سعدی جی کی قلم سے:عرف:مولانا محمد مسعود اظہر

اللہ تعالیٰ معاف فرمائے… آج کا کالم ’’خیال جی‘‘ کی ’’خیالیات‘‘ پر مشتمل ہے

میری دکان
بے روزگاری سے تنگ آکر سوچا کہ… روزی اور کمائی کا کوئی ذریعہ کیا جائے… آپ تو جانتے ہیں کہ میں یعنی مسمیٰ ’’خیال جی‘‘ نہ سیاستدان ہوں نہ سائنسدان… نہ ڈاکٹر نہ انجینئر…اب کہاں سے کمائوں اور کہاں سے کھائوں…بالآخر اپنے استاد ’’درویش جی‘‘ کی خدمت میں حاضر ہوا …انہوں نے سمجھایا کہ کیوں فکر کرتے ہو… مشوروں، تعویذوں اور عملیات کی دکان کھول لو … چند ہی دنوں میں مالا مال ہوجائو گے…اور سنو! آج کل دنیا بھر کے حکمران انتہاپسندی، شدت پسندی اور جہاد سے ڈرے اور سہمے ہوئے ہیں… تم اسی موضوع کے دانشور، عامل اور ڈاکٹر بن کر بیٹھ جائو… اور پھر ملالہ یوسف زئی کے باپ کی طرح صبح شام نوٹ ہی نوٹ گنتے رہو…درویش جی کا مشورہ معقول تھا، سیدھا میرے معدے کو لگا…
عرض کیا یامرشد! کچھ قرضہ عنایت ہوتاکہ دکان کرائے پر پکڑ سکوں…انہوں نے تین روپے عطا کئے اور فرمایا! ایک روپیہ دکان کا کرایہ…ایک روپیہ بورڈ کی لکھائی…اور ایک روپے سے چھوٹا موٹا جہاز خرید لو…میں دیکھ رہا ہوں کہ تمہیں بڑے بڑے سفر درپیش ہوںگے…تین روپے بریف کیس میں بھر کر میں درویش کی جھگی سے نکلا … جاتے ہی مارکیٹ میں ایک دکان پکڑی…ایک خوبصورت بورڈ لکھوایا…جس کا عنوان تھا…انتہا پسندی کا مکمل خاتمہ، شدت پسندی کا تیر بہدف علاج اور مجاہدین سے بچنے کے نادر طریقے… حضرت حکیم، ڈاکٹر، عامل کامل، دانشور، تھنک ٹینک خیال جی…فون نمبر…
کالوں کا تانتا
اگلے دن خان جی کے ہوٹل سے اُدھار کی چائے پی کر میں اپنی دکان کو جانے لگا تو…خان جی نے پیسے مانگے…میں نے فخر سے مسکرا کر کہا …اب فکر نہ کرو سارے قرضے جلد چکا دوں گا… دکان جاکر بیٹھا ہی تھا کہ فون پر کالوں کا تانتا بندھ گیا…میں پریشان کہ سب سے پہلے کس کی کال سنوں؟ پھر فیصلہ کیا کہ سب سے پہلے ایک کالے کی کال سنتا ہوں…بٹن دباکر فون کان سے جوڑا تو چرسیوں جیسی اُکھڑی ہوئی، اُبھری ہوئی آواز آئی …آئی ایم ابامہ…آریو خیال جی؟…میں نے کہا ہاں بولو!…کہنے لگا! خیال جی ہم مر گئے … کئی ٹریلین ڈالر خرچ کردئیے…مگر مجاہدین ختم ہوئے نہ جہاد رُکا…مسلمانوں کے ہر ملک میں ہم نے اپنے زرخرید ایجنٹ حکمران بٹھا دئیے…مگر جہاد ہر طرف پھیلتا جارہا ہے…اب تو ہماری اپنی سلامتی خطرے میں ہے…خیال جی! کوئی مشورہ دو، کچھ سمجھائو…کوئی تعویذ دو…افغانستان، عراق، شام سے لے کر افریقہ کے آخری کونے تک جہاد ہی جہاد ہے، مجاہدین ہی مجاہدین ہیں…یہ کہہ کر ابامہ ہچکیاں لے کر رونے لگا…میں نے کہا! ابامہ تمہیں میری فیس معلوم ہے؟ کہنے لگا نہیں تم بتادو…میں ایک دو دن گانجا اور چرس نہیں پیئوں گا…تمہاری فیس ادا کردوں گا…میں نے کہا …ساڑھے پانچ روپے…ابامہ گڑ گڑانے لگا کہ کچھ رعایت کرو…ہمارا ملک معاشی خسارے میں جارہا ہے…خود امریکہ میں بغاوتیں پھوٹ رہی ہیں…اُدھر روس بھی دوبارہ پَر پرزے نکال رہا ہے…چین اور شمالی کوریا بھی ہاتھ نہیں آرہے … اور یہ مجاہدین اُف توبہ…روز بوریاں بھر کر ڈالر خرچ کرنے کے باوجود…اور اتنی بمباری کے باوجود کسی بھی طرح کم نہیں ہورہے…معلوم نہیں زمین سے اُگ رہے ہیں یا آسمانوں سے برس رہے ہیں…خیال جی! کچھ رعایت! کافی بات چیت کے بعد پانچ روپے میں سودا طے ہوگیا … اور میں نے ابامہ سے امریکہ کے دورے کا وعدہ کرلیا کہ…جلد واشنگٹن کا چکر لگاتا ہوں اور تمہیں مشورے سے نوازتا ہوں…تھینک یو تھینک یو کی گردان کے ساتھ یہ کال ختم ہوئی تو فون پھر بجنے لگا…گھنٹی کی آواز سے لگ رہا تھا کہ کال قریب کی ہے…بٹن دبا کر سنا تو کانوں میں ڈھول کی آواز آئی…میں حیران ہونے ہی والا تھا کہ آواز آئی …میں نریندر مودی بول رہی ہوں…ارے خیال جی! تمہاری پڑوسن مودی…میں نے کہا! ہاں مودی سنائو کیسی ہو…کہنے لگا…بس ابھی درزی کے پاس سے آرہی ہوں…وہ جو اس نے یوم آجادی پر میرا سوٹ بنایا تھا…ارے نیلے رنگ کا چھمک چھلو…اس کی شلوار پر بھی موئے نے آگے پیچھے ہر طرف لکھ دیا تھا…مودی، مودی … ہائے بے سرم کہیں کا…
وہ سوٹ تو میں نے بیچ ڈالا…اب آٹھ جوڑوں کا آرڈر دے آئی ہوں…موئے کو تاکید کری ہے کہ کپڑوں میں گھنگھرو ضرور لگایا کرے …پھر راستے میں پھوٹو گرافر کے پاس گئی…کچھ نئے پھوٹو بنوائے…بہت مصروف ہوں…ابھی کئی ملکوں کا دورہ کرنا ہے…ہر جگہ نئے کپڑے پہن کر پھوٹو بنوانے ہوتے ہیں…میں تو ہر راشٹر پتی کے گلے میں بانہیں ڈال کر …اپنے دیش کے لیے ساری باتیں منوالیتی ہوں…مودی کی باتوں سے تنگ آکر میں نے کہا…چھوڑو ان باتوں کو…مجھے کیوں فون کیا؟ کہنے لگا…
وہ ہمارے دیش میں شدت پسندی بڑھ رہی ہے…کشمیر کی طرف پھر مجاہدین اکٹھے ہورہے ہیں…اور افغانستان سے بھی کافی کھترا لگ رہا ہے…ہائے میں تو بہت ڈر رہی ہوں، دل دھک دھک کررہا ہے…امریکہ والے بھی بتار ہے ہیں کہ انڈیا بہت کھترے میں ہے…ہمیں مسورہ دو، کوئی تعویج منتر بتائو…مودی سے چار روپے میں فیس طے ہوئی اور میں نے دورے کا وعدہ کر لیا … مگر یہ کیا فون پھر بجنے لگا…اب روسی صدر ’’پوٹن‘‘ کی کال تھی…وہ بھی بہت چیخ رہا تھا کہ ہمارے ہاں تو سائبیریا سے تاجکستان تک…اور قفقاز سے آمو تک مجاہدین ہی مجاہدین نظر آرہے ہیں… روس اور وسطی ایشیاء کے چودہ ہزار افراد بھاگ کر شام اور عراق چل گئے ہیں…اور وہ مجاہدین بن گئے ہیں…ان میں تاجکستان کے خفیہ ادارے کا سربراہ بھی شامل ہے…ہم پہلے ہی افغانستان میں مار کھا چکے ہیں…یہ کہہ کر پوٹن رونے لگا اور بولا …میں ان مجاہدین کی تصویریں دیکھتا ہوں تو خوف سے میری پوٹی نکلنے لگتی ہے…اب ہم شام میں بمباری کررہے ہیں مگر خود اپنی زمین ہمارے نیچے سے سرک رہی ہے…آخر یہ جہاد ہے کیا؟ … ہماری سلامتی خطرے میں ہے…خیال جی کچھ بتائو، کچھ سمجھائو، پوٹن سے ساڑھے تین روپے میں بات طے ہوئی اور میں نے ماسکو کا چکر لگانے کا وعدہ کرلیا…
کل کی بات تھی کہ میں بے روزگار تھا مگر آج میرے پاس تین ملکوں کے آرڈر تھے …اور میں خیالات ہی خیالات میں… ضیاء الدین یوسفزئی کی طرح… نوٹ ہی نوٹ گن رہا تھا…
سفرکی تیاری
میرے فون پر مزید کالیں بھی آرہی تھیں… ایک کال ایران سے تھی… فون بہت دھوکے سے بج رہا تھا میں نے کال کاٹ دی… ایک اور کال برطانیہ سے تھی… یہ کال بھی کاٹ دی… اکیلا آدمی کس کس کی کال وصول کرے؟ … سوچا پچھلے تین آرڈر نمٹالوں پھر… باقی لوگوں سے بات کر لوں گا… قریب ہی ایک کھوکھے سے جا کر نیا جہاز خریدا… چاچا رحیم بخش کی دکان سے اس کے ٹائروں میں ہوا بھروائی…اور امریکہ ،انڈیا اور روس کے دورے کے لئے تیار ہو گیا… مگر فون تھاکہ چپ ہی نہیں ہو رہا تھا ایک کال بار بار آرہی تھی… غصے اور بے دلی کے ساتھ ریسیو کی تو… دوسری طرف نبیامین نیتن یا ہو تھا… اس نے تڑپ کر کہا خیال جی ،خیال جی… اور پھر ہچکیاں لے کر رونے لگا… وہ اس طرح رورہا تھا جیسے رات میں اندھیرے میں بلی روتی ہے… میں نے بڑی مشکل سے چپ کرایا… وہ کہنے لگا! یہ فلسطینی مجاہدین، یہ حماس والے… یہ کہہ کر پھر دھاڑیں مارنے لگا… ہم نے ہر اسلحہ استعمال کرلیا… مگر وہ چاقو اور چھری لے کر ہمارا مقابلہ کررہے ہیں… خیال جی! خوف ہی خوف ہے اور بہت پریشانی… جتنا تشدد اور اسلحہ ہم نے فلسطینیوں پر چلا یا… اتنا اگر کسی اور قوم پر چلاتے تو وہ کبھی کی مٹ گئی ہوتی … مگر یہ تو بڑھتے ہی جارہے ہیں… ہر دن جنگ کا نیا طریقہ… اور ہر دن الجہاد الجہاد کے نئے نعرے…ہائے قوم یہود ماری گئی… تباہ ہوگئی … نہ امریکہ کی یاری سے کچھ کام بن رہا ہے اور نہ عربوں کی فلسطین سے غفلت کا ہمیں کوئی فائدہ مل رہا ہے… ہمیں مصر میں ’’محمد مرسی‘‘ سے خطرہ تھا ہم نے اسے ہٹوا کر اپنا ’’سیسی‘‘ بٹھا دیا مگر وہ توہمارے لئے پیشاب کی’’شیشی‘‘ نکلا… ہائے ہماری سلامتی، ہائے ہماری سلامتی… خیال جی کچھ بتائو، کچھ سمجھائو…میں نے کہا… دیکھونیتن! میں بہت مصروف ہوں…ابھی امریکہ جانا ہے، پھر روس اور انڈیا کا چکر ہے… ایسا ہے کہ تم مجھے پھر کال کرلینا… یہ سن کر وہ باقاعدہ گڑگڑانے لگا… خیال جی! میں تمہارے پائوں پڑتا ہوں… اس بار بڑا خطرناک انتفاضہ ہے … ہمارے لئے بھی وقت نکالو… اس کے رونے دھونے پر ترس کھا کر میں نے تل ابیب کے دورے کا وعدہ بھی کرلیا… اور ڈھائی روپے فیس بھی پکی طے کرلی…
جہاز حادثے سے بال بال بچا
گھروالوں اور دوستوں سے رخصت ہو کر میں اپنے جہاز پر آبیٹھا… جہاز کی بریکیں،پیڈل اور ہینڈل چیک کر کے میں نے اپنا جہازروس کی طرف اُڑادیا… ارادہ تھا کہ پہلے ماسکو جاؤں گا … پھر واپس انڈیا… وہاں سے اسرائیل اور آخر میں امریکہ… وجہ یہ تھی کہ امریکہ سے غذائی قلت کی خبریں آرہی تھیں… انڈیا کا وزیر اعظم پھر ڈھول لے کر پڑوسی ملکوں کی شادیوں میں چلا گیا تھا … اور اسرائیل میں میرے جہاز کے لئے رن وے کی تعمیر کا کام جاری تھا… چنانچہ روس کی طرف پہلے جانا طے پایا… میرا جہاز فضا میں بلند ہوا… ابھی تھوڑا سا سفر طے ہوا تھا کہ ایک بڑا ساجہاز لڑ کھڑاتا ہوا،ہانپتا ہوا میرے جہاز کے قریب آنے لگا… میں نے دوربین لگا کر دیکھا تو اس جہاز کی چھت پر بڑی بڑی دیگیں رکھی تھیں… اور ان کے بوجھ کی وجہ سے وہ ٹھیک طریقے سے اڑنہیں پاتا تھا… میں نے غور سے دیکھا تو… دیگوں پر کھانوں کے نام درج تھے… قورمہ، سری پائے، بریانی، مچھلی کڑی،نہاری وغیرہ وغیرہ… وہ جہاز جس طرح سے ڈگمگا رہا تھا خطرہ تھا کہ میرے جہاز سے اس کی ٹکر ہوجائے … میں نے فوراً کنڑول ٹاور کے ذریعہ اس جہاز کے پائلٹ سے رابطہ کیا… پوچھا یہ کس کا جہاز ہے ؟ جواب آیا وزیراعظم پاکستان کا جہاز ہے وہ اس میں خود سوار ہیں اور امریکہ کے دورے پر جارہے ہیں… پوچھا کہ یہ اتنی بھاری دیگیں کیوں لاد رکھی ہیں؟
کہنے لگا امریکہ والوں نے وزیراعظم صاحب کو چھ دن کے لئے بلایا تھا… پھر جب ان کے کھانے کا مینیو معلوم ہوا تو ڈر کے مارے یہ دورہ تین دن کا کردیا… مگر ہمارے وزیر اعظم صاحب کو خطرہ تھا کہ… امریکی بڑے کنجوس ہیں وہ ان تین دنوں میں …روزانہ صرف تین وقت کا کھانا دیں گے… تو باقی روزانہ تین وقت کا کھانا وہ اپنے ساتھ لے جارہے ہیں… ملک اور قوم کے مفاد میں… انتہا پسندی اور شدت پسندی کو ختم کرنے کے لئے… ایسی قربانیاں تو دینی پڑتی ہیں… قربانی کی دیگوں کے وزن سے جہاز ڈگمگا رہا ہے … تم اگر حادثے سے بچناچاہتے ہو تو اپنا جہاز ایک طرف کرلو… میں نے فوراً اپنا جہاز ایک طرف دور کر کے کھڑا کردیا کہ… پہلے دیگوں والا جہاز گزرجائے… اب میرا جہاز ایک سائیڈمیں کھڑا تھا… مجھے خیال آیا کہ… میں اپنے مرشد سے کچھ مشورہ کرلوں…
