’’اذان‘‘ سمع خراشی نہیں، دنیا کے لئے باعث رحمت ہے

’’اذان‘‘ سمع خراشی نہیں، دنیا کے لئے باعث رحمت ہے
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيْم

اَلْحَمْدُ لِلّهِ رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلامُ عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔

’’اذان‘‘ سمع خراشی نہیں، دنیا کے لئے باعث رحمت ہے

۱۳نومبر ۲۰۱۶ء کو اسرائیلی پارلیمنٹ میں مسجد اقصیٰ (مسلمانوں کا قبلۂ اوّل) کے ساتھ ساتھ دیگر فلسطینی مساجد میں لاؤڈسپیکر کے ذریعہ اذان دینے پر پابندی کا ایک بل پیش کیا گیا، جس میں کہا گیا کہ چونکہ بیت المقدس اور دیگر علاقوں میں یہودی بھی رہتے ہیں، انہیں اذان کی آواز سے پریشانی ہوتی ہے اور ان کی طرف سے اذان پر پابندی کا مطالبہ بھی کیا جارہا ہے۔ اس لئے اذان پر پابندی عائد کی جائے۔ اسرائیلی وزیر اعظم ’’بنیامین نیتن یاہو‘‘ نے اس قرار داد کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ بلا تفریق لوگوں کو پریشانی سے بچانا اسرائیلی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ دوسری طرف مسلمانوں اور فلسطین میں آباد عیسائیوں نے اس قرار داد کو آزادئ مذہب کے خلاف قرار دے کر اس کی شدید مذمت کی۔ نیز عیسائی پادریوں نے کہا کہ اگر آج اذان پر پابندی عائد کی گئی تو کل چرچ میں گھنٹہ بجانے پر بھی پابندی لگائی جائے گی۔ اپنے مذہب کو درپیش خطرے کے باعث یہودیوں کی مذہبی جماعتیں بھی اذان کی حمایت پر مجبور ہوگئیں اور اس طرح یہ قرار داد پارلیمنٹ سے منظور نہ ہوسکی، لیکن اس متنازع قانون کی منظوری سے قبل ہی اس پر عمل در آمد شروع کردیا گیا ہے، چنانچہ حال ہی میں ۱۹۴۸ کے مقبوضہ فلسطینی شہر ’’اللد‘‘ کی ایک مسجد کے مؤذن ’’ شیخ محمود الفار‘‘ پر فجر کی اذان لاؤڈسپیکر پر دینے کی وجہ سے ۱۹۷ ڈالر کا جرمانہ عائد کیا گیا۔

اس قرار داد کے پیش ہونے کے فوراً بعد اسرائیلی صدر ’’ریولن‘‘ ہندوستان کے سفر پر آئے تھے۔ ہندوستان ہمیشہ مظلوم فلسطینیوں کے ساتھ کھڑا رہا ہے مگر نریندر مودی کے وزیر اعظم بننے کے بعد سے ہندوستان اور اسرائیل کے رشتوں کی ڈور مضبوط ہوتی جارہی ہے حتی کہ ۲۹ ستمبر ۲۰۱۶ء کو سرجیکل اسٹرائک کے متعلق ہندوستان کے وزیر اعظم نے اسرائیل کی ظالم حکومت کو مثال کے طور پر پیش کرتے ہوئے کہا : ہم نے وہ کیا جو اسرائیل کرتا ہے۔ اسرائیلی حکومت، جس نے نہتے فلسطینیوں پر ظلم کرنے کی انتہاء کردی ہے، کے ساتھ موجودہ ہندوستانی حکومت کے بڑھتے ہوئے تعلق پر گاندھی جی، جواہر لعل نہرو اور مولانا ابوالکلام آزاد کے ملک میں رہنے والے عام لوگوں کو تکلیف پہنچی۔ ہندوستان میں بھی بھگوا دہشت گرد وقتاً فوقتاً ہندوستانی قوانین کے برخلاف اذان پر پابندی عائد کرنے کی مذموم کوشش کرتے رہتے ہیں۔ لہٰذا ضرورت محسوس کی کہ اذان سے متعلق ایک مختصر مضمون تحریر کیا جائے تاکہ عام مسلمانوں کو واقفیت ہو کہ قرآن وحدیث کی روشنی میں اسلامی شعار ’’اذان‘‘ کا کیا مقام ہے۔ اور اذان کے کلمات کے معنی کیا ہیں تاکہ غیر مسلموں کو بھی سمجھایا جاسکے کہ اذان میں صرف خالق کائنات کی بڑائی کے ساتھ اس کے ایک ہونے اور محمد ﷺ کے رسول ہونے کی گواہی دے کر مسلمانوں کو نماز قائم کرنے کی دعوت دی جاتی ہے۔

اذان کی ابتدا کب ہوئی؟: بعض تاریخی روایات میں ہے کہ معراج کے سفر میں آپ ﷺ نے فرشتوں کو اذان دیتے ہوئے سنا تھا۔ یعنی لیلۃ الاسراء میں آپ کو اذان صرف سنائی گئی تھی، اس کا حکم نہیں دیا گیا تھا۔ اس وجہ سے مکہ مکرمہ میں اذان نہیں تھی، بلکہ مدینہ منورہ ہجرت کرنے کے بعد جب ضرورت محسوس ہوئی کہ مسلمانوں کو نماز کے قیام کی خبر کس طرح دی جائے، تو متعدد مشورے سامنے آئے لیکن ابھی تک فیصلہ نہیں ہوا تھا کہ حضرت عبد اللہ بن زید رضی اللہ عنہ نے جب اپنے خواب میں سنے اذان کے کلمات حضور اکرمﷺ کو سنائے، تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے بھی اذان کے لئے ان کلمات سے متعلق اپنے خواب دیکھنے کا تذکرہ کیا۔ بعد میں حضور اکرمﷺ کے حکم پر حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے پہلی اذان پہلی ہجری میں دی۔ اس کے بعد سے آج تک ہر مسجد میں ہر نماز کے لئے اذان دی جاتی ہے تاکہ مسلمان اپنی دیگر مصروفیات چھوڑکر مسجد پہنچ جائیں۔ اسلام کا صرف یہی ایک حکم ہے جس کے لئے ہر روز پانچ مرتبہ اذان دی جاتی ہے۔

پوری دنیا میں اذان: نمازِ فجر کی اذان سب سے پہلے دنیا کے مشرقی ممالک (مثلاً انڈونیشیا) میں شروع ہوتی ہے۔ اس کے بعد ملائیشیا، چین، بنگلادیش، ہندوستان، پاکستان، افغانستان، ایران، ترکمانستان، تاجکستان، ازبکستان، عمان، قطر،بحرین، سعودی عرب، یمن، کویت، عرب امارات، عراق، سوریا، فلسطین، اردن، ترکی، مصر، لیبیا، الجزائر اور یورپ وامریکہ میں مسلسل فجر کی اذان ہوتی رہتی ہے۔ ابھی اذانِ فجر کا یہ سلسلہ ختم بھی نہیں ہوپاتا ہے کہ انڈونیشیا میں ظہر کی اذان مسجدوں کے مناروں سے بلند ہونے لگتی ہے، بالکل اسی طرح پانچوں نمازوں کے وقت اللہ کے منادیوں کی آوازیں ہر وقت فضاء میں گونجتی رہتی ہیں۔ غرضیکہ ۲۴ گھنٹے میں ایک لمحہ بھی ایسا نہیں گزرتا کہ جس وقت ہزاروں مؤذن اللہ کی وحدانیت اور رسول کی رسالت کی گواہی نہ دے رہے ہوں۔یہ اسلام کے حق ہونے کی ایک دلیل ہے۔

مسجدیں مسلمانوں کی تربیت گاہیں: زمین کے تمام حصوں میں اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ محبوب مساجد ہیں، یہ آسمان والوں کے لئے ایسے ہی چمکتی ہیں جیسا کہ زمین والوں کے لئے آسمان کے ستارے چمکتے ہیں۔ ان مساجد کو نماز، ذکر وتلاوت، تعلیم وتربیت، دعوت وتبلیغ اور دیگر عبادتوں سے آباد رکھنے کا مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے۔ آج مسلمانوں میں جو دن بدن بگاڑ آتا جارہا ہے، اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارا تعلق مساجد سے کمزور ہوگیا ہے۔ لہٰذا ہمیں چاہئے کہ ہم اللہ کے گھر یعنی مساجد سے اپنا تعلق مضبوط کریں کیونکہ مساجد مسلمانوں کی نہ صرف تربیت گاہیں ہیں بلکہ مساجد مسلم معاشرہ کی عکاسی بھی کرتی ہیں۔ دنیا میں سب سے پہلا گھر بیت اللہ ہے جو مسجد حرام کے وسط میں واقع ہے جس کی طرف رخ کرکے ہم ایمان کے بعد سب سے اہم رکن یعنی نماز کی ادائیگی کرتے ہیں۔ حضور اکرمﷺنے مدینہ منورہ پہنچنے سے تھوڑا قبل قبا بستی میں ’’مسجد قبا‘‘ اور مدینہ منورہ پہنچنے کے بعد سب سے پہلے جس مسجد کی بنیا رکھی وہی بعد میں مسجد نبوی کے نام سے موسوم ہوئی، جو اسلام کے دنیا کے کونے کونے تک پہنچنے کا ذریعہ بنی۔مساجد سے جہاں مسلمانوں کی روحانی تربیت ہوتی ہے، یعنی ہم کس طرح منکرات سے بچ کر اللہ تعالیٰ کے احکام کے مطابق نبی اکرم ﷺ کے طریقہ پر زندگی گزاریں، وہیں سماجی زندگی میں بھی رہنمائی ملتی ہے کیونکہ جب مسلمان آپس میں دن میں پانچ وقت ملتا ہے تو ایک دوسرے کے مسائل سے واقفیت ہوتی ہے۔ ایک دوسرے کو سلام کرتا ہے، جمعہ وعیدین کے موقع پر بڑی تعداد میں لوگوں سے ملاقات ہوتی ہے، اس کی وجہ سے بیمار کی عیادت کرتا ہے، جنازہ میں شرکت کرتا ہے، ایک دوسرے کے کام آتا ہے، محتاج لوگوں کی مدد کرتا ہے اور بندوں کے حقوق کو ادا کرنے کا احساس پیدا ہوتا ہے، یہ سارے امور مسجدوں کا اصلاح معاشرہ میں اہم کردار کی حیثیت رکھتے ہیں۔

قرآن کریم میں اذان کا ذکر: پوری امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ قرآن کریم میں احکام کے اصول بیان کئے گئے ہیں۔ اسلام کے بنیادی ارکان (نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج) تک کے تفصیلی مسائل قرآن کریم میں مذکور نہیں ہیں۔ ہاں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی سینکڑوں آیات میں اپنی اطاعت کے ساتھ قیامت تک آنے والے انس وجن کے نبی کی فرمانبرداری کا حکم دیا ہے اور بتایا کہ محمد ﷺ اپنے اقوال وافعال سے احکام الہٰی کی وضاحت فرمائیں گے۔ نیز اللہ تعالیٰ نے رسول کی اطاعت کو (جو حدیث کی شکل میں ہمارے پاس موجود ہے) اطاعت الہٰی قرار دیا۔ (سورۃ النساء ۸۰) غرضیکہ حضور اکرم ﷺ کی اتباع کے بغیر اللہ تعالیٰ کی اطاعت ممکن ہی نہیں ہے۔ قرآن کریم میں دو جگہوں پر وضاحت کے ساتھ اذان کا ذکر آیا ہے: (۱) اے ایمان والو! جب جمعہ کے دن نماز کے لئے پکارا جائے، یعنی نماز کی اذان ہوجائے تو اللہ کی یاد کے لئے جلدی کرو، اور خرید وفروخت چھوڑدو۔ یہ تمہارے حق میں بہت ہی بہتر ہے اگر تم جانتے ہو۔ (سورۃ الجمعہ آیت ۹) اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ارشاد فرمایا: جب جمعہ کے دن نماز کے لئے اذان دی جائے۔ یہ اذان کس طرح دیجائے؟ اس کے الفاظ کیاہوں؟ یہ قرآن کریم میں کہیں نہیں ہے، البتہ حدیث میں ہے۔ اسی طرح پانچوں نمازوں کے اوقات، ان کے نام، تعدادِ رکعات اور نماز پڑھنے کا طریقہ بھی ہمارے نبی ﷺ نے ہی بتایا ہے، معلوم ہوا کہ حدیث کے بغیر قرآن کریم سمجھنا ممکن ہی نہیں ہے۔ (۲) اسی طرح فرمان الہی ہے: جب تم نماز کے لئے (لوگوں کو) پکارتے ہو تو وہ اس طرح (اذان) کو مذاق اور کھیل کا نشانہ بناتے ہیں، یہ سب حرکتیں اس وجہ سے ہیں کہ ان لوگوں کو عقل نہیں ہے۔ سورۃالمائدہ ۵۸

اذان کی فضیلت ہمارے نبی ﷺکی زبانی: ’’قیامت کے دن اذان دینے والے سب سے زیادہ لمبی گردن والے ہوں گے یعنی سب سے ممتاز نظر آئیں گے۔‘‘ (مسلم ۔ باب فضل الاذان) ’’مؤذن کی آواز جہاں جہاں تک پہنچتی ہے وہاں تک اس کی مغفرت کردی جاتی ہے۔ ہر جاندار اور بے جان جو اُس کی آواز کو سنتے ہیں، اُس کے لئے مغفرت کی دعا کرتے ہیں۔‘‘ (مسند احمد) ’’مؤذن کی آواز کو جو درخت، مٹی کے ڈھیلے، پتھر، جن اور انس سنتے ہیں وہ سب قیامت کے دن مؤذن کے لئے گواہی دیں گے۔‘‘ (ابن خزیمہ) ’’جس نے بارہ سال اذان دی اس کے لئے جنت واجب ہوگئی (ان شاء اللہ)۔ ‘‘(حاکم) ’’اذان دینے والوں کو قیامت کی سخت گھبراہٹ کا خوف نہیں ہوگا اور نہ ہی ان کو حساب دینا ہوگا، بلکہ وہ مشک کے ٹیلے پر تفریح کریں گے۔‘‘ (ترمذی ، طبرانی، مجمع الزوائد ۔ باب فضل الاذان) ’’جو شخص اذان سننے کے بعد اذان کے بعد کی دعا پڑھے تو اس کے لئے قیامت کے دن نبی اکرم ﷺ کی شفاعت واجب ہوگئی۔‘‘ بخاری ۔ باب الدعاء عند النداء

اذان کے الفاظ اور اس کے معانی: اذان میں سب سے پہلے چار مرتبہ ’’اللہ اکبر‘‘ کہہ کر اللہ تعالیٰ (God) کے سب سے بڑے ہونے کا اقرار کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ کے معبود حقیقی اور محمد ﷺ کے رسول ہونے کی دو دو مرتبہ شہادت دی جاتی ہے۔ پھر دو دو مرتبہ ’’حی علی الصلاۃ‘‘ کے ذریعہ مسلمانوں کو نماز پڑھنے کی دعوت دی جاتی ہے، اور پھر دو دو مرتبہ ’’حی علی الفلاح‘ کہہ کر بتایا جاتا ہے کہ اصل کامیابی نماز میں ہے۔ اذان کے اختتام سے قبل دو مرتبہ ’’اللہ اکبر‘‘ کہہ کر ایک مرتبہ’’ لا الہ الا اللہ‘‘ کہا جاتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ اذانِ فجر میں ’’الصلاۃ خیر من النوم‘‘ (نماز نیند سے بہتر ہے) کہہ کر مسلمانوں کو صبح سویرے اللہ کی عبادت کرنے کی دعوت دی جاتی ہے۔ غرضیکہ اذان میں نہ کسی مذہب یا کسی شخص پر کوئی تنقید ہے، نہ یہ کوئی سیاسی ہتھکنڈا ہے بلکہ صرف اور صرف خالق کائنات ، جس کو عربی میں اللہ، انگریزی میں God، فارسی میں خدا اور ہندی میں بھگوان کہتے ہیں، کی تعریف کی جاتی ہے، اس کے معبود حقیقی اور محمد ﷺ کے رسول ہونے کی شہادت دے کر مسلمانوں کو نماز کی طرف بلایا جاتا ہے۔

خلاصۂ کلام: ہر مسلمان بالغ مرد وعورت پر روزانہ پانچ وقت کی نماز ادا کرنا فرض ہے، مرد حضرات کو حکم دیا گیا کہ وہ ان نمازوں کو مسجدوں میں ادا کریں، جبکہ خواتین کو تعلیم وترغیب دی گئی کہ وہ ان نمازوں کو پردے میں رہ کر اپنے گھروں میں ہی ادا کریں۔ پہلی ہجری میں مدینہ منورہ میں مسلم معاشرہ کے قیام سے ہی فرض نمازوں کے لئے اذان کو اسلامی شعار قرار دیا گیا۔ اِس وقت دنیا میں کئی کروڑ مساجد ہیں جس میں پانچ وقت نماز کے قیام سے قبل اذان دی جاتی ہے۔ اذان کا مقصد مسلمانوں کو نماز کے قیام کے وقت قریب آنے کی اطلاع دینا ہوتا ہے۔ پہلے دنیا میں گاڑیوں اور مشینوں کے شوروغل نہ ہونے کی وجہ سے اونچی جگہ پر دی گئی اذان دور دور تک سنائی دے جاتی تھی۔ لیکن چونکہ اب لوگ موجودہ طرز کے بند رہائشی مکانوں اور دفتروں میں قید رہتے ہیں، جس کی وجہ سے لاؤڈ سپیکر کے بغیر اذان دینے سے اذان کا مقصد ہی فوت ہوجاتا ہے۔ اس وجہ سے لاؤڈ سپیکر کے ذریعہ اذان دی جاتی ہے۔ یہ صرف اذان کا معاملہ نہیں، بلکہ دیگر مذاہب کی عبادت گاہوں کے اعلانات وغیرہ بھی لاؤڈ سپیکر کے ذریعہ ہی کئے جاتے ہیں۔ لاؤڈ سپیکر کے ذریعہ دیگر مذاہب کی عبادت گاہوں سے اعلانات کی اجازت اور اذان دینے پر پابندی لگانا آزادئ مذہب کے سراسر خلاف ہے۔

ڈاکٹر محمد نجیب قاسمی سنبھلی (www.najeebqasmi.com)

سعودی عرب میں رمضان کے آخری عشرہ میں ہر مسجد میں نماز تہجد
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيْم

اَلْحَمْدُ لِلّهِ رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلامُ عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔

سعودی عرب میں رمضان کے آخری عشرہ میں ہر مسجد میں نماز تہجد آدھی رات کے بعد جماعت کے ساتھ ادا کی جاتی ہے، جس کی شکل اس طرح ہوتی ہے کہ مسجد حرام (مکہ مکرمہ) اور مسجد نبوی (مدینہ منورہ) میں نماز عشاء کے فوراً بعد بیس رکعات تراویح جماعت کے ساتھ ادا کی جاتی ہیں، پھر آدھی رات کو نماز تہجد کی آٹھ رکعات اور اس کے بعد تین رکعات وتر ادا کئے جاتے ہیں۔ دیگر مساجد میں نماز عشاء کی ادائیگی کے فوراً بعد نماز تراویح کی آٹھ رکعات جماعت کے ساتھ ادا کی جاتی ہیں، پھر آدھی رات کو نماز تہجد کی آٹھ رکعات اور اس کے بعد تین رکعات وتر جماعت کے ساتھ ادا کئے جاتے ہیں۔ بعض مساجد میں اس سے کم یا اس سے زیادہ بھی رکعات ادا کی جاتی ہیں۔یہ بات ذہن میں رکھیں کہ سعودی عرب کی تمام مساجد میں عموماً دوسلام کے ساتھ وتر کی تین رکعات ادا کی جاتی ہیں۔ حضور اکرم ﷺکی سنت کے مطابق عموماً پہلی رکعت میں سورۃ الاعلی (سبح اسم ربک الاعلی ۔۔۔)، دوسری رکعت میں سورۃ الکافرون (قل یا ایہا الکافرون) اور تیسری رکعت میں سورۃ الاخلاص (قل ہو اللہ احد) پڑھی جاتی ہے۔

میں معتدد دلائل شرعیہ کی روشنی میں سابقہ مضامین میں ذکر کرچکا ہوں کہ نماز تراویح اور نماز تہجد دو الگ الگ نمازیں ہیں، اختصار کے پیش نظر یہاں صرف تین دلیلیں پیش خدمت ہیں۔ نماز تہجد کی ابتداء مکہ مکرمہ کے ابتدائی دور سے ہی شروع ہوگئی تھی، جبکہ نماز تراویح کی ابتداء مدینہ منورہ میں ۲ ہجری میں روزے کی فرضیت کے بعد سے شروع ہوئی۔ نماز تہجد اللہ کے حکم سے شروع ہوئی ہے، جبکہ نماز تراویح حضور اکرم ﷺ کے عمل سے شروع ہوئی جیسا کہ احادیث میں وضاحت موجود ہے۔ علماء نے تحریر کیا ہے کہ ابتداء اسلام میں پانچ نمازوں کی فرضیت سے قبل نماز تہجد عام مسلمانوں پر فرض تھی اور حضور اکرم ﷺ پر پوری زندگی فرض رہی۔ سورۃ المزمل (مکی سورت) میں اللہ تعالیٰ نے بیان کیا ہے کہ نبی دو تہائی رات یا کبھی آدھی رات یا کبھی ایک تہائی رات روزانہ نماز تہجد پڑھا کرتے ہیں۔ حدیث کی سب سے مشہور کتاب لکھنے والے حضرت امام بخاری ؒ نے اپنی کتاب (صحیح بخاری) میں دو الگ الگ Chapter بنائے ہیں، ایک نماز تہجد کے نام سے اور دوسرا نماز تراویح کے نام سے، اگر دونوں ایک ہی نماز ہوتیں تو دونوں کا الگ الگ Chapter بنانے کی ضرورت نہیں تھی۔ حضرت عائشہؓ والی حدیث کو امام بخاری ؒ نے نماز تہجد میں ذکر کرکے اپنا موقف واضح کردیا کہ حضرت عائشہؓ والی حدیث کا تعلق نماز تہجد سے ہے۔ مسجد حرام، مسجد نبوی اور سعودی عرب کی دیگر مساجد میں آخری عشرہ میں نماز تراویح کے بعد نماز تہجد کی ادائیگی خود اس بات کی دلیل ہے کہ عملی طور پر یہاں کے علماء بھی دونوں نمازوں کو الگ الگ نماز ہی تسلیم کرتے ہیں، ورنہ دو مرتبہ پڑھنے کی کیا ضرورت ہے۔

قرآن وحدیث کی روشنی میں روز روشن کی طرح یہ بات واضح ہے کہ پورے سال پڑھی جانے والی نماز تہجد نفل نماز ہے، اگرچہ قرآن کریم میں فرض نماز کے بعد اسی نماز کا ذکر تاکید کے ساتھ وارد ہوا ہے۔ اور اس نماز کو جماعت کے بجائے انفرادی ہی پڑھنا چاہئے کیونکہ زندگی میں ایک مرتبہ بھی حضور اکرم ﷺ یا صحابہ نے اس نماز کو باقاعدہ جماعت کے ساتھ پڑھنے کا اہتمام نہیں کیا۔ ہاں البتہ حضور اکرم ﷺ کی ۲۳ سالہ زندگی میں ایسے دو چار واقعات پیش آئے ہیں کہ مسجد نبوی میں حضور اکرمﷺ انفرادی نمازتہجد پڑھ رہے تھے تو کبھی کبھی کسی صحابی نے آپ ﷺکے ساتھ نماز تہجد پڑھنے کی نیت باندھیں ، مگر آپ ﷺ کی نماز تہجد کی دو رکعات تقریباً دو دوگھنٹے پر مشتمل ہونے کی وجہ سے صحابی اس کا تحمل نہ کرسکے۔ ہاں آپﷺ نے اس پر کوئی نکیر بھی نہیں کی، جس سے نماز تہجد کا جماعت کے ساتھ پڑھانا تو حضوراکرم ﷺ سے ثابت ہوگیا، لیکن وقت کی تعیین کے ساتھ ہر مسجد میں جماعت کے ساتھ نماز تہجد کا اہتمام کرنے سے یقیناًاختلاف کیا جاسکتا ہے۔ غرضیکہ حضور اکرم ﷺ کے قول وعمل اور صحابۂ کرام کے عمل سے یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ پورے سال پڑھی جانے والی نماز تہجد اصل میں انفرادی نماز ہے، لیکن نفل ہونے کی وجہ سے نماز تہجد کو جماعت کے ساتھ ادا کرنے کی گنجائش تو ہے، لیکن وقت کی تعیین کے ساتھ ہر مسجد میں جماعت کے ساتھ نماز تہجد کا اہتمام کرنے سے اختلاف کیا جاسکتا ہے۔ برصغیر میں اس نوعیت کے اجتماعی عمل کو فوراً بدعت اور اس سرزمین پر ہونے والے اس نوعیت کے اجتماعی عمل کو سنت قرار ددینا یقیناً قابل اعتراض ہے۔ چونکہ عوام اس ماحول کی وجہ سے نماز تہجد کا اہتمام کرلیتی ہے، لہذا میرا موقف یہ ہے کہ جو پڑھنا چاہئے اس کے لئے گنجائش ضرور ہے، اگرچہ حضور اکرم ﷺ اور صحابہ کرام کے نقش قدم پر چل کر نمازتہجد کا گھر میں انفرادی طور پر ہی پڑھنا زیادہ بہتر وافضل ہے۔

محمد نجیب قاسمی سنبھلی

خطبہ جمعہ شروع ہونے کے بعد مسجد پہنچے والے نماز جمعہ کی فضیلت سے محروم
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيْم

اَلْحَمْدُ لِلّهِ رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلامُ عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔

خطبہ جمعہ شروع ہونے کے بعد مسجد پہنچے والے نماز جمعہ کی فضیلت سے محروم

حضور اکرم ﷺنے نماز جمعہ کے لئے حتی الامکان سویرے مسجد جانے کی ترغیب دی ہے۔ لہذ اگر ہم زیادہ جلدی نہ جاسکیں تو کم از کم خطبہ شروع ہونے سے کچھ وقت قبل ہمیں ضرور مسجد پہونچ جانا چاہئے کیونکہ خطبۂجمعہ شروع ہونے کے بعد مسجد پہونچنے والوں کی نماز جمعہ تو ادا ہوجاتی ہے، مگر نماز جمعہ کی کوئی فضیلت ان کو حاصل نہیں ہوتی ہے اور نہ ان کا نام فرشتوں کے رجسٹر میں درج کیا جاتا ہے، جیسا کہ احادیث میں مذکور ہے۔ رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا: جو شخص جمعہ کے دن جنابت کے غسل کی طرح غسل کرتا ہے (یعنی اہتمام کے ساتھ)، پھر پہلی فرصت (گھڑی) میں مسجد جاتا ہے تو گویا اس نے اللہ کی خوشنودی کے لئے اونٹنی قربان کی۔ جو دوسری فرصت میں مسجد جاتا ہے گویا اس نے گائے قربان کی۔ جو تیسری فرصت میں مسجد جاتا ہے گویا اس نے مینڈھا قربان کیا ۔ جو چوتھی فرصت میں جاتا ہے گویا اس نے مرغی قربان کی۔جو پانچویں فرصت میں جاتا ہے گویا اس نے انڈے سے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کی۔ پھر جب امام خطبہ کے لئے نکل آتا ہے تو فرشتے خطبہ میں شریک ہوکر خطبہ سننے لگتے ہیں۔ (بخاری ومسلم) (وضاحت) یہ گھڑی (فرصت) کس وقت سے شروع ہوتی ہے، علماء کی آراء مختلف ہیں، مگر سب کا خلاصۂ کلام یہ ہے کہ ہمیں حتی الامکان نماز جمعہ کے لئے سویرے مسجد پہونچنا چاہئے۔۔۔ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: جب جمعہ کا دن ہوتا ہے تو فرشتے مسجد کے ہر دروازے پر کھڑے ہوجاتے ہیں۔ پہلے آنے والے کا نام پہلے، اس کے بعد آنے والے کا نام اس کے بعد لکھتے ہیں ۔ (اسی طرح آنے والوں کے نام ان کے آنے کی ترتیب سے لکھتے رہتے ہیں) جب امام خطبہ دینے کے لئے آتا ہے تو فرشتے اپنے رجسٹر جن میں آنے والوں کے نام لکھے گئے ہیں، لپیٹ دیتے ہیں اور خطبہ سننے میں مشغول ہوجاتے ہیں۔ (مسلم) (وضاحت) حضور اکرم ﷺ کے فرمان سے معلوم ہوا کہ خطبہ شروع ہونے کے بعد مسجد پہونچنے والوں کے نام فرشتوں کے رجسٹر میں نہیں لکھے جاتے ہیں۔

دورانِ خطبہ کسی طرح کی بات کرنا حتی کہ نصیحت کرنا بھی منع ہے: رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا: جس نے جمعہ کے روز خطبہ کے دوران اپنے ساتھی سے کہا (خاموش رہو) اس نے بھی لغو کام کیا۔ (مسلم) رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا: جس شخص نے کنکریوں کو ہاتھ لگایا یعنی دوران خطبہ ان سے کھیلتا رہا (یا ہاتھ ، چٹائی، کپڑے وغیرہ سے کھیلتا رہا) تو اس نے فضول کام کیا (اور اس کی وجہ سے جمعہ کا خاص ثواب کم کردیا)۔ (مسلم) حضرت عبد اللہ بن بسررضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں جمعہ کے دن منبر کے قریب بیٹھا ہوا تھا، ایک شخص لوگوں کی گردن کو پھلانگتا ہوا آیا اور رسول اللہ ﷺخطبہ دے رہے تھے۔ آپ ﷺنے ارشاد فرمایا: بیٹھ جا، تونے تکلیف دی اور تاخیر کی۔ (صحیح ابن حبان) (وضاحت) جب امام خطبہ دے رہا ہو تو لوگوں کی گردنوں کو پھلانگ کر آگے جانا منع ہے بلکہ پیچھے جہاں جگہ مل جائے وہیں بیٹھ جانا چاہئے۔ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا : جو شخص جمعہ کے دن غسل کرتا ہے، اگر خوشبو ہو تو اسے بھی استعمال کرتا ہے، اچھے کپڑے پہنتا ہے، اس کے بعدمسجد جاتا ہے ، پھر مسجد آکر اگر موقع ہو تو نفل نماز پڑھ لیتا ہے اور کسی کو تکلیف نہیں پہونچاتا۔ پھر جب امام خطبہ دینے کے لئے آتا ہے اس وقت سے نماز ہونے تک خاموش رہتا ہے یعنی کوئی بات چیت نہیں کرتا تو یہ اعمال اس جمعہ سے گزشتہ جمعہ تک کے گناہوں کی معافی کا ذریعہ ہو جاتے ہیں۔ مسند احمد

نماز جمعہ سے قبل کی سنتیں: حضرت امام ابوحنیفہؒ اور علماء احناف نے حضو ر اکرم ﷺ کے اقوال وافعال اور صحابۂ کرام کے آثار کی روشنی میں فرمایا ہے کہ جمعہ کی نماز سے قبل بابرکت گھڑیوں میں جتنی زیادہ سے زیادہ نماز پڑھ سکتے ہیں، پڑھیں۔ کم از کم خطبہ شروع ہونے سے پہلے چار رکعات تو پڑھ ہی لیں جیسا کہ حدیث کی کتاب (مصنف ابن ابی شیبہ ج ۲ صفحہ ۱۳۱) میں مذکور ہے: مشہور تابعی حضرت ابراہیم ؒ فرماتے ہیں کہ حضرات صحابہ کرام نماز جمعہ سے پہلے چار رکعات پڑھا کرتے تھے۔ نیز حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ہر دو اذانوں (اذان اور اقامت) کے درمیان ایک نماز کا فصل ہے۔ ہر دو اذانوں (اذان اور اقامت) کے درمیان ایک نماز کا فصل ہے۔ پھر تیسری مرتبہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اگر کوئی پڑھنا چاہے۔ (بخاری ۔ کتاب الاذان ۔ باب بین کل اذانین صلاۃ لمن شاء) جمعہ بھی ایک نماز ہے، جو جمعہ کے دن نماز ظہر کی جگہ ادا کی جاتی ہے۔ لہٰذا نماز جمعہ کی اذان (اوّل) اور اقامت کے درمیان حضور اکرمﷺ کے فرمان کی روشنی میں نوافل اور سنن پڑھ کر فصل کرنا چاہئے۔

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ جمعہ سے قبل چار رکعات پڑھا کرتے تھے اور ان کے درمیان کوئی فصل نہیں کرتے تھے۔ (سنن ابن ماجہ ۔ باب ماجاء فی الصلاۃ قبل الجمعۃ) اس حدیث کی سند میں اگرچہ ضعف ہے، لیکن صحابۂ کرام کے آثار اس کی تائید کرتے ہیں، چنانچہ مشہور محدث امام ترمذی ؒ نے ترمذی (باب فی الصلاۃ قبل الجمعۃ وبعدہا) میں صحابی رسول حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے بارے میں نقل کیا ہے کہ وہ جمعہ سے قبل چار رکعات اور جمعہ کے بعد چار رکعات ادا کرتے تھے۔ حافظ زیلعیؒ نے معجم طبرانی اوسط کے حوالہ سے یہ حدیث حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً نقل کی ہے کہ حضور اکرم ﷺ جمعہ سے قبل چار رکعات اور جمعہ کے بعد چار رکعات پڑھا کرتے تھے۔ نیز معجم اوسط ہی کے حوالہ سے یہ فعلی روایت حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بھی مرفوعاً نقل کی ہے۔ عقیدہ کی سب سے مشہور کتاب لکھنے والے مصری حنفی عالم امام طحاوی ؒ نے مشکل الآثار میں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے یہ روایت نقل کی ہے: جو نماز پڑھتا ہے اسے چاہئے کہ وہ جمعہ سے قبل اور جمعہ کے بعد چار چار رکعات پڑھے۔ معارف السنن ج ۴ ص ۴۱۳

ان مذکورہ احادیث کے علاوہ صحیح بخاری وصحیح مسلم ودیگر کتب حدیث میں حضور اکرم ﷺکا فرمان کثرت سے مذکور ہے کہ نماز جمعہ سے قبل بابرکت گھڑیوں میں زیادہ سے زیادہ نماز ادا کرنی چاہئے، اختصار کے پیش نظر بخاری ومسلم کی ایک ایک حدیث پیش خدمت ہے: حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص جمعہ کے دن غسل کرتا ہے، جتنا ہوسکے پاکی کا اہتمام کرتا ہے اور تیل لگاتا ہے یا اپنے گھر سے خوشبو استعمال کرتا ہے، پھر مسجد جاتا ہے۔ مسجد پہنچ کر جو دو آدمی پہلے سے بیٹھے ہوں ان کے درمیان میں نہیں بیٹھتا اور جتنی توفیق ہو خطبہ جمعہ سے پہلے نماز پڑھتا ہے۔ پھر جب امام خطبہ دیتا ہے اس کو توجہ اور خاموشی سے سنتا ہے تو اس جمعہ سے گزشتہ جمعہ تک کے (چھوٹے چھوٹے) گناہوں کو معاف کردیا جاتا ہے۔ (صحیح البخاری ۔ باب الدھن للجمعۃ) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جس نے جمعہ کے دن غسل کیا، پھر مسجد میں آیا اور جتنی نماز اس کے مقدر میں تھی ادا کی، پھرخطبہ ہونے تک خاموش رہا اور امام کے ساتھ فرض نماز ادا کی، اس کے جمعہ سے جمعہ تک اور مزید تین دن کے (چھوٹے) گناہ بخش دئے جاتے ہیں۔ (صحیح مسلم ۔ باب فضل من استمع وانصت فی الخطبۃ) ان احادیث وآثار کے مجموعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ جمعہ سے قبل بھی سنتیں ہیں، علاوہ ازیں ظہر پر قیاس کا تقاضہ بھی یہی ہے کہ جمعہ سے پہلے چار رکعات مسنون ہوں۔

نماز جمعہ کے بعد کی سنتیں: نماز جمعہ کے بعد دو رکعات یا چار رکعات یا چھ رکعات پڑھیں، یہ تینوں عمل نبی اکرم ﷺ اور صحابۂ کرام سے ثابت ہیں۔ بہتر یہ ہے کہ چھ رکعات پڑھ لیں تاکہ تمام احادیث پر عمل ہوجائے اور چھ رکعات کا ثواب بھی مل جائے۔ اسی لئے علامہ ابن تیمیہ ؒ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ سے ثابت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا ہے جمعہ کے بعد چار رکعات پڑھنی چاہئیں، اور حضرات صحابۂ کرام سے چھ رکعات بھی منقول ہیں۔ (مختصر فتاوی ابن تیمیہ، صفحہ ۷۹) (نماز پیمبر صفحہ ۲۸۱) رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جب تم میں سے کوئی جمعہ کی نماز پڑھ لے تو اس کے بعد چار رکعات پڑھے۔ (مسلم) حضرت سالم ؒ اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ جمعہ کے بعد دو رکعات پڑھتے تھے ۔ (مسلم) حضرت عطاء ؒ فرماتے ہیں کہ انھوں نے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو جمعہ کے بعد نماز پڑھتے دیکھا کہ جس مصلّی پر آپ نے جمعہ پڑھا اس سے تھوڑا سا ہٹ جاتے تھے، پھر دو رکعات پڑھتے، پھر چار رکعات پڑھتے تھے۔ میں نے حضرت عطاء ؒ سے پوچھا کہ آپ نے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو کتنی مرتبہ ایسا کرتے دیکھا؟ انھوں نے فرمایا کہ بہت مرتبہ۔ (ابو داود)حضرت نافع ؒ فرماتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما جمعہ کے بعد اپنے گھر جاکر دو رکعات نماز پڑھا کرتے تھے۔ آپ نے فرمایا کہ حضور اکرم ﷺ بھی ایسا ہی کیا کرتے تھے۔ (سنن ابن ماجہ ۔ باب ماجاء فی الصلاۃ بعد الجمعہ)حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا : جب جمعہ سے فارغ ہوجاؤ تو چار رکعات پڑھ لیا کرو۔ (سنن ابن ماجہ ۔ باب ماجاء فی الصلاۃ بعد الجمعہ) معجم طبرانی کبیر میں حضرت ابوعبدالرحمن ؒ سے مروی ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ہمیں بتاتے تھے کہ جمعہ کے بعد چار رکعات پڑھیں، لیکن ہم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے چھ رکعات کے متعلق سنا تو ہم چھ رکعات ہی پڑھا کرتے تھے۔ (مجمع الزوائد ج۲ ص ۱۹۵) دوسری روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا عمل بھی بعد میں چھ رکعات پڑھنے کا ہوگیا تھا۔ (رواہ الطبرانی فی الکبیر، الزوائد للہیثمی ج ۲ ص ۱۹۵) غرضیکہ جمعہ کے بعد بعض احادیث سے دو اور بعض سے چار رکعات، جبکہ صحابۂ کرام سے چھ رکعات پڑھنے کا ثبوت ملتا ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے جمعہ کے بعد دو رکعات اور پھر چار رکعات پڑھنے کو کہا۔ ترمذی باب فی الصلاۃ قبل الجمعہ وبعدھا۔

ہر مسلمان کو چاہئے کہ فرض نمازوں کے ساتھ سنن ونوافل کا بھی خاص اہتمام کرے تاکہ اللہ تعالیٰ کا قرب بھی حاصل ہوجائے جیسا کہ حدیث قدسی میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ بندہ نوافل کے ذریعہ میرے قرب میں ترقی کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ میں اس کو اپنا محبوب بنا لیتا ہوں اور جب میں محبوب بنا لیتا ہوں تو میں اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنے، اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھے، اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑے، اس کا پا ؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلے۔ جو وہ مجھ سے مانگتا ہے میں اس کو دیتا ہوں۔ (صحیح البخاری ۔ باب التواضع) ہاتھ پاؤں بن جانے کامطلب یہ ہے کہ اس کا ہر کام اللہ کی رضا اور محبت کے ماتحت ہوتا ہے، اس کا کوئی بھی عمل اللہ کی مرضی کے خلاف نہیں ہوتا۔۔۔نیز اگر خدانخواستہ قیامت کے دن فرض نمازوں میں کچھ کمی نکلے تو سنن ونوافل سے اس کی تکمیل کردی جائے جیساکہ نبی اکرم ﷺ نے ارشادفرمایا: قیامت کے دن آدمی کے اعمال میں سے سب سے پہلے فرض نماز کا حساب لیا جائے گا، اگر نماز درست ہوئی تو وہ کامیاب وکامران ہوگا، اگر نماز درست نہ ہوئی تو وہ ناکام اور خسارہ میں ہوگا اور اگر نماز میں کچھ کمی پائی گئی تو ارشاد خداوندی ہوگا کہ دیکھو اس بندے کے پاس کچھ نفلیں بھی ہیں جن سے فرضوں کو پورا کردیا جائے، اگر نکل آئیں تو ان سے فرضوں کی تکمیل کردی جائے گی۔ ترمذی، ابن ماجہ، نسائی، ابو داود، مسند احمد۔

غرضیکہ ہمیں نماز جمعہ کے لئے سویرے مسجد پہنچنا چاہئے، اگر ہم زیادہ جلدی نہ جاسکیں تو کم از کم خطبہ شروع ہونے سے کچھ وقت قبل ہمیں ضرور مسجد پہونچ جانا چاہئے اور پانچ فرض نمازوں کی سنتوں اور دیگر نوافل کے اہتمام کے ساتھ نماز جمعہ سے قبل چار رکعات اور نماز جمعہ سے فراغت کے بعد دو یا چار یا چھ رکعات سنتوں کا اہتمام کرنا چاہئے۔

محمد نجیب قاسمی سنبھلی (www.najeebqasmi.com)

نماز پڑھئے قبل اس کے کہ آپ کی نماز پڑھی جائے
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيْم

اَلْحَمْدُ لِلّهِ رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلامُ عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔

نماز پڑھئے قبل اس کے کہ آپ کی نماز پڑھی جائے

قرآن وحدیث میں سب سے زیادہ تاکید واہمیت نماز کی ذکر کی گئی ہے۔ محسن انسانیت اور قیامت تک آنے والے تمام انس وجن کے نبی حضور اکرمﷺ کی قیمتی زندگی کا سب سے زیادہ وقت نماز میں ہی گزرا ہے، جیساکہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ مزمل کی ابتدائی وآخری آیات میں بیان فرمایا ہے کہ نبی رات کا ایک تہائی یا آدھی رات یا دو تہائی رات قیام فرماتے ہیں۔ صحیح بخاری میں ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی اکرمﷺ رات کو قیام فرماتے یہاں تک کہ آپ کے پاؤں مبارک میں ورم آجاتا۔ احباب کا ذاتی تجربہ ہے کہ ایک دو گھنٹے نماز کی ادائیگی سے پاؤں میں ورم نہیں آتا ہے، بلکہ رات کا بڑا حصہ قیام کرنے پر ہی پاؤں میں ورم آتا ہے۔ سارے نبیوں کے سردار حضور اکرم ﷺ کے فرمان کے مطابق کل قیامت کے دن سب سے پہلے نماز ہی کا حساب لیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے پاک کلام میں متعدد مرتبہ فرمایا ہے کہ جنت الفردوس کے حصول کے لئے نماز کی پابندی ضروری ہے۔ ہم میں سے ہرشخص جنت الفردوس کا طالب ہے، لہذا ہمیں نماز پڑھنے کا اہتمام کرنا چاہئے۔

قرآن کریم میں مذکور ایک واقعہ بیان کرتا ہوں جس سے نماز کی اہمیت کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ حضرت مریم علیہا السلام نے جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بغیر باپ کے جنا تو قوم کے لوگوں نے حضرت مریم علیہاالسلام پر تہمتیں لگانی شروع کردیں اور کہا کہ نہ تمہارے باپ ایسے تھے اور نہ ہی تمہاری ماں ایسی تھیں ، مریم! تم نے اتنا بڑا جرم کیسے کر ڈالا؟ حضرت مریم نے بچہ کی طرف اشارہ کیا کہ اسی سے پوچھ لو۔ لوگوں نے کہا کہ ہم اتنے چھوٹے بچہ سے جو پالنے میں پڑا ہوا ہے، کیسے بات کرسکتے ہیں؟ اتنے میں بچہ خود بول پڑا کہ: میں اللہ کا بندہ ہوں۔ اس نے مجھے کتاب دی ہے اور نبی بنایا ہے۔ اور جہاں بھی رہوں مجھے بابرکت بنایا ہے۔ اور جب تک زندہ رہوں مجھے نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیا ہے۔ اور مجھے اپنی والدہ کا فرمانبردار بنایا ہے۔ مجھے سرکش اور سنگ دل نہیں بنایا ہے۔سورۃ مریم آیت ۲۹ ۔ ۳۲

آپ غور فرمائیں کہ حضرت مریم علیہا السلام پر قوم سنگین تہمتیں لگارہی ہے اور ایک پاک دامن عفیفہ عورت کی عزت ہمیشہ کے لئے داؤ پر لگی ہوئی ہے۔ بچہ اپنی پاک دامن ماں کی براء ت کو ثابت کرنے کے اس اہم موقعہ پر اللہ تعالیٰ کی قدرت سے بات کرتے ہوئے کہتا ہے کہ مجھے پوری زندگی نماز پڑھنے اور زکوٰۃ کی ادائیگی کا حکم دیا گیا ہے، اس سے نماز کی اہمیت وتاکید کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

سب سے افضل واعلیٰ بشر حضور اکرمﷺ کی آخری وصیت بھی نماز کی پابندی کے متعلق ہے۔ صرف نماز ہی دین اسلام کا ایک ایسا عظیم رکن ہے جس کی فرضیت کا اعلان زمین پر نہیں بلکہ ساتوں آسمانوں کے اوپر بلند واعلیٰ مقام پر معراج کی رات ہوا۔ نیز اس کا حکم حضرت جبرائیل علیہ السلام کے ذریعہ نبی اکرمﷺ تک نہیں پہنچا، بلکہ اللہ تعالیٰ نے فرضیت نماز کا تحفہ بذات خود اپنے حبیبﷺ کو عطا فرمایا۔ ہمارے نبی کے فرمان کے مطابق اللہ کو سب سے زیادہ محبوب عمل نماز کو اس کے وقت پر ادا کرنا ہے۔ نیز ہمارے نبی کی آنکھوں کی ٹھنڈک نمازمیں رکھی گئی ہے۔ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانے کے بعد سب سے پہلا اور اہم فریضہ نماز ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہر مسلمان پر عائد کیا گیا ہے، خواہ مرد ہو یا عورت ، غریب ہو یا مالدار، صحت مند ہو یابیمار، طاقت ور ہو یا کمزور، بوڑھا ہو یا نوجوان، مسافر ہو یا مقیم، بادشاہ ہو یا غلام، حالت امن ہو یا حالت خوف، خوشی ہو یا غم، گرمی ہو یا سردی، حتی کہ جہاد وقتال کے عین موقعہ پر میدان جنگ میں بھی یہ فرض معاف نہیں ہوتاہے۔

اللہ تعالیٰ ہمیں پوری زندگی خشوع وخضوع کے ساتھ نماز کا اہتمام کرنے والا بنائے۔

محمد نجیب قاسمی سنبھلی (www.najeebqasmi.com)

فوت شدہ (چھوٹی ہوئی) رکعات کی ادائیگی کیسے کریں؟

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيْم

اَلْحَمْدُ لِلّهِ رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلامُ عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔

فوت شدہ (چھوٹی ہوئی) رکعات کی ادائیگی کیسے کریں؟

مرد حضرات حتی الامکان فرض نماز جماعت کے ساتھ ہی ادا کریں کیونکہ فرض نماز کی مشروعیت جماعت کے ساتھ وابستہ ہے جیسا کہ قرآن کریم کی آیات، احادیث شریفہ اور صحابہ کرام کے اقوال میں مذکور ہے ۔فرض نماز جماعت کے بغیر ادا کرنے پر فرض تو ذمہ سے ساقط ہوجائے گا، مگر معمولی معمولی عذر کی بناء پر جماعت کا ترک کرنا گناہ ہے ۔ہمیں فرض نماز تکبیر اُولی کے ساتھ ہی پڑھنی چاہئے کیونکہ احادیث میں تکبیر اُولی (پہلی تکبیر) کو نماز کی ناک اور نماز کا نچوڑ قرار دیا گیا ہے۔ نیز رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص چالیس دن اخلاص سے تکبیر اُولی کے ساتھ باجماعت نماز پڑھتا ہے تو اس کو دو پروانے ملتے ہیں: ایک جہنم سے بری ہونے کا اور دوسرا نفاق سے بری ہونے کا۔ ترمذی
تکبیر اولیٰ کے اہتمام کے باوجود بسا اوقات ہم جب مسجد پہنچتے ہیں تو نماز شروع ہوگئی ہوتی ہے، ایسے وقت میں ہمیں چاہئے کہ ہم جماعت میں شریک ہوجائیں خواہ امام کسی بھی رکن میں ہو۔ اگر ہم نے امام کے ساتھ قیام یا رکوع حاصل کرلیا تو شرعاً وہ رکعت حاصل شدہ تسلیم کی جائے گی۔ لیکن اگر ہم ایسے وقت میں جماعت میں شریک ہوئے کہ امام کے ساتھ رکوع ملنے میں شک وشبہ ہے تو احتیاطاً اس رکعت کو حاصل کیا ہوا تسلیم نہیں کیا جائے گا۔
امام کے ساتھ نماز میں شریک ہوکر تمام اعمال امام کی طرح کرتے رہیں۔ امام کے سلام پھیرنے کے بعد اب ہمیں فوت شدہ رکعات کی ادائیگی کرنی ہوگی۔ عام طریقہ کے مطابق ہی فوت شدہ رکعات کی ادائیگی کی جائے گی، صرف دو جگہوں پرخصوصی توجہ درکار ہے۔ ۱) سورہ فاتحہ کے بعد سورت پڑھنے یا نہ پڑھنے کے اعتبار سے وہ فوت شدہ رکعات تسلیم کی جائے گی یعنی ہمیں پہلی اور دوسری رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد سورت بھی پڑھنی ہوگی۔ تیسری اور چوتھی فوت شدہ رکعات میں صرف سورہ فاتحہ پڑھنی ہوگی۔ ۲) سجدہ کے بعد قاعدہ میں بیٹھنے یا کھڑے ہونے کے اعتبار سے دیکھا جائے گا کہ مجموعی طور پر کل کتنی رکعات ہو گئیں۔
چند مثالیں:
1) اگر آپ کو نماز ظہر کی صرف دو رکعات امام کے ساتھ ملیں تو امام کے سلام پھیرنے کے بعد آپ کو فوت شدہ دو رکعات میں سورہ فاتحہ کے بعد سورت بھی پڑھنی ہوگی کیونکہ یہ آپ کی پہلی اور دوسری فوت شدہ رکعات ہیں اور پہلی اور دوسری رکعات میں سورہ فاتحہ کے بعد سورت بھی پڑھی جاتی ہے۔ لیکن آپ پہلی فوت شدہ رکعت کے دونوں سجدوں سے فراغت کے بعد کھڑے ہوجائیں گے کیونکہ یہ مجموعی طور پر آپ کی تیسری رکعت ہوگئی۔ فوت شدہ دوسری رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد سورت پڑھنی ہوگی اور پھر آخر میں دونوں سجدوں سے فراغت کے بعد قاعدہ میں بیٹھ جائیں گے کیونکہ یہ مجموعی طور پر آپ کی چوتھی رکعت ہوگئی۔
2) اگر آپ کو نماز عشاء کی صرف ایک ہی رکعت امام کے ساتھ ملی تو امام کے سلام پھیرنے کے بعد آپ کو تین رکعات ادا کرنی ہوں گی۔ پہلی اور دوسری فوت شدہ رکعات میں فاتحہ کے بعد سورت بھی پڑھنی ہوگی کیونکہ پہلی اور دوسری رکعات میں سورہ فاتحہ کے بعد سورت بھی پڑھی جاتی ہے، لیکن تیسری فوت شدہ رکعت میں صرف فاتحہ پڑھنی ہوگی کیونکہ تیسری رکعت میں فاتحہ کے بعد سورت نہیں پڑھی جاتی ہے۔ پہلی فوت شدہ رکعت کے دونوں سجدوں سے فراغت کے بعد آپ بیٹھ جائیں گے کیونکہ یہ مجموعی طور پر آپ کی دوسری رکعت ہے اور دوسری رکعت میں دونوں سجدوں سے فراغت کے بعد بیٹھا جاتا ہے۔ دوسری فوت شدہ رکعت میں دونوں سجدوں سے فراغت کے بعد آپ کھڑے ہوجائیں گے کیونکہ یہ مجموعی طور پر آپ کی تیسری رکعت ہے اور تیسری رکعت میں دونوں سجدوں سے فراغت کے بعد کھڑے ہوتے ہیں۔ ، تیسری فوت شدہ رکعت میں دونوں سجدوں سے فراغت کے بعد آپ بیٹھ جائیں گے کیونکہ یہ مجموعی طور پر آپ کی آخری رکعت ہے۔
3) اگر آپ مغرب کی نماز کی ادائیگی کے لئے مسجد پہنچے اور امام دوسری رکعت کے قاعدہ میں تھا تو آپ کو امام کی اتباع میں قاعدہ میں شریک ہوجانا چاہئے ، لیکن یہ قاعدہ صرف اور صرف امام کی اتباع کی وجہ سے ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کے بعد آپ امام کے ساتھ ایک رکعت اداکریں گے جس میں وہ قاعدہ بھی کرے گا۔ آپ تشہد پڑھنے کے بعد امام کے سلام پھیرنے کا انتظار کرتے رہیں۔ امام کے سلام پھیرنے کے بعد آپ اپنی فوت شدہ دو رکعات ادا کریں گے۔چونکہ آپ پہلی اور دوسری رکعات ادا کررہے ہیں، لہٰذا دونوں رکعات میں فاتحہ کے بعد سورت ملائیں۔ فوت شدہ پہلی رکعت کے دونوں سجدوں کے بعد آپ بیٹھ جائیں کیونکہ یہ مجموعی طور پر آپ کی دوسری رکعت ہے اور دوسری رکعت میں قاعدہ اولیٰ واجب ہے۔ فوت شدہ دوسری رکعت کے دونوں سجدوں سے فراغت کے بعد آپ بیٹھ جائیں کیونکہ یہ آپ کی مجموعی طور پر تیسری رکعت ہے اور اس میں قاعدہ اخیرہ کیا جاتا ہے۔
خلاصہ کلام: چھوٹی ہوئی رکعات سورہ فاتحہ کے بعد سورت پڑھنے یا نہ پڑھنے کے اعتبار سے فوت شدہ رکعات تسلیم کی جائے گی یعنی ہمیں پہلی اور دوسری رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد سورت بھی پڑھنی ہوگی۔ اور سجدہ کے بعد قاعدہ میں بیٹھنے یا کھڑے ہونے کے اعتبار سے دیکھا جائے گا کہ مجموعی طور پر کل کتنی رکعات ہو گئیں۔ باقی نماز کی ترتیب وہی ہے۔
نوٹ: مسئلہ مذکورہ میں جمہور علماء کا تقریباً اتفاق ہے، لہٰذا مضمون کی طوالت سے بچنے کی غرض سے دلائل پر بحث نہیں کی گئی، مسئلہ کا صرف خلاصہ ذکر کردیا گیا ہے۔
محمد نجیب قاسمی سنبھلی (www.najeebqasmi.com)

نماز جمعہ کے وقت کی ابتداء ظہر کی طرح زوال آفتاب کے بعد سے

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيْم

اَلْحَمْدُ لِلّهِ رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلامُ عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔

