ضبط ولادت کے متعلق بعض سوالات کا جواب

ضبط ولادت کے متعلق بعض سوالات کا جواب
السلام علیکم ورحمۃا للہ وبرکاتہ،،، ضبط ولادت (Birth Control) سے متعلق بعض معلومات پر مشتمل ایک امیج سوشل میڈیا کے ذریعہ ارسال کی گئی تھی، جس پر وارد چند سوالات کا ایک وضاحتی جواب پیش خدمت ہے:

سب سے پہلے صحیح بخاری وصحیح مسلم ودیگر کتب حدیث میں وارد ایک حدیث پیش کررہا ہوں: صحابی رسول حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نبی اکرم ﷺ کے زمانہ میں جب قرآن نازل ہورہا تھا، عزل کرتے تھے، اور ہم کو نبی اکرم ﷺ نے ایسا کرنے سے منع نہیں کیا۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ صحابی رسول حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ حضور اکرم ﷺ کی وفات کے بعد بعض صحابۂ کرام کے عزل کرنے کو بیان کررہے ہیں۔مشہور محدث علامہ نووی ؒ فرماتے ہیں کہ عزل کا مطلب ہے کہ شوہر اپنی بیوی کے ساتھ صحبت کرے، جب منی نکلنے کا وقت قریب آجائے تو منی باہر نکال دے۔ یعنی اُس زمانہ کے اعتبار سے حمل نہ ٹھہرنے کا یہ ایک ذریعہ تھا۔ دیگر احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ وقتی طور پر مانع حمل کے اسباب اختیار تو کئے جاسکتے ہیں، لیکن جو مقدر میں ہے وہ مل کر رہے گا۔
اس موقع پر ایک اور حدیث ذکر کرنا مناسب سمجھتا ہوں: حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے حضور اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا: یا رسول اللہ! مجھ کو ایک حسب ونسب والی خاتون ملی ہے لیکن وہ عورت بانجھ ہے(یعنی اس کے اولاد نہیں ہوسکتی) کیا میں اس سے نکاح کرسکتا ہوں؟ آپ ﷺ نے اس سے شادی کرنے کو منع فرمادیا، پھر دوسرا شخص حاضر ہوا تو اس کو بھی منع فرمادیا، پھر تیسرا شخص حاضر ہوا تو اس کو بھی منع فرمادیا اور فرمایا کہ تم ایسی خواتین سے نکاح کرو کہ جو اولاد پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہوں اور مرد (یعنی شوہر سے) محبت کرنے والی ہوں اس لئے کہ میں تم سے امت کو بڑھاؤں گا۔ (نسائی ۔ کتاب النکاح ۔ باب کراہےۃتزویج العقیم،، ۔ ابوداود ۔ کتاب النکاح ۔ باب النہی عن تزویج من لم یلد من النساء) اسلام کے ابتدائی دور سے لے کر آج تک تمام مفسرین، محدثین، فقہاء ، دانشور اور علماء اس بات پر متفق ہیں کہ حضور اکرم ﷺ کے فرمان کے مطابق اولاد کی کثرت مطلوب ہے، نیز نبی اکرم ﷺسے کسی ایک موقع پر بھی بچوں کو کم پیدا کرنے کی کوئی ترغیب دور دور تک کہیں نہیں ملتی حالانکہ نبی اکرم ﷺاپنی امت کے لئے بہت زیادہ شفیق اور رحم کرنے والے تھے، بلکہ آپ ﷺنے اپنے عمل سے بھی امت مسلمہ کو زیادہ بچے کرنے کی ترغیب دی کہ آپﷺکی چار لڑکیاں اور تین لڑکے پیدا ہوئے۔ آپﷺکے سامنے صحابہ کرام کی ایک بڑی جماعت کے آپﷺسے بھی زیادہ بچے پیدا ہوئے لیکن آپﷺنے کسی ایک صحابی کو ایک مرتبہ بھی یہ نہیں کہا کہ اب بس کرو، اور ان ہی کی تربیت کرلو، حالانکہ رسول اللہﷺکی بعثت کا اصل وبنیادی مقصد لوگوں کی تربیت ہی تھا۔ معلوم ہوا کہ کثرت اولاد بچوں کی بہترین تربیت سے مانع نہیں ہے، اگر ہے تو حضور اکرمﷺنے صحابہ کرام کو کثرت اولاد سے کیوں نہیں روکا؟ حضور اکرم ﷺکی زندگی نہ صرف صحابہ کرام کے لئے موڈل ہے بلکہ قیامت تک آنے والے تمام انسانوں کے لئے بہترین اسوہ (نمونہ) ہے۔

غرضیکہ جمہور علماء کا اتفاق ہے کہ ہر زمانہ کے اعتبار سے وقتی مانع حمل کے مہیا اسباب اختیار کرنے کی گنجائش تو ہے مگر یہ ترغیبی عمل نہیں ہے۔ نیز ہمارا یہ ایمان ہے کہ جو چیز بھی مقدر میں ہے وہ مل کر رہے گی اور رازق وخالق ومالک کائنات صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے اور ہر بچہ اپنے ساتھ اپنا رزق لے کر آتا ہے۔ میرے لکھنے کا اصل مقصد یہ تھا کہ اِن دنوں بعض حضرات وقتی مانع حمل کے اسباب (مثلاً کنڈوم کا استعمال، مانع حمل دوا کھانا وغیرہ) کو حرام سمجھتے ہیں اور پھر بھی استعمال کرتے ہیں، اسی لئے میں نے تحریر کیا کہ اُن کو معلوم ہوجائے کہ وقتی مانع حمل کے اسباب اختیار کرنا حرام نہیں ہے، بلکہ شرعی اعتبار سے ان کی گنجائش ہے اگرچہ ترغیبی عمل نہیں ہے۔ دوسرے بعض حضرات وقتی مانع حمل کے اسباب (مثلاً کنڈوم کا استعمال، مانع حمل دوا کھانا وغیرہ) کو حرام سمجھ کر یہ اسباب اختیار نہیں کرتے ہیں، لیکن حمل ٹھہرنے کے بعد اسقاط حمل (Abortion) کی تدبیروں میں لگ جاتے ہیں حالانکہ اسقاط حمل (Abortion) حرام ہے۔ لہٰذا ہمیں چاہئے کہ اگر ہم اولاد کے درمیان وقفہ چاہتے ہیں تو مانع حمل کے جائز طریقے پہلے سے اختیار کرلیں، تاکہ بعد میں اسقاط حمل کا معاملہ ہی درپیش نہ ہو، کیونکہ حمل ٹھہرنے کے بعد اسقاط حمل (Abortion) کرانا حرام ہے۔

اس امیج میں عبارت کم تھی، نیز ظاہر ہے کہ اس طرح کی امیج میں حوالوں کا ذکر نہیں کیا جاسکتا ہے، اس لئے بعض الفاظ کے استعمال اور حوالوں کے ذکر نہ کرنے پر بعض حضرات کا سوال تھا۔جو میں سمجھتا ہوں کہ وہ دور ہوگیا ہوگا، باقی جو میں نے تحریر کیا تھا کہ دو یا تین بچوں کی ولادت کے بعد ، اس کا مقصد ہرگز یہ نہیں ہے کہ اس سے کم یا زیادہ کی صورت میں وقتی مانع حمل کے اسباب اختیار کرنا حرام ہے۔ یعنی کوئی بھی شخص کسی بھی وقت وقتی مانع حمل کے اسباب اختیار کرسکتا ہے، اگرچہ یہ ترغیبی عمل نہیں ہے۔ اور ولادت کے سلسلہ کو بالکل ختم کرنا جائز نہیں ہے، ہاں اگر عورت کی صحت کے لئے انتہائی ضروری ہے تو پھر گنجائش ہے، خواہ وہ ایک بچہ کی ولادت کے بعد یا اس سے زیادہ کی صور ت میں۔ حمل ٹھہرنے کے بعد اسقاط حمل (Abortion) کی کوئی گنجائش نہیں ہے، الّا یہ کہ عورت کی جان کو خطرہ لاحق ہوجائے۔ اجازت محض دو ضرر میں سے بڑے ضرر کو دور کرنے، اور دو مصلحتوں میں سے بڑی مصلحت کو حاصل کرنے کے لئے ہے۔ محمد نجیب قاسمی سنبھلی

دیش ورودھیوں کی جانب سے مسلم پرسنل لاء میں مداخلت برداشت نہیں
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيْم

اَلْحَمْدُ لِلّهِ رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلامُ عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔

دیش ورودھیوں کی جانب سے مسلم پرسنل لاء میں مداخلت برداشت نہیں

جمہور علماء کا فیصلہ: تین طلاق دینے سے تین ہی طلاق پڑتی ہیں

ہندوستانی قوانین کے مطابق ہر مسلمان کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اسلامی تعلیمات کے مطابق اپنی زندگی گزارے، مگر بعض دیش ورودھی اور ملک میں نفرت وعداوت پھیلانے والے دہشت گرد وقتاً فوقتاً مسلم پرسنل لاء بورڈ پر حملہ کرتے رہتے ہیں، حالانکہ مسلمانوں کے لئے مسلم پرسنل لاء بنایا گیا ہے اور مسلمانوں کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے، لیکن بعض حضرات جن کا تعلق اکثریتی فرقہ سے ہے، جن کے لئے مسلم پرسنل لاء نہیں ہے، وہ مسلم پرسنل لاء بورڈ پر ہنگامہ کرتے رہتے ہیں۔ ہندوستان میں مسلم پرسنل لاء کے نفاذ کے باوجود اکثریتی فرقہ کو مکمل حق حاصل ہے کہ وہ اپنے مذہب کے اعتبار سے زندگی گزارے۔ ہندوستانی مسلمان نہ تو کوئی مظاہرہ یا احتجاج کرتے ہیں کہ اکثریتی فرقہ اپنے مذہب پر عمل کیوں کرتا ہے اور نہ ہی مسلمانوں کی طرف سے کوئی تحریک ہے کہ اکثریتی فرقہ بھی مسلم پرسنل لاء پر عمل کرے۔

ہندوستانی قوانین کے مطابق ہر مذہب کے ماننے والوں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی مذہبی تعلیمات کے مطابق زندگی گزارے۔ یہی وہ ہندوستان کی ہزاروں سال پرانی روایت ہے جس کو بھگوا دہشت گرد ختم کرنا چاہتے ہیں۔ ملک میں نفرت وعداوت کا بیج بونے والے دیش ورودھی ملک کو ترقی کی راہ پر لے جانے اور ملک میں امن وسلامتی قائم رکھنے کے بجائے صرف اور صرف اپنے سیاسی مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے وہ اس طرح کے موضوعات اٹھاتے رہتے ہیں تاکہ مسلمانوں میں اختلافات پیدا کئے جائیں اور وہ ان مسائل میں الجھ کر ترقی نہ کرسکیں۔
ہمارے بعض مسلمان بھائی اپنے آپ کو دانشور سمجھ کر بعض شرعی مسائل میں ان کی ہاں میں ہاں ملانے لگتے ہیں ، جس کی وجہ سے تین طلاق، ایک سے زیادہ شادی، طلاق کے بعد عورت کا نان ونفقہ، اسلام میں خواتین کا مقام، خواتین کے لئے پردہ، لاوڈاسپیکر پر اذان، مساجد ومدارس کی تعمیر اور وراثت جیسے بعض مسائل میڈیا کی زینت بن جاتے ہیں۔ بعض حضرات قرآن وحدیث کے دلائل سے واقفیت کے بغیر شرعی مسائل میں اپنی رائے پیش کرنا شروع کردیتے ہیں۔ ان دنوں ایک بار میں دی گئیں تین طلاق کے موضوع پر بعض حضرات کے مضامین اخباروں میں شائع ہوئے۔ چنانچہ میں نے ضرورت محسوس کی کہ عام مسلمانوں کو یہ بتایا جائے کہ ۱۴۰۰ سال سے امت مسلمہ کا ۹۸ فیصد سے زیادہ طبقہ قرآن وحدیث کی روشنی میں اس بات پر متفق چلا آرہا ہے کہ ایک بار تین طلاق دینے پر تین ہی طلاق واقع ہوں گی۔ مسئلہ چونکہ سو فیصد دینی ہے لہٰذا عقلی گھوڑے دوڑانے کے بجائے صرف قرآن وحدیث وعلماء امت کے اقوال کی طرف رجوع کیا جانا چاہئے۔ جہاں تک عقل کی بات ہے تو پوری دنیا میں کسی بھی جگہ پر ایسا نہیں ہوتا کہ تین کی گنتی کو ایک تسلیم کرلیا جائے، مثلاً اگر کسی شخص نے کسی شخص کے تین گولیاں ماری ہیں تو صرف یہ کہہ کر کہ گولیاں مارنا چونکہ قانون کے خلاف تھا، لہٰذا صرف ایک گولی مارنا تسلیم کیا جائے گا۔
موضوع بحث مسئلہ (تین طلاق) پر گفتگو کرنے سے قبل نکاح کی حقیقت کو سمجھیں کہ نکاح کی حیثیت اگر ایک طرف باہمی معاملہ ومعاہدہ کی ہے تو دوسری طرف یہ سنت وعبادت کی حیثیت بھی رکھتا ہے۔ شریعت کی نگاہ میں یہ ایک بہت ہی سنجیدہ اور قابل احترام معاملہ ہے جو اس لئے کیا جاتا ہے کہ باقی رہے یہاں تک کہ موت ہی میاں بیوی کو ایک دوسرے سے جدا کرے۔ یہ ایک ایسا قابل قدر رشتہ ہے جو تکمیل انسانیت کا ذریعہ اور رضائے الہی واتباع سنت کا وسیلہ ہے۔ اور یہ ایک ایسا معاملہ ہے جس کے ٹوٹنے سے نہ صرف میاں بیوی متاثر ہوتے ہیں بلکہ اس سے پورے گھریلو نظام کی چولیں ہل جاتی ہیں اور بسا اوقات خاندانوں میں جھگڑے تک کی نوبت آجاتی ہے۔ اسی لئے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کی حلال کردہ چیزوں میں طلاق سے زیادہ گھناؤنی اور کوئی چیز نہیں ہے ۔ (ابوداود) اسی لئے علماء کرام نے فرمایا ہے کہ طلاق کا لفظ کبھی مذاق میں بھی زبان پر نہ لایا جائے۔

اسی لئے جو اسباب اس بابرکت اور مقدس رشتہ کو توڑنے کا ذریعہ بن سکتے ہیں انہیں راہ سے ہٹانے کا شریعت نے مکمل انتظام کیا ہے۔ چنانچہ میاں بیوی میں اختلاف کی صورت میں سب سے پہلے ایک دوسرے کو سمجھانے کی کوشش کی جائے ، پھر ڈانٹ ڈپٹ کی جائے۔ اور اس سے بھی کام نہ چلے اور بات بڑھ جائے تو دونوں خاندان کے چند افراد مل کر معاملہ طے کرنے کی کوشش کریں۔ لیکن بسا اوقات حالات اس حد تک بگڑ جاتے ہیں کہ اصلاح حال کی یہ ساری کوششیں بے سود ہوجاتی ہیں اور رشتہ ازدواج سے مطلوب فوائد حاصل ہونے کے بجائے میاں بیوی کا باہم مل کر رہنا ایک عذاب بن جاتا ہے۔ ایسی ناگزیر حالت میں کبھی کبھی ازدواجی زندگی کا ختم کردینا ہی نہ صرف دونوں کے لئے بلکہ دونوں خاندانوں کے لئے باعث راحت ہوتا ہے، اس لئے شریعت اسلامیہ نے طلاق اور فسخ نکاح (خُلع) کا قانون بنایا، جس میں طلاق کا اختیار صرف مرد کو دیا گیا کیونکہ اس میں عادتاً وطبعاً عورت کے مقابلہ فکروتدبر اور برداشت وتحمل کی قوت زیادہ ہوتی ہے۔ لیکن عورت کو بھی اس حق سے یکسر محروم نہیں کیا گیا بلکہ اسے بھی یہ حق دیا گیا ہے کہ وہ شرعی عدالت میں اپنا موقف پیش کرکے قانون کے مطابق طلاق حاصل کرسکتی ہے جس کو خُلع کہا جاتا ہے۔

مرد کو طلاق کا اختیار دے کر اسے بالکل آزاد نہیں چھوڑ دیا گیا بلکہ اسے تاکیدی ہدایت دی گئی کہ کسی وقتی وہنگامی ناگواری میں اس حق کا استعمال نہ کرے۔ نیز حیض کے زمانہ میں یا ایسے پاکی میں جس میں ہم بستری ہوچکی ہے طلاق نہ دے کیونکہ اس صورت میں عورت کی عدت خواہ مخواہ لمبی ہوسکتی ہے۔ بلکہ اس حق کے استعمال کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ جس پاکی کے ایام میں ہم بستری نہیں کی گئی ہے ایک طلاق دے کر رک جائے، عدت پوری ہوجانے پر رشتہ نکاح خود ہی ختم ہوجائے گا، دوسری یا تیسری طلاق کی ضرورت نہیں پڑے گی اور اگر دوسری یا تیسری طلاق دینی ہی ہے تو الگ الگ پاکی میں دی جائے۔ پھر معاملۂ نکاح کو توڑنے میں یہ لچک رکھی گئی ہے کہ دوران عدت اگر مرد اپنی طلاق سے رجوع کرلے تو نکاح سابق بحال رہے گا۔ نیز عورت کو ضرر سے بچانے کی غرض سے حق رجعت کو بھی دو طلاقوں تک محدود کردیا گیا تاکہ کوئی شوہر محض عورت کو ستانے کے لئے ایسا نہ کرے کہ ہمیشہ طلاق دیتا رہے اور رجعت کرکے قید نکاح میں اسے محبوس رکھے جیسا کہ سورۃ البقرۃ کی آیات نازل ہونے سے پہلے بعض لوگ کیا کرتے تھے، بلکہ شوہر کو پابند کردیا گیا کہ اختیار رجعت صرف دو طلاقوں تک ہی ہے۔ تین طلاقوں کی صورت میں یہ اختیار ختم ہوجائے گابلکہ میاں بیوی اگر باہمی رضا مندی سے بھی دوبارہ نکاح کرنا چاہیں توایک خاص صورت کے علاوہ یہ نکاح درست اور حلال نہیں ہوگا۔ فَاِنْ طَلَّقَہَا فَلَا تَحِلُّ لَہ مِنْ بَعْدُ حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجاً غَيْرَہ (سورۃ البقرہ ۲۳۰) میں یہی خاص صورت بیان کی گئی ہے، جس کا حاصل یہ ہے کہ اگر کسی شخص نے تیسری طلاق دے دی تو دونوں میاں بیوی رشتہ نکاح سے منسلک ہونا بھی چاہیں تو وہ ایسا نہیں کرسکتے یہاں تک کہ یہ عورت طلاق کی عدت گزارنے کے بعد دوسرے مرد سے نکاح کرے، دوسرے شوہر کے ساتھ رہے ، دونوں ایک دوسرے سے لطف اندوز ہوں۔ پھر اگر اتفاق سے یہ دوسرا شوہر بھی طلاق دیدے یا وفات پاجائے تو اس کی عدت پوری کرنے کے بعد پہلے شوہر سے نکاح ہوسکتا ہے۔ یہی وہ جائز حلالہ ہے جس کا ذکر کتابوں میں ملتا ہے۔

اب موضوع بحث مسئلہ کی طرف رجوع کرتا ہوں کہ اگر کسی شخص نے حماقت اور جہالت کا ثبوت دیتے ہوئے ابغض الحلال طلاق کے بہتر طریقہ کو چھوڑکر غیر مشروع طور پر طلاق دیدی مثلاً تین طلاقیں ناپاکی کے ایام میں دے دیں یا ایک ہی طہر میں الگ الگ وقت میں تین طلاقیں دے دیں یا الگ الگ تین طلاقیں ایسے تین پاکی کے ایام میں دیں جس میں کوئی صحبت کی ہو یا ایک ہی وقت میں تین طلاقیں دے دیں، تو اس کا کیا اثر ہوگا ؟ مذکورہ بالا تمام غیر مشروع صورتوں میں تین ہی طلاق پڑنے پر پوری امت مسلمہ متفق ہے، سوائے ایک صورت کے، کہ اگر کوئی شخص ایک مرتبہ میں تین طلاق دے دے تو کیا ایک واقع ہوگی یا تین۔ فقہاء صحابہ کرام حضرت عمرفاروقؓ ، حضرت عثمانؓ ، حضرت علیؓ ، حضرت عبد اللہ بن عباسؓ ، حضرت عبد اللہ بن عمرؓ ، حضرت عبداللہ بن عمروؓ، حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ وغیرہ وغیرہ تین ہی طلاق پڑنے کے قائل تھے۔ جمہور علماء ومحدثین ومفسرین کی رائے کے مطابق تین ہی طلاق واقع ہوں گی۔ نیز چاروں امام (امام ابوحنیفہؒ ، امام مالکؒ ، امام شافعیؒ اور امام احمد بن حنبلؒ ) کی متفق علیہ رائے بھی یہی ہے کہ ایک مرتبہ میں تین طلاق دینے پر تین ہی واقع ہوں گی۔ علماء کرام کی سری چھوٹی سی جماعت (غیر مقلدین) نے جن دو احادیث کو بنیاد بناکر ایک مجلس میں تین طلاق دینے پر ایک واقع ہونے کا فیصلہ فرمایا ہے، جمہور علماء ومحدثین ومفسرین نے ان احادیث کو غیر معتبر قرار دیا ہے۔

قرآن وحدیث کی روشنی میں ۱۴۰۰ سال سے امت مسلمہ کی ۹۸ فیصد سے زیادہ تعداد اسی بات پر متفق ہے کہ ایک مجلس کی تین طلاقیں تین ہی شمار کی جائیں گی، لہذا اگر کسی شخص نے ایک مرتبہ میں تین طلاقیں دیدیں تو اختیار رجعت ختم ہوجائے گانیز میاں بیوی اگر باہمی رضا مندی سے بھی دوبارہ نکاح کرنا چاہیں تویہ نکاح درست اور حلال نہیں ہوگا یہاں تک کہ یہ عورت طلاق کی عدت گزارنے کے بعد دوسرے مرد سے نکاح کرے، دوسرے شوہر کے ساتھ رہے، دونوں ایک دوسرے سے لطف اندوز ہوں۔ پھر اگر اتفاق سے یہ دوسرا شوہر بھی طلاق دیدے یا وفات پاجائے تو اس کی عدت پوری کرنے کے بعد پہلے شوہر سے نکاح ہوسکتا ہے۔ خلیفہ ثانی حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں ایک مجلس میں تین طلاقیں دینے پر بے شمار مواقع پر باقاعدہ طور پر تین ہی طلاق کا فیصلہ صادر کیا جاتا رہا ،کسی ایک صحابی کا کوئی اختلاف حتی کہ کسی ضعیف روایت سے بھی نہیں ملتا۔ اس بات کو پوری امت مسلمہ مانتی ہے۔ لہذا قرآن وحدیث کی روشنی میں جمہور فقہاء کرام خاص کر چاروں ائمہ اور ان کے تمام شاگردوں کی متفق علیہ رائے بھی یہی ہے کہ ایک مجلس میں تین طلاق دینے پر تین ہی واقع ہوں گی۔ بعض فقہاء مثلاً ابن قدامہ حنبلیؒ نے یہ وجہ بیان کی ہے کہ نکاح ایک ملک ہے ، جسے متفرق طورپر زائل کیا جاسکتا ہے ، تو مجموعی طور پر بھی زائل کیا جاسکتا ہے ، جیسا کہ تمام ملکیتوں کا یہی حکم ہے۔

علامہ ابن عبد الہادیؒ نے علامہ ابن رجبؒ سے نقل کیا ہے کہ میرے علم میں کسی صحابی اور کسی تابعی اور جن ائمہ کے اقوال حلال وحرام کے فتویٰ میں معتبر ہیں ، ان میں سے کسی سے کوئی ایسی صریح بات ثابت نہیں جو بیک لفظ تین طلاق کے ایک ہونے پر دلالت کر ے ، خود علامہ ابن تیمیہؒ نے تین طلاق کے حکم میں مختلف اقوال پیش کر نے کے دوران کہا: ’’دوسرا مذہب یہ ہے کہ یہ طلاق حرام ہے اور لازم ونافذ ہے ، یہی امام ابوحنیفہؒ ، امام مالک ؒ اور امام احمدؒ کا آخری قول ہے، ان کے اکثر تلامذہ نے اسی قو ل کو اختیار کیا ہے ، اور یہی مذہب سلف صحابہ وتابعین کی ایک بڑی تعداد سے منقول ہے ‘‘۔اور علامہ ابن قیم ؒ نے کہا: ’’ ایک لفظ کی تین طلاق کے بارے میں چار مذہب ہیں ۔ پہلا مذہب یہ ہے کہ تین طلاق واقع ہوجاتی ہے،یہی مذہب ائمہ اربعہ ، جمہور تابعین اور بہت سے صحابۂ کرام کا ہے ‘‘ ۔ علامہ قرطبیؒ نے فرمایا : ’’ہمارے علماء نے فرمایا کہ تمام ائمہ فتاویٰ ایک لفظ سے تین طلاق کے لازم ہونے پرمتفق ہیں اور یہی جمہور سلف کا قول ہے ‘‘۔ علامہ ابن عربی ؒ نے اپنی کتاب الناسخ والمنسوخ میں کہا ہے اور اسے علامہ ابن قیمؒ نے بھی تہذیب السنن میں نقل کیا ہے : ’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے الطلاق مرتان (یعنی طلاق دومرتبہ ہے) آخر زمانہ میں ایک جماعت نے لغزش کھائی اور کہنے لگے : ایک لفظ کی تین طلاق سے تین نافذ نہیں ہوتی ، انھوں نے اس کو ایک بنادیا اور اس قول کو سلف اول کی طرف منسوب کردیا۔ حضرت علیؓ، حضرت زبیرؓ، حضرت ابن عوفؓ، حضرت ابن مسعودؓ اور حضرت ابن عباسؓ سے روایت کیا اور حجاج بن ارطاۃ کی طرف روایت کی نسبت کردی ؛ جن کا مرتبہ ومقام کمزور اور مجروح ہے ، اس سلسلہ میں ایک روایت کی گئی جس کی کوئی اصلیت نہیں‘‘۔انہوں نے یہاں تک کہا ہے کہ: ’’ لوگوں نے اس سلسلہ میں جواحادیث صحابہ کی طرف منسوب کی ہیں ، وہ محض افتراء ہے ، کسی کتاب میں اس کی اصل نہیں اور نہ کسی سے اس کی روایت ثابت ہے ‘‘۔ اور آگے کہا : ’’حجاج بن ارطاۃ کی حدیث نہ امت میں مقبول ہے اور نہ کسی امام کے نزدیک حجت ہے ‘‘۔

۱۳۹۳ھ میں سعودی عرب کے بڑے بڑے علماء کرام نے بحث ومباحثہ کے بعد قرآن وحدیث کی روشنی میں صحابہ کرام، تابعین اور تبع تابعین کے اقوال کو سامنے رکھ کریہی فیصلہ کیا کہ ایک وقت میں دی گئی تین طلاقیں تین ہی شمار ہوں گی۔ یہ پور ی بحث اور مفصل تجویز مجلۃ البحوث الاسلامیہ ۱۳۹۷ھ میں ۱۵۰ صفحات میں شائع ہوئی ہے جو اس موضوع پر ایک اہم علمی دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے۔ فیصلہ کے الفاظ یہ ہیں :مسئلہ موضوعہ کے مکمل مطالعہ ، تبادلۂ خیال اور تمام اقوال کا جائزہ لینے اور ان پر وارد ہونے والے اعتراضات پر جرح ومناقشہ کے بعد مجلس نے اکثریت کے ساتھ ایک لفظ کی تین طلاق سے تین واقع ہو نے کا قول اختیارکیا۔ اس مجلس کے جن علماء نے تین طلاق کو ایک قرار دیا ہے ، انھوں نے صرف اس صورت کا یہ حکم بیان کیا ہے ’’ جب کوئی شخص یوں طلاق دے کہ میں نے تین طلاق دی (یا دیا) ؛ لیکن جب کوئی یوں کہے کہ میں نے طلاق دیا، میں نے طلاق دیا، میں نے طلاق دیا، تو اس صورت میں وہ بھی نہیں کہتے کہ ایک طلاق پڑے گی‘‘۔ یعنی اس صورت میں ان کے نزدیک بھی تین طلاق واقع ہوگی ۔ سعودی عرب کے علماء نے اس فیصلہ کے ۴۴ سال گزرنے کے بعد اس موضوع پر بحث ومباحثہ کی دوبارہ ضرورت محسوس نہیں کی بلکہ اسی فیصلہ کو آج بھی آخری فیصلہ تسلیم کیا جاتا ہے۔

خلاصۂ کلام: صحابۂ کرام، تابعین، تبع تابعین، جمہور علماء کرام ومحدثین ومفسرین ،نیز چاروں ائمہ (امام ابوحنیفہؒ ، امام مالکؒ ، امام شافعیؒ اور امام احمد بن حنبلؒ ) ، ہندوستان ،پاکستان، بنگلادیش، افغانستان اور سعودی عرب کے جمہور علماء کی قرآن وحدیث کی روشنی میں متفق علیہ رائے یہی ہے کہ ایک مرتبہ میں تین طلاق دینے پر تین ہی واقع ہوں گی۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں ایک مرتبہ میں تین طلاقیں دینے پر صحابۂ کرام کے سامنے بے شمار مواقع پر باقاعدہ طور پر تین ہی طلاق کا فیصلہ صادر کیا گیا ۔ صرف ایک چھوٹی سی جماعت (غیر مقلدین) نے ایک دفعہ میں تین طلاق دینے پر ایک واقع ہونے کا فیصلہ فرمایا ہے۔ غرضیکہ امت مسلمہ کا ۹۸ فیصد سے زیادہ طبقہ ایک بار میں تین طلاق دینے پر تین ہی کے واقع ہونے پر متفق ہے۔ احتیاط کا تقاضہ بھی یہی ہے کہ تین طلاق کو تین ہی مانا جائے ورنہ قرآن وحدیث کی روشنی میں جمہور علماء کی رائے کے مطابق پوری زندگی حرام کاری ہوگی۔ عقل بھی یہی کہتی ہے کہ تین کو تین ہی رکھا جائے، اس کو ایک کیوں تسلیم کرلیا جائے۔ مضمون کی طوالت سے بچنے کے لئے دلائل پر بحث نہیں کی گئی ہے۔موضوع بحث مسئلہ میں دلائل اور تمام حوالوں کے لئے میرے مضمون (تین طلاق کا مسئلہ) اور سعودی عرب کے علماء کا فیصلہ جو میرے مضمون کے آخر میں موجود ہے، کا مطالعہ کریں جو میری ویب سائٹ (www.najebqasmi.com) پر موجود ہے۔

ڈاکٹر محمد نجیب قاسمی سنبھلی ، ریاض

اولاد کی تربیت ایک اہم ذمہ داری
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيْم

اَلْحَمْدُ لِلّهِ رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلامُ عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔

اولاد کی تربیت ایک اہم ذمہ داری

عموماً ہم اولاد اس لئے چاہتے ہیں کہ اولاد سے ہمیں خوشی اور زندگی میں طاقت ملتی ہے جبکہ بے اولاد شخص زندگی میں تنہائی محسوس کرتا ہے۔اولاد بڑھاپے کی لاٹھی سمجھی جاتی ہے جبکہ بے اولاد بڑھاپے کی اس امید سے محروم ہوتا ہے۔ اولاد ہماری آنکھوں کی ٹھنڈک ہوتی ہے اور بے اولاد کی زندگی اس رنگ ونور سے خالی ہوتی ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ اولاد ہمارے مرنے کے بعد ہمارے وجود کی نشانی بھی ہوتی ہے۔ غرضیکہ اولاد اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمت ہونے کے ساتھ ساتھ دنیاوی زندگی کی زیب وزینت بھی ہے، جیساکہ ارشاد ربانی ہے: مال اور اولاد دنیاوی زندگی کی زینت ہیں۔(سورۃ الکہف ۴۶) ابنیاء کرام نے اللہ تعالیٰ سے اولاد عطا کرنے کی دعا بھی کی، چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی : میرے پروردگار! مجھے ایک ایسا بیٹا دیدے جو نیک لوگوں میں سے ہو۔ چنانچہ ہم نے انہیں ایک بردبار لڑکے کی خوشخبری دی۔ (سورۃ الصافات ۱۰۰ و ۱۰۱) حضرت زکریا علیہ السلام نے دعا کی: اور مجھے اپنے بعد اپنے چچا زاد بھائیوں کا اندیشہ لگا ہوا ہے اور میری بیوی بانجھ ہے۔ لہٰذا آپ اپنے پاس سے ایک ایسا وارث عطا کردیجئے جو میرا بھی وارث ہو اور یعقوب کی اولاد سے بھی میراث پائے۔ اے پروردگار! اسے ایسا بنائیے جو (خود آپ کا) پسندیدہ ہو۔۔۔ (آواز آئی کہ 🙂 اے زکریا! ہم تمہیں ایک ایسے لڑکے کی خوشخبری دیتے ہیں جس کا نام یحیے ہوگا۔۔۔ (سورۃ مریم ۵ و۶ و ۷)

اولاد سے متعلق نیک بندوں کی دعا بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے پاک کلام میں ذکر فرمائی ہے: ہمارے پروردگار! ہمیں اپنی بیوی بچوں سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما ۔(سورۃ الفرقان، آیت ۷۴)

مذکورہ بالا آیاتِ قرآنیہ سے معلوم ہوا کہ اولاد اللہ کی عطا کردہ ایک عظیم نعمت ہے، لہٰذا ہمیں اس نعمت کی قدر کرنی چاہئے، اور وہ یہ ہے کہ ہم ان کی تعلیم وتربیت میں کوئی کوتاہی نہ کریں۔اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا :اے ایمان والو! تم اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں۔ (سورۃ التحریم۶) مفسرین کرام نے اس آیت کی تفسیر میں تحریر کیا ہے کہ ہر شخص پر فرض ہے کہ اپنی بیوی اور اولاد کو فرائض شرعیہ اور حلال وحرام کے احکام کی تعلیم دے اور اس پر عمل کرانے کی کوشش کرے۔ رسول اللہ ﷺ نے اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: تم میں سے ہر ایک ذمہ دار ہے اور اس کی ذمہ داری کے متعلق پوچھا جائے گا۔ امیر اپنی رعایا کا، مرد اپنے اہل وعیال کا، عورت اپنے شوہر کے گھر اور بچوں کی ذمہ دار ہے۔ (بخاری ومسلم)

بچوں کی دینی تعلیم وتربیت کے لئے چند امور کا خاص خیال رکھیں:

بچوں کو توحید کی تعلیم دیں:

اولاد کی تربیت کے لئے والدین کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنی اولاد کو سب سے پہلے توحیدکی تعلیم دیں۔ بچوں کی شروع سے ہی ایسی اسلامی تربیت کریں کہ وہ زندگی کی آخری سانس تک موحد رہیں۔ان کا عقیدۂ توحید زندگی کے کسی موڑ پر نہ لڑکھڑائے۔ بچوں کے ذہن پر ایام طفولت سے یہ نقش کردیں کہ جس ذات کی ہم عبادت کرتے ہیں، اس کا نام اللہ ہے، وہ اپنی ذات وصفات میں منفرد ہے، اس جیسی کوئی ذات نہیں، اس کی بادشاہت میں کوئی شریک نہیں، ساری کائنات کا نفع ونقصان، موت وحیات، بیماری وشفا، اس کے دست قدرت میں ہے۔ وہ غنی ہے، اور ہم سب اس کے محتاج ہیں۔جس وقت بچہ بولنا سیکھے سب سے پہلے اسے اپنے خالق ومالک “اللہ” کا مبارک نام سیکھائے، پھر کلمہ توحید (لا الہ الا اللہ) سکھائے۔ حضرت عبد اللہ بن عباسؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اپنے بچوں کی زبان سب سے پہلے لا الہ الا اللہ سے کھلواؤ۔ بچہ جب تھوڑا سا سمجھنے لگے تو اس کی سمجھ کے مطابق اسے حلال وحرام کی تعلیم دیں۔ (حاکم) اللہ کی وحدانیت کی تعلیم کے ساتھ ان کو حضور اکرم ﷺ کے آخری نبی ورسول ہونے کی تعلیم دیں اور ان کو بتائیں کہ کل قیامت تک صرف اور صرف نبی اکرم ﷺ کے نقش قدم پر چل کر ہی دونوں جہاں کی کامیابی وکامرانی حاصل کی جاسکتی ہے۔

بچوں کو قرآن کریم پڑھائیں:

قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا پاک کلام ہے جو اللہ تعالیٰ نے قیامت تک آنے والے انس وجن کی رہنمائی کے لئے آخری نبی حضور اکرم ﷺ پر وحی کے ذریعہ نازل فرمایا، اپنے بچوں کو سب سے قبل ناظرہ پڑھائیں، چھوٹی چھوٹی سورتیں یاد کرائیں، اگر حافظ قرآن بنائیں تو نور علی نور۔ رسول اللہ ﷺ نے امت کو بکثرت قرآن کی تلاوت کا حکم دیا کیونکہ قرآن کل قیامت کے دن پڑھنے والوں کی سفارش کرے گا اور قرآن کی سفارش قبول کی جائے گی۔ (مسلم) رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: قرآن کریم پڑھنے والے اور اس پر عمل کرنے والے کے والدین کو ایسا تاج پہنایا جائے گا جس کی روشنی اور چمک سورج کی روشنی اور چمک سے بھی زیادہ ہوگی۔ ابوداود

بچوں کی نماز کی نگرانی کریں:

ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی ذات سے نمازوں کا اہتمام کرکے اپنی اولاد کی بھی نمازوں کی نگرانی کرے۔ جس طرح اولاد کی دنیاوی تعلیم اور ان کی دیگر ضرورتوں کو پورا کرنے کی دن رات فکر کی جاتی ہے اسی طرح بلکہ اس سے زیادہ ان کی آخرت کی فکر کرنی چاہئے کہ وہ کس طرح جہنم کی آگ سے بچ کر ہمیشہ ہمیشہ کی جنت میں داخل ہونے والے بن جائیں۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: بچے جب سات سال کے ہو جائیں تو نماز کا حکم دیں اور جب دس سال کے ہوجائیں تو نماز میں کوتاہی کرنے پر ان کی پٹائی کریں۔ دس سال کی عمر میں ان کے بستر الگ کردیں۔ (ابوداود) عام طور پر بچے سات سال کی عمر میں سمجھ دار ہوجاتے ہیں، اس وقت ان کو خدا پرستی کے راستے پر ڈالنا چاہئے اور ان کو نماز پڑھنے کی ترغیب دینی چاہئے، دس سال کی عمر میں ان کا شعور کافی پختہ ہوجاتا ہے اور بلوغ کا زمانہ قریب آجاتا ہے، اس لئے نماز کے معاملہ میں ان پر سختی کرنی چاہئے، نیز اس عمر کو پہنچ جانے پر ان کو الگ الگ لٹانا چاہئے، ایک ساتھ ایک بستر پر لٹانے میں مفاسد کا اندیشہ ہے۔ نماز کے ساتھ بچوں کو وقتاً فوقتاً روزے بھی رکھواتے رہیں تاکہ بلوغ سے قبل وہ روزہ رکھنے کے عادی بن جائیں۔

اللہ تعالیٰ اپنے پاک کلام میں ارشاد فرماتا ہے: (اے محمد!) اپنے گھر کے لوگوں پر نماز کی تاکید رکھ اور خود بھی اس پر جما رہ۔ (سورہ طہ۱۳۲) اس خطاب میں ساری امت نبی اکرم ﷺ کے تابع ہے، یعنی ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے کہ وہ خود بھی نماز کی پابندی کرے اور اپنے گھر والوں کو بھی نماز کی تاکید کرتا رہے۔اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا قرآن کریم میں ذکر فرمائی: اے میرے پالنے والے! مجھے نماز کا پابند رکھ اور میری اولاد میں سے بھی (یعنی مجھے اور میری اولاد کو نماز کا پابند بنادے) (سورہ ابراہیم۴۰) حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے ساتھ اپنی اولاد کے لئے بھی نماز کی پابندی کرنے کی دعا مانگی، جس سے معلوم ہوا کہ ہر شخص کو اپنے ساتھ اپنے گھر والوں کی بھی نمازکی فکر کرنی چاہئے۔
بچوں کو قرآن وحدیث کی بنیادی تعلیم سے روشناس کریں:

اب عمومی طور پر ہمارے بچے اسکول وکالج پڑھنے جاتے ہیں۔ یقیناًہم اپنے بچوں کو ڈاکٹر، انجینئر اور لیکچرار بنائیں لیکن سب سے قبل ان کو مسلمان بنائیں۔ لہٰذا اسلام کے بنیادی ارکان کی ضروری معلومات کے ساتھ حضور اکرم ﷺ کی سیرت اور اسلامی تاریخ سے ان کو ضرور بالضرور روشناس کرائیں۔ اگر ہمارا بچہ ڈاکٹر یا انجینئر بنا لیکن شریعت اسلامیہ کے بنیادی احکام سے ناواقف ہے تو کل قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے سامنے ہمیں جواب دینا ہوگا۔گرمی وغیرہ کی چھٹیوں کا فائدہ اٹھاکر بچوں کو قرآن وحدیث کی تعلیم دینے کا خصوصی بندوبست کریں۔ روز مرہ استعمال ہونے والی دعاؤں کو یاد کراکر ان کو پڑھانے کا اہتمام کرائیں۔ احادیث میں چالیس حدیثیں یاد کرنے کی خصوصی فضیلت وارد ہوئی ہے، لہٰذا چھوٹی چھوٹی حدیثیں اردو یا انگریزی یا عربی زبان میں یاد کرائیں۔ اس وقت ہندوستان میں تاریخ کو مسخ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، لہٰذا علماء کرام کی تحریر کردہ تاریخ کی کتابیں ان کو ضرور پڑھائیں۔

بچیوں کو شرم وحیا والے لباس پہنائیں:

ان دنوں ہماری مسلم لڑکیوں حتی کہ دینی گھرانوں کی بچیوں کا لباس غیر اسلامی ہوتا جارہا ہے۔ مختلف تقریبات میں ایسا لباس پہن کر ہماری مسلم بچیاں شریک ہوتی ہیں کہ دنیا کا کوئی بھی عالم اس کے جواز کا فتوی نہیں دے سکتا ہے، اس لئے ہمیں اپنی بچیوں کو ابتداء سے ہی تنگ لباس پہننے سے روکنا چاہئے تاکہ بالغ ہونے تک وہ ایسا لباس پہننے کی عادی بن جائیں جس میں شرم وحیا ہو، جیساکہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الاعراف آیت ۲۶میں تقوی کا لباس پہننے کی تعلیم دی ہے۔ تقوی کا لباس وہی ہوگا جو نبی اکرم ﷺ کی تعلیمات کے خلاف نہ ہو، مثلاً ایسا تنگ اور باریک لباس نہ ہو جس سے جسم کے اعضاء نظر آئیں، نیز عورتوں کا لباس مردوں کے مشابہ نہ ہو۔

بچوں کو ٹی وی اور انٹرنیٹ کے غلط استعمال سے روکیں:

