حضور اکرم ﷺ کی شان میں گستاخی ناقابل برداشت
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيْم
اَلْحَمْدُ لِلّهِ رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلامُ عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔
حضور اکرم ﷺ کی شان میں گستاخی ناقابل برداشت
ہندومہاسبھا کے لیڈر کے ذریعہ سید البشر ونبیوں کے سردار حضور اکرم ﷺکے خلاف گستاخانہ کلمات کہے جانے پر اس کو جرم کے کٹہرے میں کھڑا کرکے اس کے خلاف کاروائی کی جانی چاہئے کیونکہ مسلمان حضور اکرم ﷺ کی شان میں گستاخی کو برداشت نہیں کرسکتے ہیں اور اس طرح کے واقعات سے ملک میں امن وامان کے بجائے افراتفری، عدم رواداری اور عدم تحمل میں اضافہ ہی ہوگا، جس سے ملک میں ترقی کے بجائے عدم استحکام پیدا ہوگا، لوگوں میں نفرت اور عداوت پیدا ہوگی۔
پوری دنیا کے ارباب علم ودانش کا موقف ہے کہ کسی شخص کی توہین وتحقیر کا رائے کی آزادی سے کوئی تعلق نہیں ہے کیونکہ تقریباً ہر ملک میں شہریوں کو یہ حق حاصل ہے کہ کہ وہ اپنی ہتک عزت کی صورت میں عدالت سے رجوع کریں اور ہتک عزت کرنے والوں کو قانون کے مطابق سزا دلوائیں۔ سوال یہ ہے کہ کسی شخص کی ہتک عزت کرنے والے کو قانوناً مجرم تسلیم کیا جاتا ہے ، تو مذاہب کے پیشواؤں اور خاص طور پر انبیاء کرام کے لئے یہ حق کیوں تسلیم نہیں کیا جارہا ہے۔ اور مذہبی راہنماؤں کی توہین وتحقیر کو رائے کی آزادی کہہ کر جرائم کی فہرست سے نکال کر حقوق کی فہرست میں کیسے شامل کیا جارہا ہے؟ یہ آزادی رائے نہیں بلکہ صرف اور صرف اسلام مخالف تنظیموں اور حکومتوں کی انتہاپسندی اور فکری دہشت گردی ہے۔ اسلام نے ہمیشہ دنیا میں امن وسلامتی قائم کرنے کی ہی دعوت دی ہے۔ جس کی زندہ مثال ہندوستان کے احوال ہیں کہ مختلف ہندو تنظیمیں ملک کے امن وامان کو نیست ونابود کرنے پر تلی ہیں مگر مسلمان اپنے جذبات پر قابو رکھ کر یہی کوشش کررہا ہے کہ ملک میں چین اور سکون باقی رہے۔
پوری امت مسلمہ متفق ہے اور دیگر مذاہب بھی اس کی تایید کرتے ہیں کہ حضرات ابنیاء کرام کی توہین وتحقیر سنگین ترین جرم ہے۔ اس لئے کہ اس میں مذہبی پیشواؤں کی توہین کے ساتھ ساتھ ان کے کروڑوں پیروکاروں کے مذہبی جذبات کو مجروح کرنے اور امن عامہ کو خطرے میں ڈالنے کے جرائم بھی شامل ہوجاتے ہیں، جس سے اس جرم کی سنگینی میں بے پناہ اضافہ ہوجاتا ہے۔ قرآن وسنت اور دیگر مذاہب میں اس کی سزا موت ہی بیان کی گئی ہے کیونکہ اس سے کم سزا میں نہ حضرات ابنیاء کرام کے احترام کے تقاضے پورے ہوتے ہیں اور نہ ہی ان کے کروڑوں پیروکاروں کے مذہبی جذبات کی جائز حد تک تسکین ہوپاتی ہے۔
ہاں یہ بات مسلم ہے کہ موت کی سزا دینے کی اتھارٹی صرف حکومت وقت کو ہی حاصل ہے کیونکہ عام آدمی کے قانون کو ہاتھ میں لینے سے معاشرہ میں لاقانونیت اور افراتفری کو ہی فروغ ملے گا۔ لہٰذا حکومت وقت کی ذمہ داری ہے کہ توہین وتحقیر کے عمل کو سنگین جرم قرار دے کر مجرموں کے خلاف ضروری کاروائی کرے۔
امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ حضور اکرم ﷺ کی شان میں گستاخی کرنے والے شخص کو قتل کیا جائے گا۔ علامہ ابن تیمیہؒ نے ۳جلدوں پر مشتمل اپنی کتاب (الصَّارِمُ المَسْلُوْل عَلَی شَاتِمِ الرَّسُوْل) میں اس موضوع پر قرآن وحدیث کے دلائل کی روشنی میں تفصیلی بحث کی ہے۔ غلاف کعبہ سے لپٹے ہوئے توہین رسالت کے مرتکب کو قتل کرنے کا حکم حضور اکرم ﷺ نے دیا۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ فتح مکہ کے دن رسول اللہ ﷺمکہ مکرمہ میں تشریف فرماتھے۔ کسی نے حضور سے عرض کیا: (آپ کی شان میں توہین کرنے والا) ابن خطل کعبہ کے پردوں سے لپٹا ہوا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اسے قتل کردو۔ (صحیح بخاری۔باب دخول الحرم… و باب این رکز النبی ﷺ الرایہ یوم الفتح) یہ عبداللہ بن خطل مرتد تھا جو رسول اللہ ﷺ کی ہجو میں شعر کہہ کر حضور اکرم ﷺ کی شان میں توہین کرتا تھا۔ اس نے دو گانے والی لونڈیاں اس لئے رکھی ہوئی تھیں کہ وہ حضور اکرم ﷺ کی ہجو میں اشعار گایا کریں۔ جب حضور اکرم ﷺ نے اس کے قتل کا حکم دیا تو اسے غلاف کعبہ سے باہر نکال کر باندھا گیا اور مسجد حرام میں مقام ابراہیم اور زمزم کے کنوئیں کے درمیان اس کی گردن اڑادی گئی۔ (فتح الباری ۔ باب این رکز النبی ﷺ الرایہ یوم الفتح) اس دن ایک ساعت کے لئے حرم مکہ کو حضور اکرم ﷺ کے لئے حلال قرار دیا گیا تھا۔مسجد حرام میں مقام ابراہیم اور زمزم کے کنوئیں کے درمیان یعنی بیت اللہ سے صرف چند میٹر کے فاصلہ پر اس کا قتل کیا جانا اس بات کی دلیل ہے کہ گستاخ رسول باقی مرتدین سے بدرجہا بدتر وبدحال ہے۔
پوری انسانیت کو یہ بھی اچھی طرح معلوم ہونا چاہئے کہ ہر مسلمان کے دل میں حضور اکرم ﷺ کی محبت دنیا کی ہرچیز سے زیادہ ہے کیونکہ شریعت اسلامیہ کی تعلیمات کے مطابق ہر مسلمان کا حضور اکرم ﷺ اور آپ کی سنتوں سے محبت کرنا لازم اور ضروری ہے۔ نیز حضور اکرم ﷺ کی زندگی میں ایسی اوصاف حمیدہ بیک وقت موجود تھیں جو آج تک نہ کسی انسان کی زندگی میں موجود رہی ہیں اور نہ ہی ان اوصاف حمیدہ سے متصف کوئی شخص اس دنیا میں آئے گا۔ آپ کی چند صفات یہ ہیں: عجز وانکساری، عفو ودرگزر، ہمسایوں کا خیال ، لوگوں کی خدمت، بچوں پر شفقت،خواتین کا احترام، جانوروں پر رحم، عدل وانصاف ، غلام اور یتیم کا خیال، شجاعت وبہادری، استقامت، زہد وقناعت، صفاءئمعاملات، سلام میں پہل، سخاوت وفیاضی، مہمان نوازی۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: تم میں سے کوئی اس وقت تک (کامل) مؤمن نہیں ہوسکتا جب تک میں اس کو اپنے بچوں، اپنے ماں باپ اور سب لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں۔ (صحیح بخاری وصحیح مسلم) ایک مرتبہ حضور اکرمﷺ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑے ہوئے تھے۔ حضرت عمرؓ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ مجھے ہر چیز سے زیادہ عزیز ہیں، سوائے میری اپنی جان کے۔ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا: نہیں، اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے (ایمان اس وقت تک مکمل نہیں ہوسکتا) جب تک میں تمہیں تمہاری اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز نہ ہوجاؤں۔ حضرت عمرؓ نے عرض کیا: واللہ! اب آپ مجھے میری اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز ہیں۔ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: عمر! اب بات ہوئی۔ (صحیح بخاری)
ہندوستان کی موجودہ صورت حال کو سامنے رکھ کر میں تمام مسلمانوں سے یہی درخواست کرتا ہوں کہ اپنے جذبات کو قابو میں رکھ کر حضور اکرم ﷺ کی تعلیمات کو اپنی عملی زندگی میں لائیں اور آپ ﷺ کے پیغام کو دوسروں تک پہنچانے میں اپنی صلاحتیں لگائیں۔
نبی بنائے جانے سے لے کر وفات تک آپ ﷺکو بے شمار تکلیفیں دی گئیں۔ آپﷺ کے اوپر اونٹنی کی اوجھڑی ڈالی گئی۔ آپ ﷺ کے اوپر گھر کا کوڑا ڈالا گیا۔ آپ ﷺ کو کاہن ،جادوگر اور مجنوں کہہ کر مذاق اڑایا گیا۔ آپ ﷺ کی بیٹیوں کو طلاق دی گئی۔ آپﷺ کا تین سال تک بائیکاٹ کیا گیا۔ آپﷺ پر پتھر برسائے گئے۔ آپ ﷺ کو اپنا شہر چھوڑنا پڑا۔ آپ ﷺ غزوۂ احد کے موقع پر زخمی کئے گئے۔ آپ ﷺ کوزہر دے کر مارنے کی کوشش کی گئی۔ آپ ﷺ نے کبھی ایک دن میں دونوں وقت پیٹ بھر کر کھانا نہیں کھایا۔ آپ ﷺ نے بھوک کی شدت کی وجہ سے اپنے پیٹ پر دو پتھر باندھے۔ آپ ﷺ کے گھر میں دو دو مہینے تک چولھا نہیں جلا۔ آپ ﷺ کے اوپر پتھر کی چٹان گراکر مارنے کی کوشش کی گئی۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے سوا آپ ﷺ کی ساری اولاد کی آپﷺ کے سامنے وفات ہوئی۔ غرضیکہ سید الانبیاء وسید البشر کو مختلف طریقوں سے ستایا گیا، مگر آپ ﷺ نے کبھی صبر کا دامن نہیں چھوڑا، آپ ﷺ رسالت کی اہم ذمہ داری کو استقامت کے ساتھ بحسن خوبی انجام دیتے رہے۔ہمیں ان واقعات سے یہ سبق لینا چاہئے کہ گھریلو یا ملکی یا عالمی سطح پر جیسے بھی حالات ہمارے اوپر آئیں، ہم ان پر صبر کریں اور اپنے نبی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اللہ سے اپنا تعلق مضبوط کریں۔
مختصر سیرت نبوی ﷺ
بسم الله الرحمن الرحيم
اَلْحَمْدُ لِله رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلام عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔
مختصر سیرت نبوی ﷺ
ہمارے نبی حضرت محمد ﷺ مکہ مکرمہ میں دوشنبہ کے روز ۹ ربیع الاول (۵۷۱ء) کو پیدا ہوئے۔ابھی ماں کے پیٹ میں ہی تھے کہ آپ کے والد عبداللہ کا انتقال ہوگیا۔جب ۶ سال کی عمر ہوئی تو آپ کی والدہ آمنہ کا انتقال ہوگیا۔جب ۸ سال ۲ ماہ ۱۰ دن کے ہوئے تو آپ کے دادا عبدالمطلب بھی فوت ہوگئے۔جب ۱۳ سال کے ہوئے، تو چچا ابو طالب کے ساتھ تجارت کی غرض سے ملکِ شام روانہ ہوئے مگر راہ سے ہی واپس آگئے۔جوان ہوکر آپ ﷺ نے کچھ دنوں تجارت کی۔۲۵سال کی عمر میں حضرت خدیجہ ؓ سے آپ ﷺ کی شادی ہوئی۔ شادی کے وقت حضرت خدیجہؓ کی عمر ۴۰ سال تھی۔۳۵سال کی عمر میں جب قبیلۂ قریش میں کعبہ کی تعمیر پر جھگڑا ہوا، آپ ﷺ نے اس جھگڑے کا بہترین حل پیش کیا، جس سے سارامسئلہ ہی حل ہوگیا، جس پر سب نے آپ کو صادق اور امین کے لقب سے نوازا۔۴۰سال کی عمر میں آپ ا کو نبوت عطا کی گئی۔تین سال تک نبی اکرم ﷺ چپکے چپکے لوگوں کو اسلام کی دعوت دیتے رہے۔ پھر کھلم کھلا اسلام کی دعوت دینے لگے۔کھلم کھلا اسلام کی دعوت دینے پرمسلمانوں کو بہت زیادہ ستایا جانے لگا۔ ۲ سال تک مسلمانوں کو بہت تکلیفیں دی گئیں۔مسلمانوں نے تنگ آکر مکہ مکرمہ سے چلے جانے کا ارادہ کیا۔ چنانچہ ۵ نبوت میں صحابہ کی ایک جماعت حبشہ ہجرت کرگئی۔۶نبوت : آپ ﷺ کے چچا حضرت حمزہؓ ، اور ان کے تین دن بعد حضرت عمر فاروق ؓ مسلمان ہوئے۔ان دونوں کے ایمان لانے سے قبل تک مسلمان چھپ چھپ کر نماز پڑھا کرتے تھے، اب کھل کر نماز پڑھنے لگے۔۷نبوت : قریش نے آپس میں ایک عہد نامہ تحریر کیا کہ کوئی شخص مسلمانوں اور ہاشمی قبیلہ کے ساتھ لین دین اور رشتہ ناطہ نہیں کرے گا۔اس ظلم کی وجہ سے مسلمان اور ہاشمی قبیلے کے لوگ تقریباً تین سال تک ایک پہاڑی کی کھوہ میں بند رہے۔۱۰نبوت: آپ ﷺ کے چچا ابوطالب اور ام المؤمنین حضرت خدیجہ ؓ کا انتقال ہوا، آپ کو بہت زیادہ رنج وغم ہوا۔۱۰نبوت: ابوطالب کے انتقال کے بعد کفار مکہ نے کھل کر آپ ا کو اذیت اور تکلیف دینی شروع کردی۔۱۰نبوت: آپ نے طائف جاکر لوگوں کے سامنے اسلام کی دعوت دی، لیکن وہاں پر بھی آپ ا کو بہت ستایا گیا۔
۱۱نبوت : آپ ﷺ کے وعظ ونصائح پر مدینہ منورہ کے چھ حضرات مسلمان ہوئے۔۲۷رجب ۱۲ نبوت : ۵۱ سال ۵ مہینہ کی عمر میں نبی اکرم ا کو معراج ہوئی۔ مسلمانوں پر پانچ نمازیں فرض ہوئیں۔۱۲نبوت: موسم حج میں ۱۸ شخص مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ آئے ، انہوں نے رسول اکرم ا کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا۔۱۳نبوت: ۲ عورتیں اور ۷۳ مرد مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ آئے ، انہوں نے رسول اکرم ا کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا اورانہوں نے نبی اکرم ﷺ سے مدینہ چلنے کی درخواست کی، نبی اکرم ا مدینہ منورہ ہجرت کرنے کے لئے راضی ہوگئے۔۱۳نبوت (یکم ربیع الاول ): آپ ﷺ مدینہ منورہ ہجرت فرمانے کے لئے مکہ مکرمہ سے روانہ ہوئے۔
آپ ﷺ نے سفر ہجرت میں مدینہ منورہ کے قریب بنو عمروبن عوف کی بستی قبا میں چند روز کا قیام فرمایا اور مسجد قبا کی بنیاد رکھی۔ قُبا سےمدینہ منورہ جاتے ہوئے بنو سالم بن عوف کی آبادی میں پہونچ کر اُس مقام پر جمعہ پڑھایا جہاں اب مسجد (مسجد جمعہ) بنی ہوئی ہے۔
۱ہجری : مدینہ منورہ پہونچکر نبی اکرم ﷺ نے صحابہ کرام کے ساتھ مل کر مسجد نبوی کی تعمیر فرمائی۔ ظہر، عصر اور عشاء کی نماز میں اب تکفرض رکعات کی تعداد ۲ تھی، مدینہ منورہ پہونچکر ۴ رکعات مقرر ہوئیں۔ مہاجرین صحابہ کا انصار صحابہ کے ساتھ بھائی چارا قائم
کیا گیا۔ مدینہ کے یہودیوں اور آس پاس کے رہنے والے قبیلوں سے امن اور دوستی کے عہدنامے ہوئے۔۲ہجری : نماز کے لئے اذان دی جانے لگی۔ کعبہ (بیت اللہ) کی طرف رخ کرکے نماز پڑھی جانے لگی۔۲ہجری : ماہِ رمضان کے روزے فرض ہوئے۔۳ہجری : زکاۃ فرض ہوئی۔۴ہجری : شراب پینا حرام ہوا۔۵ہجری : عورتوں کو پردہ کرنے کا حکم ہوا۔۶ہجری : صلح حدیبیہ ہوئی۔ آپ ا عمرہ کی ادائیگی کے بغیرمدینہ منورہ واپس آگئے۔ اس وقت کے مشہور بادشاہوں کو نبی اکرم ﷺنے اسلام کی دعوت دی۔ آپ ﷺ کی دعوت پر بادشاہوں اور حکمرانوں کے علاوہ عرب کے بڑے بڑے قبیلے مسلمان ہوئے۔۷ہجری : آپ ﷺ نے عمرہ کی قضا کی، کیونکہ آپ ا ۶ ہجری میں صلح حدیبیہ کی وجہ سے عمرہ ادا نہیں کرسکے تھے۔۸ہجری: مکہ مکرمہ فتح ہوا۔ خانہ کعبہ کو بتوں سے پاک وصاف کیا گیا۔۹ہجری : حج فرض ہوا۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی سرپرستی میں صحابہ کرام کی ایک جماعت نے حج ادا کیا ۔ حضرت علیؓ نے میدان حجمیں نبی اکرم ﷺ کے حکم سے اعلان کیا کہ اب آئندہ کوئی مشرک خانہ کعبہ کے اندر داخل نہیں ہوگا۔۱۰ہجری: آپ ﷺ نے تقریباً ایک لاکھ چوبیس ہزار صحابہ کرام کے ساتھ حج (حجۃ الوداع) ادا کیا۔۱۱ہجری : ۶۳ سال اور پانچ دن کی عمر میں ۱۲ ربیع الاول کو پیر کے روز آپ ا اس دار فانی سے کوچ فرماگئے۔غرض نبوت کے بعد آپ ﷺ تقریباً ۲۳ سال حیات رہے، ۱۳ سال مکہ مکرمہ میں ، اور ۱۰ سال مدینہ منورہ میں۔
غزوات: نبی اکرم ﷺ کے مدینہ منورہ ہجرت کرنے کے بعد دشمنوں کے ساتھ ۲ہجری سے ۹ ہجری کے دوران آٹھ سال میں متعدد جنگیں ہوئیں، جن میں سے مشہور غزوات یہ ہیں: غزوہ بدر ۲ہجری۔ غزوہ احد۳ہجری ۔ غزوہ خندق ۵ہجری ۔ غزوہ خیبر ۵ہجری ۔ غزوہ فتح مکہ ۸ہجری۔ غزوہ حنین۸ہجری ۔ غزوہ تبوک۹ہجری۔ محمد نجیب قاسمی سنبھلی، ریاض (najeebqasmi@yahoo.com)
رحمۃ للعالمین ﷺ کی سیرت رب العالمین کی زبانی
بسم الله الرحمن الرحيم
اَلْحَمْدُ لِله رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلام عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔
رحمۃ للعالمین ﷺ کی سیرت رب العالمین کی زبانی
قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا وہ عظیم الشان کلام ہے جو انسانوں کی ہدایت کے لئے خالق کائنات نے اپنے آخری رسول حضور اکرمﷺ پر نازل فرمایا۔ قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی وہ عظیم کتاب ہے جس کی حفاظت اللہ تعالیٰ نے خود اپنے ذمہ لی ہے جیساکہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ قرآن کریم میں موجود ہے: یہ ذکر (یعنی قرآن) ہم نے ہی اتارا ہے، اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔(سورۃ الحجر آیت ۹)
قرآن کریم کی سب سے پہلی جو آیتیں حضور اکرمﷺ پر غار حرا میں نازل ہوئیں وہ سورۂ علق کی ابتدائی آیات ہیں: اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ۔ خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ۔ اِقْرَاْ وَرَبُّکَ الْاَکْرَمْ پڑھو اپنے اس پروردگار کے نام سے جس نے پیدا کیا۔ جس نے انسان کو منجمد خون سے پیدا کیا۔ پڑھو، اور تمہارا پروردگار سب سے زیادہ کریم ہے۔ اس پہلی وحی کے نزول کے بعد تقریباً تین سال تک وحی کے نزول کا سلسلہ بند رہا۔ تین سال کے بعد وہی فرشتہ جو غار حرا میں آیا تھا آپ ﷺ کے پاس آیا اور سورۃ المدثر کی ابتدائی چند آیات آپ ﷺ پر نازل فرمائیں: اے کپڑے میں لپٹنے والے۔ اٹھو اور لوگوں کو خبردار کرو۔ اور اپنے پروردگار کی تکبیر کہو۔ اور اپنے کپڑوں کو پاک رکھو۔ اور گندگی سے کنارہ کرلو۔ اس کے بعد حضور اکرم ﷺ کی وفات تک وحی کے نزول کا تدریجی سلسلہ جاری رہا۔
خالق کائنات نے اپنے حبیب حضور اکرم ﷺ کو قرآن کریم میں عمومی طور پر ےَا اَیُّہَا النَّبِیُّ، ےَا اَیُّہَا الرَّسُوْلُ، ےَا اَیُّہَا الْمُدِّثِر اور ےَا اَیُّہَا الْمُزِّمِّلُجیسی صفات سے خطاب فرمایا ہے، حالانکہ دیگر انبیاء کرام کو ان کے نام سے بھی خطاب فرمایا ہے۔ صرف چار جگہوں پر اسم مبارک محمد اور ایک جگہ اسم مبارک احمد قرآن کریم میں آیا ہے۔
قرآن کریم میں چار جگہ حضور اکرم ﷺ کے نام (محمد) کا ذکر:
اور محمد ایک رسول ہی تو ہیں، ان سے پہلے بہت سے رسول گزر چکے ہیں۔ (سورۃ آل عمران: ۱۴۴
(مسلمانو!) محمد تم مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں، لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں اور تمام نبیوں میں سب سے آخری نبی ہیں۔ (سورۃ الاحزاب: ۴۰
اور جو لوگ ایمان لے آئے ہیں ، اور انہوں نے نیک عمل کئے ہیں، اور ہر اُس بات کو دل سے مانا ہے جو محمد پر نازل کی گئی ہے،اور وہی حق ہے جو ان کے پروردگار کی طرف سے آیا ہے، اللہ نے ان کی برائیوں کو معاف کردیا ہے اور ان کی حالت سنوار دی ہے۔ (سورۃ محمد : ۲)
مُحَمَّدٌرَّسُوْلُ اللّٰہِ وَالَّذِیْنَ مَعَہٗٓ اَشِدَّآءُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَآءُ بَیْنَھُمْ محمد اللہ کے رسول ہیں، اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کافروں کے مقابلہ میں سخت ہیں اور آپس میں ایک دوسرے کے لئے رحم دل ہیں۔ ( سورۃ الفتح: ۲۹)
قرآن کریم میں ایک جگہ حضور اکرم ﷺ کے نام (احمد) کا ذکر:
اور وہ وقت یاد کروجب عیسیٰ بن مریم نے کہا تھا کہ: اے بنو اسرائیل! میں تمہارے پاس اللہ کا ایسا پیغمبر بن کر آیا ہوں کہ مجھ سے پہلے جو تورات (نازل ہوئی) تھی ، میں اس کی تصدیق کرنے والا ہوں اور اُس رسول کی خوشخبری دینے والا ہوں جو میرے بعد آئے گا، جس کا نام احمد ہے۔ (سورۃ الصف: ۶) معلوم ہوا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنے زمانہ ہی میں حضور اکرم ﷺ کے نبی ہونے کی تصدیق فرمادی تھی۔
حضور اکرم ﷺ کا عالی مقام ومرتبہ
اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو ایسا عظیم الشان مقام عطا فرمایا ہے کہ کوئی بشر حتی کہ نبی یا رسول بھی اس مقام تک نہیں پہنچ سکتا، چنانچہ اللہ تعالیٰ اپنے پاک کلام میں ارشاد فرماتا ہے: (اے پیغمبر! ) کیا ہم نے تمہاری خاطر تمہارا سینہ کھول نہیں دیا؟ اور ہم نے تم سے تمہارا وہ بوجھ اتاردیا ہے، جس نے تمہاری کمر توڑ رکھی تھی۔ اور ہم نے تمہاری خاطر تمہارے تذکرے کو اونچا مقام عطا کردیا ہے۔ (سورۃ الشرح: ۱۔ ۴) دنیا میں کوئی لمحہ ایسا نہیں گزرتا جس میں ہزاروں مسجدوں کے مناروں سے اللہ کی وحدانیت کی شہادت کے ساتھ حضور اکرم ﷺ کے نبی ہونے کی شہادت ہر وقت نہ دی جاتی ہو اور لاکھوں مسلمان نبی اکرم ﷺ پر درود نہ بھیجتے ہوں۔ غرضیکہ اللہ تعالیٰ کے بعد سب سے زیادہ حضور اکرم ﷺ کا نام نامی اس دنیا میں لکھا، بولا، پڑھا اور سنا جاتا ہے۔
حضور اکرم ﷺ صاحب حوض کوثر
خالق کائنات نے صرف دنیا ہی میں نہیں بلکہ آپ ﷺ کو حوض کوثر عطا فرماکر قیامت کے روز بھی ایسے بلند واعلیٰ مقام سے سرفراز فرمایا ہے جو صرف اور صرف حضور اکرم ﷺ کو حاصل ہے، اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: (اے پیغمبر!) یقین جانو ہم نے تمہیں کوثر عطا کردی ہے۔ لہٰذا تم اپنے پروردگار (کی خوشنودی) کے لئے نمازپڑھو اور قربانی کرو۔ یقین جانو تمہارا دشمن ہی وہ ہے جس کی جڑ کٹی ہوئی ہے یعنی جس کی نسل آگے نہ چلے گی ۔ (سورۃ الکوثر: ۱۔۳) کوثر جنت کے اُس حوض کانام ہے جو حضور اکرمﷺ کے تصرف میں دی جائے گی اور آپ کی امت کے لوگ قیامت کے دن اس سے سیراب ہوں گے۔ حوض پر رکھے ہوئے برتن آسمان کے ستاروں کے مانند کثرت سے ہوں گے۔