نماز جمعہ کے وقت کی ابتداء ظہر کی طرح زوال آفتاب کے بعد سے

نماز کی وقت پر ادائیگی سے متعلق آیات قرآنیہ اور متواتر احادیث کی روشنی میں جمہور مفسرین، محدثین، فقہاء وعلماء کرام کا اتفاق ہے کہ فرض نماز کو اس کے متعین اور مقرر وقت پر پڑھنا فرض ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتاہے: بے شک نماز اہل ایمان پر فرض ہے جس کا وقت مقرر ہے۔(سورۃ النساء ۱۰۳)
نماز جمعہ دیگر نمازوں سے مختلف ہے کہ وہ وقت کے بعد پڑھی ہی نہیں جاسکتی کیونکہ دیگر فرض نمازیں وقت ختم ہونے پر بطور قضا پڑھی جاتی ہیں، جبکہ نماز جمعہ فوت ہونے پر نماز ظہر یعنی چار رکعت ادا کی جاتی ہیں۔ تمام اہل علم کا اتفاق ہے کہ وقت‘ جمعہ کی نماز کے صحیح ہونے کے لئے شرط ہے۔ صحیح مسلم کی سب سے مشہور شرح لکھنے والے امام نووی ؒ نے اپنی کتاب (المجموع ۴/۲۶۴) میں تحریر کیا ہے کہ امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ جمعہ کی قضا نہیں ہے، یعنی جس کا جمعہ فوت ہوگیا اسے نماز ظہر ادا کرنی ہوگی۔ ا سی طرح پوری امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ جس نے نماز جمعہ ظہر کے وقت میں ادا کی اس نے نماز جمعہ وقت پر ادا کیا جیساکہ حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور دیگر فقہاء نے اس مسئلہ پر اجماع امت ذکر کیا ہے۔ پوری امت مسلمہ متفق ہے کہ نماز جمعہ زوال آفتاب کے بعد ہی ادا کرنی چاہئے کیونکہ پوری زندگی حضور اکرم ﷺ کا یہی معمول رہا ہے اور زوال آفتاب کے بعد نماز جمعہ ادا کرنے میں کسی کا کوئی اختلاف بھی نہیں ہے۔ زوال آفتا ب سے قبل نماز جمعہ کی ادائیگی کی صورت میں جمہور محدثین وفقہاء وعلماء، نیز حضرت امام ابوحنیفہ ، حضرت امام شافعی اور حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہم فرماتے ہیں کہ زوال آفتاب کے بعد نماز جمعہ دوبارہ ادا کرنی ہوگی اور وقت ختم ہونے پر نماز ظہر کی قضا کرنی ہوگی۔
حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کے مشہور قول کے مطابق سعودی عرب کی عام مساجد میں جمعہ کی پہلی اذان تو زوال آفتاب سے تقریباً ڈیڑھ گھنٹے قبل ہوتی ہے لیکن جمہور محدثین وفقہاء وعلماء کی قرآن وحدیث کی روشنی پر مبنی رائے کے مطابق خطبہ کی اذان زوال آفتاب کے بعد ہوتی ہے۔ مسجد حرام اور مسجد نبوی میں پہلی اذان بھی جمہور محدثین وفقہاء وعلماء کے قول کے مطابق زوال آفتاب کے بعد ہی ہوتی ہے۔ مگر کبھی کبھی دیکھنے میں آیا ہے کہ بعض مساجد میں خطبہ والی اذان زوال آفتاب سے قبل ہی دے دی جاتی ہے، جس سے بعض حضرات کو تشویش ہوتی ہے کہ چند منٹ انتظار کرنے میں کونسی دشواری ہے، صرف چند منٹ کے انتظار پر کافی حضرات دوسری اذان سے قبل مسجد پہنچ کر جمعہ کی فضیلت حاصل کرنے والے بن جائیں گے۔ حضور اکرم ﷺ کے اقوال کی روشنی میں جمہور علماء کا اتفاق ہے کہ دوسری اذان شروع ہونے کے بعد مسجد پہنچنے والوں کی نماز جمعہ تو ادا ہوجاتی ہے لیکن انہیں جمعہ کی فضیلت کا کوئی بھی حصہ نہیں ملتا اور نہ ہی ان کا نام فرشتوں کے رجسٹر میں درج کیا جاتا ہے۔ سعودی عرب کے علماء نے احتیاط پر مبنی جمہور علماء کی رائے کا احترام کرتے ہوئے یہی کہا ہے کہ عام مساجد میں خطبہ کی اذان زوال آفتاب سے قبل نہ دی جائے اور حرمین شریفین میں پہلی اذان بھی زوال آفتاب کے بعد دی جائے۔
موضوع کی اہمیت کے مدنظر یہ مضمون تحریر کر رہا ہوں، اللہ تعالیٰ صحیح بات لکھنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔
نماز جمعہ کے اول وقت کے متعلق فقہاء وعلماء کی دو رائیں ہیں۔ دونوں رائے ذکر کرنے سے قبل اختلاف کی اصل وجہ ذکر کرنا مناسب سمجھتا ہوں کہ بعض روایات نماز جمعہ جلدی پڑھنے کے متعلق وارد ہوئی ہیں، حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے ان سے سمجھا کہ نماز جمعہ زوال آفتاب سے قبل پڑھی جاسکتی ہے، حالانکہ کسی ایک صحیح حدیث میں بھی وضاحت کے ساتھ مذکور نہیں ہے کہ آپ ﷺ زوال آفتاب سے قبل جمعہ پڑھا کرتے تھے۔ جمہور محدثین وفقہاء وعلماء، نیز حضرت امام ابوحنیفہ ، حضرت امام شافعی اور حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہم نے کہا ان احادیث میں صرف نماز جمعہ کے لئے جلدی جانے کی تاکید کی گئی ہے نہ کہ زوال آفتاب سے قبل نماز جمعہ کی ادائیگی کی۔
جمہور محدثین وفقہاء وعلماء، نیز حضرت امام ابوحنیفہ ، حضرت امام شافعی اور حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہم اور حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کی دوسری روایت کے مطابق نماز جمعہ کا وقت ظہر کی طرح زوال آفتاب کے بعد سے ہی شروع ہوتا ہے۔ حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ کا مشہور قول یہ ہے کہ نماز جمعہ زوال آفتاب کے بعد ہی پڑھنی چاہئے لیکن اگر زوال آفتاب سے قبل نماز جمعہ ادا کرلی گئی تو زوال آفتاب کے بعد اعادہ کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ جمعہ بھی عید ہے، اس لئے چاشت کے وقت پڑھنے کی گنجائش ہے۔ مشہور حنبلی عالم علامہ ابن رجب رحمۃ اللہ علیہ تحریر کرتے ہیں کہ صحیح مذہب کے مطابق جمعہ کی نماز زوال آفتاب کے بعد ہی واجب ہوتی ہے اگرچہ پہلے ادا کرنے کی گنجائش ہے۔
جمہور محدثین وفقہاء وعلماء کے قول کے بعض دلائل: جمہور علماء کے متعدد دلائل ہیں، لیکن اختصار کے مدنظر صحیح بخاری وصحیح مسلم میں وارد صرف دو احادیث ذکر کررہا ہوں:
۱) حدیث کی سب سے مستند کتاب لکھنے والے حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ نے اپنی مشہور ومعروف کتاب (صحیح بخاری) میں کتاب الجمعہ کے تحت ایک باب (Chapter) کا نام اس طرح تحریر کیا ہے: “جمعہ کا وقت زوال آفتاب کے بعد، حضرت عمر، حضرت علی، حضرت نعمان بن بشیر اور حضرت عمرو بن حریث رضی اللہ عنہم اجمعین سے اسی طرح منقول ہے” غرضیکہ صحابۂ کرام کے ساتھ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ کا بھی موقف واضح ہے کہ نماز جمعہ کا وقت زوال آفتاب کے بعد سے ہی شروع ہوتا ہے۔ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اسی باب میں مذکورہ حدیث ذکر کرتے ہیں: حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ جمعہ پڑھا کرتے تھے جس وقت سورج ڈھلتا یعنی زوال کے بعد جمعہ پڑھتے تھے۔ صحیح بخاری کی سب سے مشہور شرح لکھنے والے علامہ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کی شرح میں تحریر کرتے ہیں کہ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ آپ ﷺ زوال آفتاب کے بعد ہی نماز جمعہ ادا کرتے تھے۔ فتح الباری
یہ حدیث امام بخاری رحمۃ اللہ کے علاوہ دیگر محدثین مثلاً امام ترمذی ؒ نے بھی اپنی کتاب “ترمذی” میں ذکر کی ہے۔ خود حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃاللہ علیہ نے اپنی کتاب “مسند احمد” میں بھی ذکر کی ہے۔
۲) حدیث کی دوسری مستند کتاب (صحیح مسلم) میں امام مسلم رحمۃاللہ علیہ نے کتاب الجمعہ کے تحت ایک باب (Chapter)کا نام اس طرح تحریر کیا ہے: “جمعہ کی نماز زوال آفتاب کے بعد” اور اس باب میں یہ حدیث ذکر فرمائی ہے: حضرت ایاس بن سلمہ بن اکوع اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ جب سورج زائل ہوجاتا تھا جمعہ کی نماز پڑھتے تھے، پھر سایہ تلاش کرتے ہوئے لوٹتے تھے۔ یہ حدیث امام بخاری رحمۃ اللہ عنہ نے بھی صحیح بخاری میں ذکر فرمائی ہے۔
نوٹ: صحیح بخاری وصحیح مسلم میں وارد ان دونوں احادیث میں وضاحت کے ساتھ مذکور ہے کہ آپ ﷺ نمازجمعہ زوال آفتاب کے بعد پڑھا کرتے تھے۔
حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ کے قول کے دلائل:
۱) حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ کے زمانہ میں ہم لوگ غداء (دوپہر کا کھانا) اور قیلولہ جمعہ کے بعد کیا کرتے تھے۔ ( صحیح بخاری وصحیح مسلم) وجہ استدلال یہ ہے کہ ڈکشنری میں غداء (دوپہر کا کھانا) کے معنی ہیں وہ کھانا جو زوال آفتاب سے پہلے کھایا جائے۔ جب غداء نماز جمعہ کے بعد کھایا جائے گا تو نماز جمعہ زوال آفتاب سے پہلے ہونی چاہئے۔ لیکن یہ استدلال صحیح نہیں ہے کیونکہ اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ صحابہ کرام جمعہ کے روز بھی زوال آفتاب سے پہلے کھایا کرتے تھے، بلکہ وہ کھانا جو زوال آفتاب کے بعد کھایا جاتا ہے اسے عرفاً غداء ہی کہتے ہیں جیسا کہ موجودہ زمانہ میں۔ مثلاً حضور اکرم ﷺ نے سحری کے متعلق ارشاد فرمایا : ہَلمُّوا الی الغداء المبارک لیکن دنیا کا کوئی عالم بھی یہ نہیں کہتا کہ سحری زوال سے قبل کھائی جاسکتی ہے۔
۲) حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ہم حضور اکرم ﷺ کے ساتھ نماز پڑھتے تھے، پھر لوٹ کر اپنے پانی لانے والے اونٹوں کو آرام دیتے تھے۔ راوی حضرت حسن بیان کرتے ہیں کہ میں نے راوی حضرت جعفر سے کہا کہ اس وقت کیا وقت ہوتا تھا۔ فرمایا آفتاب ڈھلنے کا وقت۔ (صحیح مسلم) اس حدیث سے نماز جمعہ کا زوال آفتاب سے پہلے پڑھنے کو ثابت کرنا صحیح نہیں ہے کیونکہ جمعہ کے دن زوال آفتاب کے بعد نماز جمعہ کی ادائیگی کے بعد بھی پانی لانے والے اونٹوں کو آرام دلایا جاسکتا ہے جیساکہ دوسری احادیث سے معلوم ہوتا ہے۔ نیز یہ صحابی رسول حضرت جابر رضی اللہ عنہ کا قول نہیں بلکہ راوی کا ہے، غرضیکہ اس مبہم عبارت سے نماز جمعہ کا وقت زوال آفتاب سے قبل شروع ہونا، ثابت نہیں کیا جاسکتا ہے ۔
۳) حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کا استدلال حضرت عبداللہ بن سیدان سلمی رضی اللہ عنہ کی روایت سے بھی ہے جو سنن دار قطنی اور مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے جس میں خلفاء راشدین کا زوال سے پہلے جمعہ پڑھنا مروی ہے۔ مگر اس حدیث کی سند میں ضعف کی وجہ سے استدلال کرنا صحیح نہیں ہے جیساکہ صحیح مسلم کی سب سے مشہور شرح لکھنے والے امام نووی رحمۃ اللہ نے تحریر کیا ہے کہ حضرت ابوبکر ، حضرت عمر فاروق اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہم کے نماز جمعہ سے متعلق آثار ضعیف ہیں، اور اگر صحیح مان بھی لیا جائے تو حضور اکرم ﷺ کی واضح احادیث کی بناء پر اس مذکورہ حدیث میں تاویل اور توجیہ ہی کی جائے گی۔
۴) حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے بعض ان احادیث سے بھی استدلال کیا ہے جن میں نماز جمعہ کے لئے سویرے جانے کی ترغیب وارد ہوئی ہے، لیکن ان احادیث سے زوال آفتاب سے قبل نماز جمعہ کی ادائیگی کو ثابت کرنا صحیح نہیں ہے کیونکہ ان احادیث سے صرف یہ ثابت ہوتا ہے کہ نماز جمعہ کے لئے سویرے حتی کہ چاشت کے وقت مسجد چلے جانا چاہئے ، مگر ان احادیث میں اس طرح کی کوئی وضاحت وارد نہیں ہے کہ جمعہ کی نماز زوال آفتاب سے قبل ادا کی جاسکتی ہے۔
خلاصۂ کلام: پوری امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ جمعہ کے دن ظہر کی جگہ نماز جمعہ ادا کی جاتی ہے اور اگر کوئی شخص کسی عذر کی وجہ سے جماعت کے ساتھ نماز جمعہ ادا نہیں کرسکا تو اسے نماز ظہر ہی ادا کرنی ہوگی۔ اسی طرح اگر کوئی شخص نماز جمعہ وقت پر نہیں پڑھ سکا تو قضا ظہر کی نماز (یعنی چار رکعت) کی کرنی ہوگی۔ اسی طرح جمہور محدثین وفقہاء وعلماء کا اتفاق ہے کہ نماز جمعہ کا آخری وقت‘ ظہر کے آخری وقت کے مانند ہے، یعنی عصر کا وقت ہونے پر نماز جمعہ کا وقت ختم ہوجائے گا۔ حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے بھی یہی کہا ہے کہ نماز جمعہ کا آخری وقت‘ نماز ظہر کے آخری وقت کی طرح ہے۔ جب جمعہ کا آخری وقت ظہر کے آخری وقت کی طرح ہے تو نماز جمعہ کا اول وقت بھی ظہر کے اول وقت کی طرح ہونا چاہئے۔
اس پر بھی پوری امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ نماز جمعہ زوال آفتاب کے بعد ہی ادا کرنی چاہئے ، البتہ صرف امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے کہ اگر زوال آفتاب سے قبل نماز جمعہ ادا کرلی گئی تو نماز کے اعادہ کی ضرورت نہیں ہے، جبکہ جمہور محدثین وفقہاء وعلماء نے کہا کہ زوال آفتاب سے قبل جمعہ پڑھنے پر نماز جمعہ ادا ہی نہیں ہوگی۔ لہذا احتیاط کا تقاضہ بھی یہی ہے کہ نماز جمعہ زوال آفتاب کے بعد ہی ادا کی جائے، بلکہ پہلی اذان بھی زوال آفتاب کے بعد دی جائے تو اختلاف سے بچنے کے لئے بہتر ہے۔
جمہور محدثین وفقہاء وعلماء نیز حضرت امام ابوحنیفہ ، حضرت امام شافعی اور حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہم اور حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کی دوسری روایت کے دلائل مفہوم اور سند کے اعتبار سے زیادہ قوی ہیں۔
مذکورہ اسباب کی وجہ سے جمہور محدثین وفقہاء وعلماء کا قول ہی زیادہ صحیح ہے:
۱) جمہور علماء کے دلائل صحیح احادیث سے ثابت ہونے کے ساتھ اپنے مفہوم میں بالکل واضح ہیں، جبکہ دوسری رائے کے بعض دلائل اگرچہ صحیح احادیث پر مشتمل ہیں لیکن وہ اپنے مفہوم میں واضح نہیں ہیں، جبکہ دیگر روایات وآثار مفہوم میں تو واضح ہیں لیکن ان کی سند میں ضعف ہے۔
۲) جمہور محدثین وفقہاء وعلماء حتی کہ چاروں ائمہ میں سے تینوں ائمہ، امام بخاری، امام مسلم ، امام ترمذی، امام نووی رحمۃ اللہ علیہم اور چودہ سو سال سے جید علماء کی یہی رائے ہے کہ نماز جمعہ کا وقت زوال آفتاب کے بعد سے شروع ہوتا ہے۔
۳) جمہور علماء کا قول اختیار کرنے میں احتیاط بھی ہے کہ نماز جمعہ زوال آفتاب کے بعد پڑھنے پر دنیا کے کسی بھی عالم کا کوئی اختلاف نہیں ہے جبکہ زوال آفتاب سے قبل نماز جمعہ کی ادائیگی پر جمہور فقہاء وعلماء کا فیصلہ ہے کہ نماز جمعہ ادا نہیں ہوگی اور بعد میں نماز کا اعادہ کرنا ضروری ہوگا۔
۴) اگرچہ حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے زوال آفتاب سے قبل نماز جمعہ کی ادائیگی کی گنجائش رکھی ہے مگر انہوں نے یہی کہا ہے کہ نماز جمعہ زوال آفتاب کے بعد ہی ادا کرنا بہتر ہے، چنانچہ سعودی علماء (جو اختلافی مسائل میں حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کی رائے کو ترجیح دیتے ہیں) نے یہی کہا ہے کہ نماز جمعہ زوال آفتاب کے بعد ادا کی جائے۔
۵) امام المحدثین حضرت امام بخاری رحمۃا للہ کی شہادت کے مطابق حضرت عمر، حضرت علی، حضرت نعمان بن بشیر اور حضرت عمرو بن حریث رضی اللہ عنہم اجمعین کا یہی موقف ہے کہ زوال آفتاب کے بعد نماز جمعہ کا وقت ہوتا ہے۔ حضرت امام بخاری ؒ اور حضرت امام مسلم ؒ نے اپنی کتابوں (صحیح بخاری وصحیح مسلم) میں باب (Chapter)کا نام رکھ کر ہی اپنا موقف واضح کردیا کہ زوال آفتاب کے بعد ہی نماز جمعہ کا وقت شروع ہوتا ہے۔
۶) نماز جمعہ ظہر کی نماز کا بدل ہے اور آخری وقت کے متعلق حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کا موقف جمہور علماء کے مطابق ہے، کہ عصر کے وقت پر جمعہ کا وقت ختم ہوجاتا ہے، لہذ نماز جمعہ کا اول وقت بھی نماز ظہر کی طرح زوال آفتاب کے بعد سے ہی ہونا چاہئے۔
۷) جمعہ کے وقت کی ابتداء زوال آفتاب سے قبل ماننے پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ کس وقت یا لمحہ سے نماز جمعہ کے وقت کی ابتداء مانی جائے؟ احادیث میں کوئی وضاحت نہ ہونے کی وجہ سے حنبلی مکتب فکر کے علماء میں بھی وقت کی ابتداء کے متعلق اختلاف ہے، چنانچہ بعض علماء نے تحریر کیا ہے کہ نماز عید کی طرح سورج کے روشن ہونے سے وقت شروع ہوجاتا ہے۔ یہ بات ذہن میں رکھیں کہ سعودی عرب میں عید الفطر اور عید الاضحی کی نماز اشراق کا وقت شروع ہوتے ہی فوراً ادا کی جاتی ہے، جس کی وجہ سے گرمیوں میں ساڑھے پانچ بجے عید کی نماز ادا ہوجاتی ہے۔ غرضیکہ زوال آفتاب سے قبل نماز جمعہ پڑھنے کا کوئی ثبوت احادیث میں نہیں ملتا ہے۔
۸) زوال آفتاب کے بعد اذان اور نماز جمعہ کی ادائیگی کی صورت میں نماز پڑھنے والوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے، اور یہ شریعت میں مطلوب ہے۔
۹) خواتین اور معذور حضرات جن کو اپنے گھر نماز ظہر ادا کرنی ہوتی ہے، زوال آفتاب کے بعد پہلی اذان دینے پر انہیں نماز ظہر کی ادائیگی کا وقت معلوم ہوجائے گا۔ لیکن زوال آفتاب سے ایک یا ڈیڑھ گھنٹہ قبل اذان دینے سے ان حضرات کے لئے نماز کے وقت شروع ہونے کا کوئی اعلان نہیں ہوگا۔
حنبلی مکتب فکر کے مشہور عالم دین علامہ ابن قدامہ رحمۃ اللہ علیہ اپنی مایہ ناز کتاب (المغنی ۳/۱۵۹) میں تحریر کرتے ہیں کہ امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ جمعہ زوال آفتاب کے بعد قائم کرنا چاہئے کیونکہ نبی اکرم ﷺ ایسا ہی کیا کرتے تھے، حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم حضور اکرم ﷺ کے ساتھ جمعہ کی نماز زوال آفتاب کے بعد پڑھتے تھے اور پھر نماز پڑھ کر سایہ تلاش کرتے ہوئے لوٹتے تھے ۔ (بخاری ومسلم) اسی طرح حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ جمعہ پڑھا کرتے تھے جس وقت سورج ڈھلتا۔ (صحیح بخاری) اس میں کوئی اختلاف بھی نہیں ہے کیونکہ تمام علماء کا اتفاق ہے کہ زوال آفتاب کے بعد یقیناًجمعہ کا وقت ہے لیکن زوال آفتاب سے قبل کے متعلق اختلاف ہے۔
اب جبکہ یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہوگئی ہے کہ نماز جمعہ زوال آفتاب کے بعد ہی ہونی چاہئے تاکہ نماز جیسی اہم عبادت کی ادائیگی میں کوئی شک وشبہ نہ رہے، تو بعض مساجد میں خطبہ کی اذان کا زوال آفتاب سے قبل دینا کیسے صحیح ہوسکتا ہے؟ بلکہ اگر پہلی اذان بھی زوال آفتاب کے بعد دی جائے تواس میں زیادہ احتیاط ہے نیز دیگر تمام ائمہ کی رائے کا احترام بھی ہے اور کسی طرح کا کوئی نقصان بھی نہیں ہے بلکہ زوال آفتاب سے ڈیڑھ گھنٹہ قبل اذان دینے سے اذان کامقصد ہی فوت ہوجاتا ہے۔ زوا ل آفتاب کے بعد پہلی اذان دینے پر نمازیوں کی تعداد میں اضافہ ہی ہوسکتا ہے۔ حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے صرف یہی تو کہا ہے کہ اگر نماز جمعہ زوال آفتاب سے قبل ادا کرلی گئی تو اس کے اعادہ کی ضرورت نہیں ہے لیکن انہوں نے یہ تعلیم وترغیب نہیں دی کہ ہم زوال آفتاب سے قبل اذان اوّل کا اہتمام کرلیں۔ الحمد للہ ہمارے علماء کی جد وجہد سے حرمین میں جمعہ کی پہلی اذان زوال آفتاب کے بعد ہوتی ہے، دعا کرتے ہیں کہ یہ سلسلہ عام مساجد میں بھی شروع ہوجائے تاکہ پہلی اذان بھی ایسے وقت میں دی جائے کہ اس میں دنیا کے کسی عالم کا کوئی اختلاف نہ ہو۔

محمد نجیب قاسمی سنبھلی (www.najeebqasmi.com)

فتنوں کے دور میں عورتوں کا عید کی نماز کے لے عیدگاہ جانا مناسب نہیں

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيْم

اَلْحَمْدُ لِلّهِ رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلامُ عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔

فتنوں کے دور میں عورتوں کا عید کی نماز کے لئے عید گاہ جانا مناسب نہیں

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ حضور اکرم ﷺ کے زمانہ میں خواتین نماز عید کے لئے عید گاہ جایا کرتی تھیں جیسا کہ احادیث میں مذکور ہے۔ لیکن بعض حقائق کو ہمیں نظر انداز نہیں کرنا چاہئے۔ مثلاً مدینہ منورہ کی ہجرت کے دوسرے سال ماہ رمضان کے روزے فرض ہوئے۔ یعنی ۲ ہجری سے نماز عید کی ابتداء ہوئی۔ جبکہ پردہ کا حکم ۵ یا ۶ ہجری میں نازل ہوا۔ یعنی تقریباً ابتدائی پانچ سال کی نماز عید میں خواتین کے جانے میں کوئی مسئلہ ہی نہیں تھا کیونکہ پردہ کا حکم ہی نازل نہیں ہوا تھا۔ نیز شرعی احکام بتدریج نازل ہورہے تھے اور کسی فتنہ کی کوئی توقع بھی نہیں تھی، لہٰذا ضرورت تھی کہ خواتین بھی نبی اکرمﷺ کی صحبت سے براہ راست مستفیض ہوکر دینی رہنمائی حاصل کریں۔ ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا، جن کے ذریعہ شریعت اسلامیہ کا ایک قابل قدر حصہ امت مسلمہ کو پہنچا ہے، آپ ﷺ کی وفات کے بعد تقریباً ۴۸ سال حیات رہیں۔ صرف ۴۸ سال کے دور میں خواتین کے تعلق سے معاشرہ میں جو تبدیلیاں انہوں نے اپنی حیات میں دیکھیں تو فرمایا کہ خواتین نے جو تزین کا طریقہ اختیار کرلیا ہے اور فتنہ کے مواقع بڑھ گئے ہیں، اگر حضور اکرم ﷺ حیات ہوتے تو آپ ﷺ خواتین کو مسجدوں میں جانے سے روک دیتے، جیساکہ بنواسرائیل کی عورتوں کا روک دیا گیاتھا۔ (مسلم) نیز حضور اکرم ﷺ کے زمانہ میں یقیناًخواتین کو مسجدوں میں جانے کی اجازت تھی مگر آپ ﷺ مسجد نبوی میں نماز پڑھنے کے بجائے وقتاً فوقتاً ان کو گھروں میں نماز پڑھنے کی ترغیب دیتے تھے۔ چنانچہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ خواتین کے گھر (نماز کے واسطہ)ان کے حق میں زیادہ بہتر ہیں۔ یعنی مسجد میں نماز پڑھنے کے مقابلہ میں ان کے لئے گھر میں نماز پڑھنا زیادہ ثواب کا باعث ہے۔ (ابوداود) اسی طرح حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ عورت کی نماز اپنے گھر کے اندر گھر کے صحن کی نماز سے بہتر ہے۔ اور اس کی نماز گھر کی چھوٹی کوٹھری میں گھر کی نماز سے بہتر ہے۔ (ابوداود) یعنی عورت جس قدر پوشیدہ ہوکر نماز ادا کرے گی اسی اعتبار سے زیادہ مستحق ثواب ہوگی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنی زندگی میں یہ محسوس کرلیا تھا کہ خواتین کے لئے بہتر یہی ہے کہ وہ اپنے گھروں میں نماز ادا فرمائیں، اب ۱۴۰۰ سال کے بعد جبکہ فتنوں کا دور ہے، ہر طرف عریانیت، بے حیائی اور بے پردگی عام ہوچکی ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے زمانہ کی خواتین ہمارے زمانہ کی خواتین کے مقابلہ میں ہزار درجہ علم وتقوی میں بڑھی ہوئی تھیں، لیکن اس کے باوجود حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان کے مسجدوں میں جانے سے اپنے تحفظات ذکر کئے۔ احتیاط کا تقاضا بھی یہی ہے کہ خواتین نماز عید کے لئے عید گاہ نہ جائیں۔ جن فقہاء وعلماء نے خواتین کو نماز عید کے لئے جانے کی اجازت دی ہے، انہوں نے بھی نبی اکرم ﷺ کی تعلیمات کے مطابق چند شرائط (مثلاً پردہ کا مکمل اہتمام، خوشبو کے استعمال سے اجتناب، زیب وزینت کے بغیر جانا، کسی طرح کے فتنہ کا امکان نہ ہونا اور مردو عورت کا اختلاط نہ ہونا)کو ضروری قرار دیا ہے۔ اب آپ خود ہی فیصلہ کریں کہ ہمارے موجودہ معاشرہ میں خواتین کا نماز عید کے لئے جانے میں کیا یہ شرائط پورے ہوسکتے ہیں؟ جواب یقیناًمنفی میں ہی ہوگا۔ ایک طرف خواتین کا نماز عید کے لئے جانے کی زیادہ سے زیادہ گنجائش نظر آتی ہے جبکہ دوسری طرف متعدد منکرات یقینی طور پر موجود ہیں، لہٰذا اسی میں خیر وبھلائی ہے کہ فتنوں کے اس دور میں خواتین نماز عیدکے لئے عیدگاہ نہ جائیں۔
اگر ہم صرف پچیس تیس سال پہلے کی بات کریں تو ہندوستان میں بھی خواتین بغیر پردہ کے باہر نہیں نکلتی تھیں، جبکہ پہلی اور دوسری صدی ہجری میں ہی خواتین کے تعلق سے فقہاء وعلماء کی ایک جماعت کا یہ موقف رہا ہے کہ خواتین کا مسجد میں نماز کی ادائیگی کے لئے جانا مناسب نہیں ہے۔ مشہور محدث حضرت امام ترمذی ؒ نے اپنی حدیث کی مشہور ومعروف کتاب (ترمذی) میں اس موضوع سے متعلق احادیث ذکر کرنے کے بعد تحریر کیا ہے کہ شیخ سفیان ثوری ؒ (۹۷ھ۔۱۶۱ھ) اور شیخ عبداللہ بن مبارک ؒ (۱۱۸ھ۔۱۸۱ھ) کا موقف ہے کہ خواتین کا نماز عید کے لئے جانا مکروہ ہے۔ یعنی ابتداء اسلام سے ہی یہ موقف سامنے آگیا تھا کہ خواتین کے لئے نماز عید کے لئے جانا مناسب نہیں ہے۔ حضرت امام ترمذی ؒ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا والی حدیث بھی ذکر فرمائی۔ علماء احناف کا بھی یہی موقف ہے کہ خواتین کا نماز عید کے لئے جانا مکروہ ہے۔ ہندو پاک کے جمہور علماء، جو ۸۰ ہجری میں پیدا ہوئے مشہور محدث وفقیہ حضرت امام ابوحنیفہ ؒ کی قرآن وحدیث پر مبنی رائے کو ترجیح دیتے ہیں، کی بھی یہی رائے ہے کہ خواتین نماز عید کے لئے نہ جائیں۔ غرضیکہ ابتداء اسلام سے ہی مسئلہ مذکور میں اختلاف ہے اور محدثین وفقہاء وعلماء کی ایک بڑی جماعت کی ہمیشہ یہ رائے رہی ہے کہ خواتین کو نماز عید کے لئے نہ جانے میں خیروبھلائی وبہتری ہے، اب جبکہ فتنوں کا دور ہے تو ہمیں ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا والا موقف ہی اختیار کرنا چاہئے۔ محمد نجیب قاسمی سنبھلی
مذکورہ مضمون پر ایک صاحب کے اعتراض کا جواب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،،، آپ تو اپنے اعتراضات اس طرح تھوپتے ہیں کہ گویا آپ کو دین اسلام کا ٹھیکیدار بنادیا گیا ہے اور میں صرف اور صرف آپ جیسے حضرات کے لئے اپنی زندگی وقف کئے ہوئے بیٹھا ہوں۔ بات سمجھ میں آتی ہے تو ٹھیک ہے ورنہ جہاں سے آپ مطمئن ہوسکتے ہیں رجوع کریں۔ قرآن وحدیث کی روشنی میں جو بات صحیح سمجھتا ہوں تحریر کرتا ہوں خواہ آپ جیسے حضرات تسلیم کریں یا نہ کریں۔ مسلم خواتین کی عام برائیوں کو کسی شخص یا مکتب فکر پر تھوپنا ایسا ہی ہے جیسا کہ بعض انسانوں کا دوسرے انسانوں پر ظلم وزیادتی کرنے کی بنا ء پر پوری انسانیت کو ہی ذمہ دار ٹھہرکرسب کو سولی پر لٹکادیا جائے۔
موضوع بحث مسئلہ میں صرف ایک بات عرض ہے کہ جب حضور اکرم ﷺ نے خواتین کو عید گاہ میں نماز پڑھنے کی عام اجازت دے رکھی تھی اور آپ جیسے حضرات کے نقطۂ نظر میں خواتین کا عید گاہ جائے بغیر خواتین کی اصلاح ممکن ہی نہیں ہے تو ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے خلفاء راشدین کے زمانہ میں صحابہ کرام کی موجودگی میں یہ کیوں فرمایا کہ اگر حضور اکرم ﷺ اس وقت حیات ہوتے تو آپ ﷺ خواتین کو مسجدوں میں جانے سے روک دیتے جیساکہ بنواسرائیل کی عورتوں کو روک دیا گیاتھا۔ حضر ت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا گیا کہ کیا بنو اسرائیل کی عورتوں کو مسجدوں سے روک دیا گیا تھا؟ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا جی ہاں، بنو اسرائیل کی عورتوں کو مسجدوں سے روک دیا گیا تھا۔ ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا یہ فرمان خلفاء راشدین کے زمانہ میں صحابہ کرام کی موجودگی میں سامنے آیا اور جمہور محدثین حتیٰ کہ حضرت امام بخاری ؒ اور حضرت امام مسلم ؒ نے اپنی کتابوں (صحیح بخاری وصحیح مسلم) میں ذکر فرمایا ہے۔ غرضیکہ حدیث کی تقریباً ہر مشہور ومعروف کتاب میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا یہ قول مذکور ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے اس فرمان اور دیگر احادیث نبویہ کی روشنی میں، نیز خواتین میں آئیں تبدیلیوں کے پیش نظر پہلی صدی ہجری کے فقہاء وعلماء ومحدثین ومفسرین کی ایک جماعت نے باقاعدہ یہ فتویٰ جاری کیا کہ عورتوں کا نماز عید کے لئے عیدگاہ جانا صحیح نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ایسا کیوں کہا اور اگر وہ حضور اکرم ﷺ کی منشا کے خلاف تھا تو کسی صحابی یا تابعی نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر کوئی تنقید کیوں نہیں کی۔ دنیا کی کسی بھی کتاب میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے اس فرمان پر کوئی تردید کسی بھی صحابی یا تابعی سے موجود نہیں ہے۔ حضرت امام ترمذی ؒ نے اپنی مشہور ومعروف حدیث کی کتاب ترمذی میں پہلی صدی ہجری کے فقہاء ومحدثین کا یہ قول ذکر فرمایا کہ عورتوں کا نماز عید کے لئے عیدگاہ جانا مکروہ ہے اور ان کی اس رائے پر کوئی تردید بھی نہیں کی بلکہ پہلی صدی ہجری کے فقہاء ومحدثین کے اقوال کو ذکر کرکے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا قول بھی ذکر فرمایا، جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا موقف واضح تھا کہ اب خواتین عید گاہ نہ جائیں، اسی لئے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے زندگی میں ایک مرتبہ بھی عورتوں کے نماز عید کے لئے عید گاہ جانے کی کوئی ترغیب مذکور نہیں ہے۔
غرضیکہ آپ مجھ سے جواب طلب نہ کریں بلکہ قیامت تک آنے والے مسلمانوں کی ماں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور ان تابعین اور تبع تابعین سے جواب طلب کریں جنہوں نے حضور اکرم ﷺ کی وفات کے چند سالوں کے بعد ہی صحابہ کرام کی موجودگی میں خواتین کو عید گاہ جانے کی ترغیب دینے کے بجائے اس بات پر زور دیا کہ خواتین نماز عید کے لئے عید گاہ نہ جائیں ۔نیز ان تمام محدثین سے سوال کریں کہ انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے قول کو اپنی حدیث کی مشہور ومعروف کتابوں میں کیوں ذکر فرمایا، اور اگر ذکر کیا تو اس پر تردید کیوں نہیں کی۔ نیز حضرت امام ترمذی ؒ نے پہلی صدی ہجری کے بعض فقہاء ومحدثین کے قول کو اپنی حدیث کی مشہور کتاب ترمذی میں ذکر کرکے آپ حضرات کی طرح ان پر فتوی کیوں نہیں لگایا۔

محمد نجیب سنبھلی قاسمی

جمعہ کے دن عید ہونے پر نماز جمعہ ادا کی جائے گی

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيْم

اَلْحَمْدُ لِلّهِ رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلامُ عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔

جمعہ کے دن عید ہونے پر نماز جمعہ بھی ادا کی جائے

بعض حضرات مسائل سے پوری طرح واقفیت کے بغیر غلط معلومات لوگوں کو فراہم کرتے ہیں، جن سے عام مسلمان صرف خلفشاری کا شکار ہوتے ہیں، مثلاً حضور اکرم ﷺ کے اصل عمل کے برخلاف آپ ﷺکی طرف سے ملی اجازت کو بعض حضرات اس طرح بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺ کے عمل کو ذکر کئے بغیر کہا جاتا ہے کہ اگر جمعہ کے دن عید ہوجائے تو جمعہ کی نماز کے بجائے ظہر کی نماز ادا کی جائے۔ حالانکہ مسئلہ صرف اتنا ہے کہ جو حضرات دور دراز رعلاقوں سے نماز عید پڑھنے کے لئے آتے ہیں تو ان کے لئے نبی اکرم ﷺ نے اجازت دی ہے کہ وہ نماز عید سے فارغ ہوکر اگر اپنے گھر جانا چاہیں تو چلے جائیں پھر وہ اپنے گھروں میں ظہر کے وقت میں نماز ظہر ادا کرلیں۔ لیکن جو حضرات نماز جمعہ میں حاضر ہوسکتے ہیں وہ نماز جمعہ ہی ادا کریں چنانچہ حضور اکرم ﷺ نے جمعہ کے دن عید ہونے پر عید کی نماز کے بعد نماز ظہر کا وقت ہونے پر جمعہ کی نماز ہی پڑھائی اور صحابۂ کرام نے جمعہ ہی کی نماز پڑھی۔ حضور اکرم ﷺ کے عمل کے مطابق امت مسلمہ ۱۴۰۰ سال سے جمعہ کے دن عید ہونے پر دونوں نمازیں یعنی عید اور جمعہ جماعت کے ساتھ پڑھتی آرہی ہے۔ لہٰذا ہمیں حضور اکرم ﷺ کے اصل عمل کی ہی دوسروں کو تعلیم دینی چاہئے اور وہ یہ ہے کہ جمعہ کے دن عید ہونے پر عید کی نماز کے بعد ظہر کے وقت میں جمعہ کی نماز اداکریں اگرچہ دور دراز علاقوں سے آنے والے لوگ اپنے گھروں میں جاکر ظہر کی نماز ادا کرسکتے ہیں۔ ہندوپاک کے جمہور علماء کا بھی یہی موقف ہے۔ سعودی عرب کے علماء نے بھی وضاحت کے ساتھ تحریرکیا ہے کہ جن مساجد میں نماز جمعہ ادا کی جاتی ہے وہاں جمعہ کے دن عید ہونے پر ظہر نہیں بلکہ جمعہ کی نماز ہی ادا کی جائے اور جن مساجد میں نماز جمعہ ادا نہیں ہوتی ہے وہاں نماز ظہر کی جماعت کا اہتمام نہ کیا جائے۔ مسجد حرام اور مسجد نبوی میں بھی جمعہ کے دن عید ہونے پر عید اور جمعہ دونوں نمازیں جماعت کے ساتھ ادا کی جاتی ہیں۔
ہماری طرف سے عید الفطر کی مبارک باد قبول فرمائیے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے نیک اعمال کو قبول فرمائے۔ آمین۔

محمد نجیب قاسمی سنبھلی (www.najeebqasmi.com)

نمازِ وتر – اہمیت، تعداد رکعت اور پڑھنے کا طریقہ
بسم الله الرحمن الرحيم
اَلْحَمْدُ لِله رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلام عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔
نمازِ وتر – اہمیت، تعداد رکعت اور پڑھنے کا طریقہ
وتر کے معنی طاق (Odd Number)کے ہیں۔ احادیث نبویہ کی روشنی میں امت مسلمہ متفق ہے کہ ہمیں نمازِ وتر کی خاص پابندی کرنی چاہئے کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سفروحضر ہمیشہ نمازِ وتر کا اہتمام فرماتے تھے، نیز نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازِ وتر پڑھنے کی بہت زیادہ تاکید فرمائی ہے حتی کہ فرمایا کہ اگر کوئی شخص وقت پر وتر نہ پڑھ سکے تو وہ بعد میں اس کی قضا کرے۔۔۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت مسلمہ کو وتر کی ادائیگی کاحکم ( امر) متعدد مرتبہ دیا ہے، عربی زبان میں امر کا صیغہ عموماً وجوب کے لئے ہوا کرتا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے نمازِ وتر کا زندگی میں ایک مرتبہ بھی چھوڑنا حتی کہ حج کے موقع پر مزدلفہ میں بھی ثابت نہیں ہے جیساکہ سعودی عرب کے سابق مفتی عام شیخ عبد العزیز بن باز ؒ نے ایک سوال کے جواب میں فرمایا ہے جو انٹرنیٹ کے اس لنک پر پڑھا جاسکتا ہے:
http://www.ahlalhdeeth.com/vb/showthread.php?t=157770 ۔
وتر کو واجب یا سنت مؤکدہ اشد التاکید کا Titleدینے میں زمانۂ قدیم سے فقہاء وعلماء کے درمیان اختلاف چلا آرہا ہے۔ فقہاء وعلماء کی ایک جماعت نے سنت مؤکدہ اشد التاکید کہا ہے جبکہ فقہاء وعلماء کی دوسری جماعت مثلاً شیخ نعمان بن ثابت یعنی امام ابوحنیفہؒ ( ۸۰ھ ۔۱۵۰ھ ) نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال وافعال کی روشنی میں واجب قرار دیا ہے جس کا درجہ فرض سے یقیناًکم ہے۔ جیساکہ بعض علماء نے تحےۃ المسجد کی دو رکعت کو واجب قرار دیا ہے جس کا درجہ فرض سے یقیناًکم ہے، اگرچہ باتفاق فقہاء وعلماء تحيۃ المسجد کی کوئی قضا نہیں ہے۔ جن فقہاء وعلماء نے سنت مؤکدہ اشد التاکید کہا ہے انہوں نے بھی احادیث شریفہ کی روشنی میں یہی فرمایا ہے کہ نماز وتر کا ہمیشہ اہتمام کرنا چاہئے اور وقت پر ادا نہ کرنے پر اس کی قضا کرنی چاہئے۔ شیخ امام احمد بن حنبل ؒ (۱۶۴ھ ۔ ۲۴۱ھ)نے تو یہاں تک فرمایا ہے کہ جس نے جان بوجھ کر نماز وتر کو چھوڑا، وہ برا شخص ہے اور اس کی شہادت قبول نہیں کرنی چاہئے۔ (فتاویٰ علامہ ابن تیمیہؒ ۲۳/۱۲۷، ۲۵۳) علامہ ابن تیمیہ ؒ نے بھی نمازِ وتر چھوڑنے والے کی شہادت قبول نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ غرضیکہ عملی اعتبار سے امتِ مسلمہ متفق ہے کہ نمازِ وتر کی ہمیشہ پابندی کرنی چاہئے اور وقت پر ادا نہ کرنے پر اس کی قضا بھی کرنی چاہئے خواہ اس کو جو بھی Titleدیا جائے۔
نمازِ وتر کی اہمیت وتاکید نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کی روشنی میں:
حضرت ابو سعید خدری ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : صبح ہونے سے قبل نماز وتر پڑھو۔ (مسلم حدیث نمبر ۷۵۴، ۱۲۵۳ ترمذی۔ حدیث نمبر ۴۳۰)
حضرت علی ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اے مسلمانو! وتر پڑھو، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ بھی وتر ہے اور وتر کو پسند کرتا ہے۔ (ابی داؤد۔ باب استحباب الوتر ۱۴۱۶، نسائی۔باب الامر بالوتر ۱۶۷۵، ابن ماجہ۔ باب ماجاء فی الوتر ۱۱۶۹، ترمذی۔ باب ما جاء ان الوتر لیس بحتم ۴۵۳)
حضرت خارجہ بن حذافہؓ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ نے تمہیں ایک نماز عطا فرمائی ہے، وہ تمہارے لئے سرخ اونٹوں سے بھی بہتر ہے،اور وہ وتر کی نماز ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ نماز تمہارے لئے نماز عشا کے بعد سے صبح ہونے تک مقرر کی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ (ترمذی۔ باب ماجاء فی الوتر ۴۵۲، ابن ماجہ۔ باب ماجاء فی الوتر ۱۱۶۸، ابی داؤد۔ باب استحباب الوتر ۱۴۱۸) محدثین ؒ نے تحریر کیا ہے کہ سرخ اونٹوں سے بہتر ہونے کا مطلب یہ ہے کہ نمازِ وتر دنیا وما فیہا سے بہتر ہے کیونکہ اُس زمانہ میں سرخ اونٹ سب سے زیادہ قیمتی چیز تھی۔
حضرت ابو سعید خدری ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جو شخص وتر سے سوتا رہ جائے یا بھول جائے تو جب یاد آئے (یا وہ جاگے) تو اسی وقت پڑھ لے۔ (ابی داؤد۔ باب فی الدعاء بعد الوتر ۱۴۳۱، ترمذی۔ باب ما جاء فی الرجل ینام عن الوتر او ینساہ ۴۶۵، ابن ماجہ۔ باب ماجاء فی من نام عن الوتر ۱۱۸۸ )
حضرت بریدہ اسلمیؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: نماز وتر حق ہے، جو وتر ادا نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں۔ نماز وتر حق ہے، جو وتر ادا نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں۔ نماز وتر حق ہے، جو وتر ادا نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں۔۔۔۔۔ (سنن ابی داؤد باب فی من لم یوتر ۱۴۱۹) بعض روایت میں یہ حدیث الوتر واجب کے لفظ سے مروی ہے۔
جن حضرات نے وتر کو واجب قرار نہیں دیا ہے، حسب معمول انہوں نے اس حدیث کو ضعیف قرار دینے کی کوشش کی ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ بعض محدثینؒ نے اِس حدیث کی سند میں آئے ایک راوی (ابو منیب عبد اللہ بن عبد اللہ العتکیؒ ) کو ضعیف قرار دیا ہے ،جبکہ محدثینؒ کی دوسری جماعت مثلاً امام یحیے بن معینؒ (۱۵۸ھ ۲۳۳ھ) انہیں ثقہ کہتے ہیں، امام حاکم ؒ نے اِس حدیث کو صحیح علی شرط الشیخین قرار دیا ہے۔ امام داؤدؒ نے اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد اس پر خاموشی اختیار کی ہے جو اُن کے نزدیک حدیث کے صحیح یا کم از کم حسن ہونے کے دلیل ہوتی ہے۔ (درس ترمذی، شیخ محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم)

نمازِ وتر کا وقت:
نمازِ وتر کا وقت عشا کی نماز کے بعد سے صبح ہونے تک رہتا ہے، جیساکہ حدیث نمبر (۱ و ۳) میں مذکور ہے۔ بعض علماء نے نماز فجر کی ادائیگی تک نماز وتر کا وقت تحریر کیا ہے، مگر جمہور علماء کے نزدیک صبح ہونے کے بعد وتر ادا نہ کئے جائیں بلکہ طلوع آفتاب کے بعد نمازِ وتر کی قضا کی جائے، کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال سے معلوم ہوتا ہے کہ صبح ہونے کے بعد سے طلوع آفتاب تک صرف دو رکعت سنت مؤکدہ اور دو رکعت فرض ادا کی جائیں۔ جیساکہ جلیل القدر تابعی شیخ سعید بن المسیب ؒ کا فتویٰ ہے جو امام بیہقی نے اپنی کتاب “سنن البیہقی الکبریٰ حدیث ۴۲۳۴باب من لم یصل بعد الفجر الا رکعتی الفجر ثم بادر بالفرض” میں صحیح سند کے ساتھ نقل کیا ہے کہ شیخ سعید بن المسیب ؒ نے ایک آدمی کو دیکھا کہ وہ صبح ہونے کے بعد دو رکعت سے زیادہ نماز پڑھتا ہے اور اِس نماز میں خوب رکوع وسجدے کرتا ہے تو شیخ سعید بن المسیب ؒ نے اسے اِس کام سے منع کیا۔ اس شخص نے کہا کہ کیا اللہ مجھے نماز پر عذاب دے گا؟ تو شیخ سعید بن المسیب ؒ نے جواب دیا : نہیں، لیکن تمہیں سنت کی خلاف ورزی پر عذاب دے گا۔۔
شیخ عبد العزیز بن بازؒ کا فتویٰ بھی یہی ہے کہ جو شخص صبح ہونے تک وتر نہ پڑھ سکے تو وہ طلوع آفتاب کے بعد پڑھے۔ (مجموع فتاویٰ ابن باز ۱۱/۳۰۰) جو انٹرنیٹ کے اس لنک پر پڑھا جاسکتا ہے: http://islamqa.info/ar/ref/65692۔
نماز وتر کے لئے افضل وقت:
رات کے آخری حصہ میں نماز تہجد پڑھ کر نمازِ وتر کی ادائیگی افضل ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا مستقل معمول بھی یہی تھا۔ البتہ وہ حضرات جو رات کے آخری حصہ میں نماز تہجد اور نماز وتر کا اہتمام نہیں کرسکتے ہیں تو وہ سونے سے قبل ہی وتر ادا کرلیں۔
حضرت جابرؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس کو خوف ہے کہ وہ آخری رات میں اٹھ کر نماز نہیں پڑھ سکتاہے تو وہ رات کے شروع حصہ میں ہی وتر ادا کرلے۔ البتہ جس کو رغبت ہے کہ وہ رات کے آخری حصہ میں نماز وتر ادا کرے تواسے ایسا ہی کرنا چاہئے کیونکہ رات کے آخری حصہ میں ادا کی گئی نماز کے وقت فرشتے حاضر رہتے ہیں اور یہی افضل ہے۔ (بخاری ومسلم)
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ میرے خلیل نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے تین باتوں کی وصیت کی ہے۔۔۔۔جن میں سے ایک ۔۔۔ سونے سے قبل وتر کی ادائیگی ہے۔ میں انہیں مرتے دم تک نہیں چھوڑوں گا۔ (بخاری ومسلم وترمذی ونسائی وابوداؤد ومسند احمد)
وتر چھوٹ جائیں تو قضا پڑھیں:
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال وافعال کی روشنی میں تمام فقہاء وعلماء نمازِ وتر کی قضا کی مشروعیت پر تو متفق ہیں( جیساکہ سعودی عرب کے بڑے علماء کی کونسل “اللجنہ الدائمہ للبحوث العلمیہ والافتاء” نے فتویٰ نمبر ۱۱۲۷۱میں تحریر کیا ہے)، لیکن قضا کے وقت میں ان کی آراء مختلف ہیں، اگرچہ تقریباً تمام ہی فقہاء وعلماء طلوع آفتاب سے زوال آفتاب تک کے وقت کو نماز وتر کی قضا کا بہترین وقت قرار دیتے ہیں۔
حضرت ابو سعید خدری ؓ کی حدیث (نمبر۴) گزرچکی ہے۔ سنن بیہقی میں یہ حدیث قدرے وضاحت کے ساتھ وارد ہوئی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جو شخص وتر پڑھے بغیر سوگیا وہ صبح کو پڑھے اور جو بھول گیا وہ یاد آنے پر پڑھے۔ (سنن کبری للبیہقی ۔ ابواب الوتر)
امام مالک ؒ فرماتے ہیں کہ انہیں یہ بات پہنچی ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عباسؓ ، حضرت عبادہ بن صامتؓ وغیرہ صحابۂ کرام نے فجر کے بعد وتر پڑھے (یعنی بروقت نہ پڑھ سکے تو بعد میں بطور قضا پڑھے) (مؤطا مالک۔ الوتر بعد الفجر)
وضاحت: جوحضرات رات کے آخری حصہ میں نمازِ وترکا اہتمام کرتے ہیں تو کبھی کبھی بشری تقاضے کی وجہ سے وہ نمازِ وتر وقت پر ادا نہیں کرپاتے ہیں۔
حضرت عمر فاروق ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: جس شخص کا رات کا کوئی معمول سونے کی وجہ سے رہ جائے اور وہ فجر کے بعد ظہر سے قبل ادا کرلے تو اس کے لئے ایسا ہی ہے جیساکہ اس نے اس کو معمول کے مطابق ادا کیا۔ (بخاری، مسلم ۷۴۷، ترمذی۔ باب ما ذکر فیمن فاتہ حزبہ من اللیل فقضاہ بالنہار، نسائی۔ باب متی یقضی من نام عن حزبہ من اللیل، ابن ماجہ۔ باب ما جاء فیمن نام عن حزبہ من اللیل)
وتر کی تعداد رکعت:
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے متعدد طریقوں سے یہ وتر ادا کئے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے یہ طریقے آج تک امت مسلمہ میں زندہ رکھے ہیں، مندرجہ ذیل دو طریقے امت مسلمہ میں زیادہ رائج ہیں:
وترکی ۳ رکعت اس طرح ادا کی جائیں کہ ۲ رکعت پر سلام پھیر دیا جائے اور پھر ایک رکعت ادا کی جائے، یعنی ۳ رکعت دو تشہد اور ۲ سلام کے ساتھ۔
نوٹ: کچھ حضرات نے سہولت پر عمل کرنے کاکچھ زیادہ ہی مزاج بنالیا ہے چنانچہ وہ صرف ایک ہی رکعت وتر ادا کرلیتے ہیں، صرف ایک رکعت وتر
ادا کرنے سے بچنا چاہئے کیونکہ فقہاء وعلماء کی ایک جماعت کی رائے میں ایسا کرنا صحیح نہیں ہے۔
ایک سلام اور دو قاعدوں کے ساتھ نمازِ مغرب کی طرح وتر کی تین رکعت ادا کی جائیں۔
اِن مذکورہ دونوں شکلوں میں وتر کی ادائیگی صحیح ہے، البتہفقہاء وعلماء کرام نے اپنے اپنے نقطۂ نظر سے وتر کی کسی ایک شکل کو راجح قرار دیا ہے، مثلاً سعودی عرب کے علماء نے پہلی صورت کو راجح قرار دیا ہے ، جبکہ دیگر فقہاء وعلماء مثلاً شیخ نعمان بن ثابت یعنی امام ابوحنیفہؒ ( ۸۰ھ ۔۱۵۰ھ ) نے دوسری شکل کو مندرجہ ذیل احادیث شریفہ کی روشنی میں راجح قرار دیا ہے:
وتر کی تین رکعت :
حضرت عائشہؓ نے فرمایاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان اور غیر رمضان میں ۱۱ رکعت سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہلے ۴ رکعت پڑھتے تھے، ان کے حسن اور لمبائی کے بارے میں کچھ نہ پوچھو۔ پھر آپ ۴ رکعت پڑھتے تھے، ان کے حسن اور لمبائی کے بارے میں کچھ نہ پوچھو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم تین رکعت وتر پڑھتے تھے۔ (بخاری ومسلم وترمذی وابوداؤد و ابن ماجہ ونسائی) یہ حدیث حدیث کی ہر مشہور کتاب میں موجود ہے ،اس حدیث میں تین رکعت وتر کا ذکر ہے۔
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وتر کی پہلی رکعت میں سورۂ فاتحہ اور “سبح اسم ربک الاعلیٰ”، دوسری رکعت میں “قل یا ایہا الکافرون” اور تیسری رکعت میں “قل ہو اللّٰہ احد” پڑھتے تھے ۔ (ترمذی ۔۔۔ باب ما یقرء فی الوتر۔۔۔۔ وقال الحاکم ؒ صحیحٌ علی شرط الشیخین)
حضرت عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارکہ یہ تھی کہ وہ رات میں تہجد کی ۸ رکعت پڑھتے، پھر تین وتر پڑھتے اور فجر کی نماز سے پہلے دو رکعتیں پڑھتے تھے۔ (نسائی باب الوتر)
ان احادیث سے معلوم ہوا کہ نماز وتر میں تین رکعت ہیں،نیز تین رکعت وتر کے جواز پر تمام علماء امت کا اجماع ہے، امام ترمذی ؒ فرماتے ہیں کہ جمہور صحابۂ کرام کو بھی تین وتر پسند تھے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اکثر صحابۂ کرام اور بعد میں آنے والے جمہور اہل علم کا پسندیدہ عمل بھی یہی ہے کہ وتر کی پہلی رکعت میں سبح اسم ربک الاعلیٰ، دوسری رکعت میں سورۂ الکافرون اور تیسری رکعت میں سورۂ اخلاص پڑھی جائے ۔ (ترمذی ) ایک رکعت وتر پڑھنے میں علماء امت کا اختلاف ہے بعض کے نزدیک یہ صحیح نہیں ہے، لہذا قوت دلائل کے ساتھ ساتھ احتیاط کا تقاضا بھی یہی ہے کہ وتر میں تین رکعت ہی پڑھی جائیں۔
ایک سلام ودوتشہد کے ساتھ تین رکعت وتر:
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وتر کی دو رکعت پر سلام نہیں پھیرتے تھے۔ (نسائی باب کیف الوتر بثلاث ۱۶۹۸)
حضرت ابی بن کعبؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وتر کی پہلی رکعت میں “سبح اسم ربک الاعلیٰ”، دوسری رکعت میں “قل یا ایہا الکافرون” اور تیسری رکعت میں “قل ہو اللّٰہ احد” پڑھتے تھے اور تیسری رکعت کے اختتام پر سلام پھیرتے تھے۔ (نسائی باب ذکر اختلاف الفاظ الناقلین لخبر ابی بن کعب فی الوتر ۱۷۰۱، ابوداؤد باب ما یقرا فی الوتر ۱۴۲۳، ابن ماجہ باب ما جاء فی ما یقرا فی الوتر ۱۱۷۱)
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم عشا کی نماز کے بعد گھر میں تشریف لاتے تھے، پھر دو رکعت پڑھتے تھے، پھرمزید دو رکعت پہلی دو نوں رکعتوں سے لمبی پڑھتے تھے، پھر تین رکعت وتر پڑھتے تھے اور درمیان میں (سلام کے ذریعہ) فصل نہیں کرتے تھے (یعنی یہ تینوں رکعت ایک ہی سلام سے پڑھتے تھے (مسند احمد ۶/۱۵۶ ، مسند النساء، حدیث السیدہ عائشہؓ ۲۵۷۳۸۔۔۔۔ نیز ملاحظہ ہو زاد المعاد ۱/۳۳۰ فصل فی سیاق صلاتہ صلی اللہ علیہ وسلم باللیل ووترہ)
حضرت عبد اللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : مغرب کی نماز‘ دن کی وتر ہے ، پس رات میں بھی وتر پڑھو۔ (مسند احمد ۲/۳۰، مؤطا مالک ۔۔ باب الامر بالوتر صحیح الجامع الصغیر للالبانی ۲ /۷۱۲ حدیث نمبر ۳۸۳۴)
حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں کہ رات کے وتر میں دن کے وتر یعنی نمازِ مغرب کی طرح تین رکعت ہیں۔ (المعجم الکبیر للطبرانی ۹/۲۸۲ حدیث نمبر ۹۴۱۹ ورجالہ رجال الصحیح، مجمع الزوائد ۲/۵۰۳ باب عدد الوتر حدیث نمبر ۳۴۵۵)
حضرت حسن بصری ؒ فرماتے ہیں کہ صحابی رسول ﷺحضرت ابی بن کعبؓ تین رکعت وتر پڑھتے تھے اور مغرب کی نماز کی طرح تیسری رکعت میں سلام پھیرتے تھے ۔ (مصنف عبد الرزاق ۳ /۲۶ باب کیف التسلیم فی الوتر حدیث نمبر ۴۶۵۹)
حضرت حسن بصری ؒ فرماتے ہیں کہ مسلمانوں کا اجماع ہے کہ وتر کی تین رکعت ہیں اور آخر میں ہی سلام پھیرا جائے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ۲ /۹۰ باب من کان یوتر بثلاث او اکثر حدیث نمبر ۶۸۳۴)

صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت انسؓ نے تین رکعت وتر پڑھی اور صرف آخری رکعت میں سلام پھیرا۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ۲ /۹۱ باب من کان یوتر بثلاث او اکثر حدیث نمبر ۶۸۴۰)
وضاحت: ان تمام احادیث سے معلوم ہوا کہ وتر کی تین رکعت ایک سلام سے ہیں، رہا دوسری رکعت کے بعد قاعدہ کرنے کا ثبوت تو ایک صحیح حدیث بھی ایسی نہیں ملتی جس میں یہ ذکر ہو کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تین رکعت وتر ایک سلام سے پڑھتے تھے اور دوسری رکعت کے بعد قاعدہ کرنے سے منع کرتے تھے۔ اس کے برعکس متعدد ایسی احادیث ملتی ہیں جن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دن رات کی ہر نماز میں ہر دوسری رکعت پر قاعدہ کرنے کا حکم دیا ہے۔ وتر کا اس عموم سے مستثنیٰ ہونا کسی ایک حدیث میں نہیں ملتا، اگر ایسا ہوتا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ضرور بیان فرماتے اور صحابۂ کرام اہتمام سے امت تک پہونچاتے۔
بعض حضرات نے دار قطنی اور بیہقی میں وارد حضرت ابوہریرہؓ کی حدیث کے صرف ایک حصہ (ولا تشبہوا بصلاۃ المغرب) کو ذکر کرکے تحریر کردیا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سلام اور دو تشہد کے ذریعہ نمازِ وتر پڑھنے سے منع فرمایا ہے۔
حدیث کے صرف ایک حصہ کو ذکر کرکے کوئی فیصلہ کرنا ایسا ہی ہوگا جیسے کہ کوئی کہے کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے اور دلیل کے طور پر پیش کرے (ولا تقربوا الصلاۃ۔۔۔ )۔
دار قطنی اور بیہقی میں وارد اس حدیث کے مکمل الفاظ اس طرح ہیں (لَا تُوتِرُوْا بِثَلاثٍ، اَوْتِرُوا بِخَمْسٍ اَوْ سَبْع وَلا تَشَبَّہُوا بِصَلاۃِ الْمَغْرِب) ۔ اگر اس حدیث کا تعلق صرف وتر سے ہے تو اس کے معنی ہوں گے کہ مغرب کی طرح تین وتر نہ پڑھو بلکہ پانچ یا سات پڑھو، جس کا کوئی بھی قائل نہیں ہے۔ یقیناًاس کا دوسرا مفہوم ہے۔ ممکن ہے کہ اس حدیث کا تعلق تہجد کی نماز سے ہو، یعنی جب تم نماز تہجد اور اس کے بعد وتر پڑھنا چاہو تو کم از کم ۵یا ۷رکعت پڑھو۔
اور اگر یہ تسلیم کربھی لیا جائے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازِ وتر میں مغرب سے مشابہت سے منع فرمایا ہے، تو کس بنیاد پر ہم یہ کہیں گے کہ اِس سے مراد یہ ہے کہ دوسری رکعت میں قاعدہ نہ کیا جائے۔ کل قیامت تک بھی کوئی شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات سے دار قطنی اور بیہقی میں وارد اِس حدیث کا یہ مفہوم ثابت نہیں کرسکتاہے، ثابت نہیں کرسکتاہے۔ اس کے یہ مطلب بھی تو ہوسکتے ہیں:
نماز وتر کو مغرب کی طرح نہ پڑھو یعنی وتر کی تیسری رکعت میں بھی سورۂ فاتحہ کے بعد کوئی سورت ملاؤ تاکہ مغرب اور وتر میں فرق ہوجائے۔
نماز وتر کو مغرب کی طرح نہ پڑھو یعنی وتر میں دعائے قنوت بھی پڑھو تاکہ مغرب اور وتر میں فرق ہوجائے۔
غرضیکہ اِس حدیث کی بنیاد پر یہ کہنا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے وتر کی تین رکعت ایک سلام سے پڑھنے پر وتر کی دوسری رکعت میں قاعدہ کرنے سے منع فرمایا ہے، صحیح نہیں ہے، صحیح نہیں ہے،کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات میں حدیث کا یہ مفہوم مذکور نہیں ہے۔ ہاں کسی عالم یا فقیہ کی اپنی رائے ہوسکتی ہے جو غلطی کا احتمال رکھتی ہے، جس پر عمل کرنا ہمارے لئے ضروری نہیں ہے۔ فقہاء وعلماء کی دوسری جماعت مثلاً امام ابوحنیفہؒ کی رائے یہ ہے کہ اِس حدیث سے یہ مفہوم لینا صحیح نہیں ہے۔ ۔۔۔ لہذا ایسے مختلف فیہ مسائل میں وسعت سے کام لینا چاہئے، نہ کہ امام ابوحنیفہ ؒ کی رائے کو قرآن وسنت کے خلاف قرار دی جائے۔
اس موقع کو غنیمت سمجھ کر یہ بات واضح کرنا اپنی ذمہ داری سمجھتا ہوں کہ اِن دنوں بعض حضرات امام ابوحنیفہ ؒ ( جنہیں تقریباً سات صحابۂ کرام کے دیدار کا شرف حاصل ہے) کی قرآن وسنت کی روشنی میں بعض آراء ( اگر وہ اُن کے علماء کی رائے سے مختلف ہوتی ہے) کو قرآن وسنت کے خلاف بتاتے ہیں اور ایسا تاثر پیش کرتے ہیں کہ جو انہوں نے ۱۴۰۰ سال کے بعد قرآن وسنت کو سمجھا ہے وہی صحیح ہے، صحابۂ کرام اور بڑے بڑے تابعین کی صحبت سے مستفید ہونے والے حضرت امام ابوحنیفہ ؒ نے قرآن وسنت کے خلاف فیصلہ فرمایا ہے اور اُن کی رائے پر اس طرح لعن وطعن شروع کردیتے ہیں کہ معلوم ہوتا ہے کہ امام ابوحنیفہ ؒ نے یہ رائے گیتا، رامائن اور بائیبل سے اخذ کی ہے، نعوذ باللہ۔۔۔۔۔ اگر کسی مسئلہ میں امام ابوحنیفہ ؒ کی رائے کی دلیل ترمذی جیسی مستندکتاب میں وارد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول یا عمل پر مشتمل ہوتی ہے،،، تو بخاری ومسلم کی حدیث کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔۔ ایک سلام اور دو تشہد سے وتر کی تین رکعت کو غلط قرار دینے کے لئے صحیحین ہی نہیں بلکہ صحاح ستہ سے بھی باہر نکل کر دار قطنی اور بیہقی کی اُس روایت کو بنیاد بنایا جارہا ہے، جس کے متعدد مفہوم ہوسکتے ہیں۔
ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہوجاتے ہیں بدنام وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا۔۔
دعائے قنوت کا وقت:
دعائے قنوت خواہ رکوع سے قبل یا رکوع کے بعد پڑھی جائے، دونوں شکلوں میں نماز ادا ہوجائے گی، البتہ افضل وقت کے متعلق فقہاء وعلماء کے درمیان اختلاف ہے۔ صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کی رائے یہ ہے کہ دعائے قنوت پورے سال رکوع سے قبل پڑھی جائے۔ (ترمذی) شیخ امام ابوحنیفہؒ ، شیخ امام سفیان ثوری ؒ ، شیخ امام اسحاق ؒ اور شیخ امام ابن مبارک ؒ جیسے جلیل القدر فقہاء نے متعدد احادیث کی بناء پر اسی قول کو اختیار کیا ہے۔ اس کی دلیل میں اختصار کی وجہ سے صرف دو حدیثیں ذکر کررہا ہوں:
حضرت عاصم ؒ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت انس بن مالک ؓ سے قنوت کے متعلق سوال کیا ؟ حضرت انسؓ نے فرمایا : قنوت ثابت ہے۔ میں نے عرض کیا : رکوع سے قبل یا بعد؟ حضرت انسؓ نے فرمایا : رکوع سے قبل۔ میں نے کہا کہ فلاں نے مجھے آپ کی بابت بتایا ہے کہ آپ نے رکوع کے بعد پڑھی ہے؟ حضرت انسؓ نے فرمایا : اس نے جھوٹ کہا ہے۔ رکوع کے بعد تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف ایک ماہ دعاء قنوت پڑھی ہے۔ (بخاری۔ باب القنوت قبل الرکوع او بعدہ)
بخاری شریف کی سب سے زیادہ مشہور شرح لکھنے والے علامہ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں کہ حضرت انسؓ کی تمام روایات کو پیش نظر رکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جب دعا قنوت کسی خاص وجہ سے (دعا وغیرہ کے لئے) پڑھی جائے تو بالاتفاق وہ رکوع کے بعد ہے اور جو قنوت عام حالات میں پڑھی جائے تو حضرت انسؓ سے صحیح طور پر یہی ثابت ہے کہ وہ رکوع سے پہلے ہے۔ (فتح الباری صفحہ ۴۹۱ باب القنوت قبل الرکوع اور بعدہ)
حضرت ابی بن کعبؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وتر میں رکوع سے پہلے قنوت پڑھتے تھے۔ (ابن ماجہ ۔ باب ما جاء فی القنوت قبل الرکوع وبعدہ حدیث نمبر ۱۱۸۲)
دعائے قنوت سے قبل رفع یدین:
حضرت اسودؒ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ سے روایت کرتے ہیں کہ وہ وتر کی آخری رکعت میں قل ہو اللہ احد پڑھتے، پھر دونوں ہاتھوں کو اٹھاتے اور اس کے بعد رکوع سے پہلے دعاء قنوت پڑھتے تھے۔ (جزء رفع الیدین للامام البخاری ؒ ص ۲۸)
دعائے قنوت:
جودعائے قنوت عموماً ہم پڑھتے ہیں (اَللّٰہُمَّ اِنَّا نَسْتَعِےْنُکَ وَنَسْتَغْفِرُکُ وَنُؤمِنُ بِکَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔)، وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔ تفصیلات کے لئے دیکھیں: مصنف ابن ابی شیبہ ۲/۹۵ باب فی قنوت الوتر حدیث نمبر ۶۸۹۳، سنن کبری للبیہقی ۲ /۲۱۱)
خلاصۂ کلام:
فرض نمازوں کے ساتھ ہمیں نماز وتر کا خاص اہتمام کرنا چاہئے جیساکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال وافعال کی روشنی میں ذکر کیا گیا ہے۔ نیز سنن ونوافل کا بھی اہتمام کرنا چاہئے تاکہ اللہ تعالیٰ کا قرب بھی حاصل ہوجائے جیسا کہ صحیح بخاری کی حدیث میں ہے کہ بندہ نوافل کے ذریعہ اللہ تعالیٰ سے قریب ہوتا جاتا ہے۔ نیز اگر خدانخواستہ قیامت کے دن فرض نمازوں میں کچھ کمی نکلے تو سنن ونوافل سے اسکی تکمیل کردی جائے جیساکہ احادیث میں ذکر آتا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو نمازوں کا اہتمام کرنے والا بنائے اور ہماری نمازوں میں خشوع وخضوع پیدا فرمائے تاکہ ہماری نمازیں دنیا میں ہمیں برائیوں سے روکنے کا ذریعہ بنیں اور قیامت کے دن جہنم کی آگ سے بچانے کا ذریعہ بنیں۔
محمد نجیب سنبھلی قاسمی، ریاض
(mnajeebqasmi@gmail.com)

سنن ونوافل

بسم الله الرحمن الرحيم

اَلْحَمْدُ لِله رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلام عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔

سنن ونوافل

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ بندہ نوافل کے ذریعہ میرے قرب میں ترقی کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ میں اس کو اپنا محبوب بنا لیتا ہوں اور جب میں محبوب بنا لیتا ہوں تو میں اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنے، اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھے، اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑے، اس کا پا ؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلے۔ جو وہ مجھ سے مانگتا ہے میں اس کو دیتا ہوں۔ (صحیح البخاری ۔ باب التواضع) ہاتھ پاؤں بن جانے کامطلب یہ ہے کہ اس کا ہر کام اللہ کی رضا اور محبت کے ماتحت ہوتا ہے، اس کا کوئی بھی عمل اللہ کی مرضی کے خلاف نہیں ہوتا۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا: قیامت کے دن آدمی کے اعمال میں سے سب سے پہلے فرض نماز کا حساب لیا جائیگا، اگر نماز درست ہوئی تو وہ کامیاب وکامران ہوگا، اگر نماز درست نہ ہوئی تو وہ ناکام اور خسارہ میں ہوگا اور اگر نماز میں کچھ کمی پائی گئی تو ارشادِ خداوندی ہوگا کہ دیکھو اس بندے کے پاس کچھ نفلیں بھی ہیں جن سے فرضوں کو پورا کردیا جائے، اگر نکل آئیں تو ان سے فرضوں کی تکمیل کردی جائیگی۔ (ترمذی، ابن ماجہ، نسائی، ابو داؤد، مسند احمد)
مذکورہ بالا ودیگر احادیث کی روشنی میں ہر مسلمان کو چاہئے کہ فرض نمازوں کے ساتھ سنن ونوافل کا بھی خاص اہتمام کرے تاکہ اللہ تعالیٰ کا قرب بھی حاصل ہوجائے جیسا کہ مذکورہ بالا حدیث قدسی سے معلوم ہوا کہ بندہ نوافل کے ذریعہ اللہ تعالیٰ سے قریب ہوتا جاتا ہے۔ نیز اگر خدانخواستہ قیامت کے دن فرض نمازوں میں کچھ کمی نکلے تو سنن ونوافل سے اسکی تکمیل کردی جائے جیساکہ کتب حدیث میں وارد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا واضح فرمان ذکر کیا گیا۔
سنن ونوافل کو گھر کے اُس خاص حصہ میں ادا کرنا جو نماز کے لئے مخصوص کیا گیا ہے مسجد میں ادا کرنے سے افضل اور بہتر ہے، البتہ گھر میں اگر سکون واطمینان نہیں ہے یا مسجد سے واپس آکر دنیاوی مشاغل میں گھِر جانے کا اندیشہ ہے تو بہتر ہے کہ مسجد میں ہی سنن ونوافل ادا کرلیں۔ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اے لوگو! اپنے گھروں میں نمازیں پڑھا کرو اس لئے کہ سوائے فرض نمازوں کے باقی نمازیں (یعنی سنتیں اور نوافل) گھر میں ادا کرنا افضل ہے۔ (بخاری ، مسلم) حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب تم فرض نماز مسجد میں ادا کرلو تو کچھ نماز (سنن ونوافل) گھر میں بھی پڑھا کرو، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نمازوں کی بدولت گھر میں خیروبرکت پیدا کرتا ہے۔ (مسلم)
نمازِ تہجد:
تہجد میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا زیادہ تر عمل آٹھ رکعت نفل اور تین رکعت وتر پڑھنے کا تھا، البتہ کبھی کبھی کم یا اس سے زیادہ بھی پڑھتے تھے۔ قرآن کریم میں فرض نماز کے بعدجس نماز کا ذکر تاکید کے ساتھ بار بار کیا گیا ہے وہ تہجد کی نماز ہی ہے جو تمام نوافل میں سب سے افضل نماز ہے۔ ارشاد باری ہے : وہ لوگ راتوں کو اپنے بستروں سے اٹھکر اپنے رب کو عذاب کے ڈر سے اور ثواب کی امید پر پکارتے رہتے ہیں (یعنی نماز، ذکر اور دُعا میں لگے رہتے ہیں) (سورۂ السجدہ ۱۶) یہ انکی صفت اور عمل ہے لیکن جزا اور بدلہ عمل سے بہت زیادہ بڑا ہے کہ ایسے لوگوں کے لئے آنکھوں کی ٹھنڈک کا جو سامان خزانہ غیب میں موجود ہے اسکی کسی شخص کو بھی خبر نہیں۔ یہ اِن کو اُن اعمال کا بدلہ ملے گا جو وہ کیا کرتے تھے۔ (سورۂ السجدہ ۱۷) ۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: رحمن کے (سچے) بندے وہ ہیں جو زمین پر فروتنی (عاجزی) کے ساتھ چلتے ہیں اور جب بے علم لوگ ان سے باتیں کرنے لگتے ہیں تو وہ کہہ دیتے ہیں کہ سلام ہے۔ اور جو اپنے رب کے سامنے سجدے اور قیام کرتے ہوئے راتیں گزار دیتے ہیں۔ (سورۂ الفرقان ۶۴) اس کے بعد سورہ کے اختتام پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: یہی لوگ ہیں جنھیں ان کے صبر کے بدلے جنت میں بالا خانے دئے جائیں گے۔ ۔۔ نیز اللہ تبارک وتعالیٰ کا فرمان ہے: وہ لوگ رات میں بہت ہی کم سویا کرتے تھے (یعنی رات کے اکثر حصہ میں عبادت میں مشغول رہتے تھے) اور شب کے آخری حصے میں استغفار کیا کرتے تھے۔ (سورہ الذاریات ۱۷۔۱۸)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: فرض نمازوں کے بعد سب سے افضل نماز رات کی ہے یعنی تہجد (جو رات کے آخری حصہ میں ادا کی جاتی ہے)۔ (مسلم) حضرت عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اے لوگو! سلام کو پھیلاؤ، لوگوں کو کھانا کھلاؤ اور راتوں میں ایسے وقت نمازیں پڑھو جبکہ لوگ سورہے ہوں، سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہوجاؤگے۔ (ترمذی، ابن ماجہ) حضرت ابو ہریرہ اور حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب آدمی رات میں اپنے گھر والوں کو جگاتا ہے اور میاں بیوی دونوں تہجد کی (کم از کم) دو رکعت پڑھ لیتے ہیں تو ان دونوں کا شمار ذکر کرنے والوں میں ہوجاتا ہے۔ (ابوداؤد) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رات کو قیام فرماتے یہاں تک کہ آپ کے پاؤں مبارک میں ورم آجاتا۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! آپ کے تمام اگلے پچھلے گناہ معاف کردئے گئے ہیں(اگر ہوتے بھی)، پھر آپ ایسا کیوں کرتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا میں اپنے پروردگار کا شکر گزار بندہ نہ بنوں۔ (بخاری)
سننِ مؤکدہ:(۲ رکعت نمازِ فجر سے قبل، ۴ رکعت نمازِ ظہر سے قبل، ۲ رکعت نمازِ ظہر کے بعد، ۲ رکعت نمازِ مغرب کے بعد اور ۲ رکعت نمازِ عشاء کے بعد)
حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: جس شخص نے دن اور رات میں بارہ رکعتیں پڑھیں جو کہ فرض نہیں ہیں، اس کے لئے جنت میں ایک گھر بنادیا گیا۔ (مسلم) ترمذی میں یہ روایت وضاحت کے ساتھ وارد ہوئی ہے۔ حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص دن رات میںیہ بارہ رکعتیں پڑھے گا، اس کے لئے جنت میں گھر بنایاجائے گا: ۴ ظہر سے پہلے اور ۲ ظہر کے بعد۔ ۲ مغرب کے بعد۔ ۲عشاء کے بعد۔ ۲ فجر سے پہلے۔ (ترمذی) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: آپ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر سے پہلے چار رکعتیں گھر میں ادا فرماتے پھر مسجد میں جاکر لوگوں کو (فرض ) نماز پڑھاتے پھر واپس گھر تشریف لاتے اور دو رکعت (ظہر کے بعد) ادا فرماتے۔ پھر لوگوں کو مغرب کی نماز پڑھاتے اور گھر واپس تشریف لاکر دو رکعت نماز پڑھتے پھر لوگوں کو عشاء کی نماز پڑھاتے اور گھر تشریف لاکر دو رکعت نماز پڑھتے تھے۔ (مسلم)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : فجر کی دو رکعت (سنتیں) دنیا اور دنیا میں جو کچھ ہے اس سے بہتر ہے۔ ایک دوسری روایت میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ دو رکعتیں پوری دنیا سے زیادہ محبوب ہیں۔ (مسلم) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: فجر کی دو رکعت (سنت) نہ چھوڑو اگرچہ گھوڑوں سے تم کو رونددیا جائے۔ (ابوداؤد) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس نے فجر کی دو رکعتیں (سنت) نہ پڑھی ہوں تو اسے چاہئے کہ سورج نکلنے کے بعد پڑھے۔ (ترمذی) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ظہر سے پہلے ۴ رکعت اور فجر سے پہلے دو رکعت کبھی نہیں چھوڑتے تھے۔ (بخاری) حضرت ام المؤمنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے ظہر سے پہلے چار اور ظہر کے بعد بھی چار رکعتیں پڑھنے کی پابندی کی، اللہ تعالیٰ نے اسکو (جہنم کی) آگ پر حرام کردیا ۔ (ترمذی، ابوداؤد) حضرت ام المؤمنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو مؤمن بندہ بھی ظہر کے بعد چار رکعتیں پڑھتا ہے اسے جہنم کی آگ انشاء اللہ کبھی نہیں چھوئے گی۔ (نسائی)
وضاحت: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت سے ظہر سے پہلے کی چار سنتیں اور فجر سے پہلے کی دو سنتیں ثابت ہوئیں، یہ سننِ مؤکدہ ہیں، آپ ان کا خاص اہتمام فرماتے تھے، جبکہ حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا والی روایت میں ظہر کے بعد چار رکعت کی فضیلت بیان ہوئی۔ فقہاء نے تحریر کیا ہے کہ یہ دو رکعت سنت مؤکدہ کے علاوہ دو نفل ہیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب ظہر سے پہلے ۴ رکعت نہ پڑھتے تو انہیں بعد میں پڑھ لیتے۔ (ترمذی) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ظہر سے پہلی ۴ رکعتیں رہ جاتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر کے بعد دو رکعت ادا کرکے فوت شدہ چار رکعتیں پڑھ لیتے تھے۔ (ابن ماجہ) (وضاحت: کبھی کبھی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ظہر سے پہلے دو رکعت ادا کرتے تھے جیسا کہ مسلم میں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت میں ہے)۔
سننِ غیر مؤکدہ: ( ۴رکعت نماز عصر سے قبل اور ۴ رکعت نماز عشاء سے قبل)
حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عصر سے پہلے چار رکعت پڑھتے تھے۔ (ترمذی) حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ اس شخص پر رحم کرے جس نے عصر سے پہلے چار رکعت نماز پڑھی۔ (ترمذی، ابوداؤد) (وضاحت) اگر وقت کم ہے تو دو رکعت بھی پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ ابو داؤد کی روایت میں ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نمازِ عصر سے پہلے (کبھی کبھی) دو رکعت نماز ادا فرماتے تھے۔ (ابوداؤد)
عشاء کی نماز سے پہلے اگر وقت ہو تو ۴ رکعت ورنہ ۲ رکعت ہی پڑھ لیں: شارحِ بخاری علامہ ابن حجرؒ نے حضرت براء رضی اللہ عنہ کے حوالہ سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد نقل کیا ہے کہ جس نے عشاء سے پہلے چار رکعت پڑھیں گویا اس نے رات کو تہجد پڑھی اور عشاء کے بعد چار رکعت پڑھنے والے کو شبِ قدر میں چار رکعت پڑھنے کا ثواب ملے گا۔ بیہقی نے اس روایت کو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے اور نسائی و دار قطنی نے حضرت کعب رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے۔ (الدرایہ ج ۱ صفحہ ۱۹۸) حضرت سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضراتِ صحابہ کرام عشاء کی نماز سے پہلے چار رکعت کو مستحب سمجھتے تھے۔ (مروزی۔ قیام اللیل ۔ صفحہ ۵۸) علامہ نواب صدیق حسن خان ؒ شرح بلوغ المرام (مسک الختام ج ۱ صفحہ ۵۲۵ و ۵۲۹) میں نقل کرتے ہیں کہ عشاء سے پہلے چار رکعت مستحب ہیں، نیز عشاء سے قبل دو رکعت نماز پڑھنے کو بھی وہ حدیث شامل ہے جس میں اذان واقامت کے درمیان نفل نماز پڑھنے کی ترغیب ہے۔
ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کی بابت پوچھا گیا تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ آپ لوگوں کے ساتھ عشاء کی نماز پڑھ کر گھر آتے اور چار رکعتیں پڑھ کر بستر پر آرام فرماتے۔ (ابوداؤد) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کبھی عشاء کے بعدنماز پڑھکر میرے یہاں تشریف نہیں لائے مگر آپ نے چار یا چھ رکعتیں(مع دو رکعت سنتِ مؤکدہ) ضرور پڑھیں۔ (ابوداؤد)
نمازِ وتر کے بعد بیٹھ کر دو نفل پڑھنا مستحب ہے:
حضرت ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے متعلق پوچھا تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایاکہ آپ تیرہ رکعتیں پڑھتے تھے، پہلے آٹھ رکعت تہجد پڑھتے، پھر تین وتر پڑھتے پھر دو رکعتیں بیٹھ کر پڑھتے۔ (مسلم) حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وتر کے بعد دو ہلکی رکعتیں (نفل) بیٹھ کر پڑھا کرتے تھے۔ (ترمذی، ابن ماجہ) حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم وتر کے بعد دو رکعت (نفل) بیٹھ کر پڑھا کرتے تھے۔ پہلی رکعت میں سورہ (اِذَا زُلْزلَت) اور دوسری رکعت میں سورہ (کَافِرُون) پڑھتے تھے۔ (مسند احمد)
نمازِ اشراق اور نمازِ چاشت:
اکثر علماء نے اشراق اور چاشت کی نمازوں کو الگ الگ نماز شمار کیا ہے۔ طلوع آفتاب سے تقریباً ۱۵۔۲۰منٹ بعد اشراق کی نماز ادا کی جاتی ہے جو سورج میں تیزی آنے تک پڑھی جاسکتی ہے۔ چاشت کی نماز کا وقت سورج میں تیزی آنے کے بعد سے زوال آفتاب تک ہے۔ اشراق کے وقت ۲ یا ۴ رکعت ادا کریں۔ چاشت کی بھی چار رکعتیں ہیں، اگرچہ بعض احادیث میں آٹھ رکعتوں کا بھی ذکر ملتا ہے۔ اس لئے ان اوقات میں اللہ تعالیٰ جتنی توفیق دے نفل نماز ادا کر لیں۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے میرے خلیل صلی اللہ علیہ وسلم نے تین باتوں کی وصیت فرمائی ہے: ہر مہینے تین دن کے روزے رکھنا، اشراق کی دو رکعت ادا کرنا، سونے سے پہلے وتر پڑھنا۔ (مسلم) حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے میرے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم نے تین باتوں کی وصیت فرمائی ہے، جب تک میں زندہ رہوں گا ان کو نہیں چھوڑوں گا: ہر مہینے تین دن کے روزے رکھنا، اشراق کی نماز ادا کرنا، سونے سے پہلے وتر پڑھنا۔ (مسلم) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اشراق کی چار رکعت نماز پڑھتے تھے اور کبھی زیادہ بھی پڑھتے تھے۔ (مسلم) حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر صحیح سالم جوڑ یا ہڈی کے عوض ہر روز صبح کو تم پر صدقہ واجب ہوتا ہے۔ سُبْحَانَ اللّٰہ کہنا صدقہ ہے، الْحَمْدُ للّٰہ کہنا صدقہ ہے، لا الٰہَ الا للّٰہ کہنا صدقہ ہے، اللّٰہ اَکْبَرْ کہنا صدقہ ہے، نیکی کا حکم دینا صدقہ ہے، برائی سے روکناصدقہ ہے اور ان سب کے لئے وہ دو رکعتیں کافی ہوجاتی ہیں جنھیں کوئی چاشت کے وقت پڑھتا ہے۔(مسلم) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا چاشت کی آٹھ رکعات پڑھا کرتی تھیں پھر فرماتیں کہ اگر میرے والدین کو آرے سے چیر بھی دیا جائے تو میں یہ نہیں چھوڑوں گی۔ (مؤطا امام مالک) حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص فجر کی نماز جماعت سے پڑھتا ہے اور سورج نکلنے تک اللہ تعالیٰ کے ذکر میں مشغول رہتا ہے پھر دو رکعت نفل پڑھتا ہے تو اسے حج اور عمرہ کا ثواب ملتا ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ ارشاد فرمایا: کامل حج و عمرہ کا ثواب، کامل حج و عمرہ کا ثواب، کامل حج و عمرہ کا ثواب ملتا ہے۔ (ترمذی) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لشکر بھیجا جو بہت ہی جلد بہت سارا مالِ غنیمت لیکر واپس لوٹ آیا۔ ایک صحابی نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہم نے کوئی ایسا لشکر نہیں دیکھا جو اتنی جلدی اتنا سارا مالِ غنیمت لیکر واپس لوٹ آیا ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کیا میں تمہیں اس سے بھی کم وقت میں اس مال سے بہت زیادہ مالِ غنیمت کمانے والا شخص نہ بتاؤں؟ یہ وہ شخص ہے جو اپنے گھر سے اچھی طرح وضو کرکے مسجد جاتا ہے، فجر کی نماز پڑھتا ہے، پھر (سورج نکلنے کے بعد) اشراق کی نماز پڑھتا ہے، تو یہ بہت تھوڑے وقت میں بہت زیادہ نفع کمانے والا ہے۔ (صحیح ابن حبان)
حضرت معاذ بن انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص فجر کی نماز سے فارغ ہوکر اسی جگہ بیٹھا رہتا ہے، خیر کے علاوہ کوئی بات نہیں کرتا پھر دو رکعت (اشراق کی نماز) پڑھتا ہے اس کے (چھوٹے) گناہ معاف ہوجاتے ہیں چاہے وہ سمندر کے جھاگ سے زیادہ ہی کیوں نہ ہوں۔ (ابوداؤد) حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: آدم کے بیٹے! دن کے شروع میں چار رکعت پڑھنے سے عاجز نہ بن، میں تمہارے دن بھر کے کام بنادوں گا۔ (مسند احمد، صحیح ابن حبان)
مغرب اور عشاء کے درمیان نوافل (نماز اوابین):
مغرب اور عشاء کے درمیان کا وقت بہت قیمتی وقت ہے، اسکو غنیمت سمجھ کر اس میں کچھ نوافل پڑھنا یقیناًاجروثواب کا باعث ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ان کے پہلو سونے کی جگہ سے جدا رہتے ہیں، اپنے رب کو خوف اور امید کے ساتھ پکارتے ہیں اور جو کچھ ہم نے ان کو دیا ہے اسمیں سے خیرات کیا کرتے ہیں۔ (سورۂ السجدہ ۱۶) جمہور علماء کی رائے میں اس آیت سے مراد نماز تہجد ہے لیکن حضرت انس رضی اللہ عنہ، حضرت قتادۃ ؒ اور حضرت عکرمۃ ؒ فرماتے ہیں کہ اس سے مراد مغرب اور عشاء کے درمیان نفل نماز ادا کرنا ہے۔ (تفسیر ابن کثیر، تفسیر فتح القدیر) اسی طرح علامہ ابن جوزی اپنی کتاب زاد المسیر ج ۶ صفحہ ۳۳۹ میں لکھتے ہیں: حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ یہ آیت ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تعریف میں نازل ہوئی جو مغرب اور عشاء کے درمیان نفل نماز پڑھتے تھے۔ شیخ محمد بن نصر المروزی (المتوفی ۲۹۴ھ) نے قیام اللیل صفحہ ۵۶ پر بہت سے صحابہ کرام کا عمل نقل کیا ہے کہ وہ اس وقت میں نوافل پڑھتے تھے۔ حضرت ابو معمر فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام مغرب کے بعد چار رکعت پڑھنے کو مستحب سمجھتے تھے۔ (قیام اللیل صفحہ ۵۸ ) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص مغرب کی نماز کے بعد چھ رکعتیں اس طرح پڑھتا ہے کہ انکے درمیان کوئی فضول بات نہیں کرتا تو اسے بارہ سال کی عبادت کے برابر ثواب ملتا ہے۔ (ترمذی ۔ فضل التطوع) حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے حضرت محمد بن عمار ؒ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عمار بن یاسرؓ کو مغرب کے بعد چھ رکعت پڑھتے دیکھا اور انھوں نے فرمایا کہ میں نے اپنے حبیب حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو مغرب کے بعد چھ رکعت ادا کرتے ہوئے دیکھا تھا ، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص مغرب کے بعد چھ رکعت پڑھ لے تو اسکے تمام (چھوٹے) گناہ معاف کردئے جاتے ہیں خواہ وہ سمندر کے جھاگ کے برابر ہی کیوں نہ ہوں۔ (الترغیب والترھیب ۔ الترغیب فی الصلاۃ بین المغرب والعشاء(
وضاحت: مغرب کے بعد دو رکعت سنت مؤکدہ کے علاوہ چار رکعت نوافل اور پڑھی جائیں تو چھ ہوجائیں گی۔ بعض علماء کے نزدیک یہ چھ رکعت‘ مغرب کی دو رکعت سنت مؤکدہ کے علاوہ ہیں۔
تحيۃ الوضوء:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک روز نمازِ فجر کے بعد حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے پوچھا: اے بلال! اسلام لانے کے بعداپنا وہ عمل بتاؤ جس سے تمہیں ثواب کی سب سے زیادہ امید ہو کیونکہ میں نے جنت میں اپنے آگے آگے تمہارے جوتوں کی آہٹ سنی ہے۔ حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے عرض کیاکہ مجھے اپنے اعمال میں سب سے زیادہ امید جس عمل سے ہے وہ یہ ہے کہ میں نے رات یا دن میں جب کسی وقت وضو کیا ہے تو اُس وضو سے اتنی نماز (تحےۃ الوضو) ضرور پڑھی ہے جتنی مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس وقت توفیق ملی ہے۔ (بخاری، مسلم)
تحيۃ المسجد:
حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب کوئی آدمی مسجد میں داخل ہو تو بیٹھنے سے پہلے دو رکعت نماز ادا کرے۔ (بخاری،مسلم)
وضاحت: اگر کوئی شخص ایسے وقت میں مسجد میں داخل ہوا کہ جس میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھنے کو صراحتاً منع کیا ہے (طلوع آفتاب، زوال آفتاب اور غروب آفتاب کا وقت) تو اسے چاہئے کہ وہ تحےۃ المسجد نہ پڑھے۔ اگر کسی شخص نے مسجد میں داخل ہوکر بیٹھنے سے پہلے فرض نماز یا سنت یا کوئی دوسری نماز شروع کردی تو پھر تحےۃ المسجد ادا کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
سنن نماز جمعہ:
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص جمعہ کے دن غسل کرتا ہے، جتنا ہوسکے پاکی کا اہتمام کرتا ہے اور تیل لگاتا ہے یا اپنے گھر سے خوشبو استعمال کرتا ہے پھر مسجد جاتا ہے۔ مسجد پہنچ کر جو دو آدمی پہلے سے بیٹھے ہوں ان کے درمیان میں نہیں بیٹھتا اور جتنی توفیق ہو جمعہ سے پہلے نماز پڑھتا ہے، پھر جب امام خطبہ دیتا ہے اس کو توجہ اور خاموشی سے سنتا ہے تو اِس جمعہ سے گزشتہ جمعہ تک کے گناہوں کو معاف کردیا جاتا ہے۔ (بخاری) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے جمعہ کے دن غسل کیا، پھر مسجد میں آیا اور جتنی نماز اس کے مقدر میں تھی ادا کی، پھرخطبہ ہونے تک خاموش رہا اور امام کے ساتھ فرض نماز ادا کی، اس کے جمعہ سے جمعہ تک اور مزید تین دن کے گناہ بخش دئے جاتے ہیں۔ (مسلم)
بخاری ومسلم میں وارد مذکورہ بالا احادیث سے معلوم ہوا کہ جمعہ کی نماز سے قبل بابرکت گھڑیوں میں جتنی زیادہ سے زیادہ نماز پڑھ سکیں پڑھیں۔ کم از کم خطبہ شروع ہونے سے پہلے چار رکعتیں تو پڑھ ہی لیں جیسا (مصنف ابن ابی شیبہ ج ۲ صفحہ ۱۳۱) میں مذکور ہے کہ حضرت ابراہیم ؒ فرماتے ہیں کہ حضراتِ صحابہ کرام نمازِ جمعہ سے پہلے چار رکعتیں پڑھا کرتے تھے۔
نمازِ جمعہ کے بعد دو رکعتیں یا چار رکعتیں یا چھ رکعتیں پڑھیں، یہ تینوں عمل نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام سے ثابت ہیں۔ بہتر یہ ہے کے چھ رکعت پڑھ لیں تاکہ تمام احادیث پر عمل ہوجائے اور چھ رکعتوں کا ثواب بھی مل جائے۔ حضرت سالم ؒ اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے بعد دو رکعتیں پڑھتے تھے۔ (مسلم) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم سے کوئی جمعہ پڑھ لے تو اس کے بعد چار رکعتیں پڑھے۔ (مسلم)
حضرت عطاء فرماتے ہیں کہ انھوں نے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو جمعہ کے بعد نماز پڑھتے دیکھا کہ جس مصلّی پر آپ نے جمعہ پڑھا اس سے تھوڑا سا ہٹ جاتے تھے، پھر دو رکعتیں پڑھتے، پھر چار رکعتیں پڑھتے تھے۔ میں نے حضرت عطاء سے پوچھا کہ آپ نے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو کتنی مرتبہ ایسا کرتے دیکھا؟ انھوں نے فرمایا کہ بہت مرتبہ۔ (ابوداؤد) اسی لئے علامہ ابن تیمیہ ؒ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے جمعہ کے بعد چار رکعات پڑھنی چاہئیں اور صحابہ کرام سے چھ رکعات بھی منقول ہیں۔ (مختصر فتاوی ابن تیمیہ، صفحہ ۷۹)
وضاحت: نماز وتر کے وجوب اور اسکے اہتمام کے متعلق دلائل شرعیہ کی روشنی میں تفصیل سے ایک مضمون تحریرکیا ہے، اس کا مطالعہ کریں۔
نوٹ: مضمون میں وارد تمام احادیث کے تفصیلی حوالوں کے لئے میری کتاب (حی علی الصلاۃ) کا مطالعہ کریں جو مختلف ویب سائٹ پر Free Download کرنے کے لئے موجود ہے۔
اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کو فرائض کے ساتھ سنن ونوافل کا بھی اہتمام کرنے والا بنائے۔ آمین، ثم آمین۔
محمد نجیب سنبھلی قاسمی (najeebqasmi@yahoo.com)

مسجد میں جماعتِ ثانیہ کا حکم

بسم الله الرحمن الرحيم

اَلْحَمْدُ لِله رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلام عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔

مسجد میں جماعتِ ثانیہ کا حکم

مسجد میں دوسری یا تیسری جماعت کرنے میں فقہاء وعلماء کے درمیان زمانۂ قدیم سے اختلاف چلا آرہا ہے۔ لیکن اس میں بعض شکلیں متفق علیہ بھی ہیں مثلاً:
اس بات پر تمام لوگوں کا اتفاق ہے کہ مسجد میں دوسری جماعت کا مستقل اہتمام غلط ہے۔
جن مساجد میں امام ومؤذن متعین نہیں ہیں (پانچوں نمازیں جماعت کے ساتھ اہتمام سے ادا نہیں ہوتیں)یا مارکیٹ یا ریلوے اسٹیشن کی مساجد میں (جہاں لوگ آتے جاتے رہتے ہیں) یا ایک شہر یا دیہات سے دوسرے شہر یا دوسرے دیہات جانے والی شاہراہ پر واقع مساجد میں دوسری / تیسری/ چوتھی جماعت کرنے میں تمام حضرات کا اتفاق ہے ۔
لیکن محلہ کی مساجد میں (جہاں امام ومؤذن متعین ہیں اور نمازیں جماعت کے ساتھ اہتمام سے ادا کی جاتی ہیں) دوسری جماعت کرنے کے متعلق اختلاف ہے ۔ امام احمد بن حنبل ؒ کی ایک روایت (جو ان کے متبعین میں زیادہ مشہور ہے) یہ ہے کہ اگر پہلے سے اتفاق کئے بغیر دو یا زیادہ حضرات کسی مسجد میں جماعت ختم ہونے کے بعد پہنچیں تو ان کے لئے مسجد میں جماعت کے ساتھ نماز ادا کرنا تنہا تنہا پڑھنے سے زیادہ بہتر ہے اگرچہ تنہا نماز پڑھنے پر بھی نماز ادا ہوجائے گی جس کے دلائل مندرجہ ذیل ہیں:
حضرت ابی ابن کعب سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ایک شخص کا دوسرے شخص کے ساتھ جماعت سے نماز ادا کرنا تنہا ادا کرنے سے بہتر ہے اور ایک شخص کا دو شخصوں کے ساتھ جماعت سے نماز ادا کرنا دو آدمیوں کی جماعت سے بہتر ہے۔ (نسائی، ابو داؤد، ابن ماجہ)
حضرت ابو سعید الخدری فرماتے ہیں ہے کہ ایک دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کے ساتھ تشریف فرما تھے۔ ایک صحابیؓ جماعت ختم ہونے کے بعد داخل ہوئے تو آپ انے ارشاد فرمایا: کون شخص اس شخص پر صدقہ کرے گا کہ وہ اس کے ساتھ نماز ادا کرے؟ تو ایک صحابی اٹھے اور انہوں نے اس شخص کے ساتھ نماز ادا فرمائی۔ (ترمذی ۲۲۰(
حضرت انسؓ ایک مرتبہ کسی مسجد میں داخل ہوئے تو لوگ نماز سے فارغ ہوچکے تھے۔ آپؓ نے اذان دی اور اقامت کہہ کر جماعت کے ساتھ نماز پڑھی۔ (بیہقی۔ امام بخاری ؒ نے بھی موقوفاً اپنی تعلیقات میں ذکر کی ہے)۔
نوٹ: ان تینوں دلائل کے جوابات مضمون کے آخر میں ملاحظہ فرمائیں۔
فقہاء وعلماء کی ایک بڑی جماعت (حضرت عبداللہ بن مسعودؓ، شیخ حسن بصریؒ ، شیخ نافع مولی بن عمرؒ ، شیخ سالم بن عبداللہؒ ، امام ابوحنیفہ ؒ ، امام مالک ؒ ، امام شافعی ؒ اور امام احمد بن حنبل ؒ کی دوسری غیر مشہور روایت)کی رائے ہے کہ محلہ کی مسجد میں جہاں امام ومؤذن مستقل طور پر متعین ہیں، دوسری جماعت کا اہتمام کرنا مکروہ ہے بلکہ مسجد کے باہرکسی جگہ دوسری جماعت قائم کی جائے یا پھر مسجد میں تنہا نماز پڑھی جائے، جس کے بعض دلائل مندرجہ ذیل ہیں:
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا کہ آپ اخود ہی صحابۂ کرام کو نماز پڑھایا کرتے تھے اور اگر کسی صحابی کی جماعت کی نماز چھوٹ جاتی تو وہ اپنی نماز تنہا پڑھتے تھے، دائیں بائیں کسی شخص کو تلاش نہیں کرتے تھے کہ اس کے ساتھ مسجد میں ہی دوسری جماعت کا اہتمام کریں۔ اس اَمر کو تقریباً ساری امت مسلمہ نے تسلیم کیا ہے، چنانچہ قرآن، حدیث، سیرت، تفسیر اور تاریخ کی کتابوں میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی میں مسجد میں دوسری جماعت کا ثبوت صرف ایک بار ملتا ہے جس کا واقعہ حضرت ابوسعید الخدری کی روایت میں اوپر گزر چکا ہے۔ غرضیکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں صرف ایک بار دوسری جماعت کا ثبوت ملتا ہے جس میں امام فرض پڑھ رہا ہے اور مقتدی اس پر صدقہ کرتے ہوئے نفل ادا کررہا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی میں ایک واقعہ بھی ایسا نہیں ملتا جس میں دو یا زیادہ اشخاص نے فرض نماز کی ادائیگی مسجد میں دوسری جماعت کی شکل میں کی ہو۔
حضرت امام شافعی ؒ اپنی مشہور ومعروف کتاب “الام” میں تحریر فرماتے ہیں کہ میں نے اس مسئلہ میں تمام ائمہ سے یہی کہتے ہوئے سنا ہے کہ اگر کوئی شخص مسجد میں جماعت ختم ہونے کے بعد مسجد پہونچے تو وہ تنہا نماز پڑھے۔ ہاں اگر راستہ کی مسجد ہے جہاں امام اور مؤذن متعین نہیں ہیں تو اس مسجد میں دوسری جماعت کرنے میں کوئی حرج نہیں ۔ ہمارے اسلاف نے صحابۂ کرام کی ایک بڑی جماعت سے یہی نقل کیا ہے کہ اگر وہ مسجد میں باجماعت نماز ختم ہونے کے بعد پہنچتے تو تنہا ہی نماز پڑھتے تھے۔ صحابۂ کرام ایک مسجد میں دومرتبہ جماعت سے نماز پڑھنے کو مکروہ سمجھتے تھے۔
محدث کبیر حافظ ابو بکر بن ابی شیبہ ؒ نے اپنی کتاب “المصنف” (جو مصنف بن ابی شیبہ کے نام سے مشہور ہے) میں صحیح سند کے ساتھ حضرت حسن بصری ؒ کا قول نقل کیا ہے کہ صحابۂ کرام جماعت فوت ہونے کی صورت میں تنہا نماز پڑھا کرتے تھے۔
حضرت ابی بکرۃ ؓ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ کے دیہی علاقوں سے لوٹ کر آئے اور نماز کی ادائیگی کا ارادہ کیا تو دیکھا کہ لوگ نماز سے فارغ ہوگئے ہیں لہذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر چلے گئے اور گھر کے افراد کو جمع کیا اور ان کے ساتھ جماعت سے نماز پڑھی۔ ( معجم الکبیر للطبرانی، مجمع الزوائد ۲/۴۵، المعجم الاوسط ۵/۳۵ / ۴۶۰۱ ، ۷/۵۱/ ۶۸۲۰، المجروحین لابن حبان ۳ / ۴۔۔۵، الکامل لابن عدی ۶/۲۳۹۸)۔ ۔۔ محدث ہیثمی ؒ نے کہا کہ اس حدیث کے تمام راوی مضبوط ہیں۔ شیخ ناصر الدین البانی ؒ نے اس حدیث کو حسن قرار دیا (تمام المنۃ ص ۱۵۵)۔ شیخ مشہور حسن سلمانؒ نے بھی اس حدیث کے صحیح ہونے کا اقرار کیا ہے۔ (اعلام العابد فی حکم تکرار الجماعۃ فی المسجد الواحد، ص ۳۴(
نوٹ: مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا کہ جماعت اولیٰ فوت ہونے پر ہمارے اور ساری انسانیت کے قائد نبی اکرم انے مسجد میں جماعت ثانیہ کا اہتمام نہیں کیا بلکہ گھر جاکر دوسری جماعت کی۔
حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ ایک مرتبہ اپنے دو ساتھیوں کے ساتھ مسجد میں نماز ادا کرنے کے لئے نکلے تو دیکھا کہ لوگ مسجد سے باہر آرہے ہیں اور جماعت ختم ہوگئی ہے۔ چنانچہ حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ اپنے ساتھیوں کے ساتھ واپس گھر آئے اور جماعت کے ساتھ نماز ادا فرمائی۔ (اس روایت کو امام طبرانی نے “المعجم الکبیر ۹۳۸۰” میں صحیح سند کے ساتھ ذکر فرمائی ہے نیز ابن عبد الرزاق نے “مصنف ۲/۴۰۹/۳۸۸۳” میں ذکر فرمائی ہے)۔
حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ کا شمار ان فقہاء صحابہ میں ہوتا ہے کہ جن سے بڑے بڑے صحابہ کرام بھی مسائل میں رجوع فرمایا کرتے تھے۔۔ غور فرمائیں کہ کس چیز نے اس فقیہ صحابی کو مسجد میں دوسری جماعت کرنے سے روکا۔ یقیناًانہیں معلوم تھا کہ مسجد میں تنہا نماز پڑھنی ہوگی جبکہ مسجد کے باہر کسی دوسری جگہ میں دوسری جماعت کی جاسکتی ہے چنانچہ انہوں نے مسجد کے باہر دوسری جماعت کا اہتمام فرمایا تاکہ جماعت کی نماز کی فضیلت کسی حد تک حاصل ہوجائے ۔
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میرا دل چاہتا کہ میں ایک شخص کو حکم دوں کہ لوگوں کو نماز پڑھائے اور میں پھر جوانوں سے کہوں کہ بہت سا ایندھن اکٹھا کرکے لائیں پھر میں ان لوگوں کے پاس جاؤں جو بلا کسی عذر گھروں میں نماز پڑھ لیتے ہیں اور جاکر ان کے گھروں کو جلادوں۔ (بخاری ومسلم) اس حدیث میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے لوگوں کے لئے جو مسجد میں جماعت کے ساتھ نماز نہیں پڑھتے اپنی خواہش کا اظہار فرمایا کہ میں ان کے گھروں میں آگ لگادوں۔ ۔ ساری امت متفق ہے کہ یہاں پہلی جماعت مراد ہے۔ اگر عام مساجد میں دوسری / تیسری/ چوتھی جماعت کرنے کی مکمل طور پر اجازت دیدی جائے تو پہلی جماعت میں نہ آنے والوں کے گھروں کو آگ لگانے کی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حجت پوری نہیں ہوسکتی کیونکہ جب نبی اکرم ا جماعت میں شریک نہ ہونے والوں کے گھروں کو آگ لگانے جاتے تو وہ کہہ سکتے تھے کہ ہم دوسری / تیسری/ چوتھی جماعت میں شریک ہوجائیں گے۔
متعدد احادیث صحیحہ سے معلوم ہوتا ہے کہ شریعت چاہتی ہے کہ جماعت میں زیادہ سے زیادہ حضرات شریک ہوں کیونکہ زیادہ حضرات کی شرکت زیادہ ثواب کا باعث بنے گی عام مساجد میں دوسری / تیسری/ چوتھی جماعت کی ترغیب دینے کی صورت میں پہلی جماعت میں لوگوں کی شرکت یقیناًکم رہے گی، جو شریعت کی خواہش کے خلاف ہے۔
جیسا کہ تجربہ سے معلوم ہوتا ہے کہ جن علماء نے سہولت کے پیش نظر محلہ کی مساجد میں بھی دوسری جماعت کرنے کی اجازت دیدی ہے تو وہاں تقریباً ہر نماز کے بعد دوسری / تیسری/ چوتھی بلکہ کبھی کبھی متعدد جماعتیں ادا کی جاتی ہیں، جس سے جماعت کی نماز کا مقصود ہی فوت ہوجاتا ہے۔
عام مساجد میں دوسری / تیسری/ چوتھی جماعت کی اجازت دینے سے امت میں فرقہ بندی بڑھے گی، مثلاً اگر چند حضرات مسلکی اختلافات کی وجہ سے کسی امام کے پیچھے نماز نہیں پڑھنا چاہتے تو وہ دوسری یا تیسری جماعت کا اہتمام کریں گے۔ یہی وجہ سے کہ سعودی حکومت مسجد حرام اور مسجد نبوی میں دوسری جماعت کرنے سے روکتی ہے۔
مسجد میں دوسری جماعت ادا کرنے سے دیگر نمازیوں کی نماز میں خلل واقع ہوتا ہے خاص کرجو اپنی فوت شدہ رکعات پڑھ رہے ہوں، حالانکہ نماز کو خشوع وخضوع کے ساتھ ادا کرنے کا حکم دیاگیا ہے جو نماز میں سب سے زیادہ مطلوب ہے۔
نوٹ: شیخ محمد ناصر الدین البانی ؒ (جن کی حدیث کی خدمات کو خلیجی ممالک میں بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ) کی رائے بھی یہی ہے کہ عام مساجد میں دوسری جماعت کرنا مکروہ ہے۔
جماعت ثانیہ کے قائلین کے دلائل کے جوابات:
حضرت ابی ابن کعب ؓ کی روایت سے صرف یہ معلوم ہوا کہ جماعت میں جتنے زیادہ حضرات شریک ہوں گے اتنا ہی ثواب زیادہ ملے گا۔ اس حدیث سے عام مساجد میں دوسری /تیسری /چوتھی جماعت کرنے کا دور دور تک کوئی ثبوت نہیں ملتا۔
حضرت ابو سعید الخدری ؓ کی روایت سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کی روشنی میں معلوم ہوا کہ ایک شخص جس نے فرض نماز جماعت سے ادا کرلی ہے دوسرے ایسے شخص پر صدقہ کررہا ہے جس نے ابھی فرض نماز ادا نہیں کی ہے۔ اگر دونوں فرض نماز ادا کررہے ہوں تو کون کس پر صدقہ کرنے والا ہوگا؟ یہاں حقیقتاً دوسری جماعت ہوئی ہی نہیں بلکہ ایک شخص نے نفل کی نیت کرکے اس پر صدقہ کیا۔ دو شخص نے فرض کی نیت کرکے مسجد میں دوسری جماعت ادا کی ہو، ایسا کوئی واقعہ نبی اکرم اکی زندگی میں نہیں ہوا۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام کے عمل کی روشنی میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ حضرت انسؓ کا عمل راستے کی کسی مسجد کا رہا ہوگا اسی لئے انہوں نے اذان اور اقامت کے بعد نماز پڑھی ورنہ محلہ کی مسجد میں دوبارہ اذان کا کیا مطلب؟
تنبیہ: بعض حضرات اس گمان کی وجہ سے کہ امام قعدہ اخیرہ میں ہے جماعت میں شریک نہیں ہوتے بلکہ دوسری جماعت کی مکمل تیاری شروع کردیتے ہیں جیسے ہی امام سلام پھیرتا ہے فوراً ہی دوسری جماعت شروع کردیتے ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ، صحابۂ کرام، تابعین، تبع تابعین بلکہ اسلام کی پوری تاریخ میں ایسی کوئی نظیر ہمیں نہیں ملتی۔ لہذا ہمیں امام کے ساتھ ہی جماعت میں شریک ہونا چاہئے خواہ امام کے قعدہ اخیرہ میں ہونے کا یقین ہی کیوں نہ ہو۔
محمد نجیب سنبھلی قاسمی

