سب سے زیادہ جنت میں لے جانے والا عمل تقویٰ

سب سے زیادہ جنت میں لے جانے والا عمل تقویٰ (پرہیزگاری) ہے
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيْم

اَلْحَمْدُ لِلّهِ رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلامُ عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔

سب سے زیادہ جنت میں لے جانے والا عمل تقویٰ (پرہیزگاری) ہے

تقویٰ کے معنی: اپنے آپ کو اپنے رب کی ناراضگی سے بچانا تقویٰ ہے۔ تقویٰ یعنی اللہ کا خوف تمام بھلائیوں کا مجموعہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دنیا کے وجود سے لے کر قیامت تک آنے والے تمام انس وجن کے لئے تقویٰ کی وصیت فرمائی ہے۔ تقویٰ ہی کل قیامت کے دن نجات دلانے والی کشتی ہے۔ تقویٰ مؤمنین کے لئے بہترین لباس اور بہترین زادِ راہ ہے۔ یہ وہ عظیم نعمت ہے، جس سے دل کی بندشیں کھل جاتی ہیں، جو راستے کو روشن کرتی ہے اور اسی کی بدولت گمراہ بھی ہدایت پاجاتا ہے۔ تقویٰ ایک ایسا قیمتی موتی ہے کہ اس کے ذریعہ برائیوں سے بچنا اور نیکیوں کو اختیار کرنا آسان ہوجاتاہے۔ تقویٰ سے متعلق دامادِ رسول حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ایک قول کتابوں میں مذکور ہے کہ تقویٰ دراصل اللہ تعالیٰ سے ڈرنے، شریعت پر عمل کرنے، جو مل جائے اس پر قناعت کرنے اور قیامت کے دن کی تیاری کرنے کا نام ہے۔ تقویٰ کی ایک تعریف، جو صحابی رسول حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دریافت کرنے پر بیان فرمائی تھی، اس طرح ہے: حضرت ابی بن کعبؓ نے اُن سے پوچھا: کیا آپ کبھی کانٹوں والے راستے پر نہیں چلے؟ حضرت عمرؓ نے جواب دیا کیوں نہیں۔ حضرت ابی بن کعبؓ نے پوچھا کہ اُس وقت تمہارا عمل کیا ہوتا ہے؟ حضرت عمر فاروق ؓ نے کہا کہ میں اپنے کپڑے سمیٹ لیتا ہوں اور کوشش کرتا ہوں کہ میرا دامن کانٹوں میں نہ الجھ جائے۔ حضرت ابی بن کعبؓ نے کہا کہ بس یہی تقویٰ ہے۔ (تفسیر ابن کثیر) تقویٰ کا اصل مرکز دل ہے، البتہ اس کا اظہار مختلف اعمال کے ذریعہ ہوتا ہے، جیساکہ نبی اکرمﷺ نے دل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ’’التقویٰ ہاہنا‘‘ تقویٰ یہاں ہے۔ (مسلم) غرضیکہ تقویٰ اصل میں اللہ تعالیٰ سے خوف ورجاء کے ساتھ حضور اکرم ﷺ کے طریقہ کے مطابق ممنوعات سے بچنے اور اوامر پر عمل کرنے کا نام ہے۔

تقویٰ کی اہمیت: اللہ تعالیٰ نے اپنے پاک کلام کی سینکڑوں آیات میں مختلف انداز سے تقویٰ یعنی اللہ سے ڈرنے کا حکم اور اس کی اہمیت وتاکید کو ذکر کیا ہے۔ تقویٰ سے متعلق تمام آیات کا ذکر کرنا اس وقت میں میرے لئے ممکن نہیں ہے، لیکن چند آیات کا ترجمہ پیش کررہا ہوں:اے ایمان والو! دل میں اللہ کا ویسا ہی خوف رکھو جیسا خوف رکھنا اس کا حق ہے۔ (سورۃ آل عمران ۱۰۲) اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو، اور سیدھی سچی بات کہا کرو۔ (سورۃ الاحزاب ۷۰) اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو، اور سچے لوگوں کے ساتھ رہا کرو۔ (سورۃ التوبۃ ۱۱۹) اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو، اور ہر شخص یہ دیکھے کہ اُس نے کل کے لئے کیا آگے بھیجا ہے۔ اور اللہ سے ڈرو۔ (سورۃ الحشر ۱۸) تقویٰ کوئی ایسا عمل نہیں ہے جو صرف اِس امت کے لئے خاص ہو بلکہ دنیا کے وجود سے لے کر آج تک اور قیامت تک آنے والے ہر شخص سے مطلوب ہے کہ وہ اللہ سے ڈر کر زندگی کے ایام گزارے، فرمان الٰہی ہے: ہم نے تم سے پہلے اہل کتاب کوبھی اور تمہیں بھی یہی تاکید کی ہے کہ اللہ سے ڈرو۔ سورۃ النساء ۱۳۱

خالق کائنات نے اپنے حبیب محمد مصطفی ﷺ کو بھی تقویٰ یعنی اللہ سے ڈرنے کا حکم دیا ہے چنانچہ سورۃ الاحزاب آیت نمبر ۱میں ارشاد باری ہے: اے نبی! اللہ سے ڈرتے رہو۔ ذلت کے نقشوں میں عزت دینے والے نے قرآن کریم میں اعلان کردیا کہ اس کے دربار میں مال ودولت اور جاہ ومنصب سے کوئی شخص عزیز نہیں بن سکتا، بلکہ اس کے ہاں عزت کا معیار صرف اللہ کا خوف ہے۔ جو جتنا اللہ تعالیٰ سے ڈرکر یہ فانی دنیاوی زندگی گزارے گا وہ اس کے دربار میں اتنا ہی زیادہ عزت پانے والا ہوگا، چنانچہ فرمان الٰہی ہے: درحقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ شخص ہے جو تم میں سب سے زیادہ متقی ہو۔ سورۃ الحجرات ۱۳

عباداتی، معاملاتی اور معاشرتی زندگی میں چوبیس گھنٹے ہر وقت اللہ تعالیٰ کا خوف آسان نہیں ہے، جب کہ شیطان، نفس اور معاشرہ ہمیں مخالف سمت لے جانے پر مصر رہتا ہے، چنانچہ رحمۃ للعالمین نے بندوں پر رحم فرماکر ارشاد فرمایا: جہاں تک تم سے ہوسکے اللہ سے ڈرتے رہو۔ (سورۃ التغابن ۱۶) یعنی ہر شخص اپنی استطاعت کے مطابق اللہ سے ڈرتے ہوئے زندگی کے لمحات گزارتا رہے۔ اگر کسی شخص سے کوئی غلطی ہوجائے تو فوراً دل سے معافی مانگے، ان شاء اللہ اس کو اللہ تعالیٰ معاف فرمائے گا۔لیکن اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ ہم تقویٰ میں بھی ڈنڈی مارنا شروع کردیں، جیسا کہ فرمان الہٰی ہے: اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے۔ سورۃ آل عمران ۱۰۲

حج کے سفر کے دوران نیز عام زندگی میں ایک مسلمان دنیاوی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے متعدد چیزوں سے آراستہ ہونا چاہتا ہے، فرمان الٰہی ہے : اور (حج کے سفر میں) زادِ راہ ساتھ لے جایا کرو کیونکہ بہترین زاد راہ تقویٰ ہے۔ (سورۃ البقرہ ۱۹۷) یعنی دنیاوی اسباب کو اختیار کرنا شریعت اسلامیہ کے خلاف نہیں ہے لیکن سب سے بہتر زادِ راہ تقویٰ یعنی اللہ کا خوف ہے۔ سورۃ الطلاق آیت ۲ و ۳ میں رازق کائنات نے اعلان کردیا کہ تقویٰ کا راستہ اختیار کرنے والا دونوں جہاں کی کامیابی حاصل کرنے والا ہے: اور جو کوئی اللہ سے ڈرے گا، اللہ اس کے لئے مشکل سے نکلنے کا کوئی راستہ پیدا کردے گا، اور اُسے ایسی جگہ سے رزق عطا کرے گا جہاں سے اُسے گمان بھی نہیں ہوگا۔ نیز دوسرے مقام پر فرمایا: اگر تم اللہ سے ڈرو گے تو اللہ تعالیٰ تم کو ایک خاص امتیاز عطا فرمائے گا اور تمہارے گناہ تم سے دور کردے گا اور تمہاری مغفرت فرمائے گا۔ سورۃ الانفال ۲۹

تقویٰ کے فوائد وثمرات: اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں تقویٰ کے مختلف فوائد وثمرات ذکر فرمائے ہیں، چند حسب ذیل ہیں: ہدایت ملتی ہے (سورۃ البقرہ ۲)۔ایسا علم ملتا ہے جس کے ذریعہ حق وباطل کے درمیان فرق کیا جاسکے (سورۃ الانفال ۲۹)۔ غم دور ہوجاتے ہیں اور وسیع رزق ملتا ہے (سورۃ الطلاق ۲ و۳)۔ اللہ کی مدد حاصل ہوتی ہے (سورۃ النحل ۱۲۸)۔ اللہ کی معیت حاصل ہوتی ہے (سورۃ جاثیہ ۱۹)۔ اللہ کی محبت ملتی ہے (سورۃ التوبۃ ۷)۔ دنیاوی امور میں آسانی ہوتی ہے (سورۃ الطلاق ۴)۔ گناہوں کی معافی اور اجر عظیم کا حصول ہوتا ہے (سورۃ الطلاق ۸)۔ نیک عمل کی قبولیت ہوتی ہے (سورۃ المائدہ ۲۷)۔ کامیابی حاصل ہوتی ہے (سورۃ آل عمران ۱۳۰)۔ اللہ کی جانب سے خوشخبری ملتی ہے (سورۃ یونس ۶۲۔۶۴)۔ جہنم سے چھٹکارا مل جاتا ہے،جو انتہائی برا ٹھکانا ہے (سورۃ مریم ۷۱ و۷۲)۔ ہر انسان کی سب سے بڑی خواہش یعنی جنت میں داخلہ نصیب ہوتا ہے (سورۃ ن ۳۴)۔

