حج یا عمرہ کے احرام کے بغیر حرم مکی میں داخلہ

حج یا عمرہ کے احرام کے بغیر حرم مکی میں داخلہ
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيْم
اَلْحَمْدُ لِلّهِ رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلامُ عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔
حج یا عمرہ کے احرام کے بغیر حرم مکی میں داخلہ
حضور اکرم ﷺ کی تعلیمات کے مطابق پوری امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ میقات سے باہر رہنے والے (یعنی آفاقی، مثلاً ریاض اور دمام کے رہنے والے، اسی طرح ہندوستان وپاکستان کے رہنے والے) جب بھی حج یا عمرہ کی نیت سے مکہ مکرمہ جائیں تو انہیں پانچ میقاتوں میں سے کسی ایک میقات پر یا اس کے مقابل یا اس سے پہلے پہلے احرام باندھنا ضروری ہے۔ اگر آفاقی حدود میقات کے اندر مثلاً مکہ مکرمہ یا تنعیم (جہاں مسجد عائشہ بنی ہوئی ہے) یا جدہ سے احرام باندھ کر حج یا عمرہ کی ادائیگی کرے گا تو ایک دم (یعنی ایک قربانی) واجب ہوگا، ہاں اگر وہ حج یا عمرہ کی ادائیگی سے قبل میقات آکر نیت کرلے تو دم ساقط ہوجائے گا۔
اگر کوئی آفاقی (میقاتوں سے باہر رہنے والا ) حج یا عمرہ کی نیت کے بغیر مکہ مکرمہ جانا چاہتا ہے تو کیا وہ احرام کے بغیر جاسکتا ہے یا نہیں؟ اس بارے میں علماء کا اختلاف ہے، لیکن تمام علماء اس بات پر متفق ہیں کہ احتیاط اسی میں ہے کہ جب بھی آفاقی مکہ مکرمہ جائے تو وہ احرام باندھ کر ہی جائے۔ امام ابوحنیفہؒ ، امام مالکؒ اور امام احمد بن حنبل ؒ کی رائے ہے کہ حرم کے تقدس کو باقی رکھنے کے لئے اسے احرام باندھ کر ہی مکہ مکرمہ جانا ضروری ہے۔ لیکن امام شافعی ؒ کی رائے ہے کہ ضروری نہیں ہے بلکہ مستحب ہے، جیساکہ امام نووی ؒ نے ذکر کیا ہے۔ جمہور علماء حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث کو دلیل کے طور پر پیش فرماتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: احرام کے بغیر میقات سے آگے نہ بڑھو۔ (طبرانی) اسی طرح مشہور تابعی حضرت سعید بن جبیرؒ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: کوئی شخص بغیر احرام کے میقات سے آگے نہ بڑھے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ۴/۵۲)فتح مکہ کے موقع پر آپﷺ کابغیر احرام کے مکہ مکرمہ میں داخل ہونا ایک عذر شرعی کی بنیاد پر تھا، جیسا کہ فتح مکہ کے موقع پر بعض افراد کا حدود حرم حتی کہ مسجد حرام میں قتل کیا جانا شرعی عذر کی وجہ سے تھا کیونکہ احادیث میں وارد ہے کہ صرف چند ساعات کے لئے قتال کو حلال قرار دیا گیا تھا۔ اور فتح مکہ کے بعد کوئی بھی صحابی بغیر احرام کے مکہ مکرمہ نہیں جاتا تھا۔ حضرت امام شافعی ؒ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: یہ میقاتیں یہاں کے باشندوں اور ان حضرات کے لئے ہیں جو میقات سے گزر کرجائیں اور وہ حج یا عمرہ کا ارادہ رکھتے ہوں۔ یعنی جو آفاقی حج یا عمرہ کے ارادہ سے مکہ مکرمہ جائے گا اسے پانچ میقاتوں میں سے کسی ایک میقات پر احرام باندھنا ضروری ہے،لیکن اگر وہ کسی دوسرے کام مثلاً تجارت یا ملازمت کی غرض سے جارہا ہے تو احرام باندھنا ضروری نہیں ہے۔
عصر حاضر کے مشہور عالم دین قاضی مجاہد الاسلام ؒ کی سرپرستی میں ہندوستان میں علماء احناف کا اس مسئلہ پر۱۹۹۹ میں ایک سیمینار منعقد کیا گیا تھا،جس میں علماء کرام نے اپنے اپنے قیمتی مقالے پیش فرمائے جن میں سے بعض علماء نے وہی موقف اختیار کیا جو علماء احناف کی اکثریت نے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما والی حدیث کی بناء پر اختیار کیا ہے کہ آفاقی کے لئے مکہ مکرمہ میں داخل ہونے کے لئے احرام ضرور ی ہے، لیکن علماء کرام کی دوسری جماعت نے کہا کہ عصر حاضر میں تاجر اور ڈرائیور وغیرہ بار بار مکہ مکرمہ جاتے ہیں اور ان کے لئے ہر مرتبہ احرام کو لازم قرار دینے میں دشواری لازم آئے گی۔ لہٰذا وہ حضرات جن کو کاروبار یا ملازمت وغیرہ کی وجہ سے بار بار مکہ مکرمہ جانا پڑتا ہے ، بغیر احرام کے مکہ مکرمہ جاسکتے ہیں۔
وہ حضرات جو بار بار تو مکہ مکرمہ نہیں جاتے ہیں لیکن سعودی عرب میں مقیم ہونے کی وجہ سے متعدد حج وعمرہ کی ادائیگی کرچکے ہیں اور کسی سفر میں کسی وجہ سے عمرہ کی ادائیگی نہیں کرنا چاہتے ہیں تو بغیر احرام کے مکہ مکرمہ میں داخل ہونے پر ان شاء اللہ دم تو واجب نہیں ہوگا، حالانکہ انہیں عمرہ کا احرام باندھ کر ہی مکہ مکرمہ جانا چاہئے۔ بغیر احرام کے مکہ مکرمہ میں داخل ہونے کے بعد مکہ مکرمہ یا مسجد عائشہ سے احرام باندھ کر عمرہ کی ادائیگی نہ کریں کیونکہ نیت پہلے سے شامل ہونے پر دم واجب ہوجائے گا۔ غرضیکہ پوری امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ آفاقی کو یہی کوشش کرنی چاہئے کہ جب بھی مکہ مکرمہ جائے تو وہ احرام باندھ کر ہی جائے۔ عمرہ کی ادائیگی سے قبل یا فراغت کے بعد سفر کے دوسرے مقاصد (مثلاً میٹنگ میں شرکت ، کاروبار، ہندوستان یا پاکستان سے آئے رشتے داروں سے ملاقات) پورے کرلے۔ لیکن اگر کوئی شخص ریاض یا مدینہ منورہ یا دمام میں رہتا ہے اور متعدد حج وعمرہ کی ادائیگی کرچکا ہے لیکن کسی عذر کی وجہ سے کسی سفر میں بغیر احرام کے مکہ مکرمہ میں داخل ہوجائے تو ان شاء اللہ دم واجب نہیں ہوگا۔
بعض آفاقی صرف ختم قرآن یا ۲۷ ویں شب کی عبادت میں شرکت کے لئے بغیر احرام کے مکہ مکرمہ جاتے ہیں، یہ ان کی خواہش تو ہوسکتی ہے، لیکن شریعت اسلامیہ یہی چاہتی ہے کہ ان مذکورہ اعمال میں شرکت کے لئے بھی بغیر احرام کے مکہ مکرمہ نہ جایا جائے۔ یعنی عمرہ کا احرام باندھ کرجائیں اور عمرہ کی ادائیگی کے ساتھ ان اعمال میں شرکت بھی کرلیں۔ آفاقی ایک عمرہ کی ادائیگی کے بعد اسی سفر میں دوسرا یا تیسرا عمرہ کرنا چاہتا ہے تو پھر میقات پر جانے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ حدود حرم سے باہر کسی بھی جگہ مثلاً تنعیم (جہاں مسجد عائشہ بنی ہوئی ہے) جاکر دوسرے عمرہ کا احرام باندھ لے۔ دوسرے عمرہ کی ادائیگی کے لئے مرد کا احرام کی چادروں یا خواتین کا لباس بدلنے کی ضرورت نہیں ہے۔
محمد نجیب قاسمی سنبھلی (www.najeebqasmi.com)

کیا مزدلفہ کے خیموں میں (حج کی کے دوران) رات گزاری جاسکتی ہے؟
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيْم
اَلْحَمْدُ لِلّهِ رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلامُ عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔
کیا مزدلفہ کے خیموں میں (حج کی کے دوران) رات گزاری جاسکتی ہے؟
امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ ۸ ذی الحجہ کو منی میں قیام کرکے ظہر، عصر، مغرب اور عشا کی نماز کی ادائیگی اور رات منی میں گزارکر ۹ ذی الحجہ کو نماز فجر کی ادائیگی کرنا حجا ج کرام کے لئے سنت ہے، فرض یا واجب نہیں ہے، لہٰذا اس میں اگر کوئی کوتاہی ہوجائے، مثلاً ۸ ذی الحجہ کو منی پہنچ ہی نہیں سکے یا تاخیر سے پہنچے تو کوئی دم وغیرہ واجب نہیں ہوگا۔ حضور اکرم ﷺکی سنت یہ ہے کہ ۸ ذی الحجہ کی صبح کو طلوع آفتاب کے بعد منی جایا جائے، لیکن لاکھوں حجاج کرام کے مجمع کو سامنے رکھ کر معلمین حضرات ۷ ذی الحجہ کے بعد آنے والی رات میں ہی منی لے جاتے ہیں۔ حجاج کرام کو معلمین کے ساتھ ہی منی چلے جانا چاہئے۔ اگر خیمہ منی کے بجائے مزدلفہ (درجہ ھ) میں ملا ہے، تو وہیں قیام کریں ،کوئی دم وغیرہ واجب نہیں ہوگا۔ حجاج کرام کو چاہئے کہ منی پہنچ کر تمام نمازیں اپنے وقت پر ادا کرکے زیادہ سے زیادہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں، قرآن کی تلاوت کریں، ذکر کریں، دعائیں کریں اور وقتاً فوقتاً حج کا ترانہ یعنی تلبیہ پڑھتے رہیں۔ دنیاوی گفتگو میں اپنے وقت کو ضائع نہ کریں۔ ان ایام میں زیادہ مصالحہ دار کھانا نہ کھائیں، پانی اور پھلوں کا استعمال زیادہ کریں۔
مزدلفہ سے واپسی کے بعد ۱۰ اور ۱۱ ذی الحجہ کے بعد آنے والی رات منی میں گزارنا واجب ہے یا سنت، اس سلسلہ میں فقہاء وعلماء کا اختلاف ہے۔ حضرت امام ابوحنیفہؒ اوردیگر فقہاء وعلماء کی رائے ہے کہ ایام تشریق میں بھی منی میں رات گزارنا واجب نہیں بلکہ سنت ہے۔ اب جگہ کی تنگی کی وجہ سے مزدلفہ میں بھی خیمے لگے ہوئے ہیں، حجاج کرام کی اچھی خاصی تعداد منی کے بجائے یہاں قیام کرتی ہے۔ لہذا اگر خیمہ منی کے بجائے مزدلفہ میں ملا ہے، تو وہیں قیام فرمائیں، ان شاء اللہ کوئی دم واجب نہیں ہوگا، کیونکہ حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ نے حجاج کرام کو پانی پلانے کے لئے نبی اکرم ﷺ سے رات مکہ مکرمہ میں گزارنے کی ا جازت طلب کی تھی تو آپ نے اجازت دے دی تھی۔ (صحیح بخاری وصحیح مسلم) حضرت عباسؓ اور بعض دیگر اصحاب کو رات مکہ مکرمہ میں گزارنے کی اجازت مرحمت فرمانا اس بات کی دلیل ہے کہ ایام تشریق میں رات منی میں گزارنا سنت ہے واجب نہیں۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ جمرہ پر کنکریاں مارنے کے بعد جہاں چاہو قیام کرو۔ (مصنف ابن ابی شیبہ) نیز واجب قرار دینے کے لئے کوئی واضح دلیل موجود نہیں ہے۔ حضرت امام شافعیؒ اور حضرت امام احمد بن حنبل ؒ کی دوسری روایت بھی یہی ہے کہ ایام تشریق کے دوران رات منی میں گزارنا سنت ہے واجب نہیں۔
دیگر فقہاء وعلماء (مثلاً امام شافعیؒ ، امام مالکؒ اور امام احمد بن حنبلؒ ) فرماتے ہیں کہ ایام تشریق کے دوران منی میں رات گزارنا واجب ہے اور اس کے ترک پر دم واجب ہوگا۔ احادیث کے ذخیرہ میں نبی اکرمﷺ کا کوئی واضح فرمان ایسا موجود نہیں ہے جس میں کہا گیا ہو کہ ایام تشریق کے دوران منی میں رات گزارنا واجب ہے اور اس کے ترک پر دم واجب ہوگا۔ البتہ بعض احادیث کو دلیل کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ مثلاً حضور اکرم ﷺکا فرمان: ’’خُذُوْ عَنِّیْ مَنَاسِکَکُمْ‘‘ مجھ سے حج کی ادائیگی کا طریقہ سیکھو۔نبی اکرمﷺ اور صحابۂ کرام نے ایام تشریق میں منی ہی میں قیام فرمایا تھا۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ اور بعض صحابہ کرام کو مکہ مکرمہ میں رات گزارنے کی اجازت ایک ضرورت کے تحت دی گئی تھی۔ حضور اکرم ﷺ اور صحابۂ کرام کی جانب سے رات منی میں گزارنے کے وجوب کے متعلق واضح تعلیمات نہ ہونے کی وجہ سے ان فقہاء وعلماء کے درمیان اختلاف ہے کہ رات کا کتنا حصہ منی میں گزارنا واجب ہے۔ بعض فقہاء وعلماء نے مزدلفہ کی رات پر قیاس کرکے فرمایا کہ اگر کسی شخص نے فجر کی نماز منی میں پہنچ کر ادا کرلی تو منی میں رات گزارنے کا وجوب ادا ہوجائے گا۔ جبکہ بعض فقہاء وعلماء نے کہا کہ جس طرح شریعت اسلامیہ نے مزدلفہ میں آدھی رات (یعنی رات کا اکثر حصہ) گزارنے کے بعد بوڑھے اور خواتین کو مزدلفہ سے منی جانے کی اجازت دی ہے، اسی طرح رات کا اکثر حصہ منی میں گزارنا ضروری ہے ورنہ دم لازم ہوگا۔
مگر تحقیقی بات یہی ہے کہ حضور اکرم ﷺ کی جانب سے واضح تعلیمات نہ ہونے کی وجہ سے ایام تشریق میں منی میں رات گزارنے کو واجب قرار دینا محل نظر ہے۔ حجاج کرام کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر ۸۰ ہجری میں پیدا ہوئے مشہور محدث وفقیہ حضرت امام ابوحنیفہ ؒ اور دیگر فقہاء وعلماء کے موقف کو سامنے رکھ کر اب سعودی حکومت کی جانب سے مزدلفہ میں بھی بہت سے خیمے لگا دئے گئے ہیں، جہاں حجاج کرام منی میں قیام کے دوران قیام فرماتے ہیں۔ حضرت امام ابوحنیفہ ؒ نے دلائل شرعیہ کی روشنی میں آج سے تقریباً ۱۳۰۰ قبل یہ بات کہی تھی کہ ایام تشریق کی راتیں منی میں گزارنا واجب نہیں بلکہ سنت ہے۔ ان دنوں کچھ حضرات نے مزدلفہ کی اس جگہ کو جہاں خیمہ لگے ہوئے ہیں Extended Mina کہنا شروع کردیا ہے، حالانکہ حدود منی اللہ کے حکم سے نبی اکرم ﷺ نے متعین کردی ہیں، اس کو بڑھانا کسی انسان کے اختیار میں نہیں ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ اگر منی میں قیام ہمارے اختیار میں ہے، مثلاً لوکل حجاج کرام کو آن لائن رجسٹریشن کے وقت یہ اختیار ہوتا ہے کہ وہ اپنا خیمہ مزدلفہ کی جگہ پر منی میں حاصل کریں، جس کے لئے انہیں کچھ رقم زیادی ادا کرنی پڑتی ہے، اور وہ زیادہ رقم ادا کرنے کی استطاعت بھی رکھتے ہیں تو انہیں چاہئے کہ منی ہی میں خیمہ حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ لیکن دیگر ممالک سے آنے والے حضرات کے لئے عموماً اس طرح کا اختیار نہیں ہوتا ہے، یا کوئی لوکل حاجی زیادہ رقم ادا کرنے کی استطاعت نہیں رکھتا ہے تو وہ مزدلفہ میں اپنے خیمہ میں ہی قیام کرسکتا ہے، یا کسی حاجی کا خیمہ تو منی ہی میں ہے لیکن طواف زیارت اور حج کی سعی کرنے کی وجہ سے رات منی میں نہیں گزارسکا تو ان شاء اللہ اس پر کوئی دم واجب نہیں ہوگا۔ جن حجاج کرام کو مزدلفہ میں خیمہ ملتا ہے تو وہ عرفات سے واپسی پر اپنے خیمہ میں رات گزار نا چاہیں تو شرعاً اس کی گنجائش تو ہے لیکن اگر حضور اکرم ﷺ کی اتباع میں کھلے میدان میں رات گزاریں تو بہتر ہے۔
محمد نجیب قاسمی سنبھلی (www.najeebqasmi.com

لوگوں میں حج کا اعلان کردو کہ وہ تمہارے پاس پیدل آئیں: قرآن کریم
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيْم
اَلْحَمْدُ لِلّهِ رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلامُ عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔
لوگوں میں حج کا اعلان کردو کہ وہ تمہارے پاس پیدل آئیں: قرآن کریم
بیت اللہ کی تعمیر کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حکم دیا: لوگوں میں حج کا اعلان کردو کہ وہ تمہارے پاس پیدل آئیں، اور دور دراز کے راستوں سے سفر کرنے والی اُن اونٹنیوں پر سوار ہوکر آئیں جو (لمبے سفر سے )دبلی ہوگئی ہوں۔ (سورۃ الحج ۲۷) حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کہا کہ اے میرے رب! میں کیسے یہ پیغام لوگوں تک پہنچاؤں؟ آپ سے کہا گیا کہ آپ ہمارے حکم کے مطابق آواز لگائیں، پیغام کو پہنچانا ہمارے ذمہ ہے۔ چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے آواز لگائی، اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت سے یہ آواز دنیا کے کونے کونے تک پہنچائی حتی کہ قیامت تک جس شخص کے مقدر میں بھی حج بیت اللہ لکھا ہوا تھا، اس نے اس آواز کو سن کر لبیک کہا۔ (تفسیر بن کثیر) اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے پیدل چل کر حج کرنے والے شخص کا ذکر پہلے اور سواری پر سوار ہونے والے شخص کا ذکر بعد میں کیا ہے۔ اس وجہ سے علماء کی ایک جماعت نے کہا ہے کہ پیدل چل کر حج کی ادائیگی کرنا سواری پر حج کرنے سے افضل ہے۔ البتہ دوسری جماعت کی رائے ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے اپنا پہلا اور آخری حج اونٹنی پر سوار ہوکر کیا تھا، لہٰذا سواری پر حج کی ادائیگی زیادہ افضل ہے۔ (تفسیر بن کثیر) صحیح بخاری کی سب سے مشہور شرح لکھنے والے علامہ ابن حجر عسقلانی ؒ تحریر کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ عباس رضی اللہ عنہما پیدل چل کر حج کرنے کا خاص اہتمام فرماتے تھے کیونکہ قرآن کریم میں پیدل چل کر حج کرنے کا ذکر سواری پر سوار ہوکر حج کرنے سے قبل کیا گیا ہے۔ فتح الباری ۔باب وجوب الحج وفضلہ
متعدد صحابۂ کرام سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو مکہ مکرمہ سے حج کے لئے پیدل چل کر جائے اور مکہ مکرمہ لوٹنے تک پیدل ہی چلے تو اللہ تعالیٰ اس کے ہر قدم کے عوض سات سو نیکیاں لکھتا ہے۔ اور ان میں ہر نیکی حرم میں کی گئی نیکیوں کی طرح ہے۔ ان سے پوچھا گیا: حرم کی نیکیاں کیا ہیں؟ فرمایا: ’’ان میں سے ہر نیکی ایک لاکھ نیکیوں کے برابر ہے۔ ‘‘ (المستدرک ۔ باب فضیلۃ الحج ماشیا، اخبار مکۃ للفاکہی ۔ ذکر المشی فی الحج وفضلہ، المعجم الکبیر للطبرانی، صحیح ابن خزیمہ، مسند حاکم) مذکورہ بالا حدیث کی سند پر بعض محدثین نے کلام کیا ہے، جبکہ دیگر محدثین نے یہ حدیث کتب حدیث میں مختلف طرق سے وارد ہونے کی وجہ سے فضائل کے حق میں تسلیم کی ہے۔
حضرت عبد اللہ بن عباس، حضرت عبد اللہ بن عمر اورحضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہم سے ثابت ہے کہ وہ مکہ مکرمہ سے حج پیدل چل کر کیا کرتے تھے۔ جو شخص اس فضلیت کو حاصل کرسکتا ہے ، اسے ضرور حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ جیسا کہ امام حرم شیخ عبد الرحمن سدیس نے اپنے ایک خطبہ میں فرمایا تھا، جو alminbar.net پر موجود ہے، (خطبہ نمبر ۱۰۱۰ )۔
اس موقعہ پر میرا اس حدیث کو ذکر کرنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ ٹرین اور بس وغیرہ کی سہولیات کے باجود حجاج کرام کو حج کے سفر میں کافی پیدل چلنا پڑتا ہے، اور حجاج کرام پیدل چلنے کی وجہ سے کافی تھکان بھی محسوس کرتے ہیں۔ اگر یہ فضیلت حجاج کرام کو معلوم ہوگی تو ان شاء اللہ یہ حدیث ان کے لئے اکسیر کا کام کرے گی، اور ان کو اس سے ہمت ملے گی۔ اللہ تعالیٰ عازمین حج کے سفر کو آسان بنائے۔ آمین۔
محمد نجیب قاسمی سنبھلی (www.najeebqasmi.com)

سفر حج کی آپ بیتی اور انتظامی امور کا جائزہ
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيْم
اَلْحَمْدُ لِلّهِ رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلامُ عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔
سفر حج کی آپ بیتی اور انتظامی امور کا جائزہ
امسال شوال کی ابتدائی تاریخوں میں ہی حج کی ادائیگی کا ارادہ کرلیا تھا۔ سالِ گزشتہ سے سعودی عرب میں مقیم عازمین حج کے لئے آن لائن رجسٹریشن شروع کردیا گیا ہے۔ جس سے جہاں عازمین حج کو سہولت ہوئی ہے، وہیں حجاج کرام کے لئے مالی اخراجات میں کمی واقع ہوئی ہے اور غیر قانونی طور پر جانے والے عازمین حج پر کافی حد تک کنٹرول بھی ہوا ہے۔ سعودی حکومت کا یہ قدم قابل تحسین ہے البتہ اس میں مزید بہتری لانے کی ضرورت ہے۔ سعودی حکومت نے امسال بھی تقریباً پچاس ہزار لوکل حاجیوں کو رعایتی قیمت پر حج کرانے کا فیصلہ کیا۔ رعایتی قیمت پر رجسٹریشن کے حصول کے لئے یکم ذو القعدہ کو صبح آٹھ بجے سے بے شمار حضرات کی طرح میں بھی آن لائن کوشش میں لگ گیا، مگر سالِ گزشتہ کی طرح امسال بھی ہزاروں افراد کے بیک وقت رجسٹریشن کے حصول کی کوشش کی وجہ سے ویب سائٹ صحیح طریقہ سے کام نہیں کررہی تھی۔ مسلسل تگ ودو کے بعد ہی ظہر تک آن لائن رجسٹریشن کرانے میں کامیابی مل سکی۔ آن لائن رجسٹریشن کے عمل میں مزید سہولت پیدا کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ رعایتی قیمت کا مطلب صرف یہ ہے کہ حکومت اپنی فیس کم لیتی ہے، باقی اخراجات تقریباً برابر ہی ہوتے ہیں۔ رجسٹریشن کے بعد چار ہزار ریال فی شخص (تقریباً ستر ہزار روپئے) فیس بھی آن لائن جمع کردی گئی۔ دیگر مطلوبہ دستاویزات بھی آن لائن ارسال کردئے گئے۔ چند ایام میں حج کی تصریح (اجازت نامہ) بھی آن لائن دستیاب ہوگئی۔
آن لائن رجسٹریشن کے وقت مکہ مکرمہ کی حج کمپنی ’’شرکہ محمد عبداللہ القرشی‘‘ کو اختیار کرنے کی وجہ سے ریاض سے مکہ مکرمہ آنے جانے کا انتظام ہمیں خود کرنا تھا، چنانچہ سابتکو (سرکاری بس سروس) کا ۲۲۰ ریال فی شخص آنے جانے کا ٹکٹ ذوالقعدہ کے آخر میں ہی حج کی تصریح دکھاکر خرید لیا تھا۔ ۷ ستمبر بروز بدھ کو ایرکنڈیشن بس کے ذریعہ مکہ مکرمہ کے لئے روانہ ہوئے۔ رات نو بجے طائف کے قریب واقع میقات (السیل الکبیر) پہنچ گئے، جو ریاض سے تقریباً ۸۰۰ کیلومیٹر کے فاصلہ پر ہے۔ ریاض ودمام وغیرہ سے عمومی طور پر عازمین حج ۶ یا ۷ ذی الحجہ کو روانہ ہوتے ہیں، ہم ۵ ذی الحجہ کی دوپہر کو روانہ ہوگئے تھے، اس لئے میقات پر ازدحام نہیں تھا۔ سہولت کے ساتھ غسل کیا، احرام باندھ کر مسجد میں سنت کے مطابق دایاں قدم رکھ کر دعا پڑھتے ہوئے داخل ہوئے۔پہلے عشاء کی نماز ادا کی اور پھر اپنے نبی کی اقتداء میں دو رکعات نفل احرام کی نیت سے ادا کیں اور حج کی نیت کرکے تلبیہ پڑھا۔ تلبیہ پڑھتے ہی یقین ہوگیا کہ ہماری روح نے بھی آج سے تقریباً چار ہزار سال قبل حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ندا کے جواب میں متعدد مرتبہ لبیک کہا تھا ۔
تقریباً دو گھنٹہ حج کا ترانہ (لبیک اللہم لبیک) پڑھتے ہوئے میقات (السیل الکبیر) سے ۱۰۰ کیلومیٹر کے فاصلہ پر دنیا کے وسط میں واقع شہر مکہ مکرمہ پہنچ گئے جہاں کی زیارت ہر مسلمان کی دلی خواہش ہوتی ہے، اور کتنے ہی مسلمان اپنی اس تمنا کو دل میں لے کر دنیا سے چلے جاتے ہیں۔ مسجد حرام سے ۷ کیلومیٹر کے فاصلہ پر تنعیم، جہاں مسجد عائشہ بنی ہوئی ہے، کے قریب اپنے قریبی رشتہ دار کے گھر پر تھوڑا آرام کرکے تلبیہ پڑھتے ہوئے مسجد حرام کی طرف روانہ ہوئے۔
سنت کے مطابق مسجد حرام میں داخل ہوکر بیت اللہ پر پہلی نگاہ پڑنے پر دعا کی کیونکہ اس موقع پر مانگی گئی دعا قبول ہوتی ہے۔ یہی وہ ہمارا قبلہ ہے جس کی طرف رخ کرکے دنیا بھر کے مسلمان اپنے نبی کی آنکھوں کی ٹھنڈک یعنی نماز کی ادائیگی کرتے ہیں۔ حج کی تین قسموں میں سے حج بدل میں حج افراد کرنا احتیاط پر مبنی ہے، اگرچہ حج قران اور حج تمتع کی بھی گنجائش ہے۔ ہندوپاک سے آنے والے عازمین حج عموماً حج تمتع ہی کرتے ہیں، جس میں پہلے عمرہ کی ادائیگی اور پھر بعد میں حج کی ادائیگی کی جاتی ہے، جبکہ قران میں عمرہ اور حج کا ایک ساتھ احرام باندھا جاتا ہے۔ حج افراد میں عمرہ شامل نہیں ہوتا ہے۔ہمارا احرام حج افراد کا تھا، لہٰذا بیت اللہ کا طواف (طواف قدوم جو سنت ہے) کیا اور خواتین ساتھ میں ہونے کی وجہ سے سہولت پر عمل کرتے ہوئے حج کی سعی بھی اسی وقت کرلی۔ سعی کی ابتدا صفا سے ہوتی ہے اور آخری ساتواں چکر مروہ پر مکمل ہوتا ہے۔
۶اور ۷ ذی الحجہ کو مکہ مکرمہ کے قیام کے دوران شدید گرمی کے باوجود مسجد حرام میں نمازیں ادا کرنے کی کوشش کی کیونکہ مسجد حرام میں ایک نماز ایک لاکھ نمازوں کے برابر ہے جو پوری زندگی کی نمازوں کی تعداد سے زیادہ ہے۔ محسن انسانیت کے طریقہ کے مطابق یوم الترویہ (یعنی ۸ ذی الحجہ) کی صبح کو مکہ مکرمہ سے حج کمپنی کی بس کے ذریعہ منی پہنچ کر خیمہ میں قیام کیا۔ ریاض واپسی تک صرف ۹ روز کا پروگرام ہونے کی وجہ سے اس پورے سفر میں ظہر، عصر ا ور عشاء کی ۲ رکعات فرض ادا کیں۔ نماز وتر اور فجر کی سنت کے اہتمام کے ساتھ حسب سہولت سنن ونوافل بھی پڑھیں۔ سفر میں سنن ونوافل چھوڑنے کی اجازت تو ہے، لیکن یہ یقین رکھ کر کہ سنن ونوافل پڑھنے میں ہمارا ہی فائدہ ہے، خیمہ میں رہ کر دنیاوی گفتگو سے بچ کر سنن ونوافل کے پڑھنے کے ساتھ تلاوت قرآن اور ذکر الہٰی کا اہتمام کیا۔ وقتاً فوقتاً حج کا ترانہ تھوڑی آواز کے ساتھ پڑھتے رہے۔ سعودی حکومت کی تعلیمات کے مطابق حج کمپنی کی جانب سے مقامات مقدسہ میں ناشتہ، دوپہر اور شام کے کھانے کے علاوہ چوبیس گھنٹے پانی، جوس اور چائے وغیرہ کا معقول انتظام تھا۔ ہمارے ساتھ اکثر حجاج کرام عرب تھے، وہ اپنی عادت سے مجبور کھانا بہت ضائع کررہے تھے، جس پر کافی تکلیف ہوئی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں کھانے کی اشیاء کو ضائع کرنے سے محفوظ فرمائے۔ ہاں عربوں کے ساتھ حج کی ادائیگی کا ایک فائدہ ضرور ہوا کہ مصالحہ دار کھانے نہیں ملے، اس لئے اس پورے سفر میں الحمد اللہ پیٹ کا نظام صحیح رہا۔
آن لائن رجسٹریشن کے وقت ہی مقامات مقدسہ میں نقل مکانی کے لئے ۲۵۰ ریال کی ادائیگی پر ٹرین کی سہولت حاصل کرلی تھی۔ مقامات مقدسہ میں ٹرین کا سلسلہ ۲۰۱۰ء میں ۱۸ ٹرین کے ساتھ شروع ہوا تھا۔ پہلا سال تجرباتی ہونے کی وجہ سے ٹرین کے الیکٹرونک نظام کو کم استعمال کیا گیا تھا۔ البتہ ۲۰۱۱ء سے ٹرین کے دروازے بند کرنے کے علاوہ مکمل طور سے الیکٹرونک نظام کا استعمال کیا جارہا ہے۔ خواتین اور بوڑھے حجاج کرام کی رعایت میں تمام ڈبوں کے گارڈ کی جانب سے گرین سگنل کے بعد ہی ڈرائیور ٹرین کے دروازے بند کرتا ہے۔ یہ ٹرین بغیر ڈرائیور کے بھی چل سکتی ہے۔ مجموعی طور پر ۹ ریلوے اسٹیشن بنائے گئے ہیں۔ تین منی میں ، تین مزدلفہ میں اور تین عرفات میں۔ اپنے نبی اکرم ﷺکی سنت کے مطابق ۹ ذی الحجہ یعنی یوم العرفہ کی صبح ناشتہ وغیرہ سے فراغت کے بعد حج کمپنی کے مرشدین کے ساتھ ٹرین کے ذریعہ عرفات کے لئے روانہ ہوئے۔ ٹرین کا سفر تقریباً ۱۰ منٹ کا تھا لیکن ٹرین کو حاصل کرنے اور ٹرین سے اترکر عرفات کے خیمہ تک پہنچنے میں کئی گھنٹے لگ گئے، جس کی وجہ سے کافی تھکن بھی ہوئی، لیکن اس یقین کے ساتھ برداشت کیا کہ اللہ تعالیٰ اس پر اجر عظیم عطا فرمائے گا۔ حجاج کرام کی مقامات مقدسہ کے دوران نقل مکانی کے لئے چھ سال میں جتنی بہتری ہونی چاہئے تھی، نہیں ہوسکی۔ یقیناًلاکھوں حجاج کرام کی نقل مکانی ایک بڑا پروجیکٹ ہے، لیکن دشوار کن مراحل پر صلاحیتیں لگاکر ان کو آسان بنانا ہی اصل کامیابی ہے۔ حج کے ایام کے علاوہ مقامات مقدسہ کے بالکل خالی ہونے کی وجہ سے دن رات کام کرکے حجاج کرام کی نقل مکانی کو زیادہ بہتر بنایا جاسکتا ہے۔
خیمہ میں تھوڑا آرام کرکے تقریباً ۲ کیلومیٹر کے فاصلہ پر واقع مسجد نمرہ کی طرف تلبیہ پڑھتے ہوئے پیدل روانہ ہوئے۔ یہی وہ جگہ ہے جہاں ساری انسانیت کے نبی اکرم ﷺ نے ۱۰ ہجری کو زوال آفتاب کے بعد خطبہ دیا تھا، جو خطبہ حجۃ الوداع کے نام سے مشہور ہے۔ یہ خطبہ قیامت تک آنے والی نسل انسانی کے لئے عظیم منشورودستور ہے۔ ۸ہجری میں مکہ مکرمہ فتح ہوا، ۹ ہجری میں حج کی فرضیت ہوئی مگر ۹ ہجری کو آپ ﷺ حج کی ادائیگی نہیں کرسکے، بلکہ آپ ﷺنے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو عازمین حج کا امیر بناکر روانہ فرمایااور سورۃ التوبہ آیت ۲۸کے مطابق یہ اعلان کردیا گیا کہ اس سال کے بعد اس خطہ مبارکہ میں کوئی کافر یا مشرک نہیں رہے گا۔ آئندہ سال یعنی۱۰ ہجری کو مدینہ منورہ سے پہلا اور آخری حج آپ ﷺ نے تقریباً ایک لاکھ چوبیس ہزار صحابۂ کرام کی معیت میں کیا۔ اور اس کے صرف تین ماہ بعد آپ ﷺ اس دار فانی سے دار بقا کی طرف کوچ کرگئے۔
مسجد نمرہ کی دیوار کے نیچے دھوپ کی تپش میں چھتری لگائے بیٹھ کر خطبہ شروع ہونے کا انتظار کیا۔ حجاج کرام کی اکثریت مسجد نمرہ نہیں پہنچ پاتی ہے، بلکہ زیادہ تر حجاج کرام اپنے اپنے خیموں میں ہی نماز ادا کرتے ہیں۔ سعودی حکومت کی جانب سے لگائے گئے فواروں سے ہلکا ہلکا پانی جسم پر گرنے کی وجہ سے گرمی کی شدت سے کافی راحت مل رہی تھی۔ پانی، جوس اور لسی وغیرہ ایسی عقیدت کے ساتھ مسلم بھائی تقسیم کررہے تھے کہ ان کے خلوص اور محبت کی وجہ سے حجاج کرام خوشی خوشی لے رہے تھے۔ مختلف ملکوں کے رہنے والے، مختلف رنگ والے اور مختلف زبان بولنے والے شدید گرمی کے باوجود صرف اللہ کے حکم کی تعمیل میں اپنی ظاہری زیب وزینت چھوڑکر تھوڑی بلند آواز کے ساتھ تلبیہ پڑھ رہے تھے۔ اس موقعہ پر دل سے دعا بھی نکل رہی تھی کہ اللہ تعالیٰ حاجیوں کی خدمت کرنے والوں کو اجر عظیم سے نوازے۔ اس پورے سفر میں ایک دوسرے کے لئے ہمدردی، اخوت اورجاں نثاری کی جو مثالیں دیکھنے کو ملیں، دنیا کے کسی کونے میں بظاہر نظر نہیں آتیں۔
زوال آفتاب کے فوراً بعد مسجد حرام کے امام وخطیب ڈاکٹر عبد الرحمن سدیس نے تقریباً ۴۰ منٹ کا خطبہ دیا جس میں اسلام کے محاسن اور خوبیاں بیان کرکے امت مسلمہ کے تمام افراد کو قرآن وحدیث پر عمل کرنے کی دعوت دی۔ شیخ سدیس کے لئے یہ پہلا موقع تھا کہ انہوں نے حج کا خطبہ دیا کیونکہ سعودی عرب کے مفتی اعظم شیخ عبدالعزیز آل شیخ۳۵ سال سے برابر اس ذمہ داری کو انجام دے رہے تھے۔ خطبہ سن کر ظہر اور عصر کی نمازیں شیخ عبدالرحمن سدیس کی امامت میں پڑھیں۔ نماز سے فراغت کے بعد تلبیہ پڑھتے ہوئے پیدل چل کر خیمہ پہنچ گئے۔ حج کمپنی کی جانب سے پیش کیا گیا دوپہر کا کھانا تناول کیا اور غروب آفتاب تک خیمہ میں ہی دعاؤں میں مشغول رہے۔ نبی اکرم ﷺ نے نماز ظہر اور عصر سے فراغت کے بعد جبل الرحمہ کے قریب وقوف عرفہ کیا تھا، لیکن آپ ﷺ نے فرمایا تھا کہ عرفہ کے میدان میں کسی بھی جگہ وقوف کیا جاسکتا ہے۔یہی وہ عظیم رکن ہے جس کے متعلق سارے نبیوں کے سردار حضرت محمد مصطفی ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ حج عرفات ہی ہے۔ اسی طرح فرمان رسول ﷺہے کہ عرفہ کے دن کے علاوہ کوئی دن ایسا نہیں جس میں اللہ تعالیٰ کثرت سے بندوں کو جہنم سے نجات دیتے ہوں، اس دن اللہ تعالیٰ (اپنے بندوں کے) بہت زیادہ قریب ہوتے ہیں اور فرشتوں کے سامنے اُن (حاجیوں) کی وجہ سے فخر کرتے ہیں اور فرشتوں سے پوچھتے ہیں (ذرا بتاؤ تو) یہ لوگ مجھ سے کیا چاہتے ہیں۔ اس یقین کے ساتھ کہ اس سے زیادہ قیمتی وقت زندگی میں کبھی نہیں مل سکتا ہے، غروب آفتاب تک اپنے لئے، اپنے بچوں، گھروالوں، دوست واحباب ومتعلقین اور امت مسلمہ کے لئے دعاؤں کا خاص اہتمام کیا۔
ٹرین سروس کی انتظامیہ کی جانب سے ہماری حج کمپنی کے حاجیوں کے لئے عرفات سے مزدلفہ روانگی کا وقت رات۱۰ بجے دیا گیا تھا۔ مگر خیمہ سے عرفات ریلوے اسٹیشن اور پھر ٹرین حاصل کرنے میں ڈیڑھ گھنٹہ لگ گیا۔ لیکن صرف ۸ منٹ میں مزدلفہ ریلوے اسٹیشن پہنچ گئے۔ مزدلفہ میں ہماری کمپنی کے حجاج کرام کے لئے مختص جگہ ریلوے اسٹیشن کے بالکل قریب میں واقع تھی۔ ۱۲ بجے مغرب اور عشاء کی نماز ادا کی اور کھانا کھایا۔ تھوڑی دیر کے لئے آرام کیا اور کنکریاں بھی اٹھالیں۔ ہماری حج کمپنی کی جانب سے اعلان کیا گیا کہ نماز فجر سے قبل منی کے لئے روانہ ہونا ہے، حالانکہ وقوف مزدلفہ حج کے واجبات میں سے ہے۔ خواتین، بوڑھے لوگ اور وہ حضرات جو خواتین یا بوڑھے لوگوں کے ساتھ ہیں، کے علاوہ حجاج کرام کو نماز فجر سے پہلے مزدلفہ سے منی جانے پر دم دیناہوگا، اس پر پوری امت مسلمہ کا اتفاق ہے، لہٰذا انتظامیہ کو ایسے فیصلے کرنے سے قبل علماء کرام سے رجوع کرنا چاہئے تاکہ حجاج کرام کو بلا وجہ دم نہ دینا پڑے۔
۱۰ذی الحجہ کو صبح کو بے شمار حاجیوں کے ٹیلیفون کے ذریعہ معلوم ہوا کہ بعض حج کمپنی اور معلموں نے صبح یعنی اذان فجر سے قبل ہی یہ کہہ کر رمی (کنکریاں مارنا) کرادی کہ انہیں حکومت کی جانب سے رمی کے لئے یہی وقت ملا ہے، حالانکہ نبی اکرم ﷺ کے اقوال وافعال کی روشنی میں دنیا کے کسی بھی مکتب فکر یا عالم دین نے ۱۰ ذی الحجہ کو صبح ہونے سے قبل رمی کی اجازت نہیں دی ہے۔ انتظامیہ کی شرعی ذمہ داری ہے کہ اس نوعیت کے فیصلہ سے قبل علماء کرام سے رجوع کرے۔ ۱۰ ذی الحجہ کو صبح ہونے سے قبل رمی کرنے پر دوبارہ صبح ہونے کے بعد کنکریاں مارنی ہوں گی ورنہ ایک دم (یعنی حددو حرم میں زندگی میں ایک قربانی کرنا) لازم ہوگا۔
۱۰ذی الحجہ کو نماز ظہر اپنے خیمہ میں پڑھنے کے بعد منی ریلوے اسٹیشن ۲ سے منی ریلوے اسٹیشن ۳ پر پہنچے، جہاں سے جمرات تک پہنچنے کے لئے تقریباً ایک کیلومیٹر دھوپ میں چلنا پڑا۔ اس موقع پر بعض بوڑھے مرد وعورت کو بے حال دیکھ کر قلق بھی ہوا مگر انتظامیہ کی جانب سے فوری مدد کرنے پر اطمینان بھی ہوا۔ گرمی کی شدت سے بچاؤ کے لئے انتظامیہ کے افراد کا حجاج کرام پر پانی ڈالنا اور گتہ سے ہوا کرنا یقیناًاللہ تعالیٰ کے مہمانوں کی عظیم خدمت ہے، جس کا بدلہ صرف اللہ کی ذات ہی دے سکتی ہے، ہم تو صرف دعا کرسکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کو دونوں جہاں میں اجر عطا فرما۔ منی ریلوے اسٹیشن ۳ سے جمرات کے راستہ پر گرمی سے بچاؤ کے لئے اگر ٹینٹ لگادئے جائیں تو اس سے اللہ کے مہمانوں کو بہت سہولت ملے گی، اور اگر راستہ کے دونوں طرف ٹینٹ کے نیچے جمرات کے پل کی طرح پنکھے بھی لگادئے جائیں تو نورٌ علی نورٌ۔آج کے دن پہلے اور دوسرے جمرہ پر کنکریاں نہیں ماریں۔ صرف آخری جمرہ پر سات دفعہ میں سات کنکریاں بسم اللہ اللہ اکبر کہہ کر ماریں اور حج کا ترانہ یعنی لبیک پڑھنا بند کردیا۔ اور اس کے بعد خیمہ جانے کے لئے منی ریلوے اسٹیشن ۳ تک پہنچنے کے لئے وہی دھوپ والا راستہ اختیار کرنا پڑا کیونکہ اس کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ اس راستہ پر بھی گرمی سے بچاؤ کے لئے ٹینٹ لگ جاتے تاکہ حجاج کرام کو پچاس فیصد گرمی سے راحت مل جاتی۔ ٹرین کے ذریعہ عصر تک اپنے خیمہ میں واپس پہنچ گئے۔ قربانی وحلق سے فراغت کے بعد غسل کیا اور عام لباس پہن لیا۔ اب ہمارے لئے احرام کی تمام پابندیاں ختم ہوگئیں سوائے میاں بیوی والے تعلقات کے، جس کی پابندی ہٹنے کے لئے طواف زیارت (حج کا طواف) کرنا شرط ہے۔ تمام نمازوں کی وقت پر ادائیگی، تلاوت قرآن، ذکر الہٰی اور تکبیر تشریق پڑھنے کے ساتھ حجاج کرام کے سوالات کا جواب دینے کا سلسلہ برابر جاری رہا۔ بڑی خوش نصیبی اور سعادت کی بات ہے کہ ہزاروں حجاج کرام نے حج کے ایام میں ٹیلیفون کرکے مسائل حج معلوم کئے۔ اللہ تعالیٰ تمام حجاج کرام کے حج کو مقبول ومبرور بنائے۔قربانی، حلق یا قصر اور طواف زیارت۱۲ ذی الحجہ کے غروب آفتاب تک دن رات میں کسی بھی وقت کیا جاسکتا ہے۔
۱۱ذی الحجہ کو نماز عصر سے فراغت کے بعد ۱۰ ذی الحجہ کی طرح جمرات پر گئے اور تینوں جمرات پر سات سات کنکریاں ماریں۔ پہلے اور دوسرے جمرہ پر کنکریاں مارنے کے بعد اپنے نبی کی اقتداء میں قبلہ رخ ہاتھ اٹھاکر خوب دعائیں بھی کیں۔ آخری جمرہ پر کنکریاں مارکر مکہ مکرمہ جانے کا ارادہ کیا۔ حجاج کرام کو منی سے مکہ مکرمہ جانے کا کوئی معقول بندوبست نہیں ہے۔ ۲۰۱۰ء میں شروع ہوئی ٹرین سروس بھی ابھی تک مکہ مکرمہ (مسجد حرام) نہیں پہنچ سکی ہے۔ حالانکہ مکہ میٹرو کی تعمیر کے بعد اسے منی ریلوے اسٹیشن ۳ سے جوڑنا تھا، مگر بعض وجوہات کی وجہ سے مکہ میٹرو کے پروجیکٹ پر ابھی تک عمل نہیں ہوسکا ہے۔ اگر ٹرین سروس کے ذریعہ مقامات مقدسہ کو مسجد حرام سے جوڑ دیا جائے تو یہ حجاج کرام پر احسان عظیم ہوگا۔ یہ یقیناًایک دشوار کن مرحلہ ہے، لیکن ضیوف الرحمن کی خدمت کے جذبہ سے اٹھے ہوئے قدم پر اللہ تعالیٰ کی ضرور مدد آئے گی ان شاء اللہ اور مشکل سے مشکل کام بھی آسان ہوجائے گا۔
فی الحال حاجیوں کے لئے منی سے مسجد حرام جانے کے لئے دو ہی آپشن ہیں، ایک پیدل چل کر جائیں جو ۴ یا ۵کیلومیٹر ہونے کی وجہ سے آسان نہیں ہے۔ دوسرا کرائے کی بس یا ٹیکسی سے جایا جائے جس کے لئے کم از کم ۴۰ ریال فی شخص ادا کرنے ہوتے ہیں، نیز ایک تہائی راستہ پھر بھی پیدل چلنا پڑتا ہے۔ ہم نے یہ یقین کرکے (کہ مکہ مکرمہ سے پیدل چل کر حج کرنے کی خاص فضیلت احادیث میں وارد ہوئی ہے، بعض صحابۂ کرام مکہ مکرمہ سے پیدل حج کرنے کا اہتمام کرتے تھے۔ نیز اللہ تعالیٰ نے اپنے پاک کلام میں پیدل چل کر حج کرنے والوں کاذکر پہلے اور سواری پر سوار ہوکر حج کرنے والوں کا ذکر بعد میں کیا ہے) منی سے مکہ مکرمہ پیدل جانے کا ارادہ کرلیا، مگر آدھے راستہ کے بعد یقین ہوگیا کہ خواتین اور بوڑھے لوگوں کے لئے پیدل چل کر مسجد حرام جانا آسان نہیں ہے۔ مسجد حرام پہنچ کر نماز مغرب سے فراغت کے بعد طواف زیارت (حج کا طواف) کیا۔امسال حاجیوں کی تعداد گزشتہ سالوں کے مقابلہ میں کافی کم تھی ۔ امسال بیرون ممالک سے ۱۳ لاکھ، جبکہ سعودی عرب سے ۵ لاکھ حاجیوں نے فریضہ حج کی ادائیگی کی۔ اس سے قبل یہ تعداد پچیس لاکھ سے زیادہ ہوا کرتی تھی۔ اس لئے بہت سہولت کے ساتھ طواف زیارت کرلیا ورنہ طواف زیارت کی ادائیگی ایک مشکل کن مرحلہ ہوتا ہے۔ حج افراد میں ایک سعی کرنی ہوتی ہے، جو ہم طواف قدوم کے ساتھ کرچکے تھے، البتہ طواف افاضہ (حج کا طواف) کرنا تھا،جو وقوف عرفہ کے بعد حج کا سب سے اہم رکن ہے۔ اصولی طور پر طواف وداع آخری عمل ہونا چاہئے، لیکن ہمارے ہمراہ خواتین کی طبیعت کافی ناساز ہورہی تھی، اس لئے رخصت پر عمل کرتے ہوئے طواف زیارت کے بعد طواف وداع بھی کرلیا۔ طواف فرض ہو یاواجب، سنت ہو یا نفل، اس کا ایک ہی طریقہ ہے کہ بیت اللہ کے سات چکر لگائے جائیں، ہر چکر کی ابتدا حجر اسود کے استلام سے اور آخر میں مقام ابراہیم کے پیچھے ورنہ مسجد حرام میں کسی بھی جگہ دو رکعت ادا کرلی جائیں۔
طواف سے فراغت کے بعد ٹیکسی کے ذریعہ منی کے لئے روانہ ہوئے، لیکن ٹیکسی کو منی میں نہ جانے دینے کی وجہ سے تقریباً ڈیڑھ کیلومیٹر پیدل چل کر رات ۱۱ بجے خیمہ میں پہنچے۔ حجاج کرام کو ایام تشریق کی رات کا اکثر حصہ منی میں گزارنا سنت ہے ،لیکن اگر کوئی کوتا ہی ہوجائے تو اس پر کوئی دم لازم نہیں ہوتا۔ خیمہ پہنچ کر تھوڑا کھانا کھایا مگر تھکان اتنی زیادہ ہوگئی تھی کہ پورا جسم درد کررہا تھا ،جس کی وجہ سے نیند بھی نہیں آرہی تھی۔ نماز تہجد، نماز فجر اور نماز اشراق سے فراغت کے بعد آرام کیا۔
۱۲ذی الحجہ کو نماز ظہر کی ادائیگی کے بعد ٹرین کے ذریعہ جمرات گئے اور۱۱ ذی الحجہ کی طرح تینوں جمرات پر کنکریاں ماریں۔ اس طرح مجموعی طور پر ۴۹ کنکریاں ماردیں، جو ہر حاجی کے لئے ضروری ہیں۔ جمہور علماء کی رائے کے مطابق ۱۱ اور ۱۲ ذی الحجہ کو زوال آفتاب کے بعد ہی کنکریاں ماری جاسکتی ہیں۔ ۱۳ ذی الحجہ کی کنکریاں مارنا اختیاری ہیں، یعنی اگر آپ ۱۲ ذی الحجہ کو رمی کے بعد مکہ مکرمہ چلے گئے تو پھر ۱۳ ذی الحجہ کی کنکریاں مارنا ضروری نہیں ہیں، لیکن اگر ۱۳ ذی الحجہ کی کنکریاں مارکر ہی منی سے روانگی کا ارادہ ہے تو پھر ۱۲ ذی الحجہ کے بعد آنے والے رات کو منی میں قیام کرکے ۱۳ ذی الحجہ کو زوال آفتاب کے بعد رمی کریں۔
رمی سے فراغت کے بعد ٹرین کے ذریعہ واپس اپنے خیمہ میں آئے۔ دوپہر کے کھانے اور نماز عصر سے فراغت کے بعد تقریباً ایک کیلومیٹر پیدل چل کر مسجد عائشہ کے قریب اپنے رشتہ دار کے گھر کے لئے دو سو ریال میں ٹیکسی کی، وہاں مغرب اور عشاء کے درمیان آرام کرکے ایرکنڈیشن بس کے ذریعہ ۱۲ گھنٹہ میں ریاض واپسی ہوئی۔ واپسی پر بس یہی دعا زبان پر تھی کہ اللہ تعالیٰ ہمارے حج کو حج مبرور بنائے، جس کا بدلہ صرف اور صرف جنت ہے۔ اور ہمارے چھوٹے بڑے تمام گناہوں کو اس طرح معاف کردے جیسے کوئی بچہ اپنی ماں کے پیٹ سے پیدا ہونے کے روز پاک وصاف تھا، جیساکہ ہمارے نبی ﷺنے فرمایا: جس شخص نے محض اللہ کی خوشنودی کے لئے حج کیا اور اس دوران کوئی بیہودہ بات یا گناہ نہیں کیا تو وہ (پاک ہوکر) ایسا لوٹتا ہے جیسا ماں کے پیٹ سے پیدا ہونے کے روز (پاک تھا)۔ نیز یہ دعا بھی کرتے رہے کہ اللہ تعالیٰ اس پاک سرزمین میں بار بار آنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔ حجاج کرام سے درخواست ہے کہ وطن واپسی کے بعد حقوق اللہ اور حقوق العباد میں کوتاہی سے اپنے آپ کو بچائیں۔ احکام الہٰی کو نبی اکرم ﷺ کے طریقہ کے مطابق بجا لاکر گناہوں سے اپنے آپ کو محفوظ رکھیں اور اللہ تعالیٰ سے مغفرت مانگتے رہیں۔
ڈاکٹر محمد نجیب قاسمی سنبھلی (www.najeebqasmi.com)