حضور اکرم ﷺ پر درود وسلام
اللہ تعالیٰ نے نہ صرف زمین میں بلکہ آسمانوں پر بھی اپنے نبی کو بلند مقام سے نوازا ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اللہ تعالیٰ نبی پر رحمتیں نازل فرماتا ہے۔ اور فرشتے نبی کے لئے دعائے رحمت کرتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم بھی نبی پر درود وسلام بھیجا کرو۔ (سورۃ الاحزاب: ۵۶) اس آیت میں نبی اکرم ﷺ کے اس مقام کا بیان ہے جو آسمانوں میں آپ ﷺ کو حاصل ہے اور وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرشتوں میں آپ ﷺ کا ذکرفرماتا ہے اور آپ ﷺ پر رحمتیں بھیجتا ہے۔ اور فرشتے بھی آپ ﷺ کی بلندی درجات کے لئے دعائیں کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے زمین والوں کو حکم دیا کہ وہ بھی آپ ﷺ پر درود وسلام بھیجا کریں۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس نے مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجا، اللہ تعالیٰ اس پر ۱۰ مرتبہ رحمتیں نازل فرمائے گا۔ (مسلم
حضور اکرم ﷺ کا فرمان اللّٰہ تعالیٰ کا فرمان ہے
کیسا عالی شان مقام حضور اکرمﷺ کو ملا کہ آپ کا کلام اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہی ہوتا تھا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ خود ارشاد فرماتا ہے: اور یہ اپنی خواہش سے کچھ نہیں بولتے، یہ تو خالص وحی ہے جو ان کے پاس بھیجی جاتی ہے۔ (سورۃ النجم: ۳۔۴)
حضور اکرم ﷺ کی لوگوں کی ہدایت کی فکر
حضور اکرمﷺ لوگوں کی ہدایت کی اس قدر فکر فرماتے کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: (اے پیغمبر!) شاید تم اس غم میں اپنی جان ہلاک کئے جارہے ہو کہ یہ لوگ ایمان (کیوں) نہیں لاتے! (سورۃ الشعراء: ۳) ۔ ہمارے نبی کافروں اور مشرکوں کو ایمان میں داخل کرنے کی دن رات فکر فرماتے اور اس کے لئے ہر ممکن کوشش فرماتے، لیکن آج بعض مسلمان اپنے ہی بھائیوں کو ان کی بعض غلطیوں کی وجہ سے ان کو کافر اور مشرک قرار دینے میں بڑی عجلت سے کام لیتے ہیں۔
حضور اکرم ﷺ نبی رحمت بناکر بھیجے گئے
رب العالمین نے اپنے نبی کو رحمۃ للمسلمین یا رحمۃ للعرب نہیں بنایا بلکہ رحمۃ للعالمین بنایا ہے جیسا کہ فرمان الہی ہے: اور (اے پیغمبر!) ہم نے تمہیں سارے جہانوں کے لئے رحمت ہی رحمت بناکر بھیجا ہے۔ (سورۃ الانبیاء: ۱۰۷) جس نبی کو سارے جہاں کے لئے رحمت ہی رحمت بناکر بھیجا گیا ہو، اس نبی کی تعلیمات میں دہشت گردی کیسے مل سکتی ہے؟ آپ ﷺ نے ہمیشہ امن وامان کو قائم کرنے کی ہی تعلیمات دی ہیں۔
حضور اکرم ﷺ خاتم النبیین ہیں
آپﷺ نبی ہونے کے ساتھ خاتم النبیین بھی ہیں، حضرت آدم علیہ السلام سے جاری نبوت کا سلسلہ آپﷺ پر ختم ہوگیا، یعنی اب کوئی نئی شریعت نہیں آئے گی، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: (مسلمانو!) محمد تم مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں، لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں، اور تمام نبیوں میں سب سے آخری نبی ہیں۔ (سورۃ الاحزاب: ۴۰) حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: میں آخری نبی ہوں۔ میرے بعد کوئی نبی پیدا نہیں ہوگا۔ (صحیح بخاری وصحیح مسلم
حضور اکرم ﷺ کو عالمی رسالت سے نوازا گیا
جیساکہ قرآن وحدیث کی روشنی میں بیان کیا گیا کہ حضور اکرمﷺ آخری نبی ہیں، یعنی آپ کو قیامت تک آنے والے تمام انسانوں کے لئے نبی بنایا گیا، غرضیکہ آپﷺ کو عالمی رسالت سے نوازا گیا، متعدد آیا ت میں اللہ تعالیٰ نے آپ کی عالمی رسالت کو بیان کیا ہے، یہاں صرف دو آیات پیش ہیں: (اے رسول! ان سے) کہو کہ اے لوگو! میں تم سب کی طرف اُس اللہ کا بھیجا ہوا رسول ہوں جس کے قبضے میں تمام آسمانوں اور زمین کی سلطنت ہے۔ (سورۃ الاعراف: ۱۵۸) اسی طرح اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اور (اے پیغمبر!) ہم نے تمہیں سارے ہی انسانوں کے لئے ایسا رسول بناکر بھیجا ہے جو خوشخبری بھی سنائے اور خبردار بھی کرے۔ (سورۃ سبا: ۲۸
حضور اکرم ﷺ کا اسوۂ حسنہ بنی نوع انسان کے لئے
چونکہ آپﷺ کو عالمی رسالت سے نوازا گیا ہے، اس لئے آپ کی زندگی قیامت تک آنے والے تمام انسانوں کے لئے نمونہ بنائی گئی، جیسا کہ اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے: حقیقت یہ ہے کہ تمہارے لئے رسول اللہ کی ذات میں ایک بہترین نمونہ ہے ہر اُس شخص کے لئے جو اللہ سے اور یوم آخرت سے امید رکھتا ہو۔ اور کثرت سے اللہ کا ذکر کرتا ہو۔ (سورۃ الاحزاب ۲۱) حضور اکرم ﷺ کی زندگی کا ایک ایک لمحہ قیامت تک آنے والے انسانوں کے لئے نمونہ ہے، لہٰذا ہمیں چاہئے کہ ہم حضور اکرم ﷺ کی سنتوں پر عمل کریں۔ آج ہم سنتوں پر یہ کہہ کر عمل نہیں کرتے کہ وہ فرض نہیں ہیں۔ سنت کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ ہم اس پر عمل نہ کریں بلکہ ہمیں اپنے نبی کی سنتوں پر قربان ہوجانا چاہئے۔ مگر افسوس وفکر کی بات ہے کہ آج ہمارے بعض بھائی سنت پر عمل کرنا تو درکنار بعض مرتبہ سنت کا مذاق اڑاجاتے ہیں۔یاد رکھیں کہ حضور اکرم ﷺ کی سنت کے متعلق مذاق کرنا انسان کی ہلاکت وبربادی کا سبب ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے حبیب محمد مصطفی ﷺ کی تمام سنتوں کو آج بھی زندہ کررکھا ہے، اگر اجتماعی طور پر نہیں تو انفرادی طور پر ضرور عمل ہورہا ہے۔ داڑھی رکھنا نہ صرف ہمارے نبی کی سنت ہے بلکہ نبی کے اقوال وافعال کی روشنی میں پوری امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ داڑھی رکھنا ضروری ہے مگر آج بعض ہمارے بھائی داڑھی رکھنا تو درکنار بعض مرتبہ داڑھی کا مذاق اڑاکر اپنی ہلاکت وبربادی کا سامان مہیا کرتے ہیں۔
حضور اکرم ﷺ کی اتباع
اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیبﷺ کے اسوہ میں دونوں جہاں کی کامیابی وکامرانی مضمر رکھی ہے، لہٰذا اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کی اتباع کو لازم قرار دیا، فرمان الہٰی ہے: (اے پیغمبر! لوگوں سے) کہہ دوکہ اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری اتباع کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہاری خاطر تمہارے گناہ معاف کردے گا۔ (سورۃ آل عمران: ۳۱) اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی سینکڑوں آیات میں اپنی اطاعت کے ساتھ رسول کی اطاعت کا بھی حکم دیا ہے۔ کہیں فرمایا: (اَطِےْعُوا اللّٰہَ وَاَطِےْعُوا الرَّسُوْلَ)، کہیں فرمایا: (اَطِےْعُوا اللّٰہَ وَرَسُوْلَہ)، کسی جگہ ارشاد ہے: (اَطِےْعُوا اللّٰہَ والرَّسُوْلَ) اور کسی آیت میں ارشاد ہے: (اَطِےْعُوا الرَّسُوْلَ)۔ ان سب جگہوں پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے بندوں سے ایک ہی مطالبہ ہے کہ فرمانِ الٰہی کی تعمیل کرو اور ارشاد نبوی ﷺکی اطاعت کرو۔ غرضیکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں متعدد جگہوں پر یہ بات واضح طور پر بیان کردی کہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کی اطاعت بھی ضروری ہے اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت رسول اکرمﷺ کی اطاعت کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے۔
قرآن کے مفسر اول: حضور اکرم ﷺ
اللہ تعالیٰ اپنے پاک کلام میں فرماتا ہے: یہ کتاب ہم نے آپ کی طرف اتاری ہے کہ لوگوں کی جانب جو حکم نازل فرمایا گیا ہے، آپ اسے کھول کھول کر بیان کردیں، شاید کہ وہ غوروفکر کریں۔ (سورۃ النحل: ۴۴) اسی طرح فرمان الٰہی ہے: یہ کتاب ہم نے آپ ﷺ پر اس لئے اتاری ہے تاکہ آپ ﷺ ان کے لئے ہر اس چیز کو واضح کردیں جس میں وہ اختلاف کررہے ہیں۔ (سورۃ النحل ۶۴) اللہ تعالیٰ نے ان دونوں آیات میں واضح طور پر بیان فرمادیا کہ قرآن کریم کے مفسر اول حضور اکرم ﷺ ہیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے نبی اکرم ﷺ پر یہ ذمہ داری عائد کی گئی کہ آپ ﷺامت مسلمہ کے سامنے قرآن کریم کے احکام ومسائل کھول کھول کر بیان کریں۔ اور ہمارا یہ ایمان ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے اپنے اقوال وافعال کے ذریعہ قرآن کریم کے احکام ومسائل بیان کرنے کی ذمہ داری بحسن خوبی انجام دی۔ صحابۂ کرام، تابعین اور تبع تابعین کے ذریعہ حضور اکرم ﷺ کے اقوال وافعال یعنی حدیث نبوی کے ذخیرہ سے قرآن کریم کی پہلی اہم اور بنیادی تفسیر انتہائی قابل اعتماد ذرائع سے امت مسلمہ کوپہونچی ہے، لہذا قرآن فہمی حدیث کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے۔
تاریخ کا سب سے لمبا سفر حضور اکرم ﷺ کے نام
تاریخ کے سب سے لمبے سفر ( اسراء ومعراج) کا ذکر اللہ تعالیٰ نے اپنے پاک کلام میں بیان فرمایا ہے جس میں آپﷺ کو آسمانوں کی سیر کرائی گئی۔ مسجد حرام (مکہ مکرمہ) سے مسجد اقصیٰ کے سفر کو اسراء کہتے ہیں۔ اور یہاں سے جو سفر آسمانوں کی طرف ہوا اس کا نام معراج ہے۔اس واقعہ کا ذکر سورۂ نجم کی آیات میں بھی ہے۔ سورۃ النجم کی آیات ۱۳۔۱۸ میں وضاحت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے (اس موقع پر) بڑی بڑی نشانیاں ملاحظہ فرمائیں ۔
حضور اکرم ﷺ کی نماز
اللہ تعالیٰ کا پیار بھرا خطاب حضور اکرم ﷺسے ہے کہ آپ رات کے بڑے حصہ میں نماز تہجد پڑھا کریں: اے چادر میں لپٹنے والے! رات کا تھوڑا حصہ چھوڑکر باقی رات میں (عبادت کے لئے) کھڑے ہوجایا کرو۔ رات کا آدھا حصہ یا آدھے سے کچھ کم ،یا اُس سے کچھ زیادہ۔ اور قرآن کی تلاوت اطمینان سے صاف صاف کیا کرو۔ ( سورۃ المزمل: ۱۔۴) اسی طرح سورۃ المزمل کی کی آخری آیت میں اللہ رب العزت فرماتا ہے: (اے پیغمبر!) تمہارا پروردگار جانتا ہے کہ تم دو تہائی رات کے قریب اور کبھی آدھی رات اور کبھی ایک تہائی رات (تہجد کی نماز کے لئے) کھڑے ہوتے ہو اور تمہارے ساتھیوں (صحابۂ کرام) میں سے بھی ایک جماعت (ایسا ہی کرتی ہے)۔
ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور اکرم ﷺرات کو قیام فرماتے یعنی نماز تہجد ادا کرتے یہاں تک کہ آپ کے پاؤں مبارک میں ورم آجاتا۔(بخاری) صرف ایک دو گھنٹے نماز پڑھنے سے پیروں میں ورم نہیں آتا ہے بلکہ رات کے ایک بڑے حصہ میں اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑے ہونے، طویل رکوع اور سجدہ کرنے کی وجہ سے ورم آتا ہے، چنانچہ سورۃ البقرہ اور سورۃ آل عمران جیسی لمبی لمبی سورتیں آپ ﷺایک رکعت میں پڑھا کرتے تھے اور وہ بھی بہت اطمینان وسکون کے ساتھ۔
نماز تہجد کے علاوہ آپﷺ پانچ فرض نمازیں بھی خشوع وخضوع کے ساتھ ادا کرتے تھے۔آپ ﷺ سنن ونوافل، نماز اشراق، نماز چاشت، تحےۃ الوضوء اور تحےۃ المسجد کا بھی اہتمام فرماتے اور پھر خاص خاص مواقع پر نماز ہی کے ذریعہ اللہ تعالیٰ سے رجوع فرماتے۔ سورج گرہن یا چاند گرہن ہوتا تو مسجد تشریف لے جاکر نماز میں مشغول ہوجاتے۔ کوئی پریشانی یا تکلیف پہنچتی تو مسجد کا رخ کرتے۔ سفر سے واپسی ہوتی تو پہلے مسجد تشریف لے جاکر نماز ادا کرتے۔ اور آپ ﷺاطمینان وسکون کے ساتھ نماز پڑھا کرتے تھے۔
حضور اکرم ﷺ کے اخلاق
اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں اپنے نبی کے اخلاق کے متعلق فرماتا ہے: اور یقیناًتم اخلاق کے اعلیٰ درجہ پر ہو۔ (سورۃ القلم: ۴) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے جب آپ ﷺ کے اخلاق کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا: آپ ﷺ کا اخلاق قرآنی تعلیمات کے عین مطابق تھا۔ (صحیح بخاری وصحیح مسلم) حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: مجھے بہترین اخلاق کی تکمیل کے لئے بھیجا کیا گیا ہے۔ (مسند احمد) حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے دس برس حضور اکرم ﷺ کی خدمت کی، مجھے کبھی کسی بات پر اف تک بھی نہیں فرمایا، نہ کسی کام کے کرنے پر یہ فرمایا کہ کیوں کیا؟ اور اسی طرح نہ کبھی کسی کام کے نہ کرنے پر یہ فرمایا کہ کیوں نہیں کیا؟ حضور اکرم ﷺ اخلاق میں تمام دنیا سے بہتر تھے، نیز خلقت کے اعتبار سے بھی آپ بہت خوبصورت تھے۔ میں نے کبھی کوئی ریشمی کپڑا یا خالص ریشم اور نرم چیز ایسی نہیں چھوئی جو حضور ا کرم ﷺ کی بابرکت ہتھیلی سے زیادہ نرم ہو۔ او رمیں نے کبھی کسی قسم کا مشک یا کوئی عطر حضور اکرم ﷺ کے پسینہ کی خوشبو سے زیادہ خوشبودار نہیں سونگھا۔ (ترمذی) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور اکرم ﷺ نے اپنے دست مبارک سے اللہ کے راستہ میں جہاد کے علاوہ کبھی کسی کو نہیں مارا، نہ کبھی کسی خادم کو نہ کسی عورت (بیوی باندی وغیرہ) کو۔ (ترمذی) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور اکرم ﷺ نہ تو طبعاً فحش گو تھے نہ بتکلف فحش بات فرماتے تھے، نہ بازاروں میں خلافِ وقار باتیں کرتے تھے۔ برائی کا بدلہ برائی سے نہیں دیتے تھے بلکہ معاف فرمادیتے تھے اور اس کا تذکرہ بھی نہیں فرماتے تھے۔ (ترمذی) حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ نے تین باتوں سے اپنے آپ کو بالکل علیحدہ فرما رکھا تھا: جھگڑے سے، تکبر سے اور بیکار باتوں سے۔ اور تین باتوں سے لوگوں کو بچا رکھا تھا۔ نہ کسی کی مذمت کرتے، نہ کسی کو عیب لگاتے اور نہ ہی کسی کے عیوب تلاش کرتے تھے۔ (ترمذی) ہمیں چاہئے کہ ہم اپنے نبی اکرم ﷺ کے اخلاق حمیدہ کو پڑھیں اور ان کو اپنی زندگی میں لانے کی ہر ممکن کوشش کریں۔
حضور اکرم ﷺ کی گھریلو زندگی
قرآن کریم روز قیامت تک کے لئے لوگوں سے مخاطب ہے: اے ایمان والو! تمہارے لئے یہ حلال نہیں ہے کہ رسول اکرم ﷺ کے بعد ان کی ازواج مطہرات میں سے کسی سے نکاح کرو۔ (سورۃالاحزاب: ۵۳) یعنی ازواج مطہرات (نبی اکرم ﷺ کی بیویاں) تمام ایمان والوں کے لئے ماں (ام المؤمنین) کا درجہ رکھتی ہیں۔ نبی اکرم ﷺ نے چند نکاح فرمائے۔ ان میں سے صرف حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کنواری تھیں، باقی سب بیوہ یا مطلقہ تھیں۔ نبی اکرم ﷺ نے سب سے پہلا نکاح ۲۵ سال کی عمرمیں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے کیا۔ حضرت خدیجہ کی عمر نکاح کے وقت ۴۰ سال تھی، یعنی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا آپ ﷺ سے عمر میں ۱۵ سال بڑی تھیں۔ نیز وہ نبی اکرم ﷺ کے ساتھ نکاح کرنے سے پہلے دو شادیاں کرچکی تھیں اور ان کے پہلے شوہروں سے بچے بھی تھے۔
جب نبی اکرم ﷺ کی عمر ۵۰ سال کی ہوئی تو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا انتقال ہوگیا۔ اس طرح نبی اکرم ﷺ نے اپنی پوری جوانی (۲۵ سے ۵۰ سال کی عمر) صرف ایک بیوہ عورت حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ گزاردی۔
حضرت سودہ رضی اللہ عنہا جو اپنے شوہر کے سا تھ مسلمان ہوئی تھیں، ان کی ماں بھی مسلمان ہوگئی تھیں، ماں اور شوہر کے ساتھ ہجرت کرکے حبشہ چلی گئیں تھیں۔ وہاں ان کے شوہر کا انتقال ہوگیا۔ جب اُن کا کوئی بظاہر دنیاوی سہارا نہ رہا تو نبی اکرم ﷺ نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی وفات کے بعد نبوت کے دسویں سال ان سے نکاح کرلیا ۔ اُس وقت آپ ﷺ کی عمر ۵۰ سال اور حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کی عمر ۵۵ سال تھی۔ اور یہ اسلام میں سب سے پہلی بیوہ عورت تھیں۔ حضرت خدیجہ کے انتقال کے بعد تقریباً تین چار سال تک صرف حضرت سودہ رضی اللہ عنہا ہی آپ ﷺ کے ساتھ رہیں کیونکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی رخصتی نکاح کے تین یا چار سال بعد مدینہ منورہ میں ہوئی۔ غرض تقریباً ۵۵ سال کی عمر تک آپ ﷺکے ساتھ صرف ایک ہی عورت رہی اور وہ بھی بیوہ ۔
اس کے بعد آپ ﷺ نے چندنکاح کئے۔ یہ نکاح کسی شہوت کو پوری کرنے کے لئے نہیں کئے کہ شہوت ۵۰ ۔۵۵سال کی عمر کے بعد اچانک ظاہر ہوگئی ہو۔ بلکہ چند سیاسی ودینی واجتماعی اسباب کو سامنے رکھ کر آپ ﷺ نے یہ نکاح کئے۔اگر شہوت پوری کرنے کے لئے آپ ﷺ نکاح فرماتے تو کنواری لڑکیوں سے شادی کرتے۔ نیز حدیث میں آتا ہے کہ آپ ﷺ نے کسی عورت سے شادی نہیں کی اور نہ کسی بیٹی کا نکاح کرایا مگر اللہ کی طرف سے حضرت جبرئیل علیہ السلام وحی لے کر آئے۔
خلاصۂ کلام:
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں جگہ جگہ اپنے حبیب محمد مصطفیﷺ کے اوصاف حمیدہ بیان فرمائے ہیں۔ آپ ﷺ نہ صرف اپنے زمانہ کے لوگوں کے لئے بلکہ قیامت تک آنے والے تما م انسانوں کے لئے نبی ورسول بناکر بھیجے گئے ہیں، اور نبوت کا سلسلہ آپﷺ پر ختم کردیا گیاہے، یعنی اب قیامت تک کوئی نبی نہیں آئے گا، یہی شریعت محمدیہ (یعنی علوم قرآن وحدیث) کل قیامت تک آنے والے تمام انسانوں کے لئے مشعل راہ ہے ۔ غرضیکہ آپﷺ کو عالمی رسالت سے نوازا گیا ہے۔ اتنے عظیم وبلند مقام پر فائز ہونے کے باوجود آپ کو مختلف طریقوں سے ستایا گیا، آپﷺ کی زندگی کا بیشتر حصہ تکلیفوں میں گزرا، مگر آپ ﷺ نے کبھی صبر کا دامن نہیں چھوڑا، آپ ﷺ رسالت کی اہم ذمہ داری کو استقامت کے ساتھ بحسن خوبی انجام دیتے رہے۔ آپﷺ کی عبادات، معاملات، اخلاق اور معاشرت سارے انسانوں کے لئے نمونہ ہے۔ ہمیں حضور اکرمﷺ کے اسوہ سے یہ سبق لینا چاہئے کہ گھریلو یا ملکی یا عالمی سطح پر جیسے بھی حالات ہمارے اوپر آئیں، ہم ان پر صبر کریں اور اپنے نبی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے اپنا تعلق مضبوط کریں۔ ہم اپنے نبی کے طریقہ پر اسی وقت زندگی گزار سکتے ہیں جب ہمیں اپنے نبی کی سیرت معلوم ہو، لہٰذا ہم خود بھی سیرت کی کتابوں کو پڑھیں اور اپنے بچوں کو بھی سیرت نبوی پڑھانے کا اہتمام کریں۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے حبیب محمد مصطفی ﷺ کے نقش قدم پر زندگی گزارنے والا بنائے، آمین۔
محمد نجیب قاسمی سنبھلی (www.najeebqasmi.com)
وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا
بسم الله الرحمن الرحيم
اَلْحَمْدُ لِله رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلام عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔
وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا
نبوت ایسا عظیم منصب ہے جو ہر کسی کو عطا نہیں کیا جاتا ہے، اور نہ کوئی شخص اپنی خواہش اور کوشش وجدجہد سے اِس منصب پر فائز ہوسکتا ہے۔ یہ صرف اور صرف اللہ تبارک وتعالیٰ کا عطیہ ہے جس کو چاہتا ہے اُسے اپنے فضل وکرم سے نوازتا ہے۔ جیساکہ اللہ تبارک وتعالیٰ قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے: اَللّٰہُ ےَصْطَفِی مِنَ الْمَلَاءِکَۃِ رُسُلًا وَّمِنَ النَّاسِ، اِنَّ اللّٰہَ سَمِےْعٌ بَصِےْرٌ۔ (سورۃ الحج ۷۵) اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے رسول منتخب کرلیتا ہے فرشتوں میں سے اور لوگوں میں سے۔ بیشک اللہ تعالیٰ سننے والا اور دیکھنے والا ہے۔
