہوائوں میں اُڑا دی گئیں۔ ان کے مورچے منہدم ہوئے۔ بارودی سرنگوں میں اُن کے پرخچے اُڑے۔ اسلحہ بارود اور فوجی سازو سامان کے ذخیرے بھک سے اُڑ گئے۔ نیٹو ملکوں نے بھاری جانی و مالی نقصان کے بعد اس جنگ سے ہاتھ اُٹھالیے۔ ان کے فوجی اپنے اپنے ملکوں کو روانہ ہونے لگے۔ امریکی ایک بند گلی میں اکیلے کھڑے ہوگئے۔ آخرکار انہوں نے بھی عراق کے بعد افغانستان سے دبے پائوں فرار میں عافیت جانی۔ 2014ء میں انہوں نے افغان انتخابات کا ایک ڈھونگ رچایا۔ ایک کٹھ پتلی کو مسند صدارت پر فائز کرنے کی تگ و دو شروع کردی۔ اب جان کیری جلے پائوں کی بلی بنا کبھی عبداللہ عبداللہ اور کبھی اشرف غنی کے پاس جاتا ہے۔ اقتدار کی غلام گردشوں میں لڑائیاں اپنے پورے عروج پر پہنچ چکی ہیں۔ امریکا بالکل بے بس ہوکر رہ گیا ہے۔
13 برس تک افغانستان کی اینٹ سے اینت بجانے کے بعد بھی مکمل امریکی شکست افغان گلی کوچوں میں پاگلوں کی طرح ناچ رہی ہے۔ نیٹو اور امریکی فوج کے کمانڈر جنرل جوزف ڈنفورڈ نے امریکی سینیٹ کی کمیٹی کو بتایا ہے کہ انخلاء کے بعد القاعدہ اور طالبان دوبارہ افغانستان پر اپنی گرفت مضبو ط کرلیں گے۔ وہ امریکا پر نائن الیون جیسے حملوں کی پوزیشن میں ہوں گے۔ امریکی سینیٹروں نے عراق اور افغانساتن میں بدترین امریکی پسپائی پر حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا ہے۔ ڈیموکریٹک اور ریپبلکن سینیٹر ایک دوسرے پر الزامات کی بوچھاڑ کررہے ہیں۔ سی این این نے سابق امریک صدر جمی کارٹر کا ایک گھنٹے کا انٹرویو نشر یکا ہے۔ اُس نے ویتنام کی جنگ میں امریکی تباہ کاریاں اپنی آنکھوں سے ریکھ رکھی ہیں۔ اُس کا کہنا تھا کہ عراق اور افغانستان میں امریکا معاشی طور پر کنگال ہوکر رہ گیا ہے۔ نت نئے محاذ کھولنے اور جنگی الائو دہکانے نے امریکا کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ جمی کارٹر نے انکشاف کیا کہ صرف 2014ء میں امریکا نے اسرائیل کو 3.115 بلین ڈالر کی امداد دی ہے۔ یہی امداد فلسطینیوں کے سروں پر بارود بن کر برس رہی ہے۔
عالمی شہرت یافتہ مؤرخ ’’ٹائن بی‘‘ نے اپنی کتاب ’’اے اسٹڈی آف ہسٹری‘‘ میں ایک پیشینگوئی کی تھی۔ اُس نے ایک فارمولا دیا ہے اور اُس فارمولے کی تصدیق 2 اڑھائی ہزار سال کی تاریخی مثالوں سے کی ہے۔ اُس کا کہنا ہے بدی، ظلم اور شیطانیت کو نصب العین بنانے والی قوموں کو انجام کار ہولناک زوال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اُن کی تعمیر کے بیجوں میں باربادی وقت کے ساتھ ساتھ پروان چڑھتی ہے۔ بے محابا بدی نیکی کو نگل نہیں سکتی۔ امریکی اور یہودی جلد اپنی بے رحم اندھی طاقت کے بوجھ سے ہی ختم ہوجائیں گے۔ بے بس اور ناکس مسلمانوں کا لہو سمندر بن کر انہیں ڈبودے گا۔ شیطان کے پجاری خدا کی وحدانیت پر ایمان رکھنے والوں سے ضرور شکست کھا جائیں گے۔ یہی خدا کا فرمان ہے اور یہی دنیا کی اب تک کی ساری تاریخ کا آخری باب ہے۔ امریکا اور اسرائیل پر خدا کے قہر کی بجلیاں ضرور گریں گی۔ ان کی بربادی کی راکھ ہوائوں میں ضرور اُڑے گی۔
قافلہ آزادی سے بے وفائی
’’شاہد احمد دہلوی‘‘ ڈپٹی نذیر احمد جیسے عظیم اردو قلم کار کے پوتے تھے۔ انہیں اپنی مادری زبان پر بے مثال دسترس حاصل تھی۔ مدتوں وہ ایک ادبی رسالہ ’’ساقی‘‘ شائع کرتے رہے۔ 1947ء میں انہوں نے دہلی سے ہجرت کی اور کراچی میںآن بسے۔ ’’دلی کی بپتا‘‘ ان کی آپ بیتی ہے۔ یہ مسلم کش فسادات کا آنکھوں دیکھا حال ہے۔ شاہد احمد دہلوی نے لکھا ہے: ’’جون 1947ء میں پاکستان بننے کے اعلان کے بعد مسلم اکثریت کے اس شہر کو فسادیوں نے گھیرنا شروع کردیا۔ ہندوستان اور سکھوں کے جھتے تلواروں، بلموں، بھالوں، نیزو ں اور پستولوں سے لیس ہو کر آنا شروع ہوگئے۔ مسلمانوں کے بے دریغ قتل عام کا آغاز ہو گیا۔ انہیں چن چن کر موت کے گھاٹ اُتارا جانے لگا۔ ان کی دکانیں اور جائیدادیں لوٹی جانے لگیں۔ مسلمان عورتوں کی عصمت دری کی جانے لگی۔ بچوں اور بوڑھوں پر بھی رحم نہ کیا گیا۔ شہر سے ہر آن دھوئیں کے بادل اُٹھتے رہتے۔ انگریز سرکار اور ہندو پولیس نے لاتعلقی کو اپنا شعار بنا لیا۔ مہا سبھائی تنظیموں کے دفاتر میں تازہ دم بلوائیوں کا اکٹھ ہوتا رہتا۔
انہیں شہر بھر کے نقشے فراہم کیے جاتے۔ مسلم آبادیوں کی نشان دہی کی جاتی اور انہیں ناپاک مشن پر روانہ کردیا جاتا۔ بجلی پانی کی فراہمی منقطع کر دی جاتی۔ خوراک راشن تک رسائی کو ناممکن بنا دیا جاتا۔ بستیوں میں ہندو اور سکھ گِدھوں کی طرح انسانی گوشت نوچ نوچ کر کھاتے رہتے۔ لاشوں کی تدفین نہ ہونے سے نہایت مہلک وبائیںپھیلنا شروع ہو گئیں۔ تب انگریز سرکار خوف زدہ ہوئی کہ کہیں ان کی گوری چمڑیوں پر بھی وبائی جراثیم حملہ آور نہ ہو جائیں۔
اعلان ہونے لگے کہ مسلمان مرکزی جامع مسجد دہلی، کناٹ پیلس اور قرول باغ میں جمع ہوں۔ ان کو پاکستان روانہ کرنے کی تیاریاں زور پکڑ گئیں۔ لٹے پٹے، بھوکے پیاسے بے حال مسلمان گھروں سے نکلے اور مہاجرین کیمپوں کی سمت روانہ ہوگئے۔ ان کے خون کی مہک پاکر فسادیوں نے ہزاروں کو بیچ راستوں میں ذبح کردیا۔ جامع مسجد میں تل دھرنے کو جگہ نہ بچی۔ فوج کی حفاظت میں قافلے دہلی ریلوے اسٹیشن پہنچے۔ وہاں سے ٹرینوں میں پاکستان کی طرف گامزن ہوئے۔ ان میں سے بیشتر ٹرینیںمشرقی پنجاب میں سکھوں نے روک لیں۔ ’’ست سری اکال‘‘ کے نعروں میں مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔‘‘
٭ 1947ء کو جو قافلہ آزادی کے پرچم اٹھائے نکلا تھا آج اس کے ہاتھوں میں ناشکستہ آرزوں کی کرچیاں ہیں۔ ٭ 14 اگست کے سنہری سویرے کو ہم لوگ آزادی کے جشن کے طور پر منانا بھول گئے ہیں۔ راہنمائوں اور راہزنوں میں فرق ختم ہو کر رہ گیاہے۔ ٭
شاہد احمد دہلوی جس ٹرین میں سوار تھے۔ اسے پٹیالہ اور امرتسر میں گھیرا گیا۔ شور قیامت برپا ہوگیا۔ بچے رونے لگے۔ عورتیں چیخنا شروع ہوگئیں۔ مرد انہیں خاموش کرانے کے لیے اور زیادہ اونچی آوازوں میں چیخنا شروع ہوگئے۔ ٹرین کی ساری کھڑکیاں بند کردی گئیں۔ ان کے آگے بھاری سامان رکھ دیا گیا۔ حبس اور گرمی سے پسینے چھوٹنے لگے۔ آدھی سے زیادہ ٹرین کے مسافر شہید کردیے گئے۔ 10 لاکھ زخمی ہوئے۔ ان میں سے بیشتر زندگی بھر کے لیے معذور ہوگئے۔
3 لاکھ 42 ہزار مسلمان عورتیں اور لڑکیوں کی اجتماعی عصمت دری کی گئی۔ انہیں اذیت ناک موت دی گئی۔ امرتسر کے کمپنی باغ میں مسلمان عورتوں کا برہنہ جلوس نکالا گیا۔ بعد ازاں انہیں لرزہ خیز انداز میں مارا گیا۔ شاہد احمد دہلوی کا کہنا ہے کہ پاکستان پہنچنے والے مسلمانوں سے زیادہ کوئی بھی آزادی کی بیش بہا دولت سے واقف نہیں تھا۔ لوگ مسجدوں میں گر پڑے۔ وہ اس زمین کو چومتے تھے۔ وہ آسمانوں کو تشکر بھری نظروں سے دیکھتے تھے۔ ان کی آنکھوں میں گہری شکر گزاری کے آنسو تھے۔ آگ خون کے دریائوں کو پار کر کے آنے والوں کو ہی اس مملکتِ خداداد کی سچی قدر تھی۔ جاں بلب پیاساہی پانی کی قدر جان سکتا ہے۔ ‘‘
قیامِ پاکستان کے فوراًبعد محمد علی جناح علیل ہو کر وفات پاگئے۔ 4 سال بعد لیاقت علی خان شہید کردیے گئے۔ خواجہ ناظم الدین 1951ء سے 1953ء تک 2 سال ملک کے وزیراعظم رہے۔ اپریل 1953ء میں محمد علی بوگرہ اس منصب پر فائز ہوئے۔ سوا سال بعد انہیں چلتا کر دیا گیا۔ 11 اگست 1955ء چوہدری محمدعلی وزیراعظم بنائے گئے۔ ستمبر 1956ء میں انہیں واپس گھر بھیج دیا گیا۔ ستمبر 1956ء کو حسین شہید سہروردی نے یہ قلم دان سنبھالا۔ اگلے ہی سال آئی آئی چندریگر کو ان کی جگہ دے دی گئی۔ وہ اکتوبر 1957ء کو ملک فیروز خان نون کے سرپرست وزارتِ عظمیٰ کا ہما بٹھایا گیا۔ 7 ماہ بعد انہیں برخاست کردیا گیا۔ یوں 10 برس میں ہم نے 7 وزیراعظم کو فارغ کیا۔ 1956ء کا آئین منسوخ کیا گیا۔ پارلیمنٹ مرکزی اور صوبائی اسمبلیاں اور کابینائوں کو توڑ دیا گیا۔ اگلے 10 برس فیلڈ مارشل ایوب خان کے اقتدار کے ہیں۔ 1969ء جنرل یحییٰ خان ملک پر قہر بن کر ٹوٹا۔ 1970ء میں ہماری قومی تاریخ میں پہلی بار انتخابات ہوئے۔ مشرقی پاکستان نے 162 اور مغربی پاکستان نے 138 نشستیں جیتیں۔ جنرل یحییٰ خان نے اقتدار مشرقی پاکستان کے حوالے کرنے کی بجائے شیخ مجیب الرحمن کو ’’I want to sort out that bastard‘‘ جیسا سخت پیغام بھجوایا۔ مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کٹے پھٹے پاکستان کا وزیراعظم بنا۔ 5 جولائی 1977ء کو جنرل ضیا الحق نے بھٹو کی حکومت برخاست کی۔ 17 اگست 1988تک ملک پر حکمران رہے۔ ان کے 11 سالہ اقتدار کے بعد 2 دسمبر 1988ء سے 12 اکتوبر 1999ء تک ملک میں 4 بار انتخابات ہوئے۔ 4 بار وزرائے اعظم چنے گئے۔ بیچ میں 10 ماہ تک نگران وزرائے اعظم بھی رہے۔ 1999ء میں جمہوریت ایک بار پھر رخصت پر بھیج دی گئی۔ جنرل پرویز مشرف 2008ء تک ملکی اقتدار پر قابض رہا۔ 2008ء اور 2013ء کے انتخابات میں جمہوریت دوبارہ ملکی افق پر نمودار ہوئی۔ پیپلزپارٹی کے بعد اب ہم مسلم لیگ ن کی حکومت میں سانس لے رہے ہیں۔
ہم نے آزادی کا انمول موتی کنکرپتھر سمجھ کر طاق نسیاں میں پھینک دیا۔ یہ آبدار موتی کس درجہ قیمتی تھا، ہم لوگ اس احساس سے عاری ہوتے گئے۔ ہم نے آزادی کے پیڑ کی جانکا ہی سے نگہداشت نہ کی۔ اس کو سیدھا پروان نہ چڑھایا۔ اس میں پیدا ہونے والے ٹیڑھے پن کو وقت پر دور نہ کیا۔ ہم نے اکاس بیلوں سے اسے بچائے نہ رکھا۔ ہم نہیں جان پائے کہ یہی پیڑ ہمیں زمانے بھر کی کڑکتی دھوپوں سے بچائے گا۔ ہمارے سروں پر اپنی ٹھنڈی چھائوں کی چھتری تانے گا۔ ہم جمہوریت اور آمریت کے سانپ سیڑھی والے کھیل کھیلتے رہے یا پھر ہم دائروں میں گھومنے والی قوم بن گئے۔ آنکھوں پرخول چڑھے بیل کی طرح ہم سمجھتے رہے کہ ہم نے ہزاروں میل کا فاصلہ طے کرلیا۔ درحقیقت ہماری تمام تر گردش دائرے کے اندر ہی رہی۔ ہم جمہوریت اور آمریت کے جعلی پیروں کے چیلے بن گئے۔ خدا سے ناطہ توڑ کر ہم ان دنیاوی خدائوں کو اپنا نا خدا بنا بیٹھے۔ ہماری آزادی کی کشتی میں سوراخ بڑھتے گئے۔ یہ منجدھاروں میں ڈولتی رہی۔ ہم کسی معجزے کے انتظار میں ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہے۔ یوں ہر گزرتے ماہ و سال کے ساتھ ملکی مسائل گھمبیر سے گھمبیرتر ہوتے رہے۔ ہماری جمہوریت چند خاندانوں کی آمریت بن گئی۔ ہمارے حاکم خزانے خالی کرتے اور اپنی جیبیں بھرتے رہے۔ اقرباپروری اور رشوت ستانی نے ملک کی بنیادیں کھوکھلی کردیں۔ اسمبلیاں رعونت اور بے رحمی کو مجسم کردینے والے اشخاص سے بھری جانے لگیں۔ سرمایہ دار، جاگیردار اور بیورو کریٹ اکٹھ جوڑ کرکے ملک کو دونوں ہاتھوں سے لوٹتے رہے۔ پولیس ظالموں کے ہاتھ کی چھری اور جیب کی گھڑی بن کر رہ گئی۔ پٹواری سے لے کر تحصیلدار، مجسٹریٹ سے لے کر کمشنر تک عہدوں کے بیچوں سے فصلیں کاٹتے رہے۔ کچہری عدالتیں وکیل، جج انصاف کے بیوپاری بن گئے۔ بدمعاشی غنڈہ گردی گلی کوچوں میں وبائوں کی طرح پھیل گئی۔ شرافت دیانت داری معاشرے میں سکڑتی اور سمٹتی رہی۔ یہ پچھلے زمانوں کی یاد گاریں قرار دی جانے لگیں۔
ہماری آزادی وقت کے ساتھ ساتھ امریکا کی غلامی میں ڈھل گئی۔ امریکی صدر پاکستان کا وائس رائے بن بیٹھا۔ ہم امریکا کی سمت منہ کر کے ایاک نعبدو ایاک نستعین کہنے لگے۔ امریکی امداد نے ملی غیرت کے خوشنمالبادے میں جڑے بڑے شگاف ڈال دیے۔ ہم آئی ایم ایف ورلڈ بینک کے زرخرید غلام بن گئے۔ اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کی بجائے ہم نے غیروں کی بیساکھیوں کا سہارا ڈھونڈ لیا۔ انجام کار قوم کا بچہ بچہ مقروض ہوگیا ہے۔ ملکی پالیسیاں بیرون ملک تشکیل پانے لگیں۔ دوستوں کو دُشمن اور دُشمنوں کو دوست قرار دینا ہماری خارجہ پالیسی کا بنیادی پتھر بن گیا۔ ہم یہود و نصاریٰ کے مزار میں گھومنے والا سیارہ بن گئے۔ ہم وہ مرغ بادنما بن گئے جو ہوا کے ایک جھکڑپر 180 درجے پر گھوم جاتا ہے۔ ہم منزلوں کی سمت چلنے والے مسافروں کی بجائے آوارہ گردوں کا غول بنتے گئے۔ بے نشاں رہگزاروں کی دھول ہماری پیشانیوں کوسیاہ کرنے لگی۔ 2014ء تک آتے آتے ہم دنیا بھر میں پسماندہ ترین ملکوں میںشمار کیے جاتے ہیں۔ یواین ڈی پی کی رپورٹ کے مطابق 87 ملکوں میں ہم ترقی میں 146 ویں نمبر پر ہیں۔ 6 ملکوں میں غربت کی شرح میں ہرماہ اضافہ ہورہا ہے۔ بے روزگاری کا گراف اونچائی کی طرف تیزی سے گامزن ہے۔ تعلیم و صحت پر سرمایہ لگانا ہم روپے کا ضیاع سمجھتے ہیں۔ صفائی ستھرائی میں ہم نے دنیا بھر میں پچھلی نشستیںسنبھال رکھی ہیں۔ کھربوں روپے ملک سے چراکر بیرون ملک بینکوں میں رکھ دیے گئے ہیں۔ ہماری اشرافیہ نے دنیا بھر میں سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ یہ شاید دنیا کا واحد ملک ہے جس کی جمہوری نائو کے ملاح کھربوں پتی ہیں۔ ہماری اسمبلیاں ٹیکس چوروں سے لبالب بھری ہوئی ہیں۔ چور بازاری، ملاوٹ، ذخیرہ اندوزی، گراں فروشی وقت کے ساتھ ساتھ ہوش ربا انداز میں بڑھ رہی ہے۔ مہنگاہی کا ایک سیلاب ہے جو بڑھتا جارہا ہے۔ اس میں عوام سارا سال غرقاب رہتے ہیں۔ لیڈر شپ کی ترجیحات میں یہ سارے مسائل نہیں آتے۔ وہ صرف محلوں، فائیو اسٹار ہوٹلوں، بنگلوں، کوٹھیوں، پریس کانفرنسوں، سمیناروں، جلسوںبیانات کے گرد گھومتی ہے۔ حکومت اور اپوزیشن کا سارا کھیل اقتدار کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔
اپوزیشن جماعتوں نے حکومت کے خلاف اتحاد مضبوط کرلیا ہے۔ تحریکِ انصاف، پاکستان عوامی تحریک اور مسلم لیگ ق اسلام آباد کا گھیرائو کرنے والے ہیں۔ بادشاہت کے خاتمے کے اعلانات جاری ہو رہے ہیں۔ 10 لاکھ لوگوں کو اسلام آباد لانے کے دعوے کیے جارہے ہیں۔ کہا جارہا ہے ایک لاکھ موٹر سائیکل اور 50 ہزار گاڑیاں شہر میں داخل ہوں گی۔ جدھر دیکھو بیانات کی گرد اُڑ رہی ہے۔ الزامات کا کیچڑپھینکا جارہا ہے۔ حکومت کی بدحواسیاں اپنے عروج پر ہیں۔ ایک سال 3 ماہ بعد بھی حکمرانی کے درخت پر بے شمار زہریلے پھلوں کے علاوہ کچھ میٹھا نہیں اُگا۔ تحریکِ انصاف کے پاس ایک پورے صوبے کی حکومت ہے اس نے بھی ’’اسٹیٹس‘‘ کو بحال رکھا ہے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ عمران خان اپنی صوبائی حکومت کو ایک قابلِ فخرمثال بناتے۔ یوں ہم دیکھتے ہیں کہ اپوزیشن کے اس آتش فشاں کا لاوا کیا کچھ بہا کرلے جائے گا؟ ابھی کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ اس جوار بھاٹے میں کس کی نائو ڈوبے گی ابھی وثوق سے نہیں کہا جا سکتا۔ بے یقینی کا حال ہے کہ ہم اس میں پھنستے ہی جارہے ہیں۔ بحرانوں کا اندھیرا ہے کہ بڑھتا ہی جارہا ہے اور قوم اس میں ٹامک ٹوئیاں مارہی ہے۔ خلفشاروں کے دھند میں راستہ ختم ہو کر رہ گیا ہے۔
1947ء کو جو قافلہ آزادی کے پرچم اٹھائے نکلا تھا آج اس کے ہاتھوں میں ناشکستہ آرزوں کی کرچیاں ہیں۔ ان ہونٹوں پہ یاس کی پپڑیاں جمی ہوئی ہیں۔ پائوں میں دُکھوں کے کانٹے چبھے ہوئے ہیں۔ 14 اگست کے سنہری سویرے کو ہم لوگ آزادی کے جشن کے طور پر منانا بھول گئے ہیں۔ راہنمائوں اور راہزنوں میں فرق ختم ہو کر رہ گیاہے۔ ہم کس کی بات پر یقین کریں، کس کے قول کو سچ سمجھیں؟ کاش اے کاش! ہم فلسطینی مسلمانوں سے آزادی کا مطلب سیکھ لیتے۔ ہم ان سے ایک آزاد وطن کا شہری ہونے کی نعمت کا معنی جان لیتے۔ ہم آزادی پر قربان ہونے والے 10 لاکھ شہداء کی ر وحوں سے سنگین غداری کے مرتکب نہ ہوتے۔ کاش! ہم پاکستان کو واقعی پاکستان بنا لیتے۔
فلسطین میں درندگی کا راج
’’محمد مصلح‘‘ بین الاقوامی شہرت کے مصنف ہیں۔ وہ فلسطین، لبنان، اسرائیل اور عرب ورلڈ پر ایک اتھارٹی کا درجہ رکھتے ہیں۔ اُن کی سب سے مشہور کتاب ’’The Origin Of Palestinian Nationalism‘‘ ہے۔ اُن کے مطابق 1882ء سے قبل فلسطین میں ایک بھی یہودی باشندہ نہ تھا۔ 1882ء سے 1909ء تک فلسطین میں 26 یہودی کالونیاں بن چکی تھیں۔ ہوا یوں کہ فلسطین میں 250 عرب خاندانوں کے پاس 4,14,3000 ڈنم (Dunam) زمینیں تھیں۔ ایک ڈنم ایک ہزار مربع میٹر کے برابر تھا۔ ان میں سے کچھ عاقبت نااندیش مسلمانوں نے یہودیوں کے ہاتھوں زمینیں بیچنا شروع کردیں۔ یہودی چوروں کی طرح فلسطین میں چھپنا شروع ہوگئے۔ خلافتِ عثمانیہ جب حرکت میں آئی تو چند ہزار یہودی یہاں اپنے پائوں جماچکے تھے۔ جنگ عظیم اوّل میں برطانوی فوج نے جنوری 1917ء میں جنرل ایڈمنڈ کی سرکردگی میں شمالی فلسطین پر قبضہ جمالیا۔ القدس پر قبضے کے وقت اُس برطانوی سپہ سالار نے کہا: ’’آج صلیبی جنگیں اختتام کو پہنچ گئی ہیں۔‘‘ انگریزوں نے گہری سازش کے تحت یہودی آبادکاری کا عمل نہایت درجہ تیزتر کردیا۔ 1922ء میں وہ 86 ہزار تھے، جبکہ 1939ء میں اُن کی تعداد 4 لاکھ 55 ہزار سے تجاوز کرگئی۔ اقوام متحدہ نے شرمناک رول پلے کرتے ہوئے 1948ء میں قرار دیا
کہ 6.5 رقبہ زمین والے 33 فیصد یہودیوں کو فلسطین کی 55 فیصد اور 67 فیصد آبادی والے مسلمانوں کو 45 فیصد زمین عطا کی جاتی ہیں۔ اس صریح اور بدترین ناانصافی کے ردّعمل میں جنگ شروع ہوئی۔ 24 ہزار عرب فوج کے مقابلے میں 70 ہزار مسلح یہودی غنڈوں نے فتح حاصل کرلی۔ امریکا، برطانیہ اور فرانس یہودیوں کی پشت پناہی کرتے رہے۔
1956ئ، 1967ء اور 1973-74ء میں عرب اسرائیل جنگیں ہوئیں۔ اُس وقت تک یہودی دنیا بھر سے اسلحے کے ڈھیر اکھٹا کرچکے تھے۔ اسرائیل نے مغربی کنارے کا 5878 مربع کلومیٹر، غزہ کا 363 مربع کلومیٹر، مصر کے صحرائے سینا، شام کی گولان پہاڑیوں کا 1150 مربع کلومیٹر رقبہ قبضے میں لے لیا۔ ان جنگوں میں مصر کا 80 فیصد اسلحہ تباہ ہوگیا۔ 10 ہزار مصری، 7 ہزار اُردنی اور ایک ہزار شامی فوجی شہید کردیے گئے۔ 1967ء سے ان تمام مقبوضات پر اسرائیل کا قبضہ چلا آرہا ہے۔ کیمپ ڈیوڈ معاہدہ 1978ء میں، معاہدئہ اوسلو 1993ء میں، معاہدہ قاہرہ 1994ء میں، معاہدہ طبا 1995ء میں، دریائے وائی کا معاہدہ 1998ء میں، شرم الشیخ کا معاہدہ 1999ء میں ہوا، مگر اسرائیل اپنی پوزیشن سے ایک انچ پیچھے نہ سرکا۔ یوں اسرائیل ایک لاکھ 9 ہزار 93 مربع میل کا عرب علاقہ ہڑپ کرکے بیٹھا ہوا ہے۔