حرم مکی یا حرم مدنی میں موت
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيْم
اَلْحَمْدُ لِلّهِ رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلامُ عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔
حرم مکی یا حرم مدنی میں موت
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص میدان عرفات میں رسول اللہﷺ کے ساتھ کھڑا تھا کہ اپنی اونٹی سے گر پڑا اور اس کی گردن ٹوٹ گئی اور وہ مرگیا۔ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کہ اس کو پانی اور بیری کے پتوں کے ساتھ غسل دو، اس کو اسی کے دونوں کپڑوں میں کفن دو، نہ خوشبو لگاؤ اور نہ سر ڈھانکو اس لئے کہ اللہ تعالیٰ اسے قیامت میں اس حال اٹھائے گا کہ یہ لبیک پکارتا ہوگا۔ صحیح بخاری وصحیح مسلم
اللہ تعالیٰ مُحرم کو تلبیہ پڑھتے ہوئے قیامت کے دن اٹھائیں گے تاکہ ظاہری حالت سے ہی اس کا حاجی ہونا معلوم ہوجائے جیسے شہید کو اس حالت میں اٹھایا جائے گا کہ اس کا خون اس کی رگوں سے بہہ رہا ہوگا۔ دیگر احادیث کی روشنی میں یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ اگر کوئی شخص عمرہ کا احرام باندھے ہوئے ہو اور اس کا انتقال ہوجائے تو اسے بھی یہ فضیلت حاصل ہوگی انشاء اللہ۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص حج کو جائے اور راستہ میں انتقال کرجائے، اس کے لئے قیامت تک حج کا ثواب لکھا جائے گا اور جو شخص عمرہ کے لئے جائے اور راستہ میں انتقال کرجائے تو اس کو قیامت تک عمرہ کا ثواب ملتا رہے گا۔ ابن ماجہ
حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا : جو شخص دو حرموں (یعنی مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ) میں سے کسی ایک میں مرے گا توقیامت کے دن امن والوں میں اٹھایا جائے گا۔ اور جو ثواب کی نیت سے مدینہ میں میری زیارت کرنے آئے گا وہ قیامت کے دن میرے پڑوس میں ہوگا۔ (شعب الایمان للبیہقی) اس حدیث کی سند پر بعض علماء نے کلام کیا ہے۔ لیکن جمعہ کے روز مغرب سے قبل بابرکت گھڑی میں کرین حادثہ میں انتقال کرنے والے حضرات انشاء اللہ قیامت کے دن امن وسکون میں ہوں گے اور وہ جنت الفردوس میں مقام حاصل کریں گے۔
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص مدینہ میں مر سکتا ہے (یعنی یہاں آکر موت تک قیام کرسکتا ہے) اسے ضرور مدینہ میں مرنا چاہئے کیونکہ میں اس شخص کے لئے سفارش کروں گا جو مدینہ منورہ میں مرے گا۔ ترمذی
محمد نجیب قاسمی (www.najeebqasmi.com)

حج میں وقوف مزدلفہ سے متعلق ایک تنبیہ
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيْم
اَلْحَمْدُ لِلّهِ رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلامُ عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔
حج میں وقوف مزدلفہ سے متعلق ایک تنبیہ
وقوف مزدلفہ حج کے واجبات میں سے ایک واجب ہے، اس کے چھوڑنے پر دم واجب ہوگا۔ وقوف مزدلفہ کا مطلب ۹ ذی الحجہ کے بعد آنے والی رات مزدلفہ میں گزارکر نماز فجر مزدلفہ میں ادا کرکے کچھ دیر قبلہ کی طرف رخ کرکے دعائیں کرنا۔ اگر کوئی شخص مزدلفہ میں صبح صادق کے قریب پہونچا اور نماز فجر مزدلفہ میں ادا کرلی تو وقوف مزدلفہ کا وجوب ادا ہوجائے ہوگا اور اس پر کوئی دم وغیرہ لازم نہیں ہوگا، لیکن قصداً اتنی تاخیر سے مزدلفہ پہونچنا سنت کے خلاف ہے۔ خواتین، بیمار اور کمزور لوگ آدھی رات مزدلفہ میں گزارنے کے بعد منی جاسکتے ہیں، ان پر کوئی دم واجب نہیں ہوگا۔
۹ذی الحجہ کو غروب آفتاب کے بعد عرفات سے مزدلفہ پیدل جانے والے حجاج کرام اس بات کا خاص خیال رکھیں کہ عرفات کی حدود سے نکلتے ہی مزدلفہ شروع نہیں ہوتا ہے بلکہ چھ سات کیلومیٹر کا راستہ طے کرنے کے بعد مزدلفہ کی حدود شروع ہوتی ہیں۔ مزدلفہ، عرفات اور منی کی حدود کی نشاندہی کے لئے الگ الگ رنگ کے بورڑ لگادئے گئے ہیں کہ کہاں پر حدود شروع اور کہاں پر حدود ختم ہیں، لہذا ان کی رعایت کرتے ہوئے قیام فرمائیں۔ مگر متعدد سالوں سے دیکھا جارہا ہے کہ حجاج کرام کی قابل قدر تعداد مزدلفہ سے قبل ہی مزدلفہ سمجھ کر رات گزار دیتی ہے حتی کہ ہزاروں حجاج کرام راستوں میں ہی قیام کرتے ہیں، جس سے جہاں ان حجاج کرام کا وقوف مزدلفہ صحیح نہیں ہوتا، وہیں دیگر حجاج کرام کو راستہ نہ ملنے کی وجہ سے وہ بھی مزدلفہ کی حدود سے قبل ہی قیام کرلیتے ہیں۔ یہ بات میں دیکھنے میں آئی ہے کہ بعض ایجنٹ حضرات اپنے حاجیوں کو آدھی رات سے قبل ہی منی خیمہ میں لے جاتے ہیں حالانکہ حضور اکرم ﷺ نے صرف بوڑھے اور خواتین کو مزدلفہ سے منی جانے کی اجازت دی تھی وہ بھی آدھی رات مزدلفہ میں گزارنے کے بعد۔ افسوس اور فکر کی بات ہے کہ اس موقع پر رضا کاراور انتظامیہ کے افراد بھی حجاج کرام کی رہنمائی کے لئے نظر نہیں آتے، حالانکہ وقوف مزدلفہ کے واجب ہونے کی وجہ سے اس جگہ پر حجاج کرام کی رہنمائی کے لئے اچھی خاصی تعداد میں رضا کاراور انتظامیہ کے افراد کی ضرورت ہے۔ اگرچہ منی پہنچنے کے بعد رضا کاراور انتظامیہ کے افراد خوب دلچسپی سے حجاج کرام کی خدمت کرتے نظر آتے ہیں۔
جو حجاج کرام ٹرین کے ذریعہ عرفات سے مزدلفہ آتے ہیں وہ میدان مزدلفہ میں داخل ہوجاتے ہیں، مگر وقت کی قلت کی وجہ سے حجاج کرام کی اچھی خاصی تعداد ٹرین کے بجائے گاڑیوں سے یا پیدل عرفات سے مزدلفہ آتی ہے۔ گاڑیوں سے آنے والے حجاج کرام کو بھی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ عرفات سے پیدل چل کر آنے والے حجاج کرام کافی تھک جاتے ہیں اور پھر ان کو آگے جانے کا راستہ نہیں مل پاتا لہٰذا وہ مزدلفہ کی حدود سے قبل ہی آرام کرتے ہیں اور پھر بعد میں اتنا ازدحام ہوجاتا ہے کہ ایک قدم رکھنے کی بھی گنجائش نہیں ہوتی، یعنی پھر اگر حاجی آگے بڑھنا بھی چاہے تو آگے نہیں جاسکتا۔ لہٰذا تمام عازمین حج مزدلفہ پہنچ کر اپنے وقوف مزدلفہ کو صحیح طریقہ سے انجام دیں ورنہ دم لازم آئے گا۔
مزدلفہ پہونچ کر یہ کام کریں:
1) عشاء کے وقت میں مغرب اور عشاء کی نمازیں ملاکر ادا کریں۔ طریقہ یہ ہے کہ جب عشاء کا وقت ہوجائے تو پہلے اذان اور اقامت کے ساتھ مغرب کے تین فرض پڑھیں، مغرب کی سنتیں نہ پڑھیں بلکہ فوراً عشاء کے فرض ادا کریں، مسافر ہوں تو دو رکعت اور مقیم ہوں تو چار رکعت فرض ادا کریں۔ عشاء کی نماز کے بعد سنتیں پڑھنا چاہیں تو پڑھ لیں مگر مغرب اور عشاء کے فرضوں کے درمیان سنت یا نفل نہ پڑھیں۔ مغرب اور عشاء کو اکٹھا پڑھنے کے لئے جماعت شرط نہیں، خواہ جماعت سے پڑھیں یا تنہا دونوں کو عشاء کے وقت میں ہی ادا کریں۔
2) اللہ تعالیٰ کا ذکر کریں، تلبیہ پڑھیں، تلاوت کریں، توبہ واستغفار کریں اور دعائیں مانگیں کیونکہ یہ رات مبارک رات ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: فَاِذَا اَفَضْتُمْ مِنْ عَرَفَاتٍ فَاذْکُرُوا اللّہَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ (سورہ البقرۃ، آیت ۱۹۸) (جب تم عرفات سے واپس ہوکر مزدلفہ آؤ تو یہاں مشعر حرام کے پاس اللہ کے ذکر میں مشغول رہو)۔ رات میں کچھ دیر سو بھی لیں کیونکہ سونا حدیث سے ثابت ہے۔
3) صبح سویرے فجر کی سنت اور فرض ادا کریں، فجر کی نماز کے بعد کھڑے ہوکر قبلہ رخ ہوکر دونوں ہاتھ اٹھاکر رو روکر دعائیں مانگیں۔ یہی مزدلفہ کا وقوف ہے جو واجب ہے۔
4) مزدلفہ سے منی روانگی کے وقت بڑے چنے کی برابر کنکریاں چن لیں لیکن تمام کنکریوں کا مزدلفہ ہی سے اٹھانا ضروری نہیں بلکہ منی سے بھی اٹھاسکتے ہیں۔
چند وضاحتیں:
مزدلفہ کے تمام میدان میں جہاں چاہیں وقوف کرسکتے ہیں۔ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: میں نے مشعرحرا م کے قریب وقوف کیا ہے(جہاں آجکل مسجد ہے) جبکہ مزدلفہ سارے کا سارا وقوف کی جگہ ہے ۔
اگر کوئی شخص مزدلفہ میں صبح صادق کے قریب پہونچا اور نماز فجر مزدلفہ میں ادا کرلی تو اس کا وقوف درست ہوگا، اس پر کوئی دم وغیرہ لازم نہیں۔ لیکن قصداً اتنی تاخیر سے مزدلفہ پہونچنا مکروہ ہے۔
اگر کوئی شخص کسی عذر کے بغیر فجر کی نماز سے قبل مزدلفہ سے منی چلا جائے تو اس پر دم واجب ہوجاتا ہے۔
رات مزدلفہ میں گزارکر صبح کی نماز پڑھنا اور اس کے بعد وقوف کرنا واجب ہے۔ مگر خواتین، بیمار اور کمزور لوگ آدھی رات مزدلفہ میں گزارنے کے بعد منی جاسکتے ہیں، ان پر کوئی دم واجب نہ ہوگا۔
عرفات سے مزلفہ جاتے ہوئے راستہ میں صرف مغرب یا مغرب اور عشاء دونوں کا پڑھنا صحیح نہیں ہے، بلکہ مزدلفہ پہونچ کر ہی عشاء کے وقت میں دونوں نمازیں ادا کریں۔
مزدلفہ پہونچ کر مغرب اور عشاء کی نماز پڑھنے سے پہلے ہی کنکریاں اٹھانا صحیح نہیں ہے، بلکہ مزدلفہ پہونچ کر سب سے پہلے عشاء کے وقت میں دونوں نمازیں ادا کریں۔
بہت سے حجاج کرام مزدلفہ میں ۱۰ ذی الحجہ کی فجر کی نماز پڑھنے میں جلد بازی سے کام لیتے ہیں اور قبلہ رخ ہونے میں احتیاط سے کام نہیں لیتے جس سے فجر کی نماز نہیں ہوتی۔ لہذا فجر کی نماز وقت داخل ہونے کے بعد ہی پڑھیں نیز قبلہ کا رخ واقف حضرات سے معلوم کریں۔
مزدلفہ میں فجر کی نماز کے بعد عرفات کے میدان کی طرح ہاتھ اٹھاکر قبلہ رخ ہوکر خوب دعائیں مانگی جاتی ہیں، مگر اکثر حجاج کرام اس اہم وقت کے وقوف کو چھوڑ دیتے ہیں۔
ان دنوں جگہ کی تنگی کی وجہ سے مزدلفہ میں بھی خیمے لگے ہوئے ہیں جن میں حجاج کرام کی ایک تعداد منی کے بجائے قیام کرتی ہے۔ ۱۰، ۱۱ اور ۱۲ ذی الحجہ کو رات منی میں گزارنا سنت ہے واجب نہیں، لہذا اگر خیمہ مزدلفہ میں ملا ہے تو قیام منی کے ایام میں وہاں رات گزاری جاسکتی ہے۔
جن حجاج کرام کو مزدلفہ میں خیمہ ملتا ہے تو وہ عرفات سے واپسی پر اپنے خیمہ میں رات گزار لیتے ہیں، شرعاً اس کی گنجائش تو ہے لیکن اگر حضور اکرم ﷺ کی اتباع میں کھلے میدان میں رات گزاریں تو بہتر ہے۔
محمد نجیب قاسمی سنبھلی (www.najeebqasmi.com)

حرم مکی یا حرم مدنی میں موت
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيْم
اَلْحَمْدُ لِلّهِ رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلامُ عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔
حرم مکی یا حرم مدنی میں موت
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص میدان عرفات میں رسول اللہﷺ کے ساتھ کھڑا تھا کہ اپنی اونٹی سے گر پڑا اور اس کی گردن ٹوٹ گئی اور وہ مرگیا۔ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کہ اس کو پانی اور بیری کے پتوں کے ساتھ غسل دو، اس کو اسی کے دونوں کپڑوں میں کفن دو، نہ خوشبو لگاؤ اور نہ سر ڈھانکو اس لئے کہ اللہ تعالیٰ اسے قیامت میں اس حال اٹھائے گا کہ یہ لبیک پکارتا ہوگا۔ صحیح بخاری وصحیح مسلم
اللہ تعالیٰ مُحرم کو تلبیہ پڑھتے ہوئے قیامت کے دن اٹھائیں گے تاکہ ظاہری حالت سے ہی اس کا حاجی ہونا معلوم ہوجائے جیسے شہید کو اس حالت میں اٹھایا جائے گا کہ اس کا خون اس کی رگوں سے بہہ رہا ہوگا۔ دیگر احادیث کی روشنی میں یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ اگر کوئی شخص عمرہ کا احرام باندھے ہوئے ہو اور اس کا انتقال ہوجائے تو اسے بھی یہ فضیلت حاصل ہوگی انشاء اللہ۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص حج کو جائے اور راستہ میں انتقال کرجائے، اس کے لئے قیامت تک حج کا ثواب لکھا جائے گا اور جو شخص عمرہ کے لئے جائے اور راستہ میں انتقال کرجائے تو اس کو قیامت تک عمرہ کا ثواب ملتا رہے گا۔ ابن ماجہ
حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا : جو شخص دو حرموں (یعنی مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ) میں سے کسی ایک میں مرے گا توقیامت کے دن امن والوں میں اٹھایا جائے گا۔ اور جو ثواب کی نیت سے مدینہ میں میری زیارت کرنے آئے گا وہ قیامت کے دن میرے پڑوس میں ہوگا۔ (شعب الایمان للبیہقی) اس حدیث کی سند پر بعض علماء نے کلام کیا ہے۔ لیکن جمعہ کے روز مغرب سے قبل بابرکت گھڑی میں کرین حادثہ میں انتقال کرنے والے حضرات انشاء اللہ قیامت کے دن امن وسکون میں ہوں گے اور وہ جنت الفردوس میں مقام حاصل کریں گے۔
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص مدینہ میں مر سکتا ہے (یعنی یہاں آکر موت تک قیام کرسکتا ہے) اسے ضرور مدینہ میں مرنا چاہئے کیونکہ میں اس شخص کے لئے سفارش کروں گا جو مدینہ منورہ میں مرے گا۔ ترمذی
محمد نجیب قاسمی (www.najeebqasmi.com)
حج میں وقوف مزدلفہ سے متعلق ایک تنبیہ
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيْم
اَلْحَمْدُ لِلّهِ رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلامُ عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔
حج میں وقوف مزدلفہ سے متعلق ایک تنبیہ
وقوف مزدلفہ حج کے واجبات میں سے ایک واجب ہے، اس کے چھوڑنے پر دم واجب ہوگا۔ وقوف مزدلفہ کا مطلب ۹ ذی الحجہ کے بعد آنے والی رات مزدلفہ میں گزارکر نماز فجر مزدلفہ میں ادا کرکے کچھ دیر قبلہ کی طرف رخ کرکے دعائیں کرنا۔ اگر کوئی شخص مزدلفہ میں صبح صادق کے قریب پہونچا اور نماز فجر مزدلفہ میں ادا کرلی تو وقوف مزدلفہ کا وجوب ادا ہوجائے ہوگا اور اس پر کوئی دم وغیرہ لازم نہیں ہوگا، لیکن قصداً اتنی تاخیر سے مزدلفہ پہونچنا سنت کے خلاف ہے۔ خواتین، بیمار اور کمزور لوگ آدھی رات مزدلفہ میں گزارنے کے بعد منی جاسکتے ہیں، ان پر کوئی دم واجب نہیں ہوگا۔
۹ذی الحجہ کو غروب آفتاب کے بعد عرفات سے مزدلفہ پیدل جانے والے حجاج کرام اس بات کا خاص خیال رکھیں کہ عرفات کی حدود سے نکلتے ہی مزدلفہ شروع نہیں ہوتا ہے بلکہ چھ سات کیلومیٹر کا راستہ طے کرنے کے بعد مزدلفہ کی حدود شروع ہوتی ہیں۔ مزدلفہ، عرفات اور منی کی حدود کی نشاندہی کے لئے الگ الگ رنگ کے بورڑ لگادئے گئے ہیں کہ کہاں پر حدود شروع اور کہاں پر حدود ختم ہیں، لہذا ان کی رعایت کرتے ہوئے قیام فرمائیں۔ مگر متعدد سالوں سے دیکھا جارہا ہے کہ حجاج کرام کی قابل قدر تعداد مزدلفہ سے قبل ہی مزدلفہ سمجھ کر رات گزار دیتی ہے حتی کہ ہزاروں حجاج کرام راستوں میں ہی قیام کرتے ہیں، جس سے جہاں ان حجاج کرام کا وقوف مزدلفہ صحیح نہیں ہوتا، وہیں دیگر حجاج کرام کو راستہ نہ ملنے کی وجہ سے وہ بھی مزدلفہ کی حدود سے قبل ہی قیام کرلیتے ہیں۔ یہ بات میں دیکھنے میں آئی ہے کہ بعض ایجنٹ حضرات اپنے حاجیوں کو آدھی رات سے قبل ہی منی خیمہ میں لے جاتے ہیں حالانکہ حضور اکرم ﷺ نے صرف بوڑھے اور خواتین کو مزدلفہ سے منی جانے کی اجازت دی تھی وہ بھی آدھی رات مزدلفہ میں گزارنے کے بعد۔ افسوس اور فکر کی بات ہے کہ اس موقع پر رضا کاراور انتظامیہ کے افراد بھی حجاج کرام کی رہنمائی کے لئے نظر نہیں آتے، حالانکہ وقوف مزدلفہ کے واجب ہونے کی وجہ سے اس جگہ پر حجاج کرام کی رہنمائی کے لئے اچھی خاصی تعداد میں رضا کاراور انتظامیہ کے افراد کی ضرورت ہے۔ اگرچہ منی پہنچنے کے بعد رضا کاراور انتظامیہ کے افراد خوب دلچسپی سے حجاج کرام کی خدمت کرتے نظر آتے ہیں۔
جو حجاج کرام ٹرین کے ذریعہ عرفات سے مزدلفہ آتے ہیں وہ میدان مزدلفہ میں داخل ہوجاتے ہیں، مگر وقت کی قلت کی وجہ سے حجاج کرام کی اچھی خاصی تعداد ٹرین کے بجائے گاڑیوں سے یا پیدل عرفات سے مزدلفہ آتی ہے۔ گاڑیوں سے آنے والے حجاج کرام کو بھی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ عرفات سے پیدل چل کر آنے والے حجاج کرام کافی تھک جاتے ہیں اور پھر ان کو آگے جانے کا راستہ نہیں مل پاتا لہٰذا وہ مزدلفہ کی حدود سے قبل ہی آرام کرتے ہیں اور پھر بعد میں اتنا ازدحام ہوجاتا ہے کہ ایک قدم رکھنے کی بھی گنجائش نہیں ہوتی، یعنی پھر اگر حاجی آگے بڑھنا بھی چاہے تو آگے نہیں جاسکتا۔ لہٰذا تمام عازمین حج مزدلفہ پہنچ کر اپنے وقوف مزدلفہ کو صحیح طریقہ سے انجام دیں ورنہ دم لازم آئے گا۔
مزدلفہ پہونچ کر یہ کام کریں:
1) عشاء کے وقت میں مغرب اور عشاء کی نمازیں ملاکر ادا کریں۔ طریقہ یہ ہے کہ جب عشاء کا وقت ہوجائے تو پہلے اذان اور اقامت کے ساتھ مغرب کے تین فرض پڑھیں، مغرب کی سنتیں نہ پڑھیں بلکہ فوراً عشاء کے فرض ادا کریں، مسافر ہوں تو دو رکعت اور مقیم ہوں تو چار رکعت فرض ادا کریں۔ عشاء کی نماز کے بعد سنتیں پڑھنا چاہیں تو پڑھ لیں مگر مغرب اور عشاء کے فرضوں کے درمیان سنت یا نفل نہ پڑھیں۔ مغرب اور عشاء کو اکٹھا پڑھنے کے لئے جماعت شرط نہیں، خواہ جماعت سے پڑھیں یا تنہا دونوں کو عشاء کے وقت میں ہی ادا کریں۔
2) اللہ تعالیٰ کا ذکر کریں، تلبیہ پڑھیں، تلاوت کریں، توبہ واستغفار کریں اور دعائیں مانگیں کیونکہ یہ رات مبارک رات ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: فَاِذَا اَفَضْتُمْ مِنْ عَرَفَاتٍ فَاذْکُرُوا اللّہَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ (سورہ البقرۃ، آیت ۱۹۸) (جب تم عرفات سے واپس ہوکر مزدلفہ آؤ تو یہاں مشعر حرام کے پاس اللہ کے ذکر میں مشغول رہو)۔ رات میں کچھ دیر سو بھی لیں کیونکہ سونا حدیث سے ثابت ہے۔
3) صبح سویرے فجر کی سنت اور فرض ادا کریں، فجر کی نماز کے بعد کھڑے ہوکر قبلہ رخ ہوکر دونوں ہاتھ اٹھاکر رو روکر دعائیں مانگیں۔ یہی مزدلفہ کا وقوف ہے جو واجب ہے۔
4) مزدلفہ سے منی روانگی کے وقت بڑے چنے کی برابر کنکریاں چن لیں لیکن تمام کنکریوں کا مزدلفہ ہی سے اٹھانا ضروری نہیں بلکہ منی سے بھی اٹھاسکتے ہیں۔
چند وضاحتیں:
مزدلفہ کے تمام میدان میں جہاں چاہیں وقوف کرسکتے ہیں۔ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: میں نے مشعرحرا م کے قریب وقوف کیا ہے(جہاں آجکل مسجد ہے) جبکہ مزدلفہ سارے کا سارا وقوف کی جگہ ہے ۔
اگر کوئی شخص مزدلفہ میں صبح صادق کے قریب پہونچا اور نماز فجر مزدلفہ میں ادا کرلی تو اس کا وقوف درست ہوگا، اس پر کوئی دم وغیرہ لازم نہیں۔ لیکن قصداً اتنی تاخیر سے مزدلفہ پہونچنا مکروہ ہے۔
اگر کوئی شخص کسی عذر کے بغیر فجر کی نماز سے قبل مزدلفہ سے منی چلا جائے تو اس پر دم واجب ہوجاتا ہے۔
رات مزدلفہ میں گزارکر صبح کی نماز پڑھنا اور اس کے بعد وقوف کرنا واجب ہے۔ مگر خواتین، بیمار اور کمزور لوگ آدھی رات مزدلفہ میں گزارنے کے بعد منی جاسکتے ہیں، ان پر کوئی دم واجب نہ ہوگا۔
عرفات سے مزلفہ جاتے ہوئے راستہ میں صرف مغرب یا مغرب اور عشاء دونوں کا پڑھنا صحیح نہیں ہے، بلکہ مزدلفہ پہونچ کر ہی عشاء کے وقت میں دونوں نمازیں ادا کریں۔
مزدلفہ پہونچ کر مغرب اور عشاء کی نماز پڑھنے سے پہلے ہی کنکریاں اٹھانا صحیح نہیں ہے، بلکہ مزدلفہ پہونچ کر سب سے پہلے عشاء کے وقت میں دونوں نمازیں ادا کریں۔
بہت سے حجاج کرام مزدلفہ میں ۱۰ ذی الحجہ کی فجر کی نماز پڑھنے میں جلد بازی سے کام لیتے ہیں اور قبلہ رخ ہونے میں احتیاط سے کام نہیں لیتے جس سے فجر کی نماز نہیں ہوتی۔ لہذا فجر کی نماز وقت داخل ہونے کے بعد ہی پڑھیں نیز قبلہ کا رخ واقف حضرات سے معلوم کریں۔
مزدلفہ میں فجر کی نماز کے بعد عرفات کے میدان کی طرح ہاتھ اٹھاکر قبلہ رخ ہوکر خوب دعائیں مانگی جاتی ہیں، مگر اکثر حجاج کرام اس اہم وقت کے وقوف کو چھوڑ دیتے ہیں۔
ان دنوں جگہ کی تنگی کی وجہ سے مزدلفہ میں بھی خیمے لگے ہوئے ہیں جن میں حجاج کرام کی ایک تعداد منی کے بجائے قیام کرتی ہے۔ ۱۰، ۱۱ اور ۱۲ ذی الحجہ کو رات منی میں گزارنا سنت ہے واجب نہیں، لہذا اگر خیمہ مزدلفہ میں ملا ہے تو قیام منی کے ایام میں وہاں رات گزاری جاسکتی ہے۔
جن حجاج کرام کو مزدلفہ میں خیمہ ملتا ہے تو وہ عرفات سے واپسی پر اپنے خیمہ میں رات گزار لیتے ہیں، شرعاً اس کی گنجائش تو ہے لیکن اگر حضور اکرم ﷺ کی اتباع میں کھلے میدان میں رات گزاریں تو بہتر ہے۔
محمد نجیب قاسمی سنبھلی (www.najeebqasmi.com)