ہم سب کا یہ ایمان ہے کہ تمام ابنیاء کرام عام لوگوں کے مقابلے میں بہت زیادہ افضل وبہتر ہیں، مگر خود ابنیاء کرام بھی یکساں فضیلت کے حامل نہیں ہیں۔ بعض انبیاء کرام کادرجہ بعض دوسرے انبیاء کرام سے بڑھا ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: تِلْکَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَہُمْ عَلَی بَعْضٍ، مِنْہُمْ مَنْ کَلَّمَ اللّٰہُ، وَرَفَعَ بَعْضَہُمْ دَرَجَاتٍ (سورۃ البقرہ ۲۵۳)یہ حضراتِ انبیاء ایسے ہیں کہ ہم نے اِن میں سے بعض کو بعض دوسرے پر فضیلت دی ہے۔ بعض اِن میں وہ ہیں جن سے اللہ تعالیٰ نے کلام فرمایا ہے اور بعض کو اِن میں سے بہت سے درجوں پر سرفراز کیا ہے۔
اس دنیا میں اللہ تعالیٰ نے بندوں کی ہدایت ورہنمائی کے لئے تقریباً ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کرام مبعوث فرمائے جو سب لائق تعظیم اور انتہائی فضیلت کے حامل ہیں۔ مگر آخری نبی حضور اکرم ﷺ سب سے افضل وبلند مرتبہ والے ہیں۔ اگرچہ حضور اکرم ﷺ سب سے آخر میں نبی ورسل بناکر بھیجے گئے مگر آپ ﷺ تمام ابنیاء ورسل بلکہ ساری مخلوقات میں سب سے افضل واعلیٰ ہیں۔ اب تک تمام انبیاء کرام ورسل کو خاص زمانہ اور خاص لوگوں کے لئے مبعوث فرمایا گیا مگر تاجدار مدینہ حضور اکرم ﷺ کو پوری دنیا میں قیامت تک آنے والے تمام انس وجن کے لئے نبی ورسل بناکر بھیجا گیا۔
آپ ﷺکی عظمت وفضیلت پر بہت کچھ لکھا گیا اور بولا گیا ہے اور جب تک دنیا باقی ہے حضور اکرم ﷺ کے اوصاف حمیدہ بیان کئے جاتے رہیں گے۔اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب جسے اللہ تعالیٰ نے ۲۳ سال کے عرصہ میں حضور اکرم ﷺ پر بذریعہ وحی نازل فرمائی ، سرکار دوعالم ﷺ کے محاسن وفضائل اور کمالات کا ایک حسین وجمیل گلدستہ بھی ہے، اور آپ ﷺ کے اخلاق عالیہ واوصاف حسنہ کا ایک خوب صورت اور صاف شفاف آئینہ بھی۔ قرآن کریم میں متعدد مقامات پر آپ ﷺ کا ذکر خیر موجود ہے، کہیں آپ کو اللہ کا رسول کہا گیا ہے، کہیں لوگوں کو خوش خبری سنانے والا اور ڈرانے والا بتلایا گیا ہے، کہیں کہا گیا ہے کہ اے محمد آپ کی رسالت پوری کائنات کے لئے ہے، کہیں کہا آپ آخری نبی ہیں۔ کہیں فرمایا: اَلَمْ نَشْرَحْ لَکَ صَدْرَک کہیں فرمایا: سُبْحَانَ الَّذِیْ اَسْرَی بِعَبْدِہِ لَےْلاً مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَی الْمَسْجِدِ الْاَقْصَیکہیں فر مایا : اِنَّآ اَعْطَےْنَاکَ الْکَوْثَرْ کہیں فرمایا: لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِی رَسُولِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ کہیں فرمایا: اِنَّ اللّٰہَ وَمَلَاءِکَتَہُ ےُصَلُّونَ عَلَی النَّبِیِّ، ےَ�آاَیُّہَا الَّذِےْنَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَےْہِ وَسَلِّمُوا تَسْلِےْماً۔۔۔ غرضیکہ قرآن کریم میں آپ ﷺ کے بے شمار اوصاف بیان کئے گئے ہیں مگر وَمَا اَرْسَنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعَالَمِےْن (سورۂ الانبیاء ۱۰۷)کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کا ایک امتیازی وصف بیان کیا ہے۔ اور وہ ہے کہ ہم نے آپ کو دنیا جہاں کے لوگوں کے لئے رحمت بناکر بھیجا۔ یعنی آپ ﷺکی ذات سراپا رحمت ہے، نہ صرف اُس زمانہ کے لئے جس میں آپ مبعوث ہوئے اور نہ صرف اُن لوگوں کے لئے جن کے سامنے آپ مبعوث فرمائے گئے، بلکہ قیامت تک آنے والے تمام انسانوں کے لئے آپ ﷺ کو نبی رحمت یعنی سراپا رحمت بناکر بھیجا ہے۔
سیرت النبی کی کتابوں کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ نے کفار مکہ کے ہاتھوں کیا کچھ تکلیفیں اور اذیتیں نہ سہیں، لیکن کبھی نہ کسی کے لئے بددعا فرمائی اور نہ کسی پر نزول عذاب کی تمنا کی بلکہ اگر آپ ﷺ کو عذاب کا اختیار بھی دیا گیا تب بھی از راہِ رحمت وشفقت آپ ﷺ نے ہر تکلیف نظر انداز کی اور ظالموں سے درگزر کیا، حالانکہ اُن کا جرم کچھ کم نہیں تھا کہ وہ اللہ کے پیارے رسول کو ایذا دینے کے گناہ میں مبتلا ہوئے تھے، اُن پر اللہ تعالیٰ کا عذاب قہر بن کر نازل ہونا چاہئے تھا لیکن آپ ﷺ نے ہمیشہ عفو وکرم سے کام لیا اور محض آپ کی صفت رحمت کے باعث وہ قہر خداوندی سے محفوظ رہے۔
سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت سراپارحمت ہے، آپ ﷺ کی یہ خصوصیت آپ کی شخصیت کے ہر پہلو میں بہ تمام وکمال موجود ہے۔ آپ ﷺ اپنی گھریلو زندگی میں ، گھر سے باہر کے معاملات میں، اپنوں اور غیروں کے ساتھ، بڑوں اور بچوں کے ساتھ، ایک ناصح مشفق اور ہمدرد غم گسار کی حیثیت سے نمایاں نظر آتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺکو رحمت سے معمور دل عطا فرمایا تھا جو کمزوروں کے لئے تڑپ اٹھتا تھا، جو مسکینوں اور یتیموں کی حالتِ زار پر غم سے بھر جاتا تھا۔ سارے جہاں کا درد آپ ﷺکے دل میں سمٹ آیا تھا۔ یہاں تک کہ رحمت کا وصف آپ کی طبیعت ثانیہ بن گیا تھا، کیا چھوٹا، کیا بڑا، کیا اپنا کیا پرایا، کیا مسلمان، کیاکافر سب آپ ﷺکے رحم وکرم سے بہروہ رہا کرتے تھے۔
آپ ﷺکی صاحبزادیوں کو طلاق دی گئی، حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے علاوہ آپ ﷺکی تمام اولاد کا انتقال آپ ﷺ کی زندگی میں ہوا۔ آپ ﷺ کو برا بھلا کہا گیا، آپ ﷺ کے اوپر گھر کا کوڑا ڈالا گیا، آپ ﷺکے راستوں پر کانٹے بچھائے گئے، آپ ﷺ اور آپ کے خاندان وصحابۂ کرام کا تقریباً تین سال تک بائیکاٹ کیا گیا۔ آپ ﷺ کو طرح طرح سے ستایا گیا۔ آپ ﷺ کے دندان مبارک شہید ہوئے۔ آپ ﷺ کو اپنے وطن عزیز سے نکالا گیا مگر قربان جائیے اُس نبی رحمت پر کہ آپ ﷺ نے اُف تک نہ کہا۔
بچوں پر آپ ﷺ کی شفقت کا نظارہ قابل دید تھا، مدینہ منورہ کی گلیوں میں کوئی بچہ آپ کو کھیلتا کودتا نظر آتا تو آپ خوشی میں اس کو لپٹا لیا کرتے تھے، اس کو بوسے دیتے، اس کے ساتھ ہنسی مزاق کرتے، ایک مرتبہ آپ ﷺ اپنے نواسے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو پیار کررہے تھے کہ ایک دیہاتی کو یہ منظر دیکھ کر بڑی حیرت ہوئی اور کہنے لگا کہ کیا آپ اپنے بچوں کو پیار بھی کرتے ہو،ہم تو نہیں کرتے، آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا :کیا اللہ تعالیٰ نے تمہارے دل سے رحمت کا جذبہ ختم کردیا ہے؟
ایک مرتبہ آپ ﷺ اپنی نواسی امامہ بنت زینب رضی اللہ عنہا کو اٹھائے ہوئے نماز پڑھ رہے تھے، جب آپ سجدہ میں تشریف لے جاتے تو امامہ کو زمین پر بٹھادیتے اور کھڑے ہوتے تو انہیں گود میں اٹھالیتے۔۔۔۔ اسی طرح ایک مرتبہ نماز کے دوران بچے کے رونے کی آواز سنی تو آپ ﷺنے نماز مختصر کردی تاکہ بچے کو زیادہ تکلیف نہ ہو۔
حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ میں نماز کی نیت باندھ کر لمبی قرأت کرنا چاہتا ہوں کہ اچانک بچے کے رونے کی آواز سن کر مختصر کردیتا ہوں تاکہ اُس کی ماں کو پریشانی نہ ہو۔
آپ ﷺ بچوں کو بڑی محبت سے گود میں لے لیا کرتے تھے، کبھی بچے آپ کے کپڑے بھی خراب کردیتے لیکن آپ ﷺکو ناگواری نہ ہوتی۔ ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک مرتبہ ایک بچہ آپ ﷺ کی خدمت میں لایا گیا آپ ﷺنے اُس کو گود میں لے لیا تو اُس نے آپ ﷺ کے کپڑوں پر پیشاب کردیا۔ آپ ﷺنے پانی منگواکر کپڑے پاک کئے اور اُس بچہ کو پھر گود میں لے لیا۔
فصل کا نیا میوہ جب آپ ﷺ کے پاس آتا تو سب سے کم عمر بچے کو جو اُس وقت موجود ہوتا عطا فرماتے۔ غرضیکہ آج سے چودھ سو سال قبل رحمۃ للعالمین نے ایسے وقت بچوں کو اللہ تعالیٰ کی رحمت اور آرام کا ذریعہ قرار دیا جب ناک اونچی کرنے کے لئے بچیوں کو زندہ دفن کردینے کا رواج تھا۔ آپ ﷺ نے اُس وقت اُن پر تحفظ وسلامتی اور شفقت ومحبت کی ایک ایسی چادر تان دی تھی جب دنیا کے دوسرے حصوں میں بھی بچیوں کے تحفظ وسلامتی کے لئے کوئی قانون نہ تھا۔ رحمۃ للعالمین نے بچوں اور بچیوں کو نہ صرف دائمی تحفظ بخشا بلکہ انہیں گود میں لے کر ،انہیں کندھوں پر بٹھاکر، اپنے سینے مبارک سے لگاکر، انہیں معاشرہ میں ایسا مقام دیا جس کی مثال دنیا میں نہیں ملتی۔
بشریت کے تقاضے کی بناء پر آپ ﷺ بھی رنج وغم کی کیفیات سے گزرتے تھے اور فرطِ غم سے آپ ﷺ کی آنکھیں بھی چھلک اٹھتی تھیں۔ آپ ﷺ کے صاحبزادے حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی تو آپ ﷺ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔ حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! آپ رورہے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا یہ وہ رحم ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے دلوں میں پیدا فرمادیا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے اُن بندوں پر رحم کرتا ہے جن کے دلوں میں رحم ہوتا ہے۔
عورتیں فطرتاً کمزور ہوتی ہیں ، آپ ﷺ نے باربار صحابۂ کرام کو تلقین فرمائی کہ وہ عورتوں کے ساتھ نرمی کا معاملہ کریں، اُن کی دل جوئی کریں، اُن کی طرف سے پیش آنی والی ناگوار باتوں پر صبروتحمل کا مظاہرہ کریں۔ ایک مرتبہ حضور اکرم ﷺنے ارشاد فرمایا : خبردار! عورتوں کے ساتھ حسن سلوک کرو، اس لئے کہ یہ عورتیں تمہاری نگرانی میں ہیں ۔
ایک مرتبہ لڑکیوں کی تعلیم وتربیت کے سلسلہ میں حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا : جس شخص نے کسی لڑکی کی صحیح سرپرستی کی اور اس کی اچھی تربیت کی تو یہ لڑکی قیامت کے دن اس کے لئے دوزخ کی آگ سے رکاوٹ بن جائے گی۔
آپ ﷺ نے خود اپنے طرز عمل سے صحابۂ کرام کے سامنے خواتین کے ساتھ حسن سلوک کی اعلی مثالیں قائم کیں، ایک مرتبہ ام المؤمنین حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا اونٹنی پرسوار ہونے لگیں تو آپ ﷺ سواری کے پاس بیٹھ گئے اور حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا آپ کے گھٹنوں کے اوپر پاؤں رکھ کر اونٹنی پر سوار ہوئیں۔
آپ ﷺکی لخت جگر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا تشریف لاتیں تو آپ ﷺبہت خوش ہوتے اور انہیں اپنے ساتھ بیٹھاکر ان کا بہت احترام کرتے۔
ایک مرتبہ خواتین نے اجتماعی طور پر حاضر ہوکر عرض کیا کہ مردوں کو آپ سے استفادہ کا خوب موقع ملتا ہے، ہم عورتیں محروم رہ جاتی ہیں، آپ ہمارے لئے کوئی خاص دن اور وقت متعین فرمادیں۔ آپ ﷺ نے اُن کی درخواست قبول فرمائی اور اُن کے لئے ایک دن متعین فرمادیا۔ اُس دن آپ خواتین کے اجتماع میں تشریف لے جاتے اور اُن کو وعظ ونصیحت فرماتے۔۔۔۔ حضور اکرم ﷺ نے بیواؤں سے نکاح کرکے دنیا کو یہ پیغام دیا کہ بیواؤں کو تنہا نہ چھوڑو بلکہ اُنہیں بھی اپنے معاشرہ میں عزت بخشو۔
آپ ﷺ کو خادموں اور نوکروں کا بھی بڑا خیال تھا چنانچہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ یہ خاد م تمہارے بھائی ہیں، انہیں اللہ تعالیٰ نے تمہارا ماتحت بنادیا ہے، اگر کسی کا بھائی اُس کا ما تحت بن جائے تو اُسے اپنے کھانے میں سے کچھ کھلائے، اس کو ایسا لباس پہنائے جیسا وہ خود پہنتا ہے، اس کی طاقت وہمت سے زیادہ کام نہ لے، اگر کبھی کوئی سخت کام لے تو اُس کے ساتھ تعاون بھی کرے۔ ۔۔۔ اسی طرح حضور اکرم ﷺ کا ارشاد ہے کہ اگر تمہارا خادم یعنی نوکر چاکر تمہارے لئے کھانا بناکر لائے تو اُسے اپنے ساتھ بٹھاکر کھلاؤ یا اُس کھانے میں سے اُسے کچھ دیدو، اس لئے کہ آگ کی تپش اور دھویں کی تکلیف تو اُس نے برداشت کی ہے۔
یتیموں کے لئے بھی آپ ﷺکے دل میں بڑی ہمدردی تھی، اس لئے آپ صحابۂ کرام کو یتیموں کی کفالت کرنے پر اکسایا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا دونوں جنت میں اِس طرح ہوں گے ، آپ نے قربت بیان کرنے کے لئے بیچ اور شہادت کی انگلی سے اشارہ فرمایا۔ یعنی یتیم کی کفالت کرنے والا حضور اکرم ﷺ کے ساتھ جنت میں ہوگا۔
آپ ﷺ کی رحمت کا دائرہ صرف انسانوں تک محدود نہ تھا بلکہ بے زبان جانور بھی آپ ﷺ کی رحمت سے مستفید ہوتے تھے۔ احادیث میں ہے کہ ایک مرتبہ حضور اکرم ﷺ کسی انصاری صحابی کے باغ میں تشریف لے گئے ، وہاں ایک اونٹ موجود تھا، آپ ﷺ کو دیکھ کر اونٹ کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ آپ ﷺ یہ منظر دیکھ کر اُس اونٹ کے پاس تشریف لے گئے، اُس کے بدن پر ہاتھ پھیرا یہاں تک کہ پرسکون ہوگیا۔ اُس کے بعد آپ ﷺ نے دریافت کیا : اونٹ کس کا ہے؟ ایک انصاری نوجوان نے عرض کیا یارسول اللہ! میرا ہے۔ آپ ﷺنے اُن سے فرمایا کہ کیا تم اللہ سے نہیں ڈرتے جس نے تمہیں اِس جانور کا مالک بنایا ہے۔ اِس نے مجھ سے تمہاری شکایت کی ہے کہ تم اِسے بھوکا رکھتے ہو اور اِس سے زیادہ کام لیتے ہو۔
ایک مرتبہ آپ ﷺنے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کے ساتھ حسن سلوک کا حکم فرمایا ہے۔ اگر تم ذبح کرو تو اچھے طریقے پر ذبح کرو، ذبح کرنے سے پہلے اپنی چھری تیز کرلیا کرو تاکہ جانور کو زیادہ تکلیف نہ ہو۔
بے زبان چیزیں بھی آپ ﷺ کے دائرہ رحمت میں شامل تھیں، سیرت کی کتابوں میں ایک حیرت انگیز واقعہ موجود ہے، جس سے پتہ چلتا ہے کہ بے زبان چیزوں سے بھی آپ ﷺ کا کتنا تعلق تھا۔ مسجد نبوی میں جب آپ ﷺ خطبہ دیتے دیتے تھک جاتے تو ایک ستون سے ٹیک لگالیا کرتے تھے۔ بعد میں آپ ﷺ کے لئے منبر تیار کردیا گیا۔ آپ ﷺ اُس پر تشریف رکھنے لگے۔ ظاہر ہے کہ وہ ستون آپ کے جسم اطہر کے لمس سے محروم ہوگیا۔ اُس بے زبان ستون کو اِس واقعہ سے اِس قدر صدمہ پہونچا کہ وہ تڑپ اٹھا یہاں تک کہ اُس کے رونے کی آواز آپ ﷺ نے بھی سنی اور صحابۂ کرام کے کانوں تک بھی پہنچی۔ آپ ﷺ منبر سے اترکر ستون کے پاس تشریف لے گئے، اور اُس پر دستِ شفقت رکھ کر اُسکو پر سکون کیا۔ آپ ﷺ نے صحابۂ کرام سے ارشاد فرمایا کہ اگر میں اسے گلے نہ لگاتا تو یہ ستون قیامت تک اسی طرح روتا رہتا۔
مکی دور میں قریش مکہ نے آپ ﷺ کو کتنا ستایا، آپ ﷺ اور آپ کے صحابہ پر کتنے مظالم ڈھائے گئے یہاں تک کہ آپ کو اپنا وطن عزیز بھی چھوڑنا پڑا۔ اِس سے بڑھ کر تکلیف دہ واقعہ انسان کے کیا ہوسکتا ہے کہ وہ اپنے ہم وطنوں کے ظلم وستم سے عاجز آکر اپنا گھربار سب کچھ چھوڑکر دیار غیر میں جاکر فروکش ہوجائے۔ اِس کے باوجود جب چند سال بعد آپ ﷺ فاتحانہ مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے تو عجز وانکساری سے آپ ﷺکی گردن مبارک جھکی ہوئی تھی اور آپ ﷺکی زبان مبارک پر یہ الفاظ تھے : لَا تَثْرِےْبَ عَلَیکُمُ الْےَوْمَ تم پر آج کوئی گرفت نہیں ہے۔ حالانکہ آپ ﷺ اُس دن چاہتے تو اپنے تمام دشمنوں سے گن گن کر بدلہ لے سکتے تھے، مگر آپ ﷺنے انتقام پر عفو وکرم کو ترجیح دی اور فرمایا: الیوم یوم الرحمۃ آج رحمت کا دن ہے۔
قرآن کریم میں آپ ﷺ کو رحمتِ کائنات کا لقب دیا ہے۔ وَمَا اَرْسَنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعَالَمِےْن عالمین عالم کی جمع ہے، جس میں ساری مخلوقات انس، جن ، حیوانات، نباتات، جمادات سبھی داخل ہیں۔حضور اکرم ﷺ کا اِن سب چیزوں کے لئے رحمت ہونا اس طرح ہے کہ تمام کائنات کی حقیقی روح اللہ تعالیٰ کا ذکراور اس کی عبادت ہے، یہی وجہ ہے کہ جس وقت زمین سے یہ روح نکل جائے گی اور زمین پر کوئی اللہ اللہ کہنے والا نہ رہے گا تو ان سب چیزوں کی موت یعنی قیامت برپا ہوجائے گی۔ جب ذکر اللہ کا اِن سب چیزوں کی روح ہونا معلوم ہوگیا تو رسول اللہ ﷺ کا اِن سب چیزوں کے لئے رحمت ہونا خود بہ خود ظاہر ہوگیا، کیونکہ اِس دنیا میں قیامت تک ذکر اللہ اور عبادت آپ ﷺ ہی کی تعلیمات سے قائم ہے۔
آپ ﷺ کے رحمۃ للعالمین ہونے کا یہ مفہوم بھی لیا گیا ہے کہ آپ ﷺ جو شریعت لے کر دنیا میں تشریف لائے ہیں وہ انسانوں کی بھلائی اور خیر خواہی کے لئے ہے۔ آپ کی ہر تعلیم اور شریعت محمدیہ کا ہر حکم انسانیت کے لئے باعث خیر ہے۔
وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا ایسا عظیم موضوع ہے کہ رحمۃ للعالمین کے رحم وکرم اور شفقت پر پر دن رات بھی لکھا جائے تو اِس موضوع کا حق ادا نہیں کیا جاسکتا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی بیوی، بچے، گھر کے افراد اور گھر کے باہر لوگوں کے ساتھ ویسا ہی معاملہ کرنے والا بنائے جو رحمۃ للعالمین نے اپنے قول وعمل سے قیامت تک آنے والے انسانوں کے لئے پیش فرمائے، آمین۔
محمد نجیب قاسمی سنبھلی (www.najeebqasmi.com)
نبی اکرم ﷺ کی ازواج مطہرات
بسم الله الرحمن الرحيم
اَلْحَمْدُ لِله رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلام عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔
نبی اکرم ﷺ کی ازواج مطہرات
ازواج مطہرات (نبی اکرم ا کی بیویوں) کے متعلق اللہ تعالیٰ اپنے پاک کلام ( سورہ احزاب ۔ آیت ۳۲) میں ارشاد فرماتا ہے۔ (ےٰنِسَآءَ النَّبِیِّ لَسْتُنَّ کَاَحَدٍ مِنَ النِّسَاءِ) اے نبی کی ازواج (مطہرات) تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم بلند مقام کی حامل ہو۔ تمہاری ایک غلطی پر دوگنا عذاب دیا جائے گا۔ اور اسی طرح تم میں سے جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی فرماں برداری کرے گی اور نیک کام کرے گی ہم اسے اجر (بھی) دوہرا دیں گے اور اس کے لئے ہم نے بہترین روزی تیار کر رکھی ہے۔۔۔۔۔ جیساکہ سورہ احزاب آیت ۳۰ اور ۳۱میں مذکور ہے۔
قرآن کریم‘ روز قیامت تک کے لئے لوگوں سے مخاطب ہے: (وَلَآ اَنْ تَنْکِحُوآ اَزْوَاجَہُ مِنْ بَعْدِہِ اَبَداً) (سورہ احزاب ۔ آیت ۵۳) اے ایمان والو! تمہارے لئے یہ حلال نہیں ہے کہ رسول اکرم کے بعد ان کی ازواج مطہرات میں سے کسی سے نکاح کرو۔ یعنی ازواج مطہرات (نبی اکرم ﷺ کی بیویوں) تمام ایمان والوں کے لئے ماں (ام المؤمنین) کا درجہ رکھتی ہیں۔
نبی اکرم ﷺ نے چند نکاح فرمائے۔ ان میں سے صرف حضرت عائشہؓ کنواری تھیں، باقی سب بیوہ یا مطلقہ تھیں۔ نبی اکرم ﷺ نے سب سے پہلا نکاح‘ ۲۵ سال کی عمرمیں حضرت خدیجہؓ سے کیا۔ حضرت خدیجہؓ کی عمر نکاح کے وقت ۴۰ سال تھی، یعنی حضرت خدیجہ ؓ آپ ﷺ سے عمر میں ۱۵ سال بڑی تھیں۔ نیز وہ نبی اکرم ا کے ساتھ نکاح کرنے سے پہلے دو شادیاں کرچکی تھیں، اور اُن کے پہلے شوہروں سے بچے بھی تھے۔ جب نبی اکرم ا کی عمر ۵۰ سال کی ہوئی تو حضرت خدیجہ ؓ کا انتقال ہوگیا۔ اس طرح نبی اکرم ﷺ نے اپنی پوری جوانی (۲۵ سے ۵۰ سال کی عمر) صرف ایک بیوہ عورت حضرت خدیجہؓ کے ساتھ گزاردی۔
۵۰سے ۶۰ سال کی عمر میں آپ ﷺ نے چندنکاح کئے۔ یہ نکاح کسی شہوت کو پوری کرنے کے لئے نہیں کئے کہ شہوت ۵۰ سال کی عمر کے بعد اچانک ظاہر ہوگئی ہو۔ اگر شہوت پوری کرنے کے لئے آپ ﷺ نکاح فرماتے تو کنواری لڑکیوں سے شادی کرتے۔ نیز حدیث میں آتا ہے کہ آپ ﷺ نے کسی عورت سے شادی نہیں کی اور نہ کسی بیٹی کا نکاح کرایا مگر اللہ کی طرف سے حضرت جبرئیل علیہ السلام وحی لے کر آئے۔ بلکہ چند سیاسی ودینی واجتماعی اسباب کو سامنے رکھ کر آپ ﷺ نے یہ نکاح کئے۔ اِن سیاسی ودینی واجتماعی اسباب کا بیان مضمون کے آخر میں آرہا ہے۔
سب سے قبل‘ نبی اکرم ﷺ کی ازواج مطہرات کا مختصر تعارف:
امّ المؤمنین حضرت خدیجہؓ :
یہ نبی اکرم ﷺ کی پہلی بیوی ہیں۔ نبی کریم ﷺ کی دیانت ، کمال اور برکت کو دیکھ کر انہوں نے خود شادی کی درخواست کی تھی۔ نکاح کے وقت آپ ﷺ کی عمر ۲۵ سال اور حضرت خدیجہؓ کی عمر ۴۰ سال تھی۔ آپ ﷺ کی چاروں بیٹیاں (زینبؓ ، رقیہؓ ، ام کلثومؓ اور فاطمہؓؓ ) اور ابراہیمؓ کے علاوہ دونوں بیٹے (قاسمؓ اور عبداللہؓ ) حضرت خدیجہؓ ہی سے پیدا ہوئے۔ حضرت فاطمہؓ کے علاوہ آپ ﷺ کی ساری اولاد آپ ﷺ کی زندگی میں ہی انتقال فرماگئی تھی۔ حضرت فاطمہ ؓ کا انتقال نبی اکرم ﷺ کے انتقال کے چھ ماہ بعد ہوگیا تھا۔ آپ ﷺ کی پہلی بیوی حضرت خدیجہؓ کے انتقال کے وقت آپ ﷺ کی عمر ۵۰ سال تھی۔ حضرت خدیجہ ؓ کا انتقال نبوت کے دسویں سال ہوا ، اس وقت حضرت خدیجہ ؓ کی عمر ۶۵ سال تھی۔ حضرت خدیجہ ؓ کی سچائی اور غمگساری کو نبی اکرم ا ان کی وفات کے بعد بھی ہمیشہ یاد فرماتے تھے۔