شریعت اسلامیہ میں نماز کی قضاء کا حکم
بسم الله الرحمن الرحيم
اَلْحَمْدُ لِله رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلام عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔
شریعت اسلامیہ میں نماز کی قضاء کا حکم
علماء امت کا اتفاق ہے کہ فرض نماز جان بوجھ کر چھوڑنا بہت بڑا گناہ ہے۔ شریعت اسلامیہ میں زنا کرنے، چوری کرنے اور شراب پینے سے بھی بڑا گناہ نماز کا ترک کرنا ہے۔ لہذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ ہر نماز وقت پر ادا کرنے کا اہتمام کرے اور اگر کبھی کوئی نماز وقت پر ادا نہ کرسکے تو اسے پہلی فرصت میں پڑھنی چاہئے۔ ہماری اور ہمارے علماء کی یہ ذمہ داری ہے کہ ہم اس بات کی کوشش وفکر کریں کہ امت مسلمہ کا ہر ہر فرد وقت پر نماز کی ادائیگی کرنے والا بن جائے اور ہماری نمازیں خشوع وخضوع کے ساتھ ادا ہوں، کیونکہ اسی میں ہماری اور تمام انسانوں کی اخروی کامیابی مضمر ہے جیساکہ خالق کائنات نے سورۃ المؤمنون آیات (۱ ۔ ۱۱)میں بیان فرمایا ہے۔
نماز بالکلیہ نہ پڑھنے والوں یا صرف جمعہ وعیدین یا کبھی کبھی پڑھنے والوں کا قرآن وحدیث کی روشنی میں شرعی حکم کیا ہے، سعودی عرب کے مشہور عالم دین شیخ محمد بن صالح العثیمینؒ نے اپنی کتاب (حکم تارک الصلاۃ) میں فقہاء وعلماء کی مختلف آراء تحریر کی ہیں : حضرت امام احمد ابن حنبل ؒ فرماتے ہیں کہ ایسا شخص کافر ہے اور ملت اسلامیہ سے نکل جاتا ہے۔ اس کی سزا یہ ہے کہ اگر توبہ کرکے نماز کی پابندی نہ کرے تو اس کو قتل کردیا جائے۔ حضرت امام مالکؒ اور حضرت امام شافعی ؒ کہتے ہیں کہ نماز کو چھوڑنے والا کافر تو نہیں، البتہ اس کو قتل کیا جائے گا۔ حضرت امام ابوحنیفہ ؒ فرماتے ہیں کہ اس کو قتل نہیں کیا جائے گا، البتہ حاکم وقت اس کو جیل میں ڈال دے گا اور وہ جیل ہی میں رہے گا یہاں تک کہ توبہ کرکے نماز شروع کردے یا پھر وہیں مرجائے۔
قرآن وحدیث میں وارد نماز کی وقت پر ادائیگی کی خصوصی تاکید کے باوجود بعض مرتبہ نماز فوت ہوجاتی ہے، کبھی بھول سے، کبھی کوئی عذر لاحق ہونے کی بنا پر اور کبھی محض لاپرواہی اور غفلت کی وجہ سے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال وافعال کی روشنی میں جمہور فقہاء وعلماء ومحدثین ومفسرین کا اتفاق ہے کہ تمام فوت شدہ نماز کی قضا کرنی چاہئے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے متعدد مرتبہ ارشاد فرمایا کہ اگر نماز وقت پر ادا نہ کرسکیں تو بعد میں اس کو پڑھیں، اختصار کے مدنظر صحیح بخاری وصحیح مسلم میں وارد ایک حدیث ذکر کررہا ہوں: حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص نماز کو بھول جائے تو جب اس کو یاد آئے فوراً پڑھ لے، اس کا سوائے اس کے کوئی کفارہ نہیں۔ اللہ کا ارشاد ہے نماز قائم کرو میری یاد کے واسطے۔ (صحیح بخاری وصحیح مسلم) بعض روایات میں اس حدیث کے الفاظ اس طرح وارد ہوئے ہیں: جو شخص نماز کو بھول جائے یا اس کو چھوڑ کر سوجائے ، اس کا کفارہ یہ ہے کہ جب یاد آئے اسے پڑھے۔ حدیث کی مشہور کتاب ترمذی میں ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تم میں سے جو بھی نماز کو بھول جائے یا اس سے سو جائے تو وہ جب بھی یاد آئے اس کو پڑھ لے۔
نوٹ: تاخیر سے سونے کی عادت بناکر فجر کی نماز کے وقت سوتے رہنا گناہ کبیرہ ہے۔ دیگر احادیث کی روشنی میں اس حدیث میں سوتے رہنے سے مراد یہ ہے کہ نماز وقت پر پڑھنے کے اسباب اختیار کئے مگر کسی دن اتفاق سے آنکھ نہ کھل سکی۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام نے بعض نمازیں وقت کے نکلنے کے بعد ادا فرمائی ہیں۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابۂ کرام کے ساتھ غزوۂ خیبر سے واپس ہورہے تھے، رات میں چلتے چلتے جب نیند کا غلبہ ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رات کے اخیر حصہ میں ایک جگہ قیام فرمایااور حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو نگہبانی کے لئے متعین فرماکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم لیٹ گئے اور صحابہ بھی سو گئے۔ جب صبح قریب ہوئی تو حضرت بلال رضی اللہ عنہ (تھکان کی وجہ سے) اپنی سواری سے ٹیک لگاکر بیٹھ گئے ، پس آپ پر نیند غالب ہوئی اور وہ بھی سو گئے اور سب حضرات ایسے سوئے کہ طلوع آفتاب تک نہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھ کھلی اور نہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی، نہ کسی اور صحابی کی۔جب سورج طلوع ہوا اور اس کی شعاعیں ان حضرات پر پڑیں تو سب سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیدار ہوئے اور گھبراکر حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو اٹھایا۔ پھر صحابۂ کرام کو آگے چلنے کا حکم دیا، صحابۂ کرام اپنی سواریاں لے کر آگے بڑھے اور ایک جگہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا اور حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو اقامت کہنے کا حکم دیا۔ حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے اقامت کہی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی۔ جب نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا جو نماز کو بھول جائے اس کو چاہئے کہ وہ یاد آنے پر اس کو پڑھ لے۔ (صحیح مسلم(
حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ غزوۂ خندق کے دن آئے اور کفار قریش کو برا بھلا کہنے لگے اور عرض کیا یا رسول اللہ! میں اب تک عصر نہ پڑھ سکا حتی کہ سورج غروب ہونے کو ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے بھی عصر نہیں پڑھی ہے۔ اللہ کے رسول نے وضو فرمایا ، ہم نے بھی وضو فرمایا اور پھر غروب آفتاب کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے عصر پڑھی پھر اس کے بعد مغرب ادا فرمائی۔ (صحیح بخاری) بعض احادیث میں مذکور ہے کہ اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک سے زیادہ نمازیں فوت ہوئی تھیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں وقت نکلنے کے بعد پڑھا۔
مذکورہ بالا احادیث سے واضح ہوا کہ اگر ایک یا ایک سے زیادہ نماز فوت ہوجائے تو فوت شدہ نمازوں کا پڑھنا لازم وضروری ہے۔ تفصیلات کے لئے امام نوویؒ کی صحیح مسلم کی سب سے مشہور شرح (شرح مسلم ج۱ ص ۲۷۷) اور ابن حجر عسقلانی ؒ کی صحیح بخاری کی سب سے مشہور شرح (فتح الباری ج۲ ص ۶۹ ۔ ۷۰) کا مطالعہ کریں۔ہاں اس بھول یا عذر کی بناء پر وقت پر ادا نہ کی گئی نماز کو ادا یا قضاء کا ٹائٹل دینے میں علماء کی آراء مختلف ہیں۔ بھول یا عذر کی وجہ سے وقت پر نماز ادا نہ کرنے پر کوئی گناہ نہیں ہوگا ان شاء اللہ۔ لیکن اگر کوئی شخص جان بوجھ کر نماز کو ترک کردے تو یہ بڑا گناہ ہے اس کے لئے توبہ ضروری ہے۔ توبہ کے ساتھ جمہور علماء کی رائے ہے کہ اس کو نماز کی قضا بھی کرنی ہوگی۔ حضرت امام ابوحنیفہؒ ، حضرت امام مالکؒ ، حضرت امام شافعیؒ اور حضرت امام احمد بن حنبل ؒ کی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال وافعال کی روشنی میں یہی رائے ہے کہ قصداً وعمداً نماز چھوڑنے پر بھی نماز کی قضاء کرنی ہوگی۔ شیخ ابو بکر الزرعی (۶۹۱ھ۔۷۵۱ھ) نے اپنی کتاب (الصلاۃ وحکم تارکھا) میں تحریر کیا ہے کہ امام ابوحنیفہؒ ، امام مالکؒ ، امام شافعیؒ اور امام احمد بن حنبل ؒ نے کہا کہ اس شخص پر بھی نماز کی قضا واجب ہے جو قصداً نماز کو چھوڑدے مگر قضاء سے نماز چھوڑنے کا گناہ ختم نہ ہوگا بلکہ اسے نماز کی قضاء کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے معافی بھی مانگنی ہوگی۔ علامہ قرطبیؒ (متوفی ۶۷۱ھ) نے اپنی مشہور ومعروف تفسیر (الجامع لاحکام القرآن ج ۱ ص ۱۷۸) میں یہی تحریر کیا ہے کہ جمہور علماء اس پر متفق ہیں کہ جان بوجھ کر نماز چھوڑنے والے شخص پر قضاء واجب ہے، اگرچہ وہ گناہ گار بھی ہے۔ علامہ ابن تیمیہ ؒ نے بھی اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ امام ابوحنیفہؒ ، امام مالکؒ ، امام شافعیؒ اور امام احمد بن حنبل ؒ کے نزدیک جان بوجھ کر نماز چھوڑنے والے پر قضاء واجب ہے ۔ غرضیکہ اگر کسی شخص کی ایک یا متعدد نمازیں قصداً وعمداً چھوٹ جائیں تو اللہ تعالیٰ سے معافی کے ساتھ فوت شدہ نمازوں کی قضاء کرنی ضروری ہے، کیونکہ جمہور علماء حتی کہ چاروں ائمہ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال وافعال کی روشنی میں یہی کہا ہے، صرف زمانہ قدیم میں جناب داؤد ظاہری اور موجودہ زمانہ میں اہل حدیث حضرات نے اختلاف کیا ہے۔ اور جن بعض علماء نے نماز کے جان بوجھ کر ترک کرنے پر نماز کی قضاء کے واجب نہ ہونے کا جو فیصلہ فرمایا ہے وہ اصل میں اس بنیاد پر ہے کہ ان کے نقطۂ نظر میں جان بوجھ کر نماز چھوڑنے والا شخص کافر ہوجاتا ہے۔ اب جب کافر ہوگیا تو نماز کی قضاء کا معاملہ ہی نہیں رہا، لیکن جمہور علماء کی رائے ہے کہ جان بوجھ کر نماز چھوڑنے والا شخص کافر نہیں بلکہ فاسق یعنی گناہ گار ہے اور یہی قول زیادہ صحیح ہے ورنہ عصر حاضر میں امت مسلمہ کی ایک بڑی تعداد دائرہ اسلام سے خارج ہوجائے گی۔
صحیح مسلم کی سب سے مشہور شرح لکھنے والے اور ریاض الصالحین کے مصنف امام نووی ؒ نے شرح مسلم میں تحریر کیا ہے کہ علماء کا اس بات پر اجماع ہے کہ جو شخص نماز کو عمداً ترک کردے اس پر قضاء لازم ہے۔ بعض علماء نے مخالفت کی ہے مگر بعض علماء کی یہ رائے اجماع کے خلاف ہونے کے ساتھ دلیل کے لحاظ سے بھی باطل ہے۔ نیز انہوں نے تحریر کیا ہے کہ بعض اہل ظاہر سب سے الگ ہوگئے اور کہا کہ بلا عذر چھوٹی ہوئی نماز کی قضاء واجب نہیں، اور انہوں نے یہ خیال وگمان کیا کہ نماز کا چھوڑنا اس سے بڑا گناہ ہے کہ قضاء کرنے کی وجہ سے اس کے وبال سے نکل جائے، مگر یہ قول کے قائل کی غلطی وجہالت ہے۔ (شرح مسلم ج۱ ص ۲۳۸(
علامہ عبد الحی حنفی لکھنوی ؒ (جنہوں نے صرف ۴۰ سال کی عمر پائی اور تقریباً ۸۰ کتابیں تحریر فرمائیں، جن کی علمی صلاحیتوں کو تمام مکاتب فکر نے تسلیم کیا ہے ) تحریر کرتے ہیں کہ بعض اہل ظاہر سب سے الگ ہوگئے اور کہا کہ اپنے وقت میں نماز کو جان بوجھ کر چھوڑنے والے پر ضروری نہیں کہ دوسرے وقت میں اس کو ادا کرے۔ (التعلیق الممجد علی مؤطا للامام محمدص ۱۲۷) ۔
غور فرمائیں کہ جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھولنے والے یا سونے والے پر بھی فوت شدہ نماز کی قضاء کو لازم کیا ہے، حالانکہ یہ دونوں گناہ گار نہیں ہیں تو جان بوجھ کر قضاء کرنے والے پر بدرجہ اولیٰ نماز قضاء ہونی چاہئے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے قرآن کریم میں فرمایا گیا ہے کہ (اپنے والدین کو اف نہ کہو) تو اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جب والدین کو (اف) کہنا بھی جائز نہیں تو ان کو مارنا پیٹنا یا گالی دینا اور بھی برا اور سخت گناہ ہوگا۔ اسی طرح جب بھولنے اور سوجانے پر قضاء لازم کی گئی تو عمداً ترک نماز پر قضاء اور بھی زیادہ ضروری ہے۔
صحیح مسلم میں ہے کہ ایک شخص نے یا ایک عورت نے اللہ کے رسول سے عرض کیا کہ میری ماں کا انتقال ہوگیا اور اس پر ایک ماہ کے روزے رہ گئے ہیں تو کیا میں ان کی قضاء کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اگر تیری ماں پر قرض ہوتا تو کیا تو اس کو ادا کرتا؟ اس نے کہا کہ ہاں میں ادا کرتا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ کا قرض زیادہ مستحق ہے کہ اس کی ادائیگی کی جائے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد روزوں کی قضاء کے بارے میں ہے۔ اور ظاہر ہے کہ روزہ اور نماز میں فرض ہونے کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں بلکہ قرآن وحدیث میں نماز پڑھنے کی تاکید سب سے زیادہ وارد ہوئی ہے۔ لہذا جب روزے کی قضاء ہے تو نماز کی بھی قضاء ہونی چاہئے۔
نیز پوری امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ اگر کوئی شخص جان بوجھ کر رمضان کا روزہ ترک کردے تو اس کی قضاء ضروری ہے، اسی طرح اگر کسی شخص نے استطاعت کے باوجود حج ادا نہیں کیا تو اس کے مرنے پر اس کے وارثین پر لازم ہے کہ وراثت کی تقسیم سے قبل اس کے ترکہ میں سے حج بدل کا انتظام کیا جائے۔ اسی طرح اگر کسی شخص نے قصداً متعدد سالوں سے زکوٰۃ ادا نہیں کی اور اب اللہ تعالیٰ نے ہدایت دی ہے تو اسے گزشتہ سالوں کی زکوٰۃ ادا کرنی ہوگی۔
خلاصہ کلام یہ کہ ۱۴۰۰ سال سے جمہور فقہاء وعلماء ومحدثین ومفسرین کی یہی رائے ہے کہ نماز کے فوت ہونے پر اس کی قضاء کرنی ضروری ہے خواہ بھول جانے یا سوجانے کی وجہ سے نماز فوت ہوئی ہو یا جان بوجھ کر نماز چھوڑی گئی ہو، ایک نماز فوت ہوئی ہو یا ایک سے زیادہ۔ مشہور ومعروف چاروں ائمہ کی بھی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال وافعال کی روشنی میں یہی رائے ہے۔بھول جانے یا سوجانے کی صورت میں گناہ گار نہیں ہوگا مگر قضاء کرنی ہوگی اور قصداً نماز ترک کرنے پر نماز کی قضاء کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے معافی مانگنی ہوگی۔
جن علماء نے فرمایا ہے کہ قصداً نماز ترک کرنے والا کافر ہوجاتا ہے جیسا کہ سعودی عرب کے سابق مفتی اعظم شیخ عبدالعزیز بن باز ؒ کا موقف ہے، تو ان کا یہ قول کہ جان بوجھ کر چھوڑی گئی نماز کی قضاء نہیں ہے کسی حد تک سمجھ میں آتا ہے اگرچہ قصداً نماز چھوڑنے والے پر کافر ہونے کا فتویٰ لگانا جمہور علماء کے قول کے خلاف ہے۔ مگر وہ حضرات جو جمہور علماء کے قول کے مطابق تارک صلاۃ پر کافر ہونے کا فتویٰ تو صادر نہیں فرماتے مگر قصداً نماز ترک کرنے پر نماز کی قضاء کے ضروری نہ ہونے کا فیصلہ فرماتے ہیں تو ان کی یہ رائے جمہور علماء کے قول کے خلاف ہونے کے ساتھ ساتھ غیر منطقی اور دلائل کے اعتبار سے باطل بھی ہے جیسا کہ مشہور ومعروف محدث امام نووی ؒ نے تحریر کیا ہے۔ نیز احتیاط کا تقاضی بھی یہی ہے کہ فرض نماز کی قضاء کو واجب قرار دیا جائے تاکہ کل آخرت میں کسی طرح کی کوئی ذلت اٹھانی نہ پڑے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: قیامت کے دن آدمی کے اعمال میں سب سے پہلے فرض نماز کا حساب لیا جائے گا۔ اگر نماز درست ہوئی تو وہ کامیاب وکامران ہوگا، اور اگر نماز درست نہ ہوئی تو وہ ناکام اور خسارہ میں ہوگا۔ (ترمذی، ابن ماجہ، نسائی، ابوداؤد، مسند احمد(
جب ہم نے یہ تسلیم کیا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے نماز فرض کی ہے اور قصداً نماز چھوڑنے والا کافر نہیں، بلکہ فاسق وفاجر ہے تو قصداً نماز چھوڑنے پر قضاء کے واجب نہ قرار دینے کی بات سمجھ میں نہیں آتی۔ مثلاً اگر کسی شخص نے زنا کیا یا چوری کی تو اسے اللہ تعالیٰ سے معافی بھی مانگنی ہوگی اور اگر اس کا جرم شرعی عدالت میں ثابت ہوجاتا ہے تو اس پر حد بھی جاری ہوگی۔ یعنی اسے اللہ تعالیٰ سے معافی مانگنے کے ساتھ دنیاوی سزا بھی بھگتنی ہوگی۔ اسی طرح قصداً نماز چھوڑنے والے کو اللہ تبارک وتعالیٰ سے معافی مانگنے کے ساتھ نماز کی قضاء بھی کرنی ہوگی۔
غرضیکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال وافعال کی روشنی میں یہ بات واضح ہے کہ ہر نماز کو وقت پر ادا کرنا چاہئے، ہاں خدا نخواستہ اگر کوئی نماز چھوٹ جائے تو پہلی فرصت میں اس کی قضاء کرنی چاہئے خواہ بھول کی وجہ سے یا سونے کی وجہ سے یا کسی عذر کی وجہ سے نماز فوت ہوئی ہو یا محض لاپرواہی اور غفلت کی وجہ سے نماز ترک ہوئی ہو، ایک نماز فوت ہوئی ہو یا ایک سے زیادہ یا چند سالوں کی۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام کے زمانہ میں یہ تصور بھی نہیں تھا کہ کوئی مسلمان جان بوجھ کر کئی دنوں تک نماز نہ پڑھے ۔ خیرالقرون میں ایک واقعہ بھی قصداً چند ایام نماز ترک کرنے کا پیش نہیں آیابلکہ اس زمانہ میں تو منافقین کو بھی نماز چھوڑنے کی ہمت نہیں تھی۔ اگر لاپرواہی اور غفلت کی وجہ سے نمازیں ترک ہوئی ہیں تو سب سے قبل اللہ تعالیٰ سے معافی مانگنی چاہئے اور توبہ واستغفار کا سلسلہ موت تک جاری رکھ کر فوت شدہ نمازوں کی قضاء کرنی چاہئے خواہ وہ فوت شدہ نمازوں کو ایک وقت میں ادا کرے یا اپنی سہولت کے اعتبار سے ہر نماز کے ساتھ قضاء کرتا رہے۔ علماء کرام نے تحریر کیا ہے کہ ایسے شخص کے لئے بہتر ہے کہ وہ نوافل کا اہتمام نہ کرکے فوت شدہ نمازوں کی قضاء کرے۔ یہی ۱۴۰۰ سالوں سے جمہور فقہاء وعلماء ومحدثین ومفسرین کی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال وافعال کی روشنی میں رائے ہے اور عصر حاضر میں مشرق سے مغرب تک اکثر وبیشتر علماء کرام کی یہی رائے ہے اور یہی قول احتیاط پر مبنی ہے کہ نمازوں کو چھوڑنے کا سخت گناہ ہے حتی کہ علماء کرام نے فرمایا ہے کہ زنا کرنے، چوری کرنے اور شراب پینے سے بھی بڑا گناہ نماز کا ترک کرنا ہے۔ لہذا فوت شدہ نمازوں پر اللہ تعالیٰ سے معافی مانگنے کے ساتھ ان کی قضاء بھی کرنی چاہئے۔
اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں نمازوں کو ان کے اوقات پر پڑھنے والا بنائے اور ایک وقت کی نماز بھی ہماری فوت نہ ہو۔
محمدنجیب قاسمی سنبھلی (www.najeebqasmi.com)

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز
بسم الله الرحمن الرحيم
اَلْحَمْدُ لِله رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلام عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز
اللہ جل شانہ کا پیار بھرا خطاب حضور سے ہے کہ آپ رات کے بڑے حصہ میں نماز تہجد پڑھا کریں: اے چادر میں لپٹنے والے! رات کا تھوڑا حصہ چھوڑکر باقی رات میں (عبادت کے لئے) کھڑے ہوجایا کرو۔ رات کا آدھا حصہ یا آدھے سے کچھ کم یا اُس سے کچھ زیادہ اور قرآن کی تلاوت اطمینان سے صاف صاف کیا کرو۔ ( سورۃ المزمل:۱۔۴) اسی طرح سورۃ المزمل کی کی آخری آیت میں اللہ رب العزت فرماتا ہے: (اے پیغمبر!) تمہارا پروردگار جانتا ہے کہ تم دو تہائی رات کے قریب اور کبھی آدھی رات اور کبھی ایک تہائی رات (تہجد کی نماز کے لئے) کھڑے ہوتے ہو اور تمہارے ساتھیوں (صحابۂ کرام) میں سے بھی ایک جماعت (ایسا ہی کرتی ہے)۔
ابتداء اسلام میں پانچ نمازوں کی فرضیت سے قبل تک نماز تہجد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور تمام مسلمانو ں پر فرض تھی، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام رات کے ایک خاصے حصہ میں نماز تہجد پڑھا کرتے تھے۔ پانچ نمازوں کی فرضیت کے بعد نماز تہجد کی فرضیت تو ختم ہوگئی مگر اس کا استحباب باقی رہا، یعنی اللہ اور ا س کے رسول نے بار بار امت مسلمہ کو نماز تہجد پڑھنے کی ترغیب دی، چنانچہ قرآن کریم میں فرض نماز کے بعد نماز تہجد ہی کا ذکر متعدد مرتبہ آیا ہے۔ علماء کی ایک جماعت کی رائے ہے کہ پانچ نمازوں کی فرضیت کے بعد نماز تہجد عام مسلمانوں کے لئے تو فرض نہ رہی لیکن حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر آخری وقت تک فرض رہی۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رات کو قیام فرماتے یعنی نماز تہجد ادا کرتے یہاں تک کہ آپ کے پاؤں مبارک میں ورم آجاتا۔(صحیح بخاری) ذاتی تجربات سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک دو گھنٹے نماز پڑھنے سے پیروں میں ورم نہیں آتا ہے بلکہ رات کے ایک بڑے حصہ میں اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑے ہونے، طویل رکوع اور سجدہ کرنے کی وجہ سے ورم آتا ہے، چنانچہ سورۃ البقرہ اور سورۃ آل عمران جیسی لمبی لمبی سورتیں آپصلی اللہ علیہ وسلم ایک رکعت میں پڑھا کرتے تھے اور وہ بھی بہت اطمینان وسکون کے ساتھ۔
سورۃ المزمل کی ابتدائی آیات، آخری آیت، مذکورہ حدیث اور دیگر احادیث سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آپصلی اللہ علیہ وسلم رات کا دو تہائی یا آدھا یا ایک تہائی حصہ روزانہ نماز تہجد پڑھا کرتے تھے۔ نماز تہجد کے علاوہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پانچ فرض نمازیں بھی خشوع وخضوع کے ساتھ ادا کرتے تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم سنن ونوافل، نماز اشراق، نماز چاشت، تحيۃ الوضوء اور تحيۃ المسجد کا بھی اہتمام فرماتے اور پھر خاص خاص مواقع پر نماز ہی کے ذریعہ اللہ تعالیٰ سے رجوع فرماتے۔ سورج گرہن یا چاند گرہن ہوتا تو مسجد تشریف لے جاکر نماز میں مشغول ہوجاتے۔ کوئی پریشانی یا تکلیف پہنچتی تو مسجد کا رخ کرتے۔ سفر سے واپسی ہوتی تو پہلے مسجد تشریف لے جاکر نماز ادا کرتے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اطمینان وسکون کے ساتھ نماز پڑھا کرتے تھے۔
غرضیکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم روزانہ تقریباً ۸ گھنٹے نماز جیسی عظیم الشان عبادت میں گزارتے تھے۔ نماز کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد نبوی کے مؤذن حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے فرماتے تھے: اَرِحْنَا بها يابِلَال۔۔۔اے بلال! اٹھو، نماز کا بندوبست کرکے ہمارے دل کو چین اور آرام پہنچاؤ ۔ یعنی نماز پڑھنے سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو سکون ملتا تھا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری وصیت بھی نماز پڑھنے کے متعلق ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو رحمۃ للعالمین بناکر مبعوث فرمایا ہے، اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کی تکلیفوں کی بہت فکر کرتے تھے، مگر نماز میں سستی وکاہلی کرنے والے کے متعلق حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات بہت سخت ہیں، حتی کہ ان ارشادات کی روشنی میں علماء کی ایک جماعت کی رائے ہے کہ جان بوجھ کرنمازیں چھوڑنے والا کافر ہے، اگرچہ جمہور علماء کے موقف کے مطابق ایسا شخص کافر نہیں بلکہ فاسق وگناہ گار ہے۔
انتہائی افسوس وفکر کی بات ہے کہ آج ہم نبی رحمت کا نام لینے والے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں کی ٹھنڈک یعنی نماز پڑھنے کے لئے بھی تیار نہیں ہیں جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قیمتی زندگی کا وافر حصہ لگایا۔
نماز پڑھئے قبل اس کے کہ آپ کی نماز پڑھی جائے۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو نماز کا اہتمام کرنے والا بنائے۔ محمد نجیب قاسمی (www.najeebqasmi.com)

مریض کی نماز کا حکم

بسم الله الرحمن الرحيم

اَلْحَمْدُ لِله رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلام عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔

مریض کی نماز کا حکم

اگر کوئی بیمار ایسا ہے کہ اس کے کپڑے یا بدن کی ناپاکی دور نہیں کی جاسکتی ہے مثلاً پیشاب کے لئے تھیلی لگی ہوئی ہے تو وہ ناپاکی کی موجودگی میں نماز ادا کرے گا۔ جہاں تک وضو کرنے کا معاملہ ہے تو اگر وضو کرسکتا ہے تو وضو کرے ورنہ تیمم کرے۔ اور اگر کوئی دوسرا شخص وضو یا تیمم کراسکتا ہے تو کرادے۔ وضو میں جو اعضاء دھوئے جاتے ہیں اگر اُس جگہ پر پٹی بندھی ہوئی ہے تو وضو کرنے کی صورت میں جس جگہ پر پٹی بندھی ہوئی ہے اُس جگہ پر مسح کرلے، باقی اعضاء کو دھولے۔ تیمم کے لئے مٹی یا مٹی کی جنس سے کوئی چیز ہونی چاہئے یا کم از کم اس پر مٹی کا کچھ اثر ہو۔ آج کل جو اعلیٰ قسم کے پینٹ دیواروں پر ہوتے ہیں اس سے تیمم نہیں کیا جاسکتا ہے۔ اگر کوئی بیمار وضو نہیں کر سکتا ہے اور مٹی یا مٹی کی جنس سے کوئی چیز مہیا بھی نہیں ہے تو پھر بغیر وضو یا تیمم کے ہی نماز ادا کرلے۔
بیمار اگر کھڑے ہوکر نماز ادا نہیں کرسکتا ہے توبیٹھ کر ادا کرے، اگر بیٹھ کر بھی ادا نہیں کرسکتا ہے تو لیٹ کر ہی ادا کرے،حتی کہ علماء کرام نے تحریر کیا ہے کہ اشارہ سے بھی نماز پڑھ سکتا ہے تو اس کو پڑھنی چاہئے، یعنی یہ خیال کرے کہ میں اب رکوع میں ہوں اور اب میں سجدہ میں ہوں اور دل ہی دل میں جو نماز میں پڑھا جاتا ہے، اسے پڑھتا رہے۔
اگر مریض قبلہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑھ سکتا ہے تو اس کو قبلہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑھنی چاہئے لیکن اگر کسی عذر کی وجہ سے قبلہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑھنا ممکن نہیں ہے تو جس طرف ممکن ہو رخ کرکے نماز پڑھ لے۔
اگر کسی شخص کی سخت بیماری کی وجہ سے نمازیں چھوٹ گئیں تو صحت کے بعد اُن کی قضا کرنی ہوگی۔لیکن اگر کوئی شخص صحتیاب نہ ہوسکا اور دنیا سے رخصت ہوگیا تو وارثین کو چاہئے کہ ہر نماز کے بدلہ صدقۂ فطر کے مقدار صدقہ نکالیں، حضرت امام ابوحنیفہ ؒ اور علماء احناف کی تحقیق کے مطابق تقریباً پونے دو کیلو گیہوں یا اس کی قیمت ہر نماز کے بدلہ میں غریبوں کے دیں۔ اسی طرح اگر کوئی شخص بیماری کی وجہ سے روزہ نہیں رکھ سکا تو اس کو بعد میں قضا کرنی ہوگی۔ لیکن اگر کوئی شخص اپنے مرض یا بڑھاپے کی وجہ سے بعد میں بھی روزہ نہیں رکھ سکتا ہے تو ہر روزہ کے بدلہ میں صدقۂ فطر کے مقدار صدقہ نکالے۔ جو خواتین حیض یا نفاس کی وجہ سے روزہ نہیں رکھتی ہیں، انہیں بعد میں قضا کرنی ہوگی، صدقہ دینا کافی نہیں ہوگا، الّایہ کہ عورت کے لئے اپنے کسی مرض کی وجہ سے بعد میں بھی روزہ رکھنا دشوار ہو۔ بیمار شخص اگر سنن ونوافل پڑھ سکتا ہے تو پڑھ لے ورنہ صرف فرض ادا کرلے۔

جمع بین الصلاتین یعنی دو نمازوں کو اکٹھے پڑھنے کا حکم

بسم الله الرحمن الرحيم

اَلْحَمْدُ لِله رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلام عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔

جمع بین الصلاتین یعنی دو نمازوں کو اکٹھے پڑھنے کا حکم

نماز کی وقت پر ادائیگی سے متعلق آیات قرآنیہ اور متواتر احادیث کی روشنی میں مفسرین، محدثین، فقہاء وعلماء کرام کا اتفاق ہے کہ فرض نماز کو اس کے متعین اور مقرر وقت پر پڑھنا فرض ہے اور بلا عذر شرعی مقرر وقت سے تقدیم وتاخیر کرنا گناہ کبیرہ ہے۔
نماز کو وقت پر پڑھنے سے متعلق چند آیات:
بے شک نماز اہل ایمان پر فرض ہے جس کا وقت مقرر ہے۔(سورۃ النساء ۱۰۳)
نمازوں کی حفاظت کرو۔ مفسر قرآن علامہ ابن کثیر ؒ اس آیت کی تفسیر میں تحریر فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ وقت پر نمازوں کو ادا کرنے کی حفاظت کا حکم فرماتے ہیں۔ (سورۃ البقرۃ ۲۳۸)
اور وہ لوگ اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ (سورۃ المعارج۳۴) مفسر قرآن ابن کثیر ؒ اس آیت کی تفسیر میں تحریر فرماتے ہیں کہ وہ لوگ نماز کے اوقات، ارکان، واجبات اور مستحبات کی حفاظت کرتے ہیں۔
سو ان نمازیوں کے لئے بڑی خرابی ہے جو اپنی نماز میں کاہلی کرتے ہیں۔ (سورۃ الماعون۴ و ۵)مفسرین نے تحریرکیا ہے کہ وقت پر نماز کی ادائیگی نہ کرنا اس آیت کی وعید میں داخل ہے۔
قرآن کریم (سورۃ النساء آیت ۱۰۲)میں نماز خوف کی کیفیت اور اس کے اصول وآداب بیان کئے گئے ہیں۔ متعدد احادیث میں نماز خوف کی کیفیت بیان کی گئی ہے جن سے واضح ہوتا ہے کہ میدان جنگ میں اور عین جنگ کے وقت صرف نماز کی کیفیت میں تخفیف کی گنجائش ہے لیکن وقت کو نظر انداز کرنے کی اجازت نہیں ہے بلکہ امکانی حد تک وقت کی پابندی ضروری ہے۔ معلوم ہوا کہ اگر کفار سے جنگ ہورہی ہو اور اس وقت ذرا سی کاہلی بھی شکست کا سبب بن سکتی ہے تو اس موقع پر بھی دونمازوں کو جمع کرکے یعنی ایک کا وقت ختم ہونے کے بعد یا دوسرے کا وقت داخل ہونے سے قبل پڑھنا جائز نہیں ہے بلکہ نماز کو وقت پر ادا کیا جائے گا ، ورنہ وقت کے نکلنے کے بعد اسکی قضا کرنی ہوگی جیسا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوۂ احزاب کے موقع پر وقت پر ادائیگی نہ کرنے پر نماز کی قضا کی تھی۔
نماز کو وقت پر پڑھنے سے متعلق چند احادیث نبویہ :
نماز کے اوقات سے متعلق متعدد احادیث کتب حدیث میں موجود ہیں، جن میں سے ایک یہ ہے کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ کونسا عمل اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ پسندیدہ ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نماز کے وقت میں نماز پڑھنا۔ انہوں نے عرض کیا اس کے بعد کون سا عمل زیادہ محبوب ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ماں باپ کی خدمت کرنا۔ انہوں نے پھر عرض کیا کہ اس کے بعد کون سا عمل زیادہ محبوب ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ کے راستہ میں جہاد کرنا۔ (صحیح بخاری وصحیح مسلم)
اسی طرح حضرت جبرئیل علیہ السلام کی امامت والی حدیث متعدد صحابۂ کرام سے مروی ہے جس میں مذکور ہے کہ ۲ روز حضرت جبرئیل علیہ السلام نے امامت فرماکر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز پڑھائی۔ پہلے دن ہر نماز اول وقت میں پڑھائی اور دوسرے دن آخر وقت میں پڑھائی، پھر فرمایا کہ ہر نماز کا وقت ان دونوں وقتوں کے درمیان ہے۔ (ابوداود، ترمذی)
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ نماز کو وقت پر ادا فرماتے تھے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ غزوۂ احزاب میں ایک روز شدت جنگ کی وجہ سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز عصر فوت ہوگئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غروب آفتاب کے بعد اس کی قضا پڑھی اور کفار کے خلاف سخت الفاظ میں بددعا فرمائی کہ ان لوگوں نے ہمیں نماز عصر سے مشغول رکھا، اللہ تعالیٰ ان کے گھروں اور قبروں کو آگ سے بھر دے۔ (صحیح بخاری باب غزوہ الخندق، صحیح مسلم)
غور فرمائیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے طائف کے سفر میں جب کہ آپ کو لہولہان کردیا گیا تھا، فرشتہ نے آپ کے سامنے حاضر ہوکر ان کو کچلنے کی پیش کش بھی کی مگر رحمۃ للعالمین نے ان کے لئے ہدایت کی ہی دعا فرمائی، مگر غزوۂ احزاب میں کفار کی مزاحمت کی وجہ سے نماز کے قضا ہوجانے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس قدر صدمہ پہنچا کہ ان کے خلاف سخت سے سخت الفاظ میں بددعا فرمائی۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس شخص نے بغیر کسی عذر کے دو نمازوں کو جمع کرکے پڑھا اس نے کبیرہ گناہ کا ارتکاب کیا۔ (ترمذی باب ما جاء فی الجمع بین الصلاتین)
اس حدیث کے ایک راوی کو امام ترمذیؒ نے ضعیف کہا ہے، تاہم قرآن وحدیث کے دیگر نصوص سے اس حدیث کے مضمون کی تایید ہوتی ہے۔ نیز امام حاکم ؒ نے ان کو حسن وقوی تسلیم کیا ہے۔
حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مروی ہے کہ نماز میں کوتاہی یہ ہے کہ ایک نماز کو دوسرے نماز کے وقت تک مؤخر کردیا جائے۔ (صحیح مسلم باب قضاء الصلاۃ الفائتہ)
جمع بین الصلاتین:
قرآن وحدیث کی روشنی میں امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ ہر نماز کو اس کے وقت پر ہی ادا کرناچاہیے۔ یہی شریعت اسلامیہ میں مطلوب ہے، پوری زندگی اسی پر عمل کرنا چاہئے اور اسی کی دعوت دوسروں کو دینی چاہئے۔ لیکن اگر کوئی شخص سفر یا کسی شرعی عذر کی وجہ سے دو نمازوں کو اکٹھا کرنا چاہے تو اس سلسلہ میں فقہاء وعلماء کرام کا اختلاف ہے۔ فقہاء وعلماء کرام کی ایک جماعت نے سفر یا موسلادھار بارش کی وجہ سے ظہر وعصر میں جمع تقدیم وجمع تاخیر اسی طرح مغرب وعشاء میں جمع تقدیم وجمع تاخیر کی اجازت دی ہے۔ لیکن فقہاء وعلماء کرام کی دوسری جماعت نے احادیث نبویہ کی روشنی میں حقیقی جمع کی اجازت نہیں دی ہے۔ ۸۰ ہجری میں پیدا ہوئے مشہور تابعی وفقیہ حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی بھی یہی رائے ہے۔ ہندوپاک کے علماء کا بھی یہی موقف ہے۔ فقہاء وعلماء کی یہ جماعت‘ اُن احادیث کو جن میں جمع بین الصلاتین کا ذکر آیا ہے، ظاہری جمع پر محمول کرتی ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ ظہر کی نماز آخری وقت میں اور عصر کی نماز اوّل وقت میں ادا کی جائے، مثلاً ظہر کا وقت ایک بجے سے چار بجے تک ہے اور عصر کا وقت چار بجے سے غروب آفتاب تک تو ظہر کو چار بجے سے کچھ قبل اور عصر کو چار بجے پڑھا جائے۔ اس صورت میں ہر نماز اپنے اپنے وقت کے اندر ادا ہوگی، لیکن صورت وعمل کے لحاظ سے دونوں نمازیں اکٹھی ادا ہوں گی، اسی طرح مغرب کی نماز آخری وقت میں اور عشاء کی نماز اوّل وقت میں پڑھی جائے، اس کو جمع ظاہری یا جمع صوری یا جمع عملی کہا جاتا ہے۔ اس طرح تمام احادیث پر عمل بھی ہوجائے گا اور قرآن وحدیث کا اصل مطلوب ومقصود (یعنی نمازکی وقت پر ادائیگی) بھی ادا ہوجائے گا۔
مؤخر الذکر قول چند اسباب کی وجہ سے زیادہ راجح ہے۔
نماز کے اوقات کی تحدید قطعی فرض ہے جو قرآن کریم کی بعض آیات ومتعدد متواتر احادیث سے ثابت ہے اور پوری امت کا اس پر اجماع ہے۔ جمع بین الصلاتین دو نمازوں کو اکٹھی پڑھنے سے متعلق احادیث اخبار آحاد ہیں۔ قرآنی آیات اور متواتر احادیث کا اگر بظاہر تعارض خبر آحاد سے ہو تو خبر آحاد میں تاویل کرنی چاہئے، لہذا ان اخبار آحاد کو جمع ظاہری (یعنی نماز ظہر کو آخر وقت میں اور نماز عصر کو اوّل وقت میں ادا کیا جائے) پر محمول کیا جانا چاہئے تاکہ کسی طرح کا تعارض بھی نہ رہے اور تمام احادیث پر عمل بھی ہوجائے۔
بعض احادیث سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے زندگی میں حقیقی جمع بین الصلاتین صرف دو بار حج کے موقع پر کیا ہے:
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بے وقت نماز پڑھتے نہیں دیکھا (یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ وقت پر نماز پڑھتے تھے) مگر (حجۃ الوداع میں) مغرب وعشاء کو مزدلفہ میں اکٹھے پڑھا (یعنی عشاء کے وقت میں مغرب وعشاء اکٹھی پڑھیں)۔ (صحیح بخاری، کتاب الحج، من یصلی الفجر بجمع۔۔۔۔ صحیح مسلم)
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ نماز وقت پر پڑھتے تھے لیکن (حجۃ الوداع میں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عرفات میں ظہر وعصر کو ظہر کے وقت میں جمع کرکے پڑھا اور مزدلفہ میں مغرب وعشاء کو عشاء کے وقت میں جمع کرکے پڑھا۔ (نسائی)
حجاج کرام کے لئے عرفات (مسجد نمرہ) میں ظہروعصر کی حقیقی جمع اور مزدلفہ میں مغرب وعشاء کی حقیقی جمع متواتر احادیث سے ثابت ہے اور پوری امت کا اس پر اجماع ہے، لیکن حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عرفات اور مزدلفہ کے علاوہ کبھی بھی حقیقی جمع کی صورت میں دو نمازوں کا اکٹھا کرکے نہیں پڑھا جیساکہ احادیث بالا میں مذکور ہے۔
بعض احادیث کے الفاظ سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ دو نمازوں کو جمع کرکے پڑھنے سے متعلق احادیث کا تعلق جمع ظاہری سے ہے، مثلاً:
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سفر میں ظہر کو مؤخر اور عصر کو مقدم کرتے تھے، مغرب کو مؤخر اور عشاء کو مقدم کرتے تھے۔ (مسند امام احمد، طحاوی، مستدرک حاکم)
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما (ایک سفر میں )غروبِ شفق سے قبل سواری سے اترے، مغرب کی نماز پڑھی پھر انتظار کیا، غروب شفق کے بعد عشاء کی نماز ادا کی پھر فرمایا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب (سفر میں) جلدی ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح عمل فرماتے جیسے میں نے کیا ہے۔ (ابوداود، باب الجمع بین الصلاتین ۔ دار قطنی)
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ غزوۂ تبوک کے سفر میں نکلے تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ظہر وعصر کو اس طرح جمع کرتے، ظہر کو آخری وقت میں اور عصر کو اول وقت میں پڑھتے۔ (طبرانی اوسط)
حضرت ابو عثمان نہدی ؒ فرماتے ہیں کہ وہ اور حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کوفہ سے مکہ مکرمہ سفر حج پر جارہے تھے۔ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ ظہر وعصر کو اس طرح جمع کرتے کہ ظہر کو مؤخر کرتے اور عصر کو مقدم کرتے پھر دونوں کو اکٹھا ادا کرتے، مغرب کو مؤخر کرتے اور عشاء کو مقدم کرتے، پھر دونوں کو اکٹھا ادا کرتے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ باب من قال یجمع المسافر بین الصلاتین)
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ میں ظہر وعصر کو ملاکر پڑھا، حالانکہ یہ کسی خطرہ یا سفر کی حالت نہ تھی۔ حضرت ابو الزبیر ؒ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت سعیدؒ سے پوچھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کیوں کیا؟ حضرت سعید ؒ نے جواب دیا کہ میں نے بھی یہ بات حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھی تھی تو انہوں نے بتایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد تھا کہ لوگ تنگی میں مبتلا نہ ہوں۔ (صحیح مسلم، الجمع بین الصلاتین فی الحضر)
اس حدیث میں جمع بین الصلاتین سے مراد ظاہری جمع ہے یعنی ظہر کو اس کے آخر وقت میں اور عصر کو اس کے اول وقت میں پڑھا۔ محدثین کرام حتی کہ علامہ شوکانی ؒ نے بھی اس حدیث سے جمع صوری ہی مراد لیا ہے۔
ان تمام احادیث سے واضح طور پر معلوم ہوا ہے کہ ظاہری جمع جائز ہے، لیکن حقیقی جمع صرف دو جگہوں پر ہے۔
حدیث کے پورے ذخیرہ میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے صرف اُنہی دو نمازوں کے جمع کرنے کا ثبوت ملتا ہے جن کے اوقات آپس میں ملتے ہیں اور درمیان میں مکروہ وقت بھی نہیں ہے، جن کی وجہ سے ظاہری جمع پر عمل ہوسکتا ہے اور وہ صرف ظہر وعصر یا مغرب وعشاء کی نمازیں ہیں۔ باقی جن نمازوں کے اوقات باہم متصل نہیں ہیں، جیسے فجر وظہر یا اوقات تو متصل ہیں لیکن درمیان میں مکروہ وقت ہے جیسے عصر ومغرب یا عشاء وفجر کہ نصف شب کے بعد عشاء کا مکروہ وقت شروع ہوجاتا ہے۔ اگر حقیقی جمع جائز ہوتی تو پھر ظہر و عصر یا مغرب وعشاء کے ساتھ ہی خاص نہ ہوتی بلکہ عشاء وفجر یا فجر وظہر میں حقیقی جمع جائز ہوتی، اور اس کا کوئی بھی قائل نہیں ہے، معلوم ہوا کہ جن احادیث میں سفر وغیرہ کی وجہ سے دو نمازوں کے اکٹھے پڑھنے کا ذکر ہے اس سے مراد ایک نماز کو اس کے آخری وقت میں اور دوسری نماز کو اس کے اوّل وقت میں ادا کرنا ہے۔
بعض احادیث میں آتا ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض دفعہ سفر یا خوف یا بارش کے عذر کے بغیر بھی دو نمازوں کو اکٹھا کرکے پڑھا۔ اگر دو نمازوں کی حقیقی جمع جائز ہوتی تو ان احادیث کی وجہ سے بغیر کسی عذر کے بھی دو نمازوں کو حقیقی جمع کرکے پڑھنا جائز ہوتا، حالانکہ اہل سنت والجماعت میں کوئی بھی اس کا قائل نہیں ہے ۔ معلوم ہوا کہ اس طرح کی احادیث سے مرادایک نماز کو اس کے آخری وقت میں اور دوسری نماز کو اس کے اوّل وقت میں ادا کرنا ہے۔ غزوۂ تبوک کے طویل سفر میں یہی صورتِ عمل تھی کہ سفر بہت طویل تھا، موسم سخت گرم تھا، طہارت ووضو کے لئے پانی کی قلت تھی، اسلامی فوج کی تعداد تقریباً تیس ہزار تھی اتنے بڑے لشکر کا ان مذکورہ حالات میں باربار اترنا اور سوارہونا انتہائی مشکل تھا، اس لئے ظاہری جمع پر عمل کیا گیا یعنی ایک نماز کو اس کے آخری وقت میں اور دوسری نماز کو اس کے اوّل وقت میں ادا کیا گیا۔
غرضیکہ نماز کو وقت پر ہی ادا کرنا چاہئے سوائے ۹ ذی الحجہ کو مسجد نمرہ (عرفات) میں ظہر وعصر کی ادائیگی ظہر کے وقت میں اور مزدلفہ میں مغرب وعشاء کی ادائیگی عشاء کے وقت میں، لیکن اگر کوئی عذر شرعی ہے مثلاً سفر میں ہیں اور بار بار رکنا دشواری کا سبب ہے تو دو نمازیں ظاہری جمع کرکے ادا کرلی جائیں یعنی ایک نماز کو اس کے آخری وقت میں اور دوسری نماز کو اس کے اوّل وقت میں ادا کرلیا جائے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو وقت پر نماز کا اہتمام کرنے والا بنائے اور نماز میں کوتاہی کو تمام شکلوں سے حفاظت فرمائے، آمین۔
محمد نجیب قاسمی سنبھلی، ریاض (najeebqasmi@yahoo.com)

صلاۃ التسبیح: اہمیت وفضیلت اور پڑھنے کا طریقہ

بسم الله الرحمن الرحيم

اَلْحَمْدُ لِله رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلام عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔

صلاۃ التسبیح: اہمیت وفضیلت اور پڑھنے کا طریقہ

قیامت تک آنے والے سارے انس وجن کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات میں صلاۃ التسبیح پڑھنے کی خاص فضیلت وارد ہوئی ہے اور وہ فضیلت یہ ہے کہ اس کے ذریعہ سابقہ گناہوں کی مغفرت ہوتی ہے۔ صلاۃ التسبیح سے متعلق یہ مختصر مضمون تحریر کررہا ہوں تاکہ ہم حسب سہولت اس نماز کی بھی ادائیگی کرلیا کریں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں صحیح عبادت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
وجہ تسمیہ: اس نماز میں اللہ تعالیٰ کی تسبیح کثرت سے بیان کی جاتی ہے اس لئے اس نماز کو صلاۃ التسبیح کہا جاتا ہے ۔ سُبْحَانَ الله وَالْحَمْدُ لله وَلاإله إلَّا اللّه وَاللّه اَکْبَرکہنا اللہ تعالیٰ کی تسبیح ہے۔ اس نماز کی ہر رکعت میں یہ کلمات ۷۵ مرتبہ پڑھے جاتے ہیں، اس طرح چار رکعت پر مشتمل اس نماز میں ۳۰۰ مرتبہ تسبیح پڑھی جاتی ہے۔
صلاۃ التسبیح کی شرعی دلیل:
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ سے فرمایا: اے میرے چچا عباس! کیا میں تمہیں ایک تحفہ، ایک انعام اور ایک بھلائی یعنی ایسی دس خصلتیں نہ بتاؤں کہ اگر آپ ان پر عمل کریں تو اللہ تعالیٰ آپ کے سارے گناہ پہلے اور بعد کے، نئے اور پرانے، دانستہ اور نادانستہ، چھوٹے اور بڑے، پوشیدہ اور ظاہر سب معاف فرمادے۔ وہ دس خصلتیں (باتیں) یہ ہیں کہ آپ چار رکعت نماز ادا کریں، ہر رکعت میں سورۃ فاتحہ اور ایک سورۃ پڑھیں۔ جب آپ پہلی رکعت میں قراء ت سے فارغ ہوجائیں تو قیام ہی کی حالت میں پندرہ مرتبہ یہ تسبیح پڑھیں (سُبْحَانَ الله وَالْحَمْدُ لله وَلاإله إلَّا اللّه وَاللّه اَکْبَر) پھر رکوع کریں، (سُبْحَانَ رَبّی الْعَظِیم کہنے کے بعد) رکوع ہی میں دس مرتبہ یہی تسبیح پڑھیں۔ پھر رکوع سے سر اٹھائیں اور (قومہ کے کلمات ادا کرنے کے بعد پھر) دس مرتبہ تسبیح پڑھیں۔ اس کے بعد سجدہ کریں ( سجدہ میں سُبْحَانَ رَبّی الْاعْلٰی کہنے کے بعد) دس مرتبہ پھر یہی تسبیح پڑھیں۔ پھر سجدہ سے اٹھ کر دس مرتبہ یہی تسبیح پڑھیں۔ دوسرے سجدہ میں جاکر (سُبْحَانَ رَبّی الْاعْلٰی کہنے کے بعد) دس مرتبہ تسبیح پڑھیں۔ پھر سجدہ سے سر اٹھائیں اور دس مرتبہ تسبیح پڑھیں۔ اس طرح ایک رکعت میں تسبیحات کی کل تعداد پچھتر (۷۵) ہوگئی۔ چاروں رکعتوں میں آپ یہی عمل دہرائیں۔
اے میرے چچا ! اگر آپ ہر روز ایک مرتبہ صلاۃ التسبیح پڑھ سکتے ہیں تو پڑھ لیں۔ اگر روزانہ نہ پڑھ سکیں تو ہر جمعہ کو ایک بار پڑھ لیں۔ اگر ہفتہ میں بھی نہ پڑھ سکیں تو پھر ہر مہینہ میں ایک مرتبہ پڑھ لیں۔ اگر مہینے میں بھی نہ پڑھ سکیں تو ہر سال میں ایک مرتبہ پڑھ لیں۔ اگر سال میں بھی ایک بار نہ پڑھ سکیں تو ساری زندگی میں ایک بار پڑھ لیں۔
)سنن ابوداود ج۱ ص ۱۹۰ باب صلوٰۃ التسبیح۔ جامع الترمذی ج۱ ص ۱۰۹ باب ما جاء فی صلوٰۃ التسبیح۔ سنن ابن ماجہ ج۱ ص ۹۹باب ماجاء فی صلوٰۃ التسبیح۔ الترغیب والترھیب للمنذری ج۱ ص ۲۶۸ الترغیب فی صلوٰۃ التسبیح(
نوٹ: یہ حدیث حدیث کی بیسیوں کتابوں میں مذکور ہے مگر اختصار کے مدنظر صرف ۴ کتابوں کا حوالہ دیا گیا ہے۔
ایک دوسرا طریقہ بھی صلاۃ التسبیح کے متعلق مروی ہے۔ وہ یہ ہے کہ ثناء پڑھنے کے بعد مذکورہ تسبیح پندرہ مرتبہ پڑھی جائے، پھر رکوع سے پہلے، رکوع کی حالت میں، رکوع کے بعد، سجدہ اولیٰ میں، سجدہ کے بعد بیٹھنے کی حالت میں، پھر دوسرے سجدہ میں دس دس بار پڑھی جائے۔ پھر دوسرے سجدہ کے بعد نہ بیٹھیں بلکہ کھڑے ہوجائیں۔ باقی ترتیب وہی ہے۔
)جامع الترمذی ج ۱ ص ۱۰۹ باب ماجاء فی صلوٰۃ التسبیح۔ الترغیب والترہیب للمنذری ج۱ ص ۲۶۹ الترغیب فی صلاۃ التسبیح(
اس حدیث کے فوائد:
اس حدیث میں صلاۃ التسبیح کی فضیلت کا بیان، اسکی تعداد رکعت کا ذکر اور نماز کی کیفیت کا بیان ہوا، نیز اس نماز کو وقتاً فوقتاً پڑھنے کا استحباب بھی معلوم ہوا۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی عزت افزائی ہوئی۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو امت مسلمہ کی کتنی فکر رہا کرتی تھی۔
اس حدیث سے شریعت اسلامیہ کے ایک اہم اصول (نیکیاں گناہوں کو مٹاتی ہیں)کی تایید ہوتی ہے۔
صلاۃ التسبیح کی اہم فضیلت سابقہ گناہوں کی مغفرت:
صلاۃ التسبیح سے متعلق حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ اس نماز کے پڑھنے کی برکت سے سارے گناہ پہلے اور بعد کے، نئے اور پرانے، دانستہ اور نادانستہ، چھوٹے اور بڑے، پوشیدہ اور ظاہر سب معاف فرمادیتا ہے۔ یقیناًہم گناہ گار ہیں، ہمیں اپنے گناہوں سے توبہ واستغفار کے ساتھ وقتاً فوقتاً صلاۃ التسبیح کا اہتمام کرنا چاہئے تاکہ ہمارے گناہ معاف ہوجائیں۔ گناہوں کی معافی میں نماز کا بڑا اثر ہے، چنانچہ صحیح بخاری وصحیح مسلم میں ہے کہ ایک شخص نے ایک عورت کا بوسہ لے لیا اور وہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اس نے اپنے گناہ کے ارتکاب کا اقرار کیا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: (دن کے دونوں سروں میں نماز قائم رکھ اور رات کے کچھ حصہ میں بھی۔ یقیناًنیکیاں برائیوں کو دور کردیتی ہیں) (سورۃ ہود ۱۱۴) تو اس شخص نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا کہ یہ صرف میرے لئے ہے؟ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشا د فرمایا : یہ فضیلت میری پوری امت کے لئے ہے۔ شریعت کا اصول (نیکیوں سے گناہ مٹتے ہیں) ایک شخص کے واقعہ پر نازل ہوا مگر قیامت تک آنے والے تمام انسانوں کے لئے ہے۔ اسی طرح حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ پانچوں نمازیں، جمعہ کی نماز پچھلے جمعہ کی نماز تک اور رمضان کے روزے پچھلے رمضان تک درمیانی اوقات کے گناہوں کے لئے کفارہ ہیں جبکہ ان اعمال کو کرنے والا بڑے گناہوں سے بچے۔ (صحیح مسلم) غرضیکہ قرآن وحدیث کی روشنی میں امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ نماز کے ذریعہ اللہ تعالیٰ گناہوں کی مغفرت فرماتا ہے۔ نیز متعدد احادیث میں وارد ہے کہ ذکر کے ذریعہ اللہ تعالیٰ گناہوں کی مغفرت فرماتا ہے اور صلاۃ التسبیح میں وارد (سُبْحَانَ الله وَالْحَمْدُ لله وَلاإله إلَّا اللّه وَاللّه اَکْبَر) ذکر ہی تو ہے۔ غرضیکہ نماز سے سابقہ گناہوں کی مغفرت کا ہونا ایسا امر ہے جو قرآن وسنت سے ثابت ہے۔صلاۃ التسبیح بھی ایک نماز ہے، لہذا اس کے ذریعہ سابقہ گناہوں کی مغفرت پر کوئی شک وشبہ نہیں ہونا چاہئے۔
سلف صالحین کا صلاۃ التسبیح کا اہتمام:
مشہور ومعروف محدث امام بیہقی ؒ (۳۸۴ھ۔۴۵۸ھ)نے حدیث کی مشہور کتاب (شعب الایمان ۱ /۲۴۷) میں تحریر کیا ہے کہ امام حدیث شیخ عبداللہ بن مبارک ؒ (۱۱۸ھ ۔۱۸۱ھ) صلاۃ التسبیح پڑھا کرتے تھے اور دیگر سلف صالحین بھی اہتمام کرتے تھے۔ اس موضوع پر زمانہ قدیم سے محدثین ، مفسرین، فقہاء وعلماء نے متعدد کتابیں تحریر فرماکر صلاۃ التسبیح کے صحیح ہونے کے متعدد دلائل ذکر فرمائے ہیں، جن میں سے امام حافظ ابوبکر خطیب بغدادیؒ (۳۹۲ھ۔۴۶۳ھ) کی کتاب (ذکر صلاۃ التسبیح) کافی اہم ہے۔
صلاۃ التسبیح کا وقت:
اس نماز کے لئے کوئی وقت نہیں ہے ، دن یا رات میں جب چاہیں ادا کرسکتے ہیں سوائے اُن اوقات کے جن میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود وضاحت فرمادی ہے کہ اگر آپ ہر روز ایک مرتبہ نماز تسبیح پڑھ سکتے ہیں تو پڑھیں۔ اگر روزانہ نہ پڑھ سکیں تو ہر جمعہ کو ایک بار پڑھیں۔ اگر ہفتہ میں بھی نہ پڑھ سکیں تو پھر ہر مہینہ میں ایک مرتبہ پڑھیں۔ اگر مہینے میں بھی نہ پڑھ سکیں تو ہر سال میں ایک مرتبہ پڑھیں۔ اگر سال میں بھی ایک بار نہ پڑھ سکیں تو ساری زندگی میں ایک بار پڑھ لیں۔
صلاۃ التسبیح پڑھنے کا طریقہ:
پہلا طریقہ: جس طرح چار رکعت ادا کی جاتی ہے اسی طرح چار رکعت نماز ادا کریں۔ جب آپ پہلی رکعت میں قراء ت سے فارغ ہوجائیں تو رکوع میں جانے سے قبل قیام ہی کی حالت میں پندرہ مرتبہ یہ تسبیح پڑھیں (سُبْحَانَ الله وَالْحَمْدُ لله وَلاإله إلَّا اللّه وَاللّه اَکْبَر) پھر رکوع کریں، (سُبْحَانَ رَبّی الْعَظِیم کہنے کے بعد) رکوع ہی میں دس مرتبہ یہی تسبیح پڑھیں۔ پھر رکوع سے سر اٹھائیں اور (قومہ کے کلمات ادا کرنے کے بعد پھر) دس مرتبہ تسبیح پڑھیں۔ اس کے بعد سجدہ کریں (سجدہ میں سُبْحَانَ رَبّی الْاعْلٰی کہنے کے بعد) دس مرتبہ پھر یہی تسبیح پڑھیں۔ پھر سجدہ سے اٹھ کر دس مرتبہ یہی تسبیح پڑھیں۔ دوسرے سجدہ میں جاکر (سُبْحَانَ رَبّی الْاعْلٰی کہنے کے بعد) دس مرتبہ تسبیح پڑھیں۔ پھر سجدہ سے سر اٹھائیں اور دس مرتبہ تسبیح پڑھیں۔ اس طرح ایک رکعت میں تسبیحات کی کل تعداد پچھتر (۷۵) ہوگئی۔ چاروں رکعتوں میں آپ یہی عمل دہرائیں۔
دوسرا طریقہ: ثناء پڑھنے کے بعد مذکورہ تسبیح پندرہ مرتبہ پڑھی جائے، پھر رکوع سے پہلے، رکوع کی حالت میں، رکوع کے بعد، سجدہ اولیٰ میں، پہلے سجدہ کے بعد بیٹھنے کی حالت میں، پھر دوسرے سجدہ میں دس دس بار پڑھی جائے۔ پھر دوسرے سجدہ کے بعد نہ بیٹھیں بلکہ کھڑے ہوجائیں۔ باقی ترتیب وہی ہے۔
ایک شبہ کا ازالہ:
اس دور میں ایک نیا فتنہ برپا ہوا ہے کہ بعض حضرات نے شریعت کی صرف (الف ب ت) سے واقف ہوکر مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد حتی کہ علماء کرام کو کافر، مشرک اور بدعتی قرار دینے کو اپنی زندگی کا مقصد بنا لیا ہے۔ اور لوگوں کے سامنے اپنی رائے اس طرح تھوپنی شروع کردی ہے کہ جو انہوں نے یا اُن کے علماء نے سمجھا ہے صرف اور صرف وہی صحیح ہے، باقی تمام مکاتب فکر کافر، مشرک اور بدعتی ہیں۔ چنانچہ انہوں نے صلاۃ التسبیح سے متعلق احادیث کو ضعیف یا موضوع قرار دے کر بڑی جرأ ت سے کام لیا اور اس نماز کو ہی بدعت قراردینا شروع کردیا ہے۔ حالانکہ صلاۃ التسبیح سے متعلق احادیث حدیث کی اُن مشہور ومعروف کتابوں میں مذکور ہیں جنہیں امت مسلمہ میں زمانۂ قدیم سے ہی مقبولیت حاصل ہے، جن کو صحاح ستہ کہا جاتا ہے یعنی حدیث کی چھ صحیح کتابیں۔ اور ابتداء سے عصر حاضر تک کے ہر زمانہ کے محدثین کی ایک جماعت نے ان احادیث کو صحیح قرار دیا ہے، حتی کہ عصر حاضر کے شیخ ناصر الدین البانی ؒ نے بھی ابوداود میں وارد صلاۃ التسبیح سے متعلق حدیث کو صحیح قرار دیا ہے ۔ علماء کرام کی ایک بڑی جماعت نے شیخ ناصر الدین البانی ؒ پر متعدد اعتراضات بھی کئے ہیں کہ انہوں نے احادیث کے اتنے بڑے ذخیرہ کو ضعیف قرار دیا ہے کہ تدوین حدیث سے آج تک اس کی کوئی مثال نہیں ملتی ہے، جس سے شریعت اسلامیہ کے دوسرے اہم ذریعہ پر شک وشبہ پیدا ہوتا ہے۔ نیز بڑے بڑے محدثین جن کی قرآن وحدیث کی خدمات سے قیامت تک آنے والے انسان مستفید ہوتے رہیں گے (مثلاً محمد بن اسحاق ابن مندہ، امام خطیب بغدادیؒ ، ابوبکر محمد بن منصور السمعانی ؒ ، امام منذریؒ ، ابن صلاح، امام مسلمؒ ، امام نوویؒ ، امام اسحاق بن راہویہؒ ، ابن حجر العسقلانی ؒ ، ابن حجر الہیثمیؒ ، شیخ عبداللہ بن مبارک ؒ اور علامہ احمد شاکرؒ )نے بھی صلاۃ التسبیح سے متعلق احادیث کو صحیح قرار دیا ہے۔ جب محدثین کی ایک جماعت نے ان احادیث کو یا صرف ایک حدیث کو بھی صحیح قرار دیا تو پھر بھی صلاۃ التسبیح کو بدعت قرار دینے کی ہمت کرنا کوئی عقلمندی نہیں ہے، بلکہ یہ صرف اور صرف ہٹ دھرمی ہے۔ اگر کسی باب میں ایک حدیث بھی صحیح مل گئی، یا مختلف سندوں سے وارد احادیث موجود ہیں جن کی سند میں کچھ ضعف بھی ہے، تو اُس عمل کو بدعت کہنے کا کوئی حق نہیں ہے، کیونکہ بہت قوی امید ہیکہ یہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی فرمان ہو۔
دوسرے شبہ کا ازالہ:
بعض حضرات کہتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نماز صرف اپنے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو ہی کیوں سکھائی، عمومی طور پر مسلمانوں کو اس نماز کی تعلیم کیوں نہیں دی۔ تو ہمیں یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کرنی چاہئے کہ قرآن وحدیث کے متعدد احکام بعض انفرادی واقعات پر نازل ہوئے ہیں لیکن قیامت تک آنے والے تمام ہی انسانوں کے لئے یہ احکام ہیں۔ مثلاً حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان(رمضان المبارک میں عمرہ کی ادائیگی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کی ادائیگی کے برابر ہے) ایک خاص موقع پر ایک عورت (صحابیہ) کے لئے تھا مگر قیامت تک آنے والے تمام انسانوں کو یہ فضیلت حاصل ہوگی، ان شاء اللہ۔ اسی طرح صلاۃ التسبیح کی ابتدائی تعلیم حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے لئے تھی مگر قیامت تک آنے والے تمام انسانوں کو اس نماز کے پڑھنے کی فضیلت حاصل ہوگی، ان شاء اللہ۔
تیسرے شبہ کا ازالہ:
بعض حضرات کہتے ہیں کہ جب صلاۃ التسبیح سے متعلق احادیث کے صحیح یا ضعیف ہونے میں اختلاف ہے تو صلاۃ التسبیح کو کیوں ادا کیا جائے بلکہ دیگر سنن ونوافل کا اہتمام کیا جائے۔ میرے بھائیو! صلاۃ التسبیح کا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہونے کا ہمیں پورا یقین ہے۔ اس میں ہمارے لئے کسی طرح کا کوئی شک وشبہ نہیں ہے، اس لئے ہم اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق حسب سہولت صلاۃ التسبیح ادا کرتے ہیں۔ آپ نہیں پڑھنا چاہتے تو نہ پڑھیں لیکن صلاۃ التسبیح کو بدعت قرار دینا خطرہ سے خالی نہیں ہے، کیونکہ بہت ممکن ہے کہ اس سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کو ہی بدعت قرار دینا لازم آئے۔
اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کو اللہ تعالیٰ کے احکام وحضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کے مطابق زندگی گزارنے والا بنائے۔ آمین۔
محمد نجیب قاسمی سنبھلی (www.najeebqasmi.com)