یہودیوں نے اسرائیل میں قدم جمانے کے بعد امریکا میں بہت بڑی ایمپائرز کھڑی کرلیں۔ وہ 70 لاکھ کی تعداد میں امریکا میں مقیم ہوگئے۔ میڈیا، بزنس، انڈسٹری، کانگریس سب پر اُن کا ہولڈ وقت کے ساتھ ساتھ مضبوط ہوتا گیا۔ امریکی انتخابات میں فتح کا مارجن عموماً 3 سے 4 فیصد ہوتا ہے، یہاں یہودی ووٹ فیصلہ کن کردار ادا کرتا ہے۔ 1988ء کے صدارتی انتخابات میں یہودیوں نے بش سینئر کی تشہیر پر 500 ملین ڈالر خرچ کیے۔ صدر کینیڈی کو 500,000 ڈالر کا عطیہ دیا گیا۔ 100 فیصد یہودی ووٹ اُس کے حق میں کاسٹ ہوا۔ یہودیوں نے فرانس، برطانیہ، رُوس، جرمنی جیسے ملکوں میں وقت کے ساتھ ساتھ اپنا اثر و رسوخ بہت بڑھالیا ہے۔ ان ملکوں میں سرمایہ کاری کرکرکے ان کو اپنا دستِ نگر بنالیا ہے۔ ان ملکوں کی مدد سے اسرائیل کے پاس ایٹم بم، ہائیڈروجن بم، جدید لڑاکا طیارے، اسٹیٹ آف دی آرٹ میزائل اور اسلحے کے بارود کے انبار جمع ہوگئے ہیں۔ اسی بدمستی میں 1982ء میں صابرہ اور شتیلہ کے مہاجر کیمپوں میں یہودی بھیڑیوں نے وہ انسانی شکار کھیلا جس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ اسرائیل کے خلاف ہر قرارداد اقوام متحدہ میں ویٹو ہوتی رہی۔ لبنان میں 2006ء میں اسرائیلیوں نے حملہ کیا۔ 2 ہزار سے زائد مسلمان شہید کردیے۔ 10 لاکھ افراد بے گھر ہوئے۔ 69 بڑے پل تباہ کردیے گئے۔ 90 فیصد پیٹرول پمپوں کو بھسم کردیا گیا۔ کوئی لبنانی ایرپورٹ سلامت نہ رہا۔ لبنان کی صنعت کو 300 ملین ڈالر کا نقصان پہنچا۔ پیٹرول پمپوں کو 16 ملین ڈالر، ہائوسنگ سیکٹر کو 953 ملین ڈالر، لبنانی انفرااسٹرکچر کو 721 ملین ڈالر کا نقصان برداشت کرنا پڑا۔ لبنان جس پر پہلے ہی 40 بلین ڈالر کا قرضہ تھا، اُس کا خسارہ GDP کے 180 فیصد سے زائد ہوگیا۔ یعنی ملک کئی دہائیاں پیچھے چلاگیا۔ سیاحت اور پراپرٹی بزنس مکمل طور پر بیٹھ گیا۔ یہودی اپنے ناپاک مشن میں کامیاب ہوگئے۔
حماس کے حکومت میں آنے کے بعد 2009ء اور 2012ء میں اسرائیل نے وسیع پیمانے پر مسلمانوں کا قتل عام کیا۔
٭ مسلم دنیا جس کے بادشاہوں کے خزانے فرش سے چھت تک بھرے ہوئے ہیں، جس کا صرف ایک ملک ساری مسلمان قوم کو گندم پیدا کرکے دے سکتا ہے۔ اس اُمت کی بدنصیبی دیکھیے کہ چھوٹا سا ایک شرپسند ملک اُن کے بھائیوں بہنوں کو سفاکی سے قتل کرتا رہا اور سوائے مذمت کے ہم کچھ نہ کرپائے۔ ٭ علامتی اجلاس، قراردادیں، اعلامیے، مذمتی بیانات، امداد کے اعلانات، یہودی اور عیسائی طاقتوں کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ اُمت کو خوابِ غفلت سے جاگنا ہوگا۔ ٭
اس سال 8 جولائی کی صبح شروع ہونے والا رقصِ ابلیس تادم تحریر جاری ہے۔ 1600 سے زائد بچے، عورتیں اور مرد شہید کیے جاچکے ہیں۔ بری، بحری اور ہوائی حملوں میں فاسفورس جیسے انتہائی مہلک کیمیائی ہتھیار کا استعمال کیا گیا۔ سڑکوں، گلیوں، بازاروں میں لاشیں بکھری پڑی ہیں۔ رہائشی عمارتوں، فلیٹوں، ہسپتالوں کو ملبے کا ڈھیر بنادیا گیا ہے۔ غزہ کا سارا انفرا اسٹرکچر تباہ کردیا گیا ہے۔ لاکھوں افراد کیمپوں میں پناہ لینے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ اشیائے خوردونوش اور ادویات کا بحران ہے۔ رمضان میں روزے داروں پر آسمانوں سے ٹنوں بارود برسایا گیا۔ معصوم بچوں کو بے مہابا قتل عام کیا گیا۔ الجزیرہ پر اس ہولناک سانحے کا دیکھنا ایک انتہائی کرب ناک فعل تھا۔ والدین اپنے شیرخوار مردہ بچوں کو اُٹھائے بین کررہے تھے۔ عورتیں آہ و بکا کررہی تھیں۔ مجبور بوڑھے اپنے جوان بچوں کو کھوکر بے حس و حرکت پڑے ہوئے تھے۔ یہودی درندوں نے چنگیز و ہلاکو کی سربریت کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ وہ جو ہٹلر کے ہولوکاسٹ کا واویلا مچاتے تھے۔ خود ہٹلر کو شکست دے چکے ہیں۔ سلامتی کونسل نے شرمناک رول پلے کرتے ہوئے فریقین سے جنگ بندی کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ دنیا بھر کے اہلِ ضمیر مظاہرے کررہے ہیں۔ اس درندگی کی مذمت کررہے ہیں۔ اوبامہ نے کمال سفاکیت سے چند یہودی فوجیوں کی جہنم رسیدگی پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔ فرانس میں بڑے ملکوں کی ایک کانفرنس میں اسرائیل کو حملے روکنے کی پُرزور اپیل کی گئی ہے۔ ہلال احمر نے ہسپتالوں میں سسکتے مریضوں پر بمباری کی مذمت کی ہے۔ حیوانیت زدہ یہودی پہاڑیوں سے برستے بارود کا نظارہ کرتے رہے اور تالیاں بجاتے رہے۔ او آئی سی عرب لیگ اور مسلمان ملک بیانات کے تیر چلاکر اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہوگئے۔ سعودی عرب نے فلسطینیوں کے لیے 5 کروڑ ڈالر کی امداد دی ہے۔
یہ انسانی المیہ اتنا بڑا ہے، ابھی تک اس کا مکمل اح اطہ نہیں ہوپایا۔ اسکول مدرسے چن چن کر نشانہ بنائے گئے ہیں۔ تعلیم کی بنیادیں مکمل طور پر بٹھادی گئی ہیں۔ سارے بڑے ہسپتال مکمل طور پر برباد کردیے گئے ہیں۔ ڈاکٹر نرسیں شہید کردی گئی ہیں۔ اناج گھروں کو جلاکر راکھ کردیا گیا ہے۔ خوراک کے دانے دانے کے لیے مجبور مسلمان بھٹکتے پھرتے ہیں۔ سڑکوں اور پلوں کو خصوصی نشانہ بنایا گیا ہے۔ یوں مہاجرین یہاں وہاں بھٹکتے پھررہے ہیں۔ گورنمنٹ دفاتر جل گئے ہیں۔ ساری سرکاری مشینری مکمل طور پر جام ہوکر رہ گئی ہے۔ حماس کے قائم کردہ سارے رفاہی ادارے بمباری کی زد میں آکر وجود کھوبیٹھے ہیں۔ بینکوں نے خاکستر ہونے کے بعد ملک کی معاشی شہ رگ کاٹ کر پھینک دی گئی ہے۔ بیرونی امداد خوراک، ادویات وغیرہ کو متاثرین تک پہنچنے سے روکنے کے لیے اسرائیل نے ذرائع رسل و رسائل کو مفلوج کرکے رکھ دیا ہے۔
جرمِ ضعیفی کی سب سے خوفناک تعبیر آج فلسطین میں دکھائی دے رہی ہے۔ 3 اسرائیلی باشندوں کی موت کیونکر ہوئی؟ اُنہیں کس نے مارا؟ نہ ثبوت درکار تھا، نہ گواہی و شہادت، نہ کوئی عدالت تھی نہ جج و وکیل، نہ کوئی استغاثہ تھا، نہ کوئی صفائی۔ بس حماس کی گردن میں پھندہ کس دیا گیا۔ بینجمن نیتن یاہو جیسے اسفل السافلین شخص نے ہنستی بستی بستیوں کو شمشان کے گھاٹ بنادیا۔ ابلیس کے اس پجاری نے سینکڑوں افراد کا خون کردیا۔ ہزاروں کو زندگی بھر کے لیے معذور بنادیا۔ ایک مفروضے کی بنیاد پر درندگی حیوانیت اور سربریت کی اس درجہ کریہہ منظر عمارت کھڑی کردی۔
مسلم دنیا کو دیکھا جائے تو او آئی سی اسلامی ملکوں کی سب سے بڑی تنظیم قرار دی جاتی ہے۔ اس کے چار اسسٹنٹ سیکریٹری جنرل ہیں۔ ایک صرف فلسطین پر تمام ترتوجہ مرکوز رکھتا ہے۔ 1975ء میں او آئی سی کی چھٹی کانفرنس میں ’’القدس کمیٹی‘‘ بنائی گئی۔ ساتویں کانفرنس میں ’’القدس فنڈ‘‘ قائم کیا گیا۔ جون 1981ء میں آزادیٔ فلسطین کے لیے او آئی سی نے ’’Islamic Office for Military Cooperation with Palestine‘‘ قائم کیا۔ جب اسرائیل نے تل ابیب سے اپنا دارالحکومت القدس منتقل کیا تو او آئی سی نے ساری دنیا کو دھمکی دی کہ جس بھی ملک کا سفارت خانہ القدس منتقل ہوا، اُس سے تمام مسلم دنیا اپنے تعلقات توڑ دے گی۔ اسرائیل کا ساتھ دینے والے ہر ملک کا معاشی بائیکاٹ کرنے کی قرارداد بھی پاس کی گئی۔ مندرجہ بالا ساری کارروائیاں درحقیقت صرف کاغذوں کا پیٹ بھرپائیں۔ ان خوابوں کی تعبیریں حقائق کے تمتماتے سورج میں پگھل کر رہ گئیں۔ اگر عرب لیگ کو دیکھا جائے تو اس کا بجٹ او آئی سی سے 10 گنا زیادہ ہے۔ اس کے سر پر بھی نامرادی اور ناکامی کے کانٹوں کا تاج ہے۔ مسلم دنیا جس کے پاس 2200 ملین ہیکٹر قابلِ کاشت اراضی ہے، اس کے پاس قدرتی وسائل دنیا بھر سے زیادہ ہیں۔ اس کے بادشاہوں کے خزانے فرش سے چھت تک بھرے ہوئے ہیں۔ مسلم اُمہ جس کا صرف ایک ملک سوڈان ساری مسلمان قوم کو گندم پیدا کرکے دے سکتا ہے۔ اس اُمت کی بدنصیبی دیکھیے کہ چھوٹا سا ایک شرپسند ملک اُن کے بھائیوں بہنوں کو سفاکی سے قتل کرتا رہا اور سوائے مذمت کے ہم کچھ نہ کرپائے۔ ہم نے شاہرائوں پر بینر لگادیے۔ ہم نے بیانات جاری کردیے۔ فلسطینیوں کے لیے دُعائے مغفرت فرمادی اور ساری اُمت سمجھ بیٹھی کہ فرض ادا ہوگیا۔ ہم نے اپنا اسلامی فریضہ پورا کردیا۔
اگر مسلم دنیا میں غیرت کا ذرا سا بھی مادّہ باقی ہے تو اُس کو اٹل فیصلہ کرنا ہوگا۔ سارے مسلمان ملکوں کی ایک مشترکہ فوج تشکیل دینا ہوگی۔ اُس کو ایک پرچم تلے اکھٹے کرنا ہوگا۔ اُس فوج کے پاس طاقتور ترین جذبہ ایمانی اور شمشیرِ قہر کی بجلیاں ہوں۔ وہ دنیا میں کسی بھی مسلمان ملک پر حملے کے وقت فی الفور حرکت میں آئے۔ جارحیت کے مرتکب کو دنیا میں ایک عبرتناک مثال بنادے۔ یقین کیجیے! اگر ایک بار مسلم دنیا کی فوج نے ایسی کوئی کارروائی کی تو آیندہ اسرائیل فلسطین اور لبنان کو روندے گا، نہ وہ عراق اور شام پر حملہ آور ہوگا۔ نہ امریکا مسلم دنیا کو ملیا میٹ کرنے کے لیے اپنے گھر سے نکلے گا۔ حکومت پاکستان کو اس سمت میں آگے بڑھنا چاہیے۔ عرب دنیا کو قائل کرنا چاہیے۔ ہمیں اب او آئی سی اور عرب لیگ جیسے کاغذی شیروں سے آگے دیکھنا چاہیے۔ اجلاس، قراردادیں، اعلامیے، مذمتی بیانات، امداد کے اعلانات، یہودی اور عیسائی طاقتوں کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ اُمت کو اب اَنگڑائی لینا چاہیے اور خوابِ غفلت سے جاگنا ہوگا۔ ایکشن زبردست ایکشن لینا ہوگا۔ ہماری یہ مسلم فوج امن کی خاطر ہوگی۔ اس کا چارٹر دفاع ہوگا۔ ہر مسلمان ملک کی سرحدوں کا دفاع۔ یقین ہے کہ صرف ایک بار ایسی فوج کے قائم ہونے پر ہی مسلم دنیا کا مقدر بدل جائے گا۔ پھر ہم اقوام متحدہ، سلامتی کونسل، یورپی یونین، جی ایٹ، دولت مشترکہ کی طرف حسرت بھری نظروں سے نہیں دیکھیں گے۔ ہمارے ہاتھوں میں آہنی لاٹھی ہوگی۔ دانت کچکچاکر ہماری طرف دوڑنے والے کتے ساکت ہوکر ہمیں دیکھیں گے۔ پھر دُم دباکر واپس اپنے بلوں میں گھس جائیں گے۔ کاش اے کاش! ہم ایک ایسی لاٹھی اُٹھانے کی سکت پیدا کرپائیں۔
آرٹیکل 370
’’ڈاکٹر جتندر سنگھ‘‘ کا تعلق جموں و کشمیر کے علاقے اودھم پور سے ہے۔ وہ اسی شہر میں پریکٹس کرتا رہا ہے۔ ایک مشہور ڈاکٹر ہونے کی بنا پر اس نے سیاست میں قسمت آزمائی کی۔ وہ بھارتی جنتا پارٹی میں شامل ہوگیا۔ یوں اس پر شہرت کی دیوی مہربان ہوگئی۔ حالیہ الیکشن میں مودی نے اس کے حلقے کا دورہ کیا۔ راشٹریہ سیوک سنگھ نے اس کو پوری طرح سپورٹ مہیا کردی۔ اس نے غلام نبی آزاد کو شکست دے کر سیٹ جیت لی۔
27 مئی 2014ء کو اسے مرکز میں سائنس و ٹیکنالوجی کا وزیر بنا دیا گیا۔ قلمدان سنبھالتے ہی اس نے سائنس اور ٹیکنالوجی کو خیر باد کہا اور ایک متشدد ہندو کا لبادہ اوڑھ کر سامنے آگیا۔ اس نے بھارتی آئین کا آرٹیکل 370 ختم کروانے کے لیے کنویسنگ شروع کردی۔ ہر پریس کانفرس میں اس کی تان کشمیری مسلمانوں کی اس ڈھال کو ہمیشہ کے لیے گرا دینے پر ہی ٹوٹتی ہے۔ وہ اور اس کے بدطینت ساتھی ان سازشوں میں پوری طرح سر گرم ہو چکے ہیں۔ یوں ہندو مہا سبھا،آر ایس ایس،وشنوا ہندو پریشد،بجرنگ دل،جن سنگھ سب اکھٹے ہو رہے ہیں۔ بھارتی لوگ سبھا میں جنتا پارٹی کی تاریخی بر تری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے یہ تنظیمیں جموں و کشمیر کے متنازعہ معاملے کو ہمیشہ کے لیے ختم کرنے کے درپے ہیں۔ یہ اس جنت نظیر خطے کو سالم نگل لینا چاہتے ہیں۔ ان کے راستے میں واحد دیوار آرٹیکل 370ہے۔ اس دیوار کے گرتے ہی کشمیر ہمیشہ کے لیے بھارتی جاگیربن جائے گا۔ آئیے! تاریخ کے جھروکے میں جھانکیں اور آرٹیکل 370کی اہمیت کو جانیں۔
قیامِ پاکستان کے وقت ہندوستان میں 565 آزاد ریاستیں تھیں۔ آزادی کے ساتھ ان میں سے بیشتر ہندوستان اور پاکستان میں شامل ہوگئیں۔
مہاراجہ ہری سنگھ نے مسلم اکثریت کی ریاست کشمیر کا بھارت کے ساتھ الحاق کا اعلان کردیا۔ کشمیری اس بدترین ناانصافی پر آگ بگولہ ہوگئے۔ ان کے نہتے مظاہروں پر ڈوگرہ فوج نے گولیاں چلانا شروع کردیں۔ ہزاروں مسلمان شہید ہوگئے۔ 22 اکتوبر 1947ء کو وزیرستانی قبائلیوں کے لشکر نے پاکستانی حکومت کی درخواست پر کشمیر میں دھاوا بول دیا۔ پاک فوج نے انہیں بیک اپ مہیا کیا۔ گلگت، بلتستان اور آزاد کشمیر پاکستان کے حصے میں آگئے۔ حکمت عملی کی کمزوری کی وجہ سے ہم کشمیر کے اہم ہوائی اڈّوں پر قبضہ نہ کرسکے۔ ہندوستانی سپاہ جہازوں میں اُترتی رہی ۔ یوں جنگ طول پکڑ گئی۔ سیز فائر ہوا تو کشمیر لاداخ اور جموں بھارتی فوج کے قبضے میں آگئے تھے۔ یوں ہندوستان کشمیر کا 6158 مربع میل کا وسیع رقبہ اپنے کنٹرول میں لے آیا۔ 70 لاکھ کشمیری اس کے غلام بن گئے۔ ان میں 97 فیصد مسلمان ہیں۔
جموں کا رقبہ 85000 مربع میل ہے، جہاں کی بیشتر آبادی فرزندانِ توحید پر مشتمل ہے۔ لداخ 33554 مربع میل پر مشتمل ہے۔ یہاں 50 فیصد بدھ اور 50 فیصد مسلمان رہائش پذیر ہیں۔ پنڈت نہرونے ابن الوقیت شیخ عبداللہ کے ساتھ اشتراک کیا ۔ یوں کشمیری مسلمانوں کو بظاہر ایک اسلامی تشخص فراہم کردیا گیا۔ شیخ عبداللہ کشمیر کا وزیراعطم بن گیا۔ مہاراجہ ہری سنگھ کے لگائے زخموں پر ظاہری مرہم رکھ دیا گیا۔ شیخ عبداللہ اور پنڈت نہرونے بھارتی آئین میں آرٹیکل 370 کا اضافہ کیا جس کی رو سے کوئی بھارتی شہری کشمیر میں جائیداد نہیں خرید سکتا، وہاں مستقل سکونت اختیار نہیں کر سکتا۔ کشمیر کو اس شق کی روشنی میں اپنا آئین بنانے کی آزادی مل گئی۔ ان کا مسلم تشخص ہندو یلغار کے مقابلے میں مضبوط بنیادوں پر کھڑا ہو گیا۔ 1951 ء کے انتخابات کے بعد کشمیر میں ایک آئین ساز اسمبلی وجود میں آئی۔ اس اسمبلی نے آرٹیکل 370 کو تحفظ دے دیا۔ جنوری 1957 ء میں یہ اسمبلی ختم ہوئی تو یہ آرٹیکل خود بخود بھارتی آئین کا مستقل حصہ بن گیا۔ اس کو پاس کرنے والی اسمبلی ہی اس میں ترمیم کر سکتی تھی۔ اس کے خاتمے کے بعد بھارتی لوک سبھا آرٹیکل 368 کے مطابق کشمیرکے پاس ہونے والے اس قانون میں کوئی تبدیلی کرنے کی مجاز نہیں ہے۔
تعجب کی بات یہ ہے اس اہم پیشرفت پر ہماری حکومت نے کوئی ردّعمل ظاہر نہیں کیا۔ ہمارے میڈیا نے بھی اس بڑے واقعے کو خاص رپورٹ نہیں کیا۔
یوں اگر قانونی طور پر دیکھا جائے تو اس آرٹیکل کا خاتمہ نا ممکن ہے۔ کانگریسی حکومتیں اس دیوار کو ناقابل قبول سمجھ کر اس طرف کا رُخ نہیں کرتی تھیں۔ بھارتی جنتا پارٹی کے پچھلے دور حکومت میں اس نے کئی متضاد پارٹیوں کے ساتھ اشتراک کیا ہوا تھا۔ اس کی تمام توجہ ان کی اپنی حکومت بچانے اور اقتدار کے مزے لوٹنے پر مرکوز رہی۔ اس الیکشن میں جیسے ہی اسے لینڈ سلائیڈنگ وکٹری ملی، اس نے اپنی توجہ کشمیر کو ہمیشہ کے لیے بھارت کا اٹوٹ انگ بنانے پر مرکوز کرلی ہے۔ بھارت کے چوٹی کے قانون دانوں سے رابطے استوار کر کے جنتا پارٹی ہندو تواس کے خوفناک تصور کو حقیقت میں بدلنے کی جان توڑ کوششیں شروع کرچکی ہے۔ اگر ہم تاریخی طور پر دیکھیں تو اس پارٹی کے جد امجدوں نے قیامِ پاکستان کے وقت سے ہی اس مذموم مقصد کو حاصل کرنے کے لیے کئی اقدامات اٹھائے تھے۔
جنتا پارٹی کا جنم جن سنگھ نامی انتہا پسند ہندو تنظیم سے ہوا۔ اس پارٹی کی دایہ گیری آر ایس ایس نے کی۔ اگر مزید پیچھے جائیں تو شدھی تحریک سے یہ ساری انتہا پسند پارٹیاں وجود میںآئیں۔ پنڈت مدہن موہن، مالویہ اور لالہ لاجپت رائے مشہور ہندو مہا سبھائی لیڈر تھے۔ فسادات برپا کرنے کے لیے انہوں نے بجرنگ دل قائم کی ان کے شاگرد شیام پرساد مکھر جی نے کشمیر سے متعلقہ آرٹیکل 370 ختم کرنے کے لیے ملک گیر تحریک چلائی۔ اس کا نعرہ ’’ایک ملک میں دو حکومتیں، دو حکمران اور دو جھنڈے نہیں چلیں گے‘‘ تھا۔ اکھنڈ بھارت ان راہنمائوں کا خواب تھا۔ انہی درندوں نے اکتوبر 1947ء جموں میں 2 لاکھ مسلمانوں کو شہید کردیا تھا۔
شیام پرساد کے لشکر نے جب کشمیر پر دھاوا بولا تو شیخ عبداللہ نے اسے قید کردیا۔ وہیں اس کی موت ہو گئی۔ اسے قتل قرار دینے کے لیے ولجھ بھائی پٹیل نے ملک گیر ہڑتال کروائی۔ یوں پنڈت نہرو نے شیخ عبداللہ کو کشمیر کے اقتدار سے برطرف کر دیا۔ یوں ہندووقتی طور پر ٹھنڈ ے پڑگئے۔ نہرو اپنی زندگی میں آرٹیکل 370 کو برف کی ڈلی کہا کرتا تھا۔ اس کا خیال تھا وقت کے ساتھ ساتھ کشمیری ہندو رنگ میں رنگے جائیں گے۔ وہ اپنا اسلامی تشخص تہذیب و تمدن تقافت زبان چھوڑ کر ہندو دھارے میں شامل ہو جائیں گے۔ نہرو اور آرٹیکل بنانے والے اس کے وکیل دوست گوپال سوامی آئنگر دونوں کی پیشینگوئیاں تاریخ نے غلط ثابت کر دیں۔ 1954ء سے یہ ہندوستانی آئین کے بت کدے میں مسجد کے محراب کی صورت کھڑا ہے۔ کشمیر میں اس پر ان گنت بار فسادات پھوٹے ہیں، یوں ہر بھارتی حکومت اس بھاری پتھر کو چوم کر پرے ہٹ جاتی رہی۔
تعجب کی بات یہ ہے اس اہم پیشرفت پر ہماری حکومت نے کوئی ردّعمل ظاہر نہیں کیا۔ ہمارے میڈیا نے بھی اس بڑے واقعے کو خاص رپورٹ نہیں کیا۔ ہم نریندر مودی کی والدہ کو ساڑھی پیش کرکے خوش ہوتے جا رہے ہیں۔ دوسری طرف دہلی میں پاکستان کی جو عزت افزائی ہوئی وہ ایک برہنہ سچ ہے۔ ہم شرکت بھی تو حلف برداری کی تقریب میں کرنے گئے تھے وہاں سے ہمیں ’’ڈیماند نوٹس‘‘ وصول کرنا پڑا۔ یوں ہم خواروزبون ہو کر کر گھر لوٹے۔ ہمارے کشمیری وزیراعظم کو اس آرٹیکل 370 والی اہم ڈیویلپمنٹ کا فی الفور نوٹس لینا چاہیے۔ ہماری اسمبلیوں اور سینیٹ میں جو جمہوری نابغے بیٹھے ہیں، وہ بھی اپنے قیمتی وقت سے چند گھڑیاں نکالیں۔ بھارت سے پُرزور مطالبہ کیا جائے تاکہ وہ کشمیر کا مسئلہ کشمیریوں کی اُمنگوں کے مطابق جلد از جلدحل کرے۔ وہ آرٹیکل 370 کے ساتھ چھیڑ چھاڑ ختم کر دے۔ 2004ء کے بعد سے ان 10 برسوں میں ہم نے بھارت کے ساتھ کشمیر کا معاملہ اٹھانا تقریباً ترک کر رکھا ہے۔ ہم اسی پر خوش ہیں بھارتی سامان پاکستانی منڈیوں میں آرہا ہے۔ ہمارے بزنس مین اربوں کما رہے ہیں۔ نوجوان پود سینمائوں میں برہنہ بھارتی اداکاروں کا رقص دیکھ رہے ہیں۔ یوں ہم دن بدن ’’روشن خیال‘‘ بنتے جا رہے ہیں۔ ’’قومے فرختند وچہ ارزاں و فروختند‘‘ کی اس سے بڑی مثال ہمیں دنیا کی تاریخ میں کم ہی ملے گی۔ ہندوستان آرٹیکل 370 کی بنیادیں کھود رہا ہے۔ کشمیر کا قصہ سرے سے ہی ختم کر رہا ہے۔ ہم ہیں کہ امن کی آشا کی پتنگ اُڑاتے پھر رہے ہیں۔
متاثرین کو بھی یاد رکھیں!