حج سے متعلق خواتین کے خصوصی مسائل
بسم الله الرحمن الرحيم
اَلْحَمْدُ لِله رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلام عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔
حج سے متعلق خواتین کے خصوصی مسائل
مردوں کی طرح حج کی ادائیگی خواتین بھی کرتی ہیں، مگر ان کی چند فطری عادات کی بنا پر کچھ مسائل میں مردوں سے فرق موجود ہے، جس کی وجہ سے ان کے بعض مسائل مردوں سے مختلف ہیں، جن کا جاننا حج کی ادائیگی کرنے والی ہر خواتین کے لئے ضروری ہے۔ حج سے متعلق خواتین کے خصوصی چند مسائل نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کی روشنی میں حسب ذیل ہیں:
عورت اگر خود مالدار یعنی صاحب استطاعت ہے تو اس پر حج فرض ہے ورنہ نہیں۔
عورت بغیر محرم یا شوہر کے حج کا سفر یا کوئی دوسرا سفر نہیں کرسکتی ہے، اگر کوئی عورت بغیر محرم یا شوہر کے حج کرلے تو اس کا حج تو ادا ہوجائے گا، لیکن بغیر محرم یا شوہر کے حج کا سفر یا کوئی دوسرا سفر کرنا بڑا گناہ ہے۔ محرم وہ شخص ہے جس کے ساتھ اس کا نکاح حرام ہوجیسے باپ، بیٹا، بھائی، حقیقی مامو ں اور حقیقی چچا وغیرہ۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ہر گز کوئی مرد کسی (نا محرم) عورت کے ساتھ تنہائی میں نہ رہے اور ہر گز کوئی عورت سفر نہ کرے مگر یہ کہ اس کے ساتھ محرم ہو۔ یہ سن کر ایک شخص نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ میرا نام فلاں جہاد کی شرکت کے سلسلہ میں لکھ لیا گیا ہے اور میری بیوی حج کرنے کے لئے نکلی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جاؤ اپنی بیوی کے ساتھ حج کرو۔ (بخاری ومسلم)
عورتوں کے لئے بھی احرام سے پہلے ہر طرح کی پاکیزگی حاصل کرنا اور غسل کرنا مسنون ہے، خواہ ناپاکی ہی کی حالت میں ہوں۔
عورتوں کے احرام کے لئے کوئی خاص لباس نہیں ہے، بس عام لباس پہن کر دو رکعات نماز پڑھ لیں اور نیت کرکے آہستہ سے تلبیہ پڑھ لیں۔
احرام باندھنے کے وقت ماہواری آرہی ہو تو احرام باندھنے کا طریقہ یہ ہے کہ غسل کریں یا صرف وضو کریں، البتہ غسل کرنا افضل ہے، نماز نہ پڑھیں بلکہ چہرے سے کپڑا ہٹاکر نیت کرلیں اور تین بار آہستہ سے تلبیہ پڑھیں۔
عورتیں احرام میں عام سلے ہوئے کپڑے پہنیں ، ان کے احرام کے لئے کوئی خاص رنگ کا کپڑا ضروری نہیں ہے، بس زیادہ چمکیلے کپڑے نہ پہنیں نیز کپڑوں کو تبدیل بھی کرسکتی ہیں۔
عورتیں اس پورے سفر کے دوران پردہ کا اہتمام کریں۔ یہ جو مشہور ہے کہ حج وعمرہ میں پردہ نہیں ہے غلط ہے۔ حکم صرف یہ ہے کہ عورت احرام کی حالت میں چہرہ پر کپڑا نہ لگنے دے۔ اس سے یہ کیسے لازم آیا کہ وہ نامحرموں کے سامنے چہرہ کھولے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان فرمایا کہ ہم حالت احرام میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، گزرنے والے جب اپنی سواریوں پر گزرتے تھے تو ہم اپنی چادر کو اپنے سر سے آگے بڑھاکر چہرہ پر لٹکالیتے تھے، جب وہ آگے بڑھ جاتے تو چہرہ کھول دیتے تھے۔ (مشکوۃ ) غرضیکہ احرام کی حالت خواتین اپنے چہرہ کو کھلا رکھیں، اگر مرد حضرات سامنے آجائیں تو چہرہ پر نقاب ڈال دیں۔ اگر کچھ وقت کے لئے چہرہ پر نقاب پڑی رہ جائے یا کچھ وقت کے لئے مردوں کے سامنے چہرہ کھل جائے تو کوئی دم وغیرہ لازم نہیں اور ان شاء اللہ حج مکمل ادا ہوگا۔
عورتوں کا سر پر سفید رومال باندھنے کو احرام سمجھنا غلط ہے، صرف بالوں کو ٹوٹنے سے محفوظ رکھنے کے لئے سر پر رومال باندھ لیں تو کوئی حرج نہیں لیکن پیشانی کے اوپر سر پر باندھیں اور اس کو احرام کا حصہ نہ سمجھیں، نیز وضو کے وقت مسح کرنا فرض ہے، لہذا وضو کے وقت خاص طور پر اس سفید رومال کو کھول کر سر پر مسح ضرور کریں۔
اگر کوئی عورت ایسے وقت میں مکہ مکرمہ پہونچی کہ اس کو ماہواری آرہی ہے تو وہ پاک ہونے تک انتظار کرے، پاک ہونے کے بعد ہی مسجد حرام جائے۔ اگر ۸ ذی الحجہ تک بھی پاک نہ ہوسکی تو احرام ہی کی حالت میں طواف کئے بغیر منی جاکر حج کے سارے اعمال کرے۔
اگر کسی عورت نے حج قران یا حج تمتع کا احرام باندھا مگر شرعی عذر کی وجہ سے ۸ ذی الحجہ تک عمرہ نہ کرسکی اور ۸ ذی الحجہ کو احرام ہی کی حالت میں منی جاکر حاجیوں کی طرح سارے اعمال ادا کرلئے تو حج صحیح ہوجائے گا، لیکن دم اور عمرہ کی قضا واجب ہونے یا نہ ہونے میں علماء کی رائے مختلف ہیں۔
ماہواری کی حالت میں صرف طواف کرنے کی اجازت نہیں ہے باقی سارے اعمال ادا کئے جائیں گے جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ہم لوگ (حجۃ الوداع والے سفر میں) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ سے چلے، ہماری زبانوں پر بس حج ہی کا ذکر تھا یہاں تک کہ جب (مکہ مکرمہ کے بالکل قریب) مقام سرف پر پہونچے (جہاں سے مکہ مکرمہ صرف ایک منزل رہ جاتا ہے) تو میرے وہ دن شروع ہوگئے جو عورتوں کو ہر مہینے آتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (خیمہ میں) تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ میں بیٹھی رو رہی ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شاید تمہارے ماہواری کے ایام شروع ہوگئے ہیں۔ میں نے عرض کیا: ہاں یہی بات ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (رونے کی کیا بات ہے) یہ تو ایسی چیز ہے جو اللہ تعالیٰ نے آدم کی بیٹیوں (یعنی سب عورتوں )کے ساتھ لازم کردی ہے تم وہ سارے اعمال کرتی رہو جو حاجیوں کو کرنے ہیں سوائے اس کے کہ خانہ کعبہ کا طواف اس وقت تک نہ کرو جب تک کہ اس سے پاک وصاف نہ ہوجاؤ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم(
ماہواری کی حالت میں نماز پڑھنا، مسجد میں داخل ہونا اور طواف کرنا بالکل ناجائز ہے، البتہ صفا ومروہ کی سعی کرنا جائز ہے۔ یعنی اگر کسی عورت کو طواف کرنے کے بعد ماہواری آجائے تو وہ سعی کرسکتی ہے مگر اس کو چاہئے کہ سعی کے بعد مسجد حرام کے اندر داخل نہ ہو بلکہ مروہ سے باہر نکل جائے۔
عورتیں ماہواری کی حالت میں ذکر واذکار جاری رکھ سکتی ہیں بلکہ ان کے لئے مستحب ہے کہ وہ اپنے آپ کو اللہ کے ذکر میں مشغول رکھیں، نیز دعائیں بھی کرتی رہیں، البتہ ماہواری کی حالت میں قرآن کریم کی تلاوت نہیں کرسکتی ہیں۔
اگر کسی عورت کو طواف کے دوران حیض آجائے تو فورا طواف کو بند کردے اور مسجد سے باہر چلی جائے۔
خواتین طواف میں رمل (اکڑکر چلنا) نہ کریں، یہ صرف مردوں کے لئے ہے۔
ہجوم ہونے کی صورت میں خواتین حجر اسود کا بوسہ لینے کی کوشش نہ کریں، بس دور سے اشارہ کرنے پر اکتفا کریں۔ اسی طرح ہجوم ہونے کی صورت میں رکن یمانی کو بھی نہ چھوئیں۔ صحیح بخاری (کتاب الحج) کی حدیث میں ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا لوگوں سے بچ بچ کر طواف کررہی تھیں کہ ایک عورت نے کہا کہ چلئے ام المؤمنین بوسہ لے لیں تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے انکار فرمادیا۔ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ ایک خاتون حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے ہمراہ طواف کررہی تھیں، حجر اسود کے پاس پہونچ کر کہنے لگیں: اماں عائشہؓ ! کیا آپ بوسہ نہیں لیں گی؟ آپ نے فرمایا: عورتوں کے لئے کوئی ضروری نہیں، چلو آگے بڑھو۔ (اخبار مکہ للفاکہی)
مقام ابراہیم میں مردو ں کا ہجوم ہو تو خواتین وہاں طواف کی دو رکعات نماز پڑھنے کی کوشش نہ کریں بلکہ مسجد حرام میں کسی بھی جگہ پڑھ لیں۔
خواتین سعی میں سبز ستونوں (جہاں ہری ٹیوب لائٹیں لگی ہوئی ہیں) کے درمیان مردوں کی طرح دوڑکر نہ چلیں۔
طواف اور سعی کے دوران مردوں سے حتی الامکان دور رہیں اور اگر مسجد حرام میں نماز پڑھنی ہو تو اپنے مخصوص حصہ میں ہی ادا کریں، مردوں کے ساتھ صفوں میں کھڑی نہ ہوں۔
ایام حج کے قریب جب ہجوم بہت زیادہ ہوجاتا ہے ،خواتین ایسے وقت میں طواف کریں کہ جماعت کھڑی ہونے سے کافی پہلے طواف سے فارغ ہوجائیں۔
عورتیں بھی اپنے والدین اور متعلقین کی طرف سے نفلی عمرے کرسکتی ہیں۔
تلبیہ ہمیشہ آہستہ آواز سے پڑھیں۔
منی، عرفات اور مزدلفہ کے قیام کے دوران ہر نماز کو اپنی قیام گاہ ہی میں پڑھیں۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ عرفات کا پورا میدان وقوف کی جگہ ہے اس لئے اپنے ہی خیموں میں رہیں اورکھڑے ہوکر قبلہ رخ ہوکر خوب دعائیں مانگیں۔ تھکنے پر بیٹھ کر بھی اپنے آپ کو دعاؤں اور ذکر وتلاوت میں مشغول رکھیں۔ دنیاوی باتیں ہرگز نہ کریں۔
مزدلفہ پہونچ کرمغرب اور عشاء دونوں نمازیں عشاء ہی کے وقت ادا کریں۔
خواتین کے لئے اجازت ہے کہ مزدلفہ کے میدان سے آدھی رات کے بعد منی میں اپنے خیمہ میں چلی جائیں۔
ہجوم کے اوقات میں کنکریاں مارنے ہرگز نہ جائیں، عورتیں رات میں بھی بغیر کراہت کے کنکریاں مارسکتی ہیں۔
معمولی معمولی عذر کی وجہ سے دوسروں سے رمی (کنکریاں مارنا) نہ کرائیں بلکہ ہجوم کے بعد خود کنکریاں ماریں۔ بلا شرعی عذر کے دوسرے سے رمی کرانے پر دم لازم ہوگا۔ محض بھیڑ کے خوف سے عورت کنکریاں مارنے کے لئے دوسرے کو نائب نہیں مقرر کرسکتی ہے۔
طواف زیارت ایام حیض میں ہرگز نہ کریں، ورنہ ایک بدنہ یعنی پورا اونٹ یا پوری گائے (حدود حرم کے اندر) ذبح کرنا واجب ہوگا۔
ماہواری کی حالت میں اگر طواف زیارت کیا، مگر پھر پاک ہوکر دوبارہ کرلیا تو بدنہ یعنی پورے اونٹ یا پوری گائے کی قربانی واجب نہیں۔
طواف زیارت (حج کاطواف) کا وقت ۱۰ ذی الحجہ سے ۱۲ ذی الحجہ کے غروب آفتاب تک ہے۔ بعض علماء نے ۱۳ ذی الحجہ تک وقت تحریرکیا ہے۔ ان ایام میں اگر کسی عورت کو ماہواری آتی رہی تو وہ طواف زیارت نہ کرے بلکہ پاک ہونے کے بعد ہی کرے،اس تاخیر کی وجہ سے کوئی دم واجب نہیں۔ البتہ طواف زیارت کئے بغیر کوئی عورت اپنے وطن واپس نہیں جاسکتی ہے، اگر واپس چلی گئی تو عمر بھر یہ فرض لازم رہے گا اور شوہر کے ساتھ صحبت کرنا اور بوس وکنار حرام رہے گا یہاں تک کہ دوبارہ حاضر ہوکر طواف زیارت کرے۔ لہذا طواف زیارت کئے بغیر کوئی عورت گھر واپس نہ جائے۔ اگر طواف زیارت سے قبل کسی عورت کو ماہواری آجائے اور اس کے طے شدہ پروگرام کے مطابق اس کی گنجائش نہ ہو کہ وہ پاک ہوکر طواف زیارت کرسکے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ ہر طرح کی کوشش کرے کہ اس کے سفر کی تاریخ آگے بڑھ سکے تاکہ وہ پاک ہوکر طواف زیارت (حج کا طواف) ادا کرنے کے بعد اپنے گھر واپس جاسکے(عموماً معلم حضرات ایسے موقع پر تاریخ بڑھادیتے ہیں)، لیکن اگر ایسی ساری ہی کوششیں ناکام ہوجائیں اور پاک ہونے سے پہلے اس کا سفر ضروری ہوجائے تو ایسی صورت میں ناپاکی کی حالت میں وہ طواف زیارت کرسکتی ہے۔ یہ طواف زیارت شرعاً معتبر ہوگا اور وہ پورے طور پر حلال ہوجائے گی لیکن اس پر ایک بدنہ (یعنی پورا اونٹ یا پوری گائے) کی قربانی بطورِ دم حدود حرم میں لازم ہوگی،یہ دم اسی وقت دینا ضروری نہیں بلکہ زندگی میں جب چاہے دیدے۔
طواف زیارت اور حج کی سعی کرنے تک شوہر کے ساتھ خاص جنسی تعلقات سے بالکل دور رہیں۔
اگر کوئی خاتون اپنی عادت یا آثار وعلامت سے جانتی ہے کہ عنقریب حیض شروع ہونے والا ہے اور حیض آنے میں اتنا وقت ہے کہ وہ مکہ جاکر طواف زیارت (طواف زیارت کے وقت میں) کرسکتی ہے تو فوراً کرلے، تاخیر نہ کرے۔ اور اگر اتنا وقت بھی نہیں کہ طواف کرسکے تو پھر پاک ہونے تک انتظار کرے۔ طواف زیارت‘ رمی (کنکریاں مارنا)، قربانی اور بال کٹوانے سے پہلے یا بعد میں کسی بھی وقت کیا جاسکتا ہے۔
مکہ مکرمہ سے روانگی کے وقت اگر کسی عورت کو ماہواری آنے لگے تو طواف وداع اس پر واجب نہیں۔ طواف وداع کئے بغیر وہ اپنے وطن جاسکتی ہے۔
جو مسائل ماہواری کے بیان کئے گئے ہیں وہی بچہ کی پیدائش کے بعد آنے والے خون کے ہیں، یعنی اس حالت میں بھی خواتین طواف نہیں کرسکتی ہیں، البتہ طواف کے علاوہ سارے اعمال حاجیوں کی طرح ادا کریں۔
اگر کسی عورت کو بیماری کا خون آرہا ہے، تو وہ نمازبھی ادا کرے گی اور طواف بھی کرسکتی ہے، اس کی صورت یہ ہے ایک نماز کے وقت میں وضو کرے اور پھر اس وضو سے اس نماز کے وقت میں جتنے چاہے طواف کرے اور جتنی چاہے نمازیں پڑھے۔ دوسری نماز کا وقت داخل ہونے پر دوبارہ وضو کرے۔ اگر طواف مکمل ہونے سے پہلے ہی دوسری نماز کا وقت داخل ہوجائے تو وضو کرکے طواف کو مکمل کرے۔
بعض خواتین کو حج یا عمرہ کا احرام باندھنے کے وقت یا ان کو ادا کرنے کے دوران ماہواری آجاتی ہے جس کی وجہ سے حج وعمرہ ادا کرنے میں رکاوٹ پیدا ہوجاتی ہے اور بعض مرتبہ قیام کی مدت ختم ہونے یا مختصر ہونے کی وجہ سے سخت دشواری لاحق ہوجاتی ہے، اس لئے جن خواتین کو حج یا عمرہ ادا کرنے کے دوران ماہواری آنے کا اندیشہ ہو اور وہ صرف چند ایام کے ٹور پر حج کی ادائیگی کے لئے جارہی ہے جیسا کہ سعودی عرب میں مقیم حضرات چند ایام کے لئے جاتے ہیں تو ان کے لئے یہ مشورہ ہے کہ وہ کسی لیڈی ڈاکٹر سے اپنے مزاج وصحت کے مطابق عارضی طور پر ماہواری روکنے والی دوا تجویز کرالیں اور استعمال کریں تاکہ حج وعمرہ کے ارکان ادا کرنے میں کوئی الجھن پیش نہ آئے۔ شرعی لحاظ سے ایسی دوائیں استعمال کرنے کی گنجائش ہے۔
حرمین میں تقریباً ہر نماز کے بعد جنازہ کی نماز ہوتی ہے، خواتین بھی اس میں شریک ہوسکتی ہیں.
محمد نجیب قاسمی سنبھلی، ریاض (www.najeebqasmi.com)

ریاض سے جدہ جاتے ہوئےعمرہ کرنے والوں کے لئے ضروری واہم ہدایات
بسم الله الرحمن الرحيم
اَلْحَمْدُ لِله رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلام عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔
ریاض سے جدہ جاتے ہوئےعمرہ کرنے والوں کے لئے ضروری واہم ہدایات
اگر کوئی شخص ریاض سے جدہ کسی کام سے یا کسی شخص سے ملاقات کے لئے جا رہا ہے اور ساتھ میں یہ بھی نیت ہے کہ کام یا ملاقات سے فراغت کے بعد مکہ مکرمہ عمرہ کی ادائیگی کے لئے جانا ہے تو اس شخص کے لئے جدہ سے احرام باندھنا کافی نہیں ہوگا۔ بلکہ اس شخص کے لئے تین شکلیں ہیں، کسی ایک کو اختیار کرے :
۱۔ ریاض سے جدہ جاتے ہوئے میقات (یعنی السیل الکبیر) میں احرام باندھ کر نیت کرکے تلبیہ پڑھے۔ جدہ میں کام سے فارغ ہوکر عمرہ کی ادا ئیگی کے لئے مکہ مکرمہ چلا جائے، لیکن اِس شکل میں اس شخص کو جدہ میں احرام ہی کی حالت میں رہنا ہوگا۔ یاد رکھو ! احرام باندھنے کے بعد فوراً ہی عمرہ کرنا ضروری نہیں ہے بلکہ جب تک چاہو احرام کی حالت میں رہ سکتے ہو مگر احرام کی پابندیاں لازم رہیں گی ، مثلاً سلے ہوئے کپڑے نہیں پہن سکتے، خوشبو استعمال نہیں کرسکتے وغیرہ۔
۲۔ ریاض سے بغیر احرام باندھے جدہ چلا جائے۔ کام سے فراغت کے بعد طائف کے قریب السیل الکبیر یعنی میقات جاکر احرام باندھے اور پھر مکہ مکرمہ جاکر عمرہ کرے۔ اِس شخص کے لئے تنعیم یعنی مسجدِ عائشہ سے احرام باندھنا کافی نہیں ہوگا۔ اسی طرح شمیسیہ سے بھی احرام باندھنا کافی نہیں ہوگا، شمیسیہ جدہ مکہ شاہراہ پر واقع ایک علاقہ کا نام ہے جہاں سے منطقہ حرم شروع ہوتا ہے اورآجکل وہاں حدود حرم کی علامت کے طور پر رحل بنی ہوئی ہے۔
۳۔ ریاض سے میقات (یعنی السیل الکبیر) میں احرام باندھتے ہوئے مکہ مکرمہ چلا جائے ، سب سے پہلے عمرہ کی ادائیگی کرے، پھر جدہ جاکر اپنے کام میں مشغول ہوجائے۔
وضاحت: اس موضوع پر میں نے جتنی بھی کتابیں پڑھی ہیں یا جن علماء سے بھی رجوع کیاہے خواہ وہ عرب ہوں یا غیر عرب۔ سب کی ایک ہی رائے معلوم ہوئی کہ عمرہ کی نیت کے ساتھ ریاض سے روانہ ہونے والا شخص جدہ سے احرام نہیں باندھ سکتا ہے۔
نوٹ:
۱۔ ریاض سے جدہ جانے والا اگر کوئی شخص جدہ میں کام میں مشغولیت یا کسی اور وجہ سے میقات (مثلاً السیل الکبیر) سے احرام باندھنے کی دشواری برداشت نہیں کرسکتا ہے، تو برائے مہربانی اِس سفر میں عمرہ نہ کرے۔
۲۔ اگر کسی شخص نے ایسا کرلیا ۔ یعنی ریاض سے جدہ روانگی کے وقت ‘ عمرہ کی ادائیگی کا بھی ارادہ تھا اور پھر جدہ میں کام سے فراغت کے بعد جدہ ہی سے عمرہ کا احرام باندھ لیا تو اس شخص کے لئے ضروری ہے کہ وہ عمرہ کی ادائیگی سے پہلے میقات یعنی السیل الکبیر جا کر دوبارہ نیت کرکے تلبیہ پڑھے اور پھر مکہ مکرمہ پہونچ کر عمرہ کی ادائیگی کرے۔ ورنہ ( ریاض سے روانگی کے وقت عمرہ کی نیت تھی، پھر جدہ سے احرام باندھ کر عمرہ ادا کرلیا تو) اُس پر ایک دم لازم ہوجائے گا، البتہ یہ دم زندگی میں کسی بھی وقت دیا جاسکتا ہے۔
۳۔ اگر کوئی شخص ریاض سے جدہ کسی کام سے جارہا ہے اور عمرہ کی ادائیگی کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ جدہ میں جاکر اچانک عمرہ کی ادائیگی کا ارادہ بن گیا تو ایسی صورت میں اس شخص کے لئے جدہ سے عمرہ کا احرام باندھنا جائز ہے۔
۴۔ اگر ریاض سے کسی کام کے لئے جدہ روانگی کے وقت ‘ عمرہ کی ادائیگی کی نیت تو ہے لیکن سفر کا پروگرام واضح نہ ہونے کی وجہ سے عمرہ کی ادائیگی غیر یقینی ہے، یعنی عمرہ کرے یا نہ کرے۔ تو غالب امکان کو سامنے رکھ کر فیصلہ کیا جائے گا۔ یعنی ریاض سے روانگی کے وقت اگر زیادہ امکان عمرہ کرنے کا ہے ، تو پھر جدہ سے احرام باندھنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ اور اگر بہت کم امکان عمرہ کی ادائیگی کا تھا، مگر جدہ جاکر عمرہ کا مکمل ارادہ ہوگیا ، تو پھر جدہ سے احرام باندھنے کی گنجائش ہے۔
۵۔ صرف ارادہ کرنے یا احرام کے کپڑے پہننے سے عمرہ کی ادائیگی لازم نہیں ہوتی، بلکہ نیت کرکے تلبیہ پڑھنے کے بعد عمرہ کی ادائیگی لازم ہوجاتی ہے۔ لہذا اگر کسی شخص کا ریاض سے روانگی کے وقت عمرہ کا ارادہ تھا مگر تلبیہ پڑھنے سے پہلے ہی عمرہ کی ادائیگی کا ارادہ ختم ہوگیا تو کوئی حرج نہیں۔ عمرہ کی ادائیگی اس پر لازم نہیں۔ اور کسی طرح کا کوئی صدقہ یا دم لازم نہیں۔
۶۔ جو حکم ریاض شہر میں رہنے والے کا بیان کیا گیا ہے، وہی حکم میقات کے باہر رہنے والے ہر شخص کے لئے ہے خواہ وہ کسی بھی شہر اور کسی بھی ملک میں رہ رہا ہو مثلاً دمام، قطر، قاہرہ وغیرہ۔ یعنی میقات کے باہر رہنے والایہ شخص اگر اپنے علاقے سے عمرہ کی نیت کے ساتھ مکہ مکرمہ روانہ ہورہا ہے خواہ وہ کسی بھی شہر سے گزرے تو اس کے لئے پانچ میقاتوں میں سے کسی ایک میقات یا اس کے محاذی احرام باندھنا ضروری ہے۔ ان پانچ میقاتوں کا بیان تفصیل سے آرہا ہے۔
****************
اس موقع پر میقات (یعنی وہ مقامات جہاں سے حج یا عمرہ کرنے والے حضرات احرام باندھتے ہیں) کی تھوڑی تفصیل لکھنا مناسب سمجھتا ہوں۔ میقات کے اعتبار سے دنیا کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔مضمون کے آخر میں میقاتو ں کا نقشہ بھی موجود ہے۔
پہلی قسم : آفاق :
* اہل مدینہ اور اس کے راستے سے آنے والوں کے لئے ذوالحلیفہ(نیانام بئرعلی) میقات ہے۔ مکہ مکرمہ سے اس کی مسافت تقریباً ۴۲۰ کیلومیٹرہے۔
* اہل شام اور اس کے راستے سے آنے والوں کے لئے (مثلاً مصر، لیبیا، الجزائر، مراکش وغیرہ ) جحفہ میقات ہے۔ یہ مکہ مکرمہ سے ۱۸۶کیلومیٹر دور ہے۔
* اہلِ نجد اور اس کے راستے سے آنے والوں کے لئے (مثلاً بحرین، قطر، دمام، ریاض وغیرہ) قرن المنازل میقات ہے، اس کو آجکل (السیل الکبیر) کہا جاتا ہے۔ یہ مکہ مکرمہ سے کوئی ۷۸ کیلومیٹر پر واقع ہے۔
* اہل یمن اور اس کے راستے سے آنے والوں کے لئے(مثلاً ہندوستان، پاکستان وغیرہ) ےَلَمْلَم میقات ہے۔ مکہ مکرمہ سے اس کی دوری ۱۲۰ کیلومیٹرہے۔
* اہل عراق اور اس کے راستے سے آنے والو ں کے لئے ذاتِ عرق میقات ہے۔ یہ مکہ مکرمہ سے ۱۰۰کیلومیٹر مشرق میں واقع ہے۔
ان مذکورہ پانچ میقاتوں سے باہر کا علاقہ (یعنی تقریباً پوری دنیا) آفاق کہا جاتا ہے۔ اور اس کے رہنے والوں کو آفاقی کہا جاتاہے۔
پہلی قسم کا حکم : حدودِ میقات سے باہر رہنے والے (یعنی آفاقی) حضرات حج اور عمرہ کا احرام ان پانچ میقاتوں میں سے کسی ایک میقات پر یا اس سے پہلے یا اس کے مقابل باندھیں ۔
دوسری قسم : حرم :
مکہ مکرمہ کے چاروں طرف کچھ دور تک کی زمین حرم کہلاتی ہے، جس کی حُدود یہ ہیں :
* مدینہ طیبہ کی طرف تنعیم (جہاں مسجد عائشہ بنی ہوئی ہے) تک حرم ہے جو مکہ سے تین میل کے فاصلہ پر ہے۔
* جدہ کی طرف مکہ مکرمہ سے دس میل کے فاصلہ پر شمیسیہ تک حرم ہے۔
* طائف کی طرف عرفات تک حرم ہے جو مکہ سے سات میل کے فاصلہ پر ہے۔ یعنی عرفات حدودِ حرم سے باہر ہے۔
* یمن کی طرف اضاء ۃ لبن تک حرم ہے جو مکہ سے سات میل کے فاصلہ پر ہے۔
* عراق کی طرف سات میل تک حرم ہے۔
* جعرانہ کی طرف نو میل تک حرم ہے۔
اس مقدس سرزمین (حرم) میں ہر شخص کے لئے چند چیزیں حرام ہیں چاہے وہاں کا مقیم ہو یا حج وعمرہ کرنے کے لئے آیا ہو۔
یہاں کے خود اُگے ہوئے درخت یا پودے کو کاٹنا۔
گری پڑی چیز کا اٹھانا ،البتہ گمشدہ چیز کا اعلان کرنے کے لئے گری پڑی چیز کو اٹھایا جاسکتا ہے۔
یہاں کے کسی جانور کا شکار کرنا یا اس کو چھیڑنا۔ تکلیف دہ جانور جیسے سانپ، بچھو، گرگٹ، چھپکلی، مکھی، کھٹمل وغیرہ کو حرم میں بھی مارنا جائز ہے۔
وضاحت: غیر مسلموں کا حدود حرم میں داخلہ قطعاً حرام ہے۔
دوسری قسم کا حکم : اہلِ حرم (جو حدودِ حرم کے اندر مثلاً مکہ مکرمہ میں مستقل یا عارضی طور پر قیام پذیر ہیں) حج کا احرام اپنی رہائش سے ہی باندھیں، البتہ عمرہ کے لئے انہیں حرم سے باہر حل میں جاکر احرام باندھنا ہوگا۔
جو شخص میقات سے باہر کا رہنے والا ہے اور میقات پر احرام باندھ کرایک عمرہ کر چکا ہے، مکہ ہی میں رہ کر دوسرا عمرہ کرنا چاہتا ہے ، تو وہ بھی حِل میں کسی جگہ مثلاً تنعیم میں جاکر احرام باندھے، پھر دوسرے عمرہ کی ادائیگی کرے۔
مسجد حرام سے سب سے زیادہ قریب حل میں جگہ تنعیم ہے جہاں مسجد عائشہ بنی ہوئی ہے۔
تیسری قسم : حِل : میقات اور حرم کے درمیان کی سرزمین (مثلاً جدہ) حِل کہلائی جاتی ہے جس میں خود اُگے ہوئے درخت کو کاٹنا اور جانور کا شکار کرنا حلال ہے۔ نیز غیر مسلموں کا داخلہ بھی حل میں جائز ہے۔
تیسری قسم کا حکم : اہل حِل (جن کی رہائش میقات اور حدودِ حرم کے درمیان ہے مثلاً جدہ کے رہنے والے) حج اور عمرہ دونوں کا احرام اپنے گھر سے باندھیں۔
وضاحت: کوئی بھی شخص عمرہ کا احرام حدود حرم کے اندر (مثلاً مکہ مکرمہ میں ) نہیں باندھ سکتا ہے۔
محمد نجیب قاسمی سنبھلی، ریاض (www.najeebqasmi.com)

عمرہ کا طریقہ
عمرہ کا طریقہ
تلبیہ: لَبَّیک، اَللّٰهمَّ لَبَّیک، لَبَّیکَ لَا شَرِیکَ لَکَ لَبَّیک، اِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْم لَکَ وَالْمُلْک لَاشَرِيکَ لَک
عمرہ میں چار کام کرنے ہوتے ہیں:
میقات سے احرام باندھنا ۔
مسجد حرام پہونچ کر طواف کرنااور ۲ رکعت نماز پڑھنا۔
صفا مروہ کی سعی کرنا۔
سر کے بال منڈوانا یا کٹوانا۔
احرام: میقات پر یا میقات سے پہلے غسل یا وضو کرکے احرام کے کپڑے پہن لیں(یعنی ایک سفید تہبند باندھ لیں اور ایک سفید چادر اوڑھ لیں) پھر دو رکعت نفل ادا کریں اور عمرہ کی نیت کرکے کسی قدر بلند آواز سے تین مرتبہ تلبیہ پڑھیں۔ تلبیہ پڑھنے کے ساتھ ہی آپ کا احرام شروع ہوگیا۔ (وضاحت) عورتوں کے احرام کے لئے کوئی خاص لباس نہیں ، بس غسل وغیرہ سے فارغ ہوکر عام لباس پہن لیں اور چہرہ سے کپڑا ہٹالیں، پھر نیت کرکے آہستہ سے تلبیہ پڑھیں ۔
ممنوعاتِ احرام مردوں اور عورتوں دونوں کے لئے: خوشبو لگانا ، ناخن یا بال کاٹنا یا کٹوانا ، چہرہ کا ڈھانکنا ، جماع کرنا یا جماع کے اسباب جیسے بوسہ وغیرہ لینا ، جانور کا شکار کرنا اور ایسا جوتا پہننا جس سے پاؤں کے درمیان کی ہڈی چھپ جائے ۔
ممنوعاتِ احرام صرف مردوں کے لئے: سلا ہوا کپڑا پہننا اور سر کو ٹوپی یا چادر وغیرہ سے ڈھانکنا۔
مکروہاتِ احرام: بدن سے میل دور کرنا ، صابن کا استعمال کرنا ، کنگھی کرنا ، احرام میں پن وغیرہ لگانا یا احرام کو تاگے سے باندھنا۔
مسجد حرام پہونچنے تک بار بار تھوڑی آواز کے ساتھ تلبیہ پڑھتے رہیں، کیونکہ احرام کی حالت میں تلبیہ ہی سب سے بہتر ذکر ہے۔ مکہ مکرمہ پہونچ کر سامان وغیرہ اپنے قیام پر رکھ کر وضو یا غسل کرکے عمرہ کرنے کے لئے مسجد حرام کی طرف روانہ ہوجائیں۔
طواف: مسجد میں داخل ہونے والی دعا کے ساتھ دایاں قدم آگے بڑھائیں اور نہایت وقار وسکون کے ساتھ مسجد حرام میں داخل ہوں۔ خانہ کعبہ پر پہلی نگاہ پڑنے پر اللہ تعالی کی بڑائی بیان کرکے کوئی بھی دعا مانگیں۔ اس کے بعدمطاف میں کعبہ شریف کے اس کونے کے سامنے آجائیں جس میں حجر اسود لگا ہوا ہے اور عمرہ کے طواف کی نیت کرلیں ، مرد حضرات اضطباع بھی کرلیں (یعنی احرام کی چادر کو دائیں بغل کے نیچے سے نکال کربائیں مونڈھے کے اوپر ڈال لیں) پھر حجر اسود کا بوسہ لے کر (اگر ممکن ہوسکے) ورنہ اس کی جانب دونوں ہاتھوں کے ذریعہ اشارہ کرکے ( بسم اللہ اللہ اکبر) کہیں اور کعبہ کو بائیں جانب رکھ کر طواف شروع کردیں۔ طواف کرتے وقت نگاہ سامنے رکھیں۔ کعبہ کی طرف سینہ یا پشت نہ کریں۔ مرد حضرات پہلے تین چکر میں (اگر ممکن ہو) رمل کریں یعنی ذرا مونڈھے ہلا کر اور اکڑ کے چھوٹے چھوٹے قدم کے ساتھ کسی قدر تیز چلیں۔ جب کعبہ کا تیسرا کونہ آجائے جسے رکن یمانی کہتے ہیں( اگر ممکن ہو) تو دونوں ہاتھ یا صرف داہنا ہاتھ اس پر پھیریں ورنہ اس کی طرف اشارہ کئے بغیر یوں ہی گزر جائیں۔ رکن یمانی اور حجراسود کے درمیان یہ دعا پڑھیں: ( ربنا آتنا فی الدنیا حسنۃ وفی الآخرۃ حسنۃ وقنا عذاب النار)۔ پھر حجر اسود کے سامنے پہونچ کر اس کی طرف ہتھیلیوں کا رخ کریں اور کہیں ( بسم اللہ اللہ اکبر) اور ہتھیلیوں کو بوسہ دیں۔ اب آپ کا ایک چکر ہوگیا، اسکے بعد باقی چھ چکر بالکل اسی طرح کریں۔ طواف سے فارغ ہوکر طواف کی دو رکعت نمازمقامِ ابراہیم کے پیچھے اگر سہولت سے جگہ مل جائے ورنہ مسجد میں کسی بھی جگہ پڑھکر زمزم کا پانی پئیں اورپھر ایک بار حجر اسود کے سامنے آکر بوسہ دیں یا صرف دونوں ہاتھوں سے اشارہ کریں اور وہیں سے صفا کی طرف چلے جائیں۔
سعی: صفا پہاڑ پر پہونچ کر بہتر ہے کہ زبان سے کہیں: ( ان الصفا والمروۃ من شعائر اللہ) پھر اپنا رخ کعبہ کی طرف کرکے اللہ کی حمد وثنا بیان کریں، درود شریف پڑھیں، پھرہاتھ اٹھاکر خوب دعائیں کریں ۔ اس کے بعد مروہ کی طرف عام چال سے چلیں۔سبز ستونوں کے درمیان مرد حضرات ذرا دوڑ کر چلیں۔مروہ پر پہونچ کر قبلہ کی طرف رخ کرکے ہاتھ اٹھاکر دعائیں مانگیں۔ یہ سعی کا ایک پھیرا ہوگیا ۔ اسی طرح مروہ سے صفا کی طرف چلیں ، یہ دوسرا چکر ہوجائے گا۔ اس طرح آخری وساتواں چکر مروہ پر ختم ہوگا۔ (ہر مرتبہ صفا اور مروہ پر پہونچ کر دعا کرنی چاہئے)۔ ( وضاحت) طواف سے فراغت کے بعد اگر سعی کرنے میں تاخیر ہوجائے تو کوئی حرج نہیں۔ سعی کے دوران اس دعا کو بھی پڑھ لیں، اگر یاد ہو (رب اغفر وارحم، انک انت الاعز الاکرم)۔
حلق یا قصر: سعی سے فراغت کے بعد سر کے بال منڈوا دیں یا کٹوا لیں ، مردوں کے لئے منڈوانا افضل ہے لیکن خواتین چوٹی کے آخر میں سے ایک پورے کے برابر بال خود کاٹ لیں یا کسی محرم سے کٹوالیں۔
وضاحت: بعض حضرات سر کے چند بال ایک طرف سے اور چند بال دوسری طرف سے کاٹ کر احرام کھول دیتے ہیں، یاد رکھیں کہ ایسا کرنا جائز نہیں ، ایسی صورت میں دم واجب ہوجائے گابلکہ یا تو سر کے بال منڈوائیں یا پورے سر کے بال اس طرح کٹوائیں کہ ہر بال کچھ نا کچھ کٹ جائے۔
اس طرح آپ کا عمرہ پورا ہوگیا ، اب آپ اپنے احرام کو کھول دیں ۔ جب تک مکہ مکرمہ میں قیام رہے کثرت سے نفلی طواف کریں،عمرے بھی کرسکتے ہیں مگر طواف زیادہ کرنا افضل وبہتر ہے۔
چند اہم مسائل : (۱) اگر آپ بغیر احرام کے میقات سے گزر گئے تو آگے جاکر کسی بھی جگہ احرام باندھ لیں لیکن آپ پر ایک دم لازم ہوگیا۔ (۲) احرام کے اوپر مزید چادر یا کمبل ڈالکر اور تکیہ کا استعمال کرکے سونا جائزہے۔ (۳) احرام کی حالت میں احرام کو اتار کرغسل بھی کرسکتے اور احرام کو تبدیل بھی کر سکتے ہیں۔ (۴) بغیر وضو کے طواف کرنا جائز نہیں ہے، البتہ سعی کے لئے وضو کا ہونا ضروری نہیں۔ (۵)خواتین ماہواری کی حالت میں طواف نہیں کرسکتی ہیں۔ (۶) طواف اور سعی کے دوران عربی میں یا اپنی زبان میں جو دعا چاہیں مانگیں، یا قرآن کی تلاوت کریں ۔ ہر چکر کی الگ الگ دعا مسنون نہیں ہے۔ (۷)نماز کی حالت میں بازؤں کو ڈھکنا ضروری ہے، اضطباع صرف طواف کی حالت میں سنت ہے۔ (۸) طواف یا سعی کے دوران جماعت کی نماز شروع ہونے لگے یا تھکن ہوجائے تو طواف یا سعی کو روک دیں، پھر جہاں سے طواف یا سعی کو بند کیا تھا اسی جگہ سے شروع کردیں۔ (۹) طواف نفلی ہویا فرض کعبہ کے سات چکر لگاکر ۲ رکعت نماز ادا کرنا نہ بھولیں۔ (۱۰) نفلی سعی کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ (۱۱) طواف کے دوران بوقت ضرورت بات کرنا جائز ہے۔ (۱۲) طواف میں مردوں کے لئے رمل اور اضطباع کرنا سنت ہے۔ (۱۳) صرف عمرہ کے سفر میں طواف وداع نہیں ہے۔ محمد نجیب سنبھلی قاسمی، ریاض