تقویٰ اور اسلام کے بنیادی ارکان کے درمیان صلہ اور تعلق :
تقویٰ اور نماز: اللہ تعالیٰ نے اپنے پاک کلام میں ارشاد فرمایا: بیشک نماز بے حیائی اور برائیوں سے روکتی ہے۔ (سورۃ العنکوت ۴۵) بے حیائی اور برائیوں سے رکنا ہی تقویٰ ہے۔تقویٰ اور زکوٰۃ:اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: اُن کے مال سے زکوٰۃ لو تاکہ اُن کو پاک کرے اور بابرکت کرے اُس کی وجہ سے، اور دعا دے اُن کو۔ (سورۃ التوبہ ۱۰۳) زکوٰۃ کوئی ٹیکس نہیں ہے جو مسلمان حکومت کو ادا کرتا ہے، اسی طرح زکوٰۃ کی ادائیگی امیر کا غریب پر کوئی احسان نہیں ہے، بلکہ جس طرح مریض کو اپنے بدن کی اصلاح کے لئے دوا کی ضرورت ہوتی ہے، اسی طرح اپنے نفس کی اصلاح کے لئے ہر مسلمان کی ضرورت ہے کہ وہ اللہ کے حکم پر اپنے مال کی زکوٰۃ ادا کرے ۔ اور یہ صرف اللہ کے خوف کی وجہ سے ہوتا ہے کہ انسان مال جیسی مرغوب چیز کو اللہ تعالیٰ کے حکم پر قربان کرنے کے لئے تیار ہوجاتا ہے، اور یہی خوفِ خدا تقویٰ کی بنیاد ہے۔ تقویٰ اور روزہ: روزہ اُن اعمال میں سے ہے جو تقویٰ کے حصول میں مددگار ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے پاک کلام میں روزہ کی فرضیت کی یہی حکمت بتائی ہے کہ روزہ سے انسان میں تقویٰ پیداہوتا ہے۔ فرمان الہٰی ہے: اے ایمان والو! تم پر روزہ فرض کیا گیا جس طرح تم سے پہلی امتوں پر فرض کیا گیا تھا تاکہ تم متقی بن جاؤ۔ (سورۃ البقرہ ۱۸۳) روزہ سے خواہشات کو قابو میں رکھنے کا ملکہ پیدا ہوتا ہے اور یہی تقویٰ یعنی اللہ کے خوف کی بنیاد ہے۔ تقویٰ اور حج: سورۃ الحج کی ابتدا ہی اللہ تعالیٰ نے تقویٰ کی تعلیم سے کرکے قیامت تک آنے والے تمام انس وجن کو بتادیا کہ حج کی ادائیگی کے لئے دنیا کے چپہ چپہ سے جم غفیر کا جمع ہونا قیامت کے دن کو یاد دلاتا ہے جہاں دودھ پلانے والی ماں اپنے اُس بچے تک کو بھول جائے گی جس کو اُس نے دودھ پلایا۔ غرضیکہ مناسک حج کی ادائیگی میں بھی یہ تعلیم ہے کہ ہم قیامت کے دن کی تیاری کریں، اور ظاہر ہے یہ صرف دل میں اللہ کے خوف کی وجہ سے ہی ممکن ہے اور یہی تقویٰ ہے۔

ہم متقی کیسے بنیں؟ اس کاجواب بہت آسان ہے کہ متقیوں کی جو صفات اللہ تعالیٰ نے اپنے پاک کلام میں بیان فرمائی ہیں وہ صفات اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ چوبیس گھنٹے ہر لمحہ ہمارے دل ودماغ میں یہ رہنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں دیکھ رہا ہے، اور اسے ہمیں اپنی زندگی کے ایک ایک لمحہ کا حساب دینا ہے، خواہ ہم مسجد حرام میں بیت اللہ کے سامنے ہوں یا گھر میں اپنے بچوں کے ساتھ، بازار میں گراہکوں کے ساتھ ہوں یا چوپال میں لوگوں کے ساتھ۔ دارالحدیث کی مسند پر بیٹھ کر بخاری جیسی حدیث کی مستند کتاب پڑھا رہے ہوں یا کسی کالج میں سائنس کی تعلیم دے رہے ہوں۔ مسجد کے محراب میں بیٹھ کر قرآن کریم کی تلاوت کررہے ہوں یا کسی یونیورسٹی میں حساب (Math) کی تعلیم حاصل کررہے ہوں۔ یہی دنیاوی زندگی، ہمیشہ ہمیشہ کی زندگی میں کامیابی حاصل کرنے کا پہلا اور آخری موقع ہے، کسی بھی وقت موت کا فرشتہ ہماری روح ہمارے جسم سے جدا کرسکتا ہے۔ مرنے کے بعد خون کے آنسو کے سمندر بہانے کے بجائے ابھی اللہ تعالیٰ کے سامنے سچی توبہ کرکے گناہوں سے بچیں اور قیامت تک آنے والے انس وجن کے نبی کے طریقہ پر اللہ کے حکموں کو بجالائیں۔ اگر ہم اس قیمتی موتی سے آراستہ ہوگئے تو سب سے زیادہ برے ٹھکانے سے محفوظ رہ کر خالق کائنات کے مہمان خانہ میں ہمیشہ ہمیشہ چین وسکون وراحت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی ایسی ایسی نعمتوں سے سرفراز ہوں گے کہ جن کے متعلق ہم سوچ بھی نہیں سکتے۔ رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا کہ کون سی چیز سب سے زیادہ جنت میں لے جانے والی ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: وہ تقویٰ (پرہیزگاری) اور اچھے اخلاق ہے۔ پھر آپﷺ سے پوچھا گیا کہ کون سی چیز سب سے زیادہ جہنم میں لے جانے والی ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: منہ اور شرمگاہ۔ (ابن ماجہ) منہ سے مرادحرام مال کھانا، دوسروں کی غیبت کرنا، چھوٹ بولنا وغیرہ وغیرہ۔ شرمگاہ سے مراد زنا اور اس کے لوازمات۔ غرضیکہ عموماً تقویٰ تین امور سے حاصل ہوتا ہے: ۱) احکام الٰہی پر عمل کرنا اور برائیوں سے بچنا۔ ۲) نبی ﷺکی سنتوں پر عمل کرنا اور مکروہ چیزوں سے اپنی حفاظت کرنا۔ ۳) شک وشبہ والے امور سے اپنے آپ کو محفوظ رکھنا اور بعض جائز کاموں کو بھی ترک کرنا، جیساکہ فرمان رسولﷺ ہے: کوئی شخص اُس وقت تک متقیوں میں شامل نہیں ہوسکتا جب تک وہ بعض جائز چیزیں نہ چھوڑدے جن میں کوئی حرج نہیں ہے، ان چیزوں سے بچنے کے لئے جن میں حرج ہے۔ ترمذی، ابن ماجہ، حاکم ، بیہقی

ڈاکٹر محمد نجیب قاسمی سنبھلی (www.najeebqasmi.com)

تین افراد کا غار میں بند ہونے پر نیک عمل کا وسیلہ بناکر اللہ سے دعا کرنا
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيْم

اَلْحَمْدُ لِلّهِ رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلامُ عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔

تین افراد کا غار میں بند ہونے پر نیک عمل کا وسیلہ بناکر اللہ سے دعا کرنا

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ میں نے حضور اکرم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ تم سے پہلی امت کے تین آدمی سفر کررہے تھے۔ رات گزارنے کے لئے ایک غار میں داخل ہوئے۔ پہاڑ سے ایک پتھر نے لڑھک کر غار کے منہ کو بند کردیا۔ انہوں نے آپس میں ایک دوسرے سے کہا کہ اس پتھر سے ایک ہی صورت میں نجات مل سکتی ہے کہ تم اپنے نیک اعمال کے وسیلہ سے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا کرو۔ چنانچہ ان میں سے ایک نے کہا: اے اللہ! میرے والدین بہت بوڑھے تھے، میں ان سے پہلے کسی کو دودھ نہ پلاتا تھا۔ ایک دن لکڑی کی تلاش میں میں بہت دور نکل گیا، جب شام کو واپس لوٹا تو وہ دونوں سوچکے تھے۔ میں نے ان کے لئے دودھ نکالا اور ان کی خدمت میں لے آیا۔ میں نے ان کو سویا ہوا پایا۔ میں نے ان کو جگانا ناپسند سمجھا اور ان سے پہلے اہل وعیال وخدام کو دودھ دینابھی پسند نہ کیا۔ میں پیالا ہاتھ میں لئے ان کے جاگنے کے انتظار میں طلوع فجر تک ٹھہرا رہا۔ حالانکہ بچے میرے قدموں میں بھوک سے بلبلاتے تھے۔ اسی حالت میں فجر طلوع ہوگئی۔ وہ دونوں بیدار ہوئے اور اپنے شام کے حصہ والا دودھ نوش کیا۔ اے اللہ! اگر یہ کام میں نے تیری رضامندی کی خاطر کیا تو تو اس چٹان والی مصیبت سے نجات عنایت فرما۔ چنانچہ چٹان تھوڑی سی اپنی جگہ سے سرک گئی۔ مگر ابھی غار سے نکلنا ممکن نہ تھا۔ دوسرے نے کہا: اے اللہ! میری ایک چچازاد بہن تھی۔ وہ مجھے سب سے زیادہ محبوب تھی۔میں نے اس سے اپنی نفسانی خواہش پورا کرنے کا اظہار کیا مگر وہ اس پر آمادہ نہ ہوئی۔ یہاں تک کہ قحط سالی کا ایک سال پیش آیا جس میں وہ میرے پاس آئی۔ میں نے اس کو ایک سو بیس دینار اس شرط پر دئے کہ وہ اپنے نفس پر مجھے قابو دے گی۔ اس نے آمادگی ظاہر کی اور قابو دیا۔جب میں اس کی دونوں ٹانگوں کے درمیان بیٹھ گیا تو اس نے کہا تو اللہ سے ڈر!اور اس مہر کو ناحق وناجائز طور پر مت توڑ۔ چنانچہ میں اس فعل سے باز آگیا حالانکہ مجھے اس سے بہت محبت بھی تھی۔ اور میں نے وہ ایک سو بیس دینار اس کو ہبہ کردئے۔ یا اللہ اگر میں نے یہ کام خالص تیری رضاجوئی کے لئے کیا تھا تو ہمیں اس مصیبت سے نجات عنایت فرما جس میں ہم مبتلا ہیں۔ چنانچہ چٹان کچھ اور سرک گئی۔ مگر ابھی تک اس سے نکلنا ممکن نہ تھا۔ تیسرے نے کہا! یا اللہ میں نے کچھ مزدور اجرت پر لگائے اور ان تمام کو مزدوری دے دی۔ مگر ایک آدمی ان میں سے اپنی مزدوری چھوڑ کر چلا گیا۔ میں نے اس کی مزدوری کاروبار میں لگا دی۔ یہاں تک کہ بہت زیادہ مال اس سے جمع ہوگیا۔ ایک عرصہ کے بعد وہ میرے پاس آیا اور کہنے لگا۔ اے اللہ کے بندے میری مزدوری مجھے عنایت کردو۔ میں نے کہا تم اپنے سامنے جتنے اونٹ، گائیں، بکریاں اور غلام دیکھ رہے ہو، یہ تمام تیری مزدوری ہے۔ اس نے کہا اے اللہ کے بندے میرا مذاق مت اڑا۔ میں نے کہا میں تیرے ساتھ مذاق نہیں کرتا۔ چنانچہ وہ سارا مال لے گیا اور اس میں سے ذرہ برابر بھی نہیں چھوڑا۔ اے اللہ اگر میں نے یہ تیری رضامندی کے لئے کیا تو تو اس مصیبت سے جس میں ہم مبتلا ہیں، ہمیں نجات عطا فرما۔ پھر کیا تھا چٹان ہٹ گئی اور تینوں باہر نکل گئے۔ مسلم ۔ کتاب الرقاق ۔ باب قصہ اصحاب الغار الثلاثہ والتوسل بصالح الاعمال