معاشرہ کی بے شمار برائیاں ٹی وی اور انٹرنیٹ کے غلط استعمال سے پھیل رہی ہیں، لہذا فحش وعریانیت اور بے حیائی کے پروگرام دیکھنے سے اپنے آپ کو بھی دور رکھیں، اور اپنی اولاد وگھر والوں کی خاص نگرانی رکھیں تاکہ یہ نئے وسائل ہمارے ماتحت لوگوں کی آخرت میں ناکامی کا سبب نہ بنیں کیونکہ ہم سے ہمارے ماتحت لوگوں کے متعلق بھی سوال کیا جائے گا جیسا کہ قرآن وحدیث کی روشنی میں ذکر کیا گیا۔

بچوں کو کرکٹ دیکھنے میں وقت ضائع کرنے سے روکیں:

ان دنوں ہمارے بچے کرکٹ میچ دیکھنے اور اس سے متعلق دیگر معلومات حاصل کرنے میں کافی وقت لگاتے ہیں، ہمیں چاہئے کہ ہم اپنے بچوں کے وقت کی نگرانی کریں تاکہ بچوں کی زندگی کا قیمتی وقت ایسی جگہ نہ لگے جس میں ان کا نہ کوئی دنیاوی فائدہ ہے اور نہ اخروی۔

بچوں کو ادب سکھائیں:

بچوں کو بڑوں کا ادب کرنے، چھوٹوں پر شفقت کرنے، سب سے اچھے لہجے میں گفتگو کرنے، پڑوسی ، یتیم، رشتہ داروں اور بیواؤں کا خیال رکھنے اور عام لوگوں کی خدمت کرنے کی ترغیب دیتے رہیں۔ کھانے پینے اور سونے وغیرہ میں نبی اکرم ﷺ کی سنتوں پر عمل کرنے ترغیب دیتے رہیں۔گالی گلوچ، جھوٹ، غیبت، چوری، رشوت اور سگریٹ نوشی سے دور رہنے کی ان کو تعلیم دیتے رہیں۔خود بھی پوری زندگی صرف حلال روزی پر اکتفاء کریں اور بچوں کو بھی صرف حلال روزی کھانے کی ترغیب دیتے رہیں۔ وقتاً فوقتاً ان کو موت یاد دلاکر اخروی زندگی کی تیاری کے لئے ان کی ذہن سازی کرتے رہیں۔
آخر میں میری والدین سے درخواست ہے کہ ہم اپنے بچوں کی دنیاوی زندگی کو بہتر سے بہتر بنانے کی اپنی حد تک ضرور کوشش کریں لیکن یہ ذہن میں رکھیں: جس دن نہ کوئی مال کام آئے گا، نہ اولاد۔ ہاں جو شخص اللہ کے پاس سلامتی والا دل لے کر آئے گا۔ (سورۃ الشعراء ۸۸ و ۸۹) یعنی جو اس دنیاوی زندگی میں نیک عمل کرے گا، اسی کو نجات ملے گی۔ اگر ہم نے اپنی قیمتی زندگی‘ اپنی اور اولاد کی دنیاوی زندگی کے مسائل کو حل کرنے میں لگادی اور ہم اپنی اخروی زندگی کی تیاری نہ کرسکے تو ہمارے لئے ناکامی ہی ناکامی ہے۔ لہٰذا ہم یہ دنیاوی فانی زندگی اخروی زندگی کو سامنے رکھ کر گزاریں۔ اگر ہم نے اولاد کی صحیح تعلیم وتربیت کی ہی ہے تو ہمارے مرنے کے بعد اولاد کے ذریعہ کئے جانے والے نیک اعمال کا ثواب ہمیں بھی ضرور ملے گا ان شاء اللہ۔

ڈاکٹر محمد نجیب قاسمی سنبھلی (www.najeebqasmi.com)

کیا شرعاً شوہر بیوی کو مار سکتا ہے؟
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيْم

اَلْحَمْدُ لِلّهِ رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلامُ عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔

کیا شرعاً شوہر بیوی کو مار سکتا ہے؟

مذکورہ مسئلہ میں خواہش کی اتباع کے بجائے ہمیں چاہئے کہ ہم قرآن وحدیث کی روشنی میں شرعی حکم سے واقفیت حاصل کریں۔ اس مسئلہ کی وضاحت اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم (سورۃ النساء ۳۴) میں اس طرح بیان فرمائی ہے: ’’مرد عورتوں پر قوّام یعنی نگراں اور سرپرست ہیں، کیونکہ اللہ نے ان میں سے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے، اور کیونکہ مردوں نے اپنے مال خرچ کئے ہیں۔ چنانچہ نیک عورتیں فرمانبردار ہوتی ہیں، مرد کی غیر موجودگی میں اللہ کی دی ہوئی حفاظت سے (اس کے حقوق کی) حفاظت کرتی ہیں۔ اور جن عورتوں سے تمہیں سرکشی کا اندیشہ ہو تو (پہلے) انہیں سمجھاؤ، اور (اگر اس سے کام نہ چلے تو) انہیں خواب گاہوں میں تنہا چھوڑدو یعنی ان کے بستر کو الگ کردو، (اور اس سے بھی اصلاح نہ ہو تو)انہیں مارسکتے ہو۔‘‘ بعض حضرات قرآن کریم کی اس آیت سے یہ سمجھ لیتے ہیں کہ بیوی کو مارنا دین ہے، حالانکہ قرآن وحدیث نے میاں بیوی کے درمیان کشیدگی کو بڑھانے کے بجائے ہمیشہ ایسے اسباب اختیار کرنے کی تعلیم دی ہے کہ جن سے دونوں کے درمیان ایسی محبت، الفت، تعلق ، اور ہمدردی پیدا ہو جو دنیا میں کسی بھی دو شخصوں کے درمیان نہیں ہوتی۔ شریعت اسلامیہ میں دونوں میاں بیوی کو ایک دوسرے کے احترام کے ساتھ ایک دوسرے کے حقوق یعنی اپنی اپنی ذمہ داریوں کو اداکرنے بار بار تعلیم دی گئی ہے۔ چند آیات واحادیث نبویہ پیش خدمت ہیں:

۱) اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اے ایمان والو! یہ بات تمہارے لئے حلال نہیں ہے کہ تم زبردستی عورت کے مالک بن بیٹھو۔ اور ان کو اس غرض سے مقید نہ کرو کہ تم نے جو کچھ ان کو دیا ہے ، اس کا کچھ حصہ لے اُڑو، الّا یہ کہ وہ کھلی بے حیائی کا ارتکاب کریں۔ اور ان کے ساتھ بھلے انداز میں زندگی بسر کرو۔ اور اگر تم انہیں پسند نہ کرتے ہوتو یہ عین ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو ناپسند کرتے ہو اور اللہ نے اس میں بہت کچھ بھلائی رکھ دی ہو۔ (سورۃ النساء ۱۹) ا س آیت میں اللہ تعالیٰ نے مردوں سے کہا ہے کہ بیوی تمہاری طرح ایک عزت دار انسان ہے، تمہاری باندی نہیں ہے، انسانیت اور بشریت کا تقاضہ ہے کہ اس کے ساتھ اچھا برتاؤ کیا جائے اور اس کی عزت وناموس کا ہر وقت خیال رکھا جائے۔

۲) اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں نکاح کے مقاصد میں سے دو اہم مقصد بیان فرمائے ہیں: اور اُس کی نشانیوں میں سے ہے کہ تمہاری ہی جنس سے بیویاں پیدا کیں تاکہ تم اُن سے آرام پاؤ، اور اُس نے تمہارے درمیان محبت اور ہمدری قائم کردی، یقیناًغوروفکر کرنے والوں کے لئے اس میں بہت سی نشانیاں ہیں۔ (سورۃ الروم ۲۱) علامہ ابن کثیر ؒ نے تحریر کیا ہے کہ کسی بھی دو روحوں کے درمیان اتنی الفت ومحبت اور تعلق نہیں ہوتا جتنا میاں بیوی کے درمیان ہوتا ہے۔

۳) سورۃ البقرۃ ۲۸۸ میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ان عورتوں کو معروف طریقہ کے مطابق ویسے ہی حقوق حاصل ہیں جیسے (مردوں کو) اُن پر حاصل ہیں۔ ہاں مردوں کو ان پر ایک درجہ فوقیت ہے۔ یعنی جس طرح شوہر کے بیوی پر حقوق ہیں اسی طرح بیوی کے بھی شوہر پر حقوق ہیں۔ صحابی رسول ومفسر قرآن حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ میں اپنی بیوی کے لئے ویسا ہی سجتا ہوں جیسا وہ میرے لئے زیب وزینت اختیار کرتی ہے، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: (وَلَہُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَيْہِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ) اور میں چاہتا ہوں کہ جو بھی میری بیوی کے میرے اوپر حق ہیں وہ سب ادا کروں کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: (وَ لِلرِّجَالِ عَلَيْہِنَّ دَرَجَۃٌ) مصنف ابن شیبہ ۴/۱۹۶، ابن جریر ۲/۴۵۳، بیہقی ۷/۲۹۵

۴) حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہو تو وہ پڑوسی کو تکلیف نہ پہنچائے اور میں تمہیں عورتوں کے بارے میں بھلائی کی وصیت کرتا ہوں کیونکہ وہ پسلی سے پیدا کی گئی ہیں اور پسلی میں بھی سب سے زیادہ ٹیڑھا اس کے اوپر کا حصہ ہے۔ اگر تم اسے سیدھا کرنا چاہو گے تو اسے توڑ ڈالو گے، اور اگر اسے چھوڑ دو گے تو وہ ٹیڑھی ہی باقی رہ جائے گی، اس لئے میں تمہیں عورتوں کے بارے میں اچھے معاملہ کی وصیت کرتا ہوں۔ صحیح بخاری ۔ کتاب النکاح ۔ باب الوصاۃ بالنساء

۵) حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: کوئی مؤمن کسی مؤمنہ سے بغض نہ رکھے،اگر اس کی ایک عادت ناپسند ہو تو دوسری عادت سے راضی ہوجائے۔ (صحیح مسلم ۔ کتاب الرضاع۔ باب الوصےۃ بالنساء) حضور اکرمﷺ نے شوہر کو بیوی کے ساتھ حسن سلوک کرنے اور اس کی کوئی عادت نا پسند آنے پر اس کو نظر انداز کرنے کا حکم دیا ہے، غرضیکہ بیوی کے عیوب کو نظر انداز کرتے ہوئے زندگی کے سفر کو خوشگوار بنائے رکھنے کی شوہر کو تعلیم دی گئی ہے۔

۶) حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: عورتوں کے معاملہ میں اللہ سے ڈرو، تم نے انہیں اللہ تعالیٰ کی امان کے ذریعہ حاصل کیا ہے، اور ان کی شرمگاہوں کو اللہ تعالیٰ کے کلمہ کے ذریعہ حلال کیا ہے۔ ان پر تمہارا حق ہے کہ وہ تمہارے گھر میں ان لوگوں کو نہ آنے دیں، جن کو تم ناپسند کرتے ہو۔ اگر وہ ایسا کرے تو ان کو مارو مگر ایسی مار جو زیادہ شدید نہ ہو (اور چہرہ پر ہرگزنہ مارو) ۔اور تم پر ان کا یہ حق ہے کہ تم ان کے نان نفقہ اور کپڑے کی دستور کے موافق ذمہ داری پوری کرو۔ صحیح مسلم ۔ کتاب الحج ۔ باب حجۃ النبی ﷺ

۷) حجۃ الوداع کے موقعہ پر حضور اکرم ﷺ نے اللہ کی حمد وثنا بیان کرنے کے بعد وعظ ونصیحت فرمائی: خبردار! میں تمہیں عورتوں کے حق میں بھلائی کی نصیحت کرتا ہوں، اس لئے کہ وہ تمہاری نگرانی اور سرپرستی میں ہیں لیکن تمہارے پاس قیدی کی طرح نہیں ہیں۔ اور تم ان پر اس کے علاوہ کوئی اختیار نہیں رکھتے کہ ان سے صحبت کرو۔ البتہ یہ کہ وہ کھلم کھلا بے حیائی کی مرتکب ہوں، تو انہیں اپنے بستر سے الگ کردو۔ اور اُن کی معمولی پٹائی کرو۔ پھر اگر وہ تمہاری بات ماننے لگیں تو انہیں تکلیف پہنچانے کے راستے تلاش نہ کرو۔ جان لو: کہ تمہارا تمہاری بیویوں پر اور اُن کا تم پر حق ہے۔تمہارا ان پر حق یہ ہے کہ وہ تمہارے بستر پر ان لوگوں کو نہ بٹھائیں جنہیں تم ناپسند کرتے ہو بلکہ ایسے لوگوں کو گھر میں بھی داخل نہ ہونے دیں، اور ان کا تم پر یہ حق ہے کہ انہیں بہترین کھانا اور بہترین لباس دو۔ ترمذی ۔ ابواب الرضاع ۔ باب ما جاء فی المراۃ علی زوجھا

۸) حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: تم میں سے کوئی شخص اپنی بیوی کو غلام کی طرح نہ مارے، پھر شاید دن کے ختم ہونے پر اس سے ہم بستری کرنے لگے۔ (صحیح بخاری ۔کتاب النکاح۔ باب ما یکرہ من ضرب النساء)حضور اکرم ﷺکے اس فرمان سے واضح طور پر معلوم ہوا کہ عمومی طور پر بیویوں کو مارنے کی اجازت نہیں ہے، بلکہ چھوٹی چھوٹی بات پر بیوی کو پیٹنا یا اس کو ذلیل کرنا اسلام میں معیوب ہے۔

۹) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور اکرمﷺ نے کبھی کسی کو اپنے ہاتھ سے نہیں مارا، نہ کسی عورت اور نہ کسی خادم کو ، البتہ جہاد فی سبیل اللہ میں قتال فرمایا۔ اور آپ کو جب کسی نے نقصان پہنچایا، آپ نے اس کا بدلہ نہیں لیا، البتہ حکم خدا میں خلل ڈالا تو خدا کے لئے بدلہ لیا ہے۔ (صحیح مسلم ۔ کتاب الفضائل ۔ باب مباعدۃ النبی ۔۔۔۔۔) حضرت امام نووی ؒ نے اس حدیث کی شرح میں تحریر کیا ہے کہ بیوی یا خادم کو (فحش غلطی کرنے پر ) مارنے کی گنجائش ضرور ہے لیکن نہ مارنا ہی افضل وبہتر ہے۔ ملا علی قاری ؒ نے تحریر کیا ہے کہ بیوی اور خادم کی بڑی غلطی کے باوجود ان کو نہ مارنے میں بہتری ہے، البتہ اولاد کی نافرمانی پر ان کی صحیح تربیت کے لئے بعض اوقات ان کی پٹائی کرنا ہی مناسب ہوتا ہے۔

۱۰) حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: تم میں اچھا وہ ہے جس کا سلوک اپنے اہل وعیال سے اچھا ہو اور میں تم میں اپنے اہل وعیال کے بارے میں سب سے اچھا ہوں۔ (سنن ترمذی ۔ کتاب المناقب ۔ باب فضل ازواج النبی ﷺ) حضور اکرم ﷺ کا اسوہ حدیث میں گزرا کہ آپ نے کبھی کسی عورت کو نہیں مارا۔

۱۱) حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ نے چہرے پر مارنے سے منع فرمایا ہے۔ (صحیح مسلم ۔ کتاب اللباس والزینہ ۔ باب النہی عن ضرب الحیوان) حضرت امام نووی ؒ مسلم کی شرح میں تحریر کرتے ہیں: ’’کسی بھی جاندار کے چہرے پر مارنا جائز نہیں ہے‘‘۔ عورت تو اشرف المخلوقات ہے، لہٰذا کسی بھی مرد کے لئے کسی بھی صورت میں عورت کے چہرہ پر مارنا جائز نہیں ہے بلکہ گناہ کبیرہ ہے۔ اگر کسی شخص نے کسی بھی وجہ سے اپنی بیوی کے چہرہ پر مارا ہے تو حقوق العباد کی وجہ سے اسے اپنی بیوی کے ساتھ معاملہ رفع دفع کرنے کے بعد ہی اللہ تعالیٰ سے معافی بھی مانگنی ہوگی۔

ان مذکورہ بالا آیات قرآنیہ اور احادیث نبویہ سے یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ زندگی کے ایام کو خوش اسلوبی اور محبت والفت کے ساتھ گزارنے کے لئے دونوں میاں بیوی کو اپنی اپنی ذمہ داری بحسن خوبی انجام دینی چاہئے۔ مثلاً شوہر کی ذمہ داری ہے کہ وہ مہر کی ادائیگی کرے، اپنی استطاعت کے مطابق بیوی کے تمام اخراجات برداشت کرے، بیوی کے لئے رہائش کا انتظام کرے، بیوی کے ساتھ حسن معاشرت کرے، بیوی کی بعض کمزوریوں سے چشم پوشی کرے، خاص طور پر جب کہ دیگر خوبیاں ومحاسن اس کے اندر موجود ہوں، گھر کے کام وکاج میں عورت کی مدد کرے خاص کر جب وہ بیمار ہو۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی اکرمﷺ گھر کے تمام کام کرلیا کرتے تھے، جھاڑو بھی خود لگالیا کرتے تھے، کپڑوں میں پیوند بھی خود لگالیا کرتے تھے اور اپنے جوتوں کی مرمت بھی خود کرلیا کرتے تھے۔ (بخاری) اسی طرح بیوی کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے شوہر کی اطاعت کرے، شوہر کے مال وآبرو کی حفاظت کرے، شوہر کے ساتھ اچھا معاملہ وبرتاؤ کرے، گھر کے اندرونی نظام کو چلانے میں اپنا پھرپور تعاون پیش کرے اور بچوں کی بہترین تربیت کرے۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اگر عورت نے (خاص طور پر)پانچ نمازوں کی پابندی کی، ماہ رمضان کے روزے اہتمام سے رکھے، اپنی شرمگاہ کی حفاظت کی اور اپنے شوہر کی اطاعت کی تو گویا وہ جنت میں داخل ہوگئی۔ مسند احمد

یقیناًدونوں میاں بیوی بشریت اور انسانیت میں برابر ہیں لیکن شریعت اسلامیہ نے زندگی کے پہئے کو چلانے کے لئے مرد کو کسی نہ کسی حد تک فوقیت دی ہے یعنی مرد کو سربراہی حاصل ہے، جیساکہ قرآن وحدیث کی روشنی میں پوری امت مسلمہ کا اتفاق ہے۔ غرضیکہ میاں بیوی میں حاکم ومحکوم یا بادشاہ وغلام والا تعلق نہیں ہے بلکہ دونوں اپنی اپنی جگہ ایک حیثیت اور مقام رکھتے ہیں۔ مرد کو اپنی سربراہی کی بنیاد پر یہ جائز نہیں ہے کہ وہ بیوی کو بات بات پر ڈانٹے یا پٹائی کرے۔ حضور اکرم ﷺ کی زندگی ہمارے لئے اسوہ ہے کہ آپ ﷺ نے اپنی پوری زندگی میں ایک مرتبہ بھی کسی بھی بیوی کو نہیں مارا، بلکہ آپﷺ نے باربار صحابۂ کرام کو تلقین فرمائی کہ وہ عورتوں کے ساتھ نرمی کا معاملہ کریں، ان کی دل جوئی کریں، ان کی طرف سے پیش آنی والی ناگوار باتوں پر صبروتحمل کا مظاہرہ کریں۔ ایک مرتبہ حضور اکرم ﷺنے ارشاد فرمایا : خبردار! عورتوں کے ساتھ حسن سلوک کرو، اس لئے کہ یہ عورتیں تمہاری نگرانی میں ہیں۔

ہاں اگر کوئی عورت واقعی شوہر کی نافرمان ہے اور اس کی نافرمانی کی وجہ سے گھر کا نظام درہم برہم ہو رہا ہے، تو مرد وعورت کے خالق نے قرآن کریم (سورۃ النساء ۳۴ و ۳۵) میں اس کا حل اس طرح پیش کیا ہے کہ شوہر کو چاہئے کہ وہ سب سے پہلے اپنی نافرمان بیوی کو سمجھائے، اور (اگر اس سے کام نہ چلے تو) اسے خواب گاہوں میں تنہا چھوڑدے، یعنی اس کے بستر کو الگ کردے، اور اگر اس سے بھی اصلاح نہ ہو تواسے ہلکی مار مارسکتے ہو، لیکن شریعت اسلامیہ چاہتی ہے کہ مار کے بغیر ہی معاملہ حل ہوجائے تو بہتر ہے۔ ان تین تدابیر اختیار کرنے کے باوجود مسئلہ حل نہ ہونے پر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ دونوں طرف سے سمجھدار لوگ بیٹھ کر مسئلہ کا حل نکالیں۔ مسئلہ کا حل نکل جائے تو بہتر ہے کیونکہ شریعت اسلامیہ مسئلہ کا حل ہی چاہتی ہے۔ لیکن بعض اوقات میاں بیوی میں صلح مشکل ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے دونوں کا مل کر رہنا ایک عذاب بن جاتا ہے، تو ایسی صورت میں ازدواجی تعلق کو ختم کرنا ہی طرفین کے لئے مناسب معلوم ہوتا ہے۔ حضور اکرم ﷺ نے بھی یہی تعلیمات دی ہیں، جیساکہ مضمون میں دلائل کے ساتھ ذکر کیا گیا۔ اگر نافرمانی مرد کی طرف سے ہے یعنی مرد اپنی ذمہ داری کو صحیح طریقہ سے انجام نہیں دے رہا ہے تو ہر ممکن کوشش کی جائے گی کہ وہ اپنی ذمہ داری کو انجام دے ۔ ایسی صورت میں عورت کو خلع لینے کی گنجائش بھی ہے، لیکن عورت کے لئے اپنے نافرمان شوہر کو مارنے کا حق نہیں ہے کیونکہ اس نوعیت کی کوئی بھی تعلیمات قرآن وحدیث میں نہیں ملتی ہیں۔ لہٰذا ہمیں اس مسئلہ میں اعتراض کرنے کے بجائے اللہ اور اس کے رسول کے حکم پر ایمان لانا چاہئے، جیساکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا ہے: جب اللہ اور اس کا رسول کسی بات کا حتمی فیصلہ کردیں تو نہ کسی مؤمن مرد کے لئے یہ گنجائش ہے نہ کسی مؤمن عورت کے لئے کہ ان کو اپنے معاملہ میں کوئی اختیار باقی رہے۔ اور جس کسی نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی وہ کھلی گمراہی میں پڑ گیا۔ (سورۃ الاحزاب ۳۶) اسی طرح فرمان الہٰی ہے: نہیں، (اے پیغمبر!) تمہارے پروردگار کی قسم! یہ لوگ اس وقت تک مؤمن نہیں ہوسکتے جب تک یہ اپنے باہمی جھگڑوں میں تمہیں فیصل نہ بنائیں، پھر تم تو جو فیصلہ کرو اس کے بارے میں اپنے دلوں میں کوئی تنگی محسوس نہ کریں، اور اس کے آگے مکمل طور پر سرِ تسلیم خم کردیں۔ سورۃالنساء ۶۵

خلاصۂ کلام یہ ہے کہ شوہر کا اپنی بیوی کو معمولی معمولی بات پر مارنا جائز نہیں ہے۔ اگر کوئی بڑی نافرمانی عورت کی طرف سے سامنے آتی ہے تو اس کے حل کے لئے سورۃ النساء آیت ۳۴ کی روشنی میں کوششیں ہونی چاہئے، جیسا کہ ذکر کیا گیا۔ محمد نجیب قاسمی سنبھلی (www.najeebqasmi.com)

اسلام میں وصیت کا قانون
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيْم
اَلْحَمْدُ لِلّهِ رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلامُ عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔
اسلام میں وصیت کا قانون

وصیت کیا ہے: وصیت اس کام کو کہتے ہیں جس پر عمل کرنے کا حکم موت کے بعد ہو۔ یعنی اُس کام پر عمل زندگی میں نہیں بلکہ موت کے بعد ہو۔ مثلاً اگر کوئی شخص انتقال کے وقت یہ کہے کہ میرے مرنے کے بعد میری جائداد میں سے اتنا مال یا اتنی زمین فلاں شخص یا فلاں دینی ادارہ یا مسافر خانہ یا یتیم خانہ کو دے دی جائے تو یہ وصیت کہلاتی ہے۔ وصیت کو دو گواہوں کی موجودگی میں تحریر کرنا چاہئے تاکہ بعد میں کوئی اختلاف پیدا نہ ہو۔ شریعت اسلامیہ میں وصیت کا قانون بنایا گیا ہے تاکہ قانون میراث کی رو سے جن عزیزوں کو میراث میں حصہ نہیں پہنچ رہا ہے اور وہ مدد کے مستحق ہیں مثلاً کوئی یتیم پوتا یا پوتی موجود ہے یا کسی بیٹے کی بیوہ مصیبت زدہ ہے یا کوئی بھائی یا بہن یا کوئی دوسرا عزیز سہارے کا محتاج ہے تو وصیت کے ذریعہ اس شخص کی مدد کی جائے۔ وصیت کرنا اور نہ کرنا دونوں اگرچہ جائز ہیں لیکن بعض اوقات میں وصیت کرنا افضل وبہتر ہے۔ ایک تہائی جائیداد میں وصیت کا نافذ کرنا وارثوں پر واجب ہے، یعنی مثلاً اگر کسی شخص کے کفن دفن کے اخراجات، دیگر واجبی حقوق اور قرض کی ادائیگی کے بعد ۹ لاکھ روپئے کی جائیداد بچتی ہے تو ۳ لاکھ تک وصیت نافذ کرنا وارثین کے لئے ضروری ہے۔ ایک تہائی سے زیادہ وصیت نافذ کرنے اور نہ کرنے میں وارثین کو اختیار ہے۔کسی وارث یا تمام وارثین کو محروم کرنے کے لئے اگر کوئی شخص وصیت کرے تو یہ گناہ کبیرہ ہے جیسا کہ نبی اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا: جس شخص نے وارث کو میراث سے محروم کیا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کو جنت سے محروم رکھے گا (کچھ عرصہ کے لئے)۔ (ابن ماجہ وبیہقی) انتقال کے بعد ترکہ (جائداد یا رقم) کی تقسیم صرف اور صرف وراثت کے قانون کے اعتبار سے ہوگی۔

ابتداء اسلام میں جب تک میراث کے حصے مقرر نہیں ہوئے تھے، ہر شخص پر لازم تھا کہ اپنے وارثوں کے حصے بذریعہ وصیت مقرر کرے تاکہ اس کے مرنے کے بعد نہ تو خاندان میں جھگڑے ہوں اور نہ کسی حق دار کا حق مارا جائے۔ لیکن جب بعد میں تقسیم وراثت کے لئے اللہ تعالیٰ نے خود اصول وضوابط بنادئے جن کا ذکر سورۃا لنساء میں ہے تو پھر وصیت کا وجوب ختم ہوگیا، البتہ دو بنیادی شرائط کے ساتھ اس کا استحباب باقی رہا۔ ۱) جو شخص وراثت میں متعین حصہ پارہا ہے اس کے لئے وصیت نہیں کی جاسکتی ہے، مثلاً ماں، باپ، بیوی، شوہر اور اولاد۔ جیساکہ حضور اکرم ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر تقریباً ڈیڑھ لاکھ صحابۂ کرام کے مجمع کے سامنے ارشاد فرمایا: ’’ اللہ تعالیٰ نے ہر وارث کا حصہ مقرر کردیا ہے، لہٰذا اب کسی وارث کے لئے وصیت کرنا جائز نہیں ہے۔‘‘ (ترمذی ۔ باب ما جاء لا وصيۃ لوارث) حضرت عبدا للہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث میں مزید وضاحت موجود ہے کہ میراث نے ان لوگوں کی وصیت کو منسوخ کردیا جن کا میراث میں حصہ مقرر ہے، دوسرے رشتہ دار جن کا میراث میں حصہ نہیں ہے، اُن کے لئے حکم وصیت اب بھی باقی ہے۔ ۲) وصیت کا نفاذ زیادہ سے زیادہ ترکہ کے ایک تہائی حصہ پر نافذ ہوسکتا ہے۔ الا یہ کہ تمام ورثاء پوری وصیت کے نفاذ پر راضی ہوں۔

امت مسلمہ کا اجماع ہے کہ جن رشتہ داروں کا میراث میں کوئی حصہ مقرر نہیں ہے، اب ان کے لئے بھی وصیت کرنا فرض ولازم نہیں ہے،کیونکہ فرضیت وصیت کا حکم منسوخ ہوگیا ہے۔ (تفسیر جصاص، تفسیر قرطبی) یعنی بشرطِ ضرورت وصیت کرنا مستحب ہے۔
وصیت کی مشروعیت قرآن کریم سے:

۱) اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: تم پر فرض کیا گیا ہے کہ اگر تم میں سے کوئی اپنے پیچھے مال چھوڑکر جانے والا ہو تو جب اس کی موت کا وقت قریب آجائے، وہ اپنے والدین اور قریبی رشتہ داروں کے حق میں دستور کے مطابق وصیت کرے۔ یہ متقی لوگوں کے ذمہ ایک لازمی حق ہے۔۔۔ پھر جو شخص اس وصیت کو سننے کے بعد اس میں کوئی تبدیلی کرے گا، تو اس کا گناہ ان لوگوں پر ہوگا جو اس میں تبدیلی کریں گے۔ یقین رکھو کہ اللہ (سب کچھ) سنتا جانتا ہے۔۔۔ ہاں اگر کسی شخص کو یہ اندیشہ ہوکہ کوئی وصیت کرنے والا بے جا طرف داری یا گناہ کا ارتکاب کررہا ہے اور وہ متعلقہ آدمیوں کے درمیان صلح کرادے تو اس پر کوئی گناہ نہیں۔ بیشک اللہ تعالیٰ بہت بخشنے والا، بڑا مہربان ہے۔ (سورۃ البقرہ ۱۸۰ ۔ ۱۸۲) وصیت کا لازم اورفرض ہونا ، یہ حکم اُس زمانہ میں دیا گیا تھا جبکہ وراثت کے احکام نازل نہیں ہوئے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے وصیت کا حکم بتدریج نازل فرمایا۔ غرضیکہ مذکورہ بالا آیت میں وصیت کی فرضیت کا حکم منسوخ ہوگیا ہے، البتہ استحباب باقی ہے۔

۲) اللہ تعالیٰ نے سورۃ النساء میں جہاں وارثوں کے متعین حصے ذکر فرمائے ہیں، متعدد مرتبہ اس قانون کو ذکر فرمایا: ’’یہ ساری تقسیم اس وصیت پر عمل کرنے کے بعد ہوگی جو مرنے والے نے کی ہے، یا اگر اس کے ذمہ کوئی قرض ہے تو اس کی ادائیگی کے بعد‘‘۔ سورۃ النساء میں متعدد مرتبہ وصیت کے ذکر سے وصیت کی مشروعیت روز روشن کی طرح واضح ہے۔

۳) اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’اے ایمان والو! جب تم میں سے کوئی مرنے کے قریب ہو تو وصیت کرتے وقت آپس کے معاملات طے کرنے کے لئے گواہ بنانے کا طریقہ یہ ہے کہ تم میں سے دو دیانت دار آدمی ہوں (جو تمہاری وصیت کے گواہ بنیں) یا اگر تم زمین میں سفر کررہے ہو، اور وہیں تمہیں موت کی مصیبت پیش آجائے تو غیروں (یعنی غیر مسلموں) میں سے دو شخص ہوجائیں ۔‘‘ (سورۃ المائدہ ۱۰۶) اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ حضر کے ساتھ سفر میں بھی وصیت کی جاسکتی ہے اوروصیت کرتے وقت دو امانت دار شخص کو گواہ بھی بنالیا کرو تاکہ بعد میں کسی طرح کا کوئی اختلاف پیدا نہ ہو۔

وصیت کی مشروعیت حدیث نبوی سے: حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا: کسی مسلمان کے لئے جس کے پاس وصیت کے قابل کوئی بھی چیز ہو، درست نہیں کہ دو رات بھی وصیت کو لکھ کر اپنے پاس محفوظ کئے بغیر گزاردے۔ (صحیح بخاری ۔ کتاب الوصیہ) (صحیح مسلم ۔ کتاب الوصایا ۔ باب الوصایا) قرآن وحدیث کی روشنی میں علماء نے کہا ہے کہ اس سے مرادایسا شخص ہے جس کے ذمہ قرضہ ہو یا اس کے پاس کسی کی امانت رکھی ہو یا اس کے ذمہ کوئی واجب ہو جسے وہ خود ادا کرنے پر قادر نہ ہو تو اس کے لئے وصیت میں یہ تفصیل لکھ کر رکھنا ضروری ہے، عام آدمی کے لئے وصیت لکھنا ضروری نہیں ہے، بلکہ مستحب ہے۔
وصیت کی مشروعیت اجماع امت سے: قرآن وحدیث کی روشنی میں پوری امت مسلمہ کا وصیت کے جواز پر اجماع ہے ، جیسا کہ علامہ ابن قدامہؒ نے اپنے مشہور کتاب (المغنی ج ۸ ۔ ص ۳۹۰) میں وصیت کے جواز پر اجماع امت کا ذکر کیا ہے۔

وصیت کی حکمتیں: وصیت کی متعدد حکمتوں میں سے ایک حکمت یہ بھی ہے کہ انسان کے انتقال کے بعد وراثت قرابت کی بنیاد پر تقسیم ہوتی ہے نہ کہ ضرورت کے پیش نظر، یعنی جو میت سے جتنا زیادہ قریب ہوگا اس کو زیادہ حصہ ملے گا خواہ دوسرے رشتہ دار زیادہ غریب ہی کیوں نہ ہوں۔ لیکن شریعت اسلامیہ نے انسان کو یہ ترغیب دی ہے کہ اگر کوئی شخص اپنے رشتہ داروں میں سے کسی کو مدد کا زیادہ مستحق سمجھتا ہے اور اس کو میراث میں حصہ نہیں مل رہا ہے، اس کے لئے اپنے ایک تہائی مال تک وصیت کرجائے۔ مثلاً کسی شخص کے کسی بیٹے کا انتقال ہوگیا ہے اور پوتا پوتی حیات ہیں تو انسان کو چاہئے کہ وہ اپنی جائداد میں سے ایک تہائی مال تک اپنے یتیم پوتے اور پوتی کو وصیت کرجائے۔اللہ تعالیٰ نے سورۃا لنساء میں اس کی ترغیب بھی دی ہے۔

وصیت کی اقسام: واجب وصیت: ۱) اگر کسی شخص کا قرضہ ہے تو اس کی وصیت کرنا واجب ہے۔ ۲) اگر زندگی میں حج فرض کی ادائیگی نہیں کرسکا تو اس کی وصیت کرنا واجب ہے۔ ۳) اگر زکوٰۃ فرض تھی، ادا نہیں کی تو اس کی وصیت کرنا واجب ہے۔ ۴) اگر روزے نہیں رکھ سکا اس کے بدلہ میں صدقہ ادا کرنے کی وصیت کرنا واجب ہے۔ ۵) اگر کوئی قریبی رشتہ وصیت کے قانون کے مطابق میراث میں حصہ نہیں حاصل کرپارہا ہے، مثلاً یتیم پوتا اور پوتی اور انہیں شدید ضرورت بھی ہے تو وصیت کرنا واجب تو نہیں ہے لیکن اسے اپنے پوتے اور پوتا کا ضرور خیال رکھنا چاہئے۔بعض علماء نے ایسی صورت میں وصیت کرنے کو واجب بھی کہا ہے۔

مستحب وصیت: شریعت اسلامیہ نے ہر شخص کو یہ اختیار دیا ہے کہ وہ اپنے مال میں سے ایک تہائی کی کسی بھی ضرورت مند شخص یا مسجد یا مدرسہ یا مسافر خانہ یا یتیم خانہ کو وصیت کرجائے تاکہ وہ اس کے لئے صدقۂ جاریہ بن جائے اور اس کو مرنے کے بعد بھی اس کا ثواب ملتا رہے۔
مکروہ وصیت: حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ میری عیادت کے لئے تشریف لائے، میں اس وقت مکہ مکرمہ میں تھا (حجۃا لوداع یا فتح مکہ کے موقعہ پر)۔ حضور اکرم ﷺ اُس سرزمین پر موت کو پسند نہیں فرماتے تھے جہاں سے کوئی ہجرت کرچکا ہو۔ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ابن عفراء (سعد) پر رحم فرمائے۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا میں اپنے سارے مال ودولت کی وصیت (اللہ کے راستے میں) کردوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: نہیں۔ میں نے پوچھا پھر آدھے کی کردوں؟ آپ ﷺ نے اس پر بھی فرمایا کہ نہیں۔ میں نے پوچھا کہ پھر تہائی مال کی کردوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ تہائی مال کی کرسکتے ہو، اور یہ بھی بہت ہے۔ اگر تم اپنے رشہ داروں کو اپنے پیچھے مالدار چھوڑو تو یہ اس سے بہتر ہے کہ انہیں محتاج چھوڑ دو کہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں۔ اس میں کوئی شبہ نہ رکھو کہ جب بھی تم کوئی چیز جائز طریقہ پر خرچ کرو گے تو وہ صدقہ ہوگا۔ وہ لقمہ بھی جو تم اٹھاکر اپنی بیوی کے منہ میں دو گے (وہ بھی صدقہ ہے) اور (ابھی وصیت کرنے کی کوئی ضرورت بھی نہیں)، ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں شفا دے اور اس کے بعد تم سے بہت سے لوگوں کو فائدہ ہو اور دوسرے بہت سے لوگ (اسلام کے مخالف) نقصان اٹھائیں۔ (بخاری ۔ کتاب الوصایا) (ترمذی ۔ باب ما جاء فی الوصیہ بالثلث) غرضیکہ اگر اولاد ودیگر وارثین مال وجائداد کے زیادہ مستحق ہیں تو پھر دوسرے حضرات اور اداروں کے لئے وصیت کرنا مکروہ ہے۔

وضاحت: حضور اکرم ﷺ کی شفا کی دعا کے بعد حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ تقریباً پچاس سال تک حیات رہے اور انہوں نے عظیم الشان کارنامے انجام دئے۔ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ نے ہی ۱۷ ہجری میں کوفہ شہر بسایا تھا جو بعد میں علم وعمل کا گہوارہ بنا۔آپ ہی کی قیادت میں ایران جیسی سوپر پاور کو فتح کیا گیا۔ آپ نے ہی دریا دجلہ میں اپنے گھوڑے ڈال دئے تھے، علامہ اقبال ؒ نے کیا خوب کہا ہے:

دشت تو دشت ہیں، دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے بحرِ ظلمات میں دوڑادئے گھوڑے ہم نے

ناجائز وصیت: ایک تہائی سے زیادہ جائداد کی وصیت کرنا۔ وارث کے لئے وصیت کرنا۔ اس نوعیت کی وصیت نافذ نہیں ہوگی۔اولاد یا کسی دوسرے وارث کو اپنی جائداد سے محروم کرنے کے لئے کسی دوسرے شخص یا دینی ادارہ کو وصیت کرنا ۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: کئی لوگ (ایسے بھی ہیں جو) ساٹھ سال تک اللہ کی اطاعت وفرمانبرداری میں زندگی گزارتے ہیں، پھر جب موت کا وقت آتا ہے تو وصیت میں وارثوں کو نقصان پہنچادیتے ہیں۔ جس کی وجہ سے ان پر جہنم واجب ہوجاتی ہے۔ پھر حضرت ابوہریرہؓ نے یہ آیت (سورۃ النساء ۱۲)پڑھی: ’’جو وصیت کی گئی ہو اس پر عمل کرنے کے بعد اور مرنے والے کے ذمہ جو قرض ہو اس کی ادائیگی کے بعد، بشرطیکہ (وصیت اور قرض کے اقرار کرنے سے ) اس نے کسی کو نقصان نہ پہنچایا ہو۔ یہ سب کچھ اللہ کا حکم ہے، اور اللہ ہر بات کا علم رکھنے والا، بردبار ہے۔ ‘‘ترمذی باب جاء فی الوصيۃ بالثلث

وصیت سے متعلق چند مسائل:

۱) کوئی بھی شخص اپنی صحت مند زندگی میں کسی بھی اولاد کی تعلیم، اس کے مکان کی تعمیر وغیرہ پر کم یا زیادہ رقم خرچ کرسکتا ہے، اسی طرح عام صحت مند زندگی میں اولاد کے درمیان جائداد کی تقسیم کچھ کم یا زیادہ کے ساتھ کرسکتا ہے، تاہم اس کو چاہئے کہ حتی الامکان اولاد کے مصارف اور جائداد کو دینے میں برابری کرے۔ عام صحت مند زندگی میں وصیت یا وراثت کا قانون نافذ نہیں ہوتا۔ عام صحت مند زندگی میں اولاد ودیگر رشتہ داروں کو دی جانے والی رقم یا جائداد ہبہ کہلاتی ہے۔ غرضیکہ عام صحت مند زندگی میں باپ اپنی اولاد میں سے اگر کسی کو مالی اعتبار سے کمزور محسوس کررہا ہے یا اپنے یتیم پوتا یا پوتی کو اپنی طرف سے مخصوص رقم یا جائداد کا کچھ حصہ دینا چاہتا ہے تو دے سکتا ہے۔

۲) ام المؤمنین حضرت جویریہ بنت حارث رضی اللہ عنہا کے بھائی حضرت عمرو بن حارث رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ نے اپنی وفات کے وقت سوائے اپنے سفید خچر، اپنے ہتھیار اور اپنی زمین کے جسے آپ نے صدقہ کردیا تھا، نہ کوئی درہم چھوڑا تھا نہ دینار، نہ غلام نہ باندی اور نہ کوئی اور چیز۔ (بخاری کتاب الوصایا) غرضیکہ آپ ﷺ نے کوئی ترکہ نہیں چھوڑا تھا، اسی وجہ سے ترکہ کے تعلق سے آپ ﷺ کی کوئی وصیت موجود نہیں ہے۔

۳) قرض کو وصیت پر مقدم کیا جائے گا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ نے قرض وصیت سے پہلے ادا کرنے کا حکم دیا ہے، (یعنی انسان کے ترکہ میں سے سب سے پہلے قرض کی ادائیگی کی جائے گی، پھر وصیت نافذ ہوگی)، جبکہ تم لوگ قرآن کریم میں وصیت کو پہلے اور قرض کو بعد میں پڑھتے ہو۔ (ترمذی باب ما جاء یبدا بالدین قبل الوصےۃ) مذکورہ بالا ودیگر احادیث کی روشنی میں پوری امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ قرض کی ادائیگی وصیت پر مقدم ہے۔

۴) شرعاً وارث کو وصیت نہیں کی جاسکتی ہے، لیکن اگر کسی شخص نے وارثین میں سے کسی وارث کو وصیت کردی اور تمام ورثاء میت کے انتقال کے بعد اس کی وصیت پر عمل کرنے کی اجازت دے رہے ہیں تو وہ وصیت نافذ ہوجائے گی۔ اسی طرح اگر کسی شخص نے ایک تہائی سے زیادہ مال کی وصیت کردی اور تمام ورثاء میت کے انتقال کے بعد اس کی وصیت پر عمل کرنے کی اجازت دے رہے ہیں تو وہ وصیت نافذ ہوجائے گی۔

۵) تحریر کردہ وصیت نامہ میں تبدیلی بھی کی جاسکتی ہے، یعنی اگر کسی شخص نے کوئی وصیت تحریر کرکے اپنے پاس رکھ لی، پھر اپنی زندگی میں ہی اس میں تبدیلی کرنا چاہے تو کرسکتا ہے۔