عمرہ کی ادائیگی کا تفصیلی طریقہ
بسم الله الرحمن الرحيم
اَلْحَمْدُ لِله رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلام عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔
عمرہ کی ادائیگی کا تفصیلی طریقہ
عمرہ کا حکم:
صاحبِ استطاعت کے لئے زندگی میں ایک مرتبہ عمرہ ادا کرنا سنت ہے اور ایک سے زیادہ کرنا مستحب ہے، اگرچہ بعض علماء کے نزدیک صاحب استطاعت کے لئے زندگی میں ایک مرتبہ عمرہ کی ادائیگی واجب ہے۔
عمرہ کی فضیلت:
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ایک عمرہ دوسرے عمرہ تک ان گناہوں کا کفارہ ہے جو دونوں عمروں کے درمیان سرزد ہوں اور حج مبرور کا بدلہ تو جنت ہی ہے۔ بخاری ومسلم
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: پے درپے حج وعمرے کیا کرو۔ بے شک یہ دونوں (یعنی حج وعمرہ) غریبی اور گناہوں کو اس طرح دور کردیتے ہیں جس طرح بھٹی لوہے اور سونے وچاندی کے میل کچیل کو دور کردیتی ہے۔ ترمذی، ابن ماجہ
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: حج وعمرہ کرنے والے اللہ تعالیٰ کے مہمان ہیں۔ اگر وہ اللہ تعالیٰ سے دعا کریں تو وہ قبول فرمائے، اگر وہ اس سے مغفرت طلب کریں تو وہ ان کی مغفرت فرمائے۔ ابن ماجہ
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: رمضان میں عمرے کا ثواب حج کے برابر ہے۔ (بخاری ومسلم) دوسری روایت میں ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: رمضان میں عمرہ کرنامیرے ساتھ حج کرنے کے برابر ہے۔ مسلم
سفر کا آغاز:
گھر سے روانگی کے وقت دو رکعات نفل ادا کریں اور اللہ تعالیٰ سے سفر کی آسانی کے لئے اور عمرہ کے قبول ہونے کی دعائیں کریں۔ اپنی ضروریات کے سامان کے ساتھ اپنا پاسپورٹ یا اقامہ، ٹکٹ اور اخراجات کے لئے رقم بھی ساتھ لے لیں۔ مرد حضرات حسب ضرورت احرام کی چادریں بھی لے لیں۔
سفر میں نماز کو قصر کرنا:
اگر آپ کا یہ سفر ۴۸ میل یعنی تقریباً ۷۷ کیلومیٹر سے زیادہ کا ہے تو آپ اپنے شہر کی حدود سے باہر نکلتے ہی شرعی مسافر ہوجائیں گے۔ لہذا ظہر، عصر اور عشا کی چار رکعات کے بجائے دو دو رکعات فرض ادا کریں اور فجر کی دو اور مغرب کی تین ہی رکعات ادا کریں۔ البتہ کسی مقیم امام کے پیچھے نماز پڑھیں تو امام کے ساتھ پوری نماز ادا کریں۔ ہاں اگر امام بھی مسافر ہو تو چار کے بجائے دو ہی رکعات پڑھیں۔ سنتوں اور نفل کا حکم یہ ہے کہ اگر اطمینان کا وقت ہے تو پوری پڑھیں اور اگر جلدی ہے یا تھکن ہے یا کوئی اور دشواری ہے تو نہ پڑھیں، کوئی گناہ نہیں البتہ وتر اور فجر کی دو رکعات سنتوں کو نہ چھوڑیں۔
عمرہ کے ارکان:
عمرہ میں چار کام کرنے ہوتے ہیں:
میقات سے عمرہ کا احرام باندھنا۔
مسجد حرام پہونچ کر بیت اللہ کا طواف کرنا۔
صفا مروہ کی سعی کرنا۔
سر کے بال منڈوانا یا کٹوانا۔
میقات:
میقات اصل میں وقت معیّن اورمکان معیّن کا نام ہے۔
میقات زمانی : پورے سال رات دن میں جب چاہیں اور جس وقت چاہیں عمرہ کا احرام باندھ سکتے ہیں، لیکن ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث کے پیش نظر حضرت امام ابوحنیفہ ؒ نے پانچ دن (۹ ذی الحجہ سے ۱۳ ذی الحجہ تک) عمرہ کی ادائیگی کو مکروہ تحریمی قرار دیا ہے خواہ حج ادا کررہا ہو یا نہیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی یہ حدیث بیہقی میں مذکور ہے۔
میقات مکانی: وہ مقامات جہاں سے حج یا عمرہ کرنے والے حضرات احرام باندھتے ہیں میقات کہلاتے ہیں۔ میقات کے اعتبار سے پوری دنیا کی سرزین کو شریعت اسلامیہ نے تین حصوں میں تقسیم کیا ہے۔
حرم : مکہ مکرمہ اور اس کے چاروں طرف کچھ دور تک کی زمین حرم کہلاتی ہے، اس مقدس سرزمین میں غیر مسلموں کا داخلہ حرام ہے۔ نیز ہر شخص کے لئے چند چیزیں کرنا حرام ہیں چاہے وہاں کا مقیم ہو یا حج وعمرہ کرنے کے لئے آیا ہو۔ اسی لئے اس کو حرم کہا جاتا ہے۔
یہاں کے خود اُگے ہوئے درخت یا پودے کاٹنا۔ یہاں کے کسی جانور کا شکار کرنا یا اسکو چھیڑنا۔ گری پڑی چیز (لقطہ) کا اٹھانا۔
حدود حرم کے اندر مستقل یا عارضی طور پر قیام پذیر یعنی اہل حرم کو عمرہ کا احرام باندھنے کے لئے حرم سے باہر حل میں جانا ہوگا۔ حل میں سب سے قریب جگہ تنعیم ہے جہاں مسجد عائشہ بنی ہوئی ہے، جو مسجد حرام سے ساڑھے سات کیلو میٹر کے فاصلہ پر ہے۔
حِل : میقات اور حرم کے درمیان کی سرزمین حِل کہلاتی ہے جس میں وہ چیزیں حلال ہیں جو حرم میں حرام تھیں۔ اہل حل جن کی رہائش میقات اور حدودِ حرم کے درمیان ہے مثلاً جدہ کے رہنے والے‘ عمرہ کا احرام اپنے گھر سے باندھیں گے۔
آفاق: حرم اور حِل کے باہر پوری دنیا کی سرزمین آفاق کہلاتی ہے، آفاقی حضرات جب بھی عمرہ کی نیت سے مکہ مکرمہ جانا چاہیں تو ان کے لئے ضروری ہے کہ مندرجہ ذیل پانچ میقاتوں میں سے کسی ایک میقات پر یا اس سے پہلے یا اس کے مقابل احرام باندھیں:
اہل مدینہ اور اس کے راستے سے آنے والوں کے لئے ذوالحلیفہ میقات ہے جس کو آجکل بئر علی کہا جاتا ہے ۔ مدینہ منورہ کے قریب ہی یہ میقات واقع ہے۔ مکہ مکرمہ سے تقریباً ۴۲۰ کیلومیٹر دور ہے۔
اہل شام اور اس کے راستے سے آنے والوں کے لئے (مثلاً مصر، لیبیا، الجزائر، مراکش وغیرہ ) جحفہ میقات ہے۔ یہ مکہ مکرمہ سے تقریباً ۱۸۶کیلومیٹر دور ہے۔
اہلِ نجد اور اس کے راستے سے آنے والوں کے لئے (مثلاً بحرین، قطر، دمام، ریاض وغیرہ) قرن المنازل میقات ہے۔ اس کو آجکل (السیل الکبیر) کہا جاتا ہے۔ یہ مکہ مکرمہ سے تقریباً ۷۸ کیلومیٹر دور ہے۔
اہل یمن اور اس کے راستے سے آنے والوں کے لئے(مثلاً ہندوستان، پاکستان، بنگلادیش وغیرہ) ےَلَمْلَم میقات ہے۔ اس کو آجکل (سعدیہ) کہا جاتا ہے۔ مکہ مکرمہ سے اس کی دوری تقریباً ۱۲۰ کیلومیٹرہے۔
اہل عراق اور اس کے راستے سے آنے والو ں کے لئے ذاتِ عرق میقات ہے۔ یہ مکہ مکرمہ سے ۱۰۰کیلومیٹر مشرق میں واقع ہے۔
احرام:
احرام باندھنے سے پہلے طہارت اور پاکیزگی کا خاص خیال رکھیں: ناخن کاٹ لیں اور زیر ناف وبغل کے بال صاف کرلیں، سنت کے مطابق غسل کرلیں اگرچہ صرف وضو کرنا بھی کافی ہے اور احرام یعنی ایک سفید تہبند باندھ لیں اور ایک سفید چادر اوڑھ لیں، تہبند ناف کے اوپر اس طرح باندھیں کہ ٹخنے کھلے رہیں اور انہی دو کپڑوں میں دو رکعات نماز نفل ادا کریں اور عمرہ کرنے کی نیت کریں: اے اللہ! میں آپ کی رضا کے واسطے عمرہ کی نیت کرتا ہوں اس کو میرے لئے آسان فرما اور اپنے فضل وکرم سے قبول فرما۔ اس کے بعد کسی قدر بلند آواز سے تین دفعہ تلبیہ پڑھیں:
لَبَّیک، اَللّٰهمَّ لَبَّیک، لَبَّیکَ لَا شَرِیکَ لَکَ لَبَّیک، اِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْم لَکَ وَالْمُلْک لَاشَرِيکَ لَک
میں حاضر ہوں، اے اللہ میں حاضر ہوں، میں حاضر ہوں،تیرا کوئی شریک نہیں، میں حاضر ہوں، بیشک تمام تعریفیں اور سب نعمتیں تیری ہی ہیں، ملک اور بادشاہت تیری ہی ہے، تیرا کوئی شریک نہیں۔
احرام باندھ کر جو تلبیہ پڑھتے ہیں وہ گویا حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پکار کے جواب میں عرض کرتے ہیں کہ اے ہمارے مولا! تو نے اپنے خلیل حضرت ابراہیم علیہ السلام سے اعلان کراکے ہمیں اپنے پاک گھر بلوایا تھا، ہم تیرے در پر حاضر ہیں، حاضر ہیں، اے اللہ! ہم حاضر ہیں۔
تلبیہ پڑھنے کے ساتھ ہی آپ کا احرام بندھ گیا،اب سے لے کر مسجد حرام پہونچنے تک یہی تلبیہ سب سے بہتر ذکر ہے۔ لہذا تھوڑی بلند آواز کے ساتھ بار بار تلبیہ پڑھتے رہیں۔
احرام سے متعلق بعض اہم مسائل:
غسل سے فارغ ہوکر احرام باندھنے سے پہلے بدن پر خوشبو لگانا بھی سنت ہے۔
چونکہ احرام کی پابندیاں تلبیہ پڑھنے کے بعد ہی شروع ہوتی ہیں، لہذا تلبیہ پڑھنے سے پہلے غسل کے دوران‘ صابن اور تولیہ کا استعمال کرسکتے ہیں، نیز بالوں میں کنگھا بھی کرسکتے ہیں۔
عورتوں کے احرام کے لئے کوئی خاص لباس نہیں، بس غسل وغیرہ سے فارغ ہوکر عام لباس پہن لیں اور چہرہ سے کپڑا ہٹالیں پھر نیت کرکے آہستہ سے تلبیہ پڑھیں۔ عورتیں تلبیہ ہمیشہ آہستہ آواز سے پڑھیں۔
عورتیں بالوں کی حفاظت کے لئے اگر سر پر رومال باندھ لیں تو کوئی حرج نہیں لیکن پیشانی کے اوپر سر پر باندھیں اور اس کو احرام کا جزء نہ سمجھیں اور وضو کے وقت خاص طور پر یہ سفید رومال سر سے کھول کر سر پر ضرور مسح کریں۔
اگر کوئی عورت ایسے وقت میں مکہ مکرمہ پہونچی کہ اس کو ماہواری آرہی ہے تو وہ پاک ہونے تک انتظار کرے، پاک ہونے کے بعد ہی عمرہ کرنے کے لئے مسجد حرام جائے، عمرہ کی ادائیگی تک اس کو احرام کی حالت میں رہنا ہوگا۔
آجکل چند گھنٹوں میں آدمی میقات پہونچ جاتا ہے اور میقات پر کافی بھیڑ بھی رہتی ہے، لہذا گھر سے روانگی سے پہلے ہی ہر طرح کی طہارت حاصل کرلیں۔ میقات پر پہونچ کر اگر موقعہ مل جائے تو غسل کرلیں ورنہ صرف وضو کرکے احرام پہن لیں۔
اگر آپ پہلے مدینہ منورہ جارہے ہیں تو مدینہ منورہ جانے کے لئے کسی احرام کی ضرورت نہیں ہے، لیکن جب آپ مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ جائیں تو پھر مدینہ منورہ کی میقات پر احرام باندھیں۔
احرام کی حالت میں اگر احتلام ہوجائے تو اس سے احرام میں کوئی فرق نہیں پڑتا، کپڑا اور جسم دھوکر غسل کرلیں اور اگر احرام کی چادر بدلنے کی ضرورت ہو تو دوسری چادر استعمال کرلیں۔ لیکن میاں بیوی والے خاص تعلقات سے بالکل دور رہیں۔
ایک اہم ہدایت: میقات پر پہونچ کر یا اس سے پہلے پہلے احرام باندھنا ضروری ہے۔لیکن اگر آپ ہوائی جہاز سے جارہے ہیں اور آپ کو جدہ میں اترنا ہے، جدہ چونکہ حِل میں ہے یعنی میقات پہلے رہ جاتی ہے، لہذا آپ ہوائی جہاز پر سوار ہونے سے پہلے ہی احرام باندھ لیں یا ہوائی جہاز میں اپنے ساتھ احرام لے کر بیٹھ جائیں اور پھر راستہ میں میقات سے پہلے پہلے باندھ لیں۔ اور اگر موقع ہو تو دو رکعات بھی ادا کرلیں۔ پھر نیت کرکے تلبیہ پڑھیں۔ احرام باندھنے کے بعد نیت کرنے اور تلبیہ پڑھنے میں تاخیر کی جاسکتی ہے، یعنی آپ احرام ہوائی جہاز پر سوار ہونے سے پہلے باندھ لیں اور تلبیہ میقات کے آنے پر یا اس سے کچھ پہلے پڑھیں۔ یاد رکھیں کہ نیت کرکے تلبیہ پڑھنے کے بعد ہی احرام کی پابندیاں شروع ہوتی ہیں۔
تنبیہ: اگر آفاقی یعنی میقات سے باہر رہنے والا بغیر احرام کے میقات سے نکل گیا تو آگے جاکر کسی بھی جگہ احرام باندھ لے لیکن اس پر ایک دم لازم ہوگیا۔ ہاں اگر پہلے ذکر کی گئی پانچ میقاتوں میں سے کسی ایک پر یا اس کے محاذی (مقابل) پہونچ کر احرام باندھ لیا تو پھر دم واجب نہ ہوگا۔ مثلاً ریاض کا رہنے والا بغیر احرام کے جدہ پہونچ گیا تو جدہ یا مکہ مکرمہ سے احرام باندھنے پر ایک دم دینا ہوگا، لیکن اگر اُس نے پانچ میقاتو ں میں سے کسی ایک میقات مثلاً السیل الکبیر، الطائف پر پہنچ کر احرام باندھ لیا تو پھر دم واجب نہیں ہوگا۔
ممنوعاتِ احرام:
احرام باندھ کر تلبیہ پڑھنے کے بعد یہ چیزیں حرام ہوجاتی ہیں:
ممنوعاتِ احرام مردوں اور عورتوں دونوں کے لئے:
خوشبو استعمال کرنا۔ ناخن کاٹنا۔ جسم سے بال دور کرنا۔ چہرہ کا ڈھانکنا۔ میاں بیوی والے خاص تعلق اور جنسی شہوت کے کام کرنا۔ خشکی کے جانور کا شکار کرنا۔
ممنوعاتِ احرام صرف مردوں کے لئے:
سلے ہوئے کپڑے پہننا۔ سر کو ٹوپی یا پگڑی یا چادر وغیرہ سے ڈھانکنا۔ ایسا جوتا پہننا جس سے پاؤں کے درمیان کی ہڈی چھپ جائے۔
مکروہاتِ احرام:
بدن سے میل دور کرنا۔صابن کا استعمال کرنا۔کنگھا کرنا۔
احرام کی حالت میں جائز امور:
غسل کرنا لیکن خوشبو دار صابن کا استعمال نہ کریں ۔
احرام کو دھونا اور اس کو بدلنا ۔
انگوٹھی، گھڑی، چشمہ، بیلٹ، چھتری وغیرہ کا استعمال کرنا۔
احرام کے اوپر مزید چادر ڈال کر سونا۔ مگر مرد اپنے سر اور چہرے کو اور عورتیں اپنے چہرے کو کھلا رکھیں۔
مسجد حرام کی حاضری:
مکہ مکرمہ پہونچ کر سامان وغیرہ اپنے قیام گاہ پر رکھ کر اگر آرام کی ضرورت ہو تو تھوڑا آرام کرلیں ورنہ وضو یا غسل کرکے عمرہ کرنے کے لئے مسجد حرام کی طرف انتہائی سکون اور اطمینان کے ساتھ تلبیہ (لبیک) پڑھتے ہوئے چلیں۔ دربار الہی کی عظمت وجلال کا لحاظ رکھتے ہوئے دایاں قدم اندر رکھ کر مسجد میں داخل ہونے کی دعا پڑھتے ہوئے مسجد حرام میں داخل ہوجائیں ۔
کعبہ پر پہلی نظر:
جس وقت خانہ کعبہ پر پہلی نظر پڑے تو اللہ تعالیٰ کی بڑائی بیان کرکے جو چاہیں اپنی زبان میں اللہ تعالیٰ سے مانگیں کیونکہ یہ دعاؤں کے قبول ہونے کا خاص وقت ہے۔
طواف:
مسجد حرام میں داخل ہوکر کعبہ شریف کے اس گوشہ کے سامنے آجائیں جس میں حجر اسود لگا ہوا ہے اور طواف کی نیت کرلیں۔ عمرہ کی سعی بھی کرنی ہے اس لئے مرد حضرات اضطباع کرلیں (یعنی احرام کی چادر کو دائیں بغل کے نیچے سے نکال کر بائیں مونڈھے کے اوپر ڈال لیں) پھر حجر اسود کے سامنے کھڑے ہوکر بسم اللہ اللہ اکبر کہتے ہوئے حجر اسود کا بوسہ لیں یا دونوں ہاتھوں کی ہتھیلیوں کو حجر اسود کی طرف کرکے ہاتھوں کا بوسہ لیں اور پھر کعبہ کو بائیں طرف رکھ کر طواف شروع کردیں۔ مرد حضرات پہلے تین چکر میں (اگر ممکن ہو) رمل کریں یعنی ذرا مونڈھے ہلاکے اور اکڑکے چھوٹے چھوٹے قدم کے ساتھ کسی قدر تیز چلیں۔ طواف کرتے وقت نگاہ سامنے رکھیں، یعنی کعبہ شریف آپ کے بائیں جانب رہے۔ طواف کے دوران بغیر ہاتھ اٹھائے چلتے چلتے دعائیں کرتے رہیں یا اللہ کا ذکر کرتے رہیں۔ آگے ایک نصف دائرے کی شکل کی چار پانچ فٹ اونچی دیوار آپ کے بائیں جانب آئیگی اسکو حطیم کہتے ہیں۔ (حطیم دراصل بیت اللہ کا ہی حصہ ہے، اس میں نماز پڑھنا ایسا ہی ہے جیسا بیت اللہ کے اندر نماز پڑھنا، اگر طواف کے بعد موقع مل جائے تو وہاں ضرور نفل ادا کریں)۔ اسکے بعد جب خانہ کعبہ کا تیسرا کونہ آجائے جسے رکنِ یمانی کہتے ہیں (اگر ممکن ہو) تو دونوں ہاتھ یا صرف داہنا ہاتھ اس پر پھیریں ورنہ اسکی طرف اشارہ کئے بغیر یوں ہی گزر جائیں۔ رکن یمانی اور حجر اسود کے درمیان چلتے ہوئے یہ دعا بار بار پڑھیں: رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَاعَذَابَ النَّارپھر حجر اسود کے سامنے پہونچ کر اسکی طرف ہتھیلیوں کا رخ کریں، بسم اللہ اللہ اکبر کہیں اور ہتھیلیوں کا بوسہ لیں۔ اس طرح آپ کا ایک چکر پورا ہوگیا، اس کے بعد باقی چھ چکر بالکل اسی طرح کریں۔ کل سات چکر کرنے ہیں، آخری چکر کے بعد بھی حجر اسود کا استلام کریں اور صفا چلے جائیں۔
طواف سے متعلق بعض اہم مسائل:
تلبیہ جو احرام باندھنے کے بعد سے برابر پڑھ رہے تھے، مسجد حرام میں داخل ہونے کے بعد بند کردیں۔
مطاف میں اگر بھیڑ زیادہ ہو یا تھکن ہورہی ہو تو طواف کو مؤخر کرسکتے ہیں، لیکن ممنوعات احرام سے بچتے رہیں۔
طواف کے دوران کوئی مخصوص دعا ضروری نہیں ہے بلکہ جو چاہیں اور جس زبان میں چاہیں دعا مانگتے رہیں،اگر کچھ نہ بھی پڑھیں بلکہ خاموش رہیں تب بھی طواف صحیح ہوجاتا ہے۔
طواف کے دوران جماعت کی نماز شروع ہونے لگے یا تھکن ہوجائے تو طواف روک دیں، پھر جس جگہ سے طواف بند کیا تھا اسی جگہ سے طواف شروع کردیں۔
نفلی طواف میں رمل (یعنی ذرا اکڑ کر چلنا)اوراضطباع نہیں ہوتاہے۔
نماز کی حالت میں بازؤں کو ڈھکنا چاہئے کیونکہ اضطباع صرف طواف کی حالت میں سنت ہے۔
اگر طواف کے دوران وضو ٹوٹ جائے توطواف روک دیں اور وضو کرکے اسی جگہ سے طواف شروع کردیں جہاں سے طواف بند کیا تھاکیونکہ بغیر وضو کے طواف کرنا جائز نہیں ہے۔
طواف نفلی ہو یا فرض، اس میں سات ہی چکر ہوتے ہیں،نیز اس کی ابتداء حجر اسود کے استلام سے ہی ہوتی ہے اور اس کے بعد دو رکعات نماز پڑھی جاتی ہے۔
اگر طواف کے چکروں کی تعداد میں شک ہوجائے تو کم تعداد شمار کرکے باقی چکروں سے طواف مکمل کریں۔
مسجد حرام کے اندر اوپر یا نیچے یا مطاف میں کسی بھی جگہ طواف کرسکتے ہیں۔
طواف حطیم کے باہر سے ہی کریں۔ اگر حطیم میں داخل ہوکر طواف کریں گے تو وہ معتبر نہیں ہوگا۔
اگر کسی عورت کو طواف کے دوران حیض آجائے تو فوراً طواف بند کردے اور مسجد سے باہر چلی جائے۔
خواتین طواف میں رمل (یعنی اکڑکر چلنا) نہ کریں، یہ صرف مردوں کے لئے خاص ہے۔
ہجوم ہونے کی صورت میں خواتین حجر اسود کا بوسہ لینے کی کوشش نہ کریں، بس دور سے اشارہ کرنے پر اکتفا کریں۔ اسی طرح ہجوم ہونے کی صورت میں رکن یمانی کو بھی نہ چھوئیں۔
اگر حجر اسود کے سامنے سے اشارہ کئے بغیر گزر جائیں اور ازدحام زیادہ ہے تو حجر اسود کے استلام کے لئے دوبارہ واپس آنے کی کوشش نہ کریں کیونکہ طواف کے دوران حجر اسود کا بوسہ لینا یا اس کی طرف اشارہ کرنا سنت ہے واجب نہیں ہے۔
اہم مسئلہ: معذور شخص جس کا وضو نہیں ٹھہرتا (مثلاً پیشاب کے قطرات مسلسل گرتے رہتے ہیں یا مسلسل ریح خارج ہوتی رہتی ہے یا عورت کو بیماری کا خون آرہا ہے ) تو اس کے لئے حکم یہ ہے کہ وہ نماز کے ایک وقت میں وضو کرے، پھر اس وضو سے اس وقت میں جتنے چاہے طواف کرے، نماز پڑھے اور قرآن کی تلاوت کرے، دوسری نماز کا وقت داخل ہوتے ہی وضو ٹوٹ جائے گا۔ اگر طواف مکمل ہونے سے پہلے ہی دوسری نماز کا وقت داخل ہوجائے تو وضو کرکے طواف کو مکمل کرے۔
دو رکعت نماز: طواف سے فراغت کے بعد مقامِ ابراہیم کے پاس آئیں۔ اُس وقت آپ کی زبان پر یہ آیت ہو تو بہتر ہے : (وَاتَّخِذُوْا مِن مَّقَامِ اِبْرَاھِےْمَ مُصَلّٰی) اگر سہولت سے مقامِ ابراہیم کے پیچھے جگہ مل جائے تو وہاں ‘ورنہ مسجد حرام میں کسی بھی جگہ طواف کی دو رکعات ادا کریں۔ طواف کی اِن دو رکعات کے متعلق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت یہ ہے کہ پہلی رکعت میں سورۂ کافرون اور دوسری رکعت میں سورۂ اخلاص پڑھی جائے۔ ہجوم کے دوران مقام ابراہیم کے پاس طواف کی دو رکعات نماز پڑھنے کی کوشش نہ کریں کیونکہ اس سے طواف کرنے والوں کو تکلیف ہوتی ہے، بلکہ مسجد حرام میں کسی بھی جگہ ادا کرلیں۔
مقامِ ابراہیم: یہ ایک پتھر ہے جس پر کھڑے ہوکر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کعبہ کو تعمیر کیا تھا، اس پتھر پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے قدموں کے نشانات ہیں۔ یہ کعبہ کے سامنے ایک جالی دار شیشے کے چھوٹے سے قبہ میں محفوظ ہے جس کے اطراف پیتل کی خوشنما جالی نصب ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: حجر اسود اور مقام ابراہیم قیمتی پتھروں میں سے دو پتھر ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے دونوں پتھروں کی روشنی ختم کردی ہے، اگر اللہ تعالیٰ ایسا نہ کرتا تو یہ دونوں پتھر مشرق اور مغرب کے درمیان ہر چیز کو روشن کردیتے۔ ابن خزیمہ
ملتزم: طواف اور نماز سے فراغت کے بعد اگر موقع مل جائے تو ملتزم پر آئیں۔ حجر اسود اور کعبہ کے دروازے کے درمیان دو میٹر کے قریب کعبہ کی دیوار کا جو حصہ ہے وہ ملتزم کہلاتا ہے۔ اور اس سے چمٹ کر خوب دعائیں مانگیں۔ یہ دعاؤں کے قبول ہونے کی خاص جگہ ہے۔ حجاج کرام کو تکلیف دے کر ملتزم پر پہونچنا جائز نہیں ہے، لہذا طواف کرنے والوں کی تعداد اگر زیادہ ہو تو وہاں پہونچنے کی کوشش نہ کریں، کیونکہ وہاں دعائیں کرنا صرف سنت ہے۔
آب زمزم: طواف سے فراغت کے بعد قبلہ رو ہوکر بسم اللہ پڑھ کر تین سانس میں خوب سیر ہوکر زمزم کا پانی پئیں اور الحمد للہ کہہ کر یہ دعا پڑھیں (اگر یاد ہو): اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ عِلْمَاً نَافِعَاً وَرِزْقَاً وَاسِعَاً وَشِفَاءً مِنْ كُلِّ دَاءٍ (اے اللہ! میں آپ سے نفع دینے والے علم کا اور کشادہ رزق کا اور ہر مرض سے شفایابی کا سوال کرتا ہوں)۔ مسجد حرام میں ہر جگہ زمزم کا پانی بآسانی مل جاتا ہے۔ زمزم کا پانی کھڑے ہوکر پینا مستحب ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو زمزم پلایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہوکر پیا۔ (بخاری) زمزم کا پانی پی کر اس کا کچھ حصہ سر اور بدن پر ڈالنا بھی مستحب ہے۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: زمزم کا پانی جس نیت سے پیا جائے وہی فائدہ اس سے حاصل ہوتا ہے۔ (ابن ماجہ) حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: روئے زمین پر سب سے بہتر پانی زمزم ہے جو بھوکے کے لئے کھانا اور بیمار کے لئے شفا ہے۔ طبرانی
صفا مروہ کے درمیان سعی:
صفا پر پہونچ کر بہتر یہ ہے کہ زبان سے کہیں: ابْدَابِمَا بَدَأَ اللَّهُ بِهِ، إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللهِ پھر خانہ کعبہ کی طرف رخ کرکے دعا کی طرح ہاتھ اٹھالیں اور تین مرتبہ اللہ اکبر کہیں۔ اور اگر یہ دعا یاد ہو تواسے بھی تین بار پڑھیں:
لاإلَهَ إِلاَّاللهُ وَحْدَهُ لاشَرِيكَ لَهُ، لَهُ المُلْكُ؛ وَلَهُ الحَمْدُ، وَهُوَعَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ. لاإلَهَ إِلاَّاللهُ وَحْدَهُ أَنْجَزَوَعْدَهُ وَنَصَرَعَبْدَهُ وَهَزَمَ الأحزابَ وَحْدَهُ.
اس کے بعد کھڑے ہوکر خوب دعائیں مانگیں۔ یہ دعاؤں کے قبول ہونے کا خاص مقام اور خاص وقت ہے۔ دعاؤں سے فارغ ہوکر نیچے اترکر مروہ کی طرف عام چال سے چلیں۔ دعائیں مانگتے رہیں یا اللہ کا ذکر کرتے رہیں۔ سعی کے دوران بھی کوئی خاص دعالازم نہیں البتہ اس دعا کو بھی پڑھتے رہیں: رَبِّ اغْفِرْ وَارْحَمْ وَتَجَاوَزْ عَمَّا تَعْلَمْ إنِّكَ أنْتَ الأعَزٌّ الأكْرم جب سبز ستون (جہاں ہری ٹیوب لائٹیں لگی ہوئی ہیں) کے قریب پہونچیں تو مرد حضرات ذرا تیز رفتار سے چلیں اس کے بعد پھر ایسے ہی ہرے ستون اور نظر آئیں گے وہاں پہونچ کر تیز چلنا بند کردیں اور عام چال سے چلیں۔ مروہ پر پہونچ کرقبلہ کی طرف رخ کرکے ہاتھ اٹھاکر دعائیں مانگیں، یہ سعی کا ایک پھیرا ہوگیا۔ اسی طرح مروہ سے صفا کی طرف چلیں۔ یہ دوسرا چکر ہوجائے گا۔ اس طرح آخری وساتواں چکر مروہ پر ختم ہوگا۔ ہر مرتبہ صفا اور مروہ پر پہونچ کر خانہ کعبہ کی طرف رخ کرکے دعائیں کرنی چاہئیں۔
سعی سے متعلق بعض اہم مسائل:
سعی کے لئے وضو کا ہونا ضروری نہیں البتہ افضل وبہتر ہے۔
حیض (ماہواری) کی حالت میں بھی سعی کی جاسکتی ہے البتہ طواف‘ حیض کی حالت میں ہرگز نہ کریں بلکہ مسجد حرام میں بھی داخل نہ ہوں۔یعنی اگر کسی عورت کو طواف کے بعد ماہواری شروع ہوجائے تو ناپاکی کی حالت میں سعی کرسکتی ہے۔
طواف سے فارغ ہوکر اگر سعی کرنے میں تاخیر ہوجائے تو کوئی حرج نہیں۔
سعی کو طواف کے بعد کرنا شرط ہے، طواف کے بغیر سعی معتبر نہیں ہوگی۔
صفا ومروہ پر پہونچ کر بیت اللہ کی طرف ہاتھ سے اشارہ نہ کریں بلکہ دعا کی طرح دونوں ہاتھ اٹھاکر دعائیں کریں۔
سعی کے دوران نماز شروع ہونے لگے یا تھک جائیں تو سعی کو روک دیں پھر جہاں سے سعی کو بند کیا تھااسی جگہ سے شروع کردیں۔
طواف کی طرح سعی بھی پیدل چل کر کرنا چاہئے، البتہ اگر کوئی عذر ہو تو وہیل چےئر پر بھی سعی کرسکتے ہیں۔
اگر سعی کے چکروں کی تعداد میں شک ہوجائے تو کم تعداد شمار کرکے باقی چکروں سے سعی مکمل کریں۔
خواتین سعی میں سبز ستونوں (جہاں ہری ٹیوب لائٹیں لگی ہوئی ہیں) کے درمیان مردوں کی طرح دوڑکر نہ چلیں۔
اگر چاہیں تو سعی کے بعد بھی دو رکعات نماز ادا کرلیں کیونکہ بعض روایات میں اس کا ذکر ملتا ہے۔
نفلی سعی کا کوئی ثبوت نہیں ہے، البتہ نفلی طواف زیادہ سے زیادہ کرنے چاہئے۔
بال منڈوانا یا کٹوانا:
طواف اور سعی سے فارغ ہوکر سر کے بال منڈوادیں یا کٹوادیں۔ مردوں کے لئے منڈوانا افضل ہے، کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بال منڈوانے والوں کے لئے رحمت ومغفرت کی دعا تین مرتبہ فرمائی ہے اور بال کٹوانے والوں کے لئے صرف ایک مرتبہ، نیز اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے پاک کلام قرآن کریم میں حلق کرانے والوں کا ذکر پہلے اور بال کٹوانے والوں کا ذکر بعد میں کیا ہے۔ لیکن خواتین چوٹی کے آخر میں سے ایک پورے کے برابر بال خود کاٹ لیں یا کسی محرم سے کٹوالیں۔
تنبیہ: بعض مرد حضرات چند بال سر کے ایک طرف سے اور چند بال دوسری طرف سے قینچی سے کاٹ کر احرام کھول دیتے ہیں، یہ صحیح نہیں ہے۔ ایسی صورت میں جمہور علماء کے نزدیک دم واجب ہوجائے گا، لہذا یاتو سر کے بال منڈوائیں یا اس طرح بالوں کو کٹوائیں کہ پورے سر کے بال کٹ جائیں۔ اگر بال زیادہ ہی چھوٹے ہوں تو منڈوانا ہی لازم ہے۔ سر کے بال منڈوانے یا کٹوانے سے پہلے نہ احرام کھولیں اور نہ ہی ناخن وغیرہ کاٹیں ورنہ دم لازم ہوجائے گا۔
بال کا حدود حرم میں کٹوانا ضروری ہے، لہذا جدہ میں بال منڈوانے کی صورت میں دم واجب ہوگا۔
جب بال کٹوانے کا وقت ہوجائے یعنی طواف وسعی سے فراغت ہوگئی تو ایک دوسرے کے بال کاٹ سکتے ہیں۔
عمرہ پورا ہوگیا:
اب آپ کا عمرہ پورا ہوگیا۔ احرام اتار دیں، سلے ہوئے کپڑے پہن لیں، خوشبو لگالیں۔ اب آپ کے لئے وہ سب چیزیں جائز ہوگئیں جو احرام کی وجہ سے ناجائز ہوگئی تھیں۔
متعدد عمرے کرنا:
عمرہ کی ادائیگی کے بعد اپنی طرف سے یا اپنے متعلقین کی طرف سے نفلی عمرے کرنا چاہیں تو حل میں کسی جگہ مثلاً تنعیم جاکر غسل کرکے احرام باندھیں، دو رکعات نماز پڑھ کر نیت کریں اور تلبیہ پڑھیں پھر عمرہ کا جو طریقہ بیان کیا گیا ہے اس کے مطابق عمرہ کریں۔ کسی میت یا انتہائی بوڑھے یا ایسے بیمار شخص جس کی صحت کی بظاہر توقع نہیں ہے‘ کی جانب سے بلا شبہ عمرہ بدل کیا جاسکتا ہے، لیکن صحت مند زندہ شخص کی جانب سے عمرہ بدل کی ادائیگی میں فقہاء کا اختلاف ہے البتہ احتیاط صحت مند شخص کی طرف سے عمرہ بدل نہ کرنے میں ہے۔
طواف وداع: واپسی کے وقت طواف وواع کرنا چاہیں تو کرلیں لیکن صرف عمرہ کے سفر میں طواف وداع ضروری نہیں ہے۔
عمرہ سے متعلق بعض اہم مسائل:
عورت بغیر مَحرم یا شوہر کے عمرہ کا سفر یا کوئی دوسرا سفر نہیں کرسکتی ہے، اگر کوئی عورت بغیر محرم یا شوہر کے عمرہ کرے تو اس کا عمرہ تو اداہوجائے گا لیکن ایسا کرنے میں بڑا گناہ ہے۔
عورتیں مرد کی طرف سے اور مرد عورتوں کی طرف سے نفلی عمرے بدل ادا کرسکتے ہیں۔
احرام کی حالت میں احرام کے کپڑے اتارکر غسل بھی کرسکتے ہیں اور احرام تبدیل بھی کرسکتے ہیں۔
اگر کوئی شخص حج کے مہینے (یعنی شوال یا ذی القعدہ یا ذی الحجہ کے پہلے عشرہ) میں عمرہ کرکے اپنے گھر واپس چلا گیا، اور حج کے ایام میں صرف حج کا احرام باندھ کر حج ادا کرے تو یہ حج تمتع نہیں ہوگاکیونکہ جمہور علماء کے نزدیک حج تمتع کے لئے شرط ہے کہ وہ عمرہ کرکے اپنے گھر واپس نہ جائے۔
بعض لوگوں نے مشہور کررکھا ہے کہ اگر کسی نے عمرہ کیا تو اس پر حج فرض ہوگیا، یہ غلط ہے۔ اگر وہ صاحب استطاعت نہیں ہے یعنی اگر اس کے پاس اتنا مال نہیں ہے کہ وہ حج ادا کرسکے تو اس پر عمرہ کی ادائیگی کی وجہ سے حج فرض نہیں ہوتا اگرچہ وہ عمرہ‘ حج کے مہینوں میں ہی ادا کیا جائے پھر بھی اسکی وجہ سے حج فرض نہیں ہوگا۔
محمد نجیب سنبھلی قاسمی، ریاض

جمرات پر کنکریا ں مارنے کے اہم مسائل
بسم الله الرحمن الرحيم
اَلْحَمْدُ لِله رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلام عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔
جمرات پر کنکریا ں مارنے کے اہم مسائل
رَمِی: جمرات پر کنکریاں مارنے کو رمی کہتے ہیں۔
جَمَرات: یہ منی میں تین مشہور مقام ہیں جہاں اب دیوار کی شکل میں بڑے بڑے ستون بنے ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے حکم، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ اور حضرات ابراہیم علیہ السلام کی اتباع میں ان تین جگہوں پر کنکریاں ماری جاتی ہیں۔ ان میں سے جو مسجد خیف کے قریب ہے جمرہ اولیٰ، اسکے بعد بیچ والے جمرہ کو جمرہ وسطی اور اس کے بعد مکہ مکرمہ کی طرف آخری جمرہ کو جمرہ عقبہ یا جمرہ کبری کہا جاتا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو شیطان نے ان تین مقامات پر بہکانے کی کوشش کی تھی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان تین مقامات پر شیطان کو کنکریاں ماری تھیں اور اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اس عمل کو قیامت تک آنے والے حاجیوں کے لئے لازم قرار دے دیا۔ حجاج کرام بظاہر جمرات پر کنکریاں مارتے ہیں لیکن درحقیقت شیطان کو اس عمل کے ذریعہ دھتکارا جاتا ہے جیساکہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا فرمان ہے۔ (رواہ ابن خزیمہ فی صحیحہ والحاکم واللفظ لہ وقال صحیح علی شرطہما(
رَمِی کا حکم:رمی یعنی جمرات پر کنکریاں مارنا حج کے واجبات میں سے ہے یعنی اس کے ترک پر دم لازم ہوگا۔ دسویں، گیارہویں اور بارہویں ذی الحجہ کو رمی کرنا (یعنی ۴۹کنکریاں مارنا) ہر حاجی کے لئے ضروری ہے۔ تیرہویں ذی الحجہ کی رمی (یعنی ۲۱ کنکریاں مارنا) اختیاری ہے، اگر ۱۲ ذی الحجہ کے بعد آنے والی رات میں منی میں قیام کیا تو پھر ۱۳ ذی الحجہ کو رمی (یعنی ۲۱ کنکریاں مارنا) ضروری ہو گی، اس طرح ۱۳ ذی الحجہ تک ۷۰ کنکریاں استعمال میں آئیں گی۔
رَمِی کی فضیلت: حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس نے جمرات پر کنکریاں ماریں اس کے لئے کل قیامت کے دن ایک نور ہوگا۔(رواہ البزاز ۔صحیح الترغیب ۱۱۵۷)
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جمرہ پر ہر کنکری مارنے سے ایک بڑے گناہ کی معافی ہوتی ہے۔(رواہ الطبرانی فی الکبیر والبزاز وابن حبان فی صحیحہ وکذلک رواہ الطبرانی فی الاوسط)
کنکریاں چننا: مزدلفہ سے منی روانگی کے وقت بڑے چنے کے برابر کنکریاں چن لیں لیکن کنکریوں کا مزدلفہ ہی سے اٹھانا ضروری نہیں بلکہ منی سے بھی اٹھاسکتے ہیں۔
10 ذی الحجہ: ۱۰ ذی الحجہ کو صرف جمرۂ عقبہ پر سات کنکریاں مارنا ضروری ہے۔
رمی کا وقت: ۱۰ ذی الحجہ کو کنکری مارنے کا مسنون وقت‘ طلوعِ آفتاب سے زوال تک ہے ، البتہ غروبِ آفتاب تک بھی بغیر کسی کراہیت کے کنکریاں ماری جاسکتی ہیں ۔ اگر غروب آفتاب تک بھی رمی نہ کرسکے تو صبح تک بھی رمی کی جاسکتی ہیں۔ بعض علماء کرام نے ۱۰ ذی الحجہ کو طلوع آفتاب کے بجائے صبح صادق سے ہی کنکریاں مارنے کی اجازت دی ہے۔ غرضیکہ ۱۰ ذی الحجہ کو تقریباً ۲۴ گھنٹے رمی کی جاسکتی ہے۔
رمی کا طریقہ: منی پہونچ کر سب سے پہلے بڑے اور آخری جمرہ کو سات کنکریاں ماریں، کنکریاں مارنے کا طریقہ یہ ہے کہ بڑے جمرے سے تھوڑے فاصلہ پر کھڑے ہوں اور سات دفعہ میں داہنے ہاتھ سے سات کنکریاں ماریں، ہر مرتبہ بسم اللہ، اللہ اکبر کہیں۔
دوسرے کی طرف سے رمی کرنے کا طریقہ: دسویں تاریخ کو دوسرے کی طرف سے رمی کرنے (کنکریاں مارنے) کاطریقہ یہ ہے کہ پہلے اپنی طرف سے اپنی سات کنکریاں ماریں، پھر دوسرے کی طرف سے سات کنکریاں ماریں۔
11 اور 12 ذی الحجہ: ۱۱ اور ۱۲ ذی الحجہ کو تینوں جمرات پر کنکریاں مارنا واجب ہے۔
رمی کاوقت: دونوں دن تینوں جمرات کو کنکریاں مارنے کا مسنون وقت زوال آفتاب سے غروبِ آفتاب تک ہے۔اگر غروب آفتاب تک رمی نہیں کرسکے تو رات میں بھی صبح سے پہلے تک کنکریاں ماری جاسکتی ہیں۔
رمی کا طریقہ: سب سے پہلے چھوٹے جمرہ (جو مسجد خیف کی طرف ہے) پر سات کنکریاں سات دفعہ میں بسم اللہ، اللہ اکبر کہہ کر ماریں۔ اسکے بعد تھوڑا آگے بڑھ کر دائیں یا بائیں جانب ہوجائیں اور قبلہ رخ ہوکر ہاتھ اٹھاکر خوب دعائیں کریں۔ اس کے بعد بیچ والے جمرہ پرسات کنکریاں ماریں اور بائیں یا دائیں جانب ہوکر خوب دعائیں کریں۔ پھر آخر میں تیسرے اور بڑے جمرہ پر ۷کنکریاں ماریں اور بغیر دعا کے چلے جائیں۔
نوٹ: گیارہویں اور بارہویں ذی الحجہ کو زوال سے پہلے کنکریاں مارنا جائز نہیں ہے۔ زوال سے پہلے مارنے کی صورت میں دوبارہ زوال کے بعد کنکریاں مارنی ہوں گی ورنہ دم لازم ہوگا۔ کسی بھی مکتب فکر نے ۱۱ اور ۱۲ ذی الحجہ کو زوال سے قبل رمی کرنے کی اجازت نہیں دی ہے۔ جب زوال آفتاب سے صبح تک یعنی تقریباً ۱۷ گھنٹے تک رمی کی جاسکتی ہے نیز رات میں جمرات پر کوئی ازدحام بھی نہیں ہوتا ہے تو زوال سے قبل رمی کی گنجائش کی بات کرنا صحیح نہیں ہے۔
دوسرے کی طرف سے کنکریاں مارنا: گیارہویں، بارہویں اور تیرہویں کو دوسرے کی طرف سے کنکریاں مارنے کا طریقہ یہ ہے کہ ہر ایک جمرہ پر اپنی سات کنکریاں مارنے کے بعد دوسرے کی طرف سے کنکریاں ماریں۔
مکہ مکرمہ کو واپسی: ۱۲ ذی الحجہ کو تینوں جمرات پر کنکریاں مارنے کے بعد منی سے جاسکتے ہیں لیکن سورج غروب ہونے سے پہلے روانہ ہوجائیں۔
وضاحت: اگر بارہویں کو منی سے جانے کا ارادہ ہے تو سورج غروب ہونے سے پہلے منی سے روانہ ہوجائیں۔ غروبِ آفتاب کے بعد تیرہویں کی کنکریاں مارے بغیر جانا مکروہ ہے، گو تیرہویں کی کنکریاں مارنا حضرت امام ابو حنیفہؒ کی رائے کے مطابق واجب نہ ہوگی، لیکن اگر تیرہویں کی صبح صادق منی میں ہوگئی تو تیرہویں کی رمی (کنکریاں مارنا) ضروری ہوجائے گی، اب اگر کنکریاں مارے بغیر جائیں گے تو دم لازم ہوگا۔ دیگر علماء کی رائے کے مطابق اگر ۱۲ ذی الحجہ کو غروبِ آفتاب منی میں ہوگیا تو۱۳ ذی الحجہ کی کنکریاں مارنا واجب ہوگیا۔ لیکن اگر کوئی شخص ۱۲ ذی الحجہ کو منی سے روانہ ہونے کے لئے بالکل مستعد ہے مگر ازدحام کی وجہ سے تاخیر ہوگئی اور سورج غروب ہوگیا تو وہ بغیر کسی کراہیت کے منی سے جاسکتا ہے، اسکے لئے۱۳ ذی الحجہ کو کنکریاں مارنا ضروری نہیں ہے۔
13 ذی الحجہ:
اگر آپ ۱۲ ذی الحجہ کو کنکریاں مارنے کے بعد منی سے چلے گئے تو آج کے دن کی رمی ضروری نہیں ہے، لیکن اگر آپ ۱۳ ذی الحجہ کو کنکریاں مارکر ہی واپس ہونا چاہتے ہیں جیسا کہ افضل ہے تو ۱۲ ذی الحجہ کے بعد آنے والی رات کو منی میں قیام کریں اور ۱۳ ذی الحجہ کو تینوں جمرات پر زوال کے بعد ۱۱اور ۱۲ ذی الحجہ کی طرح سات سات کنکریاں ماریں پھر چلے جائیں۔ بعض علماء کرام کی رائے کے مطابق صرف تیرہویں ذی الحجہ کو زوال سے پہلے بھی کنکریاں ماری جاسکتی ہیں کیونکہ تیرہویں ذی الحجہ کوصرف سورج کے غروب ہونے تک کنکریاں مارسکتے ہیں۔مگر بہتر یہی ہے کہ تیرہویں ذی الحجہ کوبھی زوال کے بعد ہی کنکریاں ماریں۔
چند وضاحتیں:
* تلبیہ جو احرام باندھنے سے برابر پڑھ رہے تھے، دسویں ذی الحجہ کو بڑے جمرہ پر پہلی کنکری مارنے کے ساتھ ہی بند کردیں۔
* دسویں ذی الحجہ کو صرف بڑے جمرہ (جو مکہ مکرمہ کی طرف ہے) کوکنکریاں ماری جاتی ہیں۔
* ایک دفعہ میں ساتوں کنکریاں مارنے پر ایک ہی شمار ہوگی، لہذا چھ کنکریاں اور ماریں ورنہ دم لازم ہوگا-
* کنکری کا جمرہ پر لگنا ضروری نہیں بلکہ حوض میں گرجائے تب بھی کافی ہے کیونکہ اصل حوض میں ہی گرنا ہے۔
* کنکریاں چنے کے برابر یا اس سے کچھ بڑی ہونی چاہئیں۔
* کنکریاں مارتے وقت اگر مکہ مکرمہ آپ کے بائیں جانب اور منی دائیں جانب ہو تو بہتر ہے۔
* کنکریاں مارنے کے وقت کسی بھی طرح کی کوئی پریشانی آئے تو اس پر صبر کریں، لڑائی جھگڑا ہرگز نہ کریں۔
* عورتیں اور کمزور لوگ ازدحام کے اوقات میں کنکریاں نہ ماریں بلکہ زوال کے بعد بھیڑ کم ہونے پر یا رات کو کنکریاں ماریں، کیونکہ اپنی جان کو خطرے میں ڈالنا مناسب نہیں، نیز اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ سہولت اور رخصت پر بھی خوش دلی سے عمل کرنا چاہئے۔
* رمی کے وقت مخصوص ہےئت یا حالت لازم نہیں ہے، لہذا چلتے ہوئے یا کھڑے ہوئے یا کسی چیز پر بیٹھے ہوئے، طہارت یا بغیر طہارت، استقبال قبلہ اور بغیر استقبال قبلہ ہر طرح سے رمی کرنا جائز ہے۔
* اگر کنکری کے حوض میں گرنے پر شک پیدا ہوگیا یا کنکریوں کی تعداد میں شک ہوگیا تو بہتر ہے کہ شک والی کنکری کو دوبارہ مار دیں۔
* اگر تمام دنوں کی رمی (کنکریاں مارنا) بالکل ترک کردیں یا ایک دن کی ساری یا اکثر کنکریاں ترک کردیں تو دم واجب ہوگا۔ اور اگر ایک دن کی رمی سے تھوڑی کنکریاں مثلا پہلے دن کی تین اور باقی دن کی دس کنکریاں چھوڑدیں تو ہر کنکری کے بدلہ میں صدقۂ فطر یا اس کی قیمت ادا کرنا واجب ہوگی۔
تنبیہ: آج کل بعض خواتین خود جاکر کنکریاں نہیں مارتیں بلکہ ان کے محرم یا شوہر ان کی طرف سے بھی کنکریاں ماردیتے ہیں۔ یاد رکھیں کہ بغیر عذرِ شرعی کے کسی دوسرے سے رمی کرانا جائز نہیں ہے، اس سے دم واجب ہوگا۔ ہاں وہ لوگ جو جمرات تک پیدل چل کر جانے کی طاقت نہیں رکھتے یا بہت مریض یا کمزور ہیں تو ایسے لوگوں کی جانب سے کنکریاں ماری جاسکتی ہیں۔
محمد نجیب سنبھلی قاسمی، ریاض (www.najeebqasmi.com)

عمرہ میں طواف وداع ضروری نہیں ہے
بسم الله الرحمن الرحيم
اَلْحَمْدُ لِله رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلام عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔
عمرہ میں طواف وداع ضروری نہیں ہے
جمہور علماء کی رائے ہے کہ عمرہ کی ادائیگی کرنے والوں پر اپنے شہر یا وطن واپسی کے وقت طواف وداع واجب نہیں ہے۔ ہندوستان وپاکستان کے بیشتر علماء (جو مختلف فیہ مسائل میں قرآن وسنت کی روشنی میں حضرت امام ابوحنیفہ ؒ کی رائے کو راجح قرار دیتے ہیں) کی بھی یہی رائے ہے۔ سعودی عرب کے سابق مفتی شیخ عبدالعزیز بن بازؒ نے بھی معتمرین کے لئے طواف وداع کے واجب نہ ہونے کا فتویٰ دیا ہے جو انٹرنیٹ پر پڑھا جاسکتا ہے۔
عمرہ کی ادائیگی کی صورت میں طواف وداع کے واجب نہ ہونے کے عموماً مندرجہ ذیل دلائل پیش کئے جاتے ہیں:
کسی بھی ایک صحیح حدیث میں عمرہ کی ادائیگی کے بعد طواف وداع کے واجب ہونے کا تذکرہ موجود نہیں ہے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے متعدد عمرہ کئے، مگر کسی ایک عمرہ کی ادائیگی کے بعد بھی طواف وداع نہیں کیا۔
عمرہ میں طواف وداع کے وجوب کے متعلق کسی صحابی کا کوئی قول کتب احادیث میں موجود نہیں ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے حجۃ الوداع کے سفر میں حج کی ادائیگی کے بعد عمرہ کی ادائیگی کی تھی مگر کسی بھی حدیث میں عمرہ کی ادائیگی کے بعد حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا طواف وداع کرنا ثابت نہیں ہے۔
حجۃ الوداع کے موقع پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان (لَا يَنْفِرُ اَحَدُکُمْ حَتَّی يکُونَ آخِرَ عَهدِہٖ بِالْبَيتِ کوئی شخص طواف کے بغیر مکہ مکرمہ سے روانہ نہ ہو) عمرہ کی ادائیگی میں طواف وداع کے واجب ہونے کے لئے دلیل نہیں بن سکتا ہے کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ( کوئی بھی حاجی طواف وداع کے بغیر مکہ مکرمہ سے روانہ نہ ہو، ہاں حائضہ عورت بغیر طواف وداع کے اپنے گھر جاسکتی ہے) حجۃ الوداع کے موقع پر حجاج کرام سے تھا، جیساکہ جلیل القدر صحابی حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے اس حدیث کی تشریح مروی ہے کہ اس میں خطاب حجاج کرام سے ہے۔ شیخ عبدالعزیز بن بازؒ نے اپنے مذکورہ فتویٰ میں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا قول تحریر کیا ہے۔ نیز بعض احادیث میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا مذکورہ فرمان ان الفاظ کے ساتھ وارد ہوا ہے ( مَنْ حَجَّ ہٰذَا الْبَيتَ فَلْيکُنْ آخِرَ عَهدہٖالطَّوَاف بِالْبَيتِ یعنی جن حضرات نے بیت اللہ کا حج کیا ہے وہ اپنا آخری عمل طواف کو بنائیں) جس سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ یہ حکم حج ادا کرنے والوں کے لئے ہے۔
رہی صحیح مسلم کی حدیث (عمرہ میں وہ کرو جو حج میں کیا ہے) تو یہ حدیث عمرہ میں طواف وداع کے واجب ہونے کی دلیل نہیں بن سکتی کیونکہ اس حدیث میں عمرہ میں طواف وداع کے واجب ہونے کا کوئی تذکرہ نہیں ہے اور اگر اس حدیث کو عموم پر لیا جائے تو پھر عمرہ میں بھی منیٰ، مزدلفہ اور عرفات میں جانا ضروری ہوجائے گا جس کا کوئی قائل نہیں ہے۔ نیز طواف وداع کے واجب قرار دینے میں عمرہ کو حج پر قیاس کرنا صحیح نہیں ہے کیونکہ عمرہ کے اعمال گھنٹوں میں جبکہ حج کے اعمال دنوں میں مکمل ہوتے ہیں۔
بعض حضرات نے ترمذی میں وارد حدیث (مَنْ حَجَّ اَوِ اعْتَمَرَ فَلْيَکُنْ آخِرَ عهدِہٖ الطَّوَاف بِالْبَيتِ) کو عمرہ میں طواف وداع کے وجوب کی دلیل بنائی ہے حالانکہ یہ حدیث ضعیف ہے خود امام ترمذی ؒ نے اس حدیث کو روایت کرنے کے بعد حدیث غریب کہا ہے ۔ شیخ ناصر الدین البانیؒ نے فرمایا کہ یہ حدیث اس لفظ کے ساتھ منکر ہے یعنی اَوِ اعْتَمَرَ کا لفظ اس حدیث میں صحیح نہیں ہے۔
وضاحت: اگر کوئی شخص عمرہ کی ادائیگی کے بعد جلدی ہی مکہ مکرمہ سے روانہ ہورہا ہے جیساکہ سعودی عرب کے باشندے وقیام پزیر حضرات عموماً محددد پروگرام کے تحت عمرہ کی ادائیگی کے لئے مکہ مکرمہ جاتے ہیں تو ان حضرات کے لئے امت مسلمہ طواف وداع کے واجب نہ ہونے پر متفق ہے۔ اختلاف صرف اس صورت میں ہے جب کوئی شخص عمرہ کی ادائیگی کے بعد مکہ مکرمہ میں مقیم رہے جیساکہ عموماً سعودی عرب کے باہر سے آنے والے معتمرین۔ ان حضرات کے لئے بھی مذکورہ بالا دلائل کی روشنی میں جمہور علماء کی رائے ہے کہ طواف وداع واجب اور ضروری نہیں ہے۔ غرضیکہ عمرہ میں طواف وداع نہیں ہے۔
محمد نجیب سنبھلی قاسمی (www.najeebqasmi.com)