امّ المؤمنین حضرت سودہ ؓ :
یہ اپنے شوہر (سکران بن عمرو) کے سا تھ مسلمان ہوئی تھیں، ان کی ماں بھی مسلمان ہوگئی تھیں، ماں اور شوہر کے ساتھ ہجرت کرکے حبشہ چلی گئیں تھیں۔ وہاں ان کے شوہر کا انتقال ہوگیا۔ جب اُن کا کوئی بظاہر دنیاوی سہارا نہ رہا تو نبی اکرم ﷺ نے حضرت خدیجہ ؓ کی وفات کے بعد نبوت کے دسویں سال اِن سے نکاح کرلیا ۔ اُس وقت آپ ا کی عمر ۵۰ سال اور حضرت سودہؓ کی عمر ۵۵ سال تھی۔ اور یہ اسلام میں سب سے پہلی بیوہ عورت تھیں۔ حضرت خدیجہ ؓ کے انتقال کے بعد تقریباً تین چار سال تک صرف حضرت سودہ ؓ ہی آپ ﷺ کے ساتھ رہیں، کیونکہ حضرت عائشہؓ کی رخصتی‘ نکاح کے تین یا چار سال بعد مدینہ منورہ میں ہوئی۔ غرض تقریباً ۵۵ سال کی عمر تک آپ ﷺ کے ساتھ صرف ایک ہی عورت رہی اور وہ بھی بیوہ ۔ حضرت سودہؓ کا انتقال ۵۴ ہجری میں ہوا۔
امّ المؤمنین حضرت عائشہ ؓ :
یہ خلیفہ اوّل حضرت ابو بکر صدیق ؓ کی بیٹی ہیں۔ حضرت ابو بکر صدیق ؓ کی آرزو تھی کہ میری بیٹی نبی کے گھر میں ہو۔ چنانچہ حضرت عائشہ ؓ کا نکاح نبی اکرم ﷺ کے ساتھ مکہ ہی میں ہوگیا تھا۔ مگر نبی کریم ﷺ کے گھر (مدینہ منورہ) میں ۲ ہجری کو آئیں۔ یعنی ۳ ، ۴ سال بعد رخصتی ہوئی۔ اُس وقت نبی اکرم ﷺ کی عمر ۵۵ سال تھی۔ جیسے باپ نے اسلام کی بڑی بڑی خدمات انجام دی تھیں، بیٹی بھی ایسی ہی عالمہ وفاضلہ ہوئیں کہ بڑے بڑے صحابہ کرام اُن سے مسائل دریافت فرمایا کرتے تھے۔ ۲۲۱۰ احادیث کی روایت اُن سے ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ اور حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کے بعد سب سے زیادہ احادیث حضرت عائشہ ؓ سے ہی مروی ہیں۔ نبی اکرم ﷺ کی صرف حضرت عائشہؓ ہی کنواری بیوی تھیں، باقی سب بیوہ یا مطلقہ تھیں۔ نبی اکرم ﷺ حضرت عائشہ ؓ سے بہت زیادہ محبت کرتے تھے۔ حضرت عائشہؓ کے حجرہ میں ہی آپ ﷺ کی وفات ہوئی اور اسی میں آپ ﷺ مدفون ہیں۔ حضرت عائشہ ؓ کا ۵۷ یا ۵۸ ہجری میں انتقال ہوا۔
امّ المؤمنین حضرت حفصہ ؓ بنت عمر :
یہ خلیفہ ثانی حضرت عمر فاروق ؓ کی بیٹی ہیں۔ انہوں نے اپنے پہلے شوہر کے ساتھ حبشہ اور پھر مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی تھی۔ ان کے شوہر غزوہ احد میں زخمی ہوگئے تھے اور انہیں زخموں سے تاب نہ لاکر انتقال فرماگئے تھے۔ اس طرح حضرت حفصہؓ بیوہ ہوگئیں، تو نبی اکرم ﷺ نے ان سے ۳ ہجری میں نکاح فرمالیا۔ اُس وقت آپ ﷺ کی عمر ۵۶ سال کی تھی۔ حضرت حفصہ ؓ بہت زیادہ عبادت گزار تھیں۔ حضرت حفصہ ؓ کا انتقال ۴۱ یا ۴۵ ہجری میں ہوا۔
امّ المؤمنین حضرت زینبؓ بنت خزیمہ :
ان کا پہلا نکاح طفیل بن حارث سے، پھر عبیدہ بن حارث سے ہوا تھا۔ یہ دونوں نبی اکرم ﷺ کے حقیقی چچیرے بھائی تھے۔ تیسرا نکاح حضرت عبد اللہ بن جحشؓ سے ہوا تھا، یہ نبی اکرم ﷺ کے پھوپھی زاد بھائی تھے، وہ جنگ اُحد میں شہید ہوئے۔ نبی اکرم ﷺ نے حضرت زینب ؓ کے تیسرے شوہر کے انتقال کے بعد اِن سے ۳ ہجری میں نکاح کرلیا۔ اُس وقت آپ ﷺ کی عمر ۵۶ سال کی تھی۔ وہ نکاح کے بعد صرف تین ماہ زندہ رہیں۔ یہ غریبوں کی اتنی مدد اور پرورش کیا کرتی تھیں کہ ان کا لقب امّ المساکین (مسکینوں کی ماں) پڑگیا تھا۔
امّ المؤمنین حضرت ام سلمہ ؓ :
ان کا پہلا نکاح حضرت ابو سلمہؓ سے ہوا تھا، جو نبی اکرم ﷺ کے پھوپھی زاد بھائی تھے۔ انہوں نے اپنے شوہر کے ساتھ حبشہ اور پھر مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی تھی۔ اِن کے شوہر حضرت ابو سلمہؓ کی جنگ احد کے زخموں سے وفات ہوگئی تھی۔ چار بچے یتیم چھوڑے۔ جب کوئی بظاہر دنیاوی سہارا نہ رہا تو نبی اکرم ﷺ نے بے کس بچوں اور ان کی حالت پر رحم کھاکر ان سے ۳ ہجری میں نکاح کرلیا۔ نکاح کے وقت آپ ا کی عمر ۵۶ سال اور حضرت ام سلمہ ؓ کی عمر ۶۵ سال تھی۔ ۵۸ یا ۶۱ ہجری میں حضرت ام سلمہ ؓ کا انتقال ہوگیا۔ امہات المؤمنین میں سب سے آخر میں انہیں کا انتقال ہوا۔
غرضیکہ حضرت حفصہؓ ، حضرت زینب بنت خزیمہ ؓ اور حضرت ام سلمہ ؓ کے شوہر غزوہ احد (۳ ہجری) میں شہید ہوئے ، یا زخموں کی تاب نہ لاکر انتقال فرماگئے تو آپ ا نے ان بیوہ عورتوں سے ان کے لئے دنیاوی سہارے کے طور پر نکاح فرمالیا۔
امّ المؤمنین حضرت زینب بنت جحش ؓ :
یہ نبی اکرم ﷺ کی سگی پھوپھی زاد بہن تھیں۔ نبی کریم ﷺ نے ان کا نکاح کوشش کرکے اپنے منہ بولے بیٹے (آزاد کردہ غلام) حضرت زیدؓ سے کرادیا تھا۔ لیکن شوہر کی حضرت زینبؓ کے ساتھ نہیں بنی اور بیوی کو چھوڑدیا۔ اگرچہ نبی اکرم ﷺ نے زید ؓ کو بہت سمجھایامگر دونوں کا ملاپ نہیں ہوسکا۔ حضرت زینبؓ کی اس مصیبت کا بدلہ اللہ نے یہ دیا کہ نبی کریم ا کے ساتھ اُن کا نکاح ۵ھجری میں ہو گیا، یعنی اُس وقت آپ ﷺ کی عمر ۵۸ سال تھی۔ زمانہ جاہلیت میں منہ بولے بیٹے کو حقیقی بیٹے کی طرح سمجھ کراس کی مطلقہ یا بیوہ عورت سے نکاح کرنا جائز نہیں سمجھتے تھے۔ نبی اکرم ﷺ نے حضرت زیدؓ کی مطلقہ عورت سے نکاح کرکے امتِ مسلمہ کو یہ تعلیم دی کہ منہ بولے بیٹے کا حکم حقیقی بیٹے کی طرح نہیں ہے، یعنی منہ بولے بیٹے کی مطلقہ یا بیوہ عورت سے شادی کی جاسکتی ہے۔ یاد رکھیں کہ باپ اپنے حقیقی بیٹے کی مطلقہ یا بیوہ عورت سے کبھی بھی شادی نہیں کرسکتا ۔ حضرت زینبؓ کا انتقال ۲۰ہجری میں حضرت عمر فاروق ؓ کے زمانہ خلافت میں ہوا۔
امّ المؤمنین حضرت جویریہ ؓ :
لڑائی میں پکڑی گئی تھیں اور حضرت ثابت بن قیسؓ کے حصہ میں آئیں، حضرت ثابت بن قیسؓ ۲۰ سال کے نوجوان تھے۔ حضرت ثابت بن قیسؓ نے حضرت جویریہ ؓ سے اُن کو آزاد کرنے کے لئے کچھ پیسہ مانگا۔ حضرت جویریہ ؓ مالی تعاون کے لئے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور یہ بھی ظاہر کیا کہ میں مسلمان ہوچکی ہوں۔ نبی اکرم ﷺ نے ساری رقم ادا کرکے اُن کو آزادکرادیا۔ پھر فرمایا کہ بہتر ہے کہ میں تمہارے ساتھ نکاح کرلوں۔ چنانچہ نبی کریم ﷺ کے ساتھ اُن کا نکاح ۵ھجری میں ہو گیا، یعنی اُس وقت آپ ﷺ کی عمر ۵۸ سال کی تھی۔ جب لشکر نے یہ سنا کہ سارے قیدی نبی اکرم ﷺ کے رشتہ دار بن گئے تو صحابہ کرام نے سب قیدیوں کو آزاد کردیا۔ اس طرح نبی اکرم ﷺ کی اس چھوٹی سی تدبیر نے ۱۰۰سے زیادہ انسانوں کو لونڈی وغلام بنائے جانے سے بچا دیا۔ نیز حضرت جویریہ ؓ کے ساتھ نکاح کرنے کی وجہ سے قبیلہ بنو مصطلق کی ایک بڑی جماعت نے اسلام قبول کرلیا۔ (یاد رکھیں کہ اسلام نے ہی عربوں میں زمانہ جاہلیت سے جاری انسانوں کو غلام ولونڈی بنانے کا رواج رفتہ رفتہ ختم کیا ہے)۔ حضرت جویریہ ؓ کا انتقال ۵۰ ہجری میں ہوا۔
امّ المؤمنین حضرت صفیہ ؓ بنت حیی بن اخطب :
ان کا تعلق یہودیوں کے قبیلہ بنو نضیر سے ہے۔ حضرت ہارون علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں۔ ان کے باپ ، بھائی اور ان کے شوہر کو جنگ میں قتل کردیا گیا تھا۔ یہ قید ہوکر آئیں۔ نبی اکرم ا نے ان کو اختیار دیا کہ چاہیں اسلام لے آئیں یا اپنے مذہب پر باقی رہیں۔ اگر اسلام لاتی ہیں تو میں نکاح کرنے کے لئے تیار ہوں۔ ورنہ ان کو آزاد کردیا جائے گا تاکہ اپنے خاندان کے ساتھ جاملیں۔ حضرت صفیہ ؓ اپنے خاندان کے لوگوں میں واپسی کے بجائے اسلام قبول کرکے نبی اکرم ﷺ سے نکاح کرنے کے لئے تیار ہوگئیں۔ نبی اکرم ﷺ نے ان کو آزاد کردیا ، پھر ۷ ہجری میں ان سے نکاح کرلیا۔ نکاح کے وقت نبی اکرم ﷺ کی عمر ۶۰ سال تھی۔ حضرت صفیہ ؓ کا انتقال ۵۰ ہجری میں ہوا۔
امّ المؤمنین حضرت ام حبیبہ ؓ :
حضرت ابو سفیان اموی ؓ کی بیٹی ہیں۔ جن دنوں اِن کے والد نبی کریم ﷺ کے ساتھ لڑائی لڑرہے تھے، یہ مسلمان ہوئی تھیں، اسلام کے لئے بڑی بڑی تکلیفیں اٹھائیں۔ پھر شوہر کو لیکر حبشہ کی طرف ہجرت کی، وہاں جاکر اُن کا شوہر مرتد ہوگیا۔ ایسی سچی اور ایمان میں پکی عورت کے لئے یہ کتنی مصیبت تھی کہ اسلام کے واسطے باپ، بھائی، خاندان، قبیلہ اور اپنا ملک وطن چھوڑا تھا۔ پردیس میں خاوند کا سہارا تھا۔ اس کی بے دینی سے وہ بھی جاتا رہا۔ نبی کریم ﷺ نے ایسی صابرہ عورت کے ساتھ حبشہ ہی میں ۷ ہجری میں نکاح کیا، یعنی اُس وقت آپ ﷺ کی عمر۶۰ سال تھی۔ ۴۴ ہجری میں حضرت ام حبیبہؓ کا انتقال ہوگیا۔
امّ المؤمنین حضرت میمونہ ؓ :
ان کے دو نکاح ہوچکے تھے ۔ اُن کی ایک بہن حضرت عباسؓ کے، ایک بہن حضرت حمزہؓ کے ، ایک بہن حضرت جعفر طیارؓ کے گھر میں تھیں۔ ایک بہن حضرت خالد بن ولیدؓ کی ماں تھیں۔ نبی اکرم ﷺ نے اپنے چچا حضرت عباس ؓ کے کہنے پر ۷ھجری میں حضرت میمونہ ؓ سے نکاح کرلیا۔ اُ س وقت آپ ﷺ کی عمر ۶۰ سال تھی۔ ۵۱ہجری میں حضرت میمونہؓ کی وفات ہوئی۔
**********
ان ازواج مطہرات میں سے حضرت خدیجہ ؓ اور حضرت زینبؓ بنت خزیمہ کا انتقال آپ ا کی زندگی میں ہوگیا تھا ، باقی سب کا انتقال آپ ا کی وفات کے بعد ہوا۔
**********
یہ سب نکاح اُس آیت سے پہلے ہوچکے تھے، جس میں ایک مسلمان کے واسطے بیویوں کی تعداد زیادہ سے زیادہ (بشرطِ عدل) چار تک مقرر کی گئی ہے۔ یہ بھی یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم ا کی بیویوں کو دوسروں کے لئے حرام قرار دیا۔ جیسا کہ مضمون کے شروع میں گزر چکا ہے۔ نیز سورہ احزاب ۵۲ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: (لَا ےَحِلُّ لَکَ النِّسَآءُ مِنْ بَعْدُ وَلَا اَنْ تَبَدَلَّ بِھِنَّ مِنْ اَزْوَاج وَلَوْ اَعْجَبَکَ حُسْنُہُنَّ) اس کے بعد اور عورتیں آپ کے لئے حلال نہیں ہیں۔ اور نہ یہ درست ہے کہ ان کے بدلے اور عورتوں سے نکاح کرو، اگرچہ ان کی صورت اچھی بھی لگتی ہو۔ یعنی آپ ا کو اِن ازواج مطہرات کے علاوہ (جن کی تعداد اس آیت کے نزول کے وقت ۹ تھی) دیگر عورتوں سے نکاح کرنے یا ان میں سے کسی کو طلاق دیکر اس کی جگہ کسی اور سے نکاح کرنے سے منع فرمادیا۔ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد نبی اکرم ﷺ نے کوئی دوسرا نکاح بھی نہیں کیا۔
یاد رکھیں کہ حدیث میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے تمام نکاح اللہ کے حکم سے ہی کئے۔ نیز عربوں میں ایک سے زیادہ شادی کرنے کا عام رواج تھا۔ نیز صحیح بخاری کی حدیث میں ہے کہ نبی اکرم ا کو چالیس مرد کی طاقت دی گئی تھی۔ غور فرمائیں کہ چالیس مرد کی طاقت رکھنے کے باوجودنبی اکرم ﷺ نے پوری جوانی اس بیوہ عورت کے ساتھ گزرادی جو پہلے دو شادیاں کرچکی تھیں، نیز اُن کے پہلے شوہروں سے بچے بھی تھے۔ اسکے بعد تین چار سال ایک دوسری بیوہ حضرت سودہؓ کے ساتھ گزار دئے۔ اس طرح ۵۵ سال کی عمر تک آپ ﷺ کے ساتھ صرف ایک ہی بیوہ عورت رہی۔
۵۰سے ۶۰ سال کی عمر میں آپ ﷺ نے چندنکاح کئے جن کے سیاسی ودینی واجتماعی چند اسباب یہ ہیں:
خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی بیٹی حضرت عائشہؓ ، خلیفہ ثانی حضرت عمر فاروق ؓ کی بیٹی حضرت حفصہ ؓ سے آپ ا نے نکاح کئے۔ خلیفہ ثالث حضرت عثمانؓ اور خلیفہ رابع حضرت علی ؓ کے ساتھ حضور اکرم ﷺ نے اپنی صاحبزادیوں کا نکاح کیا۔ غرضیکہ نکاح کے ذریعہ (آپکی وفات کے بعد آنے والے) چاروں خلفاء کے ساتھ داماد یا سسر کا رشتہ قائم ہوگیا۔ جس سے صحابہ کے درمیان تعلق مضبوط اور مستحکم ہوا، اور امت میں اتحاد و اتفاق پیدا ہوا۔
جنگوں میں بعض صحابہ کرام شہید ہوئے یا کفار مکہ نے مسلمان عورتوں کو طلاق دیدی تو نبی اکرم ﷺ نے اُن بیوہ یا مطلقہ عورتوں پر شفقت وکرم کا معاملہ فرمایا، اور ان سے نکاح کرلیا تاکہ ان بیوہ یا مطلقہ عورتوں کوکسی حد تک دلی تسکین مل سکے۔ نیز انسانیت کو بیوہ اور مطلقہ عورتوں سے نکاح کرنے کی ترغیب دی۔
نبی اکرم ﷺ نے سارے نکاح بیوہ یا مطلقہ عورتوں سے کئے۔ لیکن صرف ایک نکاح کنواری لڑکی حضرت عائشہ ؓ سے کیا، انہوں نے نبی اکرم ﷺ کی صحبت میں رہ کر مسائل سے اچھی طرح واقفیت حاصل کی۔ عربی میں محاورہ ہے : (اَلْعِلْمُ فِی الصِّغَرِ کَالنَّقشِ عَلَی الْحَجَرِ) چھوٹی عمر میں علم حاصل کرنا پتھرپر نقش کی طرح ہوتا ہے۔ تقریباً ۲۲۱۰ احادیث حضرت عائشہ ؓ سے مروی ہیں۔ نبی اکرم ﷺ کے انتقال کے ۴۲ سال بعد حضرت عائشہ ؓ کا انتقال ہوا۔ یعنی نبی ا کی وفات کے بعد ۴۲ سال تک علوم نبوت کو امت محمدیہ تک پہونچاتی رہیں۔
یہود ونصاریٰ میں سے جو حضرات مسلمان ہوئے ، ان کے ساتھ آپ ﷺ نے شفقت ورحمت کا معاملہ فرمایا۔ چنانچہ حضرت صفیہؓ مسلمان ہوئیں تو آپ ﷺ نے ان کو آزاد کیا، اور ان کی رضامندی پر آپ ﷺ نے ان سے شادی کی ۔ اسی طرح حضرت ماریہ ؓ جو عیسائی تھیں، ایمان لائیں تو آپ ﷺ نے ان کو عزت دیکر انہیں اپنے ساتھ رکھا۔ آپ کے بیٹے ابراہیم ؓ حضرت ماریہؓ سے ہی پیدا ہوئے۔
غرض نبی اکرم ﷺ نے مرد ہونے کی حیثیت سے صرف ایک نکاح کیا، اور وہ حضرت خدیجہ ؓ سے کیا۔ اور پوری جوانی انہیں بیوہ عورت کے ساتھ گزاردی۔ البتہ باقی نکاح رسول ہونے کی حیثیت سے کئے۔ جسکی تفصیل اوپرگزر چکی ہے۔
محمد نجیب قاسمی سنبھلی، ریاض
www.najeebqasmi.com
نبی اکرم ﷺ کی اولاد
بسم الله الرحمن الرحيم
اَلْحَمْدُ لِله رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلام عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔
نبی اکرم ﷺ کی اولاد
نبی اکرم ﷺ کی ساری اولاد آپ ﷺ کی پہلی بیوی حضرت خدیجہؓ سے مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئی، سوائے آپ کے بیٹے حضرت ابراہیمؓ کے، وہ حضرت ماریہ القبیطہؓ سے مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے۔
نبی اکرم ﷺ کے تین بیٹے : ۱۔ قاسمؓ ۲۔ عبداللہؓ ۳۔ ابراہیمؓ
قاسمؓ : مکہ مکرمہ میں نبوت سے قبل پیدا ہوئے۔ دو سال چھ ماہ کے ہوئے تو ان کا انتقال ہوگیا۔ بعض حضرات نے لکھا ہے کہ قاسمؓ ۷ ماہ کی عمر میں ہی اللہ کو پیارے ہوگئے تھے۔ مکہ مکرمہ میں مدفون ہیں۔ انہیں کی طرف نسبت کرکے آپ ﷺ کو ابو القاسم کہا جاتا ہے۔
عبداللہؓ : مکہ مکرمہ میں نبوت کے بعد پیدا ہوئے۔ ۲ سال سے کم عمر ہی میں ان کا انتقال ہوگیا۔ مکہ مکرمہ میں مدفون ہیں۔ ان کو طیب وطاہر بھی کہا جاتا ہے۔ ان ہی کی موت پر کسی شخص نے آپ ﷺ کو ابتر کہا ( وہ شخص جسکی کوئی اولاد نہ ہو) ، تو سورہ الکوثر نازل ہوئی، جسمیں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تیرا دشمن ہی بے اولاد رہے گا۔
ابراہیمؓ: ان کی پیدائش مدینہ منورہ میں ۸ ہجری میں ہوئی۔ ابراہیمؓ کی پیدائش پر آپ ﷺ اور صحابہ کرام بہت خوش ہوئے۔ سات دن کے ہونے پر آپ ﷺ نے ان کاعقیقہ کیا، بال منڈوائے، بالوں کے وزن کے برابر مسکینوں کو صدقہ دیا، اور بالوں کو دفن کردیا۔ ۱۰ ہجری میں ۱۶ یا ۱۸ ماہ کی عمر میں بیماری کی وجہ سے ابراہیم ؓ کا انتقال ہوگیا۔ ابراہیمؓ کے انتقال پر آپ ﷺ کافی رنجیدہ ومغموم ہوئے۔ مدینہ منورہ کے مشہور قبرستان (البقیع) میں مدفون ہیں۔ انہیں کے انتقال کے دن سورج گرہن ہوا ، لوگوں نے سمجھا کہ ابراہیمؓ کی موت کی وجہ سے یہ سورج گرہن ہوا ہے، تو آپ ﷺ نے فرمایا : سورج اور چاند اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں، یہ کسی کی زندگی یا موت پر گرہن نہیں ہوتے ہیں۔
نبی اکرم کی چار بیٹیاں: ۱۔ زینبؓ ۲۔ رقیہؓ ۳۔ ام کلثومؓ ۴۔ فاطمہؓ
آپ ﷺ کی تین بیٹیاں آپ کی حیاتِ مبارکہ ہی میں انتقال فرماگئیں، البتہ حضرت فاطمہؓ کا انتقال‘ آپ ﷺ کی رحلت کے چھ ماہ بعد ہوا۔ چاروں بیٹیاں مدینہ منورہ کے مشہور قبرستان (البقیع) میں مدفون ہیں۔
زینبؓ : آپ ﷺ کی سب سے بڑی صاحبزادی ہیں ۔ نبی اکرم ﷺ کی عمر جب ۳۰ سال کی تھی، یہ پیدا ہوئیں۔ ان کے شوہر حضرت ابو العاص بن ربیع ؓ تھے۔ ان سے دو بچے علیؓ اور امامہؓ پیدا ہوئے۔ نبی اکرم ﷺ کے مدینہ منورہ ہجرت کرنے کے بعد حضرت زینبؓ اپنے شوہر کے ساتھ کافی دنوں تک مکہ مکرمہ ہی میں مقیم رہیں۔ جب اسلام نے مشرکین کے ساتھ نکاح کرنے کو حرام قرار دیا تو حضرت زینبؓ نے اپنے شوہر سے اپنے والد کے پاس جانے کی خواہش ظاہر کی، کیونکہ وہ اس وقت تک ایمان نہیں لائے تھے۔ چنانچہ حضرت زینبؓ کافی تکلیفوں اور پریشانیوں سے گزرکر مدینہ منورہ اپنے والد کے پاس پہونچیں۔ کچھ دنوں کے بعد حضرت ابو العاص بن ربیع ؓ بھی ایمان لے آئے، آپ ﷺ نے حضرت زینبؓ کا حضرت ابو العاص بن ربیع ؓ کے ساتھ دوبارہ نکاح کردیا۔ لیکن مدینہ منورہ پہونچکر حضرت زینبؓ صرف ۷ یا ۸ ماہ ہی حیات رہیں، چنانچہ ۳۰ سال کی عمر میں ۸ ہجری میں انتقال فرماگئیں۔
رقیہ ؓ : آپ ﷺ کی دوسری صاحبزادی ہیں۔ نبی اکرم ﷺ کی عمر جب ۳۳ سال کی تھی، یہ پیدا ہوئیں۔ اسلام سے پہلے ان کا نکاح ابو لہب کے بیٹے عتبہ سے ہوا تھا۔ جب سورہ تبت نازل ہوئی تو باپ کے کہنے پر عتبہ نے حضرت رقیہ ؓ کو طلاق دیدی۔ پھر ان کی شادی حضرت عثمانؓ بن عفان سے ہوئی۔ ان سے ایک بیٹا عبداللہؓ پیدا ہوا جو بچپن میں ہی انتقال فرماگیا۔ حضرت رقیہ ؓ ؓ ۲ ہجری میں انتقال فرماگئیں ۔ انتقال کے وقت حضرت رقیہ ؓ کی عمر تقریباً ۲۰ سال تھی۔
ام کلثوم ؓ : آپ ﷺ کی تیسری صاحبزادی ہیں۔ اسلام سے پہلے ان کا نکاح ابو لہب کے دوسرے بیٹے عتیبہ کے ساتھ ہوا تھا۔ جب سورہ تبت نازل ہوئی تو ابولہب کے کہنے پر اس بیٹے نے بھی حضرت ام کلثوم ؓ کو طلاق دیدی۔ حضرت رقیہؓ کے انتقال کے بعد، ان کی شادی حضرت عثمانؓ بن عفان سے ہوئی۔ ۹ ہجری میں انتقال فرماگئیں ۔ انتقال کے وقت حضرت ام کلثومؓ کی عمر تقریباً ۲۵ سال تھی۔ حضرت ام کلثوم ؓ کے انتقال کے وقت آپ ﷺ نے فرمایا تھا کہ اگر میرے پاس کوئی دوسری لڑکی (غیر شادی شدہ ) ہوتی تو میں اسکا نکاح بھی حضرت عثمان غنی ؓ سے کردیتا۔
فاطمہ الزہراء ؓ : آپ ﷺ کی سب سے چھوٹی صاحبزادی ہیں۔ آپ ﷺ حضرت فاطمہؓ سے بہت محبت فرماتے تھے۔ نبی اکرم ﷺ کی عمر جب ۳۵ یا ۴۱ سال تھی، یہ پیدا ہوئیں۔ ان کا نکاح مدینہ منورہ میں حضرت علیؓ بن طالب کے ساتھ ہوا۔ سبحان اللہ ، الحمد للہ، اللہ اکبر کی تسبیحات ‘ حضرت فاطمہؓ کی دن بھر کی تھکان کو دور کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت جبرئیل علیہ السلام نبی اکرم ﷺ کے پاس لے کر آئے تھے۔ نبی اکرم ﷺ کے انتقال کے چھ ماہ بعد حضرت فاطمہ ؓ ۲۳ یا ۲۹ سال کی عمر میں انتقال فرماگئیں۔
حضرت فاطمہؓ بنت النبی ا کی اولاد: حسنؓ ، حسینؓ ، زینبؓ ، اور ام کلثومؓ
حضرت حسن ؓ : رمضان ۳ ہجری میں پیدا ہوئے۔ حضرت حسنؓ سر سے سینے تک نبی اکرم ﷺ کے مشابہ تھے۔ حضرت جبرئیل علیہ ا لسلام حسن نام کو جنت کے ریشم میں لپیٹ کر نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں لے کر آئے تھے، اور حسین ‘ حسن سے ماخوذ ہے۔ حضرت علیؓ کی شہادت کے بعد ۴۱ ہجری میں آپ کے ہاتھ پر بیعت کی گئی اور ان کو امیر المؤمنین کا لقب دیا گیا۔ ربیع الاول ۴۱ ہجری میں حضرت معاویہؓ سے صلح کرلی۔ اس طرح حضرت حسنؓ ۶ ماہ اور ۲۰ دن امیر المؤمنین رہے۔ حضرت حسن ؓ کو زہر دیا گیا، ۴۰ دن تک زہر سے متاثر رہے اور ربیع الاول ۴۹ ہجری میں انتقال فرماگئے۔ مدینہ منورہ (البقیع)میں مدفون ہیں۔
حضرت حسین ؓ : ۴ ہجری میں پیدا ہوئے۔ نبی اکرم ﷺ نے حضرت حسن ؓ کی طرح حضرت حسین ؓ کا بھی عقیقہ کیا۔ حضرت حسینؓ سینے سے ٹانگوں تک نبی اکرم ا کے مشابہ تھے۔ ۱۰ محرم الحرام، جمعہ کے دن ، ۶۱ ہجری میں ملکِ عراق میں کوفہ شہر کے قریب میدانِ کربلا میں شہید ہوئے۔