ایک اہم نقطہ: جس طرح ہر شخص چاہتا ہے کہ اس کے انتقال کے بعد اس کا مال وجائداد صحیح طریقہ سے اولاد اور دیگر وارثین تک پہنچ جائے اور اولاد اس کے مال وجائداد کا صحیح طریقہ سے استعمال کرکے اس میں مزید بڑھوتری کرے۔ اسی طرح ہمیں اس بات کی بھی فکر وکوشش کرنی چاہئے کہ ہمارے مرنے کے بعد ہماری اولاد کیسے اللہ کے احکام ونبی اکرم ﷺ کے طریقہ کے مطابق زندگی گزاریں؟ تاکہ وہ مرنے کے بعد ہمیشہ ہمیشہ والی زندگی میں کامیاب ہوسکیں۔ جیساکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پاک کلام میں حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت یعقوب علیہ السلام کی اولاد کے لئے ان کی وصیت کا ذکر فرمایا ہے: اور اسی بات کی ابراہیم نے اپنے بیٹوں کو وصیت کی، اور یعقوب نے بھی (اپنے بیٹوں کو) کہ: ’’اے میرے بیٹو! اللہ نے یہ دین تمہارے لئے منتخب فرمالیا ہے، لہٰذا تمہیں موت بھی آئے تو اس حالت میںآئے کہ تم مسلم ہو‘‘۔ کیا اُس وقت تم خود موجود تھے جب یعقوب کی موت کا وقت آیا تھا، جب انہوں نے اپنے بیٹوں سے کہا تھا کہ تم میرے بعد کس کی عبادت کرو گے؟ اُن سب نے کہا تھا کہ ہم اُسی ایک خدا کی عبادت کریں گے، جو آپ کا معبود ہے اور آپ کے باپ دادا ابراہیم، اسماعیل اور اسحاق کا معبود ہے۔ اور ہم صرف اسی کے فرمانبردار ہیں۔ سورۃالبقرۃ ۱۳۲ و ۱۳۳

دوسرا اہم نقطہ: جیسا کہ ہم اپنی زندگی کے تجربات سے اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہر شخص اپنی زندگی کے آخری وقت میں بہت اہم اور ضروری بات ہی کرتا ہے۔ آپﷺ کے داماد اور چچا زاد بھائی حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ کی زبان مبارک سے نکلا آخری کلام (نماز، نماز اور غلاموں کے بارے میں اللہ سے ڈرو ) تھا۔ (ابو داود، مسند احمد) ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے آخری وصیت یہ ارشاد فرمائی: نماز، نماز۔ اپنے غلاموں (اور ماتحت لوگوں) کے بارے میں اللہ سے ڈرو، یعنی ان کے حقوق ادا کرو۔ جس وقت آپﷺنے یہ وصیت فرمائی آپﷺ کی زبانِ مبارک سے پورے لفظ نہیں نکل رہے تھے۔ (مسند احمد) اس سے ہم نماز کی اہمیت وتاکید کا اندازہ لگا سکتے ہیں کہ محسن انسانیت ﷺنے آخری وصیت نماز کی پابندی کے متعلق کی،لہذا ہمیں پوری زندگی نماز کا اہتمام کرنا چاہئے۔

محمد نجیب قاسمی سنبھلی (www.najeebqasmi.com)

شرعاً مرد کو عورت کا سربراہ ونگراں متعین کیا گیا ہے
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيْم

اَلْحَمْدُ لِلّهِ رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلامُ عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔

شرعاً مرد کو عورت کا سربراہ ونگراں متعین کیا گیا ہے

اللہ تعالیٰ اپنے پاک کلام میں ارشا دفرماتا ہے: اور اسی نے (اللہ تعالیٰ نے) نر ومادہ (مرد وعورت) کے دو جوڑے پیدا کئے ہیں۔ (سورۃ النجم ۴۵) اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے مردو عورت کو بنی نوع انسان کے دو حصوں کے مانند پیدا کیا ہے اور دونوں کو اس کائنات کی آبادی کے لئے شریک رکھا ہے۔ دونوں کو ہی اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے کا مکلف کیا گیا ہے۔ غرضیکہ مرد کی طرح عورت کو بھی ایمان، نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج، والدین کی فرمانبرداری وغیرہ تمام عبادات کی ادائیگی کا حکم دیا گیا ہے۔ نیز مرد کی طرح عورت کو بھی اعمال صالحہ کرنے پر اجر اور برے اعمال کرنے پر سزا دی جائے گی۔

مرد وعورت دونوں بشریت وانسانیت میں برابر ہیں یعنی جس طرح مرد کے عورت پر کچھ حقوق ہیں اسی طرح عورت کے بھی مرد پر حقوق ہیں جن کی ادائیگی دونوں پر ضروری ہے۔ جیساکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا: اور (مردوں پر ) عورتوں کا حق ہے جیسا کہ (مردوں کا) عورتوں پر حق ہے، معروف طریقہ پر۔ (سورۃ البقرہ ۲۲۸) اس آیت میں میاں بیوی کے تعلقات کا ایسا جامع دستور پیش کیا گیا ہے جس سے بہتر کوئی دستور نہیں ہوسکتا اور اگر اس جامع ہدایت کی روشنی میں ازدواجی زندگی گزاری جائے تو اِس رشتہ میں کبھی بھی تلخی اور کڑواہٹ پیدا نہ ہوگی ان شاء اللہ۔ یہ آیت بتارہی ہے کہ بیوی کے بھی کچھ حقوق ہیں جن کی پاس داری شریعت میں ضروری ہے۔ان حقوق میں جہاں نان ونفقہ اور رہائش کا انتظام شامل ہے وہیں اس کی دل داری اور راحت رسانی کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے۔ اسی لئے رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ تم میں سب سے اچھا آدمی وہ ہے جو اپنے گھر والوں (یعنی بیوی بچوں) کی نظر میں اچھا ہو۔۔۔ اور ظاہر ہے کہ ان کی نظر میں اچھا وہی ہوگا جو اُن کے حقوق کی ادائیگی کرنے والا ہو۔ دوسری طرف اس آیت میں بیوی کو بھی آگاہ کیا کہ اس پر بھی حقوق کی ادائیگی لازم ہے۔ کوئی بیوی اُس وقت تک پسندیدہ نہیں ہوسکتی جب تک کہ وہ اپنے شوہر کے حقوق کو ادا کرکے اُس کو خوش نہ کرے، چنانچہ احادیث میں ایسی عورتوں کی تعریف فرمائی گئی ہے جو اپنے شوہر کی تابع دار اور خدمت گزار ہوں اور ان سے بہت زیادہ محبت کرنے والی ہوں اور ایسی عورتوں کی مذمت کی گئی ہے جو شوہروں کی نافرمانی کرنے والی ہوں۔

لیکن ان سارے حقائق کے باوجود پوری دنیا تسلیم کرتی ہے کہ مرد وعورت کی تخلیق میں اللہ تعالیٰ نے فرق رکھا ہے، مرد کو جہاں زیادہ جسمانی قوت اور طاقت سے نوازا ہے، وہیں عورت کو رحم دل بنایا ہے۔ جہاں مرد کو اپنے جذبات پر قابو رکھ کر صحیح فیصلہ کرنے کی صلاحیت دی ہے، وہیں عورت کو حیض، حمل، ولادت، نفاس اور بچے کو دودھ پلانے کے مشکل مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ نیز دنیا کے وجود سے لے کر آج تک عملی زندگی میں اور تمام مذاہب میں مردکو عورت پر فوقیت دی گئی ہے، اور اس حقیقت کا انکار کرنا ہٹ دھرمی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ مستشرقین اسلامی تعلیمات کے خلاف تو اپنا قلم اٹھانے کی جسارت کرتے ہیں لیکن اپنی مذہبی کتابوں کی تعلیمات کو نظر انداز کرکے مغربی ممالک میں خواتین کے ساتھ کئے جانے والے مظالم سے چشم پوشی کرتے ہیں۔ حالانکہ عصر حاضر میں الیکٹرونک میڈیا کے ذریعہ معلومات حاصل کی جاسکتی ہیں کہ مغربی ممالک میں خواتین کے ساتھ کیسا برتاؤ کیا جاتا ہے۔

مرد وعورت میں تخلیقی وجسمانی وعقلی فرق کی وجہ سے شریعت اسلامیہ نے دونوں کے مسائل میں کسی حد تک فرق رکھا ہے۔ یقیناًدونوں میاں بیوی بشریت وانسانیت میں برابر ہیں اور دونوں کے ایک دوسرے پر حقوق ہیں، لیکن شریعت اسلامیہ نے زندگی کے پہئے کو چلانے کے لئے مرد کو کسی نہ کسی حد تک فوقیت دی ہے۔ غرضیکہ مرد عورت کا محافظ ونگراں ہے اور مرد کو سربراہی حاصل ہے، ہاں دونوں میاں بیوی میں حاکم ومحکوم والا تعلق نہیں ہے بلکہ دونوں اپنی اپنی جگہ ایک مستقل حیثیت اور مقام رکھتے ہیں۔

چند مسائل ذکر کررہا ہوں جن میں شریعت اسلامیہ نے بشریت وانسانیت میں برابری کے باوجود مرد وعورت کے درمیان فرق رکھا ہے:

(1) مرد کو سربراہی حاصل ہے:اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا: مرد عورتوں پر حاکم ہیں، اس وجہ سے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے اور اس وجہ سے کہ مردوں نے اپنے مال خرچ کئے ہیں۔ جو عورتیں نیک ہیں وہ اپنے شوہروں کا کہنا مانتی ہیں اور اللہ کے حکم کے موافق نیک عورتیں شوہر کی عدم موجودگی میں اپنے نفس اور شوہر کے مال کی حفاظت کرتی ہیں، یعنی اپنے نفس اور شوہر کے مال میں کسی قسم کی خیانت نہیں کرتیں۔ اور جن عورتوں سے تمہیں سرکشی کا اندیشہ ہو تو (پہلے) انہیں سمجھاؤ، اور (اگر اس سے کام نہ چلے تو) انہیں خواب گاہوں میں تنہا چھوڑدو یعنی ان کے بستر کو الگ کردو، (اور اس سے بھی اصلاح نہ ہو تو)انہیں مارسکتے ہو۔(سورۃ النساء ۳۴) اس آیت میں خالق کائنات نے مرد کو عورت پر فوقیت وفضیلت دینے کی دو وجہیں ذکر فرمائی ہیں۔

(A)اللہ تعالیٰ (جو مردوعورت اور ساری کائنات کا پیدا کرنے والا ہے) نے خود مرد کو عورت پر فوقیت دی ہے، لہٰذا ہمیں اللہ تعالیٰ کے اس فیصلہ پر راضی رہنا چاہئے۔ غرضیکہ مرد کو عورت پر فوقیت وفضیلت کی پہلی وجہ وہبی ہے، یعنی اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ ہے، وہ جس کو چاہے عطا کرے۔

(B) مرد کو عورت پر فوقیت دینے کی دوسری وجہ اللہ تعالیٰ نے یہ بیان فرمائی ہے کہ مرد حضرات اپنے اور بیوی وبچوں کے تمام اخراجات برداشت کرتے ہیں۔ شریعت اسلامیہ میں لڑکی کی شادی سے قبل اس کے تمام اخراجات والد کے ذمہ رکھے ہیں، اور شادی کے بعد شوہر کے ذمہ رکھے ہیں کہ وہ اپنی بیوی کے کھانے، پینے، رہائش اور لباس وغیرہ کے تمام اخراجات برداشت کرے، جیساکہ سورۃ البقرہ ۲۲۳ اور سورۃ الطلاق ۷ میں بیان کیا گیا ہے۔ نیز حضور اکرمﷺ نے حضرت ہند بنت عتبہؓ سے فرمایا تھا،جب انہوں نے اپنے شوہر حضرت ابوسفیانؓ کے متعلق شکایت کی تھی کہ وہ بخیل ہیں اور وہ ان کے اور بچہ کے اخراجات مکمل طور پر نہیں اٹھاتے، ’’تم اپنے شوہر کے مال میں سے معروف طریقہ سے اتنا مال لے لیا کرو جو تمہیں اور تمہارے بچہ کے لئے کافی ہوجائے۔ (بخاری ۔ کتاب النفقات ۔ باب اذا لم ینفق الرجل فللمراۃ ان تاخذ۔۔۔۔۔)غرضیکہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ایک عام اصول وضابطہ بیان فرمایا کہ مرد کو عورتوں پر سربراہی حاصل ہے اور اس کی دو وجہیں بیان فرمائیں، ایک وہبی یعنی اللہ تعالیٰ نے خود مرد کو عورتوں پر فوقیت دینے کا فیصلہ فرمایا ہے اور دوسری وجہ کسبی ہے یعنی مرد اپنی بیوی اور بچوں پر خرچ کرتا ہے۔

بشریت وانسانیت ودیگر حقوق میں برابری کے باوجود مرد کو عورت پر فوقیت دی گئی ہے، جیساکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پاک کلام میں دوسری جگہ ارشاد فرمایا: ہاں مردوں کو عورتوں پر ایک درجہ فوقیت ہے۔(سورۃ البقرۃ ۲۲۸) یعنی دونوں کے ایک دوسرے پر حقوق ہونے کے باوجود زندگی کے سفر میں اللہ تعالیٰ نے مرد کو امیر اور نگراں بنایا ہے۔ اس لحاظ سے مرد کو ایک درجہ فوقیت حاصل ہے۔

اس موضوع سے متعلق دو آیات قرآنیہ ذکر کرنے کے بعد مناسب معلوم ہوتا ہے کہ محسن انسانیت نبی اکرم ﷺکے چند ایسے ارشادات بھی پیش کردوں جن سے ان مذکورہ بالا آیات کی مزید تفسیر ہوتی ہے۔۔۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اگر کوئی مرد اپنی عورت کو ہم بستر ہونے کے لئے بلائے اور وہ عورت انکار کردے اور پھر شوہر (اس کے انکار کی وجہ سے) رات بھر غصہ کی حالت میں رہے تو فرشتے اس عورت پر صبح تک لعنت بھیجتے رہتے ہیں۔ (بخاری ۔کتاب بدؤ الخلق ۔ باب اذا قال احدکم آمین) (وضاحت) یہ وعید اس صورت میں ہے جب کہ بیوی کو کوئی شرعی عذر نہ ہونے کے باوجود شوہر کے بستر پر آنے سے انکار کردے۔ ۔۔رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اگر عورت نے (خاص طور پر)پانچ نمازوں کی پابندی کی، ماہ رمضان کے روزے اہتمام سے رکھے، اپنی شرمگاہ کی حفاظت کی اور اپنے شوہر کی اطاعت کی تو گویا وہ جنت میں داخل ہوگئی۔ (مُسند احمد) ۔۔۔رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جب کوئی شخص اپنی بیوی کو اپنی حاجت پوری کرنے کے لئے (یعنی جماع کے لئے) بلائے تو بیوی کو شوہر کے پاس پہنچ جانا چاہئے اگرچہ وہ چولہے کے پاس ہو۔ (ترمذی۔ باب ماجاء فی حق الزوج) ۔۔۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو عورت اس حال میں مرے کہ اس کا شوہر اس سے راضی وخوش ہو تو وہ جنت میں داخل ہوگی۔ (ترمذی۔ باب ماجاء فی حق الزوج) ۔۔۔رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اگر میں کسی کو یہ حکم کرسکتا کہ وہ کسی (غیر اللہ) کو سجدہ کرے تو میں یقیناًعورت کو حکم کرتا کہ وہ اپنے خاوند کو سجدہ کرے۔ (ترمذی۔ باب ماجاء فی حق الزوج) مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ اگر کسی کو سجدہ کرنا جائز ہوتا تو عورت کو حکم دیا جاتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے۔۔۔ ایک عورت نے نبی اکرم ﷺ سے کہا کہ مجھے عورتوں کی ایک جماعت نے آپﷺ سے ایک سوال کرنے کے لئے بھیجا ہے اور وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جہاد کا حکم مردوں کو دیا ہے، چنانچہ اگر ان کو جہاد میں تکلیف پہنچتی ہے تو اُس پر ان کو اجر دیا جاتا ہے اور اگر وہ شہید ہوجاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کے خصوصی بندوں میں شمار ہوجاتے ہیں کہ مرنے کے باوجود وہ زندہ رہتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے خصوصی رزق ان کو دیا جاتا ہے، (جیساکہ سورۃ آل عمران آیت ۱۶۹ میں مذکور ہے) ہم عورتیں ان کی خدمت کرتی ہیں، ہمارے لئے کیا اجر ہے؟ تو نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جن عورتو ں کی طرف سے تم بھیجی گئی ہو، ان کو اطلاع کردو کہ شوہر کی اطاعت اور اس کے حق کا اعتراف تمہارے لئے اللہ کے راستے میں جہاد کے برابر ہے، لیکن تم میں سے کم ہی عورتیں اس ذمہ داری کو بخوبی انجام دیتی ہیں۔ (بزاز ، طبرانی) ۔۔۔رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: شوہر کی اجازت کے بغیر عورت کے لئے (نفلی) روزہ رکھنا جائز نہیں ہے۔ بخاری ومسلم

(2 نبوت ورسالت صرف مردوں کے لئے:نبوت ورسالت اللہ تعالیٰ کی جانب سے کسی بھی بندہ کو دیا جانے والا سب سے بڑا اعزاز ومقام ومرتبہ ہے۔ انسان اپنی کوشش اورجد وجہد سے اس مرتبہ کو حاصل نہیں کرسکتا۔ یہ مقام صرف اور صرف اللہ کی عطا پر منحصر ہے۔ دنیا کے وجود سے لے کر آج تک اللہ تعالیٰ کا یہ نظام رہا ہے کہ نبوت ورسالت سے صرف مردوں کو ہی سرفراز کیا گیا ہے، جیسا کہ فرمان الہٰی ہے: اور (اے پیغمبر!) ہم نے تم سے پہلے کسی اور کو نہیں، آدمیوں ہی کو رسول بناکر بھیجا تھا، جن پر ہم وحی نازل کرتے تھے۔ (سورۃ الانبیاء ۷) اسی طرح فرمان الہٰی ہے: اور ہم نے تم سے پہلے جو رسول بھیجے وہ سب مختلف بستیوں میں بسنے والے مرد ہی تھے، جن پر ہم وحی بھیجتے تھے۔ (سورۃ یوسف ۱۰۹) ۔۔۔ نیز قرآن وحدیث میں کسی بھی جگہ پر کسی بھی عورت کے نبی ہونے کا ذکر موجود نہیں ہے۔ حضرت مریم علیہا السلام کے متعلق بعض حضرات نے اختلاف کیا ہے، لیکن ۱۴۰۰ سال سے امت مسلمہ کے جمہور علماء ومفسرین ومحدثین مذکورہ بالا آیات قرآنیہ واحادیث نبویہ کی روشنی میں یہی فرماتے ہیں کہ کسی بھی صنف نازک کو نبوت ورسالت کی ذمہ داری نہیں دی گئی ۔عورت کی جسمانی وعقلی تخلیق اللہ تعالیٰ نے ایسی کی ہے کہ وہ نبوت ورسالت کی ذمہ داری کو انجام نہیں دے سکتی۔

(3 دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کے برابر: مرد وعورت کے پیدا کرنے والے نے یہ اصول وضابطہ بنایا ہے کہ دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کے برابر ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: اور اپنے میں سے دو مردوں کو گواہ بنالو، ہاں ا گر دو مرد موجود نہ ہوں توایک مرد اور دو عورتیں ان گواہوں سے ہوجائیں جنہیں تم پسند کرتے ہو تاکہ اگر ان دو عورتوں میں سے ایک بھول جائے تو دوسری اسے یاد دلادے۔(سورۃ البقرۃ ۲۸۲)

(4) طلاق کا اصل حق مرد کو حاصل ہے: اس مسئلہ کی چند شکلیں بن سکتی ہیں: ۱) صرف عورت کو طلاق کا حق دیا جائے۔ ۲) دونوں کی اتفاق رائے سے طلاق کا فیصلہ کیا جائے۔ ۳) جرح (بحث ومباحثہ) کے بعد عدالت کے ذریعہ طلاق واقع ہو۔ ۴) مرد کو طلاق کا حق دیا جائے البتہ عورت کو قاضی کے پاس اپنا کیس دائر کرنے کا حق دیا جائے جس سے وہ خلع لے سکے۔۔۔ شریعت اسلامیہ نے گھر کے تمام اخراجات، مہر کی ادائیگی حتی کہ طلاق کی صورت میں عدت کے دوران بیوی کے اخراجات، اسی طرح بچوں کی تعلیم وتربیت کے تمام اخراجات شوہر کے ذمہ رکھے ہیں، بیوی کے ذمہ شریعت نے کوئی بھی خرچہ نہیں رکھا ۔ بیوی کو طلاق دینے کا اختیار دینے پر شوہر کو مالی نقصان ہے۔ مثلاً اگر کسی شخص نے کسی عورت سے شادی کی، شوہر نے مہر کی ادائیگی بھی کردی، رہنے کے لئے مکان( مع ساز وسامان) کا بھی انتظام کردیا تو بیوی کا شوہر کو طلاق دینے پر شوہر کو کافی مال کا خسارہ ہوگا۔ نیز اللہ تعالیٰ نے عورت کی تخلیق اس طرح کی ہے کہ اگر عورت کو طلاق کا اصل اختیار ملتا تو طلاق کے واقعات میں بے تحاشا اضافہ ہوتا۔ اگر دونوں میاں بیوی کے اتفاق رائے سے طلاق واقع ہوتی تو عمومی حالات میں اتفاق رائے نہ ہونے کی وجہ سے طلاق ہی واقع نہ ہوتی اور آپس میں لڑتے جھگڑتے رہتے۔ عدالت کے ذریعہ طلاق کی صورت میں اپنے موقف کو صحیح ثابت کرنے کے لئے فریقین جرح (بحث ومباحثہ) میں حد سے تجاوز کرتے جس سے انسانیت بھی مجروح ہوتی، جیسا کہ مغربی ممالک کی عدالتوں میں ہوتا ہے۔۔۔ غرضیکہ ایک ہی شکل باقی بچی اور وہی شریعت اسلامیہ کا فیصلہ ہے کہ طلاق کا اصل اختیار مرد کو دیا جائے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی عطاکردہ صفات کی وجہ سے وہ عورت کے مقابلہ میں زیادہ صبر وتحمل سے کام لیتا ہے، لیکن عورت کو مجبور محض نہیں بنایا گیا بلکہ عورت کو شریعت اسلامیہ نے یہ اختیار دیا ہے کہ وہ شوہر سے طلاق کا مطالبہ کرے۔ اور شوہر کے طلاق دینے سے انکار کرنے پر بیوی کو شرعی عدالت میں جانے کا حق حاصل ہے تاکہ مسئلہ کا حل نہ ہونے پر قاضی شوہر کو طلاق دینے پر مجبور کرے۔ اس طرح عدالت کے ذریعہ طلاق واقع ہوجائے گی۔

(5 طلاق رجعی کی صورت میں مرد کو رجعت کا حق حاصل ہے:شریعت اسلامیہ نے طلاق رجعی (طلاق کے لفظ کے ساتھ ایک یا دو طلاق دینا) کی صورت میں مرد کو یہ حق دیا ہے کہ وہ بیوی کی اجازت کے بغیر عدت کے دوران رجعت کرلے۔ طلاق رجعی میں عدت کے دوران عورت مرد کو رجعت کرنے سے نہیں روک سکتی ہے۔ دو گواہوں کی موجودگی میں رجعت کرنا بہتر ہے تاکہ بعد میں کوئی اختلاف واقع نہ ہو۔

(6) طلاق یا شوہر کے انتقال پر عورت پر عدت لازم ہے: سورۃ الطلاق ۴، سورۃ البقرہ ۲۲۸ و ۲۳۴ اور سورۃ الاحزاب ۴۹ نیز محسن انسانیت نبی اکرم ﷺ کے اقوال کی روشنی میں پوری امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ مطلقہ یا بیوہ عورت پر عدت گزارنا واجب ہے۔ لیکن عورت کے خلع لینے پر یا بیوی کے انتقال ہونے پر شوہر کے لئے کوئی عدت نہیں ہے۔ عورت کے خلع لینے پر بھی عورت کے ذمہ عدت واجب ہے۔ عورت پر عدت واجب ہونے کے متعدد اسباب ہیں، لیکن ان میں سب سے اہم اللہ تعالیٰ کا حکم ہے اور اللہ کے حکم پر عمل کرنا عبادت ہے۔

(7) مرد کا ایک سے زیادہ شادی کرنا: مرد بیک وقت چار عورتوں سے شادی کرسکتا ہے، جبکہ عورت ایک وقت میں ایک ہی مرد کے نکاح میں رہ سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے پاک کلام میں ارشاد فرماتا ہے: دوسری عورتوں میں سے کسی سے نکاح کرلیا کرو جو تمہیں پسند آئیں، دو دو سے، تین تین سے، اور چار چار سے۔ (سورۃ النساء ۳) مرد کے لئے تعدد ازواج کے جواز کی متعدد وجوہات بھی ہیں لیکن بنیادی طور پر مردو عورت کی تخلیق میں فرق ، نیز خالق کائنات کا فیصلہ ہے جو ہمیں خوشی خوشی تسلیم کرنا چاہئے۔

(8)وراثت میں مرد کے مقابلہ میں عورت کو آدھا حصہ ملتا ہے:اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: مرد کا حصہ دو عورتوں کے برابر ہے۔ (سورۃ النساء ۱۱ اور ۱۷۶) ماں باپ اور اسی طرح بیوی وشوہر کے حصوں میں بھی شریعت اسلامیہ نے فرق رکھا ہے۔ تفصیلات کے لئے سورۃ النساء کا مطالعہ کریں، جہاں وراثت کے مسائل مذکور ہیں۔ (وضاحت) شریعت اسلامیہ نے صنف نازک پر کوئی بھی خرچہ ذمہ نہیں رکھا ہے، نہ اپنا، نہ اولاد کا اور نہ ہی شوہر کا۔ وراثت میں جو حصہ اسے ملے گا وہ صرف اور صرف اسی کا ہے۔

(9) مردو عورت کا سفر: مرد اپنی بیوی کے بغیر جب چاہے سفر کرسکتا ہے، لیکن شریعت اسلامیہ نے عورت کے سفر کے لئے شوہر یا کسی دوسرے محرم کا ساتھ ہونا ضروری قرار دیا ہے۔ جیساکہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: عورت، جو اللہ تعالیٰ اور آخر ت پر ایمان رکھتی ہے، کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ محرم کے بغیر ایک دن کی مسافت کے سفر پر جائے۔ (بخاری ومسلم) محسن انسانیت نبی اکرم ﷺ کے اقوال وافعال کی روشنی میں جمہور علماء کا اتفاق ہے کہ عورت ۷۸ کیلومیٹر کا سفر بغیر محرم یا شوہر کے نہیں کرسکتی ۔

(10عورتوں کے لئے پردہ کا حکم: سورۃا لنور ۳۱، سورۃ النور ۶۰، سورۃ الاحزاب ۵۹، سورۃ الاحزاب ۵۳ اور سورۃ الاحزاب ۳۳ نیز حضور اکرم ﷺ کے اقوال کی روشنی میں امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ عورت کا غیر محرم سے پردہ کرنا ضروی ہے۔ اسی طرح عورتوں کے لئے ہاتھ، پیر اور چہرے کے علاوہ پورا جسم ستر ہے، یعنی شوہرکے علاوہ کسی محرم وعورتوں کے سامنے ان تین اعضاء کے علاوہ کسی دوسرے عضو کا شرعی عذر کے بغیر کھولنا جائز نہیں ہے، جبکہ مرد کی ستر صرف ناف سے لے کر گھٹنے تک ہے۔

(11) ٰاولاد کی نسبت باپ کی طرف:شرعی قوانین کے اعتبار سے اولاد باپ کی طرف منسوب ہوتی ہے۔ یعنی اولاد کا خاندان وہ کہلائے گا جو باپ کا خاندان ہے، یعنی اگر باپ صدیقی اور ماں انصاری ہے تو اولاد صدیقی کہلائے گی۔ اولاد کا اپنے آپ کو انصاری لکھنا جائز نہیں ہے۔

(12) عورت عقل اور دین میں ناقص ہے: عورت کی تخلیق اللہ تعالیٰ نے ایسی کی ہے کہ وہ عقل اور دین کے اعتبار سے مرد کے مقابلہ میں ناقص ہیں چنانچہ محسن انسانیت نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ عید الاضحی یا عید الفطر کے موقعہ پر عید گاہ تشریف لے گئے، وہاں آپ عورتوں کی طرف گئے اور فرمایا: اے عورتوں! صدقہ کرو، کیونکہ میں نے جہنم میں زیادہ عورتوں ہی کو دیکھا ہے۔ انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ایسا کیوں ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم لعن طعن کثرت سے کرتی ہو۔ اور شوہر کی ناشکری کرتی ہو۔ باوجود عقل ا ور دین میں ناقص ہونے کے، میں نے تم سے زیادہ کسی کو بھی ایک زیرک اور تجربہ کار مرد کو دیوانہ بنادینے والا نہیں دیکھا۔ عورتوں نے عرض کیا: ہمارے دین اور عقل میں نقصان کیا ہے یا رسول اللہ؟ آپ ﷺ نے فرمایا: کیا عورت کی شہادت مرد کی شہادت کے آدھے کے برابر نہیں ہے؟ انہوں نے کہا : جی ہے۔ آپﷺ نے فرمایا بس یہی اس کی عقل کا نقصان ہے۔ پھر آپ ﷺ نے پوچھا کیا ایسا نہیں ہے کہ جب عورت حائضہ ہو تو نہ نماز پڑھ سکتی ہے اور نہ روزہ رکھ سکتی ہے۔ عورتوں نے کہا ایسا ہی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہی اس کے دین کا نقصان ہے۔ (بخاری ۔ باب ترک حائض الصوم) (وضاحت) بعض خواتین بعض مردوں سے عقل اور دین کے اعتبار سے بہتر ہوسکتی ہیں، لیکن شریعت اسلامیہ کا فیصلہ عام مردوں اور عام خواتین کو سامنے رکھ کر کیا گیا ہے۔

(13) لڑکے اور لڑکی کے عقیقہ کے درمیان فرق: رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: (عقیقہ میں) لڑکے کی جانب سے دو بکریاں اور لڑکی کی جانب سے ایک بکری ہے۔ (ترمذی ،مسند احمد) نیز رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: لڑکے کی جانب سے دو بکرے اور لڑکی کی جانب سے ایک بکرا ہے ۔ عقیقہ کے جانور مذکر ہوں یا مؤنث ، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یعنی بکرا یا بکری جو چاہیں ذبح کردیں۔ ترمذی ،مسند احمد۔

(14) مرد وعورت کی دیت میں فرق: حضور اکرم ﷺ کے اقوال کی روشنی میں صحابۂ کرام کا اجماع ہے، اسی طرح چاروں ائمہ کی متفق علیہ رائے ہے کہ مقتول کی دیت سو اونٹ یا دس ہزار درہم یا ایک ہزار دینار یا اس کے برابر قیمت ہے یا فریقین جو طے کرلیں۔ اور اگر مقتول عورت ہے تو آدھی دیت (یعنی پچاس اونٹ یا پانچ ہزار درہم یا پانچ سو ہزار دینار یا اس کے برابر قیمت ہے یا فریقین جو طے کرلیں۔) صحابۂ کرام، تابعین اور تبع تابعین میں سے کسی کا بھی عورت کی دیت آدھی ہونے میں کوئی اختلاف کتابوں میں مذکور نہیں ہے۔

ان مذکورہ بالا مسائل کے علاوہ متعدد مسائل میں شریعت اسلامیہ نے مرد وعورت کے درمیان فرق رکھا ہے، جن کو اختصار کے مد نظر ذکر نہیں کیا ہے، مثلاً مرد جہاد میں شرکت کرتے ہیں، جبکہ عورتوں پر جہاد فرض نہیں بلکہ ان کے لئے گھر میں رہنا (یعنی بچوں کی تعلیم وتربیت کرنا) اور حج کی ادائیگی کو جہاد قرار دیا گیا ۔ مردوں کو حکم دیا گیا کہ وہ پانچوں نمازیں جماعت کے ساتھ مسجد میں ادا کریں جبکہ خواتین کے لئے گھر کو بہترین مسجد قرار دیا گیا بلکہ خواتین کے لئے گھر کے اندر کوٹھری میں پڑھی گئی نماز کو باہر صحن میں پڑھی گئی نماز سے افضل قرار دیا گیا ہے۔

غرضیکہ میاں بیوی بشریت اور انسانیت میں برابری اور دونوں کے ایک دوسرے پر حقوق کے باوجود جسمانی وعقلی تخلیق میں فرق کی وجہ سے خالق کائنات نے زندگی کے پہئے کو چلانے کے لئے مردکو عورت کا سربراہ ونگراں متعین فرمایا ہے اور مرد کو عورت پر کسی نہ کسی حد تک فوقیت دی ہے۔ لہٰذا مرد کو چاہئے کہ وہ اللہ کی عطا کردہ صفات اور صلاحیتوں کا بہترین استعمال کرکے گھر کے نظام کو بہتر طریقہ سے چلائے۔ بیوی کو نوکرانی یا خادمہ نہ سمجھے بلکہ اس کے تمام حقوق مکمل طور پر ادا کرے، گھریلو معاملات میں بیوی سے ضرور مشورہ کرے لیکن اہم فیصلوں کا اختیار خود رکھے۔ جس طرح اللہ تعالیٰ کے نظام کے تحت عورت ہی حمل وولادت اور رضاعت کی تمام تر تکلیفیں برداشت کرتی ہے اور پوری دنیا نے خالق کائنات کے اس نظام کے سامنے گھٹنے ٹیک رکھے ہیں، (یعنی کوئی بھی شخص اس نظام کے خلاف آواز اٹھانے کے لئے تیار نہیں ہے کہ ایک مرتبہ عورت یہ تکلیفیں برداشت کرے جبکہ دوسری مرتبہ مرد ان مراحل سے گزریں۔) اسی طرح ہمیں اللہ تعالیٰ کے نظام کے تحت خوشی خوشی اس بات کو تسلیم کرنا چاہئے کہ مردکو عورت پر ایک درجہ فوقیت حاصل ہے اور وہی نظام زندگی کا سربراہ ہے۔

محمد نجیب قاسمی سنبھلی، ریاض (www.najeebqasmi.com)

نکاح ایک نعمت، طلاق ایک ضرورت اور عدت حکم الٰہی

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيْم

اَلْحَمْدُ لِلّهِ رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلامُ عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔

نکاح ایک نعمت، طلاق ایک ضرورت اور عدت حکم الٰہی

نکاح ۔ نعمت: نکاح اللہ کی ایک عظیم نعمت ہے، جب یہ رشتہ قائم کیا جاتا ہے تو اس میں پائیداری ودوام مقصود ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نکاح کے مقصد کو اس طرح بیان فرماتا ہے: اور اسی کی نشانیوں میں ہے کہ اس نے تمہارے لئے تمہاری ہی جنس کی بیویاں بنائیں تاکہ تم ان سے سکون حاصل کرو، اور اس نے تمہارے (یعنی میاں بیوی کے درمیان)محبت وہمدردی پیدا کردی۔ (سورۃ الروم ۲۱) اللہ تعالیٰ نے بہت سی حکمتوں اور مصلحتوں کے پیش نظر نکاح کو جائز قرار دیا، من جملہ ان مصالح وحکم کے ایک حکمت ومصلحت یہ بھی ہے کہ اس روئے زمین پر نوعِ انسانی، اصلاح ارض اور اقامت شرائع کے لئے اس کی نائب بن کر قیامت تک باقی رہے اور یہ مصلحتیں اسی وقت متحقق ہوسکتی ہیں جبکہ ان کی بنیاد مضبوط اور مستحکم ستونوں پر ہوں ، اور وہ ہے نکاح۔ویسے تو نسل انسانی کا وجود مرد وعورت کے ملاپ سے ممکن تھا، خواہ وہ ملاپ کسی بھی طرح کا ہوتا، لیکن اس ملاپ سے جو نسل وجود میں آتی وہ اصلاح ارض اور اقامت شرائع کے لئے موزوں اور مناسب نہ ہوتی، نیک نسل نکاح سے ہی وجود میں آسکتی ہے۔

اسلامی تعلیمات کا تقاضہ ہے کہ نکاح کا معاملہ عمر بھر کے لئے کیا جائے اور اس کو توڑنے اور ختم کرنے کی نوبت ہی نہ آئے کیونکہ اس معاملہ کے ٹوٹنے کا اثر نہ صرف میاں بیوی پر ہی پڑتا ہے، بلکہ اولاد کی بربادی اور بعض اوقات خاندانوں میں جھگڑے کا سبب بنتا ہے۔ جس سے پورا معاشرہ متاثر ہوتا ہے۔ اس لئے شریعت اسلامیہ نے دونوں میاں بیوی کو وہ ہدایات دی ہیں جن پر عمل پیرا ہونے سے یہ رشتہ زیادہ سے زیادہ مضبوط اور مستحکم ہوتا۔
اگر میاں بیوی کے درمیان اختلاف رونما ہوں تو سب سے پہلے دونوں کومل کر اختلاف دور کرنے چاہئیں۔ اگر بیوی کی طرف سے کوئی ایسی صورت پیش آئے جو شوہر کے مزاج کے خلاف ہوتو شوہر کو حکم دیا گیا کہ افہام وتفہیم اور زجر وتنبیہ سے کام لے۔دوسری طرف شوہر سے بھی کہا گیا کہ بیوی کو محض نوکرانی اور خادمہ نہ سمجھے بلکہ اس کے بھی کچھ حقوق ہیں جن کی پاس داری شریعت میں ضروری ہے۔ ان حقوق میں جہاں نان ونفقہ اور رہائش کا انتظام شامل ہے وہیں اس کی دل داری اور راحت رسانی کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے۔ اسی لئے رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ تم میں سب سے اچھا آدمی وہ ہے جو اپنے گھر والوں (یعنی بیوی بچوں) کی نظر میں اچھا ہو۔ اور ظاہر ہے کہ ان کی نظر میں اچھا وہی ہوگا جو اُن کے حقوق کی ادائیگی کرنے والا ہو۔

طلاق ۔ ضرورت: اگر میاں بیوی کے درمیان اختلاف دور نہ ہوں تو دونوں خاندان کے چند افراد کو حکم بناکر معاملہ طے کرنا چاہئے۔ غرضیکہ ہر ممکن کوشش کی جانی چاہئے کہ ازدواجی رشتہ ٹوٹنے نہ پائے، لیکن بعض اوقات میاں بیوی میں صلح مشکل ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے دونوں کا مل کر رہنا ایک عذاب بن جاتا ہے، تو ایسی صورت میں ازدواجی تعلق کو ختم کرنا ہی طرفین کے لئے مناسب معلوم ہوتا ہے۔ اسی لئے شریعت اسلامیہ نے طلاق کو جائز قرار دیا ہے۔ طلاق میاں بیوی کے درمیان نکاح کے معاہدہ کو توڑنے کا نام ہے ۔جس کے لئے سب سے بہتر طریقہ یہ ہے کہ دو اہم شرائط کے ساتھ صرف ایک طلاق دے دی جائے: (۱)عورت پاکی کی حالت میں ہو۔ (۲) شوہر عورت کی ایسی پاکی کی حالت میں طلاق دے رہا ہو کہ اس نے بیوی سے ہم بستری نہ کی ہو۔ صرف ایک طلاق دینے پر عدت کے دوران رجعت بھی کی جاسکتی ہے، یعنی میاں بیوی والے تعلقات کسی نکاح کے بغیر دوبارہ بحال کئے جاسکتے ہیں۔عدت گزرنے کے بعد اگر میاں بیوی دوبارہ نکاح کرنا چاہیں تو نکاح بھی ہوسکتا ہے۔نیز عورت عدت کے بعد کسی دوسرے شخص سے نکاح بھی کرسکتی ہے۔ غرضیکہ اس طرح طلاق واقع ہونے کے بعد بھی ازدواجی سلسلہ کو بحال کرنا ممکن ہے اور عورت عدت کے بعد دوسرے شخص سے نکاح کرنے کا مکمل اختیار بھی رکھتی ہے۔

طلاق کا اختیار مرد کو:مرد میں عادتاً وطبعاً عورت کی بہ نسبت فکروتدبر اور برداشت وتحمل کی قوت زیادہ ہوتی ہے، نیز انسانی خلقت ، فطرت، قوت اور صلاحیت کے لحاظ سے اور عقل کے ذریعہ انسان غوروخوض کرے تو یہی نظر آئے گا کہ اللہ تعالیٰ نے جو قوت مرد کو عطا کی ہے ، بڑے بڑے کام کرنے کی جو صلاحیت مرد کو عطا فرمائی ہے، وہ عورت کو نہیں دی گئی۔ لہذا امارت اور سربراہی کا کام صحیح طور پر مرد ہی انجام دے سکتا ہے۔ اس مسئلہ کے لئے اپنی عقل سے فیصلہ کرنے کے بجائے اس ذات سے پوچھیں جس نے اِن دونوں کو پیدا کیا ہے۔ چنانچہ خالق کائنات نے قرآن کریم میں واضح الفاظ کے ساتھ اس مسئلہ کا حل پیش کردیا ہے: (وَلِلرِّجَالِ عَلَےْہِنَّ دَرَجَۃ) (سورۂ البقرۃ ۲۲۸) (الرِّجَالُ قَوَّامُوْنَ عَلَی النِّسَاءِ) (سورۂ النساء ۳۴) ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے واضح الفاظ میں ذکر فرمادیا کہ مرد ہی زندگی کے سفر کا سربراہ رہے گا اور فیصلہ کرنے کا حق مرد ہی کو حاصل ہے، اگرچہ مرد کو چاہئے کہ عورت کو اپنے فیصلوں میں شامل کرے۔ اسی وجہ سے شریعت اسلامیہ نے طلاق دینے کا اختیار مرد کو دیا ہے۔

خُلَع:لیکن عورت کو مجبور محض نہیں بنایا کہ اگر شوہر بیوی کے حقوق کما حقہ ادا نہیں کررہا ہے یا بیوی کسی وجہ سے اس کے ساتھ ازدواجی رشتہ کو جاری نہیں رکھنا چاہتی تو عورت کو شریعت اسلامیہ نے یہ اختیار دیا ہے کہ وہ شوہر سے طلاق کا مطالبہ کرے۔ اگر عورت واقعی مظلومہ ہے تو شوہر کی شرعی ذمہ داری ہے کہ اس کے حقوق کی ادائیگی کرے ورنہ عورت کے مطالبہ پر اسے طلاق دیدے خواہ مال کے عوض یا کسی عوض کے بغیر۔ لیکن اگر شوہر طلاق دینے سے انکار کررہا ہے تو بیوی کو شرعی عدالت میں جانے کا حق حاصل ہے تاکہ مسئلہ کا حل نہ ہونے پر قاضی شوہر کو طلاق دینے پر مجبور کرے۔ اس طرح عدالت کے ذریعہ طلاق واقع ہوجائے گی اور عورت عدت گذارکر دوسری شادی کرسکتی ہے۔ خلع کی شکل میں طلاق بائن پڑتی ہے یعنی اگر دونوں میاں بیوی دوبارہ ایک ساتھ رہنا چاہیں تو رجعت نہیں ہوسکتی بلکہ دوبارہ نکاح ہی کرنا ہوگا، جس کے لئے طرفین کی اجازت ضروری ہے۔