طواف اور سعی کے احکام ومسائل
بسم الله الرحمن الرحيم
اَلْحَمْدُ لِله رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلام عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔
طواف اور سعی کے احکام ومسائل
طواف کی فضیلت:
* حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ کی ایک سو بیس (۱۲۰) رحمتیں روزانہ اس گھر (بیت ا للہ) پر نازل ہوتی ہیں جن میں سے ساٹھ طواف کرنے والوں پر، چالیس وہاں نماز پڑھنے والوں پر اور بیس خانہ کعبہ کو دیکھنے والوں پر نازل ہوتی ہیں۔ (طبرانی(
* حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: جس نے خانہ کعبہ کا طواف کیا اور دو رکعت اداکیں گویا اس نے ایک غلام آزاد کیا ۔ (ابن ماجہ(
* حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: حجر اسود کو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ایسی حالت میں اٹھائیں گے کہ اس کی دو آنکھیں ہوں گی جن سے وہ دیکھے گا اور زبان ہوگی جن سے وہ بولے گا اور گواہی دے گا اُس شخص کے حق میں جس نے اُس کا حق کے ساتھ بوسہ لیا ہو۔ (ترمذی ، ابن ماجہ(
* حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ان دونوں پتھروں (حجر اسود اور رکن یمانی) کو چھونا گناہوں کو مٹاتا ہے۔ (ترمذی(
* حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: رکن یمانی پر ستّر فرشتے مقرر ہیں، جو شخص وہاں جاکر یہ دعا پڑھے: (اللّٰهمّ اِنِّی اَسْءَلُکَ الْعَفْوَ وَالْعَافِية فِی الدُّنْيا وَالْاخِرَۃ رَبّنَا آتِنَا فِی الدُّنْيا حَسَنَة وّفِی الْاخِرَۃ حَسَنَة وّقِنَا عَذَابَ النّارِ) تو وہ سب فرشتے آمین کہتے ہیں۔ (ابن ماجہ(
طواف: بیت اللہ کے گرد سات چکر اور دو رکعت نماز پڑھنے کا نام طواف ہے اور ہر چکر حجر اسود کے استلام سے شروع ہوکر اسی پر ختم ہوتا ہے۔ حجر اسود کا بوسہ لینا یا اس کی طرف دونوں یا داہنے ہاتھ سے اشارہ کرنا استلام کہلاتا ہے۔ طواف فرض ہو یا واجب یا نفل اس میں سات ہی چکر ہوتے ہیں اور اس کے بعد دو رکعت نماز ادا کی جاتی ہے۔ اگر بیت اللہ کے قریب سے طواف کیا جائے تو سات چکر میں تقریباً ۳۰ منٹ لگتے ہیں، لیکن دور سے کرنے پر تقریباً ایک سے دو گھنٹے لگ جاتے ہیں۔ ۱۰ ذی الحجہ کو طواف زیارت کرنے میں کبھی کبھی اس سے بھی زیادہ وقت لگ جاتا ہے۔
طواف کی قسمیں:
طواف قدوم یعنی آنے کے وقت کا طواف، یہ اُس شخص کے لئے سنت ہے جو میقات کے باہر سے آیا ہو اورحج افرادیا حج قران کا ارادہ رکھتا ہو، حج تمتع اور عمرہ کرنے والوں کے لئے سنت نہیں۔
طواف عمرہ یعنی عمرہ کا طواف ۔
طواف زیارت یعنی حج کا طواف جس کو طواف افاضہ بھی کہتے ہیں، یہ حج کا رکن ہے، اس طواف کے بغیر حج پورا نہیں ہوتا ۔
طواف وداع یعنی مکہ سے روانگی کے وقت کا طواف (یہ میقات سے باہر رہنے والے یعنی آفاقی کے لئے ضروری ہے)۔
نفلی طواف۔
حج میں ضروری طواف کی تعداد:
حج افراد میں دو عدد (طواف زیارت اور آفاقی کے لئے طواف وداع)۔
حج قران میں تین عدد (طواف عمرہ، طواف زیارت اور آفاقی کے لئے طواف وداع)۔
حج تمتع میں تین عدد (طواف عمرہ، طواف زیارت اور آفاقی کے لئے طواف وداع)۔
آفاقی: پانچ میقاتوں سے باہر کے رہنے والوں کو آفاقی کہا جاتا ہے یعنی اہل حرم اور اہل حل کے علاوہ پوری دنیا کے لوگ آفاقی ہیں۔ اگر کسی عورت کو روانگی کے وقت ماہواری آجائے تو اس کے لئے طواف وداع معاف ہے۔
نفلی طواف: نفلی طواف کی کوئی تعداد نہیں، رات یا دن میں جب چاہیں اور جتنے چاہیں کریں۔ باہر سے آنے والے حضرات مسجدحرام میں نفلی نماز پڑھنے کے بجائے نفلی طواف زیادہ کریں۔ اہل حرم اور اہل حل کو حج افراد ہی کرنا چاہئے تاکہ آفاقی لوگ زیادہ سے زیادہ نفلی طواف کرسکیں۔ یاد رکھیں کہ ہر نفلی طواف کے بعد بھی دو رکعت نماز ادا کرنا ضروری ہے۔
وضاحت: دو طواف اس طرح اکٹھے کرنا مکروہ ہے کہ طواف کی دو رکعت درمیان میں ادا نہ کریں، لہذا پہلے ایک طواف کو مکمل کرکے دو رکعت ادا کرلیں پھر دوسرا طواف شروع کریں۔ لیکن اگر اُس وقت نماز پڑھنا مکروہ ہو تو دو طوافوں کا اکٹھا کرناجائز ہے۔ سعودی عرب میں نماز عصر اوّل وقت میں ادا کی جاتی ہے اور عصر اور مغرب کے درمیان اچھا خاصہ وقت خاص کر گرمیوں میں تقریباً تین گھنٹے ہوتے ہیں، اگر طواف سے نماز عصر کے بعد فراغت ہوئی ہے اور مغرب تک کافی وقت باقی ہے تو طواف کی دو رکعت اُس وقت ادا کرسکتے ہیں، البتہ اگر مغرب کا وقت قریب آگیا ہے تو پھر غروب آفتاب کے بعد ہی ادا کریں۔
اہم مسئلہ: معذور شخص جس کا وضو نہیں ٹھہرتا (مثلاً کوئی زخم جاری ہے یا پیشاب کے قطرات مسلسل گرتے رہتے ہیںیا عورت کو بیماری کا خون آرہا ہے ) تو اس کے لئے حکم یہ ہے کہ وہ نماز کے ایک وقت میں وضو کرے پھر اس وضو سے اس وقت میں جتنے چاہے طواف کرے، نمازیں پڑھے اور قرآن کی تلاوت کرے، دوسری نماز کا وقت داخل ہوتے ہی وضو ٹوٹ جائے گا۔ اگر طواف مکمل ہونے سے پہلے ہی دوسری نماز کا وقت داخل ہوجائے تو وضو کرکے طواف کو مکمل کرے۔
طواف کے دوران جائز امور:
سلام کرنااور بوقت ضرورت بات کرنا۔
مسائل شرعیہ بتانا اور دریافت کرنا۔
ضرورت کے وقت طواف کو روکنا۔
کسی عذر کی وجہ سے وہیل چےئر پر طواف کرنا۔
طواف کرنے کا طریقہ:
مسجد حرام میں داخل ہوکر کعبہ شریف کے اس گوشہ کے سامنے آجائیں جس میں حجر اسود لگا ہوا ہے اور طواف کی نیت کرلیں۔ اگر طواف کے بعد عمرہ کی سعی بھی کرنی ہے تو مرد حضرات اضطباع کرلیں (یعنی احرام کی چادر کو دائیں بغل کے نیچے سے نکال کر بائیں مونڈھے کے اوپر ڈال لیں) پھر زبان سے بسم اللہ اللہ اکبر کہہ کر حجر اسود کا استلام کریں(یعنی حجر اسود کا بوسہ لیں یا اپنی جگہ پر کھڑے ہوکر دونوں ہاتھوں کی ہتھیلیوں کو حجر اسود کی طرف کرکے ہاتھ چوم لیں) اور پھر کعبہ کو بائیں طرف رکھ کر طواف شروع کردیں۔ مرد حضرات پہلے تین چکر میں (اگر ممکن ہو) رمل کریں یعنی ذرا مونڈھے ہلاکے اور اکڑکے چھوٹے چھوٹے قدم کے ساتھ کسی قدر تیز چلیں۔ طواف کرتے وقت نگاہ سامنے رکھیں۔ خانہ کعبہ کی طرف سینہ اور پشت نہ کریں یعنی کعبہ شریف آپ کے بائیں جانب رہے۔ طواف کے دوران بغیر ہاتھ اٹھائے چلتے چلتے دعائیں کرتے رہیں۔ آگے ایک نصف دائرے کی شکل کی چار پانچ فٹ کی دیوار آپ کے بائیں جانب آئے گی اس کو حطیم کہتے ہیں، اس کے بعد خانہ کعبہ کے پیٹھ والی دیوار آئے گی، اس کے بعد جب خانہ کعبہ کا تیسرا کونہ آجائے جسے رکن یمانی کہتے ہیں (اگر ممکن ہو) تو دونوں ہاتھ یا صرف داہنا ہاتھ اس پر پھیریں ورنہ اس کی طرف اشارہ کئے بغیر یوں ہی گزر جائیں۔ رکن یمانی اور حجر اسود کے درمیان چلتے ہوئے یہ دعا بار بار پڑھیں: (رَبّنَا آتِنَا فِی الدُّنْيا حَسَنَة وّفِی الْاخِرَۃ حَسَنَة وّقِنَا عَذَابَ النّارِ)۔ پھر حجر اسود کے سامنے پہونچ کر بسم اللہ اللہ اکبر کہہ کر حجر اسود کا استلام کریں۔ اس طرح آپ کا ایک چکر ہوگیا، اس کے بعد باقی چھ چکر بالکل اسی طرح کریں۔ کل سات چکر کرنے ہیں۔
طواف سے متعلق چند مسائل:
* طواف کے دوران کوئی مخصوص دعا ضروری نہیں ہے بلکہ جو چاہیں اور جس زبان میں چاہیں دعا مانگتے رہیں۔ یاد رکھیں کہ اصل دعا وہ ہے جو دھیان، توجہ اور انکساری سے مانگی جائے چاہے جس زبان میں ہو۔اگر طواف کے دوران کچھ بھی نہ پڑھیں بلکہ خاموش رہیں تب بھی طواف صحیح ہوجاتا ہے۔
* طواف کے دوران جماعت کی نماز شروع ہونے لگے یا تھکن ہوجائے تو طواف روکدیں، پھر جہاں سے طواف بند کیا تھا اسی جگہ سے طواف شروع کردیں۔
* نفلی طواف میں رمل اوراضطباع نہیں ہوتاہے۔
* اگر طواف کے دوران وضو ٹوٹ جائے توطواف روکدیں اور پھر وضو کرکے اسی جگہ سے طواف شروع کردیں جہاں سے طواف بند کیا تھاکیونکہ بغیر وضو کے طواف کرنا جائز نہیں ہے۔
* اگر طواف کے چکروں کی تعداد میں شک ہوجائے تو کم تعداد شمار کرکے باقی چکروں سے طواف مکمل کریں۔
* مسجد حرام کے اندر اوپر یا نیچے یا مطاف میں کسی بھی جگہ طواف کرسکتے ہیں۔
* طواف حطیم کے باہر سے ہی کریں، اگر حطیم میں داخل ہوکر طواف کریں گے تو وہ معتبر نہیں ہوگا۔
* اگر کسی عورت کو طواف کے دوران حیض آجائے تو فورا طواف کو بند کردے اور مسجد سے باہر چلی جائے۔
* خواتین طواف میں رمل (اکڑکر چلنا) نہ کریں، یہ صرف مردوں کے لئے ہے۔
* طواف زیارت (حج کاطواف) کا وقت ۱۰ ذی الحجہ سے ۱۲ ذی الحجہ کے غروب آفتاب تک ہے۔ بعض علماء نے ۱۳ ذی الحجہ تک وقت تحریرکیا ہے۔ ان ایام میں اگر کسی عورت کو ماہواری آتی رہی تو وہ طواف زیارت نہ کرے بلکہ پاک ہونے کے بعد ہی کرے۔
دو رکعت نماز: طواف سے فراغت کے بعد مقام ابراہیم کے پاس آئیں۔ اُس وقت آپ کی زبان پر یہ آیت ہو تو بہتر ہے : (وَاتَّخِذُوْا مِن مَّقَامِ اِبْرَاهيمَ مُصَلّٰی) اگر سہولت سے مقامِ ابراہیم کے پیچھے جگہ مل جائے تو وہاں ‘ورنہ مسجد حرام میں کسی بھی جگہ طواف کی دو رکعت (واجب) ادا کریں۔
وضاحت:
* طواف کی دو رکعت کو طواف سے فارغ ہوتے ہی ادا کریں لیکن اگر تاخیر ہوجائے تو کوئی حرج نہیں۔
* طواف کی ان دو رکعت کے متعلق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت یہ ہے کہ پہلی رکعت میں سورہ کافرون اور دوسری رکعت میں سورہ اخلاص پڑھی جائے۔
* ہجوم کے دوران مقامِ ابراہیم کے پاس طواف کی دو رکعت نماز پڑھنے کی کوشش نہ کریں کیونکہ اس سے طواف کرنے والوں کو تکلیف ہوتی ہے، بلکہ مسجد حرام میں کسی بھی جگہ ادا کرلیں۔
سعی: صفا ومروہ کے درمیان سات چکرلگانے کو سعی کہا جاتا ہے۔سعی کی ابتدا صفا سے اور انتہاء مروہ پر ہوتی ہے۔ حجر اسود کے سامنے سے ہی صفا کے لئے راستہ جاتا ہے۔ طواف سے فراغت کے بعد زمزم کا پانی پی کر صفا پہاڑی پر چلے جائیں۔ صفا ومروہ دو پہاڑیاں تھیں جو اِن دنوں حجاج کرام کی سہولت کے لئے تقریباً ختم کردی گئیں ہیں۔ جن کے درمیان حضرت ہاجرہ علیہا السلام نے اپنے پیارے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کے لئے پانی کی تلاش میں سات چکر لگائے تھے۔ اور جہاں مرد حضرات تھوڑا تیز چلتے ہیں یہ اُس زمانہ میں صفا مروہ پہاڑیوں کے درمیان ایک وادی تھی جہاں سے ان کا بیٹا نظر نہیں آتا تھا، لہذا وہ اس وادی میں تھوڑا تیز دوڑی تھیں۔ حضرت ہاجرہ علیہا السلام کی اس عظیم قربانی کو اللہ تعالیٰ نے قبول فرماکر قیامت تک آنے والے تمام مرد حاجیوں کواس جگہ تھوڑا تیز چلنے کی تعلیم دی، لیکن شریعت اسلامیہ نے صنف نازک کے جسم کی نزاکت کے مدنظر اس کو صرف مردوں کے لئے سنت قرار دیا۔ سعی کا ہر چکر تقریباً ۳۹۵ میٹر لمبا ہے، یعنی سات چکر کی مسافت تقریباً پونے تین کیلومیٹر بنتی ہے۔ نیچے کی منزل کے مقابلہ میں اوپر والی منزل پر ازدحام کچھ کم رہتا ہے۔
حج میں ضروری سعی کی تعداد:
حج افراد میں ایک عدد (صرف حج کی)۔
حج قران میں دو عدد (ایک عمرہ کی اور ایک حج کی)۔ بعض علماء نے کہا ہے کہ حج قران میں ایک سعی بھی کافی ہے۔
حج تمتع میں دو عدد (ایک عمرہ کی اور ایک حج کی)۔
نفلی سعی: نفلی سعیکا کوئی ثبوت نہیں ہے۔
سعی کے بعض احکام:
سعی سے پہلے طواف کا ہونا۔
صفا سے سعی کی ابتدا کرکے مروہ پر سات چکر پورے کرنا۔
صفا پہاڑی پر تھوڑا چڑھ کر‘قبلہ رخ کھڑے ہوکر دعائیں کرنا ۔
مردوں کا سبز ستونوں کے درمیان تھوڑا تیز تیز چلنا ۔
مروہ پہاڑی پر پہونچ کرقبلہ رخ کھڑے ہوکر دعائیں مانگنا ۔
صفا اور مروہ کے درمیان چلتے چلتے کوئی بھی دعا بغیر ہاتھ اٹھائے مانگنا یا اللہ کا ذکر کرنا یا قرآن کریم کی تلاوت کرنا۔
سعی کے دوران جائز امور:
بلاوضو سعی کرنا، اسی طرح خواتین کا حالت ماہواری میں سعی کرنا۔
سلام کرنا اور گفتگو کرنا۔
ضرورت پڑنے پر سعی کا سلسلہ بندکرنا۔
کسی عذر کی وجہ سے وہیل چےئر پر سعی کرنا۔
سعی کرنے کا طریقہ:
صفا پر پہونچ کر بہتر ہے کہ زبان سے کہیں: اَبْدَاُ بِمَا بَدَاَ اللّہُ بِہِ، اِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃَ مِنْ شَعَاءِرِ اللّہِ پھر خانہ کعبہ کی طرف رخ کرکے دعا کی طرح ہاتھ اٹھالیں اور تین مرتبہ اللہ اکبر کہیں اور اگر یہ دعا یاد ہو تواسے بھی تین بار پڑھیں:
(لَا اِلٰہَ الَّا اللّہُ وَحْدَہُ لَا شَرِےْکَ لَہُ، لَہُ الْمُلکُ وَلَہُ الْحَمْدُ، وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیر، لَا اِلَہَ الَّا اللّہُ وَحْدَہُ، اَنْجَزَ وَعْدَہُ وَنَصَرَ عَبْدَہُ وَھَزَمَ الْاحْزَابَ وَحْدَہُ) اس کے بعد کھڑے ہوکر خوب دعائیں مانگیں۔ یہ دعاؤں کے قبول ہونے کا خاص مقام اور خاص وقت ہے۔ دعاؤں سے فارغ ہوکر نیچے اترکر مروہ کی طرف عام چال سے چلیں۔ بغیر ہاتھ اٹھائے دعائیں مانگتے رہیں یا قرآن کی تلاوت کرتے رہیں۔ سعی کے دوران بھی کوئی خاص دعالازم نہیں البتہ اس دعا کو خاص طور پر پڑھتے رہیں: رَبِّ اغْفِرْ وَارْحَمْ، وَتَجَاوَزْ عَمَّا تَعْلَمْ، اِنَّکَ اَنْتَ الْاعَزُّ الاکْرَم جب سبز ستون (جہاں ہری ٹیوب لائٹیں لگی ہوئی ہیں) کے قریب پہونچیں تو مرد حضرات ذرا دوڑکر چلیں اس کے بعد پھر ایسے ہی ہرے ستون اور نظر آئیں گے وہاں پہونچ کر دوڑنا ختم کردیں اور عام چال سے چلیں۔ مروہ پر پہونچ کر قبلہ کی طرف رخ کرکے ہاتھ اٹھاکر دعائیں مانگیں، یہ سعی کا ایک پھیرا ہوگیا۔ اسی طرح مروہ سے صفا کی طرف چلیں۔ یہ دوسرا چکر ہوجائے گا۔ اس طرح آخری وساتواں چکر مروہ پر ختم ہوگا۔ ہر مرتبہ صفا اور مروہ پر پہونچ کر خانہ کعبہ کی طرف رخ کرکے دعائیں کرنی چاہئیں۔
سعی سے متعلق چند مسائل:
* سعی کے لئے وضو کا ہونا ضروری نہیں البتہ افضل وبہتر ہے۔ حیض (ماہواری)اور نفاس کی حالت میں بھی سعی کی جاسکتی ہے یعنی اگر کسی عورت کو طواف سے فراغت کے بعد ماہواری آجائے تو وہ سعی ناپاکی کی حالت میں کرسکتی ہے لیکن اس کو چاہئے کہ وہ سعی سے فراغت کے بعد مروہ کی جانب سے باہر چلی جائے، مسجد حرام میں داخل نہ ہو۔ البتہ طواف حیض یا نفاس کی حالت میں ہرگز نہ کرے بلکہ مسجد حرام میں بھی داخل نہ ہو۔
* طواف سے فارغ ہوکر اگر سعی کرنے میں تاخیر ہوجائے تو کوئی حرج نہیں۔
* سعی کا طواف کے بعد ہونا شرط ہے، طواف کے بغیر کوئی سعی معتبر نہیں خواہ عمرہ کی سعی ہو یا حج کی۔
* سعی کے دوران نماز شروع ہونے لگے یا تھک جائیں تو سعی روکدیں، پھر جہاں سے سعی روکی تھی، اسی جگہ سے دوبارہ شروع کردیں۔
* اگر سعی کے چکروں کی تعداد میں شک ہوجائے تو کم تعداد شمار کرکے باقی چکروں سے سعی مکمل کریں۔
* خواتین سعی میں سبز ستونوں (جہاں ہری ٹیوب لائٹیں لگی ہوئی ہیں) کے درمیان مردوں کی طرح دوڑکر نہ چلیں۔
محمد نجیب قاسمی سنبھلی، ریاض

سفر مدینہ منورہ
بسم الله الرحمن الرحيم
اَلْحَمْدُ لِله رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلام عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔
سفر مدینہ منورہ
مدینہ طیبہ کے فضائل:
مدینہ منورہ کے فضائل ومناقب بے شمار ہیں، اللہ اور اس کے رسول کے نزدیک اس کا بلند مقام ومرتبہ ہے۔ مدینہ منورہ کی فضیلت کے لئے یہی کافی ہے کہ وہ تمام نبیوں کے سردار حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا دار الہجرہ اور مسکن ومدفن ہے۔ اسی پاک ومبارک سرزمین سے دین اسلام دنیا کے کونے کونے تک پھیلا۔ اس شہر کو طیبہ اور طابہ (یعنی پاکیزگی کا مرکز) بھی کہتے ہیں۔ اس میں اعمال کا ثواب کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے مدینہ منورہ کے چند فضائل پیش خدمت ہیں:
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کرتے ہوئے فرمایا: اے اللہ! مدینہ کی محبت ہمارے دلوں میں مکہ کی محبت سے بھی بڑھا دے۔ (صحیح بخاری)
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: یا اللہ! مکہ کو تو نے جتنی برکت عطا فرمائی ہے مدینہ کو اس سے دوگنی برکت عطا فرما ۔ (صحیح بخاری)
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا: جس نے (مدینہ کے قیام کے دوران آنے والی) مشکلات ومصائب پر صبر کیا، قیامت کے روز میں اس کی سفارش کروں گا یا فرمایا میں اس کی گواہی دوں گا۔ (صحیح مسلم)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میری امت کا جو بھی شخص مدینہ میں سختی وبھوک پر اور وہاں کی تکلیف ومشقت پر صبر کرے گا میں قیامت کے دن اس کی شفاعت کروں گا۔ (صحیح مسلم)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مدینہ کے راستوں پر فرشتے مقرر ہیں اس میں نہ کبھی طاعون پھیل سکتا ہے نہ دجال داخل ہوسکتا ہے۔ (صحیح بخاری)
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص مدینہ میں مر سکتا ہے (یعنی یہاں آکر موت تک قیام کرسکتا ہے) اسے ضرور مدینہ میں مرنا چاہئے کیونکہ میں اس شخص کے لئے سفارش کروں گا جو مدینہ منورہ میں مرے گا۔ (ترمذی)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ایمان (قرب قیامت) مدینہ میں سمٹ کر اس طرح واپس آجائے گا جس طرح سانپ گھوم پھر کر اپنے بل میں واپس آجاتا ہے۔ (صحیح بخاری)
حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو بھی مدینہ کے رہنے والوں کے ساتھ مکر کرے گا وہ ایسا گھل جائے گا جیسا کہ پانی میں نمک گھل جاتا ہے (یعنی اس کا وجود باقی نہ رہے گا)۔ (صحیح بخاری وصحیح مسلم)
حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک موقعہ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مدینہ برے لوگوں کو یوں الگ کردیتا ہے جس طرح آگ چاندی کے میل کچیل کو دور کردیتی ہے۔ (صحیح مسلم)
مسجد نبوی کی زیارت کے فضائل:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تین مساجد کے علاوہ کسی دوسری مسجد کا سفر اختیار نہ کیا جائے مسجد نبوی، مسجد حرام اور مسجد اقصی۔ (صحیح بخاری)
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میری اس مسجد میں نماز کا ثواب دیگر مساجد کے مقابلے میں ہزار گنا زیادہ ہے سواء مسجد حرام کے۔ (صحیح مسلم) ابن ماجہ کی روایت میں پچاس ہزار نمازوں کے ثواب کا ذکر ہے۔جس خلوص کے ساتھ وہاں نماز پڑھی جائے گی اسی کے مطابق اجروثواب ملے گا، ان شاء اللہ۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس شخص نے میری اس مسجد (یعنی مسجد نبوی) میں فوت کئے بغیر (مسلسل) چالیس نمازیں ادا کیں اس کے لئے آگ سے براء ت، عذاب سے نجات اور نفاق سے براء ت لکھی گئی۔ (ترمذی، طبرانی، مسند احمد) بعض علماء نے اس حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے لیکن دیگر محدثین وعلماء نے صحیح قرار دیا ہے، لہذا مدینہ منورہ کے قیام کے دوران تمام نمازیں مسجد نبوی ہی میں پڑھنے کی کوشش کریں کیونکہ ایک نماز کا ثواب ہزار گنا یا ابن ماجہ کی روایت کے مطابق پچاس ہزار گنا زیادہ ہے، نیز حدیث میں یہ مذکور فضیلت بھی حاصل ہوجائے گی (انشاء اللہ)۔
وضاحت: حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد کی زیارت اور آپ کی قبر اطہر پر جاکر درود وسلام پڑھنا نہ حج کے واجبات میں سے ہے نہ مستحبات میں سے، بلکہ مسجد نبوی کی زیارت اور وہاں پہونچ کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر اطہر پر درود وسلام پڑھنا ہر وقت مستحب ہے اور بڑی خوش نصیبی ہے بلکہ بعض علماء نے اہل وسعت کے لئے واجب کے قریب لکھا ہے۔
قبر اطہر کی زیارت کے فضائل:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص میری قبر کے پاس کھڑے ہوکر مجھ پر درود وسلام پڑھتا ہے میں اس کو خود سنتا ہوں اور جوکسی اور جگہ درود پڑھتا ہے تو اس کی دنیا وآخرت کی ضرورتیں پوری کی جاتی ہیں اور میں قیامت کے دن اس کا گواہ اور اس کا سفارشی ہوں گا۔ (بیہقی)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص میری قبر کے پاس آکر مجھ پر سلام پڑھے تو اللہ تعالیٰ مجھ تک پہونچادیتے ہیں، میں اس کے سلام کا جواب دیتا ہوں۔ (مسند احمد، ابو داؤد)
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس شخص نے میری قبر کی زیارت کی اس کے لئے میری شفاعت واجب ہوگئی۔ (دار قطنی، بزاز)
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو میری زیارت کو آئے اور اس کے سوا کوئی اور نیت اس کی نہ ہو تو مجھ پر حق ہوگیا کہ میں اس کی شفاعت کروں۔ (طبرانی)
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس نے مدینہ آکر ثواب کی نیت سے میری (قبر کی) زیارت کی وہ میرے پڑوس میں ہوگا اور میں قیامت کے دن اس کا سفارشی ہوں گا۔ (بیہقی)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: یا اللہ! میری قبر کو بت نہ بنانا۔ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں پر لعنت فرمائی ہے جنہوں نے انبیاء کی قبروں کو عبادت گاہ بنالیا۔ (مسند احمد)
سفر مدینہ منورہ:
مدینہ منورہ کے پورے سفر کے دوران کثرت سے درود شریف پڑھیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: بیشک اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے نبی پر رحمت بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم بھی درود بھیجا کرو اور خوب سلام بھیجا کرو۔ (سورۃ الاحزاب ۵۶) اللہ کے رسول حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے بدلے اس پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے اور اس کے لئے دس نیکیاں لکھ دیتا ہے ۔ (ترمذی)
مسجد نبوی میں حاضری:
شہر میں داخل ہونے کے بعد سامان وغیرہ اپنی رہائش گاہ میں رکھ کر غسل یا وضو کرکے مسجد نبوی کی طرف صاف ستھرا لباس پہن کر ادب واحترام کے ساتھ روانہ ہوں۔ دایاں قدم اندر رکھ کر دخول مسجد کی دعا پڑھتے ہوئے مسجد نبوی میں داخل ہوجائیں۔ مسجد نبوی میں داخل ہوکر سب سے پہلے اس حصہ میں آئیں جو حجرۂ مبارکہ اور منبر کے درمیان ہے، جس کے متعلق خود حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: یہ حصہ جنت کی کیاریوں میں سے ایک کیاری ہے۔ اور دو رکعت تحيۃ المسجد پڑھیں۔ اگر اس حصہ میں جگہ نہ مل سکے تو جس جگہ چاہیں دو رکعت پڑھ لیں۔اگر فرض نماز شروع ہوگئی ہے تو پھر جماعت میں شریک ہوجائیں۔
درود وسلام پڑھنا:
دو رکعت تحيۃ المسجد پڑھ کر بڑے ادب واحترام کے ساتھ حجرۂ مبارکہ (جہاں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مدفون ہیں) کی طرف چلیں۔ جب آپ دوسری جالی کے سامنے پہونچ جائیں تو آپ کو تین سوراخ نظر آئیں گے، پہلے اور بڑے گولائی والے سوراخ کے سامنے آنے کا مطلب ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر اطہر آپ کے سامنے ہے، لہذا جالیوں کی طرف رخ کرکے ادب سے کھڑے ہوجائیں، نظریں نیچی رکھیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت وجلال کا لحاظ کرتے ہوئے سلام پڑھیں۔
نماز میں جو درود شریف پڑھا جاتا ہے وہ بھی پڑھ سکتے ہیں۔ اس کے بعد جالیوں میں دوسرا سوراخ ہے اس کے سامنے کھڑے ہوکر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خدمت میں سلام عرض کریں:
پھر اس کے بعد تیسرے گول سوراخ کے سامنے کھڑے ہوکر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو سلام عرض کریں:
وضاحت: بس اسی کو سلام کہتے ہیں، جب بھی سلام عرض کرنا ہو اسی طرح عرض کیا کریں۔
اہم ہدایت: بعض اوقات ازدحام کی وجہ سے حجرۂ مبارکہ کے سامنے ایک منٹ بھی کھڑے ہونے کا موقع نہیں ملتا۔ سلام پیش کرنے والوں کو بس حجرۂ مبارکہ کے سامنے سے گزار دیا جاتا ہے۔ لہذا جب ایسی صورت ہو اور آپ لائن میں کھڑے ہوں تو انتہائی سکون اور اطمینان کے ساتھ درود شریف پڑھتے رہیں اور حجرۂ مبارکہ کے سامنے پہونچ کر دوسری جالی میں بڑے سوراخ کے سامنے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں چلتے چلتے مختصراً درود وسلام پڑھیں، پھر دوسرے اور تیسرے سوراخوں کے سامنے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی خدمت میں چلتے چلتے سلام عرض کریں۔
ریاض الجنۃ:
قدیم مسجد نبوی میں منبراور روضۂ اقدس کے درمیان جو جگہ ہے وہ ریاض الجنۃ کہلاتی ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ یہ جنت کی کیاریوں میں سے ایک کیاری ہے۔ ریاض الجنۃ کی شناخت کے لئے یہاں سفید سنگ مرمر کے ستون ہیں۔ ان ستونوں کو اسطوانہ کہتے ہیں،ان ستونوں پر ان کے نام بھی لکھے ہوئے ہیں۔ریاض الجنۃ کے پورے حصہ میں جہاں سفید اور ہری قالینوں کا فرش ہے نمازیں ادا کرنا زیادہ ثواب کا باعث ہے، نیز قبولیت دعا کے لئے بھی یہ خاص مقام ہے۔
اصحاب صفہ کا چبوترہ:
مسجد نبوی میں حجرۂ شریفہ کے پیچھے ایک چبوترہ بنا ہوا ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں وہ صحابۂ کرام قیام فرماتے تھے جن کا نہ گھر تھا نہ در،جو دن ورات ذکر وتلاوت کرتے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت سے مستفیض ہوتے تھے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اسی درسگاہ کے ممتاز شاگردوں میں سے ہیں۔ اصحاب صفہ کی تعداد کم اور زیادہ ہوتی رہتی تھی،کبھی کبھی ان کی تعداد ۸۰ تک پہونچ جاتی تھی۔ سورۃ الکہف کی آیت نمبر (۲۸) انہیں اصحاب صفہ کے حق میں نازل ہوئی جس میں اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے ساتھ بیٹھنے کاحکم دیا۔ اگر آپ کو موقع مل جائے تو یہاں بھی نوافل پڑھیں، ذکر وتلاوت کریں اور دعائیں کریں۔
جنت البقیع:
یہ مدینہ منورہ کا قبرستان ہے جو مسجد نبوی سے بہت تھوڑے فاصلہ پر واقع ہے اس میں بے شمار صحابۂ کرام اور اولیاء اللہ مدفون ہیں۔مدینہ کے قیام کے زمانے میں یہاں بھی حاضری دیتے رہیں اور ان کے لئے اور اپنے لئے اللہ تعالیٰ سے مغفرت ورحمت اور درجات کی بلندی کے لئے دعائیں کرتے رہیں۔
جبل اُحد :
مسجد نبوی سے تقریباً ۴ یا ۵ کیلو میٹر کے فاصلہ پر یہ مقدس پہاڑ واقع ہے جس کے متعلق حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اُحد کا پہاڑ ہم سے محبت رکھتا ہے او رہم اُحد سے محبت رکھتے ہیں۔ (صحیح بخاری وصحیح مسلم) اسی پہاڑ کے دامن میں ۳ ھ میں جنگ احد ہوئی جس میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سخت زخمی ہوئے اور تقریباً ۷۰ صحابۂ کرام شہید ہوئے تھے۔ یہ سب شہداء اسی جگہ مدفون ہیں جس کا احاطہ کردیا گیا ہے۔ اسی احاطہ کے بیچ میں حضو راکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت حمزہ،حضرت عبد اللہ بن جحش اور حضرت مُصعب بن عمیر رضی اللہ عنہم مدفون ہیں۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اہتمام سے یہاں تشریف لاتے اور شہداء کو سلام ودعا سے نوازتے تھے۔ لہذا آپ بھی مدینہ منورہ کے قیام کے دوران کبھی کبھی تشریف لے جائیں۔
مسجد قُبا: مسجد نبوی کے علاوہ مدینہ طیبہ میں کئی مساجد ہیں جن میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے نماز پڑھی ہے، ان کی زیارت کے لئے جانے میں کوئی حرج نہیں، البتہ ان مساجد میں صرف مسجد قبا کی زیارت کرنا مسنون ہے باقی مساجد کی حیثیت صرف تاریخی ہے۔مسجد قبا مسجد نبوی سے تقریباً چار کیلو میٹر کے فاصلہ پر ہے۔ مسلمانوں کی یہ سب سے پہلی مسجد ہے، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے جب مدینہ منورہ تشریف لائے تو قبیلہ بن عوف کے پاس قیام فرمایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابۂ کرام کے ساتھ خود اپنے دست مبارک سے اس مسجد کی بنیاد رکھی۔ اس مسجد کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لَمَسْجِدٌ اُسِّسَ عَلَی التَّقْوَی یعنی وہ مسجد جس کی بنیاد اخلاص وتقوی پر رکھی گئی ہے۔مسجد حرام، مسجد نبوی اور مسجد اقصی کے بعد مسجد قبا دنیا بھر کی تمام مساجد میں سب سے افضل ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کبھی سوار ہوکر کبھی پیدل چل کر مسجد قبا تشریف لایا کرتے تھے۔ (صحیح مسلم) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: جو شخص (اپنے گھر سے) نکلے اور اس مسجد یعنی مسجد قبا میں آکر (دو رکعت) نماز پڑھے تو اسے عمرہ کے برابر ثواب ملے گا ۔ (نسائی)
مدینہ طیبہ کے قیام کے دوران کیا کریں:
جب تک مدینہ منورہ میں قیام رہے اس کو بہت ہی غنیمت جانیں اور جہاں تک ہوسکے اپنے اوقات کو عبادت میں لگانے کی کوشش کریں۔ زیادہ وقت مسجد نبوی میں گزاریں کیونکہ معلوم نہیں کہ یہ موقع دوبارہ میسّر ہو یا نہ ہو۔ پانچوں وقت کی نمازیں جماعت کے ساتھ مسجد نبوی میں ادا کریں کیونکہ مسجد نبوی میں ایک نماز کا ثواب دیگر مساجد کے مقابلے میں ایک ہزار یا پچاس ہزار گنا زیادہ ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر اطہر پر حاضر ہوکر کثرت سے سلام پڑھیں۔ ریاض الجنہ (جنت کا باغیچہ) میں جتنا موقع ملے نوافل پڑھتے رہیں اور دعائیں کرتے رہیں۔ محراب النبی صلی اللہ علیہ وسلم اور خاص خاص ستونوں کے پاس بھی نفل نماز اور دعاؤں کا سلسلہ رکھیں۔ فجر یا عصر کی نماز سے فراغت کے بعد جنت البقیع چلے جایا کریں۔ کبھی کبھی حسب سہولت مسجد قبا جاکر دو رکعت نماز پڑھ آیا کریں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام سنتوں پر عمل کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں۔ تمام گناہوں سے خصوصاً فضول باتیں اور لڑائی جھگڑے سے بالکل بچیں۔ خرید وفروخت میں اپنا زیاد ہ وقت ضائع نہ کریں کیونکہ معلوم نہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس پاک شہر میں دوبارہ آنے کی سعادت زندگی میں کبھی ملے یا نہیں۔
خواتین کے خصوصی مسائل:
مدینہ منورہ کے لئے کسی طرح کا کوئی احرام نہیں باندھا جاتا ہے، اس لئے خواتین مکمل پردہ کے ساتھ رہیں یعنی چہرے پر بھی نقاب ڈالیں۔اگر کسی خاتون کو ماہواری آرہی ہو تو وہ سلام عرض کرنے کے لئے مسجد نبوی میں داخل نہ ہو، البتہ مسجد کے باہر باب جبرئیل یا باب النساء یا باب البقیع کے پاس کھڑے ہوکر سلام عرض کرنا چاہے تو کرسکتی ہے اور جب پاک ہوجائے تو قبر اطہر کے سامنے سلام عرض کرنے کے لئے چلی جائے۔ مسجد نبوی میں عورتوں کو مردوں کے حصہ میں اور مردوں کو عورتوں کے حصہ میں جانے کی اجازت نہیں ہے اس لئے باہر نکلنے کا وقت اور ملنے کی جگہ پہلے ہی متعین کرلیں۔
مدینہ منورہ سے واپسی:
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے شہر (مدینہ منورہ) سے واپسی پر یقیناًآپ کا دل غمگین اور آنکھیں اشکبار ہوں گی مگر دل غمگین کو تسلی دیں کہ جسمانی دوری کے باوجود ہزاروں میل سے بھی ہمارا درود اللہ کے فرشتوں کے ذریعہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو پہونچا کرے گا۔ اس مبارک سفر سے واپسی پر اس بات کا عزم کریں کہ زندگی کے جتنے دن باقی ہیں اس میں اللہ تعالیٰ کے احکام کی خلاف ورزی نہیں کریں گے، بلکہ اپنے مولا کو راضی اور خوش رکھیں گے، نیز حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے کے مطابق ہی اپنی زندگی کے باقی ایام گزاریں گے اور اللہ کے دین کو اللہ کے بندوں تک پہونچانے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔
محمد نجیب قاسمی سنبھلی، ریاض (www.najeebqasmi.com)

Questions and Answers
بسم الله الرحمن الرحيم
اَلْحَمْدُ لِله رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلام عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔
ہر وہ مرد وعورت جو صاحب استطاعت ہے اس کو چاہئے کہ وہ اپنی طرف سے ایک قربانی کرے۔اگر مرد اپنی بیوی کی طرف سے بھی خود ہی قربانی کردیتا ہے تو بھی صحیح ہے جیسا کہ زکوٰۃ کی ادائیگی بھی عموماً شوہر کردیتا ہے۔ فیملی کے ہر ہر ممبر کی جانب سے قربانی کرنا ضروری نہیں بلکہ جو بالغ اور صاحب استطاعت ہے صرف اسی کی طرف سے قربانی کرنا ضروری ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس شخص کو قربانی کی وسعت حاصل ہو اور وہ قربانی نہ کرے تو وہ ہماری عید گاہ کے قریب نہ بھٹکے۔ (سنن ابن ماجہ۔ مسند احمد) نیز اللہ تعالیٰ سورۃ الکوثر میں ارشاد فرماتا ہے: فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ آپ اپنے رب کے لئے نماز پڑھیں اور قربانی کریں۔ اس آیت میں قربانی کرنے کا امر (یعنی حکم) دیا جا رہا ہے اور امر عموماً وجوب کے لئے ہوا کرتا ہے جیساکہ مفسرین کرام نے اس آیت کی تفسیر میں تحریر کیا ہے۔
حج تمتع یا حج قران میں قربانی واجب ہے جبکہ حج افراد میں سنت ہے۔ لیکن شکرےۂ حج کی قربانی حدود حرم یعنی مکہ مکرمہ ہی میں کرنا ضروری ہے، جبکہ عید الاضحی کی قربانی دنیا میں کسی بھی جگہ کی جاسکتی ہے۔ اگر حاجی حج کی ادائیگی کے وقت مسافر ہے تو اس پر عید الاضحی کی قربانی واجب نہیں ہے۔
میت کی جانب سے بھی قربانی کی جاسکتی ہے کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی طرف سے قربانی کرنے کے علاوہ امت کے افراد کی طرف سے بھی قربانی کیا کرتے تھے، اس قربانی کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم زندہ افراد کے لئے خاص نہیں کیا کرتے تھے۔ اسی طرح ابوداؤد اور ترمذی کی حدیث میں ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے دو قربانیاں کی اور فرمایا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے قربانی کرنے کی وصیت فرمائی تھی اور اسی لئے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے بھی قربانی کرتا ہوں۔
قربانی کرنے والے کے لئے مستحب ہے کہ وہ ذی الحجہ کا چاند نظر آنے کے بعد قربانی کرنے تک جسم کے کسی حصے کے بال اور ناخن نہ کاٹے۔ (مسلم) لہذا اگر بال یا ناخن وغیرہ کاٹنے کی ضرورت ہو تو ذی القعدہ کے آخر میں فارغ ہوجائیں۔ لیکن اگر کوئی شخص ان ایام میں حج کا احرام باندھ رہا ہے تو احرام باندھنے سے قبل زیر ناف وغیرہ کے بال کاٹ کر طہارت حاصل کرسکتا ہے۔ محمد نجیب قاسمی