اَسْلِمْ تَسْلَم
میں نے جہاز کے ہینڈل کے ساتھ لٹکا ہوا اپنا تھیلا اُتارا… اور فون نکال کر درویش جی کا نمبر ملالیا… دوسری طرف میٹھی سی آواز آئی…ہاں خیال جی! عرض کیا…
حضرت! آپ کی دعائوں سے جہاز کی گدی پر بیٹھا ہوں…پوٹیوں والے صدر پوٹن کے پاس جا رہا ہوں …بس ایک بات سمجھادیں… یہ بڑے بڑے ملک،جن کے پاس ایٹم بموں کے کارخانے اور زمین کے خزانے ہیں… یہ سب’’ سلامتی‘‘ کو کیوں ترس رہے ہیں؟ اور دوسری بات یہ کہ جہاد کے خلاف کھربوں ڈالر،ٹنوں اسلحہ، منوں بارود، دھاروں فوجیں استعمال ہو رہی ہیں… مگر جہاد کیوں ختم نہیں ہو رہا؟… درویش جی نے فرمایا … خیال جی! درود شریف پڑھو… میں درود شریف پڑھنے لگا… فرمایا! درودشریف میں کتنے نام آئے… میں نے عرض کیا… دو نام آئے… فرمایا کونسے؟ عرض کیا… اللہ اور محمد… فرمانے لگے ان دونوں سے کوئی بڑا ہے؟ عرض کیا نہیں… فرمایا ان دونوں سے زیادہ کوئی سچا ہے؟ عرض کیا نہیں… فرمایا… ان دونوں کا ارشاد ہے…یعنی اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے اور حضرت محمدﷺ نے اللہ تعالیٰ کا یہ فیصلہ مخلوق کو سنایا ہے کہ… سلامتی صرف اسلام میں ہے… اور جہاد اللہ تعالیٰ کا کلمہ ہے … اور اللہ تعالیٰ کے کلمات کو کوئی مٹا نہیں سکتا… سنو خیال جی سنو… حضرت آقا محمدمدنیﷺ نے چودہ صدیاں پہلے چند خطوط لکھوائے اور ساری دنیا کے حکمرانوں کو بھجوائے… ان خطوط میں یہ جملہ مبارکہ بھی تھا…
اَسْلِمْ تَسْلَمْ… تم اسلام لے آئو تمہیں سلامتی مل جائے گی… بس فیصلہ ہو گیا کہ اسلام کے بغیر سلامتی کا خواب دیکھنا بھی ممکن نہیں… نہ دل کی سلامتی، نہ روح کی سلامتی، نہ ظاہر کی سلامتی، نہ باطن کی سلامتی،نہ دنیا کی سلامتی، نہ آخرت کی سلامتی…اسلام سے محروم کافر… بظاہر جس امن اور سلامتی میں نظر آتے ہیں وہ بھی حقیقت میں کوئی سلامتی نہیں تم ان کے دلوں کو جاکر دیکھو ! تو تمہیں ترس آئے گا کہ وہ کس قدر ذلت ، خوف، لالچ اور بے یقینی کے زخموں سے چور چور ہیں… اور اب تو وہ مجاہدین کی برکت سے ظاہری سلامتی سے بھی محروم ہوتے چلے جا رہے ہیں… اور باقی رہا جہاد تو سرور کونین کا اٹل فرمان ہے… اور ان کے فرمان کا یقینی ہونا سورج سے بھی زیادہ روشن ہے کہ… جہاد کو کوئی نہیں روک سکتا: لایبطلہ جورجائر ولا عدل عادل…
جہاد پہلے بھی تھا مگر کم تھاکیونکہ… دعوت میں کمزوری تھی اور میدان تنگ تھے… اب ماشاء اللہ دعوت کی برسات ہے اور میدان وسیع ہیں… اس لئے اب جہاد طوفانوں کی طرح بجلی کی رفتار سے بڑھ رہا ہے… درویش جی نے سلام کر کے فون بند کردیا…میں نے دور بین آنکھوں سے لگائی تو دیگوں والا جہاز کافی دور جا چکا تھا… مگر فضا میں اب بھی نہاری، بریانی اور قورمے کی خوشبو آرہی تھی … اس خوشبو کو سونگھ کر میری بھوک چمک اٹھی… میں نے موبائل تھیلے میں ڈالا اور اسی تھیلے سے بھنے ہوئے چنوں کا شاپر نکال لیا… چنوں کی پوری ایک مٹھی بھر کر میں نے منہ میں ڈالی…کِک مار کر جہاز کو اسٹارٹ کیا… اور یہ جا وہ جا…
استغفر اللّٰہ… استغفر اللّٰہ… استغفر اللّٰہ
اللھم صل علی سیدنا محمد و علیٰ آلہ وصحبہ و بارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا
لا الہ الااللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
٭…٭…٭
آئینے جیسے دل
رنگ و نور ۔۔۔سعدی کے قلم سے (شمارہ 514)
اللہ تعالیٰ ’’فلسطین‘‘ کے جانباز اور مظلوم مسلمانوں کی نصرت اور حفاظت فرمائے…وہاں اس وقت معرکہ گرم ہے…ظالم یہودیوں کی پشت پر دنیا بھر کا ’’کفر‘‘ ہے…جبکہ فلسطینی مسلمان اکیلے ہیں…صرف ایک اللہ تعالیٰ کے سہارے اور یہی سہارا سب سے مضبوط ہے…اسی لیے وہ نہتے ہوکر بھی فاتح ہیں…وہ پتھروں سے مسلح ہوکر ایک ایٹمی طاقت سے لڑرہے ہیں مگر پھر بھی سرفراز ہیں…
اَللّٰھُمَّ انْصُرْھُمْ، اَللّٰھُمَّ اَیِّدْھُمْ…
الیٰ مغفرۃ
آج کل ہماری جماعت میں ’’ترقی مہم‘‘ چل رہی ہے…اخبار کا یہ شمارہ آپ تک پہنچتے یہ مہم قریب الاختتام ہوگی…اس لیے مہم کے بارے زیادہ کچھ نہیں لکھا جارہا…الحمدللہ روزانہ مکتوبات کے ذریعہ آپ سے ملاقات رہتی ہے…بس اتنا عرض کرنا ہے کہ…’’الیٰ مغفرۃ‘‘ کتاب کو مہم میں شامل کرنے کی وجہ یہ بنی کہ…الحمدللہ مسلمانوں کو اس کتاب سے کافی فائدہ پہنچ رہا ہے…اللہ تعالیٰ نے اپنے کئی مخلص اور مستغفر بندوں کو اس کتاب کی خدمت پر لگادیا ہے… ہمارے پروفیسر صاحب نے کراماتی رفتار کے ساتھ کتاب کا انگریزی میں ترجمہ…رمضان المبارک کی آخری راتوں میں مکمل کرلیا…اللہ تعالیٰ ان کو اپنی شایان شان جزائے خیر عطا فرمائے…اب انگریزی ترجمہ شائع ہونے کی تیاری میں ہے…بعض مخلص اور توّاب بندے زیادہ سے زیادہ افراد تک یہ کتاب پہنچانے کی مستقل محنت میں لگے ہوئے ہیں…کئی احباب نے القلم اور دیگر قومی اخبارات میں اس کتاب پر مخلصانہ کالم لکھے…اور کئی اَفراد سوشل میڈیا پر مستقل اس کتاب کو چلارہے ہیں، پھیلا رہے ہیں…
اللہ تعالیٰ ان سب کو اپنی مغفرت کاملہ اور جزائے خیر عطا فرمائے…الحمدللہ اس کتاب سے دعوت جہاد اور جہاد کے کام کو ایک نئی قوت اور تازگی ملی ہے…اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اللہ تعالیٰ کے مخلص فدائی مجاہدین اس پر بہت خوش ہیں…اللہ تعالیٰ کے یہ وفادار بندے جماعت کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور محبت پر دیکھنا چاہتے ہیں…
انہیں جماعت میں کوئی دینی ترقی نظر آتی ہے تو بے حد خوش ہوتے ہیں…اور جب وہ جماعت کے افراد میں کوئی دینی کمزوری دیکھتے ہیں تو بے چینی سے تڑپ اٹھتے ہیں…یہ خوش نصیب جو اپنی جان بیچ چکے ہیں ان کو اپنے جماعتی ساتھیوں کا موبائل اور نیٹ سے مشغول ہونا…دنیا داری کے دھندوں میں پھنسنا…اور عبادات میں سستی کرنا، بہت تکلیف دیتا ہے…وہ حیران ہوتے ہیں کہ…ایک مجاہد کس طرح ان معاملات میں الجھ سکتا ہے…
جب بھی جماعت میں توبہ اور استغفار کی تازہ ہوا چلتی ہے تو …یہ فدائی دیوانے مسرت سے جھومنے لگتے ہیں…اور خوشی و مبارکباد کے پیغامات بھیجتے ہیں…’’الیٰ مغفرۃ‘‘ کتاب کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے ہزاروں مسلمانوں کو رحمت ، امید اور عزم کا پرنور راستہ عطا فرمایا ہے…جو رفقاء ابھی تک یہ کتاب نہیں پڑھ سکے وہ ہمت کرکے پڑھ لیں…اور پھر دوسروں تک بھی…اللہ تعالیٰ کا معافی، مغفرت اور رحمت والا پیغام پہنچاتے رہیں…
جزاکم اللہ خیرا
الحمدللہ عیدالاضحیٰ کے موقع پر جماعت کی تمام مہمات پر…اللہ تعالیٰ کا فضل رہا…نفل قربانی کی مہم کا یہ پہلا سال تھا…کسی کو توقع نہیں تھی کہ یہ مہم اس قدر کامیاب ہوگی…مگر مشورے میں روشنی، اجتماعیت میں قوت اور اخلاص ومحنت میں کامیابی رکھ دی گئی ہے…الحمدللہ یہ نصاب مکمل تھا…پہلے بہت جامع مشورہ ہوا تو روشنی آگئی…پھر اجتماعی ترتیب بنی تو ہمت وقوت آگئی…پھر اخلاص کے ساتھ دیوانوں نے محنت کی تو کامیابی آگئی…الحمدللہ تمام تقاضے پورے ہوئے اور اس مشق کی برکت سے آئندہ کے لیے بھی راستے کھل گئے…محنت کرنے والے رفقاء کرام کا شکریہ…اور نفل قربانی وقف کرنے والے مسلمانوں کا بھی شکریہ…
اللہ تعالیٰ آپ سب کو ایمان کامل اور خوب جزائے خیر عطا فرمائے…عیدالاضحیٰ کی اہم ’’مہم‘‘ چرم قربانی کی ہوتی ہے…الحمدللہ نہ کھال مقصودہے، نہ مال مقصود…مقصد یہ ہوتا ہے کہ جماعت کے ساتھی دین اور جہاد کی خدمت میں لگیں…اور مسلمانوں کا مال دین اور جہاد کی خدمت پر لگ جائے…
اس میں لینے والوں کا بھی فائدہ…اور دینے والوں کا بھی فائدہ…انسان کا وہی وقت قیمتی ہے جو اللہ تعالیٰ کی رضا میں لگ جائے…اور انسان کا وہی مال قیمتی ہے جو اللہ تعالیٰ کی رضا میں خرچ ہوجائے…اس مہم کی برکت سے…جماعت کے ساتھیوں کا وقت قیمتی بنتا ہے…اور مسلمانوں کا مال ایک عظیم کام پر خرچ ہوتا ہے…جہاد سے محرومی کی سزا ’’ذلت‘‘ ہے…دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی…یہ بات قرآن وسنت میں بالکل واضح ہے…اور دنیا میںچاروں طرف ہمیں اپنی آنکھوں سے نظر آرہی ہے…پس جس کا وقت جہاد پر لگ جاتا ہے، وہ بھی خوش نصیب اور جس کا مال جہاد پر لگ جاتا ہے وہ بھی خوش نصیب…بدبختی، بدنصیبی اور ذلت سے بچنے کے لیے اور اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوش نصیبی پانے کے لیے…یہ ’’مہمات‘‘ چلائی جاتی ہیں…
اس سال حالات کی وجہ سے بظاہر اندھیرا تھا…مگر الحمدللہ…اللہ تعالیٰ کی توفیق سے نصاب پورا تھا…مشورہ اور اجتماعیت…اخلاص اور محنت…حکومت نے بہت کوشش کی کہ پاکستان میں امن ورحمت کے یہ چراغ بھی بجھ جائیں…مگر اللہ تعالیٰ کا بہت فضل رہا اور چرم قربانی کی مہم بہت کامیاب رہی…اس مہم میں محنت اور تعاون کرنے والے…رفقاء اور اہل اسلام کا شکریہ…یغفراللہ لی ولکم وجزاکم اللہ خیرا…
آئینے جیسے دل
ایک عارف باللہ فقیر نے دلی کی تہاڑ جیل میں بیٹھ کر…ایک ’’آئینہ‘‘ تیار کیا اور ہمیں بھجوا دیا…پھر وہ خود ایک شفاف ’’آئینہ‘‘ بن کر…اونچی پروازوں پر چلا گیا…اس کا تیار کردہ ’’آئینہ‘‘…یہ ساحرانہ تاثیر رکھتا ہے کہ…سخت اور کالے دلوں کو بھی…روشن اور شفاف ’’آئینہ‘‘ بنادیتا ہے…آئینہ کتاب کی پہلی تقریب رونمائی دہلی کے پھانسی گھاٹ پر ہوئی…جہاں مسکراتے ہوئے افضل نے اپنی کتاب پر…سب سے پہلے عمل کرتے ہوئے…ایک عجیب روشن زندگی پالی…پھر دوسری تقریب…مظفرآباد کے ایک وسیع و عریض میدان میں…ہزاروں مجاہدین کے درمیان ہوئی…وہ دن ہے اور آج کل کا دن…یوں لگتا ہے کہ…ولی کامل مجاہد اسلام حضرت شیخ محمد افضل گورو قدس سرہ کی روحانی سلطنت…دہلی سے کوہالہ تک قائم ہوچکی ہے…