طلاق کی قسمیں: عمومی طور پر طلاق کی تین قسمیں کی جاتی ہیں: طلاق رجعی، طلاق بائن اور طلاق مغلظہ۔
طلاق رجعی: واضح الفاظ کے ذریعہ بیوی کو ایک یا دو طلاق دے دی جائے۔ مثلاً شوہر نے بیوی سے کہہ دیا کہ میں نے تجھے طلاق دی۔ یہ وہ طلاق ہے جس سے نکاح فوراً نہیں ٹوٹتا بلکہ عدت پوری ہونے تک باقی رہتا ہے۔ عدت کے دوران مرد جب چاہے طلاق سے رجوع کرکے عورت کو پھر سے بغیر کسی نکاح کے بیوی بنا سکتا ہے۔ یاد رہے کہ شرعاً رجعت کے لئے بیوی کی رضامندی ضروری نہیں ہے۔

طلاق بائن:ایسے الفاظ کے ذریعہ جو صراحتاً طلاق کے معنی پر دلالت کرنے والے نہ ہوں، جیسے کسی شخص نے اپنی بیوی سے کہا کہ تو اپنے میکے چلی جا، میں نے تجھے چھوڑ دیا۔ اس طرح کے الفاظ سے طلاق اسی وقت واقع ہوگی جبکہ شوہر نے ان الفاظ کے ذریعہ طلاق دینے کا ارادہ کیا ہو ورنہ نہیں۔ ان الفاظ کے ذریعہ طلاق بائن پڑتی ہے یعنی نکاح فوراً ختم ہوجاتا ہے، اب نکاح کرکے ہی دونوں میاں بیوی ایک دوسرے کے لئے حلال ہوسکتے ہیں۔

طلاق مغلظہ: اکٹھا طور پر یا متفرق طور پر تین طلاق دینا طلاق مغلظہ (سخت) ہے، خواہ ایک ہی مجلس میں ہوں یا ایک ہی پاکی میں دی گئی ہوں۔ ایسی صورت میں نہ تو مرد کو رجوع کا حق حاصل ہے اور نہ ہی دونوں میاں بیوی نکاح کرسکتے ہیں ، الاّ یہ کہ عورت اپنی مرضی سے کسی دوسرے شخص سے باقاعدہ نکاح کرے اور دونوں نے صحبت بھی کی ہو، پھر یا تو دوسرے شوہر کا انتقال ہوجائے یا دوسرا شوہر اپنی مرضی سے اسے طلاق دیدے تو پھر یہ عورت دوسرے شوہر کی طلاق یا موت کی عدت کے بعد پہلے شوہر سے دوبارہ نکاح کرسکتی ہے۔ اس کو اللہ تعالیٰ نے اپنے پاک کلام (سورۃ البقرۃ آیت ۲۳۰)میں اس طرح بیان فرمایا ہے: پھر اگر شوہر (تیسری) طلاق دیدے تو وہ (مطلقہ) عورت اس کے لئے اس وقت تک حلال نہیں ہوگی جب تک وہ کسی اور شوہر سے نکاح نہ کرے۔ ہاں اگر (دوسرا شوہر بھی ) اسے طلاق دیدے تو ان دونوں پر کوئی گناہ نہیں کہ وہ ایک دوسرے کے پاس (نیا نکاح کرکے) دوبارہ واپس آجائیں، بشرطیہ کہ انہیں یہ غالب گمان ہو کہ وہ اب اللہ کی حدود قائم رکھیں گے۔ اسی کو حلالہ کہا جاتا ہے ، جس کا ذکر قرآن کریم میں ہے۔ اس کے صحیح ہونے کے لئے چند شرطیں ہیں: دوسرا نکاح صحیح طریقہ سے منعقد ہوا ہو۔ دوسرے شوہر نے ہم بستری بھی کی ہو۔ دوسرا شوہر اپنی مرضی سے طلاق دے یا وفات پاجائے اور دوسری عدت بھی گزر گئی ہو۔ حلالہ کے لئے مشروط نکاح کرنا حرام ہے۔

ایک ساتھ تین طلاق: طلاق رجعی اور طلاق بائن کی شکلوں میں عمومی طور پر اختلاف نہیں ہے۔ لیکن اگر کسی شخص نے ابغض الحلال طلاق کے صحیح طریقہ کو چھوڑکر غیر مشروع طور پر طلاق دیدی مثلاً تین طلاقیں عورت کی ناپاکی کے ایام میں دے دیں، یا ایک ہی طہر میں الگ الگ وقت میں تین طلاقیں دے دیں، یا الگ الگ تین طلاقیں ایسے تین پاکی کے ایام میں دیں جس میں کوئی صحبت کی ہو، یا ایک ہی وقت میں تین طلاقین دے دیں،تو مذکورہ بالا تمام صورتوں میں تین ہی طلاق پڑنے پر پوری امت مسلمہ متفق ہے، سوائے ایک صورت کے، کہ اگر کوئی شخص ایک مجلس میں تین طلاق دے دے تو کیا ایک واقع ہوگی یا تین۔ جمہور فقہاء وعلماء کی رائے کے مطابق تین ہی طلاق واقع ہوں گی۔ فقہاء صحابہ کرام حضرت عمرفاروق، حضرت عثمان، حضرت علی، حضرت عبد اللہ بن عباس، حضرت عبد اللہ بن عمر ، حضرت عبداللہ بن عمرو، حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہم اجمعین تین ہی طلاق پڑنے کے قائل تھے۔ نیز چاروں امام (امام ابوحنیفہؒ ، امام مالکؒ ، امام شافعیؒ اور امام احمد بن حنبلؒ ) کی متفق علیہ رائے بھی یہی ہے کہ ایک مجلس میں تین طلاق دینے پر تین ہی واقع ہوں گی، ہند، پاکستان، بنگلادیش اور افغانستان کے علماء کرام کی بھی یہی رائے ہے۔ ۱۳۹۳ھ میں سعودی عرب کے بڑے بڑے علماء کرام کی اکثریت نے بحث ومباحثہ کے بعد قرآن وحدیث کی روشنی میں صحابہ کرام، تابعین اور تبع تابعین کے اقوال کو سامنے رکھ کریہی فیصلہ کیا تھا کہ ایک وقت میں دی گئی تین طلاقیں تین ہی شمار ہوں گی۔ صرف علماء کرام کی ایک چھوٹی سی جماعت یعنی اہل حدیث (غیر مقلدین) کی رائے ہے کہ ایک واقع ہوگی۔ ان حضرات نے جن دلائل کو بنیاد بناکر ایک مجلس میں تین طلاق دینے پر ایک واقع ہونے کا فیصلہ فرمایا ہے جمہور فقہاء وعلماء ومحدثین نے ان کو غیر معتبر قرار دیا ہے۔
لہذا معلوم ہوا کہ قرآن وحدیث کی روشنی میں ۱۴۰۰ سال سے امت مسلمہ کی بہت بڑی تعداد اسی بات پر متفق ہے کہ ایک مجلس کی تین طلاقیں تین ہی شمار کی جائیں گی، لہذا اگر کسی شخص نے ایک مجلس میں تین طلاقیں دیدیں تو اختیار رجعت ختم ہوجائے گانیز میاں بیوی اگر باہمی رضا مندی سے بھی دوبارہ نکاح کرنا چاہیں تویہ نکاح درست اور حلال نہیں ہوگا یہاں تک کہ یہ عورت طلاق کی عدت گذارنے کے بعد دوسرے مرد سے نکاح کرے، دوسرے شوہر کے ساتھ رہے، دونوں ایک دوسرے سے لطف اندوز ہوں یعنی صحبت کریں۔ پھر اگر اتفاق سے یہ دوسرا شوہر بھی طلاق دیدے یا وفات پاجائے تو اس کی عدت پوری کرنے کے بعد پہلے شوہر سے نکاح ہوسکتا ہے۔ یہی وہ جائز حلالہ ہے، جس کا ذکر قرآن کریم میں آیا ہے۔ خلیفہ ثانی حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں ایک مجلس میں تین طلاقیں دینے پر متعدد مواقع پر باقاعدہ طور پر تین ہی طلاق کا فیصلہ صادر کیا جاتا رہا ،کسی ایک صحابی کا کوئی اختلاف بھی کتابوں میں مذکور نہیں ہے۔ لہذا قرآن وحدیث کی روشنی میں جمہور فقہاء کرام خاص کر (امام ابوحنیفہ ، امام مالکؒ ، امام شافعیؒ اور امام احمد بن حنبلؒ ) اور ان کے تمام شاگردوں کی متفق علیہ رائے بھی یہی ہے کہ ایک مجلس میں تین طلاق دینے پر تین ہی واقع ہوں گی۔ مضمون کی طوالت سے بچنے کے لئے دلائل پر بحث نہیں کی ہے لیکن میرے دوسرے مضمون (تین طلاق کا مسئلہ)اور سعودی عرب کے علماء کے فیصلہ میں تمام دلائل پر تفصیلی بحث کی گئی ہے۔

عدت ۔ حکم الٰہی: عدت کے لغوی معنی شمار کرنے کے ہیں، جبکہ شرعی اصطلاح میں عدت اس معین مدت کو کہتے ہیں جس میں شوہر کی موت یا طلاق یا خلع کی وجہ سے میاں بیوی کے درمیان علاحدگی ہونے پر عورت کے لئے بعض شرعی احکامات کی پابندی لازم ہوجاتی ہے۔ عورت کے فطری احوال کے اختلاف کی وجہ سے عدت کی مدت مختلف ہوتی ہے۔ قرآن وسنت کی روشنی میں امت مسلمہ متفق ہے کہ شوہر کی موت یا طلاق یا خلع کی وجہ سے میاں بیوی کے درمیان جدائیگی ہونے پر عورت کے لئے عدت واجب (فرض) ہے۔ عدت دو وجہوں سے واجب ہوتی ہے:

عدت شوہر کی موت کی وجہ سے:اگر شوہر کے انتقال کے وقت بیوی حاملہ ہے تو Delivery ہونے تک عدت رہے گی، خواہ اس کا وقت چار ماہ اور دس روز سے کم ہو یا زیادہ۔ جیساکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا: حاملہ عورتوں کی عدت ان کے وضع حمل تک ہے۔ (سورۂ الطلاق ۴) اس آیت کے ظاہر سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ ہر حاملہ عورت کی عدت یہی ہے خواہ وہ مطلقہ ہو یا بیوہ، جیساکہ احادیث کی کتابوں (کتاب الطلاق)میں وضاحت موجود ہے۔حمل نہ ہونے کی صورت میں شوہر کے انتقال کی وجہ سے عدت ۴ ماہ اور ۱۰ دن کی ہوگی خواہ عورت کو ماہواری آتی ہو یا نہیں، خلوت صحیحہ (صحبت) ہوئی ہو یا نہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا: تم میں سے جو لوگ فوت ہوجائیں اور بیویاں چھوڑجائیں تو وہ عورتیں اپنے آپ کو چار ماہ اور دس دن عدت میں رکھیں۔ (سورۂ البقرۃ ۲۳۴)

عدت طلاق یا خلع کی وجہ سے:اگر طلاق یا خلع کے وقت بیوی حاملہ ہے تو Delivery ہونے تک عدت رہے گی خواہ تین ماہ سے کم مدت میں ہی ولادت ہوجائے۔ جیساکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا: حاملہ عورتوں کی عدت ان کے وضع حمل تک ہے۔ (سورۂ الطلاق ۴) اگر شوہر کے انتقال یا طلاق کے کچھ دنوں بعد حمل کا علم ہو تو عدت وضع حمل تک رہے گی خواہ یہ مدت ۹ ماہ کی ہی کیوں نہ ہو۔اگر طلاق یا خلع کے وقت عورت حاملہ نہیں ہے تو ماہواری آنے والی عورت کے لئے عدت ۳ حیض (ماہواری) رہے گی۔ جیساکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا: مطلقہ عورتیں اپنے آپ کو تین حیض تک روکے رکھیں۔ (سورۂ البقرۃ ۲۲۸) تیسری ماہواری ختم ہونے کے بعد عدت مکمل ہوگی۔ عورتوں کے احوال کی وجہ سے یہ عدت ۳ ماہ سے زیادہ یا تین ماہ سے کم بھی ہوسکتی ہے۔

جن عورتوں کو عمر زیادہ ہونے کی وجہ سے حیض آنا بند ہوگیا ہو یا جنہیں حیض آنا شروع ہی نہ ہوا ہو تو طلاق کی صورت میں ان کی عدت تین مہینے ہوگی۔ جیساکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا: تمہاری عورتوں میں سے جو عورتیں حیض سے ناامید ہوچکی ہیں، اگر تم کو ان کی عدت کی تعیین میں شبہ ہو رہا ہے تو ان کی عدت تین ماہ ہے اور اسی طرح جن عورتوں کو حیض آیا ہی نہیں ہے ، ان کی عدت بھی تین ماہ ہے۔(سورۂ الطلاق ۴)

نکاح کے بعد لیکن خلوت صحیحہ (صحبت) سے قبل اگر کسی عورت کو طلاق دے دی جائے تو اس عورت کے لئے کوئی عدت نہیں ہے جیساکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا: اے ایمان والو! جب تم مؤمن عورتوں سے نکاح کرو پھر ہاتھ لگانے (یعنی صحبت کرنے ) سے قبل ہی طلاق دے دو تو ان عورتوں پر تمہارا کوئی حق عدت کا نہیں ہے جسے تم شمار کرو۔ (سورۂ الاحزاب ۴۹) یعنی خلوت صحیحہ سے قبل طلاق کی صورت میں عورت کے لئے عدت نہیں ہے۔ لیکن خلوت صحیحہ (صحبت) سے قبل شوہر کے انتقال کی صورت میں عورت کے لئے عدت ہے ۔سورۂ البقرۃ کی آیت نمبر ۲۳۴ کے عموم ودیگر احادیث صحیحہ کی روشنی میں امت مسلمہ اس پر متفق ہے۔نکاح کے بعد لیکن خلوت صحیحہ سے قبل طلاق دینے کی صورت میں آدھے مہر کی ادائیگی کرنی ہوگی۔ (سورۂ البقرہ ۲۳۷)

عدت کی مصلحتیں: عدت کی متعدد دنیاوی واخروی مصلحتیں ہیں جن میں سے بعض یہ ہیں: ۱) عدت سے اللہ تعالیٰ کی رضامندی کا حصول ہوتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے حکم کو بجالانا عبادت ہے اور عبادت سے اللہ کا قرب حاصل ہوتا ہے۔ ۲) عدت کو واجب قرار دینے کی اہم مصلحت اس بات کا یقین حاصل کرنا ہے تاکہ پہلے شوہر کا کوئی بھی اثر بچہ دانی میں نہ رہے اور بچے کے نسب میں کوئی شبہ باقی نہ رہے۔ ۳) نکاح چونکہ اللہ تعالیٰ کی ایک عظیم نعمت ہے، اس لئے اس کے زوال پر عدت واجب قرار دی گئی۔ ۴) نکاح کے بلند وبالا مقصد کی معرفت کے لئے عدت واجب قرار دی گئی تاکہ انسان اس کو بچوں کا کھیل نہ بنالے۔ ۵) شوہر کے انتقال کی وجہ سے گھر /خاندان میں جو ایک خلا پیدا ہوا ہے اس کی یاد کچھ مدت تک باقی رکھنے کی غرض سے عورت کے لئے عدت ضروری قرار دی گئی۔

متفرق مسائل: شوہر کی وفات یا طلاق دینے کے وقت سے عدت شروع ہوجاتی ہے خواہ عورت کو شوہر کے انتقال یا طلاق کی خبر بعد میں پہونچی ہو۔ مطلقہ یا بیو ہ عورت کو عدت کے دوران بلا عذر شرعی گھر سے باہر نہیں نکلنا چاہئے۔ کسی وجہ سے شوہر کے گھر عدت گزارنا مشکل ہو تو عورت اپنے میکے یا کسی دوسرے گھر میں بھی عدت گذار سکتی ہے۔ (سورۂ الطلاق ۱) عورت کے لئے عدت کے دوران دوسری شادی کرنا جائز نہیں ہے، البتہ رشتہ کا پیغام عورت کو اشارۃًدیا جاسکتا ہے۔ ( البقرۃ۲۳۴/ ۲۳۵) جس عورت کے شوہر کا انتقال ہوجائے تو اس کو عدت کے دوران خوشبو لگانا، سنگھار کرنا، سرمہ اور خوشبو کا تیل بلاضرورت لگانا، مہندی لگانا اور زیادہ چمک دمک والے کپڑے پہننا درست نہیں ہے۔ اگر چاند کی پہلی تاریخ کو شوہر کا انتقال ہوا ہے تب تو یہ مہینے خواہ ۳۰کے ہوں یا ۲۹کے ہوں، چاند کے حساب سے پورے کئے جائیں گے اور ۱۱ تاریخ کو عدت ختم ہوجائے گی۔اگر پہلی تاریخ کے علاوہ کسی دوسری تاریخ میں شوہر کا انتقال ہوا ہے تو ۱۳۰ دن عدت رہے گی۔ علماء کی دوسری رائے یہ ہے کہ جس تاریخ میں انتقال ہوا ہے، اس تاریخ سے چار ماہ کے بعد ۱۰ دن بڑھادئے جائیں مثلاً ۱۵ محرم الحرام کو انتقال ہوا ہے تو ۲۶ جمادی الاول کو عدت ختم ہوجائے گی۔اگر عورت شوہر کے انتقال یا طلاق کی صورت میں عدت نہ کرے یا عدت تو شروع کی مگر مکمل نہ کی تو وہ اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے قانون کو توڑنے والی کہلائے گی جو بڑا گناہ ہے، لہذا اللہ تعالیٰ سے توبہ واستغفار کرکے ایسی عورت کے لئے عدت کو مکمل کرنا ضروری ہے۔عدت کے دوران عورت کے مکمل نان ونفقہ کا ذمہ دار شوہر ہی ہوگا۔

محمد نجیب سنبھلی قاسمی، ریاض (www.najeebqasmi.com)

خواتین کے خصوصی مسائل
بسم الله الرحمن الرحيم
اَلْحَمْدُ لِله رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلام عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔
خواتین کے خصوصی مسائل
۱۔ حیض ونفاس کے مسائل:
شریعت اسلامیہ میں حیض اُس خون کو کہتے ہیں جو عورت کے رحم (بچہ دانی)کے اندر سے متعینہ اوقات میں بغیر کسی بیماری کے نکلتا ہے۔ چونکہ یہ خون تقریباً ہر ماہ آتا ہے، اس لئے اس کو ماہواری (MC) بھی کہتے ہیں۔ اس خون کو اللہ تعالیٰ نے تمام عورتوں کے لئے مقدر کردیا ہے۔ حمل کے دوران یہی خون بچہ کی غذا بن جاتا ہے۔ لڑکی کے بالغ ہونے (۱۲۔ ۱۳ سال کی عمر) سے تقریباً ۵۰۔۵۵ سال کی عمر تک یہ خون عورتوں کو آتا رہتاہے۔ حیض کی کم از کم ، اور زیادہ سے زیادہ مدت کے متعلق علماء کی رائے متعدد ہیں، البتہ عموماً اس کی مدت ۳ دن سے ۱۰ دن تک رہتی ہے۔
نفاس اُس خون کو کہتے ہیں جو رحم مادر سے بچہ کی ولادت کے وقت اور ولادت کے بعد خارج ہوتا ہے۔ نفاس کی کم از کم مدت کی کوئی حد نہیں ہے، (ایک دو روز میں بھی بند ہوسکتا ہے) اور اس کی زیادہ سے زیادہ مدت ۴۰ دن ہے۔ (مسلم، ابوداؤد، ترمذی) لہذا ۴۰ دن سے پہلے جب بھی عورت پاک ہوجائے، یعنی اس کا خون آنا بند ہوجائے، تو وہ غسل کرکے نماز شروع کردے۔ خون بند ہوجانے کے بعد بھی۴۰ دن تک انتظار کرنا اور نماز وغیرہ سے رکے رہنا‘ غلط ہے۔
حیض یا نفاس والی عورتوں کے لئے مندرجہ ذیل امور ناجائز ہیں :
ان دونوں حالت میں صحبت کرنا۔ (سورۂ البقرہ ۲۲۲) البتہ ان ایام میں سوائے مجامعت کے ہر جائز شکل میں استمتاع کیا جا سکتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : سوائے مجامعت (ہم بستری) کے ہر کام کرسکتے ہو (مسلم)
نماز اور روزہ کی ادائیگی۔ (مسلم) حیض سے پاک وصاف ہوجانے کے بعدعورت روزے کی قضا کرے گی، لیکن نماز کی قضا نہیں کرے گی۔ (بخاری ومسلم) نماز روزہ میں فرق کی وجہ اللہ ہی زیادہ جانتا ہے۔ پھر بھی علماء کرام نے لکھا ہے کہ نماز ایسا عمل ہے جس کی بار بار تکرار ہوتی ہے، لہذا ممکن ہے کہ مشقت اور پریشانی سے بچنے کے لئے اس کی قضاکا حکم نہیں دیا گیا، لیکن روزہ کا معاملہ اس کے بر عکس ہے (سال میں صرف ایک مرتبہ اس کا وقت آتا ہے)، لہذا روزہ کی قضا کا حکم دیاگیا۔
قرآن کریم بغیر کسی حائل (کپڑے) کے چھونا۔ قرآن کریم کو صرف پاکی کی حالت میں ہی چھوا جاسکتا ہے، لہذا ناپاکی کے ایام میں عورت کسی کپڑے مثلاً باہری غلاف کے ساتھ ہی قرآن کو چھوئے۔ (سورہ الواقعہ ۷۹، نسائی)

بیت اللہ کا طواف کرنا ۔ (بخاری ومسلم) البتہ سعی (صفا مروہ پر دوڑنا) ناپاکی کی حالت میں کی جاسکتی ہے۔ (بخاری)
مسجد میں داخل ہونا۔ (ابوداؤد) اگر عورت مسجد حرام یا کسی دوسری مسجد میں ہے اور ناپاکی کا وقت شروع ہوگیا تو عورت کو چاہئے کہ فوراً مسجد سے باہر نکل جائے، البتہ صفا مروہ یا مسجد حرام کے باہر صحن میں کسی جگہ بیٹھ سکتی ہے۔
بغیر چھوئے قرآن کریم کی تلاوت کرنا ۔ (ابوداؤد) اس سلسلہ میں علماء کی رائے مختلف ہیں، البتہ تمام علماء اس بات پر متفق ہیں کہ زیادہ احتیاط اسی میں ہے کہ ان ایام میں قرآن کریم کی تلاوت بغیر دیکھے بھی نہ کی جائے۔ البتہ قرآن کریم میں وارد اذکار اور دعائیں ان ایام میں پڑھی جاسکتی ہیں۔
نوٹ:
میاں بیوی کا حیض کی حالت میں صحبت کرنا، اور پیچھے کے راستے کو کسی بھی وقت اختیار کرنا حرام ہے ۔
حیض (ماہواری۔MC)کو وقتی طور پر روکنے والی دوائیں استعمال کرنے کی شرعاً گنجائش ہے۔
حیض یا نفاس والی عورت کا خون جس نماز کے وقت شروع ہوا، اگر خون شروع ہونے سے قبل نماز کی ادائیگی نہ کرسکی تو
پھر اس نماز کی قضا اس پر واجب نہیں ہے۔ البتہ جس نماز کے وقت میں خون بند ہوگا ، غسل کرکے اس نماز کی ادائیگی
اس کے ذمہ ہوگی۔
۲۔ استحاضہ کے مسائل:
حیض یا نفاس کے علاوہ بیماری کی وجہ سے بھی عورت کو کبھی کبھی خون آجاتا ہے جسکو استحاضہ کہا جاتا ہے۔ اس بیماری کے خون (استحاضہ) کے نکلنے سے وضو تو ٹوٹ جاتا ہے، مگر نماز اور روزہ کی ادائیگی اس عورت کے لئے معاف نہیں ہے ۔ نیز ان بیماری کے ایام میں صحبت بھی کی جاسکتی ہے۔ (ابوداؤد، نسائی)
نوٹ:
اگر کسی عورت کو بیماری کا خون ہر وقت آنے لگے یعنی خون کے قطرے ہر وقت نکل رہے ہیں کہ تھوڑا سا وقت بھی نماز کی ادائیگی کے لئے نہیں مل پارہا ہے تو اس کا حکم اس شخص کی طرح ہے جس کو ہر وقت پیشاب کے قطرات گرنے کی بیماری ہوجائے کہ وہ ایک وقت کے لئے وضو کرے اور اس وقت میں جتنی چاہے نماز پڑھے ، قرآن کی تلاوت کرے، دوسری نماز کا وقت شروع ہونے پر اس کو دوسرا وضو کرنا ہوگا۔ (بخاری ومسلم)
۳۔ مانع حمل کے ذرائع کا استعمال :
شریعت اسلامیہ نے اگرچہ نسلوں کو بڑھانے کی ترغیب دی ہے، لیکن پھر بھی ایسے اسباب اختیار کرنے کی اجازت دی ہے جس سے وقتی طور پرحمل نہ ٹھہرے، مثلاً دواؤں یا کنڈوم کا استعمال، یا عزل کرنا (منی کو شرمگاہ کے باہر نکالنا)۔ (بخاری)
۴۔ اسقاط حمل (Abortion) :
اگر حمل ٹھہر جائے تو اسقاط حمل جائز نہیں ہے۔ (سورہ بنی اسرائیل ۳۱، سورہ الانعام ۱۵۱)
البتہ شرعی وجہ جواز پائے جانے کی صورت میں بہت بھی نہایت محدود دائرہ میں حمل کا اسقاط جائز ہے۔
چار مہینے مکمل ہوجانے کے بعد حمل کا اسقاط بالکل حرام ہے، کیونکہ وہ ایک جان کو قتل کرنے کے مترادف ہے۔
اگر کسی وجہ سے حمل کے برقرار رہنے سے ماں کی جان کو خطرہ ہوجائے تو ماں کی زندگی کو بچانے کے لئے چار ماہ کے بعد بھی اسقاط حمل جائزہے۔ یہ محض دو ضرر میں سے بڑے ضرر کو دور کرنے، اور دو مصلحتوں میں سے بڑی مصلحت کو حاصل کرنے کی لئے اجازت دی گئی ہے۔
۵۔ رضاعت (دودھ پلانے) سے حرمت کا مسئلہ:
اگر کوئی عورت کسی دو سال سے کم عمر کے بچے کو اپنا دودھ پلادے تو وہ دونوں ماں بیٹے کے حکم میں ہوجاتے ہیں، لیکن قرآن وحدیث کی روشنی میں‘ جمہور علماء کرام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ رضاعت (دودھ پلانے) کے لئے بنیادی شرط یہ ہے کہ دودھ چھڑانے کی مدت سے پہلے بچے نے دودھ پیا ہو۔ جیساکہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :جن عورتوں کا ارادہ ‘ دودھ پلانے کی مدت پوری کرنے کاہے، وہ اپنی اولاد کو دو سال مکمل دودھ پلائیں۔ (سورہ البقرہ ۲۳۳)
نیز نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : رضاعت سے حرمت صرف اسی وقت ثابت ہوتی ہے جب کہ رضاعت (دودھ پلانا) دودھ چھڑانے کی مدت سے پہلے ہو۔ (ترمذی) یعنی دودھ پلانے سے ماں بیٹے کا رشتہ اسی وقت ہوگا جبکہ دودھ چھڑانے کی مدت سے پہلے بچے کو دودھ پلایا جائے۔ امام ترمذی ؒ نے اس حدیث کو ذکر کرنے کے بعد فرمایا : حدیث صحیح ہے اور صحابہ کرام کا عمل بھی یہی تھاکہ رضاعت سے حرمت اسی وقت ثابت ہوگی جب دودھ چھڑانے کی مدت سے پہلے بچے نے دودھ پیا ہو۔ دودھ چھڑانے کی مدت کے بعد کسی مرد کو دودھ پلانے سے کوئی حرمت ثابت نہیں ہوتی ہے۔ (ترمذی)۔
امام ابوحنیفہ ؒ نے اگرچہ ڈھائی سال تک بچے کو دودھ پلانے کی گنجائش رکھی ہے، البتہ علماء احناف کا فتویٰ دو سال تک ہی دودھ پلانے کا ہے۔ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کا دودھ پی لے تو اس سے نکاح پر کوئی فرق نہیں پڑتا ہے، البتہ ایسا کرنے سے بچنا چاہئے۔ صحابہ کرام کے زمانے سے آج تک امت مسلمہ کے 99.99% محدثین، مفسرین ، مفکرین ، فقہا، نیز چاروں امام اور جمہور علماء کرام اس بات پر متفق ہیں کہ کسی مرد کو عورت کا دودھ پلانے سے حرمت ثابت نہیں ہوتی ہے، یعنی دونوں کے درمیان کسی بھی شکل میں ماں بیٹے کا رشتہ نہیں بن سکتاہے، اس کے لئے بنیادی شرط ہے کہ دودھ چھڑانے کی مدت سے پہلے بچے کو دودھ پلایا جائے۔
محمد نجیب قاسمی، ریاض (najeebqasmi@yahoo.com)

علم میراث اور اس کے مسائل
بسم الله الرحمن الرحيم
اَلْحَمْدُ لِله رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلام عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔
علم میراث اور اس کے مسائل
لغوی معنی: میراث کی جمع مواریث آتی ہے جس کے معنی “ترکہ” ہیں یعنی وہ مال وجائیداد جو میت چھوڑ کر مرے۔ علم میراث کو علمفرائض بھی کہا جاتا ہے، فرائض فریضہ کی جمع ہے جو فرض سے لیا گیا ہے جس کے معنی “متعین ” ہیں۔ کیونکہ وارثوں کےحصے شریعت اسلامیہ کی جانب سے متعین ہیں اس لئے اس علم کو علم فرائض بھی کہتے ہیں۔
اصطلاحی معنی: اس علم کے ذریعہ یہ جانا جاتا ہے کہ کسی شخص کے انتقال کے بعد اس کا وارث کون بنے گا اور کون نہیں نیز وارثین کو کتنا کتناحصہ ملے گا۔
قرآن کریم میں متعدد جگہوں پر میراث کے احکام بیان کئے گئے ہیں لیکن تین آیات (سورۂ النساء ۱۱، ۱۲ و ۱۷۶) میں اختصار کے ساتھ بیشتر احکام جمع کردئے گئے ہیں۔ میراث کے مسائل میں فقہاء وعلماء کا اختلاف بہت کم ہے۔
علم میراث کی اہمیت:
دین اسلام میں اس علم کی بہت زیادہ اہمیت ہے چنانچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس علم کو پڑھنے پڑھانے کی متعدد مرتبہ ترغیب دی ہے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: علم فرائض سیکھو اور لوگوں کو سکھاؤ کیونکہ یہ نصف علم ہے، اس کے مسائل لوگ جلدی بھول جاتے ہیںیہ پہلا علم ہے جو میری امت سے اٹھالیا جائے گا۔ (ابن ماجہ- باب الحث علی تعلیم الفرائض ۲۷۱۹(
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے علم فرائض کو نصف علم قرار دیاہے۔ اس کی مختلف توجیہات ذکر کی گئی ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ انسان کی دو حالتیں ہوتی ہیں : ایک زندگی کی حالت اور دوسری مرنے کی حالت۔ علم میراث میں زیادہ تر مسائل موت کی حالت کے متعلق ہوتے ہیں جبکہ دیگر علوم میں زندگی کے مسائل سے بحث ہوتی ہے ، لہذا اس معنی کو سامنے رکھ کر علم میراث نصف علم ہوا۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مجھے بھی ایک دن دنیا سے رخصت ہونا ہے۔ علم اٹھالیا جائے گا اور فتنے ظاہر ہوں گے یہاں تک کہمیراث کے معاملہ میں دو شخص اختلاف کریں گے تو کوئی شخص ان کے درمیان فیصلہ کرنے والا نہیں ملے گا۔ (ترمذی، مسند احمد(
حضرت عمر فاروق ؓ نے فرمایا: میراث کے مسائل کو سیکھا کرو کیونکہ یہ تمہارے دین کا ایک حصہ ہے۔ (الدارمی ۲۸۵۱(
حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ نے فرمایا: جو شخص قرآن کریم کو سیکھے اس کو چاہئے کہ وہ علم میراث کو بھی سیکھے۔ (رواہ البیہقی فی”الکبری” ۶/۲۰۹، الحاکم فی “المستدرک” ۸۰۷۲، الطبرانی فی “الکبیر” ۸۶۵۶، الدارمی فی”سننہ” ۲۹۱۴(
علم میراث کے تین اہم اجزاء ہیں:
مُوَرَّثْ (Muwarras): وہ میت جس کا ساز وسامان وجائیداد دوسروں کی طرف منتقل ہورہی ہے۔
وَارِثْ(Waris): وہ شخص جس کی طرف میت کا ساز وسامان وجائیداد منتقل ہورہی ہے۔ وارث کی جمع ورثاء آتی ہے۔
مَوْرُوْث (Mouroos): ترکہ یعنی وہ جائیداد یا ساز وسامان جو مرنے والا چھوڑ کر مرا ہے۔
میت کے سازوسامان اور جائیداد میں چار حقوق ہیں:
میت کے مال وجائیداد میں سے سب سے پہلے اس کے کفن ودفن کا انتظام کیا جائے۔
دوسرے نمبر پر جو قرض میت کے اوپر ہے اس کو ادا کیا جائے۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے اہمیت کی وجہ سے قرآن کریم میں وصیت کو قرض پر مقدم کیا ہے لیکن باجماع امت حکم کے اعتبار سے قرض وصیت پر مقدم ہے۔ یعنی اگر میت کے ذمہ قرض ہو تو سب سے پہلے میت کے ترکہ میں سے وہ ادا کیا جائے گا۔ پھر وصیت پوری کی جائے گی اور اس کے بعد میراث تقسیم ہوگی۔
اگر میت وجوب زکاۃ کے باوجود زکاۃ کی ادائیگی نہ کرسکایا حج فرض ہونے کے باوجود حج کی ادائیگی نہ کرسکا یا بیوی کا مہر ابھی تک ادا نہیں کیا گیا تو یہ امور بھی میت کے ذمہ قرض کی طرح ہیں۔
تیسرا حق یہ ہے کہ ایک تہائی حصہ تک اس کی جائز وصیتوں کو نافذ کیا جائے۔
وصیت کا قانون: شریعت اسلامیہ میں وصیت کا قانون بنایا گیا تاکہ قانونِ میراث کی رو سے جن عزیزوں کو میراث میں حصہ نہیں پہنچ رہا ہے اور وہ مدد کے مستحق ہیں مثلاً کوئی یتیم پوتا یا پوتی موجود ہے یا کسی بیٹے کی بیوہ مصیبت زدہ ہے یا کوئی بھائی یا بہن یا کوئی دوسرا عزیز سہارے کا محتاج ہے تو وصیت کے ذریعہ اس شخص کی مدد کی جائے۔ وصیت کرنا اور نہ کرنا دونوں اگرچہ جائز ہیں لیکن بعض اوقات میں وصیت کرنا افضل وبہتر ہے۔ وارثوں کے لئے ایک تہائی جائیداد میں وصیت کا نافذ کرنا واجب ہے، یعنی اگر کسی شخص کے کفن ودفن کے اخراجات اور قرض کی ادائیگی کے بعد ۹ لاکھ روپئے کی جائیداد بچتی ہے تو ۳ لاکھ تک وصیت نافذ کرنا وارثین کے لئے ضروری ہے۔ ایک تہائی سے زیادہ وصیت نافذ کرنے اور نہ کرنے میں وارثین کو اختیار ہے۔
نوٹ: کسی وارث یا تمام وارثین کو محروم کرنے کے لئے اگر کوئی شخص وصیت کرے تو یہ گناہ کبیرہ ہے جیسا کہ نبی اکرم ا نے ارشاد فرمایا: جس شخص نے وارث کو میراث سے محروم کیا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن جنت سے اس کو محروم رکھے گا (کچھ عرصہ کے لئے)۔ (ابن ماجہ-باب الحیف فی الوصیہ(
چوتھا حق یہ ہے کہ باقی سازوسامان اور جائیداد کو شریعت کے مطابق وارثین میں تقسیم کردیا جائے۔
نَصِےْباً مَّفْرُوْضاً (النساء ۷)، فَرِےْضَۃً مِنَ اللّٰہِ (النساء ۱۱)، وَصِیَّۃً مِّنَ اللّٰہِ (النساء ۱۲)، تِلْکَ حُدُوْدُ اللّٰہِ(النساء ۱۳) سے معلوم ہوا کہ قرآن وسنت میں ذکر کئے گئے حصوں کے اعتبار سے وارثین کو میراث تقسیم کرنا واجب ہے۔
ورثاء کی ۳ قسمیں:
صاحب الفرض: وہ ورثاء جو شرعی اعتبار سے ایسا معین حصہ حاصل کرتے ہیں جس میں کوئی کمی یا بیشی نہیں ہوسکتی ہے۔ایسے معینحصے جو قرآن کریم میں ذکر کئے گئے ہیں وہ چھ ہیں: 1/6, 1/3, 2/3, 1/8, 1/4, 1/2۔
قرآن وسنت میں جن حضرات کے حصے متعین کئے گئے ہیں وہ یہ ہیں: بیٹی (بیٹی کی عدم موجودگی میں پوتی)، ماں وباپ (ماں باپ کی عدم موجودگی میں دادا ودادی)، شوہر ،بیوی،بھائی وبہن۔
عصبہ: وہ ورثاء جو میراث میں غیر معین حصے کے حقداربنتے ہیں، یعنی اصحاب الفروض کے حصوں کی ادائیگی کے بعد باقی ساریجائیداد کے مالک بن جاتے ہیں، مثلاً بیٹا۔ نبی اکرم انے ارشاد فرمایا: قرآن وسنت میں جن ورثاء کے حصے متعین کئے گئےہیں ان کو دینے کے بعد جو بچے گا وہ قریب ترین رشتہ دار کو دیا جائے گا۔ (بخاری ومسلم)
ذوی الارحام: وہ رشتے دار جو نمبر ۱ (صاحب الفرض) اور نمبر ۲ (عصبہ) میں سے کوئی وارث نہ ہونے پر میراث میں شریک ہوتےہیں جیسے چچا، بھتیجے اور چچازاد بھائی وغیرہ۔
میراث کس کو ملے گی؟
تین وجہوں میں سے کوئی ایک وجہ پائے جانے پر ہی وراثت مل سکتی ہے۔
خونی رشتے داری : یہ دو انسانوں کے درمیان ولادت کا رشتہ ہے، البتہ قریبی رشتہ دار کی موجودگی میں دور کے رشتہ داروں کو میراثنہیں ملے گی، مثلاً میت کے بھائی وبہن اسی صورت میں میراث میں شریک ہوسکتے ہیں جب کہ میت کی اولاد یا والدین میں سےکوئی ایک بھی حیات نہ ہو۔ یہ خونی رشتے اصول وفروع وحواشی پر مشتمل ہوتے ہیں۔ اصول (جیسے والدین ،دادا ، دادی وغیرہ) وفروع (جیسے اولاد ، پوتے،پوتی وغیرہ) وحواشی (جیسے بھائی، بہن، بھتیجے وبھانجے، چچا اور چچازاد بھائی وغیرہ)۔
وضاحت: سورۂ النساء آیت نمبر ۷ “مِمَّا تَرَکَ الْوَالِدَان وَالاقْرَبُون” سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ میراث کی تقسیم ضرورت کے معیار سے نہیں بلکہ قرابت کے معیار سے ہوتی ہے۔ اس لئے ضروری نہیں کہ رشتے داروں میں جو زیادہ حاجت مند ہو اس کو میراث کا زیادہ مستحق سمجھا جائے بلکہ جو میت کے ساتھ رشتے میں قریب تر ہوگا وہ بہ نسبت بعید کے زیادہ مستحق ہوگا۔ غرضیکہ میراث کی تقسیم الاقرب فالاقرب کے اصول پر ہوتی ہے خواہ مرد ہوں یا عورت، بالغ ہوں یا نابالغ۔
نکاح (میاں بیوی ایک دوسرے کی میراث میں شریک ہوتے ہیں)۔
غلامیت سے چھٹکارا (اس کا وجود اب دنیا میں نہیں رہا، اس لئے مضمون میں اس سے متعلق کوئی بحث نہیں کی گئی ہے)۔
شریعتِ اسلامیہ نے صنف نازک (عورتوں) اور صنف ضعیف (بچوں)کے حقوق کی مکمل حفاظت کی ہے اور زمانۂ جاہلیت کی رسم ورواج کے برخلاف انہیں بھی میراث میں شامل کیا ہے، جیساکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم (سورۂ النساء آیت ۷) میں ذکر فرمایا ہے۔
مردوں میں سے یہ رشتے دار وارث بن سکتے ہیں:
بیٹا پوتا باپ دادا بھائی بھتیجا چچا چچازاد بھائی شوہر
عورتوں میں سے یہ رشتے دار وارث بن سکتے ہیں:
بیٹی پوتی ماں دادی بہن بیوی
نوٹ: اصول وفروع میں تیسری پشت (مثلاً پڑدادایا پڑپوتے) یا جن رشتے داروں تک عموماً وراثت کی تقسیم کی نوبت نہیں آتی ہے، ان کے احکام یہاں بیان نہیں کئے گئے ہیں۔ تفصیلات کے لئے علماء سے رجوع فرمائیں۔
شوہر اور بیوی کی حصے: شوہر اور بیوی کی وراثت میں چار شکلیں بنتی ہیں۔ (سورۂ النساء ۱۲)
بیوی کے انتقال پر اولاد موجود نہ ہونے کی صورت میں شوہر کو 1/2ملے گا۔
بیوی کے انتقال پر اولاد موجود ہونے کی صورت میں شوہر کو 1/4ملے گا۔
شوہر کے انتقال پر اولاد موجود نہ ہونے کی صورت میں بیوی کو 1/4ملے گا۔
شوہر کے انتقال پر اولاد موجود ہونے کی صورت میں بیوی کو 1/8ملے گا۔
وضاحت: اگر ایک سے زیادہ بیویاں ہیں تو یہی متعین حصہ (1/4 یا 1/8) باجماع امت ان کے درمیان تقسیم کیا جائے گا۔