وسیلہ:مذکورہ حدیث میں نیک اعمال کے وسیلہ سے دعامانگی گئی۔ وسیلہ کا مطلب ہے کہ کسی مقبول عمل یا مقرب بندے مثلاً حضور اکرم ﷺ کا واسطہ پیش کرکے اللہ تعالیٰ سے دعا مانگنا۔ یعنی اس بات کا پورا یقین اور ایمان کہ دینے والی، بخشنے والی صرف اور صرف اللہ تعالیٰ ہی کی ذات ہے اور کوئی نیک بندہ حتی کی نبی یا رسول بھی خدائی میں شریک نہیں ہوسکتا ہے۔ لیکن اپنی عاجزی وانکساری کا اظہار کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا اور نبی اکرم ﷺپر درود بھیجنے کے بعد اپنے کسی مقبول عمل یا حضور اکرم ﷺ کا واسطہ پیش کرکے اللہ تعالیٰ سے کوئی دعا کرنا وسیلہ کہلاتا ہے۔

وسیلہ کی تین قسمیں ہیں: ۱) اللہ تعالیٰ کے نام اور صفات کے ذریعہ اللہ تعالیٰ سے اپنی ضرورت مانگنا، جیساکہ فرمان الٰہی ہے: وَلِلّٰہِ الْاَسْمَاءُ الْحُسْنٰی فَادْعُوْ بِہَا (سورۃ الاعراف ۱۸۰)اور اسماء حسنی (اچھے اچھے نام) اللہ ہی کے ہیں، ان ناموں کے ذریعہ (اللہ کی تسبیح وتحمید وتکبیر یعنی ذکر الٰہی کے ذریعہ) اس سے دعائیں مانگو۔ ۲) اپنے کسی مقبول عمل مثلاً نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج، ذکر اور تلاوت قرآن کو وسیلہ بناکر اللہ تعالیٰ سے دعا مانگنا، جیسا کہ بخاری ومسلم میں مذکور موضوع بحث حدیث میں تفصیل سے ذکر کیا گیا۔ ۳) کسی مقرب بندے مثلاً قیامت تک آنے والے انس وجن کے نبی ورسول ﷺکے وسیلہ سے اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگنا۔

پہلی دو شکلوں کے جواز پر پوری امت مسلمہ کا اتفاق ہے، لیکن تیسری شکل کے متعلق علماء کرام کا اختلاف ہے۔ علماء کی ایک جماعت نے اس کو شرک قرار دے کر اس کے عدم جواز کا فتویٰ جاری کیا، جبکہ علماء کی دوسری جماعت نے مسئلہ مذکورہ کو قرآن وحدیث سے مدلل کرکے اس کے جواز کا فتویٰ دیا ہے۔ تحقیقی بات یہی ہے کہ توسل بالنبی ﷺ کو شرک قرار دینا صحیح نہیں ہے کیونکہ نبی اکرم ﷺ کے وسیلہ کے ذریعہ دعا مانگنے میں اللہ تعالیٰ ہی سے دعا مانگی جاتی ہے۔ حضور اکرم ﷺ کے وسیلہ سے دعا مانگنے والا صرف یہ یقین رکھتا ہے کہِ اس کے ذریعہ اُس کی دعا کا بارگاہ الٰہی میں شرف قبولیت پانے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔ ہاں یہ بات ذہن میں رکھیں کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعاؤں کی قبولیت کے لئے وسیلہ شرط نہیں ہے، مگر مفید اور کارگر ضرور ہے۔ علماء کرام کی دوسری جماعت نے نبی کے وسیلہ سے دعا کرنے کے جواز کے لئے قرآن وحدیث کے متعدد دلائل پیش کئے ہیں، جن میں دو احادیث پیش خدمت ہیں:

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب کبھی قحط پڑتا تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ حضرت عباس بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ کے وسیلہ سے دعاء استغفار کرتے۔ آپ (حضرت عمرؓ) فرماتے کہ اے اللہ! ہم اپنے نبی کو وسیلہ بناتے تھے اور (حضور اکرم ﷺ کی برکت سے) آپ (اللہ تعالیٰ) بارش برساتے تھے۔ اب ہم اپنے نبی کے چچا کو وسیلہ بناتے ہیں، آپ بارش برسائیے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ خوب بارش برستی۔ (صحیح بخاری ۔ کتاب الاستسقاء ۔ باب سؤال الناس الامام الاستسقاء اذا قحط) اسی طرح صحیح بخاری وصحیح مسلم میں وارد ہے کہ حضور اکرم ﷺ کے زمانہ میں ایک بار قحط پڑا۔ حضور اکرم ﷺ خطبہ دے رہے تھے کہ ایک اعرابی نے کہا یا رسول اللہ! مال تباہ ہوگیا اور اہل وعیال دانوں کو ترس گئے۔ آپ ہمارے لئے اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائیں۔ آپ ﷺ نے ہاتھ اٹھائے۔ اس وقت بادل کا ٹکڑا بھی آسمان پر نظر نہیں آرہا تھا۔ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ وقدرت میں میری جان ہے ابھی آپ نے ہاتھوں کو نیچے بھی نہیں کیا تھا کہ پہاڑوں کی طرح گھٹا امڈ آئی اور ابھی آپ ﷺ منبر سے اترے بھی نہیں تھے کہ میں نے دیکھا کہ بارش کا پانی آپﷺ کی داڑھی مبارک سے ٹپک رہا تھا۔اس دن، اس کے بعد اور پھر متواتر آئندہ جمعہ تک بارش ہوتی رہی۔ دوسرے جمعہ کو یہی اعرابی پھر کھڑا ہوااور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! عمارتیں منہدم ہوگئیں اور مال واسباب ڈوب گئے۔ آپ ہمارے لئے دعا کیجئے۔ آپ ﷺ نے ہاتھ اٹھائے اور دعا کی کہ اے اللہ! اب دوسری طرف بارش برسائیے اور ہم سے روک دیجئے۔ آپ ﷺ ہاتھ سے بادل کے جس طرف بھی اشارہ کرتے ادھر مطلع صاف ہوجاتا ۔ (صحیح بخاری ۔ کتاب الجمعہ ۔ باب الاستسقاء ) معلوم ہوا کہ صحابۂ کرام مصیبت کے وقت حضور اکرم ﷺ کا وسیلہ اختیار کرتے تھے۔

علماء کی پہلی جماعت نے ان دونوں احادیث کا یہ کہہ کر جواب دیا ہے کہ اس میں زندہ شخص کے ذریعہ وسیلہ کا ذکر ہے۔ اس پر دوسری جماعت نے جواب دیا کہ قرآن وحدیث میں کسی بھی جگہ یہ مذکور نہیں ہے کہ زندوں کے وسیلہ سے دعا مانگی جاسکتی ہے، مردوں کے وسیلہ کے ذریعہ نہیں۔ اور اس نوعیت کی تخصیص وتعیین کے لئے قرآن وحدیث کی دلیل مطلوب ہے اور وہ موجود نہیں ہے۔غرضیکہ حضور اکرم ﷺ کے وسیلہ کے ذریعہ دعا مانگنے کے جواز اور عدم جواز کے متعلق علماء کی آراء مختلف ہیں۔ اس اختلاف کو جھگڑا نہ بنایا جائے۔ جواز کے قائلین حضور اکرم ﷺ کے وسیلہ سے دعامانگتے رہیں۔ اور عدم جواز کے قائلین آپ ﷺ کے وسیلہ سے دعا نہ مانگے۔ اسی طرح امت مسلمہ میں اتفاق واتحاد ہوسکتا ہے، جس کی اس زمانہ میں سخت ضرورت ہے۔

موضوع بحث حدیث میں تین نیک اعمال کے وسیلہ سے دعا مانگی گئی۔ ۱) والدین کی خدمت ۲) اللہ کے خوف کی وجہ سے زنا سے بچنا۔ ۳) حقوق العباد کی کما حقہ ادائیگی اور معاملات میں صفائی۔

والدین کی خدمت: قرآن وحدیث میں والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی خصوصی تاکید کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے متعدد مقامات پر اپنی توحید وعبادت کا حکم دینے کے ساتھ والدین کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے کا حکم دیا ہے، جس سے والدین کی اطاعت ان کی خدمت اور ان کے ادب واحترام کی اہمیت واضح ہوجا تی ہے۔ احادیث میں بھی والدین کی فرمانبرداری کی خاص اہمیت وتاکید اور اس کی فضیلت بیان کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو والدین کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے والا بنائے۔ ان کی فرمانبرداری کرنے والا بنائے۔ ان کے حقوق کی ادائیگی کما حقہ ادا کرنے والا بنائے۔

شرمگاہ کی حفاظت: اللہ تعالیٰ نے جنسی خواہش کی تکمیل کا ایک جائز طریقہ یعنی نکاح مشروع کیا ہے۔ سورۃ مؤمنون کی ابتدائی آیات میں انسان کی کامیابی کے لئے اللہ تعالیٰ نے ایک شرط یہ بھی رکھی ہے کہ ہم جائز طریقہ کے علاوہ اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں۔ ان آیات کے اختتام پر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: میاں بیوی کا ایک دوسرے سے شہوت نفس کو تسکین دینا قابل ملامت نہیں بلکہ انسان کی ضرورت ہے۔ لیکن جائز طریقہ کے علاوہ کوئی بھی صورت شہوت پوری کرنے کی جائز نہیں ہے جیساکہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: جائز طریقہ کے علاوہ کوئی اور طریقہ اختیار کرنا چاہیں تو ایسے لوگ حد سے گزرے ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے زنا کے قریب بھی جانے کو منع فرمایا ہے۔ (سورۃ الاسراء ۳۲) نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: آنکھ بھی زنا کرتی ہے اور اس کا زنا نظر ہے۔ آج روزہ مرہ کی زندگی میں مرد وعورت کا کثرت سے اختلاط، مخلوط تعلیم، بے پردگی، TVاور انٹرنیٹ پر فحاشی اور عریانی کی وجہ سے ہماری ذمہ داری بڑھ جاتی ہے کہ ہم خود بھی زنا اور زنا کے لوازمات سے بچیں اور اپنے بچوں، بچیوں اور گھر والوں کی ہر وقت نگرانی رکھیں کیونکہ اسلام نے انسان کو زنا کے اسباب سے بھی دور رہنے کی تعلیم دی ہے۔ زنا کے وقوع ہونے کے بعد اس پر ہنگامہ، جلسہ وجلوس ومظاہروں کے بجائے ضرورت اس بات کی ہے کہ اسلامی تعلیمات کے مطابق حتی الامکان غیر محرم مردوعورت کے اختلاط سے ہی بچا جائے۔