جہاد کشمیر کی تحریک نے اس آئینے سے روشنی لے کر…ایسی کروٹ لی کہ کفر کے ایوانوں میں بھونچال آگیا…اب الحمدللہ شہید افضل کی روحانی سلطنت کا دور ہے…اور مخلص مجاہدین تیزی سے جہاد کشمیر کی صفوں میں آرہے ہیں…گزشتہ دو سالوں میں کشمیر کے اس طبقے نے بندوق اٹھائی ہے… جس کے بارے میں…کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا تھا کہ…یہ طبقہ بھی جہاد پر آئے گا…ہاں بے شک شہید ولی کی سلطنت بہت وسیع ہوتی ہے…یوں لگتا ہے کہ جیسے دلی قیام کے دوران تہاڑ جیل کی تاریک راتوں میں…حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ…حضرت خواجہ نظام الدین اولیاءؒ…اور حضرت سلطان التمشؒ نے خوابوں میں آکر افضل شہید کے سر پر اپنی روحانی طاقت کے تاج رکھ دیئے ہیں…بے بسی، آہ و زاری اور آنسوئوں والی ان راتوں میں…افضل نے معلوم نہیں کون کون سے مقامات طے کر لیے…اسی لیے تو وہ ہر وقت مسکراتا نظر آتا تھا … لوگ چار دن اپنے ملک کی قید پر…چیخ چیخ کر آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں…مگر افضل تو ہر وقت مسرور تھا…کسی اندرونی نشے سے مخمور تھا…ہم سے اس کے بارے میں کئی کوتاہیاں ہوئیں…مگر اس نے کوئی شکوہ نہیں کیا…اس کو وہ سب کچھ مل چکا تھا…جو ایک مسلمان کی سب سے بڑی خواہش اور بڑی ضرورت ہے…ہاں! اللہ تعالیٰ کا قرب، اللہ تعالیٰ کی معرفت، اللہ تعالیٰ کی محبت …اور اللہ تعالیٰ کی رضاء الحمدللہ آئینہ کتاب دور دور تک پھیل چکی ہے…افضل کے دشمن افضل کی روشنی اور خوشبو کو پھیلنے سے نہیں روک سکے…اس کتاب کے کئی زبانوں میں ترجمے ہوچکے ہیں…مقبوضہ کشمیر کی گلی گلی میں یہ آئینہ چمک رہا ہے…جیش والو! اب تمہارا کام ہے کہ…ولی شہید کی سلطنت کا ثمر سمیٹو…زیادہ سے زیادہ افراد تک آئینہ پہنچائو…ہندوستان، پاکستان اور کشمیر سے زیادہ سے زیادہ مجاہدین اٹھا کر افضل کے زیرِکمان لشکر میں کھڑا کرو…اب تمہیں کوئی نہیں روک سکتا کیونکہ حکومت افضل کی ہے … بہت اچھا موقع ہے کہ اپنے تمام شہداء کا بھر پور انتقام لو… اگلے، پچھلے سارے قرضے چکادو… اور غزوۂ ہند کو اس کی معراج تک لے جائو…
ایک رسم کی اصلاح
حضرت آقامدنیﷺ سے بڑھ کر… مخلوق میں کوئی ’’محبوب‘‘ نہیں… کوئی محترم نہیں…اور حضرات صحابہ کرام سے بڑھ کر…حضرت آقا مدنی ﷺ سے محبت کرنے والا … اور آپﷺ کا احترام کرنے والا … اور کوئی نہیں … حضرت آقا مدنیﷺ جب خطبہ ارشاد فرمانے مسجد میں تشریف لاتے تو… صحابہ کرام کو اجازت نہیں تھی کہ آپﷺ کے لئے کھڑے ہوجائیں…
وہ احترام کے ساتھ بیٹھے رہتے… اور ایسی توجہ اور ادب سے خطبہ سنتے کہ جیسے سراپا گوش ہوں… آپﷺ کے بعد آپ کے جانشین خلفاء راشدین… اور پھر حضرات محدثین کا بھی یہی طرزعمل رہا ہے… ابھی کچھ عرصہ سے دینی جلسوں میں یہ رسم پڑگئی ہے کہ… خطباء کرام اور مہمانوں کے آنے پر مجمع کو زبردستی کھڑا کیا جاتا ہے…یہ غلطی ہماری جماعت کے جلسوں میں بھی…غیر شعوری طور پر داخل ہوگئی… اور اب اس کا دائرہ وسیع ہوتا جارہا ہے…
خطباء،علماء اور کمانڈروں کے لئے… مسلمانوں کو کھڑا کیا جاتا ہے… اگرچہ وہ خطباء علماء اور کمانڈر نہ بھی چاہتے ہوں… اس عمل میں کئی خرابیان ہیں… مثلاً
۱)اسیٹج پر اور جلسہ گاہ میں بزرگ حضرات، علما ء کرام اور اولیاء عظام بھی ہوتے ہیں… ایسے قابل احترام حضرات کو کسی کے لیے کھڑا کرنا … اللہ تعالیٰ کی ناراضی کا ذریعہ بن سکتا ہے …
۲) کسی کے احترام میں کھڑا ہونا جائز ہے… مگر اس وقت جب کھڑا ہونے والا اپنی مرضی اور خوشی سے کھڑا ہو… اجتماع یا جلسہ میں چونکہ اعلان کر کے اور حکم دے کر لوگوں کو کھڑا کیا جاتا ہے تو معلوم نہیں ہو سکتا کہ کون اپنی خوشی سے کھڑا ہوا… اور کون اپنی عزت بچانے کے لئے…
۳)اس عمل کی وجہ سے اگر کسی کے دل میں یہ شوق پیدا ہوگیا کہ لوگ اس کے لئے کھڑے ہوا کریں تو یہ بڑاخطرناک اور نقصان دہ شوق ہے… جو انسان کے بڑے بڑے اعمال کو اکارت کردیتا ہے…
دینی جلسوں کا مقصد… اللہ تعالیٰ کی عظمت اور بڑائی بیان کرنا … اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنا … اسلامی احکامات اور جہاد کی دعوت دینا ہے…ان جلسوں اور اجتماعات کا مقصد لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے سامنے جھکانا اور دین کی خدمت کے لئے کھڑا کرنا ہوتا ہے… اس لئے ان اجتماعات کو ایسی رسومات سے پاک رکھا جائے … جو ان اجتماعات کے بنیادی مقاصد کے خلاف ہوں…
بندہ کا ارادہ تھا کہ … جب اللہ تعالیٰ نے توفیق دی اور خود کسی اجتماع میں شرکت کا موقع ملا تو… جماعتی اجتمامات میں اس ’’بری رسم‘‘ کے خاتمے کا اعلان کروں گا… مگر انتظار طویل ہوگیا … یہ بھی معلوم نہیں کہ مجھے موقع ملے گا یا نہیں … اور موت کا کچھ علم نہیں… اس لئے ماضی میں اس بارے ہم سے جو غلطی ہوئی اس پرتمام مسلمانوں سے معذرت کرتا ہوں… اور آج سے جماعتی اجتماعات اور جلسوں میں اس رسم پر پابندی کا اعلان کرتا ہوں… ہمارے جلسوں میں جو مسلمان تشریف لاتے ہیں ہم ان کا بے حد احترام کرتے ہیں… ہم ان کی عزت نفس کا خیال رکھتے ہیں… اور اب ہم ان کو اپنے لئے یا کسی کے لئے کھڑا نہیں کریں گے… اسی طرح جماعتی خطباء حضرات سے بھی تاکیدی گذارش ہے کہ … وہ مسلمانوں کے مجمع کا احترام کریں… بار بار ان کے ہاتھ اٹھوانا، ان کو کھڑا کرنا ان کی ناقدری ہے یہ کام ہرگز نہ کریں… بار بار وعدے نہ لیں… بس آخری خطیب اگر کسی جہادی محاذ یا تحریک کے لئے تشکیل کا اعلان کرنا چاہتا ہو تو وہ… کہہ سکتا ہے کہ جو تیار ہو وہ ہاتھ اٹھائے یا کھڑا ہو کر نام لکھوائے… اسلام میں ’’خطیب‘‘ کا بہت اونچا مقام ہے… حضرات انبیاء علیہم السلام سارے کے سارے ’’خطباء‘‘ تھے… قرآن مجید نے اُن کے ’’خطبات‘‘ کا جابجا تذکرہ فرمایا ہے… جو ’’خطیب‘‘ اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے خطاب کرتا ہو اور لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف بلاتا ہو تو… اس کا اجر اللہ تعالیٰ کے ہاں اس قدر بڑا ہے کہ… عام لوگ اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے… بس شرط ایک ہی ہے کہ… خطیب میں اخلاص ہو… اور وہ خود باعمل ہو… بندہ نے کچھ عرصہ قبل خطیب کے عظیم مقام اور خطابت کے شرعی آداب پر ایک مضمون لکھا تھا… وہ ابھی تک شائع نہیں ہوا… موقع ملا تو ان شاء اللہ رنگ ونور میں شائع کردیا جائے گا… خطبا ء کرام کو اس نعمت پر اللہ تعالیٰ کا شکرادا کرنا چاہئے… تواضع اختیار کرنی چاہئے… اور اس نعمت کی قدر کرتے ہوئے خطاب سے پہلے… استغفار اور دعاء کا بہت اہتمام کرنا چاہئے…
لاالہ الااللّٰہ ، لا الہ الا اللّٰہ ، لاالہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
اللہم صل علی سیدنا محمد وآلہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
٭…٭…٭

اکیلے بالکل اکیلے
رنگ و نور ۔۔۔سعدی کے قلم سے (شمارہ 513)
اللہ تعالیٰ کے سامنے ہر شخص نے ’’اکیلے‘‘ پیش ہونا ہے، جس طرح کہ ہر شخص’’اکیلا‘‘ پیدا ہوا…
ارشاد فرمایا!
وَلَقَدْ جِئْتُمُونَا فُرَادیٰ( الآیۃ)
’’یقینا تم ہمارے پاس آؤ گے الگ الگ جیسا کہ ہم نے تمہیں پہلی مرتبہ پیدا کیا اورتم نے اپنی پیٹھ پیچھے چھوڑ دیا جو ہم نے تمہیں عطا ء کیا تھا۔‘‘( سورۃ انعام۔ آیت: ۹۴)
دنیا میں جو بھی آیا ،خالی ہاتھ آیا…نہ تن پر کپڑے تھے، نہ پائوں میں جوتا تھا… نہ جیب تھی نہ مال… نہ کوئی لیڈر تھا نہ کوئی کارکن… نہ کوئی صدرتھا نہ وزیر اعظم… نہ کوئی حضرت تھا نہ کوئی پیر…بالکل اسی طرح اللہ تعالیٰ کے سامنے میدان حشر میں پیشی ہوگی، نہ جسم پر کپڑے ہوں گے نہ پائوں میں جوتے…نہ مال ساتھ ہوگا نہ نوکر، خادم اور احباب… دنیا میں اکیلے آئے تھے اور قیامت کے دن اکیلے پیش ہوں گے… پس جو یہاں ’’تنہا‘‘ ہے ،وہ نہ گھبرائے… ناشکری اور مایوسی میں مبتلا نہ ہو، اور جو یہاں محبوب ہے اور ہروقت خادموں، نوکروں اور دوستوں میں گھرا ہواہے وہ نہ اِترائے، فخر میں مبتلا نہ ہو… آدمی کے ساتھ بس وہی کچھ جائے گا جو اس نے دنیا میں رہتے ہوئے… اللہ تعالیٰ کے لئے کیا اورآخرت کے لئے بھیجا…
حق اور باطل کی حکایت
کسی نے بات سمجھانے کے لئے حق اور باطل کی ایک تمثیل پیش کی ہے… حق سیدھا سادہ ہے، سچ بولنے والا دنیا میں جیسے بھی ہو گذارہ چلانے والا… سختیاں اور پریشانیاں جھیلنے والا… جبکہ باطل بہت چالاک ہے، مکار ہے، جھوٹ بولنے والا، دنیا کے ہر مفاد کو حاصل کرنے والا… کہتے ہیں کہ… حق اپنے گھر سے اچھا لباس پہن کر سواری پر بیٹھا اور روانہ ہوا… راستے میں میں اسے باطل مل گیا… باطل نے دھوکے کے ذریعہ حق سے اس کے کپڑے لیکر خود پہن لئے، حق ایک خستہ حال چادر میں رہ گیا… پھر باطل نے ایک چال چلی اور حق سے اس کی سواری چھین لی… اب وہ گھوڑے پر جا رہا تھا اور حق پیدل پیدل… دیکھنے والے سمجھ رہے تھے کہ باطل کامیاب رہا اور حق ناکام… مگر آگے ایک جنگل تھا اس کے وحشی درندوں نے یہ طئے کر رکھا تھا کہ… جو شخص جنگل سے سوار گذرے گااور اچھے لباس میں ہوگا اس کو وہ کھا جائیں گے…اور جو پیدل پرانے لباس میں ہوگا اس کو گذرنے دیں گے… حق اور باطل اس جنگل میں داخل ہوئے… باطل مارا گیا اور حق جنگل سے پار ہو کر ہمیشہ ہمیشہ والی راحت میں پہنچ گیا… اہل باطل دنیا میں چند دن عیش آرام ، ظاہری عزت پاکر… قبر کے جنگل میں مارے جاتے ہیں … جبکہ اہل حق دنیا میں چند دن کی تکلیف اور اذیت سہہ کر… قبر کے راحت والے دروازے سے …’’علیین‘‘ کی پرواز میں جا بیٹھتے ہیں…اس لئے ’’ترقی یافتہ ‘‘ وہ ہے جو دنیا میں رہتے ہوئے آگے کی تنہائی ختم کرنے کا سارا سامان آخرت میں بھیج دے… یہاں اس کو جو مال ملے اس سے وہ آخرت خریدے،یہاں جو عزت ملے اس سے آخرت بنائے… یہاں جو دوست احباب ملیں ان کو بھی… آخرت کا سرمایہ بنائے… وہ آخرت کہ دنیا کے سب دوست اس میں سخت دشمن ہوں گے… سوائے ان کے…جن کی دوستی صرف اللہ تعالیٰ کے لئے ہوگی… دین پر ہوگی اور دین کے مطابق ہوگی…
ترقی کی ایک مثال
کل کی بات ہے کہ خبر آئی… مقبوضہ کشمیر میں ہمارے جانباز اور مخلص کمانڈر استاذ عدیل’’جام شہادت‘‘ نوش فرماگئے …ان کا اصلی نام’’غلام مصطفی‘‘ تھا… عباس پور آزاد کشمیر کے رہائشی تھے … سالہا سال تک وادی میں مشرکین کے خلاف جہاد کی کمان کرتے رہے… خبر آئی تو دعاء اور ایصال ثواب کے بعد ارادہ تھا کہ ان کے اہل خانہ کو مبارک و تعزیت کا پیغام بھیجا جائے… شہادت کی مبارک اور طبعی صدمے پر تعزیت…ابھی سوچ ہی رہا تھا کہ … شہید کے والد گرامی کا پیغام آگیا… اور میں ایمان کی ترقی دیکھ کر حیران رہ گیا…