دنیا بھر میں مہاجرین کو دو بڑے گروپوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ ایک ’’آئی ڈی پیز‘‘ (Internally displaced person) کہلاتا ہے۔ یہ گروہ اپنے ہی ملک کے اندر کسی آفت کا شکار ہو کر ہجرت پر مجبور ہو جاتا ہے۔ دوسرا گرو ’’ای ڈی پیز‘‘ (Externally Displaced Persons) کا ہو تا ہے۔ یہ گروہ بیرونِ ملک ہجرت کر جاتا ہے۔ پچھلی ایک صدی میں ای ڈی پیز کی سب سے بڑی تعداد فلسطینی مسلمانوں کی ہے جو 51 لاکھ کی تعداد میں دنیا کے مختلف ملکوں میں بکھر گئے ہیں۔ انہیں صہیونی آندھیوں نے جڑوں سے اکھاڑ پھینکا ہے۔ دوسرے نمبر پر افغان مہاجرین ہیں جن کے گھر گھروندے روسی طوفانوں نے مسمار کردیے۔ ان میں 40 لاکھ پاکستان اور دوسرے ملکوں میں سکونت پر مجبور ہو گئے۔ تیسرے نمبر پر شامی مہاجرین ہیں جن کو بشارالاسد کی حرص اقتدار نے مہاجر بنا دیا۔ 25 لاکھ سے زیادہ شامی باشندے مصر، عراق، اُردن اورلبنان میں پناہ گزین ہیں۔ چوتھے نمبر پر صومالیہ ہے جس کے 11لاکھ 21 ہزار باشندے سرحدیں عبور کر کے پڑوسی ملکوں میں چلے گئے ہیں۔ چوتھے نمبر پر سوڈان ہے جس کی آبادی کا 6 لاکھ 36 ہزار حصہ ملک چھوڑکر چلا گیا۔ ساتویںنمبر پر عراق ہے جس کے 4 لاکھ ایک ہزار مسلمان غریب الوطنی پر مجبور ہو گئے۔ یہ تعداد ہمیں بتاتی ہے کہ آج کی دنیا میں آفات کی برق سب سے زیادہ مسلمانوں پر گرتی ہے۔ اسلامی ملکوں کو حکمرانوں کی ہوس اقتدار، بیرونی طاقتوں کی مداخلت، ان کے وطن پر بزورقبضہ، خانہ جنگیاںاپنا گھر بار چھوڑدینے پر مجبور کر دیتی ہیں۔ بیسویں صدی اور اب اکیسویں صدی میں بھی مسلمان نسبتاً سب سے زیاد ہ تباہ حال قوم ہے۔ ان کا مقدر بے نشان رہگزاروںکی دھول ہے۔
ان کا نصیب وطن سے دوری ہے۔
اگر ہم آئی ڈی پیز کو دیکھیں تو یہ زلزلے، سیلاب، سمندری طوفان یا پھرلینڈسلائڈنگ کی وجہ سے اپنے ملک کے اندر مہاجر ہو جاتے ہیں۔ آج کی ترقی یافتہ دنیا میں ایسی مثالیں بہت ہی کم ہیں کہ ان کو کسی فوجی آپریشن کے نتیجے میں نقل مکانی کرنی پڑجائے۔ پاکستان میں سوات آپریشن کے بعد یہ دوسرا آپریشن ہے جس میں 5 لاکھ 72 ہزار پاکستانیوں کو شمالی وزیرستان سے ایک دن کے نوٹس پر نکلنا پڑا۔ 13 جون 2014ء کا دن ان لوگوں کے لیے قیامت کی گھڑی تھا۔ انہیں قبائلی جرگہ نے ایک دن کے اندر اندر شمالی وزیرستان چھوڑدینے کا حکم دیا۔ آپ اندازہ کیجیے کہ ان لوگوںکو کس درجہ اذیت کا شکار ہونا پڑا ہو گا۔ یہ لوگ شدید گرمی، حبس اور ’’لو‘‘ کے تھپیڑوں میں گھروں سے نکل پڑے۔ انہیں راشن پانی اکھٹا کرنے کی مہلت بھی نہ مل سکی۔ پسماندہ قبائلی زندگی برق رفتار ٹرانسپورٹ کی سہولتوں سے محروم ہے۔ یہ لوگ تن تنہا پیدل افتانو خیزاںدوڑ پڑے۔ ان میں سے ایک لاکھ 12 ہزار افغانستان میں خوست اور پکتیکاکی طرف نکل پڑے جن سے شمالی وزیرستان کی مغربی سرحدیں ملتی ہیں۔ زیادہ تر مشرق میں بنوں اور کرک کی سمت روانہ ہوئے۔ سفری اذیتوں نے متعدد بوڑھوں، عورتوںاور بچوں کی جانیں لے لیں۔ درجہ حرارت 40 ڈگری سینٹی گریڈ تھا۔ 40 گھنٹوں کا سفر تھا، جب یہ بنوں پہنچے تو ان کے لیے حکومت کی طرف سے کوئی خاص خاطرخواہ انتظامات نہ تھے۔ یاد رہے کہ سوات آپریشن میں مہاجرین کی تعداد ان سے دوگنی تھی، مگر ان میں سے ہر ایک کوخیمے، راشن، پانی، دوائیاں، ڈاکٹر مہیا کیے گئے تھے۔ اس ہجرت میں بچے قے، دست اور پیٹ کی دوسری بیماریوں کا شکار ہو گئے۔ بوڑھے تاب و تواں کھو بیٹھے۔ عورتیں جنہوں نے زندگی بھر کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلایا تھا، اب اناج اور بچوں کی خوراک کے لیے ماری ماری پھرنے لگیں۔ بہادر غیور قبائلیوں کو شدید ترین گرمی میں راشن کے لیے میلوں لمبی قطاریں بنانی پڑیں۔ انہیں خالی پیٹ رجسٹریشن کے بعد 12 ہزار روپے دیے گئے، جن میں رہائش کے سامان کے لیے 5 ہزار اور اشیائے خوردونوش کے لیے 7 ہزار شامل ہیں۔ وزیراعظم نے 20 ہزار روپے ماہانہ کا اعلان کردیا ہے۔ وزارت خزانہ نے ڈیڑھ ارب روپے کے فنڈز جاری کردیے ہیں۔ صوبائی حکومت اس بڑے کرائسس کے لیے مرکز سے 6 ارب روپے مانگ رہی ہے۔ 44 ہزار 633 خاندانوں کی رجسٹریشن ہوئی۔ 32 کروڑ 95 لاکھ روپے ان میں بانٹے گئے۔ ساڑھے 4 ہزار ٹن امدادی اشیاء مہیا کی گئیں۔ بنوں کے 3 بڑے امدادی سینٹروں میں حالات اس درجہ ناگفتہ بہ ہیں کہ شدید گرمی میں انسانی رہائش جہنم میں قیام کے مترادف ہے۔ 14 جون سے لے کر اگلے 10 دن شدید بدانتظامی اپنے نقطہ عروج پر رہی۔ اس انسانی المیے کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ متعدد خاندان اپنے بچے اور دیگر افراد خانہ راستے میں گم کر بیٹھے۔ قیامت کا سماں تھا۔
مائیں دیوانہ وار خوراک ہاتھوں میں لیے اپنے بچوں کو آوازیں دے رہی تھیں۔ بی بی سی نے ایک خاتون دکھائی جس نے کئی دن تک ایک لقمہ خوراک حلق سے نہ اتارا تھا۔ وہ اپنے گمشدہ بچے کی تلاش میں دیوانہ وار چلچلاتی دھوپ میں ہر خیمے میں جھانکتی پھر رہی تھی۔ متعدد مہاجرین کے پاس ایک جوڑا کپڑے تھے۔ ان کا سب کچھ وزیرستان میں رہ گیا تھا۔ 15 لاکھ مال مویشی بے آسرا ہونے کی وجہ سے اندیشہ ہے موت کے گھاٹ اترجائیں گے۔ گھر کی چھت کتنی بڑی نعمت اس کا اندازہ ان لوگوں کی بپتا سے لگایا جا سکتا ہے۔ متعدد زار و قطار روتے ہیں۔ نہ بجلی، نہ پانی خوراک کی تقسیم میں کئی افراد کو اسپورٹس کمپلیکس میں مارا پیٹا گیا۔ ان کے آنسو نہ تھمتے تھے۔ رجسٹریشن کے پیچیدہ عمل میں ہزاروں متاثرین گھروں سے شناختی کارڈنہ لانے پر خوراک کی فراہمی والی فہرست سے خارج ہو گئے۔ نابالغ لڑکوں سے بھی شناختی کارڈ مانگے جاتے رہے۔ عدم فراہمی پر ان کو رجسٹر نہیں کیا گیا۔ فارموں پر مہر نہ ہونے سے وہ پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے دربدر بھیک مانگنا شروع ہوگئے۔ ایسے افراد کی تکلیف دیکھ کر مہاجرین نے اپنی خوراک کا بیشتر حصہ ان میں بانٹ دیا۔ یوں ایثار و ہمدردی کے اعلیٰ نمونے بھی دیکھنے میں آئے۔
ٹانک، لکی مروت اور ڈیرہ اسماعیل خان کے کیمپوں میں سہولیات شدید کم پائی گئیں۔ کھانا کھانے، پانی پینے کے برتنوں کی کمی، حوائج ضروریہ کے لیے خاطرخواہ انتظا م کا نہ ہونا ان کیمپوں میں زندگی کو اذیت بنا رہا ہے۔ پیٹ کی بیماریوں کی وبائیں پھیل گئی ہیں۔ ہسپتالوں میں ادویات ناپید ہیں اور مریضوں کے لیے بستر نہ ہونے کی وجہ سے برآمدوں میںچادر بچھا کر مریضوں کو لٹا دیا جاتا ہے۔ لوگ خیموں میں اناج کی بوریوں پر سر رکھ کر سوئے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ رمضان کی آمد اور 16 گھنٹے کے روزوں نے اس بدانتظامی کو مزید عریاں کردیا۔ بیرون ملک سے بھی امداد آنا شروع ہوگئی ہے۔ امید کی جاتی ہے کہ غریب الوطنی کے گہرے گھائو پر مہربانی کی مرہمیں فراہم ہونا شروع ہو جائیں گی۔ چند دنوں تک حالات میں کافی بہتری کی توقع ظاہر کی جارہی ہے۔ خدا ان لوگوں کی تکلیفوںں کو کم کرے۔
بدقسمتی سے 2005ء کے زلزے اور 2010ء کے سیلابوں میں قوم نے انسانی ہمدردی کے جو گہرے نقوش چھوڑے تھے، وہ اس بار نظر نہیں آئے۔ چند مخیر حضرات، کچھ اسلامی فلاحی تنظیموں اور پاکباز علمائے کرام کے علاوہ سول سوسائٹی نے اس سنگین انسانی المیے پر لاتعلقی کی خاموشی طاری کیے رکھی۔ رمضان کے مہینے میںجب پتھردل بھی موم ہو جاتے ہیں، ہم نے من حیث اقوام اپنا اجتماعی فرض ادا نہ کیا۔ ہمیں چاہیے تھا کہ اپنی خوراک کا کچھ حصہ، اپنے کپڑوں کا ایک جوڑا ان بدقسمتوں کے لیے دے دیتے۔ کون جانتا تھا وہ لوگ اس سال روزوں کے مہینے میں ہوں گے۔ ان کی نمازِ عید اپنی آبادیوں میںعید گاہوں میں نہ ہو گی۔ وہ صاف ستھرے لباس پہن کر خوشبو عطرسے ملک کے دوست احباب سے عید نہ مل پائیں گے۔ ان کی عید کا دن محرم کی سرحد سے جا ملے گا۔ وہ اپنے ہی وطن میں اجنبی ہوجائیں گے۔
مرکزی اور صوبائی حکومت کو ہنگامی بنیادوں پر اہم ترین ذمہ داری کو نبھانا ہو گی۔ متاثرین کے سر پر دست شفقت رکھنا ہو گا۔ ان کی بہتر رہائش، اشیاء خورنوش، علاج معالجے کو اولیت دینا ہو گی۔ انہیں زندگی کی اس نازک گھڑی میں بے آسرا چھوڑ دینا بہت بڑا اخلاقی جرم ہوگا۔ کوشش کی جائے کہ ان کی عزت نفس بحال ہو۔ وہ قطاروں میں قہر برساتے سورج تلے کھڑے نہ ہوں۔ افرادی قوت مہیا ہو جو ان کو دہلیز پر تمام اشیائے ضرورت مہیا کر سکیں۔ ان کی دستگیری ہو۔ گھر کا سکون چھن جانے کے بعد انہیں مہاجرت کی سنگین سختیاں کم سے کم سہنا پڑیں۔ ریاست کو اپنی بنیادی ذمہ داریاں ادا کرنی چاہیں۔ اگر ہم سوات آپریشن کے وقت متاثرین کو بہتر سہولتیںدے پائے تھے تو کوئی وجہ نہیں کہ اب ہم اس میں ناکام ہو جائیں۔
یہ درست ہے کہ آپریشن الٹی میٹم کے بغیرشروع ہوا۔ ایک افتادناگہانی کی طرح یہ متاثرین کو بہا کر لے آیا ہے۔ اس کے باوجود ہماری حکومت کو ہر وقت کسی بھی مشکل گھڑی کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ ہر بار ہم بیرونی طاقتوں کے بازوں کا سہارا ڈھونڈنا چاہتے ہیں۔ ہم اقوام متحدہ یورپی یونین جی ایٹ، دولت مشترکہ وغیرہ کی طرف التجا بھری نظریں اٹھائے منتظر رہتے ہیں۔ ہمیں اپنے پائوں پر کھڑا ہونا چاہیے۔ ہم جو وزیراعظم کے 12 ماہ میں 14 بیرون ملک دوروں پر 26 کروڑ روپے خرچ کر دیتے ہیں۔ ہمیں ہر دورہ 2 کروڑ میں پڑتا ہے۔ اگر ہم سادگی اپنائیں، ہمارے وزراء مشیر، سفیراور بیورو کریٹ کفایت شعاری کی راہ پر چلیں تو ہمارا خزانہ خالی نہ ہوگا۔ ہم ایک ایسے ملک میں رہتے ہیں جس پر خدا کی خصوصی عنایات ہیں۔
آئیے! عہد کریں
تفصیلات
یہ پچھلے سال چاند رات کی بات ہے۔ ہم لوگ ایک ٹریفک اشارے پہ رُکے۔ ایک ننھا بچہ دوڑتا ہوا گاڑی کی کھڑکی کے پاس آگیا۔ اس کی عمر 8 سال ہو گی۔ اس نے میلے کچیلے کپڑے پہنے ہوئے تھے۔ پائوں میں ٹوٹے ہوئے سلیپر تھے۔ چہرہ نہایت معصوم اور لہجے میں بلا کاسا درد تھا۔ اس نے ایک چھڑی پر موتیے کے ہار اٹھا رکھے تھے۔ اس نے التجا کی کہ اس سے ہار خرید لیے جائیں۔ میں نے فوراً اس سے ہار لیے اور پیسے اس کے حوالے کیے۔ اشارہ چونکہ لمبا تھا، میں نے اس کے بارے میں دریافت کرنا شروع کردیا۔ وہ ایک یتیم تھا۔ 5 بہنوں کا اکلوتا بھائی اور خاندان کا واحد کفیل تھا۔ دن کو وہ ایک ورکشاپ میں کام کرتا، شام کو وہاں سے چھٹی کرتا۔ گھر جاتا اور ہار لے کر سڑکوں پہ نکل آتا تھا۔ میں نے اس سے عید کی تیاریوں کے بارے میں پوچھاتو اس کے آنسو نکل آئے۔ اس کی عیدیں دوسرے بچوں کو خوشیاں مناتے، رنگ برنگے کپڑے پہن کر جشن مناتے ہوئے دیکھتے گزرتی تھیں۔ اس کے پاس عید کے دن کے لیے کوئی نئے کپڑے نہیں ہوتے تھے۔ ماں اور بہنیں بھی بوسیدہ لباس میں عیدیں مناتی تھیں۔ ان کے گھر نہ سویاں پکتیں، نہ مہندیاں لگتیں، نہ غبارے اُڑتے، نہ رنگ برنگی ٹافیاں آتیں۔ کوئی ترس کھا کر کچھ دے جائے تو اسی پر گزارہ کرلیا جاتا۔ میں اور میرے دوستوں نے اسے کچھ عیدی دی۔ ٹریفک لائٹ سبز ہوتے ہی ہم لوگ چل پڑے۔
مجھے یاد ہے کہ اس بچے سے ملاقات کے بعد میں اور میرے دوست گہری خاموشی کے پاتال میں اترگئے تھے۔ یہ مختصر سی ملاقات ہم لوگوں کی سوچ کو منقلب کر گئی۔ ہمیں اندازہ ہوا ماحول میں جب دُکھ اتنے گہرے اور شدید ہوں تو ہماری عیاشیاں کس درجہ بڑا گناہ ہے۔ ہم لوگ بینائی رکھتے ہیں، مگر دیکھتے نہیں۔
ہمیں قوتِ سماعت ملی ہے، مگر ہم سنتے نہیں۔ ہم خودکو خوش کرنے پر اتنی کوششیںکرتے ہیں پھر بھی خوش نہیں ہو پاتے۔ ہم سکونِ قلب کے لیے مارے مارے پھرتے ہیں، پراسے پا نہیں سکتے۔ ہماری خواہشات سمندر کا شورابہ ہیں، ہم جتنا اسے پیتے ہیں پیاس مزید بڑھتی جاتی ہے۔ ہمارے قلب و ذہن میں ’’ہَلْ مِّنْ مَّزِیْد‘‘ کے علاوہ کوئی نعرہ نہیں گونجتا۔ ہم دنیا کے میلے کی چکا چوند میں روح کو تاریک تر کرتے رہتے ہیں۔ جتنی دنیا کی روشنیاں بڑھتی ہیں، ہمارا باطن اتنا ہی تیرہ و تار ہوتا جاتا ہے۔ ہم مسرت کی مچھلی کو دونوں ہاتھوں سے قابو کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ پھسل کر ہماری گرفت سے نکل جاتی ہے۔ ہمارے بڑے شہروں کی زندگی میں آپ کو لوگ بھاگتے نظر آتے ہیں۔ ہر کوئی دوسرے سے آگے نکل جانے کی تگ و دو میں دکھائی دیتا ہے۔ ریت پر چمکتے سورج سے پیدا ہونے والے سراب کی طرف اندھا دھند ایک دوڑ ہے جس میں لوگ دوڑتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
٭ اگر ہم عید سے سچی خوشی اورمسرت کشید کرنا چاہتے ہیں، اگر ہم دنیا میں بہشت کا نظارہ کرنا چاہتے تو ہمیں یتیموں اور بیوائوں کو بھی عید کی خوشیوں میں شریک کرنا ہو گا۔ ٭ ہم زکوٰۃ، صدقہ، خیرات کو حق داروں تک پہنچا کر غریبوں کو عید کی مسرتوں میں شریک کر سکتے ہیں۔ یوں ہم اپنے ربّ کے قریب تر ہو جائیں گے۔ ٭
ہر کوئی آبِ حیات تک پہنچنے کی کوشش میں ہے۔ وہاں پہنچتے ہیں تو ریت ہاتھ آتی ہے۔ پتہ چلتا ہے کہ عمر سرابوں کے تعاقب میں گزر گئی۔ سچی خوشی نصیب نہ ہوئی۔ آپ دنیا بھر کے پیغمبروں، ولیوں، عالموں، فلاسفروں اور دانائوں کی ساری تعلیمات کا نچوڑ نکال لیں۔ ہر ایک نے کہا ہے کہ خوش وہ رہ سکتا ہے جو دوسروں کی خوشی کے لیے اپنا آپ بھول جائے۔ جو دوسروں کے شب و روز کو مسرت سے بھرے گا، اسے خوشی کے تعاقب کی ضرورت نہیں رہے گی۔ وہ اپنی روح میں اس کے بیش بہا خزانے پالے گا۔
عید کے معنی خوشی اور مسرت ہے۔ ہم رمضان میں بھوک اور پیاس برداشت کرتے ہیں۔ سولہ سولہ، سترہ سترہ گھنٹے نفس کشی میں گزارتے ہیں۔ ہم کلام پاک کی تلاوت کرتے اور عبادت میں اپنا زیادہ سے زیادہ وقت صرف کرتے ہیں۔ ہم تراویح اور نوافل میں خشوع وخضوع دکھاتے ہیں۔ ہمیں عید کا دن انعام میں ملتا ہے۔ بدقسمتی سے ہم اس دن کی روح تک نہیں پہنچ پاتے۔ ہم سمجھتے ہیں ہمیں نیا لباس ضرور خریدنا چاہیے، نئے جوتے ہمارے پاس ضرور ہونے چاہییں۔ ہمارے گھروں سے نت نئے پکوانوں کی لبھانے والی خوشبوئیں ضرور اُٹھنی چاہییں۔ ہم بچوں کی ہر خواہش پوری کرنے کے لیے بے جا اصراف کے مرتکب ہو جاتے ہیں۔ اگر ہم عید سے سچی خوشی اورمسرت کشید کرنا چاہتے ہیں، اگر ہم دنیا میں بہشت کا نظارہ کرنا چاہتے تو ہمیں یتیموں اور بیوائوں کو بھی عید کی خوشیوں میں شریک کرنا ہو گا۔ ہم میں سے ہر ایک کو کسی بے کس کے آنسو پونچنے ہوں گے۔ کسی دُکھیارے کے نوحوں پر اس کو مالی سہارا اور دلاسہ دینا ہوگا۔ ہم کسی مفلس بچے کو کپڑے اور جوتے لے کر دے سکتے ہیں۔ اسے اسکول کی کاپیاں اور کتابیں عطا کر سکتے ہیں۔ کسی لاچار بیمار کو دوائیں خرید کر دے سکتے ہیں۔ کسی اپاہج کی دستگیری کر سکتے ہیں۔ اَڑوس پڑوس میں جو کوئی مجبور ہے اس کی حسبِ استطاعت مدد کر سکتے ہیں۔ ہم زکوٰۃ، صدقہ، خیرات کو حق داروں تک پہنچا کر انہیں عید کی مسرتوں میں شریک کر سکتے ہیں۔ یوں ہم اپنے ربّ کے قریب تر ہو جائیں گے۔ جب اللہ تعالیٰ ہم سے راضی ہو گا تو ہم وہ روحانی سکون محسوس کریں گے جس کی تلاش میں آج کا انسان پاگل ہوا جارہا ہے اور یہ اس سے ہزاروں میل دور بھاگتا ہے۔ خدا کے بندوں سے پیار ہی وہ کنجی ہے جس سے روحانی مسرت کے خزانوں کے دروازے کھل سکتے ہیں۔
پاکستان سمیت دنیا کے بیشتر ملکوں کے حکمران اربوں کھربوں پتی لوگ ہیں۔ یہ دنیا کے امیر ترین لوگوں کی فہرست میں نہایت اونچے درجے پہ ہیں۔ ان کے پاس الف لیلوی دولت کے انبار ہیں۔ یہ شاہانہ محلوں میں رہتے اور چکا چوند روشن شاہراوں پر سفر کرتے ہیں۔ ان میں سے بیشتر کے پاس سونے سے بنے جہاز اور گاڑیاں ہیں۔ ان کے دستر خوانوں پر غیرملکی ڈشیں، اعلیٰ مشروبات اور بدیسی مکروہات سجی رہتی ہیں۔ یہ ایک ایک وقت کے کھانے پر لاکھوں پائونڈ خرچ کردیتے ہیں۔ یہ سیون اسٹار ہوٹلوں سے کم میں اقامت اختیار کرنا اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ یہ ہوٹلوں کے بیروں کو ہزاروں پائونڈ ٹپ دے دیتے ہیں۔ ان کے عشرت کدوں میں رات کو بھی دن کا سماں رہتا ہے۔ کشادہ ڈرائنگ روموں، بیش قیمت پردوں، جھلملاتے فانوسوں اور نایاب نوادرات سے سجے ان کے محل حسن بن صباح کی بنائی جنت کو مات دے دیتے ہیں۔ یہودیوں کے بینکوں میں ان کی دولت اسرائیل کوبے مہار قوت دیتی رہتی ہے۔ یہ حکمران بادشاہ اور شہزادے اس سنگین حقیقت سے بالکل بے حس ہیں کہ آج کی دنیا میں غریب ترین آبادی کا سب سے زیادہ حصہ مسلمان ہیں۔
عراق، افغانستان، شام، سوڈان، فلسطین وغیرہ میں مسلمان بدترین حالات کا شکار ہیں۔ اگر دنیا کے یہ امیر ترین مسلمان ایک عیسائی ’’بل گیٹس‘‘ کی مثال کو ہی فالو کر لیں تو مسلم دنیا کا مقدر بدل سکتا ہے۔ بل گیٹس امریکا کا امیر ترین شخص ہے۔ اس نے ’’بل ملینڈا اینڈ گیٹس‘‘ نامی ایک فلاحی تنظیم بنائی اور کروڑوں ڈالر لوگوں کی فلاح و بہبود پر خرچ کیے۔ ہمارے مسلمان دولت مند سونے کے کموڈوں میں رفع حاجت فرماتے اور ایک ہی رات میں 20، 20 لاکھ پائونڈ جوئے میں ہار جاتے ہیں۔ اگر یہ لوگ خدا خوفی کریں اور روزِ جزا کا خیال کریں تو یہ دنیا بھر کے مجبور اور بے کس مسلمانوں کی ڈھال بن سکتے ہیں۔ یہ سائبان بن کر ان کے سروں کو تپتی دھوپ سے بچا سکتے ہیں۔ یہ صحرائوں کے بگولوں سے لڑتے لوگوں کے لیے نخلستان بنا سکتے ہیں۔ ایثار کا یہ جذبہ مسلمانوں کی بکھری طاقت کو سمیٹ دے گا۔ ان کی شیرازہ بندی ہو جائے گی اور اُمت متحد ہوکر ایک بہت بڑی قوت بن جائے گی، ایک لازوال قوت۔
پاکستانی بالادست طبقے نے صرف سوئس بینکوں میں 200 ارب ڈالر غیرقانونی انداز میں جمع کروا رکھے ہیں۔ ایک بینک کریڈٹ سوئس اے جی بینک کے ڈائریکٹر نے بتایا ہے: ’’اس کے ہاں 97 ارب ڈالر پاکستانیوں کے ہیں۔‘‘ یہ ثابت کرتا ہے سیاست اور جمہوریت نے ملک کے غریبوں کے تن سے کپڑا ان کے منہ سے نوالا چھینا ہے۔ ان کی ہوس کی آگ پھر بھی نہیں بجھتی۔ ہمارا حکمران اور رئیس طبقہ مال و دولت اکھٹی کرنے کی دوڑمیں پاگل ہوچکا ہے۔ یہ غیریبوں کے آنسو اپنے دامن میں نہیں لیتا۔ معذروں کی مدد کے لیے آگے نہیں بڑھتا۔ محتاجوں کی حاجت روائی کا روادار نہیں ہوتا۔ یتیموں اور بیوائوں کے سروں پر دست شفقت نہیں رکھتا۔ یہ اس احساس سے عاری ہے کہ اس ملک کا غریب کیسے سسک سسک کر زندگی گزار رہا ہے۔ علاج کے لیے لوگ بھٹکتے پھرتے ہیں۔ ہسپتالوں میں ان کے لیے نہ ڈاکٹر ہیں نہ دوائیاں۔ چھوٹے چھوٹے بچے اسکول اور تعلیم سے محروم ورکشاپوں میں زندگی کی گاڑی کھینچنے کی سخت تگ و دو میں مصروف ہیں۔ آج عیاشی اور حرام خوری ہماری سیاست کے دو بڑے ستون بن کر رہ گئی ہیں۔
اگر ہمارے اربوں کھربوں پتی سچی خوشی حاصل کرنا چاہتے ہیں تو انہیں اپنے محلوں سے باہر جھانکنا ہوگا۔ انہیں غربت کی چکی میں پستے اور بھوک افلاس کے پہیوں تلے کچلی مخلوق خدا کو دیکھنا ہوگا۔ اگر یہ امیر اور رئیس اپنی دولت کا کچھ حصہ ایسے لوگوں کے لیے وقف کردیں تو ایک زبردست معاشرتی و معاشی انقلاب آجائے گا۔ معاشرے میں ایک ایسا سدھار آجائے گا جو اسے بالکل تبدیل کردے گا۔ ملک سے غربت اور بے روزگاری ختم ہو جائے گی۔ سب لوگوں کو علاج کی سہولتیں میسر آجائیں گی۔ غریب اور یتیم بچے پڑھ لکھ کر خاندان کا دست و بازو بن جائیں گے۔ لوگ اپنی بیٹیاں بیاہنے کے مقدس فرض کی ادائیگی کے قابل ہوجائیں گے۔ معاشی انقلاب کے بعد ہمارا کشکول گدائی ٹوٹ جائے گا۔ ہم پورے وقار سے قوموں کی قطار میں بلند کھڑے ہو جائیں گے۔
آئیے! ہم عہد کریں کہ ہم نے ایک دوسرے کا دست و بازو بننا ہے۔ اس ملک کو اندھیروں سے نکال کر روشنیوں میں لانا ہے۔ تا کہ کچھ گھروں میںروشنی اور باقی سب میں اندھیرا نہ ہو۔ خوشیوں پر صرف چند خاندانوں کی اجاراہ داری نہ رہے۔ ہر آنکھ میں اُمیدیں ٹمٹائیں اور ہر گال پر آسودگی کی سرخی ہو۔ ہر لب پر کلمہ تشکر ہو اور پریشانی پر اُمید کے ستاروں کا جھومر ہو۔ ان شاء اللہ! ہم بھوک اور تنگ کی جہالت سے نکل آئیں گے۔ ہم تعمیر و ترقی کی شاہراہ پر منزلیں ماریں گے۔ ہم ستاروں پہ کمند ڈالنے والی قوم بن جائیں گے۔ ہم معاشی ناہمواری کے پاتال سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نکل آئیں گے۔ ہماری دنیا اور آخرت دونوں سنور جائیں گی۔ آئیے! چٹانوں جیسا عزم کریں کہ خوشحالی کے پیڑ کا پھل صرف چند لوگوں کی جھولیوں میں نہیں جائے گا۔ ہر پاکستانی کے پاس یہ ثمر پہنچے گا۔ ہر ایک کی زبان اس کا ذائقہ چکھے گی۔
’’صفائی نصف ایمان‘‘
میرے ایک دوست سیاحت کے لیے بیرونِ ملک گئے۔ وہاں انہوں نے کئی دوست بنا لیے۔ ان میں سے ایک اپنے کام دھندے چھوڑ کر میرے دوست کو سیر کرواتا رہا۔ وہ انہیں کئی شہروں میں لے کر گیا۔ وہاں انہوں نے تاریخی مقامات دیکھے۔ آرٹ گیلریوں میں فنی شہ پاروں کا دیدار کیا۔ پرانے بادشاہوں کے محلات اور باغوں کا نظارہ کیا۔ یوں میرے دوست نے خوب مزا اٹھایا۔ ایک دن ایک ایسا واقعہ پیش آیا کہ ان دونوں کی دوستی فی الفور ٹوٹ گئی۔ بات بظاہر چھوٹی سی تھی پر اس ملک کی معاشرت میں یہ بڑا جرم گردانا جاتا تھا۔ میرے دوست نے دو آئس کریمیں خریدیں۔ آئس کریم کھانے کے بعد اس کا پیکٹ سڑک پر پھینک دیا۔ اس بات پر اس ملک کا شہری آگ بگولہ ہو گیا۔ اس نے میرے دوست کو کھری کھری سنائیں۔ اسے جاہل، اجڑ اور اَن پڑھ گنوار کہا۔ اپنا سامان اٹھایا اور غصے میں بڑ بڑاتا ہوا چلا گیا۔