باپ کا حصہ:
اگر کسی شخص کی موت کے وقت اس کے والد حیات ہیں اور میت کا بیٹا یا پوتا بھی موجود ہے تو میت کے والد کو 1/6ملے گا۔
اگر کسی شخص کی موت کے وقت اس کے والد حیات ہیں البتہ میت کی کوئی بھی اولاد یا اولاد کی اولاد حیات نہیں ہے تو میت کے والد عصبہ میں شمار ہوں گے، یعنی معین حصوں کی ادائیگی کے بعد باقی ساری جائیداد میت کے والد کی ہوجائے گی۔
اگر کسی شخص کی موت کے وقت اس کے والد حیات ہیں اور میت کی ایک یا زیادہ بیٹی یا پوتی حیات ہے البتہ میت کا کوئی ایک بیٹا یا پوتاحیات نہیں ہے تو میت کے والد کو 1/6ملے گا۔ نیز میت کے والد عصبہ میں بھی ہوں گے، یعنی معین حصوں کی ادائیگی کے بعد باقی سب میت کے والد کا ہوگا۔
ماں کا حصہ:
اگر کسی شخص کی موت کے وقت اس کی ماں حیات ہیں البتہ میت کی کوئی اولاد نیز میت کا کوئی بھائی بہن حیات نہیں ہے تو میت کی ماں کو 1/3ملے گا۔
اگر کسی شخص کی موت کے وقت اس کی ماں حیات ہیں اور میت کی اولاد میں سے کوئی ایک یا میت کے دو یا دو سے زیادہ بھائی موجود ہیں تو میت کی ماں کو 1/6ملے گا۔
اگر کسی شخص کی موت کے وقت اس کی ماں حیات ہیں البتہ میت کی کوئی اولاد نیز میت کا کوئی بھائی بہن حیات نہیں ہے لیکن میت کی بیوی حیات ہے تو سب سے پہلے بیوی کو 1/4ملے گا، باقی میں سے میت کی ماں کو 1/3ملے گا۔ حضرت عمر فاروق ؓ نے اسی طرح فیصلہ فرمایا تھا۔
اولاد کے حصے:
اگر کسی شخص کی موت کے وقت اس کے ایک یا زیادہ بیٹے حیات ہیں لیکن کوئی بیٹی حیات نہیں ہے تو ذوی الفروض میں سے جو شخص (مثلاً میت کے والد یا والدہ یا شوہریابیوی) حیات ہیں ان کے حصے ادا کرنے کے بعد باقی ساری جائیداد بیٹوں میں برابر برابر تقسیم کی جائے گی۔
اگر کسی شخص کی موت کے وقت اس کے بیٹے اور بیٹیاں حیات ہیں تو ذوی الفروض میں سے جو شخص (مثلاً میت کے والد یا والدہ یا شوہریابیوی) حیات ہیں ان کے حصے ادا کرنے کے بعد باقی ساری جائیداد بیٹوں اور بیٹیوں میں قرآن کریم کے اصول (لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر) کی بنیاد پر تقسیم کی جائے گی۔
اگر کسی شخص کی موت کے وقت صرف اس کی بیٹیاں حیات ہیں بیٹے حیات نہیں تو ایک بیٹی کی صورت میں اسے 1/2ملے گا اور دو یا دو سے زیادہ بیٹیاں ہونے کی صورت میں انہیں 2/3ملے گا۔
وضاحت : اللہ تعالیٰ نے (سورۂ النساء ۱۱) میں میراث کا ایک اہم اصول بیان کیا ہے: اللہ تعالیٰ تمہیں تمہاری اولاد کے متعلق حکم کرتا ہے کہ ایک مرد کا حصہ دو عورتوں کے برابر ہے۔
شریعت اسلامیہ نے مرد پر ساری معاشی ذمہ داریاں عائد کی ہیں چنانچہ بیوی اور بچوں کے مکمل اخراجات عورت کے بجائے مرد کے ذمہ رکھے ہیں حتی کہ عورت کے ذمہ خود اس کا خرچہ بھی نہیں رکھا، شادی سے قبل والد اور شادی کے بعد شوہر کے ذمہ عورت کا خرچہ رکھا گیا۔ اس لئے مرد کا حصہ عورت سے دو گنا رکھا گیا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے لڑکیوں کو میراث دلانے کا اس قدر اہتمام کیا ہے کہ لڑکیوں کے حصہ کو اصل قرار دے کر اس کے اعتبار سے لڑکوں کا حصہ بتایاکہ لڑکوں کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر ہے۔
بھائی و بہن کے حصے:
میت کے بہن بھائی کو اسی صورت میں میراث ملتی ہے جبکہ میت کے والدین اور اولاد میں سے کوئی بھی حیات نہ ہو۔ عموماً ایساکم ہوتا ہے اس لئے بھائی بہن کے حصے کا تذکرہ یہاں نہیں کیا ہے۔ تفصیلات کے لئے علماء سے رجوع فرمائیں۔
خصوصی ہدایت: میراث کی تقسیم کے وقت تمام رشتے داروں کی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ اگر میت کا کوئی رشتہ دار تنگ دست ہے اور ضابطۂ شرعی سے میراث میں اس کا کوئی حصہ نہیں ہے پھر بھی اس کو کچھ نہ کچھ دے دیں جیسا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے (سورۂ النساء ۸ و ۹) میں اس کی ترغیب دی ہے۔ ۱۰ ویں آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو لوگ یتیموں کا مال ناحق کھاتے ہیں درحقیقت وہ اپنے پیٹ آگ سے بھرتے ہیں اور وہ جہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ میں جھونکے جائیں گے۔
تنبیہ: میراث وہ مال ہے جو انسان مرتے وقت چھوڑکر جاتا ہے اور اس میں سارے ورثاء اپنے اپنے حصے کے مطابق حق دار ہوتے ہیں۔ انتقال کے فوراً بعد مرنے والے کی ساری جائیداد ورثاء میں منتقل ہوجاتی ہے۔ لہذا اگر کسی شخص نے میراث قرآن وسنت کے مطابق تقسیم نہیں کی تو وہ ظلم کرنے والا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ ! ہمیں تقسیم میراث کی کوتاہیوں سے بچنے والا بنائے اور تمام وارثوں کو قرآن وسنت کے مطابق میراث تقسیم کرنے والا بنائے۔
نوٹ: انسان اپنی زندگی میں اپنے مال وسامان وجائیداد کا خود مالک ہے۔ اپنی عام صحت کی زندگی میں اپنی اولاد میں حتی الامکان برابری کرتے ہوئے جس طرح چاہے اپنی جائیداد تقسیم کرسکتا ہے البتہ موت کے بعد صرف اور صرف قرآن وسنت میں مذکورہ میراث کے طریقہ سے ہی ترکہ تقسیم کیا جائے گا، کیونکہ مرتے ہی ترکہ کے مالک شریعت اسلامیہ کے حصوں کے مطابق بدل جاتے ہیں۔
نوٹ: یہاں میراث کے اہم اہم مسائل اختصار کے ساتھ ذکر کئے گئے ہیں، تفصیلات کے لئے علماء کرام سے رجوع فرمائیں۔
محمد نجیب سنبھلی قاسمی

والدین کی فرمانبرداری
بسم الله الرحمن الرحيم
اَلْحَمْدُ لِله رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلام عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔
والدین کی فرمانبرداری
قرآن وحدیث میں والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی خصوصی تاکید کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے متعدد مقامات پر اپنی توحید وعبادت کا حکم دینے کے ساتھ والدین کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے کا حکم دیا ہے، جس سے والدین کی اطاعت ان کی خدمت اور ان کے ادب واحترام کی اہمیت واضح ہوجا تی ہے۔ احادیث میں بھی والدین کی فرمانبرداری کی خاص اہمیت وتاکید اور اسکی فضیلت بیان کی گئی ہے۔ اس موضوع سے متعلق بعض آیات اور احادیث کا ترجمہ لکھ رہا ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو والدین کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے والا بنائے۔ ان کی فرمانبرداری کرنے والا بنائے۔ ان کے حقوق کی ادائیگی کما حقہ ادا کرنے والا بنائے۔
آیات قرآنیہ:
اور تیرا پروردگار صاف صاف حکم دے چکا ہے کہ تم اس کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرنا۔ اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرنا۔ اگر تیری موجودگی میں ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کے آگے اف تک نہ کہنا، نہ انہیں ڈانٹ ڈپٹ کرنا بلکہ ان کے ساتھ ادب واحترام سے بات چیت کرنا۔ اور عاجزی ومحبت کے ساتھ ان کے سامنے تواضع کا بازو پست رکھنا۔ اور دعا کرتے رہنا کہ اے میرے پرودگار! ان پر ویسا ہی رحم کر جیسا کہ انہوں نے میرے بچپن میں میری پرورش کی ہے ۔ (سورہ بنی اسرائیل ۲۳ ، ۲۴)
اور تم سب اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کرو، اور ماں باپ کے ساتھ نیک برتاؤ کرو ۔ (سورہ النساء ۳۶)
ہم نے ہر انسان کو اپنے ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کی نصیحت کی ہے ۔ (سورہ العنکبوت ۸)
احادیث شریفہ:
حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ اللہ کو کونسا عمل زیادہ محبوب ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: نماز کو اس کے وقت پر ادا کرنا۔ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں میں نے کہا کہ اس کے بعد کونسا عمل اللہ کو زیادہ پسند ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: والدین کی فرمانبرداری۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں میں نے کہا کہ اس کے بعد کونسا عمل اللہ کو زیادہ محبوب ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کے راستہ میں جہاد کرنا۔ (بخاری، مسلم)
حضرت عبد اللہ بن عمرو ؓ فرماتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ میں اللہ تعالیٰ سے اجر کی امید کے ساتھ آپ کے ہاتھ پر ہجرت اور جہاد کرنے کے لئے بیعت کرنا چاہتا ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کیا تمہارے ماں باپ میں سے کوئی زندہ ہے؟ اس شخص نے کہا : (الحمد للہ) دونوں حیات ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص سے پوچھا : کیا تو واقعی اللہ تعالیٰ سے اجر عظیم کا طالب ہے؟ اس نے کہا ہاں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ا نے ارشاد فرمایا : اپنے والدین کے پاس جا اور ان کی خدمت کر۔ (مسلم)
ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر دریافت کیا: میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کو ن ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : تمہاری ماں ۔ اس شخص نے پوچھا پھر کون؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تمہاری ماں۔ اس نے پوچھا پھر کون؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تمہاری ماں۔ اس نے پوچھا پھر کون؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تمہارا باپ۔ (بخاری)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: باپ جنت کے دروازوں میں سے بہترین دروازہ ہے۔ چنانچہ تمہیں اختیار ہے خواہ (اس کی نافرمانی کرکے اور دل دکھاکے) اس دروازہ کو ضائع کردو یا (اسکی فرمانبرداری اور اس کو راضی رکھ کر) اس دروازہ کی حفاظت کرو۔ (ترمذی)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کی رضامندی‘ والد کی رضامندی میں ہے اور اللہ تعالیٰ کی ناراضگی والد کی ناراضگی میں ہے۔ (ترمذی)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص کو یہ پسند ہو کہ اس کی عمردراز کی جائے اور اس کے رزق کو بڑھادیا جائے اس کو چاہئے کہ اپنے والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرے، اور رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کرے۔ (مسند احمد)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے اپنے والدین کے ساتھ اچھا سلوک کیا اس کے لئے خوشخبری ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی عمر میں اضافہ فرمائیں گے۔ (مستدرک حاکم)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ شخص ذلیل وخوار ہو ، ذلیل وخوار ہو ،ذلیل وخوار ہو۔ عرض کیا گیا: یا رسول اللہ! کون ذلیل وخوار ہو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : وہ شخص جو اپنے ماں باپ میں سے کسی ایک یا دونوں کو بڑھاپے کی حالت میں پائے پھر (ان کی خدمت کے ذریعہ) جنت میں داخل نہ ہو ۔ (مسلم)
قرآن وحدیث کی روشنی میں امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ والدین کی نافرمانی بہت بڑا گناہ ہے۔ والدین کی ناراضگی اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا سبب بنتی ہے۔ لہذا ہمیں والدین کی اطاعت اور فرمانبرداری میں کوئی کوتاہی نہیں کرنی چاہئے۔ خاص کر جب والدین یا دونوں میں سے کوئی بڑھاپے کو پہنچ جائے تو انہیں ڈانٹ ڈپٹ کرنا حتی کہ ان کو اُف تک نہیں کہنا چاہئے۔ ادب واحترام اورمحبت وخلوص کے ساتھ ان کی خدمت کرنی چاہئے۔ ممکن ہے کہ بڑھاپے کی وجہ سے ان کی کچھ باتیں یا اعمال آپ کو پسند نہ آئیں، آپ اس پر صبر کریں ، اللہ تبارک وتعالیٰ اس صبر کرنے پر بھی اجر عظیم عطا فرمائے گا، ان شاء اللہ۔
محمد نجیب قاسمی، ریاض

والدین کے حقوق

بسم الله الرحمن الرحيم

اَلْحَمْدُ لِله رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلام عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔

والدین کے حقوق

قرآن وحدیث کی روشنی میں علماء نے والدین کے حسب ذیل بعض حقوق مرتب کئے ہیں ، اللہ تعالیٰ ہم سب کو والدین کے حقوق ادا کرنے والا بنائے :
دوران حیات حقوق
ان کا ادب واحترام کرنا۔
ان سے محبت کرنا۔
ان کی فرمانبرداری کرنا۔
ان کی خدمت کرنا۔
ان کو حتی الامکان آرام پہنچانا۔
ان کی ضروریات پوری کرنا۔
وقتاً فوقتاً ان سے ملاقات کرنا۔
بعد از وفات حقوق
ان کے لئے اللہ تعالیٰ سے معافی اور رحمت کی دعائیں کرنا۔
ان کی جانب سے ایسے اعمال کرناجن کا ثواب ان تک پہنچے۔
ان کے رشتے دار ، دوست ومتعلقین کی عزت کرنا۔
ان کے رشتے دار ، دوست ومتعلقین کی حتی الامکان مدد کرنا۔
ان کی امانت وقرض ادا کرنا۔
ان کی جائز وصیت پر عمل کرنا۔
کبھی کبھی ان کی قبر پر جانا ۔
اللہ تعالیٰ ہماری اولاد کو بھی ان حقوق کی ادائیگی کرنے والا بنائے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی رضا والے کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
والدین کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اولاد کے درمیان مساوات قائم رکھیں اور ان کے حقوق کی ادائیگی کریں۔ عموماً غیر شادی شدہ اولاد سے محبت کچھ زیادہ ہوجاتی ہے، جس پر پکڑ نہیں ہے، لیکن بڑی اولاد کے مقابلے میں چھوٹی اولاد کو معاملات میں ترجیح دینا مناسب نہیں ہے، جس کی وجہ سے گھریلو مسائل پیدا ہوتے ہیں، لہذا والدین کو حتی الامکان اولاد کے درمیان برابری کا معاملہ کرنا چاہئے۔ اگر اولاد گھر وغیرہ کے اخراجات کے لئے باپ کو رقم دیتی ہے تو اس کا صحیح استعمال ہونا چاہئے۔
محمد نجیب قاسمی، ریاض (www.najeebqasmi.com)