نمازی کے سامنے سے گزرنے کی سزا

بسم الله الرحمن الرحيم

اَلْحَمْدُ لِله رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلام عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔

نمازی کے سامنے سے گزرنے کی سزا

نمازی کے آگے سے گزرنا بڑا گناہ ہے۔ لہذا گزرنے والوں کو چاہئے کہ وہ نمازی کا خیال رکھیں۔ اسی طرح نماز پڑھنے والوں کو بھی چاہئے کہ وہ ایسی جگہ نماز پڑھیں جہاں سے گزرنے والوں کو پریشانی نہ ہو اور اگر ایسی جگہ نہ ملے تو انہیں چاہئے کہ وہ اپنے سامنے کوئی چیز مثلاً کرسی یا لکڑی کا تختہ سُترہ کے طور پر رکھ لیں، جس کی اونچائی تقریباً ایک ذراع کے قریب (ایک فٹ سے کچھ زیادہ) ہو ۔
نمازی کے سامنے سے گزرنے اور سُترہ کے متعلق چند احادیث:
* حضرت ابو جہم سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نمازی کے سامنے سے گزرنے والا اگر جان لے کہ اس پر کتنی بڑی سزا ہے تو وہ اس کے سامنے سے گزرنے کی بجائے چالیس تک ٹھہرا رہتا، تو یہ بہتر تھا۔ (بخاری۔ مسلم۔ موطا مالک)
ابو النضر ؒ کہتے ہیں کہ مجھے معلوم نہیں،آپ کی مراد چالیس دن تھی یا چالیس مہینہ یا چالیس سال۔ البتہ مسند احمد اور ابن ماجہ کی احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اِس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد چالیس سال ہے، یعنی نمازی کے آگے سے گزرنا نہیں چاہئے خواہ ۴۰ سال تک کھڑا رہنا پڑے۔
* حضرت کعب احبار ؓ فرماتے ہیں کہ اگر نمازی کے سامنے سے گزرنے والے کو معلوم ہوجائے کہ اس پر کتنی سخت سزا ہے تو اس کے بدلے اگر وہ زمین میں دھنس جائے تو اس کے لئے نمازی کے سامنے سے گزرنے سے یہ بہتر ہے۔ (موطا مالک، باب التشدید فی ان یمر احد بین یدی المصلی)
* حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز کے سُترہ کی بابت پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مؤخرہ الرحل (کجاوہ کی کیل) کی طرح۔ (مسلم، سترۃ المصلّی)
علامہ نووی ؒ اس کی تشریح فرماتے ہیں سُترہ کی کم از کم مقدار ‘ کجاوہ کی کیل جتنی ہوتی ہے جو کہ کلائی کی ہڈی اور دوتہائی ذراع کے برابر ہوتی ہے اور اسی طرح کی کوئی چیز کھڑی کرنے سے یہ مقصد حاصل ہوجائے گا۔
* حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید گاہ تشریف لے جاتے اور آپ کے آگے نیزہ بردار ہوتا۔ یہ نیزہ عید گاہ میں آپ ا کے سامنے گاڑ دیا جاتا پھر آپ ااس طرف نماز پڑھتے۔ (مسلم، سترۃ المصلّی)
چند ضروری مسائل :
* اگر کسی میدان یا صحن میں نماز ادا کی جارہی ہے تو باجماعت نماز میں امام کا سُترہ سب کی طرف سے کافی ہے۔ پھر سُترہ کی موجودگی میں اگر کوئی شخص سامنے سے گزر جائے تو گنہگار نہیں ہوگا۔
* مسجدِ حرام (مکہ مکرمہ) میں نماز پڑھنے والوں کے آگے سے گزرنے کی گنجائش ہے۔ مسجد نبوی (مدینہ منورہ) کا حکم بھی مسجد حرام کی طرح ہے کہ وہاں پر بھی ازدحام زیادہ ہونے کی صورت میں نماز پڑھنے والوں کے آگے سے گزر سکتے ہیں۔ مگر دونوں مسجدوں (مسجد حرام اور مسجد نبوی) میں بھی نمازی کے آگے گزرنے سے حتی الامکان بچنے کی کوشش کریں۔
* احادیث میں نمازی کے آگے سے گزرنے سے منع کیا گیا ہے، لہذا اگر کوئی شخص مسجد میں بیٹھا ہوا ہے اور اس کے پیچھے کوئی شخص نماز پڑھ رہا ہے، تو یہ شخص نمازی کے آگے سے اٹھ کر جاسکتا ہے ، کیونکہ یہ نمازی کے آگے سے گزرنا نہیں کہلایا جائے گا۔
* نمازی اگر کسی شخص کو اُس کے آگے سے گزرتا ہوا دیکھے ، تو ایک ہاتھ کے اشارہ سے نمازی اُس گزرنے والے شخص کو روک سکتا ہے۔ اگر کوئی شخص گزر ہی جائے تو نماز پڑھنے والے کی نماز اس سے فاسد نہیں ہوگی۔
* اگر سُترہ نہیں رکھا ہے تو تین چار صفوں کے بعد نمازی کے آگے سے گزر نے کی گنجائش ہے۔ دیگر علماء نے ایک صف کے بعد گزرنے کی اجازت دی ہے۔ مگر احتیاط اسی میں ہے کہ نمازی کے آگے سے گزرنے سے حتی الامکان بچیں کیونکہ نبی اکرم ا کی تعلیمات نمازی کے آگے سے گزرنے سے بچنے کی ہیں۔
* کسی ستون کے پیچھے نماز پڑھنے کی صورت میں ستون سُترہ کا بدل ہوجائے گا۔
* فرض نماز سے فراغت کے بعد فوراً ہی سنن یا نوافل کی نیت نہ باندھیں بلکہ کچھ دیر اللہ کا ذکر کرلیںیا دعائیں کر لیں۔ تاکہ جن حضرات کو کوئی ضرورت یا تقاضہ ہو تو وہ مسجد سے نکل سکیں۔
* یاد رکھیں کہ سنن ونوافل کا گھر پر پڑھنا زیادہ بہتر ہے، البتہ اگر کسی شخص کے لئے گھر پر سنن یا نوافل کا اہتمام دشوار ہے، تو وہ شخص فرض نماز سے فراغت کے بعد مسجد میں ہی سنن ادا کرلے۔
* خواتین گھر کے کسی کونے میں اِس طرح نماز ادا کریں کہ کسی شخص کو اُس کے آگے سے گزرنا نہ پڑے۔ کسی کونے میں جگہ نہ ملنے کی صورت میں کوئی چیز سُترہ کے طور پر رکھ کر اس کے پیچھے نماز پڑھیں۔
محمد نجیب قاسمی سنبھلی، ریاض

نمازِ جَنازَہ

بسم الله الرحمن الرحيم

اَلْحَمْدُ لِله رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلام عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔

نمازِ جَنازَہ

دنیا میں ہر انسان کی زندگی طے شدہ ہے۔ وقت معیّن آنے کے بعد ایک لمحہ کی بھی مہلت نہیں دی جا تی۔ مقررہ وقت پر اس دنیا سے قبر والے گھر کی طرف منتقل ہوناہی ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے پاک کلام میں فرماتا ہے:
جب ان کا وقت آپہنچا پھر ایک سیکنڈ اِدھر اُدھر نہیں ہوسکتا ۔۔۔۔۔ جب کسی کا مقررہ وقت آجاتا ہے پھر اسے اللہ تعالیٰ ہرگز مہلت نہیں دیتا ہے۔۔۔۔ ہر شخص کو موت کا مزہ چکھنا ہے۔
انتقال کے بعد جتنی جلدی ہوسکے میت کو غسل وکفن کے بعد اس کی نمازِ جنازہ کا اہتمام کرنا چاہئے۔ نمازِ جنازہ فرضِ کفایہ ہے، یعنی اگر دو چار لوگ بھی پڑھ لیں تو فرض ادا ہوجائیگا۔ لیکن جس قدر بھی زیادہ آدمی ہوں اسی قدر میت کے حق میں اچھا ہے کیونکہ نہ معلوم کس کی دعا لگ جائے اور میت کی مغفرت ہوجائے۔ نبی اکرم ا نے ارشاد فرمایا:
اگر کسی جنازہ میں ۱۰۰ مسلمان شریک ہوکر اس میت کے لئے شفاعت کریں (یعنی نمازِ جنازہ پڑھیں) تو ان کی شفاعت قبول کی جاتی ہے۔ (مسلم)
اگر کسی مسلمان کے انتقال پر ایسے ۴۰ آدمی جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتے ہیں، اس کی نمازِ جنازہ پڑھتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کی شفاعت (دعا) کو میت کے حق میں قبول فرماتا ہے۔ (مسلم)
نمازِ جنازہ کی اتنی فضیلت ہونے کے باوجود ، انتہائی افسوس اور فکر کی بات ہے کہ باپ کا جنازہ نماز کے لئے رکھا ہوا ہے اور بیٹا نمازِ جنازہ میں اِس لئے شریک نہیں ہورہا ہے کہ اس کو جنازہ کی نماز پڑھنی نہیں آتی ۔ حالانکہ جنازہ کی دعا اگر یاد نہیں ہے تب بھی نمازِ جنازہ میں ضرور شریک ہونا چاہئے، تاکہ جو رشتہ دار یا دوست یا کوئی بھی مسلمان اِس دار فانی سے دار بقا کی طرف کوچ کررہا ہے ، اس کے لئے ایک ایسے اہم کام (نمازِ جنازہ کی ادائیگی) میں ہماری شرکت ہوجائے جو اُس کی مغفرت کا سبب بن سکتا ہے۔
نمازِجنازہ میں چار تکبیریں (یعنی چار مرتبہ اللہ اکبر کہنا) ضروری ہیں، جن کی ترتیب اس طرح سے ہے :
پہلی تکبیر کے بعد : ثنا (سُبْحَانَکَ اللّٰہُمَّ) ، یا پھر حمد وثنا کے طور پر سورہ فاتحہ پڑھ لیں۔
دوسری تکبیر کے بعد : درود شریف پڑھ لیں۔ (صرف اللّٰہُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّد پڑھنا بھی کافی ہے)۔
تیسری تکبیر کے بعد: جنازہ کی دعا پڑھیں۔ (احادیث میں دعا کے مختلف الفاظ مذکور ہیں، یاد نہ ہونے پر صرف اَللّٰہُمَّ اغْفِرْ لِلْمُؤمِنِےْنَوَالْمُؤمِنَاتپڑھ لیں(
چوتھی تکبیر کے بعد: سلام پھیر دیں۔ (ایک طرف سلام پھیرنا کافی ہے، دونوں طرف سلام پھیرنا بھی نبی اکرم ا سے ثابت ہے۔ (مسلم(
مسائلِ متفرقہ:
* نمازِ جنازہ میں تکبیر اولیٰ کے وقت یقیناًدونوں ہاتھ اٹھائے جائیں گے، البتہ دوسری ،تیسری اور چوتھی تکبیر کے وقت رفع یدین کرنے یا نہ کرنے میں علماء کا اختلاف ہے، ان شاء اللہ دونوں شکلوں میں کامل نماز ادا ہوگی۔
* اگر نمازِ جنازہ میں ایک، دو یا تین تکبیر چھوٹ گئی ہیں، تو صف میں کھڑے ہوکر امام کی اگلی تکبیر کے ساتھ تکبیر کہہ کر جماعت میں شریک ہوجائیں۔ امام کے سلام پھیرنے کے بعد صرف چھوٹی ہوئی تکبیریں (یعنی اللہ اکبر) کہہ کر جلدی سے سلام پھیر دیں، کیونکہ چار تکبیریں کہنے پر نمازِ جنازہ ادا ہوجائے گی، ان شاء اللہ۔
* حرمین میں تقریباً ہر نماز کے بعد جنازہ کی نماز ہوتی ہے، لہذا فرض نماز سے فراغت کے بعد فوراً ہی سنن ونوافل کی نیت نہ باندھیں ، بلکہ تھوڑی دیر انتظار کرلیں، کیونکہ نمازِ جنازہ پڑھنے والے کو بھی اجروثواب ملتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شحض کسی مسلمان کے جنازے میں ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے ساتھ چلا یہاں تک کہ اسکی نمازِ جنازہ پڑھی اور اسکو دفن کرنے میں بھی شریک رہا تو وہ دو قیراط اجر (ثواب) لیکر لوٹتا ہے اور ہر قیراط اُحد پہاڑ کے برابر ہے۔ اور جو شخص نماز جنازہ میں شریک ہوا مگر تدفین سے پہلے ہی واپس آگیا تو وہ ایک قیراط اجر (ثواب) کے ساتھ لوٹتا ہے۔ (بخاری ۔ مسلم(
* جنازہ کی نماز مسجد کے باہر کسی میدان میں پڑھنا زیادہ بہتر ہے۔ البتہ مسجد کے باہر جگہ نہ ملنے کی صورت میں مسجد میں بھی نمازِ جنازہ ادا کی جاسکتی ہے۔ حرمین میں بغیر کسی کراہیت کے نمازِ جنازہ ادا کی جاسکتی ہے۔
* حرمین میں خواتین بھی نمازِ جنازہ میں شریک ہوسکتی ہیں۔
* نمازِ جنازہ کی ادائیگی کے لئے طہارت یعنی کپڑوں اور بدن کا پاک ہونا، اسی طرح وضو کا ہونا ضروری ہے۔
* نمازِ جنازہ میں اگر لوگ کم ہوں تب بھی تین صفوں میں لوگوں کا کھڑا ہونا زیادہ بہتر ہے۔ کیونکہ بعض احادیث میں جنازہ کی تین صفوں کی خاص فضیلت وارد ہوئی ہے۔ ( ابو داؤد(
* دیگر نمازوں کی طرح مذکورہ تین اوقات میں نمازِ جنازہ بھی پڑھنے سے نبی اکرم ا نے منع فرمایا ہے:
۱)سورج طلوع ہونے کے وقت۔ ۲) زوال (ٹھیک دوپہر)کے وقت۔ ۳) سورج ڈوبنے کے وقت
* اگر جوتے ناپاک ہوں تو ان کو پہن کر نمازِ جنازہ ادا نہیں کی جاسکتی ۔
* جنازہ کی نماز میں تکبیر کہتے ہوئے آسمان کی طرف منہ اٹھانا بے اصل ہے۔
* اگر کسی مسلمان کو بغیر نمازِجنازہ کے دفن کردیا گیا ہو تو جب تک نعش کے پھٹ جانے کا اندیشہ نہ ہو اسکی قبر پر نمازِ جنازہ ادا کی جاسکتی ہے۔
* کافر شخص کی نمازِ جنازہ ادا نہیں کی جائے گی، اسی طرح غسل یا کفن کا اہتمام بھی کافر شخص کے لئے نہیں ہے۔
* جس شہر یا جس علاقہ میں انتقال ہوا ہے اسی جگہ میت کو دفن کرنا زیادہ بہتر ہے، اگرچہ دوسرے شہر یا دوسرے ملک میں میت کو منتقل کرکے وہاں دفن کرنا جائز ہے۔
* جو حضرات جنازہ کے ساتھ قبرستان جارہے ہیں، اُن کو قبرستان میں جنازہ زمین پر رکھنے سے پہلے بیٹھنا مکروہ ہے۔
* جنازہ کو قبرستان کی طرف تھوڑا تیز چل کر لے جانا بہتر ہے۔ جنازے کے دائیں بائیں پیچھے آگے ہر طرف چل سکتے ہیں۔ البتہ آگے چلنے کے مقابلے میں جنازہ کے پیچھے چلنا زیادہ بہتر ہے۔
* نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے مطابق ایک دو دن میت کے گھر کھانا بھیجنا اخلاق حسنہ کا ایک نمونہ ہے۔ (مسند احمد، ابوداؤد، ابن ماجہ، ترمذی) ۔ البتہ میت کے گھر والوں کا رشتہ داروں کو جمع کرکے اُن کو کھانا کھلانے کا خاص انتظام کرنا غلط ہے، جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاہے۔ (ابن ماجہ ۱۶۱۲ ۔ مسند احمد ۶۹۰۵)
نوحہ گری:
کسی رشتہ دار کے انتقال پر دل یقیناًغمگین ہوتا ہے۔ آنکھ سے آنسوبھی بہتے ہیں۔ مگر بآواز بلند اور مختلف لہجوں کے ساتھ رونے سے گریز کیا جائے کیونکہ اس سے میت کو تکلیف ہوتی ہے۔ حضرت عمر ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نوحہ گری کی وجہ سے میت کو قبر میں عذاب ہوتا ہے۔ دوسری حدیث میں ہے کہ آپ نے فرمایا: گھر والوں کے زیادہ رونے پیٹنے کی وجہ سے میت کو عذاب ہوتا ہے۔ (مسلم)
غائبانہ نمازِ جنازہ :
اگر کوئی مسلمان ایسے علاقہ میں فوت ہوجائے جہاں اس کی نمازِ جنازہ ادا نہیں کی گئی تو ایسے شخص کی غائبانہ نمازِ جنازہ پڑھی جاسکتی ہے۔ شاہ حبشہ نجاشی فوت ہوئے تو وہاں کوئی اور مسلمان نہیں تھا ، لہذا خود حضور اکرم ا نے ان کی غائبانہ نمازِ جنازہ ادا فرمائی۔ اس واقعہ کے علاوہ کسی کی غائبانہ نمازِ جنازہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں پڑھی۔ آپ ا کے بہت سے جان نثار صحابہؓ ، قراء صحابہؓ ، آپ کے چچا زاد بھائی حضرت جعفر طیارؓ ، آپ کے منہ بولے بیٹے حضرت زید بن حارثہؓ ان سب کا انتقال حالتِ سفر میں ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ منورہ میں خبر ملی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انکی غائبانہ نمازِ جنازہ نہیں پڑھی۔ اسی لئے علامہ ابن القیم ؒ اپنی کتاب ( زاد المعاد ج ۱۔ ص ۵۲۰) میں لکھتے ہیں کہ جس شخص کی نمازِ جنازہ پڑھی جاچکی ہے اس کی غائبانہ نمازِ جنازہ نہیں پڑھی جائے گی۔ علامہ محمد ناصر الدین الالبانی ؒ نے اپنی کتاب (تلخیص احکام الجنائز ص ۴۸) میں لکھا ہے کہ جس شخص کی نمازِ جنازہ ادا کی جاچکی ہے اس کی غائبانہ نمازِ جنازہ نہیں پڑھی جائے گی، کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلفاء راشدین میں سے کسی کی غائبانہ نمازِ جنازہ نہیں پڑھی گئی۔
نماز پڑھئے قبل اس کے کہ آپ کی نماز پڑھی جائے۔ عقلمند شخص وہ ہے جو مرنے سے پہلے اپنے مرنے کی تیاری کرلے۔
محمد نجیب قاسمی ، ریاض (najeebqasmi@yahoo.com)

نمازِ حاجت

بسم الله الرحمن الرحيم

اَلْحَمْدُ لِله رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلام عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔

نمازِ حاجت (صلاۃ الحاجۃ(

نماز اللہ تبارک وتعالیٰ سے تعلق قائم کرنے اور اپنی ضرورتوں اورحاجتوں کو مانگنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے پاک کلام میں ارشاد فرماتا ہے : اے ایمان والو! صبر اور نماز کے ذریعہ مدد چاہو۔ (سورۃ البقرہ ۱۵۳) صبر اور نماز کے ذریعہ مدد طلب کرو۔۔۔۔۔۔ (سورۃ البقرۃ ۴۵) اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں تمہارے ساتھ ہوں اگر تم نماز قائم رکھو۔(سورۃ المائدۃ ۱۲)
لہذا جب بھی کوئی پریشانی یا مصیبت سامنے آئے تو ہمیں چاہئے کہ صبر کریں اور نماز کا خاص اہتمام کرکے اللہ تعالیٰ سے تعلق قائم کریں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہر پریشانی کے وقت نماز کی طرف متوجہ ہوتے تھے جیسا کہ حدیث میں ہے: حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب بھی کوئی اہم معاملہ پیش آتا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فوراً نماز کا اہتمام فرماتے۔ (ابو داؤد ومسند احمد)
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پانچ فرض نمازوں کے علاوہ نماز تہجد، نماز اشراق، نماز چاشت، تحےۃ الوضوء اور تحےۃ المسجد کا بھی اہتمام فرماتے۔ اور پھر خاص خاص مواقع پر اپنے رب کے حضور توبہ واستغفار کے لئے نماز ہی کو ذریعہ بناتے۔ سورج گرہن یا چاند گرہن ہوتا تو مسجد تشریف لے جاتے۔ زلزلہ، آندھی یا طوفان حتی کہ تیز ہوا بھی چلتی تو مسجد تشریف لے جاکر نماز میں مشغول ہوجاتے۔ فاقہ کی نوبت آتی یا کوئی دوسری پریشانی یا تکلیف پہنچتی تو مسجد تشریف لے جاتے۔ سفر سے واپسی ہوتی تو پہلے مسجد تشریف لے جاکر نماز ادا کرتے۔ اس لئے ہمیں بھی چاہئے کہ نمازوں کا خاص اہتمام کریں۔ اور اگر کوئی پریشانی یا مصیبت آئے تو نماز ادا کرکے اللہ تعالیٰ سے مدد مانگیں۔
اللہ تبارک وتعالیٰ سے اپنی دنیاوی اور اخروی ضرورت کو مانگنے کا سب سے بہتر طریقہ یہ ہے کہ دو رکعت نماز اطمینان، سکون اور خشوع وخضوع سے پڑھ کرخوب عاجزی وانکساری کے ساتھ اللہ جل شانہ سے دعائیں کریں۔ حضرت عبد اللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس شخص کو اللہ تعالیٰ سے یا کسی آدمی سے کوئی حاجت ہو تو وہ اچھی طرح وضو کرے، پھر دو رکعت نماز ادا کرے، پھر اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا بیان کرے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجے اور یہ دعا پڑھے (ترجمہ) : اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ بہت بردبار اور نہایت کرم کرنے والا ہے، (ہر عیب سے) پاک اور عرشِ عظیم کا مالک ہے، تمام تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں جو تمام جہانوں کو پیدا کرنے والا ہے۔ (یا اللہ!) میں تجھ سے تیری رحمت کے اسباب اور تیری بخشش کے وسائل، نیز ہر نیکی سے حصہ پانے اور ہر گناہ سے محفوظ رہنے کا سوال کرتا ہوں۔ یا ارحم الراحمین! میرے تمام گناہ معاف فرمادیجئے، میری ساری پریشانیاں دور کردیجئے، اور میری تمام ضرورتیں جو تیری پسندیدہ ہوں پوری فرمادیجئے۔ (ترمذی ، ابن ماجہ) پھر جو ضرورت ہے اس کو اللہ تعالیٰ سے خوب مانگیں۔
حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے اچھی طرح وضو کیا پھر خشوع وخضوع سے دو رکعت نماز پڑھی، اللہ تعالیٰ اس کے سوال کو پورا کرے گا، جلد یا دیر سے (جیسے چاہے)۔ (مسند احمد)
محمد نجیب قاسمی سنبھلی، ریاض (www.najeebqasmi.com)

قرآن وحدیث میں فجر اور عصر نمازوں کی خصوصی تاکید

بسم الله الرحمن الرحيم

اَلْحَمْدُ لِله رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلام عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔

قرآن وحدیث میں فجر اور عصر نمازوں کی خصوصی تاکید

نماز پڑھنے والوں میں سے ہمارے کچھ بھائی فجر اور عصر خاص کر نماز فجر میں کوتاہی کرتے ہیں حالانکہ قرآن وحدیث میں اِن دونوں نمازوں (فجر اور عصر) کی خاص تاکید و اہمیت مذکور ہے، جیسا کہ مندرجہ ذیل آیات اور احادیث سے معلوم ہوتا ہے:
نمازوں کی حفاظت کرو بالخصوص درمیان والی نماز (یعنی عصر) کی۔ اور اللہ تعالیٰ کے سامنے ادب سے کھڑے رہو)۔
)سورہ البقرہ ۲۳۸(
نماز کو قائم کرو آفتاب کے ڈھلنے سے لیکر رات کی تاریکی تک اور فجر کا قرآن پڑھنا بھی۔ یقیناً فجر کا قرآن پڑھنا حاضر
کیا گیا ہے) (یعنی اس وقت فرشتے حاضر ہوتے ہیں)۔ (سورہ بنی اسرائیل ۷۸)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص دو ٹھنڈی نمازیں (یعنی فجر اور عصر) پابندی سے پڑھتا ہے وہ جنت میں داخلہوگا۔ (بخاری) تجربہ ہے کہ نمازِ فجر وعصر کا اہتمام کرنے والا‘ یقیناًدیگر تین نمازوں کا بھی اہتمام کرنے والا ہوگا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: وہ شخص ہرگز جہنم میں داخل نہیں ہوگا جس نے سورج کے طلوع ہونے سے پہلے یعنی فجراور سورج کے غروب ہونے سے پہلے یعنی عصر کی نمازیں پابندی سے پڑھی ہونگی۔ (مسلم)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تمہارے پاس رات اور دن کے فرشتے باری باری آتے رہتے ہیں اور وہ فجر اور عصر کینمازوں میں اکٹھے ہوتے ہیں۔ پھر وہ فرشتے جو تمہارے پاس ہوتے ہیں، آسمان پر چلے جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان سے
پوچھتا ہے حالانکہ وہ سب سے زیادہ جانتا ہے کہ تم نے میرے بندوں کو کس حال میں چھوڑا۔ فرشتے کہتے ہیں کہ ہم انہیں
نماز کی حالت میں چھوڑ کر رخصت ہوئے اور نماز ہی کی حالت میں انکے پاس پہنچے تھے۔ (بخاری ومسلم(
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چودہویں کے چاند کو دیکھا تو فرمایا: تم اپنے رب کو ایسے ہی دیکھوگے جیسے اس چاند کو دیکھ رہے ہو، تمہیںذرا بھی شک وشبہ نہ ہوگا، لہذا تم اگر سورج کے طلوع اور غروب ہونے سے کی قبل نمازوں (فجر اور عصر) کا اہتمام کر سکو توضرورکرو۔ پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی : ترجمہ: (سورج کے طلوع اور غروب ہونے سے پہلے اپنے رب کی پاکیبیان کر) (بخاری ومسلم) ۔۔۔۔۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نمازوں کی پابندی، خاص کر فجر اور عصر کی نمازوں کےاہتمام سے جنت میں اللہ تبارک وتعالیٰ کا دیدار ہوگاجو جنت کی نعمتوں میں سب سے بڑی نعمت ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص فجر کی نمازپڑھتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں آجاتا ہے ( لہذا اسے نہ ستاؤ) اور اس بات کا خیال رکھو کہ اللہ تعالیٰ اپنی حفاظت میں لئے ہوئے شخص کو ستانے کی وجہ سے تم سے کسی چیز کا مطالبہ نہ فرمائیںکیونکہ جس سے اللہ تعا لیٰ اپنی حفاظت میں لئے ہوئے شخص کے بارے میں مطالبہ فرمائیں گے اسکی پکڑ فرمائیں گے پھر اسےاوندھے منہ جہنم کی آگ میں ڈالدیں گے۔ (مسلم)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص عشاء کی نمازجماعت کے ساتھ پڑھے، گویا اس نے آدھی رات عبادت کی اور جوفجر کی نماز بھی جماعت کے ساتھ پڑھ لے گویا اس نے پوری رات عبادت کی۔ (مسلم)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس شخص کی عصر کی نماز فوت ہوگئی، وہ ایسا ہے کہ گویا اس کے گھر کے لوگ اور مال و دولتسب چھین لیا گیا ہو۔ (بخاری ومسلم)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس نے عصر کی نماز چھوڑدی، اس کے سارے اعمال ضائع ہوگئے۔ (بخاری)
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایسے شخص کا تذکرہ کیا گیا جو صبح ہونے تک سوتا رہتا ہے (یعنی فجر کی نماز ادا نہیں کرتا ہے)۔ توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ایسے شخص کے کانوں میں شیطان پیشاب کردیتا ہے۔ (بخاری ومسلم)
نمازِ فجرکی باجماعت ادائیگی میں معاون چند امور
اگر مندرجہ ذیل چند امور کا خاص اہتمام رکھا جائے تو انشاء اللہ فجر کی نماز جماعت کے ساتھ ادا کرنا آسان ہوگا :
فجر کی نماز جماعت سے ادا کرنے کے فضائل ہمارے سامنے ہوں۔
فجر کی نماز جماعت سے ادا نہ کرنے کی وعیدیں ہمیں معلوم ہوں ۔
رات کو حتی الامکان جلدی سوئیں۔
سوتے وقت فجر کی نماز جماعت سے ادا کرنے کا پختہ ارادہ کریں اور ارادہ کرنے میں مخلص بھی ہوں۔
ایسے اسباب اختیار کریں جن سے فجر کی نماز کے لئے اٹھنا آسان ہو۔ مثلاً الارمAlarm والی گھڑی میں مناسب وقت پر الارم سیٹکرکے اسکو مناسب جگہ پر رکھیں، یا کسی ایسے شخص سے جو فجر کی نماز کے لئے پابندی سے اٹھتا ہے گھنٹی بجانے یا کواڑ کھٹکھٹانے کی تاکیدکردیں وغیرہ۔
وضو کرکے اور اللہ کے ذکر کے ساتھ سوئیں کیونکہ اللہ کا نام لے کر سونے کی وجہ سے شیطان کے حملے سے حفاظت رہے گی ۔
اگر ممکن ہو تو دوپہر کا کھانا کھاکر تھوڑی دیر آرام کرلیا کریں۔
مغرب سے قبل اور مغرب و عشاء کے درمیان نہ سوئیں۔
دیگر چار نمازوں کی پابندی کریں، اسکی بدولت پانچویں کی توفیق ہوگی (انشاء اللہ)۔
اگر ان امور کی رعایت کرکے سوئیں گے تو انشاء اللہ فجر کی نماز جماعت کے ساتھ ادا کرنا آسان ہوگا، پھر بھی اگر کسی دن اتفاق سے بیدار ہونے میں تاخیر ہوجائے تو جس وقت بھی آنکھ کھلے سب سے پہلے نماز ادا کرلیں۔ انشاء اللہ تاخیر کا کوئی گناہ نہیں ہوگا۔
محمد نجیب قاسمی، ریاض

نماز سے متعلق ہماری بعض کوتاہیاں اور ان کا علاج
بسم الله الرحمن الرحيم
اَلْحَمْدُ لِله رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلام عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔
نماز سے متعلق ہماری بعض کوتاہیاں اور ان کا علاج
اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانے کے بعد سب سے پہلا اور اہم فریضہ نماز ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہر مسلمان پر عائد کیا گیا ہے، خواہ مرد ہو یا عورت ، غریب ہو یا مالدار، صحت مند ہو یابیمار، طاقت ور ہو یا کمزور، بوڑھا ہو یا نوجوان، مسافر ہو یا مقیم، بادشاہ ہو یا غلام، حالت امن ہو یا حالت خوف، خوشی ہو یا غم، گرمی ہو یا سردی، حتی کہ جہاد وقتال کے عین موقعہ پر میدان جنگ میں بھی یہ فرض معاف نہیں ہوتاہے۔ قرآن وحدیث میں اس اہم اور بنیادی فریضہ کو کثرت سے بیان کیا گیا ہے، مگر بڑے افسوس اور فکر کی بات ہے کہ نماز سے متعلق متعدد کوتاہیاں ہمارے اندر موجود ہیں، جنہیں دور کرنے کی ہمیں ہر ممکن کوشش کرنی چاہئے۔
نماز کی ادائیگی میں کوتاہی:
بعض حضرات جو نماز نہیں پڑھتے،سمجھانے پر کہتے ہیں کہ جمعہ سے یا رمضان سے یا سال کی ابتداء سے نماز کا اہتمام کریں گے۔ حالانکہ کسی کو نہیں معلوم کہ کس وقت اس دار فانی (دنیا) کو الوداع کہنا پڑے۔ اگر ایسے وقت میں ملک الموت (موت کا فرشتہ) ہماری روح نکالنے آیا کہ ہمارا مولا ہم سے نمازوں کا اہتمام نہ کرنے کی وجہ سے ناراض ہے تو پھر ہمارے لئے انتہائی خسارہ اور نقصان ہے۔ اور موت کب آجائے، سوائے اللہ کے کوئی نہیں جانتا۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: کوئی (بھی) نہیں جانتا کہ کل کیا (کچھ) کرے گا، نہ کسی کو یہ معلوم کہ کس زمین میں مرے گا۔ (سورہ لقمان، آیت نمبر ۳۴) اور ہر گروہ کے لئے ایک میعاد معین ہے سو جس وقت ان کی میعاد معین آجائے گی، اس وقت ایک ساعت نہ پیچھے ہٹ سکیں گے اور نہ آگے بڑھ سکیں گے۔ (سورہ الاعراف، آیت نمبر ۳۴)
لہٰذا ان حضرات کو چاہئے کہ کسی دن یا کسی وقت پر اپنے ارادہ کو ہرگز معلق نہ کریں بلکہ سچے دل سے توبہ کرکے آج سے بلکہ ابھی سے نمازوں کا خاص اہتمام کریں کیونکہ نماز دین اسلام کا عظیم رکن ہے اور قیامت کے دن سب سے پہلے اسی نماز کا حساب لیا جائے گا۔
یاد رکھیں کہ جو شخص نماز میں کوتاہی کرتاہے، وہ یقیناًدین کے دوسرے کاموں میں بھی سستی کرنے والا ہوگا۔ اور جس نے وقت پر خشوع وخضوع کے ساتھ نماز کا اہتمام کرلیا، وہ یقیناًپورے دین کی حفاظت کرنے والا ہوگا جیسا کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنے گورنروں کو حکم جاری فرمایا تھا کہ میرے نزدیک تمہارے امور میں سب سے زیادہ اہمیت نماز کی ہے، جس نے نماز کی پابندی کرکے اس کی حفاظت کی، اس نے پورے دین کی حفاظت کی اور جس نے نماز کو ضائع کیا وہ نماز کے علاوہ دین کے دیگر ارکان کو زیادہ ضائع کرنے والا ہوگا۔
نماز پر دنیاوی ضرورتوں کو ترجیح دینا:
بعض حضرات سے جب نماز کے اہتمام کرنے کے لئے کہا جاتا ہے تو وہ کہتے ہیں کہ والدین کی خدمت، بچوں کی تربیت اور ان کی دنیاوی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے کوشش کرنا بھی تو ضروری ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ امور بھی ضروری ہیں مگر ان اعمال کے لئے نماز کو ترک کرنا یا نماز کی اہمیت کو کم سمجھنا کونسی عقلمندی ہے؟ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام نہ صرف فرض نماز کی پابندی فرماتے بلکہ سنن ونوافل کا بھی خاص اہتمام فرماتے اور اپنے گھر والوں کے حقوق کما حقہ ادا کرتے۔ اور انہیں حضرات کی زندگیاں ہمارے لئے نمونہ ہیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے باتیں کرتے تھے اور ہم حضور سے باتیں کرتے تھے لیکن جب نماز کا وقت آجاتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایسے ہوجاتے گویا ہم کو پہچانتے ہی نہیں اور ہمہ تن اللہ کی طرف مشغول ہوجاتے۔
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ اللہ کو کونسا عمل زیادہ محبوب ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: نماز کو اس کے وقت پر ادا کرنا۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے کہا کہ اس کے بعد کونسا عمل اللہ کو زیادہ پسند ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: والدین کی فرمانبرداری ۔۔۔ (بخاری ومسلم)
یاد رکھیں کہ نماز میں کوتاہی کرکے گھر والوں کی دنیاوی ضرورتوں کو پورا کرنا دین نہیں بلکہ دین اسلام کے منافی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اے ایمان والو! تمہارے مال اور تمہاری اولاد تمہیں اللہ کے ذکر سے غافل نہ کردیں۔ (سورہ المنافقون آیت ۹) لہذا دنیاوی ضرورتوں کو نماز پر فوقیت نہ دیں بلکہ نمازوں کو ان کے اوقات پر ادا کریں۔
بیماری کے وقت نمازوں کی ادائیگی میں کوتاہی:
بعض حضرات بیماری میں نماز کو بالکلیہ ترک کردیتے ہیں حتی کہ نماز پڑھنے والا طبقہ بھی نماز کا اہتمام نہیں کرتا حالانکہ صحت وتندرستی کی طرح بیماری کی حالت میں بھی نماز کو ان کے اوقات میں پڑھنا ضروری ہے، البتہ شرعیت اسلامیہ نے اتنی اجازت دی ہے کہ شدید بیماری کی وجہ سے مسجد جانا مشکل ہے تو گھر میں ہی نماز ادا کرلیں، کھڑے ہوکر نماز نہیں پڑھ سکتے تو بیٹھ کر نماز پڑھیں۔ بیٹھ کر بھی نماز پڑھنا مشکل ہے تو لیٹ کر حتی کہ اشارہ سے بھی نماز پڑھ سکتے ہیں تو اس کو ضرور ادا کریں۔حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں بواسیر کا مریض تھا۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز پڑھنے کا مسئلہ دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کھڑے ہوکر نماز پڑھ سکو تو کھڑے ہوکر پڑھو، بیٹھ کر پڑھ سکو تو بیٹھ کر پڑھو، لیٹ کر پڑھ سکو تو لیٹ کر پڑھو ۔ (صحیح بخاری)
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام سخت بیماری کی حالت میں بھی جماعت سے نماز ادا کرنے کا اہتمام فرماتے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ ہم تو اپنا حال یہ دیکھتے تھے کہ جو شخص کھلّم کھلّا منافق ہوتا وہ تو جماعت سے رہ جاتا یا کوئی سخت بیمار‘ ورنہ جو شخص دو آدمیوں کے سہارے سے گھسٹتا ہوا مسجد جا سکتا تھا وہ بھی صف میں کھڑا کردیا جاتا تھا۔لہٰذا صحت ہو یا بیماری، خوشی ہو یا غم، تکلیف ہو یا راحت، سردی ہو یا گرمی سب برداشت کرکے نمازوں کا اہتمام کریں۔
سفر میں نماز کی ادائیگی میں کوتاہی:
سفر میں بھی نماز کا اہتمام کرنا ضروری ہے، مگر شرم یا لاپرواہی کی وجہ سے نماز پڑھنے والے بھی سفر میں نماز کا اہتمام نہیں کرتے حالانکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام سفر میں حتی کہ دشمنوں سے جنگ کے عین موقع پر بھی جماعت کے ساتھ نماز ادا فرماتے۔ لہٰذا سفر میں بھی نماز کی پابندی کریں، پانی مہیا نہیں تو تیمم کرکے نماز ادا کریں، قبلہ کا رخ معلوم نہیں اور کوئی شخص بتانے والا بھی نہیں تو غوروفکر کے بعد قبلہ کا تعین کرکے اسی طرف نماز پڑھیں، کھڑے ہوکر نماز پڑھنے کی گنجائش نہ ہو تو بیٹھ کر ہی ادا کریں۔
وضاحت: اگر آپ کا سفر ۴۸ میل سے زیادہ کا ہے تو شہر کی حدود سے باہر جاتے ہی آپ شرعی مسافر ہوجائیں گے اور ظہر، عصر اور عشاء کے وقت بجائے چار رکعت کے دو دو رکعت فرض پڑھیں۔ البتہ اگر کسی مقیم امام کے پیچھے نماز باجماعت ادا کریں تو پوری نماز ہی پڑھیں۔ ہاں اگر امام بھی مسافر ہو تو چار رکعت کے بجائے دو ہی رکعت ادا کریں۔ سنتوں اور نفل کا حکم یہ ہے کہ اگر اطمینان کا وقت ہے تو پوری پوری پڑھیں اور اگر جلدی ہو، یا تھکن ہے یا کوئی اور دشواری ہے تو بالکل نہ پڑھیں کوئی گناہ نہیں، البتہ وتر اور فجر کی سنتیں نہ چھوڑیں۔
معمولی عذر کی وجہ سے جماعت کی نماز کو چھوڑنا:
بعض حضرات یہ سمجھ کرکہ فرض نماز جماعت کے ساتھ ادا کرنا صرف سنت مؤکدہ ہے،معمولی عذرکی وجہ سے فرض نماز مسجد میں جاکر جماعت کے ساتھ ادا نہیں کرتے بلکہ دوکان یا گھر میں اکیلے ہی پڑھ لیتے ہیں، حالانکہ علماء کرام نے فرض نماز جماعت کے ساتھ ادا کرنے کو جو سنت مؤکدہ اشد التاکید کہا ہے اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ معمولی معمولی عذر کی وجہ سے فرض نماز جماعت کے ساتھ ادا کرنے میں کوتاہی کی جائے کیونکہ فرض نماز کی مشروعیت تو جماعت ہی کے ساتھ ادا کرنا ہے، صرف شرعی عذر کی وجہ سے جماعت کی نماز کا ترک کرنا جائز ہے۔
کھیل کود کی وجہ سے نماز میں کوتاہی:
کھیلنا صحت کے لئے مفید ہے جس کی شریعت نے بھی اجازت دی ہے مگر کھیلنے والوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ اذان کے وقت یا اس سے کچھ قبل کھیل بند کردیں تاکہ وضو وغیرہ سے فارغ ہوکر نماز جماعت کے ساتھ ادا کرسکیں۔ شریعت اسلامیہ نے ایسے کھیل کی بالکل اجازت نہیں دی ہے جو نماز کے ضائع ہونے حتی کہ جماعت کی نماز کے فوت ہونے کا بھی سبب بنے۔
خواتین کا وقت پر اور اطمینان سے نماز ادا نہ کرنا:
بعض خواتین ‘ گھر کے مشاغل کی وجہ سے نماز کو مستحب وقت پر ادا کرنے میں کوتاہی کرتی ہیں۔ حالانکہ اگر تھوڑی سی بھی فکر کرلیں تو نماز کو مستحب وقت پر ادا کرنا آسان ہوگا۔اللہ کو سب سے زیادہ محبوب عمل نماز کو وقت پر ادا کرنا ہے۔ نیز نماز کو شرعی عذر کے بغیر وقت پر ادا نہ کرنا نماز کو ضائع کرنا ہے۔لہٰذا معمولی عذر کی وجہ سے نماز کو ادا کرنے میں تاخیر نہ کریں بلکہ اذان کے بعد فوراً ہی گھر میں نماز پڑھ لیں۔دوسری کوتاہی‘ جو خواتین میں عموماً پائی جاتی ہے وہ نمازوں کو اطمینان، سکون اور خشوع وخضوع کے ساتھ ادا نہ کرنا ہے، حالانکہ اصل نماز خشوع وخضوع والی نماز ہے۔ لہٰذا نماز کو وقت پر اطمینان وسکون اور خشوع خضوع کے ساتھ ادا کریں۔
ملازمین کو نماز کی ادائیگی کا وقت مہیا نہ کرنا:
جن حضرات کے ماتحت لوگ کام کرتے ہیں ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی ذات سے نماز کا اہتمام کرکے اپنے ملازمین کی بھی نماز کی فکر کریں، جیسا کہ حدیث میں ہے کہ ہر شخص سے اس کے ماتحت لوگوں کے بارے میں سوال ہوگا۔سرمایہ کار‘ نماز کا اہتمام کرنے والے ملازمین کے ساتھ اچھا برتاؤ کریں اور انہیں نماز پڑھنے کی سہولت دیں۔ اور نماز میں کوتاہی کرنے والوں کو سمجھاتے رہیں تاکہ وہ بھی نمازوں کی پابندی کرکے دونوں جہاں کی کامیابی حاصل کرنے والے بن جائیں۔
اولاد کی نمازوں کی نگرانی نہ کرنا:
ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی ذات سے نمازوں کا اہتمام کرکے اپنی اولاد کی بھی نمازوں کی نگرانی کرے۔ جس طرح اولاد کی دنیاوی تعلیم اور ان کی دیگر ضرورتوں کو پورا کرنے کی دن رات فکر کی جاتی ہے اسی طرح بلکہ اس سے زیادہ ان کی آخرت کی فکر کرنی چاہئے کہ وہ کس طرح جہنم کی آگ سے بچ کر ہمیشہ ہمیشہ کی جنت میں داخل ہونے والے بن جائیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اے ایمان والو! تم اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں جس پر سخت دل مضبوط فرشتے مقرر ہیں جنہیں جو حکم اللہ تعالیٰ دیتا ہے اس کی نافرمانی نہیں کرتے بلکہ جو حکم دیا جائے بجا لاتے ہیں۔ (سورہ التحریم آیت ۶)
اسی طرح فرمان الہٰی ہے: (اے محمد!) اپنے گھر کے لوگوں پر نماز کی تاکید رکھ اور خود بھی اس پر جما رہ۔ (سورہ طہ، آیت ۱۳۲) اس خطاب میں ساری امت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے تابع ہے، یعنی ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے کہ وہ خود بھی نماز کی پابندی کرے اور اپنے گھر والوں کو بھی نماز کی تاکید کرتا رہے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا: اے میرے پالنے والے! مجھے نماز کا پابند رکھ اور میری اولاد میں سے بھی (مجھے اور میری اولاد کو نماز کا پابند بنادے) (سورہ ابراہیم، آیت ۴۰) حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے ساتھ اپنی اولاد کے لئے بھی نماز کی پابندی کرنے کی دعا مانگی، جس سے معلوم ہوا کہ ہر شخص کو اپنے ساتھ اپنے گھر والوں کی بھی نمازکی فکر کرنی چاہئے۔حکیم لقمان کی اپنے بیٹے کو نصیحت: اے میرے پیارے بیٹے! تو نماز قائم رکھنا۔ (سورہ لقمان، آیت ۱۷) حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: تم سب ذمہ دار ہو اور تم سب سے تمہارے ماتحت لوگوں کے سلسلہ میں بازپرس ہوگی ۔ مرد اپنے اہل وعیال کا ذمہ دار ہے۔ اس سے اس کے ماتحت لوگوں کے بارے میں بازپرس ہوگی۔ (بخاری ومسلم) حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اپنے بچوں کو سات سال کی عمر میں نماز کا حکم کرو۔ دس سال کی عمر میں نماز نہ پڑھنے پر انہیں مارو۔ (ابو داود)
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ میں ایک رات اپنی خالہ حضرت میمونہ رضی اللہ عنہاکے گھر تھا۔ شام میں حضوراکرمصلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو آپ نے دریافت کیا کہ لڑکے نے نماز پڑھ لی، تو لوگوں نے کہا ہاں ۔ (ابوداود) غرض نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بچوں کی بھی نماز کی نگرانی فرمایا کرتے تھے۔
اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں نمازوں کا اہتمام کرنے والا بنائے۔ آمین، ثم آمین۔
محمد نجیب قاسمی سنبھلی ، ریاض (www.najeebqasmi.com)

نماز کی اہمیت

بسم الله الرحمن الرحيم

اَلْحَمْدُ لِله رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلام عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔

نماز کی اہمیت

نماز ایمان کے بعد اسلام کا اہم ترین رُکن ہے۔ قرآنِ کریم اور احادیثِ شریفہ میں نماز کی اہمیت وفضیلت کو کثرت سے ذکر کیا گیا ہے جن میں نماز کو قائم کرنے پر بڑے بڑے وعدے اور نماز کو ضائع کرنے پر سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں۔یہاں بعض آیات واحادیث شریفہ کا ذکر کیا جارہا ہے۔
آیاتِ قرآنیہ:
جو کتاب آپ پر وحی کی گئی ہے اسے پڑھئے اور نماز قائم کیجئے، یقیناًنماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے۔ (سورۂ العنکبوت ۴۵)
(وضاحت) نماز میں اللہ تعالیٰ نے یہ خاصیت وتاثیر رکھی ہے کہ وہ نمازی کو گناہوں اور برائیوں سے روک دیتی ہے مگر ضروری ہے کہ اس پرپابندی سے عمل کیا جائے اور نماز کو اُن شرائط وآداب کے ساتھ پڑھا جائے جو نماز کی قبولیت کے لئے ضروری ہیں،جیسا کہ حدیث میں ہے کہ ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا اور کہا کہ فلاں شخص راتوں کو نماز پڑھتا ہے مگر دن میں چوری کرتا ہے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہُ اس کی نماز عنقریب اُس کو اِس برے کام سے روک دے گی۔ (مسند احمد، صحیح ابن حبان، بزاز)
اے ایمان والو! صبر اور نماز کے ذریعہ مدد چاہو، بیشک اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ (سورۂ البقرۃ ۱۵۳)
(وضاحت) جب بھی کوئی پریشانی یا مصیبت سامنے آئے تو مسلمان کو چاہئے کہ وہ اُس پر صبر کرے اور نماز کا خاص اہتمام کرکے اللہ تعالیٰ سے تعلق قائم کرے۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہر پریشانی کے وقت نماز کی طرف متوجہ ہوتے تھے جیسا کہ حدیث میں ہے: حضرت حذیفہؓ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب بھی کوئی اہم معاملہ پیش آتا، آپ فوراً نماز کا اہتمام فرماتے (ابو داؤد ومسند ا حمد)۔
نبی اکرم ا پانچ فرض نمازوں کے علاوہ نمازِ تہجد، نمازِ اشراق، نمازِ چاشت، تحےۃ الوضوء اور تحےۃ المسجد کا بھی اہتمام فرماتے۔ اور پھر خاص خاص مواقع پر اپنے رب کے حضور توبہ واستغفار کے لئے نماز ہی کو ذریعہ بناتے۔ سورج گرہن یا چاند گرہن ہوتا تو مسجد تشریف لے جاتے۔ زلزلہ، آندھی یا طوفان حتی کہ تیز ہوا بھی چلتی تو مسجد تشریف لے جاکر نماز میں مشغول ہوجاتے۔ فاقہ کی نوبت آتی یا کوئی دوسری پریشانی یا تکلیف پہنچتی تو مسجد تشریف لے جاتے۔ سفر سے واپسی ہوتی تو پہلے مسجد تشریف لے جاکر نماز ادا کرتے۔
س لئے ہمیں بھی چاہئے کہ نماز کا خاص اہتمام کریں۔ اور اگر کوئی پریشانی یا مصیبت آئے تو نمازوں کی ادائیگی اور صبر کے ذریعہ اللہ تعالیٰ سے مدد مانگیں، یہ چیز شاق وبھاری ہے مگر اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والوں کے لئے مشکل نہیں۔ (سورۂ البقرہ ۴۵)
اللہ تعالیٰ نے فرمادیا کہ میں تمہارے ساتھ ہوں اگر تم نماز قائم رکھوگے اور زکاۃ دیتے رہوگے۔ (سورۂ المائدہ ۱۲)
(وضاحت) یعنی نماز کی پابندی کرنے سے بندہ اللہ تعالیٰ کے بہت زیادہ قریب ہوجاتاہے جیسا کہ نبی اکرم ا نے فرمایا: بندہ کو اللہ تعالیٰ کا سب سے زیادہ قرب سجدے کی حالت میں حاصل ہوتا ہے۔ غرض اللہ تعالیٰ کے احکام کو بجا لانے، خاص کرنماز کا اہتمام کرنے سے اللہ تعالیٰ بندے کے ساتھ ہوجاتا ہے۔
یقیناًان ایمان والوں نے فلاح (کامیابی) پائی جو اپنی نماز میں خشوع کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور جو اپنی نمازوں کی خبر رکھتے ہیں، یہی وہ وارث ہیں جو (جنت) الفردوس کے وارث ہوں گے جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ (سورۂ المؤمنون ۱ ۔ ۱۱)
(وضاحت) ان آیات میں کامیابی پانے والے مؤمنین کی چھ صفات بیان کی گئی ہیں: پہلی صفت‘ خشوع وخضوع کے ساتھ نمازیں ادا کرنا۔۔۔۔۔۔۔۔ اور آخری صفت پھر‘ نمازوں کی پوری طرح حفاظت کرنا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ نماز کا اللہ تعالیٰ کے پاس کیا درجہ ہے اور کس قدر مہتم بالشان چیزہے کہ مؤمنین کی صفات کو نماز سے شروع کرکے نماز ہی پر ختم فرمایا۔
اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ یہی وہ لوگ ہیں جو جنت کے وارث یعنی حق دار ہوں گے، جنت بھی جنت الفردوس‘ جو جنت کا اعلیٰ حصہ ہے جہاں سے جنت کی نہریں جاری ہوئی ہیں۔ غرض جنت الفردوس کو حاصل کرنے کے لئے نماز کا اہتمام بے حد ضروری ہے۔
بیشک انسان بڑے کچّے دل والا بنایا گیا ہے جب اسے مصیبت پہنچتی ہے تو ہڑبڑا اٹھتا ہے اور جب راحت ملتی ہے تو بخل کرنے لگتا ہے، مگر وہ نمازی جو اپنی نمازوں کی پابندی کرتے ہیں۔۔۔۔۔ اور جو اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ یہی لوگ جنتوں میں عزت والے ہوں گے۔ (سورۂ المعارج ۱۹۔۳۵)
(وضاحت) ان آیات میں جنتیوں کی آٹھ صفات بیان کی گئی ہیں جن کو نماز سے شروع اور نماز ہی پرختم کیا گیاہے۔ معلوم ہوا کہ نماز‘ اللہ کی نظر میں کس قدر مہتم بالشان عبادت ہے۔
احادیثِ نبویہ:
رسول اللہ انے ارشاد فرمایا: قیامت کے دن آدمی کے اعمال میں سب سے پہلے فرض نماز کا حساب لیا جائیگا۔ اگر نماز درست ہوئی تو وہ کامیاب وکامران ہوگا، اور اگر نماز درست نہ ہوئی تو وہ ناکام اور خسارہ میں ہوگا۔ (ترمذی، ابن ماجہ، نسائی، ابوداؤد، مسند احمد)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: قیامت کے دن سب سے پہلے نماز کا حساب لیا جائے گا۔ اگر نماز اچھی ہوئی تو باقی اعمال بھی اچھے ہوں گے، اور اگر نماز خراب ہوئی تو باقی اعمال بھی خراب ہوں گے۔ (طبرانی)
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ا سے دریافت کیا کہ اللہ کو کونسا عمل زیادہ محبوب ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: نماز کو اس کے وقت پر ادا کرنا۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے کہا کہ اس کے بعد کونسا عمل اللہ کو زیادہ پسند ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: والدین کی فرمانبرداری۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے کہا کہ اس کے بعد کونسا عمل اللہ کو زیادہ محبوب ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کے راستہ میں جہاد کرنا۔ (بخاری ، مسلم)
حضرت عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ کے رسول سے بیعت نہیں کرتے؟ آپ ا نے تین مرتبہ اسکو کہا، تو ہم نے اپنے ہاتھ بیعت کے لئے بڑھادئے اوربیعت کی۔ ہم نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہم نے کس چیز پر بیعت کی؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: صرف اللہ کی عبادت کرو، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو، اورنمازوں کی پابندی کرو۔ اس کے بعد آہستہ آواز میں کہا: لوگوں سے کسی چیز کا سوال نہ کرو۔ (نسائی، ابن ماجہ، ابوداؤد، مسند احمد)
حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کا ذکر فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا: جو شخص نماز کا اہتمام کرتا ہے تو نماز اس کے لئے قیامت کے دن نور ہوگی، اس (کے پورے ایماندار ہونے) کی دلیل ہوگی اور قیامت کے دن عذاب سے بچنے کا ذریعہ ہوگی۔ اور جو شخص نماز کا اہتمام نہیں کرتا اس کے لئے قیامت کے دن نہ نور ہوگا، نہ اس (کے پورے ایماندار ہونے) کی کوئی دلیل ہوگی، نہ عذاب سے بچنے کا کوئی ذریعہ ہوگا۔ اور وہ قیامت کے دن فرعون، قارون، ہامان اور ابی بن خلف کے ساتھ ہوگا۔ (صحیح ابن حبان ، طبرانی، بیہقی، مسند احمد)
(وضاحت) علامہ ابن قیم ؒ نے (کتاب الصلاۃ) میں ذکر کیا ہے کہ ان کے ساتھ حشر ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اکثر ان ہی باتوں کی وجہ سے نماز میں سستی ہوتی ہے جو ان لوگوں میں پائی جاتی تھیں۔ پس اگر اسکی وجہ مال و دولت کی کثرت ہے تو قارون کے ساتھ حشر ہوگا اور اگر حکومت و سلطنت ہے تو فرعون کے ساتھ اور وزارت (یا ملازمت) ہے تو ہامان کے ساتھ اور تجارت ہے تو ابی بن خلف کے ساتھ حشر ہوگا۔ جو لوگ اپنے آپ کو مسلمان کہنے کے باوجود بالکل نماز ہی نہیں پڑھتے یا کبھی کبھی پڑھ لیتے ہیں، وہ غور کریں کہ ان کا انجام کیا ہوگا۔ یا اللہ! اس انجامِ بد سے ہماری حفاظت فرما۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: نماز نور ہے، صدقہ دلیل ہے، صبر کرنا روشنی ہے اور قرآن تمہارے حق میں دلیل ہے یا تمہارے خلاف دلیل ہے (یعنی اگر اسکی تلاوت کی اور اس پر عمل کیا تو یہ تمہاری نجات کا ذریعہ ہوگا ،ورنہ تمہاری پکڑ کا ذریعہ ہوگا)۔ (مسلم)
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں ایک سفر میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا۔ ایک دن میں آپ ا کے قریب تھا، ہم سب چل رہے تھے۔ میں نے کہا: اے اللہ کے پیغمبر! آپ مجھے ایسا عمل بتادیجئے جسکی بدولت میں جنت میں داخل ہوجاؤں اور جہنم سے دور ہوجاؤں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم نے بڑی بات پوچھی ہے۔ لیکن اللہ جس کے لئے آسان کردے اس کے لئے آسان ہے۔ اللہ کی عبادت کرو اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو، نماز قائم کرو، زکاۃ دو، رمضان کے روزے رکھو اوراللہ کے گھر کا حج کرو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تمہیں اس معاملہ کی اصل، اس کا ستون اور اسکی عظمت نہ بتادوں؟ میں نے کہا ضرور۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: معاملہ کی اصل اسلام ہے، اس کا ستون نماز ہے اور اسکی عظمت اللہ کی راہ میں جہاد ہے۔ (ابن ماجہ، ترمذی، مسند احمد)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ نے بندوں پر پانچ نمازیں فرض فرمائی ہیں، جو اِن نمازوں کو اس طرح لیکر آئے کہ ان میں لاپرواہی سے کسی قسم کی کوتاہی نہ کرے تو حق تعالیٰ شانہ کا عہد ہے کہ اس کو جنت میں ضرور داخل فرمائیں گے۔ اور جو شخص ایسا نہ کرے تو اللہ تعالیٰ کا کوئی عہد اس سے نہیں، چاہے اسکو عذاب دیں چاہے جنت میں داخل کردیں ۔ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر پانچ نمازیں فرض فرمائی ہیں، جو اِن نمازوں کو (قیامت کے دن) اس طرح لیکر آئے کہ ان میں لاپرواہی سے کسی قسم کی کوتاہی نہ کی ہو تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس بندے سے عہد کرکے اس کو جنت میں داخل فرمائیں گے اور جو اِن نمازوں کواس طرح لیکر آئے کہ ان میں لاپرواہیوں سے کوتاہیاں کی ہیں تو اللہ کا اس سے کوئی عہد نہیں چاہے اسکو عذاب دیں ، چاہے معاف فرمادیں. (مؤطا مالک، ابن ماجہ، مسند احمد) غور فرمائیں کہ نماز کی پابندی پر جس میں زیادہ مشقت بھی نہیں ہے، مالک الملک دو جہاں کا بادشاہ جنت میں داخل کرنے کا عہد کرتا ہے پھر بھی ہم اس اہم عبادت سے لاپرواہی کرتے ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص پانچوں نمازوں کی اس طرح پابندی کرے کہ وضو اور اوقات کا اہتمام کرے، رکوع اور سجدہ اچھی طرح کرے اور اس طرح نماز پڑھنے کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے ذمہ ضروری سمجھے تو اس آدمی کو جہنم کی آگ پر حرام کردیا گیا۔ (مسند احمد)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جنت کی کنجی نمازہے، اور نماز کی کنجی پاکی (وضو) ہے۔ (ترمذی، مسند احمد)
حضرت ربیعہ بن کعب اسلمی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس (آپکی خدمت کیلئے) رات گزارتا تھا، ایک رات میں نے آپ کے لئے وضو کا پانی اور ضرورت کی چیزیں پیش کیں۔ آپ انے فرمایا کچھ سوال کرنا چاہتے ہو تو کرو ۔ میں نے کہا: میں چاہتا ہوں کہ جنت میں آپ کے ساتھ رہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کے علاوہ کچھ اور۔ میں نے کہا: بس یہی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنی اس خواہش کی تکمیل کے لئے زیادہ سے زیادہ سجدے کرکے میری مدد کرو ۔ (یعنی نماز کے اہتمام سے یہ خواہش پوری ہوگی)۔
خوش نصیب ہیں اللہ کے وہ بندے جو اِس دنیاوی زندگی میں نمازوں کا اہتمام کرکے جنت الفردوس میں تمام نبیوں کے سردار حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی مرافقت پائیں۔ (مسلم)
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میری آنکھوں کی ٹھنڈک نمازمیں رکھی گئی ہے۔ (نسائی، بیہقی، مسند احمد)
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانِ مبارک سے نکلا آخری کلام (نماز، نماز اور غلاموں کے بارے میں اللہ سے ڈرو ) تھا۔ (ابو داؤد، مسند احمد)
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری وصیت یہ ارشاد فرمائی: نماز، نماز ۔ اپنے غلاموں (اور ماتحت لوگوں) کے بارے میں اللہ سے ڈرو، یعنی ان کے حقوق ادا کرو۔ جس وقت آپ انے یہ وصیت فرمائی آپ اکی زبانِ مبارک سے پورے لفظ نہیں نکل رہے تھے۔ (مسند احمد)
حضرت عمرو اپنے والد اور وہ اپنے دادا (حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ) سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اپنے بچوں کو سات سال کی عمر میں نماز کا حکم کرو۔ دس سال کی عمر میں نماز نہ پڑھنے پر انہیں مارو، اور اس عمر میں علیحدہ علیحدہ بستروں پر سلاؤ ۔ (ابوداؤد)
(وضاحت) والدین کو حکم دیا گیا کہ جب بچہ سات سال کا ہوجائے تو اسکی نماز کی نگرانی کریں، دس سال کی عمر میں نماز نہ پڑھنے پر پٹائی بھی کریں تاکہ بلوغ سے قبل نماز کا پابند ہوجائے، اور بالغ ہونے کے بعد اس کی ایک نماز بھی فوت نہ ہو کیونکہ ایک وقت کی نماز جان بوجھ کر چھوڑنے پر احادیث میں سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں، بلکہ بعض علماء کی رائے کے مطابق وہ ملتِ اسلامیہ سے نکل جاتا ہے۔
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اپنے گورنروں کو یہ حکم جاری فرمایا کہ میرے نزدیک تمہارے امور میں سب سے زیادہ اہمیت نماز کی ہے۔ جس نے نمازوں کی پابندی کرکے اسکی حفاظت کی، اس نے پورے دین کی حفاظت کی اور جس نے نماز کو ضائع کیا وہ نماز کے علاوہ دین کے دیگر ارکان کو زیادہ ضائع کرنے والا ہوگا۔ (مؤطا امام مالک)
(وضاحت) حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے اس ارشاد سے واضح طور پر معلوم ہوا کہ جو شخص نماز میں کوتاہی کرتاہے، وہ یقیناًدین کے دوسرے کاموں میں بھی سستی کرنے والا ہوگا۔ اور جس نے وقت پر خشوع وخضوع کے ساتھ نمازوں کا اہتمام کرلیا، وہ یقیناًپورے دین کی حفاظت کرنے والا ہوگا۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ شبِ معراج میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر پچاس نمازیں فرض ہوئیں، پھر کم ہوتے ہوتے پانچ رہ گئیں۔ آخر میں (اللہ تعالیٰ کی طرف سے) اعلان کیا گیا۔ اے محمد! میرے ہاں بات بدلی نہیں جاتی، لہذا پانچ نمازوں کے بدلے پچاس ہی کا ثواب ملے گا۔ (ترمذی)
(وضاحت) صرف نماز ہی دینِ اسلام کا ایک ایسا عظیم رُکن ہے جسکی فرضیت کا اعلان زمین پر نہیں بلکہ ساتوں آسمانوں کے اوپر بلند واعلیٰ مقام پر معراج کی رات ہوا۔ نیز اسکا حکم حضرت جبرائیل علیہ السلام کے ذریعہ نبی اکرم ا تک نہیں پہنچا، بلکہ اللہ تعالیٰ نے فرضیتِ نماز کا تحفہ بذاتِ خود اپنے حبیب ا کو عطا فرمایا۔
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے یمن بھیجا تو ارشاد فرمایا: تم ایسے لوگوں کے پاس جارہے ہو جو اہل کتاب ہیں، لہذا سب سے پہلے ان کو اس بات کی دعوت دینا کہ اللہ کے سواء کوئی معبود نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں۔ جب اس بات کو مان لیں تو انہیں بتاؤ کہ اللہ تعالیٰ نے روزانہ پانچ نمازیں ان پر (ہر مسلمان پر) فرض کی ہیں۔۔۔۔۔ (بخاری ،مسلم)
رسول اللہ ا نے ارشاد فرمایا: سات قسم کے آدمی ہیں جن کو اللہ تعالیٰ اپنی (رحمت کے) سایہ میں ایسے دن جگہ عطا فرمائے گا جس دن اس کے سایہ کے سوا کوئی سایہ نہ ہوگا۔ اُن سات لوگوں میں سے ایک وہ شخص بھی ہے جس کا دل مسجد سے اٹکا ہوا ہو (یعنی وقت پر نماز ادا کرتا ہو) ۔ (بخاری ،مسلم)
رسول اللہ ا نے ارشاد فرمایا: تم میں سے جب کوئی نماز کے لئے کھڑا ہوتا ہے تو وہ اللہ سے مناجات (سرگوشی) کرتا ہے۔ (بخاری(
محمد نجیب قاسمی سنبھلی (najeebqasmi@yahoo.com)