دنیا کے ہر ترقی یافتہ ملک میں صفائی وہاں کے لوگوں کی سرشت میں داخل ہوچکی ہے۔ آپ کو سڑکوں پر کاغذ کا ایک ٹکڑا نظر نہیں آئے گا۔ ہوا میں اُڑتے شاپنگ بیگ دکھائی نہیں دیں گے۔ پان کی پیکوں سے دیواریں، گلیاں، چوراہے داغدار نہیں ملیں گے۔ ہر چند قدم کے فاصلے پر کوڑے کے لیے باسٹک دکھائی دے گی۔ ہر شہری کھانے پینے کے بعد لفافے ان میں ڈال دیتا ہے۔ کوئی سڑکوں پر تھوکتا نہیں۔ کوئی اپنے گھر کا کوڑا ہمسائیوں کے گھر کے سامنے ڈھیر کرتا دکھائی نہیں دیتا۔ لوگ گلیوں کو اسی طرح صاف رکھتے ہیں جیسے وہ اپنے گھروں کوچمکاتے ہیں۔
آپ صبح بوٹ پالش کر کے نکلتے ہیں شام تک گھومنے کے بعد بھی ان پر گرد دکھائی نہیں دیتی۔ صفائی کا خیال نہ رکھنے والا سماجی بائیکاٹ کی تلوار کا مستحق ٹھہرتا ہے۔ اس پر نفرین کی نظر ڈالی جاتی ہے۔ وہ اپنے جرم کی فوراً تلافی کرتا ہے۔ یوں ان ملکوں میں آپ کو شہر قصبے اُجلے دکھائی دیں گے۔ یہی اُجلا پن لوگوں کے لباسوں اور چہروں پر نظر آئے گا۔ جو لوگ اپنے ملک کو صاف ستھرا رکھتے ہیں وہ اپنے لباس، اپنے گھر، دفتر سب کو اجال دیتے ہیں۔ یہی اجلا پن ان کی سوچ میں گھل مل کر انہیں تہذیب یافتہ بنادیتا ہے۔
بدقسمتی سے ہم ’’صفائی نصف ایمان‘‘ کا زبان سے اقرار کرتے ہیں۔ معاشرتی طور پر ہمارا رویہ اس کے بالکل الٹ ہے۔ ہم اپنا کوڑا کرکٹ گلیوں میں ڈھیر کر دیتے ہیں۔ بازاروں میں کھاتے پیتے ہوئے لفافے اور شاپنگ بیگ پھینک دیتے ہیں۔ ہم گلیوں میں تھوکتے رہتے ہیں۔ پان کی پیکوں سے دیواروں پر نقش و نگار بناتے رہتے ہیں۔ یوں ہمارے بڑے شہر غلاظت کا ڈھیر دکھائی دیتے ہیں۔ جہاں بیماریاں پروان چڑھتی ہیں۔ وبائیں سر اٹھاتی رہتی ہیں۔ ہمارے بچے ہماری دیکھا دیکھی یہی طرزِ عمل اپنا لیتے ہیں۔ یوں ایک سماجی سرکل چلتا رہتا ہے۔ جس میں سے وقت کے ساتھ ساتھ مزید گندگی، غلاظت اور بیماری نکلتی رہتی ہے۔ ہم لوگ اپنے پارکوں کو دیکھیں تو وہاں بھی لوگ اس بدفعلی کے مرتکب نظر آئیں گے۔ ہمارے سرکاری دفتروں میں مجموعی طور پر گندگی دکھائی دے گی۔ بسوں اور ویگنوں کے اڈّوں پر بھی یہی نحوست منڈلاتی نظر آتی ہے۔ ہماری پبلک ٹرانسپورٹ بدبو کی سرانڈ سے بھری ہوئی ہے۔ لوگ ٹرینوں میں قے کرتے نظر آئیں گے۔ یوں پورے کا پورا معاشرہ مجموعی طور پر نصف ایمان سے تہی دست نظر آئے گا۔
ہمارے شہروںکے پوش علاقوں میں صورت حال بہتر نظر آتی ہے۔ ان میں بڑے لوگ اقامت رہتے ہیں۔ ان کا حکومتوں پر اثر و رسویں۔ لوگ علیل بیمار اور بے کس ہیں۔ یہاں مزدور، محنت کش اور دیہاڑی دار طبقہ رہائش رکھتا ہے۔ ان لوگوں کا وجود الیکشن کمیشن کے ریکارڈ اور شناختی کارڈ کے محکمے کی فائلوں کے علاوہ کہیں نہیں ہوتا۔ یہ طبقہ مردم شماری یا جمہوریت کے لیے ووٹنگ کے وقت اس ظالم سماج کو دکھائی دیتا ہے۔ بدقسمتی سے یہ آبادیاں وقت کے ساتھ ساتھ بڑھے جارہی ہیں۔ یہ غربت کے بیچوں سے پروان چڑھ رہی ہیں۔ آکاس بیلوں کی طرح پھل پھول رہی ہیں۔
جب بیرون صاف ستھرا ہو گا تو اس کا اثر انسان کے اندرون پر پڑے گا۔ ٭ عار کی بات یہ ہے غیرمسلم معاشروں نے ہمارے اس اہم سبق کو اَزبر کرلیا ہے، ہم اس کو فراموش کر چکے ہیں۔ ٭
حال ہی میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ The Economic Impact of Inadequate Sanitation in pakistanمیں بتایا گیا ہے کہ سینی ٹیشن کی ابتری کا نقصان ہمیں 343.7 بلین سالانہ ہوتا ہے۔ جو ہمارے جی ڈی پی کا 3.9 فیصد ہے۔ گندگی اور آلودگی سے پیدا ہونے والی بیماریوں پر سالانہ 299.55 بلین لاگت آتی ہے جو کہ غریب لوگوں کی جیبوں سے نکالا جاتا ہے۔ Wash Media سائوتھ ایشیاء کے صحافیوں کی ایک تنظیم ہے جس میں پاکستان، نیپال، بھارت، بنگلہ دیش اور سری لنکا کے 100
سے زیادہ صحافیوں نے ڈیٹا جمع کر کے بتا یا ہے کہ جنوبی ایشیاء میں پاکستان سینی ٹیشن میں سب سے کم سرمایہ لگا رہا ہے۔ پاکستان دنیا کے ان 57 ملکوں میں شامل ہے جہاں آلودہ پانی کی وجہ سے بیماریاں سب سے زیادہ ہیں۔ اگر آپ ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی کی صورت حال دیکھیں تو یہاں میٹروپولیٹن کارپوریشن کا عملہ اکثر ہڑتال کر دیتا ہے۔ ان کو بروقت تنخواہیں ادا نہیں کی جاتیں۔ اگر وہ ڈیوٹی پر ہوں تب بھی صدر، بزنس روڈ، ٹاور اور اولڈسٹی وغیرہ جیسے ان گنت علاقوں میں اُبلتے گٹر اور بازاروں میں کوڑے کے ڈھیر نظر آتے ہیں۔ بزنس روڈ پر کراچی کی فوڈ اسٹریٹ ہے یہاں کی دگرگوں حالت غذا کو زہر آلود بنا دیتی ہے۔ دوسرے بڑے شہروں میں معاملات اور زیادہ ناگفتہ بہ ہیں۔ ہر سال گندگی کی وجہ سے بیمار ہونے والوں کی تعداد 4 ملین سالانہ کے حساب سے بڑھ رہی ہے۔ غریبوں کو روزی روٹی کے علاوہ علاج معالجے پر بھاری اخراجات اٹھانا پڑرہے ہیں۔ پانی کی لائنیں اور گٹر سارے ملک میں باہم شر و شکر ہو رہے ہیں۔ اس وجہ سے بھی بیماریاں وبائوں کی صورت پھوٹ رہی ہیں۔
اس ضمن میں حکومت اور عوام دونوں کی سطح پر انقلابی قدم اٹھانے کی اشد ضرورت ہے۔ حکومت کو اپنی تمام تر نوازشات ملک کے پوش علاقوں پر نچھاور نہیں کرنی چاہییں۔ انہیں متوسط اور غریبوں کی بستیوں پر بھی نظر کرم ڈالنی چاہیے۔ محض ’’ہفتہ صفائی‘‘ منالینے سے اس پیچیدہ مسئلے کا حل نہیں نکل سکتا۔ وزیراعظم، وزرائے اعلی، وزیروں اور مشیروں کو خود مثال بننا چاہیے۔ یہ اگر گلیوں سے کاغذ، شاپنگ بیگ اٹھاتے ہوئے دکھائی دیں گے تو سارا معاشرہ شرم محسوس کرے گا۔ ہر فرد کا ضمیر جاگے گا۔ وہ اپنا سماجی فریضہ سرانجام دینے میں سکون و راحت محسوس کرے گا۔ میونسپلٹی کو فی الفور فعال بنایا جائے۔ سارے ملک میں بلدیاتی انتخابات کروا کر کونسلروں کے یہ ذمہ داری سونپی جائے۔ انہیں پابند بنایا جائے کہ اپنے اپنے حلقوں میں صفائی کا بلند معیار قائم کریں۔ انڈر گرائونڈ سیوریج سارے چھوٹے بڑے شہروں میں مہیا کیا جائے۔ ہر میونسپلٹی کے پاس کوڑا اٹھانے والے ٹرک اور عملہ وافر ہو۔ ہر گلی محلے سے اسے بروقت اٹھا کر تلف کر دیا جائے۔ شاپنگ بیگ نالیوں اور گٹروں کو بند کرنے میں مرکزی کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ تلف بھی ہو سکتے، ان کی بجائے کاغذی لفافوں کو عام کیا جائے۔ ٹی وی، ریڈیوپر حکومتی قصیدوں کی بجائے مسلسل ایسے پروگرام نشر ہوں جن میں صفائی اور ستھرائی کے محاسن بیان ہوں۔ لوگوں کی کایا کلپ ہو۔ وہ اپنے گھروں کے علاوہ گلی، محلوں، پارکوں، بس اسٹینڈوں، ویگنوں کے اڈّوں، ریلوے پلیٹ فارموں کو صاف ستھرا رکھیں۔ ہر سفری سہولت سے استفادہ کرنے والے مسافر کو احساس دلایا جائے کہ اس پر کتنی بڑی سماجی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ یوں اگر حکمران کوئی مثال قائم کریں گے، اقدام اٹھائیں گے تو عوام بھی ان کے نقش قدم پر چل پڑے گی۔
عوامی سطح پر ہر پاکستانی کو ایمان کے اس نصف کے حصول کے لیے ہر دم کوشاں رہنا ہو گا۔ اسے دل و جان سے یہ احساس ہو کہ ہمارے مذہب نے صفائی کو کس بلند ترین درجے پہ رکھا ہوا ہے۔ عار کی بات یہ ہے غیرمسلم معاشروں نے ہمارے اس اہم سبق کو اَزبر کرلیا ہے، ہم اس کو فراموش کر چکے ہیں۔ ہر شہری حسب استعداد اس کارِ خیرمیں حصہ ڈالے۔ لوگ گلی محلے کی سطح پر کمیٹیاں بنالیں۔ وہ فارغ وقت میں اس مشن میں جت جائیں۔ جب یہ کاررواں آگے بڑھے گا تو صفائی پھیلتی جائے گی۔ گندگی سمٹتی جائے گی۔ سارے کا سارا معاشرہ منقلب ہو جائے گا۔ ہر فرد صحت بخش ماحول میں سانس لے گا۔ ہوا خوشبودار ہوجائے گی۔ بیماریوں میں خاطر خواہ کمی آجائے گی۔ اگر عوامی علاقوں میں دھواں اور آلودگی پھیلانے والے کارخانے قائم ہیں تو ان کو بیرونِ شہر منتقل کیا جانے کی مہم شروع ہو۔ دھواں دیتی بسوں کو درست کیا جائے۔ گندگی پھیلانے والوں کو ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھا جائے۔ انہیں احساس دلایا جائے وہ غفلت کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ یہ معاشرتی پریشر ان کو قومی دھارے میں لے آئے گا۔ یہی وہ دھارا ہے جس کے پھیلائو میں معاشرے کے لیے اوّل درجے کی بہتری ہے۔ جب بیرون صاف ستھرا ہو گا تو اس کا اثر انسان کے اندرون پر پڑے گا۔ لوگ صاف ستھرے لباس، جسمانی صفائی طہارت کی طرف آئیں گے۔ پھر وہ روحانی نشوونما کی منزل تک آن پہنچیں گے۔ بیرونی گندگی اور اندرونی غلاظت دونوں دور ہو جائیں گی۔
ایثار اور ہمدردی کا مہینہ
’’کرسمس‘‘، ’’ایسٹر‘‘، ’’تھینکس گوئنگ ڈے‘‘ اور ’’بلیک فرائیڈے‘‘ امریکا میں بڑے تہواروں کے طور پر منائے جاتے ہیں۔ ان دنوں سارے امریکا میں ہر طرح کی ضروریاتِ زندگی 50 فیصد تک سستی کر دی جاتی ہیں۔ ایسٹر اپریل میں منایا جاتا ہے، جبکہ باقی تینوں تہوار ایک ماہ کے اندر منا لیے جاتے ہیں۔ ہر سال نومبر کی آخری جمعرات تھینکس گوئنگ ڈے، جمعہ بلیک فرائیڈے اور 25 دسمبر کرسمس کے دن ہیں۔ لوگ ان دنوں اتنی خریداری کرتے ہیں کہ باقی سارا سال اس کے مقابلے میں پیچھے رہ جاتا ہے۔ امریکا کے بڑے بڑے اسٹور عوام کے لیے دن رات کھلے رہتے ہیں۔ ہرشے ارزاںنرخوں پر دستیاب کر دی جاتی ہے۔ معاشی طور پر کمزور امریکی قطاروں میں کھڑے ہو جاتے ہیں۔ وہ اس موقع سے بھر پور فائدہ اٹھاتے ہیں۔ آن لائن سودے طے ہوتے ہیں۔ نرخ ادا کیے جاتے ہیں۔ سامان گھروں تک پہنچا دیا جاتا ہے۔ ان دنوں سارے امریکا کو خریداری کا بخار طاری رہتا ہے۔ امیر لوگ غریبوں کو خوشیوں میں شامل کرنے کے لیے اپنا فالتوقیمتی سامان مفت بانٹتے پھرتے ہیں۔
وہ اسے اپنے گھروں کے دروازوں پر ڈھیروں کی صورت لگا دیتے ہیں۔ ضرورت مند آتے اور مطلوبہ اشیا اٹھا کر چل پڑتے ہیں۔ اس طرح سارے ملک میں معیارِ زندگی لگ بھگ ایک جیسا ہی ہو جاتا ہے۔ غریبوں کو بھی ساری اشیا مفت مل جاتی ہیں جن سے ان کی زندگیوں میں سکھ اور آرام کی چھائوں آجاتی ہے۔ امریکی حکومتیں جو دنیا بھر میں قتل وغارت گری کے منصوبے سوچتی ہیں۔ اپنے عوام کے لیے ان دنوں ہر طرح کی سہولیات فراہم کرتی ہیں۔
یورپ میں کرسمس پر ہو بہو ایسا ہی طرز عمل دیکھنے میں آتا ہے۔ کسی قسم کی کوئی ذخیرہ اندوزی کا نام و نشان نہیں ملتا۔ منافع خوری کے ہتھکنڈے نہیں آزمائے جاتے۔ اشیائے خوردونوش مارکیٹوں سے غائب نہیں کی جاتیں۔ چیزوں کو مہنگا کر کے فروخت کرنے کے لیے کوئی حربے استعمال نہیں کیے جاتے۔ الٹا ان دنوں نایاب اشیا بھی دوکانوں پر مناسب نرخوں میں دستیاب کر دی جاتی ہیں۔ ہندومت اور بدھ مت مذہبوں والے ملک میںبھی ہم اسی طرح کی مثالیں دیکھتے ہیں۔ دیوالی پر تیل کے نرخ حکومتی سرپرستی میں گھٹا دیے جاتے ہیں۔ ہولی پر رنگوں کے دام کم ہو جاتے ہیں۔ اسرائیل جیسے بدمعاش ملک میں بھی عوام تہواروں پر سستے پن سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ کیمونسٹ ملکوں میں جہاں ریاست مذہب سے ماورا ہے۔ عوام کو ان کی خوشیوں والے تہوار منانے کے لیے حکومتی چھتریاں مہیا کر دی جاتی ہیں۔ بعض اسلامی ملکوں میں بھی رمضان مبارک کے دنوں میںاور دونوں عیدوں کے موقع پر ہر ضرورت زندگی نہایت مناسب نرخون پرمہیا کر دی جاتی ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں رمضان کا مہینہ عوام کے لیے برکتوں کے ساتھ بے شمار زحمتیں لے کر آتا ہے۔ اس مہینے کی آمد سے ہفتہ بھر پہلے ہی اشیائے خوردونوش اسٹور ہونے لگتی ہیں۔ ہر حکومت منافع خوروں کو کھلی چھوٹ دے دیتی ہے۔ ان پر کوئی کنٹرول باقی نہیں رہتا۔ بے رحم سرمایہ دار عوام کی رگوں سے خون نچوڑنے کے لیے آزاد ہو جاتے ہیں۔ وہ خدا خوفی ترک کر کے سفاکیت کی زندہ مثال بن کر سامنے آجاتے ہیں۔
ہر سال کی طرح اس برس بھی رمضان کی آمد سے پہلے ہی روش ربا گرانی نے عوام کو چاروں طرف سے گھیرلیا۔ اشیائے خوردونوش کی قیمتیں بلند پروازی دکھانا شروع ہوگئیں۔ ضروریاتِ زندگی غریب لوگوں کی پہنچ سے بہت دور نکل گئیں۔ عام بازاروں کو چھوڑ کر بات کی جائے تو سہولت بازاروں میں بھی زیادہ اشیا 10 سے 20 اور بعض اجناس 50 فیصد بڑھ گئیں۔
آلو، پیاز، لہسن، ٹینڈا، مرغی اورانڈے گراں فروشی کی زد میں آنے والی صرف چند اشیا ہیں۔ سبزیوں اور پھلوں کی قیمتوں میں اضافہ مسلسل دیکھنے میں آرہا ہے۔ ہر سبزی 70، 80 روپے کلو سے کم نہیں کوئی پھل 100 روپے سے کم پر دستیاب نہیں۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے رمضان میں صورت حال کیا ہوگی۔ دوسری طرف حکومت نے یوٹیلیٹی اسٹورز پر 1500 اشیا کی قیمتوں میں 10 سے 20 فیصد کمی کی ہے۔ یوں دودھ، آئل، گھی، دالوں سمیت 12 اشیا پر 10 روپے رعایت ہو گی۔ آٹا 6 روپے فی کلو سستا ملے گا۔ آٹے کا تھیلا 120 روپے کم قیمت پر میسر ہو گا۔ دال چنا 13 روپے، سفید چنا 18 روپے، بیسن 20 روپے، کھجور 40 روپے سستی ملے گی۔ چائے کا 950 گرام پیک 88 روپے، باسمتی چاول 40 روپے، سیلا چاول 38 روپے، دال مونگ 38 روپے، دال مسور 12 روپے، دال ماش 15 روپے، ٹیٹرا پیک 12 روپے فی لیٹر کم نرخوں پر دستیاب ہوگا۔ حکومت کا شکریہ کہ اس نے غریب عوام کے لیے یہ سہولیات فراہم کیں، مگر ملک میں یوٹیلیٹی اسٹورز کی تعداد اس قدر کم ہے کہ کروڑہا عوام اس دست شفقت سے محروم ہی رہے گے۔ یوٹیلیٹی اسٹورز پر کڑی دھوپ میں روزوں کے دنوں میں قطاریں بنا کر یہ رعایت لینا ایک کوہ گراں بن جائے گا۔ یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ یوٹیلیٹی اسٹورز پر دستیاب بعض اشیا کا معیار انتہائی درجہ ناقص ہوتا ہے۔ یوں جوئے شیر لانے کے بعد بھی فرہادوں کی قسمت میں ہاتھوں کے چھالوں کے سو کچھ نہ آئے تو اندازہ کیجیے کہ بے بسی کا عالم کیا ہو گا۔
کروڑوں کے ملک میں چند لاکھ لوگوں کے لیے رعایت دینا ایک بالکل عارضی بندوبست ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے ڈالر سستا کرنے کا کرتب دکھانے کے بعد بھی ہم مہنگائی کے سیلاب میں اسی طرح بہہ جارہے ہیں۔ ہماری پہلی اور سب سے نازک ذمہ داری تو یہ ہونی چاہیے کہ جسم و جاں کا ناطہ بر قرار رکھنے والی ہر شے پر حکومتی گرفت بہت مضبوط ہو۔ ہمارے وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ کو 24 گھنٹوں میں سے ایک گھنٹہ اس تگ ودو میں گزارنا چاہیے کہ آیا عوام کی زندگیوں میں ان کی پالیسیوں سے سکھ چین آرہا ہے یا جارہا ہے؟ بڑی بدقسمتی یہ ہے ہمارے لیڈروں کو پُرتکلف کھانوں، پروٹوکول، غیرملکی دوروں سے فرصت نہیں ملتی۔ یوںمنافع خور ایک ذخیرہ اندوز موقع سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ وہ رمضان کی آمد سے پہلے ہی اپنے گوداموں کو بھر لیتے ہیں۔ مارکیٹ میں اشیا کی قلت پیدا ہوتی ہے۔ رمضان آتے ہی یہ من چاہے ریٹوں پر سامان بیچنے لگتے ہیں۔ ان پر حکومتی گرفت بالکل ہی نہیں ہوتی۔ یوں ملک بھر میں سحراور افطار کے لیے درکار خوراک کئی گنامہنگی ہو جاتی ہے۔ غریب عوام کی چمڑی ادھیٹری جاتی ہے۔ ان کے روحانی انہماک کو چور چور کیا جاتا ہے۔ وہ ہر سحر اور افطار اپنے سامنے پڑی خوراک کی گرانی پر کڑھتے ہیں۔ ہر سال اسی طرح ہوتا ہے۔ یوں اس بیمار معاشرے میں عبادات کا مہینہ عوام کے لیے اذیت رسانی کا بڑا سبب بن جاتا ہے۔
بڑے سرمایہ داروں کا اکھٹھ کروڑوں اربوں سمیٹ کر ایک طرف ہو جاتا ہے۔ حکومتیں سرد مہری سے یہ سب ہوتے ہوئے دیکھتی رہتی ہیں۔ وہ غریب غربا کو کوئی ڈھال فراہم نہیں کرتیں۔ یوں ہم ایک ایسے ملک میں بستے ہیں۔ جہاں حکومتیں تو ہوتی ہیں، حکمرانی ہوتی، ستم ظلم پیہم سروں پر ٹوٹتے ہیں، مہربانی کرم نوازی کہیں بھی نظر نہیں آتی۔ وقت کی اہم ترین ضرورت ہے ملک بھر میں فوڈ انسپکٹروں کی تعداد کو فوراً کئی گنا بڑھایا جائے۔ دیانت دار افراد بھرتی کیے جائیں۔ وہ بازاروں، مارکیٹوں پر کڑی نگرانی رکھیں۔ ہر دکان پر ریٹ لسٹ آویزاں ہو۔ صوبائی اور مرکزی حکومت خوراک کی ترسیل پر مسلسل نظر رکھے۔ مارکیٹ سے غائب ہونے والی اشیا کے لیے Cartel بنانے والے ہر سرمایہ دار کی گرفت ہو۔ جیسے ہی کوئی اہم ضرورت زندگی کمیاب ہونے لگے اس کی فی الفور دستیابی ممکن بنائی جائے۔ ہمیں ترقی یافتہ ملکوں کی مثال سامنے رکھنا ہو گی۔ وہاں حکومتوں کے فوڈ ڈیپارٹمنٹ کے پاس خوراک کے وافر ذخیرے جمع رہتے ہیں۔ جیسے ہی کسی شے کی قلت دکھائی دے محکمے فوراًاسے مارکیٹ میں ڈال دیتے ہیں، یوں ریٹ متاثر نہیں ہوتے۔ ان میں ایک خاص قسم کی یکسانی متواتر رہتی ہے۔ یہ محکمے جب دیکھتے ہیں کہ ان کے پاس اسٹور خوراک کچھ عرصے میں زائد المعیاد ہونے جارہی ہے تو یہ ملک میں ان اشیا کی امپورٹ کو وقتی طور پر التوا میں ڈال کر اپنا ذخیرہ بازاروں میں لے آتے ہیں۔ جیسے ہی یہ ذخیرہ ختم ہونے کے قریب آتا ہے، اشیا دوبارہ امپورٹ کر لی جاتی ہیں جو مارکیٹ کے علاوہ فوڈکے محکمے کے گوداموں کو بھی بھر دیتی ہیں۔ یوں ایک سرکل چلتا رہتا ہے جس سے عوام کی زندگیوں میںسہولت و آرام سے بڑی ذمہ داری سمجھتی ہیں۔ اگر کبھی کوئی ضرورت زندگی اس کی ناک میں دم کر دیتی ہے۔ چند دنوں ہی میں ذمہ داری انجام دے دینے کے بعد حالات واپس اپنی ڈگرپر آجاتے ہیں۔ زندگی دوبارہ اسی طرح رواں دواں ہو جاتی ہے۔ ہمارے لیڈر وژن، عقل، فہم سے عاری لوگ ہیں۔ ہمارے نمایندے عوامی دُکھ کو کبھی محسوس ہی نہیں کرتے۔ حکومتیں اپنی عیاشیوں سے فارغ ہی نہیں ہوتیں۔ امرا اور روسا سے بھری اسمبلیاں اپنی مراعات انجوائے کرتی رہتی ہیں۔ نیچے عام عوام کو کند چھریوں سے ذبح کیا جارہا ہوتا ہے۔ ان کی خون پسینے کی کمائی کو آگ لگائی جارہی ہوتی ہے۔ ان کے تن سے کپڑے اتارے جارہے ہوتے ہیں۔ حکومت یوٹیلیٹی اسٹور پرتھوڑی بہت رعایت دے کر حاتم طائی کی قبر پر لات رسید کر دیتی ہے۔ یوں سرمایہ داری کے منوں وزنی پہیوں کے نیچے عوام کچلی جاتی رہتی ہے۔ رمضان کا سارا مہینہ ہم مہنگائی میں غرق رہتے ہیں۔
عید نزدیک آتی ہے تو یہی سرمایہ دار اس کے حسن کو بھی گہنا دیتے ہیں۔ ملبوسات کی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ ہو جاتا ہے۔ یوں ایک گرداب ہے جس میں پاکستان کئی دہائیوں سے چکر کھا رہا ہے۔ اگر ہمارے لیڈروں میں ذرا سا بھی عوام کا درد ہے تو انہیں اپنی سب سے اہم اور بڑی پالیسی یہ بنانا ہو گی کہ خوراک کم سے کم نرخوں پر ہر آدمی کو مہیا ہو۔ وہ رمضان کے مہینے میں اپنی دعائوں میں معاشی چنگیز خانوں کو بددعائیں نہ دیتا ہے۔ وہ پوری یکسوئی سے عبادات و نوافل پر توجہ دے سکے۔ اس کے ذہن میں مہنگائی اپنے جالے نہ بنتی رہے۔ اس کی توجہ اس طرف نہ بٹی رہے۔ اگر حکمران عوام سے دعائیں لینا چاہتے ہیں تو انہیں سارا سال اور بالخصوص رمضان میں ہر طرح کی اشیائے خوردو نوش کم سے کم قیمت پر مہیا کرنا ہوں گی۔ میرا یقین ہے کہ یوں حکمرانوں کی حکمرانی کا عرصہ خاصا دراز ہو جائے گا۔ انہیں کسی لانگ مارچ، دھرنے، ہڑتال کا ڈر نہ رہے گا۔ عوام ان کے ساتھ ہوں گے۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو حکومتیں مضبوط بنیادوں سے محروم رہیں گی۔ ان کے اقتدار کا محل ریت پر استوار رہے گا۔ وہ ہلکے سے ارتعاش پر بھی زمین میں دھنس جائے گا، حکمرانوں کو غم و غصے کا پاتال نگل جائے گا۔
مہروں کی تبدیلی
بگرام افغانستان کا نہایت وسیع و عریض ہوائی اڈّا ہے۔ 2001ء سے اب تک امریکی اور نیٹوسپاہ زیادہ تر اسی اڈّے سے ملک کا کنٹرول سنبھالے ہوئے ہیں۔ امریکی حکومت کے بڑے اہلکاریہیں اُترتے، تقریریں کرتے اور رخصت ہو جاتے ہیں۔ پچھلے ہفتے امریکی صدر اوباما نے یہاں ایک روزہ دورہ کیا۔ اس کی آمد کو خفیہ رکھا گیا۔ دورے سے 2 گھنٹے قبل امریکی سپاہ یہاں جمع ہونا شروع ہوگئی۔ ایرپورٹ کے راستے سیل کر دیے گئے۔ فضا میں امریکی جہاز پروازیں کرنا شروع ہوگئے۔ اوباما کے جہاز کو کڑی نگرانی میں اُتارا گیا۔ بگرام میں ’’میموریل ڈے‘‘ کی تقریبات کا آغاز ہوگیا۔ خیر مقدمی بینروں کو آویزاں کر دیا گیا۔ اوباما نے فوجیوں سے خطاب کیا۔ ان کا پست حوصلہ بلند کرنے کے لیے چند جوشیلے فقرے بولے۔ فوجیوں کے مورال کو اُٹھانے کے لیے امریکی تاریخ سے کچھ حوالے دیے۔ فوجیوں کی طرف سے چندٹھنڈے ٹھار نعرے بلند ہوئے اور تقریب اختتام کو پہنچ گئی۔ اوباما واپس امریکا روانہ ہو گیا۔