حقوق العباد کی ادائیگی اور معاملات میں صفائی: ہمیں حقوق العباد کی ادائیگی میں کوئی کوتاہی نہیں کرنی چاہئے ۔نبی اکرم ﷺنے ارشاد فرمایاہے: کیا تم جانتے ہو کہ مفلس کون ہے؟ صحابہ نے عرض کیا : ہمارے نزدیک مفلس وہ شخص ہے جس کے پاس کوئی پیسہ اور دنیا کا سامان نہ ہو۔ آپﷺنے ارشاد فرمایا: میری امت کا مفلس وہ شخص ہے جو قیامت کے دن بہت سی نماز، روزہ، زکاۃ (اور دوسری مقبول عبادتیں) لے کر آئے گا مگر حال یہ ہوگا کہ اس نے کسی کو گالی دی ہوگی، کسی پر تہمت لگائی ہوگی، کسی کا مال کھایا ہوگا، کسی کا خون بہایا ہوگا یا کسی کو مارا پیٹا ہوگا تو اس کی نیکیوں میں سے‘ ایک حق والے کو (اس کے حق کے بقدر) نیکیاں دی جائیں گی، ایسے ہی دوسرے حق والے کو اس کی نیکیوں میں سے (اس کے حق کے بقدر) نیکیاں دی جائیں گی۔ پھر اگر دوسروں کے حقوق چکائے جانے سے پہلے اس کی ساری نیکیاں ختم ہوجائیں گی تو (ان حقوق کے بقدر) حقداروں اور مظلوموں کے گناہ (جو انہوں نے دنیا میں کئے ہوں گے) ان سے لے کر اس شخص پر ڈال دئے جائیں گے ، اور پھر اس شخص کو دوزخ میں پھینک دیا جائے گا۔ مسلم

مذکورہ بالا حدیث میں تینوں شخص کے واقعات میں اللہ تعالیٰ کا خوف، اس سے امید اور اس کی رضامندی کا حصول ہی کارفرما ہے۔ یعنی پوری رات دودھ کا پیالا لے کر والدین کے پاس کھڑے رہنا اور اپنی واولاد کی بھوک کے باوجود والدین سے پہلے خود دودھ پینے سے رکے رہنا، اپنی محبوبہ سے مکمل قدرت کے باوجود زنا سے بچنا اور تمام اونٹ، گائیں ، بکریاں اور خدام اپنی حاجت کے باوجود بغیر کسی معاوضہ کے پیش کردینا صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی ذات کا خوف، اس سے امید اور اس کی رضا مندی کے حصول کے لئے کیا گیا۔ ہمیں بھی ہمیشہ یہی خیال رکھنا چاہئے کہ ہمیں اپنی زندگی کے ہر ایک لمحہ کا حساب خالق کائنات کو دینا ہے جو ہمارے ایک ایک پل سے واقف ہے۔ ہمیں صرف اسی کی رضامندی مطلوب ہونی چاہئے۔

محمد نجیب قاسمی سنبھلی (www.najeebqasmi.com)

مرتد کی سزا قرآن وحدیث کی روشنی میں

بسم الله الرحمن الرحيم

اَلْحَمْدُ لِله رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلام عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔

مرتد کی سزا قرآن وحدیث کی روشنی میں

۲۰۱۴کے پارلیمانی الیکشن کے بعد ہندوستان کی سیاست میں زبردست تبدیلی رونما ہوئی ہے، جس کی وجہ سے فرقہ پرست عناصر کے حوصلے بہت بڑھ گئے ہیں اور انہوں نے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی کرکے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو نیست ونابود کرنے کی سرگرمیوں کو تیز کردیا ہے۔ چنانچہ کبھی شر آمیز بیانات سے مدارس اسلامیہ کی کردار کشی کی جارہی ہے تو کبھی ’’لو جہاد‘‘ کے نام سے ہندوؤں کے دلوں میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کے بیج بوکر یہاں پرامن ماحول کو بگاڑا جارہا ہے۔ تازہ واقعہ آگرہ کا ہے جہاں ایک فتنہ پرور تنظیم نے پیسوں اور دیگر مادی فوائد کا لالچ دے کر غریب مسلمانوں کو ہندو بنانے کی ناپاک کوشش کی ہے اور اپنے اس عمل کو ’’گھر واپسی‘‘ کا نام دیا ہے، جس کی وجہ سے صورت حال بد سے بدتر ہونے کا خدشہ ہے۔ اسلامی نقطۂ نظر میں مذہب کی تبدیلی یعنی مرتد ہوجانا انسان کے لئے بہت بڑی مصیبت ہے جو دنیا وآخرت ہر اعتبار سے انسان کو برباد کرنے والی ہے۔ لہٰذا میں نے ضرورت محسوس کی کہ قرآن وحدیث کی روشنی میں اس تباہ کن گناہ کا ذکر کروں تاکہ عام لوگ اس کے بڑے بڑے نقصانات سے واقف ہوسکیں۔ الحمد للہ! آگرہ کے مسلمانوں کی تبدیلی مذہب حقیقت میں اُن کے ساتھ ایک دھوکہ ثابت ہوئی جو بہت جلدی ہی ان کے سامنے واضح ہوگیا جس سے فوراً ہی وہ حضرات اپنے حقیقی مالک ورازق وخالق سے تائب ہوکر اپنے مذہب اسلام میں واپس آگئے ۔ اللہ تعالیٰ ان کو اسلام پر ثابت قدم رکھے، ہم تمام مسلمانوں کو دشمنان اسلام کے ناپاک ارادوں سے محفوظ فرمائے اور ہمارا خاتمہ ایمان پر فرمائے۔ مضمون کے آخر میں چند ایسی تدابیر بھی ذکر کی ہیں جن کے ذریعہ ہم اس تباہ کن گناہ سے خود بھی بچ سکتے ہیں اور اپنے بھائیوں کو بھی محفوظ رکھ سکتے ہیں۔
اسلام میں غیر مسلموں کے لئے تبلیغ وترغیب تو ہے لیکن اسلامی تعلیمات کے مطابق جبراً کسی غیر مسلم کو مسلمان نہیں بنایا جاسکتا۔ لیکن اگر کوئی شخص اسلام سے پھر جائے یعنی مرتد ہوجائے تو پہلے اسے دوبارہ مذہب اسلام قبول کرنے کی ترغیب دی جائے گی اور ہر ممکن کوشش کی جائے گی کہ وہ دوبارہ مذہب اسلام اختیار کرلے تاکہ وہ ہمیشہ ہمیشہ کے دردناک عذاب سے بچ جائے۔ اگر دین اسلام سے پھرنے والا یعنی مرتد مذہب اسلام کو دوبارہ اختیار کرلیتا ہے تو اسے اللہ تعالیٰ سے توبہ واستغفار کے ساتھ کلمہ شہادت بھی پڑھنا ہوگا، لیکن اگر کوئی مرتد دوبارہ اسلام قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہے تو جس طرح دنیاوی حکومت کے خلاف بغاوت کرنے والوں کو پھانسی پر لٹکایا جاتا ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ کے باغی کو بھی کسی طرح کی رعایت نہیں دی جائے گی اور اسے اسلامی حکومت قتل کرائے گی جیساکہ ابتداء اسلام سے آج تک تمام مفسرین، محدثین، فقہاء وعلماء کرام نے قرآن وحدیث اور خلفاء راشدین کے اقوال وافعال کی روشنی میں فیصلہ فرمایا ہے۔ ہندوستان جیسے غیر مسلم ممالک میں اس حکم کی تنفیذ اگرچہ نہیں ہوسکتی، پھر بھی کم از کم ایک مسلمان کو یہ ضرور معلوم ہونا چاہئے کہ شوہر کے مرتد ہونے پر بیوی کا اس کے ساتھ رہنا جائز نہیں، اس کے مسلمان والدین یا قریبی رشتہ دار کے انتقال پر اس کو وراثت میں کوئی حصہ نہیں ملے گا اور ارتداد کی حالت میں انتقال پر اس کی نماز جنازہ بھی نہیں پڑھی جائے گی اور نہ مرنے کے بعد اس کے لئے استغفار کیا جائے گا،وغیرہ وغیرہ۔
آیات قرآنیہ:
اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم بنی اسرائیل کے بعض لوگوں کا ذکر فرمایا ہے کہ وہ بچھڑے کی عبادت کرنے کی وجہ سے مرتد ہوگئے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے متعلق حکم فرمایا: فَتُوْبُوْا اِلیٰ بَارِءِکُمْ فَاقْتُلُوْا اَنْفُسَکُمْ (سورۃ البقرۃ، آیت ۵۴) لہٰذا اب اپنے خالق سے توبہ کرو اور اپنے آپ کو قتل کرو۔ اس آیت کی تفسیر میں مفسرین نے تحریر کیا ہے کہ جن لوگوں نے گؤ سالہ پرستی کی تھی اور مرتد ہوگئے تھے، ان کو اُن لوگوں کے ہاتھوں سے اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق قتل کرایا گیا جنہوں نے بچھڑے کی پوجا نہیں کی تھی۔ ان لوگوں کا واقعہ بیان فرماکر اللہ تعالیٰ سورۃ الاعراف، آیت ۱۵۲ میں ارشاد فرماتا ہے: وَکَذالِکَ نَجْزِی الْمُفْتَرِیْنَ اور یہی سزا ہم دیتے ہیں بہتان باندھنے والوں کو۔ بنی اسرائیل کے اس واقعہ کے ضمن میں اللہ تعالیٰ نے اپنی عادت جاریہ بیان فرمائی کہ مرتد ہونے والے شخص کو ایسی ہی سزا دیتے ہیںیا دیں گے کیونکہ نَجْزِی فعل مضارع کا صیغہ ہے جس میں حال اور مستقبل دونوں کے معنی پائے جاتے ہیں۔ غرضیکہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اسلام سے مرتد ہونے والے شخص کے متعلق اپنا فیصلہ بیان فرمایا۔ قرآن وحدیث کی روشنی میں علماء امت کا اتفاق ہے کہ گزشتہ شریعتوں کے احکام جب اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے بیان کئے ہوں اور ان پر کوئی نکیر نہ کی ہو تو اس امت پر وہ عمل اسی نوعیت سے باقی رہے گا۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مرتد ہونے والے شخص کو وَکَذَالِکَ نَجْزِی الْمُفْتَرِےْنَ کہہ کر قتل کرنے کی تایید کی ہے۔ نیز قرآن کریم کے پہلے مفسر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مرتد ہونے والے شخص کو واضح طورپر قتل کرنے کا حکم دیا ہے۔
زمین میں فساد برپا کرنے والوں اور قتل وغارت گری کرنے والوں کے لئے سورۃ المائدہ، آیت ۳۳ میں اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: اِنَّمَا جَزَاءُ الَّذِےْنَ ےُحَارِبُوْنَ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہُ۔۔۔۔۔۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال وافعال کی روشنی میں مفسرین نے تحریر کیا ہے کہ یہ آیت اُن لوگوں کے بارے میں بھی ہے جو مرتد ہوگئے ہوں۔ چنانچہ عکل اور عرینہ والوں کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت المال کے اونٹوں کو ہنکالے جانے اور ان چرواہوں کو قتل کرنے کے جرم میں جو عبرت انگیز سزا دی، امام بخاری ؒ نے اس واقعہ کو اسی آیت کے تحت ذکر کیا ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے مانعین زکوٰۃ کی جو سرکوبی کی وہ اسی حکم کے تحت کی۔ مسیلمہ کذاب کا فتنہ بھی اسی محاربۃ اللہ ورسولہ کے تحت آتا ہے۔
احادیث نبویہ:
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مَنْ بَدَّلَ دِےْنَہُ فَاقْتُلُوْہُ جس نے اپنا دین (اسلام) بدل دیا تو اس کو قتل کردو۔۔۔ صحیح بخاری، ترمذی، ابوداود، ابن ماجہ، مسند احمد
حضرت زید بن اسلم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مَنْ غَیَّرَ دِےْنَہُ فَاضْرِبُوا عُنُقَہُ جس نے اپنا دین (اسلام) بدل دیا تو اس کی گردن کو اڑادو۔ ۔۔موطا مالک
حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یمن کے ایک صوبے کا گورنر بناکر بھیجا جبکہ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کو ان کے بعد دوسرے صوبے کا گورنر بناکر بھیجا ۔حضرت معاذ رضی اللہ عنہ حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے ملاقات کے لئے گئے، حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے اکرام ضیف کے لئے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کے لئے تکیہ ڈالا اور حضرت معاذ رضی اللہ عنہ ابھی سوار تھے کہ انہوں نے حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کے پاس ایک شخص بندھا ہوا دیکھا۔ پوچھا یہ کون ہے؟ حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ یہ پہلے یہودی تھا پھر مسلمان ہوا، اس کے بعد پھر یہودی ہوگیا۔ حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے کہا اے معاذ! بیٹھ جاؤ۔ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جب تک اس کو قتل نہیں کیا جائے گا، میں نہیں بیٹھوں گا۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کا یہی فیصلہ ہے۔ تین دفعہ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے یہی فرمایا۔ پھر اس مرتد کے بارے میں قتل کا حکم دیا گیا اور وہ قتل کردیا گیا۔ ۔۔صحیح بخاری، صحیح مسلم
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ کسی مسلمان کا جو اس بات کی گواہی دیتا ہوکہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی معبود نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں، خون بہانا جائز نہیں مگر تین چیزوں میں سے کسی ایک کے ارتکاب پر۔ شادی شدہ ہونے کے بعد زنا کرے۔ کسی کو قتل کردے تو اس کے قصاص میں قتل کیا جائے گا۔ اپنے دین اسلام کو چھوڑکر ملت سے خارج ہوجائے تو قتل کیا جائے گا۔۔۔ صحیح بخاری وصحیح مسلم، ابوداود، ابن ماجہ، مسند احمد
حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کسی مسلمان آدمی کا خون حلال نہیں ہے مگر تین چیزوں سے۔ ۱) یہ کہ شادی کے بعد زنا کرے۔ ۲) کسی انسان کو قتل کردے۔ ۳) اسلام کے بعد کفر اختیار کرے تو اس کو قتل کیا جائے گا۔۔۔ نسائی، ابوداود، مسند احمد
ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : مَنْ ارْتَدَ عَنْ دِےْنِہِ فَاقْتُلُوْہ جو شخص اپنے دین (اسلام) سے پھر گیا تو اسے قتل کردو۔۔۔ مصنف عبد الرزاق
مشہور تابعی حضرت ابوقلابہ رحمۃاللہ علیہ نے خلیفہ راشد حضرت عمر بن عبد العزیز ؒ کی بھری ہوئی عدالتی اور علمی مجلس میں یہ حدیث بیان فرمائی کہ اللہ کی قسم حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی بھی کسی کو قتل نہیں کیا مگر تین جرائم میں۔ ۱)وہ شخص جو ناحق کسی کو قتل کرتا تو اسے قصاص میں قتل کرتے۔ ۲) شادی کے بعد زنا کرتا تو اسے قتل کرتے۔ ۳) اسلام سے پھر کر مرتد ہوجاتا تو اسے قتل کرتے۔۔۔صحیح بخاری
غرضیکہ دنیا میں حدیث کی کوئی بھی مشہور ومعروف کتاب ایسی موجود نہیں ہے جس میں توبہ نہ کرنے پر مرتد کو قتل کئے جانے کے متعلق رحمۃ للعالمین کا ارشاد موجود نہ ہو۔
خلفاء راشدین اور قتل مرتد:
شیخ جلال الدین سیوطیؒ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے نقل کرتے ہیں کہ جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی اور مدینہ منورہ کے اردگرد میں بعض حضرات مرتد ہوگئے تو خلیفہ وقت حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ شرعی حکم کے مطابق ان کے قتل کے لئے کھڑے ہوگئے، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ وقت کی نزاکت کے پیش نظر ان کے قتل میں تامل کررہے تھے، لیکن حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اگرچہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوگئی اور وحی منقطع ہوگئی، لیکن اللہ کی قسم میں ضرور ان سے اس وقت تک جہاد کرتا رہوں گا جب تک میرا ہاتھ تلوار کو پکڑسکے گا۔۔۔ تاریخ الخلفاء
اس واقعہ کے بعد حضرت صدیق اکبررضی اللہ عنہ مسیلمہ کذاب کی طرف متوجہ ہوئے جو نبوت کا دعویٰ کرنے کی وجہ سے اجماع صحابہ مرتد قرار دیاگیا تھا، چنانچہ ایک لشکر حضرت خالد رضی اللہ عنہ کی سرکردگی میں اس کی طرف روانہ کیا گیا جس نے مسیلمہ کذاب کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔۔۔ فتح الباری