حج قران میں طواف اور سعی کی تعداد
بسم الله الرحمن الرحيم
اَلْحَمْدُ لِله رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلام عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔
حج قران میں طواف اور سعی کی تعداد
حج کی تین قسمیں ہیں: (۱) تمتع (۲) قران (۳) افراد۔
حج تمتع میں میقات سے صرف عمرہ کا احرام باندھا جاتا ہے۔ طواف، سعی اور حلق یا قصر کرکے یعنی عمرہ کی ادائیگی سے فراغت کے بعد احرام اتاردیا جاتا ہے، پھر ۷ یا ۸ ذی الحجہ کو مکہ مکرمہ ہی سے حج کا احرام باندھ کر منی جاکر دیگر حاجیوں کی طرح حج کے اعمال کئے جاتے ہیں۔
حج قران میں میقات سے حج وعمرہ کا ایک ساتھ احرام باندھا جاتا ہے۔ عمرہ کے طواف اور سعی سے فراغت کے بعد نہ بال کٹوائے جاتے ہیں اور نہ احرام اتارا جاتا ہے ، پھر طواف قدوم کرلیا جاتا ہے جو حج قران کرنے والوں کے لئے سنت ہے۔ پھر منی جاکر دیگر حاجیوں کی طرح حج کے اعمال کئے جاتے ہیں۔
حج افراد میں میقات سے صرف حجکا احرام باندھا جاتا ہے، طواف قدوم (جو کہ سنت ہے) کرکے منی جاکر دیگر حاجیوں کی طرح حج کے اعمال کئے جاتے ہیں۔ حج تمتع اور حج قران میں شکرےۂ حج کی قربانی کرنا واجب ہے جبکہ حج افراد میں مستحب ہے۔
غرضیکہ حج قران اور حج تمتع میں حج کے ساتھ عمرہ کی ادائیگی کی وجہ سے ایک طواف عمرہ کا اور ایک طواف حج کا اسی طرح ایک سعی عمرہ کی اور ایک سعی حج کی ادا کرنی ہوتی ہے، جبکہ میقات کے باہر سے آنے والوں کے لئے طواف وداع بھی ضروری ہے۔ اس طرح حج میں ضروری طواف کی تعداد احادیث نبویہ کی روشنی میں علماء احناف کی رائے میں حسب ذیل ہے:
حج میں ضروری طواف کی تعداد:
حج تمتع میں تین عدد (طواف عمرہ، طواف زیارت اور آفاقی کے لئے طواف وداع)۔
حج قران میں تین عدد (طواف عمرہ، طواف زیارت اور آفاقی کے لئے طواف وداع)۔
حج افراد میں دو عدد (طواف زیارت اور آفاقی کے لئے طواف وداع)۔
حج افراد اور حج قران میں طواف قدوم بھی سنت ہے،اس طرح علماء احناف کے رائے میں حج قران کرنے والوں کو چار طواف کرنے چاہئیں، سب سے پہلے طواف عمرہ جس کے بعد عمرہ کی سعی بھی کرنی ہوتی ہے، دوسرے طواف قدوم جو سنت ہے، تیسرے طواف افاضہ یا طواف زیارت جس کو حج کا طواف بھی کہا جاتا ہے، اس کے بعد حج کی سعی بھی ہوتی ہے بشرطیکہ طواف قدوم کے ساتھ نہ کی ہو۔ چوتھے طواف وداع جو آفاقی کے لئے واجب ہے البتہ طواف وداع ایسی عورت کے لئے معاف ہے جس کو روانگی کے وقت ماہواری آجائے۔ غرضیکہ علماء احناف کے نزدیک حج تمتع کی طرح حج قران میں بھی عمرہ اور حج کا الگ الگ طواف کرنا ضروری ہے۔ اس طرح علماء احناف کے نزدیک حج تمتع اور حج قران میں صرف یہ فرق ہوگا کہ حج تمتع میں عمرہ کرکے احرام اتاردیا جاتا ہے اور پھر مکہ مکرمہ ہی سے حج کا احرام باندھا جاتا ہے جبکہ حج قران میں ایک ہی احرام سے دونوں کی ادائیگی کی جاتی ہے باقی سارے اعمال بالکل ایک جیسے ہیں۔
ہندو پاک کے جمہور علماء (جو مختلف فیہ مسائل میں ۸۰ ہجری میں پیدا ہوئے مشہور ومعروف فقیہ ومحدث حضرت امام ابوحنیفہؒ کی رائے کو ترجیح دیتے ہیں) کی بھی یہی رائے ہے کہ حج قران میں ایک طواف عمرہ اور حج دونوں کے لئے کافی نہیں ہوگا بلکہ دونوں کے مستقل عبادت ہونے کی وجہ سے دونوں کے لئے الگ الگ طواف کرنے ہوں گے اور جو حدیث میں آیا ہے کہ حج قران میں عمرہ حج میں شامل ہوگیا، اس کا یہ مطلب نہیں کہ ایک ہی طواف دونوں کے لئے کافی ہے بلکہ مطلب یہ ہے کہ عمرہ سے فراغت کے بعد احرام نہیں اتارنا ہے بلکہ عمرہ اور حج سے فراغت کے بعد ایک ہی مرتبہ حلق یا قصر کرکے احرام اتارنا ہے۔ قرآن کریم کی آیت (وَاَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَۃَ لِلّٰہ)سے بھی یہی معلوم ہورہا ہے کہ یہ دو الگ الگ عبادتیں ہیں اور دونوں کی تکمیل ضروری ہے۔
اس کے برخلاف دیگر علماء کے نزدیک قارن کو تین طواف کرنے ہیں، ایک طواف قدوم جو سنت ہے، دوسرا طواف زیارت اور آخری طواف وداع۔ یعنی ان کی رائے میں حج قران میں عمرہ کا طواف کرنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ حج کا طواف یعنی طواف افاضہ عمرہ کے طواف کے لئے کافی ہے۔ دونوں مکاتب فکر کے پاس دلائل موجود ہیں لیکن مشہور ومعروف فقیہ ومحدث حضرت امام ابوحنیفہ ؒ اور علماء احناف کی رائے ہمیشہ کی طرح احتیاط پر مبنی ہے اور وہ یہ ہے کہ حج قران میں بھی عمرہ اور حج کا الگ الگ طواف کیا جائے تاکہ حج کی ادائیگی کے بعد کوئی شک وشبہ پیدا نہ ہو کیونکہ انسان کو اپنی زندگی میں بار بار حج کرنے کی توفیق عام طور پر نہیں ملتی ہے۔ صحابۂ کرام میں سے حضرت عمر فاروقؓ، حضرت علی مرتضیؓ، حضرت عبداللہ بن مسعودؓ، حضرت حسن بن علیؓ، حضرت حسین بن علیؓ اور تابعین وتبع تابعین میں سے حضرت مجاہدؒ ، حضرت قاضی شریح ؒ ، حضرت امام شعبیؒ ، حضرت ابن شبرمہؒ ، حضرت ابن ابی لیلیؒ ، امام نخعیؒ ، حضرت امام ثوریؒ ، حضرت اسود بن یزیدؒ ، حضرت حماد بن سلمہؒ ، حضرت حماد بن سلیمانؒ ، حضرت زیاد بن ملکؒ ، حضرت حسن بصریؒ اور حضرت امام ابوحنیفہ ؒ سے یہی منقول ہے۔ ایک روایت کے مطابق حضرت امام احمد بن حنبل ؒ کا بھی یہی قول ہے۔ تفصیلات کے لئے علامہ بدر الدین عینی ؒ (۷۶۲ھ۔۸۸۵ھ) کی بخاری کی شرح عمدۃ القاری فی شرح صحیح البخاری ج۹ ص ۱۸۴ کا مطالعہ فرمائیں۔
وضاحت: علماء احناف کے دلائل کے ذکر سے قبل حجۃ الوداع کے موقع پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے طواف کے متعلق ایک وضاحت کرنا مناسب سمجھتا ہوں جس پر امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف ایک حج ۱۰ ہجری میں کیا جس کو حجۃ الوداع کے نام سے جانا جاتا ہے اور اس سفر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلا طواف مکہ مکرمہ میں داخل ہونے کے دن ۴ ذی الحجہ کو کیا تھا، دوسرا طواف (طواف افاضہ) ۱۰ ذی الحجہ کو کیا تھا اور طواف وداع ۱۴ ذی الحجہ کو کیا تھا۔
علماء احناف کے بعض دلائل:
* حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عمرہ اور حج کے لئے ۲ (الگ الگ) طواف اور ۲ (الگ الگ) سعی کیں۔ حضرت ابوبکر صدیق، حضرت عمر فاروق اور حضرت علی مرتضی رضی اللہ عنہم نے بھی اسی طرح ۲ (الگ الگ) طواف اور ۲ (الگ الگ) سعی کی تھیں۔ (سنن دار قطنی ۔ باب المواقیت، ج ۲ ص ۲۶۴)
* حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے (عمرہ اور حج کے) دو الگ الگ طواف کئے اور (عمرہ اور حج کی) دو الگ الگ سعی کیں۔ (سنن دار قطنی ۔ باب المواقیت، ج ۲ ص ۲۶۴)
* مشہور تابعی حضرت مجاہد ؒ فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنے حج وعمرہ کو ایک ساتھ جمع کیا (یعنی حج قران کیا) اور انہوں نے (عمرہ اور حج کے) دو الگ الگ طواف کئے اور (عمرہ اور حج کی) دو الگ الگ سعی کیں۔ اور انہوں نے فرمایا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی میں نے ایسا ہی کرتے دیکھا تھا جیسا میں نے کیا ہے۔ (سنن دار قطنی ) (معارف السنن ج ۶ ص ۶۰۹)
* حضرت ابراہیم بن محمد ابن الحنفیہ ؒ فرماتے ہیں کہ انہوں نے اپنے والد کے ساتھ حج کیا اور انہوں حج وعمرہ کو ایک ساتھ جمع کیا (یعنی حج قران کا احرام باندھا) اور انہوں نے (عمرہ اور حج کے ) دو الگ الگ طواف کئے اور (عمرہ اور حج کی) دو الگ الگ سعی کیں۔ اور انہوں نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بھی ایسا ہی کیا تھا اور انہوں (حضرت علیؓ ) نے انہیں (حضرت ابراہیم کے والد) بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ایسا ہی کیا تھا۔ (سنن کبری للنسائی ۔ مسند علی) (نصب الرایہ ۔ باب القران ج ۳ ص ۱۱۰)
* حضرت حسن بن عمارہ ؒ حضرت حکم ؒ سے اور وہ حضرت ابن ابی لیلیٰ ؒ سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے حج میں ۲ طواف کئے اور ۲ سعی کیں اور فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ایسا ہی کیا تھا۔ (سنن دار قطنی ۔ باب المواقیت ج ۲ ص ۲۶۳)
* حضرت منصور بن المعتمرؒ حضرت ابراہیم نخعیؒ سے اور وہ حضرت ابونصر السلمی ؒ سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جب میں حج وعمرہ کا احرام باندھتا ہوں تو دو طواف اور دو سعی کرتا ہوں۔ حضرت منصورؒ فرماتے ہیں کہ میری ملاقات حضرت مجاہد ؒ سے ہوئی اور انہوں نے فتوی دیا کہ قران کرنے والے کے لئے ایک طواف ہے تو میں نے یہ حدیث بیان کی تو انہوں نے فرمایا اگر مجھے پہلے سے معلوم ہوتا تو میں ایسا فتویٰ نہیں دیتا بلکہ دو ہی طواف کرنے کا فتوی دیتا لیکن آج کے بعد (عمرہ اور حج کے الگ الگ )دو ہی طواف کرنے کا فتوی دوں گا۔ (کتاب الآثار ۔ کتاب المناسک ۔ باب القران وفضل الاحرام)
* حضرت زیاد بن مالک ؒ سے روایت ہے کہ حضرت علی اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہم نے فرمایا کہ حج قران میں (عمرہ اور حج کے الگ الگ ) دو ہی طواف ہیں۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ۔ باب فی القران من قال یطوف طوافین)
* مصنف ابن ابی شیبہ میں ہی حضر ت حسن بن علی رضی اللہ عنہما کا اثر مروی ہے کہ جب تم حج قران کا احرام باندھو تو (حج وعمرہ کے الگ الگ) دو طواف اور دو سعی کرو۔
* مجلّٰی (ج ۷ ص ۱۷۵) میں شیخ ابن حزم ؒ نے حضرت حسین بن علی رضی اللہ عنہما کا اثر نقل کیا ہے کہ جب تم حج قران کا احرام باندھو تو (حج وعمرہ کے الگ الگ) دو طواف اور دو سعی کرو۔
ائمہ ثلاثہ کی دلیل کا جواب:
دیگر علماء کی دلیل حضرت جابر، حضرت عائشہ اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کی وہ روایات ہیں جو صحیح بخاری، صحیح مسلم اور ترمذی میں مروی ہیں، جس میں مذکور ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حج قران کا احرام باندھا اور ایک طواف کیا۔ یہ تمام احادیث مؤوَّل ہیں یعنی ان کے معنی میں تاویل کی گئی ہے اور ان کا ظاہری مفہوم کسی کے نزدیک بھی مراد نہیں ہے کیونکہ اس پر اتفاق ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف ایک طواف نہیں بلکہ تین طواف کئے تھے۔ ائمہ ثلاثہ ان روایات کی یہ تاویل کرتے ہیں کہ طواف واحد سے مراد طواف زیارت ہے جس میں طواف عمرہ کا تداخل ہوگیا ہے جبکہ علماء احناف اس کی یہ توجیہ بیان کرتے ہیں کہ ان احادیث میں طواف واحد سے مراد طواف عمرہ ہے جس میں طواف قدوم کا تداخل ہوگیا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ ان احادیث سے مراد طواف تحلل ہو اور مطلب یہ ہے کہ ایسا طواف آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ہی کیا ہے جو تحلل کا سبب بنا ہو اور وہ طواف زیارت ہے کیونکہ طواف عمرہ کے بعد آپ قران کا احرام باندھنے کی وجہ سے حلال نہیں ہوئے۔ غرضیکہ ان احادیث کے متعدد مفاہیم مراد لئے جاسکتے ہیں۔
حج قران میں دو سعی:
سعی کے بارے میں بھی اختلاف ہے۔ علماء احناف کے نزدیک حج قران میں طواف کی طرح حج وعمرہ کے لئے دو علیحدہ علیحدہ سعی کرنی ہوں گی، جبکہ دیگر علماء کے نزدیک حج قران میں ایک ہی سعی حج وعمرہ دونوں کے لئے کافی ہے۔ ائمہ ثلاثہ کا استدلال ان احادیث سے ہے جن میں طواف واحد کے ساتھ سعی واحد کا ذکر آیا ہے۔ علماء احناف کا استدلال ان احادیث سے ہے جن میں حج قران میں صراحت کے ساتھ دو سعی کا ذکر آیا ہے۔ نیز حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سعی پیدل کی یا سوار ہوکر دونوں طرح کی احادیث موجود ہیں۔ اس ظاہری تعارض کو دور کرنے کی ایک توجیہ یہ بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سعی پیدل کی اور دوسری سعی سوار ہوکر کی تھی۔
حج میں ضروری سعی کی تعداد:
احادیث نبویہ کی روشنی میں علماء احناف کی رائے ہے کہ حج تمتع اور حج قران میں ضروری سعی کی تعداد دو (۲) عدد جبکہ حج افراد میں ایک عدد ہے۔
خلاصۂ کلام:
موضوع بحث مسئلہ میں زمانہ قدیم سے اختلاف چلا آرہا ہے، دونوں مکاتب فکر کے پاس دلائل موجود ہیں۔ ائمہ ثلاثہ کی رائے جن احادیث پر مبنی ہے وہ سند کے اعتبار سے تو قوی ہیں لیکن ان سے ظاہری مفہوم کسی کے نزدیک مراد نہیں ہے بلکہ اس کے معنی میں تاویل کی گئی ہے اور اس کے کثیر احتمالات ہیں، ا س لئے ان سے کوئی دعویٰ ثابت نہیں کیا جاسکتا ہے۔ علماء احناف کے دلائل جن احادیث پر مبنی ہیں ، ان کی سند پر کچھ اعتراضات کئے گئے ہیں، جن کے علماء احناف نے معقول جوابات بھی دئے ہیں۔ مگر علما ء احناف کے دلائل مفہوم کے اعتبار سے بالکل واضح ہیں کہ حج قران میں طواف وداع کے علاوہ دو طواف اور دو سعی ضروری ہیں۔ نیز علماء احناف کا قول احتیاط پر مبنی ہے کہ اگر کوئی شخص حج قران میں عمرہ اور حج کا الگ الگ طواف اور سعی کرتا ہے تو پوری دنیا کا کوئی بھی عالم حج میں کسی طرح کی کمی کا فتوی صادر نہیں کرسکتا ہے، مگر حج قران میں عمرہ وحج کے لئے صرف ایک طواف یا صرف ایک سعی کرتا ہے تو علماء احناف جو دنیا میں ایک ہزار سال سے زیادہ کے عرصہ سے برابر اکثریت میں رہ کر قرآن وحدیث کی عظیم خدمات پیش کررہے ہیں، دم کے واجب ہونے کا فتوی صادر فرمائیں گے، لہذا احتیاط اسی میں ہے کہ حج تمتع کی طرح حج قران میں بھی عمرہ اور حج کا الگ الگ طواف اور الگ الگ سعی کریں۔
محمد نجیب قاسمی سنبھلی، ریاض (www.najeebqasmi.com)

حجاج کرام کی بعض غلطیاں
بسم الله الرحمن الرحيم
اَلْحَمْدُ لِله رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلام عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔
حجاج کرام کی بعض غلطیاں
حج ایسی عبادت ہے جوزندگی میں ایک مرتبہ صاحب استطاعت پر فرض ہے، اگرچہ ایک سے زیادہ مرتبہ حج کی ادائیگی کی ترغیب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات میں واضح طور پر ملتی ہیں، چنانچہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: پے درپے حج وعمرے کیا کرو۔ بے شک یہ دونوں (حج اور عمرہ) فقر یعنی غریبی اور گناہوں کو اس طرح دور کردیتے ہیں جس طرح بھٹی لوہے کے میل کچیل کو دور کردیتی ہے۔ (ابن ماجہ)
انسان کو اپنی زندگی میں بار بار حج کرنے کی توفیق عام طور پر نہیں ملتی ہے۔ حج کے مسائل کچھ اس نوعیت کے ہیں کہ حج کی ادائیگی کے بغیر ان کا سمجھنا بظاہر مشکل ہے ،نیز پہلے سے خاطر خواہ تیاری نہ ہونے کی وجہ سے بھی عام حاجی اپنے حج کی ادائیگی میں غلطیاں کرتا ہے۔ بعض غلطیاں حج کے صحیح نہ ہونے یا دم کے واجب ہونے کا سبب بنتی ہیں۔ لہذا عازمین حج کو چاہئے کہ وہ حجاج کرام سے سرزد ہونے والی مندرجہ ذیل غلطیوں کو اچھی طرح ذہن نشین کرلیں تاکہ حج کی ادائیگی صحیح طریقہ پر ہو اور ان کا حج حج مبرور بنے جس کا بدلہ جنت الفردوس ہے جیسا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ایک عمرہ دوسرے عمرہ تک ان گناہوں کا کفارہ ہے جو دونوں عمروں کے درمیان سرزد ہوں اور حج مبرور کا بدلہ تو جنت ہی ہے۔ (بخاری ومسلم)
حج کے اخراجات میں حرام مال کا استعمال کرنا۔ حج اور عمرہ کے لئے صرف پاکیزہ حلال کمائی میں سے خرچ کرنا چاہئے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاارشاد ہے: اللہ تعالیٰ پاکیزہ ہے اور پاکیزہ چیزوں کو ہی قبول کرتاہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب آدمی حج کے لئے رزق حلال لے کر نکلتا ہے اور اپنا پاؤں سواری کے رکاب میں رکھ کر (یعنی سواری پر سوار ہوکر) لبیک کہتا ہے تو اس کو آسمان سے پکارنے والے جواب دیتے ہیں، تیری لبیک قبول ہو اور رحمت الہی تجھ پر نازل ہو، تیرا سفر خرچ حلال اور تیری سواری حلال اور تیرا حج مقبول ہے اور تو گناہوں سے پاک ہے۔ اور جب آدمی حرام کمائی کے ساتھ حج کے لئے نکلتا ہے اور سواری کے رکاب پر پاؤں رکھ کر لبیک کہتا ہے تو آسمان کے منادی جواب دیتے ہیں تیری لبیک قبول نہیں، نہ تجھ پر اللہ کی رحمت ہو، تیرا سفر خرچ حرام، تیری کمائی حرام اور تیرا حج غیر مقبو ل ہے۔ (طبرانی)
ہمیشہ ہمیں حلال رزق پر ہی اکتفاء کرنا چاہئے خواہ بظاہر کم ہی کیوں نہ ہو۔ حرام رزق کے تمام وسائل سے ہمیشہ بچنا چاہئے۔ جیساکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: حرام مال سے جسم کی بڑھوتری نہ کرو کیونکہ اس سے بہتر آگ ہے۔ (ترمذی)
حج کے سفر سے قبل حج کے مسائل کو دریافت نہ کرنا۔ لہذا عازمین حج کو چاہئے کہ وہ حج کی ادائیگی پر جانے سے قبل علماء کرام سے رجوع فرماکر مسائل حج کو اچھی طرح ذہن نشین کریں۔
بعض لوگوں نے مشہور کررکھا ہے کہ اگر کسی نے عمرہ کیا تو اس پر حج فرض ہوگیا، یہ غلط ہے۔ اگر وہ صاحب استطاعت نہیں ہے یعنی اگر اس کے پاس اتنا مال نہیں ہے کہ وہ حج ادا کرسکے تو اس پر عمرہ کی ادائیگی کی وجہ سے حج فرض نہیں ہوتا ہے اگرچہ وہ عمرہ حج کے مہینوں میں ادا کیا جائے پھر بھی عمرہ کی ادائیگی کی وجہ سے حج فرض نہیں ہوگا۔
اپنی طرف سے حج کئے بغیر دوسرے کی جانب سے حج بدل کرنا۔
سفر حج کے دوران نمازوں کا اہتمام نہ کرنا۔ یاد رکھیں کہ اگر غفلت کی وجہ سے ایک وقت کی نماز بھی فوت ہوگئی تو مسجد حرام کی سو نفلوں سے بھی اس کی تلافی نہیں ہوسکتی ہے۔ نیز جو لوگ نماز کا اہتمام نہیں کرتے وہ حج کی برکات سے محروم رہتے ہیں اور ان کا حج مقبول نہیں ہوتاہے۔
حج کے اس عظیم سفر کے دوران لڑنا، جھگڑنا حتی کہ کسی پر غصہ ہونا بھی غلط ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: حج کے چند مہینے مقرر ہیں اس لئے جو شخص ان میں حج کو لازم کرلے وہ اپنی بیوی سے میل میلاپ کرنے، گناہ کرنے اور لڑائی جھگڑا کرنے سے بچتا رہے۔( سورۃ البقرہ آیت ۱۹۷) نیز نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس نے حج کیا اور شہوانی باتوں اور فسق وفجور سے بچا، وہ گناہوں سے اس طرح پاک ہوجاتا ہے جیسے اس دن پاک تھا جب اسے اس کی ماں نے جنا تھا۔ (بخاری ومسلم)
بڑی غلطیوں میں سے ایک بغیر احرام کے میقات سے آگے بڑھ جانا ہے۔ لہذا ہوائی جہاز پر سوار ہونے والے حضرات ایرپورٹ پر ہی احرام باندھ لیں یا احرام لے کر ہوائی جہاز میں سوار ہوجائیں اور میقات سے پہلے پہلے باندھ لیں۔
بعض حضرات شروع ہی سے اضطباع (یعنی داہنی بغل کے نیچے سے احرام کی چادر نکال کر بائیں کندھے پر ڈالنا) کرتے ہیں، یہ غلط ہے بلکہ صرف طواف کے دوران اضطباع کرنا سنت ہے۔ لہذا دونوں بازؤں ڈھانک کر ہی نماز پڑھیں۔
بعض حجاج کرام حجر اسود کا بوسہ لینے کے لئے دیگر حضرات کو تکلیف دیتے ہیں حالانکہ بوسہ لینا صرف سنت ہے جبکہ دوسروں کو تکلیف پہونچانا حرام ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو خاص طور سے تاکید فرمائی تھی کہ دیکھو تم قوی آدمی ہو حجر اسود کے استلام کے وقت لوگوں سے مزاحمت نہ کرنا، اگر جگہ ہو تو بوسہ لینا ورنہ صرف استقبال کرکے تکبیر وتہلیل کہہ لینا۔
حجر اسود کا استلام کرنے کے علاوہ طواف کرتے ہوئے خانہ کعبہ کی طرف چہرا یا پشت کرنا غلط ہے، لہذا طواف کے وقت آپ کا چہرہ سامنے ہو اور کعبہ آپ کے بائیں جانب ہو۔ اگر طواف کے دوران آپ کا چہرا کعبہ کی طرف ہوجائے تو اس پر دم لازم نہیں ہوگا، لیکن قصداً ایسانہ کریں۔
بعض حضرات حجر اسود کے علاوہ خانہ کعبہ کے دیگر حصہ کا بھی بوسہ لیتے ہیں اور چھوتے ہیں جو غلط ہے، بلکہ بوسہ صرف حجر اسود یا خانہ کعبہ کے دروازے کا لیا جاتا ہے۔ رکن یمانی اور حجر اسود کے علاوہ کعبہ کے کسی حصہ کو بھی طواف کے دوران نہ چھوئیں، البتہ طواف اور نماز سے فراغت کے بعد ملتزم پر جاکر اس سے چمٹ کر دعائیں مانگنا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔
رکن یمانی کا بوسہ لینا یا دور سے اس کی طرف ہاتھ سے اشارہ کرنا غلط ہے، بلکہ طواف کے دوران اس کو صرف ہاتھ لگانے کا حکم ہے وہ بھی اگر سہولت سے کسی کو تکلیف دئے بغیر ممکن ہو ۔
بعض حضرات مقام ابراہیم کا استلام کرتے ہیں اور اس کا بوسہ لیتے ہیں، علامہ نووی ؒ نے ایضاح اور ابن حجر مکی ؒ نے توضیح میں فرمایا ہے کہ مقام ابراہیم کا نہ استلام کیا جائے اور نہ اس کا بوسہ لیا جائے، یہ مکروہ ہے۔
بعض حضرات طواف کے دوران حجر اسود کے سامنے دیر تک کھڑے رہتے ہیں، ایسا کرنا غلط ہے کیونکہ اس سے طواف کرنے والوں کو پریشانی ہوتی ہے، صرف تھوڑا رک کر اشارہ کریں اور بسم اللہ اللہ اکبر کہہ کر آگے بڑھ جائیں۔
بعض حجاج کرام طواف کے دوران اگر غلطی سے حجر اسود کے سامنے سے اشارہ کئے بغیر گزر جائیں تو وہ حجر اسود کے سامنے دوبارہ واپس آنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں جس سے طواف کرنے والوں کو بے حد پریشانی ہوتی ہے، اس لئے اگر کبھی ایسا ہوجائے اور ازدحام زیادہ ہو تو دوبارہ واپس آنے کی کوشش نہ کریں کیونکہ طواف کے دوران حجر اسود کا بوسہ لینا یا اس کی طرف اشارہ کرنا سنت ہے واجب نہیں۔
طواف کے دوران رکن یمانی کو چھونے کے بعد (حجر اسود کی طرح) ہاتھ کا بوسہ دینا غلط ہے۔
طواف اور سعی کے ہر چکر کے لئے مخصوص دعا کو ضروری سمجھنا غلط ہے، بلکہ جو چاہیں اور جس زبان میں چاہیں دعا کریں۔
ازدہام کے وقت حجاج کرام کو تکلیف دے کر مقام ابراہیم کے قریب ہی طواف کی دو رکعات ادا کرنے کی کوشش کرنا غلط ہے، بلکہ مسجد حرام میں جہاں جگہ مل جائے یہ دو رکعات ادا کرلیں۔
طواف اور سعی کے دوران چند حضرات کا آواز کے ساتھ دعا کرنا صحیح نہیں ہے کیونکہ اس سے دوسرے طواف اور سعی کرنے والوں کی دعاؤں میں خلل پڑتا ہے۔
بعض حضرات کو جب طواف یا سعی کے چکروں میں شک ہوجاتا ہے تو وہ دوبارہ طواف یا سعی کرتے ہیں، یہ غلط ہے بلکہ کم عدد تسلیم کرکے باقی طواف یا سعی کے چکر پورے کریں۔
بعض حضرات صفا اور مروہ پر پہونچ کر خانہ کعبہ کی طرف ہاتھ سے اشارہ کرتے ہیں، ایسا کرنا غلط ہے بلکہ دعا کی طرح دونوں ہاتھ اٹھاکر دعائیں کریں، ہاتھ سے اشارہ نہ کریں۔
بعض حضرات نفلی سعی کرتے ہیں جبکہ نفلی سعی کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔
بعض حجاج کرام عرفات میں جبل رحمت پر چڑھ کر دعائیں مانگتے ہیں، حالانکہ پہاڑ پر چڑھنے کی کوئی فضیلت نہیں ہے بلکہ اس کے نیچے یا عرفات کے میدان میں کسی بھی جگہ کھڑے ہوکر کعبہ کی طرف رخ کرکے ہاتھ اٹھاکر دعائیں کریں۔
عرفات میں جبل رحمت کی طرف رخ کرکے اور کعبہ کی طرف پیٹھ کرکے دعائیں مانگنا غلط ہے بلکہ دعا کے وقت کعبہ کی طرف رخ کریں خواہ جبل رحمت پیچھے ہو یا سامنے۔
عرفات سے مزلفہ جاتے ہوئے راستہ میں صرف مغرب یا مغرب اور عشاء دونوں کا پڑھنا صحیح نہیں ہے، بلکہ مزدلفہ پہونچ کر ہی عشاء کے وقت میں دونوں نمازیں ادا کریں۔
بعض حضرات عرفات سے نکل کر مزدلفہ کے میدان آنے سے قبل ہی مزدلفہ سمجھ کر رات کا قیام کرلیتے ہیں۔ جس سے ان پر دم بھی واجب ہوسکتا ہے، لہذا مزدلفہ کی حدود میں داخل ہوکر ہی قیام کریں۔
مزدلفہ پہونچ کر مغرب اور عشاء کی نماز پڑھنے سے پہلے ہی کنکریاں اٹھانا صحیح نہیں ہے، بلکہ مزدلفہ پہونچ کر سب سے پہلے عشاء کے وقت میں دونوں نمازیں ادا کریں۔
بہت سے حجاج کرام مزدلفہ میں ۱۰ ذی الحجہ کی فجر کی نماز پڑھنے میں جلد بازی سے کام لیتے ہیں اور قبلہ رخ ہونے میں احتیاط سے کام نہیں لیتے جس سے فجر کی نماز نہیں ہوتی۔ لہذا فجر کی نماز وقت داخل ہونے کے بعد ہی پڑھیں نیز قبلہ کا رخ واقف حضرات سے معلوم کریں۔
مزدلفہ میں فجر کی نماز کے بعد عرفات کے میدان کی طرح ہاتھ اٹھاکر قبلہ رخ ہوکر خوب دعائیں مانگی جاتی ہیں، مگر اکثر حجاج کرام اس اہم وقت کے وقوف کو چھوڑ دیتے ہیں۔
بعض حضرات وقت سے پہلے ہی کنکریاں مارنا شروع کردیتے ہیں حالانکہ رمی کے اوقات سے پہلے کنکریاں مارنا جائز نہیں ہے۔ پہلے دن یعنی ۱۰ ذی الحجہ کو طلوع آفتاب کے بعد سے کنکریاں ماری جاسکتی ہیں، بعض فقہاء نے صبح صادق کے بعد سے کنکریاں مارنے کی اجازت دی ہے، مگر ۱۱ اور ۱۲ذی الحجہ کو زوال آفتاب یعنی ظہر کی اذان کے بعد ہی کنکریاں ماری جاسکتی ہیں۔ ہاں اگر کوئی شخص غروب آفتاب سے قبل کنکریاں نہ مارسکا تو ہر دن کی کنکریاں اُس دن کے بعد آنے والی رات میں بھی مارسکتا ہے۔
بعض لوگ کنکریاں مارتے وقت یہ سمجھتے ہیں کہ اس جگہ شیطان ہے اس لئے کبھی کبھی دیکھا جاتا ہے کہ وہ اس کو گالی بکتے ہیں اور جوتا وغیرہ بھی ماردیتے ہیں۔ اس کی کوئی حقیقت نہیں بلکہ چھوٹی چھوٹی کنکریاں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اتباع میں ماری جاتی ہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام جب اللہ کے حکم سے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ذبح کرنے کے لئے لے جارہے تھے تو شیطان نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو انہیں تین مقامات پر بہکانے کی کوشش کی، حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان تینوں مقامات پر شیطان کو کنکریاں ماری تھیں۔
بعض خواتین صرف بھیڑ کی وجہ سے خود رمی نہیں کرتیں بلکہ ان کے محرم ان کی طرف سے بھی کنکریاں ماردیتے ہیں، اس پر دم واجب ہوگا کیونکہ صرف بھیڑ عذر شرعی نہیں ہے اور بلا عذرشرعی کسی دوسرے سے رمی کرانا جائز نہیں ہے۔ عورتیں اگر دن میں کنکریاں مارنے نہیں جاسکتی ہیں تو وہ رات میں جاکر کنکریاں ماریں، ہاں اگر کوئی عورت بیمار یا بہت زیادہ کمزور ہے کہ وہ جمرات جاہی نہیں سکتی ہے تو اس کی جانب سے کوئی دوسرا شخص رمی کرسکتا ہے۔
بعض حضرات ۱۱، ۱۲ اور ۱۳ ذی الحجہ کو پہلے جمرہ اور بیچ والے جمرہ پر کنکریاں مارنے کے بعد دعائیں نہیں کرتے، یہ سنت کے خلاف ہے، لہذا پہلے اور بیچ والے جمرہ پر کنکریاں مارکر ذرا دائیں یا بائیں جانب ہٹ کر خوب دعائیں کریں۔ یہ دعاؤں کے قبول ہونے کے خاص اوقات ہیں۔
بعض لوگ ۱۲ ذی الحجہ کی صبح کو منی سے مکہ طواف وداع کرنے کے لئے جاتے ہیں اور پھر منی واپس آکر آج کی کنکریاں زوال کے بعد مارتے ہیں اور یہیں سے اپنے شہر کو سفر کرجاتے ہیں۔ یہ غلط ہے ، کیونکہ آج کی کنکریاں مارنے کے بعد ہی طواف وداع کرنا چاہیے۔
محمد نجیب قاسمی سنبھلی، ریاض (www.najeebqasmi.com)