وائٹ ہائوس کے روز گارڈن میں اس نے میڈیا سے بات چیت کی۔ 2014ء کے دسمبر تک امریکی سپاہ کی افغانستان سے واپسی کا عندیہ دیا۔ 9 ہزار 800 امریکی فوجی اس کے بعد بھی ملک میں مقیم رہیں گے۔ 2015ء تک وہ افغان معاہدے سے مشروط اقامت اختیار کیے رکھیں گے۔ 2016ء کے دسمبرتک ان کی تعداد کم ہو کر امریکی سفارت خانے تک محدود ہو کر رہ جائے گی۔ تقریباً ایک ہزار فوجی امریکی ایمبیسی کی چار دیواری کے اندر رہ کر افغان سیکورٹی فورسز کو تربیت مہیا کرتے رہیں گے۔ یوں 13 برس بعد 537.8 ملین ڈالر کے اخراجات اٹھا کر 2148ء امریکی فوجیوں کی جانیں گنوا کر اور 19 ہزار 600 زخمیوں سے اسپتالوں کو بھر کے امریکی واپس وطن سدھار رہے ہیں۔ وہ امریکی فوج جو 8 لاکھ 31 ہزار 576 فوجیوں
کے ساتھ اس بدنصیب ملک پر گدھوں کی طرح ٹوٹ پڑی تھی خالی ہاتھ واپس لوٹ رہی ہے۔ اس کے ہاتھوں میں فتح کا پرچم تار تار ہے۔ ان کے چہروں پر عبرت ناک شکست کے نقوش واضح دیکھے جا سکتے ہیں۔ ان کی گفت و شنید ناکامی اور نامرادی کا چلتا پھرتا اشتہار بن کر رہ گئی ہے۔
امریکی اناکابت اس وقت پاش پاش ہو گیا جب انہیں اپنے ایک سارجنٹ ’’بوبرگڈال‘‘ (Bowe Bergdahl ) کی رہائی کے بدلے 5 اہم طالبان راہنمائوں کو گوانتاناموبے سے چھوڑنا پڑا۔ ان میں ملامحمدفضل اخواند، خیراللہ خواہ، عبدالحق واثق، ملانوراللہ نوری، اور محمد بنی قمر شامل ہیں۔ ملامحمد عمر نے اسے طالبان کی عظیم فتح قرار دیا ہے۔ کانگریس میں امریکی حکومت پر ریپبلکن پارٹی نے یلغار کردی ہے۔ وزیر دفاع چک ہیگل فوراً افغانستان دوڑا۔ اس شکست سے مذاکرات کی راہ کھلنے کی بھدی ملمع سازی میں مصروف ہوگیا۔ سی این این اور فاکس نیوز نے اس سارے معاملے کی کوریج کی۔ امریکی حکومت کے اعلیٰ اہلکاروں کی حرکات و سکنات ان کے چہروں کے تاثرات ان کی گفتگو کا اتار چڑھائو صاف ثابت کرتا ہے کہ یہ قدم ان کے لیے سوہان روح بنا ہوا ہے۔
٭ امریکی حکومت پر اس کے تھنک ٹینکس کا دبائو ہے کہ وہ جنگی خسارے کو افغانستان سے پورا کرے۔ ٭
افغانستان میں لوہے، پتیل، کوبالٹ، سونے، چاندی، پوٹاشیم، ایلومنیم، گریفائٹ، فاسفورس، سیسے، زنک، مرکری، سلفر، میگنیشیم وغیرہ کے ذخائر اتنے بڑے ہیں کہ امریکی ان سے کھربوں ڈالر کما سکتے ہیں۔ ٭
کیا نیا افغان صدر ان طاقتوں کا باجگزار ہوگا؟ وہ ان کی منہ مانگی قیمت ادا کرے گا؟ کرزئی سے دو ہاتھ آگے جا کر سامراج کی غلامی میں سجدہ ریز ہو جائے گا؟ ٭
برطانیہ کے بعد رُوس اور رُوس کے بعد امریکا اس ملک سے خالی ہاتھ لوٹے گا۔ ٭
طالبان نے 17 منٹ کی ایک ویڈیو نشر کی ہے۔ اس میں مشرقی افغانستان میں ’’بوبرگڈال‘‘ کی حوالگی کی منظر کشی ہے۔ بوبرگڈال کو قید میں ہرممکن سہولیات مہیا کی گئیں تھیں۔ وہ فٹ بال کھیلتا رہا۔ من پسند کھانے کھاتا رہا۔ اس کے آرام و آسائش کا بھر پور خیال رکھا گیا۔ طالبان نے ایک قیدی کے ساتھ جو طرزِ عمل رکھا، وہ ان کی اسلامی اقدار کی پاسداری کابڑا ثبوت ہے، جبکہ گوانتا ناموبے میں امریکیوں نے جو ٹارچرسیل قائم کر رکھا ہے۔ دنیا اس کی اذیت ناک جذیات سے پوری طور پر آگاہ ہے۔ یہاں قیدیوں کو کم از کم خوراک دی جاتی ہے۔ ان کو سونے نہیں دیا جاتا۔ ایذارسانی کے متشدد طریقے اختیار کیے جاتے ہیں۔ انہیں چھوٹے چھوٹے پنجروں میں مقید کر دیا جاتا ہے۔ وہ کروٹ تک نہیں بدل سکتے۔ انہیں تازہ ہوا خوری جیسی نعمت سے محروم رکھا جاتا ہے۔ قید تنہائی میں رکھ کر انہیں ناقابل برداشت تکلیف دی جاتی ہے۔ ان کے کانوں کے نزدیک انتہائی بلند آواز میوزک بجایا جاتا ہے۔ ان کے ناخن نوچے جاتے ہیں۔ انہیں نماز پڑھنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ بیمار ہونے پر انہیں مناسب علاج کی سہولت سے محروم کر دیا جاتا ہے۔ ان کو جسمانی، ذہنی اور روحانی ایذیتیں دی جاتی ہیں۔ انہیں تھپڑوں، مکوںاور ٹھڈوںسے مارا جاتا ہے۔
اس کے بالکل برعکس جو بھی قیدی طالبان نے رہا کیا ہے۔ اس نے ان کی مہرو محبت کے گیت گائے ہیں۔ ان سے مہمانوں کا سا برتائوہوا۔ انہیں آرام دہ بستر پھل، کھانے اور مشروبات وقت پر مہیا کیے گئے۔ انہیں کھلے ہوادار کمروں میں سکونت دی گئی۔ انہیں اپنی مذہبی عبادات کے لیے کسی قسم کی بندش کا سامنا نہ کرنا پڑا۔ وہ کھیل کو د اور تفریحات میں وقت گزارتے رہے۔ ان کی دل جوئی کے لیے ان سے برابر گفتگو کی جاتی رہی، تا کہ وہ تنہائی کے زہر سے بچے رہیں۔ قیدی اگر عورت تھی تو اس کے سامنے آنکھیںجھکا کر بات کی گئی۔ اس کی عزت و وقار کا تحفظ کیا گیا۔ اسے طالبان خواتین کی سنگت مہیا کی گئی۔ یوں بظاہر یہ قیدیوں کے لیے زندگی کا ایک بڑا انقلابی تجربہ بن گئی۔ ایوان ریڈلی نے اسلام قبول کر لیا۔ طالبان کی اعلیٰ ظرفی اور بلند ترین کرداری خوبیوں کے گن گائے۔ عین ممکن ہے بوبرگڈال بھی وطن واپس جا کر اس مہمان نوازی کے لیے مشکور ہو۔
ہو سکتا ہے دنیا بھر کے فاشسٹ سیکولر لوگ طالبان کے خلاف بغض و عناد کے بھاری کے بوجھ کو ہلکا کر دیں۔ وہ ان کے وسیع ظرف اور بلند کردار کے سامنے اپنے آپ کو بونا سمجھیں۔ شاید انہیں یہ احساس ہو جائے حقیقت ان کے زہر ناک مفروضوں سے بالکل مختلف ہے۔ طالبان انسانی سطح پر مغربی ’’تہذیب یافتہ‘‘ لوگوں سے کس درجہ بلند ہیں۔ محض پینٹ، بوشرٹ، کوٹ پہن لینے سے آدمی مہذب نہیں ہو جاتا۔ کھلے گھیرے کی شلواریں پہننے والے، کرتوں اور عماموں کو زیب تن کرنے والے ان سے زیادہ انسانیت کا درد رکھنے والے ہو سکتے ہیں۔ محض کلین شیوڈ چہروںکے مقابلے میں گھنی داڑھیاں آدمی کو درد مندی، ایثار اور حسن سلوک میں لاکھوں میل آگے لے جاسکتی ہیں۔ ہر دہشت گردی کی واردات کو طالبان کے سر تھوپ دینا اسی سازش کا حصہ ہے۔
امریکی خصلت کی گہری جانکاری رکھنے والے جانتے ہیں کہ امریکا مکمل طور پر افغانستان سے نہیں جائے گا۔ امریکی حکومت پر اس کے تھنک ٹینکس کا دبائو ہے کہ وہ جنگی خسارے کو افغانستان سے پورا کرے۔ پینٹاگون نے حکومت کو ایک پلان بنا کردیا ہے۔ اس کے مطابق افغانستان میں رکھی جانے والی فوج کو ٹریننگ دی جائے گی۔ وہ کان کنی کے اثرو رموز سے واقفیت بڑھائیںگے۔ افغانی معدنیات کے خزانوں کو چوری کریں گے اور اپنے ملک پہنچائیں گے۔ امریکا اس کوشش میں ہے اہم افغان ہوائی اڈے اسی کے کنٹرول میں رہیں۔ یوں لومڑی کا ذہن رکھنے والے امریکی معدنیات کے خزانوں پر رال ٹپکا رہے ہیں۔
افغانستان میں لوہے، پتیل، کوبالٹ، سونے، چاندی، پوٹاشیم، ایلومنیم، گریفائٹ، فاسفورس، سیسے، زنک، مرکری، سلفر، میگنیشیم وغیرہ کے ذخائر اتنے بڑے ہیں کہ امریکی ان سے کھربوں ڈالر کما سکتے ہیں۔ امریکی فارماسیوٹیکل کمپنیوں نے سی آئی اے سے ایک معاہدہ کیا ہے۔ سی آئی اے ان سے لاکھوں ڈالر لے گئی۔ ادویات کا جزو بننے والی نادر اور کامیاب دھاتوں کو مہیاکرے گی۔ اس سلسلے میں امریکی اعلیٰ افغان حکام سے مسلسل رابطوں میں ہیں۔ انہیں رُوس اور چین کی بڑھتی ہوئی پذیرائی سے خطرہ ہے کہ یہ ملک ان کے رنگ میں بھنگ نہ ڈال دیں۔ یوں لگتا ہے کہ یہ ایک ہزار ارب ڈالر سے زیادہ کی معدنیات افغانستان کے لیے وبال جان بن جائیںگی۔ پھلوں سے لدا یہ شجر دیکھ کر ہر حریض اس پر نظریں جمائے ہوئے ہے۔
بھارت جس کی 87 کروڑ عوام خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ افغانستان کو 2 ارب ڈالر کی امداد دے رہا ہے۔ لوہا نکالنے کے لیے بھارتی کمپنیاں 10 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے لیے پرتول رہی ہیں۔ ملٹی نیشنل کمپنیوں کی رال برابر ٹپکے جارہی ہے۔ عبداللہ عبداللہ اور اشرف غنی پر لاکھوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی گئی ہے۔ حالیہ افغان الیکشن ان سدھائے ہوئے سرکس کے گھوڑوں پر نوازشات کی بارش ہوتی رہی۔ ان کے لیے میڈیا کیمپین چلائی گئیں۔ اشتہار بازی، بل بورڈوں، مباحثوں میں انہیں سرفراز کرنے کے لیے بین الاقوامی مافیا کام کرتا رہا۔ اس مافیے کی تمام تر توجہ ان معدنی خزانوں پر ہیں۔ نیاافغان صدر ان طاقتوں کا باجگزار ہو گا۔ وہ ان کی منہ مانگی قیمت ادا کرے گا۔ یوں طالبان کا الیکشن کو ایک فراڈ قرار دینا پہلے سے ہی نئے منظر نامے کے بارے میں درست پشین گوئی تھی۔ اگلا صدر کرزئی سے دو ہاتھ آگے جا کر سامراج کی غلامی میں سجدہ ریز ہو جائے گا۔ یوں امریکی اپنے گماشتوں کے ساتھ افغانستان کی دولت کو چرالیں گے۔ ان کے راستے کا سب سے بھاری پتھر طالبان ہیں۔ امریکیوں کو بخوبی علم ہے۔ طالبان ہی کے پاس وہ طاقت ہے جو چوروں کے ہاتھ قلم کر سکتی ہے۔ وہ افغان دولت کو اتنی آسانی سے سرحد پار نہیں لے کر جانے دیں گے۔ وہ آہنی دیوار کی طرح راستوں کو بند کر دیں گے۔
عبداللہ عبداللہ اور اشرف غنی دونوں نے اپنے انتخابی جلسوں میں افغانستان میں امریکی موجودگی کے توسیع نامے جاری کرنے کے وعدے کیے۔ وہ طالبان کی بڑھتی ہوئی طاقت سے لرزہ براندام ہیں۔ انہیں شدید تشویش ہے کہ امریکی سپاہ جب واپسی کا نقارہ باجا دے گی تو طالبان ان کے ہاتھوں سے اقتدار کا کیک چھین لیں گے۔ وہ امریکی، روسی، چینی اور ہندوستانی عزائم کی راہ میں کھڑے ہو جائیں گے۔ وہ دوبارہ اقتدار تک پہنچ جائیں گے۔ نوے کی دہائی والا افغانستان دوبارہ لہلہا اٹھے گا۔ باد سموم ختم ہو جائے گی۔ باد بہاری کا دور لوٹ آئے گا۔ پنچھی اداس نغمے ترک کرکے سریلے سر الاپیں گے۔ ملک میں اسلامی نظام پوری مضبوطی کے ساتھ کھڑا ہو جائے گا۔ امن امان کی ٹوٹی کمر دوبارہ جڑ جائے گی۔ انصاف کے رعشہ زدہ ہاتھ فولاد بن جائیں گے۔ روٹی کو ترستے پیٹ سیر ہوجائیں گے۔ مسجدیں بھر جائیں گی۔ اذانیں مغربی میوزک کا گلہ گھونٹ دیں گی۔ کلب، سینما اور عیاشی کے اڈے فی الفور بند ہو جائیں گے۔ شراب خانوں پر بھاری تالے پڑ جائیں گے۔ ملک میں پوست کی کاشت کرنے والے بے آسرا ہو جائیں گے۔ منشیات فروشوں کی دوکانیں ویران ہو جائیں گی۔ لوگ مغربی بے روح زندگی کی پیروی ترک کر کے سادہ اسلامی مشکور راستوں کے راہی بن جائیں گے۔ طالبان کے ذمے دنیا جہان کی خرابیاں اور دہشت گردیاں لگانے والے گنگ ہو کر رہ جائیں گے۔ ان شاء اللہ! برطانیہ کے بعد رُوس اور رُوس کے بعد امریکا اس ملک سے خالی ہاتھ لوٹے گا۔ افغانستان کی معدنی دولت اسی ملک کی آیندہ نسلوں کا ورثہ بنے گی۔ طالبان کی افغانستان پر گرفت مضبوط سے مضبوط تر ہو گی۔ عیسائیوں کا ٹڈی دل منظرنامے سے غائب ہوجائے گا۔ ہر دہشت گردی طالبان کے ماتھے کا داغ بنانے والے سازشی بری طرح ناکام ہو جائیں گے۔
بجٹ: غریب عوام کو کیا ملا؟
’’باسودے کی مریم‘‘ اردو کی عظیم ترین افسانوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ یہ ’’مریم‘‘ نامی ایک نوکر کی کہانی ہے۔ وہ پاکستان کے غریب غربا کا ایک سمبل ہے۔ وہ گھروں میں کام کرتی ہے۔ جھاڑو پونچھا لگاتی ہے۔ بچوں کی نگہداشت کرتی ہے۔ بازار سے سودا سلف لا کر دیتی ہے۔ اسے جو تنخواہ ملتی ہے، وہ نہایت قلیل ہے۔ وہ اس سے اپنا اور اپنے بیٹے کاپیٹ پالتی رہتی ہے۔ ایک چھوٹی سی صندوقچی میں وہ تھوڑی تھوڑی رقم ڈالتی ہے۔ اس کی زندگی کا واحد مقصد حج کے لیے پیسے جوڑنا ہے۔ وہ تیزی سے بوڑھی ہوتی جارہی ہے۔ اس کے پاس اتنے پیسے اکٹھے ہوجاتے ہیں جن سے وہ خانہ کعبہ کا دیدار کر سکے۔ مدینہ منورہ کی خاک آنکھوں میں سرمہ بنا کر ڈال سکے۔ غربت کے شکنجے میں دن رات کسے رہنے کی وجہ سے اس کا جسم کمزور ہوچکا ہے۔ تاب رتواں جاتی رہی ہے۔ انجام کار حج کی فہرست میں اس کا نام شامل ہوجاتا ہے۔ وہ حج پر جانے کی تیاریاں مکمل کر لیتی ہے۔ بس جہاز میں بیٹھنے اور مقاماتِ مقدس کا دیدار درمیان میں باقی رہ جاتا ہے۔ اچانک اس کا بیٹا بیمار ہو جاتا ہے۔ سرکاری ہسپتالوں میں اس کا کوئی علاج نہیں ہوپاتا۔ کوئی حکومتی ادارہ اس کی مدد کو نہیں آتا۔ ناچار وہ اپنے بیٹے کا پرائیویٹ علاج شروع کروا دیتی ہے۔ عمر بھر کی کمائی دھواں بن کر اُڑ جاتی ہے۔ وہ رقم جو ایک ایک دو دو روپے کر کے جوڑی گئی تھی، ہزاروں کی تعداد میں اس کے ہاتھوں سے پھسل جاتی ہے۔ اس کا سپنا ٹوٹ جاتا ہے۔ وہ روتی ہے۔ آہ و زاری کرتی ہے۔ زندگی بھر غربت کی چکی میں پسنے کے بین کرتی ہے۔
بے رحم معاشرہ اس کی چیخ و پکار سے بے پروا اپنی ہی دھن میں رواں دواں رہتا ہے۔ کہانی کے اختتام پر مریم بیٹا بھی کھو دیتی ہے۔ ساری جمع پونجی بھی لٹا بیٹھتی ہے۔ حج کا خواب آنکھوں میں لیے ہمیشہ کے لیے پلکیں موند لیتی ہے۔
کہنے کو یہ ایک افسانہ ہے، مگر اس کا حرف حرف ہمارے معاشرے کی سنگین حقیقتوں سے پردہ اُٹھاتا ہے۔ یہ بتاتا ہے غریب کی زندگی کی سب سے بڑی خواہش حج کے پورا ہونے کی راہ میں کتنی بھی معاشرتی رکاوٹیں کھڑی ہیں۔ اسے عسرت کی دلدل پار کرنا ہوتی ہے۔ وہ مہنگائی کی خندقیں عبور کرتا ہے۔ اسے تنگ دستی کے صحرائوں میں برہنہ پا سفر کرنا پڑتا ہے۔ لہولہان پائوں کے ساتھ بے مہری اور بے قدری کی کرکٹتی دھوپ میں چلنا پڑتا ہے۔ پاکستان کی بدلتی حکومتیںاس کے سر پر کوئی چھتری نہیں تانتی۔ اس کے کاندھوں کوئی دست شفقت نہیں رکھتیں۔ اس کے رستے زخموںکے لیے کوئی مرہم فراہم نہیں کرتیں۔ آنتیں کاٹتی بھوک کے لیے کوئی پکوان نہیں مہیا کرتیں۔ اس کے پپڑیاں جمے ہونٹوں کے لیے کوئی جان افزا مشروب نہیں تھماتیں۔ اس کے تار تار لباس کے لیے کوئی رفو گر نہیں آتا۔ ہر حکومت اعداد و شمار کی گرد اُڑا کر اس کی بینائی معطل کردیتی ہے۔ اسے شرح نمو میں اضافے کی نوید خوش الحان سنائی جاتی ہے۔ اسے بتایا جاتا ہے اب کے بجٹ میں اس کے سارے عذابوں کو ختم کردیا جائے گا۔ ایسا بجٹ لایا جائے گا جو صحیح معنوں میں اس کا دوست ہو گا۔ اس کا غم خوار ہو گا۔ یہ اس کی زندگی میں سکھ کی چھایا لے کر آئے گا۔ ہر مریم کے لیے ہر بجٹ پہلے سے زیادہ بڑے عذاب لاتا ہے۔ جمہوریت کی بانسری بجنے پر سارے سرمایہ دار شیش ناگ اپنے بلوں سے نکل آتے ہیں۔ یہ غریب غربا کے سامنے پھن پھیلا کر جھومتے ہیں۔ اس کی جان نکال کر ہی دم لیتے ہیں۔
اگر آپ پچھلے 7 سالہ جمہوری ادوار کو دیکھیں تو ہر گزرتا سال پہلے سے زیادہ کڑا اور بے رحم ہوتا جا رہا ہے۔ آج 12 کروڑ 70 لاکھ پاکستانیوں کی آمدنی 2 سو روپے روزانہ سے بھی کم ہے۔ 7 کروڑ 70 لاکھ خوراک کی شدید کمی کا شکار ہیں۔
اگر مہنگائی میں 10 فیصد اضافہ ہو تو 34 لاکھ پاکستانی خطِ غربت سے نیچے چلے جاتے ہیں۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ اس تعداد میں ہوش ربا اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ 82 فیصد عوام جدید علاج کی سہولتوں سے یکسر محروم ہیں۔ قوم کے 3 کروڑ بچوں کے لیے اسکولوں کے دروازے بند ہیں۔ 70 فیصد آبادی کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں۔ آلودہ پانی سے ملک کے بڑے شہروں میں ہپاٹائٹس کا مرض خوفناک شکل اختیار کرتا جارہا ہے۔ ہم صحت پر اخراجات کی مد میں دنیا میں 147 ویں نمبر پر ہیں۔ پاکستان اکنامک واچ کی حالیہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے ہر دوسرا پاکستانی نواجوان بے روزگار ہے۔ 50 فیصد نوجوانوں کے لیے پڑھے لکھے ہونے کے باوجود کوئی روزگار نہیں۔ ہر نئے سال ان کی تعداد میں 10 لاکھ کا اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ حال ہی میں جاری ہونے والی رپورٹ ’’Out Look 2014‘‘ کے مطابق آیندہ مالی سال میں بے روزگاری کی شرح 6.9 فیصد اور مہنگائی بڑھ کر 8.8 فیصد ہو جائے گی۔ ان حالات میں حکومت نے 525 ارب کے ترقیاتی منصوبوں کی منظوری دی ہے۔ حکومتی بے سمتی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے لاہور میں میٹروبس چلانے کے لیے ہم 160 ارب روپے صرف کرنے والے ہیں۔ 27.1 کلومیٹر طویل ٹریک پر رواں سال کام شروع ہونے جارہا ہے۔ راولپنڈی میں میٹروبس پر اربوں روپے لاگت آرہی ہے۔ ہم جو دبئی اور سنگاپور جیسی سفری سہولتوں کے لیے آسمان سے تارے توڑ رہے ہیں، کاش! ہم اندھیرے میں ڈوبے گھروں کے لیے کوئی چھوٹا موٹا چراغ بھی مہیا کردیتے۔ فلائی اور، انڈر پاس، میٹروبسوں اور میٹرو ٹرینوں تک ہم تب جاتے جب ہم نے عوام کی اذیت ناک زندگیوں میں تھوڑا سا سکھ بودیا ہوتا۔ مہنگائی، بیروزگاری، ذخیرہ اندوزی اور کساد بازاری کے ہاتھ یرغمال ملک میں ایسے شیخ چلی جیسے منصوبوں پر کھربوں روپے لگانا ہر گز درست سمت میں قدم نہیں۔ جب ہم صحت کے بجٹ سے پیسہ نکال کر میٹرو ٹرین چلا رہے ہیں یا تعلیم کی خالی ہوئی جیب سے سکے تلاش کرکے میٹرو بسوں کے لیے ایندھن مہیا کررہے ہیں تو ہم ترقی کی بجائے تنزلی کی طرف جارہے ہیں۔ ہم وژن عقل شعور تج چکے ہیں۔
ملک میں تیزی سے بڑھتی ہوئی مہنگائی کا اندازہ اس سروے سے کیا جاسکتا ہے۔ کراچی میں 2013 سے 2014 تک بڑا گوشت 360 سے 480 روپے، چھوٹا گوشت 520 سے 620 روپے، مرغی 230 سے 280 روپے، روٹی 6 سے 8 روپے، آٹا 41 سے 45 روپے، پیاز 20 سے 25 روپے تک پہنچ مہنگی ہوگئی ہے۔ لاہور میں بڑا گوشت 250 سے 300 روپے، چھوٹا گوشت 600 سے 700 روپے، مرغی 175 سے 210 روپے، روٹی 5 سے 6 روپے، آٹا (20 کلو) 720 سے 810 روپے، دودھ 55 سے 70 روپے، دال مسور 85 سے 110 روپے، دال چنا 48سے 62 روپے، دال ماش 125 سے 155 روپے، دال مونگ 110 سے 140 روپے، انڈے 65 سے 72 روپے پر پہنچ چکے ہیں۔ یوں 2 بڑے شہروں میں قیمتوں کا تفادت ہمیں بتاتا ہے ذخیرہ اندوزوں نے کس کس طرح مخلوقِ خدا کو لوٹا ہے؟
ملک میں مجموعی طور پر آلوکی قیمت میں 175 فیصد اضافہ ہوا۔ دال مونگ کی قیمت میں 35 فیصد، مرغی میں 20 فیصد، دال مسور 19 فیصداور گند م کی مصنوعات میں 17 فیصد اضافہ ہوا۔ دودھ 14 فیصد، پوسٹل سروسز 23 اور تعلیم 16 فیصد مہنگی ہوگئی۔ بجلی اور ڈاکٹروں کی فیس میں 16 فیصد، گارمنٹس کی قیمتوں میں 17 فیصد اضافہ ہوا۔ مالیاتی خسارہ اس سال 2.3 فیصد اور بیروزگاری 6.2 فیصد رہی۔ اس سب کا اثرکرنٹ اکائونٹ خسارے پر پڑا جو 2 ارب 60 کروڑڈالر رہا۔ حکومت نے 1995 ارب روپے ٹیکسوں کی مد میں حاصل کیے جن پر اب میگا پروجیکٹس کی بنیادیں ڈالی جارہی ہیں۔
اس بجٹ میں 1175 ارب کے ترقیاتی منصوبے شامل کیے گئے ہیں۔ 16 کھرب مالیت کے 303 نئے اور مجموعی طور پر 56 کھرب مالیت کے 1024 ترقیاتی منصوبے پائپ لائن میں ہیں۔ حکومت نے گھی، تیل کی قیمتوں میں اضافہ کردیا ہے۔ اشیائے خوردونوش کی قیمتو ں میں کوئی کمی دیکھنے میں نہیں آئی۔ ملک بھر کے چیمبر آف کامرس نے بجٹ کی تعریف کی ہے، کیونکہ سرمایہ دار کو مجموعی طور پر تحفظ دیا گیا ہے۔ عام عوام کو ان کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ یہ بجٹ غریب عوام کے لیے اُمید کا کوئی سویرا نہیں لایا۔
تنخواہوں اور اور پنشن میں اضافہ مہنگائی کے تناسب سے ایک مذاق کا درجہ رکھتا ہے۔ مثبت پہلو صرف یہ ہیں اس بجٹ میں کم از کم تنخواہ 12 ہزار مقر کرنے کا اعلان کیا گیا۔ غریبوں کے لیے وزیراعظم ہیلتھ انشورنس اسکیم کے لیے ایک ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ اس کا طریقہ کار انتہائی پیچیدہ رکھا گیا ہے۔ انتہائی غریب گھرانوں کو 1500 روپے ماہوار دینے کا اعلان کیا گیا ہے۔ یوں ہر سال کی طرح اس بجٹ سے استوار بڑی اُمیدیں دم توڑ گئی ہیں۔ قیمتوں میں ٹھہرائو یا ان کی الٹی سمت واپسی کی کوئی اُمید دور دور تک نظر نہیں آتی۔ ایک سروے کے مطابق اگلے برس مہنگائی میں 200 فیصد تک اضافہ ہو سکتا ہے۔ یوں کروڑ ارب پتیوں پر مشتمل ہمارے جمہوری ایوانوں سے اس سال بھی غریب غربا کے لیے کوئی خیر کی خبر نہیں آئی۔ برہنہ سچ یہی ہے یہ ملک اشرافیہ کا ہے۔ اس پر مافیاز کا قبضہ ہے۔ اقتدار کا مافیا، سیاست کا مافیا، کرپشن کا مافیا، جائیداد عقب کرنے والا مافیا، عوام کا خون نچوڑنے والا مافیا، قومی خزانہ لوٹنے والا مافیا، ذخیرہ اندوزوں کا مافیا، من چاہے ریٹ لگانے والوں مافیا، میگا پراجیکٹس سے اربوں کمانے والا مافیا، بیوروکریٹوں کا مافیا، پولیس گردی کرنے والوں کا مافیا، قانون کی سوداگری کرنے والوں کا مافیا اور سود کھانے والوں کا مافیا۔
کچھ عرصہ قبل ایک کتاب ’’پاکستان کے سیاسی خانوادے‘‘ منظرعام پر آئی تھی۔ اس میں ہمارے سیاسی اُفق پر چھائے ہوئے خاندانوں کی مفصل کہانیاں لکھی ہوئی تھیں۔ ہمارے کئی بڑے سیاسی خاندان 1857ء میں انگریزوں کے دست راست بن گئے تھے۔ انہوں نے حریت پسندوں کو مارا۔ ان کے گھر جلائے اور انعام میں جاگیریں پائیں۔ پاکستان بنا تو یہی لوگ، وقت کے ساتھ اس ملک کے سیاہ و سفید کے مالک بن گئے۔ انہی میں سے بے شمار بہت بڑے سرمایہ داربن گئے۔ انہوں نے جائیدادیں، فیکٹریاں، ملیں، کارخانے، فارم ہائوس، پلازے اور مارکی ٹیں بنا لیں۔ دولت کی اس ریل پیل نے انہیں سیاست کی ٹکسال کا راستہ دکھایا۔ یوں ہماری جمہوریت وجود میں آئی۔ سرمایہ سرمائے کو کھنچناشروع ہوگیا۔ انجام یہ کہ ملک مافیاز کی جاگیربن کر رہ گیا۔
آج ملک میں سب سے کم ٹیکس ہمارے جمہوری نمایندے دیتے ہیں۔ یہ ڈیوٹی فری گاڑیوں میں شاہانہ سفر کرتے ہیں۔ ان کے پرٹوکول پر اربوں سالانہ لاگت آتی ہے۔ ان کا علاج اور بچوں کی تعلیم بیرون ملک ہوتی ہے۔ یوں عوام کے ٹیکسوں سے یہ بھر پور عرق کشید کرتے رہتے ہیں۔ پاکستان دہائیوں سے ان بے رحم اور سفاک لوگوں کے ہاتھوں یرغمال بنا ہوا ہے۔ عوام کے پاس بس آنسو ہیں، آہیں ہیں۔ دُکھ، مصیبتیں اور بے بسیاں ہیں۔ ہر جمہوری خواب کی تعبیر الٹ ہی نکلتی ہے۔ یوں ہماری حکومت 160 ارب روپے سے لاہور میں میٹرو ٹرینیں چلا رہی ہے۔ ہوسکتا ہے بجٹ دیکھ کر لگتا ہے کہ منصوبے کی تکمیل پر سفر کرنے والی عوام کی جیب میں کرائے کے لیے کوئی سکے ہی باقی نہ ہوں گے۔ خدا ہمیں ان لیڈروں کے وژن سے بچائے۔