فرمایا… عدیل کی شہادت مبارک ہو… ایک اور بیٹا بھی اللہ تعالیٰ کے لئے وقف کردیا ہے… جہاں چاہیں بھیج دیں… سبحان اللہ ! عدیل کا ایک بھائی پہلے شہید ہوچکا ہے… اور اب ایک اور بھائی بھی وقف ہوچکا … اور والد محترم اپنی قسمت پر مسرور ہیں کہ… اللہ تعالیٰ نے ان کا سرمایہ اپنے پاس محفوظ فرمایا، قبول فرمایا… آج کتنے لوگ اپنے بیٹوں کی وجہ سے جہنم کی طرف دوڑ رہے ہیں… اور ایک یہ خاندان ہے کہ… باپ بیٹے سب اللہ تعالیٰ کی رضا اور جنت کی طرف دوڑ رہے ہیں… اسے کہتے ہیں ترقی… اسے کہتے ہیں بلندی…
القلم کے تمام قارئین سے… عدیل شہید … اور اُن کے پورے خاندان خصوصاً والدین کے لئے خصوصی دعاء کی درخواست ہے…
ہندوستان کی تاریخ بھی عجیب ہے… وہاں شرک ہی شرک تھا… پھر اللہ تعالیٰ کے مخلص اولیاء نے ہندوستان کا رخ فرمایا… اور انہوں نے مسلمان فاتحین کو جہاد کے لئے بلایا… افغانستان کی طرف سے مسلم فاتحین نے یلغاریں کیں…ان مجاہدین میں بڑے بڑے نامور اولیاء بھی شامل تھے… لکھا ہے کہ… محمود غزنویؒ کے لشکر کو جب سومنات میں کچھ مشکل کا سامنا ہوا تو… ایک بزرگ ولی ،جنکی عمر ایک سو بیس سال کے لگ بھگ تھی… تلوار لے کر میدان میں اترآئے…اُن کے مریدین نے اپنے شیخ کو اس حالت میں دیکھا تو وہ بھی جنگ میں دیوانہ وار کودپڑے… اور یوں غزنوی کا لشکر فتح یاب ہو گیا… سلسلہ چشتیہ کے نامور بانی… حضرت سلطان الھند السید معین الدین حسن چشتیؒ کے القاب میں… ایک لقب ’’قاتل الکفار‘‘ بھی لکھا ہے…اہل ایمان کو چاہیے کہ حضرت خواجہ چشتی قدس سرہ کے ملفوظات غور سے پڑھیں تاکہ اُن کے نام اور مزار کے ساتھ جو بدعات وخرافات جوڑی جاتی ہیں… ان کی حقیقت معلوم ہو… وہ اللہ تعالیٰ کے مقرب بندے اور عقیدۂ توحید سے سرشار…اسلام کے داعی تھے…کہا جاتا ہے کہ نوّے لاکھ اَفراد نے اُن کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا…جہاد اور دعوت کی برکات بھی بہت عجیب ہیں…انسان دنیا سے چلا جاتا ہے مگر اس کے عمل کا کارخانہ چلتا رہتا ہے…خصوصاً گمنام مجاہدین کا بہت بڑا مقام اور بہت بڑا کارخانہ ہے… زمین پر ہونے والی ہر نیکی اور ہر خیر، ہر نماز اور ہر اذان، ہر عمرے اور ہر حج میں اُن کا اجر شامل ہوتا ہے اور نام نہ ہونے کی وجہ سے یہ اجر اور زیادہ بڑھ جاتا ہے…مسلمان فاتحین اور اولیاء و علماء کی محنت سے پورا ہندوستان اسلام کے رنگ میں آگیا…وہاں مسلمانوں کی حکومت قائم ہوگئی جو کئی صدیوں تک چلتی رہی…
مگر اب پھر پورے ہندوستان کو…شرک کی سیاہی میں ڈبونے کی کوشش جاری ہے…
آر ایس ایس اور وشوا ہندو پریشد اپنے اس عروج کی انتہا کو پہنچ چکے ہیں…یقینی بات ہے کہ عروج کے بعد زوال کی کھائی ہے…سو سال کی جان توڑ محنت کے بعد آج ہندوستان میں ایک قاتل ہندو متعصب کی حکومت ہے…رنگ برنگے کپڑے پہننے کا شوقین کیمرے کے سامنے رہنے کا حریص…اورہرکسی کے گلے میں بانہیں ڈالنے کا مشتاق ایک ہیجڑا…نریندر مودی…
آر ایس ایس سمجھ رہی ہے کہ…مودی اس کے خوابوں کی تعبیر ہے…بے شک وہ ٹھیک سمجھ رہی ہے مگر یہ تعبیر بہت بھیانک ہے…خوابوں کی دنیا عجیب ہے…جو خواب اچھے اور سہانے نظر آتے ہیں ان کی تعبیر اکثر خطرناک اور بھیانک ہوتی ہے مثلاً خواب میں خوبصورت عورتیں دیکھنا اس کی تعبیر اچھی نہیں…جبکہ وہ خواب جو بڑے خطرناک نظر آتے ہیں… ان کی اکثر تعبیر اچھی ہوتی ہے… مثلاً بیٹے یا بھائی کا مرنا وغیرہ… مودی آر ایس ایس کے خوابوں کی تعبیر ضرور ہے مگر یہ تعبیر بہت بھیانک ہوگی…کیونکہ جہاد کا دور زندہ ہوچکا ہے کشمیر کے مسلمان اس قدر غیرتمند ہیں کہ… وہاں اب گلی گلی میں گائے ذبح ہورہی ہے…کیونکہ حکومت نے گائے ذبح کرنے پر سخت پابندی لگادی ہے۔ ہندوستان کے جنوب اورشمال میں آزادی کی تحریکیں پل رہی ہیں اور ہندوستان کے مسلمان عزم اور جذبے سے سرشار ہیں…مودی اگر جنگ پر اُتراتو وہ ابتدائی کامیابی کے بعد…بہت بڑی شکست کھائے گا…اور ہندوستان میں ان شاء اللہ حضرت اجمیریؒ، حضرت ہمدانیؒ، حضرت غزنویؒ اور حضرت غوریؒ کا زمانہ…زندہ ہوجائے گا…
ترقی کی ایک اور مثال
یہاں ایک اور بات یاد آگئی…آپ میں سے کئی حضرات کو ۲۰۰۱؁ کے وہ خونی دن یاد ہوں گے… جب افغانستان میں امارتِ اسلامیہ کے آخری دن تھے…صلیبی خونخواری کا سب سے بھیانک واقعہ قندوز میں پیش آیا…مجاہدین کے قافلوں پر ڈیزی کٹر بم برسائے گئے…ہزاروں مجاہدین نے وہاں جامِ شہادت نوش فرمایا…ان میں اسّی سے زائد ہمارے ساتھی بھی تھے…پھر شبرغان کی خیانت اور ظلم کا واقعہ ہوا…اور امارت اسلامیہ کا سورج وقتی طور پر پہاڑوں کے پیچھے چھپ گیا…
اُن واقعات کو سامنے رکھیں اور آج کل کی یہ خبر پڑھیں کہ…طالبان نے قندوز پر قبضہ کرلیا ہے تو دل اور زبان سے بے ساختہ تکبیر بلند ہوتی ہے…
اللہ اکبر، اللہ اکبر، اللہ اکبرکبیرا…
سبحان اللہ! وہ جن کو آتشیں بموں سے جلاکر ریزہ ریزہ کردیا گیا تھا وہ آج پھر فاتح بن کر ابھرے ہیں…بے شک شہداء نہیں مرتے…بے شک شہدا نہیں مرتے…
اور وہ جو کل تک فاتح اور قابض تھے…آج ذلیل ورسوا اور ایسے بدحواس ہیں کہ…اپنے ہسپتالوں پر بمباری کررہے ہیں…اے مسلمانو! جہاد کی صداقت کے لیے اور کیا دلیل چاہیے…؟ آج ہمارے ہاتھ میں جو کچھ ہے اسے دین پر اور جہاد پر لگادیں یہ سب کچھ محفوظ ہوجائے گا…اور کل ہمارے کام آئے گا…اس لیے کے کل اللہ تعالیٰ کے حضور اکیلے پیش ہونا ہے…بالکل اکیلے…
لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
اللھم صل علی سیدنا محمد وآلہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
٭…٭…٭
الکوثر
رنگ و نور ۔۔۔سعدی کے قلم سے (شمارہ 512)
اللہ تعالیٰ ہم سب کو ’’الکوثر‘‘ … میں سے حصہ عطا فرمائے…
الکوثر کیا ہے
یہ بات تو ہر مسلمان جانتا ہے کہ قرآن مجید میں ایک سورہ مبارکہ کا نام ’’سورۃ الکوثر‘‘ ہے… حضرت شاہ صاحبؒ لکھتے ہیں: یہ سورۃ مکی ہے اور اس میں تین آیتیں، بارہ کلمے اور بیالیس حرف ہیں …اس سورۃ کے نازل ہونے کا سبب یہ تھا کہ رسول اللہ ﷺ کے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے دو صاحبزادے تھے…قاسم اور عبد اللہ… لقب ان کا طیب اور طاہر تھا… یہ دونوں صاحبزادے بچپن میں وفات پا گئے… تب کفار نے طعنہ دیا کہ یہ پیغمبر ’’ابتر‘‘ ہے یعنی اس کی نسل ختم ہو گئی… ان کے بعد ان کے دین کو قائم اور برپا رکھنے والا کوئی نہیں ہو گا… اور ان کا دین اور نام مٹ جائے گا۔ ( تفسیر عزیزی)
اللہ تعالیٰ نے سورۃ نازل فرمائی…اِنَّا اَعْطَیْنٰکَ الْکَوْثَرَ … اے نبی! ہم نے آپ کو اتنی زیادہ، اتنی وسیع اور اتنی بڑی خیریں عطا فرما دی ہیں…جو خیریں کبھی ختم نہ ہوں گی… اور یہ تمام خیریں آپ کے دین اور آپ کے نام کے ساتھ جڑی رہیں گی… اگر نرینہ اولاد نہیں تو کیا ہوا؟ … کبھی اولاد بہت ہوتی ہے مگر وہ نہ تو انسان کے نام کو زندہ رکھتی ہے اور نہ اس کے کام کو… اللہ تعالیٰ نے آپ کو بیٹوں کی نسل نہیں دی…مگر آپ کو ’’الکوثر ‘‘ دی ہے… الکوثر کے معنی بہت زیادہ خیر … خیر کثیر… اور’’ الکوثر‘‘ کا معنی وہ حوض کوثر جس کے قیامت کے دن سب نبی اور سب امتی محتاج ہوں گے…اس حوض کا پانی دودھ سے سفید، شہد سے میٹھا اور برف سے ٹھنڈا ہو گا… اور آپ ﷺ اس حوض کے مالک و مختار ہوں گے…اور الکوثر کا معنی بہت علم… اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ اور آپ کی امت کو وہ علوم عطا فرمائے جو پہلے کسی کو نہیں دئیے گئے …اور الکوثر کا معنیٰ قرآن مجید اور اس کا علم… قرآن مجید آپ ﷺ کو اور آپ کی امت کو عطا ہوا اور اس کا علم بھی… یہ ایسی بڑی خیر ہے کہ جو اگر کسی کو مل جائے تو اسے کسی اور چیز کی ضرورت ہی باقی نہیں رہتی… اور’’ الکوثر‘‘ کا معنیٰ …پانچ وقت کی نماز… سبحان اللہ! نماز میں جو نور مومن کے دل پر اُترتا ہے… وہ دودھ سے زیادہ سفید ہے…اور نماز میں مومن کو اللہ تعالیٰ سے مناجات کی جو لذت ملتی ہے وہ شہد سے میٹھی ہے… اور نماز میں ایمان والوں کو جو سکون ملتا ہے وہ برف سے زیادہ تسکین آور اور ٹھنڈا ہے… اور الکوثر کا معنیٰ …کلمہ طیبہ ’’لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ‘‘ … یہ بہت عظیم اور سب سے بڑی خیر ہے… جس کے پاس یہ خیر ہے وہ کامیاب ہے، وہی برقرار ہے…اور جو اس خیر سے محروم ہے وہ ابتر ہے،بدتر ہے ، محروم ہے، بے نسل ہے اور ناکام ہے…
اور الکوثر کا معنیٰ …بہت زیادہ اولاد… حقیقی اولاد بھی اور مجازی اولاد بھی… دو بیٹے وفات پا گئے مگر بیٹی سے اللہ تعالیٰ نے ایسی پاکیزہ اولاد کو کھڑاکر دیا جو… لاکھوں کی تعداد میں پھیل گئی…اور روحانی اور مجازی اولاد تو… ماشاء اللہ اتنی کثیر کہ… نہ کسی اورکو ملی اور نہ کسی اور کو مل سکتی ہے…
اللہ تعالیٰ نے ہمارے آقا ﷺ کو ’’الکوثر‘‘ یعنی بہت بڑی خیر عطا فرمائی… آپ ﷺ کا دین مبارک آپ کے بعد زندہ رہا اور زندہ ہے…اور آپ ﷺ کا نام مبارک بھی… اللہ تعالیٰ کے نام کے بعد سب سے محبوب، مقبول اور اونچا نام ہے …حضرت شاہ صاحب ؒ لکھتے ہیں:
اس آیت میں اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ…آپ ﷺ کی نسل ظاہری اور باطنی قیامت تک رہے گی… آپ ﷺ کی امت کے لوگ ممبروں اور مناروں پر چڑھ کر آپ ﷺ کا نام، اللہ تعالیٰ کے نام کے ساتھ پکارا کریں گے اور پانچوں وقت کی نماز میں…اور اس کے علاوہ بھی آپ ﷺ پر درود و سلام بھیجا کریں گے اور آپ ﷺ کی محبت میں جانبازیاں کریں گے… اور ہزاروں عاشق آپ ﷺ پر درود پڑھتے ہوئے ہر سال آپ کے روضہ مبارک کی زیارت کو دوڑیں گے… پس ذکر خیر آپ کا جاری رہے گا اور آپ کا دشمن ایسا گمنام ہو گا کہ…کوئی نام بھی اس کا نہ لے گا مگر لعنت اور پھٹکار کے ساتھ ( مفہوم تفسیر عزیزی)
خلاصہ یاد کر لیں…الکوثر کا مطلب
(۱) حوض کوثر،نہر کوثر (۲) کلمہ طیبہ: لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ (۳) قرآن مجید اور اس کا علم (۴) پانچ وقت کی نماز (۵)کثرت علم (۶) کثرت اولاد … حقیقی اور مجازی …
ہم نے آج کی مجلس کا آغاز اسی دعاء سے کیا کہ… اللہ تعالیٰ ہمیں ’’الکوثر‘‘ میں سے حصہ عطاء فرمائے دنیا میں بھی… اور آخرت میں بھی… آمین یا ارحم الراحمین