حضرت ام کلثومؓ : یہ حضرت عمر فاروق ؓ کی اہلیہ ہیں۔ ان سے حضرت زید ؓ اور حضرت رقیہؓ پیدا ہوئے۔
حضرت زینب ؓ : ان کا نکاح ‘ حضرت عبداللہ بن جعفر الطیّارؓ بن ابی طالب کے ساتھ ہوا۔ ان سے جعفرؓ ، عون الاکبرؓ، ام کلثومؓ اور علیؓ پیدا ہوئے۔
حضرت زینبؓ بنت النبی ﷺکی اولاد: ۱۔ علی ؓ ۲۔ امامہ ؓ
حضرت علی بن زینبؓ : ان کے والد حضرت ابو العاص ؓ ہیں جو ان کی والدہ حضرت زینبؓ کے خالہ زاد بھائی تھے۔
حضرت امامہ بنت زینبؓ : نبی اکرم ﷺ ان سے بہت محبت فرماتے تھے۔ نماز کے دوران کبھی کبھی وہ اپنے نانا کے کندھے پر بیٹھ جاتی تھیں۔ حضرت فاطمہؓ کے انتقال کے بعد حضرت فاطمہؓ کی وصیت کے مطابق امیر المؤمنین حضرت علیؓ نے ان سے نکاح فرمالیا تھا۔
محمد نجیب قاسمی سنبھلی، ریاض
لباس النبی ﷺ
بسم الله الرحمن الرحيم
اَلْحَمْدُ لِله رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلام عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔
لباس النبی ﷺ
پہلا باب : لباس :
یہ مضمون سید الانبیاء وسید البشر حضرت محمد مصطفی ﷺ کے لباس کے بیان میں ہے۔ اس مضمون کو لکھنے کا اہم مقصد وغرض یہ ہے کہ ہم اپنے لباس میں حتی الامکان نبی اکرم ﷺ کے طریقہ کو اختیار کریں اور وہ لباس جس کی وضع وقطع اور پہننا غیر مسنون ہے اس سے پرہیز کریں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے نبی اکرم ﷺ کے طریقہ کو کل قیامت تک آنے والے تمام انسانوں کے لئے نمونہ بنایا ہے جیساکہ قرآن کریم میں ارشاد فرمایا: لَقَدْ کَانَ فِی رَسُولِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَنْ کَانَ ےَرْجُو اللّٰہَ وَالْےَوْمَ الآخِرَ (سورۂ الاحزاب ۲۱) تم سب کے لئے رسول اللہ ﷺ کی ذات بہترین نمونہ ہے۔
لباس مصدر ہے بمعنی ملبوس (یعنی پوشاک) کے جیساکہ کتاب بمعنی مکتوب۔ لباس کا لفظ عمامہ، ٹوپی، قمیص، جبہ، چادر، تہبند،پاجامہ اور جو کچھ پہننے میں آئے سب کو شامل ہے۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے لباس کے متعلق قرآن کریم میں ارشاد فرمایا: ےَا بَنِی آدَمَ قَدْ اَنْزَلْنَا عَلَےْکُمْ لِبَاساً یُّوَارِی سَوْآتِکُمْ وَرِےْشاً وَلِبَاسُ التَّقْوَی ذٰلِکَ خَےْر(سورۂ الاعراف ۲۶) اے آدم علیہ السلام کی اولاد ہم نے تمہارے لئے لباس بنایا جو تمہاری شرم گاہوں کو بھی چھپاتا ہے اور موجب زینت بھی ہے اور بہترین لباس تقوی کا لبا س ہے۔ لِبَاسُ التقوی سے مراد وہ لباس ہے جس میں حیا ہو۔ دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: وَجَعَلَ لَکُمْ سَرَابِےْلَ تَقِےْکُمُ الْحَرَّ (سورۂ النحل ۸۱) اور تمہیں ایسی پوشاکیں بخشیں جو تمہیں گرمی سے بچاتی ہیں ۔
قرآن وسنت کی روشنی میں علماء کرام نے تحریر کیا ہے کہ انسان اپنے علاقہ کی عادات واطوار کے لحاظ سے چند شرائط کے ساتھ کوئی بھی لباس پہن سکتا ہے کیونکہ لباس میں اصل جواز ہے جیساکہ سورۂ الاعراف آیت نمبر ۳۲ میں اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا کہ لباس اور کھانے کی چیزوں میں وہی چیز حرام ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے۔
دوسرا باب : شرعی لباس کے چند بنیادی شرائط :
نبی اکرم اکے اقوال وافعال کی روشنی میں علماء کرام نے لباس کے بعض حسب ذیل شرائط تحریر کئے ہیں:
۱مرد حضرات کے لئے ایسا لباس پہننا فرض ہے ،جس سے ناف سے لے کر گھٹنے تک جسم چھپ جائے اور ایسا لباس پہننا سنت ہے جس سے ہاتھ ،پیر اور چہرے کے علاوہ مکمل جسم چھپ جائے۔ عورتوں کے لئے ایسا لباس پہننا فرض ہے،جس سے ہاتھ ،پیر اور چہرے کے علاوہ ان کا پورا جسم چھپ جائے۔ نوٹ: یہاں لباس کا بیان ہے نہ کہ پردے کا، غرضیکہ غیر محرم کے سامنے عورت کو چہرا ڈھانکنا ضروری ہے۔
۲لباس نبی اکرم ﷺ کی تعلیمات کے خلاف نہ ہو۔ مثلاً مرد حضرات کیلئے ریشمی کپڑے اور خالص سرخ یا زرد رنگ کا لباس۔
۳ایسا تنگ یا خفیف لباس نہ ہو جس سے جسم کے اعضاء نظر آئیں۔
۴مردوں کا لباس عورتوں کے مشابہ اور عورتوں کا لباس مردوں کے مشابہ نہ ہو۔
۵مردوں کا لباس زیادہ رنگین اور عورتوں کا لباس زیادہ خوشبو والا نہ ہو۔
۶مردوں کا لباس ٹخنوں سے اوپر جبکہ عورتوں کا لباس ٹخنوں سے نیچے ہو۔
۷کفار ومشرکین کے مذہبی لباس سے مشابہت نہ ہو۔
تیسرا باب: آپ ﷺ کا پسندیدہ لباس “سفید پوشاک” :
امت مسلمہ اس بات پر متفق ہے کہ نبی اکرم ا سفید کپڑوں کو بہت پسند فرماتے تھے۔ متعدد احادیث میں اس کا تذکرہ ملتا ہے، یہاں اختصار کی وجہ سے صرف ۲حدیثیں ذکر کررہا ہوں:
حضرت عبد اللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: کپڑوں میں سے سفید کو اختیار کیا کروکیونکہ وہ تمہارے کپڑوں میں بہترین کپڑے ہیں اور سفید کپڑوں میں ہی اپنے مردوں کو کفن دیا کرو۔ ترمذی / الجنائز ۹۹۴، ابو داؤد/ اللباس ۴۰۶۱، ابن ماجہ/ باب ماجاء فی الجنائز، مسند احمد ۱/۲۴۷، صحیح ابن حبان
حضرت سمرہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: سفید لباس پہنو کیونکہ وہ بہت پاکیزہ ، بہت صاف اور بہت اچھا ہے اور اسی میں اپنے مردوں کو کفن دیا کرو۔ نسائی ۔ الامر بلبس البیض من الثیاب، ترمذی، ابن ماجہ
زیادہ پاکیزہ اس لئے کہ وہ بہت جلدی میلے ہوجاتے ہیں اسی لئے زیادہ دھوئے جاتے ہیں برخلاف رنگین کپڑوں کے کیونکہ دیر سے دھوئے جانے کی وجہ سے ان میں زیادہ گندگی ہوتی ہے۔ اچھے اس لئے کہ طبیعت سلیمہ ان کی طرف میلان کرتی ہے۔ (اشعۃ اللمعات ۔ کتاب اللباس) شیخ فقیہ ابو اللیث سمرقندی ؒ (متوفی ۳۷۳ھ) نے اپنی کتاب “بستان العارفین” میں اور فقہ حنفی کی مشہور ومعروف کتاب “رد المختار” کے مصنف علامہ شامی ؒ نے تحریر کیا ہے کہ رنگوں میں پسندیدہ رنگ سفید ہے اور سفید لباس پہننا سنت ہے۔
چوتھا باب : رنگین لباس کے متعلق آپ ﷺ کے ارشادات وعمل :
نبی اکرم ا زیادہ تر سفید لباس پہنا کرتے تھے اگرچہ دوسرے رنگ کے کپڑے بھی آپ انے استعمال کئے ہیں۔ رنگین لباس چادر یا عبایہ یا جبہ کی شکل میں عموماً ہوا کرتا تھا کیونکہ آپ اکی قمیص اور تہبند عموماً سفید ہوا کرتی تھی۔
حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاصؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ان کو خالص زرد رنگ کے کپڑوں میں ملبوس دیکھا تو فرمایاکہ یہ کافروں کا لباس ہے اس کو نہ پہنو۔ (مسلم ۲۰۷۷) ایک روایت میں ہے کہ آپ انے فرمایا کہ ان کو جلا ڈالو۔
حضرت عمران بن حصینؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: نہ تو میں ارغوانی گھوڑے پر سوار ہوں گا اور نہ پیلے رنگ کے کپڑے پہنوں گا جوریشمی حاشیہ والے ہوں اور فرمایا کہ خبردار رہو کہ مردوں کی خوشبو وہ خوشبو ہے جس میں رنگ نہ ہو اور عورتوں کی خوشبو وہ خوشبو ہے جس میں خوشبو نہ ہو رنگ ہو۔ (مشکوۃ ص ۳۷۵) ارغوان ایک سرخ رنگ کا پھو ل ہے، اب ہر سرخ رنگ کو ارغوانی کہا جاتا ہے، وہی یہاں مراد ہے۔
حضرت ابی رِمثہ رفاعہ فرماتے ہیں کہ میں نے آپ ﷺ کو دو سبز کپڑوں میں ملبوس دیکھا۔ ابو داؤد ۴۰۶۵، ترمذی ۲۸۱۳
حضرت براء فرماتے ہیں کہ نبی اکرم ا کا قد درمیانی تھا۔ ایک مرتبہ میں نے آپ ا کو سرخ دھاریوں والی چادر میں ملبوس دیکھا۔ میں نے کبھی بھی اس سے زیادہ کوئی خوبصورت منظر نہیں دیکھا۔ بخاری ۱۰/۲۵۸ ومسلم۲۳۳۷
حضرت انس سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ سرخ دھاریوں والی یمنی چادر کو بہت پسند فرماتے تھے۔ بخاری ومسلم
وضاحت: بعض روایات میں وارد ہے کہ آپ انے سرخ پوشاک استعمال کی ہے، جبکہ دیگر احادیث میں مردوں کو سرخ اور پیلے کپڑے پہننے سے نبی اکرم ﷺ نے منع فرمایا ہے۔ اس بظاہر تضاد کی محدثین وعلماء نے یہ توجیہ بیان کی ہے کہ خالص سرخ یا خالص پیلے کپڑے نہیں پہننے چاہئے، البتہ سرخ یا پیلے رنگ کی دھاریوں والے (یعنی ڈیزائن والے) کپڑے پہنے جاسکتے ہیں۔
پانچواں باب : آپ ﷺ کی قمیص :
حضرت ام سلمہ فرماتی ہیں کہ رسول کریم ﷺ کو کپڑوں میں قمیص زیادہ پسند تھی۔ ترمذی ۱۷۶۲، ابو داؤد ۴۰۲۵
آپ ﷺ کی قمیص کے جو اوصاف احادیث صحیحہ میں مذکور ہیں ان میں سے بعض مندرجہ ذیل ہیں :
آپ ﷺ کی قمیص کا رنگ عموماً سفید ہوا کرتا تھا۔ ابوداؤد، ترمذی، ابن ماجہ، نسائی، مسند احمد، صحیح ابن حبان وغیرہ
آپ ﷺ کی قمیص تقریباً نصف پنڈلی تک ہوا کرتی تھی۔ ابو داؤد، ابن ماجہ
آپ ﷺ کی قمیص کی آستین عموماً پہونچے تک ہوا کرتی تھی۔ ابو داؤد ج۲ص۲۰۳، ترمذی۔ ۔ کبھی کبھی انگلیوں کے سرے تک۔
آپ ﷺ کی قمیص اور قمیص کی آستین کشادہ ہوا کرتی تھی۔
چھٹا باب : آپ ﷺ کا عمامہ :
آپ ﷺ کا عمامہ اکثر اوقات سفید ہی ہوا کرتاتھا اور کبھی سیاہ اور کبھی سبز۔ آپ ا کا عمامہ عموماً ۶۔۷ ذراع لمبا ہوا کرتا تھا۔
حضرت عبداللہ بن عمرسے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ جب عمامہ باندھتے تو اسے دونوں کندھوں کے درمیان ڈالتے تھے۔ یعنی عمامہ شریف کا “شملہ” دونوں کندھوں کے درمیان لٹکارہتا تھا۔ مشکوۃ ص ۳۷۴
حضرت جابرسے روایت ہے کہ فتح مکہ کے دن نبی اکرم ﷺ اس حال میں مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے کہ آپ ﷺ کے سر پر سیاہ عمامہ تھا۔ مسلم، ترمذی
* حضرت جعفر بن عمرو بن حریث اپنے والدؓ سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے آپ ﷺ کے سر مبارک پر سیاہ عمامہ دیکھا۔ ترمذی
نوٹ: شملہ لٹکانا مستحب ہے اور سنن زوائد میں سے ہے۔ شملہ کی کم از کم مقدار چار انگل ہے اور زیادہ سے زیادہ ایک ہاتھ ہے۔
ساتواں باب : آپ ﷺ کی ٹوپی :
حضور اکرم ﷺ عموماً سفید ٹوپی اوڑھا کرتے تھے۔ وطن میں آپ ﷺ سر سے چپکی ہوئی ٹوپی اوڑھا کرتے تھے، البتہ آپ ﷺ کے سفر کی ٹوپی اٹھی ہوئی ہوتی تھی۔ علامہ ابن القیم ؒ اپنی بلند پایہ کتاب “زاد المعاد فی ہدی خیر العباد” میں تحریر کرتے ہیں کہ آپ ﷺ عمامہ باندھتے تھے اور اس کے نیچے ٹوپی بھی پہنتے تھے، آپ ﷺ عمامہ کے بغیر بھی ٹوپی پہنتے تھے اور آپ ﷺ ٹوپی پہنے بغیر بھی عمامہ باندھتے تھے۔ سعودی عرب کے تمام شیوخ کا فتویٰ بھی یہی ہے کہ ٹوپی نبی اکرم ﷺ کی سنت اور تمام محدثین ومفسرین وفقہاء وعلماء وصالحین کا طریقہ ہے نیز ٹوپی پہننا انسان کی زینت ہے اور قرآن کریم (سورہ الاعراف ۳۱) کی روشنی میں نماز میں زینت مطلوب ہے لہذا ہمیں نماز ٹوپی پہن کر ہی پڑھنی چاہئے۔ حضرت عبد اللہ بن عمرؓ نے اپنے غلام نافع کو ننگے سر نماز پڑھتے دیکھا تو بہت غصہ ہوئے اور کہا کہ اللہ تعالیٰ زیادہ مستحق ہے کہ ہم اس کے سامنے زینت کے ساتھ حاضر ہوں۔ امام ابوحنیفہ ؒ نے ننگے سر نماز پڑھنے کو مکروہ قرار دیا ہے۔ موجودہ زمانہ کے محدث شیخ ناصر الدین البانی ؒ نے بھی اپنی کتاب” تمام المنۃ” کے صفحہ ۱۶۴ پر تحریر کیا ہے کہ زیر بحث مسئلہ میں میری رائے یہ ہے کہ ننگے سر نماز پڑھنا مکروہ ہے۔
آٹھواں باب :آپ ﷺ کا جبہ :
حضرت اسماء بنت ابوبکرؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک طیالسی کسروانیہ جبہ مبارک نکالا جس کا گریبان ریشم کا تھااور اس کے دونوں دامن ریشم سے سلے ہوئے تھے، اور فرمایا کہ یہ اللہ کے رسول ا کا جبہ ہے جو ام المؤمنین حضرت عائشہؓ کے پاس تھا جب وہ وفات پاگئیں تو اسے میں نے لے لیا۔ نبی اکرم ا اسے پہنا کرتے تھے۔ اب ہم اسے بیماریوں کے لئے دھوتے ہیں اور اس سے شفا حاصل کرتے ہیں۔ (مشکوۃ ص ۳۷۴)
آپ ﷺ نے رومی اور شامی اونی جبوں کا بھی استعمال کیا ہے۔ بخاری ومسلم
نواں باب : آپ ﷺ کا ازار یعنی تہنبد وپائجامہ وغیرہ :
ازار اس لباس کو کہتے ہیں جو جسم کے نچلے حصہ میں پہنا جاتا ہے۔ عموماً نبی اکرم ا تہبند کا استعمال فرماتے تھے، کبھی کبھی آپ ﷺ نے پائجامہ بھی استعمال کیا ہے۔ آپ ا کا تہبند ناف کے اوپر سے نصف پنڈلی تک رہا کرتا تھا۔ صحابۂ کرام بھی عموماً تہبند استعمال کرتے تھے اور آپ اکی اجازت سے پائجامہ بھی پہنتے تھے۔
حضرت ابو سعید الخدریؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: مسلمان کا لباس آدھی پنڈلی تک رہنا چاہئے۔ نصف پنڈلی اور ٹخنوں کے درمیان اجازت ہے۔ لباس کا جتنا حصہ ٹخنوں سے نیچے ہو وہ جہنم کی آگ میں ہے۔ ابو داؤد، ابن ماجہ
حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص بطور تکبر اپنا کپڑا گھسیٹے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی جانب نظر عنایت نہیں فرمائے گا۔ بخاری ۱۰/ ۲۱۷، مسلم ۲۰۸۵
حضرت ابو ہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: لباس کا جتنا حصہ ٹخنوں سے نیچے ہو وہ جہنم کی آگ میں ہے۔ بخاری ۱۰/۲۱۸
حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: لٹکانا تہبند ، قمیص اور عمامہ میں پایا جاتا ہے، جس نے ان میں سے کسی لباس کو بطور تکبر ٹخنوں سے نیچے لٹکایا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی جانب نظر رحمت نہیں فرمائے گا۔ ابو داؤد ۴۰۹۴، نسائی ۸/۲۰۸
حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ فرماتے ہیں کہ جو حکم نبی اکرم ﷺ نے پائجامہ کے متعلق فرمایا وہی حکم قمیص کا بھی ہے۔ ابو داؤد
مذکورہ ویگر احادیث کی روشنی میں علماء کرام نے اس مسئلہ کی مذکورہ شکلیں اس طرح تحریر فرمائی ہیں:
نصف پنڈلی تک لباس : نبی اکرم ا کی سنت
ٹخنوں تک لباس : رخصت یعنی اجازت
تکبر کے بغیرٹخنوں سے نیچے لباس : مکروہ
تکبرانہ ٹخنوں سے نیچے لباس : حرام
عورتوں کا لباس ٹخنوں سے نیچا ہونا چاہئے۔
حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص بطور تکبر اپنا کپڑا گھسیٹے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی جانب نظر رحمت نہیں فرمائے گا۔ حضرت ام سلمہؓ نے سوال کیا کہ عورتیں اپنے دامن کا کیا کریں؟ تو آپ انے فرمایا: وہ (نصف پنڈلی سے) ایک بالشت نیچے لٹکائیں۔ حضرت ام سلمہؓ نے دوبارہ سوال کیا کہ اگر پھر بھی ان کے قدم کھلے رہیں؟ تو آپ انے فرمایا: وہ (نصف پنڈلی سے) ایک ذراع (شرعی پیمانہ جو تقریباً ۳۰ سینٹی میٹر کا ہوتا ہے) نیچے لٹکالیں، لیکن اس سے زیادہ نہیں۔ ابو داؤد ۴۱۱۹، ترمذی ۱۷۳۶
دسواں باب : آپ ﷺ کے لباس میں درمیانہ روی:
رسول اکرم ﷺ نے اعلیٰ وعمدہ وقیمتی لباس بھی پہنے ہیں مگر ان کی عادت نہیں ڈالی۔ ہر قسم کا لباس بے تکلف پہن لیتے تھے۔
حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا : جس نے دنیا میں شہرت کا کپڑا پہنا، بروز قیامت اللہ تعالیٰ اسے ذلت کا کپڑا پہنائے گا۔ ابوداؤد ۔ باب فی لباس الشہرۃ
حضرت ابو ہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ ہمارے سامنے ام المؤمنین حضرت عائشہؓ نے ایک پیوند لگی ہوئی چادر اور موٹا تہبند نکالا پھر فرمایا کہ نبی اکرم ﷺ کی روح مبارکہ ان دونوں میں قبض کی گئی۔ بخاری ج۲ص۸۶۵، مسلم
ام المؤمنین حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ مجھ سے رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: اے عائشہ! اگر تم مجھ سے ملنا چاہتی ہو تو تمہیں دنیا سے اتنا کافی ہو جیسے سوار مسافر کا توشہ اور امیروں کی مجلس سے اپنے آپ کو بچاؤ اور کسی کپڑے کو پرانا نہ سمجھو حتی کہ اس کو پیوند لگالو۔ (ترمذی ۱۷۸۰) یہ انتہائی قناعت کی تعلیم ہے کہ پیوند لگے کپڑے پہننے میں عار نہ ہو۔
حضرت عمرو بن شعیب اپنے والد اور وہ ان کے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے کہ اس کی نعمتوں کا اثر بندے پر ظاہر ہو۔ (ترمذی ۲۸۲۰) یعنی اگر مال اللہ تعالیٰ نے دیا ہو تو اچھے کپڑے پہننے چاہئیں۔
حضرت معاذ بن انسؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس شخص نے اللہ تعالیٰ کے ڈر سے لباس میں فضول خرچی سے اپنے آپ کو بچایا حالانکہ وہ اس پر قادر تھا تو کل قیامت کے روز اللہ تعالیٰ تمام انسانوں کے سامنے اس کو بلائے گا اور جنت کے زیورات میں سے جو وہ چاہے گا اس کو پہنایا جائے گا۔ ترمذی ۲۴۸۳
* حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں گندے کپڑے پہنے ہوئے حاضر خدمت ہوا۔ آپ انے فرمایا : کیا اس شخص کو کوئی چیز نہیں ملی کہ یہ اپنے کپڑے دھوسکے؟ نسائی، مسند احمد
غرضیکہ حسب استطاعت فضول خرچی کے بغیر اچھے وصاف ستھرے لباس پہننے چاہئیں۔
گیارہواں باب : لباس کے متعلق آپ ﷺ کی بعض سنتیں :
دائیں طرف سے کپڑا پہننا سنت ہے:
حضرت ابو ہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ جب قمیص زیب تن فرماتے تو دائیں طرف سے شروع فرماتے۔ (ترمذی ج۱ص۳۰۲) اس طرح کہ پہلے دایاں ہاتھ دائیں آستین میں ڈالتے پھر بایاں ہاتھ بائیں آستین میں ڈالتے ۔
نیا لباس پہننے کی دعا:
حضرت ابو سعید الخدری ؓ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ جب نیا کپڑا پہنتے تو اس کا نام رکھتے عمامہ یا قمیص یا چادر پھر یہ دعا پڑھتے: اَللّٰھُمَّ لَکَ الْحَمْدُ اَنْتَ کَسَوْتَنِےْہِ اَسْءَلُکَ مِنْ خَےْرِہِ وَخَےْرِ مَا صُنِعَ لَہُ وَاَعُوْذُ بِکَ مِنْ شَرِّہِ وَشَرِّ مَا صُنِعَ لَہُ اے میرے اللہ! تیرا شکر ہے کہ تو نے مجھے یہ پہنایا، میں اس کپڑے کی خیر اور جس کے لئے یہ بنایا گیا ہے اس کی خیر مانگتا ہوں اور اس کی اور جس کے لئے یہ بنایا گیا ہے اس کے شر سے پناہ مانگتا ہوں۔ ابو داؤد، ترمذی
پائجامہ پہننے کا طریقہ:
آپ ا کی تعلیمات میں ہے کہ پائجامہ /شلوار بیٹھ کرپہنیں۔ بعض احادیث ضعیفہ میں کھڑے ہوکر پائجامہ وغیرہ پہننے پر سخت وعید وارد ہوئی ہے مثلاً: جس نے بیٹھ کر عمامہ باندھا یا کھڑے ہوکر سراویل (پائجامہ یا شلوار) پہنی تو اللہ تعالیٰ اسے ایسی مصیبت میں مبتلا فرمائے گا جس کی کوئی دواء نہیں۔۔ یہ حدیث شیخ شاہ عبد الحق محدث دہلوی ؒ نے اپنی کتاب “کشف الالتباس فی استحباب اللباس” میں ذکر کی ہے۔ ہمارے علماء کرام ہمیشہ احتیاط پر عمل کرتے ہیں ، لہذا احتیاط اسی میں ہے کہ ہم اپنا پائجامہ وغیرہ بیٹھ کر پہنیں اگرچہ کھڑے ہوکر پہننا بھی جائز ہے۔
بالوں کی چادر:
حضرت عائشہ ؓ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ جب ایک مرتبہ صبح کو مکان سے تشریف لے گئے تو آپ اکے بدن پر سیاہ بالوں کی چادر تھی۔ شمائل ترمذی
بارہواں باب : ریشمی لباس کے متعلق آپ ﷺ کے ارشادات :
ریشمی لباس پہننا مردوں کے لئے حرام ہے، البتہ ۲ یا ۳ یا ۴ انگل ریشمی حاشیہ والے کپڑے مردوں کے لئے جائز ہیں۔ نیز خارش اور کھجلی کے علاج کے لئے ریشمی لباس کا استعمال مردوں کے لئے جائز ہے۔
* حضرت عمر فاروق ؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس مرد نے دنیا میں ریشمی کپڑے پہنے وہ آخرت میں ریشمی کپڑوں سے محروم کردیا جائے گا۔ بخاری، مسلم
* حضرت عمر فاروق ؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: دنیا میں صرف وہی مرد ریشمی کپڑے پہن سکتا ہے جس کے لئے آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔ بخاری، مسلم
* حضرت ابوموسی اشعری ؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ریشمی کپڑے اور سونے کے زیورات میری امت کے مردوں پر حرام ہیں۔ ترمذی ۱۷۲۰
حضرت عمر فاروق ؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ریشم کے پہننے سے منع فرمایا ہے مگر ایک یا دو یا تین یا چار انگلیوں کی مقدار۔ بخاری/اللباس ۵۸۲۹، مسلم /اللباس والزینہ ۲۰۶۹
حضرت انس ؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے حضرت زبیرؓ اورحضرت عبد الرحمن بن عوفؓ کو خارش کے علاج کے لئے ریشم کے کپڑے پہننے کی اجازت عطا فرمائی۔ بخاری، مسلم
تیرہواں باب : لباس میں کفار ومشرکین سے مشابہت :