مکہ مکرمہ کے تاریخی مقامات
بسم الله الرحمن الرحيم
اَلْحَمْدُ لِله رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلام عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔
مکہ مکرمہ کے تاریخی مقامات
بیت اللہ:
بیت اللہ شریف اللہ تعالیٰ کا گھر ہے جس کا حج اور طواف کیا جاتا ہے۔ اس کو کعبہ بھی کہتے ہیں۔ یہ پہلا گھر ہے جو اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کے لئے زمین پر بنایا جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتاہے: اللہ تعالیٰ کا پہلا گھر جو لوگوں کے لئے مقرر کیا گیا وہی ہے جو مکہ مکرمہ میں ہے جو تمام دنیا کے لئے برکت وہدایت والا ہے۔ (سورۃ آل عمران) بیت اللہ مسجد حرام کے قلب میں واقع ہے اور قیامت تک یہی مسلمانوں کا قبلہ ہے۔ چوبیس گھنٹوں میں صرف فرض نمازوں کے وقت خانہ کعبہ کا طواف رکتا ہے باقی دن رات میں ایک گھڑی کے لئے بھی بیت اللہ کا طواف بند نہیں ہوتا ہے۔ بیت اللہ کی اونچائی ۱۴ میٹر ہے جبکہ چوڑائی ہر طرف سے کم وبیش ۱۲ میٹر ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ کی ایک سو بیس (۱۲۰) رحمتیں روزانہ اس گھر (خانہ کعبہ) پر نازل ہوتی ہیں جن میں سے ساٹھ طواف کرنے والوں پر، چالیس وہاں نماز پڑھنے والوں پر اور بیس خانہ کعبہ کو دیکھنے والوں پر ۔ اگر بیت اللہ کا قریب سے طواف کیا جائے تو سات چکر میں تقریباً ۳۰ منٹ لگتے ہیں، لیکن دور سے کرنے پر تقریباً ایک سے دو گھنٹے لگ جاتے ہیں۔ طواف زیارت (حج کا طواف) کرنے میں کبھی کبھی اس سے بھی زیادہ وقت لگ جاتا ہے۔ حدیث میں ہے کہ بیت اللہ پر پہلی نظر پڑنے پر جو دعا مانگی جاتی ہے وہ اللہ تبارک وتعالیٰ قبول فرماتا ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق بیت اللہ شریف کو ہر سال غسل بھی دیا جاتا ہے۔
بیت اللّٰہ کی تعمیریں:
بیت اللہ کی مختلف تعمیریں ہوئی ہیں، چند مشہور تعمیریں حسب ذیل ہیں: ۱) حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش سے قبل سب سے پہلے اس کی تعمیر فرشتوں نے کی۔ ۲) حضرت آدم علیہ السلام کی تعمیر ۔ ۳)حضرت شیث علیہ السلام کی تعمیر۔ ۴) حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے صاحبزادے حضرت اسماعیل علیہ السلام کے ساتھ مل کر کعبہ کی از سر نو تعمیر کی۔ حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام کی بیت اللہ کی تعمیر کو خصوصی اہمیت حاصل ہوئی، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے بھی قرآن کریم میں اس واقعہ کو ذکر کیا ہے (سورۃ البقرۃ ۱۲۷) اس وقت کا تصور کرو جب ابراہیم بیت اللہ کی بنیادیں اٹھارہے تھے اور اسماعیل بھی (ان کے ساتھ شریک تھے اور دونوں یہ کہتے جاتے تھے کہ) اے ہمارے پروردگار! ہم سے (یہ خدمت) قبول فرمالے۔ بیشک تو، اور صرف تو ہی، ہر ایک کی سننے والا، ہر ایک کو جاننے والا ہے۔ ۵)عمالقہ کی تعمیر ۶) جرہم کی تعمیر (یہ عرب کے دو مشہور قبیلے ہیں)۔ ۷) قصی کی تعمیر جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پانچویں پشت میں دادا ہیں۔ ۸) قریش کی تعمیر، اس وقت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر ۳۵ سال تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہی دست مبارک سے حجر اسود کو بیت اللہ کی دیوار میں لگایا تھا۔ ۹) ۶۴ھ میں حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے حطیم کے حصہ کو کعبہ میں شامل کرکے کعبہ کی دوبارہ تعمیر کی اور دروازہ کو زمین کے قریب کردیا، نیز دوسرا دروازہ اس کے مقابل دیوار میں قائم کردیا تاکہ ہر شخص سہولت سے ایک دروازہ سے داخل ہو اور دوسرے دروازے سے نکل جائے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہش بھی یہی تھی۔ ۱۰) ۷۳ھ میں حجاج بن یوسف نے کعبہ کو دوبارہ قدیم طرز کے موافق کردیا، یعنی حطیم کی جانب سے دیوار پیچھے کو ہٹادی اور دروازہ اونچا کردیا، دوسرا دروازہ بند کردیا۔ ۱۱) ۱۰۲۱ھ میں سلطان احمد ترکی نے چھت بدلوائی اور دیواروں کی مرمت کی۔ ۱۲) ۱۰۳۹ھ میں سلطان مراد کے زمانے میں سیلاب کے پانی سے بیت اللہ کی بعض دیواریں گر گئیں تھیں تو سلطان مراد نے ان کی تعمیر کرائی۔ ۱۳) ۱۴۱۷ھ میں شاہ فہد بن عبد العزیزنے بیت اللہ کی ترمیم کی۔
غلاف کعبہ:
بیت اللہ شریف جو بے حد واجب التعظیم عبادت گاہ اور متبرک گھر ہے، اسے ظاہری زیب وزینت کی غرض سے غلاف پہنایا جاتا ہے۔ مؤرخین کا خیال ہے کہ سب سے پہلے حضرت اسماعیل علیہ السلام نے پہلا غلاف چڑھایا تھا۔ اس کے بعد عدنان نے کعبہ پر غلاف چڑھایا تھا جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بیسویں پشت میں دادا ہیں ۔ یمن کے بادشاہ (تبع الحمیری) نے ظہور اسلام سے سات سو سال قبل کعبہ پر غلاف چڑھایا۔ زمانۂ جاہلیت میں بھی یہ سلسلہ جاری رہا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے دن یمن کا بنا ہوا کالے رنگ کا غلاف کعبہ شریف پر چڑھایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے سفید کپڑا چڑھایا۔حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے اپنی اپنی خلافت کے زمانے میں نئے نئے غلاف بیت اللہ (کعبہ) پر چڑھائے۔ خلافت بنو امیہ کے ۹۱سالوں کے اقتدار کے زمانے میں اور پھر بنو عباس کے پانچ سو سال کے زمانے میں بھی یہ سلسلہ باقاعدہ جاری رہا، کبھی سفید رنگ کا کبھی سیاہ رنگ کا ، مگر ۵۷۵ھ سے آج تک غلاف کالے ہی رنگ کا چڑھایاجاتا ہے۔ ۷۶۱ھ سے قرآن کریم کی آیات بھی غلاف پر لکھی جانے لگیں۔ موجودہ زمانے میں عام طور پر ۹ ذی الحجہ کو ہر سال کالے رنگ کا غلاف تبدیل کیا جاتا ہے۔ گزشتہ زمانوں میں مختلف تاریخوں میں غلاف تبدیل کیا جاتا تھا، کبھی ۱۰ محرم الحرم، کبھی ۲۷ رمضان اور کبھی ۸ یا ۹ یا ۱۰ ذی الحجہ۔
حطیم:
یہ دراصل بیت اللہ ہی کا حصہ ہے، لیکن قریش مکہ کے پاس حلال مال میسر نہ ہونے کی وجہ سے انہوں نے تعمیر کعبہ کے وقت یہ حصہ چھوڑکر بیت اللہ کی تعمیر کی تھی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں کعبہ شریف میں داخل ہوکر نمازپڑھنا چاہتی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرا ہاتھ پکڑکر حطیم میں لے گئے اور فرمایا: جب تم بیت اللہ (کعبہ) کے اندر نماز پڑھنا چاہو تو یہاں (حطیم میں) کھڑے ہوکر نماز پڑھ لو۔ یہ بھی بیت اللہ شریف کا حصہ ہے۔ تیری قوم نے بیت اللہ (کعبہ) کی تعمیر کے وقت (حلال کمائی میسر نہ ہونے کی وجہ سے ) اسے (چھت کے بغیر) تھوڑا سا تعمیر کرادیا تھا۔ چونکہ حطیم بیت اللہ کا حصہ ہے، لہذا طواف حطیم کے باہر سے ہی کریں، اگر حطیم میں داخل ہوکر طواف کریں گے تو وہ معتبر نہیں ہوگا۔ بیت اللہ کی چھت سے حطیم کی طرف بارش کے پانی کے گرنے کی جگہ (پرنالہ) میزاب رحمت کہی جاتی ہے۔
حجر اسود:
حجر اسود قیمتی پتھروں میں سے ایک پتھر ہے، اللہ تعالیٰ نے اس کی روشنی ختم کردی ہے، اگر اللہ تعالیٰ ایسا نہ کرتا تو یہ پتھر مشرق اور مغرب کے درمیان ہر چیز کو روشن کردیتا۔ حجر اسود جنت سے اترا ہوا پتھر ہے جو کہ دودھ سے زیادہ سفید تھا لیکن لوگوں کے گناہوں نے اسے سیاہ کردیا ہے ۔ حجر اسود کو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ایسی حالت میں اٹھائیں گے کہ اس کی دو آنکھیں ہوں گی جن سے وہ دیکھے گا اور زبان ہوگی جن سے وہ بولے گا اور گواہی دے گا اُس شخص کے حق میں جس نے اُس کا حق کے ساتھ بوسہ لیا ہو۔ حجر اسود کے استلام سے ہی طواف شروع کیا جاتا ہے اور اسی پر ختم کیا جاتا ہے۔ حجر اسود کا بوسہ لینا یا اس کی طرف دونوں یا داہنے ہاتھ سے اشارہ کرنا استلام کہلاتا ہے۔
مُلتزم: ملتزم کے معنی ہے چمٹنے کی جگہ، حجر اسود اور بیت اللہ کے دروازے کے درمیان ڈھائی گز کے قریب کعبہ کی دیوار کا جو حصہ ہے وہ ملتزم کہلاتا ہے، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جگہ چمٹ کر دعائیں مانگیں تھیں، یہ دعاؤں کے قبول ہونے کی خاص جگہ ہے۔
رکن یمانی:
بیت اللہ کے تیسرے کونہ کو رکن یمانی کہتے ہیں۔ رکن یمانی کو چھونا گناہوں کو مٹاتا ہے۔ رکن یمانی پر ستّر فرشتے مقرر ہیں، جو شخص وہاں جاکر یہ دعا پڑھے: (رَبّنَا آتِنَا فِی الدُّنْيَا حَسَنَةً وّفِی الْاخِرَۃ حَسَنَة وّقِنَا عَذَابَ النّارِ)تو وہ سب فرشتے آمین کہتے ہیں ، یعنی یا اللہ! اس شخص کی دعا قبول فرما۔
مقام ابراہیم:
یہ ایک پتھر ہے جس پر کھڑے ہوکر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کعبہ کو تعمیر کیا تھا، اس پتھر پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے قدموں کے نشانات ہیں۔ یہ کعبہ کے سامنے ایک جالی دار شیشے کے چھوٹے سے قبہ میں محفوظ ہے جس کے اطراف میں پیتل کی خوشنما جالی نصب ہے۔حجر اسود کی طرح یہ پتھر بھی جنت سے لایا گیا ہے، اللہ تعالیٰ نے اس کی روشنی ختم کردی ہے، اگر اللہ تعالیٰ ایسا نہ کرتا تو یہ مشرق اور مغرب کے درمیان ہر چیز کو روشن کردیتا۔ طواف سے فراغت کے بعد طواف کی دو رکعت اگر سہولت سے مقامِ ابراہیم کے پیچھے جگہ مل جائے تو مقام ابراہیم کے پیچھے ہی پڑھنا بہتر ہے ۔
بئر زمزم:
زمزم کا پانی اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنی قدرت سے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی پیاس بجھانے کے لئے تقریباً ۴۰۰۰ سال قبل بیت اللہ کے قریب بے آب وگیاہ ریگستان میں جاری فرمایا تھا۔ یہ ایک معجزہ ہے کہ لاکھوں حجاج کرام اور زائرین لاکھوں ٹن زمزم کا پانی پیتے ہیں یا اپنے ملکوں اور شہروں کو لے کر جاتے ہیں لیکن زمزم کا کنواں آج تک خشک نہیں ہوا۔ مسجد حرام کے ساتھ مسجد نبوی میں بھی ہر وقت زمزم کا پانی مہیا رہتا ہے۔ آب زمزم میں ایسے اجزاء معدنیات اور نمکیات موجود ہیں جو انسان کی غذائی اور طبّی ضروریات کو بڑے اچھے طریقہ سے پورا کرتے ہیں۔طواف کرنے والوں کی سہولت کے لئے‘ اب زمزم کا کنواں اوپر سے پاٹ دیا گیا ہے۔ البتہ مسجد حرام میں ہر جگہ زمزم کا پانی بآسانی مل جاتا ہے، لہذا سنت نبوی کی اتباع میں مسجد میں کسی بھی جگہ زمزم کا پانی پی لیں اور الحمد للہ کہہ کر یہ دعا پڑھیں: اے اللہ! میں آپ سے نفع دینے والے علم کا اور کشادہ رزق کا اور ہر مرض سے شفایابی کا سوال کرتا ہوں۔ زمزم کا پانی کھڑے ہوکر پینا مستحب ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو زمزم پلایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہوکر پیا۔ زمزم کا پانی پی کر اس کا کچھ حصہ سر اور بدن پر بہانا مستحب ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: زمزم کا پانی جس نیت سے پیا جائے وہی فائدہ اس سے حاصل ہوتا ہے۔ اس طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : روئے زمین پر سب سے بہتر پانی زمزم ہے جو بھوکے کے لئے کھانا اور بیمار کے لئے شفا ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا زمزم کا پانی (مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ ) لے جایا کرتی تھیں اور فرماتیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی لے جایا کرتے تھے۔
مسجد حرام:
مسلمانوں کی سب سے بڑی مسجد (مسجد حرام) مقدس شہر مکہ مکرمہ کے وسط میں واقع ہے۔ مسجد حرام کے درمیان میں بیت اللہ ہے جس کی طرف رخ کرکے دنیا بھر کے مسلمان ایمان کے بعد سب سے اہم رکن یعنی نماز کی ادائیگی کرتے ہیں۔ دنیا میں سب سے پہلی مسجد مسجد حرام ہے جیساکہ حدیث میں ہے کہ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ زمین میں سب سے پہلی کون سی مسجد بنائی گئی؟ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مسجد حرام۔ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے پوچھا کہ اس کے بعد کون سی؟ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مسجد اقصیٰ۔ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے پوچھا کہ دونوں کے درمیان کتنے وقت کا فرق ہے؟ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: چالیس سال کا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تین مساجد کے علاوہ کسی دوسری مسجد کا سفر اختیار نہ کیا جائے مسجد نبوی، مسجد حرام اور مسجد اقصیٰ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میری اس مسجد میں نماز کا ثواب دیگر مساجد کے مقابلے میں ہزار گنا زیادہ ہے سوا ئے مسجد حرام کے اور مسجد حرام میں ایک نماز کا ثواب ایک لاکھ نمازوں کے ثواب کے برابر ہے۔
صفا ومروہ:
صفا ومروہ دو پہاڑیاں تھیں جو اِن دنوں حجاج کرام کی سہولت کے لئے تقریباً ختم کردی گئی ہیں۔صفا ومروہ اور اس کے درمیان کا مکمل حصہ اب اےئرکنڈیشنڈ ہے۔ صفا ومروہ کے درمیان حضرت ہاجرہ علیہا السلام نے اپنے پیارے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کے لئے پانی کی تلاش میں سات چکر لگائے تھے۔ اور جہاں مرد حضرات تھوڑا تیز چلتے ہیں یہ اُس زمانہ میں صفا مروہ پہاڑیوں کے درمیان ایک وادی تھی جہاں سے ان کا بیٹا نظر نہیں آتا تھا، لہذا وہ اس وادی میں تھوڑا تیز دوڑی تھیں۔ حضرت ہاجرہ علیہا السلام کی اس عظیم قربانی کو اللہ تعالیٰ نے قبول فرماکر قیامت تک آنے والے تمام مرد حاجیوں کواس جگہ تھوڑا تیز چلنے کی تعلیم دی، لیکن شریعت اسلامیہ نے صنف نازک کے جسم کی نزاکت کے مدنظر اس کو صرف مردوں کے لئے سنت قرار دیا ہے۔ سعی کا ہر چکر تقریباً ۳۹۵ میٹر لمبا ہے، یعنی سات چکر کی مسافت تقریباً پونے تین کیلومیٹر بنتی ہے۔ نیچے کی منزل کے مقابلہ میں اوپر والی منزل پر ازدحام کچھ کم رہتا ہے۔ قرب قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ بھی ہے کہ اس پہاڑی سے ایک ایسا جانور نکلے گا جو انسانی زبان میں بات کرے گا۔
منی:
منی مکہ سے ۴۔۵ کیلومیٹرکے فاصلہ پر دو طرفہ پہاڑوں کے درمیان ایک بہت بڑا میدان ہے۔ حجاج کرام ۸ذی الحجہ کو اور اسی طرح ۱۱، ۱۲ اور ۱۳ ذی الحجہ کومنی میں قیام فرماتے ہیں۔ منی میں ایک مسجد ہے جسے مسجد خیف کہا جاتا ہے۔ اسی مسجد کے قریب جمرات ہیں جہاں حجاج کرام کنکریاں مارتے ہیں۔ منی ہی میں قربان گاہ ہے جہاں حجاج کرام کی قربانیاں کی جاتی ہیں۔
عرفات:
عرفات منی سے تقریباً ۱۰ کیلومیٹر کی دوری پر واقع ہے۔ میدان عرفات کے شروع میں مسجد نمرہ نامی ایک بہت بڑی مسجد ہے جس میں زوال کے فوراً بعد خطبہ ہوتا ہے پھر ایک اذان اور دو اقامت سے ظہر اور عصر کی نمازیں جماعت سے ادا ہوتی ہیں۔اسی جگہ پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیا تھا جو خطبہ حجۃ الوداع کے نام سے معروف ہے۔ مسجد نمرہ کا اگلا حصہ عرفات کی حدود سے باہر ہے ۔ منی ومزدلفہ حدود حرم کے اندر، جبکہ عرفات حدود حدود حرم سے باہر ہے۔ یہی وہ جگہ ہے جہاں حج کا سب سے اہم رکن ادا ہوتا ہے، جس کے متعلق حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ وقوف عرفہ ہی حج ہے۔ وقوف عرفہ کا وقت زوال آفتاب سے غروب آفتاب تک ہے، لیکن اگر کوئی شخص کسی وجہ سے غروب آفتاب تک نہ پہنچ سکا لیکن صبح صادق سے قبل تک ایک لمحہ کے لئے بھی اس میدان میں پہنچ گیا تو حج صحیح ہوگا لیکن ایک دم دینا ضروری ہوگا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: عرفہ کے دن کے علاوہ کوئی دن ایسا نہیں جس میں اللہ تعالیٰ کثرت سے بندوں کو جہنم سے نجات دیتے ہوں، اس دن اللہ تعالیٰ (اپنے بندوں کے) بہت زیادہ قریب ہوتے ہیں اور فرشتوں کے سامنے اُن (حاجیوں) کی وجہ سے فخر کرتے ہیں اور فرشتوں سے پوچھتے ہیں (ذرا بتاؤ تو) یہ لوگ مجھ سے کیا چاہتے ہیں ۔ اسی طرح حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: غزوۂ بدر کا دن تو مستثنیٰ ہے اس کو چھوڑکر کوئی دن عرفہ کے دن کے علاوہ ایسا نہیں جس میں شیطان بہت ذلیل ہورہا ہو، بہت راندہ پھر رہاہو، بہت حقیر ہورہا ہو، بہت زیادہ غصہ میں ہو، یہ سب کچھ اس وجہ سے کہ وہ عرفہ کے دن اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کا کثرت سے نازل ہونا اور بندوں کے بڑے بڑے گناہوں کا معاف ہونا دیکھتا ہے۔عرفات کے میدان میں ایک پہاڑ ہے جسے جبل رحمت کہتے ہیں، اس کے قریب قبلہ رخ کھڑے ہوکر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے وقوف عرفہ کیا تھا۔ پہاڑ پر چڑھنے کی کوئی فضیلت احادیث میں وارد نہیں ہوئی ہے بلکہ اس کے نیچے یا عرفات کے میدان میں کسی بھی جگہ کھڑے ہوکر کعبہ کی طرف رخ کرکے ہاتھ اٹھاکر دعائیں کرنی چاہئیں۔
مزدلفہ:
۹ذی الحجہ کو غروب آفتاب کے بعد حجاج کرام عرفات سے مزدلفہ آکر عشاء کے وقت میں مغرب اور عشاء کی نمازیں ادا کرتے ہیں۔ یہاں رات کو قیام فرماتے ہیں اور نماز فجر کے بعد قبلہ رخ کھڑے ہوکر دعائیں کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: فَاِذَا اَفَضْتُمْ مِنْ عَرَفَاتٍ فَاذْکُرُوا اللّہَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ (سورہ البقرۃ، آیت ۱۹۸)جب تم عرفات سے واپس ہوکر مزدلفہ آؤ تو یہاں مشعر حرام کے پاس اللہ کے ذکر میں مشغول رہو۔ اس جگہ ایک مسجد بنی ہوئی ہے جس کو مسجد مشعر حرام کہتے ہیں۔ مزدلفہ منی سے ۳۔۴ کیلومیٹر کے فاصلہ پر ہے۔
وادی محسر: منی اور مزدلفہ کے درمیان میں ایک وادی ہے جس کو وادی محسر کہتے ہیں، یہاں سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے مطابق گزرتے وقت تھوڑا تیز چل کر گزرا جاتا ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں اللہ تعالیٰ نے ابرہہ بادشاہ کے لشکر کو ہلاک وتباہ کیا تھا جو بیت اللہ کو ڈھانے کے ارادہ سے آرہا تھا۔
جمرات:
یہ منی میں تین مشہور مقام ہیں جہاں اب دیوار کی شکل میں بڑے بڑے ستون بنے ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے حکم، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ اور حضرات ابراہیم علیہ السلام کی اتباع میں ان تین جگہوں پر کنکریاں ماری جاتی ہیں۔ ان میں سے جو مسجد خیف کے قریب ہے اسے جمرہ اولیٰ، اس کے بعد بیچ والے جمرہ کو جمرہ وسطی اور اس کے بعد مکہ مکرمہ کی طرف آخری جمرہ کو جمرہ عقبہ یا جمرہ کبری کہا جاتا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو شیطان نے ان تین مقامات پر بہکانے کی کوشش کی تھی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان تین مقامات پر شیطان کو کنکریاں ماری تھیں اور اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اس عمل کو قیامت تک آنے والے حاجیوں کے لئے لازم قرار دے دیا۔ حجاج کرام بظاہر جمرات پر کنکریاں مارتے ہیں لیکن درحقیقت شیطان کو اس عمل کے ذریعہ دھتکارا جاتا ہے ۔رمی یعنی جمرات پر کنکریاں مارنا حج کے واجبات میں سے ہے۔ دسویں، گیارہویں اور بارہویں ذی الحجہ کو رمی کرنا (یعنی ۴۹کنکریاں مارنا) ہر حاجی کے لئے ضروری ہے۔ تیرہویں ذی الحجہ کی رمی (یعنی ۲۱ کنکریاں مارنا) اختیاری ہے۔
مولد النبی صلی اللہ علیہ وسلم :
مروہ کے قریب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کی جگہ ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں ۹ یا ۱۲ ربیع الاول کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رحمۃ للعالمین بن کر تشریف لائے تھے۔ اس جگہ پر ان دنوں مکتبہ (لائبریری) قائم ہے۔
غار ثور:
یہ غار جبل ثور کی چوٹی کے پاس ہے۔ یہ پہاڑ مکہ سے چار کیلومیٹر کے فاصلہ پر ہے اور غار ایک میل کی چڑھائی پر واقع ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ مکرمہ ہجرت کے وقت اسی غار میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ہمراہ تین دن قیام فرمایا تھا۔
غار حِرا:
یہاں قران کریم نازل ہونا شروع ہوا تھا، سورہ اقراء کی ابتدائی چند آیات اسی غار میں نازل ہوئی تھیں، یہ غار جبل نور (پہاڑ) پر واقع ہے۔ یہ پہاڑ مکہ مکرمہ سے منی جانے والے اہم راستہ پر مسجد حرام سے تقریباً ۴کیلومیٹر کی دوری پر واقع ہے۔ اس کی اونچائی تقریباً ۲ ہزار فٹ ہے۔
جنت المعلّٰی:
یہ مکہ مکرمہ کا قبرستان ہے۔ یہاں پر ام المؤمنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا، صحابۂ کرام، تابعین، تبع تابعین اور اولیاء اللہ مدفون ہیں۔
مسجد عائشہ:
میقات اور حرم کے درمیان کی سرزمین کو حِل کہا جاتا ہے جس میں خود اُگے ہوئے درخت کو کاٹنا اور جانور کا شکار کرنا حلال ہے۔ مسجد حرام سے سب سے زیادہ قریب حل کی جگہ تنعیم ہے جو مسجد حرام سے تقریباً ساڑھے سات کیلومیٹر کے فاصلہ پر ہے، جہاں سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا حج سے فراغت کے بعد عمرہ کا احرام باندھ کر آئی تھیں،اس جگہ پر ایک عالیشان مسجد (مسجد عائشہ) بنی ہوئی ہے، اب عرف عام میں اس علاقہ کو ہی مسجد عائشہ کہا جاتا ہے۔ مکہ مکرمہ میں رہتے ہوئے اگر کسی شخص کو عمرہ کی ادائیگی کرنی ہوتی ہے تو حرم سے باہر حل میں کسی جگہ مثلاً مسجد عائشہ سے احرام باندھا جاتا ہے۔
محمد نجیب قاسمی سنبھلی، ریاض (www.najeebqasmi.com)

مدینہ منورہ کے تاریخی مقامات
بسم الله الرحمن الرحيم
اَلْحَمْدُ لِله رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلام عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔
مدینہ منورہ کے تاریخی مقامات
مسجد نبوی:
جب حضور اکر م صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے مدینہ منورہ تشریف لائے توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ۱ ہجری میں مسجد قبا کی تعمیر کے بعد صحابۂ کرام کے ساتھ مسجد نبوی کی تعمیر فرمائی، اس وقت مسجد نبوی ۱۰۵ فٹ لمبی اور ۹۰ فٹ چوڑی تھی۔ہجرت کے ساتویں سال فتح خیبر کے بعد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد نبوی کی توسیع فرمائی۔ اس توسیع کے بعد مسجد نبوی کی لمبائی اور چوڑائی ۱۵۰ فٹ ہوگئی۔حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں مسلمانوں کی تعداد میں جب غیر معمولی اضافہ ہوگیا اور مسجد ناکافی ثابت ہوئی تو ۱۷ ھ میں مسجد نبوی کی توسیع کی گئی۔ ۲۹ ھ میں حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے زمانے میں مسجد نبوی کی توسیع کی گئی۔اموی خلیفہ ولید بن عبد الملک نے ۸۸ ھ تا ۹۱ھ میں مسجد نبوی کی غیر معمولی توسیع کی۔ حضرت عمر بن عبد العزیز ؒ اس وقت مدینہ منورہ کے گورنر تھے۔ اموی اور عباسی دور میں مسجد نبوی کی متعدد توسیعات ہوئیں۔ ترکوں نے مسجد نبوی کی نئے سرے سے تعمیر کی، اس میں سرخ پتھر کا استعمال کیا گیا، مضبوطی اور خوبصورتی کے اعتبار سے ترکوں کی عقیدت مندی کی ناقابل فراموش یادگار آج بھی برقرار ہے۔حج اور عمرہ کرنے والوں اور زائرین کی کثرت کی وجہ سے جب یہ توسیعات بھی ناکافی رہیں تو موجودہ سعودی حکومت نے قرب وجوار کی عمارتوں کو خریدکر اور انھیں منہدم کرکے عظیم الشان توسیع کی جو اب تک کی سب بڑی توسیع مانی جاتی ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تین مساجد کے علاوہ کسی دوسری مسجد کا سفر اختیار نہ کیا جائے مسجد نبوی، مسجد حرام اور مسجد اقصیٰ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میری اس مسجد میں نماز کا ثواب دیگر مساجد کے مقابلے میں ہزار گنا زیادہ ہے سوا ئے مسجد حرام کے۔ دوسری روایت میں پچاس ہزار نمازوں کے ثواب کا ذکر ہے۔جس خلوص کے ساتھ وہاں نماز پڑھی جائے گی اسی کے مطابق اجروثواب ملے گا ان شاء اللہ۔
حجرہ مبارکہ:
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی کے آخری دس گیارہ سال مدینہ منورہ میں گزارے۔ ۸ ہجری میں فتح مکہ مکرمہ کے بعد بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی مبارک شہر کو اپنا مسکن بنایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے انتقال کے بعد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے مطابق حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرہ میں ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دفن کردیا گیا،اسی حجرہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال بھی ہوا تھا۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ بھی اسی حجرہ میں مدفون ہیں۔ اسی حجرہ مبارکہ کے پاس کھڑے ہوکر سلام پڑھا جاتا ہے۔ حجرہ مبارکہ کے قبلہ رخ تین جالیاں ہیں جس میں دوسری جالی میں تین سوراخ ہیں، پہلے اور بڑے گولائی والے سوراخ کے سامنے آنے کا مطلب ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر اطہر سامنے ہے۔ دوسرے سوراخ کے سامنے آنے کا مطلب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی قبر سامنے ہے اور تیسرے سوراخ کے سامنے آنے کا مطلب حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی قبر سامنے ہے۔
ریاض الجنۃ:
قدیم مسجد نبوی میں منبراور روضۂ اقدس کے درمیان جو جگہ ہے وہ ریاض الجنۃ کہلاتی ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: منبراور روضۂ اقدس کے درمیان کی جگہ جنت کی کیاریوں میں سے ایک کیاری ہے۔ ریاض الجنۃ کی شناخت کے لئے یہاں سفید سنگ مرمر کے ستون ہیں۔ ان ستونوں کو اسطوانہ کہتے ہیں،ان ستونوں پر ان کے نام بھی لکھے ہوئے ہیں۔ریاض الجنۃ کے پورے حصہ میں جہاں سفید اور ہری قالینوں کا فرش ہے نمازیں ادا کرنا زیادہ ثواب کا باعث ہے، نیز قبولیت دعا کے لئے بھی خاص مقام ہے۔
اصحابِ صفہ کا چبوترہ:
مسجد نبوی میں حجرۂ شریفہ کے پیچھے ایک چبوترہ بنا ہوا ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں وہ مسکین وغریب صحابہ کرام قیام فرماتے تھے جن کا نہ گھر تھا نہ در، اور جو دن ورات ذکر وتلاوت کرتے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت سے مستفیض ہوتے تھے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اسی درسگاہ کے ممتاز شاگردوں میں سے ہیں۔ اصحاب صفہ کی تعداد کم اور زیادہ ہوتی رہتی تھی،کبھی کبھی ان کی تعداد ۸۰تک پہونچ جاتی تھی۔ سورۃ الکہف کی آیت نمبر (۲۸) انہیں اصحاب صفہ کے حق میں نازل ہوئی، جس میں اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے ساتھ بیٹھنے کاحکم دیا۔
جنت البقیع ۔۔ بقیع الغرقد:
یہ مدینہ منورہ کا قبرستان ہے جو مسجد نبوی سے بہت تھوڑے فاصلہ پر واقع ہے، اس میں بے شمار صحابہ (تقریباً ۱۰ ہزار) اور اولیاء اللہ مدفون ہیں۔ تیسرے خلیفہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی چاروں صاحبزادیاں، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات، آپ کے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ بھی اسی قبرستان میں مدفون ہیں۔
جبل اُحد ۔۔ اُحد کا پہاڑ:
مسجد نبوی سے تقریباً ۴ یا ۵ کیلو میٹر کے فاصلہ پر یہ مقدس پہاڑ واقع ہے ۔جس کے متعلق حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اُحد کا پہاڑ ہم سے محبت رکھتا ہے او رہم اُحد سے محبت رکھتے ہیں۔اسی پہاڑ کے دامن میں ۳ ھ میں جنگ احد ہوئی جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سخت زخمی ہوئے اور تقریباً ۷۰ صحابۂ کرام شہید ہوئے تھے۔ یہ سب شہداء اسی جگہ مدفون ہیں جس کا احاطہ کردیا گیا ہے۔ اسی احاطہ کے بیچ میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ مدفون ہیں، آپ کی قبر کے برابر میں حضرت عبد اللہ بن جحش رضی اللہ عنہ اور حضرت مُصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ مدفون ہیں۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خاص اہتمام سے یہاں تشریف لاتے تھے اور شہداء کو سلام ودعا سے نوازتے تھے۔
مَسْجدِ قبَا:
مسجد قُبا مسجد نبوی سے تقریباً چار کیلو میٹر کے فاصلہ پر ہے۔ مسلمانوں کی یہ سب سے پہلی مسجد ہے، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے جب مدینہ منورہ تشریف لائے تو قبیلہ بن عوف کے پاس قیام فرمایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابۂ کرام کے ساتھ خود اپنے دست مبارک سے اس مسجد کی بنیاد رکھی۔ اس مسجد کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لَمَسْجِدٌ اُسِّسَ عَلَی التَّقْوَی یعنی وہ مسجد جس کی بنیاد اخلاص وتقوی پر رکھی گئی ہے۔ مسجد حرام، مسجد نبوی اور مسجد اقصی کے بعد مسجد قبا دنیا بھر کی تمام مساجد میں سب سے افضل ہے۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کبھی سوار ہوکر کبھی پیدل چل کر مسجد قبا تشریف لایا کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: جو شخص (اپنے گھر سے) نکلے اور اس مسجد یعنی مسجد قبا میں آکر (دو رکعت) نماز پڑھے تو اسے عمرہ کے برابر ثواب ملے گا ۔
مَسْجدِ جُمُعہ: حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے پہلے اسی مسجد میں جمعہ ادا فرمایا تھا، یہ مسجد قبا کے قریب ہی واقع ہے۔
مَسْجدِ فَتَح (مسجد احْزَاب): یہ مسجد جبل سلع کے غربی کنارے پر اونچائی پر واقع تھی۔ غزوۂ خندق (احزاب) میں جب تمام کفار مدینہ منورہ پر مجتمع ہوکر چڑھ آئے تھے اور خندقیں کھودی گئیں تھیں، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جگہ دعا فرمائی تھی، چنانچہ آپ کی دعا قبول ہوئی اور مسلمانوں کو فتح ہوئی۔ اس مسجد کے قریب کئی چھوٹی چھوٹی مسجدیں بنی ہوئی تھیں جو مسجد سلمان فارسی، مسجد ابو بکر، مسجد عمر اور مسجد علی کے نام سے مشہور ہیں۔ دراصل غزوۂ خندق کے موقع پر یہ ان حضرات کے پڑاؤ تھے جن کو محفوظ اور متعین کرنے کے لئے غالباً سب سے پہلے حضرت عمر بن عبد العزیز ؒ نے مساجد کی شکل دی۔ یہ مقام مساجد خمسہ کے نام سے مشہور ہے۔ اب سعودی حکومت نے اس جگہ پر ایک بڑی عالیشان مسجد (مسجد خندق) کے نام سے تعمیر کی ہے۔
مسجدِ قِبْلَتَیں: تحویل قبلہ کا حکم عصر کی نماز میں ہوا، ایک صحابی نے عصرکی نماز نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پڑھی، پھر انصار کی جماعت پر ان کا گزر ہوا، وہ انصار صحابہ (مسجد قبلتین) میں بیت المقدس کی جانب نماز ادا کررہے تھے ، ان صحابی نے انصار صحابہ کو خبر دی کہ اللہ تعالیٰ نے بیت اللہ کو دوبارہ قبلہ بنادیاہے، اس خبر کو سنتے ہی صحابۂ کرام نے نماز ہی کی حالت میں خانہ کعبہ کی طرف رخ کرلیا۔ کیونکہ اس مسجد (قبلتین) میں ایک نماز دو قبلوں کی طرف ادا کی گئی اس لئے اسے مسجد قبلتین کہتے ہیں۔ بعض روایات میں ہے کہ تحویل قبلہ کی آیت اسی مسجد میں نماز پڑھتے وقت نازل ہوئی تھی۔
مَسْجدِ ابَیْ بن کعب: یہ مسجد جنت البقیع کے متصل ہے، اس جگہ زمانہ نبوی کے مشہور قاری حضرت اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ کا مکان تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہاں اکثر تشریف لاتے اور نماز پڑھتے تھے، نیز حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے قرآن سنتے اور سناتے تھے۔
محمد نجیب قاسمی سنبھلی، ریاض (www.najeebqasmi.com)

حج / عمرہ میں حلق یا قصر
بسم الله الرحمن الرحيم
اَلْحَمْدُ لِله رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلام عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔
حج / عمرہ میں حلق یا قصر
حج /عمرہ میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ والہانہ محبت اور اس محبت میں سب کچھ بھلا دینے کا اظہار ہوتا ہے۔ سلے ہوئے کپڑے اتار کر ایک کفن نما لباس پہن لیا جاتا ہے۔ اب جسم کی زینت کا ہوش ہے نہ کپڑوں کے حسن کا، زیادہ صفائی کا خیال ہے، نہ بال کاڑھنے کا۔ بس لبیک لبیک کی رٹ ہے۔ نیز اللہ تعالیٰ کے گھر پہنچ کر دیوانوں کی طرح کعبہ اور صفا مروہ کے چکر لگانا اور سر کی زینت بالوں کو کٹوا نا ہے۔
حلق کے معنی سر کے بال منڈوانا اور قصر کے معنی بالوں کا کٹواناہے۔
* حج / عمرہ میں حلق یا قصر ضروری ہے، اس کے ترک کرنے پر ایک دم لازم ہوگا، بلکہ حضرت امام شافعی ؒ کے نقطہ نظر میں تو حلق یا قصر حج/ عمرہ کے ارکان میں سے ہے یعنی اس کے بغیر حج یا عمرہ ادا ہو ہی نہیں سکتا، خواہ کتنے ہی دم دے دئے جائیں۔
* پوری امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ مرد حضرات کے لئے سر منڈوانا افضل ہے کیونکہ نبی اکرم ا نے حلق کرانے والوں یعنی بال منڈوانے والوں کے لئے رحمت اور مغفرت کی دعا تین مرتبہ فرمائی ہے اور بال چھوٹے کرانے والوں کے لئے صرف ایک بار دعا فرمائی ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اے اللہ! سرمنڈوانے والوں کی مغفرت فرمائیے، صحابہ نے عرض کیا کہ بال کٹوانے والوں کے لئے (بھی دعا فرمادیجئے) لیکن حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مرتبہ بھی یہی فرمایا: اے اللہ! سرمنڈوانے والوں کی مغفرت فرمائیے، صحابہ نے عرض کیا کہ بال کٹوانے والوں کے لئے (بھی دعا فرمادیجئے) تیسری مرتبہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اور بال کٹوانے والوں کی بھی مغفرت فرمائیے۔ (بخاری ومسلم)
نیز اللہ تعالیٰ نے اپنے پاک کلام میں بال منڈوانے والوں کا ذکر بال کٹوانے والوں سے پہلے کیا ہے : مُحَلِّقِيْنَ رُؤوْسَکُمْ وَمُقَصِّرِيْنَ (سورۃ الفتح ۲۷)۔ نیز نبی اکرم ا نے خود بھی بال ہی منڈوائے (مسلم)۔
* عورتوں کے لئے چونکہ سرکے بال منڈوانا ناجائز ہے، لہذا ان کے لئے صرف قصر ہی ہے، یعنی وہ اپنی چوٹی کے آخر سے انگلی کے ایک پورے کے برابر بال کاٹ دیں۔ (ترمذی)
* سر منڈانے کے لئے ضروری ہے کہ پورے سر کے بال مونڈے جائیں کیونکہ نبی اکرم ا نے آدھے یا چوتھائی سر کے بال مونڈنے سے منع فرمایا ہے جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت بخاری ومسلم میں ہے۔
* سرمنڈوانے کی طرح بالوں کی کٹنگ بھی پورے سر کی ہونی چاہئے کیونکہ مذکورہ آیت میں قصر کو حلق کے ساتھ ذکر کیا ہے۔ جب حلق پورے سر کا ہے تو قصر یعنی بالوں کی کٹنگ بھی پورے سر کی ہی ہونی چاہئے۔ نیز نبی اکرم ا اور صحابۂ کرام سے کسی بھی وقت چند بال سر کے ایک طرف سے اور چند بال دوسری طرف سے قینچی سے کاٹ کر احرام کھولنا ثابت نہیں ہے۔ صرف امام ابوحنیفہؒ (شیخ نعمان بن ثابت ؒ۸۰ھ۔۱۵۰ھ) نے وضو کے مسح پر قیاس کرکے کم از کم چوتھائی سر کے بال کٹنے کی شکل میں وجوب کے ادا ہونے کا فیصلہ فرمایا ہے۔ لہذا معلوم ہوا کہ چند بال سر کے ایک طرف سے اور چند بال دوسری طرف سے قینچی سے کاٹ کر احرام کھول دینا جائز نہیں ہے۔ ایسی صورت میں دم واجب ہوجائے گا۔ لہذا یا تو سر کے بال منڈوائیںیا مشین پھروائیں یا اس طرح بالوں کو کٹوائیں کہ پورے سر کے بال کچھ نہ کچھ کٹ جائیں۔ قران کی آیت:
مُحَلِّقِےْنَ رُؤوْسَکُمْ وَمُقَصِّرِےْنَکے ظاہر سے بھی معلوم ہوتاہے کہ سر پر کٹنگ کا اثرضرور ظاہر ہونا چاہئے ، چندبالوں کی کٹنگ سے یہ مقصد حاصل نہیں ہوتاہے۔
* عورتیں اپنی چوٹی کا سرا پکڑ کر ایک پورے کے برابر بال خود کاٹ لیں یا کسی محرم یا شوہر سے کٹوالیں۔
* سر کے بال حدودِ حرم کے اندر کسی بھی جگہ کٹواسکتے ہیں خواہ حج اد کررہے ہوں یا عمرہ ۔
* بال منڈوانے یا کٹوانے سے پہلے نہ احرام کھولیں اور نہ ہی ناخن وغیرہ کاٹیں، ورنہ دم لازم ہوجائیگا۔
* اگر کسی شخص کے سر پر بال ہی نہیں ہیں تو وہ ایسے ہی سر پر استرا پھروادے اور پھر احرام اتاردے۔
* جب حاجی یا معتمر حج یا عمرہ کے تمام اعمال سے فراغت ہوجائے اور صرف حلق یا قصر کا عمل باقی رہ گیا ہے تو حاجی یا معتمر ایک دوسرے کے بال کاٹ سکتا ہے۔
* بعض حضرات نے عقلی دلائل کی روشنی میں جو لکھا ہے کہ چند بال قصر کے لئے کافی ہیں، ان کامطلوب صرف ایسے شخص کو دم سے بچانا ہے جو ایسی غلطی کرچکا ہو،لیکن ان کا عمل پورے سر کے بال منڈوانے یا کٹوانے کا ہی ہے۔ لہذا جو مرد حضرات اپنے بالوں کی اتنی بھی قربانی نہیں دے سکتے کہ چھوٹے کرالیں تو اُن سے میری درخواست ہے کہ وہ زندگی میں بار بار حج /عمرہ نہ کریں۔
محمد نجیب قاسمی (www.najeebqasmi.com)

حج بدل یا عمرہ بدل
بسم الله الرحمن الرحيم
اَلْحَمْدُ لِله رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلام عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔
حج بدل یا عمرہ بدل
سعودی عرب میں مقیم حضرات کو دوسرے کی جانب سے حج یا عمرہ کرنے کے مسائل سے واقفیت کی اشد ضرورت پڑتی ہے، اس لئے اس موضوع سے متعلق چند احادیث نبویہ اور پھر ان احادیث کی روشنی میں علماء کرام کی آراء تحریر کررہا ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو مسائل سے واقفیت کے ساتھ حج وعمرہ کی ادائیگی کرنے والا بنائے، آمین۔ ثم آمین۔
۱۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ایک عورت نے حجۃ الوداع کے موقعہ پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر حج فرض کیا ہے۔ میرا باپ بوڑھا ہے، سواری پر سوار نہیں ہوسکتا۔ کیا میں ان کی طرف سے حج ادا کرسکتی ہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں۔ کرسکتی ہو۔ (مسلم ، کتاب الحج)
۲۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو شبرمہ کی طرف سے لبیک کہتے ہوئے سنا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص سے پوچھا: شبرمہ کون ہے؟ اس شخص نے عرض کیا : میرا بھائی یاکہا: میرا رشتہ دار۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کیا تم نے اپنا حج ادا کرلیا ہے؟ اس شخص نے عرض کیا : نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : پہلے اپنا حج ادا کرو پھر شبرمہ کی طرف سے حج ادا کرنا۔ (ابوداؤد ۔ کتاب المناسک، ابن ماجہ، صحیح بن حبان)
۳۔ حضرت ابو رزین عقیلی رضی اللہ عنہ )لقیط بن عامر( سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا۔ میرا باپ بوڑھا ہے، حج کی طاقت نہیں رکھتا ہے، نہ عمرہ کی اور نہ ہی اونٹ پر سوار ہونے کی ۔ (ان کے لئے کیا حکم ہے؟) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اپنے باپ کی طرف سے حج اور عمرہ ادا کرو۔ (نسائی۔ کتاب الحج، ترمذی)
۴۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ قبیلہ جہینہ کی ایک عورت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا : میری ماں نے حج کی نذر مانی تھی لیکن مرنے سے قبل حج نہیں کرسکی ، کیا میں ماں کی طرف سے حج کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ہاں۔ ان کی طرف سے حج کرو۔ ہاں، دیکھو اگر تمہاری ماں پر قرض ہوتا تو کیا تم ادا نہیں کرتیں؟ پس اللہ کا قرض ادا کرو۔ اللہ اس بات کا زیادہ حق دار ہے کہ اس کا قرض ادا کیا جائے۔ (بخاری،الحج والنذور عن ا لمیت)
۵۔ حضرت عبداللہ بن بریدہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ ایک عورت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور سوال کیا کہ میری ماں کا انتقال ہوگیا ہے اور انہوں نے زندگی میں کوئی حج ادا نہیں کیا۔ کیا میں ان کی طرف سے حج ادا کرلوں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ہاں۔ اپنی ماں کی طرف سے حج ادا کرو۔ (ترمذی)
۶۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ (حج بدل میں) ایک حج کی وجہ سے تین آدمیوں کو جنت میں داخل فرماتے ہیں، ایک مرحوم (جس کی طرف سے حج بدل ادا کیا جارہاہے)، دوسرا حج کرنے والا اور تیسرا وہ شخص جو حج کو بھیج رہا ہو (یعنی جو رقم خرچ کررہا ہے) ۔ (الترغیب والترھیب)
مذکورہ بالا ودیگر احادیث کی روشنی میں علماء کرام کی آراء:
* جس شخص پر حج فرض ہوچکا ہے اور ادا کرنے کا وقت بھی ملا لیکن ادا نہیں کیا تو حج کی ادائیگی اس کے ذمہ ہے۔ زندگی میں حج کی ادائیگی نہ کرنے پر موت سے قبل حج بدل کرانے کی وصیت کرنا واجب ہے، اگر بلا وصیت کرے مرجائے گا تو گنہگار ہوگا۔
* اگر کوئی شخص‘ کسی انتقال کرگئے شخص کی جانب سے حج بدل یا عمرہ بدل کرنا چاہے تو یہ بالاتفاق جائز ہے، خواہ انتقال کرگئے شخص نے اپنی زندگی میں حج یا عمرہ ادا کیا ہو یا نہیں، البتہ حج بدل یا عمرہ بدل کرنے والا اپنا حج یا عمرہ ادا کرچکا ہو۔
* اگر کوئی شخص‘ کسی ایسے زندہ شخص کی جانب سے حج یا عمرہ کرنا چاہے جو انتہائی بوڑھا اور کمزور ہوچکا ہے یا دائمی مریض ہے جس کا سفر کرنا مشکل ہے تو یہ بھی بالاتفاق جائز ہے خواہ وہ معذور شخص پہلے حج یا عمرہ ادا کرچکا ہو یا نہیں البتہ حج یا عمرہ بدل کرنے والا اپنا حج یا عمرہ ادا کرچکا ہو۔
* اگر کوئی شخص‘ کسی زندہ، صحت مند وتندرست شخص کی جانب سے حج یا عمرہ کرنا چاہے تو اس سلسلہ میں علماء کا اختلاف ہے مگر احتیاط اسی میں ہے کہ زندہ، صحت مند وتندرست شخص کی طرف سے حج یا عمرہ بدل نہ کیا جائے۔
* عورت ‘ مرد کی طرف سے اور مرد ‘ عورت کی طرف حج یا عمرہ بدل کرسکتا ہے۔
* حج بدل کی ادائیگی کا طریقہ وہی ہے جو اپنی طرف سے حج کی ادائیگی کا ہے سوائے نیت کرتے وقت کم از کم یہ ذہن میں رہے کہ کس کی جانب سے حج بدل کیا جارہا ہے۔جس کی جانب سے حج کی ادائیگی کی جارہی ہے احرام کے وقت اُس کی جانب سے زبان سے نیت کرنابہتر ہے۔
* حج بدل میں قربانی اُس شخص کی جانب سے ہوگی جس کی جانب سے حج کی ادائیگی کی جارہی ہے۔
* حج کی تینوں اقسام (تمتع، قران اور افراد) سے حج بدل کیا جاسکتا ہے البتہ بعض اختلافی مسائل سے بچنے کے لئے حج بدل میں حج افراد کرنے میں احتیاط زیادہ ہے، اگرچہ حج تمتع یا حج قران بھی حج بدل میں جائز ہے۔
* حج بدل یا عمرہ بدل کی ادائیگی کی اجرت (یعنی اخراجات کے علاوہ) کا مطالبہ کرنا جائز نہیں ہے، البتہ حج بدل کرانے والا حج بدل کرنے والے شخص کو اخراجات کے علاوہ اپنی مرضی سے ہدےۃً کچھ پیش کرے تو اس کا لینا جائز ہے۔
* ایک حج یا عمرہ میں ایک ہی شخص کی جانب سے نیت کی جاسکتی ہے، یعنی متعدد اشخاص کی جانب سے ایک حج یا عمرہ نہیں کیا جاسکتا ہے۔
* حج بدل (فرض) کی ادائیگی کے لئے چند شرطیں ہیں جو عموماً کتابوں میں مذکور ہیں، لیکن حج بدل (نفل) کے لئے وہ شرائط ضروری نہیں ہیں، مثلاً کوئی شخص اپنے متوفی ٰ والد کی جانب سے حج بدل کرنا چاہتا ہے اور والد پر ان کی زندگی میں حج فرض نہیں تھا تو یہ شخص جب چاہے اپنے والد کی جانب سے حج بدل (نفل) کرسکتا ہے خواہ والد نے وصیت کی تھی یا نہیں۔
* حج یا عمرہ بدل میں احرام کس میقات سے باندھا جائے؟ حج یا عمرہ بدل کرنے والا اپنی میقات سے احرام باندھے یا پھر جس شخص کی جانب سے حج یا عمرہ ادا کیا جارہا ہے، اس کی میقات سے احرام باندھے ؟ مثلاً کوئی شخص سعودی عرب میں مقیم ہے، اپنے بوڑھے والد جو ہندوستان یا پاکستان میں ہیں ان کی طرف سے حج یا عمرہ کرنا چاہتا ہے تو کیا حج یا عمرہ بدل کرنے والے کے لئے ہندوستان یا پاکستان میں رہنے والوں کی میقات یعنی یلملم سے احرام باندھنا ضروری ہے یا وہ اپنی میقات سے بھی احرام باندھ سکتا ہے۔ مسئلہ مختلف فیہ ہے، مگر اختلافات اور ایک میقات سے دوسری میقات پر جانے کی مشقت کو سامنے رکھ کر علماء کرام نے اجازت دی ہے کہ حج یا عمرہ بدل کرنے والا اپنی میقات سے بھی احرام باندھ سکتا ہے۔
محمد نجیب قاسمی، ریاض (www.najeebqasmi.com)