وہ دن جو بھلادیا گیا
’’پوکھران‘‘ بھارتی صوبے راجستھان کا ایک پہاڑی مقام ہے۔ 1974ء میں دنیا بھر کی نظریں اس کے پہاڑوں پر مرکوز ہوگئیں۔ مہینوں سے یہاں انتہائی پُراسرار سر گرمیاں دیکھنے میں آرہی تھیں۔ بھارتی فوج نے قرب و جوار کی بستیاں خالی کروالیں۔ ٹرکوں، ہیلی کاپٹروں اور جنگلی جہازوں نے ادھر کا رُخ کرنے جارہے تھے۔ تیاریاں مکمل ہوئیں۔ وزیراعظم اندراگاندھی نے ’’Go Ahead‘‘ کی اجازت دے دی۔ زمین میں بھونچال برپا ہوگیا۔ پہاڑوں کے سنگلاخ پتھر سرمہ بن کر رہ گئے۔ کان پھاڑ دینے والے دھماکے کے بعد بھارت دنیا کی ایٹمی طاقتوں میں چھٹے نمبر پر آگیا۔ سارے بھارت میں جشن منایا گیا۔ انتہا پسند ہندوئوں کی باچھیں کھل گئیں۔ پڑوسی ملک اورسہم کر رہ گئے۔ بھارت جنوبی ایشیا کی سپرپاور بن کر سامنے آگیا۔
ذوالفقار علی بھٹو نے فوراً پاکستانی سائنس دانوں کو ایک جگہ جمع کیا۔ ان سے آرٹ پٹ لی۔ پاکستان نے ایٹم بم بنانے کی سرتوڑ کوششیں شروع کردیں۔ 1976ء میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے کہوٹہ پروجیکٹ کو ٹیک آن کیا۔ 1979ء میں پاکستان نے نیوکلیئر فیول سائیکل کے سب مرحلے عبور کرلیے۔ پاکستان ایٹم بم بنا چکا تھا۔ پر عالمی دبائو کی وجہ سے اس کا تجربہ کرنے کے لیے حوصلہ نہ پار رہا تھا۔ 1980ء سے ہی چاغی میں سرنگیں کھودی جانے لگیں۔ ہم 15 برس تک 24 بموں کے Cord Test کر چکے تھے۔ یہ تجربات کا میابی کی سمت واضح اشارے کر رہے تھے
، البتہ ہم ایٹم بم کا پورے کا پورا تجربہ کرنے کی جرأت نہیں دکھا رہے تھے۔ پاکستان کے ایٹمی سائنسدان بھی اس پوزیشن میں نہیں تھے کہ سو فیصد کامیابی کا واشگاف اعلان کر پاتے۔ تقدیر کو کچھ اور ہی منظورتھا۔ فیصلے کی گھڑیاں آن پہنچیں۔
13 مئی 1998ء کو بھارت نے یکے بعد دیگرے 3 ایٹمی دھماکے کردیے۔ ایک ملک جو پہلے خود کو ایٹمی طاقت منوا چکا تھا، اس کا اندھی طاقت کا یہ مظاہرہ جنون اور پاگل پن کے زمرے میں گنا گیا۔ یہ وحشیانہ قدم پاکستان کے لیے ایک وحشت ناک خواب بن گیا۔ بھارت 12 لاکھ 63 ہزار فوجیوں کا ملک تھا۔ پاکستان کی فوج 6 لاکھ 20 ہزار تھی۔ پاکستان کے پاس اس وقت 5 لاکھ 50 ہزار بری فوجی ہیں۔ بھارت کے پاس 11 لاکھ بری افواج تھی۔ پاکستان بحریہ 25 ہزار جوانوں اور افسروں پر مشتمل تھی۔ بھارت کے پاس 53 ہزار نیوی تھی۔ پاکستان کی 45 ہزار فضائیہ کے مقابلے میں بھارتی فضائیہ ایک لاکھ 10 ہزار افسروں پر مشتمل تھی۔ پاکستان 2 ہزار 3 سو ٹینکوں کے مقابلے میں بھارت کے پاس 4 ہزار ایک سو 75 ٹینک تھے۔ پاکستانی فضائیہ کے پاس 401 طیارے تھے۔
انڈیا کے پاس 772 جدید لڑاکا طیارے تھے۔ پاکستان کے پاس 45 ملٹی پل راکٹ لانچر تھے، بھارت کے پاس 1500 ملٹی پل راکٹ لانچر رکھتا تھا۔ پاکستانی فوج 5 سو مارٹر گولوں کی مالک تھی۔ بھارت کے پاس 1250 ایسے گولے تھے۔ پاکستان کے پاس صرف 400 ڈیفنس توپیں تھی۔ بھارت 2 ہزار 400 ایسی توپوں کا مالک تھا۔ اگر آپ ایٹمی طاقت میں پاکستان اور بھارت کا مقابلہ کریں تو اس وقت بھارت کے پاس 4 سو کلوگرام پلوٹونیم موجود تھی۔ وہ 65 سے 90ایٹم بم بنا سکتا تھا۔ پاکستان کے پاس 2 سو کلوگرام پلوٹونیم تھی جس سے ہم 25 یا 30 ایسے بم بنا سکتے تھے۔ بھارت بری، بحری اور ہوائی فوج اسلحے، بارود، بموں، گولوں، توپوں، جہازوں، ٹینکوں، بکتربندگاڑیوں، ایٹم بموں میں ہم سے کئی گنا زیادہ طاقت کا حامل ملک تھا۔ اس کا پاکستان کو للکارنا اس کی خبیث باطن کا واضح ثبوت تھا۔ وہ جس کی طاقت دنیا جانتی تھی وہ ہماری کمزوری کا اشتہار 13 مئی کو پوری دنیا میں پھیلا چکا تھا۔ یہ گھڑیاں ہمارے لیے نہایت کٹھن تھیں۔
ہم نے ایٹمی دھماکوں کی تیاریاں شروع کردیں۔ دنیا بھر کے زورآور ملک دیوار بن کر کھڑے ہو گئے۔ ہمارا بائیکاٹ کردینے کی دھمکیاں ملنے لگیں۔ برطانیہ، جرمنی، جاپان، روس، فرانس، اٹلی کے سفارت کار تیز رفتارگاڑیوں میں وزیراعظم ہائوس میں آنا جانا شروع ہوگئے۔ دنیا بھر میں پاکستانی سفارت خانوں کے باہر مظاہرین جمع ہونا شروع ہوگئے۔ ہم پرچاروں اطراف سے دبائو پڑنا شروع ہوگیا۔ امریکا نے آنکھیں ماتھے پر رکھ لیں۔ کبھی ننگی دھمکیاں دیتا، تو کبھی 5 ارب ڈالر امداد کی نوید سناتا۔ نواز شریف کو 500 ملین ڈالر کی رشوت کی آفر کی گئی۔ ہمارے قرضے معاف کرنے اور شرح سود میں حیرت انگیز کم کے لیے ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے گماشتے اسلام آباد ایرپورٹ پر برابر اُترنے لگے۔ نئی دہلی نے اپنے دوستوں کوشہ دی وہ ہمیں ایٹمی دھماکوں سے بزور روکیں۔ امریکی خلائی سیارے چاغی پر آنکھیں جمائے سب تیاریاں بغور دیکھے جارہے تھے۔ کوئٹہ سے ملٹری ہیلی کاپٹر پانی لے کر مسلسل چاغی جارہے تھے۔ 4000 افراد اور 400 گاڑیاں کوئٹہ سے چاغی اور چاغی سے کوئٹہ محو سفر تھیں۔ تیاریاں اپنے عروج پر پہنچ گئیں۔ 28 مئی کا سنہری سویرا روشن باب تحریر ہونے جارہا تھا۔3 بج کر 16 منٹ پر چاغی کے پہاڑوں نے سفید چادریں اوڑھ لیں۔ فضا زبردست ارتعاش سے گونج اٹھی۔ بھارت کے 3 ایٹمی دھماکوں کے جواب میں پاکستان کے 5 کامیاب دھماکے کیے۔ یوں 28 مئی کا عام سا دن ہمارے لیے ہمیشہ کے لیے ’’یومِ تکبیر‘‘ بن گیا۔
٭ مسلم تاریخ میں صدیوں بعد آنے والے ایک تاریخی دن کو ہم نے اس کا مقام نہ دیا۔ ہم ہر سال بے رخی سے اس کی طرف دیکھتے ہیں اور وہ خالی ہاتھ اس ملک پر غروب ہو جاتا ہے۔ ٭
اس دن لوگ مبارک بادوں کے پھول ایک دوسرے پر نچھاور کر رہے تھے۔ ان کے چہروں پر مسکراہٹوں کی کہکشاہیں تھیں۔ ان کی آنکھوں میں گہری مسرت کے چراغ ضوفشاں تھے۔ خوشی کا ایک گہرا سیلاب تھا جس نے پاکستان قوم کو اپنے تیز بہائو میں لے لیا تھا۔ امیر غریب، مرد عورتیں، بچے، بوڑھے سب اس میں بہے جارہے تھے۔ مٹھائیاںاتنی بانٹی گئیں کہ حلوائیوں کے گوداموں میں انہیں بنانے والا سامان ختم ہو گیا۔ شیرنیاں بنا بنا کر ان کے ہاتھ سن ہو گئے۔ ہر قلب و روح میں شاد یانے بج رہے تھے۔ لوگ فوجیوں کو دیکھ کر ان کے گال چوم رہے تھے۔ حکومت کی ساری کوتاہیاں فی الفور معاف کردی گئی تھیں۔ نواز شریف کی شہرت اور عظمت کا گراف اپنے انتہائی عروج کو چھو رہا تھا۔ پاکستانی اسٹاک مارکیٹ ہفتوں تک بلند ترین شرح پر رہی۔ اسکولوں کے چھوٹے چھوٹے بچے کئی روز تک پاکستان قوم کی عظمت کے ترانے گاتے رہے۔ ٹی وی، ریڈیو پر ملی نغموں کی بہار آئی ہوئی تھی۔ وہ قوم جس نے 16 دسمبر 1971ء کا منحوس دن دیکھا تھا، اس کے نصیب تیرہ بخت پر 28 مئی کی شام پھلجڑیوں، فانوسوں کی چکا چوندروشنی لے کر آئی تھی۔
پاکستان کی تاریخ میں یہ فتح مبین کا دن تھا۔ بھارت میں ہندوئوں کی سٹّی گم ہو گئی تھی۔ لوک سبھا میں کانگریس نے بی جے پی کے لتے لیے تھے۔ واجپائی اپنے حواس گم کر بیٹھا۔ جنوبی ایشیا میں کمتر فوجی طاقت رکھنے والا پاکستان بھارت سے کوسوں میل آگے نکل گیا تھا۔ کچھوے نے مغرور خرگوش کو دوڑ میں شکست دے دی تھی۔ 28مئی 1999ء کو نواز شریف حکومت نے ’’یومِ تکبیر‘‘ کو ایک جشن کی طرح منایا۔ مشرف کو کوئی کریڈٹ دینے پر تیار نہ تھا۔ اس نے قوم کو ایک لڑی میں پرو دینے والے اس دن سے سرد مہری برتنا شروع کردی۔ رسمی بیانات، ٹی وی اور اخبارات کی زینت بنتے اور بس۔ سب سے سنگین جرم مشرف نے یہ کیا اس ملک کے محسن اعظم ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو قید و بند کی زنجیروں سے باندھ دیا۔ وہ جس کا نام نامی سن کر لوگوں کی گردنیں احترام میں جھک جاتی تھیں، خود اس کی گردن میں سی آئی اے کے تیار کردہ الزامات کا پھندا کس دیا گیا۔
یوں ہم ایک اٹامک طاقت ہوتے ہوئے اور بھارت جیسے کنبہ پرور ملک کا کاندھوں سے کاندھ ملا کر کھڑے ہونے کے بعد بھی خوار و زبوں ہونے لگے۔ یوم تکبیر منانے کے لیے زرداری حکومت کے پانچ سالوں میں بھٹو کی اس بارے میں تحسین پر بات ختم کر دی جاتی تھی۔ زرداری مسلم لیگ سے مسابقت کی وجہ سے نواز شریف کو کوئی بڑا کریڈٹ دینے سے کنارہ کش رہا۔ نواز شریف کے موجودہ دور حکومت میں دوبار یہ تاریخی دن گزرا ہے۔ حکومت کی طرف سے چند توصیفی بیانات اکا دکا تقریبات کے علاوہ اس عظیم الشان دن کو عام دن کی طرح گزار دیا گیا۔ میں نے تمام اخبارات پڑھے، ٹی وی کے چینلوں کے تحت پروگرام دیکھے۔ مجھے بہت افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے ہم نے یومِ تکبیر کو ایک معمولی اہمیت کا دن بنا کر رکھ دیا ہے۔ وہ تاریخی دن جسے ہر سال اگر جذبے لگن اورذوق و شوق سے منایا جاتا تو یہ نسلی منافرتوں، لسانی حدبندیوں، صوبائی تعصابات کی تما دیواروں میں شگاف ڈال سکتا تھا۔ یہ ہماری روحوں میں نور حرارت اور زندگی بھر سکتاتھا۔ ہم وہ بدقسمت قوم ہیں جو ایسے دنوں کی قدر کرنا فراموش کر چکے ہیں۔ ہم بھول گئے ہیں یہ جوہری ہتھیار ہمارا کتنا بڑا اثاثہ ہے۔
امریکا، اسرائیل اور بھارت ہم پر ہاتھ ڈالتے ہوئے گھبراتے ہیں وہ دہشت کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ان کے زہریلے عزائم جھاگ کی طرح بیٹھ جاتے ہیں۔ وہ خوف سے تھر تھر کانپتے ہیں۔ ان کی گھگھی بندھ جاتی ہے۔ وہ جانتے ہیں ایسے ملک کے خلاف جارحیت ان کو کس قیمت پر مول لینا پڑے گی؟ ’’سی آئی اے‘‘، ’’موساد‘‘ اور ’’را‘‘ اس آہنی دیوار سے ٹکراتی ہیں، اپنا سر پھوڑتی ہیں۔ وہ جانتی ہیں ایٹم بم کے حامل ملک سے سیدھی محاز آرائی ان کے ملکوں کو شمشان گھاٹ بنا سکتی ہے۔ مسلم تاریخ میں صدیوں بعد آنے والے ایک تاریخی دن کو ہم نے اس کا مقام نہ دیا۔ ہم ہر سال بے رخی سے اس کی طرف دیکھتے ہیں اور وہ خالی ہاتھ اس ملک پر غروب ہو جاتا ہے۔ ہم وہ بدنصیب ہیں جو ملکی تاریخ کے سب سے روشن دن کو بے حسی سے رخصت ہوتے دیکھتے رہتے ہیں۔
اب کیا ہوگا؟؟
’’نزادسی چودھری‘‘ ایک بنگالی ہندو تھا۔ جب 1925ء میں راشٹر یہ سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کا ناگپور میں قیام عمل میں آیا تو اس نے بنگال میںاس کے دفتر آنا جانا شروع کردیا۔ وہ اس تنظیم کے جلسے جلوسوں میں شریک ہوتا رہا۔ لیڈروں کی قیام گاہوں پر جاتا اور ان کی گفتگو سنتا۔ اس نے متعصب ہندووں کی ذہنیت پر 40 سال ریسرچ کی۔ یہ عرق ریزی اس نے ایک کتاب کی صورت 1965ء میں شائع کر دی۔ ’’The Continent of Circe ‘‘(جادوگرنی کا دیس) کے عنوان سے اس کتاب نے ہندوستان میں تہلکہ مچادیا۔ سارے ملک میں ’’نزادسی چودھری‘‘ کے خلاف جلوس نکلے۔ اس کے پتلے جلائے گئے۔ اس کے گھر پر پتھرائو ہوا۔ اسے ملازمت سے بے دخل کردیا گیا۔ وہ کلکتہ چھوڑ کر مستقل برطانیہ چلاگیا۔ حکومت نے کتاب پر پابندی لگا دی۔
نزادسی چودھری نے جادوگرنی کے دیس میں ہندو نفسیات کا گہرا تجزیہ کیا تھا۔ اس کا کہنا تھا راشٹریہ سیوک سنگھ ملک کو مشہور مسجدوں کو مندروں میں تبدیل کردے گی۔ یہ مسلمانوں کو شودروں سے بھی کم سماجی درجے پر پہنچا دے گی۔ یہ ان کا کاروبار اور زمینیں ہتھیا لے گی۔ یہ تعلیمی نصاب میں ہندو مت کے ننگے پروپیگنڈے کو اوّلیت دے گی۔ یہ اخبارات رسائل و جرائد کو کنٹرول کر کے ہندو توا کے تصور کو عوام کی سائیکی کا حصہ بنائے گی۔ فلم اور ٹی وی کے کرتا دھرتا افراد کی مکمل ذہنی کایا کلپ کرے گی۔ انتہائی پسماندہ علاقوں کے
مسلمانوں کو ترغیب و لالچ دے کر انہیں ہندو ازم کے دائرےمیں لے آئے گی۔ سیکولر بھارت کو ایک ایسا ہندو دیش بنائے گی جس میں اقلیتوں کے لیے جینا ناممکن بنا دیا جائے گا۔
’’نزادسی چودھری‘‘ نے اندراگاندھی پر کڑی تنقید کرتے لکھا: ’’اس نے آر ایس ایس کو چھوٹ دے دی ہے۔ آر ایس ایس کے زہریلے لیڈروں نے بدلتے وقت کے دھارے میں سفر کرتے ہوئے بھارتی جنتا پارٹی کو 1980ء میں جنم دیا۔ یہ پارٹی اپنی ماں کی ہم شکل ہونے کے باوجود عوام کو تھوڑا روشن چہرہ دکھانا شروع ہوگئی۔ اس کے باوجود اس کا مینی فیسٹو ہندو توا کے رنگ میں رنگا ہوا ہے۔ اس پارٹی نے ہندووں کے دل جیتنے کے لیے 1993ء میں رام رتھ یاترا شروع کی۔ دسمبر کو ایودھیا میں بابری مسجد شہید کر دی۔ اس کے بعد بھارت بدترین مسلم کش فسادات کے ریلے میں بہہ گیا۔ واچپائی کو مرکز میں حکومت ملی تو سارے ملک میں اقلتیوں کے لیے ملک کی تاریخ میں سیاہ ترین عہد شروع ہوگیا۔ پچھلے دس بارہ برسوں میں بھارتی جنتا پارٹی چند صوبوں کے علاوہ مرکز میں حکومت بنانے میں ناکام رہی۔
حالیہ انتخابات میں میں اس نے لوک سبھا کی 543 میں سے 283 نشستیں جیتیں۔ کانگریس صرف 62نشستیں حاصل کر سکی۔ یوں بھارتی جنتاپارٹی نے سنگل میجارٹی کے ساتھ حکومت بنانے کی پوزیشن حاصل کرلی۔ گجرات کا قاتل نریندر مودی ملک کا وزیراعظم بن گیا ہے۔ 25 کروڑ مسلمانوں کا کوئی ایک بھی نمایندہ اس پارٹی کے ٹکٹ پر منتخب نہیں پایا۔ یوں اس حکومت میں مسلمان مکمل طور پر باہر ہوگئے ہیں۔ سارے بھارت سے صرف 22 مسلمان لوک سبھا تک پہنچ پائے ہیں۔ 61 عورتیں منتخب ہوئی ہیں۔ 14 ریاستوں میں پارٹی نے کلین سویپ کیا ہے۔ یوں اتحادیوں کو ملا کر یہ 335 سیٹیں جیت گئی۔ ووٹر ٹرن آئوٹ 66.4 فیصد رہا۔ 13 امیدوار سنگین جرائم میں ملوث ہونے کے باوجود جنتا پارٹی کے ٹکٹ پر جیت گئے۔ 20 فیصد بھارتی مسلمانوں نے اس پارٹی کی مسلم دشمنی کی تاریخ کے باوجود ووٹ دیے ہیں۔ ان کو اُمید ہے جنتا پارٹی ماضی کے گھناونے کردار سے بچ کر ان کی فلاح و بہبود کے لیے اقدام اٹھائے گی۔ کانگریس کی شکست فاش ہی معاشی بدحالی نے بڑا رول ادا کیا ہے۔ اس کے بڑے بڑے برج الٹ گئے ہیں۔ عام آدمی پارٹی صرف 5 نشستوں پر کامیاب ہو پائی۔ یوں اس کے 100 نشستیں جیتنے کے سروے مکمل طور پر فلاپ ہوگئے۔ اس کا لیڈر کیجر وال بدترین شکست سے دو چار ہوا ہے۔
الیکشن کمیشن نے جو اعداد شمار جاری کیے ہیں ان کے مطابق 81 کروڑ ووٹر رجسٹرڈ ہوئے۔ 55.1 کروڑ ووٹ کاسٹ کیے گئے۔ یوں 2009ء کے انتخابات کی نسبت 32 فیصد زیادہ ووٹ پڑے۔ 2009ء میں 41.7 کروڑ افراد نے ووٹ ڈالے تھے۔ جنتا پارٹی کی جیت میں کالے دھن نے بہت بڑا رول پلے کیا۔ انڈر ورلڈ نے اپنے سارے زرائع استعمال کیے۔ بڑے بزنس مینوں نے اس پارٹی کے لیے اربوں کے فنڈز دیے۔ ایک ہزار کروڑ میڈیا مہم پر صرف کیے گئے۔ غریب غربا سے ووٹ خریدے گئے۔ ٹائمز آف انڈیا کے مطابق جنتا پارٹی نے 15 کروڑ ووٹ آٹے کی بوریوں، گھی کے ڈبوں، دالوں کے بیگ بانٹ کر خریدے۔
٭ گجرات کا قاتل نریندر مودی ملک کا وزیراعظم بن گیا ہے۔ 25 کروڑ مسلمانوں کا کوئی ایک بھی نمایندہ اس پارٹی کے ٹکٹ پر منتخب نہیں پایا۔ ٭ ہمیں کمزور کردار کا مظاہرہ نہیں کرنا ہوگا۔ ہماری بھارت کے ساتھ پالیسیاں ایسی ہوں جن میں بھارتی اور کشمیری مسلمانوں کے لیے خیرہو۔ ٭
یاد رہے بھارت میں خط غربت سے نیچے افراد کی تعداد 86 کروڑ سے زائد ہے۔ یوں سب سے بڑی جمہوریت کی ایک بھیانک حقیقت یہ بھی ہے یہاں چند 100 روپوں میں ووٹ خریدا جا سکتا ہے۔ ان 86 کروڑ غریب غربا میں 19 کروڑمسلمان ہیں۔ جنہیں کانگریس ہو یا بی جے پی دونوں نے کبھی منہ نہیں لگایا۔ بھارت میں اقلیتوں کی دگرگوں حالت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ Poverty Allevenation Boardکے مطابق ملک میں مسلمانوں کی ساری آبادیوں میں کل حکومتی اسکول 23 ہزار ہیں۔ ہسپتالوں کی تعداد 11 ہزار ہے۔ ان میں سے 8 ہزار ہسپتالوں میں سوائے ایک یا دو ڈاکٹروں اور نرسوں کا عملہ بھرتی ہی نہیں کیا جاتا۔ مسلمانوں کی آبادیوں میں رات کے وقت سرکاری کھمبوں پہ روشنی نہیں کی جاتی۔ اس کا جواز بجلی کی بچت کی صورت دیا جاتا ہے۔ مسلم اکثریت والے شہروں کے بازاروں اور گلیوں میں سیوریج کا نظام نہیں بچھایا جاتا۔ یہ کوڑا کرکٹ کے ڈھیروں کی صورت اختیار کرتے جارہے ہیں۔ یہاں بیماریاں سراٹھاتی ہیں تو وبائوں کی صورت اختیار کرلیتی ہیں۔ مسلمانوں کے ایک لیڈر سید شہاب الدین نے لوک سبھا میں جب یہ معاملات ہائی لائٹ کیے تو حکومتی وزیر صحت نے ٹھٹھا اُڑاتے ہوئے کہا تھا: ’’مسلمانوں کی آبادی بہت تیزی سے بڑھے جارہی ہے، اگر چند ہزار دنیا سے چلے گئے تو کیا فرق پڑتا ہے۔‘‘ 20 فیصد مسلم ووٹ کے ساتھ اقتدار میں آنے والی بی جے پی مسلمانوں کے معیار زندگی کو بہتر بنانے میں کیا کردار ادا کرتی ہے یہ تو وقت ہی بتا پائے گا۔
آج بھارت کی آبادی 1220 ملین افراد پر مشتمل ہے۔ روزانہ 2 ڈالر سے کم کمانے والے کی تعداد 860 ملین (86) کروڑ ہے۔ 500 ملین آبادی خوراک کی کمی میں مبتلا ہے۔ شیر خوار بچوں میں اموات کی شرح ہر ہزار میں سے 132 ہے۔ بجٹ خسارہ 100 بلین ڈالر ہے۔ تجارتی خسارہ 190 بلین ڈالرہے۔ عوامی قرضہ مجموعی قومی پیدوارکا 27 فیصد ہے۔ بھارت اپنے دفاع پر سالانہ 42 بلین ڈالر صرف کر رہا ہے۔ سیاچین پر بھارت سالانہ 200 سے 300 ملین ڈالر خرچ رہا ہے۔ 1984ء سے اب تک وہ اس مد میں 5 ملین ڈالر لگا چکا ہے۔
ہمارے وزیراعظم نے مودی کو فون کر کے پاکستان آنے کی دعوت دی ہے۔ اگر مودی پاکستان آتا اور کوئی معاہدہ کرتا ہے تو یہ دونوں ملکوں کے درمیان پندرہواں معاہدہ ہو گا۔
اب سے پہلے 14 بار سربراہان کی ملاقاتیں اور معاہدے ہوچکے ہیں۔ جناح مائونٹ بیٹن ملاقات نومبر 1947ء کو لاہور میں ہوئی۔ 27 جولائی 1949ء کو کراچی میں کشمیرکی جنگ بندی کا معاہدہ ہوا۔ 8 اپریل 1950ء نئی دہلی میں نہرو ملاقاتیں ہوئیں۔ 19 ستمبر1960ء کو سندھ طاس معاہدے پر دستخط ہوئے۔ 10 جنوری 1966ء کو تاشقند میں جنگ ستمبرکے خاتمے پر دستخط کیے۔ 2 جولائی 1972ء کو بھٹو اندراگاندی نے شملہ معاہدے پر دستخط کیے۔ 19 اپریل 1973ء کو دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ دہلی میں ایک معاہدے پر پہنچے۔ 21 دسمبر 1988ء کو راجیو بے نظیر معاہدہ اسلام آباد میں ہوا۔ 21 فروری 1999ء کو نواز واجپائی معاہدہ لاہور میں ہوا۔ 14 سے 16 جولائی 2001ء کو آگرہ میں مشرف واجپائی ملاقاتیں ہوئیں۔ 16 جون 2009ء کو زرداری منموہن سنگھ ملاقاتیں روس میں ہوئی۔ 16 جولائی 2009ء کو شرم الشیخ مصر میں گیلانی، من موہن ملاقات ہوئی۔ 8 اپریل 2012ء کو زرداری نے اجمیر اور دہلی کا دورہ کیا۔ ان معاہدوں اور ملاقاتوں کے نتیجے میں کئی دیر پا مسئلے حل نہیں ہوپائے۔ کشمیر پر بھارت کا قبضہ بدستور جاری رہا۔ 2004ء کے بعد سے ہم نے اس مسئلے کو سرد خانے میں ڈالا ہوا ہے۔ ہم نے بے حیائی پر مبنی بھارتی فلموں کے لیے پاکستانی سنیمائوں کے دروازے کھول رکھے ہیں۔
دوسری طرف بھارت کی ڈیرہ دون ملٹری اکیڈمی میں آر ایس ایس نے ایسا لٹریچر فوجیوں کے نصاب میں ڈالا ہے جو پاکستان کے وجود کو ختم کر دینے پر اپنی تان توڑتا ہے، جبکہ ہم پچھلی 6 دہائیوں میں بھارت سے بالترتیب 97.95 ملین ڈالر، 119.46 ملین ڈالر، 106.95 ملین ڈالر، 151.67 ملین ڈالر، 1023.6 ملین ڈالر، 9420.95 ملین ڈالر کا سامانہ درآمد کر چکے ہیں۔ بھارتی منڈیوںکے لیے پاکستانی بارڈراب مستقل کھول دیے گئے ہیں۔ ہمیں بھارت سے نہایت خوشگوار تعلقات ضرور استوار کرنے چاہیں۔ ہمیں کشمیر اور دوسرے اہم اور پیچیدہ مسئلوں کو حال کرنے کے لیے بھی کوششوں کو پوری سرگرمی سے جاری رکھنا چاہیے۔ بھارتی فوج کی لائن آف کنٹرول پر خلاف ورزیاں 2006ء کے بعد سے مسلسل بڑھے جارہی ہیں۔ صرف 2008ء اور 2012ء میں 148 بار بھارتی فوج نے لائن آف کنڑول پر پاکستانی علاقوں پر بمباری کی۔ ہمیں جانی و مالی نقصان اٹھانا پڑا۔ مودی حکومت کے ساتھ ہم پیار کی پینگیں بڑھائیں۔ پر ہمیں کمزور کردار کا مظاہرہ نہیں کرنا ہوگا۔ ہماری بھارت کے ساتھ پالیسیاں ایسی ہوں جن میں بھارتی اور کشمیری مسلمانوں کے لیے خیرہو۔ ہماری قومی اور ملی اساس کے لیے مضبوطی ہو۔ ہماری بہادر افواج کے لیے سر بلندی ہو۔
شہادتوں کا سفر / ان کا جرم کیا ہے؟
’’علاء الاسوانی‘‘ ہم عصر مصری ادب کا سب سے بڑا نام ہے۔ ان کی تحریروں کے ترجمے اَن گنت زبانوں میں ہو چکے ہیں۔ مصر کی سیاسی اور سماجی حقیقتوں پر ان کی گرفت بہت مضبوط ہے۔ ان کا ایک مشہور ناول ہے۔ اس میں’’ فریڈ رک‘‘ نامی ایک جرمن انجینئرمصر کے طول و عرض میں سفر کرتا ہے۔ وہ شہر میں مصریوں کے ساتھ دوستیاں لگاتا ہے۔ معصوم بچے کے تجسس سے ہر ایک سے سوالات پوچھتا ہے۔ اپنے دورے کے آخر میں وہ یہ رائے دیتا ہے: ’’اس نے دنیا کے بے شمار ملک دیکھے۔ اسے مصر کے سوا کوئی ایسا ملک نہیں ملا۔ جہاں خداداد صلاحیتوں کے مالک لوگ اتنی تعداد میں رہتے ہوں۔‘‘ وہ بڑے تاسف سے کہتا ہے: ’’خدا جانے اتنے اعلیٰ جوہر رکھنے والے مصریوں کو اتنی مشکلات کا سامنا کیوں کرنا پڑ رہا ہے؟‘‘.