نبی اکرم انے عمومی طور پر (یعنی لباس اور غیر لباس میں) کفارو مشرکین سے مشابہت کرنے سے منع فرمایا ہے چنانچہ نبی اکرم اکا فرمان احادیث کی کتابوں میں موجود ہے : جس نے جس قوم سے مشابہت اختیار کی وہ ان میں سے ہوجائے گا۔ ابو داؤد ۴۰۳۱
لباس میں مشابہت کرنے سے خاص طور پر منع فرمایا گیا ہے:
حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاصؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ان کو خالص زرد رنگ کے کپڑوں میں ملبوس دیکھا تو فرمایاکہ یہ کافروں کا لباس ہے اس کو نہ پہنو۔ مسلم ۲۰۷۷
* خلیفہ ثانی حضرت عمر فاروق ؓ نے آذربائیجان کے مسلمانوں کو پیغام بھیجا کہ عیش پرستی اور مشرکوں کے لباس سے بچو۔ مسلم ۲۶۰۹
چودہواں باب : مردوں اور عورتوں کے لباس میں مشابہت :
* حضرت عبد اللہ بن عباسؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ کی لعنت ہو ان مردوں پر جو عورتوں سے (لباس یا کلام وغیرہ میں) مشابہت کرتے ہیں، اسی طرح لعنت ہو ان عورتوں پر جو مردوں کی (لباس یا کلام وغیرہ میں) مشابہت کرتی ہیں۔ بخاری
پندرہواں باب : پینٹ وشرٹ اور کرتا وپائجامہ کا موازنہ :
جیساکہ بیان کیا جاچکا ہے کہ لباس میں اصل جواز ہے، انسان اپنے علاقہ کی عادات واطوار کے مطابق چند شرائط کے ساتھ کوئی بھی لباس پہن سکتا ہے، ان شرائط میں سے یہ بھی ہے کہ کفار ومشرکین کا لباس نہ ہو۔ پینٹ وشرٹ یقیناًمسلمانوں کی ایجاد نہیں ہے لیکن اب یہ لباس عام ہوگیا ہے چنانچہ مسلم اور غیرمسلم سب اس کو استعمال کرتے ہیں۔ لہذا پینٹ وشرٹ مندرجہ بالا شرائط کے ساتھ استعمال کرنا بلا کراہیت جائز ہے، البتہ پینٹ وشرٹ کے مقابلے میں کرتا وپائجامہ کو چند اسباب کی وجہ سے فوقیت حاصل ہے۔
کرتا وپائجامہ عموماً سفید یا سفید جیسے رنگوں پر مشتمل ہوتا ہے جبکہ پینٹ وشرٹ عموماً رنگین ہوتی ہیں۔ احادیث صحیحہ کی روشنی میں امت مسلمہ متفق ہے کہ اللہ جل شانہ کے حبیب نبی اکرم ﷺ سفید پوشاک زیادہ پسند فرماتے تھے، نیز عام طور پر آپ ا کا لباس سفید ہی ہوا کرتا تھا۔
قیامت تک آنے والے انسانوں کے نبی حضور اکرم ا کو قمیص بہت پسند تھی۔ نبی اکرم ﷺ کی قمیص کے جو اوصاف احادیث میں ملتے ہیں وہ شرٹ کے بجائے موجودہ زمانے کے کرتے (ثوب /قمیص) میں زیادہ موجود ہیں۔
اگرچہ اس وقت پینٹ وشرٹ کا لباس مسلم وغیرمسلم سب میں رائج ہوچکا ہے لیکن ساری دنیا تسلیم کرتی ہے کہ پینٹ وشرٹ کی ابتداء مسلم کلچر کی دین نہیں جبکہ کرتہ وپائجامہ کی بنیادیں نبی اکرم ﷺ کے زمانے سے ہیں، کرتا یعنی نبی اکرم ﷺ کے قمیص کا ذکر کرچکا ہوں، جہاں تک پائجامہ کا تعلق ہے تو نبی اکرم ﷺ ہمیشہ تہبند کا استعمال فرماتے تھے۔ نبی اکرم ﷺ پائجامہ استعمال کیا یا نہیں اس کے متعلق بعض محققین نے اختلاف کیا ہے لیکن تمام محققین ومحدثین وفقہاء وعلماء متفق ہیں کہ آپ ﷺ نے پائجامہ خریدا تھااور صحابۂ کرام آپ ﷺ کی اجازت سے پائجامہ پہنتے تھے۔
کسی بھی زمانہ میں دنیا کے کسی بھی کونے میں علماء وفقہاء کی جماعت نے پینٹ وشرٹ کو اپنا لباس نہیں بنایا۔
وضاحت:
موجودہ زمانہ کے پائجامہ اور صحابۂ کرام کے زمانے کے پائجامہ میں فرق ممکن ہے مگر دونوں کی بنیاد واساس ایک ہونے کی وجہ سے انشاء اللہ فضیلت حاصل ہوگی جیساکہ صحابۂ کرام اور موجودہ زمانہ کی مساجد میں ضرور فرق ملے گا مگر بنیاد ومقاصد ایک ہونے کی وجہ سے موجودہ زمانہ کی مساجد کو وہ فضیلت ضرور حاصل ہوگی جس کا تذکرہ نبی اکرم ﷺ کی زبان مبارک سے ہوا ہے۔
کسی معین شخص کے تنگ پائجامہ کا کسی معین شخص کی کشادہ پینٹ سے موازنہ کرکے فیصلہ کرنا صحیح نہیں ہوگا کیونکہ عموماً پینٹ پائجامہ کے مقابلہ میں تنگ ہوتی ہے اور جسم کی ساخت کے حساب سے بنائی جاتی ہے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو نبی اکرم ا کی پاک سنتوں کے مطابق لباس پہننے والا بنائے۔
محمد نجیب سنبھلی قاسمی ، ریاض www.najeebqasmi.com
حضور اکرم ﷺ خاتم النبیین ہیں
بسم الله الرحمن الرحيم
اَلْحَمْدُ لِله رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلام عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔
حضور اکرم ﷺ خاتم النبیین ہیں
اللہ تعالیٰ نے حضور اکرم ﷺ کو خاتم الانبیاء وسید المرسلین بناکر مبعوث فرمایا ہے۔آپ ﷺ کے بعد نبوت ورسالت کا دروازہ ہمیشہ کے لئے بند کردیا گیا ہے۔ آپﷺ کو دین کامل عطا کیا گیا ہے، چنانچہ قیامت تک صرف اور صرف شریعت محمدیہ (یعنی قرآن وحدیث اور ان سے ماخوذ علوم) ہی انسانوں کے لئے مشعل راہ ہے۔ حضور اکرم ﷺ پر سلسلہ نبوت ورسالت کے اختتام کی ایک واضح دلیل یہ بھی ہے کہ آپﷺ قیامت تک پوری انسانیت کے لئے پیغمبر بناکر بھیجے گئے۔ اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کی عالمی رسالت کو اپنے پاک کلام میں متعدد مرتبہ بیان فرمایا ہے، صرف تین آیات پیش خدمت ہیں:
قُلْ ٰٓیاَیُّھَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَیْکُمْ جَمِیْعَانِ الَّذِیْ لَہٗ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ(اے رسول! ان سے) کہو کہ اے لوگو! میں تم سب کی طرف اُس اللہ کا بھیجا ہوا رسول ہوں جس کے قبضے میں تمام آسمانوں اور زمین کی سلطنت ہے۔ (سورۃ الاعراف: ۱۵۸)
وَمَا اَرْسَلْنٰکَ اِلَّاکَآفَّۃً لِّلنَّاسِ بَشِیْرًا وَّنَذِیْرًا اور (اے پیغمبر!) ہم نے تمہیں سارے ہی انسانوں کے لئے ایسا رسول بناکر بھیجا ہے جو خوشخبری بھی سنائے اور خبردار بھی کرے۔ (سورۃ سبا: ۲۸)
وَمَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَ اور (اے پیغمبر!) ہم نے تمہیں سارے جہانوں کے لئے رحمت ہی رحمت بناکر بھیجا ہے۔ (سورۃ الانبیاء: ۱۰۷)
میرے دینی بھائیو!
ابتداء اسلام سے لے کر آج تک پوری امت مسلمہ قرآن وحدیث کی روشنی میں متفق ہے کہ نبوت کا سلسلہ آپ ﷺ پرختم ہوگیا ہے۔ تقریباً چودہ سو برس سے کروڑہا مسلمان اس عقیدہ پر قائم ہیں۔لاکھوں محدثین، مفسرین، فقہاء وعلماء کرام نے قرآن وحدیث کی تفسیر وتشریح کرتے ہوئے واضح فرمادیا ہے کہ نبوت ورسالت کا سلسلہ ختم ہوگیا ہے اور اب قیامت تک صرف اور صرف شریعت محمدیہ ہی نافذ رہے گی۔ غرضیکہ مسلمانوں کے تمام مکاتب فکر، عام وخاص، عالم وجاہل، شہری ودیہاتی، مسلمان ہی نہیں بلکہ بعض غیر مسلم حضرات بھی جانتے ہیں کہ مسلمانوں کا یہ عقیدہ ہے کہ حضور اکرم ﷺ آخری نبی ورسول ہیں اور اب کوئی نبی یا رسول پیدا نہیں ہوگا۔ وقتاً فوقتاً نبوت کا دعویٰ کرنے والے پیدا ہوتے رہے ہیں لیکن پوری امت مسلمہ نے ایک ساتھ مدعی نبوت سے بھرپور مقابلہ کرکے اپنے نبی کا دفاع کیا اور اسلام کے پرچم کو بلند کیا۔
قرآن کریم کی متعدد آیات میں آپ ﷺ کے آخری نبی ہونے کا ذکر موجود ہے حتی کہ حضرت مولانا مفتی محمد شفیع رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب (ختم نبوت) میں تقریباً ایک سو آیات قرآنیہ، ۲۱۰ احادیث نبویہ، اجماع امت اور سینکڑوں اقوال صحابہ اور تابعین وائمہ دین سے مسئلہ ختم نبوت کو مدلل کیا ہے۔ بعض علماء نے تو قرآن کریم کی ہر سورت سے ختم نبوت کو ثابت کیا ہے۔ میں اختصار کی وجہ سے صرف ایک آیت پیش کررہا ہوں: مَا کَانَ مُحَمَّد’‘ اَبَآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ وَلٰکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَخَاتَمَ النَّبِیّٖنَ (مسلمانو!) محمد تم مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں، لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں، اور تمام نبیوں میں سب سے آخری نبی ہیں۔ (سورۃ الاحزاب: ۴۰)
زمانہ جاہلیت میں متبنیٰ (منہ بولے بیٹے) کو حقیقی بیٹا سمجھا جاتا تھا۔ اس آیت کے شروع میں اسی کی تردید کی کہ متبنیٰ حقیقی بیٹے کے حکم میں نہیں ہے، لہٰذا آپﷺ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے باپ نہیں ہیں۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: وَلٰکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَخَاتَمَ النَّبِیّٖنَ آپ اللہ کے رسول اور خاتم النبیین ہیں۔ میرے اس مختصر مضمون کا تعلق اس مذکورہ بالا آیت میں اسی عبارت سے ہے۔اس سے صاف صاف معلوم ہوگیا کہ دین اسلام اور نعمت نبوت ورسالت حضوراکرم ﷺ پر تمام ہوچکی ہے۔ آپﷺ کے بعد کسی نبی کی گنجائش اور ضرورت نہیں ہے۔ جیساکہ اللہ تعالیٰ نے دوسری جگہ ارشار فرمایا: الْےَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِےْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَےْکُمْ نِعْمَتِیْ (سورۃ المائدہ : ۳) ہم نے تمہارے لئے تمہارا دین کامل کردیا اور اپنی نعمت تم پر تمام کردی۔ اللہ تعالیٰ رب العالمین ہے یعنی قیامت تک آنے والے تمام انس وجن اور پوری کائنات کا پالنے والا ہے، اسی طرح حضوراکرمﷺ صرف عربوں کے لئے یا اپنے زمانے کے لوگوں کے لئے یا صرف مسلمانوں کے لئے نبی ورسول بناکر نہیں بھیجے گئے بلکہ آپﷺ قیامت تک آنے والے تمام انسانوں کے لئے نبی ورسول ہیں اور قیامت تک اب کوئی نبی یا رسول پیدا نہیں ہوگا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی نزول کے بعد شریعت محمدیہ ہی پر عمل کریں گے اور اسی کی لوگوں کو دعوت دیں گے۔
اللہ تعالیٰ کے کلام کے ساتھ حضور اکرم ﷺ کے ارشادات بھی دین اسلام کا ایک اہم جز ہیں، بلکہ ہم حضوراکرم ﷺ کے اقوال وافعال کے بغیر اللہ تعالیٰ کے کلام کو سمجھ ہی نہیں سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے سینکڑوں آیات میں اپنی اطاعت کے ساتھ رسول کی اطاعت کا حکم دیا ہے۔ غرضیکہ قرآن کریم کے ساتھ حدیث نبوی شریعت اسلامیہ کا اہم ماخذ ہے۔ احادیث کے ذخیرہ میں حضور اکرم ﷺ کے سینکڑوں ارشادات موجود ہیں جن میں وضاحت موجود ہے کہ آپﷺ کے بعد کوئی نبی یا رسول نہیں آئے گا۔ اور یہ ارشادات متواتر طور پر امت کے پاس پہنچے ہیں ۔ چنانچہ آیات قرآنیہ اور احادیث نبویہ کی روشنی میں پوری امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ جس طرح آپﷺ پر ایمان لائے بغیر کوئی انسان مسلمان نہیں ہوسکتا،اسی طرح آپ کو آخری نبی تسلیم کئے بغیر بھی انسان مؤمن نہیں بن سکتا ہے۔ کتب حدیث میں حضوراکرمﷺ کے سینکڑوں اقوال ختم نبوت پر واضح طور پر دلالت کرتے ہیں، یہاں صرف دو احادیث پیش خدمت ہیں:
حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: میری مثال مجھ سے پہلے انبیاء کے ساتھ ایسی ہے جیسے کسی شخص نے گھر بنایا اور اس کو بہت عمدہ اور آراستہ وپیراستہ بنایا ، مگر اس کے ایک گوشہ میں ایک اینٹ کی جگہ تعمیر سے چھوڑ دی، پس لوگ اس کے دیکھنے کو جوق در جوق آتے ہیں اور خوش ہوتے ہیں اور کہتے جاتے ہیں کہ یہ ایک اینٹ بھی کیوں نہ رکھ دی گئی(تاکہ مکان کی تعمیر مکمل ہوجاتی) چنانچہ میں نے اس جگہ کو پُر کیا اور مجھ سے ہی قصر نبوت مکمل ہوا، اور میں ہی خاتم النبیین ہوں، اور مجھ پر تمام رسل ختم کردئے گئے۔ (صحیح مسلم ، ترمذی، نسائی، مسند احمد) حضور اکرمﷺ نے ایک مثال دے کر ختم نبوت کے مسئلہ کو روز روشن کی طرح واضح فرمادیا۔
حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: بنی اسرائیل کی سیاست خود ان کے انبیاء علیہم السلام کیا کرتے تھے، جب کسی نبی کی وفات ہوتی تھی تو اللہ تعالیٰ کسی دوسرے نبی کو ان کا خلیفہ بنا دیتا تھا، لیکن میرے بعد کوئی نبی نہیں، البتہ خلفاء ہوں گے اور بہت ہوں گے۔ (بخاری ومسلم)
قرآن وحدیث کی روشنی میں خیر القرون سے آج تک پوری امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ نبوت ورسالت کا سلسلہ آپ ﷺ پر ختم ہوگیا ہے، اب کوئی نبی پیدا نہیں ہوگا۔ آپ ﷺ اللہ تعالیٰ کے آخری نبی اور قیامت تک پوری انسانیت کے لئے پیغمبر ہیں۔ صرف اور صرف شریعت محمدیہ (یعنی قرآن وحدیث اور ان سے ماخوذ علوم) ہی انسانوں کے لئے مشعل راہ ہے۔
محمد نجیب قاسمی (www.najeebqasmi.com)
بے مثال ادیب عرب حضرت محمد ﷺ کے جوامع الکلم
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِےْن، وَالصَّلاۃُ وَالسَّلامُ عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِےْمِ وَعَلیٰ آلِہِ وَاَصْحَابِہِ اَجْمَعِےْن۔
بے مثال ادیب عرب حضرت محمد ﷺ کے جوامع الکلم (اقوال زریں)
فصاحت وبلاغت کے پیکر اور بے مثال ادیب عرب حضرت محمدمصطفی ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ مجھے جوامع الکلم سے نوازا گیا ہے۔ (صحیح بخاری) جس کا حاصل یہ ہے کہ آپ ﷺچھوٹی سی عبارت میں بڑے وسیع معانی کو بیان کرنے کی قدرت رکھتے تھے۔ آپﷺ کی بے شمار خصوصیات میں سے ایک اہم ترین خصوصیت یہ بھی ہے کہ جس وقت آپ پر پہلی وحی نازل ہوئی اور آپ سے پڑھنے کے لئے کہا گیاتو آپﷺ نے مَا اَنَا بِقَارِئکہہ کر معذرت چاہی، لیکن اللہ تعالیٰ کی جانب سے ایسی خاص الخاص تربیت ہوئی کہ آپﷺ کے قول وعمل کو رہتی دنیا تک اسوہ بنادیا گیا۔آپﷺ کے اقوال زریں سے مستفید ہونے والے حضرات بڑے بڑے ادیب وفصیح وبلیغ بن کر دنیا میں چمکے۔ آپ کی زبان مبارک سے نکلے بعض جملے رہتی دنیا تک عربی زبان کے محاورے بن گئے۔ آپﷺ کے وعظ ونصیحت، خطبے، دعا اور رسائل سے عربی زبان کو الفاظ کے نئے ذخیرہ کے ساتھ ایک منفرد اسلوب بھی ملا۔
یہ ایک معجزہ ہی تو ہے کہ مَا اَنَا بِقَارِئ کہنے والا شخص کچھ ہی عرصہ بعد ایک موقع پر ارشاد فرماتا ہے: اَنَا اَفْصَحُ الْعَرَبِ، بَےْدَ اَنِّیْ مِنْ قُرَےْشٍ، وَاسْتُرْضِعْتُ فِی بَنِیْ سَعْد (الفائق فی غریب الحدیث للزمخشری) میں عرب میں سب سے زیادہ فصیح ہوں، اس کی وجہ یہ ہے کہ میں قبیلہ قریش سے ہوں اور میری رضاعت قبیلہ بنی سعد میں ہوئی۔ یہ دونوں قبیلے اس وقت اپنی زبان وادب میں خصوصی مقام رکھتے تھے۔ اسی طرح حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ حضوراکرم ﷺ سے فرمایا: لَقَدْ طُفْتُ بِالْعَرَبِ وَسَمِعْتُ فُصَحَاءَہُمْ فَمَا سَمِعْتُ اَفْصَحَ مِنْکَ ۔ فَمَنْ اَدَّبَکَ؟ قَالَ: اَدَّبَنِیْ رَبِّیْ فَاَحْسَنَ تَاْدِےْبِیْ میں سرزمین عرب بہت گھوم چکا ہوں، بڑے بڑے فصحاء کے کلام کو سنا ہوں، لیکن آپ سے زیادہ فصیح کسی شخص کو نہیں پایا۔ آپ کو کس نے ادب سکھایا؟ حضوراکرمﷺ نے جواب میں ارشاد فرمایا کہ مجھے میرے رب نے ادب سکھایا اور بہترین ادب سے نوازا۔ مذکورہ حدیث کی سند پر علماء نے کچھ کلام کیا ہے مگر اس میں وارد معنی ومفہوم کو سب نے تسلیم کیا ہے۔
غرضیکہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے فصاحت وبلاغت کا ایسا معیار آپﷺ کو عطا کیا گیا جس کی نظیر قیامت تک ملنا ناممکن ہے اور آپ کے اقوال زریں انسانیت کے لئے مشعل راہ ہیں۔ آپﷺ کے خطبے خاص کر حجۃ الوداع کے موقعہ پر دیا گیا آپ کا آخری اہم خطبہ نہ صرف جوامع الکلم میں سے ہے بلکہ حقوق انسانی کا بنیادی منشور بھی ہے۔ اس خطبہ مبارکہ میں آپﷺ نے آج سے چودھ سو سال قبل مختصر وجامع الفاظ میں انسانیت کے لئے ایسے اصول پیش کئے جن پر عمل کرکے آج بھی پوری دنیا میں امن وامان قائم کیا جاسکتا ہے۔
جہاں حضور اکرمﷺ کے اقوال زریں کو خصوصی اہمیت حاصل ہے، وہیں شریعت اسلامیہ میں ان اقوال زریں کو یاد کرکے محفوظ کرنے کی بھی خاص فضیلت وارد ہوئی ہے چنانچہ حضور اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص میری امت کے فائدہ کے واسطے دین کے کام کی چالیس احادیث یاد کرے گا اللہ تعالیٰ اس کو قیامت کے دن عالموں اور شہیدوں کی جماعت میں اٹھائے گا اور فرمائے گا کہ جس دروازہ سے چاہے جنت میں داخل ہوجائے۔ یہ حدیث حضرت علی، حضرت عبداللہ بن مسعود، حضرت معاذ بن جبل، حضرت ابودرداء، حضرت ابوسعید، حضرت ابوہریرہ، حضرت عبداللہ بن عباس، حضرت عبداللہ بن عمر، حضرت عبداللہ بن عمرو، حضرت جابر اور حضرت انس رضی اللہ عنہم اجمعین سے روایت ہے اور حدیث کی مختلف کتابوں میں وارد ہے۔ بعض علماء نے حدیث کی سند میں کچھ کلام کیا ہے مگر حدیث میں مذکورہ ثواب کے حصول کے لئے سینکڑوں علماء کرام نے اپنے اپنے طرز پر چالیس احادیث جمع کی ہیں۔ صحیح مسلم کی سب سے مشہور شرح لکھنے والے امام نووی ؒ کی چالیس احادیث پر مشتمل کتاب “الاربعین النووےۃ” پوری دنیا میں کافی مقبول ہوئی ہے۔
صحیح بخاری وصحیح مسلم میں وارد حضور اکرم ﷺ کے چالیس فرمان پیش خدمت ہیں جن میں علم ومعرفت کے خزانے سمودئے گئے ہیں اور یہ اعلیٰ اخلاق اور تہذیب وتمدن کے زریں اصول ہیں۔لہٰذا ہمیں چاہئے کہ ان احادیث کو یاد کرکے ان پر عمل کریں اور دوسروں کو پہنچائیں تاکہ غیر مسلم حضرات بھی آپﷺ کی صحیح تعلیمات سے واقف ہوکر اسلام سے متعلق اپنے شک وشبہات دور کرسکیں۔
۱) رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: تمام اعمال کا دارومدار نیت پر ہے۔ (صحیح بخاری، صحیح مسلم)
۲) رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: کبیرہ گناہ‘ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا، والدین کی نافرمانی کرنا، کسی کو بے گناہ قتل کرنا اور جھوٹی شہادت دینا ہے۔ (صحیح بخاری )
۳) رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: سات ہلاک کرنے والے گناہوں سے بچو۔ صحابۂ کرام نے عرض کیا یارسول اللہ! وہ سات بڑے گناہ کونسے ہیں (جو انسانوں کو ہلاک کرنے والے ہیں)؟ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: شرک کرنا، جادو کرنا، کسی شخص کو ناحق قتل کرنا، سود کھانا، یتیم کے مال کو ہڑپنا، میدان (جنگ) سے بھاگنا، پاک دامن عورتوں پر تہمت لگانا۔ (صحیح بخاری وصحیح مسلم)
۴) رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: منافق کی تین علامتیں ہیں: جھوٹ بولنا، وعدہ خلافی کرنا، امانت میں خیانت کرنا۔ (صحیح بخاری وصحیح مسلم)
۵) رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: تم میں سب سے بہتر شخص وہ ہے جو قرآن کریم سیکھے اور سکھائے ۔ (صحیح بخاری )
۶) رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ کے نزدیک سب عملوں میں وہ عمل زیادہ محبوب ہے جو دائمی ہو، اگرچہ تھوڑا ہو۔ (صحیح بخاری وصحیح مسلم)
۷) رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: میں آخری نبی ہوں، میرے بعد کوئی نبی پیدا نہ ہوگا۔ (صحیح بخاری وصحیح مسلم)
۸) رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: پاک رہنا آدھا ایمان ہے۔ (صحیح مسلم)
۹) رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ کے نزدیک سب سے محبوب جگہ مسجدیں ہیں۔ (صحیح مسلم)
۱۰) رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس نے مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجا، اللہ تعالیٰ اس پر ۱۰ مرتبہ رحمتیں نازل فرمائے گا۔ (صحیح مسلم)
۱۱) رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: مؤمن ایک بل سے دوبارہ ڈسا نہیں جاتا ہے۔ (صحیح بخاری وصحیح مسلم)
۱۲) رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: پہلوان شخص وہ نہیں جو لوگوں کوپچھاڑدے، بلکہ پہلوان وہ شخص ہے جو غصہ کے وقت اپنے نفس پر قابو رکھے۔ (صحیح بخاری وصحیح مسلم)
۱۳) رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: مسلمان کے مسلمان پر پانچ حق ہیں۔ سلام کا جواب دینا۔ مریض کی عیادت کرنا۔ جنازہ کے ساتھ جانا۔ اس کی دعوت قبول کرنا۔ چھینک کا جواب ےَرْحَمُکَ اللّٰہُ کہہ کر دینا۔ (صحیح بخاری وصحیح مسلم)