ویسے حضرت امام قرطبیؒ نے اپنی تفسیر میں ’’الکوثر‘‘ کے سولہ معانی لکھے ہیں…یعنی اس کے معنیٰ اور مطلب میں مفسرین کے سولہ اَقوال ہیں …اہل ذوق تفسیر قرطبی میں ملاحظہ فرما لیں…
تین اَسباق
قرآن مجید کی ہر آیت اور سورت کا ایک خاص نور ہوتا ہے… جب کوئی بندہ اس آیت کو اخلاص سے تلاوت کرتا ہے تو وہ روشنی اور نور اس کے دل پر اُترتا ہے… آپ آیۃ الکرسی کا ترجمہ سمجھ لیں…پھر توجہ سے آیۃ الکرسی کی تلاوت کرتے جائیں …ہرجملے کے ساتھ دل پر ایک الگ روشنی ،قوت، کیفیت اُترتی چلی جائے گی…
اس سورہ مبارکہ میں فرمایا…اِنَّا اَعْطَیْنٰکَ الْکَوْثَرْ … معلوم ہوا کہ بڑی خیر اور اصل خیر حضور اقدس ﷺ کو عطاء فرمائی گئی ہے… آپ ﷺ کی تشریف آوری کے بعد …اب اصلی خیر ، حقیقی خیر اور بڑی خیر… صرف اسی کو مل سکتی ہے جو آپ ﷺ سے وابستہ ہو گا… پس جو لوگ آپ ﷺ سے کٹے ہوئے ہیں…وہ بڑی خیر سے محروم ہیں…خواہ دنیا بھر کے حکمران بن جائیں ، یا اَرب پتی سرمایہ دار یا بڑے سائنسدان …یہ سب ناکام ہیں، محروم ہیں، ذلیل ہیں، نامراد ہیں،خاسر ہیں… مسلمانوں کو کبھی بھی ان سے ہرگز متاثر نہیں ہونا چاہیے…دنیا کی عارضی چمک دمک ایک وقتی تماشا ہے…
دوسرا سبق یہ کہ …خیر کی چیزوں میں کثرت اچھی بات ہے… جبکہ دنیا کے معاملات میں کثرت کی خواہش بری ہے… ایک طرف فرمایا: ’’اَلْھٰکُمُ التَّکَاثُرُ‘‘ تمہیں کثرت کی خواہش نے غفلت اور ہلاکت میں ڈال دیا… جبکہ یہاں فرمایا: اِنَّا اَعْطَیْنٰکَ الْکَوْثَرْ ہم نے آپ کو کثرت عطاء فرمائی…یعنی خیر کی کثرت… ’’خیر کثیر‘‘کی تمام چیزیں حضور اقدسﷺکو عطاء ہوئیں… حوض کوثر بھی، کلمہ طیبہ بھی، قرآن مجید بھی، علم بھی، نماز بھی… اب اہل ایمان کو چاہیے کہ وہ آپ ﷺ سے اپنا تعلق مضبوط بنا کر ان خیروں میں سے زیادہ سے زیادہ اپنا حصہ حاصل کر لیں… اور اپنے دل میں ان خیروں کو زیادہ سے زیادہ کثرت کے ساتھ پانے کی تمنا اور خواہش بھی رکھیں…
تیسرا سبق یہ کہ… حضور اقدس ﷺ کو یہ خوشخبری سنائی گئی کہ…ہم نے آپ کو بہت خیر عطاء فرما دی ہے…اس خوشخبری کے فوراً بعد فرمایا:
فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ
پس آپ اپنے رب کے لئے نماز ادا کریں اور قربانی کریں…
یعنی بڑی خیر پانے کے شکرانے میں… آپ نماز اور قربانی کا بہت اہتمام فرمائیں…اس میں امت کے لئے یہ اشارہ بھی ہو سکتا ہے کہ…بڑی خیر میں سے زیادہ سے زیادہ حصہ پانے کا طریقہ نماز اور قربانی میں زیادہ محنت ہے… پس جو مسلمان نماز میں سے زیادہ حصہ پائے گا…اور جو قربانی میں زیادہ اخلاص دکھائے گا…وہ بڑی خیر میں سے بھی ان شاء اللہ زیادہ حصہ پائے گا…وہ بڑی خیر… جو اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیبﷺ کو عطاء فرمائی ہے…
الحمد للہ عید الاضحی آ رہی ہے… قربانی کے ذریعہ مسلمان اللہ تعالیٰ کا قرب اور خیر کثیر میں سے حصہ پا سکتے ہیں… اور ان لوگوں کے مقام کا تو پوچھنا ہی کیا جو اپنی جان اللہ تعالیٰ کے لئے جہاد فی سبیل اللہ میں پیش کرتے ہیں…یہ لوگ تو ایسے قیمتی ہیں کہ… اللہ تعالیٰ ان کا خریدار ہے… فَطُوبیٰ لَھُم…
حوض کوثر
قیامت کے دن سب پیاس سے بے حال و بے تاب ہو رہے ہوں گے… اور وہاں صرف ایک حوض ہو گا…حوض کوثر… یہ حضور اقدس ﷺ کا حوض مبارک ہے… جسے آپ ﷺ پلائیں گے وہی اس سے پی سکے گا… اور پھر کبھی پیاسا نہ ہو گا… حوض کوثر کے بارے میں جو روایات آئی ہیں ان کو مد نظر رکھ کر حضرت مولانا عاشق الٰہی صاحبؒ لکھتے ہیں:
حاصل سب روایات کا یہ ہے کہ اس حوض کی مسافت سینکڑوں میل ہے، برف سے زیادہ ٹھنڈا اور شہد سے زیادہ میٹھا ہے اور مشک سے بہتر اس کی خوشبو ہے، اس کے پیالے آسمان کے ستاروں سے بھی زیادہ ہیں،جو اس میں سے ایک مرتبہ پی لے گا اس کے بعد کبھی بھی پیاسا نہ ہوگا، سب سے پہلے اس پر مہاجر فقراء آئیں گے کسی نے سوال کیا کہ یا رسول اللہ ! ان کا حال بتا دیجئے…ارشاد فرمایا: یہ وہ لوگ ہیں (دنیا میں) جن کے سروں کے بال بکھرے ہوئے اور چہرے ( بھوک اور محنت کے باعث) بدلے ہوتے تھے ان کے لئے (بادشاہوں اور حاکموں) کے دروازے نہیں کھولے جاتے تھے… اور عمدہ عورتیں ان کے نکاح میں نہیں دی جاتی تھیں اور ان کے ذمہ جو (کسی کا) حق ہوتا تھا وہ پورا ادا کرتے تھے اور ان کا حق جو (کسی پر) ہوتا تھا تو پورا نہ لیتے تھے( بلکہ تھوڑا بہت) چھوڑ دیتے تھے ( الترغیب والترہیب)
یعنی وہ اہل ایمان جو دنیا میں خستہ حال اور نظر انداز تھے آخرت میں ان کا اعزاز یہ ہو گا کہ حوض کوثر پر سب سے پہلے پہنچیں گے…
عید کی سنتیں
گذشتہ کالم میں عید کی سنتوں کا تذکرہ تھا… یہ سنتیں پہلے کئی بار بیان کی جا چکی ہیں… مگر تقاضا آیا کہ انہیں پھر شائع کیا جائے…عید کے دن تیرہ چیزیں سنت ہیں:
(۱) شرع کے موافق اپنی آرائش کرنا (۲) غسل کرنا (۳) مسواک کرنا (۴) حسب طاقت عمدہ کپڑے پہننا (۵) خوشبو لگانا (۶) صبح کو بہت جلد اٹھنا (۷) عید گاہ میں بہت جلد جانا ( ۸) عید الفطر میں صبح صادق کے بعد عید گاہ جانے سے پہلے کوئی میٹھی چیز کھانا اور عید الاضحیٰ میں نماز عید کے بعد اپنی قربانی کے گوشت میں سے کھانا مستحب ہے (۹) عید الفطر میں عید گاہ جانے سے پہلے صدقہ فطر ادا کرنا (۱۰) عید کی نماز عید گاہ میں پڑھنا، بغیر عذر شہر کی مسجد میں نہ پڑھنا (۱۱) ایک راستے سے عید گاہ جانا اور دوسرے راستے سے واپس آنا (۱۲) عید گاہ جاتے ہوئے راستہ میں اللّٰہ اکبر، اللّٰہ اکبر، لا الہ الا اللّٰہ واللّٰہ اکبر ، اللّٰہ اکبر وللّٰہ الحمد عید الفطر میں آہستہ آہستہ کہتے ہوئے جانا اور عید الاضحی میں بلند آواز سے کہنا (۱۳) سواری کے بغیر پیدل عید گاہ جانا (نور الایضاح …بارہ مہینوں کے فضائل و احکام)
رنگ ونور کے تمام قارئین کو بندہ کی طرف سے قلبی ’’عید مبارک‘‘
تَقَبَّلَ اللّٰہُ مِنَّا وَمِنْکُمْ
لا الہ الا اللّٰہ، لا الہ الا اللّٰہ ،لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
اللہم صل علی سیدنا محمد وآلہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
٭…٭…٭
بڑے دنوں کا نصاب
رنگ و نور ۔۔۔سعدی کے قلم سے (شمارہ 511)
اللہ تعالیٰ خالق ہے، مالک ہے، قادر ہے… باقی ہر چیز خواہ وہ کتنی افضل کیوں نہ ہو… اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہے، مملوک ہے… کعبہ شریف بھی مخلوق، حجر اسود شریف بھی مخلوق، حرم شریف بھی مخلوق … اور تمام حضرات انبیاء علیہم السلام بھی اللہ تعالیٰ کے بندے اور مخلوق… اور حضرت جبرئیل، میکائیل، اسرافیل، عزرائیل علیہم السلام جیسے عظیم ملائک بھی … اللہ تعالیٰ کے بندے اور مخلوق…
حادثہ ہو گیا
کعبہ شریف میں بھی حادثہ ہو سکتا ہے… ماضی میں وہاں حادثات ہوتے رہے ہیں… اس سال بھی وہاں ایک حادثہ ہو گیا… اسلام نے جھوٹے مذاہب کی طرح کبھی یہ دعویٰ نہیں کیا کہ اس کے مقدس مقامات ہر طرح کے حوادث سے محفوظ ہیں…نہیں بلکہ… مقدس ترین مقامات پر بھی اللہ تعالیٰ کا حکم اور قانون چلتا ہے… وہاںسردی بھی آتی ہے اور گرمی… بارش بھی برستی ہے اور سیلاب بھی آ سکتے ہیں… وہاں رحمت تو ہر لمحہ برستی ہے مگر کبھی کبھار اللہ تعالیٰ کی طرف سے تنبیہ اور قہر کے تھپیڑے بھی پڑ سکتے ہیں… کعبہ شریف کے گرد طواف سے جہاں روزانہ لاکھوں افراد رحمت، نور اور ہدایت پاتے ہیں… وہیں بعض افراد کو وہاں بلا کر سخت سزا بھی دی جاتی ہے… پھر بعض لوگوں کو سزا دے کر پاک کر دیا جاتا ہے… اور بعض بد نصیبوں کے دلوں پر شقاوت اور بد بختی کی حتمی مہر لگا دی جاتی ہے… وہاں کے حادثات بعض افراد کے لئے رحمت ہوتے ہیں ، بعض کے لئے عذاب اور بعض کے لئے تنبیہ اور سبق… اس بارے میں بڑے عجیب واقعات ماضی میں سامنے آئے…وہ سب سے بڑی جگہ ہے وہاں جو پا گیا اب وہ محروم نہیں ہو سکتا… اور وہاں جو محروم رہ گیا وہ کسی اور جگہ پا نہیں سکتا… سوائے یہ کہ اللہ تعالیٰ کی مغفرت پھر ڈھانپ لے… ایک اللہ والے بزرگ طواف کر رہے تھے ،شیطان نے حملہ کیا اور طواف کے دوران بد نظری کر بیٹھے… کعبہ شریف سے ایک ہاتھ بلند ہوا اور ان کے چہرے پر ایسا تھپڑ لگا کہ ایک آنکھ ضائع ہو گئی… آنکھ ضائع ہو گئی مگر ایمان بچ گیا… وہ اس تنبیہ اور معذوری پر ساری زندگی اللہ تعالیٰ کے شکر گزار رہے کہ… دائمی اور سچی توبہ نصیب ہوئی…اور گناہ کی سزا نقد ختم ہو گئی… تنبیہ نہ ہوتی اور طواف کے دوران یہ گناہ چلتا رہتا تو سوچیں کہ کیا بنتا؟… جس گناہ کا گواہ کعبہ شریف ہو ، حجر اسود ہو، رکن یمانی ہو، مقام ابراہیم ہو… مطاف ہو، ملتزم ہو… اس گناہ کو کوئی لے کر مرا تو کس قدر خسارے کی بات ہے؟… مگر وہ صاحب اللہ تعالیٰ کے پیارے تھے اس لئے تنبیہ فرما دی گئی … بہت سے لوگ کعبہ شریف کے گرد اس گناہ سے زیادہ بڑے گناہ کرتے رہتے ہیں…ان کو تنبیہ نہیں کی جاتی… ہاں! بد نصیب ہمیشہ تنبیہ سے محروم رہ کر بڑی سزا کے مستحق بن جاتے ہیں… یا اللہ ! آپ کی پناہ…
جو لوگ اس حادثے میں… بحالت ایمان شہید ہوئے ان کو سلام… انہیں سفر حج کی موت ملی جو کہ قیامت تک کا حج ہے… ان کو مطاف کی موت ملی…جہاں سے جنت بہت قریب ہے… ان کو جمعہ کا دن ملا… جو عذاب قبر سے نجات کی ضمانت ہے… اور ان کو حادثاتی موت ملی جو کہ لاریب شہادت ہے… اب وہ پکے حاجی بن گئے … بغیر ویزے، پاسپورٹ اور ٹکٹ کے ہر سال کا حج… ان کو مبارک اور ان کے اہل خانہ سے قلبی تعزیت…
ایک مفروضہ
اتفاق کی بات ہے کہ حادثے کے دن کی تاریخ… گیارہ ستمبر بنتی ہے…یعنی’’ نائن الیون‘‘ … ممکن ہے کہ بعض لوگ اس میں سازش کا پہلو ڈھونڈ یں کہ… امریکہ نے یہ حادثہ کرا کے مسلمانوں سے انتقام لیا ہے… آج کل کی مہلک سائنس میں مصنوعی بارش، مصنوعی طوفان … اور مصنوعی زلزلوں کا تذکرہ بھی کچھ عرصہ سے چل رہا ہے… مگر بظاہر اس میں کوئی سازش نظر نہیں آتی … حرم شریف میں درجنوں بار سیلاب آ چکا ہے … تاریخ کی کتابوں میں ستر سیلابوںکی تفصیلات موجود ہیں…بعض سیلاب تو ایسے بھی آئے کہ پورا مطاف پانی میں ڈوب گیا اور کئی افراد نے تیر کر طواف کیا… کعبہ شریف پر دشمنوں کے حملوں کی بھی ایک تاریخ موجود ہے… حضور اقدس ﷺ کی ولادت سے کچھ پہلے ابرہہ حبشی نے حملہ کیا…اس حملے اور حملہ آوروں کے انجام کا تذکرہ قرآن مجید میں موجود ہے… ابرہہ سے پہلے بھی ایک یمنی بادشاہ ’’ازماع‘‘ نے کعبہ شریف پر حملہ کیا تھا… اسلام کے بعد ۶۳؁ھ میں حصین بن عمیر نے اور پھر حجاج نے حملہ کیا… ۳۱۷؁ھ میں قرامطہ نے حملہ کیا …یہ فاطمی بھی کہلاتے تھے انہوں نے حجر اسود پر بھی قبضہ کیے رکھا…