آپ مصر کی تاریخ کے جھروکے میں جھانکیے! مصریوں نے پہیہ ایجاد کیا جس کی گردش پر اب دنیا کی تمام ترقی سفر کر رہی ہے۔ انہوں نے بادل لانے اور برسانے والی ٹیکنالوجی کو قبل مسیح میں ہی دریافت کر لیا تھا۔ انہوں نے دریائے نیل کے پانیوں سے بکثرت اناج اُگایا اور ساری ریاعا خوشحال ہو گئی۔ دریائوں کی موجوں کا رخ موڑا۔ سارا مصر لہلہا اٹھا۔ اسکندریہ میں دنیا کی سب سے پرانی دانش گاہ بنائی جہاں فلسفی، دانشور، سائنس دان تعلیم حاصل کرنے دور دراز ملکوں سے آتے تھے۔ ستارہ شناسی کے لیے دور بینیں ایجاد کیں۔ کائنات کی وسعتوں کا پہلی بار احاطہ کیا گیا۔
نعشوں کو حنوط کرنے کے لیے کیمیکل ایجاد ہوئے۔ احرام کی تعمیر کے لیے سینکڑوں ٹن وزنی پتھروں کو بلندی تک لے جانے کے لیے ٹیکنالوجی وجود میں آئی۔ ہزاروں سال قبل ترقی کے بام عروج تک پرواز مصریوں کے سوا کوئی دوسری قوم نہ کر پائی۔
یہی مصربیسویں صد تک آتے آتے زوال کی اتھاہ گہرائیوں کو چھونے لگا۔ 1882ء میں برطانیہ نے مصر پر قبضہ کر لیا۔ 26 جنوری 1952ء تک یہ ملک انگریزوں کی جاگیر رہا۔ اخوان المسلمون نے آزادی، دینی اقدار کے فروغ اور بڑھتی ہوئی یورپی بے حیائی کے تدارک کے لیے تحریکیں چلائیں۔ بدقسمتی سے اس کے بڑے لیڈروں کو قید و بند اور سزائے موت کے مراحل سے گزرنا پڑا۔ جمال عبدالناصر، انور سادت اور حسنی مبارک جیسے آمروں نے مصر میں اسلام پسندوں کے لیے سانس لینا دو بھرکیے رکھا۔ مصر امریکا اور اسرائیل کا پٹھو بنا دیا گیا۔ ملک کی تاریخ میں پہلی بار عام انتخابات 30 جنوری 2012ء کو ہوئے۔ ان میں ڈاکٹر محمد مرسی نے ایک کروڑ 32 لاکھ 30 ہزار 131 ووٹ حاصل کیے۔ یوں اخوان المسلمون پہلی بار مصر کے اقتدار تک جاپہنچی۔
ڈاکٹر مرسی نے ملک میں اسلامی اصلاحات شروع کیں۔ فلسطین پر اسرائیلی مظالم کے لیے آواز اٹھائی۔ حماس کی پشت پناہی کی۔ غزہ کا بارڈر کھولا۔ بھوکے فلسطینیوں کے لیے اَناج مہیاکیا۔ بیماروں کا مصری ہسپتالوں میں مفت علاج کروایا۔ اسلامی ملکوں کے دورے کیے۔ اسلامی ممالک کے ایک بڑے اتحاد کے لیے نہایت دردمندی سے کام شروع کردیا۔ اندرون ملک شراب پر پابندی لگائی۔ باررومز، فحش فلموں اور بے لگام تھیٹر بند کروا دیے۔ بگڑی مصری معیشت کے لیے ٹھوس اقدامات اٹھائے۔ یورپ اور امریکا سے سامان تعیش کی درآمد رکوائی۔
ملٹی نیشنل کمپنیوں اور این جی اوز کے مصر میں گڑے دانت باہر نکالے۔ یورپ کی ننگی معاشرت کے لیے مصر پر دروازے بند کرنا شروع کردیے۔ اخوان المسلمون نے ملک کو ایک اسلامی فلاحی ریاست بنانے کے لیے شبانہ روز کاوشیں جاری رکھیں۔ مصر میں فوج کو سول حکومت کے ماتحت کرنے کے لیے قوانین منظور ہوئے۔ یورپی قوانین کے غلاظت میں لتھڑی ہوئی عدلیہ کے لیے اسلامی فقہ کا مطالعہ لازم قرار دیا۔ غرض ایک برس کی قلیل مدت میں نہایت بدحال معیشت والا مصر دنیاوی اور دنیوی ترقی کی شاہراہ پر منزلیں مارنے لگا۔
٭ 28 اپریل کو اخوان المسلمون کے سربراہ محمد بدیع سمیت 683 حامیوں کو سزائے موت سنادی گئی۔ ٭ جنرل سیسی نے اقتدار ملنے کے بعد اخوان المسلمون کا مکمل صفایا کرنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ اخوان المسلمون کا مکمل صفایا جمال عبدالناصر انور سادات اور حسنی مبارک نہیں کر پائے، جنرل سیسی بھی اس مشن میں مکمل طور پر ناکام ہوگا۔ ٭ جن رگوں میں، جن نسوں میں، جن شریانوں میں ایمان لہو بن کر دوڑتا ہو ان کو پھانسی گھاٹوں پہ لٹکے پھندے مار نہیں سکتے، بلکہ سولیاں انہیں نئی زندگی دیتی ہیں۔ ٭
3جولائی 2013ء کو مصری فوج نے حکومت کا تختہ الٹ دیا۔ جنرل سیسی نے یہ اقدام امریکا اور اسرائیل کے ایما پر کیا۔ اس کے لیے گراونڈ تیار کیا گیا۔ امریکی سفیر این پیٹرسن مسلسل سر گرم رہی۔ چند ہزار لادین مصریوں کو التحریر اسکوائر میں جمع کیا گیا۔ یوں پہلی منتخب حکومت کو اٹھا کر کوڑے دان میں پھینک دیا گیا۔ مصرمیں کشیدگی ابل پڑی۔ اخوان المسلمون کے نہتے کارکنوں پر ٹینک چڑھا دیے گئے۔ ان پر سیدھی گولیاں ماری گئیں۔ رابعہ العدویہ کی مسجدکے گرد لاشوں کے انبار لگادیے گئے۔ ہسپتالوں میں زخمی مظاہرین کو قتل کیا گیا۔ اخوان المسلمون کے 5 ہزار سے زائد کارکن شہید ہوگئے۔ 18 ہزار جیلوں میں بند کردیے گئے۔ چند ماہ قبل مصر 30 بلین ڈالر کا مقروض تھا۔ اب یہ قرضے 40 بلین ڈالر تک جا پہنچے ہیں۔ سعودی عرب اور قطر کو 6 بلین ڈالرز کے بانڈ بیچے گئے، جبکہ 4 بلین ڈالرز کے بانڈز ترکی اور لیبیا کو فروخت کیے گئے۔ زرمبادلہ کے ذخائر اس کے باوجود مسلسل گرتے گئے۔ ڈاکٹر مرسی کی حکومت میں یہ 32 ارب ڈالرز تھے جو اب آدھے ہو کر 16 ارب ڈالر تک آگئے ہیں۔
مصری معیشت جو اخوان المسلمون کی حکومت میں آکاس بیلوں سے نجات پا کر پھل پھول رہی تھی۔ ہرے ہرے پات اور شریں ثمر پیدا کرنا شروع ہو گئی تھی۔ اب اجاڑ ٹنڈ منڈ اور سوکھ اور سوکھے کا شکار ہو چکی ہے۔ افراط زر 3فیصد سے بڑھ کر 13سے 18 فیصد ہو گیا ہے۔ امریکا نے جنرل سیسی سے خوش ہو کر مصر کو 1.3 بلین ڈالر فوجی امداد دی ہے۔ اقتصادی شعبے میں امریکی 250 ملین ڈالر دے رہے ہیں۔ اس کے باوجود 8 کروڑ کی آبادی میں سے 4 کروڑ سے زائد مصری 2 ڈالر فی کس آمدنی کی وجہ سے خط غربت سے نیچے چلے گئے ہیں۔ اشیائے خورد نوش کی قیمتوں میں 3 گنا اضافہ ہوا ہے۔ ٹرانسپورٹ کرائے 2 گنا بڑھ گئے ہیں۔ ڈاکٹر مرسی نے مصری ہسپتالوں میں نہایت سستے علاج اور مفت ادویات کی اسکیم متعارف کروائی تھی۔ اب یہ واپس لے لی گئی ہے۔
ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ کے مطابق اب 70 فیصد مصری اسپتالوں میں شدید بدنظمی کی وجہ سے ڈاکٹروں کی بروقت دستیابی اور دوائوں کا حصول نا ممکن ہو چکا ہے۔ ڈاکٹر مرسی نے نہایت قلیل فیس پر اسکولوں کے دروازے تمام غریب غربا کے بچوں کے لیے کھول دیے تھے۔ اب 38 فیصد طالب علم فیسوں میں 41 فیصد اضافے کے بعد اسکول چھوڑ چکے ہیں۔ ان کے والدین ان کی تعلیمی ضروریات پوری کرنے سے قاصر ہیں۔ پچھلی حکومت نے مصر میں اسٹریٹ کرائمز پر فوری توجہ دی۔ پولیس کو فعال بنایا۔ اخوان المسلمون کے کارکنوں نے گلی، محلے، قصبے اور شہر کی سطح پر جرائم پر کڑی نظر رکھی۔ ایک سال کی مدت میں مصر میں ڈاکہ زنی، چوری اور لوٹ مار کی شرح میں 72 فیصد کمی آئی۔ اسلامی بھائی چارے کی خوش منظر فضا میں قتلوں میں 64 فیصد کمی ہوگئی۔ ریپ کے واقعات میں 67 فیصد کمی دیکھنے میں آئی۔ نئی حکومت آنے سے پہلے ہی التحریر اسکوائر میں سینکڑوں عورتیں بدمعاش مغربی رنگ میں رنگے عیاشیوں کے ہاتھوں لٹ گئیں۔ چوری ڈکیتی پچھلے 10 ماہ میں 34 فیصد بڑھ چکی ہے۔ قتل کی وارداتیں 28 فیصد اوپر چلی گئیںہیں۔ پبلک پراپرٹی اور دکانوں پر لوٹ مار کے واقعات 22 فیصد تک بڑھ گئے ہیں۔ بھوک، لاچاری اور بے راہروی مصر میں اپنا ننگا ناچ دکھا رہی ہے۔ اخوان المسلمون کے کارکنوں کا 80 فیصد سے زائد کاروبار بند کیا جاچکا ہے۔ انہیں فاقوں مارنے کے لیے ہر روز نئی اسکیمیں متعارف کروائی جارہی ہیں۔ شراب خانوں، طوائفوں کے اڈوں، ننگاناچ دکھانے والے تھیڑوں اور فحش فلمیں عام کرنے والے سینمائوں کو 100 فیصد تک کھول دیا گیا ہے۔ مسجدوں میں داخلہ محدود کردیا گیا ہے۔ خفیہ ایجنسیاں ماتھے کے ہر محراب میں کسی سازش کا نشان پانے کے لیے ہر دم چوکس رہتی ہیں۔
مصری عدلیہ کا بھیانک چہرہ اس سارے پس منظر میں ایک نہایت ڈراونے خواب کی تعبیر کی طرح سامنے آگیا ہے۔ اس نے اپنا قانون ’’Jedburgh Justice‘‘ کو قرار دیا ہے۔ ’’جیڈ برگ‘‘ ایک بدنام زمانہ جج تھا جو کسی بھی ملزم کو پہلے پھانسی دیتا پھر اس پر عائد جرم کی سماعت کرتا۔ 24 اپریل کو ایسے ہی ایک جج نے چند ساعتوں میں اخوان المسلمون کے 529 حامیوں کو سزائے موت سنا دی۔ الزام یہ تھا انہوں نے ایک پولیس افسر کو قتل کیا۔ 26 اپریل کو ڈاکٹر مرسی کے 11 حامیوں کو 88 سال قید با مشقت کی سزاسنائی گئی۔ 28 اپریل کو اخوان المسلمون کے سربراہ محمد بدیع سمیت 683 حامیوں کو سزائے موت سنادی گئی۔ ان پر مظاہرے اورسیکورٹی فورسز کے ساتھ لڑائی کرنے کے الزامات تھے۔ انصاف کی مسند پر بیٹھ کر ایسے فیصلے گھنٹے بھر کی سماعت پر سنا دینا ان ججوں کو تاریخ میں ایک انمٹ مقام دیا گیا ہے۔
یہ اس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اُمتی ہیں جنہوں نے عدل و انصاف کی بجاآوری میں گزارے ایک گھنٹے کو 80 سال کی عبادت سے افضل قرار دیا۔ ایسے شرمناک فیصلے ایک اسلامی ملک کی عدالتوں سے نکل کر دنیا بھر میں باز گشت پیدا کررہے ہیں۔ جج یہ ثابت کرتے ہیں کہ اسلام کے باطنی نور سے محروم یہ تیرہ وتار کردار کے مالک لوگ ہیں۔ جس مغرب کے بے نور سویروں کی یہ پرستش کرتے ہیں وہ بھی اپنی خاکستر میں ایسی چنگاری دیکھ کر انگشت بدنداں ہے۔ برسلز میں یورپی یونین کے نمایندے نے اسے A glaring travesty of justice قانون کا شرمناک مذاق قرار دیا ہے۔ جان کیری جیسا متعصب امریکی بھی اسے عقل و فہم سے بلند کوئی شے کہہ رہا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائیٹس واچ نے اسے قانون وانصاف کے ساتھ ایک بے ہودہ کھلوڑا قرار دیا ہے۔ سب سے دلچسپ تبصرہ واشنگٹن پوسٹ نے کیا۔ اس نے ہیڈلائن لگائی: ’’مصری بندروں کے ہاتھ میں قانون کا استرا۔‘‘
دوسری طرف جنرل سیسی اس ماہ کی 26، 27 تاریخ کو ہونے والے نام نہاد انتخابات کی مہم چلانے کے لیے اپنی کیمپین گاہ سے نکل آیا ہے۔ اس نے اقتدار ملنے کے بعد اخوان المسلمون کا مکمل صفایا کرنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ امریکا اور اسرائیل نے اس کی حمایت کرنے اور جتوانے کے لیے سازشیں شروع کردی ہیں۔ مصر میں اخوان المسلمون، فلسطین میں حماس اور الجزائر میں اسلامک فرنٹ کی کہانیاں ایک جیسی ہیں، جب بھی اسلام کے نام پر اقتدار میں آئے انہیں مغرب نواز طاقتوں نے چلتا کر دیا۔ بڑے اسلامی ملک لاتعلقی کی بکل مارے سکون سے بیٹھے رہے۔ اسلامی دنیا کے بادشاہ، صدر، وزیراعظم، اور او آئی سی عرب لیگ سب کا کردار ایمان کے گداز، ہمدردی کی گرم جوشی سے محروم رہا۔ جنرل سیسی جیسے غداروں نے اقتدار پر نقب لگائی۔ اس کے خلاف مسلم دنیا نے کوئی اقدام نہ اٹھایا۔
اخوان المسلمون کا مکمل صفایا جمال عبدالناصر انور سادات اور حسنی مبارک نہیں کر پائے، جنرل سیسی بھی اس مشن میں مکمل طور پر ناکام ہوگا۔ حق باطل کے ہاتھوں کبھی نہیں مٹ سکتا۔ اندھیرا کتنا بھی گہرا کیوں نہ ہو سورج آخر نکل ہی آتا ہے۔ ظلم کتنا بھی حد سے بڑھ جائے وہ مظلوموں کی آہوں کو ہرش ہلا دینے سے روک نہیں سکتا۔ جنرل سیسی اس کے سدھائے ہوئے جج، اس کی خفیہ ایجنسیاں امریکا اور اسرائیل اخوان المسلمون کو جتنا دبائیں گے وہ اتنا ہی اُبھرے گی۔ جن رگوں میں، جن نسوں میں، جن شریانوں میں ایمان لہو بن کر دوڑتا ہو ان کو پھانسی گھاٹوں پہ لٹکے پھندے مار نہیں سکتے، بلکہ سولیاں انہیں نئی زندگی دیتی ہیں، بے رحم جلادوںکو تاریخ میں گمنامی ملتی ہے، شہیدوں کے لہو سے روشن مستقبل کاشت ہوتے ہیں۔ حسن البنا کا قافلہ بگولوں کی زد میں سہی، ریت کا یہ طوفان بیٹھ جائے گا، قافلہ دوبارہ منزل کی طرف روانہ ہو جائے گا۔
یوکرائن کے مسئلے پر روس امریکا تنازع
’’وکٹریا نو کووچ‘‘ یوکرائن کے سابق صدر تھے۔ انہوں نے نومبر 2013ء میں یورپی یونین کے ساتھ ایک Arsociation Agreement کرنا تھا۔ ان کی ساری پالیسیاں رُوس نوازرہی تھیں۔ جیسے ہی انہوں نے روس کے دبائو پر یہ معاہدہ مؤخر کیا تو ملک میں خانہ جنگی شروع ہوگئی۔ ملک دو واضح گروپوں میں تقسیم ہو گیا۔ ایک گروہ روس کی بجائے یورپین یونین کا حامی تھا۔ دوسرا روس کی طرف واضح جھکائو رکھتا تھا۔ اس خانہ جنگی نے زور پکڑا۔سرکاری عمارتوں کو آگ لگائی جانے لگی۔ مظاہرین پر سیدھی گولیاں ماری جانے لگیں۔ ’’وکٹریا نو کووچ‘‘ یوکرائن سے فرار ہو کر روس چلے گئے۔ روس نے موقع سے فائدہ اٹھایا۔ مشرقی یوکرائن کے ایک صوبے کریمیا پر قبضہ کر لیا۔ اس نے 16 مارچ کو وہاں ریفرنڈم کروایا۔ اپنے حق میں ووٹ کاسٹ کروائے۔ صوبے کا کلی کنٹرول اپنے ہاتھ میں لے لیا۔
امریکا اور یورپ حرکت میں آئے۔ انہوں نے روس کو G-8 ممالک سے نکال دیا۔ فوجی تعاون کو منقطع کردیا گیا۔ تجارتی منصوبے کٹھائی میں پڑگئے۔ روس نے ہر دبائو کا بھرپورجواب دیا۔ سارے مذاکرات ناکام ہو گئے۔ جنیوا میں ہونے والی گفت و شنید سے بھی کوئی مثبت پیش رفت ہونے کی اُمید کم ہے۔ اوباما نے باور کر وایا ہے: ’’چھوٹی قوموں کی قسمت کا فیصلہ بڑے ملکوں کے ہاتھ میں نہیں ہونا چاہیے‘‘۔ ٹونی بلیر دُور کی کوڑی لایا ہے۔ اس نے یوکرائن کے مسئلے پر خاک ڈالنے اور مسلمان ’’دہشت گردوں‘‘ کی گو شمالی کرنے کا فرمان جاری کیا ہے۔ روس مگرمچھ کی طرح ایک خود مختار ملک کے ایک بڑے حصے کو ہضم کر گیا ہے۔ کوئی اس کا بال بیکا نہیں کر سکا۔ روس یوکرائن تنازعے اور یورپ امریکا کے اس بارے میں ردّعمل کے لیے ہمیں روس کی تاریخ کے جھروکے میں جھانکنا ہو گا۔ یہ گمنام ملک کس طرح دنیا کی ایک سپر پاور بنا۔ اس کے عروج، زوال اور پھر عروج کے پیچھے کون کون سے عوامل کار فرما ہیں؟
’’پیٹر دی گریٹ‘‘ روس کا سب سے بڑا بادشاہ تسلیم کیا جاتا ہے۔ وہ 1671ء میں پیدا ہوا۔ 1725ء میں فوت ہوا۔ اُس نے چھوٹی چھوٹی رُوسی ریاستوں کو باہم جوڑا اور ایک بڑا ملک بنادیا۔ اس کے دور میں آرتھوڈ وکس عیسائیت نے روس کے طول و عرض میں فروغ پایا۔ گرجے تعمیر ہوئے۔ لوگ کیتھولک ازم کے زیر اثر آگئے۔ روس کی بڑھتی فوجی طاقت نے یورپ کو اس کے قریب کردیا۔ خلافتِ عثمانیہ کے خلاف یہ ایک ہو گئے۔ لگ بھگ سو سال تک ترکوں کے خلاف جنگوں میں مشغول رہے۔ روسیوں کے منہ کو انسانی خون لگا تو شکار کرنے یورپ میںجا اُترے۔ انیسویں صدی کے آغاز میں انہوں نے پولینڈ پر قبضہ کرلیا۔ یہ وقت فرانسیسی جرنیل نپولین بوناپارٹ کے عروج کا تھا۔ اس نے روس پر لشکر کشی کی شکست کھائی۔ یوں روس کے حوصلے مزید بلند ہوگئے۔ اس نے قرب و جوار کی چھوٹی بڑی ریاستیں ہڑپ کرنا شروع کر دیں۔ مسلم اکثریت رکھنے والے کئی شہر ملک اس کے زیر نگیں آگئے۔ اس نے یوکرائن پر قبضہ کرلیا۔ اس وقت برطانیہ اپنے عروج کو چھو رہا تھا۔ برطانیہ اور اتحادیوں نے یوکرائن کے اسی علاقے کریمیا میں ایک جنگ لڑی۔ بھاری جانی و مالی نقصان اٹھایا۔
امریکا اور یورپ اس لیے آبدیدہ ہیں کہ یورپ کو گیس مہیا کرنے والی پائپ لائنیں وہاں سے گزرتی ہیں۔بیشتر تجارت کے لیے بندر گاہیں یوکرائن میں ہیں۔
جب بیسویں صدی کا پہلا سورج طلوع ہوا تو برطانوی سلطنت کا سورج غروب نہ ہوتا تھا۔ امریکا اور روس تیزی سے ترقی کرکے مضبوط ہوئے جارہے تھے۔ پہلی جنگ عظیم نے یورپ میں بربادی کا ایک سیلاب برپا کر دیا۔ دوسری جنگ عظیم نے متعدد یورپی ملکوں کو اپاہج بنا دیا۔ برطانیہ کا عروج تیزی سے زوال کا شکار ہوا۔ امریکا اور روس دنیا کی دو سب سے بڑی طاقتیںبن کر سامنے آگئے۔ روس سوویت یونین کہلانے لگا۔ سی آئی اے اور کے جی بی نے سرد جنگ کو ہوادی۔ دنیا دو گروپوں میں تقسیم ہو گی۔ یہ کمیونزم کی کامیابیوں کا دور تھا۔ مشرقی یورپ روس کے قبضے میں تھا۔ 1991ء میں سوویت یونین ٹوٹا ریاستیں خود مختار ہو گئیں۔ سوویت یونین سمٹ کر روس رہ گیا۔ روس بدترین معاشی گرداب میں پھنس چکا تھا۔ ’’گوربا چوف‘‘ کے بعد ’’بوریلسن‘‘ بھی ملک کو اس بھنور سے نہ نکال پایا۔ 2001ء ’’ولادی میئر پوٹن‘‘ نے اقتدار سنبھالا۔اس نے روس کی تعمیر و ترقی میں بڑا رول پلے کیا۔ اس وقت روس رقبے کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے۔ اس کے پاس قدرتی گیس کے ذخیرے کسی بھی ملک کی نسبت زیادہ ہیں۔ اس کے پاس ایٹمی ہتھیار امریکا سے بھی زیادہ ہیں۔ کوئلے کی کانوں میں اس کا دنیا میں دوسرا نمبر ہے۔ یورنیم جیسی قیمتی دھات میں تیسرا، بجلی کی پیداوار میں چوتھا، لوہے کی کانوں میں اور فوجی قوت میں پانچواں، (باقی صفحہ5پر)
ڈالر کی ذخیرہ میں 515 ارب ڈالر کے ساتھ چھٹا، معیشت کی مضبوطی کے لحاظ سے ساتواں، تیل کے ذخائر اور افرادی قوت میں آٹھواں نمبر ہے۔ اس کی آبادی 14 کروڑ 35 لاکھ ہے۔ یورپ اپنا 30 فیصد پیٹرول، 25 فیصد گیس اور 20 فیصد کوئلہ اس سے خریدتا ہے۔ روس اپنا مال ہالینڈکو 14 فیصد، چین کو 6.4 فیصد، اٹلی کو 5.3 فیصد، جرمنی کو 4.5 فیصد، بیلارس کو 4 فیصد، پولینڈکو 3.7 فیصد، ترکی کو3 فیصد بیچتا ہے۔ درآمدات کی مد میں یہ چین سے 17 فیصد، جرمنی سے 12.2 فیصد، یوکرائن سے 5.7 فیصد، جاپان سے 5 فیصد اور امریکا سے 4.9 فیصد مال منگواتا ہے۔
روس نے قریبی ملکوں سے روابط بڑھانے شروع کردیے ہیں۔ اس نے چین کو قدرتی گیس مہیا کرنے کے لیے ایک پائپ لائن کی تنصیب پر کام شروع کر رکھا ہے۔ یہ 2018ء تک فعال ہو جائے گی۔ یوں روس چین کو 38 ارب کیوبک میٹرگیس مہیا کرے گا۔ روس نے افغانستان سے تعلقات کا ایک بالکل نیا باب شروع کیاہے۔ یوں اس نے افغانستان میں اپنا اثر روسوخ بڑھانا شروع کردیا ہے۔ ہندوستان کے ساتھ تعلقات جو پہلے مضبوط تھے، اب مضبوط تر کیے جارہے ہیں۔ پاکستان میں اس سال جون میں ایک ریشین ایکسپو کی جا رہی ہے۔ رُوسی صری آرمی چیف نے روس کا دورہ کیا ہے۔ 3 کروڑ ڈالر مالیت کے ہتھیاروں کا سودا طے پایا ہے۔ روس پہلے ہی عراق کو 4 کروڑ ڈالر کے ہتھیار بیچ چکا ہے۔ شام کے بشاراالاسد کے ساتھ روسی حکومت کی گہری دوستی اور لین دین صاف عیاں ہے۔ روس، جاپان، جنوبی کوریا، انڈونیشیا اور دوسرے ملکوں کے ساتھ روابط بڑھا رہا ہے۔ روس نے اپنی علیحدہ ہونے والی ریاستوں کا ایک اتحاد ’’Eurasian Customs Union‘‘ کے نام سے کھڑا کیا ہے۔ اپنی دولت کی چکا چوند دنیا کو دکھانے کے لیے اس نے حال ہی میں سوچی سرمائی اولمپکس منعقد کروائے۔ اس اسپورٹس ٹورنامنٹ پر روس نے 51 ارب ڈالر خرچ کیے۔ اس نے اس موقع پر کئی بااثر ملکوں کے سربراہان کو خصوصی طور پر مہمان بنایا۔ پیوٹن نے ان کا شاندار استقبال کیا۔ ایک اسپورٹس میلا روس کے بین الاقوامی تعلقات میں ایک نئے دور کا آغاز ثابت ہوا۔
یوکرائن کے لیے امریکا اور یورپ اس لیے آبدیدہ ہیں کہ یورپ کو گیس مہیا کرنے والی پائپ لائنیں وہاں سے گزرتی ہیں۔ بحر اَسود کے ذریعے ہونے والی بیشتر تجارت کے لیے بندر گاہیں یوکرائن میں ہیں۔ یوکرائن پر کنٹرول یورپ اورا مریکا کے لیے عرصۂ دراز سے بہت اہمیت کا حامل رہا ہے۔ یورپ نے امریکی شہ پر اس ملک پر نواز شات کی بارشیں کیے رکھیں۔ بلا شرائط قرضے دیے جاتے رہے۔ انفرااسٹرکچر کی تعمیرات کے لیے یورپی کمپنیاں ہر دم متحرک رہیں۔ ان کا مفاد اس میں تھا کہ یوکرائن روس کے دائرہ اثر سے مکمل طور پر نکل آئے۔ روس نے تازہ صورت حال میں لوہا گرم دیکھتے ہوئے چوٹ لگائی۔ یوکرائن پر یورپی اثرورسوخ کا دھارا واپس پلٹ گیا۔ امریکا کے سیکرٹری خارجہ جان کیری مسلسل یوکرائن کے دورے کرتا رہا۔ وہاں کی بے بس حکومت کو حملے کے لیے شہ دیتا ہے۔
مبصرین کی جچی تلی رائے ہے کہ روس دوبارہ ایک بہت بڑی عالمی طاقت بن رہا ہے۔ امریکا کے مقابلے میں روس ترقی کیے جارہا ہے۔ جبکہ امریکا پچھلے چار پانچ سالوں میں اقتصادی طور پر پسپا ہوئے جارہا ہے۔ اب تک وہ 18 ہزار ارب ڈالر قرض لے چکا ہے۔ قرضے کا یہ انبار ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھ رہا ہے۔ وال اسٹریٹ جرنل کے مطابق امریکا روزانہ کے حساب سے 2.65 ارب ڈالر کا مقروض ہو رہا ہے۔ امریکی مارکیٹ میں ہر ماہ 6 لاکھ افراد بے روزگاری کا شکار ہو رہے ہیں۔ امریکی اسٹیٹ ماہانہ 85 ارب ڈالر کے نئے نوٹ چھاپ رہا ہے۔ اس کے باوجود قومی خسارہ 1700 ارب ڈالر سے زیادہ ہو گیا ہے۔ امریکی معیشت کی زبوں حالی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 75 فیصد امریکی اپنی ریگولر ملازمت کے علاوہ پارٹ ٹائم جاب بھی کر رہے ہیں۔ اس کے باوجود عام امریکی خاندان کی آمدنی میں 4.2 فیصد ماہانہ کے حساب سے کمی ہو رہی ہے۔ قوانین کی تبدیلی سے ہر دوسرا مریکی پنشن کا حق کھو بیٹھا ہے۔ اس بے یقینی کی صورت حال نے امریکی ریاستوں کو دست و گریبان کرنا شروع کردیا ہے۔ امریکی کانگرس کی کارروائی ایک مچھلی منڈی کا سا منظر پیش کرتی ہے۔ جیسے ہی اجلاس شروع ہوتا ہے۔ گرانٹوں پر جھگڑا اور توتکار شروع ہوجاتی ہے۔ ہر ریاست اپنے شہریوں کے لیے زیادہ سے زیادہ گرانٹ کی متقاضی ہوتی ہے۔ یوں یہ ریاستی نمایندے اپنے اپنے حلقۂ انتخاب میں عوام کو منہ دکھانے کے لیے چیختے چلاتے ہیں۔ ہاہا کا ر مچاتے ہیں۔ انہوں نے 87 ہزار امریکی فوجیوں کے لیے2014ء کے امداد بند کرنے کا اعلان کیا ہے۔ یہ وہ فوجی ہیں جو امریکی جھنڈا اٹھائے مسلمان ملکوں میں غارت گری کرتے رہے ہیں۔ زمیں بوس ہوتا ہوا امریکا اب دنیا بھر میں ذلیل و خوار ہو کر واپس جا رہا ہے۔
امریکی عالمی تنہائی کا یہ عالم ہے کہ اکثر بڑے یورپی ملکوں نے درپردہ روس کے ساتھ تعلقات رکھے ہوئے ہیں۔ وہ بظاہر یوکرائن کے مسئلے پر شور مچا رہے ہیں۔ انہیں پورا احساس ہے اگر روس کے ساتھ ان کے روابط بالکل ختم ہو گئے تو وہ سستی گیس، پیٹرول، ڈیزل اور دوسری درآمدات سے محروم ہوجائیں گے۔ وہ کریمیا کو ہڑپ کر جانے پر روس کے ساتھ بگاڑنے پر راضی نہیں۔ خصوصاً جرمنی روس پر بھاری انحصار کی وجہ سے ہٹ کر ایک طرف ہوگیا ہے۔ امریکی جو عالمی شطرنج کے ماہر تھے اب شہ مات کھا رہے ہیں۔ نیٹو ممالک پہلے ہی اس کے جنگی جنون کی وجہ سے الگ ہو گئے تھے۔ یوں روس جو پندرہ بیس سال قبل ایک تباہ حال ملک تھا۔ اب دوبارہ خم ٹھونک کر میدان میں آگیا ہے۔ اگر ہم امریکا اور روس کی تاریخ کا بغور مطالعہ کریں تو ہمیں احساس ہوگا، ان ملکوں کی بے پناہ ترقی نے انہیں زبردست تنزلی کا شکار بھی کردیا۔ ان کی تعمیر میں ہی خرابی کی وہ صورت نظر آتی ہے جو رنگ بدل بدل کر سامنے آجاتی ہے۔
روس کے مشہور کہانی کار ’’ٹائسٹائی‘‘ نے ایک کہانی لکھی تھی ’’دست ابلیس کے عنوان‘‘۔ یہ دو تین صفحوں پر مشتمل ہے۔ یہ نہ صرف روس بلکہ امریکا کی مجموعی صورت حال پر بھی پوری اترتی ہے: ’’کسی روسی گائوں میں ایک کاشتکار رہائش پذیر تھا۔ وہ سخت محنت کرتا، ہل چلاتا، بیچ بوتا اور فصل پکنے پر اپنا گزارہ کرتا تھا۔ ایک دن شیطان اور اس کا چیلا اس کے پاس سے گزرے۔ شیطان نے چیلے کو یہ ذمہ داری سونپی اس کاشتکار کے دل میں یہ لالچ ڈالو وہ ملحقہ زمینیں ہتھیالے۔ چیلاحیران ہوا۔ اعتراض کیا اس طرح تو یہ خوش حال ہوجائے گا۔ شیطان نے کہا ’’تم نہیں جانتے کیا ہوگا؟‘‘ سو کاشتکار زمینیںہتھیانے لگا۔ اس کی فصلوں میں اتنا اضافہ ہوا وہ بہت بڑا زمیندار بن گیا۔ فارغ البالی نے اسے شراب کی طرف راغب کیا۔ وہ ہر وقت نشے میں دھت رہتا۔ ایک رات وہ شراب میں دھت ہو کر گھر جارہا تھا کہ ایک نالی میں منہ کے بل جا گرا۔ شیطان اوراس کاچیلا وہاں سے گزرے۔ شیطان نے اسے رمز کی یہ بات سمجھائی کہ بے پناہ دولت مندی نے اس سے ہل چھین لیا۔ اسے غلاظت میں گرا دیا۔‘‘ امریکا ہو یا روس ان کی مادّی ترقی ہی ان کی بربادی کا پیش خیمہ بن جاتی ہے۔ ہوس کے غباروں میں زیادہ ہوا بھرنے کا انجام غبارے کے پھٹ جانے کی صورت نکلتا ہے۔
غریب عوام، عیاش حکمران
