آپﷺ بہت مہمان نواز تھے

رسول اللہﷺ مہمانوں کا بہت خیال کرتے تھے اس کام کے لیے آپﷺ نے حضرت بلال (رضی اللہ عنہ) کو خاص طور پر مقرر فرمایا تھا تاکہ مہمان کی خاطر تواضع ٹھیک سے ہو سکے۔ باہر سے جو وفد آتے آپﷺ خود ان کی خاطر مدارات فرماتے تھے۔ اگر ان کو کوئی مالی ضرورت ہوتی تو آپ اس کا بھی انتظام فرما دیتے۔ آپﷺ کی خاطرداری کافر اور مسلمان دونوں کے لیے عام تھی۔ کوئی غیر مسلم بھی آپﷺ کے یہاں آ جاتا تو اس کی تواضع بھی مسلمان مہمان کی طرح سے ہوتی۔

اکثر ایسا ہوتا رہتا کہ گھر میں کھانے پینے کا جو سامان ہوتا وہ مہمانوں کے سامنے پیش کر دیا جاتا اور آپﷺ اور آپﷺ کے گھر والے فاقہ سے رہ جاتے۔

ایک دن اصحابِ صُفّہ کو لے کر آپﷺ حضرت عائشہ (رضی اللہ عنہا) کے گھر پہنچے (خود آپﷺ کے یہاں کچھ نہ تھا) اور کھانا لانے کے لئے فرمایا۔ چونی کا پکا ہوا کھانا لایا گیا، پھر چھو ہارے کا حریرہ آیا اور آخر میں ایک بڑے پیالے میں دودھ۔ یہی کل کھانا تھا۔

راتوں کو اٹھ اٹھ کر آپ مہمانوں کی خبر گیری فرماتے۔ آپﷺ نے ارشاد فرمایا:
“مہمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ میزبان کے یہاں اتنا ٹھہرے کہ اس کو پریشانی میں مبتلا کر دے۔”
٭٭٭

28: آپﷺ بہت خود دار تھے

سوائے اس کے جب کسی کی ضرورت اسے ہاتھ پھیلانے پر بالکل مجبور کر دے، آپﷺ سوال کرنے اور بھیک مانگنے کو بہت زیادہ ناپسند فرماتے تھے۔ آپﷺ کا ارشاد ہے کہ “اگر کوئی شخص لکڑی کا گٹھا پیٹھ پر لاد کر لائے اور بیچ کر اپنی آبرو بچائے تو یہ اس سے بہتر ہے کہ لوگوں سے سوال کرے۔”

ایک دفعہ ایک انصاری آپﷺ کے پاس آئے اور کچھ سوال کیا۔ آپﷺ نے دریافت کیا:
تمہارے پاس کچھ ہے؟۔” وہ بولے بس ایک بچھونا اور ایک پیالہ ہے۔ آپﷺ نے انہیں لے کر فروخت کیا اور رقم ان انصاری کو دے کر فرمایا “ایک درہم کا کھانا لا کر گھر میں دے آؤ اور دوسرے سے رسی خرید کر جنگل جاؤ۔ لکڑی باندھ کر لاؤ اور شہر میں بیچ لو۔”

15 روز کے بعد وہ انصاری آئے ان کے پاس کچھ درہم جمع ہو گئے تھے۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا” یہ اچھا ہے یا یہ کہ قیامت کے دن چہرے پہ گداگری کا داغ لگا کر جاتے۔”

آپﷺ نے فرمایا لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانا صرف 3 شخصوں کے لیے مناسب ہے۔
1۔ وہ شخص جو بہت زیادہ قرضدار ہو۔
2۔ وہ شخص جس پر ناگہانی مصیبت آ پڑی ہو۔
3۔ وہ شخص جو کئی فاقوں سے ہو۔
ان کے علاوہ اگر کوئی کچھ مانگتا ہے تو حرام کھاتا ہے۔”
٭٭٭