ان تمام حملوں میں…اللہ تعالیٰ نے ابتدائی آزمائش کے بعد اہل ایمان کو بڑی عظیم خیریں اور فتوحات عطاء فرمائیں اور اللہ تعالیٰ کے عظیم گھر کا… فیض آج بھی پورے عالم میں جاری و ساری ہے… اس بار کا حادثہ اگر کسی کا حملہ ہے تو ان شاء اللہ…حملہ آور چالیس دن یا چار ماہ کے عرصہ میں اس کی عبرتناک سزا بھگت لیں گے… مسلمانوں کا یہ کام نہیں کہ وہ …کافروں کی طاقت کے تذکرے کر کے… اور ان کی سازشوں کے فرضی قصے بنا کر مسلمانوں کو مرعوب کرتے رہیں… کافروں کی قوت اور شوکت کا جواب جہاد فی سبیل اللہ ہے… جہاد فی سبیل اللہ کے سامنے نہ کوئی کفریہ طاقت ٹھہر سکتی ہے اور نہ اس کا کوئی اسلحہ اور ٹیکنالوجی… حجاج کرام اللہ تعالیٰ کے مہمان ہیں… بہت سے لوگ وہاں جا کر غافل ہو جاتے ہیں… کئی بازاروں میں پھنس جاتے ہیں… کئی گناہوں میں غرق ہونے لگتے ہیں… اور کئی اپنے وقت کو ضائع کرنے والے بن جاتے ہیں… ایسے لوگوں کے لئے اس طرح کے حوادث تنبیہ اور سبق کا کام کرتے ہیں … اس طرح کے حوادث مسلمانوں کا عقیدہ مضبوط بناتے ہیں… اس طرح کے حوادث سے وہاں کی حکومت اور انتظامیہ کو بھی اپنی بہت سی غلطیوں کا احساس ہوتا ہے… اور وہ غلط اور مضر تعمیرات سے بچ جاتے ہیں… بہرحال کعبہ شریف مرکز ہدایت ہے… وہ چادریں چڑھانے یا دنیا کی ہر جائز و ناجائز حاجتیں پوری کرنے والا دربار نہیں ہے… وہاں جانا اسلام کے فرائض میں سے ہے… موت برحق ہے… یہ ایمان والوں کے لئے ایک بڑی نعمت اور پل ہے… اور موت کسی بھی جگہ آسکتی ہے… اگر کسی کو کعبہ شریف کے پاس ایمان کی حالت میں موت ملے تو اسے اور کیا چاہیے… عقیدہ درست رکھیں…اور اپنے دل میں کعبہ شریف کی محبت بڑھاتے جائیں…
ماحول بن رہا ہے
ہمارے ہاں آج انتیس ذی القعدہ ہے… جبکہ حرمین شریفین میں آج ’’ذو القعدہ ‘‘ کی تیس تاریخ ہے… یعنی دنیا میں…کل اور پرسوں اس دنیا کے سب سے افضل ایام شروع ہونے والے ہیں… جی ہاں! ذوالحجہ کے پہلے دس دن…ہم نے اپنے بچپن اور اوائل جوانی میں دیکھا کہ ہمارے ماحول میں … ’’عشرہ ذی الحجہ‘‘ کے بارے کوئی سرگرمی نظر نہیں آتی تھی… نہ روزے، نہ عبادات…نہ فضائل کامذاکرہ…اور نہ ذکراللہ کی کثرت…
مدارس میں عید الاضحیٰ کے موقع پر چھٹیاں ہوتی ہیں تو… اساتذہ اور طلبہ گھر جانے، ٹرین کا ٹکٹ کرانے…اور سفر کی تیاری میں لگے رہتے ہیں … علماء اور طلبہ جب تعطیل پر ہوں تو ’’عشرہ ذی الحجہ‘‘ کے فضائل امت کو کون سنائے… الحمد للہ قربانی کا عمل نیک لوگ اہتمام سے کرتے تھے اور کر رہے ہیں… اور عرفہ کے دن کا روزہ بھی عبادت گذار لوگ رکھ لیتے تھے…اور بس…
حالانکہ عشرہ ذی الحجہ کے فضائل جو قرآن و حدیث میں آئے ہیں…ان کا اگر ٹھیک ٹھیک مذاکرہ ہو جائے تو… ماحول کا رنگ ہی بدل جائے … یہ انسانی زندگی کے قیمتی ترین دن ہیں… حجاج کرام کے لئے بھی… اور غیر حجاج کے لئے بھی … حتی کہ کئی ائمہ کرام نے ان دس دنوں کو رمضان المبارک کے آخری دس دنوں سے بھی افضل قرار دیا ہے… خیر وہ ایک علمی بحث ہے…
مگر ان ایام کی فضیلت کا کسی کو انکار نہیں… اور ان ایام میں ہر نیک عمل کی قدر و قیمت بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے…اور ان دنوں کی عبادت اس جہاد سے بھی افضل ہے جس میں مجاہد کی جان قربان نہ ہوئی ہو…یہ وہ دن ہیں جن کی راتوں کی قسم اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں کھائی ہے… اور ان دنوں میں خاص طور سے ذکر کا حکم قرآن مجید میں فرمایا ہے … یہ وہ دن ہیں جن میں اسلام کے محکم فرائض میں سے ایک فریضہ…حج بیت اللہ ادا ہوتا ہے…اور وہ ان دنوں کے علاوہ کبھی ادا نہیں ہو سکتا … ان دس دنوں میں ’’عرفہ‘‘ کا دن ہے جس دن سب سے زیادہ افراد کو جہنم سے نجات دی جاتی ہے… ان دس دنوں میں ’’یوم النحر‘‘ یعنی عید کا دن ہے …جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے بڑا اور سب سے عظیم دن ہے…
اللہ تعالیٰ نے ان دنوں کو ’’ایام معلومات‘‘ کا بڑا لقب عطاء فرمایا ہے…اور ان دنوں اللہ تعالیٰ کا فضل اپنے بندوں پر بہت زیادہ متوجہ ہوتا ہے… ان دنوں کی فضیلت میں اتنی صحیح احادیث وارد ہوئی ہیں کہ…اگر ان کو جمع کیا جائے تو ایک رسالہ بن سکتا ہے…
الحمد للہ ان فضائل اور احادیث کے مذاکرہ سے اب ماحول میں…کچھ تبدیلی نظر آ رہی ہے … ماشاء اللہ بہت سے لوگ پورے نو دن کے روزے رکھتے ہیں… تکبیرات کا والہانہ اہتمام ہوتا ہے… کئی افراد ان دنوں کو پانے کے لئے محاذوں کا رخ کرتے ہیں…حج بیت اللہ کا شوق بھی الحمد للہ بڑھ رہا ہے… اور اس مبارک عشرے کو کمانے والے مسلمانوں کی تعداد میں الحمد للہ روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے…
عشرہ ذی الحجہ کا مختصر نصاب
جو مسلمان حج بیت اللہ پر نہیں گئے… ان کے لئے اس مبارک عشرے کو پانے اور کمانے کا ایک آسان سا نصاب عرض کیا جا رہا ہے…اللہ تعالیٰ میرے لئے اور آپ سب کے لئے یہ نصاب آسان فرمائے… اور اسے اپنے فضل سے قبول فرمائے…
(۱) قربانی بہت ذوق و شوق اور اہتمام سے کریں…استطاعت ہو تو واجب کے ساتھ نفل قربانی بھی کریں…
(۲) یکم ذی الحجہ تا ۹ ذی الحجہ…تمام نو دن یا کم از کم آخری تین دن روزے کا اہتمام کریں…
(۳) تہلیل یعنی لا الہ الا اللہ، تکبیر اور تحمید کی کثرت کریں… آسان طریقہ یہ ہے کہ ہر دن اور ہر رات تین تین سو بار تیسرا کلمہ ان تمام دنوں میں پڑھ لیں… ان شاء اللہ ایسا فائدہ ہو گا جو بیان سے باہر ہے… ساتھ اپنا بارہ سو بار کلمہ کا معمول جاری رہے…ان دنوں کا اصل تحفہ ’’تکبیر‘‘ ہے…اس کی بہت کثرت…
اللّٰہ اکبر اللّٰہ اکبر لا الہ الا اللّٰہ واللّٰہ اکبر اللّٰہ اکبر وللّٰہ الحمد
(۴) تلاوت میں کچھ اضافہ کر دیں… اور یہ اضافہ عید کے دن بھی جاری رہے… مثلاً آدھے پارہ والے ایک پارے پر… اور ایک پارے والے دو پارے پر چلے جائیں…
(۵) روزانہ جہاد فنڈ دیں… خواہ کھجور کا ایک ٹکڑا ہو… روز جمع کرنے کی سہولت ہو تو جماعت کے بیت المال میں جمع کراتے جائیں … اگر یہ سہولت نہ ہو تو لفافہ بنا کر روز اس میں ڈالتے جائیں، جب موقع ملے جمع کرا دیں…
(۶) جہاد کی محنت، جہاد کی دعوت، نفل قربانی اور کھالوں کی محنت میں اخلاص کے ساتھ وقت لگائیں…
(۷) سحری پابندی سے کھائیں، یہ بڑا برکت والا کھانا ہے… اور جب سحری کو جاگیں تو تہجد کا مزا بھی لوٹ لیں…
(۸) والدین اور اہل و عیال کا خرچہ ان دنوں حسب استطاعت بڑھا دیں اور گھر میں عشرہ ذی الحجہ کے فضائل کا مذاکرہ کرتے رہیں…اسی طرح صلہ رحمی،کھانا کھلانا اور صدقہ خیرات کی کثرت…
(۹) جنہوں نے قربانی کرنی ہو وہ ذی الحجہ کا چاند نظر آنے کے بعد… اپنے ناخن، بال وغیرہ نہ کاٹیں جب تک کہ قربانی ذبح نہ ہو جائے…
(۱۰) ان تمام دنوں میں تکبیر اولیٰ کے ساتھ نماز کا زیادہ التزام کریں…عید الاضحیٰ کی تیرہ سنتیں یاد کر کے ان کو عمل میں لائیں… اور دوسرے مسلمانوں کو بھی عشرہ ذی الحجہ کے اعمال کی طرف متوجہ کرتے رہیں…
وما توفیقی الا باللّٰہ علیہ توکلت والیہ انیب
لا الہ الا اللّٰہ، لا الہ الا اللّٰہ ،لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
اللہم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
٭…٭…٭
مقامِ محبت
رنگ و نور ۔۔۔سعدی کے قلم سے (شمارہ 510)
اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو شیطان کے سامنے رسوا نہیں فرماتے…
سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیمْ
ایک سچا واقعہ
ایک صاحب کو اللہ تعالیٰ نے ’’قربانیوں‘‘ کا شوق نصیب فرمایا ہے… فرائض کے بعد نفل عبادت کی کثرت یہ ’’محبت ‘‘ کی علامت ہے… ایک سال ایسا ہوا کہ پیسے کم پڑ گئے…جتنی قربانیوں کا ارادہ تھا وہ تو بہت مشکل…اپنی واجب قربانی کے معاملہ میں بھی تنگی آ رہی تھی…دل میں خوف آیا کہ اس سال عید کا موسم نہیں کما سکیں گے …مگر پھر بھی عزم باندھے رہے کہ دینے والا بھی اللہ…قبول فرمانے والا بھی اللہ…ایک دن مغرب کی نماز کے لئے مسجد میں حاضر ہوئے … امام صاحب نے سورۃ الکوثر پڑھی… جیسے ہی ’’ وَانْحَرْ‘‘ کا لفظ آیا ان صاحب کے دل پر اُتر گیا…
فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ
’’پس آپ اپنے رب کے لئے نماز ادا کریں ’’وَانْحَرْ‘‘ اور قربانی کریں‘‘
’’وانحر‘‘ کا لفظ اصل میں اونٹ کی قربانی کے لئے آتا ہے…ویسے ہر قربانی اس میں شامل ہے… اونٹ کی ہو یا گائے، بھینس، بکری کی… ان صاحب کو لگا کہ …انہیں اونٹ کی قربانی کی طرف متوجہ کیا گیا ہے…نماز کے بعد ہاتھ پھیلا دئیے کہ…یا اللہ ’’وَانْحَرْ ‘‘ آپ کا حکم ہے… یہ حکم پورا کرنے کی توفیق عطاء فرما دیجئے… اب شیطان نے قہقہے لگائے کہ…بکرے اور گائے کی رقم نہیں اور دعاء چل رہی ہے اونٹ کی… طرح طرح کے وسوسے اور خیالات… مگر عزم اللہ تعالیٰ کے لئے تھا…جو عزم اللہ تعالیٰ کے لئے ہوتا ہے اس کی ایک بڑی علامت یہ ہے کہ…بندہ اس کی توفیق صرف اللہ تعالیٰ سے مانگتا ہے… ایسا نہیں کہ حج کا شوق ہوا تو اب ہر کسی کے سامنے آہیں بھرتے رہیں …تاکہ کوئی بھیج دے… قربانی کا شوق ہوا تو ہر کسی کو بتاتے پھریں تاکہ کوئی کرا دے …یہ شوق نہیں ہوتا،شوق فروشی ہوتی ہے… اللہ تعالیٰ ہم سب کی حفاظت فرمائے…
اب ہر سال کی قربانیوں کے ساتھ…اونٹ بھی جوڑ لیا… اللہ تعالیٰ کی رحمت متوجہ ہوئی … سارا انتظام فرما دیا…تمام قربانیاں بھی ہو گئیں اور اونٹ بھی قربان ہوا… بے شک اللہ تعالیٰ کے خزانے بے شمار ہیں… اور اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو شیطان کے سامنے رسوا نہیں فرماتے…
سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیمْ
نفل قربانی
ایک سے زائد جو قربانی کی جاتی ہے… وہ نفل قربانی ہے… اور نفل سے اللہ تعالیٰ کی قریبی محبت نصیب ہوتی ہے…نفل قربانی کا عمل خود حضرت آقا مدنیﷺ نے شروع فرمایا…آپ ہمیشہ دو مینڈھے سینگوں والے ذبح فرماتے تھے …حج کے موقع پر تو آپﷺ نے ایک سو اونٹ قربان فرمائے…
حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ … ہمیشہ دو دنبے ذبح فرماتے… ایک حضرت آقا مدنیﷺکی طرف سے اور ایک اپنی طرف سے …کیا ہی اچھا ہو کہ مسلمانوں میں بھی اس کا ذوق پیدا ہو… اس سال کوشش کریں کہ ایک بکرا، یا ایک حصہ… حضرت آقا مدنیﷺ کی طرف سے اللہ تعالیٰ کے حضور قربان کریں… ایک منحوس ٹچ فون کی قیمت میں…یہ بابرکت کام ہو سکتا ہے… ہماری جماعت اس سال نفل قربانی جمع کر رہی ہے … حضرت آقا مدنیﷺ کی طرف سے جو قربانی کریں… وہ جماعت میں دے دیں… معلوم نہیں کہاں کہاں تک وہ پہنچے گی…حضرت محمد ﷺ کی قربانی،جیشِ محمدﷺکے ذریعہ… اُمتِ محمدﷺ کے خاص اَفراد تک…
مقام محبت
یہ ایک حدیث قدسی ہے… اسے ’’حدیث الٰہی‘‘ بھی کہتے ہیں… یعنی اللہ تعالیٰ کی بات، اللہ تعالیٰ کا فرمان… یہ وہ حدیث ہوتی ہے جو حضور اقدسﷺ …اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کی طرف نسبت کے ساتھ بیان فرماتے ہیں…حضور اقدسﷺ نے ارشاد فرمایا… اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
من عادی لی ولیا فقد آذنتہ بالحرب
جو میرے کسی ولی کے ساتھ دشمنی کرتا ہے تو میں اس کے ساتھ دشمنی کا اعلان کرتا ہوں… یعنی جو اللہ تعالیٰ کے کسی ولی …یا اولیاء سے بغض رکھے، انہیں ستائے تو ایسے بد نصیب انسان کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اِعلان جنگ ہے…
وما تقرب الیّ عبدی بشیئٍ احب الی مما افترضت علیہ
میرا بندہ جن چیزوں کے ذریعہ میرا قرب حاصل کرتا ہے… ان چیزوں میں میرے نزدیک سب سے محبوب ’’فرائض ‘‘ ہیں…یعنی اللہ تعالیٰ کے قرب کا سب سے اہم ذریعہ… فرائض کی پابندی اور فرائض کا اہتمام ہے… اور فرائض کے برابر اور کوئی عمل نہیں ہو سکتا…
وما یزال عبدی یتقرب الیّ بالنوافل حتی اُحبہ
اور میرا بندہ نفل عبادت کے ذریعہ برابر میرا قرب حاصل کرتا رہتا ہے…یہاں تک کہ میں اس سے محبت فرمانے لگتا ہوں…یعنی فرائض کے بعد میرے مخلص بندے مجھے راضی کرنے کے لئے … اور میرا قرب پانے کے لئے مستقل نوافل میں لگے رہتے ہیں…نفل نماز، نفل صدقہ، نفل قربانی، نفل حج، عمرہ وغیرہ یہاں تک کہ وہ میرے محبوب بن جاتے ہیں…سبحان اللہ! عجیب الفاظ ہیں… پڑھتے جائیں تو دل پر وجد طاری ہو جاتا ہے… اللہ تعالیٰ کی محبت مل جائے تو انسان کو اور کیا چاہیے…
آگے ارشاد فرمایا:
فاذا احببتہ کنت سمعہ الذی یسمع بہ، وبصرہ الذی یبصر بہ، ویدہ التی یبطش بھا، ورجلہ الذی یمشی بھا…
جب میں اس سے محبت کرتا ہوں تو اس کے کان، آنکھیں، ہاتھ اور پاؤں میری خاص نگرانی اور رہنمائی میں آ جاتے ہیں…یعنی اس کے لئے خیر کے بے شمار دروازے کھل جاتے ہیں…اس کا سننا ،دیکھنا، پکڑنا اور چلنا سب کچھ عبادت بن جاتا ہے …اور اس کے جسم کے اعضاء گناہوں سے محفوظ ہو جاتے ہیں…
آگے ارشاد فرمایا:
وان سألنی لأعطینہ
وہ اگر مجھ سے کچھ مانگے تو میں ضرور عطا فرماتا ہوں
ولئن استعاذنی لأعیذنہ
اور اگر کسی چیز سے میری پناہ مانگے تو میں اسے اس چیز سے ضرور بچا لیتا ہوں ( صحیح بخاری)
اندازہ لگائیں کہ… فرائض پورے کرنے کے بعد نفل عبادت کا کیا مقام ہے…اسی کو ہم ’’مقام محبت‘‘ سے تعبیر کر رہے ہیں…زمانے میں جو بھی بڑے اور کامیاب لوگ گزرے انہوں نے اسی مقام محبت سے بلندی حاصل کی… فرض نمازیں تو سب روزانہ پانچ ہی ادا کر سکتے ہیں… کسی کو چھ کی اجازت نہیں… مگر جنہوں نے نفل عبادت کو اپنایا وہ…مقام محبت تک جا پہنچے… عام حالات میں دیکھ لیجئے… جو ملازم اپنی اصل ملازمت سے زیادہ… پانچ دس منٹ بھی محنت کرتا ہو تو مالک کی آنکھ کا تارا بن جاتا ہے… جو دکاندار پانچ دس روپے کی معمولی رعایت دیتا ہو…اس کے ہاں گاہکوں کی بھیڑ لگ جاتی ہے…
اپنی اصل ذمہ داری سے زائد محنت انسان کو مقبول، محبوب اور قیمتی بنا دیتی ہے…
فرائض ہماری اصل ذمہ داری ہیں… اس کو پورا کرنے کے بعد …نفل کے ذریعہ مقامات کا حصول ہے…اور یہ نفل قیامت کے دن بڑے کام آئیں گے…جب اللہ جَلَّ شانُہ فرشتوں سے فرمائیں گے:
میرے بندے کے اعمال دیکھو! کیا ان میں نفل عبادت ہے؟ … اگر نفل عبادت ہو گی تو اس سے فرائض کی کمی کوتاہی کا ازالہ کیا جائے گا…
ذوالحجہ کا مہینہ شاندار ہے… عشرہ ذی الحجہ کے مقبول اعمال کا موسم ہے… اور نفل قربانی عام صدقے سے بھی افضل ہے… مال آتا جاتا رہتا ہے… کیا معلوم دوبارہ یہ دن نصیب ہوں یا نہ … سب سے پہلے اپنی واجب قربانی بہت شوق، خوشی اور اِخلاص سے ادا کریں…اورپھر ایک،دویا زیادہ نفل قربانیوں کے ذریعہ ’’مقام محبت‘‘ حاصل کریں… دل میں ذوق اور جذبہ ہو گا تو اسباب خود مہیا ہو جائیں گے ، ان شاء اللہ
مبارک کڑیاں
نفل اعمال میں سب سے افضل عمل ’’صدقہ‘‘ ہے… اور سب سے افضل صدقہ ’’کھانا کھلانا‘‘ ہے… اور کھانے میں سب سے افضل گوشت اور اس کا شوربہ ہے… کبھی ہمت ہو تو ایک دنبے کے بال شمار کریں… چلیں پورا دنبہ نہیں صرف اس کے سر کے بال شمار کر لیں… قربانی میں ہر ایک بال کے بدلے ایک نیکی ملتی ہے… ضروری اعمال میں سب سے افضل عمل جہاد فی سبیل اللہ ہے… اب یہ نفل قربانی اگر ’’جہاد فی سبیل اللہ‘‘ میں لگ جائے گی تو اندازہ لگائیں… آپ نے کتنی عظیم فضیلتوں کو پا لیا…
جہاد فی سبیل اللہ کا عظیم فریضہ …مختلف کڑیوں سے جڑتا ہے… اور ان میں سے ہر کڑی مبارک ہے… اور بعض اَوقات اَفراد کے اِخلاص کی وجہ سے…کوئی کڑی زیادہ مقبولیت کے خاص مقام پر ہوتی ہے… سب سے پہلے دعوت کی کڑی ہے… کچھ اَفراد… دوسرے مسلمانوں کو جہاد کی دعوت دیتے ہیں… اب دوسری کڑی تعلیم و تربیت کی ہے… ایک مسلمان جماعت اور جہاد سے متعارف ہو کر آ گیا…اب اس کو جہاد سے جوڑنا ہے، اسے جہاد سکھانا اور سمجھانا ہے…دورہ تربیہ، اساسیہ اور تفسیر… اب اگلی کڑی ریاضت اور تربیت کی ہے… اس اللہ کے بندے کو یہ تربیت دینی ہے کہ اس نے کس طرح سے لڑنا ہے… اب اگلی کڑی رباط کی ہے… اس بندے کو محاذ تک پہنچانا ہے… اور اب آخری کڑی… خود محاذ کی ہے کہ…اس بندے کو اللہ تعالیٰ کے دشمنوں کے سامنے لا کھڑا کرنا ہے…ہر کڑی بہت ضروری … اور ہر کام بہت مبارک ہے…
بعض اوقات پچھلی کڑیوں والے آگے کی کڑیوں سے زیادہ مقرب بن جاتے ہیں…بات اِخلاص اور اِطاعت امیر کے ساتھ جڑی ہوئی ہے … جماعت کے بیت المال کی ’’ نہر‘‘ ان سب کڑیوں کو سیراب کرتی ہے… انہیں چلاتی ہے … اب جس خوش نصیب نے اپنے پانی کی بالٹی اس نہر میں ڈال دی…اسے سب کڑیوں میں شرکت کا اجر وثواب مل گیا… اور اگر اس کا اِخلاص کامل ہے تو اس کا پانی… وہاں پہنچے گا جہاں قبولیت اُس وقت سب سے بڑھ کر ہو گی… نفل قربانی کے ذریعہ…اس بابرکت نہر میں اپنا حصہ ڈالیں … اور قربانی کی کھالوں کے ذریعہ بھی اس مبارک سلسلے کو مضبوط کریں…ان شاء اللہ بہت کام آئے گا … بہت کام ان شاء اللہ
لا الہ الا اللّٰہ، لا الہ الا اللّٰہ ،لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
اللہم صل علی سیدنا محمد وآلہ و صحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
٭…٭
بابا! پیسے سے نہیں، شوق سے
رنگ و نور ۔۔۔سعدی کے قلم سے (شمارہ 509)
اللہ تعالیٰ ہم سب کو حج بیت اللہ کا سچا شوق … اور ’’حج مقبول‘‘ نصیب فرمائے…
آہ شوق! آہ دل ! محبوب کا گھر، مالک کا گھر …میرے رب کا گھر، میرے رب کا گھر…
یا اللہ! کب بلائیں گے؟ کب دکھائیں گے؟ کب بے تاب آنکھوں کو نور کا شربت پلائیں گے؟
سچا قصہ لکھا ہے کہ ایک قافلہ حج کے لئے پہنچا…اس میں ایک سچی عاشقہ تھی… ہاں سچی عاشقہ! گندی عاشقہ نہیں… مکہ مکرمہ پہنچ کر بار بار بے تابی سے پوچھتی تھی… این بیت ربی؟ این بیت ربی؟ ارونی بیت ربی؟
کہاں ہے میرے رب کا گھر؟ کہاں ہے؟ دکھادو مجھے میرے محبوب کا گھر…قافلے والوں نے کہا بس تھوڑی دیر میں دیکھ لو گی… وہ اللہ والی معلوم نہیں کب سے دل میں پیاس بھرے جی رہی تھی…لوگوں نے کہا وہ دیکھو! سامنے کعبہ شریف ہے… اللہ تعالیٰ کا گھر…وہ یوں دوڑی جس طرح ماں اپنے بچھڑے ہوئے بچے کی طرف بھی نہ دوڑ سکے…جا کر کعبہ شریف سے لپٹ گئی…پھر لپٹی رہی… کافی وقت گزرا تو قافلے کی دوسری عورتوں نے جا کر دیکھا…وہ تو پہنچ چکی تھی… کعبہ سے لپٹ کر کعبہ کے رب کے پاس جا چکی تھی … ہاں وہ عشق میں جان دے کر سچے عاشقوں کے اونچے مقام پر جا چکی تھی…
بھائیو! اور بہنو! ہم روز نماز کے آغاز میں کہتے ہیں…منہ قبلہ شریف کی طرف…رخ کعبہ شریف کی طرف… جس کی روح زندہ ہو…وہ تڑپتی ہے کہ…کب تک دور دور سے رخ کرتے رہیں گے… ٹھیک ہے ہم اللہ تعالیٰ کو نہیں دیکھ سکتے …مگر اس کا احسان کہ اس کے گھر کو تو دیکھ سکتے ہیں…اس گھر میں لگا ہوا ’’حجر اسود‘‘ اللہ تعالیٰ کے دائیں ہاتھ کے قائم مقام ہے… ارے اسے تو جا کر چوم سکتے ہیں…چلو چل پڑتے ہیں…راستہ دور ہے تو کیا ہوا؟…پاؤں پھٹ گئے تو کیا ہوا؟ … بس چلتے رہیں گے، چلتے رہیں گے…ایک نہ ایک دن تو پہنچ ہی جائیں گے…نہ پہنچ سکے تو راستے میں جان دے کر …جسم کو دفن کروا دیں گے … اور روح اسی طرح کعبہ شریف کی طرف بڑھتی جائے گی…بالآخر پہنچ ہی جائے گی… ایک بزرگ کہیں جا رہے تھے، راستے میں ایک شخص کو دیکھا کہ دونوں ٹانگوں سے معذور ہے…اور زمین پر گھسٹ گھسٹ کر تیزی سے آگے جا رہا ہے… اس کی آنکھوں میں شوق کی چمک اور چہرے پر عشق کا جذبہ تھا…بزرگ نے پوچھا: جناب! کہاں اتنا تیز جا رہے ہیں؟… بغیر رکے کہنے لگے… اپنے رب کے گھر جا رہا ہوں… بزرگ نے حیرت سے کہا… اس طرح؟ وہ تو بہت دور ہے کیسے پہنچو گے…فرمایا! دس سال سے اسی طرح گھسٹ گھسٹ کر جا رہا ہوں … کبھی تو پہنچ ہی جاؤں گا…
آہ افسوس… ہم مسلمانوں کے دلوں سے حج کا شوق… اور کعبہ کا اشتیاق جاتا رہا… حج بیت اللہ اسلام کا محکم اور قطعی فریضہ…ان فرائض میں سے ایک جن پر اسلام کی بنیاد ہے… حضرت سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا…
میں سوچتا ہوں کہ تمام شہروں میں کچھ افراد بھیج دوں…وہ جا کر دیکھیں کہ …جن لوگوں کے پاس حج کی استطاعت ہے اور انہوں نے فرض حج ادا نہیں کیا تو…ان پر جزیہ مقرر کر دیں کیونکہ وہ مسلمان نہیں ہیں …وہ مسلمان نہیں ہیں…
حج اور جہاد