تین طلاق کا مسئلہ
بسم الله الرحمن الرحيم
اَلْحَمْدُ لِله رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلام عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔
تین طلاق کا مسئلہ
حال ہی میں انٹرنیٹ کے ایک گروپ پر طلاق کے متعلق ایک فتوی پر مختلف حضرات کے تاثرات پڑھنے کو ملے۔ پڑھنے کے بعد محسوس ہوا کہ بعض حضرات طلاق کے معنی تک نہیں جانتے لیکن طلاق کے مسائل پر اپنی رائے لکھنے کو دینی فریضہ سمجھتے ہیں۔
میرے عزیز دوستوں! آپ کسی مسئلہ پر کسی عالم / مفتی کی رائے سے اختلاف کرسکتے ہیں مگر قرآن وحدیث کی روشنی میں مسئلہ سے واقفیت کے بغیر کسی فتوی / مسئلہ پر اپنی رائے ظاہر کرنا اور اسکو بلاوجہ موضوع بحث بنانا جائز نہیں ہے۔ اگر کوئی مسئلہ آپکی سمجھ میں نہیں آرہا ہے توآپ معتبر علماء سے رجوع فرمائیں، ممکن ہے کہ قرآن وحدیث کی روشنی میں ان کی رائے بھی وہی ہو۔ اگر مسئلہ علماء کے درمیان مختلف فیہ ہے تو قرآن وحدیث کی روشنی میں اللہ سے ڈرتے ہوئے عالم /مفتی جو بات صحیح سمجھے گا اس کو تحریر فرمائے گا، خواہ آپ اس سے متفق ہوں یا نہیں۔
موضوع بحث مسئلہ (طلاق) پر گفتگو کرنے سے قبل نکاح کی حقیقت کو سمجھیں کہ نکاح کی حیثیت اگر ایک طرف باہمی معاملہ ومعاہدہ کی ہے تو دوسری طرف یہ سنت وعبادت کی حیثیت بھی رکھتا ہے۔ شریعت کی نگاہ میں یہ ایک بہت ہی سنجیدہ اور قابل احترام معاملہ ہے جو اس لئے کیا جاتا ہے کہ باقی رہے یہاں تک کہ موت ہی میاں بیوی کو ایک دوسرے سے جدا کرے۔ یہ ایک ایسا قابل قدر رشتہ ہے جو تکمیل انسانیت کا ذریعہ اور رضائے الہی واتباع سنت کا وسیلہ ہے۔ اور یہ ایک ایسا معاملہ ہے جس کے ٹوٹنے سے نہ صرف میاں بیوی متاثر ہوتے ہیں بلکہ اس سے پورے گھریلو نظام کی چولیں ہل جاتی ہیں اور بسا اوقات خاندانوں میں جھگڑے تک کی نوبت آجاتی ہے۔ اسی لئے رسول اللہ ا نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کی حلال کردہ چیزوں میں طلاق سے زیادہ گھناؤنی اور کوئی چیز نہیں ہے ۔ (ابوداؤد) اسی لئے علماء کرام نے فرمایا ہے کہ طلاق کا لفظ کبھی مذاق میں بھی زبان پر نہ لایا جائے۔
اسی لئے جو اسباب اس بابرکت اور مقدس رشتہ کو توڑنے کا ذریعہ بن سکتے ہیں انہیں راہ سے ہٹانے کا شریعت نے مکمل انتظام کیا ہے۔ چنانچہ میاں بیوی میں اختلاف کی صورت میں سب سے پہلے ایک دوسرے کو سمجھانے کے کوشش کی جائے ، پھر زجر وتنبیہ (ڈانٹ ڈپٹ) کی جائے۔ اور اس سے بھی کام نہ چلے اور بات بڑھ جائے تو دونوں خاندان کے چند افراد مل کر معاملہ طے کرنے کی کوشش کریں۔ لیکن بسا اوقات حالات اس حد تک بگڑ جاتے ہیں کہ اصلاح حال کی یہ ساری کوششیں بے سود ہوجاتی ہیں اور رشتہ ازدواج سے مطلوب فوائد حاصل ہونے کے بجائے میاں بیوی کا باہم مل کر رہنا ایک عذاب بن جاتا ہے۔ ایسی ناگزیر حالت میں کبھی کبھی ازدواجی زندگی کا ختم کردینا ہی نہ صرف دونوں کے لئے بلکہ دونوں خاندانوں کے لئے باعث راحت ہوتا ہے، اس لئے شریعت اسلامیہ نے طلاق اور فسخ نکاح (خُلع) کا قانون بنایا، جس میں طلاق کا اختیار صرف مرد کو دیا گیا کیونکہ اسمیں عادتاً وطبعاً عورت کے مقابلہ فکروتدبر اور برداشت وتحمل کی قوت زیادہ ہوتی ہے، جیسا کہ قرآن کی آیت (وَلِلرِّجَالِ عَلَےْہِنَّ دَرَجَۃ) (سورۂ البقرۃ ۲۳۸) (الرِّجَالُ قَوَّامُوْنَ عَلَی النِّسَاءِ) (سورۂ النساء ۳۴) میں ذکر کیا گیا ہے۔ لیکن عورت کو بھی اس حق سے یکسر محروم نہیں کیا گیا بلکہ اسے بھی یہ حق دیا گیا ہے کہ وہ شرعی عدالت میں اپنا موقف پیش کرکے قانون کے مطابق طلاق حاصل کرسکتی ہے جس کو خُلع کہا جاتا ہے۔
مرد کو طلاق کا اختیار دے کر اسے بالکل آزاد نہیں چھوڑ دیا گیا بلکہ اسے تاکیدی ہدایت دی گئی کہ کسی وقتی وہنگامی ناگواری میں اس حق کا استعمال نہ کرے۔ نیز حیض کے زمانہ میں یا ایسے طُہر (پاکی) میں جس میں ہم بستری ہوچکی ہے طلاق نہ دے کیونکہ اس صورت میں عورت کی عدت خواہ مخواہ لمبی ہوسکتی ہے۔ بلکہ اس حق کے استعمال کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ جس پاکی کے ایام میں ہم بستری نہیں کی گئی ہے ایک طلاق دے کر رک جائے، عدت پوری ہوجانے پر رشتہ نکاح خود ہی ختم ہوجائے گا، دوسری یا تیسری طلاق کی ضرورت نہیں پڑے گی اور اگر دوسری یا تیسری طلاق دینی ہی ہے تو الگ الگ طہر میں دی جائے۔۔۔۔ پھر معاملۂ نکاح کو توڑنے میں یہ لچک رکھی گئی ہے کہ دوران عدت اگر مرد اپنی طلاق سے رجوع کرلے تو نکاح سابق بحال رہے گا۔ ۔۔۔ نیز عورت کو ضرر سے بچانے کی غرض سے حق رجعت کو بھی دو طلاقوں تک محدود کردیا گیا تاکہ کوئی شوہر محض عورت کو ستانے کے لئے ایسا نہ کرے کہ ہمیشہ طلاق دیتا رہے اور رجعت کرکے قید نکاح میں اسے محبوس رکھے جیسا کہ سورہ البقرہ کی آیات نازل ہونے سے پہلے بعض لوگ کیا کرتے تھے، بلکہ شوہر کو پابند کردیا گیا کہ اختیار رجعت صرف دو طلاقوں تک ہی ہے۔ تین طلاقوں کی صورت میں یہ اختیار ختم ہوجائے گابلکہ میاں بیوی اگر باہمی رضا مندی سے بھی دوبارہ نکاح کرنا چاہیں توایک خاص صورت کے علاوہ یہ نکاح درست اور حلال نہیں ہوگا۔ فَاِنْ طَلَّقَہَا فَلَا تَحِلُّ لَہ مِنْ بَعْدُ حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجاً غَےْرَہ (سورۂ البقرہ ۲۳۰) میں یہی خاص صورت بیان کی گئی ہے، جس کا حاصل یہ ہے کہ اگر کسی شخص نے تیسری طلاق دے دی تو دونوں میاں بیوی رشتہ نکاح سے منسلک ہونا بھی چاہیں تو وہ ایسا نہیں کرسکتے یہاں تک کہ یہ عورت طلاق کی عدت گزارنے کے بعد دوسرے مرد سے نکاح کرے، دوسرے شوہر کے ساتھ رہے ، دونوں ایک دوسرے سے لطف اندوز ہوں۔ پھر اگر اتفاق سے یہ دوسرا شوہر بھی طلاق دیدے یا وفات پاجائے تو اس کی عدت پوری کرنے کے بعد پہلے شوہر سے نکاح ہوسکتا ہے۔ یہی وہ جائز حلالہ ہے جس کا ذکر کتابوں میں ملتا ہے۔
اب موضوع بحث مسئلہ کی طرف رجوع کرتا ہوں کہ اگر کسی شخص نے حماقت اور جہالت کا ثبوت دیتے ہوئے ابغض الحلال طلاق کے بہتر طریقہ کو چھوڑکر غیر مشروع طور پر طلاق دیدی مثلاً تین طلاقیں ناپاکی کے ایام میں دے دیں، یا ایک ہی طہر میں الگ الگ وقت میں تین طلاقیں دے دیں، یا الگ الگ تین طلاقیں ایسے تین پاکی کے ایام میں دیں جسمیں کوئی صحبت کی ہو، یا ایک ہی وقت میں تین طلاقین دے دیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو اس کا کیا اثر ہوگا ؟؟؟
ابغض الحلال طلاق کے بہتر طریقہ کو چھوڑکر مذکورہ بالا تمام غیر مشروع صورتوں میں تین ہی طلاق پڑنے پر تمام علماء کرام متفق ہیں، سوائے ایک صورت کے، کہ اگر کوئی شخص ایک مجلس میں تین طلاق دے دے تو کیا ایک واقع ہوگی یا تین۔ جمہور علماء کی رائے کے مطابق تین ہی طلاق واقع ہوں گی۔ فقہاء صحابہ کرام حضرت عمرفاروقؓ ، حضرت عثمانؓ ، حضرت علیؓ ، حضرت عبد اللہ بن عباسؓ ، حضرت عبد اللہ بن عمرؓ ، حضرت عبداللہ بن عمروؓ، حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ وغیرہ وغیرہ تین ہی طلاق پڑنے کے قائل تھے۔ نیز چاروں امام (امام ابوحنیفہؒ ، امام مالکؒ ، امام شافعیؒ اور امام احمد بن حنبلؒ ) کی متفق علیہ رائے بھی یہی ہے کہ ایک مجلس میں تین طلاق دینے پر تین ہی واقع ہوں گی، جیسا کہ ۱۳۹۳ھ میں سعودی عرب کے بڑے بڑے علماء کرام کی اکثریت نے بحث ومباحثہ کے بعد قرآن وحدیث کی روشنی میں یہی فیصلہ کیا کہ ایک وقت میں دی گئی تین طلاقین تین ہی شمار ہوں گی۔ یہ پور ی بحث اور مفصل تجویز مجلۃ البحوث الاسلامیہ ۱۳۹۷ھ میں ۱۵۰ صفحات میں شائع ہوئی ہے جو اس موضوع پر ایک اہم علمی دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس فیصلہ میں سعودی عرب کے جو اکابر علماء شریک رہے ان کے اسماء گرامی یہ ہیں۔ (۱) شیخ عبد العزیز بن باز (۲) شیخ عبد اللہ بن حمید (۳) شیخ محمد الامین الشنقیطی (۴) شیخ سلیمان بن عبید (۵) شیخ عبد اللہ خیاط (۶) شیخ محمد الحرکان (۷) شیخ ابراہیم بن محمد آل الشیخ (۸) شیخ عبد الرزاق عفیفی (۹) شیخ عبد العزیز بن صالح (۱۰) شیخ صالح بن غصون (۱۱) شیخ محمد بن جبیر (۱۲) شیخ عبد المجید حسن (۱۳) شیخ راشد بن خنین (۱۴) شیخ صالح بن لحیدان (۱۵) شیخ محضار عقیل (۱۶) شیخ عبد اللہ بن غدیان (۱۷) شیخ عبد اللہ بن منیع۔ سعودی عرب کے ہیءۃ کبار العلماء کا یہ فیصلہ اختصار کے ساتھ اس Link پر پڑھا جاسکتا ہے۔ (http://islamtoday.net/bohooth/artshow-32-6230.htm) نیز مضمون کے آخر میں بھی یہ فیصلہ مذکور ہے۔ سعودی عرب کے اکابر علماء نے قرآن وحدیث کی روشنی میں صحابہ کرام، تابعین اور تبع تابعین کے اقوال کو سامنے رکھ کریہی فیصلہ فرمایا کہ ایک مجلس میں تین طلاقیں دینے پرتین ہی واقع ہوں گی۔ علماء کرام کی دو سری جماعت نے جن دو احادیث کو بنیاد بناکر ایک مجلس میں تین طلاق دینے پر ایک واقع ہونے کا فیصلہ فرمایا ہے ، سعودی عرب کے اکابر علماء نے ان احادیث کو غیر معتبر قرار دیا ہے۔ نیز ہند ،پاکستان، بنگلادیش اور افغانستان کے تقریباً تمام علماء کرام کی بھی یہی رائے ہے۔
لہذا معلوم ہوا کہ قرآن وحدیث کی روشنی میں ۱۴۰۰ سال سے امت مسلمہ (90-95%) اسی بات پر متفق ہے کہ ایک مجلس کی تین طلاقیں تین ہی شمار کی جائیں گی، لہذا اگر کسی شخص نے ایک مجلس میں تین طلاقیں دیدیں تو اختیار رجعت ختم ہوجائے گانیز میاں بیوی اگر باہمی رضا مندی سے بھی دوبارہ نکاح کرنا چاہیں تویہ نکاح درست اور حلال نہیں ہوگا یہاں تک کہ یہ عورت طلاق کی عدت گزارنے کے بعد دوسرے مرد سے نکاح کرے، دوسرے شوہر کے ساتھ رہے ، دونوں ایک دوسرے سے لطف اندوز ہوں۔ پھر اگر اتفاق سے یہ دوسرا شوہر بھی طلاق دیدے یا وفات پاجائے تو اس کی عدت پوری کرنے کے بعد پہلے شوہر سے نکاح ہوسکتا ہے۔ یہی وہ جائز حلالہ ہے جس کا ذکر کتابوں میں ملتا ہے، جس کا ذکر قرآن کریم میں آیا ہے: (سورۂالبقرہ ۲۳۰)
نوٹ: خلیفہ ثانی حضرت عمر فاروق ؓ کے زمانہ خلافت میں ایک مجلس میں تین طلاقیں دینے پر بے شمار مواقع پر باقاعدہ طور پر تین ہی طلاق کا فیصلہ صادر کیا جاتا رہا ،کسی ایک صحابی کا کوئی اختلاف حتی کہ کسی ضعیف روایت سے بھی نہیں ملتا۔ اس بات کو پوری امت مسلمہ مانتی ہے۔ لہذا قرآن وحدیث کی روشنی میں جمہور فقہاء کرام خاص کر (امام ابوحنیفہ ، امام مالکؒ ، امام شافعیؒ اور امام احمد بن حنبلؒ ) اور ان کے تمام شاگردوں کی متفق علیہ رائے بھی یہی ہے کہ ایک مجلس میں تین طلاق دینے پر تین ہی واقع ہوں گی۔
آخر میں تمام حضرات سے خصوصی درخواست کرتا ہوں کہ مسائل سے واقفیت کے بغیر بلاوجہ Email بھیج کر لوگوں میں Confusions پیدا نہ کریں۔ علماء کرام کے متعلق کچھ لکھنے سے قبل قرآن کریم میں علماء کرام کے متعلق اللہ جل شانہ کے فرمان کا بخوبی مطالعہ فرمائیں: اِنَّمَا ےَخْشَی اللّٰہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمَاؤُ (سورۂ فاطر ۲۸) اللہ تعالیٰ کے بندوں میں علماء کرام ہی سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہیں۔ دوسری درخواست یہ ہے کہ اس موضوع پر اگر کوئی سوال ہے تو گروپ پر بھیجنے کے بجائے کسی عالم سے رجوع فرمائیں۔
محمد نجیب قاسمی (najeebqasmi@yahoo.com)
سعودی عرب کی مجلس کبار علماء کا فیصلہ
تین طلاق دینے سے تین ہی طلاق پڑتی ہے
ابتدائیہ: وہ فروعی اور اختلافی مسائل ، جن پر اصرار اور تشدد کو ہمارے ملک کے غیر مقلدین نے اپنا شعار بنارکھا ہے ، ان میں سے ایک مسئلہ تین طلاق کے ایک ہونے کا ہے ۔ انہیں اصرار ہے کہ ایک مجلس میں دی گئی تین طلاق ایک ہی ہو تی ہے ، یہ مسئلہ آج کل فرقہ پرست اور مسلم دشمن عناصر کے ہاتھوں میں کچھ اس طرح پہونچ گیا ہے ، کہ انہوں نے اس کو مسلم پرسنل لا ء میں تحریف و ترمیم کے لئے نقطۂ آغاز سمجھ لیا اور عنوان یہ بنایا گیا کہ اس کے ذریعہ سے مسلم معاشرہ کی اصلاح ہوسکے گی، پھر اسی بنیاد پر یہ مشورہ دیا جانے لگا کہ جب قدیم فتاویٰ سے انحراف کرکے طلاق کے مسئلہ میں نیا راستہ اختیار کیا جاسکتا ہے ، تو کیوں نہ دوسرے مسائل پر بھی غور کیا جائے، حد تو یہ ہے کہ اس خالص علمی وفقہی مسئلہ کو اخبارات نے بازیچۂ اطفال بنادیا ہے ، حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک فتنہ ہے ۔
سعودی عرب کی ہیئت کبار علماء نے اپنے ایک اجلاس میں موضوع کے تمام گوشوں پر بحث ومناقشہ کر کے فیصلہ کیا ہے کہ ایک لفظ سے دی گئی تین طلاق، تین ہی ہوتی ہے ، یہ بحث ومناقشہ اور قرارداد ریاض کے مجلہ البحوث الاسلامےۃ جلد اول کے تیسرے شمارہ میں شائع ہوئی ہے ، اس بحث اور قرار داد کا ترجمہ اب سے چند سال پہلے محدث جلیل ابوالمآثر حضرت مولانا حبیب الرحمن اعظمی رحمۃ اللہ علیہ کے ایما پر المجمع العلمی مؤ کی جانب سے شایع ہوا تھا، چوں کہ غیر مقلدین سعودی عرب کو اپنا ہم مسلک سمجھتے ہیں اور عوامی سطح پر ان کو بطور حجت پیش کر تے ہیں ، نیز اسلام دشمن عناصر بھی بعض مسائل میں مسلم ممالک کا حوالہ پیش کر تے ہیں ، اس لئے موجودہ حالات کی نزاکت کے پیش نظر اسے دوبارہ شائع کیا جاتا ہے ۔ خدا کرے یہ فتنہ ٹھنڈا ہو۔
مدیر المجمع العلمی
مخالفین کا نقطۂ نظر : مخالفین کی رائے میں بیک لفظ تین طلاق دینے سے ایک واقع ہوتی ہے ، صحیح روایت میں ابن عباس رضی اللہ عنہ کا یہی قول مروی ہے اور صحابۂ کرام میں حضرت زبیرؓ، ابن عوفؓ، علیؓبن ابی طالب، عبداللہ بن مسعودؓ اور تابعین میں عکرمہ وطاؤس وغیرہ نے اسی پر فتویٰ دیا ہے ۔ اور ان کے بعد محمد بن اسحٰق ؒ ، فلاسؒ ، حارث عکلیؒ ، ابن تیمیہؒ ، ابن قیمؒ وغیرہ نے بھی اس کے موافق فتویٰ دیا ہے ۔ علامہ ابن القیم ؒ نے اغاثۃ اللہفان میں نہایت صفائی کے ساتھ یہ لکھا ہے کہ حضرت ابن عباسؓ کے سوا اور کسی صحابی سے اس قول کی نقل صحیح ہم کو معلوم نہیں ہوئی ۔(اغاثہ /۱۷۹/بحوالہ اعلام مرفوعہ / ۳۰) ان کے دلائل مندرجہ ذیل ہیں :
الطلاق مرتان فامساک بمعروف او تسریح باحسان (البقرۃ: ۲۲۹) طلاق دومرتبہ ہے پھر خواہ رکھ لینا قاعدہ کے موافق خواہ چھوڑدینا خوش عنوانی کے ساتھ۔ آیت کی توضیح یہ ہے کہ مشروع طلاق جس میں شوہر کا اختیار باقی رہتاہے ، چاہے تو بیوی سے رجعت کر ے یا بلا رجعت اسے چھوڑدے ، یہاں تک کہ عدت پوری ہوجائے اور بیوی شوہر سے جدا ہوجائے وہ دوبار ہے ۔ ’’مرتان‘‘کا معنی ’’مرۃً بعد مرۃٍ‘‘ ہے ، خواہ ہر مرتبہ ایک طلاق دے یا بیک لفظ تین طلاق دے ، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے ’’دو مرتبہ‘‘ کہا ہے “دو طلاق” نہیں کہا ہے۔ اس کے بعد اگلی آیت میں فرمایا :فإن طلقہا فلا تحل لہ من بعد حتی تنکح زوجاً غیرہ (البقرۃ:۲۳۰) ’’پھر اگر طلاق دیدے عورت کو تو پھر وہ اس کے لئے حلال نہ رہے گی، اس کے بعد یہاں تک کہ وہ اس کے سوا ایک اور خاوند کے ساتھ نکاح کر لے ‘‘۔
اس آیت سے یہ معلوم ہوا کہ تیسری مرتبہ بیوی کوطلاق دینے سے وہ حرام ہوجاتی ہے ،خواہ تیسری مرتبہ ایک طلاق دی ہو یا بیک لفظ تین طلاق دی ہو ۔ اس تقریر سے معلوم ہوا کہ متفرق طور پر تین مرتبہ طلاق دینے کی مشروعیت ہوئی ، لہذا ایک مرتبہ میں تین طلاق دینا ایک کہلائے گا اور وہ ایک سمجھا جائے گا ۔
مسلم ؒ ؒ نے اپنی صحیح میں بطریق طاؤس ابن عباسؓ سے روایت کیا ہے : کان الطلاق الثلٰث علیٰ عہد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وابی بکرؓ وسنتین من خلافۃ عمرؓ طلاق الثلاث واحدۃ فقال عمررضی اللہ عنہ ان الناس قد استعجلوا فی امر کانت لہم فیہ اناۃ فلو امضیناہ علیہم فامضاہ علیہم .’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد اور ابوبکرؓ کی خلافت اور عہد فاروقی کے ابتدائی دوسال میں تین طلاق ایک ہوتی تھی ، پھر حضرت عمرؓ نے فرمایا : لوگوں نے ایک ایسے معاملہ میں جس میں مہلت تھی عجلت سے کام لینا شروع کر دیا ہے ، اگر ہم اسے یعنی تین طلاق کو نافذ کر دیتے تو اچھا ہو تا پس اسے نافذ کر دیا ‘‘۔ مسلم میں ابن عباسؓ کی ایک دوسری روایت میں ہے کہ: ’’ ابو الصہباء نے حضرت ابن عباسؓ سے پوچھا کیا آپ کو معلوم نہیں کہ عہد نبوی اور عہد صدیقی اور عہد فاروقی کے ابتدا میں تین طلاق ایک تھی ۔ حضرت ابن عباسؓ نے فر مایا کہ ہاں ، لیکن جب لوگوں نے بکثرت طلاق دینا شروع کیا تو حضرت عمرؓ نے تینوں کو نافذ کر دیا ‘‘۔
یہ حدیث بیک لفظ تین طلاق کے ایک ہونے پر وضاحت کے ساتھ دلالت کر تی ہے اور یہ حدیث منسوخ نہیں ہے ، کیوں کہ عہد صدیقی اور عہد فاروقی کے ابتدا ئی دوسال میں اس حدیث پر برابر عمل جاری رہا اور حضرت عمرؓ نے تین طلاق نافذ کر نے کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ لوگوں نے اس میں عجلت سے کام لینا شروع کر دیاہے ، انھوں نے نسخ کا دعوی نہیں کیا ، نیز حضرت عمرؓ نے تین طلاق نافذ کرنے میں صحابۂ کرام سے مشورہ لیا اور کسی ایسی حدیث کے چھوڑنے میں جس کا نسخ حضرت عمرؓ کو معلوم ہو ، صحابۂ کرام سے مشورہ نہیں کرتے۔
مخالفین کہتے ہیں کہ حدیث ابن عباسؓ کے جو جوابات دئے گئے ہیں ، وہ یا تو پر تکلف تاویل ہے یا بلا دلیل لفظ کو خلاف ظاہر پرحمل کرنا ہے یا شذوذ واضطراب اور طاؤس کے ضعیف ہونے کا طعن ہے لیکن مسلم نے جب اس حدیث کو اپنی صحیح میں روایت کیا ہے ، تو یہ طعن ناقابل تسلیم ہے ۔ مسلم ؒ نے یہ شرط رکھی ہے کہ وہ اپنی کتاب میں صرف صحیح حدیث ہی روایت کریں گے اور پھراس حدیث کو مطعون کرنے والے اسی حدیث کے آخری حصہ’’فقال عمرؓ إن الناس قد استعجلوا فی امر کانت لہم فیہ اناۃ الخ‘‘ کو اپنے قول کی حجت بناتے ہیں اور یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ حدیث کا آخری حصہ قابل قبولِ حجت ہو اور اس کا ابتدائی حصہ اضطراب اور راوی کے ضعف کی وجہ سے ناقابل حجت ہو ۔ اور اس سے بھی زیادہ بعید بات یہ ہے کہ عہد نبوی میں تین طلاق کے ایک ہونے پر عمل جاری رہا ہو، لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی اطلاع نہ رہی ہو، جب کہ قرآن نازل ہورہا تھا ،ابھی وحی کا سلسلہ برابر جاری تھا اور یہ بھی نہیں ہوسکتا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے حضرت عمرؓ کے زمانے تک پوری امت ایک خطا پر عمل کرتی رہی ہو۔ انھیں پھس پھسی باتوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ حضرت ابن عباسؓ کے فتویٰ کو ان کی حدیث کا معارض ٹھہرایا جائے ، علماء حدیث اور جمہور فقہاء کے نزدیک بشرطِ صحت راوی کی روایت ہی کا اعتبار ہوتا ہے ۔اس کے خلاف اس کی رائے یا فتویٰ کا اعتبار نہیں ہوتا ۔یہ قاعدہ ان لوگوں کا بھی ہے جو ایک لفظ کی تین طلاق سے تین نافذ کر تے ہیں ۔لوگوں نے عہد فاروقی میں ایک لفظ کی تین طلاق سے تین نافذ ہونے پر اجماع کا دعویٰ کیا ہے اور حدیث ابن عباسؓ کو اس اجماع کا معارض ٹھہرایا ہے ، حالانکہ انہیں معلوم ہے کہ اس مسئلہ میں سلف سے خلف تک اور آج تک اختلاف چلا آرہا ہے ۔
حدیث زوجۂ رفاعہ قرظی سے بھی استدلال درست نہیں ، اس لئے کہ صحیح مسلم میں ثابت ہے کہ انھوں نے اپنی بیوی کو تین طلاقوں میں سے آخری طلاق دی تھی اور رفاعہ نضری کا اپنی بیوی کے ساتھ اس جیسا واقعہ ثابت نہیں کہ واقعات متعدد مانے جائیں اور ابن حجر نے تعدد واقعہ کا فیصلہ نہیں کیا ، انھوں نے یہ کہا ہے کہ اگر رفاعہ نضری کی حدیث محفوظ ہوگی ، تو دونوں حدیثوں سے واضح ہوتاہے کہ واقعہ متعدد ہے ، ورنہ ابن حجرؒ نے اصابہ میں کہا ہے : ’’ …….. لیکن مشکل یہ ہے کہ دونوں واقعہ میں دوسرے شوہر کا نام عبد الرحمن بن الزبیر متحد ہے ‘‘ ۔
امام احمد نے اپنی مسند میں بطریق عکرمہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے : قال طلق رکانۃ بن عبد یزید اخو بنی المطلب امرأتہ ثلاثا فی مجلس واحد فحزن وعلیہا حزناًشدیداً، قال فسألہ رسول اللہ علیہ وسلم کیف طلقتہا؟قال طلقتہا ثلاثا قال فقال فی مجلسٍ واحدٍ، قال: نعم ، فقال فانما تلک واحدۃ فارجعہا ان شئت ، قال: فراجعہا. ’’رکانہ بن عبد یزیدنے اپنی عورت کو ایک مجلس میں تین طلاق دی پھر اس پر بہت غمگین ہوئے ۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے دریافت فرمایا ، تم نے کیسی طلاق دی ہے ؟ کہا کہ تین طلاق دی ہے ، پوچھا کہ ایک مجلس میں ؟ انھوں نے کہا کہ ہاں! تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ صرف ایک طلاق ہو ئی اگر چاہو تو رجعت کر سکتے ہو ، ابن عباسؓ نے فرمایا کہ انھوں نے اپنی بیوی سے رجعت بھی کرلیاتھا‘‘۔
ابن قیم ؒ نے اعلام الموقعین میں کہا ہے کہ امام احمدؒ اس حدیث کے سند کی تصحیح وتحسین کر تے تھے ۔ (حافظ ابن حجرؒ نے تلخیص میں اس حدیث کو ذکر کر کے فرمایا ہے ’ ’ وھو معلول ایضاً‘‘ یعنی مسند احمد والی حدیث بھی بہت مجروح وضعیف ہے (ص :۳۱۹) اور حافظ ذہبی نے بھی اس کو ابوداؤد ابن الحصین کے مناکیر میں شمار کیا ہے ، پس اس حالت میں اگر اس کی اسناد حسن یا صحیح بھی ہو ، تو استدلال نہیں ہوسکتا ، اس لئے کہ اسناد کی صحت استدلال کی صحت کو مستلزم نہیں ۔(اعلام مرفوعہ : ۲۵)
اور یہ جو مروی ہے کہ رکانہ نے لفظ ’’ بتہ‘‘سے طلاق دی تھی ، اسے احمدؒ ، بخاریؒ اور ابوعبیدؒ نے ضعیف قرار دیا ہے ۔(امام شافعی ، ابوداؤد ، ترمذی ، ابن ماجہ، ابن حبان ، حاکم اور دارقطنی وغیرہ نے حضرت رکانہ سے روایت کیا ہے کہ انھوں نے اپنی بی بی کو لفظ”بتہ” کے ساتھ طلاق دی ………. حافظ ابن حجر ؒ نے تلخیص / ۳۱۹، میں لکھا ہے (صححہ ابوداؤد وابن حبان والحاکم ) یعنی اس حدیث کو ابوداؤد ، ابن حبان اور حاکم نے صحیح کہا ہے ۔ ابن ماجہ / ۱۴۹ ، میں ہے کہ میں نے اپنے استاذ طنافسی کو یہ فرماتے ہوئے سنا ’’ ما اشرف ہذا الحدیث ‘‘ یہ حدیث کتنی شریف و بہتر ہے ۔ ( اعلام مرفوعہ / ۱۱۔ العلامہ المحدث الاعظمی)
ابن تیمیہؒ ، ابن قیمؒ وغیرہ نے بیان کیا ہے کہ حضرت ابوبکرؓ کے زمانے میں اور خلافت عمرؓ کے ابتدائی دوسال میں ایک لفظ کی تین طلاق سے ایک ہی سمجھا جاتا رہا اور جو فتاویٰ صحابۂ کرام سے اس کے خلاف مروی ہیں ، وہ حضرت عمرؓ کے تین طلاق نافذ کرنے کے بعد کے ہیں ۔ تین طلاق نافذ کرنے سے حضرت عمرؓ کا یہ ارادہ نہیں تھا کہ اسے ایک مستقل قاعدہ بنا ڈالیں جو ہمیشہ مستمر رہے ، ان کا ارادہ تو یہ تھا کہ جب تک دواعی و اسباب موجود ہیں ، تین طلاق کو نافذ قرار دیا جائے ، جیساکہ تغیر حالات سے بدلنے والے فتاویٰ کا حال ہوتا ہے ، او ر امام کو اس وقت رعایاکی تعزیر کا حق بھی ہے ، جس وقت ایسے معلاملات میں جن کے کرنے اور چھوڑنے کا ان کو اختیار ہو ، سوئے تصرف پیدا ہوجائے جیسا کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سزا کے طور پر غزوۂ تبوک میں شرکت نہ کر نے والے تین صحابہ کو ایک وقت تک اپنی بیویوں سے جدا رہنے کا حکم دیدیا تھا ، باوجود یکہ ان کی بیویوں سے کوئی غلطی نہیں ہوئی تھی یا جیسے شراب نوشی کی سزا میں زیادتی، یا تاجروں کی ناجائز نفع اندوزی کے وقت قیمتوں کی تعیین ، یا جان ومال کی حفاظت کے لئے لوگوں کو خطر ناک راستوں پر جانے سے روکنا ، باوجود یکہ ان راستوں پر ہر ایک کو سفر کرنا مباح رہا ہو۔
پانچویں دلیل یہ ہے کہ تین طلاق کو لعان کی شہادتوں پر قیاس کیا جائے ۔ اگر شوہر کہے میں اللہ کی چار شہادت دیتا ہوں کہ میں نے اپنی عورت کو زنا کر تے ہوئے دیکھا ہے ، تو اسے ایک ہی شہادت سمجھا جاتا ہے ، لہذا جب اپنی بیوی سے ایک مر تبہ میں کہا کہ میں تمہیں تین طلاق دیتا ہوں تو اسے ایک ہی طلاق سمجھا جائے گا اور اگر اقرار کا تکرار کئے بغیر کہے کہ میں زنا کا چار مرتبہ اقرار کرتا ہوں ، تو اسے ایک ہی اقرار سمجھا جاتا ہے ، یہی حال طلاق کا بھی ہے اور ہر وہ بات جس میں قول کا تکرار معتبر ہے ، محض عدد ذکر کر دینا کافی نہ ہوگا ، مثلاً فرض نمازوں کے بعد تسبیح و تحمید وغیرہ۔
شیخ شنقیطی نے اس کا جواب دیا ہے کہ یہ قیاس مع الفارق ہے ، اس لئے کے شوہر اگر لعان کی صرف ایک ہی شہادت پر اکتفا کر لے تو وہ کالعدم قرار دیدی جاتی ہے ، جب کہ ایک طلاق کالعدم نہیں قراردی جاتی ، وہ بھی نافذ ہوجاتی ہے ۔(اضواء البیان، ۱/۱۹۵، بحوالہ مجلہ البحوث)
جمہور کا مسلک: بیک لفظ تین طلاق دینے سے تین واقع ہوجائیں گی ، یہ جمہور صحابہ وتابعین اور تمام ائمہ مجتہدین کا مسلک ہے اور اس پر انھوں نے کتاب وسنت اور اجماع وقیاس سے دلائل قائم کئے ہیں ۔ ان میں سے اہم دلائل مندرجہ ذیل ہیں ۔
اے نبی جب تم عورتوں کو طلاق دو تو ان کو ان کی عدت پر طلاق دو اور عدت گنتے رہو اور اللہ سے ڈرو جو تمہارا رب ہے ، ان کو ان کے گھروں سے مت نکالو اور وہ بھی نہ نکلیں ، مگر جو صریح بے حیائی کریں اور یہ اللہ کی باندھی ہوئی حدیں ہیں اور جو کوئی اللہ کی حدوں سے بڑھے تو اس نے اپنابرا کیا اس کو خبر نہیں کہ شاید اللہ اس طلاق کے بعد نئی صورت پیدا کردے۔(الطلاق:۱) اس آیت سے یہ معلوم ہواکہ اللہ تعالی نے وہ طلاق مشروع کی ہے جس کے بعد عدت شروع ہو ، تاکہ طلاق دینے والا بااختیار ہو ، چاہے تو عمدہ طریقہ سے بیوی کو رکھ لے یا خوبصورتی کے ساتھ چھوڑدے ۔ اور یہ اختیار اگر چہ ایک لفظ میں رجعت سے پہلے تین طلاق جمع کر دینے سے نہیں حاصل ہوسکتا ، لیکن آیت کے ضمن میں دلیل موجود ہے کہ یہ طلاق بھی واقع ہو جائے گی ، اگر واقع نہ ہوتی تو وہ اپنے اوپر ظلم کرنے والا نہ کہلاتا اور نہ اس کے سامنے دروازہ بند ہوتا ، جیسا کہ اس آیت میں اشارہ ہے : ومن یتق اللہ یجعل لہ مخرجاً۔مخرج کی تفسیر حضرت ابن عباسؓ نے رجعت کی ہے ۔ ایک سائل کے جواب میں جس نے اپنی بیوی کو تین طلاق دیدی تھی ، آ پ نے کہاکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’ومن یتق اللہ یجعل لہ مخرجاً ‘‘ اور تم نے اللہ سے خوف نہیں کیا ، لہذا میں تمہارے لئے کوئی خلاصی کی راہ نہیں پاتا ہوں ، تم نے اللہ کی نا فرمانی کی اور تم سے تمہاری بیوی جدا ہوگئی۔
اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ جو شخص اپنی عورت کو تین طلاق دیدے ، وہ خود پر ظلم کر نے والا ہے ۔ اب اگر یہ کہا جائے کہ تین طلاق سے ایک ہی واقع ہوتی ہے ، تو اس کو اللہ سے ڈرنا نہیں کہا جاسکتا ، جس کا حکم ’’ ومن یتق اللہ الخ ‘‘ میں دیا گیا ہے اور جس کا التزام کرنے سے خلاصی کی سبیل پیدا ہوتی اور نہ یہ ظالم کی سزا بن سکتی ہے، جو حدود اللہ سے تجاوز کرنے والا ہے تو گو یا شارع نے ایک منکر بات کہنے والے پر اس کا اثر مرتب نہیں کیا، جو اس کے لئے عقوبت بنتا ، جیسا کہ بیوی سے ظہار کر نے والے پر بطور عقوبت کفارہ لازم ہوتا ہے ۔ اس سے ظاہر ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے تینوں طلاق نافذ کر کے طلاق دینے والے کو سزادی ہے اور اس کے سامنے راستہ مسدود کردیا ہے ، اس لئے کہ اس نے اللہ سے خوف نہیں کیا خود پر ظلم کیا او ر اللہ کی حدود سے تجاوز کیا۔
صحیحین میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے : ان رجلا طلق امرأتہ ثلاثا فتزوجت فطلقت فسئل النبی صلی اللہ علیہ وسلم اتحل للاول؟ قال: لا حتی یذوق عسیلتہا کما ذاق الاول۔ ’’ ایک شخص نے اپنی بی بی کو تین طلاقیں دیدیں، اس نے دوسرے سے نکاح کر لیا ، دوسرے شوہر نے قبل خلوت کے طلاق دیدی ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ اب پہلے کے لئے حلال ہوگئی یا نہیں؟ فرمایا کہ نہیں تاوقتیکہ دوسرا شوہر پہلے کی طرح لطف اندوزِ صحبت نہ ہو ، پہلے کے لئے حلال نہیں ہوسکتی ‘‘۔
بخاری ؒ نے یہ حدیث ’’ باب من اجاز الطلاق ثلاثاً ‘‘ کے تحت ذکر کی ہے جس سے معلوم ہوا کہ انہوں نے بھی اس سے یکجا تین طلاق ہی سمجھا ہے ؛ لیکن اس پر یہ اعتراض کیا گیا ہے کہ یہ رفاعہ قرظی کے واقعہ کا مختصر ہے ، جس کی بعض روایات میں آیا ہے کہ انھوں نے تین طلاقوں میں کی آخری طلاق دی ۔ حافظ ابن حجرؒ نے اعتراض کو اس طرح رد کیا ہے کہ رفاعہ قرظی کے علاوہ بھی ایک صحابی کا ایسا ہی واقعہ اپنی بیوی کے ساتھ پیش آیا ہے اور دونوں ہی عورتوں سے عبد الرحمن ابن الزبیرؓ نے نکاح کیا تھا اور صحبت سے پہلے ہی طلاق دیدی تھی ، لہذا رفاعہ قرظی کے واقعہ پر اس حدیث کو محمول کر نا بے دلیل ہے ۔ اس کے بعد حافظ ابن حجرؒ نے کہا کہ ’’ اس سے ان لوگوں کی غلطی ظاہر ہوگئی جو دونوں واقعہ کو ایک کہتے ہیں ،،۔
جب حدیث عائشہؓ کا حدیث ابن عباسؓ کے ساتھ تقابل کیا جائے تو دو حال پیدا ہوتے ہیں ، یا تو دونوں حضرات کی حدیث میں تین طلاق مجموعی طور پر مراد ہے یا متفرق طور پر ، اگر تین طلاق یکجائی مراد ہے تو حدیث عائشہؓ متفق علیہ ہونے کی وجہ سے اولی ہے ، اور اس حدیث میں تصریح ہے کہ وہ عورت تین طلاق کی وجہ سے حرام ہوگئی تھی اور اب شوہر ثانی سے وطی کے بعد شوہر اول کے لئے حلال ہوسکتی ہے اور اگر متفرق طور پر مرادہے تو حدیث ابن عباسؓ میں یکجائی تین طلاقوں کے واقع نہ ہونے پر استدلال صحیح نہیں ہے ؛ اس لئے کہ دعوی تو یہ ہے کہ ایک لفظ کی تین طلاق سے ایک طلاق پڑتی ہے اور حدیث ابن عباسؓ میں متفرق طلاقوں کا ذکر ہے اور یہ کہنا کہ حدیث عائشہؓ میں تین طلاق متفرق اور حدیث ابن عباسؓ میں مجموعی طور پر مراد ہے ، بلا وجہ ہے۔ اس کی کوئی دلیل موجود نہیں ہے ۔
حضرت عائشہؓ کی مذکور ہ حدیث کے علاوہ بھی بہت سی احادیث ہیں ، جو یکجائی تین طلاق کے نافذ ہو نے پر دلالت کرتی ہیں ، ان میں سے :
۱۔ حضر ت ابن عمرؓ کی حدیث ابن ابی شیبہ بیہقی ، دار قطنی نے ذکر کی ہے۔
۲۔ حضرت عائشہؓ کی ایک حدیث دارقطنی نے ذکر کی ہے ۔
۳۔ حضرت معاذ ابن جبلؓ کی حدیث بھی دار قطنی نے روایت کی ہے ۔
۴۔ حضرت حسنؓ بن علیؓ کی حدیث بھی دار قطنی نے روایت کی ہے ۔
۵۔ عامر شعبیؒ سے فاطمہ بنت قیسؓ کے واقعۂ طلاق کی حدیث ابن ماجہ نے روایت کی ہے ۔
۶۔ حضرت عبادہ بن صامت کی ایک حدیث دار قطنی ومصنف عبد الرزاق میں مذکور ہے ۔
ان تمام احادیث سے تین طلاق کا لازم ہونا مفہوم ہوتا ہے ، تفصیل کے لئے دیکھئے حضرت الاستاذ محدث جلیل مولانا حبیب الرحمن الاعظمی صاحب کا رسالہ اعلام مرفوعہ/ ۴ تا ۷ ۔
بعض فقہاء مثلاً ابن قدامہ حنبلیؒ نے یہ وجہ بیان کی ہے کہ نکاح ایک ملک ہے ، جسے متفرق طورپر زائل کیا جاسکتا ہے ، تو مجموعی طور پر بھی زائل کیا جاسکتا ہے ، جیسا کہ تمام ملکیتوں کا یہی حکم ہے۔ قرطبی نے کہا ہے کہ جمہور کی عقلی دلیل یہ ہے کہ اگر شوہر نے بیوی کو تین طلا ق دی ، تو بیوی اس کے لئے اس وقت حلال ہوسکتی ہے ، جب کسی دوسرے شوہر سے ہم صحبت ہولے۔ اس میں لغۃً اور شرعاًشوہر اول کے تین طلاق مجموعی یا متفرق طور پر دینے میں کوئی فرق نہیں ہے ، فرق محض صورۃً ہے جس کو شارع نے لغو قرار دیا ہے ؛ اس لئے کہ شارع نے عتق ، اقرار اور نکاح کو جمع اور تفریق کی صورت میں یکساں رکھا ہے ۔ مولیٰ اگر بیک لفظ کہے کہ میں نے ان تینوں عورتوں کا نکاح تم سے کردیا ، تو نکاح منعقد ہوجاتا ہے جیسے الگ الگ یوں کہے کہ اس کا اور اس کا نکاح تم سے کردیا تو نکاح منعقد ہو جاتا ہے ۔اسی طرح اگر کہے کہ میں نے ان تینوں غلاموں کو آزاد کردیا تو سب کی آزادی نافذ ہوجائے گی ، جیسے الگ الگ یوں کہے کہ میں نے اس کو اور اس کو اور اس کو آزاد کیا تو سب کی آزادی نافذ ہوجاتی ہے ۔ یہی حال اقرار کا بھی ہے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ جمع وتفریق میں کوئی فرق نہیں ، زیادہ سے زیادہ یکحائی تین طلاق دینے والے کو اپنا اختیار ضائع کرنے میں انتہا پسندی پر ملازمت کا مستحق ٹھرایا جاسکتا ہے ۔
بعض مخالفین کے علاوہ تمام اہل علم کا اتفاق ہے کہ ہازل کی طلاق حضرت ابوہریرہؓ وغیر ہ کی اس حدیث کی وجہ سے واقع ہوجاتی ہے جسے تمام امت نے قبول کیا ہے۔ ثلاث جدہن جد وھزلہن جد الطلاق والنکاح والرجعۃ ۔ ’’ تین چیزیں ہیں جن کا واقعی بھی حقیقت ہے اور مذاق بھی حقیقت ہے ۔ طلاق ، نکاح اور رجعت‘‘۔ مذاق میں طلاق دینے والے کا دل بھی قصد وارادہ کے ساتھ طلاق کا ذکر کرتا ہے ، لہذا جو طلاق ایک سے زائد ہوگی ، وہ مسمّٰی طلاق سے خارج نہیں ہوگی ، بلکہ وہ بھی صریح طلاق ہوگی اور تین طلاق کو ایک سمجھنا گویا بعض عدد کو زیر عمل لاکر باقی کو چھوڑ دینا ہے ، لہذا یہ جائز نہ ہوگا ۔
یکجائی تین طلاق دینے سے تین واقع ہونا اکثر اہل علم کا قول ہے ، اسی کو حضرت عمرؓ ، عثمانؓ، علیؓ، ابن عباسؓ، ابن عمرؓ اور ابن مسعودؓ وغیرہ اصحابِ رسول نے اختیار کیا ہے اور ائمہ اربعہ ابوحنیفہؒ ، مالکؒ ،شافعیؒ اور احمدؒ کے علاوہ دوسرے فقہاء مجتہدین ابن ابی لیلیٰ ؒ ، اوزاعیؒ وغیرہ بھی اسی کے قائل ہیں ۔ ابن عبد الہادی ؒ نے ابن رجبؒ سے نقل کیا ہے کہ میرے علم میں کسی صحابی اور کسی تابعی اور جن ائمہ کے اقوال حلال وحرام کے فتویٰ میں معتبر ہیں ، ان میں سے کسی سے کوئی ایسی صریح بات ثابت نہیں جو بیک لفظ تین طلاق کے ایک ہونے پر دلالت کر ے ، خود ابن تیمیہؒ نے تین طلاق کے حکم میں مختلف اقوال پیش کر نے کے دوران کہا:
دوسرا مذہب یہ ہے کہ یہ طلاق حرام ہے اور لازم ونافذ ہے ، یہی امام ابوحنیفہؒ ، امام مالک ؒ اور امام احمدؒ کا آخری قول ہے ، ان کے اکثر تلامذہ نے اسی قو ل کو اختیار کیا ہے ، اور یہی مذہب سلفِ صحابہ وتابعین کی ایک بڑی تعداد سے منقول ہے ‘‘۔
اور ابن قیم ؒ نے کہا: ’’ ایک لفظ کی تین طلاق کے بارے میں لوگوں کا چار مذہب ہے ۔ پہلا مذہب یہ ہے کہ تین طلاق واقع ہوجاتی ہے۔،یہی مذہب ائمہ اربعہ ، جمہور تابعین اور بہت سے صحابۂ کرام کا ہے ۔
علامہ قرطبیؒ نے فرمایا : ’’ہمارے علماء نے فرماکہ یا تمام ائمہ فتاویٰ ایک لفظ سے تین طلاق کے لازم ہونے پرمتفق ہیں اور یہی جمہور سلف کا قول ہے ‘‘۔ ابن عربی ؒ نے اپنی کتاب الناسخ والمنسوخ میں کہا ہے اور اسے ابن قیمؒ نے بھی تہذیب السنن میں نقل کیا ہے : ’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے الطلاق مرتان (یعنی طلاق دومرتبہ ہے) آخر زمانہ میں ایک جماعت نے لغزش کھائی اور کہنے لگے: ایک لفظ کی تین طلاق سے تین نافذ نہیں ہوتی ، انھوں نے اس کو ایک بنادیا اور اس قول کو سلف اول کی طرف منسوب کردیا۔ علیؓ ، زبیرؓ، ابن عوفؓ، ابن مسعودؓ اور ابن عباسؓ سے روایت کیا اور حجاج بن ارطاۃ کی طرف روایت کی نسبت کردی ؛ جن کا مرتبہ ومقام کمزور اور مجروح ہے ، اس سلسلہ میں ایک روایت کی گئی جس کی کوئی اصلیت نہیں‘‘۔ انہوں نے یہاں تک کہا ہے کہ : ’’ لوگوں نے اس سلسلہ میں جواحادیث صحابہ کی طرف منسوب کی ہیں ، وہ محض افتراء ہے ، کسی کتاب میں اس کی اصل نہیں اور نہ کسی سے اس کی روایت ثابت ہے ‘‘۔ اور آگے کہا : ’’حجاج بن ارطاۃ کی حدیث نہ امت میں مقبول ہے اور نہ کسی امام کے نزدیک حجت ہے ‘‘۔
حدیث ابن عباسؓ کے جوابات: حضرت ابن عباسؓ کی اس حدیث پر کہ ’’ عہد نبوی، عہد صدیقی اور عہد فاروقی کے ابتدائی دوسال میں تین طلاق ایک تھی ‘‘ کئی اعتراضات وارد ہوتے ہیں ،جن کی بناپر اس حدیث سے استدلال کمزور پڑجاتا ہے ۔
اس حدیث کے سند ومتن میں اضطراب ہے ، سند میں اضطراب یہ ہے کہ کبھی ’’عن طاؤس عن ابن عباس‘‘کہاگیا ، کبھی ’’ عن طاؤس عن ابی الصہباء عن ابن عباس‘‘ اور کبھی ’’عن ابی الجوزاء عن ابن عباس ‘‘ آیا ہے
متن میں اضطراب یہ ہے کہ ابو الصہباء نے کبھی ان الفاظ میں روایت کیا ہے : الم تعلم أن الرجل کان اذا طلق امرأتہ ثلاثا قبل أن یدخل بہا جعلوہا واحدۃً ۔’’کیا آپ کو معلوم نہیں کہ مرد جب ملاقات سے پہلے اپنی بیوی کو تین طلاق دیتا تھا ، تو لوگ اسے ایک شمار کر تے تھے ‘‘۔ اور کبھی ان الفاظ میں روایت کیا ہے: الم تعلم ان الطلاق الثلاث کان علی عہد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم و ابی بکر وصدر من خلافۃ عمر واحدۃ ۔ ’’ کیا آپ کو معلوم نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اور حضرت ابو بکرؓ کے زمانے میں اور حضرت عمرؓ کے ابتدائی دورِ خلافت میں تین طلاق ایک تھی ‘‘۔
حضرت ابن عباسؓ سے روایت کر نے میں طاؤس منفرد ہیں اور طاؤس میں کلام ہے ، اس لئے کے وہ حضرت ابن عباسؓ سے مناکیر روایت کرتے ہیں ۔قاضی اسماعیلؒ نے اپنی کتاب احکام القرآن میں کہا ہے کہ ’’طاؤس اپنے فضل وتقوی کے باوجود منکر باتیں روایت کرتے ہیں اور انھیں میں سے یہ حدیث بھی ہے ‘‘۔ ابن ایوب سے منقول ہے کہ وہ طاؤس کی کثرت خطا پر تعجب کر تے تھے۔ ابن عبد البر مالکی نے کہا کہ ’’ طاؤس اس حدیث میں تنہا ہیں‘‘۔ ابن رجب نے کہا کہ ’’ علماء اہل مکہ طاؤس کے شاذ اقوال کا انکار کرتے تھے ‘‘۔ قرطبی نے عبد البر سے نقل کیا ہے کہ ’’ طاؤس کی روایت وہم اور غلط ہے ، حجاز ، شام اور مغرب کے کسی فقیہ نے اس پر اعتماد نہیں کیا ہے ‘‘۔
بعض اہل علم نے کہا ہے کے حدیث دو وجہ سے شاذ ہے ، ایک تو اس وجہ سے کہ اس کی روایت کرنے میں طاؤس منفرد ہیں اور کوئی ان کا متابع نہیں ۔امام احمدؒ نے ابن منصور کی روایت میں کہا ہے کہ’’ ابن عباسؓ کے تمام تلامذہ نے طاؤس کے خلاف روایت کیا ہے ‘‘ جوزجانی نے کہا ہے کہ ’’ یہ حدیث شاذ ہے ‘‘ ۔ ابن عبد الہادی نے ابن رجب سے نقل کیا ہے کہ’’ میں نے بڑی مدت تک اس حدیث کی تحقیق کا اہتمام کیا، لیکن اس کی کوئی اصل نہ پاسکا‘‘۔
شاذ ہونے کی دوسری وجہ وہ ہے جس کو بیہقی نے ذکر کیا ہے انہوں نے ابن عباسؓ سے تین طلاق لازم ہونے کی روایات ذکر کر کے ابن المنذر سے نقل کیا ہے کہ ’’ وہ ابن عباسؓ کے بارے میں یہ گمان نہیں کرتے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے انھوں نے کوئی بات محفوظ کی ہو اور پھر اس کے خلاف فتویٰ دیں ‘‘۔ ابن ترکمانی نے کہا کہ ’’ طاؤس کہتے تھے کہ ابوالصہباء مولیٰ ابن عباسؓ نے ان سے تین طلاق کے بارے میں پوچھا تھا ؛ لیکن ابن عباسؓ سے یہ روایت اس لئے صحیح نہیں مانی جاسکتی کہ ثقات خود انھیں سے اس کے خلاف روایت کر تے ہیں اور اگر صحیح بھی ہو ، تو ان کی بات ان سے زیادہ جاننے والے جلیل القدر صحابہ حضرت عمرؓ ، عثمانؓ، علیؓ ، ابن مسعودؓ، ابن عمرؓ وغیرہم پر حجت نہیں ہوسکتی ‘‘۔
حدیث میں شذوذ ہی کی وجہ سے دو جلیل القدر محدثوں نے اس حدیث سے اعراض کیا ہے ۔امام احمد ؒ نے اثرم اور ابن منصور سے کہا کہ میں نے ابن عباسؓ کی حدیث قصداً ترک کر دی ؛ اس لئے کہ میری رائے میں اس حدیث سے یکجائی تین طلاق کے ایک ہونے پر استدلال درست نہیں ؛ کیوں کہ حفاظِ حدیث نے ابن عباسؓ سے اس کے خلاف روایت کیا ہے اور بیہقی نے امام بخاریؒ سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے حدیث کو اسی وجہ سے قصداً چھوڑدیا، جس کی وجہ سے امام احمدؒ نے ترک کیا تھا اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ دو امام فن حدیث کو اسی وقت چھوڑسکتے ہیں جب کہ چھوڑنے کا سبب رہاہو۔
حضرت ابن عباسؓ کی حدیث ایک اجتماعی حالت بیان کرتی ہے ، جس کا علم تما م معاصرین کو ہونا چاہئے تھا اور متعدد طرق سے اس کے نقل کے کافی اسباب ہونے چاہئے تھے ، جس میں اختلاف کی گنجائش نہ ہوتی ، حالانکہ اس حدیث کو ابن عباسؓ سے بطریقِ آحاد ہی روایت کیا گیا ہے ، اسے طاؤس کے علاوہ کسی نے روایت نہیں کیا ہے ، جب کہ وہ مناکیر بھی روایت کرتے ہیں ۔
جمہور علماء اصول نے کہا ہے کہ اگر خبر آحاد کے نقل کے اسباب وافر ہوں ، تو محض کسی ایک شخص کا نقل کر نا اس کے عدم صحت کی دلیل ہے ۔صاحب جمع الجوامع نے خبر کے عدم صحت کے بیان میں اس خبر کو بھی داخل کیا ہے جو نقل کے اسباب وافر ہونے کے باوجود بطریق آحاد نقل کی گئی ہو ۔ ابن حاجبؒ نے مختصر الاصول میں کہا ہے :
’’ جب تنہا کوئی شخص ایسی بات نقل کرے ، جس کے نقل کے اسباب کافی تھے ، اس کے نقل میں ایک بڑی جماعت اس کے ساتھ شریک ہونی چاہئے تھی ، مثلاًوہ تنہا بیان کرے کہ شہر کی جامع مسجد میں منبر پر خطبہ دینے کی حالت میں خطیب کو قتل کر دیا گیا ، تو وہ جھوٹا ہے ، اس کی بات بالکل نہیں مانی جائے گی‘‘۔
جس بات پر عہد نبوی ، عہد صدیقی اور عہدفاروقی میں تمام مسلمان باقی رہے ہوں، تو اس کے نقل کے کافی اسباب ہوں گے ؛ حالانکہ ابن عباسؓ کے علاوہ کسی صحابی سے اس کے بارے میں ایک حرف بھی منقول نہیں (اور اس کو بھی حضرت ابن عباسؓ نے ابوالصہباء کے تلقین کرنے پر بیان کیا ہے ) صحابۂ کرام کی خاموشی دو بات پر دلالت کر تی ہے ۔ یاتو حدیث ابن عباسؓ میں تینوں طلاقیں بیک لفظ نہ مانی جائیں ؛ بلکہ اس کی صورت یہ ہے کہ بیک لفظ تین الفاظ میں تین طلاق دی گئی اور لفظ کا تکرار تاکید پر محمول کیا جائے ، یا یہ حدیث صحیح نہیں ، اس لئے کہ نقل کے کافی وسائل ہونے کے باوجود آحاد نے اسے روایت کیا ہے ۔
جب ابن عباسؓ جانتے تھے کہ عہد نبوی، عہد صدیقی اور عہد فاروقی کے ابتدائی دور میں تین طلاق ایک سمجھی جاتی تھی ، تو ان کے صلاح وتقویٰ ، علم و استقامت ، اتباع سنت اور برملا حق گوئی کے پیش نظر یہ نہیں سوچا جاسکتا کہ انھوں نے یکجائی تین طلاق سے تین نافذ کرنے میں حضرت عمرؓ کے حکم کی اتباع کی ہوگی ۔ تمتع حج ، دو دینار کے عوض ایک دینار کی خرید وفروخت ، ام ولد کی خرید وفروخت وغیرہ کے مسائل میں حضرت عمرؓ سے ان کا اختلاف پوشیدہ نہیں ، لہذا کسی ایسے مسئلہ میں وہ حضرت عمرؓ کی موافقت کیسے کرسکتے ہیں ، جس کے خلاف وہ خود روایت کرتے ہوں، تمتع حج کے بارے میں حضرت عمرؓ سے ان کا جو اختلاف ہوا ہے ، اس سلسلہ میں ان کا یہ مشہور قول ان کی بر ملا حق گوئی کی واضح دلیل ہے ، انھوں نے فرمایا کہ : ’’ قریب ہے کہ تم پر آسمان سے پتھر برسیں ، میں کہتاہوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااور تم لوگ کہتے ہو ابوبکر نے کہا ، عمر نے کہا ‘‘۔
اگر ابن عباسؓ کی حدیث کو صحیح بھی تسلیم کر لیا جائے ، تو قرون اولیٰ میں صحابۂ کرام کے صلاح وتقویٰ ، علم واستقامت اور غایت اتباع کو دیکھتے ہوئے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ انھوں نے تین طلاقوں کو ایک جانتے ہوئے حضرت عمرؓ کا حکم قبول کرلیا ہوگا ، اس کے باوجود کسی سے بہ سند صحیح یہ ثابت نہیں کہ اس نے حدیث ابن عباسؓ کے مطابق فتویٰ دیا ہو۔
مخالفین کا کہنا ہے کہ حضرت عمرؓ نے تین طلاق سے تین کے نفاذ کا حکم سزا کے طور پر جاری کیا تھا ؛ اس لئے کہ ایسے کام میں جس پر بڑے غور وفکر کے بعد اقدام کرنا چاہئے تھا ، لوگوں نے عجلت سے کام لینا شروع کر دیا تھا ؛ لیکن یہ بات تسلیم کرنا موجب اشکال ہے ، اس لئے کہ حضرت عمرؓجیسا متقی عالم وفقیہ کوئی ایسی سزا کیسے جاری کرسکتا ہے ، جس کے اثرات مستحق سزا تک ہی نہیں محدود رہتے ؛ بلکہ دوسری طرف (یعنی بیوی کی طرف) بھی پہونچتے ہیں ۔ حرام فرج کو حلال کرنا اور حلال فرج کو حرام کرنا اور حقوق رجعت وغیرہ کے مسائل اس پر مرتب ہوتے ہیں ۔
مجلس کا فیصلہ: مجلس ہیئت کبار علماء نے جو فیصلہ کیا ہے ، اس کے الفاظ یہ ہیں :
بعد دراسۃ المسئلۃ وتداول الرأی واستعراض الأقوال التی قیلت فیہا ومناقشۃ ما علی کل قول من إیراد توصل المجلس بأکثریتہ إلی اختیار القول بوقوع الطلاق الثلاث بلفظٍ واحدٍ ثلاثاً ۔ (مجلۃ البحوث الإسلامیۃالمجلد الأول ، العدد الثالث ، ص: ۱۶۵)
مسئلہ موضوعہ کے مکمل مطالعہ ، تبادلۂ خیال اور تمام اقوال کا جائزہ لینے اور ان پر وارد ہونے والے اعتراضات پر جرح ومناقشہ کے بعد مجلس نے اکثریت کے ساتھ ایک لفظ کی تین طلاق سے تین واقع ہو نے کا قول اختیارکیا۔ لجنہ دائمہ نے تین طلاق کے مسئلہ میں جو بحث تیار کی ہے ، اس کے اخیر میں مندرجہ ذیل اراکین مجلس کے دستخط بھی موجود ہیں ۔
ابراہیم بن محمد آل الشیخ صدر لجنہ
عبد الرزاق عفیفی نائب صدر
عبد اللہ بن عبد الرحمن بن غذیان عضومجلس
عبد اللہ بن سلیمان بن منیع عضو مجلس
تنبیہ: اس مجلس کے جن علماء نے تین طلاق کو ایک قرار دیا ہے ، انھوں نے صرف اس صورت کا یہ حکم بیان کیا ہے ’’ جب کوئی شخص یوں طلاق دے کہ میں نے تین طلاق دی (یا دیا) ؛ لیکن جب کوئی یوں کہے کہ میں نے طلاق دیا، میں نے طلاق دیا، میں نے طلاق دیا، تو اس صورت میں وہ بھی نہیں کہتے کہ ایک طلاق پڑے گی‘‘۔ (یعنی اس صورت میں ان کے نزدیک بھی تین طلاق واقع ہوگی) ۔

والدین کی فرمانبرداری

بسم اللہ الرحمن الرحیم
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِےْن، وَالصَّلاۃُ وَالسَّلامُ عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِےْمِ وَعَلٰی آلِہِ وَاَصْحَابِہِ اَجْمَعِےْن۔
والدین کی فرمانبرداری
قرآن وحدیث میں والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی خصوصی تاکید کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے متعدد مقامات پر اپنی توحید وعبادت کا حکم دینے کے ساتھ والدین کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے کا حکم دیا ہے، جس سے والدین کی اطاعت ان کی خدمت اور ان کے ادب واحترام کی اہمیت واضح ہوجا تی ہے۔ احادیث میں بھی والدین کی فرمانبرداری کی خاص اہمیت وتاکید اور اسکی فضیلت بیان کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو والدین کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے والا بنائے۔ ان کی فرمانبرداری کرنے والا بنائے۔ ان کے حقوق کی ادائیگی کما حقہ ادا کرنے والا بنائے۔
آیات قرآنیہ:
* اور تیرا پروردگار صاف صاف حکم دے چکا ہے کہ تم اس کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرنا۔ اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرنا۔ اگر تیری موجودگی میں ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کے آگے اف تک نہ کہنا، نہ انہیں ڈانٹ ڈپٹ کرنا بلکہ ان کے ساتھ ادب واحترام سے بات چیت کرنا۔ اور عاجزی ومحبت کے ساتھ ان کے سامنے تواضع کا بازو پست رکھنا۔ اور دعا کرتے رہنا کہ اے میرے پرودگار! ان پر ویسا ہی رحم کر جیسا کہ انہوں نے میرے بچپن میں میری پرورش کی ہے ۔۔۔۔۔ (سورہ بنی اسرائیل ۲۳ ، ۲۴) جہاں اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت کرنے کا حکم دیا وہیں والدین کے ساتھ احسان کرنے کا حکم بھی دیا ۔ ایک دوسری جگہ اپنے شکر بجا لانے کے ساتھ والدین کے واسطے بھی شکر کا حکم دیا ۔ اللہ اکبر، ذرا غور کریں کہ ماں باپ کا مقام ومرتبہ کیا ہے توحید وعباد ت کے بعداطاعت وخدمت والدین ضروری قرار دیا گیا کیونکہ جہاں انسانی وجود کا حقیقی سبب اللہ ہے تو وہیں ظاہری سبب والدین ۔اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ شرک کے بعد سب سے بڑا گناہ والدین کی نافرمانی ہے، جیساکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ کے ساتھ شرک کرنا اور والدین کی نافرمانی کرنا بہت بڑا گناہ ہے۔ بخاری
ماں باپ کی نافرمانی تو کجا ، ناراضگی وناپسندید گی کے اظہار اور جھڑکنے سے بھی روکا گیا ہے اور ادب کے ساتھ نرم گفتگو کا حکم دیا گیا ہے’’ وَلَاَ تْنہَرْ ہُمَا وقُلْ لَّہُما قَوْلًا کَرِیْمَا‘‘ ساتھ ہی ساتھ بازوئے ذلت پست کرتے ہوئے تواضع وانکساری اور شفقت کے ساتھ برتاؤ کا حکم ہوتا ہے ’’ واخْفِضْ لَہُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمۃِ‘‘ اور پوری زندگی والدین کے لئے دعا کرنے کا حکم ان کی اہمیت کو دوبالا کرتا ہے وقُلْ رَّبِّ ارْحَمْہماکَما رَبّیَانِی صَغِیْرًا۔ * اور تم سب اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ نیک برتاؤ کرو ۔ سورہ النساء ۳۶
* ہم نے ہر انسان کو اپنے ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کی نصیحت کی ہے ۔ سورہ العنکبوت ۸
احادیث شریفہ:
* حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ اللہ کو کونسا عمل زیادہ محبوب ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: نماز کو اس کے وقت پر ادا کرنا۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے کہا کہ اس کے بعد کونسا عمل اللہ کو زیادہ پسند ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: والدین کی فرمانبرداری۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے کہا کہ اس کے بعد کونسا عمل اللہ کو زیادہ محبوب ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کے راستہ میں جہاد کرنا۔ بخاری، مسلم
* حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ میں اللہ تعالیٰ سے اجر کی امید کے ساتھ آپ کے ہاتھ پر ہجرت اور جہاد کرنے کے لئے بیعت کرنا چاہتا ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کیا تمہارے ماں باپ میں سے کوئی زندہ ہے؟ اس شخص نے کہا : (الحمد للہ) دونوں حیات ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص سے پوچھا : کیا تو واقعی اللہ تعالیٰ سے اجر عظیم کا طالب ہے؟ اس نے کہا ہاں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اپنے والدین کے پاس جا اور ان کی خدمت کر۔ مسلم
* ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر دریافت کیا: میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کو ن ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : تمہاری ماں ۔ اس شخص نے پوچھا پھر کون؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تمہاری ماں۔ اس نے پوچھا پھر کون؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تمہاری ماں۔ اس نے پوچھا پھر کون؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تمہارا باپ۔ بخاری
* رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: باپ جنت کے دروازوں میں سے بہترین دروازہ ہے۔ چنانچہ تمہیں اختیار ہے خواہ (اس کی نافرمانی کرکے اور دل دکھاکے) اس دروازہ کو ضائع کردو یا (اس کی فرمانبرداری اور اس کو راضی رکھ کر) اس دروازہ کی حفاظت کرو۔ ترمذی
* رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کی رضامندی والد کی رضامندی میں ہے اور اللہ تعالیٰ کی ناراضگی والد کی ناراضگی میں ہے۔ ترمذی
* رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص کو یہ پسند ہو کہ اس کی عمردراز کی جائے اور اس کے رزق کو بڑھادیا جائے اس کو چاہئے کہ اپنے والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرے، اور رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کرے۔ مسند احمد
* رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے اپنے والدین کے ساتھ اچھا سلوک کیا اس کے لئے خوشخبری ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی عمر میں اضافہ فرمائیں گے۔ مستدرک حاکم
* رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ شخص ذلیل وخوار ہو ، ذلیل وخوار ہو،ذلیل وخوار ہو۔ عرض کیا گیا: یا رسول اللہ! کون ذلیل وخوار ہو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : وہ شخص جو اپنے ماں باپ میں سے کسی ایک یا دونوں کو بڑھاپے کی حالت میں پائے پھر (ان کی خدمت کے ذریعہ) جنت میں داخل نہ ہو۔مسلم
قرآن وحدیث کی روشنی میں امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ والدین کی نافرمانی بہت بڑا گناہ ہے۔ والدین کی ناراضگی اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا سبب بنتی ہے۔ لہذا ہمیں والدین کی اطاعت اور فرمانبرداری میں کوئی کوتاہی نہیں کرنی چاہئے۔ خاص کر جب والدین یا دونوں میں سے کوئی بڑھاپے کو پہنچ جائے تو انہیں ڈانٹ ڈپٹ کرنا حتی کہ ان کو اُف تک نہیں کہنا چاہئے۔ ادب واحترام اورمحبت وخلوص کے ساتھ ان کی خدمت کرنی چاہئے۔ ممکن ہے کہ بڑھاپے کی وجہ سے ان کی کچھ باتیں یا اعمال آپ کو پسند نہ آئیں، آپ اس پر صبر کریں، اللہ تعالیٰ اس صبر کرنے پر بھی اجر عظیم عطا فرمائے گا، ان شاء اللہ۔
قرآن وحدیث کی روشنی میں علماء نے والدین کے حسب ذیل بعض حقوق مرتب کئے ہیں ، اللہ تعالیٰ ہم سب کو والدین کے حقوق ادا کرنے والا بنائے :
دوران حیات حقوق: ان کا ادب واحترام کرنا۔ ان سے محبت کرنا۔ ان کی فرمانبرداری کرنا۔ ان کی خدمت کرنا۔ ان کو حتی الامکان آرام پہنچانا۔ ان کی ضروریات پوری کرنا۔ وقتاً فوقتاً ان سے ملاقات کرنا۔
بعد از وفات حقوق: ان کے لئے اللہ تعالیٰ سے معافی اور رحمت کی دعائیں کرنا۔ ان کی جانب سے ایسے اعمال کرناجن کا ثواب ان تک پہنچے۔ ان کے رشتے دار ، دوست ومتعلقین کی عزت کرنا۔ ان کے رشتے دار ، دوست ومتعلقین کی حتی الامکان مدد کرنا۔ ان کی امانت وقرض ادا کرنا۔ ان کی جائز وصیت پر عمل کرنا۔ کبھی کبھی ان کی قبر پر جانا ۔
نوٹ: والدین کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اولاد کے درمیان مساوات قائم رکھیں اور ان کے حقوق کی ادائیگی کریں۔ عموماً غیر شادی شدہ اولاد سے محبت کچھ زیادہ ہوجاتی ہے، جس پر پکڑ نہیں ہے، لیکن بڑی اولاد کے مقابلے میں چھوٹی اولاد کو معاملات میں ترجیح دینا مناسب نہیں ہے، جس کی وجہ سے گھریلو مسائل پیدا ہوتے ہیں، لہذا والدین کو حتی الامکان اولاد کے درمیان برابری کا معاملہ کرنا چاہئے۔ اگر اولاد گھر وغیرہ کے اخراجات کے لئے باپ کو رقم دیتی ہے تو اس کا صحیح استعمال ہونا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے والدین کی فرمانبردای کرنے والا بنائے اور ہماری اولاد کو بھی ان حقوق کی ادائیگی کرنے والا بنائے۔
محمد نجیب قاسمی سنبھلی، ریاض (www.najeebqasmi.com)