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ اہل عراق میں سے ایک مرتد جماعت کو گرفتار کیا اور ان کی سزا کے بارے میں مشورہ کے لئے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو خط لکھا، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے جواب میں تحریر کیا کہ ان پر دین حق پیش کرو، اگر قبول کرلیں تو ان کو چھوڑدو ورنہ قتل کردو۔ اسی طرح حضرت امام بخاری ؒ نے تحریر کیا ہے کہ حضرت علی مرتضی رضی اللہ عنہ نے بعض مرتدین کو قتل کیا۔ (صحیح بخاری) یہ ان خلفاء راشدین کا عمل ہے جن کی اقتداء کے لئے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قیامت تک آنے والی پوری امت کو حکم دیا ہے: تم پر لازم ہے کہ میری سنت اور میرے خلفاء راشدین کی سنت کو لازم پکڑو۔ حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے اپنے عہد خلافت میں مختار بن ابی عبید کو نبوت کا دعویٰ کرنے پر قتل کیا تھا۔۔۔ فتح الباری
علماء امت کے اقوال:قرآن وحدیث کی روشنی میں خیر القرون سے عصر حاضر تک کے جمہور علماء کا اتفاق ہے کہ مرتد کو قتل کیا جائے گا اگر وہ توبہ کرکے دوبارہ اسلام میں واپس آنے کے لئے تیار نہیں ہے، اختصار کے مدنظر صرف چاروں ائمہ کی رائے ذکر کردیتا ہوں:
حضرت امام ابوحنیفہؒ : عقیدہ کی سب سے مشہور ومعروف کتاب تحریر کرنے والے مصری حنفی عالم امام طحاویؒ حضرت امام ابوحنیفہؒ اور علماء احناف کا قول نقل کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں کہ مرتد کے بارے میں علماء کی آراء مختلف ہیں کہ کیا اس سے توبہ کا مطالبہ کیا جائے گا یا نہیں؟ علماء کی ایک جماعت کہتی ہے کہ اگر حاکم مرتد سے توبہ کرنے کا مطالبہ کرے تو اچھا ہے، توبہ نہ کرے تو قتل کردیا جائے۔ حضرت امام ابوحنیفہؒ ، حضرت امام ابویوسفؒ اور حضرت امام محمد ؒ کا یہی قول ہے۔ علماء کی دوسری جماعت فرماتی ہے کہ مرتد سے توبہ کا مطالبہ نہ کیا جائے جیساکہ دار الحرب کے کفار کو جب دعوت اسلام پہنچ جائے تو پھر ان کو اسلام کی دعوت دینے کی ضرورت نہیں۔ نہ پہنچی ہوتو دعوت دی جائے اور توبہ کا مطالبہ اس وقت واجب ہے جبکہ کوئی شخص اسلام سے بے سمجھی کی وجہ سے کفر کی طرف چلا جائے۔ رہا وہ شخص جو سوچے سمجھے طریقہ پر اسلام سے کفر کی طرف چلاجائے تو اسے قتل کیا جائے گا اور اس سے توبہ کا مطالبہ نہیں کیا جائے گا ۔ ہاں اگر وہ میرے اقدام سے پہلے ہی توبہ کرلے تو میں اسے چھوڑدوں گا اور اس کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد کردوں گا۔۔۔طحاوی ۔ کتاب السیر
حضرت امام مالک ؒ : اس شخص کے بارے میں جو اسلام سے پھر جائے امام مالکؒ حضرت زید بن اسلم ؒ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس شخص نے اپنا دین بدل دیا تو تم اس کی گردن اڑادو۔ امام مالک ؒ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کا معنی یہ ہیں کہ جو شخص اسلام سے نکل کر زنادقہ وغیرہم میں جاملا، ایسے زنادقہ پر جب مسلمانوں کا غلبہ ہوجائے تو ان سے توبہ طلب کئے بغیر ان کو قتل کیا جائے۔ باقی رہے وہ لوگ جو صرف اسلام سے کفر کی طرف چلے گئے تو ان سے توبہ کرنے کو کہا جائے گا ورنہ ان کا قتل کردیاجائے گا۔۔۔موطا مالک
حضرت امام شافعیؒ : امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ مرتد پر نہ احسان کیا جائے اور نہ اس سے فدیہ لیا جائے اور اس کو اس کے حال پر بھی نہیں چھوڑا جائے گا یہاں تک کہ وہ مسلمان ہوجائے یا قتل کردیا جائے۔ (کتاب الام) مشہور شافعی عالم ومحدث امام نووی ؒ تحریر کرتے ہیں کہ تمام اہل اسلام کا مرتد کے قتل کرنے پر اجماع ہے، ہاں اس پر اختلاف ہے کہ مرتد پر توبہ پیش کرنا واجب ہے یا مستحب؟ ۔۔شرح مسلم
حضرت امام احمد ؒ : مشہور ومعروف حنبلی عالم دین امام ابن قدامہ ؒ تحریر کرتے ہیں کہ اکثر اہل علم یہ کہتے ہیں کہ مرتد کو اس پر توبہ پیش کئے بغیر نہ قتل کیا جائے جن میں حضرت عمرؓ، حضرت علیؓ، حضرت عطاؒ ، امام نخعیؒ ، امام مالکؒ ، امام ثوریؒ ، امام اوزاعیؒ ، امام اسحاقؒ اور فقہاء احناف شامل ہیں اور حضرت امام شافعی ؒ کا بھی ایک قول یہی ہے اور حضرت امام احمدؒ سے ایک دوسری روایت میں ہے کہ مرتد سے توبہ کا مطالبہ واجب نہیں ہے لیکن مستحب ہے اور حضرت حسن بصری ؒ سے بھی یہی منقول ہے کیونکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو اپنا دین (اسلام) بدل دے تو اسے قتل کردو ۔ توبہ کا مطالبہ اس میں مذکور نہیں ہے۔ ۔۔مغنی
غرضیکہ قرآن وحدیث اور خلفاء راشدین کے اقوال وافعال کی روشنی میں کی تمام مفسرین، محدثین، فقہاء وعلماء نے یہی فیصلہ فرمایا ہے کہ مرتد کو قتل کیا جائے گا اگر وہ توبہ کرکے دوبارہ اسلام میں واپس آنے کے لئے تیار نہیں ہے۔
اس مصیبت سے بچنے کی چند تدابیر:
اس تباہ کن گناہ سے بچنے اور اپنے بھائیوں کو بچانے کے لئے ہمیں چاہئے کہ ہم جذبات پر قابو رکھتے ہوئے حکمت وبصیرت کے ساتھ مندرجہ ذیل چند تدابیر اختیار کریں تاکہ دشمن اپنے ناپاک عزائم میں کامیاب نہ ہوسکے۔ انشاء اللہ یہ اعمال ہمارے اور ہمارے بھائیوں کے لئے اس دشوار کن گھڑی میں انتہائی مفید ثابت ہوں گے۔
اللہ کے گھر یعنی مساجد سے اپنے خصوصی تعلق رکھیں کیونکہ مساجد مسلمانوں کی نہ صرف تربیت گاہیں ہیں بلکہ مساجد مسلم معاشرہ کی عکاسی کرتی ہیں جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: سات قسم کے آدمی ہیں جن کو اللہ تعالیٰ اپنی (رحمت کے) سایہ میں ایسے دن جگہ عطا فرمائے گا جس دن اس کے سایہ کے سوا کوئی سایہ نہ ہوگا۔ اُن سات لوگوں میں سے ایک وہ شخص بھی ہے جس کا دل مسجد سے اٹکا ہوا ہو۔ دنیا میں سب سے پہلا گھر بیت اللہ ہے جو مسجد حرام کے وسط میں واقع ہے جس کی طرف رخ کرکے ہم ایمان کے بعد سب سے اہم رکن یعنی نماز کی ادائیگی کرتے ہیں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ پہنچنے سے تھوڑا قبل قبا میں اور مدینہ منورہ پہنچنے کے بعد سب سے پہلے مسجد کی بنیا رکھی جو بعد میں مسجد نبوی کے نام سے موسوم ہوئی، جو اسلام کے دنیا کے کونے کونے تک پہنچنے کا ذریعہ بنی۔ لہٰذا ہم خود بھی نمازوں کا اہتمام کریں اور اس بات کی کوشش کریں کہ ہماری مسجدیں آباد ہوں۔ اگر ہمارا تعلق مسجد سے جڑا ہوا ہے تو جہاں اللہ جل شانہ سے قربت حاصل ہوگی وہیں ان شاء اللہ دشمنان اسلام کی تمام کوششیں بھی رائیگاں ہوں گی۔
علماء کرام اور عوام کے درمیان رشتہ کو اور مضبوط بنانے کی کوشش کریں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے علمائے کرام کے متعلق یہ اعلان فرمایا ہے: ’’إنَّمَا یَخْشَی اللّٰہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمَاءُ‘‘ (سورۃالفاطر:۲۸ ) اللہ سے اس کے بندوں میں سے وہی لوگ ڈرتے ہیں جو علم رکھتے ہیں۔ آج عالمی سطح پر دشمنان اسلام کا مقصد ہے کہ اسلامی تہذیب کو ختم کرکے مسلمانوں پر اپنی تہذیب تھوپ دیں۔ علماء کرام ان کے مقصد کی تکمیل میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں، لہٰذا دشمنان اسلام علماء کرام کو بدنام کرنے کی کوشش کررہے ہیں اور علماء کرام اور عوام کے درمیان مضبوط رشتہ کو توڑنے کے لیے علماء کرام اور مدارس اسلامیہ کی غلط امیج لوگوں کے سامنے پیش کرنے کی ناپاک کوشش کررہے ہیں جس میں وہ ان شاء اللہ ناکام ونامراد ہوں گے کیونکہ علماء کرام نے بچہ کی ولادت کے وقت کان میں اذان دینے سے لے کر نماز جنازہ پڑھانے تک امت مسلمہ کی دینی وتعلیمی وسماجی رہنمائی کے لئے ایسی خدمات پیش کی ہیں کہ ایک مسلمان بھی ایسا نہیں مل سکتا جو ان خدمات سے مستفیض نہ ہوا ہو۔
موجودہ مکاتب ومدارس کی بقاء کے لئے ہرممکن کوشش کریں اور جن علاقوں یا دیہاتوں میں مکاتب ومدارس نہیں ہیں وہاں مکاتب ومدارس کے قیام کی فکر کریں۔ قرآن وحدیث کی حفاظت وخدمت میں مکاتب ومدارس نے جو کردار ادا کیا ہے وہ تاریخ کا ایک ناقابل فراموش حصہ ہے ، برصغیر میں قرآن وحدیث کی مختلف طریقوں سے بالواسطہ یا بلا واسطہ خدمت انجام دینے میں انہیں مکاتب ومدارس کا رول ہے۔
اسکول وکالج میں زیر تعلیم بچوں کی دینی تعلیم کی فکر کریں کیونکہ آج جو طلبہ عصری درس گاہوں سے پڑھ کر نکلتے ہیں ان میں ایک بڑی تعداد دین سے بے بہرہ لوگوں کی ہوتی ہے اور ایک قابل لحاظ تعداد تو دین سے بیزار لوگوں کی ہوتی ہے۔ لہٰذا مسلمانوں کے زیر اہتمام یونیورسٹیوں، کالجوں اور اسکولوں کے ذمہ داروں سے درخواست ہے کہ دینی تعلیم وتربیت کو صرف نام کے لیے نہ رکھا جائے کہ نہ اساتذہ اسے اہمیت دیں اور نہ طلبہ وطالبات، بلکہ شرعی ذمہ داری سمجھ کر ان کی دینی تعلیم وتربیت پر خاص توجہ دی جائے۔ بچوں کے والدین اور سرپرستوں کی بھی ذمہ داری ہے کہ اسکولوں وکالجوں کا انتخاب ایمان وعقیدے کی حفاظت کی فکر کے ساتھ کریں۔ جب تک ہمارے بچے دینی تعلیم سے واقف نہیں ہوں گے ہم کس طرح ان کو دشمنان اسلام کی ناپاک سازشوں سے محفوظ رکھ سکتے ہیں۔ یقیناًہم اپنے بچوں کو ڈاکٹر، انجینئر اور ڈیزائنر بنائیں لیکن سب سے قبل ان کو مسلمان بنائیں۔ لہٰذا اسلام کے بنیادی ارکان کی ضروری معلومات کے ساتھ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت اور اسلامی تاریخ سے ان کو ضرور بالضرور روشناس کرائیں۔
حکمت وبصیرت کے ساتھ ایک دوسرے کو دین اسلام کی دعوت دیتے رہیں کیونکہ سلسلہ نبوت ختم ہوجانے کے بعد دعوت وتبلیغ کی عظیم ذمہ داری اس امت محمدیہ کے ہر ہر فرد پر اپنی استطاعت کے مطابق لازمی قرار دی گئی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ اپنے پاک کلام (سورۃ التوبۃ آیت ۷۱) میں ارشاد فرمایا ہے کہ مؤمن مرد اور مؤمن عورتیں آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں، اچھی باتوں کا حکم دیتے ہیں، بری باتوں سے روکتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں اور اللہ واس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ تعالیٰ عنقریب رحم فرمانے والا ہے۔ اس آیت میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے مؤمن مرد اور مؤمن عورتوں کی چند صفات ذکر فرمائی ہیں جن میں سب سے پہلی صفت ذکر کی کہ وہ اچھی باتوں کا حکم دیتے ہیں اور بری باتوں سے روکتے ہیں۔
مالدار اور ذی حیثیت حضرات اپنے تعاون کی رقم کا ایک قابل قدر حصہ مسلمانوں کے کمزور طبقہ کے لئے مختص کریں ۔اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی عبادت واطاعت کا مکلف کرتے ہوئے اس روئے زمین پر اپنا خلیفہ مقرر کیا تاکہ انسان اللہ تعالیٰ کی شریعت پر عمل کرے اور ایک منصفانہ سماج کی تشکیل کے لئے کوشاں رہے۔ اس مقصد کے حصول کے لئے یقیناًجسمانی ومالی دونوں طرح کی قربانی درکار ہوتی ہے جیساکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّی تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّوْنَ (سورۃ آل عمران ۹۲) جب تک تم اپنی پسندیدہ چیز اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ نہیں کرو گے ہرگز بھلائی نہیں پاؤگے۔ لہٰذا ہم اپنی زکوٰۃ کی ادائیگی کے اہتمام ساتھ اپنے مال میں سے کچھ حصہ ضرور کمزورطبقہ کی فلاح وبہبود پر لگائیں۔ آج اگر ہم زکوٰۃ کی صحیح طریقہ سے ادائیگی کرنے والے بن جائیں تو امت مسلمہ کے بے شمار مسائل حل ہوجائیں گے ان شا ء اللہ۔
اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کو اپنی رضا والے کام کرنے کی توفیق عطا فرما، بر صغیر کے علماء ومدارس کی حفاظت فرما، اسلام مخالف عناصر کو صفحۂ ہستی سے مٹادے اور ہمارا خاتمہ ایمان پر فرما، آمین۔
محمد نجیب قاسمی سنبھلی، ریاض