منظر آنکھوں کے سامنے آتا ہے…ہم اللہ تعالیٰ کے فضل سے مکہ مکرمہ میں تھے…وہاں کے مفتی اعظم شیخ بن باز رحمہ اللہ نے مجاہدین اور علماء کرام کی دعوت کی…دعوت سے پہلے جلسہ تھا … عرب میں رواج ہے کہ اہم بیانات پہلے ہوتے ہیں …سب سے پہلا بیان مہمان خصوصی کا ہوتا ہے …ہمیں بھی کسی کے طفیل اس مبارک جلسہ میں شرکت مل گئی…چوتھا اہم بیان حضرت شیخ مولوی جلال الدین حقانی کا تھا…افغان لہجے میں جاندار عربی بیان… فرمایا حج اور جہاد میں بہت مناسبت ہے…دلیل یہ کہ قرآن مجید میں حج کے فوراً بعد جہاد و قتال کا حکم موجود ہے…بعد میں شاہ ولی اللہ قدس سرہ کی حجۃ اللہ البالغہ میں دیکھا…انہوںنے حج اور جہاد کے درمیان بہت سی مناسبات ذکر فرمائی ہیں…
ویسے کوئی بھی غور کرے تو…دونوں فریضوں کے درمیان کئی رشتے ڈھونڈ سکتا ہے…
دونوںمیں سفر ہے، ہجرت ہے…مشقت اور تکلیف ہے…خون ہے، مار دھاڑ ہے… عشق ہے،جدائی ہے،قربانی ہے… میل کچیل ،تھکاوٹ اور پراگندہ حالی ہے… پسینہ ہے، بھاگ دوڑ ہے …جذبہ ہے، شوق ہے، والہانہ پن ہے…مار دھاڑ کا لفظ کئی افراد کو کھٹکے گا… اللہ تعالیٰ ان کو روشنی دے تاکہ نہ کھٹکے… عبادت وہ نہیں جسے ہم عبادت سمجھیں… عبادت وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کا حکم اور آقا مدنی ﷺکا طریقہ ہو …ایک آدمی صاف سفید پاک کپڑے پہنے…مصلیٰ پر سجدہ ریز ہے…اسے سب عبادت سمجھتے ہیں… دوسرا آدمی مٹی سے اٹا ہوا …بھاگ بھاگ کر پتھر پھینک رہا ہے… جانور ذبح کر رہا ہے… یہ بھی چونکہ اللہ تعالیٰ کا حکم … اس لئے یہ بڑی عبادت ہے… دشمنوں کے ناپاک خون سے کپڑے لت پت سر سے لے کر پاؤں تک خون ہی خون…یہ بھی اللہ تعالیٰ کا حکم…اس لئے بہت عظیم عبادت ہے…
ہمارے شیخ…حضرت سید احمد شہیدؒجب جہاد کی طرف متوجہ ہوئے تو…دل کے شوق نے آواز دی… اپنے جہادی قافلے کو سمندر کے راستے حرمین شریفین لے چلے… دو حج کئے…پھر وہاں سے جہاد کا رخ کیا… اور رب البیت کے پاس سرخرو چلے گئے… ہمارے مرشد حضرت عبد اللہ بن مبارکؒ ایک سال جہاد کی طرف دوڑتے تو دوسرے سال حج کی طرف لپکتے…روح کا عشق ان دو حسین چیزوں کی طرف ہمیشہ بے قرار لپکتا ہے… جہاد کا محاذ…اور حرمین شریفین…
کتنے خوش نصیب ہیں وہ مسلمان… جن کو دونوں طرف سفر کی سہولت میسر ہے… حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے بڑا اہم نکتہ سمجھایا…وہ نکتہ پڑھ کر روح نے غم کی ہچکی لی…اور آنکھیں پانی میں ڈوبنے لگیں…فرمایا:
’’ اللہ کے گھر کا زیادہ سے زیادہ طواف کر لو …اس سے پہلے کہ تمہارے اور اس کے درمیان رکاوٹیں کھڑی کر دی جائیں‘‘…
ہاں سچ فرمایا! بہت اونچی بات فرمائی … رکاوٹیں آ جاتی ہیں…پہاڑوں سے بھی زیادہ بڑی اور رات سے بھی زیادہ تاریک…پھر آدمی نہیں جا سکتا…نہیں جا سکتا…
جو خوش نصیب وہاں پہنچ چکے ہیں…وہ اس نکتے کی قدر کریں…بازاروں، خریداریوں، ملاقاتوں اور فضولیات میں وقت ضائع نہ کریں… اپنے ایک ایک لمحے کو قیمتی بنائیں…حرم شریف کی ایک نماز …کسی انسان کے چوّن سال کی نمازوں کے برابر ہے… وہاں کا ایک ’’لا الہ الا اللہ‘‘ ایک لاکھ ’’ لا الہ الا اللہ‘‘ کے برابر… اور ایک بار کا سبحان اللہ ایک لاکھ بار سبحان اللہ پڑھنے کے برابر ہے…
بابا! پیسے سے نہیں، شوق سے
ایک اور منظر بے تابی سے دستک دے رہا ہے …ہمارا ’’جلالین‘‘ کا سبق تھا…یہ تفسیر کی مشہور کتاب ہے…خوش نصیبی کہ حضرت کشمیری ؒ کے شاگرد رشید…حضرت مولانا محمد ادریس صاحب میرٹھی رحمہ اللہ ہمیں یہ کتاب پڑھا رہے تھے … پیرانہ سالی کی وجہ سے نظر کمزور تھی، ان کی تشریف آوری سے پہلے ان کی تپائی پر کتاب کھول کر رکھ دی جاتی اور ساتھ برقی لیمپ جلا دیا جاتا…اس لیمپ کا ان کو فائدہ تھا یا نہیں…انہیں تو پوری کتاب زبانی یاد تھی مگر ہمیں فائدہ تھا کہ…ان کے چہرہ مبارک کو مزید چمکتا دمکتا دیکھ لیتے… اس دن حج کا موضوع تھا اور وہ حج بیت اللہ کے شیدائی… اور حرم شریف کے بے تاب عاشق تھے…ہر سال دو بار جانے کا معمول تھا…حج کا موضوع آیا تو لیمپ کی روشنی میں ان کے چہرے پر آنسوؤں کی آبشار جاری ہو گئی …بار بار فرماتے: بابا! حج پیسے سے نہیں ہوتا شوق سے ہوتا ہے…آہ! ہم آپ طلبہ کے دلوں میں حج کا اور حرمین شریفین کا شوق نہیں دیکھ رہے… بس یہ چند آنسو اور دو جملے دل کی دنیا ہی بدل گئے… روح کا کبوتر بے قرار ہو کر حرمین شریفین کی طرف اڑنے لگا…ارے یہ کیا! اب تک روز زبانی تو ہم یہ کہتے کہ منہ قبلہ شریف کی طرف… تو دل قبلہ شریف کو کیوں نہیں مچلتا؟… سبق کے بعد دروازے پر حضرت استاذ سے عرض کیا: حضرت شوق پیدا ہو گیا ہے آپ دعاء فرما دیں…بہت جلال سے فرمایا: جب شوق پیدا ہو گیا تو ضرور جاؤ گے… طالبعلمی کا زمانہ تھا…عمر ابھی اتنی نہیں تھی کہ پاسپورٹ بن سکے…جیب میں رقم اتنی نہیں تھی کہ اس وقت کے پاسپورٹ کی فیس دو سو دس روپے ادا ہو سکے… مگر یقین تھا کہ بس اب جانا ہے … ایک دن عصر کے بعد تسبیحات میں تھے کہ ایک دوست نے آ کر سلام کیا…اور فوراً کہا کہ عمرے کی تیاری کیجئے… ٹکٹ خرچہ ہمارے ذمہ… نہ کبھی ان کو اشارہ کیا تھا اور نہ کسی اور کو…بس اسی سال اللہ تعالیٰ نے اپنا عظیم گھر دکھا دیا…پھر یہ نسخہ بانٹنے کی کئی سال تک عادت رہی…بابا حج پیسے سے نہیں شوق سے ہوتا ہے…جس کے دل میں اتر گیا وہ فوراً پہنچ گیا…اب یہ نسخہ آپ سب کو دے رہا ہوں… شوق وہ ہوتا ہے جو دل اور دماغ پر حاوی ہو جائے…اور انسان کی طبعی طور پر پہلی ترجیح بن جائے… اور اس شوق کی خاطر کسی بھی چیز کو قربان کرنا…بوجھ نہ لگے ، بلکہ اچھا لگے…
ارے وہ گھر جو ہمارے رب کا ہے…جہاں ہمیشہ ہدایت برستی ہے…جہاں ہر نبی تشریف لے گئے…جہاں جبرئیل امین بار بار اترے… جہاں ہمارے آقا ﷺ کا بچپن گزرا،جوانی گزری …جہاں آپ ﷺ کو نبوت ملی…جہاں آپ ﷺ نے اپنے دست مبارک سے حجر اسود رکھا… جہاں ہمارے آقا ﷺ نے بے شمار سجدے کئے … اور ان سجدوں میں آپ ﷺ کو اذیت کا نشانہ بنایا گیا… وہ گھر جو انسانیت کی ترقی ہے…جو اسلام کا مرکز ہے…وہاں کبھی حضرت آدم علیہ السلام تشریف لائے…کبھی حضرت ابراہیم خلیل اللہ نے اس کی مزدوری فرمائی… جہاں سے اسماعیل علیہ السلام ذبح ہونے کو روانہ ہوئے… جہاں ابو بکر نے ماریں کھائیں…جہاں عمر کی شجاعت نے تالے کھولے… جہاں عثمان کی وفاؤں نے ڈیرہ ڈالا… جہاں علی نے بت گرائے … ارے وہاں کے کس کس مقام کو بیان کروں …وہاں کی کس کس فضیلت اور تاریخ کو عرض کروں… زمین پر تو کیا آسمانوں پر بھی کعبہ اور زمزم جیسی بلند نعمتیں موجود نہیں ہیں… جلدی کرو بھائیو جلدی کرو… جلدی کرو بہنو جلدی کرو… مکان پھر بن جائے گا…نہ بنا تو کیا ہوا… شادیوں کے خرچے پھر آ جائیں گے نہ آئے تو کیا ہوا … حج کا فریضہ ادا کر لو… حج کا فریضہ ادا کر لو … حج کا فریضہ ادا کر لو…
دیکھو! ہمارے آقا ﷺ کیا فرما رہے ہیں:
تعجلوا الی الحج فان احدکم لا یدری ما یعرض لہ ( احمد، ابوداؤد)
حج کے لئے جلدی کرو، کیونکہ تم میں کوئی نہیں جانتا کہ اسے کیا حالت پیش آ جائے
دوسری روایت میں فرمایا:
جو حج کرنا چاہے وہ جلدی کرے کیونکہ کبھی بیماری آ جاتی ہے، مال گم ہو جاتا ہے یا کوئی رکاوٹ آ جاتی ہے ( احمد، ابن ماجہ)
ذہن درست کریں
ہر مسلمان جانتا ہے کہ… حج بیت اللہ اسلام کے بنیادی فرائض میں سے ایک فریضہ ہے…اور فرائض ادا کرنے کے لئے ہی ہمیں پیدا کیا گیا ہے …اللہ تعالیٰ ہمیں جو قوت اور مال عطاء فرماتے ہیں …وہ ہماری لازمی ضروریات کے بعد اس لئے ہوتا ہے تاکہ ہم فرائض ادا کریں… فرائض ہی جنت کی ضمانت ہیں…اور یہ ہر انسان کی کامیابی کے لئے لازم ہیں… اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی عبادت کا محتاج نہیں ہے…جو چیزیں ہم پر فرض کی گئی ہیں وہ ہمارے ہی فائدہ اوربقاء کے لئے ضروری ہیں … آگے ہم نے ہمیشہ کی زندگی گزارنی ہے… جب حج فرض ہے تو ضروری ہے کہ…مسلمانوں کو اس کا شوق ہو، اس کی قدر ہو… مگر ہمارا عمومی رویہ کیا ہے؟… جب مال آ جائے گا تو حج کا سوچیں گے …جب شادی کر لیں گے تو حج کا سوچیں گے… جب کاروبار سیٹ ہوجائے گاتو حج کا سوچیں گے … کوئی اور ہمیں بھیج دے گا تو ہم حج کر لیں گے…
یہ فکر کیوں نہیں کرتے کہ… ہم نے یہ فرض بھی اپنے نامہ اعمال میں ڈالنا ہے…ہم نے یہ عظیم کام ضرور کرنا ہے… جب یہ سوچ ہو گی تو دعاء بھی کریں گے…مال آتے ہی حج کے لئے لپکیں گے… مگر یہ سوچ نہیں ہے…اس لئے مال آتا ہے اور اڑ جاتا ہے… یا کہیں جم جاتا ہے…
آہ! آج کتنے مسلمان حج سے محروم ہیں … حالانکہ ہمارے معاشرے میں حج آ جائے تو ہر طرف خوشحالی کا دور دورہ ہو…اور ہم حرمین شریفین کا نور اپنے ساتھ لئے چلتے پھریں…
حج کے لئے کسی سے سوال نہ کریں…حج کے لئے کسی سے توقع نہ رکھیں کہ وہ مجھے لے جائے گا…بس خود اپنے اندر اس کا شوق اور اہمیت لائیں …اور ’’ بیت‘‘ تک جانے کے لئے ’’رب البیت‘‘ سے ہی فریاد کریں…دیکھیں کہ ان شاء اللہ راستے کس طرح سے کھلتے ہیں…
معذرت
آج دل میں باتیں بہت ہیں…ارادہ بھی بہت مفصل لکھنے کا تھا…ابھی تومحبت کی سرزمین مدینہ منورہ کا تذکرہ باقی ہے…حج کے فضائل کی بہت سی روایات بھی سامنے ہیں… اور حج کے شوق کے قصے اور مناظر بھی دل میں مچل رہے ہیں … مگر مزید کچھ لکھنے کی ہمت نہیں رہی…وجہ شاید آپ سمجھ گئے ہوں گے… مگر ایک بات بڑی تسلی والی ’’اہل دل‘‘ نے لکھی ہے…وہ فرماتے ہیں: ایک حج دل اور روح کا بھی ہوتا ہے…دل کعبہ شریف کا طواف کرتا ہے،روح احرام باندھتی ہے … دونوں مل کر روضہ اقدس پر جاتے ہیں…یہ ان لوگوں کا حج ہے جن کا شوق کامل، جذبہ سچا … اور تیاری ایسی کہ موقع ملے تو اپنا سب کچھ قربان کر کے اور بیچ باچ کے نکل پڑیں… مگر ان کو روک لیا جاتا ہے… ہاں! وہ نہیں جا سکتے… ایسے لوگوں کے لئے اللہ تعالیٰ …فاصلے سمیٹ دیتے ہیں… اسلاف میں سے کئی افراد کے قصے مذکور ہیں… ان کا شوق کامل تھا مگر عذر بہت سخت تھا…نہ جا سکے…حاجی واپس آئے تو قسمیں کھا کھا کر کہتے تھے…ہم نے آپ کو طواف کرتے دیکھا …کوئی کہتا ہم نے آپ کو عرفات میں دیکھا… کوئی کہتا روضہ اطہر پر آپ کو پایا… ایسے افراد کے لئے فرشتے مقرر ہوتے ہیں جو ان کی طرف سے وہاں حاضری دیتے ہیں… یہ ایک مستقل موضوع ہے … مقصد یہ کہ کعبہ شریف ہر مومن کے دل کی بڑی اُمنگ ہے… اللہ کرے ہر ایمان والے کو یہ ایمانی اور پاکیزہ شوق نصیب ہو جائے… آمین یا ارحم الراحمین
لا الہ الا اللّٰہ، لا الہ الا اللّٰہ ،لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
اللہم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