مَحْرَم کا بیان (یعنی جن عورتوں سے نکاح کرنا حرام ہے)
بسم الله الرحمن الرحيم
اَلْحَمْدُ لِله رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلام عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔
مَحْرَم کا بیان (یعنی جن عورتوں سے نکاح کرنا حرام ہے)

سورۂ النساء کی ۲۳ ویں اور ۲۴ ویں آیت میں اللہ تعالیٰ نے ان عورتوں کا ذکر فرمایا ہے جن کے ساتھ نکاح کرنا حرام ہے، وہ مندرجہ ذیل ہیں:
نَسبی رشتے:
ماں (حقیقی ماں یا سوتیلی ماں، اسی طرح دادی یا نانی)
بیٹی (اسی طرح پوتی یا نواسی)
بہن (قیقی بہن، ماں شریک بہن، باپ شریک بہن)
پھوپھی (والد کی بہن خواہ سگی ہوں یا سوتیلی)
خالہ (ماں کی بہن خواہ سگی ہوں یا سوتیلی)
بھتیجی (بھائی کی بیٹی خواہ سگی ہوں یا سوتیلی)
بھانجی (بہن کی بیٹی خواہ سگی ہوں یا سوتیلی)
رضاعی رشتے:
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جن عورتوں سے نسب کی وجہ سے نکاح نہیں کیا جاسکتا ہے، رضاعت (دودھ پینے) کی وجہ سے بھی انہی رشتوں میں نکاح نہیں کیا جاسکتا ہے۔ (بخاری ومسلم) غرض رضاعی ماں، رضاعی بیٹی، رضاعی بہن، رضاعی پھوپھی، رضاعی خالہ، رضاعی بھتیجی اور رضاعی بھانجی سے نکاح نہیں ہوسکتا ہے۔ لیکن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کی روشنی میں رضاعت سے حرمت اسی صورت میں ہوگی جب کہ دودھ چھڑانے کی مدت سے پہلے دودھ پلایا گیا ہو۔
ازدواجی رشتے:
بیوی کی ماں (ساس)
بیوی کی پہلے شوہر سے بیٹی، لیکن ضروری ہے کہ بیوی سے صحبت کرچکا ہو۔
بیٹے کی بیوی (بہو) (یعنی اگر بیٹا اپنی بیوی کو طلاق دیدے یا مر جائے تو باپ بیٹے کی بیوی سے شادی نہیں کرسکتا)۔
دو بہنوں کو ایک ساتھ نکاح میں رکھنا۔ (اسی طرح خالہ اور اسکی بھانجی، پھوپھی اور اسکی بھتیجی کو ایک ساتھ نکاح میں رکھنامنع ہے)۔
عام رشتے:
کسی دوسرے شخص کی بیوی (اللہ تعالیٰ کے اِس واضح حکم کی وجہ سے ایک عورت بیک وقت ایک سے زائد شادی نہیں کرسکتی ہے)۔
وضاحت:
بیوی کے انتقال یا طلاق کے بعد بیوی کی بہن(سالی)، اسکی خالہ، اسکی بھانجی، اسکی پھوپھی یا اسکی بھتیجی سے نکاح کیا جاسکتا ہے۔
بھائی ، ماموں یا چچا کے انتقال یا ان کے طلاق دینے کے بعد بھابھی ، ممانی اور چاچی کے ساتھ نکاح کیا جاسکتا ہے۔
عورت کا جن مردوں سے پردہ نہیں ہے اور ان کے ہمراہ سفر کیا جاسکتا ہے، وہ مندرجہ ذیل ہیں، جیساکہ سورۂ النور کی آیت 31 اور سورۂ الاحزاب کی آیت 55 میں مذکور ہے:
نسبی رشتے:
باپ (اسی طرح دادا یا نانا)
بیٹا (اسی طرح پوتا یا نواسا)
بھائی (قیقی بھائی، ماں شریک بھائی، باپ شریک بھائی)
چچا (والد کے بھائی خواہ سگے ہوں یا سوتیلے)
ماموں (والدہ کے بھائی خواہ سگے ہوں یا سوتیلے)
بھتیجا (بھائی کا بیٹا خواہ سگا ہو یا سوتیلا)
بھانجا (بہن کا بیٹا خواہ سگا ہو یا سوتیلا)
رضاعی رشتے:
رضاعی باپ، رضاعی بیٹا، رضاعی بھائی، رضاعی چچا، رضاعی ماموں، رضاعی بھتیجا اور رضاعی بھانجا۔
ازدواجی رشتے:
* شوہر
* شوہرکے والد یا دادا
* شوہرکی پہلی / دوسری بیوی کا بیٹا
* داماد
وضاحت:
خونی یا رضاعی یا ازدواجی رشتہ نہ ہونے کی وجہ سے عورت کو اپنے بہنوئی ، دیور یا جیٹھ ، خالو یا پھوپھا سے شرعی اعتبار سے پردہ کرنا چاہئے اور ان کے ساتھ سفربھی نہیں کرنا چاہئے۔ غرضیکہ مرد اپنی سالی یا بھابھی کے ہمراہ سفر نہیں کرسکتا ہے۔
عورتوں کو اپنے چچا زاد، پھوپھی زاد، خالہ زاد اورماموں زاد بھائی سے پردہ کرنا چاہئے اور ان کے ساتھ سفربھی نہیں کرنا چاہئے، کیونکہ عورت کی اپنے چچا زاد، پھوپھی زاد، خالہ زاد اور ماموں زاد بھائی سے شادی ہوسکتی ہے۔

عدت کے مسائل
بسم الله الرحمن الرحيم
اَلْحَمْدُ لِله رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلام عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔
عدت کے مسائل
عدت کے معنی: عدت کے لغوی معنی شمار کرنے کے ہیں، جبکہ شرعی اصطلاح میں عدت اس معین مدت کو کہتے ہیں جس میں شوہر کی موت یا طلاق یا خلع کی وجہ سے میاں بیوی کے درمیان جدائیگی ہونے پر عورت کے لئے بعض شرعی احکامات کی پابندی لازم ہوجاتی ہے۔ عورت کے فطری احوال کے اختلاف کی وجہ سے عدت کی مدت مختلف ہوتی ہے، جس کا تفصیلی بیان آگے آرہا ہے۔
عدت کی شرعی حیثیت: قرآن وسنت کی روشنی میں امت مسلمہ متفق ہے کہ شوہر کی موت یا طلاق یا خلع کی وجہ سے میاں بیوی کے درمیان جدائیگی ہونے پر عورت کے لئے عدت واجب (فرض) ہے۔
عدت دو وجہوں سے واجب ہوتی ہے:
شوہر کی موت کی وجہ سے:
اگر شوہر کے انتقال کے وقت بیوی حاملہ ہے تو Delivery ہونے تک عدت رہے گی، خواہ اس کا وقت چار ماہ اور دس روز سے کم ہو یا زیادہ۔ جیساکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا: حاملہ عورتوں کی عدت ان کے وضع حمل تک ہے۔ (سورۂ الطلاق ۴) اس آیت کے ظاہر سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ ہر حاملہ عورت کی عدت یہی ہے خواہ وہ مطلقہ ہو یا بیوہ، جیساکہ احادیث کی کتابوں (کتاب الطلاق )میں وضاحت موجود ہے۔
حمل نہ ہونے کی صورت میں شوہر کے انتقال کی وجہ سے عدت ۴ ماہ اور ۱۰ دن کی ہوگی خواہ عورت کو ماہواری آتی ہو یا نہیں، خلوت صحیحہ (صحبت) ہوئی ہو یا نہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا: تم میں سے جو لوگ فوت ہوجائیں اور بیویاں چھوڑجائیں تو وہ عورتیں اپنے آپ کو چار ماہ اور دس دن عدت میں رکھیں۔ (سورۂ البقرۃ ۲۳۴)
طلاق یا خلع کی وجہ سے:
بعض ناگزیر حالات میں کبھی کبھی ازدواجی زندگی کا ختم کردینا ہی نہ صرف میاں بیوی کے لئے بلکہ دونوں خاندانوں کے لئے باعث راحت ہوتا ہے، اس لئے شریعت اسلامیہ نے طلاق اور فسخ نکاح (خُلع) کا قانون بنایا ہے، جس میں طلاق کا اختیار صرف مرد کو دیا گیا ہے کیونکہ اس میں عادتاً وطبعاً عورت کے مقابلہ فکروتدبر اور برداشت وتحمل کی قوت زیادہ ہوتی ہے، جیسا کہ قرآن میں ذکر کیا گیا ہے۔ (وَلِلرِّجَالِ عَلَےْہِنَّ دَرَجَۃ) (سورۂ البقرۃ ۲۳۸) (الرِّجَالُ قَوَّامُوْنَ عَلَی النِّسَاءِ) (سورۂ النساء ۳۴) لیکن عورت کو بھی اس حق سے یکسر محروم نہیں کیا گیا ہے بلکہ اسے بھی یہ حق دیا گیا ہے کہ وہ عدالت میں اپنا موقف پیش کرکے قانون کے مطابق طلاق حاصل کرسکتی ہے جس کو خُلع کہا جاتا ہے۔
اگر طلاق یا خلع کے وقت بیوی حاملہ ہے تو Delivery ہونے تک عدت رہے گی خواہ تین ماہ سے کم مدت میں ہی ولادت ہوجائے۔ جیساکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا: حاملہ عورتوں کی عدت ان کے وضع حمل تک ہے۔(سورۂ الطلاق ۴)
نوٹ: اگر شوہر کے انتقال یا طلاق کے کچھ دنوں بعد حمل کا علم ہو تو عدت وضع حمل تک رہے گی خواہ یہ مدت ۹ ماہ کی ہی کیوں نہ ہو۔
اگر طلاق یا خلع کے وقت عورت حاملہ نہیں ہے تو ماہواری آنے والی عورت کے لئے عدت ۳ حیض (ماہواری) رہے گی۔ جیساکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا: مطلقہ عورتیں اپنے آپ کو تین حیض تک روکے رکھیں۔ (سورۂ البقرۃ ۲۲۸)
(نوٹ): تیسری ماہواری ختم ہونے کے بعد عدت مکمل ہوگی۔ عورتوں کے احوال کی وجہ سے یہ عدت ۳ ماہ سے زیادہ یا تین ماہ سے کم بھی ہوسکتی ہے۔
جن عورتوں کو عمر زیادہ ہونے کی وجہ سے حیض آنا بند ہوگیا ہو یا جنہیں حیض آنا شروع ہی نہ ہوا ہو تو طلاق کی صورت میں ان کی عدت تین مہینے ہوگی۔ جیساکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا: تمہاری عورتوں میں سے جو عورتیں حیض سے ناامید ہوچکی ہیں، اگر تم کو ان کی عدت کی تعیین میں شبہ ہو رہا ہے تو ان کی عدت تین ماہ ہے اور اسی طرح جن عورتوں کو حیض آیا ہی نہیں ہے ، ان کی عدت بھی تین ماہ ہے۔ (سورۂ الطلاق ۴)
نکاح کے بعد لیکن خلوت صحیحہ (صحبت) سے قبل اگر کسی عورت کو طلاق دے دی جائے تو اس عورت کے لئے کوئی عدت نہیں ہے جیساکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا: اے ایمان والو! جب تم مؤمن عورتوں سے نکاح کرو پھر ہاتھ لگانے (یعنی صحبت کرنے ) سے قبل ہی طلاق دے دو تو ان عورتوں پر تمہارا کوئی حق عدت کا نہیں ہے جسے تم شمار کرو۔ یعنی خلوت صحیحہ سے قبل طلاق کی صورت میں عورت کے لئے عدت نہیں ہے۔ (سورۂ الاحزاب ۴۹)
نوٹ: نکاح کے بعد لیکن خلوت صحیحہ (صحبت) سے قبل شوہر کے انتقال کی صورت میں عورت کے لئے عدت ہے ۔سورۂ البقرۃ کی آیت نمبر ۲۳۴ کے عموم ودیگر احادیث صحیحہ کی روشنی میں امت مسلمہ اس پر متفق ہے۔
نوٹ: نکاح کے بعد لیکن خلوت صحیحہ سے قبل طلاق دینے کی صورت میں آدھے مہر کی ادائیگی کرنی ہوگی۔ (سورۂ البقرہ ۲۳۷)
عدت کی مصلحتیں: عدت کی متعدد دنیاوی واخروی مصلحتیں ہیں جن میں سے بعض یہ ہیں:
عدت سے اللہ تعالیٰ کی رضامندی کا حصول ہوتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے حکم کو بجالانا عبادت ہے اور عبادت سے اللہ کا قرب حاصل ہوتا ہے۔
عدت کو واجب قرار دینے کی اہم مصلحت اس بات کا یقین حاصل کرنا ہے تاکہ پہلے شوہر کا کوئی بھی اثر بچہ دانی میں نہ رہے اور بچے کے نسب میں کوئی شبہ باقی نہ رہے۔
نکاح چونکہ اللہ تعالیٰ کی ایک عظیم نعمت ہے، اس لئے اس کے زوال پر عدت واجب قرار دی گئی۔
نکاح کے بلند وبالا مقصد کی معرفت کے لئے عدت واجب قرار دی گئی تاکہ انسان اس کو بچوں کا کھیل نہ بنالے۔
شوہر کے انتقال کی وجہ سے گھر /خاندان میں جو ایک خلا پیدا ہوا ہے اس کی یاد کچھ مدت تک باقی رکھنے کی غرض سے عورت کے لئے عدتضروری قرار دی گئی۔
متفرق مسائل:
حاملہ عورت (مطلقہ یا بیوہ) کی عدت ہر صورت میں وضع حمل یا سقوط حمل تک ہی رہے گی۔
شوہر کی وفات یا طلاق دینے کے وقت سے عدت شروع ہوجاتی ہے خواہ عورت کو شوہر کے انتقال یا طلاق کی خبر بعد میں پہونچی ہو۔
مطلقہ یا بیو ہ عورت کو عدت کے دوران بلا عذر شرعی گھر سے باہر نکلنا نہیں چاہئے۔
کسی وجہ سے شوہر کے گھر عدت گزارنا مشکل ہو تو عورت اپنے میکے یا کسی دوسرے گھر میں بھی عدت گزار سکتی ہے۔ (سورۂ الطلاق ۱)
عورت کے لئے عدت کے دوران دوسری شادی کرنا جائز نہیں ہے، البتہ رشتہ کا پیغام عورت کو اشارۃًدیا جاسکتا ہے۔ ( البقرۃ۲۳۴/ ۲۳۵)
جس عورت کے شوہر کا انتقال ہوجائے تو اس کو عدت کے دوران خوشبو لگانا، سنگھار کرنا، سرمہ اور خوشبو کا تیل بلاضرورت لگانا، مہندی لگانا اور زیادہ چمک دمک والے کپڑے پہننا درست نہیں ہے۔
اگر چاند کی پہلی تاریخ کو شوہر کا انتقال ہوا ہے تب تو یہ مہینے خواہ ۳۰کے ہوں یا ۲۹کے ہوں، چاند کے حساب سے پورے کئے جائیں گے اور ۱۱ تاریخ کو عدت ختم ہوجائے گی۔
اگر پہلی تاریخ کے علاوہ کسی دوسری تاریخ میں شوہر کا انتقال ہوا ہے تو ۱۳۰ دن عدت رہے گی۔ علماء کی دوسری رائے یہ ہے کہ جس تاریخ میں انتقال ہوا ہے، اس تاریخ سے چار ماہ کے بعد ۱۰دن بڑھادئے جائیں مثلاً ۱۵ محرم الحرام کو انتقال ہوا ہے تو ۲۶ جمادی الاول کو عدت ختم ہوجائے گی۔
اگر عورت شوہر کے انتقال یا طلاق کی صورت میں عدت نہ کرے یا عدت تو شروع کی مگر مکمل نہ کی تو وہ اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے قانون کو توڑنے والی کہلائے گی جو بڑا گناہ ہے، لہذا اللہ تعالیٰ سے توبہ واستغفار کرکے ایسی عورت کے لئے عدت کو مکمل کرنا ضروری ہے۔
عدت کے دوران عورت کے مکمل نان ونفقہ کا ذمہ دار شوہر ہی ہوگا۔
محمد نجیب قاسمی (www.najeebqasmi.com)

حقوق الزوجین یعنی میاں بیوی کی ذمہ داریاں
بسم الله الرحمن الرحيم
اَلْحَمْدُ لِله رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلام عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔
حقوق الزوجین یعنی میاں بیوی کی ذمہ داریاں
حق کے معنی: حق کے لغوی معنی ثابت ہونے یعنی واجب ہونے کے ہیں، اس کی جمع حقوق آتی ہے جیساکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: اُن میں سے اکثر لوگوں پر بات ثابت ہوچکی ہے، سو یہ لوگ ایمان نہ لائیں گے۔۔۔(سورۂ یس ۷) حق باطل کے مقابلہ میں بھی استعمال ہوتا ہے جیساکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: اور اعلان کردو کہ حق آچکا اور باطل مٹ گیا، یقیناًباطل کو مٹنا ہی تھا۔ (سورۂ اسراء ۸۱)
حقوق کی ادائیگی: شریعت اسلامیہ نے ہر شخص کو اس بات پر متوجہ کیا ہے کہ وہ اپنے فرائض ادا کرے،اپنی ذمہ داریوں کو صحیح طریقہ پر انجام دے اور لوگوں کے حقوق کی مکمل ادائیگی کرے۔ شریعت اسلامیہ نے ہر شخص کو مکلف بنایا ہے کہ وہ حقوق اللہ کے ساتھ حقوق العباد یعنی بندوں کے حقوق کی مکمل طور پر ادائیگی کرے حتی کہ بعض وجوہ سے حقوق العباد کو زیادہ اہتمام سے ادا کرنے کی تعلیمات دی گئیں۔
آج ہم دوسروں کے حقوق تو ادا نہیں کرتے ہیں البتہ اپنے حقوق کا جھنڈا اٹھائے رہتے ہیں۔ دوسروں کے حقوق کی ادائیگی کی کوئی فکر نہیں کرتے ہیں، اپنے حقوق کو حاصل کرنے کے لئے مطالبات کئے جارہے ہیں، تحریکیں چلائی جارہی ہیں، مظاہرے کئے جارہے ہیں، ہڑتالیں کی جارہی ہیں، حقوق کے نام سے انجمنیں اور تنظیمیں بنائی جارہی ہیں۔ لیکن دنیا میں ایسی انجمنیں یا تحریکیں یا کوششیں موجود نہیں ہیں کہ جن میں یہ تعلیم دی جائے کہ اپنے فرائض، اپنی ذمہ داریاں اور دوسروں کے حقوق جو ہمارے ذمہ ہیں وہ ہم کیسے ادا کریں؟ شریعت اسلامیہ کا اصل مطالبہ بھی یہی ہے کہ ہم میں سے ہر ایک اپنی ذمہ داریوں یعنی دوسروں کے حقوق ادا کرنے کی زیادہ کوشش کرے۔
میاں بیوی کے باہمی تعلقات میں بھی اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی طریقہ اختیا ر کیا ہے کہ دونوں کو ان کے فرائض یعنی ذمہ داریاں بتادیں۔ شوہر کو بتادیا کہ تمہارے فرائض اور ذمہ داریاں کیا ہیں اور بیوی کو بتا دیا کہ تمہاری ذمہ داریاں کیا ہیں، ہر ایک اپنے فرائض اور ذمہ داریوں کو ادا کرنے کی کوشش کرے۔ زندگی کی گاڑی اسی طرح چلتی ہے کہ دونوں اپنے فرائض اور اپنی ذمہ داریاں ادا کرتے رہیں۔ دوسروں کے حقوق ادا کرنے کی فکر اپنے حقوق حاصل کرنے کی فکر سے زیادہ ہو۔ اگر یہ جذبہ پیدا ہوجائے تو پھر زندگی بہت عمدہ خوشگوار ہوجاتی ہے۔

زوجین (میاں بیوی): دو اجنبی مرد وعورت کے درمیان شوہر اور بیوی کا رشتہ اسی وقت قائم ہوسکتا ہے جبکہ دونوں کے درمیان شرعی نکاح عمل میں آئے۔ نکاحِ شرعی کے بعد دو اجنبی مرد وعورت رفیق حیات بن جاتے ہیں، ایک دوسرے کے رنج وخوشی،تکلیف وراحت اور صحت وبیماری غرضیکہ زندگی کے ہر گوشہ میں شریک ہوجاتے ہیں۔ عقد نکاح کو قرآن کریم میں میثاق غلیظ کا نام دیا گیا ہے یعنی نہایت مضبوط رشتہ۔ نکاح کی وجہ سے بے شمار حرام امور ایک دوسرے کے لئے حلال ہوجاتے ہیں حتی کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ایک دوسرے کو لباس سے تعبیر کیا ہے یعنی شوہر اپنی بیوی کے لئے اور بیوی اپنے شوہر کے لئے لباس کے مانند ہے۔ شرعی نکاح کے بعد جب آدمی شوہر اور عورت بیوی بن جاتی ہے تو ایک دوسرے کا جسمانی اور روحانی طور پر لطف اندوز ہونا جائز ہوجاتا ہے اور ایک دوسرے کے ذمہ جسمانی اور روحانی حقوق واجب ہوجاتے ہیں۔ شرعی احکام کی پابندی کرتے ہوئے شوہر اور بیوی کا جسمانی اور روحانی طور پر لطف اندوز ہونا نیز ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی کرنا یہ سب شریعت اسلامیہ کا جزء ہیں اور ان پر بھی اجر ملے گا، ان شاء اللہ۔
نکاح کے دو اہم مقاصد:
اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن کریم میں نکاح کے مقاصد میں سے دو اہم مقصد مندرجہ ذیل آیت میں بیان فرمائے ہیں: اور اُس کی نشانیوں میں سے ہے کہ تمہاری ہی جنس سے بیویاں پیدا کیں تاکہ تم اُن سے آرام پاؤ۔ اور اُس نے تمہارے درمیان محبت اور ہمدری قائم کردی، یقیناًغوروفکر کرنے والوں کے لئے اس میں بہت سی نشانیاں ہیں۔ (سورۂ الروم ۲۱) غرض اِس آیت میں نکاح کے دو اہم مقاصد بیان کئے گئے:
میاں بیوی کو ایک دوسرے سے قلبی وجسمانی سکون حاصل ہوتا ہے۔
میاں بیوی کے درمیان ایک ایسی محبت، الفت، تعلق ، رشتہ اور ہمدردی پیدا ہوجاتی ہے جو دنیا میں کسی بھی دو شخصوں کے درمیان نہیں ہوتی۔
زوجین (میاں بیوی)کی ذمہ داریوں کی تین قسمیں :
انسان صرف انفرادی زندگی نہیں رکھتا ہے بلکہ وہ فطرتاً معاشرتی مزاج رکھنے والی مخلوق ہے ، اس کا وجود خاندان کے ایک رکن اور معاشرہ کے ایک فرد کی حیثیت سے ہی پایا جاتا ہے۔ معاشرہ اور خاندان کی تشکیل میں بنیادی اکائی میاں بیوی ہیں جن کے ایک دوسرے پر کچھ حقوق ہیں:
شوہر کی ذمہ داریاںیعنی بیوی کے حقوق شوہر پر ۔
بیوی کی ذمہ داریاںیعنی شوہر کے حقوق بیوی پر۔
دونوں کی مشترکہ ذمہ داریاں یعنی مشترکہ حقوق۔
شوہر کی ذمہ داریاں یعنی بیوی کے حقوق شوہر پر :
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا: اور (مردوں پر ) عورتوں کا حق ہے جیسا کہ (مردوں کا) عورتوں پر حق ہے، معروف طریقہ پر۔ (سورۂ البقرہ ۲۲۸) اس آیت میں میاں بیوی کے تعلقات کا ایسا جامع دستور پیش کیا گیا ہے جس سے بہتر کوئی دستور نہیں ہوسکتا اور اگر اس جامع ہدایت کی روشنی میں ازدواجی زندگی گزاری جائے تو اِس رشتہ میں کبھی بھی تلخی اور کڑواہٹ پیدا نہ ہوگی، ان شاء اللہ۔ واقعی یہ قرآن کریم کا اعجاز ہے کہ الفاظ کے اختصار کے باوجود معانی کا سمندر گویا کہ ایک کوزے میں سمودیا گیا ہے۔ یہ آیت بتارہی ہے کہ بیوی کو محض نوکرانی اور خادمہ مت سمجھنا بلکہ یہ یاد رکھنا کہ اس کے بھی کچھ حقوق ہیں جن کی پاس داری شریعت میں ضروری ہے۔ ان حقوق میں جہاں نان ونفقہ اور رہائش کا انتظام شامل ہے وہیں اسکی دل داری اور راحت رسانی کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے۔ اسی لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تم میں سب سے اچھا آدمی وہ ہے جو اپنے گھر والوں (یعنی بیوی بچوں) کی نظر میں اچھا ہو۔۔۔ اور ظاہر ہے کہ ان کی نظر میں اچھا وہی ہوگا جو اُن کے حقوق کی ادائیگی کرنے والا ہو۔ دوسری طرف اِس آیت میں بیوی کو بھی آگاہ کیا کہ اُس پر بھی حقوق کی ادائیگی لازم ہے۔ کوئی بیوی اُس وقت تک پسندیدہ نہیں ہوسکتی جب تک کہ وہ اپنے شوہر کے حقوق کو ادا کرکے اُس کو خوش نہ کرے، چنانچہ احادیث میں ایسی عورتوں کی تعریف فرمائی گئی ہے جو اپنے شوہر کی تابع دار اور خدمت گزار ہوں اور ان سے بہت زیادہ محبت کرنے والی ہوں اور ایسی عورتوں کی مذمت کی گئی ہے جو شوہروں کی نافرمانی کرنے والی ہوں۔
شوہر کی چند اہم ذمہ داریاں حسب ذیل ہیں:
مکمل مہر کی ادائیگی: اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے: عورتوں کو ان کا مہر راضی وخوشی سے ادا کردو۔ (سورۂ النساء ۴) نکاح کے وقت مہر کی تعیین اور شب زفاف سے قبل اس کی ادائیگی ہونی چاہئے، اگرچہ طرفین کے اتفاق سے مہر کی ادائیگی کو مؤخر بھی کرسکتے ہیں۔ مہر صرف عورت کا حق ہے، لہذا شوہر یا اس کے والدین یا بھائی بہن کے لئے مہر کی رقم میں سے کچھ بھی لینا جائز نہیں ہے۔ (وضاحت): شریعت نے کوئی بھی خرچہ صنف نازک پر نہیں رکھا ہے، شادی سے قبل اسکے تمام اخراجات والد کے ذمہ ہیں اور شادی کے بعد عورت کے کھانے، پینے، رہنے، سونے اور لباس کے تمام اخراجات شوہر کے ذمہ ہیں، لہذا مہر کی رقم عورت کی خالص ملکیت ہے اس کو جہاں چاہے اور جیسے چاہے استعمال کرے، شوہر یا والد مشورہ تو دے سکتے ہیں مگر اُس رقم میں تصرف کرنے کا مکمل اختیار صرف عورت کو ہے، اِسی طرح اگر عورت کو کوئی چیز وراثت میں ملی ہے تو وہ عورت کی ملکیت ہوگی، والد یا شوہر کو وہ رقم یا جائیداد لینے کا کوئی حق نہیں ہے۔
بیوی کے تمام اخراجات: اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے: بچوں کے باپ (یعنی شوہر ) پرعورتوں (یعنی بیوی) کا کھانا اور کپڑا لازم ہے دستور کے مطابق۔ (سورۂ البقرہ ۲۳۳)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عورتوں کے سلسلہ میں اللہ تعالیٰ سے ڈرو کیونکہ اللہ کی امان میں تم نے اُن کو لیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے حکم کی وجہ سے اُن کی شرمگاہوں کو تمہارے لئے حلال کیا گیا ہے۔ دستور کے مطابق اُن کا مکمل کھانے پینے کا خرچہ اور کپڑوں کا خرچہ تمہارے ذمہ ہے۔ (مسلم)
بیوی کے لئے رہائش کا انتظام: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: تم اپنی طاقت کے مطابق جہاں تم رہتے ہووہاں اُن عورتوں کو رکھو۔ (سورۂ الطلاق ۶) اس آیت میں مطلقہ عورتوں کا حکم بیان کیا جاررہا ہے کہ عدت کے دوران ان کی رہائش کا انتظام بھی شوہر کے ذمہ ہے۔ جب شریعت نے مطلقہ عورتوں کی رہائش کا انتظام شوہر کے ذمہ رکھا ہے تو حسب استطاعت بیوی کی مناسب رہائش کی ذمہ داری بدرجہ اولیٰ شوہر کے ذمہ ہوگی۔
بیوی کے ساتھ حسن معاشرت:
شوہر کو چاہئے کہ وہ بیوی کے ساتھ اچھا سلوک کرے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ان کے ساتھ اچھے طریقے سے پیش آؤ یعنی عورتوں کے ساتھ گفتگو اور معاملات میں حسن اخلاق کے ساتھ معاملہ رکھو گو تم انہیں ناپسند کرو لیکن بہت ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو برا جانو اور اللہ تعالیٰ اس میں بہت ہی بھلائی کردے۔(سورۂ النساء ۱۹)
شوہر کی چوتھی ذمہ داری “بیوی کے ساتھ حسن معاشرت ” بہت زیادہ اہمیت رکھتی ہے، اس کی ادائیگی کے مختلف طریقے حسب ذیل ہیں:
حسب استطاعت بیوی اور بچوں پر خرچہ کرنے میں فراخدلی سے کا م لینا چاہئے جیساکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اگر کوئی شخص اللہ تعالیٰ سے اجر کی امید کے ساتھ اپنے گھر والوں پر خرچ کرتا ہے تو وہ صدقہ ہوگا (بخاری) یعنی اللہ تعالیٰ اس پر اجر عطا فرمائے گا۔
بیوی سے مشورہ: اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ گھر کے نظام کو چلانے کی ذمہ داری مرد کے ذمہ رکھی گئی ہے جیساکہ قرآن کریم میں مرد کے لئے قوَّام کا لفظ استعمال کیا گیا ہے یعنی مرد عورتوں پر نگہبان اور منتظم ہیں۔ لیکن حسن معاشرت کے طور پر عورت سے بھی گھر کے نظام کو چلانے کے لئے مشورہ لینا چاہئے، جیساکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: یعنی بیٹیوں کے رشتے کے لئے اپنی بیوی سے مشورہ کیا کرو۔(ابوداؤد، مسند احمد)
بیوی کی بعض کمزوریوں سے چشم پوشی کریں، خاص طور پر جب کہ دیگر خوبیاں ومحاسن ان کے اندر موجود ہوں، یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ نے عموماً ہر عورت میں کچھ نہ کچھ خوبیاں ضرور رکھی ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اگر عورت کی کوئی بات یا عمل ناپسند آئے تو مرد عورت پر غصہ نہ کرے کیونکہ اس کے اندر دوسری خوبیاں موجود ہیں جو تمہیں بھی اچھی لگتی ہیں۔ (مسلم)
مرد بیوی کے سامنے اپنی ذات کو قابل توجہ یعنی اسمارٹ بناکر رکھے کیونکہ تم جس طرح اپنی بیوی کو خوبصورت دیکھنا چاہتے ہو وہ بھی تمہیں اچھا دیکھنا چاہتی ہے۔ صحابی رسول ومفسر قرآن حضرت عبد اللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ میں اپنی بیوی کے لئے ویسا ہی سجتا ہوں جیسا وہ میرے لئے زیب وزینت اختیار کرتی ہے۔ (تفسیر قرطبی)
گھر کے کام وکاج میں عورت کی مدد کی جائے، خاص کر جب وہ بیمار ہو۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم گھر کے تمام کام کرلیا کرتے تھے، جھاڑو بھی خود لگالیا کرتے تھے، کپڑوں میں پیوند بھی خود لگالیا کرتے تھے اور اپنے جوتوں کی مرمت بھی خود کرلیا کرتے تھے۔ (بخاری)
بیوی کی ذمہ داریاں یعنی شوہر کے حقوق بیوی پر:
شوہر کی اطاعت: اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا: مرد عورتوں پر حاکم ہیں اس وجہ سے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے اور اس وجہ سے کہ مردوں نے اپنے مال خرچ کئے ہیں۔ جو عورتیں نیک ہیں وہ اپنے شوہروں کا کہنا مانتی ہیں اور اللہ کے حکم کے موافق نیک عورتیں شوہر کی عدم موجودگی میں اپنے نفس اور شوہر کے مال کی حفاظت کرتی ہیں، یعنی اپنے نفس اور شوہر کے مال میں کسی قسم کی خیانت نہیں کرتی ہیں۔ (سورۂ النساء ۳۴)
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مرد کو عورت پر فوقیت وفضیلت دینے کی دو وجہیں ذکر فرمائی ہیں۔
مرد وعورت و ساری کائنات کو پیدا کرنے والے اللہ تبارک وتعالیٰ نے مرد کو عورت پر فضیلت دی ہے۔
مرد اپنے اور بیوی وبچوں کے تمام اخراجات برداشت کرتا ہے۔
اسی طرح دوسری آیت میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا: مردوں کو عورتوں پر فضیلت حاصل ہے۔ (سورۂ البقرۃ ۲۲۸)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اگر عورت نے (خاص طور پر)پانچ نمازوں کی پابندی کی، ماہ رمضان کے روزے اہتمام سے رکھے، اپنی شرمگاہ کی حفاظت کی اور اپنے شوہر کی اطاعت کی تو گویا وہ جنت میں داخل ہوگئی۔ (مُسند احمد)
ایک عورت نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ مجھے عورتوں کی ایک جماعت نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک سوال کرنے کے لئے بھیجا ہے اور وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جہاد کا حکم مردوں کو دیا ہے، چنانچہ اگر ان کو جہاد میں تکلیف پہنچتی ہے تو اُس پر ان کو اجر دیا جاتا ہے اور اگر وہ شہید ہوجاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کے خصوصی بندوں میں شمار ہوجاتے ہیں کہ مرنے کے باوجود وہ زندہ رہتے ہیں اور اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے خصوصی رزق ان کو دیا جاتا ہے۔ (جیساکہ سورۂ آل عمران آیت ۱۶۹ میں مذکور ہے) ہم عورتیں ان کی خدمت کرتی ہیں، ہمارے لئے کیا اجر ہے؟ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جن عورتو ں کی طرف سے تم بھیجی گئی ہو، ان کو اطلاع کردو کہ شوہر کی اطاعت اور اس کے حق کا اعتراف تمہارے لئے اللہ کے راستے میں جہاد کے برابر ہے، لیکن تم میں سے کم ہی عورتیں اس ذمہ داری کو بخوبی انجام دیتی ہیں۔ (بزاز ، طبرانی)
وضاحت: اِن دِنوں مرد وعورت کے درمیان مساوات اور آزادئ نسواں کا بڑا شور ہے اور بعض ہمارے بھائی بھی اس پروپیگنڈے میں شریک ہوجاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مرو وعورت زندگی کے گاڑی کے دو پہیے ہیں، زندگی کا سفر دونوں کو ایک ساتھ طے کرنا ہے، اب زندگی کے سفر کو طے کرنے میں انتظام کی خاطر یہ لازمی بات ہے کہ دونوں میں سے کوئی ایک سفر کا ذمہ دار ہو تاکہ زندگی کا نظام صحیح چل سکے۔ لہذا تین راستے ہیں : (۱) دونوں کو ہی امیر بنایا جائے۔ (۲) عورت کو اس زندگی کے سفر کا امیر بنا یا جائے۔ (۳) مرد کو اس زندگی کے سفر کا امیر بنا یا جائے۔ پہلی شکل میں اختلاف کی صورت میں مسئلہ حل ہونے کے بجائے پیچیدہ سے پیچیدہ ہوتا جائے گا۔ دوسری شکل بھی ممکن نہیں ہے کیونکہ مردوعورت کو پیدا کرنے والے نے صنف نازک کو ایسی اوصاف سے متصف پیدا کیا ہے کہ وہ مرد پر حاکم بن کر زندگی نہیں گزار سکتی ہے۔ لہذا اب ایک ہی صورت بچی اور وہ یہ ہے کہ مرد اس زندگی کے سفر کا امیر بن کر رہے۔ مرد میں عادتاً وطبعاً عورت کی بہ نسبت فکروتدبر اور برداشت وتحمل کی قوت زیادہ ہوتی ہے، نیز انسانی خلقت ، فطرت، قوت اور صلاحیت کے لحاظ سے اور عقل کے ذریعہ انسان غوروخوض کرے تو یہی نظر آئے گا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے جو قوت مرد کو عطا کی ہے ، بڑے بڑے کام کرنے کی جو صلاحیت مرد کو عطا فرمائی ہے، وہ عورت کو نہیں دی گئی۔ لہذا امارت اور سربراہی کا کام صحیح طور پر مرد ہی انجام دے سکتا ہے۔ اس مسئلہ کے لئے اپنی عقل سے فیصلہ کرنے کے بجائے اس ذات سے پوچھیں جس نے اِن دَونوں کو پیدا کیا ہے۔ چنانچہ خالق کائنات نے قرآن کریم میں واضح الفاظ کے ساتھ اس مسئلہ کا حل پیش کردیا ہے: (وَلِلرِّجَالِ عَلَےْہِنَّ دَرَجَۃ) (سورۂ البقرۃ ۲۲۸) (الرِّجَالُ قَوَّامُوْنَ عَلَی النِّسَاءِ) (سورۂ النساء ۳۴) ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے واضح الفاظ میں ذکر فرمادیا کہ مرد ہی زندگی کے سفر کا سربراہ رہے گا اور فیصلہ کرنے کا حق مرد ہی کو حاصل ہے، اگرچہ مرد کو چاہئے کہ عورت کو اپنے فیصلوں میں شامل کرے۔۔ مرد حضرات بھی اس بات کو اچھی طرح ذہن نشیں کرلیں کہ بیشک مرد عورت کے لئے قوام یعنی امیر کی حیثیت رکھتا ہے لیکن ساتھ ہی دونوں کے درمیان دوستی کا بھی تعلق ہے، یعنی انتظامی طور پر تو مرد قوام یعنی امیر ہے لیکن باہمی تعلق دوستی جیسا ہے، ایسا تعلق نہیں ہے جیسا مالک اور نوکرانی کے درمیان ہوتا ہے۔
ایک مرتبہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہؓ سے فرمایا کہ جب تم مجھ سے راضی ہوتی ہو اور جب تم مجھ سے ناراض ہوتی ہو، دونوں حالتوں میں مجھے علم ہوجاتا ہے۔ حضرت عائشہؓ نے پوچھا : یا رسول اللہ! کس طرح علم ہوجاتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم مجھ سے راضی ہوتی ہو رب محمد کے الفاظ کے ساتھ قسم کھاتی ہو اور جب تم مجھ سے ناراض ہوتی ہو رب ابراہیم کے الفاظ کے ساتھ قسم کھاتی ہو۔ اس وقت تم میرا نام نہیں لیتی بلکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا نام لیتی ہو۔ حضرت عائشہؓ نے فرمایا کہ یا رسول اللہ! میں صرف آپ کا نام چھوڑتی ہوں، نام کے علاوہ کچھ نہیں چھوڑتی۔ (بخاری۔ باب ما یجوز من الہجر)
اب آپ اندازہ لگائیں کہ کون ناراض ہورہا ہے؟ حضرت عائشہؓ ۔ اور کس سے ناراض ہورہی ہیں؟ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ۔ معلوم ہوا کہ اگر بیوی ناراضگی کا اظہار کررہی ہے تو یہ مرد کی قوامیت یعنی امارت کے خلاف نہیں ہے کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑی خوشی طبعی کے ساتھ اس کا ذکر فرمایا کہ مجھے تمہاری ناراضگی کا پتہ چل جاتا ہے۔
اسی طرح واقعۂ افک کو یاد کریں، جس میں حضرت عائشہؓ پر تہمت لگائی گئی تھی، جس کی وجہ سے حضرت عائشہؓ پر قیامت صغریٰ برپا ہوگئی تھی۔ حتی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی شبہ ہوگیا تھا کہ کہیں حضرت عائشہؓ سے واقعی غلطی تو نہیں ہوگئی ہے۔ جب آیت برأت نازل ہوئی جس میں اللہ تعالیٰ نے حضرت عائشہؓ کی برأت کا اعلان کیا تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر صدیق ؓ بہت خوش ہوئے اور حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے حضرت عائشہؓ سے کہا کھڑی ہوجاؤ اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کرو۔ حضرت عائشہ ؓ بستر پر لیٹی ہوئی تھیں اور برأت کی آیات سن لیں اور لیٹے لیٹے فرمایا کہ یہ تو اللہ تعالیٰ کا کرم ہے کہ اس نے میری برأت (اپنے پاک کلام میں) نازل فرمادی لیکن میں اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کا شکر ادا نہیں کرتی کیونکہ آپ لوگوں نے تو اپنے دل میں یہ احتمال پیدا کرلیا تھا کہ شاید مجھ سے غلطی ہوگئی ہے۔ (بخاری،کتاب التفسیر، سورۂ النور، حدیث نمبر ۷۵۰)
بظاہر حضرت عائشہؓ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کھڑے ہونے سے اعراض فرمایا، لیکن حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو برا نہیں سمجھا، اس لئے کہ یہ ناز کی بات ہے۔ یہ ناز درحقیقت اسی دوستی کا تقاضہ ہے جو میاں بیوی کے درمیان ہوتی ہے۔ معلوم ہواکہ میاں بیوی کے درمیان حاکمیت اور محکومیت کا رشتہ نہیں بلکہ دوستی کا بھی رشتہ ہے اور اس دوستی کا حق یہ ہے کہ اس قسم کے ناز کو برداشت کیا جائے۔
بہرحال! چونکہ اللہ تعالیٰ نے مرد کو قوام بنایا ہے اس لئے فیصلہ اس کا ماننا ہوگا۔ ہاں بیوی اپنی رائے اور مشورہ دے سکتی ہے اور شریعت نے مرد کو یہ ہدایت بھی دی ہے کہ وہ حتی الامکان بیوی کی دلداری کا خیال بھی کرے لیکن فیصلہ اسی کا ہوگا۔ لہذا اگر بیوی چاہے کہ ہر معاملے میں فیصلہ ان کا چلے اور مرد قوام نہ بنے، تو یہ صورت فطرت کے خلاف ہے، شریعت کے خلاف ہے، عقل کے خلاف ہے اور انصاف کے خلاف ہے اور اس کا نتیجہ گھر کی بربادی کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔
شوہر کے مال وآبرو کی حفاظت:
اللہ تبارک وتعالیٰ نے ارشاد فرمایا: جو عورتیں نیک ہیں وہ اپنے شوہروں کی تابعدار ی کرتی ہیں اور اللہ کے حکم کے موافق نیک عورتیں شوہر کی عدم موجودگی میں اپنے نفس اور شوہر کے مال کی حفاظت کرتی ہیں، (سورۂ النساء ۳۴) یعنی اپنے نفس اور شوہر کے مال میں کسی قسم کی خیانت نہیں کرتی ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میں تمہیں مرد کا سب سے بہترین خزانہ نہ بتاؤں؟ وہ نیک عورت ہے، جب شوہر اس کی طرف دیکھے تو وہ شوہر کو خوش کردے، جب شوہر اس کو کوئی حکم کرے تو شوہر کا کہنا مانے۔ اگر شوہر کہیں باہر سفر میں چلا جائے تو اس کے مال اور اپنے نفس کی حفاظت کرے۔ (ابوداؤد، نسائی)
شوہرکے مال کی حفاظت میں یہ ہے کہ عورت شوہر کی اجازت کے بغیر شوہر کے مال میں سے کچھ نہ لے، اور اس کی اجازت کے بغیر کسی کو نہ دے۔ ہاں اگر شوہر واقعی بیوی کے اخراجات میں کمی کرتا ہے تو بیوی اپنے اور اولاد کے خرچے کو پورا کرنے کے لئے شوہر کی اجازت کے بغیر مال لے سکتی ہے۔ جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہند بنت عتبہ سے کہا تھا جب انہوں نے اپنے شوہر ابو سفیانؓ کے زیادہ بخیل ہونے کی شکایت کی تھی: اتنا مال لے لیا کرو جو تمہارے اور تمہاری اولاد کے متوسط خرچہ کے لئے کافی ہو۔ (بخاری مسلم)
شوہر کی آبرو کی حفاظت میں یہ ہے کہ عورت شوہر کی اجازت کے بغیر کسی کو گھر میں داخل نہ ہونے دے، کسی نامحرم سے بلا ضرورت بات نہ کرے۔ شوہر کی اجازت کے بغیر گھر سے باہر نہ نکلے۔