کچھ عرصہ قبل ایک صاحب نیوزی لینڈ گئے۔ وہاں لارڈ میئر آف آک لینڈ نے ان کے اعزاز میں ایک بڑا عشائیہ دیا۔ اس میں نیوزی لینڈ کی معروف شخصیات اور اہلِ دل پاکستانیوں کی ایک کثیر تعداد نے شرکت کی۔ نیوزی لینڈ کے سابق وزیراعظم ڈیوڈلینگ بھی شرکا میں شریک تھے۔ کھانے کا آغاز ہوا تو حاضرین آپس میں گھل مل گئے۔ نیوزی لینڈ کے سابق وزیراعظم نے اس کو بتایا ان کے ملک کی اسٹیل مل صنعت میں پاکستانی حکمرانوں اور سرمایہ داروں نے 50 فیصد انوسٹمنٹ کر رکھی ہے۔ اس سرمائے کی وجہ سے نیوزی لینڈ کی اس صنعت نے بہت ترقی پائی ہے۔ لوگوں کو روزگار ملا ہے۔ ملک کے جی ڈی پی میں بہت اضافہ ہوا ہے۔ یہ شخصیت اس انکشاف پر ششد رہ گئی۔ وہاں موجود ایک پاکستانی نے انہیں بتایا سوئٹزرلینڈ کے 13 بینکوں میں ایک سو ارب ڈالر پاکستانیوں نے انویسٹ کر رکھے ہیں۔ اس محفل میں موجود پاکستانی تارکینِ وطن نے انکشافات کا ڈھیر لگانا شروع کردیا۔ اس نے نہایت دلگیری سے لکھا ہے کہ پاکستان کا حکمران اور سرمایہ دار طبقہ کس درجہ بے حس ہے۔ وہ اپنے ملک کے غریبوں اور مسکینوں کا مال ہتھیا کر غیرملکیوں کی رَگوں میں دوڑا رہا ہے۔ انہیں طاقت ور اور توانا بنا رہا ہے۔ خود یہ طبقہ ہمیں جمہوریت کے ثمرات پر کس کس طرح قائل کرتے ہوئے نہیں تھکتا؟ یہ عوام سے قربا نیاں مانگتا اور خود دولت کی زنبیل بھر کر بیرونِ ملک سرمایہ کاری کرتا پھرتا ہے۔
٭ اگر ہمارے حکمران آنے والے بجٹ میں صرف یہی ایک اقدام اٹھالیں تو مہنگائی کے غبارے سے کافی ہوا نکل سکتی ہے۔ ٭ اگر سارے ملک میں ایک ہی پالیسی متعارف ہو اور سرکار اس کی خلاف ورزی پر فوراً حرکت میںآئے تو عوام کا اس میں بہت بھلا ہو گا۔ ٭ مہنگائی کی سب سے بڑی وجہ 17 فیصد جنرل سیلز ٹیکس ہے۔ یہ ٹیکس کسی بھی چیز کی تیاری کے ہر مرحلے پر استعمال ہونے والی ہر شے پر الگ الگ لگتا ہے۔ ٭
چند ماہ قبل ایف بی آر نے ایک ٹیکس ڈائریکٹری شائع کی تھی۔ اس میں ہمارے قومی، صوبائی اسمبلیوں سینٹ اراکین، حکمرانوں، سیاست دانوں کے انکم ٹیکس کی رُوداد بیان کی گئی تھی۔
اس میں پوری تفصیل کے ساتھ لکھا تھا اس دولت مند کلاس نے کتنا کم اور مضحکہ خیز ٹیکس ادا کیا ہے۔ ان کے علاوہ ہمارے سرمایہ داروں اور بڑے تاجروں کا رویہ بھی سخت غیرتسلی بخش ہے۔ اس کلاس نے مسلم لیگ ن کی الیکشن کیمپین میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا۔ دونوں کے آپس میں وعدے و عید ہوئے تھے۔ حکومت نے آنے کے بعد ٹیکس جی ڈی پی 15 فیصد تک لے جانے کے دعویٰ کیے۔ سرمایہ داروں کے مفادات پر زد پڑی۔ انہوں نے شٹرڈائون کی دھمکی دی۔ 23 ستمبر کو وزیر خزانہ نے ان کے مطالبات مان لیے۔ وزیراعظم نے ایک ٹیکس ایمنسٹی اسکیم متعارف کروائی۔ 21 مارچ تک صرف 3 ہزار تاجروں نے اس میں 88 ملین روپے جمع کروائے۔ اب اس اسکیم کا دورانیہ 28 فروری سے بڑھا کر 30 اپریل کردیا گیا ہے۔ ایف بی آر کے مطابق قومی خزانے میں ہمارے تاجروں اور سرمایہ داروں کا جمع کردہ ٹیکس 0.5 فیصد ہے۔ یوں صورت حال یہ بنی کہ ہمارا جاگیر دار ٹیکس سے مبرا ایک مخلوق ہے۔ ہمارے سیاست دان ٹیکس چور ہیں۔ ہمارا سرمایہ دار قلیل ترین ٹیکس دینے والا طبقہ ہے۔ حکومت کھانے پینے کی اشیاء بجلی، گیس، پیٹرول، ڈیزل مہنگا کر کے اپنا خزانہ بھرتی اور آئی ایم ایف ورلڈ بینک کے سود ادا کرتی ہے۔ اس کے باوجود آئی ایم ایف کے سربراہ جیفری فرینکس نے پاکستان کو آڑے ہاتھوں لیا ہے۔ مجبور پاکستانیوں کو مزید شکنجوں میں کَس کر ان کے لہو کی آخری بوندیں نچوڑ لینے کا اعلیٰ فریضہ حکومت کو سونپ دیا ہے۔ آئی ایم ایف اپنے غیرملکی مشیرپاکستان میں مقرر کرتا رہتا ہے، جو اعلیٰ مراعات اور بھاری تنخواہیں قومی خزانے سے لیتے اور مسلسل نئی اسکیمیں حکومت کو بتاتے رہتے ہیں۔ یہ وہ جلاد ہیں۔ جن کے ہاتھوں میں ننگی تلواریں ہیں۔ جن کے دل میں عام مفلوک الحال پاکستانیوں کے لیے کوئی ہمدردی نہیں ہے۔
ڈالر کے مقابلے میں روپے کی پوزیشن مستحکم ہونے سے عوام کی زندگی میں سُکھ کی ذرا برابر بھی چھائوں نہیں آئی۔ اب حکومت فرما رہی ہے ڈالر کو دوبارہ مضبوط کرنا ہو گا ورنہ برآمدات رُک جائیں گی۔ اب ساری توانائیاں اس نقطے پر مرکوز ہیں کہیں ڈالر 98 روپے سے کم نہ ہو جائے۔ دوسری طرف اسٹیٹ بینک نے ایک رپورٹ شائع کی ہے۔ ہمارا تجارتی خسارہ رواں مالی سال کے 9 ماہ کے دوران 16 ارب 96 کروڑ ڈالر ہوگیا ہے۔ گزشتہ حکومت کو ایک ارب 25 کروڑ 50 لاکھ ڈالر کرنٹ اکائونٹ خسارے اور 14 ارب 92 کروڑ 60 لاکھ ڈالرتجارتی خسارے کا سامنا تھا۔ یوں جو خسارہ پچھلے سال جی ڈی پی کا 0.71 تھا، اب 1.2 فیصد تک آگیا ہے۔
واشنگٹن میں امریکی انسٹیٹیوٹ آف پیس میں خطاب کرتے ہوئے ہمارے وزیر خزانہ نے عالمی منڈی میں 2 ارب ڈالر کے یورو بانڈز کا اجرا کیا ہے۔ حکومت بیرونی سرمایہ کاروں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کے لیے مائل کرنے کی کوششوں میں ہے۔ ہم نہیں جانتے اُجاڑ باغوں کی سیر کرنے کو کوئی نہیں آتا۔ ہمیں پہلے باغ میں سے جھاڑ جھنکار صاف کرنا چاہیے۔ باڑوں کی قطع و برید کرنی چاہیے۔ درختوں کی بے ہنگم شاخوں کو کترنا چاہیے۔ پھولوں کی روشوں میں پانی ڈالنا چاہیے۔ تب ہم اس قابل ہوں گے ہم باغ کے پھاٹک بیرونی سیاحوں کے لیے کھول دیں۔ ابھی صورت حال یہ ہے موسمِ گرما کے آغاز پر ہی ہمارا بجلی کا شارٹ فال 5000 میگا واٹ سے تجاوز کر گیا ہے۔ لوڈ شیڈنگ کے دورانیوں میں نئے دن اضافہ ہو رہا ہے۔ ہمارا محنت کش طبقہ مجبور اور لاچار ہوتا جارہا ہے۔ بجلی کے نرخوں میں ہر سہ ماہی ہوش رُبا اضافہ ہو رہا ہے۔ عام صارف کم بجلی استعمال کر کے بھی بھاری بلوں کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہے۔
وزیراعظم نے چین کے شہر ’’بائو‘‘ میں کانفرنس کے بعد چینی سرمایہ کاروں کو پاکستان میں 2 بجلی گھر لگانے کے لیے کنسورشیم بنانے کے معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔ یہ درست سمت میں قدم ہے۔ ہمیں یورو بانڈز بیچنے کی بجائے بجلی کی ضرورت کو پہلے پورا کرنا ہو گا۔ بیرونی سرمایہ کار ایسے ملک میں کارخانے نہیں لگائے گا جہاں بجلی ہی ناپید ہو۔
سی این جی (کمپسریسڈ نیچرل گیس) اور این ایل جی(لیکولفاہیڈنیچرل گیس)کی ملک میں کمی سے ہماری صنعتیں اور گھروں کے چولہے ٹھنڈے ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ ہر گزرتے سال کے ساتھ بحران شدید ہوتا جاررہا ہے۔ 40کروڑ کیوبک فٹ یومیہ ایل این جی درآمد کرنے کے لیے ہم ایک ٹرمینل بنا رہے ہیں۔ اگر یہ منصوبے پایۂ تکمیل کو پہنچتے ہیں تو حکومت کو چاہیے عام عوام کے لیے بجلی گیس سستے نرخوں پر مہیا کرے۔ ان کی قیمتوں میںاضافے کو ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کی شرائط سے نہ جوڑا جائے۔ امریکا اور عالمی بینک ہمیں 30 جون تک 245 کروڑ ڈالر امداد دینے والے ہیں۔ ہمیں ہر امداد کو وصول کرنے سے پہلے عائد کردہ شرائط کا نہایت ٹھنڈے دل سے جائزہ لینا چاہیے۔ حکومت وہی اچھی ہوتی ہے جس کے پاس عوام کے لیے خیر ہو۔
کوریا کی حکومت نے پاکستان کو کروڑوں روپے مالیت کی ایک لیبارٹری تحفے میں دی ہے۔ یہ اسلام آباد میں پانی کو صاف کرنے کے لیے جلد کام شروع کر دے گی۔ اسلام آباد کے آگے بھی ہمارے اَن گنت شہر ہیں جہاں سرے سے پینے کا پانی ہی میسر نہیں۔ اگر دستیاب ہے تو نہایت درجہ آلودہ ہے۔ کراچی سمیت کئی شہروں میں یہ صورت حال گھمبیر ہوتی جارہی ہے۔ صاف پینے کا پانی ملنا مشکل ہوتا جارہا ہے۔ اگر منی پاکستان ایسے حالات کا شکار رہے تو دور افتادہ شہروں میں کیا صورت حال ہو گی۔ آلودہ پانی کی وجہ سے ہماری آبادی کا 10 فیصد حصہ ہیپاٹائٹس کا شکار ہو گیا ہے۔ اس بارے میں پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن نے ایک مفصل رپورٹ شایع کی ہے۔ حکومت کو چاہیے کراچی سمیت ہر چھوٹے بڑے شہر میں صاف ستھرا پینے کا پانی مہیا کرے تا کہ جان لیوا بیماریوں پر قابو پایا جاسکے۔
میڈیکل ایسوسی ایشن نے پنجاب میں بننے والی متعدد جان بچانے والی ادویات کو جعلی قرار دیا ہے۔ شیخوپورہ میں ایک بڑی فیکٹری پکڑی گئی ہے جہاں یہ گھنائونا دھندہ اپنے پورے عروج پر تھا۔ متعدد ٹینکوں میں عام پانی بھرا ہوا تھا۔ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخواہ نے پنجاب حکومت پراس جرم کی روک تھام کے لیے زور دیا ہے۔ بدقسمتی سے پنجاب آج کل ایسے جرائم میں اوّل درجے پر فائز دکھائی دے رہا ہے۔ دوسری طرف یہاں آٹا ملوں نے من چاہے ریٹ پر آٹا فروخت کرنا شروع کر دیا ہے۔ فی تھیلا 150 روپے کا اضافہ عقل و فہم سے بالا تر ہے۔ گڈگورننس کا نعرہ لگانے والی پنجاب حکومت کو اس کے ساے تلے پرورش پانے والے ان جرائم کا فی الفور خاتمہ کرنا چاہیے۔
حکومت نے 2 ارب روپے کے رمضان پیکیج کا اعلان کیا ہے۔ یہ رعایت یوٹیلیٹی اسٹورز پر ہی نظر آ پائے گی۔ اچھا ہوتا اگر حکومت رمضان کے مقدس مہینے میں ذخیرہ اندوزوں اور گران فراشوں کی گو شمالی کے لیے کسی اقدام کی منظوری دیتی۔ یوٹیلیٹی اسٹورز ملک میں اتنے کم ہیں کہ وہاں عام عوام کا سامان خریدنا ایک کوہِ گراں بن جاتا ہے۔ کوسوں لمبی قطاروں میں دہکتے سورج تلے کھڑے ہونا اور سامان خریدنا انسانیت کی توہین ہے۔ اگر سارے ملک میں ایک ہی پالیسی متعارف ہو اور سرکار اس کی خلاف ورزی پر فوراً حرکت میںآئے تو عوام کا اس میں بہت بھلا ہو گا۔ وہ سکھ کا سانس لیں گے اور مقدس مہینے میںیکسوئی کے ساتھ عبادات پر توجہ دے سکیں گے اور حکومت کو دعائیں دیں گے۔
مہنگائی کی سب سے بڑی وجہ 17 فیصد جنرل سیلز ٹیکس ہے۔ یہ ٹیکس کسی بھی چیز کی تیاری کے ہر مرحلے پر استعمال ہونے والی ہر شے پر الگ الگ لگتا ہے۔ سرمایہ دار سیلز ٹیکس کی ایڈجسٹمنٹ اور رِی فنڈ کے لیے جعلی کلیم اور رسیدیں دکھا کر اس ٹیکس کو کھانے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ یوں 17 فیصد جنرل سیلزٹیکس میں سے صرف 4 فیصد قومی خزانے تک پہنچ پاتا ہے۔ باقی 11 فیصد سرمایہ دار مل مالک یا انڈسٹریلسٹ ہڑپ کر جاتے ہیں۔ بھاری منافع وہ اس کے علاوہ ہتھیاتا ہے۔ اس مالی سال حکومت کو سیلز ٹیکس کی مد میں ایک ہزار ارب روپے ملے ہیں۔ اگر حکومت کسی بھی شے کی تیاری کے آخری مرحلے پر 17 کی بجائے 7 فیصد سنگل ٹیکس لگا دے تو سرمایہ دار اسے نگل نہیں پائے گا۔ قومی خزانے کو 1500 سے 1700 ارب روپے کا ٹیکس مل جائے گا۔ عوام پر سے مہنگائی کا 10 فیصد اضافی بوجھ ہٹ جائے گا۔ مجھے معلوم ہے حکومت پر سرمایہ داروں کا اثر و رسوخ غیرمعمولی ہے۔ اگر ہمارے حکمران آنے والے بجٹ میں صرف یہی ایک اقدام اٹھالیں تو مہنگائی کے غبارے سے کافی ہوا نکل سکتی ہے۔ ہوس پرستوں کے شکم کو صرف قبر کی مٹی ہی بھرسکتی ہے۔ ان کو خوش کرنے کے لیے عوام کی زندگیوں کا خون کرنا حکمرانی نہیں بہت بڑی ستم ظریفی ہے۔
جنوبی ایشیا میں سیاست کے مہروں کی تبدیلی
تحریر یاسر محمد خان
’’احمد آباد‘‘ بھارتی صوبہ گجرات کا صدر مقام ہے۔ یہ شہر ایک مسلمان حکمران نے آباد کیا تھا۔ اس نے یہاں نہایت دیدہ زیب مسجدیں تعمیر کروائی تھیں۔ صدیوں تک یہ ایک مسلم اکثریت کا شہر رہا۔ تقسیم ہندکے وقت احمدآباد گجرات کے دوسرے شہروںمیں مسلمانوں نے صنعتی یونٹ قائم کرنے شروع کردیے۔ یوں مسلم آباد ی بھارت کے دوسرے صوبوں کی صوبوں کی نسبت زیادہ سے زیادہ خوشحال ہوتی چلی گئی۔ فی کس آمدنی کی شرح نہایت درجہ بلند ہو گئی۔ 1960ء کی دہائی میں بھارتی جنتا پارٹی کی ماں راشٹر یہ سیوک سنگھ نے یہاں اپنا علاقائی ہیڈ کوارٹر قائم کیا۔ ہندو تعصب کی بدبو کے بھپکے چاروں طرف پھیلنے لگے۔ ملک بھر سے متشدد اور جرائم پیشہ ہندوئوں کے غول پرواز کرتے ہوئے احمد آباد کا رُخ کرنے لگے۔ انہوں نے شہر کا کنٹرول اپنے قصبے میں لے لیا۔ مسلمانوں کی زمنیوں پر قبضے ہونے لگے۔ دکانوں پر جعلی کلیم دھڑا دھڑ مندروں سے نہایت درجہ فسادی فرمان جاری ہونے لگے۔ احمد آباد جو کبھی روح پرور مسجدوں کا شہر تھا وہاں لاوڈ سپیکر پر اذانیں دینے پر پابندی عائد کردی گئی۔
1969ء میں یہ شہر ہندوستان کی تاریخ کے ایک بدترین مسلم کش فسادات کے سیلاب میں بہہ گیا۔ مسلمانوں کے گھر، دکانیں، ملیں تک جلادی گئیں۔ انہیں زندہ آگ میں پھینکا گیا۔ عورتوں کی اجتماعی عصمت دری کی گئی۔ بچوں کو تیز دھار چھروں سے ذبح کردیا گیا۔ مسجدوں اور مدرسوں کو نذر آتش کردیا گیا۔ فسادات کا یہ دھارا احمد آباد سے نکل کر گجرات کے دوسرے بڑے شہروں اور قصبوں میں بھی پھیل گیا۔ ایک انداز ے کے مطابق 80 ہزار مسلمان مرد، عورتیں اور بچے شہید کردیے گئے۔ اندرا گاندھی اس وقت وزیراعظم تھی۔ اس نے شہر کا دورہ ایسے وقت کیا جب رام کے بالکے مسلمانوں کے خون سے جی بھرکے ہولی کھیل چکے تھے۔ لہو چراغوں میں ڈال کر دیوالی منا چکے تھے۔
وقت کا پہیہ چلتا رہا۔ گجرات میں کشیدگی کو ہوا دینے والے جھکڑ چلتے رہے۔ بادِ سموم نے مسلمانوں کو دوبارہ پرواز کرنے کے قابل نہ چھوڑا۔ ایک اور نسل پروان چڑھ گئی۔ 2002ء آن پہنچا۔ وزیراعلی نرنیدر مودی کی زیرنگرانی دوبارہ بڑے پیمانے پر مسلم کش فسادات شروع کردیے گئے۔ اب کی بار قتل و غارت گری ایک نہایت سفاک منصوبے کے تحت کی گئی۔ باقاعدہ پلاننگ سے اس کی شروعات ہوئی۔ مسلمانوں کی جان، مال اور املاک بھسم کی جانے لگیں۔ راشٹریہ سیوک سنگھ کے غنڈے بھوکے شکاریوں کی طرح گلیوں، محلوں اور بستیوں میں شکار کھیلتے رہے۔ پولیس مودی کی ہدایت پر تھانوں میں بند ہو کر بیٹھ گئی۔ گجرات حکومت نے مرکزی حکومت کی ملٹری بھیجنے کی تجویز کو سرد خانے میں ڈالے رکھا۔ احمدآباد کے علاقے گلبرک میں کانگریس کا رکن پارلیمنٹ احسان جعفری دہائی دیتا رہا۔ اس کا وسیع و عریض گھر لٹے پٹے مسلمانوں کا آخری ٹھکانہ بن گیا۔ ہندوئوں نے اس کے گھر کا گھیرائو کیا۔ پیٹرول چھڑکا اور آگ لگادی۔ احسان جعفری سمیت سارے مسلمان زندہ جل گئے۔ ساری دنیا نریندرمودی کو انسانیت کے قاتل کے طور پر جاننے لگی۔ اس کا ناقابل معافی جرم ملکوں ملکوں چرچا پاگیا۔ انجام کار 2004ء کے انتخابات میں بھاری اکثریت سے دوبارہ گجرات کا وزیر اعلی بن گیا۔ 2009ء میں اپنی اس اعلیٰ کارگردگی کی بنا پر صوبے کا مالک چن لیا گیا۔ مودی کا درجہ بھارتی جنتا پارٹی میں بلند ہونے لگا۔ راشٹریہ سیوک سنگھ نے اُسے اعلیٰ جوہر رکھنے والے لیڈر کے طور پر اگلی صفوں میں پہنچا دیا۔ 2014ء کے انتخابات 7 اپریل سے شروع ہوئے ہیں اور یہ 12 مئی کو ختم ہوں گے۔ 16مئی کو نتائج کا اعلان کیا جائے گا۔
٭ مسلمانوں کے گھر، دکانیں، ملیں تک جلادی گئیں۔ انہیں زندہ آگ میں پھینکا گیا۔ ایک انداز ے کے مطابق 80 ہزار مسلمان مرد، عورتیں اور بچے شہید کردیے گئے۔ ٭ ہماری حکومت کو نئی ہندوسرکار سے باہمی مذاکرات کے وقت نوکیلے لوہے کے پنجے کو ضرور زہن میں رکھنا ہو گا۔ ٭
سارے کا سارا بھارتی میڈیا بڑے صنعت کار اور متعصب ہندو تنظیمیں نریندر مودی کو اگلا وزیراعظم بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔ گلاب کے سرخ پھولوں سے لدا ہوا مودی ہر ٹی وی اسکرین پر مسکراہٹیں بکھیر رہا ہے۔ اس کی ہر مسکراہٹ کے پیچھے ان گنت معصوموں کا لہو ہے۔ اس کے لباس سے خون کے بھپکے اُٹھتے ہیں۔ گجرات کا قاتل اب سارے ہندوستان میں مسلمانوں کا شکار کرنے کے لیے راجد ھانی کی طرف چل پڑا ہے۔ وہ گجرات کی تقدیر سنوارنے کے بعد سارے بھارت کا مقدر اجالنے کے لیے نکل کھڑا ہوا ہے۔ اس کی رتھ کے پہیے اقتدار کی شاہراہ کی طرف رواں دواں ہیں۔ انڈین سیاست کا سب سے مکروہ پہلو یہ ہے اس کے لیڈر جب تک مسلمانوں کو لاشوں پر کھڑے نہ ہوں وہ دور سے دکھائی نہیں دیتے۔
بی جے پی اور کانگریس کے علاوہ عام آدمی کی پارٹی (عاپ) ملک گیر شہرت کی حامل ہے۔ 80 کروڑ 14 لاکھ ووٹر اپنا ووٹ کاسٹ کر رہے ہیں۔ یہ انتخابات 35 ریاستوں 543 نشستوں پر ہو رہے ہیں۔ بی جے پی کے 80 میں سے 38، کانگریس کے 72 میں سے 21 اور عام آدمی پارٹی کے 78 میں سے 10 امیدوار نہایت سنگین جرائم کے مقدمات کے ملزم ہیں۔ بھارتی سٹہ باز 5 سے 6 کھرب روپے کا جوا کھیل رہے ہیں۔ الیکشن پر امیدواروں نے 5 کھرب روپے خرچ کیے ہیں۔ 29 فیصد اُمیدوار کروڑ یا ارب پتی ہیں۔ عام آدمی پارٹی نے سائنس دانوں، ماہرین تعلیم، صحافیوں، سابق ججوں، وکیلوں، ریٹائر بیوروکریٹوں، سماجی کارکنوں، ادیبوں، شاعروں اور ناول نگاروں کو ٹکٹ دیے ہیں۔ اس پارٹی کی عمر صرف ایک سال ہے۔ اس کے سربراہ اروندکجروال نے پچھلے سال دہلی میں کانگریس کے ایک بڑے لیڈر کو شکست دی تھی۔ سروے کے مطابق یہ پارٹی 100 کے قریب نشستیں جیت جائے گی۔ بی جے پی کے بارے میں کہا جارہا ہے وہ سب سے زیادہ سیٹیں جیتے گی۔ کانگریس کے بارے میں رائے عام نا موافق ہے۔ بھارتی معاشی بحران اس کے دور میں اپنے عروج کو پہنچا تھا۔ 2010ء میں شرح ترقی 10 فیصد کی حدود تک جا پہنچی تھی، جو 2014ء میں صرف 4.7 فیصد تک رہ گئی۔ یوں کانگریس کو شکست ہونے کی پیشینگوئیاں ہورہی ہیں۔
بھارت میں مسلمانوں کی کل آبادی 25 کروڑ سے زیادہ ہے۔ ان کی کثیر تعداد اتر پر دیش، بہار، آندھرا پردیش، مدھیہ پردیش، کرناٹک، کیرالہ ، آسام، مہاراشٹرمغربی بنگال، گجرات، راجستھان اور وادی کشمیر میں مقیم ہے۔ اترپردیش کے 80 حلقوں میں 54 میں مسلمانوں کا ووٹ فیصلہ کن کردار ادا کرسکتا ہے۔ بہار میں 40 میں سے 29، مغربی بنگال میں 42 میں سے 28، کرناٹک میں 28 میں سے 15، کیرالہ میں 20 میں سے 14، مہاراشٹر میں 48 میں سے 13، آندھرا پردیش میں 42 میں سے 12، آسام میں 14 میں سے 9 گجرات 26 میں سے 6 اور راجستھان میں 25 میں سے 6 حلقوں میں مسلمانوں کا ووٹ کسی بھی امیدوار کو جتوا یا ہرا سکتا ہے۔ بدقسمتی سے مسلمان کسی بھی مرکزی قیادت کے نہ ہونے کی وجہ سے اپنی اس بے مثال طاقت کو بھرپور طریقے سے استعمال نہیں کر پاتے۔ یوں پچھلی اسمبلی میں ان کے 5.3 نمایندے ہی پہنچ پائے جو کہ ان کی کل آبادی کا نہایت محدود اثر ظاہر کرتا ہے۔ مسلم ووٹ کی تقسیم کا فائدہ ہمیشہ ہندو اُٹھاتے ہیں جن سے مرکزی اور صوبائی اسمبلیاں بھری رہتی ہیں۔ بھارتی الیکشن کمیشن دنیا کا سب سے بڑا پولنگ ادارہ ہے۔ اس بار اس نے ایک کروڑ 20 لاکھ افراد کی خدمات حاصل کی ہیں۔ 65 لاکھ فوجی ، سپاہی اور رضا کارانتخابات کی نگرانی کر رہے ہیں۔ ملک میں 9 لاکھ 30 ہزار پولنگ بوتھ قائم کیے گئے ہیں۔ ہر دو میل کے فاصلے پر ایک پولنگ بوتھ موجود ہے۔ 17 لاکھ جدید پولنگ مشین استعمال ہورہی ہیں۔ 100 ریل گاڑیاں عملے کے نقل و حمل کے لیے چلائی گئی ہیں۔ ہزاروں گاڑیاں اور ایک درجن ہیلی کاپٹر مہیا کیے گئے ہیں۔ 20 کروڑ بھارتی انٹرنیٹ کے ذریعے اپنے من پسند نمایندوں کی اشتہاری مہم چلا رہے ہیں۔ 9 کروڑفیس بک یا ٹویٹر کے استعمال سے یہ فریضہ سر انجام دے رہے ہیں۔ انٹرنیٹ اور موبائل ایسوسی ایشن آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق 543 حلقوں میں سے 150 کے نتائج سوشل میڈیا کی وجہ سے کچھ بھی ہو سکتے ہیں۔ من چلے نوجوانوں کو لبھانے کے لیے بڑے لیڈر مسلسل اپنے ’’اقوال زریں‘‘ اپ لوڈ کرتے رہتے ہیں جو منٹوں میں ملک کے طول و عرض میں پھیل جاتے ہیں۔ اس طرح یہ ٹیکنالوجی بھارتی انتخابات میں ایک بڑا رول پلے کر رہی ہے۔
بی جے پی کو حکومت بنانے کے لیے 272 نشستیں درکار ہیں۔ اس کا الیکشن میں کلین سوئپ کرنا نہایت مشکل نظر آرہا ہے۔ وہ مسلمان ووٹروں کو لبھانے کے لیے نت نئے ہتھکنڈے استعمال کر رہی ہے۔ پارٹی کے مرکزی صدر رام ناتھ سنگھ نے کہا ہے کہ بی جی پی مسلمانوںکی حقیقی خیرخواہ پارٹی ہے۔ وہ مسجدوں اور مدرسوں کی حفاظت کرے گی۔ وہ مسلمانوںکا تعلیمی و سماجی قد بڑھانے کے لیے سخت کاوش کرے گی۔ گجرات اور مہارا شٹر میں بی جی پی نے اپنی حکومت کے آخری دنوں میں گجراتی اور مراٹھی زبان کے علاوہ اردو میں امتحان دینے کی سہولت بھی متعارف کروائی ہے۔
نریندرمودی نے انتخابات میں مسلمانوں کے دسترخوان پر کھانا کھایا، پانی پیااور یوں خود کو ان کا نمک خوار ظاہر کرنے کا ڈھونگ رچایا۔ اس موقع پر اس نے کچھ یوں گل افشانی کی: ’’ہم مسلمانوں کو مواقع دینے اور قومی دھارے میں لانے کے لیے ہر دم کوشاں ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ مسلمان اپنے پائوں پر کھڑے ہوں۔ زندہ رہنے کے لیے سہارے تلاش نہ کریں۔ انہیں اپنا سہارا خود بننا ہوگا۔ عنقریب مسلمان بچے نوکری تلاش کرنے والے نہیں بلکہ نوکری دینے والے بن جائیں گے۔‘‘ بی جی پی نے کچھ بڑے مسلمان تاجروں، صنعت کاروں اور صحافیوں کو اپنے نرغے میں لے لیا ہے۔ وہ اپنی تقریروں میں بی جی پی کی اصل شکل دکھانے کی بجائے اس کی نہایت دل کش تصویر کشی میں لگے ہوئے ہیں۔ صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ یہ موقع پرست عناصر بی جی پی کے لہو میں ڈوبی آستینوں کو دھو رہے ہیں۔ وہ مسلم کش فسادات کا دھواں اپنی پھوکوں سے اُڑا رہے ہیں۔ وہ مسلمانوں کی جلی ہوئی ہڈیوں کو زمین میں گہرا دبا کر اوپر افہام و تفہیم کی مٹی ڈال رہے ہیں۔ ان میں انڈیا ٹو ڈے کا ایڈیٹر اور ممتاز انگریز رائٹر ایم جے اکبر پیش پیش ہے۔ اکبر کبھی بی جی پی کی مسلم دشمنی پر اپنے قلم سے اَنگارے اور منہ سے شعلے نکالا کرتا تھا۔ اب انگارے بجھ چکے ہیں۔ اور شعلے سرد ہو گئے ہیں۔
بی جی پی کی حکومت بننا اور مودی کا وزیراعظم کی نشست پر براجمان ہونا جنوبی ایشیا کے لیے ایک بالکل نیا منظر نامہ لائے گا۔ بھارتی مسلمانوں کے لیے مجموعی طور پر ایک خطرناک دشمن کو سخت تنقید کا ہدف بناتا رہا ہے۔ اس کا خیال ہے حکومت وقت پاکستان کے بارے میں ضرورت سے زیادہ نرم رویہ اپنائے ہوئے ہے۔ بی جی پی نے گزشتہ سال ممتاز کشمیری راہنما افضل گرو کی پھانسی کو سراہا تھا۔ اس نے پاکستانی پارلیمنٹ کی اس ضمن میں قرار داد مذمت پر شدید تنقید کی تھی۔ بی جی پی نے کانگریس کو پاکستان کے ساتھ تعلقات توڑ لینے اور امن قائم کرنے کی ہر کوشش کو معطل کرنے کا حکم جاری کیے تھے۔ پچھلے سال اگست میں لائن آف کنٹرول پر پاک بھارت کشیدگی کے دنوں میں بی جی پی اور مودی نے اپنی زہریلی زبان سے پاکستان پر بمباری کی تھی۔ لوک سبھا اور جلسے جلوسوں میں ’’کرش پاکستان‘‘ کے نعرے سننے کو ملے تھے۔ کئی دہائیوں سے یہ پارٹی پاکستان دشمنی کو مستقل اپنی بنیاد بنائے ہوئے ہے۔
بی جی پی کی ماں راشٹریہ سیوک سنگھ ہر سال بھارت میں ایک خوف ناک درندے شیوا جی مرہٹے کا جنم دن مذہبی جوش و خروش کے ساتھ مناتی ہے۔ چند صدیوں پہلے یہ مہارا شٹر میں ظلم و جبر کا ایک استعارہ ہوا کرتا تھا۔ یہ مسلمانوں کا بدترین دشمن تھا۔ افضل خان نامی ایک نہایت جری اور بہادر جرنیل نے شیوا جی کو شکست پر شکست دی۔ شیوا جی کا اقتدار ختم ہونے پر آگیا۔ اس نے افضل خان کو تنہا ایک پہاڑی پر مذاکرات کی دعوت دی۔ شیوا جی اور افضل خان نہتے وہاں پہنچ گئے۔ شیوا جی نے مسکراتے ہوئے اپنے مہمان کو گلے لگایا۔ ہاتھ پر چڑھائے ہوئے نوکیلے لوہے کے پنجے سے افضل خان کا دل باہر نکال کر پھنک دیا۔ شیوا جی اور اس کے ’’تاریخ مذاکرات‘‘ اب بی جی پی اور راشٹر یہ سیوک سنگھ کے راہنما اصول ہیں۔ نریندرمودی اسی سکول آف تھاٹ پر یقین رکھتا ہے۔ ہماری حکومت کو نئی ہندوسرکار سے باہمی مذاکرات کے وقت نوکیلے لوہے کے پنجے کو ضرور زہن میں رکھنا ہو گا۔