نماز کے اوقات

بسم الله الرحمن الرحيم

اَلْحَمْدُ لِله رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلام عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔

نماز کے اوقات

اللہ تعالیٰ نے ہر مسلمان بالغ مرد وعورت پر روزانہ پانچ اوقات کی نمازیں فرض فرمائی ہیں،جیسا کہ قرآن کریم میں بے شمار جگہوں پر اللہ جل شانہ نے ہمیں نماز پڑھنے کا حکم دیاہے مثلاً:یقیناً نماز مؤمنوں پر مقررہ وقتوں میں فرض ہے. (سورہ النساء ۱۰۳)
نماز کو قائم کرو آفتاب کے ڈھلنے سے لیکر رات کی تاریکی تک اور فجر کا قرآن پڑھنا بھی۔ یقیناً فجر کا قرآن پڑھنا حاضر کیا گیاہے ، یعنی اس وقت فرشتے حاضر ہوتے ہیں۔۔۔۔ (سورہ بنی اسرائیل ۷۸) مفسرین نے لکھا ہے کہ اس آیت میں دلوک الشمس سے ظہر اور عصر کی نمازیں ، غسق اللیل سے مغرب اور عشاء کی نمازیں اور قرآن الفجر سے فجر کی نماز مراد ہے۔
دن کے دونوں سروں میں نماز قائم رکھ اور رات کے کچھ حصہ میں بھی۔ یقیناً نیکیاں برائیوں کو دور کردیتی ہیں۔ (سورہ ہود ۱۱۴)
نماز کے اوقات، رکعات اور طریقہ نماز کا تفصیلی ذکر قرآن کریم میں بیان نہیں کیا گیاہے بلکہ قرآن کریم کے مفسر اول رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اقوال وافعال سے مکمل وضاحت کے ساتھ ذکر کیا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا قول وعمل بھی اللہ تعالیٰ کی وحی ہی ہوتا ہے ، جیساکہ قرآن میں ہے : آپ تو وحی کے بغیر لب کشائی ہی نہیں کرتے۔ (سورہ النجم ۳۔۴)۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو دو دن نماز پڑھائی، پہلے دن تمام نمازیں اول وقت میں اور دوسرے دن تقریباًآخری وقت میں ادا فرمائیں اور ارشاد فرمایا کہ تمہاری پانچوں نمازوں کے وقت انہی اوقات کے درمیان میں ہے، جن کو تم نے دیکھا (مسلم ۔ کتاب المساجد)۔
پانچوں نمازوں کے اوقات کیا ہیں؟
نمازِ فجر: صبح صادق سے لے کر سورج کے طلوع ہونے تک۔
زمان ومکان کے اختلاف کے ساتھ عموماً ایک گھنٹہ ۲۰ منٹ سے لیکر ایک گھنٹہ ۳۰ منٹ تک نمازِ فجر کا وقت رہتا ہے
نمازِ ظہر: زوالِ آفتاب (سورج کے ڈھلنے) سے نمازِ عصر کا وقت شروع ہونے تک۔
نمازِ عصر: جب ہر چیز کا سایہ اصلی سایہ کے علاوہ دو مثل ہوجائے تو ظہر کا وقت ختم ہوکر عصر کا وقت شروع ہوجاتا ہے اور
غروبِ آفتاب تک رہتا ہے۔۔۔۔ احادیث کی روشنی میں ظہر کا وقت ختم ہونے اور عصر کا وقت شروع ہونے
میں اختلاف ہے، موجودہ رائے امام ابوحنیفہ کی ہے۔ دیگر علماء کی رائے یہ ہے کہ جب ہر چیز کا سایہ اصلی سایہ
کے علاوہ ایک مثل ہوجائے تو ظہر کا وقت ختم ہوکر عصر کا وقت شروع ہوجاتا ہے۔ البتہ تمام علماء اس بات پر متفق
ہیں کہ نمازِ عصر کی اتنی تاخیر سے ادائیگی کرنا کہ سورج زرد ہوجائے ،مکروہ ہے۔
نمازِ مغرب: غروبِ آفتاب سے تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ تک۔ البتہ احادیث میں مذکورہے کہ نمازِ مغرب میں زیادہ تاخیر کرنا مکروہ ہے۔
نمازِ عشاء: سورج چھپنے کے تقریبا ڈیڑھ گھنٹہ کے بعد سے صبح صادق تک۔ البتہ آدھی رات کے بعد عشاء کی نماز کے لئے مکروہ وقت۔
شروع ہوجاتا ہے۔ نماز وتر کا وقت بھی صبح صادق تک ہے ، البتہ وتر نمازِ عشاء کی ادائیگی کے بعد ہی پڑھ سکتے ہیں۔
اوقاتِ مکروھہ:
نماز کے مکروہ اوقات پانچ ہیں: ان میں سے تین ایسے ہیں جن میں فرض اور نفل دونوں نمازیں مکروہ تحریمی ہیں۔ وہ تین اوقات یہ ہیں:
سورج کے طلوع ہونے کے وقت۔
زوالِ آفتاب کے وقت۔
سورج کے غروب ہونے کے وقت۔
وضاحت: اگر عصر کی نماز نہیں پڑھی یہاں تک کہ سورج کے غروب ہونے کا وقت قریب آگیا تو کراہت کے ساتھ اس دن کی عصر کی نماز سورج کے ڈوبنے کے وقت بھی ادا کی جاسکتی ہے۔
ان اوقات کے علاوہ دو اوقات ایسے ہیں کہ جن میں صرف نفل نماز پڑھنا مکروہ ہے،البتہ فوت شدہ فرض نماز کی قضا کی جاسکتی ہے۔
نمازِ فجر کے بعدسے طلوع آفتاب تک ۔
عصر کی نماز کے بعد سے سورج کے غروب ہونے تک ۔
حضرت عمروسلمی ثفرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: اے اللہ کے نبی ا مجھے ایسی چیز بتلائیے جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو بتائی ہو اور مجھے معلوم نہ ہو، خاص طور پر نماز کے متعلق بتلائیے۔ آپ ا نے ارشاد فرمایا: صبح کی نماز پڑھ کر کوئی اور نماز پڑھنے سے رُکے رہو تاآنکہ آفتاب طلوع ہوکر بلند ہوجائے، کیونکہ آفتاب شیطان کے دو سینگوں کے درمیان طلوع ہوتا ہے اور اس وقت سورج پرست کفار اسے سجدہ کرتے ہیں۔ جب سورج کچھ بلند ہوجائے تو پھر نماز پڑھوکیونکہ ہر نماز بارگاہِ الہی میں پیش کی جاتی ہے، البتہ جب نیزہ بے سایہ ہوجائے (زوال کے وقت) تو نماز نہ پڑھو، کیونکہ یہ جہنم کو دہکانے کا وقت ہے اور جب سایہ بڑھنا شروع ہوجائے تو پھر نماز پڑھو، کیونکہ نماز اللہ کے حضور پیش کی جاتی ہے۔ جب عصر کی نماز پڑھ چکو تو پھر دوسری نماز سے رک جاؤ تا آنکہ سورج غروب ہوجائے، کیونکہ سورج شیطان کے دو سینگوں کے درمیان غروب ہوتا ہے اور اس وقت سورج پرست کفار سورج کو سجدہ کرتے ہیں ۔ مسلم، الاوقات التی نہی عن الصلاۃ فیھا
حضرت ابو سعید خدری کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ا کو یہ فرماتے ہوئے سنا: صبح کی نماز کے بعد آفتاب کے بلند ہونے تک اور کوئی نماز نہیں ہے اور عصر کی نماز کے بعد غروب آفتاب تک اور کوئی نماز پڑھنا صحیح نہیں ہے۔ (بخاری ، لایتحری الصلاۃ قبل الغروب)۔
مسئلہ: اگر فرض نماز اس کے وقت مقرر پر ادا نہ کی گئی تو وقت نکل جانے کے بعد بھی پڑھنی ہوگی، البتہ یہ ادا نہیں بلکہ قضا ہوگی۔ یاد رکھیں کہ نماز کو شرعی عذر کے بغیر وقت پر ادا نہ کرنا گناہ کبیرہ ہے اگرچہ بعد میں قضا کرلی جائے، لیکن قضا بھی نہ کرنا اس سے بھی بڑا گناہ ہے، قرآن وحدیث میں سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں نمازوں کو وقت پر ادا کرنے والا بنائے، آمین۔

محمد نجیب قاسمی، ریاض

نماز اور خطبہ صرف عربی زبان میں

بسم الله الرحمن الرحيم

اَلْحَمْدُ لِله رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلام عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔

نماز اور خطبہ صرف عربی زبان میں

نماز صرف عربی میں:
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام کے اقوال وافعال کی روشنی میں علماء کرام نے تحریر فرمایا ہے کہ تکبیر تحریمہ سے لے کر سلام پھیرنے تک جو کچھ نماز میں پڑھا جاتا ہے بلکہ نماز سے قبل یعنی اذان واقامت کا بھی عربی زبان میں ہی پڑھنا ضروری ہے۔ حتی کہ علماء کرام کی ایک بڑی جماعت نے تحریر کیا ہے کہ سجدہ کی حالت میں اور نماز کے آخر میں درود سے فراغت کے بعد عربی زبان میں وہی دعائیں پڑھنی چاہئیں جو قرآن کریم میں وارد ہیں یا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں۔ قرآن وحدیث میں وارد دعاؤں کے علاوہ عربی زبان میں نماز میں دعائیں مانگنے کو علماء کرام نے مکروہ قرار دیا ہے، بلکہ علماء کرام کی ایک جماعت نے عربی کے علاوہ کسی دوسری زبان میں نماز کے اندر دعائیں پڑھنے پر نماز کے اعادہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس لئے ہمیں نماز میں تکبیر تحریمہ سے لے کر سلام پھیرنے تک عربی زبان کے علاوہ کسی دوسری زبان میں کچھ نہیں پڑھنا چاہئے کیونکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام کے زمانہ میں لوگ جوق در جوق اسلام میں داخل ہورہے تھے حتی کہ عجمیوں کی بڑی تعداد نے اسلام قبول کیا مگر ایک واقعہ بھی ایسا نہیں ملتا جس میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم یا کسی صحابی نے عربی کے علاوہ کسی دوسری زبان میں نماز پڑھنے کی یا نماز میں کسی دوسری زبان میں دعا مانگنے کی اجازت دی ہو بلکہ صحابۂ کرام پھر تابعین اور تبع تابعین نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال وافعال کی روشنی میں تمام عرب وعجم کو عملی طور پر یہی تعلیم دی ہے کہ نماز میں سورۃ الفاتحہ، تلاوتِ قرآن ، رکوع وسجدہ کی تسبیحات، تشہد ، درود اور مخصوص دعائیں صرف عربی زبان میں ہی پڑھنی ہیں۔ احکام شرعیہ کی بنیاد عقل پر نہیں کہ کس کو صحیح یا غلط سمجھتی ہے بلکہ قرآن کریم میں وارد احکام اور صحابۂ کرام، تابعین اور تبع تابعین وغیرہ سے منقول حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال وافعال یعنی احادیث نبویہ پر ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ سجدہ کے دوران اور نماز کے آخر میں دعائیں قبول کی جاتی ہیں، لیکن صحیح مسلم میں ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشا د فرمایا:نماز میں لوگوں کے کلام سے کوئی چیز صحیح نہیں ہے بلکہ نماز میں صرف اللہ کی تسبیح اور تکبیر اور قرآن کریم کا پڑھنا ہے۔ (صحیح مسلم: باب تحریم الکلام فی الصلاۃ ونسخ ما کان من اباحتہ) اسی لئے نماز کے دوران سلام کا جواب دینا یا کسی چھینکنے والے کے الحمد للہ کہنے کے جواب میں یرحمک اللہ کہنا صحیح نہیں ہے۔ حضرت امام ابوحنیفہ ؒ اور حضرت امام احمد بن حنبل ؒ کی بھی قرآن وحدیث کی روشنی میں یہی رائے ہے کہ نمازمیں صرف وہی دعائیں مانگی جائیں جو قرآن کریم میں وارد ہیں یا جن کا پڑھنا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔ قرآن وحدیث کی روشنی میں حضرت امام ابوحنیفہ ؒ اور علماء احناف کی رائے کتابوں میں مذکور ہے، چنانچہ مختلف فیہ مسائل میں حضرت امام ابوحنیفہ ؒ کی رائے کو ترجیح دینے والے ہند وپاک کے علماء نے بھی یہی موقف اختیار کیا ہے کہ نماز میں دنیاوی امور سے متعلق دعائیں نہ کی جائیں بلکہ عربی زبان میں صرف وہی دعائیں مانگی جائیں جو قرآن کریم میں وارد ہیں یا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں۔ سجدہ کی حالت اور نماز کے آخر میں درود پڑھنے سے فراغت کے بعد کے علاوہ متعدد مواقع ہیں کہ جن میں کی گئی دعائیں قبول کی جاتی ہیں، جیسا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ اذان اور اقامت کے درمیان کی جانے والے دعا رد نہیں ہوتی ہے، لہذا اس وقت خوب دعائیں کرو۔ (ترمذی، مسند احمد، ابوداود، صحیح ابن خزیمہ، صحیح ابن حبان) اس لئے نماز کے اندر اپنی دنیاوی ضرورتوں کو نہ مانگا جائے بلکہ نماز کے باہر بے شمار اوقات اور حالات ہیں جن میں دعائیں قبول کی جاتی ہیں، ان اوقات وحالات میں اپنی، اپنے بچوں اور گھر والوں کی دنیاوی ضرورتوں کو خوب مانگیں۔
حنبلی مکتبِ فکر کی مشہور کتاب (الانصاف) میں تحریر ہے کہ وہ دعائیں جو قرآن کریم میں وارد نہیں ہیں یا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہیں اور اخروی امور سے متعلق نہیں ہیں تو صحیح مذہب یہی ہے کہ نماز میں اس طرح کی دعائیں نہیں کرنی چاہئے بلکہ اس نوعیت کی دعاؤں سے نماز باطل ہوجاتی ہے، اکثر علماء کی یہی رائے ہے۔
حنبلی مکتب فکر کے مشہور عالم علامہ ابن قدامہ ؒ نے اپنی کتاب (المغنی ۲ / ۲۳۶) میں تحریر کیا ہے کہ نماز میں ایسی دعائیں کرنا جائز نہیں جن کا تعلق دنیا کی لذتوں اور شہوتوں سے ہے اور جن کا تعلق انسانوں کے کلام اور ان کی خواہشوں سے ہے۔
مذکورہ بالا دلائل اور علماء امت کے اقوال کی روشنی میں مسئلہ واضح ہوگیا کہ اگر ہم اپنی نماز کے اندر (یعنی سجدہ کی حالت میں اور آخری رکعت میں درود پڑھنے کے بعد) دعا کرنا چاہتے ہیں تو عربی زبان میں صرف وہی دعائیں مانگیں جن کا ذکر قرآن کریم میں ہے یا جن کا پڑھنا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔ جن حضرات کو ایسی دعائیں یا د نہیں ہیں تو ان کے لئے نماز کے علاوہ بے شمار اوقات وحالات ہیں جن میں دعائیں قبول کی جاتی ہیں، مثلاً اذان واقامت کے درمیان کا وقت، فرض نماز سے فراغت کے بعد وغیرہ وغیرہ، ان اوقات وحالات میں جتنا چاہیں اور جس زبان میں چاہیں اپنی اور اپنے بچوں کی دنیاوی واخروی ضرورتوں کو اللہ تبارک وتعالیٰ سے مانگیں، وہ قبول کرنے والا ہے۔
خطبہ صرف عربی میں:
نماز میں سورۃ الفاتحہ، تلاوت قرآن اور رکوع وسجدہ کی تسبیحات وغیرہ کی طرح جمعہ اور عیدین کا خطبہ بھی صرف عربی زبان میں ہونا چاہئے کیونکہ خطبہ میں وعظ ونصیحت سے زیادہ اللہ کا ذکر مقصود ہوتا ہے۔ چنانچہ نمازِ جمعہ کے لئے خطبہ کا ضروری ہونا، خطبہ پڑھنے کے لئے ظہر کے وقت کا ضروری ہونا، خطبہ کا نمازِ جمعہ سے قبل ضروری ہونا، خطبہ سے فراغت کے بعد بلا تاخیر نمازِ جمعہ کا پڑھنا، خطبہ کے دوران سامعین کا گفتگو نہ کرنا حتی کہ کسی کو نصیحت بھی نہ کرنا، نیز نماز کی طرح بعض احکام کا مسنون ہونا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ خطبہ میں اصل مطلوب اللہ تعالیٰ کا ذکر ہے اور وعظ ونصیحت کی حیثیت ثانوی ہے کیونکہ وعظ ونصیحت کے لئے یہ تمام شرطیں ضروری نہیں ہیں۔ قرآن کریم، سورۃ الجمعۃ (فَاسْعَوْا اِلَی ذِکْرِ اللّٰہِ) میں وارد ذکر کے لفظ سے اس کی تأیید ہوتی ہے، نیز صحیح بخاری وصحیح مسلم میں ہے کہ جب امام خطبہ کے لئے نکلتا ہے تو فرشتے ذکر سننے کے لئے مسجد کے اندر آجاتے ہیں۔ غرضیکہ قرآن وحدیث میں نماز کی طرح خطبہ کو ذکر سے تعبیر کیا ہے یعنی خطبہ نماز کی طرح اللہ کا ذکر یعنی عبادت ہے، لہذا ہمیں خطبہ دینے کے لئے انہیں امور پر انحصار کرنا چاہئے جن کا ثبوت حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتا ہے۔
اگر جمعہ کا خطبہ کسی دوسری زبان میں دینا جائز ہوتا تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوری زندگی میں کم از کم ایک مرتبہ اس کا ثبوت ملتا، لیکن تمام عمر نبوی میں اس قسم کا ایک واقعہ بھی مروی نہیں ہے۔ آپصلی اللہ علیہ وسلم کے بعد صحابۂ کرام بلاد عجم میں داخل ہوکر دنیا کے گوشہ گوشہ میں پھیل گئے۔ ان صحابۂ کرام کے خطبوں کے الفاظ تاریخ کی کتابوں میں محفوظ ہیں، ان میں کسی ایک صحابی نے زندگی میں ایک مرتبہ بھی بلاد عجم میں داخل ہونے کے باوجود مخاطبین کی زبان میں جمعہ کا خطبہ نہیں دیا، حالانکہ وہ لوگ احکام شرعیہ سے واقفیت کے لئے آج سے کہیں زیادہ محتاج تھے۔ بہت سے صحابۂ کرام دوسری زبانیں بھی جانتے تھے مگر کسی نے عربی زبان کے علاوہ کسی دوسری زبان میں جمعہ کا خطبہ نہیں دیا۔ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ مختلف زبانیں جانتے تھے، اسی طرح حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ فارس کے رہنے والے تھے، حضرت بلال رضی اللہ عنہ حبشہ کے اور حضرت صہیب رضی اللہ عنہ روم کے باشندے تھے، بعض صحابۂ کرام کی مادری زبان عربی کے علاوہ دوسری تھی مگر تاریخ میں ایک واقعہ بھی نہیں ملتا جس میں عربی زبان کے علاوہ کسی دوسری زبان میں کسی صحابی نے جمعہ کا خطبہ دیا ہو۔ صحابۂ کرام کے بعد تابعین اور تبع تابعین نے بھی عربی زبان میں ہی خطبہ دینے کے سلسلہ کو جاری رکھا۔ کسی مشہور محدث یا مفسر سے بھی عربی زبان کے علاوہ کسی دوسری زبان میں خطبہ جمعہ پڑھنے کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ سیاسی وانتظامی امور کے لئے مختلف زبانوں کے ترجمان بھی رکھے گئے مگر ایک مرتبہ بھی خطبہ کسی دوسری زبان میں نہیں پڑھا گیا۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بعض مقاصد کے لئے اپنے پاس ترجمان رکھے تھے مگر ایک مرتبہ بھی انہوں نے خطبہ عربی کے علاوہ دوسری زبان میں نہیں دیا۔
بر صغیر کی اہم ومعروف شخصیت جن کو ہندوپاک کے تمام مکاتب فکر نے تسلیم کیا ہے یعنی شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ (۱۷۶۲م) نے اپنی شرح موطا میں تحریر کیا ہے کہ خطبہ عربی زبان ہی میں ہونا چاہئے کیونکہ تمام مسلمانوں کا مشرق ومغرب میں ہمیشہ یہی عمل رہا ہے باوجودیکہ بہت سے ممالک میں مخاطب عجمی لوگ تھے۔ ریاض الصالحین کے مصنف وصحیح مسلم کی سب سے زیادہ مشہور شرح لکھنے والے امام نوویؒ نے اپنی کتاب الاذکار میں تحریر کیا ہے کہ خطبہ کے شرائط میں یہ بھی ہے کہ وہ عربی زبان میں ہو۔ہندوپاک کے جمہور علماء کا بھی یہی موقف ہے کہ خطبہ صرف عربی زبان میں ہونا چاہئے۔
بعض حضرات کہتے ہیں کہ جب مخاطبین عربی عبارت کو نہیں سمجھتے تو عربی زبان میں خطبہ پڑھنے سے کیا فائدہ۔ قرآن وحدیث کی روشنی میں ذکر کیا گیا کہ خطبہ میں وعظ ونصیحت سے زیادہ اللہ تعالیٰ کا ذکر یعنی عبادت ہے، اور عبادت میں اپنے عقلی گھوڑے دوڑانے کے بجائے صرف انہیں امور پر انحصار کرنا چاہئے جن کا ثبوت حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتا ہے۔ نیز اگر یہ اعتراض خطبہ پڑھنے پر عائد ہوتا ہے تو نماز، قرأتِ قرآن، اذان واقامت اور تکبیرات نماز وغیرہ سب پر یہی اعتراض ہونا چاہئے بلکہ قرأت قرآن پر بہ نسبت خطبہ کے زیادہ عائد ہونا چاہئے کیونکہ قرآن کے نزول کا تو مقصد ہی لوگوں کی ہدایت ہے، اور عمومی طور پر ہدایت کے لئے صرف تلاوت کافی نہیں ہے بلکہ اس کا سمجھنا بھی ضروری ہے، مگر دنیا کا کوئی بھی عالم نماز میں عربی زبان کے علاوہ کسی دوسری زبان میں قرأت قرآن کی اجازت نہیں دیتا۔
لہذا احتیاط اسی میں ہے کہ ہم اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام کی اتباع میں خطبہ صرف عربی زبان میں دیں تاکہ کسی طرح کا کوئی شک وشبہ ہماری عبادت میں پیدا نہ ہو، خواہ خطبہ مختصر ہی کیوں نہ ہو بلکہ خطبہ مختصر ہی ہونا چاہئے کیونکہ احادیث کی کتابوں میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات مختصر خطبہ دینے کی ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی عمومی طور پر زیادہ لمبا خطبہ نہیں دیا کرتے تھے۔ ہاں اذانِ خطبہ سے قبل یا نماز جمعہ کے بعد خطبہ کا ترجمہ مخاطبین کی زبان میں تحریری یا تقریری شکل میں پیش کردیا جائے تاکہ خطبہ کا دوسرا مقصد وعظ ونصیحت بھی مکمل ہوجائے۔
اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرنے والا بنائے، آمین، ثم آمین۔
محمد نجیب قاسمی سنبھلی (www.najeebqasmi.com)

جمعہ کے دن جمعہ مبارک کہنا کا مسئلہ

بسم الله الرحمن الرحيم

اَلْحَمْدُ لِله رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلام عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔

جمعہ کے دن جمعہ مبارک کہنا کا مسئلہ

متعدد احباب نے مجھ سے جمعہ کے دن لوگوں کو جمعہ مبارک کہہ کر مبارکبادی دینے کا حکم معلوم کیا کیونکہ بعض حضرات نے شدت سے کام لے کر اس عمل کو بدعت ہی قرار دے دیاہے، بات اسی پر ختم نہیں ہوتی بلکہ اس عمل کو بدعت قرار دے کر جہنم میں لے جانے والا عمل بھی ثابت کردیا اور اس کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام کے زمانہ میں جمعہ کو جمعہ مبارک کہنے کا کوئی ثبوت نہیں ملتا ہے۔
جواب عرض ہے: جمعہ کے دن کو احادیث نبویہ میں عید سے تعبیر کیا گیا ہے، جیسا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بیشک جمعہ کو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی عید کا دن بنایا ہے۔ جو شخص جمعہ کی نماز پڑھنے کے لئے آئے اسے چاہئے کہ غسل کرے اور جسے خوشبو میسر ہو وہ خوشبو بھی لگائے اور مسواک کو اپنے لئے لازم سمجھو۔ (ابن ماجہ) علامہ ابن القیم ؒ نے اپنی مشہور کتاب زاد المعاد۔ بیان خصائص یوم الجمعہ میں تحریر کیا ہے کہ یہ عید کا دن ہے حو ہر ہفتہ میں ایک بار آتی ہے۔
غرضیکہ اس طرح مسلمانوں کی تین عید ہوجاتی ہیں۔ ایک عید الفطر دوسرے عید الاضحی اور تیسرے جمعہ کا دن۔ عید الفطر اور عیدالاضحی کے موقع پر صحابۂ کرام کا ایک دوسرے کو مبارک بادی پیش کرنا ثابت ہے۔ لیکن جمعہ کے دن مبارک بادی پیش کرنے کا کوئی ثبوت نہیں ملتاہے، لیکن پھر بھی جمعہ ہفتہ کی عید ہے، نیز اس مسئلہ کا تعلق لوگوں کی عادت سے بھی ہے۔ اس وجہ سے علماء کرام نے تحریر کیا ہے کہ اگر کوئی شخص کسی جمعہ کو جمعہ مبارک کہہ کر کسی شخص کو مبارک باد پیش کرنا چاہے تو یہ جائز ہے لیکن اہتمام کے ساتھ ہر جمعہ کو جمعہ کی نماز کے بعد جمعہ مبارک کہہ کر ایک دوسرے کو مبارک باد پیش کرنا صحیح نہیں ہے۔ سعودی عرب کے علماء نے بھی تقریباً یہی بات کہی ہے جو اس لنک پر بھی پڑھی جاسکتی ہے۔ ہندوپاک کے علماء کا بھی یہی موقف ہے۔
http://fatwa.islamweb.net/fatwa/index.php?page=showfatwa&Option=FatwaId&Id=200525
اب رہا معاملہ کہ بعض حضرات نے جمعہ کے دن جمعہ مبارک کہہ کر کسی شخص کو مبارک باد پیش کرنے کو بدعت قرار دیا ہے تو اس نوعیت کی شدت صحیح نہیں ہے، ورنہ ہمارے بے شمار اعمال بدعت بن جائیں گے، ہاں ہر جمعہ کو اہتمام کے ساتھ لوگوں کو جمعہ مبارک کہہ کر مبارکبادی دینے کی عادت بنانا صحیح نہیں ہے۔ واللہ اعلم بالصواب،،،،،
محمد نجیب قاسمی (www.najeebqasmi.com)

جمعہ کے فضائل، اہمیت، مسائل اور احکامات

بسم الله الرحمن الرحيم

اَلْحَمْدُ لِله رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلام عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔

جمعہ کے فضائل، اہمیت، مسائل اور احکامات

اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت سے ساری کائنات پیدا فرمائی اور ان میں سے بعض کو بعض پر فوقیت دی۔۔۔ سات دن بنائے، اور جمعہ کے دن کو دیگر ایام پر فوقیت دی۔جمعہ کے فضائل واہمیت میں یہ بات خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ ہفتہ کے تمام ایام میں صرف جمعہ کے نام سے ہی قرآن کریم میں سورہ نازل ہوئی ہے جسکی رہتی دنیا تک تلاوت ہوتی رہے گی ان شاء اللہ۔
سورۂ جمعہ کا مختصر بیان:
سورۂ جمعہ مدنی سورہ ہے۔ اس سورہ میں ۱۱ آیات اور ۲ رکوع ہیں۔ اس سورہ کی ابتدا اللہ جل شانہ کی تسبیح اور تعریف سے کی گئی ہے، جس میں اللہ تعالیٰ کی چار صفتیں بیان کی گئی ہیں:
الملک (بادشاہ) حقیقی ودائمی بادشاہ، جسکی بادشاہت پر کبھی زوال نہیں ہے۔
القدوس (پاک ذات) جو ہر عیب سے پاک وصاف ہے۔
العزیز (زبردست) جو چاہتا ہے کرتا ہے، وہ کسی کا محتاج نہیں ہے، ساری کائنات کے بغیر سب کچھ کرنے والا ہے۔
الحکیم (حکمت والا) اُس کا ہر فیصلہ حکمت پر مبنی ہوتا ہے۔
اس کے بعد نبی اکرم ا کی رسالت ونبوت کا ذکر کیا گیا ہے کہ ہم نے ناخوانداہ لوگوں میں ان ہی میں سے ایک رسول بھیجا جو اُنہیں ہماری آیتیں پڑھ کر سناتا ہے ، اُن کو پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب وحکمت سکھاتا ہے۔ پھر یہود ونصاری کا تذکرہ کیا گیاہے۔ اس سورہ کی آخری ۳ آیات میں نمازجمعہ کا تذکرہ ہے،جن کا ترجمہ یہ ہے:
اے ایمان والو! جب جمعہ کے دن نماز کے لئے پکارا جائے، یعنی نماز کی اذان ہوجائے، تو اللہ کی یاد کے لئے جلدی کرو۔ اور خرید وفروخت چھوڑدو۔ یہ تمہارے حق میں بہت ہی بہتر ہے اگر تم جانتے ہو (آیت ۹)
اور جب نماز ہوجائے تو زمین میں پھیل جاؤ اور اللہ کا فضل تلاش کرو یعنی رزق حلال تلاش کرو۔ اور اللہ کو بہت یاد کرو تاکہ تم کامیاب ہوجاؤ۔ یعنی نماز تو صرف اِسی جگہ ادا کرسکتے ہو لیکن ذکر ہر جگہ کرسکتے ہو۔ دیکھو مجھے بھول نہ جانا، کام کرتے ہوئے ، محنت مزدوری وملازمت کرتے ہوئے ہر جگہ مجھے یاد رکھنا (آیت ۱۰)
جب لوگ سودا بکتا دیکھتے ہیں یا تماشہ ہوتا ہوا دیکھتے ہیں، تو اُدھر بھاگ جاتے ہیں اور تجھے کھڑا چھوڑ دیتے ہیں۔ تو فرمادیجئے جو اللہ کے پاس ہے وہ بہتر ہے تماشے سے اور سودے سے، اور اللہ سب سے بہتر رزق دینے والے ہیں (آیت ۱۱)
آخری آیت (نمبر ۱۱) کا شان نزول:
ابتداءِ اسلام میں جمعہ کی نماز پہلے اور خطبہ بعد میں ہوتا تھا۔ چنانچہ ایک مرتبہ نبی اکرم ا جمعہ کی نماز سے فراغت کے بعد خطبہ دے رہے تھے کہ اچانک دحیہ بن خلیفہ کا قافلہ ملکِ شام سے غلّہ لیکر مدینہ منورہ پہنچا۔ اُس زمانے میں مدینہ منورہ میں غلّہ کی انتہائی کمی تھی۔ صحابہ کرام ث نے سمجھا کہ نمازِ جمعہ سے فراغت ہوگئی ہے اور گھروں میں غلّہ نہیں ہے، کہیں سامان ختم نہ ہوجائے چنانچہ خطبۂجمعہ چھوڑکر باہر خرید وفروخت کے لئے چلے گئے۔ صرف ۱۲ صحابہ ث مسجد میں رہ گئے۔ اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی۔
حضرت عراک بن مالکؓ جمعہ کی نماز سے فارغ ہوکر مسجد کے دروازہ پر کھڑے ہوجاتے اور یہ دعا پڑھتے:
اے اللہ! میں نے تیری آواز پر حاضری دی، اور تیری فرض کردہ نماز ادا کی، پھر تیرے حکم کے مطابق اس مجمع سے اٹھ آیا، اب تو مجھے اپنا فضل نصیب فرما، تو سب سے بہتر روزی رساں ہے (ابن ابی حاتم) تفسیر ابن کثیر۔
اس آیت کے پیش نظر بعض سلف صالحین نے فرمایا ہے کہ جو شخص جمعہ کے دن نماز جمعہ کے بعد خرید وفروخت کرے اسے اللہ تعالیٰ ستر حصے زیادہ برکت دے گا (تفسیر ابن کثیر)
اذانِ جمعہ:
جس اذان کا اس آیت میں ذکر ہے اس سے مراد وہ اذان ہے جو امام کے منبر پر بیٹھ جانے کے بعد ہوتی ہے۔ نبی اکرم ا کے زمانے میں یہی ایک اذان تھی۔ جب آپ حجرہ سے تشریف لاتے، منبر پر جاتے، تو آپ کے منبر پر بیٹھنے کے بعد آپ ا کے سامنے یہ اذان ہوتی تھی۔ اس سے پہلے کی اذان حضور اکرم ا، حضرت ابوبکر صدیق ؓ اور حضرت عمر فاروق ؓ کے زمانے میں نہیں تھی۔ حضرت عثمان بن عفانؓ کے زمانے میں جب لوگ بہت زیادہ ہوگئے تو آپ نے دوسری اذان ایک الگ مکان (زوراء) پر کہلوائی تاکہ لوگ نماز کی تیاری میں مشغول ہوجائیں۔ زوراء: مسجد کے قریب سب سے بلند مکان تھا۔
ایک اہم نقطہ:
اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں ارشاد فرمایا: جب جمعہ کے دن نماز کے لئے اذان دی جائے۔۔۔جب نماز سے فارغ ہوجائیں ۔۔۔ یہ اذان کس طرح دیجائے؟ اس کے الفاظ کیاہوں؟ نماز کس طرح ادا کریں؟ یہ قرآن کریم میں کہیں نہیں ہے، البتہ حدیث میں ہے۔ معلوم ہوا کہ حدیث کے بغیر قرآن کریم سمجھنا ممکن نہیں ہے۔
جمعہ کا نام جمعہ کیوں رکھا گیا:
اس کے مختلف اسباب ذکر کئے جاتے ہیں:
جمعہ جمع سے ماخوذ ہے جس کے معنی ہیں جمع ہونا۔ کیونکہ مسلمان اِس دن بڑی مساجد میں جمع ہوتے ہیں اور امت
مسلمہ کے اجتماعات ہوتے ہیں ، اِس لئے اِس دن کو جمعہ کہا جاتا ہے۔
چھ دن میں اللہ تعالیٰ نے زمین وآسمان اور تمام مخلوق کو پیدا فرمایا۔ جمعہ کے دن مخلوقات کی تخلیق مکمل ہوئی یعنی
ساری مخلوق اس دن جمع ہوگئی اس لئے اِس دن کو جمعہ کہا جاتا ہے۔
اِس دن یعنی جمعہ کے دن حضرت آدم علیہ السلام پیدا کئے گئے، یعنی اُن کو اِس دن جمع کیا گیا۔
اسلام کا پہلا جمعہ:
یوم الجمعہ کو پہلے یوم العروبہ کہا جاتا تھا۔ نبی اکرم ا کے مدینہ منورہ ہجرت کرنے اور سورۂ جمعہ کے نزول سے قبل انصار صحابہ نے مدینہ منورہ میں دیکھا کہ یہودی ہفتہ کے دن ، اور نصاریٰ اتوار کے دن جمع ہوکر عبادت کرتے ہیں۔ لہٰذا سب نے طے کیا کہ ہم بھی ایک دن اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے کے لئے جمع ہوں۔ چنانچہ حضرت ابو امامہؓ کے پاس جمعہ کے دن لوگ جمع ہوئے، حضرت اسعد بن زرارۃؓ نے دو رکعت نماز پڑھائی۔ لوگوں نے اپنے اِس اجتماع کی بنیاد پر اِس دن کا نام یوم الجمعہ رکھا۔ اس طرح سے یہ اسلام کا پہلا جمعہ ہے (تفسیر قرطبی)
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا پہلا جمعہ:
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ ہجرت کے وقت مدینہ منورہ کے قریب بنو عمروبن عوف کی بستی قبا میں چند روز کے لئے قیام فرمایا۔ قُبا سے روانہ ہونے سے ایک روز قبل جمعرات کے دن آپ ا نے مسجد قبا کی بنیاد رکھی۔ یہ اسلام کی پہلی مسجد ہے جس کی بنیاد تقوی پر رکھی گئی۔ جمعہ کے دن صبح کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم قُبا سے مدینہ منورہ کے لئے روانہ ہوئے۔ جب بنو سالم بن عوف کی آبادی میں پہونچے تو جمعہ کا وقت ہوگیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بطن وادی میں اُس مقام پر جمعہ پڑھایا جہاں اب مسجد (مسجد جمعہ) بنی ہوئی ہے۔ یہ نبی اکرم ا کا پہلا جمعہ ہے (تفسیر قرطبی)
جمعہ کے دن کی اہمیت:
یہودیوں نے ہفتہ کا دن پسند کیا جس میں مخلوق کی پیدائش شروع بھی نہیں ہوئی تھی، نصاری نے اتوار کو اختیار کیا جس میں مخلوق کی پیدائش کی ابتدا ہوئی تھی۔ اور اِس امت کے لئے اللہ تعالیٰ نے جمعہ کو پسند فرمایا جس دن اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پورا کیا تھا۔ صحیح بخاری کی حدیث میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ہم دنیا میں آنے کے اعتبار سے تو سب سے پیچھے ہیں لیکن قیامت کے دن سب سے پہلے ہوں گے۔ مسلم کی روایت میں اتنا اور بھی ہے کہ قیامت کے دن تمام مخلوق میں سب سے پہلے فیصلہ ہمارے بارے میں ہوگا (ابن کثیر)
جمعہ کے دن کی اہمیت کے متعلق چند احادیث:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جمعہ کا دن سارے دنوں کا سردار ہے۔ اللہ تعالیٰ کے یہاں سارے دنوں میں سب سے زیادہ عظمت والا ہے۔ یہ دن اللہ تعالیٰ کے نزدیک عید الاضحی اور عید الفطر کے دن سے بھی زیادہ مرتبہ والا ہے۔ اس دن کی پانچ باتیں خاص ہیں :
اس دن اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا فرمایا۔
اِسی دن اُن کو زمین پر اتارا۔
اِسی دن اُن کو موت دی۔
اِس دن میں ایک گھڑی ایسی ہے کہ بندہ اس میں جو چیز بھی مانگتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو ضرور عطا فرماتے ہیں بشرطیکہ
کسی حرام چیز کا سوال نہ کرے۔
اور اسی دن قیامت قائم ہوگی۔ تمام مقرب فرشتے ، آسمان، زمین، ہوائیں، پہاڑ، سمندر سب جمعہ کے دن سے
گھبراتے ہیں کہ کہیں قیامت قائم نہ ہوجائے اس لئے کہ قیامت جمعہ کے دن ہی آئے گی (ابن ماجہ)
*۔۔۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: سورج کے طلوع وغروب والے دنوں میں کوئی بھی دن جمعہ کے دن سے افضل نہیں،یعنی جمعہ کا دن تمام دنوں سے افضل ہے (صحیح ابن حبان)
*۔۔۔ رسول اللہ ا نے ایک مرتبہ جمعہ کے دن ارشاد فرمایا:
مسلمانو! اللہ تعالیٰ نے اِس دن کو تمہارے لئے عید کا دن بنایا ہے لہذا اِس دن غسل کیا کرو اور مسواک کیا کرو (طبرانی، مجمع الزوائد) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جمعہ کا دن ہفتہ کی عید ہے۔
*۔۔۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے پاک کلام کی سورۂ بروج میں(وشاھد ومشہود) کے ذریعہ قسم کھائی ہے۔ شاہد سے مراد جمعہ کا دن ہے یعنی اِس دن جس نے جو بھی عمل کیا ہوگایہ جمعہ کا دن قیامت کے دن اُس کی گواہی دے گا۔
*۔۔۔ رسول اللہ ا نے ارشاد فرمایا: اللہ کے نزدیک سب سے افضل نماز‘ جمعہ کے دن فجر کی نماز جماعت کے ساتھ ادا کرنا ہے (طبرانی ، بزار)
*۔۔۔ جہنم کی آگ روزانہ دہکائی جاتی ہے مگر جمعہ کے دن اسکی عظمت اور خاص اہمیت وفضیلت کی وجہ سے جہنم کی آگ نہیں دہکائی جاتی (زاد المعاد ۱ / ۳۸۷)
جمعہ کے دن قبولیت والی گھڑی کی تعیین :
*۔۔۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جمعہ کے دن کا ذکر کیا اور فرمایا : اس میں ایک گھڑی ایسی ہے جس میں کوئی مسلمان نماز پڑھے، اور اللہ تعالیٰ سے کچھ مانگے تو اللہ تعالیٰ اس کو عنایت فرمادیتا ہے اور ہاتھ کے اشارے سے آپ ا نے واضح فرمایا کہ وہ ساعت مختصر سی ہے (بخاری)
*۔۔۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: وہ گھڑی خطبہ شروع ہونے سے لیکر نماز کے ختم ہونے تک کا درمیانی وقت ہے (مسلم)
*۔۔۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جمعہ کے دن ایک گھڑی ایسی ہوتی ہے کہ مسلمان بندہ جو مانگتا ہے، اللہ اُس کو ضرور عطا فرماتے ہیں۔ اور وہ گھڑی عصر کے بعد ہوتی ہے (مسند احمد)
مذکورہ ودیگر احادیث کی روشنی میں جمعہ کے دن قبولیت والی گھڑی کے متعلق علماء نے دو وقتوں کی تحدید کی ہے:
دونوں خطبوں کا درمیانی وقت، جب امام منبر پر کچھ لمحات کے لئے بیٹھتا ہے۔
غروب آفتاب سے کچھ وقت قبل۔
نمازِ جمعہ کی فضیلت:
*۔۔۔ رسول اللہ ا نے ارشاد فرمایا: پانچوں نمازیں، جمعہ کی نماز پچھلے جمعہ تک اور رمضان کے روزے پچھلے رمضان تک درمیانی اوقات کے گناہوں کے لئے کفارہ ہیں جبکہ اِن اعمال کو کرنے والا بڑے گناہوں سے بچے (مسلم) یعنی چھوٹے گناہوں کی معافی ہوجاتی ہے۔
*۔۔۔ رسول اللہ ا نے ارشاد فرمایا: جو شخص اچھی طرح وضو کرتا ہے، پھر جمعہ کی نماز کے لئے آتا ہے، خوب دھیان سے خطبہ سنتا ہے اور خطبہ کے دوران خاموش رہتا ہے تو اس جمعہ سے گزشتہ جمعہ تک ، اور مزید تین دن کے گناہ معاف کردئے جاتے ہیں (مسلم)
جمعہ کی نماز کے لئے مسجد جلدی پہونچنا:
*۔۔۔ رسول اللہ ا نے ارشاد فرمایا: جو شخص جمعہ کے دن جنابت کے غسل کی طرح غسل کرتا ہے یعنی اہتمام کے ساتھ پھر پہلی فرصت میں مسجد جاتا ہے گویا اس نے اللہ کی خوشنودی کے لئے اونٹنی قربان کی۔ جو دوسری فرصت میں مسجد جاتا ہے گویا اس نے گائے قربان کی۔ جو تیسری فرصت میں مسجد جاتا ہے گویا اس نے مینڈھا قربان کیا ۔ جو چوتھی فرصت میں جاتا ہے گویا اس نے مرغی قربان کی۔جو پانچویں فرصت میں جاتا ہے گویا اس نے انڈے سے اللہ کی خوشنودی حاصل کی۔ پھر جب امام خطبہ کے لئے نکل آتا ہے تو فرشتے خطبہ میں شریک ہوکر خطبہ سننے لگتے ہیں (بخاری ، مسلم)
یہ فرصت(گھڑی) کس وقت سے شروع ہوتی ہے، علماء کی چند آراء ہیں۔ مگر خلاصہ کلام یہ ہے کہ حتی الامکان مسجد جلدی پہونچیں۔ اگر زیادہ جلدی نہ جاسکیں تو کم از کم خطبہ شروع ہونے سے کچھ وقت قبل ضرور مسجد پہونچ جائیں۔
*۔۔۔ رسول اللہ ا نے ارشاد فرمایا: جب جمعہ کا دن ہوتا ہے تو فرشتے مسجد کے ہر دروازے پر کھڑے ہوجاتے ہیں۔ پہلے آنے والے کا نام پہلے، اس کے بعد آنے والے کا نام اس کے بعد لکھتے ہیں(اسی طرح آنے والوں کے نام ان کے آنے کی ترتیب سے لکھتے رہتے ہیں)۔ جب امام خطبہ دینے کے لئے آتا ہے تو فرشتے اپنے رجسٹر (جن میں آنے والوں کے نام لکھے گئے ہیں) بند کردیتے ہیں اور خطبہ سننے میں مشغول ہوجاتے ہیں (مسلم)
*۔۔۔ خطبۂجمعہ شروع ہونے کے بعد مسجد پہونچنے والے حضرات کی نمازِ جمعہ تو ادا ہوجاتی ہے، مگر نمازِ جمعہ کی فضیلت اُن کو حاصل نہیں ہوتی ۔
خطبۂ جمعہ:
جمعہ کی نماز کے صحیح ہونے کے لئے یہ شرط ہے کہ نماز سے قبل دو خطبے دئے جائیں۔ کیونکہ نبی اکرم ا نے ہمیشہ جمعہ کے دن دو خطبے دئے (مسلم)
دونوں خطبوں کے درمیان خطیب کا بیٹھنا بھی سنت ہے (مسلم) منبرپر کھڑے ہوکر ہاتھ میں عصا لے کر خطبہ دینا سنت ہے۔
دورانِ خطبہ کسی طرح کی بات کرنا حتی کہ نصیحت کرنا بھی منع ہے۔
*۔۔۔ رسول اللہ ا نے ارشاد فرمایا: جس نے جمعہ کے روز دورانِ خطبہ اپنے ساتھی سے کہا (خاموش رہو ) اس نے بھی لغو کام کیا (مسلم)
*۔۔۔ رسول اللہ ا نے ارشاد فرمایا: جس شخص نے کنکریوں کو ہاتھ لگایا یعنی دورانِ خطبہ اُن سے کھیلتا رہا (یا ہاتھ ، چٹائی، کپڑے وغیرہ سے کھیلتا رہا) تو اس نے فضول کام کیا (اور اس کی وجہ سے جمعہ کا خاص ثواب ضائع کردیا) (مسلم)
*۔۔۔ رسول اللہ ا نے خطبہ کے دوران گوٹھ مارکر بیٹھنے سے منع فرمایا ہے (ترمذی)
(آدمی اپنے گھٹنے کھڑے کرکے رانوں کو پیٹ سے لگاکر دونوں ہاتھوں کو باندھ لے تو اسے گوٹھ مارنا کہتے ہیں) ۔
*۔۔۔ حضرت عبد اللہ بن بسرؓ فرماتے ہیں کہ میں جمعہ کے دن منبر کے قریب بیٹھا ہوا تھا، ایک شخص لوگوں کی گردنوں کو پھلانگتا ہوا آیا جبکہ رسول اللہ ا خطبہ دے رہے تھے۔ آپ ا نے ارشاد فرمایا: بیٹھ جا، تونے تکلیف دی اور تاخیر کی (صحیح ابن حبان)
نوٹ:جب امام خطبہ دے رہا ہو تو لوگوں کی گردنوں کو پھلانگ کر آگے جانا منع ہے، بلکہ پیچھے جہاں جگہ ملے وہیں بیٹھ جائے۔
جمعہ کی نماز کا حکم:
*۔۔۔ جمعہ کی نماز ہر اُس مسلمان، صحت مند، بالغ ،مردکے لئے ضروری ہے جو کسی شہر یا ایسے علاقے میں مقیم ہو جہاں روز مرہ کی ضروریات مہیّا ہوں۔ معلوم ہوا کہ عورتوں، بچوں، مسافر اور مریض کے لئے جمعہ کی نماز ضروری نہیں ہے۔ البتہ عورتیں، بچے، مسافر اور مریض اگر جمعہ کی نماز میں حاضر ہوجائیں تو نماز ادا ہوجائیگی۔ ورنہ اِن حضرات کو جمعہ کی نماز کی جگہ ظہر کی نماز ادا کرنی ہوگی۔
* ۔۔۔ اگر آپ صحراء میں ہیں جہاں کوئی نہیں ، یا ہوائی جہاز میں سوار ہیں تو آپ ظہر کی نماز ادا فرمالیں۔
* ۔۔۔ نمازِ جمعہ کی دو رکعت فرض ہیں، جس کے لئے جماعت کی نماز شرط ہے۔ جمعہ کی دونوں رکعت میں جہری قراء ت ضروری ہے۔ نمازِ جمعہ میں سورۂ الاعلیٰ اور سورۂ الغاشیہ، یا سورۂ الجمعہ اور سورۂ المنافقون کی تلاوت کرنا مسنون ہے۔
جمعہ کے چند سنن وآداب:
جمعہ کے دن غسل کرنا واحب یا سنتِ مؤکدہ ہے،یعنی عذرِ شرعی کے بغیر جمعہ کے دن کے غسل کو نہیں چھوڑنا چاہئے۔ پاکی کا اہتمام کرنا، تیل لگانا ، خوشبو استعمال کرنا، اور حسبِ استطاعت اچھے کپڑے پہننا سنت ہے۔
*۔۔۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جمعہ کے دن کا غسل گناہوں کو بالوں کی جڑوں تک سے نکال دیتا ہے، یعنی صغائر گناہ معاف ہوجاتے ہیں، بڑے گناہ بغیر توبہ کے معاف نہیں ہوتے۔ اگر صغائر گناہ نہیں ہیں تو نیکیوں میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ (طبرانی ، مجمع الزوائد)
*۔۔۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص جمعہ کے دن غسل کرتا ہے، جتنا ہوسکے پاکی کا اہتمام کرتا ہے اور تیل لگاتا ہے یا خوشبو استعمال کرتا ہے، پھر مسجد جاتا ہے، مسجد پہنچ کر جو دو آدمی پہلے سے بیٹھے ہوں ان کے درمیان میں نہیں بیٹھتا، اور جتنی توفیق ہو جمعہ سے پہلے نماز پڑھتا ہے، پھر جب امام خطبہ دیتا ہے اس کو توجہ اور خاموشی سے سنتا ہے تو اس شخص کے اِس جمعہ سے گزشتہ جمعہ تک کے گناہوں کو معاف کردیا جاتا ہے (بخاری)
*۔۔۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس نے جمعہ کے دن غسل کیا، پھر مسجد میں آیا، اور جتنی نماز اس کے مقدر میں تھی ادا کی، پھرخطبہ ہونے تک خاموش رہا اور امام کے ساتھ فرض نماز ادا کی، اس کے جمعہ سے جمعہ تک اور مزید تین دن کے گناہ بخش دئے جاتے ہیں (مسلم)
*۔۔۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جو شخص جمعہ کے دن غسل کرتا ہے، اگر خوشبو ہو تو اسے بھی استعمال کرتا ہے، اچھے کپڑے پہنتا ہے، اس کے بعدمسجد جاتا ہے ، پھر مسجد آکر اگر موقع ہو تو نفل نماز پڑھ لیتا ہے اور کسی کو تکلیف نہیں پہونچاتا۔ پھر جب امام خطبہ دینے کے لئے آتا ہے اس وقت سے نماز ہونے تک خاموش رہتا ہے یعنی کوئی بات چیت نہیں کرتا تو یہ اعمال اس جمعہ سے گزشتہ جمعہ تک کے گناہوں کی معافی کا ذریعہ ہو جاتے ہیں (مسند احمد)
سننِ جمعہ:
مذکورہ بالا احادیث سے معلوم ہوا کہ جمعہ کی نماز سے قبل بابرکت گھڑیوں میں جتنی زیادہ سے زیادہ نماز پڑھ سکیں ٗ پڑھیں۔ کم از کم خطبہ شروع ہونے سے پہلے چار رکعتیں تو پڑھ ہی لیں جیسا کہ (مصنف ابن ابی شیبہ ج ۲ صفحہ ۱۳۱) میں مذکور ہے: مشہور تابعی حضرت ابراہیم ؒ فرماتے ہیں کہ حضراتِ صحابہ کرام نمازِ جمعہ سے پہلے چار رکعتیں پڑھا کرتے تھے (نماز پیمبر صفحہ ۲۷۹)
نمازِ جمعہ کے بعد دو رکعتیں یا چار رکعتیں یا چھ رکعتیں پڑھیں، یہ تینوں عمل نبی اکرم ا اور صحابہ کرام سے ثابت ہیں۔ بہتر یہ ہے کے چھ رکعت پڑھ لیں تاکہ تمام احادیث پر عمل ہوجائے اور چھ رکعتوں کا ثواب بھی مل جائے۔ اسی لئے علامہ ابن تیمیہ ؒ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ ا نے فرمایا ہے جمعہ کے بعد چار رکعات پڑھنی چاہئیں، اور حضراتِ صحابہ کرام سے چھ رکعات بھی منقول ہیں (مختصر فتاوی ابن تیمیہ، صفحہ ۷۹) (نماز پیمبر صفحہ ۲۸۱)
*۔۔۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب تم میں سے کوئی جمعہ کی نماز پڑھ لے تو اس کے بعد ۴ رکعتیں پڑھے (مسلم)
*۔۔۔ حضرت سالم ؒ اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے بعد دو رکعتیں پڑھتے تھے (مسلم)
*۔۔۔ حضرت عطاء ؒ فرماتے ہیں کہ انھوں نے حضرت عمر بن عبد اللہ ؓ کو جمعہ کے بعد نماز پڑھتے دیکھا کہ جس مصلّی پر آپ نے جمعہ پڑھا اس سے تھوڑا سا ہٹ جاتے تھے، پھر دو رکعتیں پڑھتے، پھر چار رکعتیں پڑھتے تھے۔ میں نے حضرت عطاء ؒ سے پوچھا کہ آپ نے حضرت عبداللہ بن عمرؓ کو کتنی مرتبہ ایسا کرتے دیکھا؟ انھوں نے فرمایا کہ بہت مرتبہ (ابو داؤد)
نمازِ جمعہ چھوڑنے پر وعیدیں:
*۔۔۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازِ جمعہ نہ پڑھنے والوں کے بارے میں فرمایا: میں چاہتا ہوں کہ کسی کو نماز پڑھانے کا حکم دوں پھر جمعہ نہ پڑھنے والوں کو اُن کے گھروں سمیت جلا ڈالوں (مسلم)
*۔۔۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: خبردار! لوگ جمعہ چھوڑنے سے رک جائیں یا پھر اللہ تعالیٰ اُن کے دلوں پر مہر لگادے گا، پھر یہ لوگ غافلین میں سے ہوجائیں گے (مسلم)
*۔۔۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس شخص نے تین جمعہ غفلت کی وجہ سے چھوڑ دئے، اللہ تعالیٰ اس کے دل پر مہر لگا دے گا (نسائی، ابن ماجہ، ترمذی، ابوداؤد)
جمعہ کی نماز کے لئے پیدل جانا:
*۔۔۔ حضرت یزید بن ابی مریم ؒ فرماتے ہیں کہ میں جمعہ کی نماز کے لئے پیدل جارہا تھا کہ حضرت عبایہ بن رافع ؒ مجھے مل گئے اور فرمانے لگے تمہیں خوشخبری ہو کہ تمہارے یہ قدم اللہ تعالیٰ کے راستہ میں ہیں۔ میں نے ابو عبسؓ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ انے ارشاد فرمایا: جو قدم اللہ کے راستہ میں غبار آلود ہوئے تو وہ قدم جہنم کی آگ پر حرام ہیں (ترمذی) اسی مضمون کی روایت کچھ لفظی اختلاف کے ساتھ صحیح بخاری میں بھی موجود ہے۔
جمعہ کے دن یا رات میں سورۂ کہف کی تلاوت:
*۔۔۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جو شخص سورۂ کہف کی تلاوت جمعہ کے دن کرے گا، آئندہ جمعہ تک اس کے لئے ایک خاص نور کی روشنی رہے گی (نسائی، بیہقی، حاکم)۔
*۔۔۔ سورۂ کہف کے پڑھنے سے گھر میں سکینت وبرکت نازل ہوتی ہے۔ حضرت براء بن عازب ؓ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایک صحابیؓ نے سورۂ کہف پڑھی، گھر میں ایک جانور تھا، وہ بدکنا شروع ہوگیا، انہوں نے غور سے دیکھا کہ کیا بات ہے؟ تو انہیں ایک بادل نظر آیا جس نے انہیں ڈھانپ رکھا تھا۔ صحابی ؓ نے اس واقعہ کا ذکر جب نبی اکرم ا سے کیا، تو آپ ا نے فرمایا: سورۂ کہف پڑھا کرو۔ قرآن کریم پڑھتے وقت سکینت نازل ہوتی ہے (صحیح البخاری،فضل سورۃ الکہف۔ مسلم،کتاب الصلاۃ)
جمعہ کے دن درود شریف پڑھنے کی خاص فضیلت:
* ۔۔۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تمہارے دنوں میں سب سے افضل جمعہ کا دن ہے۔ اِس دن کثرت سے درود پڑھا کرو، کیونکہ تمہارا درو پڑھنا مجھے پہونچایا جاتا ہے (مسند احمد، ابوداؤد، ابن ماجہ، صحیح بن حبان)
*۔۔۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جمعہ کے دن اور جمعہ کی رات کثرت سے درود پڑھا کرو، جو ایسا کرے گا میں قیامت کے دن اس کی شفاعت کروں گا (بیہقی)
جمعہ کے دن یا رات میں انتقال کرجانے والے کی خاص فضیلت:
*۔۔۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جو مسلمان جمعہ کے دن یا جمعہ کی رات میں انتقال کرجائے، اللہ تعالیٰ اُس کو قبر کے فتنہ سے محفوظ فرمادیتے ہیں (مسند احمد ، ترمذی)
محمد نجیب قاسمی، یاض (najeebqasmi@yahoo.com)