۱۴) رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ اس شخص پر رحم نہیں کرتا جو لوگوں پر رحم نہیں کرتا۔ (صحیح بخاری وصحیح مسلم)
۱۵) رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ظلم قیامت کے روز اندھیروں کی صورت میں ہوگا۔ (صحیح بخاری وصحیح مسلم)
۱۶) رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: چغل خور جنت میں نہیں جائے گا۔ (صحیح بخاری وصحیح مسلم)
۱۷) رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: دنیا میں ایسے رہوجیسے کوئی مسافر یا راہ گزر رہتا ہے۔ (صحیح بخاری)
۱۸) رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: رشتہ توڑنے والا جنت میں نہیں جائے گا۔ (صحیح بخاری وصحیح مسلم)
۱۹) رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : اگر کوئی شخص (روزہ رکھ کر بھی) جھوٹ بولنا اور اس پر عمل کرنا نہیں چھوڑتا تو اللہ تعالیٰ کو اس کی کوئی ضرورت نہیں کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑ دے۔ (صحیح بخاری )
۲۰) رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: انسان کے جھوٹا ہونے کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ جو بات سنے (بغیر تحقیق کے) لوگوں سے بیان کرنا شروع کردے۔ (صحیح مسلم)
۲۱) رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: وہ شخص جنت میں نہ جائے گا جس کا پڑوسی اس کی ایذاؤں سے محفوظ نہ ہو۔ (صحیح بخاری وصحیح مسلم)
۲۲) رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: تم میں سے وہ شخص میرے نزدیک زیادہ محبوب ہے جو اچھے اخلاق والا ہو۔ (صحیح بخاری وصحیح مسلم)
۲۳) رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : صدقہ دینے سے مال میں کمی نہیں آتی، اور جو بندہ درگزر کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی عزت بڑھاتا ہے اور جو بندہ اللہ کے لئے عاجزی اختیار کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کا درجہ بلند کرتا ہے۔ (صحیح مسلم)
۲۴) رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اگر کوئی شخص اپنے گھر والوں پر خرچہ کرتا ہے تو وہ بھی صدقہ ہے یعنی اس پر بھی اجر ملے گا۔ (بخاری ومسلم)
۲۵) رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اے نوجوان کی جماعت! تم میں سے جو بھی نکاح کی استطاعت رکھتا ہو اسے نکاح کرلینا چاہئے کیونکہ یہ نظر کو نیچی رکھنے والا اور شرمگاہ کی حفاظت کرنے والا ہے اور جو کوئی نکاح کی استطاعت نہ رکھتا ہو اسے چاہئے کہ روزے رکھے کیونکہ یہ اس کے لئے نفسانی خواہشات میں کمی کا باعث ہوگا۔ (صحیح بخاری)
۲۶) رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: عورت سے نکاح (عموماً) چار چیزوں کی وجہ سے کیا جاتا ہے۔ اس کے مال کی وجہ سے، اس کے خاندان کے شرف کی وجہ سے، اس کی خوبصورتی کی وجہ سے اور اس کے دین کی وجہ سے۔ تم دیندار عورت سے نکاح کرو، اگرچہ گرد آلود ہوں تمہارے ہاتھ، یعنی شادی کے لئے عورت میں دینداری کو ضرور دیکھنا چاہئے، خواہ تمہیں یہ بات اچھی نہ لگے۔ (صحیح بخاری وصحیح مسلم)
۲۷) رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: حلال واضح ہے، حرام واضح ہے۔ ان کے درمیان کچھ مشتبہ چیزیں ہیں جن کو بہت سارے لوگ نہیں جانتے۔ جس شخص نے شبہ والی چیزوں سے اپنے آپ کو بچالیا اس نے اپنے دین اور عزت کی حفاظت کی۔ اور جو شخص مشتبہ چیزوں میں پڑے گا وہ حرام چیزوں میں پڑ جائے گا اس چرواہے کی طرح جو دوسرے کی چراگاہ کے قریب بکریاں چراتا ہے کیونکہ بہت ممکن ہے کہ اس کا جانور دوسرے کی چراگاہ سے کچھ چرلے۔ اچھی طرح سن لو کہ ہر بادشاہ کی ایک چراگاہ ہوتی ہے، یاد رکھو کہ اللہ کی زمین میں اللہ کی چراگاہ اس کی حرام کردہ چیزیں ہیں اور سن لو کہ جسم کے اندر ایک گوشت کا ٹکڑا ہے۔ جب وہ سنور جاتا ہے تو ساراجسم سنور جاتا ہے اور جب وہ بگڑ جاتا ہے تو پورا جسم بگڑ جاتا ہے، سن لو کہ یہ (گوشت کا ٹکڑا) دل ہے۔ (صحیح بخاری)
۲۸) رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ کی قسم! مجھے تمہارے لئے غریبی کا خوف نہیں ہے بلکہ مجھے خوف ہے کہ پہلی قوموں کی طرح کہیں تمہارے لئے دنیا یعنی مال ودولت کھول دی جائے اور تم اس کے پیچھے پڑ جاؤ، پھر وہ مال ودولت پہلے لوگوں کی طرح تمہیں ہلاک کردے۔ (صحیح بخاری وصحیح مسلم)
۲۹) رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ بندہ کی مدد کرتا رہتا ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد کرتا رہے۔ (صحیح مسلم)
۳۰) رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جب امانتوں میں خیانت ہونے لگے تو بس قیامت کا انتظار کرو۔ (صحیح بخاری)
۳۱) رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: حرام کھانے، پینے اور حرام پہننے والوں کی دعائیں کہاں سے قبول ہوں۔ (صحیح مسلم )
۳۲) رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: مسکین اور بیوہ عورت کی مدد کرنے والا اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کرنے والے کی طرح ہے۔ (صحیح بخاری،صحیح مسلم)
۳۳) رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: تمہیں اپنے کمزوروں کے طفیل سے رزق دیا جاتا ہے اور تمہاری مدد کی جاتی ہے۔ (صحیح بخاری)
۳۴) رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ ایسے شخص پر رحم کرے جو فروخت کرتے وقت، خریدتے وقت اور تقاضا کرتے وقت (قرض وغیرہ کا) فیاضی اور وسعت سے کام لیتا ہے۔ (صحیح بخاری)
۳۵) رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: کھاؤ ،پےؤ ،پہنو اور صدقہ کرو، لیکن فضول خرچی اور تکبر کے بغیر (یعنی فضول خرچی اور تکبر کے بغیر خوب اچھا کھاؤ، پےؤ، پہنو اور صدقہ کرو)۔ (صحیح بخاری)
۳۶) رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: رشک دو ہی آدمیوں پر ہوسکتا ہے، ایک وہ جسے اللہ نے مال دیا اور اسے مال کو راہ حق میں لٹانے کی پوری طرح توفیق ملی ہوئی ہے۔ اور دوسرا وہ جسے اللہ نے حکمت دی ہے اور وہ اس کے ذریعہ فیصلہ کرتا ہے اور اس کی تعلیم دیتا ہے۔ (صحیح بخاری)
۳۷) رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: مؤمنین کی مثال ان کی دوستی اور اتحاد اور شفقت میں بدن کی طرح ہے۔ بدن میں سے جب کسی عضو کو تکلیف ہوتی ہے تو سارا بدن نیند نہ آنے اور بخار آنے میں شریک ہوتا ہے۔ (صحیح مسلم)
۳۸) رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: آپس میں بغض نہ رکھو، حسد نہ کرو، پیچھے پیٹھ برائی نہ کرو، بلکہ اللہ کے بندے اور آپس میں بھائی بن کر رہو اور کسی مسلمان کے جائز نہیں کہ اپنے کسی بھائی سے تین دن سے زیادہ ناراض رہے۔ (صحیح بخاری)
۳۹) رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: (سچا) مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان (کے ضرر) سے مسلمان محفوظ رہیں۔ مہاجر وہ ہے جو اُن کاموں کو چھوڑدے جن سے اللہ نے منع کیا ہے۔ (صحیح بخاری)
۴۰) رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز میں بھلائی فرض کی ہے، لہذا جب تم (کسی کو قصاصاً) قتل کرو تو اچھی طرح قتل کرو۔ اور جب ذبح کرو تو اچھی طرح ذبح کرو اور تم میں سے ہر ایک کو اپنی چھری تیز کرلینی چاہئے اور اپنے جانور کو آرام دینا چاہئے۔ (صحیح مسلم)
خاتم النبیین وسید المرسلین وخیر البریہ حضور اکرمﷺ کے مذکورہ بالا ارشادات کی روشنی میں ہم ان شاء اللہ بڑے بڑے گناہ خاص کر شرک، والدین کی نافرمانی، قتل نفس، جھوٹ، چغل خوری، جادو، سود، ظلم وزیادتی، وعدہ خلافی، امانت میں خیانت، قطع رحمی، پڑوسیوں کو ایذارسانی، حرام اور مشتبہ چیزوں کا استعمال، فضول خرچی، تکبر، حسد اور بغض جیسی مہلک برائیوں سے اپنے آپ کو محفوظ رکھیں گے جو ہمارے معاشرہ میں ناسور بن گئی ہیں۔ اور اپنے نبی کی تعلیمات کے مطابق صرف اور صرف اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے نیک اعمال کریں گے اور اپنے اخلاق کو بہتر سے بہتر بناکر استقامت کے ساتھ دنیاوی فانی زندگی میں ہی اخروی دائمی زندگی کی تیاری کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں فصاحت وبلاغت کے پیکر اور بے مثال ادیب عرب حضرت محمدمصطفیﷺ کے جوامع الکلم (اقوال زریں ) کو سمجھ کر پڑھنے والا، ان کے مطابق عمل کرنے والا اور ان قیمتی پیغامات کو دوسروں تک پہنچانے والا بنائے، آمین، ثم آمین۔
محمد نجیب قاسمی سنبھلی (www.najeebqasmi.com)
عمامہ یا ٹوپی پہننا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت وعادتِ کریمه
اَلْحَمْدُ لِله رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلام عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔
عمامہ یا ٹوپی پہننا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت وعادتِ کریمه
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہرہر ادا ایک سچے اور شیدائی امتی کے لئے نہ صرف قابل اتباع بلکہ مرمٹنے کے قابل ہے، خواہ اس کا تعلق عبادات سے ہو یا روز مرہ کی عادات واطوار مثلاً طعام یا لباس وغیرہ سے۔ ہر امتی کو حتی الامکان کوشش کرنی چاہئے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر سنت کو اپنی زندگی میں داخل کرے اور جن سنتوں پر عمل کرنا مشکل ہو ان کو بھی اچھی اور محبت بھری نگاہ سے دیکھے اور عمل نہ کرنے پر ندامت اور افسوس کرے۔
امت مسلمہ متفق ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم عموماً عمامہ یا ٹوپی کا استعمال فرماتے تھے جیساکہ مندرجہ ذیل احادیث وعلماء امت کے اقوال میں مذکور ہیں۔
عمامہ سے متعلق احادیث:
حضرت عمروؓ بن حُریث سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو خطبہ دیا تو آپ ا کے (سر کے) اوپرکالا عمامہ تھا۔ مسلم
متعدد صحابۂ کرام مثلاً حضرت جابرؓ اور حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکہ کے دن مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر پر کالا عمامہ تھا۔ مسلم، ترمذی، ابن ماجہ وغیرہ
حضرت عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے (مرض الوفات) میں خطبہ دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم (کے سر ) پر کالا عمامہ تھا۔ شمائل ترمذی، بخاری
حضرت ابو سعید الخدری ؓ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب نیا کپڑا پہنتے تو اس کا نام رکھتے عمامہ یا قمیص یا چادر پھر یہ دعا پڑھتے: اے میرے اللہ! تیرا شکر ہے کہ تو نے مجھے یہ پہنایا، میں اس کپڑے کی خیر اور جس کے لئے یہ بنایا گیا ہے اس کی خیر مانگتا ہوں اور اس کی اور جس کے لئے یہ بنایا گیا ہے اس کے شر سے پناہ مانگتا ہوں۔ (ترمذی) معلوم ہوا کہ عمامہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لباس میں شامل تھا۔
حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وضو کرتے دیکھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قطری عمامہ تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمامہ کے نیچے اپنا ہاتھ داخل فرمایا اور سر کے اگلے حصہ کا مسح فرمایا اور عمامہ کو نہیں کھولا۔ ابو دؤد
قِطری: یہ ایک قسم کی موٹی کھردری چادر ہوتی ہے، سفید زمین پر سرخ دھاگہ کے مستطیل بنے ہوتے ہیں۔
حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مُحرِم(یعنی حج یا عمرہ کا احرام باندھنے والا مرد) کرتا، عمامہ، پائجامہ اور ٹوپی نہیں پہن سکتا ہے۔ (بخاری ومسلم) معلوم ہوا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں عمامہ عام طور پر پہنا جاتا تھا۔
غرضیکہ حدیث کی کوئی بھی مشہور کتاب دنیا میں ایسی موجود نہیں ہے، جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمامہ کا ذکر متعدد مرتبہ وارد نہیں ہوا ہو۔
عمامہ کا سائز:
عمامہ کے سائز کے متعلق مختلف اقوال ملتے ہیں البتہ زیادہ تحقیقی بات یہی ہے کہ عمامہ کا کوئی معین سائز مسنون نہیں ہے، پھر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمامہ عموماً ۵ یا ۷ ذراع لمبا ہوا کرتا تھا، ۱۲ ذراع تک کا ثبوت ملتا ہے۔
عمامہ کا رنگ:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمامہ اکثر اوقات سفید یا سیاہ ہوا کرتاتھا، البتہ وقتاً فوقتاً آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی دوسرے رنگ کا بھی عمامہ استعمال کرتے تھے۔ سیاہ عمامہ سے متعلق بعض احادیث مضمون میں گزر چکی ہیں، جبکہ مستدرک حاکم اور طبرانی وغیرہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سفید عمامہ کا تذکرہ موجود ہے نیز آپ ا سفید کپڑوں کو بہت پسند فرماتے تھے، متعدد احادیث میں اس کا تذکرہ ملتا ہے:
حضرت عبد اللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کپڑوں میں سے سفید کو اختیار کیا کروکیونکہ وہ تمہارے کپڑوں میں بہترین کپڑے ہیں اور سفید کپڑوں میں ہی اپنے مردوں کو کفن دیا کرو۔ ترمذی ، ابو داؤد، ابن ماجہ، مسند احمد، صحیح ابن حبان
حضرت سمرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: سفید لباس پہنو کیونکہ وہ بہت پاکیزہ ، بہت صاف اور بہت اچھا ہے اور اسی میں اپنے مردوں کو کفن دیا کرو۔ نسائی ، ترمذی، ابن ماجہ
عمامہ میں شملہ لٹکانا:
شملہ لٹکانا مستحب ہے اور سنن زوائد میں سے ہے۔ شملہ کی مقدار کے سلسلہ میں بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ۴ا نگل ہو تو بہتر ہے۔
حضرت عمرو بن حریثؓ سے روایت ہے کہ میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو منبر پر دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پرکالا عمامہ تھا۔ اس کے دونوں کناروں کو آپ انے اپنے دونوں شانوں کے درمیان (یعنی پیچھے) لٹکایا تھا۔ مسلم، ابن ماجہ، ابو داؤد
حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب عمامہ باندھتے تو اسے دونوں کندھوں کے درمیان ڈالتے تھے۔ یعنی عمامہ کا شملہ دونوں کندھوں کے درمیان لٹکارہتا تھا۔ حضرت نافع ؒ (حضرت عبداللہ بن عمرؓ کے شاگرد) فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ بھی ایسا ہی کیا کرتے تھے۔ ترمذی
حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ ایک آدمی ترکی گھوڑے پر سوار عمامہ پہنے ہوئے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا۔ اس نے دونوں کندھوں کے درمیان عمامہ کا کنارہ لٹکا رکھا تھا۔ میں نے ان کے متعلق حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا، تو فرمایا: تم نے ان کو دیکھ لیا تھا۔ وہ جبرئیل علیہ السلام تھے۔ مستدرک حاکم
عمامہ اور نماز :
عمامہ پہن کر نماز پڑھنے کی کیا کوئی خاص فضیلت ہے؟ اس بارے میں متعدد احادیث کتب احادیث میں مذکور ہیں، مگر وہ عموماً ضعیف یا موضوع ہیں مثلاً: عمامہ پہننا عربوں کا تاج ہے۔ (دیلمی) عمامہ باندھا کرو، تمہاری بردباری بڑھ جائے گی۔ (بیہقی، مستدک حاکم) عمامہ لازم پکڑ لو، یہ فرشتوں کی نشانی ہے اور پیچھے لٹکایا کرو۔ (بیہقی، طبرانی، دیلمی) عمامہ کے ساتھ ۲رکعتیں بغیر عمامہ کے ۷۰ رکعتوں سے افضل ہیں۔ (دیلمی) عمامہ کے ساتھ جمعہ بغیر عمامہ کے ۷۰ جمعہ سے افضل ہے۔ دیلمی
علماء وفقہاء نے تحریر کیا ہے کہ عمامہ پہن کر نماز پڑھنے کی اگرچہ کوئی خاص فضیلت احادیث صحیحہ میں وارد نہیں ہوئی ہے لیکن چونکہ عمامہ پہننا نبی اکرم ا کی سنت وعادت کریمہ ہے اور صحابۂ کرام وتابعین وتبع تابعین بھی عموماً عمامہ پہنا کرتے تھے، نیز یہ کسی دوسری قوم کا لباس نہیں بلکہ مسلمانوں کا شعار ہے اور انسانوں کے لئے زینت ہے۔ لہذا ہمیں عمامہ اتارکر نماز پڑھنے کا اہتمام نہیں کرنا چاہئے، بلکہ عام حالات میں بھی عمامہ یا ٹوپی پہننی چاہئے اور عمامہ یا ٹوپی پہن کر ہی نماز ادا کرنی چاہئے ،اگرچہ عمامہ یا ٹوپی پہننا واجب یا سنت مؤکدہ نہیں ہے۔
جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عمامہ کا استعمال کرنا ثابت ہے، جس پر امت مسلمہ متفق ہے تو کوئی خاص فضیلت ثابت نہ بھی ہو تب بھی محض نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام کا عمل کرنا بھی اس کی فضیلت کے لئے کافی ہے، مثلاً سفید لباس نبی اکرم ا کو پسند تھا، اس لئے سفید لباس پہننا افضل ہوگا، خواہ کسی خاص فضیلت اور ثواب کی کثرت کا ثبوت ملتا ہو یا نہ۔
عمامہ کو ٹوپی پر باندھنا:
حضرت رکانہؓ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا ، فرمارہے تھے کہ ہمارے اور مشرکین کے درمیان فرق ٹوپی پر عمامہ باندھنا ہے۔ (ترمذی) بعض محدثین نے اس حدیث کی سند میں آئے ایک راوی کو ضعیف قرار دیا ہے۔
ٹوپی سے متعلق احادیث:
حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سفید ٹوپی پہنتے تھے۔ (طبرانی) علامہ سیوطیؒ نے الجامع الصغیرمیں تحریر کیا ہے کہ اس حدیث کی سند حسن ہے۔ الجامع الصغیر کی شرح لکھنے والے شیخ علی عزیزی ؒ نے تحریر کیا ہے کہ اس حدیث کی سند حسن ہے۔ السراج المنیر لشرح الجامع الصغیر ج ۴ ص ۱۱۲
حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سفید ٹوپی پہنتے تھے۔ (المعجم الکبیر للطبرانی) اس حدیث کی سند میں آئے ایک راوی حضرت عبد اللہ بن خراش ہیں، ابن حبانؒ نے ان کی توثیق کی ہے نیز فرمایا کہ بسا اوقات غلطی کرتے ہیں۔ مجمع الزوائد للہیثمی ج ۲ ص ۱۲۴
حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مُحرِم(یعنی حج یا عمرہ کا احرام باندھنے والا مرد) کرتا، عمامہ، پائجامہ اور ٹوپی نہیں پہن سکتا ہے۔ (بخاری ومسلم) معلوم ہوا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ٹوپی عام طور پر پہنی جاتی تھی۔
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سفر میں کان والی ٹوپی پہنتے تھے اور حضر میں پتلی یعنی شامی ٹوپی ۔ (ابو شیخ اصبہانی نے اس کو روایت کیا ہے) شیخ عبد الرؤوف مناوی ؒ نے تحریر کیا ہے کہ ٹوپی کے باب میں یہ سب سے عمدہ سند ہے۔ فیض القدیرشرح الجامع الصغیرج ۵ ص ۲۴۶
ابو کبشہ انماری ؓ فرماتے ہیں کہ صحابۂ کرام کی ٹوپیاں پھیلی ہوئی اور چپکی ہوئی ہوتی تھیں۔ ترمذی
حضرت خالد بن ولیدؓ کی غزوۂ یرموک کے موقعہ پر ٹوپی گم ہوگئی تو حضرت خالد بن ولیدؓ نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ میری ٹوپی تلاش کرو۔ تلاش کرنے کے باوجود بھی ٹوپی نہ مل سکی۔ حضرت خالد بن ولیدؓ نے کہا کہ دوبارہ تلاش کرو، چنانچہ ٹوپی مل گئی۔ تب حضرت خالد بن ولیدؓ نے فرمایا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرہ کی ادائیگی کے بعد بال منڈوائے تو سب صحابۂ کرام آپ ا کے بال لینے کے لئے ٹوٹ پڑے تو میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سر کے اگلے حصہ کے بال تیزی سے لے لئے اور انہیں اپنی اس ٹوپی میں رکھ لیا، چنانچہ میں جب بھی لڑائی میں شریک ہوتاہوں یہ ٹوپی میرے ساتھ رہتی ہے، انہیں کی برکت سے مجھے فتح ملتی ہے (اللہ تعالیٰ کے حکم سے)۔ (رواہ حافظ البیہقی فی دلائل النبوۃ والحاکم فی مستدرکہ ۳/۲۲۹( امام ہیثمی ؒ نے مجمع الزوائد میں تحریر کیا ہے کہ اس حدیث کے راوی صحیح ہیں ۔ ۹/۳۴۹)
امام بخاری ؒ نے اپنی کتاب میں ایک باب باندھا ہے: باب السجود علی الثوب فی شدۃ الحر یعنی سخت گرمی میں کپڑے پر سجدہ کرنے کا حکم۔ جس میں حضرت حسن بصری ؒ کا قول ذکر کیا ہے کہ گرمی کی شدت کی وجہ سے صحابۂ کرام اپنی ٹوپی اور عمامہ پر سجدہ کیا کرتے تھے۔