گھر کے اندرونی نظام کو چلانا اور بچوں کی تربیت کرنا: یہ عورتوں کی وہ ذمہ داری ہے جو ان کی خلقت کے مقاصد میں سے ایک اہم مقصد ہے، بلکہ یہ وہ بنیادی ذمہ داری ہے جسکی ادائیگی عورتوں پر لازم ہے۔ عورتوں کو اس ذمہ داری کے انجام دینے میں کوئی کمی نہیں چھوڑنی چاہئے کیونکہ اسی ذمہ داری کو صحیح طریقہ پر انجام دینے سے فیملی میں آرام وسکون پیدا ہوگا نیز اولاد دونوں جہاں کی کامیابی وکامرانی سے سرفراز ہوگی۔ حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ جب صحابۂ کرام اپنی بیٹی یا بہن کو رخصت کرتے تھے تو اس کو شوہر کی خدمت اور بچوں کی بہترین تربیت کی خصوصی تاکید کرتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: عورت اپنے شوہر کے گھر میں نگہبان اور ذمہ دار ہے اور اس سے اس کے بچوں کی تربیت وغیرہ کے متعلق سوال کیا جائے گا۔(بخاری ومسلم)
بیوی کی چند اہم دیگر ذمہ داریاں:
بیوی شوہر کی اجازت کے بغیر نفلی روزہ نہ رکھے۔ حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:کسی عورت کے لئے حلال نہیں کہ وہ اپنے شوہر کی موجودگی میں روزے رکھے مگر شوہر کی اجازت سے یعنی کسی عورت کے لئے نفلی روزہ رکھنا شوہر کی اجازت کے بغیر حلال نہیں ۔
عورت کے دل میں شوہر کے پیسے کا درد ہو: عورت کے دل میں شوہر کے پیسے کا درد ہونا چاہئے تاکہ شوہر کا پیسہ فضول خرچی میں خرچ نہ ہو۔ گھر کو نوکرانیوں پر نہیں چھوڑنا چاہئے کہ وہ جس طرح چاہیں کرتی رہیں بلکہ عورت کی ذمہ داری ہے کہ وہ گھر کے داخلی تمام امور پر نگاہ رکھے۔
چند مشترکہ حقوق اور ذمہ داریاں:
حتی الامکان خوشی وراحت وسکون کو حاصل کرنے اور رنج وغم کو دور کرنے کے لئے ایک دوسرے کا تعاون کرنا چاہئے۔
ایک دوسرے کے راز لوگوں کے سامنے ذکر نہ کئے جائیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: قیامت کے دن اللہ کی نظروں میں سب سے بدبخت انسان وہ ہوگا جو میاں بیوی کے آپسی راز کو دوسروں کے سامنے بیان کرے۔ (مسلم)
شوہر باہر کے کام اور بیوی گھریلوکام انجام دے:
قرآن وسنت میں واضح طور پر ایسا کوئی قطعی اصول نہیں ملتا جس کی بنیاد پر کہا جائے کہ کھانا پکانا عورتوں کے ذمہ ہے، البتہ حضرت فاطمہ ؓ کی شادی کے بعد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علیؓ اور حضرت فاطمہؓ کے درمیان کام کی جو تقسیم کی وہ اس طرح تھی کہ باہر کے کام حضرت علیؓ دیکھتے تھے، گھریلو کام مثلاً کھانا بنانا، گھر کی صفائی کرنا وغیرہ حضرت فاطمہؓ کے ذمہ تھا۔ لیکن یاد رکھیں کہ زندگی قانونی پیجیدگیوں سے نہیں چلا کرتی، لہذا جس طرح قرآن وحدیث میں مذکور نہیں ہے کہ کھانا پکانا عورت کے ذمہ ہے اسی طرح قرآن وسنت میں کہیں واضح طور پر یہ موجود نہیں ہے کہ شوہر کے ذمہ بیوی کا علاج کرانا لازم ہے، اسی طرح قرآن وسنت میں مرد کے ذمہ نہیں ہے کہ وہ بیوی کو اس کے والدین کے گھر ملاقات کے لئے لے جایا کرے۔ اسی طرح اگر بیوی کے والدین یا بھائی بہن اس کے گھر آئیں تو مرد کے ذمہ نہیں ہے کہ مرغ مسلم وکوفتے وکباب وغیرہ لے کر آئے۔ معلوم ہوا کہ دونوں ایک دوسرے کی خدمت کے جزبہ سے رہیں۔ باہر کے کام مرد انجام دے اور عورت گھر کے معاملات کو بخوبی انجام دے۔
میاں بیوی کی مشترکہ ذمہ داریوں میں سے ایک اہم ذمہ داری یہ ہے کہ دونوں ایک دوسرے کی جنسی ضرورت کو پورا کریں۔ حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جب مرد اپنی بیوی کو اپنی طرف بلائے (یہ میاں بیوی کے مخصوص تعلقات سے کنایہ ہے کہ شوہر اپنی بیوی کو ان تعلقات کو قائم کرنے کے لئے بلائے) اور وہ عورت نہ آئے یا ایسا طرز اختیار کرے کہ جس سے شوہر کا وہ منشا پورا نہ ہو اور اس کی وجہ سے شوہر ناراض ہوجائے تو ساری رات صبح تک فرشتے اس عورت پر لعنت بھیجتے رہتے ہیں، یعنی اس عورت پر خدا کی لعنت ہو اور لعنت کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت اس کو حاصل نہیں ہوگی۔ (بخاری ومسلم)
جنسی خواہشات کی تکمیل پر اجروثواب: حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میاں بیوی کے جو باہمی تعلقات ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ ان پر بھی اجر عطا فرمائے گا۔ صحابۂ کرام نے سوال کیا : یا رسول اللہ! وہ انسان اپنی نفسانی خواہشات کے تحت کرتا ہے، اس پر کیا اجر؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر وہ نفسانی خواہش کو ناجائز طریقے سے پورا کرتا ہے تو اس پر گناہ ہوتا ہے یا نہیں؟ صحابۂ کرام نے عرض کیا یا رسول اللہ! گناہ ضرور ہوتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: چونکہ میاں بیوی ناجائز طریقہ کو چھوڑکر جائز طریقے سے نفسانی خواہشات کو اللہ کے حکم کی وجہ سے کررہے ہیں، اس لئے اس پر بھی ثواب ہوگا۔ (مسند احمد ج ۵ ص ۱۶۹۱۶۷)
اپنے اہل وعیال کو جہنم کی آگ سے بچانے کے لئے مشترکہ فکر وکوشش:
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: اے ایمان والوں تم اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان ہیں اور پتھر، جس پر سخت دل مضبوط فرشتے مقرر ہیں جنہیں جو حکم اللہ تعالیٰ دیتا ہے اس کی نافرمانی نہیں کرتے بلکہ جو حکم دیا جائے بجالاتے ہیں۔ (سورۂ التحریم ۶)
جب مذکورہ آیت نازل ہوئی تو حضرت عمر فاروق ؓ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں تشریف لائے اور فرمایا کہ ہم اپنے آپ کو تو جہنم کی آگ سے بچاسکتے ہیں مگر گھر والوں کا کیا کریں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تم ان کو برائیوں سے روکتے رہو اور اچھائیوں کا حکم کرتے رہو، ان شاء اللہ یہ عمل ان کو جہنم کی آگ سے بچانے والا بنے گا۔
وراثت میں شرکت:
دونوں میں سے کسی ایک کے انتقال ہونے پر دوسرا اسکی وراثت میں شریک ہوگا۔
شوہر اور بیوی کی وراثت میں چار شکلیں بنتی ہیں۔ (سورۂ النساء ۱۲)
بیوی کے انتقال پر اولاد موجود نہ ہونے کی صورت میں شوہر کو 1/2ملے گا۔
بیوی کے انتقال پر اولاد موجود ہونے کی صورت میں شوہر کو 1/4ملے گا۔
شوہر کے انتقال پر اولاد موجود نہ ہونے کی صورت میں بیوی کو 1/4ملے گا۔
شوہر کے انتقال پر اولاد موجود ہونے کی صورت میں بیوی کو 1/8ملے گا۔
محمد نجیب سنبھلی قاسمی، ریاض

اسلام اور ضبط ولادت (Birth Control in Islam)
بسم الله الرحمن الرحيم
اَلْحَمْدُ لِله رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلام عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔
اسلام اور ضبط ولادت (Birth Control in Islam)
قرآن وحدیث کی روشنی میں مسئلہ ضبط ولادت (Birth Control) پر ایک تفصیلی مضمون انگریزی میں تحریر کرچکا ہوں ، مگر بعض شک وشبہات کو دور کرنے کے لئے چند سطریں مزید تحریر کررہاہوں۔ اللہ تعالیٰ قرآن وحدیث کی روشنی میں مسئلہ ضبط ولادت کو سمجھنے والا بنائے۔
اسلام کے ابتدائی دور سے لے کر آج تک تمام مفسرین، محدثین، فقہاء ، دانشور اور علماء اس بات پر متفق ہیں کہ اگر میاں بیوی دو یا تین سے زیادہ بچے رکھنے کی خواہش رکھتے ہیں تو ان کو ایک یا دو بچے رکھنے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا ہے، کیونکہ حضور اکرم اکے فرمان کے مطابق اولاد کی کثرت مطلوب ہے،جیساکہ انگریزی کے مضمون میں مکمل حوالوں کے ساتھ احادیث تحریر کرچکا ہوں اور ان احادیث کے صحیح ہونے پر تقریباً تمام ہی مکاتب فکر کے علماء متفق ہیں، نیز نبی اکرم ا سے کسی ایک موقع پر بھی بچوں کو کم پیدا کرنے کی کوئی ترغیب دور دور تک کہیں نہیں ملتی حالانکہ نبی اکرم ااپنی امت کے لئے بہت زیادہ شفیق اور رحم کرنے والے تھے، بلکہ آپ انے اپنے عمل سے بھی امت مسلمہ کو زیادہ بچے کرنے کی ترغیب دی کہ آپ اکی چار لڑکیاں اور تین لڑکے پیدا ہوئے۔ آپ اکے سامنے صحابہ کرام کی ایک بڑی جماعت کے آپ اسے بھی زیادہ بچے پیدا ہوئے لیکن آپ انے کسی ایک صحابی کو ایک مرتبہ بھی یہ نہیں کہا کہ اب بس کرو، اور ان ہی کی تربیت کرلو، حالانکہ رسول اللہ اکی بعثت کا اصل وبنیادی مقصد لوگوں کی تربیت ہی تھا۔ معلوم ہوا کہ کثرت اولاد بچوں کی بہترین تربیت سے مانع نہیں ہے، اگر ہے تو حضور اکرم انے صحابہ کرام کو کثرت اولاد سے کیوں نہیں روکا؟ حضور اکرم اکی زندگی نہ صرف صحابہ کرام کے لئے موڈل ہے بلکہ قیامت تک آنے والے تمام انسانوں کے لئے بہترین اسوہ (نمونہ) ہے۔
ایک مغالطہ کا ازالہ: اس زمانے میں ضبط ولادت پر زیادہ تر عمل شہروں میں اور مالداروں میں ہورہا ہے، جس سے ان کے بچے بظاہر خوشحال نظر آتے ہیں جس کو دیکھ کر مغربی تہذیب سے متاثر لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ کم بچوں کے ہونے کا نتیجہ ہے، حالانکہ یہ ضبط ولادت کا نتیجہ نہیں بلکہ وہ تو پہلے سے ہی خوشحال تھے۔ اگر کم اولاد کی وجہ سے خوشحالی آئی ہوتی تو دیہات میں کسی غریب شخص کے ایک یا دو بچے ہونے کی صورت میں اس شخص کی زندگی کا معیار ان شہر والوں اور مالداروں کی طرح یا ان سے زیادہ بہتر ہوجاتا جن کے دو سے زیادہ بچے ہیں، حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ معلوم ہوا کہ کم بچے خوشحالی کا یقینی ذریعہ نہیں ہے۔
اسلام میں بہترین تربیت کا یہ مطلب نہیں ہے کہ لڑکا ڈاکٹر یا انجینئر بن جائے خواہ وہ اسلام کی بنیادی تعلیم سے واقف ہو یا نہ ہو۔ اسلامی تربیت کے لئے اسلام کے بنیادی احکام سے واقفیت اور اس پر عمل کرنا ضروری ہے خواہ وہ ڈاکٹر ہو یا انجینئر ، کسی یونیورسٹی کا پروفیسر ہو یا کسی دیہات میں قاعدہ بغدادی پڑھانے والا ، بڑا تاجر ہو یا سبزی فروش۔
ضبط ولادت (Birth Control) کے سلسلہ میں زمانۂ قدیم سے علماء، فقہاء اور مفکرین کی تین رائے چلی آرہی ہیں:
ضبط ولادت کی بالکل اجازت نہیں ہے۔ اس کی دلیل کے لئے سورہ انعام کی ۱۵۱ ویں آیت پیش کی جاتی ہے۔
ضبط ولادت کی گنجائش ہے، یعنی اگر کوئی شخص مانع حمل کے اسباب اختیار کرنا چاہے تو جائز ہے، کیونکہ حضور اکرم ا نے بعض صحابہ کرام کوعزل کرنے (ضبط ولادت کا ایک طریقہ) سے منع نہیں فرمایا۔ (بخاری)
ضبط ولادت مفلسی کے ڈر سے حرام ہے یعنی یہ سوچ کر کہ ہمارے بچوں کو کون کھلائے گا۔ ۔۔ لیکن دیگر صورتوں میں جائز ہے۔
نوٹ: Abortion کی اجازت نہیں ہے۔ ہاں اگر ماں کی جان کو خطرہ ہوجائے تب Abortionکرایا جاسکتا ہے۔
ضبط ولادت کی تحریک کی ابتداء ۱۷۹۸ میں یورپ کے مشہور ماہر معاشیات مالتھوس (Malthus) نے شروع کی تھی۔جس کے غلط نتائج سامنے آئے اور آرہے ہیں جس کا تفصیلی تجزیہ مولانا مودودی ؒ نے اپنی کتاب (اسلام اور ضبط ولادت ) میں کیا ہے۔ جس کا اعتراف خود مستشرقین نے کیا ہے اور کر رہے ہیں۔
مولانا مودودی ؒ نے اس ۱۵۹ صفحات پر مشتمل کتاب کے ذریعہ امت مسلمہ کو یہی دعوت دی ہے کہ ضبط ولادت (Birth Control) مغربی تہذیب کی دین ہے، اور ضبط ولادت کی موجودہ شکل اسلامی روح کے خلاف ہے۔
آج سے تقریباً ۲۵ سال پہلے تک ہمارے معاشرہ میں ضبط ولادت پر کوئی خاص عمل نہیں تھا۔ اب ہمارے معاشرہ میں خاص کر شہروں میں اس کا رواج شروع ہوگیا ہے، حتی کہ مغرب سے متاثر بعض لوگ رسول اکرم ا کی خواہش کے برخلاف زیادہ بچے پیدا کرنے کو غلط قرار دینے لگے ہیں، او ر اس کے لئے ایسے ایسے عقلی دلائل پیش کرتے ہیں کہ معلوم ہوتا ہے کہ اب تک سارے انسان ایک بڑی غلطی کے مرتکب تھے۔
خلاصہ کلام: آپ کے لئے شرعاً اجازت ہے کہ آپ وقتی طور پر مانع حمل کے اسباب اختیار کرکے دو یا تین بچوں پر اس سلسلہ کو موقوف کرسکتے ہیں۔ مگر کوئی شخص زیادہ بچے رکھنا چاہے تو آپ اسے حقارت کی نگاہ سے نہیں بلکہ عزت کی نگاہوں سے دیکھیں۔
محمد نجیب قاسمی، ریاض (najeebqasmi@yahoo.com)

بیٹی اللہ کی رحمت
بسم الله الرحمن الرحيم
اَلْحَمْدُ لِله رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلام عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔
بیٹی اللہ کی رحمت
اللہ تعالیٰ نے اپنے پاک کلام قرآن کریم میں ارشاد فرمایا :آسمانوں اور زمین کی سلطنت وبادشاہت صرف اللہ ہی کے لئے ہے۔ وہ جو چاہے پیدا کرتا ہے ۔ جس کو چاہتا ہے بیٹیاں دیتا ہے۔ اور جسے چاہتا ہے بیٹے دیتا ہے۔ اور جس کو چاہتا ہے بیٹے اور بیٹیاں دنوں عطا کردیتا ہے۔ اور جس کو چاہتا ہے بانجھ کردیتا ہے۔۔۔۔۔۔ اس کے ہاں نہ لڑکا پیدا ہوتا ہے اور نہ لڑکی پیدا ہوتی ہے، لاکھ کوشش کرے مگر اولاد نہیں ہوتی ہے۔ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی حکمت اور مصلحت پر مبنی ہے۔ جس کے لئے جو مناسب سمجھتا ہے وہ اس کو عطا فرمادیتا ہے۔ (سورہ الشوریٰ ۴۹ ۔ ۵۰)لڑکیاں اور لڑکے دونوں اللہ کی نعمت ہیں۔ لڑکے اور لڑکیوں دونوں کی ضرورت ہے۔ عورتیں مرد کی محتاج ہیں، اور مرد عورتوں کے محتاج ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت بالغہ سے دنیا میں ایسا نظام قائم کیا ہے کہ جس میں دونوں کی ضرورت ہے اور دونوں ایک دوسرے کے محتاج ہیں۔
اللہ کی اِس حکمت اور مصلحت کی روشنی میں جب ہم اپنا جائزہ لیتے ہیں تو ہم میں سے بعض احباب ایسے نظر آئیں گے کہ جن کے یہاں لڑکے کی بڑی آرزوئیں اور تمنائیں کی جاتی ہیں، جب لڑکا پیدا ہوتا ہے تو اس وقت بہت خوشی کا اظہار کیا جاتا ہے۔ اور اگر لڑکی پیدا ہوجائے تو خوشی کا اظہار نہیں کیا جاتا ہے، بلکہ بعض اوقات بچی کی پیدائش پر شوہر اپنی بیوی پر، اسی طرح گھر کے دیگر افراد عورت پر ناراض ہوتے ہیں، حالانکہ اس میں عورت کا کوئی قصور نہیں ہے ۔ یہ سب کچھ اللہ کی عطا ہے۔ کسی کو ذرہ برابر بھی اعتراض کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ یاد رکھیں کہ لڑکیوں کو کم تر سمجھنا زمانۂ جاہلیت کے کافروں کا عمل تھا، جیساکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ذکر فرمایا ہے۔ (ان میں سے جب کسی کو لڑکی ہونے کی خبر دی جائے تو اس کا چہرہ سیاہ ہوجاتا ہے اور دل ہی دل میں گھٹنے لگتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خوب سن لو کہ وہ (کفار مکہ) بہت برا فیصلہ کرتے ہیں)۔ (سورۂ النحل ۵۸۔۵۹) لہذا ہمیں بیٹی کے پیدا ہونے پر بھی یقیناًخوشی ومسرت کا اظہار کرنا چاہئے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیٹیوں کی پرورش پر جتنے فضائل بیان فرمائے ہیں ، بیٹے کی پرورش پر اس قدر بیان نہیں فرمائے ۔
لڑکیوں کی پرورش کے فضائل سے متعلق چند احادیث :
حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس شخص کی تین بیٹیاں یا تین بہنیں ہوں، یا دو بیٹیاں یا دو بہنیں ہوں، اور وہ ان کے ساتھ بہت اچھے طریقے سے زندگی گزارے (یعنی ان کے جو حقوق شریعت نے مقرر فرمائے ہیں وہ ادا کرے، ان کے ساتھ احسان اور سلوک کا معاملہ کرے، ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرے) اور ان کے حقوق کی ادائیگی کے سلسلہ میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتا رہے تو اللہ تعالیٰ اس کی بدولت اس کو جنت میں داخل فرمائیں گے۔ (ترمذی ۔ باب ما جاء فی النفقہ علی البنات)
اسی مضمون کی حدیث حضرت ابو ہریرہ ؓ سے بھی مروی ہے مگر اس میں اتنا اضافہ ہے کہ آپ اکے ارشاد فرمانے پر کسی نے سوال کیا کہ اگر کسی کی ایک بیٹی ہو (تو کیا وہ اس ثواب عظیم سے محروم رہے گا؟) آپ ا نے ارشاد فرمایا: جو شخص ایک بیٹی کی اسی طرح پرورش کرے گا، اس کے لئے بھی جنت ہے ۔ (اتحاف السادۃ المتقین)
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ حضور اکرم ا نے ارشاد فرمایا: جس شخص پر لڑکیوں کی پرورش اور دیکھ بھال کی ذمہ داری ہو اور وہ اس کو صبر وتحمل سے انجام دے تو یہ لڑکیاں اس کے لئے جہنم سے آڑ بن جائیں گی۔ (ترمذی)
حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس شخص کی دو یا تین بیٹیاں ہوں اور وہ ان کی اچھے انداز سے پرورش کرے (اور جب شادی کے قابل ہوجائیں تو ان کی شادی کردے) تو میں اور وہ شخص جنت میں اس طرح داخل ہونگے جس طرح یہ دونوں انگلیاں ملی ہوئی ہیں۔ (ترمذی ۔ باب ما جاء فی النفقہ علی البنات)
حضرت عائشہؓ سے ایک قصہ منقول ہے ، وہ فرماتی ہیں کہ ایک خاتون میرے پاس آئی جس کے ساتھ اس کی دو لڑکیاں تھیں، اس خاتون نے مجھ سے کچھ سوال کیا، اس وقت میرے پاس سوائے ایک کھجور کے اور کچھ نہیں تھا ، وہ کھجور میں نے اس عورت کو دیدی، اس اللہ کی بندی نے اس کھجور کے دو ٹکڑے کئے اور ایک ایک ٹکڑا دونوں بچیوں کے ہاتھ پر رکھ دیا، خود کچھ نہیں کھایا، حالانکہ خود اسے بھی ضرورت تھی، اس کے بعد وہ خاتون بچیوں کو لے کر چلی گئی۔ تھوڑی دیر کے بعد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو میں نے اس خاتون کے آنے اور ایک کھجور کے دو ٹکڑے کرکے بچیوں کو دینے کا پورا واقعہ سنایا۔ آپ نے ارشاد فرمایا: جس کو دو بچیوں کی پرورش کرنے کا موقع ملے اور وہ ان کے ساتھ شفقت کا معاملہ کرے تو وہ بچیاں اس کو جہنم سے بچانے کے لئے آڑ بن جائیں گی۔ (ترمذی)
وضاحت: مذکورہ احادیث سے معلوم ہوا کہ لڑکیوں کی شریعت اسلامیہ کے مطابق تعلیم وتربیت اور پھر ان کی شادی کرنے پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے تین فضیلتیں حاصل ہوں گی:
جہنم سے چھٹکارا۔
جنت میں داخلہ۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جنت میں ہمراہی۔
قرآن کی آیات ودیگر احادیث کی روشنی میں یہ بات بڑے وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ شریعتِ اسلامیہ کے مطابق اولاد کی بہتر تعلیم وتربیت وہی کرسکتا ہے جو اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہو، جیسا کہ پہلی حدیث میں گزرا (ان کے حقوق کی ادائیگی کے سلسلہ میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتا رہے )۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا طرزِ عمل:
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی چار بیٹیاں تھیں : حضرت فاطمہؓ ، حضرت زینبؓ ، حضرت رقیہؓ ، اور حضرت ام کلثومؓ ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی چاروں بیٹیوں سے بہت محبت فرماتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تین بیٹیوں کا انتقال آپ کی زندگی میں ہی ہوگیا تھا، حضرت فاطمہؓ کا انتقال آپ اکے انتقال کے چھ ماہ بعد ہوا۔ آپ ا کی چاروں بیٹیاں جنت البقیع میں مدفون ہیں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت فاطمہؓ کے ساتھ بہت ہی شفقت اور محبت کا معاملہ فرمایا کرتے تھے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب سفر میں تشریف لے جاتے تو سب سے آخر میں حضرت فاطمہؓ سے ملتے، اور جب سفر سے واپس تشریف لاتے تو سب سے پہلے حضرت فاطمہؓ کے پاس تشریف لے جاتے۔
مسئلہ: جہاں تک محبت کا تعلق ہے، اس کا تعلق دل سے ہے اور اس میں انسان کو اختیار نہیں ہے، اس لئے اس میں انسان برابری کرنے کا مکلف نہیں ہے۔ یعنی کسی ایک بچہ یا بچی سے محبت زیادہ کرسکتا ہے۔ مگر اس محبت کا بہت زیادہ اظہار کرنا کہ جس سے دوسرے بچوں کو احساس ہو ، منع ہے۔
مسئلہ: اولاد کو ہدیہ اور تحفہ دینے میں برابری ضروری ہے۔ لہذا ماں باپ اپنی زندگی میں اولاد کے درمیان اگر پیسے یا کپڑا یا کھانے پینے کی کوئی چیز تقسیم کریں تو اس میں برابری ضروری ہے۔ اور لڑکی کو بھی اتنا ہی دیں جتنا لڑکے کو دیں۔ شریعت کا یہ حکم کہ لڑکی کا لڑکے کے مقابلے میں آدھا حصہ ہے، یہ حکم باپ کے انتقال کے بعد اس کی میراث میں ہے۔ زندگی کا قاعدہ یہ ہے کہ لڑکی اور لڑکے دونوں کو برابر دیا جائے۔
مسئلہ: اگر ماں باپ کو ضرورت کے موقع پر اولاد میں کسی ایک پر کچھ زیادہ خرچ کرنا پڑے، تو کوئی حرج نہیں ہے، مثلاً بیماری، تعلیم اور اسی طرح کوئی دوسری ضرورت ہو تو خرچ کرنے میں کمی بیشی کرنے میں کوئی گناہ اور پکڑ نہیں ہے۔ لہذا حسب ضرورت کمی بیشی ہوجائے تو کوئی مضائقہ نہیں۔
مسئلہ: بیٹی کی شادی کے بعد بھی بیٹی کا حق میراث ختم نہیں ہوتا ہے۔ یعنی باپ کے انتقال کے بعد وہ بھی باپ کی جائیداد میں شریک رہتی ہے۔
محمد نجیب قاسمی، ریاض

بچے کی پیدائش کے وقت کان میں اذان اور اقامت
بسم الله الرحمن الرحيم
اَلْحَمْدُ لِله رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلام عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔
بچے کی پیدائش کے وقت کان میں اذان اور اقامت
شریعت اسلامیہ نے بچے کی پیدائش کے وقت جن احکام شرعیہ سے امت مسلمہ کو آگاہ کیا ہے ان میں سے ایک ولادت کے فوراً بعد بچے کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہنا ہے۔
حضرت ابورافع ؓ فرماتے ہیں : جب حضرت حسن بن علی ؓ کی پیدائش ہوئی تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حسن بن علی ؓ کے کان میں اذان کہی ۔ (ترمذی، ابوداؤد)
حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ فرماتے ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حسن بن علی ؓ کی پیدائش کے وقت ان کے دائیں کانمیں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہی۔ (بیہقی)
حضرت حسن بن علی ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : بچے کی پیدائش کے وقت دائیں کان میں اذان اور بائیںکان میں اقامت کہی جائے تو ام صبیان سے حفاظت ہوتی ہے۔ (بیہقی)
ام صبیان سے مراد ایک ہوا ہے جس سے بچے کو ضرر پہونچ سکتا ہے۔ بعض حضرات نے اس سے مراد جن لیا ہے اور کہا ہے
کہ بچے کے کان میں اذان اور اقامت کہنے پر اللہ تعالیٰ کے حکم سے اس سے حفاظت ہوجاتی ہے۔
اذان اور اقامت کہنے کی بعض حکمتیں:
ولادت کے وقت اذان کہنے کا ایک فائدہ یہ ہے کہ بچے کے کانوں میں سب سے پہلے اس ذات اقدس کا نام نامی داخل ہوتا ہے
جس نے ایک حقیر قطرہ سے ایک ایسا خوبصورت انسان بنادیا ،جسے اشرف المخلوقات کہا جاتا ہے۔
احادیث (بخاری ومسلم) میں آتا ہے کہ اذان اور اقامت کے کلمات سن کر شیطان دور بھاگتا ہے۔ چونکہ بچے کی پیدائش کے وقتشیطان بھی گھات لگاکر بیٹھتا ہے تو اذان اور اقامت کی آواز سنتے ہی اس کے اثر میں کمی واقع ہوتی ہے۔
دنیا دار الامتحان ہے اس لئے یہاں آتے ہی بچے کو سب سے پہلے دین اسلام اور عبادت الہی کا درس دیا جاتا ہے۔
نوٹ: بچے کے کان میں اذان اور اقامت کہنے کے متعلق روایات میں ضعف ضرور موجود ہے لیکن متعدد شواہد کی بنا پر ان احادیث کو تقویت مل جاتی ہے۔ نیز ابتدا سے ہی امت مسلمہ کا عمل اس پر رہا ہے۔ امام ترمذی ؒ نے حدیث کو صحیح قرار دیکر فرمایا کہ امت مسلمہ کا عمل بھی اس پر چلا آرہا ہے۔ لہذا معلوم ہوا کہ ہمیں بچے کی پیدائش کے وقت حتی الامکان دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت ضرور کہنی چاہئے جیساکہ علامہ ابن القیم ؒ نے پنی مشہور ومعروف کتاب “تحفۃ الودود فی احکام المولود” میں تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ نیز شیخ عبد العزیز بن باز ؒ ودیگر علماء کرام نے تحریر فرمایا ہے۔
مسئلہ: اگر کسی بچے کی ولادت کے وقت اذان اور اقامت کے کلمات نہیں کہے گئے تو بعد میں بھی یہ کلمات کہے جاسکتے ہیں، لیکن اگر زیادہ ہی عرصہ گزر گیا تو پھر اذان اور اقامت کے کلمات کہنے کی ضرورت نہیں۔ طالب دعا:
محمد نجیب قاسمی

عقیقہ کے مسائل
بسم الله الرحمن الرحيم
اَلْحَمْدُ لِله رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلام عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔
عقیقہ کے مسائل
عقیقہ کے لغوی معنی کاٹنے کے ہیں۔ شرعی اصطلاح میں نومولود بچہ / بچی کی جانب سے اسکی پیدائش کے ساتویں دن جو خون بہایا جاتاہے اسے عقیقہ کہتے ہیں۔ عقیقہ کرنا سنت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام سے صحیح اور متواتر احادیث سے ثابت ہے۔
اس کے چند اہم فوائد یہ ہیں:
زندگی کی ابتدائی سانسوں میں نومولود بچہ / بچی کے نام سے خون بہاکر اللہ تعالیٰ سے اس کا تقرب حاصل کیا جاتا ہے۔
یہ اسلامی Vaccination ہے، جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے بعض پریشانیوں، آفتوں اور بیماریوں سے راحت مل جاتی ہے۔ (ہمیں دنیاویVaccinations کے ساتھ اس Vaccination کا بھی اہتمام کرنا چاہئے)۔
بچہ/ بچی کی پیدائش پر جو اللہ تعالیٰ کی ایک عظیم نعمت ہے، خوشی کا اظہار ہوجاتا ہے۔
* بچہ / بچی کا عقیقہ کرنے پر کل قیامت کے دن باپ بچہ / بچی کی شفاعت کا مستحق بن جائے گا، جیسا کہ حدیث نمبر ۲ میں ہے۔
عقیقہ کی دعوت سے رشتے دار، دوست واحباب اور دیگر متعلقین کے درمیان تعلق بڑھتا ہے جس سے ان کے درمیان محبتوالفت پیدا ہوتی ہے۔
عقیقہ کے متعلق چند احادیث:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بچہ / بچی کے لئے عقیقہ ہے، اس کی جانب سے تم خون بہاؤ، اور اس سے گندگی (سرکے بال) کو دور کرو (بخاری)۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ہر بچہ / بچی اپنا عقیقہ ہونے تک گروی ہے۔ اس کی جانب سے ساتویں دن جانور ذبحکیا جائے، اس دن اس کا نام رکھا جائے اور سرمنڈوایا جائے (ترمذی، ابن ماجہ ، نسائی، مسند احمد)۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان : کل غلام مرتہن بعقیقتہ کی شرح علماء نے بیان کی ہے کہ کل قیامت کے دن بچہ /بچی کو باپ کے لئے شفاعت کرنے سے روک دیا جائے گا، اگر باپ نے استطاعت کے باوجود بچہ / بچی کا عقیقہ نہیںکیاہے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حتی الامکان بچہ / بچی کا عقیقہ کرنا چاہئے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: لڑکے کی جانب سے دو بکریاں اور لڑکی کی جانب سے ایک بکری ہے (ترمذی ،مسند احمد)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: لڑکے کی جانب سے دو بکرے اور لڑکی کی جانب سے ایک بکرا ہے ۔ عقیقہ کے جانورمذکر ہوں یا مؤنث ، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یعنی بکرا یا بکری جو چاہیں ذبح کردیں۔ (ترمذی ،مسند احمد)۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے نواسے حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ کا عقیقہ ساتویں دن کیا، اسی دن ان کانام رکھا اور حکم دیاکہ ان کے سروں کے بال مونڈھ دئے جائیں (ابو داؤد)۔
ان مذکورہ ودیگر احادیث کی روشنی میں علماء کرام فرماتے ہیں کہ بچہ /بچی کی پیدائش کے ساتویں دن عقیقہ کرنا، بال منڈوانا، نام رکھنا اورختنہ کرانا سنت ہے۔ لہذا باپ کی ذمہ داری ہے کہ اگر وہ اپنے نومولود بچہ /بچی کا عقیقہ کرسکتا ہے تو اسے چاہئے کہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس سنت کو ضرور زندہ کرے تاکہ عند اللہ اجرعظیم کا مستحق بنے، نومولود بچہ /بچی کو اللہ کے حکم سے بعض آفتوں اور بیماریوں سے راحت مل سکے، نیز کل قیامت کے دن بچہ / بچی کی شفاعت کا مستحق بن سکے۔
کیا ساتویں دن عقیقہ کرنا شرط ہے؟
عقیقہ کرنے کے لئے ساتویں دن کا اختیار کرنا مستحب ہے۔ ساتویں دن کو اختیار کرنے کی اہم وجہ یہ ہے کہ زمانہ کے ساتوں دن بچہ / بچی پر گزر جاتے ہیں۔ لیکن اگر ساتویں دن ممکن نہ ہو توساتویں دن کی رعایت کرتے ہوئے چودھویں یا اکیسویں دن کرنا چاہئے، جیسا کہ حضرت عائشہ ؓ کا فرمان احادیث کی کتابوں میں موجود ہے۔ اگر کوئی شخص ساتویں دن کے بجائے چوتھے یا آٹھویں یا دسویں دن یا اس کے بعد کبھی بھی عقیقہ کرے تو یقیناًعقیقہ کی سنت ادا ہوجائے گی، اس کے فوائد انشاء اللہ حاصل ہوجائیں گے، اگرچہ عقیقہ کا مستحب وقت چھوٹ گیا۔
کیا بچہ / بچی کے عقیقہ میں کوئی فرق ہے؟
بچہ / بچی دونوں کا عقیقہ کرنا سنت ہے، البتہ احادیث کی روشنی میں صرف ایک فرق ہے وہ یہ ہے کہ بچہ کے عقیقہ کے لئے دو اور بچی کے عقیقہ کے لئے ایک بکرا / بکری ضروری ہے۔ لیکن اگر کسی شخص کے پاس بچہ کے عقیقہ کے لئے دو بکرے ذبح کرنے کی استطاعت نہیں ہے تو وہ ایک بکراسے بھی عقیقہ کرسکتا ہے ، جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن عباسؓ کے روایت ابوداؤد میں موجود ہے۔
بچہ / بچی کے عقیقہ میں فرق کیوں رکھا گیا؟
اسلام نے عورتوں کومعاشرہ میں ایک ایسا اہم اور باوقار مقام دیا ہے جو کسی بھی سماوی یا خود ساختہ مذہب میں نہیں ملتا ، لیکن پھر بھی قرآن کی آیات (وَلِلرِّجَالِ عَلَےْہِنَّ دَرَجَۃ) (سورہ البقرۃ ۲۳۸) (الرِّجَالُ قَوَّامُوْنَ عَلَی النِّسَاءِ) (سورہ النساء ۳۴) واحادیث شریفہ کی روشنی میں یہ بات بڑے وثوق کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس دنیا کے نظام کو چلانے کے لئے مردوں کو عورتوں پر کسی درجہ میں فوقیت دی ہے،جیسا کہ دنیا کے وجود سے لے کر آج تک ہر قوم میں اور ہر جگہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ مثلاً حمل وولادت کی تمام تر تکلیفیں اور مصیبتیں صرف عورت ہی جھیلتی ہے۔ لہذاشریعت اسلامیہ نے بچہ کے عقیقہ کے لئے دو اور بچی کے عقیقہ کے لئے ایک خون بہانے کا جو حکم دیا ہے ، اس کی حقیقت خالق کائنات ہی بہتر جانتا ہے۔
عقیقہ میں بکرا / بکری کے علاوہ دیگر جانور مثلاً اونٹ گائے وغیرہ کو ذبح کیا جاسکتا ہے؟
اس بارے میں علماء کا اختلاف ہے ، مگر تحقیقی بات یہ ہے کہ حدیث نمبر (۱ اور ۲) کی روشنی میں بکرا/ بکری کے علاوہ اونٹ گائے کو بھی عقیقہ میں ذبح کرسکتے ہیں، کیونکہ اس حدیث میں عقیقہ میں خون بہانے کے لئے نبی اکرم ا نے بکرا / بکری کی کوئی شرط نہیں رکھی،لہذااونٹ گائے کی قربانی دے کر بھی عقیقہ کیا جاسکتا ہے ۔ نیز عقیقہ کے جانور کی عمر وغیرہ کے لئے تمام علماء نے عیدالاضحی کی قربانی کے جانور کے شرائط تسلیم کئے ہیں۔
کیا اونٹ گائے وغیرہ کے حصہ میں عقیقہ کیا جاسکتا ہے؟
اگر کوئی شخص اپنے ۲ لڑکوں اور ۲ لڑکیوں کا عقیقہ ایک گائے کی قربانی میں کرنا چاہے، یعنی قربانی کی طرح حصوں میں عقیقہ کرنا چاہے ، تو اس کے جواز سے متعلق علماء کا اختلاف ہے، ہمارے علماء نے قربانی پر قیاس کرکے اس کی اجازت دی ہے، البتہ احتیاط اسی میں ہے کہ اس طریقہ پر عقیقہ نہ کیا جائے بلکہ ہر بچہ / بچی کی طرف سے کم از کم ایک خون بہایا جائے۔
کیا عقیقہ کے گوشت کی ہڈیاں توڑکر کھا سکتے ہیں؟
بعض احادیث اور تابعین کے اقوال کی روشنی میں بعض علماء کرام نے لکھا ہے کہ عقیقہ کے گوشت کے احترام کے لئے جانور کی ہڈیاں جوڑوں ہی سے کاٹ کر الگ کرنی چاہئیں۔ لیکن شریعت اسلامیہ نے اس موضوع سے متعلق کوئی ایسا اصول وضابطہ نہیں بنایا ہے کہ جس کے خلاف عمل نہیں کیا جاسکتاہے ، کیونکہ یہ احادیث اور تابعین کے اقوال بہتر وافضل عمل کو ذکر کرنے کے متعلق ہیں۔ لہذا اگر آپ ہڈیاں توڑکر بھی گوشت بناکر کھانا چاہیں تو کوئی حرج نہیں ہے۔ یاد رکھیں کہ ہندوستان اور پاکستان میں عموماً گوشت چھوٹا چھوٹا کرکے یعنی ہڈیاں توڑکر ہی استعمال کیا جاتا ہے۔
کیا بالغ مرد وعورت کا بھی عقیقہ جا سکتا ہے؟
جس شخص کا عقیقہ بچپن میں نہیں کیا گیا، جیسا کہ عموماً ہندوستان اور پاکستان میں عقیقہ چھوڑکر چھٹی وغیرہ کرنے کا زیادہ اہتمام کیا جاتا ہے، جوکہ غلط ہے۔ لیکن اب بڑی عمر میں اس کا شعور ہورہا ہے تو وہ یقیناًاپنا عقیقہ کرسکتا ہے، کیونکہ بعض روایات سے پتہ چلتا ہے کہ آپ ا نے نبوت ملنے کے بعد اپنا عقیقہ کیا (اخرجہ ابن حزم فی “الحلّی”، والطحاوی فی “المشکل”)۔ نیز احادیث میں کسی بھی جگہ عقیقہ کرنے کے آخری وقت کا ذکر نہیں کیا گیا ہے۔ یہ بات ذہن میں رکھیں کہ بڑی بچی کے سرکے بال منڈوانا جائز نہیں ہے، ایسی صورت میں بال نہ کٹوائیں، کیونکہ بال کٹوائے بغیر بھی عقیقہ کی سنت ادا ہوجائے گی۔
دیگر مسائل:
قربانی کے جانور کی طرح عقیقہ کے جانور کی کھال یا تو غرباء ومساکین کو دے دیں یا اپنے گھریلو استعمال میں لے لیں۔
کھال یا کھال کو فروخت کرکے اسکی قیمت قصائی کو بطور اجرت دینا جائز نہیں ہے۔
قربانی کے گوشت کی طرح عقیقہ کے گوشت کو خود بھی کھاسکتے ہیں اور رشتہ داروں کو بھی کھلاسکتے ہیں۔ اگر قربانی کے گوشت کے ۳ حصے کرلئےجائیں تو بہتر ہے: ایک اپنے لئے ، ایک رشتے داروں کے لئے اور تیسرا حصہ غریبوں کے لئے، لیکن یہ تین حصے کرنا کوئی ضروری نہیں ہے۔
عقیقہ کے گوشت کو پکاکر رشتے داروں کو بلاکر بھی کھلاسکتے ہیں، اور کچا گوشت بھی تقسیم کرسکتے ہیں۔
نوٹ: اگر بچہ / بچی کی پیدائش جمعہ کے روز ہوئی ہے تو ساتواں دن جمعرات ہوگا۔
محمد نجیب قاسمی، ریاض (najeebqasmi@yahoo.com)