تشہد میں انگلی کا اشارہ
بسم الله الرحمن الرحيم
اَلْحَمْدُ لِله رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلام عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔
تشہد میں انگلی کا اشارہ
شریعت اسلامیہ میں واضح حکم موجود ہونے کی وجہ سے روز مرہ کے تقریباً ۸۰ فیصد پریکٹیکل مسائل میں امت مسلمہ متفق ہے۔ البتہ چند اسباب کی وجہ سے روز مرہ کے تقریباً ۲۰ فیصد پریکٹیکل مسائل میں زمانۂ قدیم سے ہی اختلاف چلا آرہا ہے ۔انہی ۲۰ فیصد مختلف فیہ مسائل میں تشہد میں انگلی سے اشارہ کرنے کی کیفیت کا مسئلہ بھی ہے۔ اگرچہ امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ تشہد میں انگلی سے اشارہ کرنا فرض یا واجب نہیں بلکہ سنت ہے، یعنی اگر کوئی شخص تشہد میں اشارہ ہی نہ کرسکے تب بھی اس کی نماز مکمل ادا ہوگی۔ مگر عصر حاضر میں باوجویکہ دشمنان اسلام مسلمانوں اور اسلام پر ہرطرف سے یلغار کررہے ہیں اور امت مسلمہ کو روز نئے نئے مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، بعض احباب (جن کا مکتب فکر پورے برصغیر میں مسلمانوں کی آبادی کا ایک فیصد بھی نہیں ہے) مسلمانوں کی موجودہ عالمی صورت حال سے واقفیت کے باوجود امت مسلمہ کو ایسے چھوٹے چھوٹے مسائل میں الجھانا چاہتے ہیں جن کا حل نہ آج تک ہوا ہے اور نہ بظاہر کوئی حل کی توقع ہے ا ور نہ ہی یہ ایسا مسئلہ ہے جو قرآن وحدیث کے حکم کے خلاف ہو۔ سعودی عرب کے ۱۶ سال کے قیام کے دوران متعدد احباب نے مسئلہ مذکور میں مجھ سے رجوع کیا، جس کا اختصار کے ساتھ جواب دے دیا، بعض احباب نے اس موضوع پر مضمون تحریر کرنے کو بھی کہا، لیکن دیگر اہم موضوعات پر خاص توجہ دینے کی غرض سے نظر انداز کیا۔ حال ہی میں اس موضوع پر مختلف حضرات کے بیانات پر مشتمل ایک ویڈیو پر نظر پڑی تو ضرورت محسوس کی کہ جمہور علماء کے قول کو مدلل کرکے ایک مختصر مضمون تحریر کردیا جائے تاکہ سوشل میڈیا سے صرف ایک ہی بات سامنے آنے پر کہیں جمہور علماء کی رائے کو غلط ہی نہ سمجھ لیا جائے۔
تشہد میں شہادت کی انگلی سے اشارہ کرنا باتفاق فقہاء وعلماء سنت ہے اور صحیح احادیث سے ثابت ہے۔ اشارہ کی مختلف صورتیں احادیث میں مذکور ہیں اور سب جائز ہیں، علماء احناف کے نزدیک بہتر صورت یہ ہے کہ جب کلمہ شہادت پر پہنچیں تو دائیں ہاتھ کی چھوٹی اور ساتھ والی انگلی بند کرلیں، بیچ والی انگلی اور انگوٹھے کا حلقہ بنالیں، شہادت کی انگلی کو کھلا رکھیں، لا الہ پر شہادت کی انگلی اٹھائیں اور الا اللہ پر گرادیں۔ علماء احناف کی طرح بے شمار محدثین وفقہاء وعلماء مثلاً امام شافعیؒ ، امام احمد بن حنبلؒ ، امام نوویؒ اور امام بیہقی ؒ کا بھی یہ موقف ہے کہ تشہد میں صرف انگلی سے اشارہ کرنا ہے، اس کو حرکت دینا نہیں ہے۔
* حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب قعدہ میں تشہد پڑھتے تو اپنے داہنے ہاتھ کو داہنے ران پر اور بائیں ہاتھ کو بائیں ران پر رکھتے اور شہادت کی انگلی سے اشارہ فرماتے اور انگوٹھے کو بیچ کی انگلی پر رکھتے۔ (صحیح مسلم ۔ باب صفۃ الجلوس فی الصلاۃ)
* حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اللہ کو (توحید کے ساتھ) پکارتے تو انگلی مبارک سے اشارہ کرتے اور انگلی کو حرکت نہیں دیتے تھے۔ اَنَّ النَّبِیَّ صلی الله عليه وسلم کَانَ يشير بِاصْبِعه اِذَا دَعَا وَلَا يحَرِّکُ (ابوداود ۔ باب الاشارۃ فی التشهد، نسائی۔ باب بسط الیسری علی الرکبة)
اس حدیث میں وضاحت موجود ہے کہ تشہد میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم انگلی سے اشارہ تو کرتے تھے مگر اس کوبار بار حرکت نہیں دیتے تھے۔ صحیح مسلم کی سب سے زیادہ مشہور شرح لکھنے والے ریاض الصالحین کے مصنف اور مشہور ومعروف محدث حضرت امام نوویؒ (دمشق) (۶۳۱ھ۔۶۷۶ھ) نے تحریر کیا ہے کہ اس حدیث کو ابوداود نے روایت کیا ہے اور اس کی سند صحیح ہے۔ (المجموع: ۳/۴۱۷) اور امام ابن ملقنؒ (۷۲۳ھ۔۸۰۴ھ) (قاہرہ) نے تحریر کیا ہے کہ ابوداود نے صحیح سند کے ساتھ یہ حدیث روایت کی ہے۔ (خلاصۃ البدر المنیر ۔ باب کیفيۃ الصلاۃ)
جو حضرات انگلی سے اشارہ کرنے کے بجائے انگلی کو حرکت دیتے رہتے ہیں، وہ حضرات وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کی اس حدیث کو دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں، جس میں ہے کہ پھر آپ نے تین انگلیوں کو ملاکر حلقہ بنایا، ایک کو اٹھایا، میں نے دیکھا آپصلی اللہ علیہ وسلم اس کو ہلاتے دعا کرتے۔ (مسند احمد، بیہقی) ان حضرات نے اس حدیث کی بنیاد پر نماز کے آخر تک انگلی کو حرکت دینے کے قول کو اختیار کیا حالانکہ اس حدیث میں اور نہ کسی دوسری حدیث میں یہ مذکور ہے کہ حرکت کی کیا شکل ہو، آہستہ یا تیز اور کب تک یہ حرکت ہو۔ نیز اس حدیث کا یہ مفہوم لینے کی صورت میں حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ والی اس حدیث سے تعارض بھی ہورہا ہے جس میں وضاحت کے ساتھ موجود ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم انگلی سے اشارہ تو کرتے تھے مگر حرکت نہیں کرتے تھے۔
چونکہ حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ والی حدیث ان حضرات کے موقف کے واضح طور پر خلاف ہے، لہٰذا ان کے سامنے ایک ہی راستہ ہے کہ اس حدیث کو ضعیف قرار دیا جائے باوجودیکہ مشہور ومعروف محدث امام نووی ؒ جیسے محدث نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے اور امام نووی ؒ کی خدمات کوساری دنیا تسلیم کرتی ہے۔ چنانچہ عصر حاضر میں شیخ ناصر الدین البانی ؒ (۱۹۱۴ء۔۱۹۹۹ء) نے اپنے مکتب فکر کی تایید کے لئے حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی روایت کے راوی (محمد بن عجلانؒ ) کو ضعیف قرار دینے کی کوشش کی ہے، حالانکہ ۷۷۳ ھ میں پیدا ہوئے صحیح بخاری شریف کی سب سے مشہور شرح لکھنے والے امام المحدثین علامہ ابن حجر ؒ نے ان کو (احد العلماء العاملین)کہہ کر ثقہ قرار دیا ہے۔
جس حدیث کی بنیاد پر یہ حضرات مسلسل حرکت کے قائل ہیں وہ حضرت عاصم ؒ سے ۱۱ راویوں نے روایت کی ہے ، حضرت زائدہ بن قدامہ ؒ کے علاوہ تمام ۱۰ راویوں نے یہ حدیث (ےُحَرِّکُہَا) کے لفظ کے بغیر روایت کی ہے، جو اس لفظ (ےُحَرِّکُہَا) کے شاذ ہونے کی واضح دلیل ہے اور حدیث کے متفق علیہ اصول کی بنیاد پر حدیث میں یہ لفظ شاذ کہلائے گا، لہٰذا اس حدیث کو دلیل کو طور پر پیش کرنا صحیح نہیں ہے، جیسا کہ حدیث کے مشہور ومعروف امام ابن خزیمہؒ (۲۳۳ھ۔۳۳۱ھ) نے اپنی کتاب (صحیح ابن خزیمہ۔باب صفۃ الیدین علی الرکبتین فی التشہد) میں اس روایت کو ذکر کرنے کے بعد اس کے شاذ ہونے کی طرف یوں اشارہ کیا ہے: (احادیث میں سوائے اس حدیث کے کسی بھی حدیث میں “ےُحَرِّکُہَا” کا لفظ نہیں ہے) ۔صحیح مسلم میں اس موضوع سے متعلق متعدد احادیث وارد ہوئی ہیں مگر ایک حدیث میں بھی حرکت کا لفظ وارد نہیں ہوا ہے ، صحیح مسلم کی تمام ہی احادیث میں صرف اشارہ کا لفظ وارد ہونا اس بات کی واضح علامت ہے کہ اصل مطلوب صرف اشارہ ہے۔
مشہور ومعروف محدث امام بیہقی ؒ (۳۸۴ھ۔۴۵۸ھ) نے اپنی حدیث کی مشہور کتاب (سنن کبری للبیہقی۔باب من روی انہ اشار بہا ولم یحرکہا) میں دونوں احادیث میں تطبیق اس طرح پیش کی ہے کہ حضرت وائل رضی اللہ عنہ کی حدیث میں وارد حرکت سے مراد اشارہ ہے نہ کہ اس کو بار بار حرکت دینا کیونکہ اشارہ بغیر حرکت کے ہوتا ہی نہیں، اس طرح حضرت وائل رضی اللہ عنہ والی حدیث بھی حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی حدیث کے موافق ہوجائی گی۔ غرضیکہ اس موقف کو اختیار کرنے میں دونوں حدیثوں پر عمل ہوجائے گا اور کسی حدیث کو ضعیف قرار دینے کے لئے بحث ومباحثہ میں بھی پڑنا نہیں پڑے گا۔ مشہور ومعروف حنفی عرب عالم ملا علی قاری ؒ (متوفی ۱۰۱۴ھ)نے اپنی مشہور ومعروف حدیث کی کتاب مرقاۃ میں بھی یہی تحریر کیا ہے کہ یہاں حرکت دینے سے مراد محض انگلی کا اٹھانا ہے اور اٹھانا بغیر حرکت کے ہوتا ہی نہیں۔ (اعلاء السنن)
غرضیکہ جمہور علماء خاص کر علماء احناف، امام شافعیؒ ، امام احمد بن حنبلؒ ، امام نوویؒ اور امام بیہقی ؒ جیسے جلیل القدر علماء نے یہی قول اختیار کیا ہے کہ تشہد میں انگلی سے ایک مرتبہ اشارہ کرنا کافی ہے، نماز کے اختتام تک برابر حرکت کرتے رہنے کا کوئی ثبوت نہیں ملتا ہے۔ برصغیر کے جمہور علماء نے یہی قول اختیار کیا ہے، جو مختلف فیہ مسائل میں ۸۰ ہجری میں پیدا ہوئے مشہور ومعروف محدث وفقیہ امام ابوحنیفہ ؒ (شیخ نعمان بن ثابت) کی قرآن وحدیث کی روشنی میں رائے کو ترجیح دیتے ہیں۔
اعتراض کا جواب: ان حضرات کی طرف سے یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ لا الہ پر شہادت کی انگلی کے اٹھانے اور الا اللہ پر گرانے کا واضح ثبوت حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں ملتا ہے، پہلی بات تو یہ ہے کہ احادیث میں وارد اشارہ کا لفظ خود اس بات کی دلیل ہے کہ یہاں صرف اشارہ کرنا مراد ہے نہ کہ حرکت اور اشارہ الا اللہ پر خود ہی ختم ہوجائے گا۔ صحیح مسلم میں متعدد جگہوں پر اس مسئلہ کے متعلق متعدد احادیث ذکر کی گئی ہیں مگر تمام ہی جگہوں پر صرف اشارہ کا لفظ وارد ہوا ہے، ایک جگہ پر بھی حرکت یا مسلسل حرکت کا لفظ وارد نہیں ہوا ہے، دوسری بات یہ ہے کہ انگلی اٹھانے کا سلسلہ نماز کے اختتام تک جاری رکھنے یا نماز کے اختتام تک حرکت جاری رکھنے کا کوئی ثبوت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات میں موجود نہیں ہے۔
اشارہ کی حقیقت:آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ اشارہ دراصل توحید کا اشارہ تھا اور توحید تشہد کا نام ہے کیونکہ اس میں اللہ کی وحدانیت کا اقرار اور اس کی گواہی دینا ہے اور توحید میں ایک تو غیر اللہ سے الوہیت کی نفی ہے اور دوسرے اللہ کی الوہیت کا اقرار اور اثبات ہے تو اشارہ بھی نفی اور اثبات ہونا چاہئے، اس لئے علماء احناف نے فرمایا کہ اثبات کے لئے انگلی اٹھانا اور نفی کے لئے انگلی کا رکھنا ہے۔ حدیث سے بھی اس کی تایید ہوتی ہے۔ حضرت خفاف بن ایماء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز کے اخیر میں یعنی قعدہ میں بیٹھتے تو اپنی انگلی مبارک سے اشارہ فرماتے تھے۔ مشرکین کہتے تھے کہ (نعوذ باللہ) آپصلی اللہ علیہ وسلم اس اشارہ سے جادو کرتے ہیں، حالانکہ مشرکین جھوٹ بولتے تھے، بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس اشارہ سے توحید کا اشارہ کرتے تھے، یعنی یہ اللہ تعالیٰ کے ایک ہونے کا اشارہ ہے۔ (مجمع الزوائد ۔ باب التشہد والجلوس والاشارۃ بالاصبع فیہ) محدث علامہ ہیثمی ؒ تحریر کرتے ہیں کہ اس حدیث کو امام احمد اور طبرانی نے روایت کیا ہے اور اس کے رجال ثقہ ہیں۔
شہادت کی انگلی اٹھانے کی فضیلت:حضرت نافع ؒ فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما جب نماز (کے قعدہ) میں بیٹھتے تو اپنے دونوں ہاتھ اپنے دونوں گھٹنوں پر رکھتے اور شہادت کی انگلی سے اشارہ فرماتے اور نگاہ انگلی پر رکھتے، پھر (نماز کے بعد) فرماتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: لَہِیَ اَشَدُّ عَلَی الشَّےْطَانِ مِنَ الْحَدِےْدِ ےَعْنِیْ السَّبَّابَۃ یہ شہادت کی انگلی شیطان پر لوہے سے زیادہ سخت ہے، یعنی تشہد کی حالت میں شہادت کی انگلی سے اللہ کی وحدانیت کا اشارہ کرنا شیطان پر کسی کو نیزے وغیرہ مارنے سے بھی زیادہ سخت ہے۔ (مسند احمد )
انگلی سے اشارہ قبلہ کی طرف:حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ اشارہ کرتے ہوئے رخ قبلہ کی طرف ہوتا۔ (سنن کبری للبیہقی ۔ باب کیفیہ الاشارۃ بالمجۃ) یعنی اشارہ کے وقت انگلی کا رخ آسمان کی طرف نہیں بلکہ قبلہ کی طرف ہونا چاہئے۔
خلاصۂ کلام: تشہد میں شہادت کی انگلی سے اشارہ کے سنت ہونے پر حضوراکرمصلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال وافعال کی روشنی میں علماء کرام کا اتفاق ہے، اگرچہ اشارہ کرنے کی کیفیت میں اختلاف زمانہ قدیم سے چلا آر ہا ہے جس کا حل نہ آج تک ہوا ہے اور نہ بظاہر اس کے حل کی کوئی توقع ہے۔ لہٰذا ہمیں اس طرح کے مسائل کے متعلق بحث ومباحثہ میں پڑنے کے بجائے امت مسلمہ کے اہم وضروری مسائل پر اپنی صلاحتیں لگانی چاہئیں، مثلاً امت مسلمہ کا اچھا خاصہ طبقہ نماز ہی پڑھنے کے لئے تیار نہیں ہے تو ان فروعی مسائل پر توجہ دینے کے بجائے اس پر صلاحتیں لگائی جائیں کہ ہر مسلمان کس طرح نماز پڑھنے والا بن جائے، نیز ہم اپنی صلاحیت اس بات پر لگائیں کہ کس طرح عام مسلمان حرام روزی سے بچ کر حلال روزی پر اکتفاء کرنے والا بن جائے۔
میں نے یہ چند سطریں صرف اس لئے تحریر کی ہیں کہ بعض حضرات نے جو پوری دنیامیں مسلم آبادی کا ایک فیصد بھی نہیں ہیں، چھوٹے چھوٹے مسائل پر امت مسلمہ کے درمیان ایک فتنہ برپا کررکھا ہے حالانکہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے فتنہ کو قتل سے بھی بڑا گناہ قرار دیا ہے۔ ہمیں چاہئے کہ ہم دوسری رائے کا احترام کرتے ہوئے اپنی رائے کو خوش اسلوبی کے ساتھ پیش کریں۔
غرضیکہ تشہد میں اشارہ کی مختلف صورتیں احادیث میں مذکور ہیں اور سب جائز ہیں، علماء احناف کے ہاں بہتر صورت یہ ہے کہ جب کلمہ شہادت پر پہنچیں تو دائیں ہاتھ کی چھوٹی اور ساتھ والی انگلی بند کرلیں، بیچ والی انگلی اور انگوٹھے کا حلقہ بنالیں، شہادت کی انگلی کو کھلا رکھیں، لا الہ پر شہادت کی انگلی اٹھائیں اور الا اللہ پر گرادیں۔
محمد نجیب قاسمی سنبھلی (www.najeebqasmi.com)

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں کی ٹھنڈک نماز کی ادائیگی میں

بسم الله الرحمن الرحيم

اَلْحَمْدُ لِله رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلام عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں کی ٹھنڈک نماز کی ادائیگی میں

نماز ایمان کے بعد اسلام کا اہم ترین رُکن ہے۔ قرآن کریم اور احادیث شریفہ میں نماز کی اہمیت وفضیلت کو کثرت سے ذکر کیا گیا ہے جن میں نماز کو قائم کرنے پر بڑے بڑے وعدے اور نماز کو ضائع کرنے پر سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں۔ قرآن وحدیث میں اس اہم اور بنیادی فریضہ کو کثرت سے بیان کیا گیا ہے۔ صرف قرآنِ پاک میں تقریباً سات سو مرتبہ، کہیں اشارۃً اور کہیں صراحۃً مختلف عنوانات سے نماز کا ذکر ملتا ہے۔ صرف نماز ہی دین اسلام کا ایک ایسا عظیم رُکن ہے جسکی فرضیت کا اعلان زمین پر نہیں بلکہ ساتوں آسمانوں کے اوپر بلند واعلیٰ مقام پر معراج کی رات ہوا۔ نیز اس کا حکم حضرت جبرائیل علیہ السلام کے ذریعہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تک نہیں پہنچا، بلکہ اللہ تعالیٰ نے فرضیتِ نماز کا تحفہ بذاتِ خود اپنے حبیب ا کو عطا فرمایا۔
معراج کے واقعہ کی تاریخ اور سال کے متعلق مؤرخین اور اہل سیر کی رائے مختلف ہیں۔ ان میں سے ایک رائے یہ ہے کہ نبوت کے بارہویں سال ۲۷ رجب کو ۵۱ سال ۵ مہینہ کی عمر میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج ہوئی۔ غرضیکہ مشہور ومعروف قول کے مطابق نماز کی فرضیت کا حکم رجب کے مہینہ میں ہوا۔ اس اہم حکم کی اہمیت وتاکید کے متعلق بعض آیات واحادیث شریفہ کا ذکر کررہا ہوں، اللہ تبارک وتعالیٰ تمام مسلمانوں کو اس اہم فریضہ کی صحیح طریقہ سے ادائیگی کرنے والا بنائے۔ آمین۔
آیاتِ قرآنیہ:
جو کتاب آپ پر وحی کی گئی ہے اسے پڑھئے اور نماز قائم کیجئے، یقیناًنماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے۔ (سورۂ العنکبوت ۴۵) (وضاحت) نماز میں اللہ تعالیٰ نے یہ خاصیت وتاثیر رکھی ہے کہ وہ نمازی کو گناہوں اور برائیوں سے روک دیتی ہے مگر ضروری ہے کہ اس پرپابندی سے عمل کیا جائے اور نماز کو اُن شرائط وآداب کے ساتھ پڑھا جائے جو نماز کی قبولیت کے لئے ضروری ہیں،جیسا کہ حدیث میں ہے کہ ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا اور کہا کہ فلاں شخص راتوں کو نماز پڑھتا ہے مگر دن میں چوری کرتا ہے تو نبی اکرم ا نے فرمایا کہُ اس کی نماز عنقریب اُس کو اِس برے کام سے روک دے گی۔ مسند احمد، صحیح ابن حبان، بزار
اے ایمان والو! صبر اور نماز کے ذریعہ مدد چاہو، بیشک اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ (سورۂ البقرۃ ۱۵۳) (وضاحت) جب بھی کوئی پریشانی یا مصیبت سامنے آئے تو مسلمان کو چاہئے کہ وہ اُس پر صبر کرے اور نماز کا خاص اہتمام کرکے اللہ تعالیٰ سے تعلق قائم کرے۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہر پریشانی کے وقت نماز کی طرف متوجہ ہوتے تھے جیسا کہ حدیث میں ہے: حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم ا کو جب بھی کوئی اہم معاملہ پیش آتا، آپ فوراً نماز کا اہتمام فرماتے۔ (ابو داود ومسند احمد) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پانچ فرض نماز وں کے علاوہ نماز تہجد، نماز اشراق، نماز چاشت، تحيۃ الوضوء اور تحيۃ المسجد کا بھی اہتمام فرماتے۔ اور پھر خاص خاص مواقع پر اپنے رب کے حضور توبہ واستغفار کے لئے نماز ہی کو ذریعہ بناتے۔ سورج گرہن یا چاند گرہن ہوتا تو مسجد تشریف لے جاتے۔ زلزلہ، آندھی یا طوفان حتی کہ تیز ہوا بھی چلتی تو مسجد تشریف لے جاکر نماز میں مشغول ہوجاتے۔ فاقہ کی نوبت آتی یا کوئی دوسری پریشانی یا تکلیف پہنچتی تو مسجد تشریف لے جاتے۔ سفر سے واپسی ہوتی تو پہلے مسجد تشریف لے جاکر نماز ادا کرتے۔
اس لئے ہمیں بھی چاہئے کہ نماز کا خاص اہتمام کریں۔ اور اگر کوئی پریشانی یا مصیبت آئے تو نماز کی ادائیگی اور صبر کے ذریعہ اللہ تعالیٰ سے مدد مانگیں، یہ چیز شاق وبھاری ہے مگر اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والوں کے لئے مشکل نہیں۔ سورۂ البقرہ ۴۵
اللہ تعالیٰ نے فرمادیا کہ میں تمہارے ساتھ ہوں اگر تم نماز قائم رکھوگے اور زکاۃ دیتے رہوگے۔ (سورۂ المائدہ ۱۲) (وضاحت) یعنی نماز کی پابندی کرنے سے بندہ اللہ تعالیٰ کے بہت زیادہ قریب ہوجاتاہے جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بندہ کو اللہ تعالیٰ کا سب سے زیادہ قرب سجدے کی حالت میں حاصل ہوتا ہے۔ غرض اللہ تعالیٰ کے احکام کو بجا لانے، خاص کرنماز کا اہتمام کرنے سے اللہ تعالیٰ بندے کے ساتھ ہوجاتا ہے۔
یقیناًان ایمان والوں نے فلاح (کامیابی) پائی جو اپنی نماز میں خشوع کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور جو اپنی نماز کی خبر رکھتے ہیں، یہی وہ وارث ہیں جو (جنت) الفردوس کے وارث ہوں گے جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ (سورۂ المؤمنون ۱ ۔ ۱۱) (وضاحت) ان آیات میں کامیابی پانے والے مؤمنین کی چھ صفات بیان کی گئی ہیں: پہلی صفت‘ خشوع وخضوع کے ساتھ نماز ادا کرنا۔۔۔۔۔۔۔۔ اور آخری صفت پھر‘ نماز کی پوری طرح حفاظت کرنا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ نماز کا اللہ تعالیٰ کے پاس کیا درجہ ہے اور کس قدر مہتم بالشان چیزہے کہ مؤمنین کی صفات کو نماز سے شروع کرکے نماز ہی پر ختم فرمایا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ یہی وہ لوگ ہیں جو جنت کے وارث یعنی حق دار ہوں گے، جنت بھی جنت الفردوس‘ جو جنت کا اعلیٰ حصہ ہے جہاں سے جنت کی نہریں جاری ہوئی ہیں۔ غرض جنت الفردوس کو حاصل کرنے کے لئے نماز کا اہتمام بے حد ضروری ہے۔
بیشک انسان بڑے کچّے دل والا بنایا گیا ہے جب اسے مصیبت پہنچتی ہے تو ہڑبڑا اٹھتا ہے اور جب راحت ملتی ہے تو بخل کرنے لگتا ہے، مگر وہ نمازی جو اپنی نماز کی پابندی کرتے ہیں۔۔۔۔۔ اور جو اپنی نماز کی حفاظت کرتے ہیں۔ یہی لوگ جنتوں میں عزت والے ہوں گے۔ (سورۂ المعارج ۱۹۔۳۵) (وضاحت) ان آیات میں جنتیوں کی آٹھ صفات بیان کی گئی ہیں جن کو نماز سے شروع اور نماز ہی پرختم کیا گیاہے۔ معلوم ہوا کہ نماز‘ اللہ کی نظر میں کس قدر مہتم بالشان عبادت ہے۔
احادیثِ نبویہ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: قیامت کے دن آدمی کے اعمال میں سب سے پہلے فرض نماز کا حساب لیا جائیگا۔ اگر نماز درست ہوئی تو وہ کامیاب وکامران ہوگا، اور اگر نماز درست نہ ہوئی تو وہ ناکام اور خسارہ میں ہوگا۔ ترمذی، ابن ماجہ، نسائی، ابوداود، مسند احمد
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: قیامت کے دن سب سے پہلے نماز کا حساب لیا جائے گا۔ اگر نماز اچھی ہوئی تو باقی اعمال بھی اچھے ہوں گے اور اگر نماز خراب ہوئی تو باقی اعمال بھی خراب ہوں گے۔ طبرانی
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ا سے دریافت کیا کہ اللہ کو کونسا عمل زیادہ محبوب ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: نماز کو اس کے وقت پر ادا کرنا۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے کہا کہ اس کے بعد کونسا عمل اللہ کو زیادہ پسند ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: والدین کی فرمانبرداری۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے کہا کہ اس کے بعد کونسا عمل اللہ کو زیادہ محبوب ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کے راستہ میں جہاد کرنا۔ بخاری ، مسلم
حضرت عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ کے رسول سے بیعت نہیں کرتے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ اسکو کہا، تو ہم نے اپنے ہاتھ بیعت کے لئے بڑھادئے اوربیعت کی۔ ہم نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہم نے کس چیز پر بیعت کی؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: صرف اللہ کی عبادت کرو، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو اورنماز کی پابندی کرو۔ اس کے بعد آہستہ آواز میں کہا: لوگوں سے کسی چیز کا سوال نہ کرو۔ نسائی، ابن ماجہ، ابوداود، مسند احمد
حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کا ذکر فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا: جو شخص نماز کا اہتمام کرتا ہے تو نماز اس کے لئے قیامت کے دن نور ہوگی، اس (کے پورے ایماندار ہونے) کی دلیل ہوگی اور قیامت کے دن عذاب سے بچنے کا ذریعہ ہوگی۔ اور جو شخص نماز کا اہتمام نہیں کرتا اس کے لئے قیامت کے دن نہ نور ہوگا، نہ اس (کے پورے ایماندار ہونے) کی کوئی دلیل ہوگی، نہ عذاب سے بچنے کا کوئی ذریعہ ہوگا۔ اور وہ قیامت کے دن فرعون، قارون، ہامان اور ابی بن خلف کے ساتھ ہوگا۔ صحیح ابن حبان ، طبرانی، بیہقی، مسند احمد
وضاحت: علامہ ابن قیم ؒ نے (کتاب الصلاۃ) میں ذکر کیا ہے کہ ان کے ساتھ حشر ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اکثر ان ہی باتوں کی وجہ سے نماز میں سستی ہوتی ہے جو ان لوگوں میں پائی جاتی تھیں۔ پس اگر اسکی وجہ مال و دولت کی کثرت ہے تو قارون کے ساتھ حشر ہوگا اور اگر حکومت و سلطنت ہے تو فرعون کے ساتھ اور وزارت (یا ملازمت) ہے تو ہامان کے ساتھ اور تجارت ہے تو ابی بن خلف کے ساتھ حشر ہوگا۔ جو لوگ اپنے آپ کو مسلمان کہنے کے باوجود بالکل نماز ہی نہیں پڑھتے یا کبھی کبھی پڑھ لیتے ہیں، وہ غور کریں کہ ان کا انجام کیا ہوگا۔ یا اللہ! اس انجامِ بد سے ہماری حفاظت فرما۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: نماز نور ہے، صدقہ دلیل ہے، صبر کرنا روشنی ہے اور قرآن تمہارے حق میں دلیل ہے یا تمہارے خلاف دلیل ہے (یعنی اگر اسکی تلاوت کی اور اس پر عمل کیا تو یہ تمہاری نجات کا ذریعہ ہوگا ،ورنہ تمہاری پکڑ کا ذریعہ ہوگا)۔ مسلم
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں ایک سفر میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا۔ ایک دن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب تھا، ہم سب چل رہے تھے۔ میں نے کہا: اے اللہ کے پیغمبر! آپ مجھے ایسا عمل بتادیجئے جسکی بدولت میں جنت میں داخل ہوجاؤں اور جہنم سے دور ہوجاؤں۔ آپ ا نے فرمایا تم نے بڑی بات پوچھی ہے۔ لیکن اللہ جس کے لئے آسان کردے اس کے لئے آسان ہے۔ اللہ کی عبادت کرو اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو، نماز قائم کرو، زکاۃ دو، رمضان کے روزے رکھو اوراللہ کے گھر کا حج کرو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تمہیں اس معاملہ کی اصل، اس کا ستون اور اسکی عظمت نہ بتادوں؟ میں نے کہا ضرور۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: معاملہ کی اصل اسلام ہے، اس کا ستون نماز ہے اور اسکی عظمت اللہ کی راہ میں جہاد ہے۔ ابن ماجہ، ترمذی، مسند احمد
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ نے بندوں پر پانچ نمازیں فرض فرمائی ہیں، جو اِن نماز کو اس طرح لے کر آئے کہ ان میں لاپرواہی سے کسی قسم کی کوتاہی نہ کرے تو حق تعالیٰ شانہ کا عہد ہے کہ اس کو جنت میں ضرور داخل فرمائیں گے۔ اور جو شخص ایسا نہ کرے تو اللہ تعالیٰ کا کوئی عہد اس سے نہیں، چاہے اسکو عذاب دیں چاہے جنت میں داخل کردیں ۔ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر پانچ نمازیں فرض فرمائی ہیں، جو نماز کو (قیامت کے دن) اس طرح لے کر آئے کہ ان میں لاپرواہی سے کسی قسم کی کوتاہی نہ کی ہو تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس بندے سے عہد کرکے اس کو جنت میں داخل فرمائیں گے اور جو نماز کواس طرح لے کر آئے کہ ان میں لاپرواہیوں سے کوتاہیاں کی ہیں تو اللہ کا اس سے کوئی عہد نہیں چاہے اسکو عذاب دیں ، چاہے معاف فرمادیں. (موطا مالک، ابن ماجہ، مسند احمد) غور فرمائیں کہ نماز کی پابندی پر جس میں زیادہ مشقت بھی نہیں ہے، مالک الملک دو جہاں کا بادشاہ جنت میں داخل کرنے کا عہد کرتا ہے پھر بھی ہم اس اہم عبادت سے لاپرواہی کرتے ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص پانچوں نمازوں کی اس طرح پابندی کرے کہ وضو اور اوقات کا اہتمام کرے، رکوع اور سجدہ اچھی طرح کرے اور اس طرح نماز پڑھنے کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے ذمہ ضروری سمجھے تو اس آدمی کو جہنم کی آگ پر حرام کردیا گیا۔ مسند احمد
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جنت کی کنجی نمازہے، اور نماز کی کنجی پاکی (وضو) ہے۔ ترمذی، مسند احمد
حضرت ربیعہ بن کعب اسلمی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس (آپکی خدمت کیلئے) رات گزارتا تھا، ایک رات میں نے آپ کے لئے وضو کا پانی اور ضرورت کی چیزیں پیش کیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کچھ سوال کرنا چاہتے ہو تو کرو ۔ میں نے کہا: میں چاہتا ہوں کہ جنت میں آپ کے ساتھ رہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کے علاوہ کچھ اور۔ میں نے کہا: بس یہی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنی اس خواہش کی تکمیل کے لئے زیادہ سے زیادہ سجدے کرکے میری مدد کرو ۔ (یعنی نماز کے اہتمام سے یہ خواہش پوری ہوگی)۔ خوش نصیب ہیں اللہ کے وہ بندے جو اِس دنیاوی زندگی میں نماز کا اہتمام کرکے جنت الفردوس میں تمام نبیوں کے سردار حضرت محمد مصطفی ا کی مرافقت پائیں۔ مسلم
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میری آنکھوں کی ٹھنڈک نمازمیں رکھی گئی ہے۔ نسائی، بیہقی، مسند احمد
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانِ مبارک سے نکلا آخری کلام (نماز، نماز اور غلاموں کے بارے میں اللہ سے ڈرو ) تھا۔ ابو داود، مسند احمد
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری وصیت یہ ارشاد فرمائی: نماز، نماز ۔ اپنے غلاموں (اور ماتحت لوگوں) کے بارے میں اللہ سے ڈرو، یعنی ان کے حقوق ادا کرو۔ جس وقت آپ انے یہ وصیت فرمائی آپ اکی زبانِ مبارک سے پورے لفظ نہیں نکل رہے تھے۔ مسند احمد
حضرت عمرو اپنے والد اور وہ اپنے دادا (حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ) سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اپنے بچوں کو سات سال کی عمر میں نماز کا حکم کرو۔ دس سال کی عمر میں نماز نہ پڑھنے پر انہیں مارو، اور اس عمر میں علیحدہ علیحدہ بستروں پر سلاؤ ۔ ابوداود
وضاحت: والدین کو حکم دیا گیا کہ جب بچہ سات سال کا ہوجائے تو اسکی نماز کی نگرانی کریں، دس سال کی عمر میں نماز نہ پڑھنے پر پٹائی بھی کریں تاکہ بلوغ سے قبل نماز کا پابند ہوجائے، اور بالغ ہونے کے بعد اس کی ایک نماز بھی فوت نہ ہو کیونکہ ایک وقت کی نماز جان بوجھ کر چھوڑنے پر احادیث میں سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں، بلکہ بعض علماء کی رائے کے مطابق وہ ملتِ اسلامیہ سے نکل جاتا ہے۔
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اپنے گورنروں کو یہ حکم جاری فرمایا کہ میرے نزدیک تمہارے امور میں سب سے زیادہ اہمیت نماز کی ہے۔ جس نے نمازکی پابندی کرکے اسکی حفاظت کی، اس نے پورے دین کی حفاظت کی اور جس نے نماز کو ضائع کیا وہ نماز کے علاوہ دین کے دیگر ارکان کو زیادہ ضائع کرنے والا ہوگا۔ (موطا امام مالک) (وضاحت) حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے اس ارشاد سے واضح طور پر معلوم ہوا کہ جو شخص نماز میں کوتاہی کرتاہے، وہ یقیناًدین کے دوسرے کاموں میں بھی سستی کرنے والا ہوگا۔ اور جس نے وقت پر خشوع وخضوع کے ساتھ نماز کا اہتمام کرلیا، وہ یقیناًپورے دین کی حفاظت کرنے والا ہوگا۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ شبِ معراج میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر پچاس نمازیں فرض ہوئیں، پھر کم ہوتے ہوتے پانچ رہ گئیں۔ آخر میں (اللہ تعالیٰ کی طرف سے) اعلان کیا گیا۔ اے محمد! میرے ہاں بات بدلی نہیں جاتی، لہذا پانچ نمازوں کے بدلے پچاس ہی کا ثواب ملے گا۔ (ترمذی) (وضاحت) صرف نماز ہی دین اسلام کا ایک ایسا عظیم رُکن ہے جسکی فرضیت کا اعلان زمین پر نہیں بلکہ ساتوں آسمانوں کے اوپر بلند واعلیٰ مقام پر معراج کی رات ہوا۔ نیز اسکا حکم حضرت جبرائیل علیہ السلام کے ذریعہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تک نہیں پہنچا، بلکہ اللہ تعالیٰ نے فرضیتِ نماز کا تحفہ بذاتِ خود اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا فرمایا۔
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے یمن بھیجا تو ارشاد فرمایا: تم ایسے لوگوں کے پاس جارہے ہو جو اہل کتاب ہیں، لہذا سب سے پہلے ان کو اس بات کی دعوت دینا کہ اللہ کے سواء کوئی معبود نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں۔ جب اس بات کو مان لیں تو انہیں بتاؤ کہ اللہ تعالیٰ نے روزانہ پانچ نمازیں ان پر (ہر مسلمان پر) فرض کی ہیں۔۔۔۔۔ (بخاری ،مسلم(
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: سات قسم کے آدمی ہیں جن کو اللہ تعالیٰ اپنی (رحمت کے) سایہ میں ایسے دن جگہ عطا فرمائے گا جس دن اس کے سایہ کے سوا کوئی سایہ نہ ہوگا۔ اُن سات لوگوں میں سے ایک وہ شخص بھی ہے جس کا دل مسجد سے اٹکا ہوا ہو (یعنی وقت پر نماز ادا کرتا ہو) ۔ (بخاری ،مسلم(
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تم میں سے جب کوئی نماز کے لئے کھڑا ہوتا ہے تو وہ اللہ سے مناجات (سرگوشی) کرتا ہے۔ (بخاری(
اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کو نماز کا اہتمام کرنے والا بنائے۔ آ مین ، ثم آمین۔
محمد نجیب قاسمی سنبھلی (najeebqasmi@yahoo.com)

نماز جنازہ غائبانہ

بسم الله الرحمن الرحيم

اَلْحَمْدُ لِله رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلام عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔

نماز جنازہ (غائبانہ)

دنیا میں ہر انسان کی زندگی طے شدہ ہے۔ وقت معیّن آنے کے بعد ایک لمحہ کی بھی مہلت نہیں دی جا تی۔ مقررہ وقت آنے پر اس دنیا سے قبر والے گھر کی طرف منتقل ہوناہی ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے پاک کلام میں فرماتا ہے: جب ان کا وقت آپہنچا پھر ایک سیکنڈ اِدھر اُدھر نہیں ہوسکتا ۔ (سورۃ النحل، آیت ۶۱) جب کسی کا مقررہ وقت آجاتا ہے پھر اسے اللہ تعالیٰ ہرگز مہلت نہیں دیتا ہے۔ (سورۃ المنافقون، آیت ۱۱) ہر شخص کو موت کا مزہ چکھنا ہے۔(سورۃ آل عمران، آیت ۱۸۵)
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال وافعال کی روشنی میں انتقال کے بعد جتنی جلدی ممکن ہوسکے میت کو غسل وکفن کے بعد اس کی نمازجنازہ کا اہتمام کرنا چاہئے۔ نماز جنازہ میں جس قدر بھی زیادہ آدمی شریک ہوں اسی قدر میت کے حق میں اچھا ہے کیونکہ نہ معلوم کس کی دعا لگ جائے اور میت کی مغفرت ہوجائے۔
* رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اگر کسی جنازہ میں ۱۰۰ مسلمان شریک ہوکر اس میت کے لئے شفاعت کریں (یعنی نماز جنازہ پڑھیں) تو ان کی شفاعت قبول کی جاتی ہے۔ (مسلم)
* رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اگر کسی مسلمان کے انتقال پر ایسے چالیس آدمی جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتے، اس کی نماز جنازہ پڑھتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کی شفاعت (دعا) کو میت کے حق میں قبول فرماتا ہے۔ (مسلم(
* رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص کسی مسلمان کے جنازے میں ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے ساتھ چلا یہاں تک کہ اس کی نماز جنازہ پڑھی اور اس کو دفن کرنے میں بھی شریک رہا تو وہ دو قیراط اجر (ثواب) لے کر لوٹتا ہے اور ہر قیراط اُحد پہاڑ کے برابر ہے۔ اور جو شخص نماز جنازہ میں شریک ہوا مگر تدفین سے پہلے ہی واپس آگیا تو وہ ایک قیراط اجر (ثواب) کے ساتھ لوٹتا ہے۔ (بخاری ومسلم(
* نماز جنازہ میں اگر لوگ کم ہوں تب بھی تین صفوں میں لوگوں کا کھڑا ہونا زیادہ بہتر ہے، کیونکہ بعض احادیث میں جنازہ کی تین صفوں کی خاص فضیلت وارد ہوئی ہے۔ ( ابو داؤد(
نماز جنازہ کی اتنی فضیلت ہونے کے باوجود انتہائی افسوس اور فکر کی بات ہے کہ باپ کا جنازہ نماز کے لئے رکھا ہوا ہے اور بیٹا نماز جنازہ میں اس لئے شریک نہیں ہورہا ہے کہ اس کو جنازہ کی نماز پڑھنی نہیںآتی حالانکہ جنازہ کی دعا اگر یاد نہیں ہے تب بھی نماز جنازہ میں شریک ہونا چاہئے تاکہ جو رشتہ دار یا دوست یا کوئی بھی مسلمان اس دار فانی سے دار بقا کی طرف کوچ کررہا ہے ، اس کے لئے ایک ایسے کام میں ہماری شرکت ہوجائے جو اُس کی مغفرت کا سبب بن سکتا ہے۔
آغاز نماز جنازہ:
مؤرخین نے تحریر کیا ہے کہ نماز جنازہ کا حکم مکہ مکرمہ میں نہیں تھا، اسی لئے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی نماز جنازہ ادا نہیں کی گئی تھی۔۔۔ نماز جنازہ کا حکم مدینہ منورہ میں ہجرت کے فوراً بعد پہلی ہجری کو ہوا اورحضرت براء بن معرور رضی اللہ عنہ کی سب سے پہلی نماز جنازہ ہجرت کے ایک ماہ بعد ادا کی گئی۔ (طبقات ابن سعد(
حضرت نجاشیؓ کا تعارف:
آپ کا نام اصحمہ بن ابحر ہے۔ نجاشی آپ کا لقب ہے جیسا کہ حبشہ (Ethiopia) کے ہر بادشاہ کو نجاشی کہا جاتا ہے۔ بہت کم عمر میں آپ حبشہ (Ethiopia) کے بادشاہ متعین کردئے گئے تھے۔ حضرت نجاشیؓ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے مگر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات نہ ہوسکی۔ امام ذہبی ؒ نے تحریر کیا ہے کہ آپ ایک لحاظ سے صحابی ہیں اور ایک لحاظ سے تابعی ہیں۔ (سیر اعلام النبلاء) دو مرتبہ صحابۂ کرام نے حبشہ (Ethiopia)ہجرت کی، ایک نبوت کے پانچویں سال اور ایک مرتبہ بعد میں۔جب کفار مکہ نے صحابۂ کرام کو واپس کرنے کے لئے حضرت نجاشی سے رابطہ کیا تو نجاشی بادشاہ نے حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ کو اپنے پاس بلایا۔ حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ نے سورۂ مریم کی ابتدائی آیات پڑھیں تو حضرت نجاشی جو اس وقت تک عیسائی تھے، رونے لگے یہاں تک کہ داڑھی تر ہوگئی اور کہا کہ بے شک یہ کلام اور وہ جو حضرت موسیٰ علیہ السلام لے کر آئے تھے، ایک ہی محراب سے نکلنے والا (نور) ہے۔ اللہ کی قسم! اے قریش مکہ میں ان کو تمہارے سپرد نہیں کروں گا۔ بعد میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو دعوت اسلام دی، حضرت نجاشی رضی اللہ عنہ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا خط پکڑکر اسے اپنی آنکھوں پہ رکھا، تواضع کے ساتھ اپنے تخت سے اترکر زمین پر بیٹھ گئے اور اسلام قبول فرمالیا۔ ۹ ہجری میں ان کا حبشہ (Ethiopia) میں انتقال ہوا اور ان کو نماز جنازہ کے بغیر دفن کردیا گیا، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ میں ان کی نماز جنازہ ادا فرمائی۔
حضرت نجاشیؓ کی نماز جنازہ:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابۂ کرام کو حضرت نجاشی رضی اللہ عنہ کے انتقال کی خبر دی، پھر آگے بڑھے، صحابۂ کرام نے پیچھے صفیں لگائیں، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے چار تکبریں کہیں۔ (صحیح بخاری وصحیح مسلم) امام بخاری ؒ نے یہ حدیث مختلف الفاظ کے ساتھ صحیح بخاری میں متعدد جگہوں پر ذکر فرمائی ہے مگر ایک مرتبہ بھی حدیث کے متن میں یہ نہیں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھی۔ ہاں ان احادیث سے یہ بات ضرور معلوم ہوئی کہ حضرت نجاشی ؓ کا حبشہ (Ethiopia)میں انتقال ہوااور ان کو نماز جنازہ کے بغیر دفن کردیا گیا تھا، نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے سے باقاعدہ اعلان کے بغیر مسجد نبوی میں نماز نہ پڑھ کر کھلے میدان میں جاکر اس وقت جو صحابۂ کرام موجود تھے ان کی موجودگی میں نماز جنازہ پڑھی، یہ غائبانہ نماز جنازہ نہیں تھی بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مرئی (جو نظر آرہاہو) اور حاضر پر نماز جنازہ پڑھی ہے، غائب تو وہ ہوتا ہے جو دکھائی نہ دے کیونکہ متعدد احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت نجاشیؓ کے جنازہ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کردیا گیا تھا۔ جیسا کہ حدیث میں ہے: حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں خبر دی تمہارے بھائی حضرت نجاشیؒ انتقال کرگئے ہیں، کھڑے ہوجاؤ، ان کی نماز جنازہ ادا کرو، پس حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوگئے اور صحابۂ کرام نے آپ کے پیچھے صفیں بنالیں، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے چار تکبریں کہیں، صحابۂ کرام یہی سمجھ رہے تھے کہ حضرت نجاشی ؓ کا جسم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے ہے۔ (صحیح ابن حبان، مسند احمد، فتح الباری(
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں اس نوعیت کے واقعے اس کے علاوہ بھی پیش آئے ہیں جس میں دنیاوی دوری کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سے تمام دنیاوی پردوں کو ہٹادیا گیا ہو چنانچہ مکہ مکرمہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے زمین کو لپیٹ دیا گیا تھا یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ مکرمہ میں بیٹھے مسجد اقصیٰ کو دیکھ کر اس کے احوال لوگوں کے سامنے بیان کئے۔ اسی طرح حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن ارشاد فرمایا کہ اللہ کی قسم! میں اس وقت اپنے حوض کی طرف دیکھ رہا ہوں۔۔۔۔ (صحیح بخاری وصحیح مسلم(
نماز جنازہ (غائبانہ )کے لئے حضرت معاویہ بن معاویہ مزنی رضی اللہ عنہ کے واقعہ سے بھی استدلال کیا جاتا ہے کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس (تبوک میں) تشریف لائے اور کہا یا رسول اللہ! حضرت معاویہ مزنی رضی اللہ عنہ فوت ہوگئے ہیں، کیا آپ ان کی نماز جنازہ پڑھنا چاہتے ہیں؟ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں۔ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے زمین پر اپنا پرمارا تو ہر درخت اور ٹیلہ پست ہوگیا اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے حضرت معاویہؓ کی چارپائی بلند کردی گئی یہاں تک کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دیکھتے ہوئے ان کی نماز جنازہ پڑھی۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جبرئیل علیہ السلام سے فرمایا کہ حضرت معاویہ مزنیؓ کو اللہ تعالیٰ سے یہ مقام کیسے ملا؟ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے جواب دیا: ان کے سورۂاخلاص یعنی قل ہو اللہ احد کے ساتھ ان کے تعلق کی وجہ سے کہ آتے جاتے اٹھتے بیٹھتے اس کی تلاوت کیا کرتے تھے۔
لیکن اس حدیث سے نماز جنازہ غائبانہ کے جواز پر استدلال کرنا صحیح نہیں ہے کیونکہ اس حدیث کی سند میں ضعف ہے اور اگر مذکورہ حدیث کو صحیح تسلیم کر بھی لیا جائے تو یہ غائبانہ نماز جنازہ نہیں تھی بلکہ تمام پردوں کو ہٹاکر حضرت معاویہ مزنی ؓ کے جنازہ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے حاضر کردیا گیا تھا جیسا کہ حدیث کی عبارت سے خود واضح ہورہا ہے۔نیز اگر غائبانہ نماز جنازہ پڑھنی جائز ہوتی تو حضرت جبرئیل علیہ السلام زمین پر اپنا پرمارنے کا اہتمام نہ کرتے۔
خلاصۂ کلام: لاکھوں صفحات پر مشتمل ذخیرۂ حدیث میں نماز جنازہ (غائبانہ) پڑھنے کے لئے یہ صرف دو واقعے دلیل کے طور پر پیش کئے جاسکتے ہیں، حالانکہ ان کی توجیہ بھی ہوسکتی ہے اور دونوں کو خصوصیت پر بھی محمول کیا جاسکتا ہے۔ اگر نماز جنازہ غائبانہ پڑھنے کی عام اجازت ہوتی تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان بیسیوں صحابۂ کرام پر نماز جنازہ نہ چھوڑتے جن کی وفات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات میں مدینہ منورہ سے باہر ہوئی، حالانکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابۂ کرام کی نماز جنازہ پڑھنے کا خاص اہتمام فرماتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابۂ کرام کو تعلیمات بھی دے رکھی تھیں کہ اگر کوئی جنازہ حاضر ہو تو مجھے ضرور اطلاع کریں۔ اسی طرح آپ کے بعد صحابۂ کرام کا بھی کوئی معمول غائبانہ نماز جنازہ کا نہیں ملتا۔ خلفاء راشدین میں سے کسی ایک کی نماز جنازہ غائبانہ ادا نہیں کی گئی اور نہ ہی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد کسی صحابی سے کسی ایک شخص کی نماز جنازہ غائبانہ پڑھنے کا کوئی ثبوت ملتا ہے۔ علم اور مقام کے اعتبار سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلفاء راشدین اور صحابۂ کرام سے بڑھ کر کون ہوسکتا ہے؟
علماء امت کے اقوال:
۸۰ہجری میں پیدا ہوئے حضرت امام ابوحنیفہ ؒ اور ۹۳ ہجری میں پیدا ہوئے حضرت امام مالک ؒ کے نزدیک غائبانہ نماز جنازہ جائز ہی نہیں ہے یعنی مشروع ہی نہیں ہے کیونکہ حضرت نجاشیؓ کی نماز جنازہ غائبانہ نہیں تھی، جیسا کہ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت نجاشیؓ کے درمیان جتنے حجابات تھے وہ سب اللہ کے حکم سے دور کردئے گئے تھے یہاں تک کہ حضرت نجاشیؓ کا جنازہ اللہ کے حکم سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کردیا گیا تھا۔ زمانۂ قدیم سے عصر حاضر تک کے علماء احناف اور مالکی علماء کی کتابیں اس کی گواہ ہیں۔
حضرت امام شافعیؒ سے دو اقوال منقول ہیں، ان میں سے ایک قول یہ ہے کہ دوسرے ملک میں تو نماز جنازہ غائبانہ پڑھنے کی گنجائش ہے مگر اسی ملک میں نماز جنازہ غائبانہ پڑھنے کی اجازت نہیں جہاں تدفین ہوئی ہو۔
حضرت امام احمد بن حنبل ؒ سے بھی دو اقوال منقول ہیں، ان میں سے ایک قول یہ ہے کہ اگر کوئی مسلمان ایسے ملک میں فوت ہوگیا ہو جہاں کفار ہی کفار رہتے ہیں تو پھر اس کی نماز جنازہ غائبانہ پڑھی جاسکتی ہے۔
مفسر قرآن امام قرطبی ؒ نے تحریر کیا ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب حضرت نجاشیؓ کے جسم کو دیکھا ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غائب پر نماز نہیں پڑھی بلکہ آپ نے مرئی (جو نظر آرہاہو) اور حاضر پر نماز جنازہ پڑھی ہے غائب تو وہ ہوتا ہے جو دکھائی نہ دے۔ امام قرطبیؒ مزید تحریر کرتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے زمین کو جنوباً وشمالاً لپیٹ دیا گیا تھا یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت نجاشیؓ کو دیکھ لیا جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے زمین کو شمالاً وجنوباً لپیٹ دیا گیا تھا یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ مکرمہ میں بیٹھے مسجد اقصیٰ کو دیکھ کر اس کے احوال بیان کئے۔ (تفسیر قرطبی(
مشہور محدث امام ذہبی ؒ حضرت نجاشیؒ کی نماز جنازہ کے متعلق تحریر کرتے ہیں کہ اس جنازہ کو پڑھنے کی وجہ یہ تھی کہ حضرت نجاشیؓ کا وصال قوم نصاریٰ میں ہوا تھا اور وہاں کوئی ایسا نہیں تھا جو آپ کی نماز جنازہ ادا کرے کیونکہ صحابۂ کرام جو ہجرت کرکے وہاں گئے تھے وہ فتح خیبر کے سال ہجرت کرکے مدینہ منورہ چلے گئے تھے۔ (سیر اعلام النبلاء(
علامہ ابن القیم ؒ اپنی کتاب ( زاد المعاد) میں لکھتے ہیں کہ جس شخص کی نماز جنازہ پڑھی جاچکی ہے اس کی غائبانہ نماز جنازہ نہیں پڑھی جائے گی۔ علامہ ابن تیمیہ ؒ کا بھی یہی موقف ہے۔ علامہ البانی ؒ نے اپنی کتاب (تلخیص احکام الجنائز) میں لکھا ہے کہ جس شخص کی نماز جنازہ ادا کی جاچکی ہے اس کی غائبانہ نماز جنازہ نہیں پڑھی جائے گی کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلفاء راشدین میں سے کسی کی غائبانہ نماز جنازہ نہیں پڑھی گئی۔ علامہ ابن تیمیہؒ ، علامہ ابن القیمؒ اور شیخ البانی ؒ کا تذکرہ اس وجہ سے کیا گیا ہے کہ اِن دنوں جو حضرات غائبانہ نماز جنازہ پڑھنے کی بات کرتے ہیں ان میں سے اکثر حضرات احکام ومسائل میں ان حضرات کے اقوال کو حرف آخر سمجھتے ہیں۔
نمازِ جنازہ (غائبانہ(
حضرت نجاشیؓ کے واقعہ سے زیادہ سے زیادہ یہ ثابت ہوسکتا ہے کہ اگر کوئی مسلمان ایسے علاقہ میں انتقال کرجائے جہاں اس کی نماز جنازہ ادا نہیں کی گئی ہو تو ایسے شخص کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھنے کی گنجائش ہے، لیکن آج کل بعض حضرات نے غائبانہ نماز جنازہ پر اس طرح عمل شروع کردیا ہے کہ ہر عام وخاص کی نماز جنازہ غائبانہ ادا کرتے ہیں حالانکہ اعلان عام کے بعد میت کی باقاعدہ نماز جنازہ ادا ہوجائے اور اس میں سینکڑوں یا ہزاروں لوگوں نے شرکت بھی کرلی تو غائبانہ نماز جنازہ کی بات بالکل سمجھ میں نہیں آتی۔ ہاں! دنیا کے کونے کونے سے میت کے لئے ہم دعا واستغفار کرسکتے ہیں اور خوب دعا واستغفار کرنا چاہئے تاکہ اللہ تبارک وتعالیٰ میت کی مغفرت فرمائے اور اس کے درجات کو بلند فرمائے۔ رہی بات شاہ حبشہ حضرت نجاشیؓ کی نماز جنازہ کی، تو دلائل کے ساتھ ذکر کیا گیا کہ وہ انتقال کئے تو وہاں کوئی اور مسلمان نہیں تھا، نیز اللہ تعالیٰ نے ان کے جنازہ کے سامنے سے تمام رکاوٹوں کو دور کردیا تھا جیسا کہ احادیث وسیرت کی کتابوں میں وضاحت موجود ہے، لہٰذا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی نماز جنازہ ادا فرمائی۔ اس واقعہ کے علاوہ کسی کی نماز جنازہ (غائبانہ ) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں پڑھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بہت سے جان نثار صحابہؓ ، قراء صحابہؓ ، آپ کے چچا زاد بھائی حضرت جعفر طیارؓ ، آپ کے منہ بولے بیٹے حضرت زید بن حارثہؓ ان سب کا انتقال حالت سفر میں ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ منورہ میں خبر ملی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی غائبانہ نماز جنازہ نہیں پڑھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ کے چاروں خلفاء میں سے کسی ایک کی نماز جنازہ غائبانہ نہیں پڑھی گئی، نیز کسی ایک صحابی سے بھی ایک واقعہ بھی نماز جنازہ غائبانہ پڑھنے کا کوئی ثبوت نہیں ملتا حالانکہ وہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال وافعال کو ہم سے زیادہ اچھی طرح سمجھتے تھے اور ہم سے زیادہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال وافعال پر عمل کرنے کا جذبہ رکھتے تھے۔
دینی بھائیو! جس عمل کی مشروعیت میں ہی اختلاف ہو کہ حضرت امام ابوحنیفہؒ اور حضرت امام مالک ؒ کے نزدیک نماز جنازہ غائبانہ جائز ہی نہیں ہے۔ حضرت امام شافعیؒ اور حضرت امام احمد بن حنبلؒ نے چند شرائط کے ساتھ محدود اجازت تو دی ہے لیکن کبھی بھی زندگی میں ان دونوں حضرات سے نماز جنازہ غائبانہ پڑھنے کا کوئی ثبوت نہیں ملتا ہے، تو عقل بھی کہتی ہے کہ مشکوک عمل کو کیوں کیا جائے بلکہ میت کے لئے صدقۂ جاریہ کے طور پر کچھ کام کرادیں جس سے مسلمانوں کا تعلیمی یا مالی فائدہ بھی ہو یا کم از کم میت کی مغفرت اور درجات کی بلندی کے لئے دعائیں ہی کریں ، اس میں کسی طرح کا کوئی اختلاف بھی نہیں ہے۔
نماز پڑھئے قبل اس کے کہ آپ کی نماز پڑھی جائے۔ عقلمند شخص وہ ہے جو مرنے سے پہلے اپنے مرنے کی تیاری کرلے۔
محمد نجیب قاسمی سنبھلی ، ریاض (www.najeebqasmi.com)