آيۃ الکرسی

بسم الله الرحمن الرحيم

اَلْحَمْدُ لِله رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلام عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔

آيۃ الکرسی

اللَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ لَّهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ مَن ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِندَهُ إِلَّا بِإِذْنِهِ يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ وَلَا يُحِيطُونَ بِشَيْءٍ مِّنْ عِلْمِهِ إِلَّا بِمَا شَاءَ وَسِعَ كُرْسِيُّهُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَلَا يَئُودُهُ حِفْظُهُمَا وَهُوَ الْعَلِيُّ الْعَظِيمُ(البقرۃ ۲۵۵)

اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، زندہ ہے (جس کو کبھی موت نہیں آسکتی) (ساری کائنات کو) سنبھالنے والاہے، نہ اسے اونگھ آتی ہے اور نہ نیند، اس کی ملکیت میں زمین وآسمان کی تمام چیزیں ہیں، کون شخص ہے جو اُس کی اجازت کے بغیر اُس کے سامنے شفاعت کرسکے، وہ جانتا ہے ان (کائنات) کے تمام حاضر وغائب حالات کو ، وہ (کائنات) اُس کی منشا کے بغیرکسی چیز کے علم کا احاطہ نہیں کرسکتے، اُس کی کرسی کی وسعت نے زمین وآسمان کو گھیر رکھا ہے، اللہ تعالیٰ کو ان (زمین وآسمان) کی حفاظت کچھ گراں نہیں گزرتی، وہ بہت بلند اور بہت بڑا ہے۔

یہ سورۂ البقرہ کی آیت نمبر ۲۵۵ ہے جو بڑی عظمت والی آیت ہے، اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی توحید اور بعض اہم صفات کا ذکر ہے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی کرسی کا بھی ذکر آیا ہے جس کی وجہ سے اس آیت کو آیت الکرسی کہا جاتا ہے۔ آیت الکرسی کی فضیلت میں بہت سی حدیثیں کتب احادیث میں وارد ہیں لیکن اختصار کے مدنظر یہاں صرف چند اہم فضیلتیں ذکر کررہا ہوں جن کے صحیح ہونے پر جمہور علماء امت متفق ہیں۔

سب سے زیادہ عظمت والی آیت:

حضرت ابی بن کعبؓ سے رسول اللہ ﷺ نے دریافت فرمایا کہ کتاب اللہ میں سب سے زیادہ عظمت والی آیت کون سی ہے؟ حضرت ابی بن کعبؓ نے جواب میں فرمایا: اللہ اور اس کے رسول ہی کو اس کا سب سے زیادہ علم ہے۔ آپ ﷺ نے دوبارہ یہی سوال کیا۔ بار بار سوال کرنے پر حضرت ابی بن کعبؓ نے فرمایا: آیت الکرسی۔ حضور اکرم ﷺ نے حضرت ابی بن کعبؓ کے سینے پر ہاتھ مارکر فرمایا: ابو المنذر! اللہ تعالیٰ تجھے تیرا علم مبارک کرے۔ (مسلم، باب فضل سورۃ الکهف وآيۃ الکرسی،ح۸۱۰) مسند احمد میں یہ بھی مذکور ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا: اُس اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ، اِس (آیت الکرسی) کی زبان ہوگی اور ہونٹ ہوں گے اور یہ بادشاہ حقیقی کی تقدیس بیان کرے گی اور عرش کے پایہ سے لگی ہوئی ہوگی۔ (مسند احمد ۵/۱۴۱۔۱۴۲)

حضرت ابو ذر غفاریؓ کے سوال پر آپ ﷺ نے فرمایا کہ سب سے زیادہ عظمت والی آیت‘ آیت الکرسی اللَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُالخ .ہے۔ (مسند احمد ۵/۱۷۸، نسائی ح ۵۵۰۹)

دخول جنت کا سبب:

حضرت ابو امامہ الباہلیؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص ہر فرض نماز کے بعد آیت الکرسی پڑھ لے‘ اسے جنت میں جانے سے کوئی چیز نہیں روکے گی سوائے موت کے۔ (ابن حبان نے اپنی صحیح میں اور امام نسائی نے عمل الیوم واللیلہ میں یہ حدیث ذکر کی ہے، اس حدیث کی سند شرط بخاری پر ہے)

شیاطین وجنات سے حفاظت:

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ میں رمضان میں وصول کی گئی زکاۃ کے مال پر پہرا دے رہا تھا، ایک آنے والا آیا اور سمیٹ سمیٹ کر اپنی چادر میں جمع کرنے لگا۔ حضرت ابوہریرہؓ نے اس کو ایسا کرنے سے بار بار منع فرمایا۔ اس آنے والے نے کہا کہ مجھے یہ کرنے دو، میں تجھے ایسے کلمات سکھاؤں گا کہ اگر تو رات کو بستر میں جاکر ان کو پڑھ لے گا تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے تجھ پر حافظ مقرر ہوگا اور صبح تک شیطان تیرے قریب بھی نہ آسکے گا اور وہ آیت الکرسی ہے۔ جب حضرت ابوہریرہؓ نے حضور اکرم ﷺ کو یہ واقعہ سنایا تو آپ ﷺنے فرمایاکہ اس نے سچ کہا مگر وہ خود جھوٹا ہے اور وہ شیطان ہے۔ (صحیح بخاری، کتاب الوکالة، باب اذا وکل رجلا فترک الوکيل شيئا،،، ح ۲۳۱۱، ۳۲۷۵، ۵۰۱۰)

حضرت ابی بن کعبؓ فرماتے ہیں کہ میرے پاس کچھ کھجوریں تھیں جو روزانہ گھٹ رہی تھیں، ایک رات میں نے پہرا دیا۔ میں نے دیکھاکہ ایک جانور مثل جوان لڑکے کے آیا،میں نے اس کو سلام کیا، اس نے میرے سلام کا جواب دیا۔ میں نے اس سے پوچھا کہ تو انسان ہے یا جن؟ اس نے کہا میں جن ہوں۔ میں نے کہا کہ ذرا اپنا ہاتھ دو۔ اس نے اپنا ہاتھ بڑھادیا ۔ میں نے اپنے ہاتھ میں لیا تو کتے جیسا ہاتھ تھا اور اس پر کتے جیسے بال بھی تھے۔ میں نے پوچھا تم یہاں کیوں آئے ہو؟ اس نے کہا کہ تم صدقہ کو پسند کرتے ہو اور میں تمہارے مال کو لینے آیا ہوں تاکہ تم صدقہ نہ کرسکو۔ میں نے پوچھا کہ تمہارے شر سے بچنے کی کوئی تدبیر ہے؟ اس نے کہا: آیت الکرسی ، جو شخص شام کو پڑھ لے وہ صبح تک اور جو صبح کو پڑھ لے وہ شام تک محفوظ ہوجاتا ہے۔ صبح ہونے پر حضرت ابی بن کعبؓ نے نبی اکرم ﷺ سے اس واقعہ کا ذکر فرمایا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ خبیث نے یہ بات بالکل سچی کہی ہے۔ (نسائی، طبرانی۔۔ الترغیب والترہیب ۶۶۲)

اسی طرح کا ایک واقعہ حضرت ابوایوب انصاریؓ کا بھی احادیث کی کتابوں میں مذکور ہے۔ غرض آیت الکرسی کے ذریعہ جنات وشیاطین سے حفاظت کے متعدد واقعات صحابہ کے درمیان پیش آئے۔ (تفسیر ابن کثیر)

حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص سورۂ المؤمن کو حٰمٓسے الیہ المصیر تک اور آیت الکرسی کو صبح کے وقت پڑھ لے گا‘ وہ شام تک اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں رہے گا اور شام کو پڑھنے والے کی صبح تک حفاظت ہوگی۔ (ترمذی، کتاب فضائل القرآن، باب ما جاء فی سورہ البقرہ وآیہ الکرسی ج ۲۸۷۹)

آیت الکرسی اسم اعظم پر مشتمل:

حضرت اسماء بنت یزیدؓ سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اِن دونوں آیتوں میں اللہ تعالیٰ کا اسم اعظم ہے ایک تو آیت الکرسی اور دوسری آیت الم اللَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ(مسند احمد۶/۴۶۱، ابوداؤد، کتاب الوتر، باب الدعاء ح ۱۴۹۶، ترمذی، کتاب الدعوات، باب فی ایجاب الدعاء بتقدیم الحمد ح ۳۴۷۸، ابن ماجہ، کتاب الدعاء، باب اسم اللہ الاعظم ج ۳۸۵۵)

حضرت ابوامامہ الباہلیؓ سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اسم اعظم جس نام کی برکت سے جو دعا اللہ تعالیٰ سے مانگی جائے وہ قبول فرماتا ہے، وہ تین سورتوں میں ہے سورۂ البقرہ، سورۂ آل عمران اور سورۂ طہ۔ (ابن ماجہ، کتاب الدعا،، باب اسم اللہ الاعظم ح ۳۸۵۵)

وضاحت: سورۂ البقرہ میں آیت نمبر ۲۵۵، سورۂ آل عمران میں آیت نمبر ۲ اور سورۂ طہ میں آیت نمبر ۱۱۱ہے۔

آیت الکرسی چوتھائی قرآن:

حضور اکرم ﷺ نے آیت الکرسی کو چوتھائی قرآن کہا ہے۔ (مسند احمد ۳/۲۲۱، ترمذی کتاب فضائل القرآن،باب ما جاء فی اذا زلزلت، ح ۲۸۹۵)

مفہوم آيت الکرسی: اس توحید کی اہم آیت میں ۱۰ جملے ہیں:

اللَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ: یہی وہ پیغام ہے جس کی دعوت تمام انبیاء ورسل نے دی کہ معبود حقیقی صرف اور صرف اللہ تبارک وتعالیٰ ہے، وہی پیدا کرنے والا، وہی رزق دینے والا اور وہی اس پوری دنیا کے نظام کو تنہے تنہا چلانے والا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔ ہم سب اس کے بندے ہیں اور ہمیں صرف اسی کی عبادت کرنی چاہئے۔ وہی مشکل کشا، حاجت روا اور ضرورتوں کو پورا کرنے والا ہے۔ اس نے انسانوں کی ہدایت ورہنمائی کے لئے انبیاء ورسل بھیجے۔ آخر میں تمام نبیوں کے سردار حضرت محمد مصطفی ﷺ کو قیامت تک آنے والے تمام انسانوں کے لئے رحمت للعالمین بناکر بھیجا۔