حج / عمرہ سے روک دیا جانا
بسم الله الرحمن الرحيم
اَلْحَمْدُ لِله رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلام عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔
حج / عمرہ سے روک دیا جانا
آج بروز جمعہ (30-10-2009) ریاض ، بریدہ اور جدہ سے چند حضرات نے مسئلہ دریافت کیا۔ جس سے معلوم ہوا کہ اس بدھ اور جمعرات کو عمرہ کی ادائیگی کے لئے جانے والے تقریباً تمام حضرات کو Check Post سے Swine Flu کی بیماری کے انتشار ہونے کے خدشہ کی وجہ سے مکہ مکرمہ جانے سے روک دیا۔ چنانچہ بے شمار حضرات احرام کھول کر عمرہ کی ادائیگی کے بغیر گھر واپس چلے گئے۔ لہذا آپ حضرات سے درخواست ہے کہ مناسکِ حج کی ادائیگی تک عمرہ کرنے کے لئے مکہ مکرمہ نہ جائیں۔
مسئلہ: حج یا عمرہ کا احرام باندھنے کے بعد اگر کسی شخص کو حج یا عمرہ کی ادائیگی سے روکدیا جائے تو احرام باندھنے والے شخص پر ایک دم لازم ہوجائے گا، نیز قضا بھی کرنی ضروری ہوگی، جو زندگی میں کبھی بھی کی جاسکتی ہے۔ جیسا کہ ۶ ہجری میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام کی ایک جماعت کے ساتھ عمرہ کی ادائیگی کے لئے مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ روانہ ہوئے۔ حدیبیہ کے مقام پر کفارِ مکہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کو عمرہ کی ادائیگی سے روک دیا اور صلح حدیبیہ ہوئی۔ چنانچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام نے ایک ایک قربانی دی اور پھر احرام اتارکر عمرہ کی ادائیگی کئے بغیر مدینہ منورہ واپس ہوئے۔ آئندہ سال ۷ ہجری میں نبی اکرم ا اور صحابہ کرام نے عمرہ کی قضا کی۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : (وَاَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَۃَ لِلّٰہِ فَاِنْ اُحْصِرْتُمْ فَمَا اسْتَےْسَرَ مِنَ الْہَدْیِ) (سورہ البقرہ ۱۹۶) حج یا عمرہ کو اللہ تعالیٰ کے لئے پورا کرو۔ یعنی حج یا عمرہ کا احرام باندھ لو توپھر اس کا پورا کرنا ضروری ہے ‘ چاہے نفلی حج و عمرہ ہو۔۔۔۔ ہاں اگر تم روک دئے جاؤ تو جو قربانی میسر ہو اسے کر ڈالو۔ اگر راستے میں کوئی رکاوٹ آجائے تو ایک جانور یعنی ایک بکری، اور گائے یا اونٹ کا ساتواں حصہ جو بھی میسر ہو ذبح کرلو۔
مسئلہ: اگر محرم کو بیماری یا دشمن یا کسی دوسری وجہ سے حج یا عمرہ کی عدم ادائیگی کا خوف ہو تو اس کو چاہئے کہ احرام باندھتے وقت یوں کہے کہ اگر مجھے کوئی عذر لاحق ہوا تو میں وہیں حلال ہوجاؤں گا ۔ اس شرط کے ساتھ محرم کو اگر کوئی رکاوٹ پیش آجائے تو اس کے لئے حلال ہونا جائز ہے۔ اور اس پر کوئی دم واجب نہیں ہوگا۔ (الشیخ عبدالعزیز بن بازؒ)
وضاحت: جن حضرات پر حج یا عمرہ میں کوئی دم واجب ہوجائے تو وہ اس کو اپنے لئے کوئی عقاب یا سزا نہ سمجھیں، بلکہ یہ ایک اللہ کا حکم ہے، اس کو خوشی سے انجام دیں۔ اس کی ادائیگی پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے اجر وثواب ملے گا۔ ان شاء اللہ۔ دم کا فوری طور پر ادا کرنا ضروری نہیں ہوتا ہے۔
محمد نجیب قاسمی، ریاض

اسلام کے پانچویں رکن یعنی حج کی اہمیت و فضیلت
بسم الله الرحمن الرحيم
اَلْحَمْدُ لِله رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلام عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔
اسلام کے پانچویں رکن یعنی حج کی اہمیت و فضیلت
اشہر حج یعنی حج کے ایام شروع ہوچکے ہیں، دنیا کے کونے کونے سے ہزاروں عازمین حج ‘ حج کا ترانہ یعنی لبیک پڑھتے ہوئے مکہ مکرمہ پہنچ رہے ہیں، کچھ راستے میں ہیں اور کچھ جانے کے لئے تیار ہیں۔ جلدی ہی لاکھوں حجاج کرام اسلام کے پانچویں اہم رکن کی ادائیگی کے لئے دنیاوی ظاہری زیب وزینت کو چھوڑکر اللہ جل شانہ کے ساتھ والہانہ محبت میں مشاعر مقدسہ (منی، عرفات اور مزدلفہ) پہنچ جائیں گے اور وہاں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقہ پر حج کی ادائیگی کرکے اپنا تعلق حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی عظیم قربانیوں کے ساتھ جوڑیں گے۔ حج کو اسی لئے عاشقانہ عبادت کہتے ہیں کیونکہ حاجی کے ہر عمل سے وارفتگی اور دیوانگی ٹپکتی ہے۔ حج اس لحاظ سے بڑی نمایاں عبادت ہے کہ یہ بیک وقت روحانی، مالی اور بدنی تینوں پہلوؤں پر مشتمل ہے، یہ خصوصیت کسی دوسری عبادت کو حاصل نہیں ہے۔
حج کی فرضیت کے بعد ادائیگی میں تاخیر نہیں کرنی چاہئے:
اس اہم عبادت کی حضوصی تاکید احادیث نبویہ میں وارد ہوئی ہے اور اُن لوگوں کے لئے جن پر حج فرض ہوگیا ہے لیکن دنیاوی اغراض یا سستی کی وجہ سے بلاشرعی مجبوری کے حج ادا نہیں کرتے، سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں ان میں سے چند حسب ذیل ہیں:
* حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: فریضۂ حج ادا کرنے میں جلدی کرو کیونکہ کسی کو نہیں معلوم کہ اسے کیا عذر پیش آجائے۔ (مسند احمد)
* حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص حج کا ارادہ رکھتا ہے (یعنی جس پر حج فرض ہوگیا ہے) اس کو جلدی کرنی چاہئے۔ (ابو داؤد)
* حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص کو کسی ضروری حاجت یا ظالم بادشاہ یا شدید مرض نے حج سے نہیں روکا اور اس نے حج نہیں کیا اور مرگیا تو وہ چاہے یہودی ہوکر مرے یا نصرانی ہوکر مرے۔ (الدارمی) (یعنی یہ شخص یہود ونصاری کے مشابہ ہے)۔
* حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے ارادہ کیا کہ کچھ آدمیوں کو شہر بھیج کر تحقیق کراؤں کہ جن لوگوں کو حج کی طاقت ہے اور انھوں نے حج نہیں کیا ،تاکہ ان پر جزیہ مقرر کردیا جائے۔ ایسے لوگ مسلمان نہیں ہیں، ایسے لوگ مسلمان نہیں ہیں۔ اسی طرح حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انھوں نے فرمایا کہ جس نے قدرت کے باوجود حج نہیں کیا، اس کے لئے برابر ہے کہ وہ یہودی ہوکر مرے یا عیسائی ہوکر۔ (سعید نے اپنی سنن میں روایت کیا)
حج کی اہمیت وفضیلت:
احادیث نبویہ میں حج بیت اللہ کی خاص اہمیت اور متعدد فضائل احادیث نبویہ میں وارد ہوئے ہیں ، چند احادیث حسب ذیل ہیں:
* حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کون سا عمل سب سے افضل ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانا۔ پھر عرض کیا گیا کہ اس کے بعد کون سا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کی راہ میں جہاد کرنا۔ پھر عرض کیا گیا کہ اس کے بعد کون سا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حج مقبول۔ (بخاری ومسلم)
* حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے محض اللہ کی خوشنودی کے لئے حج کیا اور اس دوران کوئی بیہودہ بات یا گناہ نہیں کیا تو وہ (پاک ہوکر) ایسا لوٹتا ہے جیسا ماں کے پیٹ سے پیدا ہونے کے روز (پاک تھا)۔ (بخاری ومسلم)
* حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک عمرہ دوسرے عمرہ تک ان گناہوں کا کفارہ ہے جو دونوں عمروں کے درمیان سرزد ہوں اور حج مبرور کا بدلہ تو جنت ہی ہے۔ (بخاری ومسلم)
* حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پے درپے حج وعمرے کیا کرو۔ بے شک یہ دونوں (حج وعمرہ) فقر یعنی غریبی اور گناہوں کو اس طرح دور کردیتے ہیں جس طرح بھٹی لوہے کے میل کچیل کو دور کردیتی ہے۔ (ابن ماجہ)
* حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: اپنا دایاں ہاتھ آگے کیجئے تاکہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کروں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دایاں ہاتھ آگے کیا تو میں نے اپنا ہاتھ پیچھے کھینچ لیا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا، عمرو کیا ہوا۔ میں نے عرض کیا، یا رسول اللہ! شرط رکھنا چاہتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تم کیا شرط رکھنا چاہتے ہو؟ میں نے عرض کیا ( گزشتہ) گناہوں کی مغفرت کی۔ تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تجھے معلوم نہیں کہ اسلام (میں داخل ہونا) گزشتہ تمام گناہوں کو مٹادیتا ہے، ہجرت گزشتہ تمام گناہوں کو مٹادیتی ہے اور حج گزشتہ تمام گناہوں کو مٹادیتا ہے۔ (مسلم)
* حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: جو حاجی سوار ہوکر حج کرتا ہے اس کی سواری کے ہر قدم پر ستّر نیکیاں لکھی جاتی ہیں اور جو حج پیدل کرتا ہے اس کے ہر قدم پر سات سو نیکیاں حرم کی نیکیوں میں سے لکھی جاتی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ حرم کی نیکیاں کتنی ہوتی ہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک نیکی ایک لاکھ نیکیوں کے برابر ہوتی ہے۔ (بزاز، کبیر، اوسط)
عورتوں کے لئے عمدہ ترین جہاد حج مبرور:
* ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کیا، یا رسول اللہ! ہمیں معلوم ہے کہ جہاد سب سے افضل عمل ہے، کیا ہم جہاد نہ کریں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: نہیں (عورتوں کے لئے) عمدہ ترین جہاد حج مبرور ہے۔ (بخاری)
* ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کیا عورتوں پر بھی جہاد (فرض) ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان پر ایسا جہاد فرض ہے جس میں خوں ریزی نہیں ہے اور وہ حج مبرور ہے۔ (ابن ماجہ)
حجاج کرام اللّہ کے مہمان ہیں اور ان کی دعائیں قبول کی جاتی ہیں:
* حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حج اور عمرہ کرنے والے اللہ کے مہمان ہیں۔ اگر وہ اللہ تعالیٰ سے دعائیں کریں تو وہ قبول فرمائے، اگر وہ اس سے مغفرت طلب کریں تو وہ ان کی مغفرت فرمائے۔ (ابن ماجہ)
* حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب کسی حج کرنے والے سے تمہاری ملاقات ہو تو اُس کے اپنے گھر میں پہونچنے سے پہلے اس کو سلام کرو اور مصافحہ کرو اور اس سے اپنی مغفرت کی دعا کے لئے کہوکیونکہ وہ اس حال میں ہے کہ اس کے گناہوں کی مغفرت ہوچکی ہے۔ (مسند احمد)
حج کی نیکی لوگوں کو کھانا کھلانا، نرم گفتگو کرنا اور سلام کرنا:
* حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: حج مبرور کا بدلہ جنت کے سوا کچھ نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ حج کی نیکی کیا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حج کی نیکی‘ لوگوں کو کھانا کھلانا اور نرم گفتگو کرنا ہے۔ (رواہ احمد والطبرانی فی الاوسط وابن خزیمۃ فی صحیحہ)۔ مسند احمد اور بیہقی کی روایت میں ہے کہ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حج کی نیکی‘ کھانا کھلانا اور لوگوں کو کثرت سے سلام کرنا ہے ۔
حج وعمرہ میں خرچ کرنا اجروثواب کا باعث:
* حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: حج میں خرچ کرنا جہاد میں خرچ کرنے کی طرح ہے، یعنی حج میں خرچ کرنے کاثواب سات سو گنا تک بڑھایا جاتا ہے۔ (مسند احمد)
* حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تیرے عمرے کا ثواب تیرے خرچ کے بقدر ہے یعنی جتنا زیادہ اس پر خرچ کیا جائے گا اتنا ہی ثواب ہوگا۔ (الحاکم)
حج کا ترانہ لبیک:
* حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب حاجی لبیک کہتا ہے تو اس کے ساتھ اس کے دائیں اور بائیں جانب جو پتھر، درخت اور ڈھیلے وغیرہ ہوتے ہیں وہ بھی لبیک کہتے ہیں اور اسی طرح زمین کی انتہا تک یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے (یعنی ہر چیز ساتھ میں لبیک کہتی ہے)۔ (ترمذی، ابن ماجہ)
بیت اللہ کا طواف:
* حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ جل شانہ کی ایک سو بیس (۱۲۰) رحمتیں روزانہ اِس گھر (خانہ کعبہ) پر نازل ہوتی ہیں جن میں سے ساٹھ طواف کرنے والوں پر، چالیس وہاں نماز پڑھنے والوں پر اور بیس خانہ کعبہ کو دیکھنے والوں پر ۔ (طبرانی)
* حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: جس نے خانہ کعبہ کا طواف کیا اور دو رکعت اداکیں گویا اس نے ایک غلام آزاد کیا ۔ (ابن ماجہ)
حجر اسود، مقام ابراہیم اور رکن یمانی:
* حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: حجر اسود اور مقام ابراہیم قیمتی پتھروں میں سے دو پتھر ہیں، اللہ تعالیٰ نے دونوں پتھروں کی روشنی ختم کردی ہے، اگر اللہ تعالیٰ ایسا نہ کرتا تو یہ دونوں پتھر مشرق اور مغرب کے درمیان ہر چیز کو روشن کردیتے۔ (ابن خزیمہ)
* حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: حجر اسود جنت سے اترا ہوا پتھر ہے جو کہ دودھ سے زیادہ سفید تھا لیکن لوگوں کے گناہوں نے اسے سیاہ کردیا ہے ۔ (ترمذی)
* حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: حجر اسود کو اللہ جل شانہ قیامت کے دن ایسی حالت میں اٹھائیں گے کہ اس کی دو آنکھیں ہوں گی جن سے وہ دیکھے گا اور زبان ہوگی جن سے وہ بولے گا اور گواہی دے گا اُس شخص کے حق میں جس نے اُس کا حق کے ساتھ بوسہ لیا ہو۔ (ترمذی ، ابن ماجہ)
* حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ان دونوں پتھروں (حجر اسود اور رکن یمانی) کو چھونا گناہوں کو مٹاتا ہے۔ (ترمذی)
* حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: رکن یمانی پر ستّر فرشتے مقرر ہیں، جو شخص وہاں جاکر یہ دعا پڑھے: (اللّٰهمّ اِنِّی اَسْءَلُکَ الْعَفْوَ وَالْعَافِية فِی الدُّنْيا وَالْاخِرَۃ رَبّنَا آتِنَا فِی الدُّنْيا حَسَنَة وّفِی الْاخِرَۃ حَسَنَة وّقِنَا عَذَابَ النّارِ) تو وہ سب فرشتے آمین کہتے ہیں ۔ (یعنی یا اللہ! اس شخص کی دعا قبول فرما) (ابن ماجہ)
حطیم بیت اللہ کا ہی حصہ:
* حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں کعبہ شریف میں داخل ہوکر نمازپڑھنا چاہتی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرا ہاتھ پکڑکر حطیم میں لے گئے اور فرمایا: جب تم بیت اللہ (کعبہ) کے اندر نماز پڑھنا چاہو تو یہاں (حطیم میں) کھڑے ہوکر نماز پڑھ لو۔ یہ بھی بیت اللہ شریف کا حصہ ہے۔ تیری قوم نے بیت اللہ (کعبہ) کی تعمیر کے وقت (حلال کمائی میسر نہ ہونے کی وجہ سے ) اسے (چھت کے بغیر) تھوڑا سا تعمیر کرادیا تھا۔ (نسائی)
آب زمزم:
* حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: زمزم کا پانی جس نیت سے پیا جائے وہی فائدہ اس سے حاصل ہوتا ہے۔ (ابن ماجہ)
* حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: روئے زمین پر سب سے بہتر پانی زمزم ہے جو بھوکے کے لئے کھانا اور بیمار کے لئے شفا ہے۔ (طبرانی)
* حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا زمزم کا پانی (مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ ) لے جایا کرتی تھیں اور فرماتیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی لے جایا کرتے تھے۔ (ترمذی)
عرفہ کا دن:
* حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: عرفہ کے دن کے علاوہ کوئی دن ایسا نہیں جس میں اللہ تعالیٰ کثرت سے بندوں کو جہنم سے نجات دیتے ہوں، اس دن اللہ تعالیٰ (اپنے بندوں کے) بہت زیادہ قریب ہوتے ہیں اور فرشتوں کے سامنے اُن (حاجیوں) کی وجہ سے فخر کرتے ہیں اور فرشتوں سے پوچھتے ہیں (ذرا بتاؤ تو) یہ لوگ مجھ سے کیا چاہتے ہیں ۔ (مسلم)
* حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: غزوۂ بدر کا دن تو مستثنیٰ ہے اسکو چھوڑکر کوئی دن عرفہ کے دن کے علاوہ ایسا نہیں جس میں شیطان بہت ذلیل ہورہا ہو، بہت راندہ پھر رہاہو، بہت حقیر ہورہا ہو، بہت زیادہ غصہ میں پھر رہا ہو، یہ سب کچھ اس وجہ سے کہ وہ عرفہ کے دن اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کا کثرت سے نازل ہونا اور بندوں کے بڑے بڑے گناہوں کا معاف ہونا دیکھتا ہے۔(مشکوۃ)
حج یا عمرہ کے سفر میں انتقال:
* حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص حج کو جائے اور راستہ میں انتقال کرجائے، اس کے لئے قیامت تک حج کا ثواب لکھا جائے گا اور جو شخص عمرہ کے لئے جائے اور راستہ میں انتقال کرجائے تو اس کو قیامت تک عمرہ کا ثواب ملتا رہے گا۔ (ابن ماجہ)
اللہ تبارک وتعالیٰ تمام عازمین حج کے حج کو مقبول ومبرور بنائے، آمین۔
محمد نجیب قاسمی سنبھلی، ریاض (www.najeebqasmi.com)

حج کا مختصر وآسان طریقہ
حج کا مختصر وآسان طریقہ
تلبیہ: لَبَّیک، اَللّٰهمَّ لَبَّیک، لَبَّیکَ لَا شَرِیکَ لَکَ لَبَّیک، اِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْم لَکَ وَالْمُلْک لَاشَرِيکَ لَک
حج کی تین قسمیں ہیں: (۱) تمتع (۲) قران (۳) افراد، ان اقسام میں سے جونسی قسم چاہیں اختیار کریں البتہ میقات کے اندر رہنے والے لوگ حج افراد کریں
حج تمتع:میقات سے صرف عمرہ کا احرام باندھیں، عمرہ کا طواف اور سعی کریں، بال منڈواکر یا کٹواکر احرام اتاردیں، ۷ یا ۸ ذی الحجہ کو حج کا احرام باندھیں، ۸ ذی الحجہ کو تلبیہ پڑھتے ہوئے منی جاکر وہ اعمال کریں جو حج کے چھ ایام میں مذکور ہیں۔
حج قران:میقات سے حج اور عمرہ کا ایک ساتھ احرام باندھیں، عمرہ کا طواف اور سعی کریں، احرام ہی کی حالت میں رہیں، ممنوعات احرام سے بچتے رہیں، ۸ ذی الحجہ کو تلبیہ پڑھتے ہوئے منی جاکر وہ اعمال کریں جو حج کے چھ ایام میں مذکور ہیں۔
حج افراد):میقات سے صرف حجکا احرام باندھیں، طواف قدوم (سنت) کریں، احرام ہی کی حالت میں رہیں، ممنوعا ت احرام سے بچتے رہیں، ۸ ذی الحجہ کو تلبیہ پڑھتے ہوئے منی چلے جائیں اور وہ اعمال کریں جو حج کے چھ ایام میں مذکور ہیں۔
حج کے چھ ایام:
حج کا پہلا دن: ۸ ذی الحجہ : آج منی میں قیام کرکے ظہر، عصر ، مغرب، عشاء اور ۹ ذی الحجہ کی نماز فجر ادا کریں۔ منی میں یہ پانچوں نمازیں ادا کرنا اور آج کی رات منی میں گزارنا سنت ہے، لہذا اگر کسی وجہ سے منی پہنچنے میں کچھ تاخیر ہوجائے یا منی نہ پہنچ سکیں تو کوئی دم وغیرہ لازم نہیں، لیکن قصداً ایسا نہ کریں۔
حج کا دوسرا دن: ۹ ذی الحجہ : آج صبح تلبیہ پڑھتے ہوئے منی سے عرفات کے لئے روانہ ہوجائیں۔ عرفات پہونچ کرظہر اور عصر کی نمازیں وہاں اداکریں۔ غروب آفتاب تک قبلہ رخ کھڑے ہوکر خوب دعائیں کریں۔ غروب آفتاب کے بعدتلبیہ پڑھتے ہوئے عرفات سے مزدلفہ روانہ ہوجائیں۔ مزدلفہ پہونچ کر مغرب اور عشاء کی نمازیں عشاء کے وقت میں ادا کریں۔ رات مزدلفہ میں گزاریں، البتہ خواتین اور معذور لوگ آدھی رات کے بعد مزدلفہ سے منی جاسکتے ہیں۔
حج کا تیسرا دن: ۱۰ ذی الحجہ: مزدلفہ میں نماز فجر ادا کرکے دعائیں کریں۔ طلوع آفتاب سے قبل منی کے لئے روانہ ہوجائیں۔ کنکریاں بھی اٹھالیں۔ منی پہونچ کر بڑے اور آخری جمرہ پر ۷ کنکریاں ماریں۔ تلبیہ پڑھنا بند کردیں۔ قربانی کریں۔ بال منڈوائیں یا کٹوائیں۔ احرام اتاردیں۔ طواف زیارت یعنی حج کا طواف اور حج کی سعی کریں۔ (قربانی، بال کٹوانے، طواف زیارت اور حج کی سعی کو ۱۲ ذی االحجہ کی مغرب تک مؤخر کرسکتے ہیں)۔
حج کا چوتھا اور پانچواں دن: ۱۱ و ۱۲ ذی الحجہ: منی میں قیام کرکے تینوں جمرات پر زوال کے بعد سات سات کنکریاں ماریں۔ قربانی، طواف زیارت اور حج کی سعی ۱۰ ذی الحجہ کو نہیں کرسکے تو ۱۱ یا ۱۲ذی الحجہ کو بھی دن ورات میں کسی وقت کر سکتے ہیں۔ ۱۲ ذی الحجہ کو کنکریاں مارنے کے بعد منی سے جاسکتے ہیں۔
حج کا چھٹا دن: ۱۳ ذی الحجہ: اگر آپ ۱۲ ذی الحجہ کو منی سے روانہ نہیں ہوئے توتینوں جمرات پر زوال کے بعدکنکریاں ماریں۔
حج کے فرائض وواجبات وممنوعات احرام
حج کے فرائض: احرام ۔ وقوف عرفہ ۔ طواف زیارت کرنا۔ بعض علماء نے سعی کو بھی حج کے فرائض میں شمار کیا ہے۔
حج کے واجبات: میقات سے احرام کے بغیر نہ گذرنا ۔ عرفہ کے دن غروب آفتاب تک میدان عرفات میں رہنا ۔ مزدلفہ میں وقوف کرنا ۔ جمرات کو کنکریاں مارنا ۔ قربانی کرنا (حج افراد میں واجب نہیں) ۔ سر کے بال منڈوانا یا کٹوانا۔ سعی کرنا ۔ طواف وداع کرنا ۔ حج کے فرائض میں سے اگر کوئی ایک فرض چھوٹ جائے تو حج صحیح نہیں ہوگا جس کی تلافی دم سے بھی ممکن نہیں۔ اگر واجبات میں سے کوئی ایک واجب چھوٹ جائے تو حج صحیح ہوجائے گا مگر جزا لازم ہوگی۔
ممنوعات احرام: خوشبو استعمال کرنا۔ ناخن کاٹنا ۔ جسم سے بال دور کرنا ۔ میاں بیوی والے خاص تعلقات۔ چہرہ کا ڈھانکنا۔ سلے ہوئے کپڑے پہننا (صرف مردوں کے لئے)۔ سر کو ڈھانکنا (صرف مردوں کے لئے)۔ ۔۔ میقات سے باہر رہنے والے حضرات واپسی کے وقت طواف وداع ضرور کریں۔
محمد نجیب قاسمی سنبھلی (www.najeebqasmi.com)

حجاج کرام کے لے ۱۰ ذی الحجہ کے اعمال میں ترتیب
بسم الله الرحمن الرحيم
اَلْحَمْدُ لِله رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلام عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔
حجاج کرام کے لے ۱۰ ذی الحجہ کے اعمال میں ترتیب
۱۰ذی الحجہ کا دن حجاج کرام کے لئے کافی مصروف دن ہوتا ہے،حجاج کرام کے لئے دس ذی الحجہ سے متعلق چار اعمال ہیں:
رمی (آخری جمرہ پر سات کنکریاں مارنا)
قربانی
حلق یا قصر (بال منڈوانا یا کٹوانا )
طواف زیارت اور حج کی سعی۔
وضاحت: ۱۰ذی الحجہ کو رمی صبح سے مغرب تک کی جاسکتی ہے اور اگر مغرب تک کنکریاں نہ مار سکے تو رات میں بھی کنکریاں مار سکتے ہیں۔ قربانی، حلق یا قصر اور طواف زیارت وحج کی سعی ۱۰ذی الحجہ ہی کو کرنا ضروری نہیں ہے بلکہ ۱۲ ذی الحجہ کے غروب آفتاب تک دن رات میں کسی بھی وقت کرسکتے ہیں، بعض علماء نے ۱۳ ذی الحجہ تک اجازت دی ہے، لیکن بہتر یہی ہے کہ ان اعمال سے۱۰ ذی الحجہ کو ہی فارغ ہوجائیں۔ ۱۰ ذی الحجہ کے یہ مذکورہ اعمال قیامت تک آنے والے تمام انس وجن کے نبی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے حجۃ الوداع میں جس ترتیب سے انجام دئے تھے وہ صحیح مسلم کی مذکورہ حدیث میں وارد ہے:
حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب منی آئے تو پہلے جمرہ عقبہ پر گئے اور وہاں کنکریاں ماریں، پھر منی میں اپنی قیام گاہ پر تشریف لائے اور پھر قربانی کی، اس کے بعد حجام سے کہالو اور اپنے سر کے داہنی طرف اشارہ کیا اور پھر بائیں جانب اشارہ کیا اور اپنے بال لوگوں کے دینے شروع کردئے۔ (مسلم ۔ کتاب الحج ۔ باب بیان ان السنۃ یوم النحر ان یرمی ثم ینحر ثم یحلق والابتداء فی الحلق بالجانب الایمن من راس المحلوق)
نیز صحیح مسلم میں وارد ہے کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دسویں ذی الحجہ کو جمرہ عقبہ کی کنکریاں مارتے ہوئے ارشاد فرمارہے تھے کہ مجھ سے اپنے مناسکِ حج سیکھ لو، اس لئے کہ مجھے معلوم نہیں کہ میں اس حج کے بعد پھر حج کروں گا۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال وافعال کی روشنی میں پوری امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ حجاج کرام کو ۱۰ ذی الحجہ کے اعمال اُسی ترتیب سے کرنے چاہئیں جو صحیح مسلم میں ذکر کئے گئے ہیں اور عازمین حج کو یہی تعلیم دینی چاہئے کہ یہ چاروں اعمال اُسی ترتیب سے کریں جس ترتیب سے تمام نبیوں کے سردار حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پہلے اور آخری حج میں کئے تھے۔ لیکن اگر کوئی حاجی ان اعمال کو ترتیب کے خلاف کرلے مثلاً رمی سے قبل قربانی کرلے یا رمی سے قبل بال منڈوادے تو کیا اس کی وجہ سے کوئی دم واجب ہوگا یا نہیں؟ اس میں فقہاء وعلماء کرام کے درمیان اختلاف ہے۔ طواف زیارت اور باقی تمام تین اعمال (رمی، قربانی اور حلق) کے درمیان بالاتفاق ترتیب واجب نہیں ہے، یعنی طواف زیارت‘ رمی، قربانی اور حلق یا قصر سے قبل یا بعد میں کبھی بھی کیا جاسکتا ہے۔ ان اعمال سے فراغت کے بعد طواف زیارت عام لباس میں ورنہ احرام کی حالت میں ادا کیا جائے گا۔ اس پر بھی اتفاق ہے کہ حج افراد ادا کرنے والے کے لئے چونکہ قربانی واجب نہیں ہے اس لئے اس کے حق میں قربانی میں بھی ترتیب ضروری نہیں ہے۔ حضرت امام ابوحنیفہ ؒ کی رائے میں حج قران اور حج تمتع کرنے والے کے لئے رمی، قربانی اور حلق یا قصر میں ترتیب ضروری ہے، چنانچہ حضرت امام ابوحنیفہ ؒ کے رائے میں رمی، قربانی اور حلق یا قصر میں ترتیب کی خلاف ورزی کی صورت میں دم واجب ہوگا۔ لیکن حضرت امام ابوحنیفہؒ کے نقطۂ نظر کی بابت یہ بات ضرور ملحوظ رکھیں کہ اگر کوئی شخص مسائل سے عدم واقفیت کی بنا پر ترتیب کی خلاف ورزی کرے تو خود حضرت امام ابوحنیفہ ؒ کے نزدیک بھی دم واجب نہیں ہوگا، حضرت امام ابوحنیفہؒ کے مشہور شاگرد حضرت امام محمدؒ نے خود اس کی وضاحت فرمائی ہے۔ حضرت امام ابوحنیفہ ؒ کی دلیل حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا یہ قول ہے: جس شخص نے حج کے کسی (اہم) عمل کو مقدم یا مؤخر کیا تو اس پر دم واجب ہوگا۔ نیز یہ بھی دلیل ہے کہ احرام باندھنے کے بعد اگر کسی حاجی کے سر میں بہت زیادہ جوئیں ہوجائیں تو شریعت اسلامیہ نے احرام کی حالت میں سر منڈوانے کی اجازت دی ہے لیکن فدیہ واجب ہوگا یعنی روزہ یا صدقہ یا قربانی جیساکہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورۃ البقرۃ آیت ۱۹۶ میں ذکر کیا ہے، تو جب عذر کی وجہ سے قبل از وقت سر منڈوانے پر روزہ یا فدیہ یا دم واجب ہوا تو بغیر عذر کے اگر قربانی اور رمی سے قبل حلق کردے تو بدرجہ اولیٰ دم واجب ہونا چاہئے۔
اس کے علاوہ عقلی دلیل بھی ہے کہ جس طرح میقات مکانی میں تاخیر ہوجائے یعنی کوئی شخص احرام کے بغیر میقات سے تجاوز کرجائے تو دم واجب ہوتا ہے، اسی طرح ۱۰ ذی الحجہ کو جس عمل کے لئے جو وقت مقرر ہے، مثلاً اوّل رمی، پھر قربانی اور پھر حلق یا قصرتو مقررہ وقت سے تاخیر یعنی ترتیب کے بدلنے پر دم آنا چاہئے۔
حضرت امام مالکؒ کی رائے ہے کہ رمی سے قبل حلق یا قصر کرانے والے پر دم واجب ہوگا ۔ (المدونہ الکبری ۱/۲۳(
حضرت امام احمد بن حنبل ؒ ، حضرت امام شافعیؒ اور حضرت امام ابوحنیفہ ؒ کے دونوں مشہور شاگرد حضرت امام یوسفؒ اور حضرت امام محمدؒ کی رائے ہے کہ ان مذکورہ اعمال میں ترتیب واجب نہیں بلکہ سنت ہے۔ (رد المختار ۲/۲۵۰، بدائع الصنائع ۲/۱۴۱) لیکن سب نے جانتے بوجھتے ترتیب کی خلاف ورزی کو باعث کراہت کہا ہے۔ ان حضرات کا استدلال اُن مشہور روایات سے ہے جو صحاح ستہ میں منقول ہیں اور جن میں حج سے فراغت کے بعد ذبح سے پہلے حلق اور رمی سے قبل ذبح کے سوال میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے “کوئی حرج نہیں ہے” فرمایا ہے۔
حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم حجۃ الوداع میں منی میں لوگوں کے لئے تشریف فرماہوئے تاکہ لوگ سوال کریں، ایک شخص نے کہا کہ میں نے لاعلمی میں ذبح سے پہلے حلق کیا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ذبح کرلو کوئی حرج نہیں، دوسرے نے آکر کہا میں نے رمی سے قبل قربانی کرلی ہے، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کوئی حرج نہیں، تقدیم اور تاخیر سے متعلق جو بھی سوال کیا گیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کوئی حرج نہیں۔ (صحیح بخاری(
ائمہ ثلاثہ اور صاحبین نے اس حدیث میں حرج سے حرج دنیوی اور حرج اخروی دونوں ہی مراد لئے ہیں ، یعنی نہ ایسے شخص پر دم جنایت واجب ہوگا اور نہ وہ آخرت میں گنہ گار ہوگا۔ حضرت امام ابوحنیفہ ؒ نے اس حدیث سے حرج اخروی مراد لیا ہے یعنی ان تنیوں اعمال کے آگے پیچھے کرنے پر آخرت میں کوئی گناہ نہیں ہوگا۔ نیز غلطی کرنے والے صحابۂ کرام کو مسائل سے واقفیت ہی نہیں تھی جیساکہ احادیث کے الفاظ سے واضح ہوتاہے اور مسائل سے نا واقفیت کی وجہ سے ان اعمال کو ترتیب سے نہ کرنے پر حضرت امام ابوحنیفہ ؒ کی رائے میں بھی کوئی دم لازم نہیں۔ لیکن قصداً ان اعمال کو ترتیب کے خلاف کرنے پر حضرت امام ابوحنیفہ ؒ کی رائے میں دم لازم ہوگا۔
اس موضوع پر فقہ اسلامی ہند نے قاضی مجاہد الاسلام قاسمی رحمۃ اللہ علیہ کی سرپرستی میں علماء وفقہاء کا ایک سیمنار منعقد کیا تھا کہ حضرت امام ابوحنیفہ ؒ کی رائے میں ۱۰ ذی الحجہ کے اعمال (رمی، قربانی اور حلق یا قصر) میں ترتیب برقرار رکھنا ضروری ہے، لیکن آج کے حالات میں ترتیب برقرار رکھنا انتظامی امور کی وجہ سے مشکل ہوگیا ہے، نیز ان دنوں حکومت سعودیہ نے اپنی نگرانی میں ادارے قائم کئے ہیں جو قربانی کراتے ہیں اور یہ محسوس کیا جاتا ہے کہ ان کے یہاں ترتیب واجب نہ ہونے کی وجہ سے عموماً ترتیب کا خیال نہیں رکھا جاتا ہے تو کیا اس کے حل کے لئے عدم وجوب کے قائلین اور احناف میں صاحبین کے قول کو اختیار کیا جاسکتا ہے؟ اس موضوع پر متعدد مفتیان کرام نے اپنے قیمتی مقالے تحریر کئے ہیں۔ اکثر مفتیان کرام کی رائے پر یہ فیصلہ کیا گیاکہ جمہور اور صاحبین کی رائے بھی قوی دلیل پر مبنی ہے اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جن مسائل میں حضرت امام ابوحنیفہؒ اور صاحبین کے درمیان اختلاف ہو ان میں صاحبین کی رائے کو ترجیح دینا اصحاب افتاء کے یہاں کوئی نادر امر نہیں ہے،چنانچہ فیصلہ کیا گیا کہ حجاج کرام کو چاہئے کہ جہاں تک ممکن ہو ترتیب کی رعایت کو ملحوظ رکھیں اور یہی مطلوب ومقصود ہے تا ہم ازدحام، موسم کی شدت اور مذبح کی دوری وغیرہ کی وجہ سے صاحبین اور ائمہ ثلاثہ کے قول پر عمل کرنے کی گنجائش ہے، لہذا اگر یہ مناسک ترتیب کے خلاف ہوں تو دم واجب نہیں ہوگا۔
ان دنوں بعض حضرات حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور صحابۂ کرام کے عمل کے برخلاف عازمین حج کو ابتداء ہی سے یہ دعوت دیتے ہیں کہ ۱۰ ذی الحجہ کے اعمال (رمی، قربانی اور حلق یا قصر) اپنی سہولت سے جب چاہیں کریں۔ ان اعمال میں ترتیب واجب نہ ہونے کو اگر تسلیم بھی کرلیا جائے تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہم عازمین حج کو حج کی ادائیگی سے قبل یہ ترغیب دیں کہ وہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق ان اعمال کو کرنے کی کوئی کوشش ہی نہ کریں بلکہ اپنی مرضی اور سہولت سے ان اعمال میں سے جو چاہیں کرلیں۔ یہ یقیناًشریعت اسلامیہ کی روح کے خلاف ہے، علماء کرام کو چاہئے کہ وہ عازمین حج کو یہی تعلیم دیں کہ ۱۰ ذی الحجہ کے اعمال اُسی ترتیب سے کریں جس ترتیب سے حضور اکر م صلی اللہ علیہ وسلم نے کئے تھے جیسا کہ صحیح مسلم کی حدیث میں گزرا ،اور حجۃ الوداع میں ایک لاکھ سے زیادہ صحابۂ کرام نے یہ اعمال اسی ترتیب سے کئے تھے۔ لیکن اگر کوئی حاجی غلطی سے، لاعلمی سے، تکلیف اور دشواری کی وجہ سے یہ اعمال ترتیب سے نہ کرسکا تو ان شاء اللہ دم واجب نہیں ہوگا، جیسا کہ بعض صحابۂ کرام نے مسائل سے ناواقفیت کی وجہ سے غلطی ہونے پر حضو ر اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے “لا حرج” کہہ کر ان کو مطمئن کیا، مگر باقی تمام صحابۂ کرام نے جن کی تعداد ایک لاکھ سے زیادہ تھی، یہ اعمال اُسی ترتیب سے کئے جس ترتیب سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کئے تھے۔ نیز جن حضرات سے غلطی ہوئی، انہوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کے وقت فرمایا تھا کہ مسائل سے نا واقفیت کی وجہ سے یہ غلطی ہوئی ہے، جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی حرج نہیں۔
غرضیکہ وہ اعمال جو ہمارے اختیار میں ہیں اس میں ہم ترتیب کو حتی الامکان باقی رکھیں مثلاً اگر قربانی کا ہمیں علم نہیں ہوپارہا ہے کہ کس وقت قربانی ہوئی تو ہمیں یہ تو معلوم ہے کہ ہم نے کنکریاں ماری یا نہیں نیز سر کے بال منڈوانا یا کٹوانا ہمارے اختیار میں ہے۔ لہذا ہم سر کے بال اسی وقت منڈوائیں یا کٹوائیں جب ہم کنکریاں مارچکے ہوں اور کافی حد تک یہ یقین ہوجائے کہ ہماری قربانی ہوگئی ہوگی۔
اللہ تبارک وتعالیٰ تمام عازمین حج کے لئے آسانی وخیر کا معاملہ فرماکر اُن کے حج کو مقبول ومبرور بنائے۔
محمد نجیب قاسمی سنبھلی (www.najeebqasmi.com)

ایک سفر میں ایک سے زیادہ عمرہ کی ادائیگی
بسم الله الرحمن الرحيم
اَلْحَمْدُ لِله رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلام عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔
ایک سفر میں ایک سے زیادہ عمرہ کی ادائیگی
صاحب استطاعت کے لئے زندگی میں ایک مرتبہ عمرہ ادا کرنا سنت ہے اور ایک سے زیادہ کرنا مستحب ہے۔ مدینہ منورہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تقریباً چار عمرے کی ادائیگی فرمائی۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرہ کے متعدد فضائل بیان کئے ہیں، جن میں دو احادیث حسب ذیل ہیں:
ایک عمرہ دوسرے عمرہ تک ان گناہوں کا کفارہ ہے جو دونوں عمروں کے درمیان سرزد ہوں اور حج مبرور کا بدلہ تو جنت ہی ہے۔ (بخاری ومسلم)
پے درپے حج وعمرے کیا کرو، بے شک یہ دونوں (یعنی حج وعمرہ) غریبی اور گناہوں کو اس طرح دور کردیتے ہیں جس طرح بھٹی لوہے اور سونے وچاندی کے میل کچیل کو دور کردیتی ہے۔ (ترمذی، ابن ماجہ)
ہند وپاک یا ریاض وغیرہ سے مکہ مکرمہ جانے والے حضرات وقت سے فائدہ اٹھاکر ایک سفر میں ایک عمرہ کی ادائیگی کے بعد حسب سہولت دوسرے یا تیسرے عمرہ کی ادائیگی بھی کرتے ہیں۔ مگر بعض حضرات ایک سفر میں ایک سے زیادہ عمرہ کرنے کو یہ کہہ کر منع کرتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سفر میں ایک سے زیادہ عمرہ نہیں کیا۔ حالانکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بار بار عمرہ کرنے کی ترغیب دی ہے جیسا کہ حضور اکرمصلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات ذکر کئے گئے۔ نیز عمرہ کی ادائیگی کا کوئی وقت متعین نہیں۔ سال میں پانچ دن جن میں حج ادا ہوتا ہے یعنی ۹ ذی الحجہ سے ۱۳ ذی الحجہ تک عمرہ کرنا مکروہ ہے جیساکہ حدیث کی مشہور کتاب (بیہقی) میں وارد حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث میں مذکور ہے، ان پانچ دنوں کے علاوہ سال بھر میں جب چاہیں (رات یا دن میں) اور جتنے چاہیں عمرے کریں۔ ایک سفر میں ایک سے زیادہ عمرہ کی ادائیگی سے روکنے کے لئے شرعی دلیل مطلوب ہے، جو ظاہر ہے پورے ذخیرہ حدیث میں موجود نہیں ہے۔ صرف یہ کہنا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسا کرنا ثابت نہیں ہے، کافی نہیں ہوگا، مثلاً حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان میں عمرہ کی ادائیگی نہیں کی، صرف ایک موقعہ پر آپصلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابیہ کی خاص مجبوری سن کر رمضان میں عمرہ کی فضیلت بیان کی تھی، جیساکہ بخاری ومسلم کی حدیث میں مذکورہے، مگر جمہور فقہاء وعلماء متفق ہیں کہ ایک عورت کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ بیان کی گئی فضیلت قیامت تک آنے والے تمام انسانوں (مرد وعورت) کے لئے ہے، اگرچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان المبارک میں کوئی عمرہ ادا نہیں کیا۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کی ایک عورت (ام سنان رضی اللہ عنہا) سے فرمایا: تم ہمارے ساتھ حج کرنے کیوں نہیں جاتیں؟ انہوں نے عرض کیا: ہمارے پانی لانے کے دو ہی اونٹ تھے، ایک پر میرا شوہر اور بیٹا حج کے لئے گیا ہے اور ایک اونٹ ہمارے پانی لانے کے لئے چھوڑدیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اچھا رمضان آئے تو عمرہ کرلینا، اس لئے کہ اس کا ثواب بھی حج کے برابر ہے۔(صحیح بخاری۔ ابواب العمرہ ۔ عمرہ فی رمضان) صحیح مسلم میں اس طرح مذکور ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے ساتھ حج کے برابر ہے، یعنی رمضان میں عمرہ کی ادائیگی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کی ادائیگی کے برابر ہے۔ (صحیح مسلم ۔ کتاب الحج ۔ باب فضل العمرۃ فی رمضان)
وضاحت: جس طرح کوئی شخص ہر سال رمضان میں عمرہ کی ادائیگی کا اہتمام کرسکتا ہے، اسی طرح ایک سفر میں ایک سے زیادہ عمرہ بھی کرسکتا ہے، ہاں عمرہ زیادہ کرنے کے بجائے طواف زیادہ کرنا افضل اور بہتر ہے۔جو حضرات ایک سے زیادہ عمرہ کرتے ہیں، ہر بار سر پر استرہ یا مشین پھروادیں یا بالوں کو کٹوالیں ۔ ایک سے زیادہ عمرہ کرنے کے لئے احرام کے کپڑوں کو دھونا یا تبدیل کرنا ضروری نہیں ہے۔ ایک مرتبہ عمرہ کی ادائیگی کے بعد دوسرے عمرہ کی ادائیگی کے لئے مکہ والوں کی طرح حرم سے باہر حل میں جانا ہوگا۔ حل میں مسجد حرام سے سب سے زیادہ قریب جگہ تنعیم ہے جہاں سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا حضور اکرمصلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے مطابق اپنے حج کی ادائیگی کے بعد عمرہ کا احرام باندھنے کے لئے گئی تھیں۔ اب اس جگہ پر مسجد عائشہ بنی ہوئی ہے۔
محمد نجیب قاسمی سنبھلی (www.najeebqasmi.com)