حضرت عمرؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک شہید وہ ہے جس کا ایمان عمدہ ہو اور دشمن سے ملاقات کے وقت اللہ تعالیٰ کے وعدوں کی تصدیق کرتے ہوئے بہادری سے لڑے اور شہید ہوجائے، اس کا درجہ اتنا بلند ہوگا کہ لوگ قیامت کے دن اس کی طرف اپنی نگاہ اس طرح اٹھائیں گے۔ یہ کہہ کر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یا حضرت عمرؓ نے جو حدیث کے راوی ہیں اپنا سر اٹھایا یہاں تک کہ سر سے ٹوپی گرگئی۔ ترمذی
حضرت عبد اللہ بن عمرؓ نے اپنے غلام نافع کو ننگے سر نماز پڑھتے دیکھا تو بہت غصہ ہوئے اور کہا کہ اللہ تعالیٰ زیادہ مستحق ہے کہ ہم اس کے سامنے زینت کے ساتھ حاضر ہوں۔
حضرت زید بن جبیر ؒ اور حضرت ہشام بن عروہ ؒ فرماتے ہیں کہ انہوں نے حضرت عبد اللہ بن زبیرؓ (کے سر) پر ٹوپی دیکھی۔ مصنف ابن ابی شیبہ
* حضرت عبد اللہ بن سعید ؒ فرماتے ہیں کہ انہوں نے حضرت علیؓ بن ابی طالب(کے سر) پر سفید مصری ٹوپی دیکھی۔ مصنف ابن ابی شیبہ
* حضرت اشعث ؒ کے والد فرماتے ہیں کہ حضرت موسیٰ اشعریؓ بیت الخلاء سے نکلے اور ان(کے سر) پر ٹوپی تھی۔ مصنف ابن ابی شیبہ
وضاحت: حدیث کی اس مشہور کتاب “مصنف ابن ابی شیبہ” میں متعدد صحابۂ کرام کی ٹوپیوں کا تذکرہ کیا گیا ہے، ان میں سے اختصار کی وجہ سے میں نے صرف تین صحابۂ کرام کی ٹوپی کا تذکرہ یہاں کیا ہے۔
ٹوپی سے متعلق بعض علماء امت کے اقوال:
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام کی ٹوپیوں کا تذکرہ اس مختصر مضمون میں کرنا مشکل ہے، لہذا انہیں چند احادیث پر اکتفا کرتا ہوں، البتہ بعض علماء وفقہاء کے اقوال کا ذکر کرنا مناسب سمجھتا ہوں۔
شیخ نعمان بن ثابت یعنی امام ابوحنیفہؒ کی رائے ہے کہ ننگے سر نماز پڑھنے سے نماز تو ادا ہوجائے گی مگر ایسا کرنا مکروہ ہے۔ فقہ حنفی کی بے شمار کتابوں میں یہ مسئلہ مذکور ہے۔
علامہ ابن القیم ؒ نے تحریر کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم عمامہ باندھتے تھے اور اس کے نیچے ٹوپی بھی پہنتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم عمامہ کے بغیر بھی ٹوپی پہنتے تھے اور آپ ا ٹوپی پہنے بغیر بھی عمامہ باندھتے تھے۔ زاد المعاد فی ہدی خیر العباد
شیخ ناصر الدین البانی ؒ کی رائے ہے کہ ننگے سر نماز پڑھنے سے نماز تو ادا ہوجائے گی مگر ایسا کرنا مکروہ ہے۔ تمام المنۃ صفحہ ۱۶۴شیخ ابن لعربی ؒ فرماتے ہیں کہ ٹوپی انبیاء اور صالحین کے لباس سے ہے۔ سر کی حفاظت کرتی ہے اور عمامہ کو جماتی ہے۔ فیض القدیر
ہندوپاکستان وبنگلادیش وافغانستان کے جمہور علماء فرماتے ہیں کہ ننگے سر نماز پڑھنے سے نماز تو ادا ہوجائے گی مگر ایسا کرنا مکروہ ہے۔
ایک اہل حدیث عالم دین نے تحریر کیا ہے کہ ننگے سر نماز ہوجاتی ہے، صحابۂ کرام سے جواز ملتا ہے مگر بطور فیشن لاپرواہی اور تعصب کی بنا پر مستقل کے لئے یہ عادت بنالینا جیساکہ آجکل دھڑلے سے کیا جارہا ہے۔ ہمارے نزدیک صحیح نہیں ہے۔ نبی اکرم ا نے خود یہ عمل نہیں کیا۔ مجلہ اہل حدیث سوہدرہ، پاکستان، ج ۱۵، شمار ۲۲ ۔۔۔۔ بحوالہ کتاب ٹوپی وپگڑی سے یا ننگے سر نماز؟
اہل حدیث عالم مولانا سید محمد داؤد غزنوی ؒ نے تحریر کیا ہے کہ سر اعضاء ستر میں سے نہیں ہے، لیکن نماز میں سر ننگے رکھنے کے مسئلہ کو اس لحاظ سے بلکہ آداب نماز کے لحاظ سے دیکھنا چاہئے اور آگے کندھوں کو ڈھانکنے پر دلالت کرنے والی بخاری ومؤطا امام مالک کی روایات اور مؤطا کی شرح زرقانی (وتمہید)، ابن عبد البر، بخاری کی شرح فتح الباری، ایسے ہی شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ ؒ کی کتاب الاخیارات اور امام ابن قدامہ کی المغنی سے تصریحات واقتباسات نقل کرکے ثابت کیا ہے کہ کندھے بھی اگرچہ اعضائے ستر میں سے نہیں ہیں، اس کے باوجود نبی اکرم انے ایک کپڑا ہونے کی شکل میں ننگے کندھوں سے نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے۔ اسی طرح سر بھی اگرچہ اعضاء ستر میں سے نہ سہی لیکن آداب نماز میں سے یہ بھی ایک ادب ہے کہ بلاوجہ ننگے سر نماز نہ پڑھی جائے اور اسے ہی زینت کا تقاضا بھی قرار دیا ہے۔۔۔۔۔ ابتدائے عہد اسلام کو چھوڑکر جب کہ کپڑوں کی قلت تھی اس کے بعد اس عاجز کی نظر سے کوئی ایسی روایت نہیں گزری، جس میں صراحتاً مذکور ہو کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یا صحابۂ کرام نے مسجد میں اور وہ بھی نماز باجماعت میں ننگے سر نماز پڑھی ہو، چہ جائیکہ معمول بنالیا ہو۔ اس رسم کو جو پھیل رہی ہے بند کرنا چاہئے۔ اگر فیشن کی وجہ سے ننگے سر نماز پڑھی جائے تو نماز مکروہ ہوگی۔ فتاویٰ علماء اہل حدیث ج ۴ ص ۲۹۰۔۲۹۱ ۔۔۔۔ بحوالہ کتاب ٹوپی وپگڑی سے یا ننگے سر نماز؟
ایک دوسرے اہل حدیث عالم مولانا محمد اسماعیل سلفی ؒ نے تحریر فرمایا ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ،صحابۂکرام اور اہل علم کا طریق وہی ہے جو اب تک مساجد میں متوارث ہے اور معمول بہا ہے۔ کوئی مرفوع حدیث صحیح میری نظر سے نہیں گزری جس سے ننگے سر نماز کی عادت کا جواز ثابت ہو، خصوصاً باجماعت فرائض میں بلکہ عادت مبارکہ یہی تھی کہ پورے لباس سے نمازادا فرماتے تھے۔۔۔۔۔ ۔۔۔ سر ننگا رکھنے کی عادت اور بلاوجہ ایسا کرنا اچھا فعل نہیں ہے۔ یہ فعل فیشن کے طور پر روز بروز بڑھ رہا ہے اور یہ بھی نامناسب ہے۔ ۔۔۔۔۔۔ اگر حسِ لطیف سے طبیعت محروم نہ ہو تو ننگے سر نماز ویسے ہی مکروہ معلوم ہوتی ہے۔ ضرورت اور اضطرار کا باب اس سے الگ ہے۔ فتاویٰ علماء اہل حدیث ج ۴ ص ۲۸۶۔۲۸۹ ۔۔ بحوالہ کتاب ٹوپی وپگڑی سے یا ننگے سر نماز؟
سعودی عرب کے تمام شیوخ کا فتویٰ بھی یہی ہے کہ ٹوپی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور تمام محدثین ومفسرین وفقہاء وعلماء وصالحین کا طریقہ ہے نیز ٹوپی پہننا انسان کی زینت ہے اور قرآن کریم (سورۂ الاعراف ۳۱) کی روشنی میں نماز میں زینت مطلوب ہے لہذا ہمیں ٹوپی پہن کر ہی نماز پڑھنی چاہئے۔ یہ فتاوے سعودی عرب کے شیوخ کی ویب سائٹ پر پڑھے اور سنے جاسکتے ہیں۔ سعودی عرب کی موجودہ حکومت کے نظام کے تحت کسی بھی حکومت کے دفتر میں کسی بھی سعودی باشندہ کا معاملہ اسی وقت قبول کیا جاتا ہے جب کہ وہ ٹوپی اور رومال کے ذریعہ سر ڈھانک کر حکومت کے دفتر میں جائے۔ سعودی عرب کے خواص وعوام کا معمول بھی یہی ہے کہ وہ عموماً سر ڈھانکر ہی نمازادا کرتے ہیں۔
پہلا نکتہ:
ان دنوں امت مسلمہ کی ایک چھوٹی سی جماعت حضرت عبد اللہ بن عباسؓ کی ایک حدیث کو بنیاد بناکر ننگے سر نماز پڑھنے کی بظاہر ترغیب دینے لگتی ہے : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کبھی کبھی اپنی ٹوپی اتارکر اسے اپنے سامنے بطور سترہ رکھ لیتے تھے۔ (ابن عساکر) اس حدیث سے مندرجہ ذیل اسباب کی بنا پر ننگے سر نماز پڑھنے کی کسی بھی فضیلت پر استدلال نہیں کیا جاسکتا ہے۔
یہ روایت ضعیف ہے، نیز اس روایت کو ذکر کرنے میں ابن عساکر متفرد ہیں، یعنی حدیث کی مشہور ومعروف کسی کتاب میں بھی یہ حدیث مذکور نہیں ہے۔اور اگر علی وجہ التنزل اس روایت کو صحیح مان بھی لیا جائے تب بھی یہ مطلق ننگے سر نماز پڑھنے کے جواز کے لئے دلیل نہیں بن سکتی، بلکہ اس حدیث کے ظاہری الفاظ بتارہے ہیں کہ آپ ا نے ایسا ایک اہم ضرورت کے وقت کیا جب ایسی کوئی چیز میسر نہ آئی جسے بطور سترہ آپ ا اپنے سامنے رکھ لیتے اور احادیث میں سترہ کی کافی اہمیت وارد ہوئی ہے۔ اس حدیث سے زیادہ سے زیادہ یہ ثابت ہوسکتا ہے کہ مرد حضرات کے لئے نماز میں ٹوپی یا عمامہ سے سر کا ڈھانکنا واجب نہیں ہے، جس پر امت مسلمہ متفق ہے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ننگے سر صرف حج یا عمرہ کے احرام کی صورت میں ہی نماز پڑھنا ثابت ہے۔ رہا کوئی چیز نہ ملنے کی وجہ سے سترہ کے لئے اپنے آگے ٹوپی کا رکھنا توپہلی بات یہ عمل آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دوسرے اہم حکم کو پورا کرنے کے لئے کیا ۔ دوسری بات اس حدیث میں اس کا ذکر نہیں کہ آپ ا نے ننگے سر نماز پڑھی۔ ممکن ہے کہ آپ ا نے اونچی والی ٹوپی جو آپ ا سفر میں پہنتے تھے اس کو سترہ کے طور پر استعمال کیا ہو اور عمامہ یا سر سے چپکی ہوئی ٹوپی آپ ا کے سر پر ہو کیونکہ آپ ا کی دو یا تین قسم کی ٹوپی کا تذکرہ احادیث وسیرت وتاریخ کی کتابوں میں آتا ہے۔
اس حدیث کے علاوہ ابن عساکر میں وارد ایک مقولہ سے بھی اس چھوٹی سے جماعت نے استدلال کیا ہے:(مساجد میں ننگے سر آؤ اور عمامہ باندھ کر آؤ، بے شک عمامہ تو مسلمانوں کے تاج ہیں)، لیکن محدثین نے اس مقولہ کو حدیث نہیں بلکہ موضوع ومن گھڑت بات شمار کیا ہے۔ اور اگر یہ مقولہ حدیث مان بھی لیا جائے تو اس کا بنیادی مقصد یہی ہے کہ ہمیں مسجد میں عمامہ باندھ کر آنا چاہئے۔
دوسرا نکتہ:
بعض حضرات ٹوپی کا استعمال تو کرتے ہیں مگر ان کی ٹوپیاں پرانی، بوسیدہ اور کافی میلی نظر آتی ہیں۔ ہم اپنے لباس ومکان ودیگر چیزوں پر اچھی خاصی رقم خرچ کرتے ہیں مگر ٹوپیاں پرانی اور بوسیدہ ہی استعمال کرتے ہیں۔ میرے عزیز بھائیو! سر کو ڈھانکنا زینت ہے جیساکہ مفسرین ومحدثین وعلماء نے کتابوں میں تحریر کیا ہے اور نماز میں اللہ تعالیٰ کے حکم (خُذُوْا زِےْنَتَکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْجِدٍ) کے مطابق زینت مطلوب ہے، نیز ٹوپی یا عمامہ کا استعمال اسلامی شعار ہے ، اس سے آج بھی مسلمانوں کی شناخت ہوتی ہے، لہذا ہمیں اچھی وصاف ستھری ٹوپی کا ہی استعمال کرنا چاہئے۔
تیسرا نکتہ:
نماز کے وقت عمامہ یا ٹوپی پہننی چاہئے، لیکن عمامہ یا ٹوپی پہننا واجب نہیں ہے۔ لہذا اگر کسی شخص نے عمامہ یا ٹوپی کے بغیر نماز شروع کردی تو نماز پڑھتے ہوئے اس شخص پر ٹوپی یا رومال وغیرہ نہیں رکھنا چاہئے کیونکہ اس کی وجہ سے عموماًنمازی کی نماز سے توجہ ہٹتی ہے (خواہ تھوڑے وقت کے لئے ہی کیوں نہ ہو)، البتہ نماز شروع کرنے سے قبل اس کو عمامہ یا ٹوپی پہننے کی ترغیب دینی چاہئے۔
خلاصۂ کلام:
عمامہ یا ٹوپی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے (کیونکہ احادیث وسیر وتاریخ کی کتابوں میں جہاں جہاں بھی عام زندگی کے متعلق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سر پر کپڑے ہونے یا نہ ہونے کا ذکر وارد ہوا ہے ، آپ ا کے سر پر عمامہ یا ٹوپی کا تذکرہ ۹۹ فیصد وارد ہوا ہے) صحابہ، تابعین، تبع تابعین، محدثین، فقہاء اور علماء کرام عمامہ یا ٹوپی کا استعمال فرماتے تھے، نیز ہمیشہ سے اور آج بھی یہ مسلمانوں کی پہچان ہے۔لہذا ہم سب کو عمامہ وٹوپی یا صرف ٹوپی کا استعمال ہر وقت کرنا چاہئے۔ اگرہر وقت ٹوپی پہننا ہمارے لئے دشوار ہو تو کم از کم نماز کے وقت ٹوپی لگاکرہی نماز پڑھنی چاہئے۔ ننگے سر نماز پڑھنے سے نماز ادا تو ہوجائیگی مگر فقہاء وعلماء کی ایک بڑی جماعت کی رائے ہے کہ ننگے سر نماز پڑھنے کی عادت بنانا صحیح نہیں ہے، حتی کہ بعض فقہاء وعلماء نے متعدد احادیث، حضرت عبد اللہ بن عمرؓ جیسے جلیل القدر صحابی کا اپنے شاگرد حضرت نافع ؒ کو تعلیم اور صحابۂ کرام کے زمانہ سے امت مسلمہ کے معمول کی روشنی میں ننگے سر نماز پڑھنے کو مکروہ قرار دیا ہے، جن میں سے شیخ نعمان بن ثابت امام ابوحنیفہؒ (۸۰ھ ۔۱۵۰ھ ) اور شیخ ناصر الدین البانی ؒ (۱۳۳۳ھ۔۱۴۲۰ھ)کا نام قابل ذکر ہے۔ آخر الذکر شیخ البانی صاحب کا تذکرہ اس وجہ سے کیا گیا ہے کہ اِن دنوں جو حضرات ننگے سر نماز پڑھنے کی بات کرتے ہیں ان میں سے بعض حضرات عموماً احکام ومسائل میں شیخ ناصر الدین البانی ؒ کے اقوال کو حرف آخر سمجھتے ہیں۔ ننگے سر نماز کے متعلق انہوں نے واضح طور پر تحریر کیا ہے اوران کے اقوال کیسٹوں میں ریکارڈ ہیں کہ ننگے سر نماز پڑھنا مکروہ ہے۔
ہم ہند وپاک کے رہنے والے سعودی عرب میں مقیم عموماً فیشن کی وجہ سے ٹوپی کے بغیر نماز پڑھتے ہیں، حالانکہ سعودی عرب میں ۱۲۔۱۳ سال کے قیام کے دوران میں نے کسی بھی سعودی عالم یا خطیب یا مفتی یا مستقل امام کو سر کھول کر نماز پڑھتے یا پڑھاتے یا خطبہ دیتے ہوئے نہیں دیکھا، بلکہ ان کو ہمیشہ سر ڈھانکتے ہوئے ہی دیکھا۔ نہ صرف خواص بلکہ سعودی عرب کی عوام بھی عموماً سر ڈھانک کر ہی نماز ادا کرتی ہے۔
وضاحت: یہ مضمون صرف مردوں کے سر ڈھانکے کے متعلق تحریر کیا گیا ہے، رہا خواتین کے سر ڈھانکنے کا مسئلہ تو امت مسلمہ متفق ہے کہ خواتین کے لئے سر ڈھانکنا ضروری ہے، اس کے بغیر ان کی نماز ہی ادا نہیں ہوگی۔
محمد نجیب سنبھلی قاسمی، ریاض
(najeebqasmi@yahoo.com)
درود شریف کی اہمیت اور اس کے فضائل
بسم الله الرحمن الرحيم
اَلْحَمْدُ لِله رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلام عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔
درود شریف کی اہمیت اور اس کے فضائل
اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے: اِنَّ اللّٰہَ وَمَلَاءِکَتَہٗ ےُصَلُّونَ عَلَی النَّبِیِّ۔ ےَآ اَیُّہَا الَّذِےْنَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَےْہِ وَسَلِّمُوا تَسْلِےْماً (سورہ احزاب۔آیت ۵۶) اللہ تعالیٰ نبی پر رحمتیں نازل فرماتا ہے۔ اور فرشتے نبی کے لئے دعائے رحمت کرتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم بھی نبی پر درود وسلام بھیجا کرو۔
اس آیت میں نبی اکرم ﷺ کے اس مقام کا بیان ہے جو آسمانوں میں آپ ﷺ کو حاصل ہے اور وہ یہ ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ فرشتوں میں آپ ﷺ کا ذکرفرماتا ہے اور آپ ﷺ پر رحمتیں بھیجتا ہے۔ اور فرشتے بھی آپ ﷺ کی بلندی درجات کے لئے دعائیں کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے زمین والوں کو حکم دیا کہ وہ بھی آپ ﷺ پر درود وسلام بھیجا کریں۔
حدیث میں آتا ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی توصحابۂ کرام نے عرض کیا یا رسول اللہ! سلام کا طریقہ تو ہم جانتے ہیں( یعنی نماز میں اَلسَّلَامُ عَلَےْکَ اَیُّھَا النَّبِیُّ۔۔۔ پڑھنا) ہم درود کس طرح پڑھیں؟ اس پر آپ ﷺ نے درود ابراہیم بیان فرمایا، جو نماز میں التحیات پڑھنے کے بعد پڑھا جاتا ہے۔ صحیح بخاری
صلاۃ کے معنی : اللہ تعالیٰ کا نبی پر درود بھیجنے کا مطلب آپ ﷺ پر رحمتیں نازل کرنا اور فرشتوں میں ان کا ذکرفرمانا ہے۔ فرشتوں یا مسلمانوں کا آپ ﷺ پر درود بھیجنے کا مطلب آپ پر رحمت نازل کرنے اور بلندی درجات کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعا کرنا ہے۔
درود شریف پڑھنے کے فضائل:
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس نے مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجا، اللہ تعالیٰ اس پر ۱۰ مرتبہ رحمتیں نازل فرمائے گا۔ مسلم
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس نے مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجا، اللہ تعالیٰ اس پر ۱۰ مرتبہ رحمتیں نازل فرمائے گا، اس کے ۱۰ گناہ معاف فرمائے گا اور اس کے ۱۰ درجے بلند فرمائے گا۔ (نسائی) درود شریف پڑھنے والے کے خلوص وتقوی کی وجہ سے درود شریف پڑھنے کا ثواب احادیث میں مختلف ذکر کیا گیا ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص مجھ پر بکثرت درود بھیجتا ہے، قیامت کے روز سب سے زیادہ میرے قریب ہوگا۔ ترمذی
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: کثرت سے درود بھیجنا (صغائر) گناہوں کی معافی کا سبب بنے گا۔ ترمذی
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جب تک مجھ پر درود نہ بھیجا جائے، دعا قبولیت سے روک دی جاتی ہے۔ طبرانی
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: رسوا ہو وہ شخص جس کے سامنے میرا نام لیا جائے اور وہ درود نہ پڑھے ۔ ترمذی
رسول اللہ ﷺ کا اسم مبارک سن کر درود نہ پڑھنے والے کے لئے حضرت جبرئیل علیہ السلام نے بدعا فرمائی۔ ہلاکت ہو اس شخص کے لئے جس کے سامنے آپ ﷺ کا نام لیا جائے اور وہ درود نہ بھیجے ۔ رسول اللہ ﷺ نے اس پر آمین کہا۔ حاکم
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس کے سامنے میرا نام لیا جائے اور وہ درود نہ پڑھے وہ بخیل ہے۔ ترمذی
درودشریف کے مختلف الفاظ احادیث میں وارد ہوئے ہیں، البتہ مذکورہ الفاظ (درودابراہیم ) سب سے افضل ہے:
اَللّٰہُمَّ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَّعَلَی آلِ مُحَمَّدٍکَمَا صَلَّےْتَ عَلٰی اِبْرَاہِےْمَ وَعَلَی آلِ اِبْرَاہِےْمَ۔ اِنَّکَ حَمِےْدٌ مَّّجِےْدٌ
اے اللہ! محمد اور آل محمد پر اسی طرح رحمتیں نازل فرما جس طرح تونے ابراہیم اور آل ابراہیم پر نازل فرمائیں۔
آل محمد سے کیا مراد ہے؟ اس سلسلہ میں علماء کے چند اقوال ہیں۔البتہ زیادہ صحیح یہ ہے کہ آل محمد سے نبی اکرم ﷺ کی اولاد، ازواج مطہرات، صحابۂ کرام اور دین اسلام کے متبعین مراد ہیں۔ واللہ اعلم بالصواب۔
درود پڑھنے کے بعض اہم مواقع:
نبی اکرم ﷺ کا اسم مبارک سنتے، پڑھتے یا لکھتے وقت درود شریف پڑھنا چاہئے جیسا کہ احادیث میں بیان کیا گیا ہے۔ صرف (صلی اللہ علیہ وسلم) بھی کہا جا سکتا ہے۔
آخری تشہد میں التحیات پڑھنے کے بعد: رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جب کوئی نماز پڑھے تو اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا سے آغاز کرے۔۔۔ پھر تشہد میں اللہ تعالیٰ کے نبی پر درود بھیجے، اور اس کے بعد دعا مانگے۔ (ترمذی) نماز کے آخری تشہد میں التحیات پڑھنے کے بعد درود شریف پڑھنا واجب ہے یا سنت مؤکدہ ۔ اس سلسلہ میں علماء کی رائے مختلف ہیں۔البتہ ہمیں ‘ ہر نماز کے آخری تشہد میں خواہ نماز فرض ہو یا نفل درود شریف پڑھنے کا خاص اہتمام کرنا چاہئے۔
اذان سننے کے بعددعا مانگنے سے پہلے : رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جب مؤذن کی اذان سنو تو وہی کلمات دہراؤ جو مؤذن کہتا ہے۔ پھر مجھ پر درود پڑھو کیونکہ مجھ پر درود پڑھنے والے پر اللہ تعالیٰ دس رحمتیں نازل فرماتا ہے۔ ۔۔ پھر اذان کے بعد کی دعا (اللّٰہُمَّ رَبَّ ہذِہِ الدَّعْوَۃِ التَّامَّۃِ ………………….) پڑھو ۔۔۔۔ مسلم
جمعہ کے دن کثرت سے درود شریف پڑھیں: رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جمعہ کے روز مجھ پر کثرت سے درود بھیجا کرو، جو آدمی جمعہ کے روز مجھ پر درود بھیجتا ہے وہ میرے سامنے پیش کیا جاتا ہے۔ حاکم وبیہقی
کوئی بھی دعا مانگنے سے قبل اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا کے بعد درود شریف پڑھیں: ایک شخص (مسجد میں ) آیا، نماز پڑھی اور نماز سے فراغت کے بعد دعا کرنے لگا۔ یا اللہ مجھے معاف فرما، مجھ پر رحم فرما۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اے شخص ! تونے دعا مانگنے میں جلدی کی۔ جب نماز پڑھو اور دعا کے لئے بیٹھو تو پہلے حمد وثنا پڑھو، پھر مجھ پر درود بھیجو، پھر اپنے لئے دعا کرو ۔ ترمذی
جب بھی موقع ملے درود شریف پڑھیں: رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: میری قبر کو میلہ نہ بناؤ اور نہ ہی اپنے گھر کو قبرستان بناؤ۔ تم جہاں کہیں بھی ہو مجھ پر درود بھیجتے رہو۔ تمہارا درود مجھے پہنچا دیا جاتا ہے۔ مسند احمد
محمد نجیب قاسمی سنبھلی، ریاض (www.najeebqasmi.com)