اَلْحَیُّ الْقَيُّوْمُ: لفظ حَیُّ کے معنی ہیں زندہ یعنی اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیشہ زندہ رہنے والا ہے اور وہ موت سے بالا تر ہے۔ کُلُّ شَیْءٍ هَالِکٌ اِلَّا وَجَْهه،،، کُلُّ مَنْ عَلَيهافَانٍ، وَيَبْقٰی وَجه رَبِّکَ ذُو الْجَلَالِ وَالْاکْرَامِ اللہ تعالیٰ کے سوا ہر چیز ہلاک اور فنا ہوجانے والی ہے۔ قَیُّوْمُ مبالغہ کا صیغہ ہے جس کے معنی ہیں وہ ذات جو خود اپنے بل پر قائم اور دوسروں کے قیام وبقا کا واسطہ اور ذریعہ ہو۔

نوٹ: قیوم اللہ تعالیٰ کی خاص صفت ہے، جس میں کوئی مخلوق شریک نہیں ہوسکتی، کیونکہ جو چیزیں خود اپنے وجود وبقا میں کسی دوسرے کی محتاج ہوں وہ کسی دوسری چیز کو کیا سنبھال سکتی ہیں۔ اس لئے کسی انسان کو قیوم کہنا جائز نہیں ہے۔ لہذا عبدالقیوم نامی شخص کو صرف قیوم کہہ کر پکارنا غلط ہے۔

لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ: سِنَۃٌکے معنی اونگھ اور نَوْمٌ کے معنی نیند کے ہیں۔ ان دونوں کی نفی سے نیند کی ابتدا اور انتہا دونوں کی نفی ہوگئی یعنی اللہ تعالیٰ غفلت کے تمام اثرات سے کمال درجہ پاک ہے۔

لَّهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ: تمام چیزیں جو آسمانوں یا زمین میں ہیں وہ سب اللہ تعالیٰ کی مملوک ہیں، وہ مختار ہے جس طرح چاہے ان میں تصرف کرے۔

مَن ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِندَهُ إِلَّا بِإِذْنِهِ: جب یہ بات واضح ہوگئی کہ اللہ تعالیٰ ہی کائنات کا مالک ہے ، کوئی اس سے بڑا اور اس کے اوپر حاکم نہیں ہے تو کوئی اس سے کسی کام کے بارے میں بازپرس کرنے کابھی حق دار نہیں ہے ، وہ جو حکم جاری فرمائے اس میں کسی کو چون وچرا کرنے کی گنجائش نہیں ہے۔ ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ کوئی شخص اللہ تبارک وتعالیٰ سے کسی کی سفارش یا شفاعت کرے، سو اس کو بھی واضح کردیا کہ اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر اللہ تعالیٰ کے نیک ومقبول بندے بھی کسی کے لئے شفاعت نہیں کرسکتے ہیں۔

رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ محشر میں سب سے پہلے میں ساری امتوں کی شفاعت کروں گا،یہ حضور اکرم ﷺ کی خصوصیات میں سے ہے۔ اسی کا نام مقام محمود ہے، جس کا ذکر سورۂ الاسراء ۷۹ میں آیا ہے عَسَی اَنْ يَّبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَاماً مَّحْمُوداً ۔ نبی اکرم ﷺ کی عام امتیوں کی شفاعت کے علاوہ اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں کو بھی تین شرطیں پائی جانے پر دوسروں کے لئے شفاعت کرنے کی اجازت ہوگی۔

۱) جسکے لئے شفاعت کی جارہی ہے اس سے اللہ تعالیٰ کی رضامندی ہو، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَلَا يَشْفَعُوْنَ اِلَّا لِمَنِ ارْتَضٰی وَهُمْ مِّنْ خَشْيَته مُشْفِقُوْنَ (سورۂ الانبیاء ۲۸) وہ کسی کی بھی شفاعت نہیں کرتے بجز ان کے جن سے اللہ خوش ہو اور وہ اسکی ہیبت سے ڈرتے ہیں۔

۲) شفاعت کرنے والے سے اللہ تعالیٰ راضی ہوں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اِلَّا مِنْ بَعْدِ اَن يَّاْذَنَ اللّهُ لِمَن يَّشَاءُ وَيَرْضَی(سورۂ النجم ۲۶)

۳) اللہ تعالیٰ شفاعت کرنے والے کو شفاعت کی اجازت دے۔ سورہ النجم کی آیت میں اَن يَّاْذَنَ اللّه اور آیت الکرسی میں اِلَّا بِاِذْنه سے یہ شرط واضح طور پر معلوم ہوتی ہے۔ اسی طرح سورۂ یونس آیت ۳ میں ہے : مَا مِنْ شَفِيْعٍ الَّا مِنْ بَعْدِ اِذْنه اس کی اجازت کے بغیر کوئی اس کے پاس سفارش کرنے والا نہیں۔

يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ: اللہ تعالیٰ لوگوں کے آگے پیچھے کے تمام حالات وواقعات سے واقف ہے۔ آگے اور پیچھے کا یہ مفہوم بھی ہوسکتا ہے کہ ان کے پیدا ہونے سے پہلے اور پیدا ہونے کے بعد کے تمام حالات وواقعات اللہ تعالیٰ کے علم میں ہیں۔ اور یہ مفہوم بھی ہوسکتا ہے کہ آگے سے مراد وہ حالات ہیں جو انسان کے لئے کھلے ہوئے ہیں اور پیچھے سے مراد اس سے مخفی واقعات وحالات ہوں تو معنی یہ ہوں گے انسان کا علم تو بعض چیزوں پر ہے اور بعض چیزوں پر نہیں، کچھ چیزیں اس کے سامنے کھلی ہوئی ہیں اور کچھ چھپی ہوئی ، مگر اللہ تبارک وتعالیٰ کے سامنے یہ سب چیزیں برابر ہیں، اس کا علم ان سب چیزوں کو یکساں محیط ہے ۔

وَلَا يُحِيطُونَ بِشَيْءٍ مِّنْ عِلْمِهِ إِلَّا بِمَا شَاءَ: انسان اور تمام مخلوقات اللہ تعالیٰ کے علم کے کسی حصہ کا بھی احاطہ نہیں کرسکتے، مگر اللہ تعالیٰ ہی خود جس کو جتنا حصہ علم عطا کرنا چاہیں صرف اتنا ہی اس کو علم ہوسکتا ہے۔ اس آیت میں بتلادیا گیا کہ تمام کائنات کے ذرہ ذرہ کا علم محیط صرف اللہ تبارک وتعالیٰ کی خصوصی صفت ہے، انسان یا کوئی مخلوق اس میں شریک نہیں ہوسکتی۔

وَسِعَ كُرْسِيُّهُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ: یعنی اس کی کرسی اتنی بڑی ہے کہ جس کی وسعت کے اندرساتوں آسمان اور زمین سمائے ہوئے ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نشست وبرخاست اور حیزومکان سے بالا تر ہے، اس قسم کی آیات کو اپنے معاملات پر قیاس نہ کیا جائے، اس کی کیفیت وحقیقت کا ادراک انسانی عقل سے بالاتر ہے۔ البتہ صحیح احادیث سے اتنا معلوم ہوتا ہے کہ عرش اور کرسی بہت عظیم الشان جسم ہیں جو تمام آسمان اور زمین سے بدرجہا بڑے ہیں۔ علامہ ابن کثیر ؒ نے بروایت حضرت ابو ذر غفاریؓ نقل کیا ہے کہ انہوں نے حضور اکرم ﷺ سے دریافت کیا کہ کرسی کیا اور کیسی ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے کہ ساتوں آسمانوں اور زمینوں کی مثال کرسی کے مقابلہ میں ایسی ہے جیسے ایک بڑے میدان میں انگشتری کا حلقہ (چھلّہ) ڈال دیا جائے۔ اور بعض احادیث میں ہے کہ عرش کے سامنے کرسی کی مثال بھی ایسی ہے کہ جیسے ایک بڑے میدان میں انگشتری کا حلقہ (چھلّہ) ۔

کرسی سے مراد حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے علم منقول ہے، بعض حضرات سے دونوں پاؤں رکھنے کی جگہ منقول ہے، ایک حدیث میں یہ بھی مروی ہے کہ اس کا اندازہ بجز باری تعالیٰ کے اور کسی کو نہیں۔ ابو مالکؒ فرماتے ہیں کہ کرسی عرش کے نیچے ہے۔ سدیؒ کہتے ہیں کہ آسمان وزمین کرسی کے جوف میں اور کرسی عرش کے سامنے۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ ساتوں زمینیں اور ساتوں آسمان اگر پھیلادئے جائیں تو بھی کرسی کے مقابلہ میں ایسے ہوں گے جیسے ایک حلقہ (چھلّہ) کسی چٹیل میدان میں۔ ابن جریر کی ایک مرفوع حدیث میں ہے کہ ساتوں آسمان کرسی میں ایسے ہی ہیں جیسے سات درہم ڈھال میں۔ (تفسیر بن کثیر) بعض مفسرین نے تحریر کیا ہے کہ اس کے معنی ہیں کہ اللہ کا اقتدار آسمانوں اور زمین کے تمام اطراف واکناف پر حاوی ہے، کوئی گوشہ اور کونہ بھی اس کے دائرہ اقتدار سے الگ نہیں ہے۔

وَلَا يَئُودُهُ حِفْظُهُمَا:اللہ تعالیٰ کو ان دونوں عظیم مخلوقات یعنی آسمان وزمین کی حفاظت کچھ گراں نہیں معلوم ہوتی کیونکہ اس قادر مطلق کی قدرت کاملہ کے سامنے یہ سب چیزیں نہایت آسان ہیں۔ ےَءُودکے معنی ہیں کسی چیز کا ایسا بھاری اور گراں ہونا کہ اس کا سنبھالنا مشکل ہوجائے۔

وَهُوَ الْعَلِيُّ الْعَظِيمُ: گزشتہ نو جملوں میں اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات وصفات کے کمالات بیان کئے گئے، ان کو سمجھنے کے بعد ہر عقل مند شخص یہی کہنے پر مجبور ہے کہ ہر عزت وعظمت اور بلندی وبرتری کا مستحق وہی پاک ذات ہے۔

ان دس جملوں میں اللہ جل شانہ کی صفات کمال اور اس کی توحید کا مضمون وضاحت اور تفصیل کے ساتھ آگیا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو قرآن کریم سمجھ کر پڑھنے والا اور اس پر عمل کرنے والا بنائے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کو شرک کی تمام شکلوں سے محفوظ فرمائے، آمین، ثم آمین۔

محمد نجیب سنبھلی قاسمی (najeebqasmi@yahoo.com)