امام کے پیچھے مقتدی کا سورۂ فاتحہ پڑھنے کا حکم

بسم الله الرحمن الرحيم

اَلْحَمْدُ لِله رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلام عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔

امام کے پیچھے مقتدی کا سورۂ فاتحہ پڑھنے کا حکم

قرآن وحدیث کی روشنی میں بعض مسائل میں علماء وفقہاء کے درمیان ابتداء اسلام سے ہی اختلاف چلا آرہا ہے۔ ان فروعی مسائل میں اختلاف کی حکمت ومصلحت کیا ہے؟ اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔ ممکن ہے کہ قرآن وحدیث کے علوم میں تحقیق کا دروازہ کھولنا مقصود ہو تاکہ امت مسلمہ ان مسائل کے لئے قرآن وحدیث سے رجوع کرتی رہے۔ مثلاً شبِ قدر کو اللہ تعالیٰ نے امت کے لئے مخفی رکھا تاکہ امت مسلمہ قرآن وحدیث کی روشنی میں مختلف راتوں میں حتی کہ پورے سال اس کی تلاش کرتی رہے۔ نیز قرآن وحدیث میں کسی بھی جگہ اختلاف کرنے سے منع نہیں فرمایا ہے بلکہ بعض احادیث میں علماء کے درمیان اختلاف کو رحمت تک قرار دیا گیا ہے، البتہ نزاع اور جھگڑا کرنے سے منع کیا گیا ہے۔
نماز میں تکبیر تحریمہ سے لیکر سلام پھیرنے تک علماء وفقہاء کے درمیان عموماً اختلافات راجح ومرجوح سے متعلق ہیں، کہ کیا کرنا بہتر ہے، البتہ امام کے پیچھے سورۂ فاتحہ پڑھنے کا مسئلہ تھوڑی اہمیت کا حامل ہے۔ اس مسئلہ میں علماء وفقہاء کی تین رائے ہیں، ہر مکتب فکر نے اپنے فیصلے کو قرآن وحدیث سے مدلل کیا ہے۔ البتہ تمام دلائل کو سامنے رکھ کر یہ بات یقین کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ نقد وجرح سے بالا تر کسی بھی حدیث سے واضح طور پر نہ تو یہ ثابت ہے کہ امام کے پیچھے سورۂ فاتحہ پڑھنا حرام ہے اور نہ یہ ثابت ہے کہ امام کے پیچھے سورۂ فاتحہ نہ پڑھنے کی صورت میں نماز ادا ہی نہیں ہوگی ۔ نیز مقتدی کے سورۂ فاتحہ پڑھنے کا وقت نبی اکرم ا کے واضح ارشادات میں دور دور تک حتی کہ احادیث ضعیفہ میں بھی موجود نہیں ہے۔ غرض زیر بحث مسئلہ میں علماء وفقہاء کی مندرجہ ذیل تین رائے ہیں :
۱۔ جہری نماز ہو یا سری، مقتدی خواہ امام کی قرأت سن رہا ہو یا نہیں، مقتدی کے لئے سورۂ فاتحہ پڑھنا جائز نہیں ہے۔
۲۔ جہری نماز(مغرب ، عشاء اور فجر) میں مقتدی امام کے پیچھے سورۂ فاتحہ نہیں پڑھے گا، البتہ سری نماز (ظہر اور عصر) میں پڑھے گا۔
۳۔ جہری وسری ہر نماز میں امام کے پیچھے سورۂ فاتحہ پڑھنا ضروری ہے۔
قرآن وحدیث کی روشنی میں ہمارے اساتذۂ کرام نے پہلی رائے کو اختیار کیا ہے کہ جہری نماز ہو یا سری، مقتدی خواہ امام کی قرأت سن رہا ہو یا نہیں، مقتدی کے لئے سورۂ فاتحہ پڑھنا جائز نہیں ہے۔ یہی رائے حضرت امام ابوحنیفہ ؒ کی ہے، جس کے بے شمار دلائل قرآن وحدیث میں موجود ہیں، یہاں اختصار کی وجہ سے چند دلائل تحریر کررہا ہوں :
* اللہ تعالی کا ارشاد: وَاِذَا قُرِیَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَه وَاَنْصِتُوا لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ جب قرآن پڑھا جائے تو اس کو غور سے سنو اور چپ رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے (سورہ الاعراف ۲۰۴) حضرات صحابہ،تابعین، مفسرین اور محدثین میں سے حضرت عبداللہ بن مسعودؓ، حضرت عبداللہ بن عباسؓ، حضرت ابوہریرہؓ، حضرت امام زہریؒ ، حضرت عبید بن عمیرؒ ، حضرت عطا بن رباحؒ ، حضرت مجاہدؒ ، حضرت سعید بن المسیبؒ ، حضرت سعید بن جبیرؒ ، حضرت ضحاکؒ ، حضرت ابراہیم نخعیؒ ، حضرت قتادہؒ ، حضرت عامر شعبیؒ ۔۔وغیرہ ۔۔نے فرما یا ہے کہ اس آیت میں اس نمازی کا حکم ہے جو امام کی اقتدا ء میں نماز ادا کررہا ہو۔ (تفسیر طبری)
حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں خطبہ دیا جس میں ہمارے لئے زندگی گزارنے کے طریقہ کو بیان فرمایااور ہمیں نماز سکھائی اور فرمایا : جب نماز ادا کرنے کا ارادہ کرو تو اپنی صفیں درست کرو، پھر تم میں سے ایک امام بنے اور امام جب تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو اور جب امام قرأت کرے تو تم خاموش رہو اور جب وہ غَيرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيهم وَلَا الضَّالين کہے تو تم آمین کہو۔ (مسلم ج۱، ص: ۱۷۴) یہ صحیح حدیث واضح الفاظ میں بتارہی ہے کہ امام کی ذمہ داری قرأت کرنا اور مقتدیوں کا وظیفہ بوقت قرأت خاموش رہنا ہے۔ اگر امام کے پیچھے سورۂ فاتحہ کا پڑھنا ضروری ہوتا تو نبی اکرم ا اس کاتذکرہ یہاں ضرور فرماتے۔ اس حدیث میں جہری وسری نماز کی کوئی قید نہیں ہے اس لئے یہ حکم سب نمازوں کو شامل ہوگا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جب امام قرأت کرے تو تم خاموش رہو اور جب قعدہ میں ہو تو تم میں سے ہر ایک کا اولین ذکر تشہد ہونا چاہئے۔ ۔۔۔۔ (ترمذی)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جب تم نماز کے ارادے سے کھڑے ہو تو تم میں سے ایک تمہارا امام بنے اور جب امام قرأت کرے تو تم خاموش رہو۔۔۔ ۔ (مسند احمد)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : امام اسی لئے بنایا جاتا ہے کہ اس کی اقتداء کی جائے۔ لہذا جب امام تکبیر کہے تم بھی تکبیر کہو اور جب قرأت کرے تو تم خاموش رہو اور جب وہ سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہ کہے تو تم رَبَّنَا لَکَ الْحَمْد کہو۔ (نسائی)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جس نے امام کی اقتداء کی تو امام کی قرأت مقتدی کی قرأت کے حکم میں ہے۔ (مسند احمد)
یہ حدیث مختلف سندوں کے ساتھ حدیث کی متعدد کتابوں میں موجود ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ہر وہ نماز جس میں سورۂ فاتحہ نہ پڑھی جائے وہ ناقص ہے سوائے اس نماز کے جو امام کی اقتداء میں پڑھیجائے ۔ (ترمذی)
یہ حدیث سند کے اعتبار سے نہایت اعلیٰ درجہ کی ہے ، امام ترمذی ؒ نے اس کو حسن صحیح کہا ہے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز میں کسی صحابی نے قرأت کی۔ آپ انے ایسا کرنے سے منع فرمایا۔ (مسند احمد، بیہقی)
حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ نے نماز پڑھائی تو کچھ لوگوں کو امام کے ساتھ قرأت کرتے سنا، جب نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا: کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ تم لوگ عقل وفہم سے کام لو۔ جب قرآن کی قرأت کی جائے تو اس کی طرف دھیان دو اور چپ رہو جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں حکم دیا ہے۔ (تفسیر طبری، تفسیر ابن کثیر، الدر المنثور للسیوطی)
نوٹ: حدیث : لاَ صَلاة لِمَن لَّمْ يَقْرَأ بِفَاتِحة الْکِتَاب میں موضوع بحث مسئلہ مراد نہیں ہے بلکہ یہاں دوسرا مسئلہ ہے کہ نماز میں سورۂ فاتحہ پڑھنے کا کیا حکم ہے، سنت ہے یا ضروری۔ حدیث مطلق اور عام ہے اس لئے اس سے صرف یہ معلوم ہوا کہ سورۂ فاتحہ کا نماز میں پڑھنا ضروری ہے۔ البتہ امام کے پیچھے مقتدی سورۂ فاتحہ نہیں پڑھے گا جیسا کہ ترمذی کی صحیح حدیث میں گزر چکا ہے۔ ۔۔ نیز اگر کوئی شخص امام کو رکوع میں پالے تو دیگر احادیث کی روشنی میں سارے علماء نے فرمایا ہے کہ اس کی یہ رکعت سورۂ فاتحہ کے بغیر ادا ہوگئی، معلوم ہوا کہ یہ حدیث اپنے عموم پر دلالت نہیں کرتی ہے۔
طالب دعا: محمد نجیب قاسمی سنبھلی، ریاض

فرض نماز جماعت کے ساتھ
بسم الله الرحمن الرحيم
اَلْحَمْدُ لِله رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلام عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔
فرض نماز جماعت کے ساتھ
مرد حضرات حتی الامکان فرض نماز جماعت ہی کے ساتھ ادا کریں کیونکہ فرض نماز کی مشروعیت جماعت کے ساتھ وابستہ ہے جیسا کہ قرآن کریم کی آیات ،احادیث شریفہ اور صحابہ کرام کے اقوال میں مذکور ہے ۔۔۔ فرض نماز جماعت کے بغیر ادا کرنے پر فرض تو ذمہ سے ساقط ہوجائیگا، مگر معمولی معمولی عذر کی بناء پر جماعت کا ترک کرنایقیناًگناہ ہے ۔
آیا تِ قرآنیہ کا ترجمہ :
جس دن پنڈلی کھول دی جائیگی اور سجدہ کے لئے بلائے جائیں گے تو سجدہ نہ کرسکیں گے۔ نگاہیں نیچی ہوں گی اور ان پر ذلت وخواری طاری ہوگی حالانکہ یہ سجدہ کے لئے (اس وقت بھی) بلائے جاتے تھے جبکہ صحیح سالم یعنی صحت مند تھے (سورۂ القلم، آیت ۴۲)
حدیث میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ میدانِ قیامت میں اپنی ساق (پنڈلی) ظاہر فرمائے گا جس کو دیکھ کر مؤمنین سجدہ میں گر پڑیں گے مگر کچھ لوگ سجدہ کرنا چاہیں گے لیکن ان کی کمر نہ مڑیگی بلکہ تختہ (کی طرح سخت) ہوکر رہ جائیگی۔ یہ کون لوگ ہیں؟ توحضرت کعب الاحبارؓ (صحابی رسول) قسم کھاکر فرماتے ہیں کہ یہ آیت صرف ان لوگوں کے لئے نازل ہوئی ہے جو جماعت کے ساتھ نماز ادا نہیں کرتے ہیں۔ حضرت سعید بن مسیبؒ (ایک بہت بڑے تابعی) فرماتے ہیں: حی علی الصلاۃ ، حی علی الفلاح کو سنتے تھے مگر صحیح سالم، تندرست ہونے کے باوجود مسجد میں جاکر نماز ادا نہیں کرتے تھے۔
غور فرمائیں کہ نمازیں نہ پڑھنے والوں یا جماعت سے ادا نہ کرنے والوں کو قیامت کے دن کتنی سخت رسوائی اور ذلت کا سامنا کرنا پڑے گا کہ ساری انسانیت اللہ جلّ شانہ کے سامنے سجدہ میں ہوگی مگر بے نمازیوں کی کمریں تختے کے مانند کردیجائیں گی اور وہ سجدہ نہیں کرسکیں گے۔۔۔۔۔ اللہ تعالیٰ! ہم سب کی اس انجام بد سے حفاظت فرمائے۔ آمین۔
اور نمازوں کو قائم کرو ، زکوۃ ادا کرو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع ادا کرو۔ (سورۂ البقرہ، آیت ) قرآن کریم میں جگہ جگہ نماز کو قائم کرنے کا حکم دیا ہے۔ مفسرین نے لکھا ہے کہ نماز کو قائم کرنے سے مراد فرض نمازیں جماعت کے ساتھ ادا کرنا ہے۔
جب تو ان میں ہو اور ان کے لئے نماز کھڑی کرو، تو چاہئے کہ ان میں سے ایک جماعت تمہارے ساتھ کھڑی ہو (جماعت سے نماز پڑھنے کے لئے)۔ (سورۂ النساء ۱۰۲)
جب مسلمان اور کافروں کی فوجیں ایک دوسرے کے مقابل جنگ کے لئے تیار کھڑی ہوں اور ایک لمحہ کی بھی غفلت مسلمانوں کے لئے سخت خطرناک ثابت ہو سکتی ہو تو ایسی صورت میں بھی جماعت کے ساتھ نماز ادا کی جائیگی جیسا کہ اس آیت میں اور احادیثِ شریفہ میں وضاحت سے بیان کیا گیا ہے۔۔۔۔ جب خوف کی حالت میں نماز جماعت سے ادا کرنے کا حکم ہے تو امن کی حالت میں تو بدرجہ اَولیٰ فرض نماز جماعت کے ساتھ ہی ادا کی جائیگی،،، اِلّا یہ کہ کوئی شرعی عذر ہو۔
احادیث نبویہ کا ترجمہ :
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مجھے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میں نے کئی مرتبہ ارادہ کیا کہ لکڑیاں اکھٹی کرنے کا حکم دوں اور ساتھ ہی نماز کے لئے اذان کہنے کا حکم دوں پھر کسی آدمی کو نماز کے لئے لوگوں کا امام مقرر کردوں اور خود ان لوگوں کے گھروں کو جاکر آگ لگادوں جو جماعت میں شریک نہیں ہوتے۔ (یعنی گھر یا دوکان میں اکیلے ہی نماز پڑھ لیتے ہیں)۔ (بخاری)
جو حضرات شرعی عذر کے بغیر فرض نماز مسجد میں جاکر جماعت کے ساتھ ادا کرنے میں کوتاہی کرتے ہیں، اُن کے گھروں کے سلسلہ میں اُس ذات کی جس کی اتباع کے ہم دعویدار ہیں، اور جس کو ہماری ہر تکلیف نہایت گراں گزرتی ہو، جو ہمیشہ ہمارے فائدے کی خواہش رکھتا ہو اور ہم پر نہایت شفیق اور مہربان ہو، یہ خواہش ہے کہ ان کو آگ لگا دی جائے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص اذان کی آواز سنے اور بلا کسی عذر کے مسجد کو نہ جائے (بلکہ وہیں پڑھ لے) تو وہ نماز قبول نہیں ہوتی۔ صحابہ نے عرض کیا کہ عذر سے کیا مراد ہے؟ آپ ا نے ارشاد فرمایا: مرض یا خوف۔ (ابوداؤد، ابن ماجہ)
حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ ایک نابینا صحابی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، کہنے لگے : یا رسول اللہ! میرے پاس کوئی آدمی نہیں جو مجھے مسجد میں لائے۔ یہ کہکر انھوں نے نماز گھر پر پڑھنے کی رخصت چاہی۔ رسول اکرم ا نے انہیں رخصت دیدی لیکن جب وہ واپس ہونے لگے تو انہیں پھر بلایا اور پوچھا: کیا تم اذان سنتے ہو؟ ا نہوں نے عرض کیا: ہاں یا رسول اللہ! ۔۔۔ آپ ا نے ارشاد فرمایا: پھر تو مسجد میں ہی آکر نماز پڑھا کرو۔ (مسلم)
غور فرمائیں کہ جب اس شخص کو جو نابینا ہے، مسجد تک پہنچانے والا بھی کوئی نہیں ہے اور گھر بھی مسجد سے دور ہے، نیز گھر سے مسجد تک کا راستہ بھی ہموار نہیں ہے (جیسا کہ دوسری احادیث میں مذکور ہے)، نبی اکرم ا نے گھر میں فرض نماز پڑھنے کی اجازت نہیں دی تو بینا اور تندرست کو بغیر شرعی عذر کے کیونکر گھر میں نماز پڑھنے کی اجازت دی جاسکتی ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس گاؤں یا جنگل میں تین آدمی ہوں اور وہاں باجماعت نماز نہ ہوتی ہو تو ان پر شیطان مسلّط ہوجاتا ہے۔ اس لئے جماعت کو ضروری سمجھو۔ بھیڑیا اکیلی بکری کو کھا جاتا ہے، اور آدمیوں کا بھیڑیا شیطان ہے۔ (ابوداؤد، نسائی، مسند احمد، حاکم)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جماعت کی نماز اکیلے کی نماز سے اجر و ثواب میں ۲۷ درجہ زیادہ ہے۔ (مسلم)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص عشاء کی نمازجماعت کے ساتھ پڑھے، گویا اس نے آدھی رات عبادت کی اور جو فجر کی نماز بھی جماعت کے ساتھ پڑھ لے گویا اس نے پوری رات عبادت کی۔ (مسلم)
صحابہ کے ارشادات کا ترجمہ :
حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ ارشاد فرماتے ہیں کہ جو شخص یہ چاہے کہ کل قیامت کے دن اللہ جلّ شانہ کی بارگاہ میں مسلمان بن کر حاضر ہو وہ نمازوں کو ایسی جگہ ادا کرنے کا اہتمام کرے جہاں اذان ہوتی ہے(یعنی مسجد میں) اِس لئے کہ حق تعالیٰ شانہ نے تمہارے نبی ا کے لئے ایسی سنتیں جاری فرمائی ہیں جو سراسر ہدایت ہیں، اُن ہی میں سے یہ جماعت کی نمازیں بھی ہیں۔ اگر تم لوگ اپنے گھروں میں نماز پڑھنے لگوگے جیسا کہ فلاں شخص پڑھتا ہے تو تم نبی ا کی سنت کو چھوڑ نے والے ہوگے اور یہ سمجھ لو کہ اگر تم نبی ا کی سنت کو چھوڑ دو گے تو گمراہ ہوجاؤگے۔۔۔۔ ہم تو اپنا حال یہ دیکھتے تھے کہ جو شخص کھلّم کھلّا منافق ہوتا وہ تو جماعت سے رہ جاتا (ورنہ حضور کے زمانے میں عام منافقوں کو بھی جماعت چھوڑنے کی ہمت نہ ہوتی تھی) یا کوئی سخت بیمار‘ ورنہ جو شخص دو آدمیوں کے سہارے سے گھسٹتا ہوا جا سکتا تھا وہ بھی صف میں کھڑا کردیا جاتا تھا۔ (مسلم)
حضرت علی ؓ فرماتے ہیں مسجد کے پڑوسی کی نماز مسجد کے علاوہ نہیں ہوتی۔ پوچھا گیا کہ مسجد کا پڑوسی کون ہے؟ تو حضرت علی ؓ نے فرمایا: جو شخص اذان کی آواز سنے وہ مسجد کا پڑوسی ہے۔ (مسند احمد)
حضرت ابو ہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ جو شخص اذان کی آواز سنے اور جماعت میں حاضر نہ ہو اس کے کان پگھلے ہوئے سیسہ سے بھر دئے جائیں یہ بہتر ہے۔ (مسند احمد)
حضرت عبد اللہ بن عباسؓ سے کسی نے پوچھا کہ ایک شخص دن بھر روزہ رکھتا ہے اور رات بھر نفلیں پڑھتا ہے مگر جمعہ اور جماعت میں شریک نہیں ہوتا، (اس کے متعلق کیا حکم ہے؟) حضرت عبد اللہ بن عباسؓ نے فرمایاکہ یہ شخص جہنمی ہے۔ (گو مسلمان ہونے کی وجہ سے سزا بھگت کر جہنم سے نکل جائے)۔ (ترمذی)
اللہ تعالیٰ ہم سب کو پانچوں فرض نمازیں جماعت کے ساتھ ادا کرنے والا بنائے۔ آمین۔ ثم آمین۔ محمد نجیب قاسمی، ریاض

فجرکی ۲ رکعت سنت

بسم الله الرحمن الرحيم

اَلْحَمْدُ لِله رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلام عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔

فجرکی ۲ رکعت سنت

فجرکی ۲ رکعت سنت کی اہمیت:
ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ فرض نمازوں کے ساتھ سنن ونوافل کا بھی خاص اہتمام کرے تاکہ اللہ تعالیٰ کا قرب بھی حاصل ہوجائے جیسا کہ نبی اکرم ا نے ارشاد فرمایا کہ بندہ نوافل کے ذریعہ اللہ تعالیٰ سے قریب ہوتا جاتا ہے۔ (بخاری) نیز اگر خدانخواستہ قیامت کے دن فرض نمازوں میں کچھ کمی نکلے تو سنن ونوافل سے اسکی تکمیل کردی جائے جیسا کہ نبی اکرم ا نے ارشاد فرمایا ہے کہ قیامت کے دن آدمی کے اعمال میں سے سب سے پہلے فرض نماز کا حساب لیا جائیگا، اگر نماز درست ہوئی تو وہ کامیاب وکامران ہوگا اور اگر نماز درست نہ ہوئی تو وہ ناکام اور خسارہ میں ہوگا۔ اور اگر کچھ نماز میں کمی پائی گئی تو ارشادِ خداوندی ہوگا کہ دیکھو اس بندے کے پاس کچھ نفلیں بھی ہیں جن سے فرضوں کو پورا کردیا جائے، اگر نکل آئیں تو ان سے فرضوں کی تکمیل کردی جائیگی۔ (ترمذی، ابن ماجہ، نسائی، ابو داؤد، مسند احمد)
دن رات میں ۱۲ رکعت سنن مؤکدہ ہیں (۲ رکعت نمازِ فجر سے قبل، ۴ رکعت نمازِ ظہر سے قبل، ۲ رکعت نمازِ ظہر کے بعد، ۲ رکعت نمازِ مغرب کے بعد اور ۲ رکعت نمازِ عشاء کے بعد)۔ البتہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کی روشنی میں امت مسلمہ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ تمام نمازِ سنن میں سب سے زیادہ اہمیت فجر کی ۲ رکعت سنتوں کی ہے، جیسا کہ بعض احادیث مندرجہ ذیل ہیں :
حضرت عائشہ ؓ روایت کرتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : فجر کی دو رکعت (سنتیں) دنیا اور دنیا میں جو کچھ ہے اس سے بہتر ہے۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ دو رکعتیں پوری دنیا سے زیادہ محبوب ہیں۔ (مسلم)
حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فجر کی سنتوں سے زیادہ کسی نفل کی پابندی نہیں فرماتے تھے۔ (بخاری ،مسلم)
حضرت ابو ہریر ہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: فجر کی دو رکعت (سنت) نہ چھوڑو اگرچہ گھوڑوں سے تم کو روندیا جائے۔ (ابو داؤد)
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ظہر سے پہلے ۴ رکعت اور فجر سے پہلے ۲ رکعت کبھی نہیں چھوڑتے تھے۔ (بخاری)
فجر کی جماعت شروع ہونے کے بعد ۲ رکعت سنت :
علماء کرام کا اتفاق ہے کہ نمازِ فجر کے علاوہ اگر دیگر فرض نمازوں (ظہر، عصر، مغرب اور عشاء) کی جماعت شروع ہوجائے تو اس وقت اور کوئی نماز حتی کہ اس نماز کی سنتیں بھی نہیں پڑھی جاسکتی ہیں۔ البتہ فجر کی سنتوں کے سلسلہ میں علماء کی دو رائے ہیں ، اور یہ دونوں رائے صحابہ کرام کے زمانے سے چلی آرہی ہیں ، جیسا کہ امام ترمذی ؒ نے اپنی کتاب میں اس کا ذکر کیا ہے۔ (ترمذی جلد ۲ صفحہ ۲۸۲)
پہلی رائے کے مطابق :
فجر کی سنتوں کا حکم بھی دیگر سنتوں کی طرح ہے کہ جماعت شروع ہونے کے بعد سنت کی ادائیگی نہیں۔ اس رائے کے لئے بنیادی طور پر حضرت ابو ہریرہؓ کی حدیث کو دلیل میں پیش کیا جاتا ہے جس میں نبی اکرم ا کا ارشاد ہے کہ جب جماعت شروع ہوجائے تو فرض نماز کے علاوہ کوئی اور نماز پڑھنا صحیح نہیں ہے۔ (ترمذی ۔ جلد ۲ صفحہ ۲۸۲) (دوسری رائے کے نقطۂ نظر کے مطابق اس حدیث کا صحیح مفہوم مضمون کے آخر میں مذکور ہے، غرضیکہ حدیث کے نص کو سمجھنے میں علماء کی رائے مختلف ہیں)۔
دوسری رائے کے مطابق :
فجر کی سنتوں کی اہمیت کے پیش نظر جماعت شروع ہونے کے بعد بھی حضرات صحابہ کرام یہ سنتیں پڑھ کر جماعت میں شریک ہوا کرتے تھے۔ لہذا اگر نماز کی دوسری رکعت مل جانے کی قوی امید ہو تو جہاں جماعت ہورہی ہے ا س سے حتی الامکان دور فجر کی دو رکعت سنت پڑھکر نماز میں شریک ہوں۔ جس کے لئے مندرجہ دیل دلائل ہیں :
حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کا عمل:
حضرت عبد اللہ بن ابی موسی ٰ فرماتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ ہماری مسجد میں تشریف لائے تو امام فجر کی نماز پڑھا رہا تھا، آپ نے ایک ستون کے قریب فجر کی سنتیں ادا فرمائیں چونکہ وہ اس سے پہلے سنتیں نہیں پڑھ سکے تھے۔ ۔۔۔۔ اس حدیث کو طبرانی نے روایت کیا ہے اور اس کے تمام راوی مضبوط ہیں۔ (مجمع الزوائد ج ۱ ص ۷۵(
حضرت عبد اللّہ بن عباس ؓ کا عمل:
حضرت ابو عثمان انصاری فرماتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ تشریف لائے جب کہ امام فجر کی نماز پڑھا رہا تھا اور آپ نے فجر کی دو رکعت سنتیں نہیں پڑھی تھیں، تو پہلے انہوں نے دو رکعتیں پڑھیں پھر جماعت میں شامل ہوکر فجرکی نماز پڑھی۔ (اثار السنن ج ۳ ص ۳۳، طحاوی، الرجل یدخل المسجد والامام (
حضرت عبد اللّہ بن عمر ؓ کا عمل:
حضرت محمد بن کعبؓ فرماتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ گھر سے نکلے تو فجر کی نماز کھڑی ہوگئی تھی، آپ نے مسجد میں داخل ہونے سے پہلے ہی دو رکعتیں پڑھیں پھر باجماعت نماز پڑھی۔ (طحاوی، الرجل یدخل المسجد والامام ، اسنادہ حسن(
حضرت ابو الدرداء ؓ کا عمل:
حضرت ابو الدرداء ؓ مسجد میں تشریف لائے تو لوگ فجر کی نماز کے لئے صفوں میں کھڑے تھے، آپ نے مسجد میں ایک طرف دو رکعتیں پڑھیں پھر لوگوں کے ساتھ نماز میں شریک ہوئے۔ (طحاوی، الرجل یدخل المسجد والامام(
دور فاروقی میں صحابہ کا عمل:
حضرت ابو عثمان مہدی فرماتے ہیں کہ ہم حضرت عمر بن الخطابؓ کے دور میں فجر سے پہلے کی دو رکعتیں پڑھے بغیر آیا کرتے تھے، جب کہ حضرت عمر فاروق ؓ نماز پڑھارہے ہوتے، ہم مسجد کے آخر میں دو رکعتیں پڑھ لیتے، پھر لوگوں کے ہمراہ نماز میں شریک ہوجاتے۔ (طحاوی، الرجل یدخل المسجد والامام(
ان جلیل القدر حضرات صحابہ کرام کے عمل سے معلوم ہوا کہ اگر نمازِفجرکی جماعت مل جانیکی توقع ہے تو مسجد میں ایک طرف سنتیں پڑھ کر جماعت میں شریک ہونا چاہئے۔
اس موضوع پر مزید تحقیق کے لئے میں امام علی بن ابی بکر الہیثمی کی حدیث کی مشہور ومعروف کتاب : مجمع الزوائد ومنبع الفوائد / باب اذا اقیمت الصلاۃ ھل یصلی غیرھا کا خلاصہ ذکر کررہا ہوں۔ مؤلف مذکور نے اس باب کا نام رکھا ہے: اگر نماز شروع ہوجائے تو کیا کوئی نماز ادا کی جاسکتی ہے؟ اس موضوع سے متعلق سب سے مستند حدیث میں حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کا عمل ذکر کیا گیا ہے : وہ اگر سنتیں پڑھے بغیر مسجد پہونچتے تو ستون کے قریب فجر کی سنتوں کو ادا فرماتے بھر جماعت میں شریک ہوتے۔ (متفقہ طور پر یہ حدیث صحیح ہے)۔ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ ان جلیل القدر صحابہ میں سے ہیں جن سے خلفاء راشدین ودیگر بڑے بڑے صحابہ کرام مسائل میں رجوع فرماتے تھے۔ ان کے علم وفقاہت کی صحابہ کے درمیان عام شہرت تھی۔ نیز ان کو حضور اکرم ا کی سنتوں پر عمل کرنے کا والہانہ جذبہ و شوق تھا۔
اس حدیث کے بعد چند احادیث ذکر کی گئی ہیں جو یا تو ضعیف ہیں جن کے ضعف کا ذکر خود مؤلف مذکور نے کیا ہے۔ یا اس کا مطلب دوسرا ہے کہ جس سے احادیث کے درمیان بظاہر تضاد بھی نہ رہے، مثلاً حضرت ابوموسی ٰکی روایت : نبی اکرم ا نے ایک شخص کو دیکھا کہ فجر کی نماز قائم ہونے کے وقت فجر کی سنتیں ادا کررہا ہے تو آپ ا نے اس کے کندھے پر ہاتھ سے اشارہ کیاکہ کاش اس نے سنتیں اس سے پہلے ہی ادا کرلی ہوتیں۔ اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ فجر کی نماز شروع ہونے کے بعد سنت ادا ہی نہیں کرسکتے، بلکہ بہتر وافضل طریقہ کی طرف آپ ا نے رہنمائی فرمائی کہ فجر کی جماعت شروع ہونے سے قبل ہی سنتوں سے فارغ ہوجاتا، جس میں کسی کا کوئی اختلاف نہیں ہے۔
بہرحال ان احادیث سے یہ بات ضرور واضح ہوئی کہ حضور اکرم ا کے زمانے میں صحابہ کرام فجر کی نماز کھڑی ہوجانے کے بعد بھی فجر کی دو رکعت سنت ادا کرلیا کرتے تھے، اگر وہ پہلے سے ادا نہ کرسکے ہوں۔
حضرت ابو ہریرہ ؓ کی حدیث کا صحیح مفہوم:
ارشاد نبی ا ہے کہ جب نماز شروع ہوجائے تو فرض نماز کے علاوہ کوئی اور نماز پڑھنا صحیح نہیں ہے۔ (ترمذی ۔ جلد ۲ صفحہ ۲۸۲) یقیناًصحیح حدیث ہے مگر دیگر احادیث وصحابہ کرام کے عمل کو سامنے رکھتے ہوئے یہ ہی کہا جائے گا کہ اس کا تعلق فجر کی نماز کے علاوہ دیگر نمازوں سے ہے، کیونکہ شریعت میں فجر کی دو رکعت سنتوں کی جو اہمیت ہے وہ دیگر سنن کی نہیں۔
دوسری بحث:
اگر سنتیں پڑھ کر جماعت میں شریک ہونا ممکن نہ ہو تو سنتیں چھوڑدے اور جماعت میں شریک ہوجائے، پھر حکم نبوی کے مطابق (اگر ان سنتوں کو پڑھنا چاہے تو) سورج نکلنے کے بعد ان سنتوں کی قضا پڑھ لے، فجر کی نماز کے بعد یہ سنتیں نہ پڑھے چونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فجر کے بعد سے لے کر آفتاب تک نماز پڑھنے سے روکا ہے۔
حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس نے فجر کی دو رکعتیں نہ پڑھی ہوں وہ سورج نکلنے کے بعد پڑھ لے۔ (ترمذی، قال الحاکم صحیح علی شرط الشیخین(

امام مالک ؒ فرماتے ہیں کہ انہیں یہ بات پہنچی ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عمرؓ کی فجر کی دو رکعتیں فوت ہوگئیں، تو آپ نے سورج نکلنے کے بعد انہیں قضا پڑھا۔ (مؤطا مالک، ما جاء فی رکعتی الفجر(
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: صبح کی نماز پڑھ کر کوئی اور نماز پڑھنے سے رُکے رہو تاآنکہ آفتاب طلوع ہوکر بلند ہوجائے۔ (بخاری، مسلم(
مذکورہ بالا احادیث سے صراحتاً معلوم ہوا کہ اگر فجر کی سنتیں چھوٹ جائیں تو سورج نکلنے کے بعد پڑھی جائیں، لیکن بعض احباب فجر کے فرائض سے فارغ ہوتے ہی پڑھ لیتے ہیں اور دلیل میں حضرت ابوموسی ٰکی روایت پیش کرتے ہیں جو کہ مرسل ہے جس کی سند متصل نہیں ہے ، جیساکہ خود امام ترمذی جنہوں نے یہ روایت ذکر کی ہے، فرماتے ہیں کہ یہ حدیث مرسل ہے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو نماز فجر شروع ہونے سے قبل ہی ۲ رکعت سنتوں کی پابندی کرنے والا بنائے تاکہ شریعت میں جو اصل مطلوب ہے اس پر عمل ہوجائے۔
محمد نجیب قاسمی، ریاض

نمازِ جمعہ کے لئے سویرے مسجد پہونچنا

بسم الله الرحمن الرحيم

اَلْحَمْدُ لِله رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلام عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔

نمازِ جمعہ کے لئے سویرے مسجد پہونچنا

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازِ جمعہ کے لئے حتی الامکان سویرے مسجد جانے کی ترغیب دی ہے۔ لہذ اگر ہم زیادہ جلدی نہ جاسکیں تو کم از کم خطبہ شروع ہونے سے کچھ وقت قبل ہمیں ضرور مسجد پہونچ جانا چاہئے کیونکہ خطبۂجمعہ شروع ہونے کے بعد مسجد پہونچنے والوں کی نماز جمعہ تو ادا ہوجاتی ہے، مگر نماز جمعہ کی کوئی فضیلت اُن کو حاصل نہیں ہوتی ہے اور نہ ان کا نام فرشتوں کے رجسٹر میں درج کیا جاتا ہے، جیسا کہ مندرجہ ذیل احادیث میں مذکور ہے :
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص جمعہ کے دن جنابت کے غسل کی طرح غسل کرتا ہے (یعنی اہتمام کے ساتھ)، پھر پہلی فرصت (گھڑی) میں مسجد جاتا ہے تو گویا اس نے اللہ کی خوشنودی کے لئے اونٹنی قربان کی۔ جو دوسری فرصت میں مسجد جاتا ہے گویا اس نے گائے قربان کی۔ جو تیسری فرصت میں مسجد جاتا ہے گویا اس نے مینڈھا قربان کیا ۔ جو چوتھی فرصت میں جاتا ہے گویا اس نے مرغی قربان کی۔جو پانچویں فرصت میں جاتا ہے گویا اس نے انڈے سے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کی۔ پھر جب امام خطبہ کے لئے نکل آتا ہے تو فرشتے خطبہ میں شریک ہوکر خطبہ سننے لگتے ہیں۔ (بخاری ومسلم)
وضاحت: یہ گھڑی (فرصت) کس وقت سے شروع ہوتی ہے، علماء کی آراء مختلف ہیں، مگر سب کا خلاصۂ کلام یہ ہے کہ ہمیں حتی الامکان نماز جمعہ کے لئے سویرے مسجد پہونچنا چاہئے۔
* حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب جمعہ کا دن ہوتا ہے تو فرشتے مسجد کے ہر دروازے پر کھڑے ہوجاتے ہیں۔ پہلے آنے والے کا نام پہلے، اس کے بعد آنے والے کا نام اس کے بعد لکھتے ہیں ۔ (اسی طرح آنے والوں کے نام ان کے آنے کی ترتیب سے لکھتے رہتے ہیں) جب امام خطبہ دینے کے لئے آتا ہے تو فرشتے اپنے رجسٹر جن میں آنے والوں کے نام لکھے گئے ہیں، لپیٹ دیتے ہیں اور خطبہ سننے میں مشغول ہوجاتے ہیں۔ (مسلم)
وضاحت: حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان سے معلوم ہوا کہ خطبہ شروع ہونے کے بعد مسجد پہونچنے والوں کے نام فرشتوں کے رجسٹر میں نہیں لکھے جاتے ہیں۔
مسجد پہونچ کر جتنی توفیق ہو نماز پڑھ لیں۔ خطبہ شروع ہونے تک قرآن کریم کی تلاوت یا ذکر یا دعاؤں میں مشغول رہیں، پھر خطبہ سنیں۔ دورانِ خطبہ کسی طرح کی بات کرنا حتی کہ نصیحت کرنا بھی منع ہے جیساکہ احادیث میں مذکور ہے:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس نے جمعہ کے روز خطبہ کے دوران اپنے ساتھی سے کہا (خاموش رہو) اس نے بھی لغو کام کیا۔ (مسلم)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس شخص نے کنکریوں کو ہاتھ لگایا یعنی دوران خطبہ ان سے کھیلتا رہا (یا ہاتھ ، چٹائی، کپڑے وغیرہ سے کھیلتا رہا) تو اس نے فضول کام کیا (اور اس کی وجہ سے جمعہ کا خاص ثواب کم کردیا)۔ ( مسلم)
حضرت عبد اللہ بن بسررضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں جمعہ کے دن منبر کے قریب بیٹھا ہوا تھا، ایک شخص لوگوں کی گردن کو پھلانگتا ہوا آیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دے رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بیٹھ جا، تونے تکلیف دی اور تاخیر کی۔ (صحیح ابن حبان) (وضاحت): جب امام خطبہ دے رہا ہو تو لوگوں کی گردنوں کو پھلانگ کر آگے جانا منع ہے بلکہ پیچھے جہاں جگہ مل جائے وہیں بیٹھ جانا چاہئے۔
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص جمعہ کے دن غسل کرتا ہے، جتنا ہوسکے پاکی کا اہتمام کرتا ہے اور تیل لگاتا ہے یا اپنے گھر سے خوشبو استعمال کرتا ہے، پھر مسجد جاتا ہے۔ مسجد پہنچ کر جو دو آدمی پہلے سے بیٹھے ہوں ان کے درمیان میں نہیں بیٹھتا اور جتنی توفیق ہو خطبہ جمعہ سے پہلے نماز پڑھتا ہے۔ پھر جب امام خطبہ دیتا ہے اس کو توجہ اور خاموشی سے سنتا ہے تو اِس جمعہ سے گزشتہ جمعہ تک کے (چھوٹے چھوٹے) گناہوں کو معاف کردیا جاتا ہے۔ (صحیح بخاری)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے جمعہ کے دن غسل کیا، پھر مسجد میں آیا اور جتنی نماز اس کے مقدر میں تھی ادا کی، پھرخطبہ ہونے تک خاموش رہا اور امام کے ساتھ فرض نماز ادا کی، اس کے جمعہ سے جمعہ تک اور مزید تین دن کے (چھوٹے) گناہ بخش دئے جاتے ہیں۔ (مسلم)
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جو شخص جمعہ کے دن غسل کرتا ہے، اگر خوشبو ہو تو اسے بھی استعمال کرتا ہے، اچھے کپڑے پہنتا ہے، اس کے بعدمسجد جاتا ہے ، پھر مسجد آکر اگر موقع ہو تو نفل نماز پڑھ لیتا ہے اور کسی کو تکلیف نہیں پہونچاتا۔ پھر جب امام خطبہ دینے کے لئے آتا ہے اس وقت سے نماز ہونے تک خاموش رہتا ہے یعنی کوئی بات چیت نہیں کرتا تو یہ اعمال اس جمعہ سے گزشتہ جمعہ تک کے گناہوں کی معافی کا ذریعہ ہو جاتے ہیں۔ (مسند احمد)
مذکورہ بالا احادیث سے معلوم ہوا کہ جمعہ کی نماز سے قبل بابرکت گھڑیوں میں جتنی زیادہ سے زیادہ نماز پڑھ سکتے ہیں پڑھیں۔ کم از کم خطبہ شروع ہونے سے پہلے چار رکعتیں تو پڑھ ہی لیں جیسا کہ (مصنف ابن ابی شیبہ ج ۲ صفحہ ۱۳۱) میں مذکور ہے: مشہور تابعی حضرت ابراہیم ؒ فرماتے ہیں کہ حضراتِ صحابہ کرام نمازِ جمعہ سے پہلے چار رکعت پڑھا کرتے تھے۔
احادیث مذکورہ میں نمازِ جمعہ کے لئے خطبہ جمعہ سے قبل ‘مسجد پہونچنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ خطبہ شروع ہونے کے بعد مسجد پہونچنے والوں کو جمعہ کی کوئی فضیلت حاصل نہیں ہوتی ہے، اگرچہ ان کی نماز جمعہ ادا ہوجاتی ہے۔ لہذا ہر شخص کو چاہئے کو وہ اپنے آپ کو نمازِ جمعہ کے لئے سویرے مسجد جانے کا عادی بنائے۔ محمد نجیب سنبھلی قاسمی
(www.najeebqasmi.com)

بے نمازی اور نماز میں سستی کرنے والے کا شرعی حکم

بسم الله الرحمن الرحيم

اَلْحَمْدُ لِله رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلام عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔

بے نمازی اور نماز میں سستی کرنے والے کا شرعی حکم

تمام علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ فرض نماز جان بوجھ کر چھوڑنا بہت بڑا گناہ ہے۔ شریعت اسلامیہ میں زنا کرنے، چوری کرنے اور شراب پینے سے بھی بڑا گناہ‘ نماز کا ترک کرنا ہے۔ نماز بالکلیہ نہ پڑھنے والوں یا صرف جمعہ وعیدین یا کبھی کبھی پڑھنے والوں کا قرآن وحدیث کی روشنی میں شرعی حکم کیا ہے۔ اس سلسلہ میں فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثیمینؒ نے اپنی کتاب (رسالۃ فی حکم تارک الصلاۃ) میں علماء کی مختلف رائیں تحریر کی ہیں، جو حسب ذیل ہیں :
حضرت امام احمد ابن حنبل ؒ فرماتے ہیں کہ ایسا شخص کافر ہے اور ملتِ اسلامیہ سے نکل جاتا ہے۔ اسکی سزا یہ ہے کہ اگر
توبہ کرکے نماز کی پابندی نہ کرے تو اسکو قتل کردیا جائے۔
حضرت امام مالکؒ اور حضرت امام شافعی ؒ کہتے ہیں کہ نمازوں کو چھوڑنے والا کافر تو نہیں، البتہ اسکو قتل کیا جائیگا۔
حضرت امام ابوحنیفہ ؒ فرماتے ہیں کہ اسکو قتل نہیں کیا جائیگا، البتہ حاکم وقت اسکو جیل میں ڈال دے گا۔ اور وہ جیل ہی
میں رہے گا یہاں تک کہ توبہ کرکے نماز شروع کردے یا پھر وہیں مرجائے۔
نماز کو ترک کرنے یا اس میں سستی کرنے پر قرآن کریم اور احادیث نبویہ میں سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں جن میں سے بعض کا تذکرہ یہاں کیا جارہا ہے:
آیاتِ قرآنیہ:
پھر ان کے بعد ایسے ناخلف پیدا ہوئے کہ انھوں نے نماز ضائع کردی اور نفسانی خواہشوں کے پیچھے پڑگئے، وہ غی میں ڈالے جائیں گے۔ (سورہ مریم آیت ۵۹)۔ نمازنہ پڑھنے والوں کو جہنم کی انتہائی گہری اور شدید گرم وادی غی میں ڈالا جائے گا،جہاں خون اور پیپ بہتا ہے۔
تمہیں دوزخ میں کس چیز نے ڈالا۔ وہ جواب دیں گے کہ ہم نمازی نہ تھے، نہ مسکینوں کو کھانا کھلاتے تھے ۔ (سورۂ المدثر ۴۲ ۴۴) اہل جنت، جنت کے بالاخانوں میں بیٹھے جہنمیوں سے سوال کریں گے کہ کس وجہ سے تمہیں جہنم میں ڈالا گیا؟ تو وہ جواب دیں گے کہ ہم دنیا میں نہ نماز پڑھتے تھے اور نہ ہی مسکینوں کو کھانا کھلاتے تھے۔۔۔۔ غور فرمائیں کہ جہنمی لوگوں نے جہنم میں ڈالے جانے کی سب سے پہلی وجہ نماز نہ پڑھنا بتلایا کیونکہ نماز ایمان کے بعد اسلام کا اہم اور بنیادی رکن ہے جوہر مسلمان کے ذمہ ہے۔
ان نمازیوں کے لئے خرابی (اور ویل نامی حہنم کی جگہ)ہے جو نماز سے غافل ہیں۔ (سورۂ الماعون۴ ، ۵) اس سے وہ لوگ مراد ہیں جو نماز یا تو پڑھتے ہی نہیں، یا پہلے پڑھتے رہے ہیں پھر سست ہوگئے یا جب جی چاہتا ہے پڑھ لیتے ہیں یا تاخیر سے پڑھنے کو معمول بنالیتے ہیں یہ سارے مفہوم اس میں آجاتے ہیں‘ اس لئے نماز کی مذکورہ ساری کوتاہیوں سے بچنا چاہئے۔
وہ (منافقین) کاہلی سے ہی نماز کو آتے ہیں اور بُرے دل سے ہی خرچ کرتے ہیں۔ (سورۂ التوبہ ۵۴) معلوم ہوا کہ نماز کو کاہلی یاسستی سے ادا کرنا منافقین کی علامتوں میں سے ایک علامت ہے۔
احادیث شریفہ :
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ہمارے (اہل ایمان) اور ان کے (اہل کفر) درمیان فرق کرنے والی چیز نماز ہے،لہذا جس نے نماز چھوڑدی اس نے کفر کیا۔ (مسند احمد، ابوداؤد، نسائی، ترمذی، ابن ماجہ(
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: نماز کا چھوڑنا مسلمان کو کفر وشرک تک پہنچانے والا ہے۔ (صحیح مسلم(
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جان کر نماز نہ چھوڑو، جو جان بوجھ کر نماز چھوڑدے وہ مذہب سے نکل جاتاہے۔ (طبرانی(
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اسلام میں اس شخص کا کوئی بھی حصہ نہیں جو نماز نہیں پڑھتا ۔ (بزار(
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص قرآن پاک یاد کرکے بھلا دیتا ہے اورجو فرض نماز چھوڑ کر سوتا رہتا ہے اس کاسر (قیامت کے دن) پتھر سے کچلا جائیگا۔ (بخاری(
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میں چاہتا ہوں کہ کسی کو نماز پڑھانے کا حکم دوں، پھر جمعہ نہ پڑھنے والوں کو ان کے گھروںسمیت جلا ڈالوں۔ (مسلم(
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس شخص نے تین جمعہ غفلت کی وجہ سے چھوڑ دئے، اللہ تعالیٰ اس کے دل پر مہر لگا دیتےہیں۔ (نسائی، ترمذی(
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص نماز کا اہتمام کرتا ہے تو نماز اس کے لئے قیامت کے دن نور ہوگی، اس (کےپورے ایماندار ہونے) کی دلیل ہوگی اور قیامت کے دن عذاب سے بچنے کا ذریعہ ہوگی۔ اور جو شخص نماز کا اہتمام نہیں کرتااس کے لئے قیامت کے دن نہ نور ہوگا، نہ(اسکے پورے ایماندار ہونے کی) کوئی دلیل ہوگی، نہ عذاب سے بچنے کا کوئیذریعہ ہوگا۔ اور وہ قیامت کے دن فرعون، قارون، ہامان اور ابی بن خلف کے ساتھ ہوگا۔ (صحیح ابن حبان،
مسند احمد، طبرانی، بیہقی(
نماز پڑھئے قبل اس کے کہ آپ کی نماز پڑھی جائے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو نماز کا اہتمام کرنے والا بنائے۔ محمد نجیب قاسمی، ریاض

خشوع وخضوع والی نماز

بسم الله الرحمن الرحيم

اَلْحَمْدُ لِله رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلام عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔

خشوع وخضوع والی نماز

قیام، قرآن کی تلاوت، رکوع، سجدہ اور قعدہ وغیرہ نماز کا جسم ہیں اور اسکی روح خشوع وخضوع ہے۔ چونکہ جسم بغیر روح کے بے حیثیت ہوتا ہے، اس لئے ضروری ہے کہ نمازوں کو اس طرح ادا کریں کہ جسم کے تمام اعضاء کی یکسوئی کے ساتھ دل کی یکسوئی بھی ہو تاکہ ہماری نمازیں روح یعنی خشوع وخضوع کے ساتھ ادا ہوں۔ دل کی یکسوئی یہ ہے کہ نماز کی حالت میں بہ قصد خیالات ووساوس سے دل کو محفوظ رکھیں اور اللہ کی عظمت وجلال کا نقش اپنے دل پر بٹھانے کی کوشش کریں۔ جسم کے اعضاء کی یکسوئی یہ ہے کہ اِدھر اُدھر نہ دیکھیں، بالوں اور کپڑوں کو سنوارنے میں نہ لگیں بلکہ خوف وخشیت اور عاجزی وفروتنی کی ایسی کیفیت طاری کریں جیسے عام طور پربادشاہ کے سامنے ہوتی ہے۔
قرآن کریم اور احادیث نبویہ میں نماز کو خشوع وخضوع اور اطمینان وسکون کے ساتھ ادا کرنے کی بار بار تعلیم دی گئی ہے کیونکہ اصل نماز وہی ہے جو خشوع وخضوع اور اطمینان وسکون کے ساتھ ادا کی جائے اور ایسی ہی نماز پر اللہ تعالیٰ انسان کو دنیا اور آخرت کی کامیابی عطا فرماتے ہیں جیسا کہ مندرجہ ذیل قرآن کریم کی آیات اور احادیث شریفہ سے معلوم ہوتا ہے۔
یقیناًوہ ایمان والے کامیاب ہوگئے جن کی نمازوں میں خشوع ہے۔ سورۂ المؤمنون ۱، ۲
صبر اور نماز کے ذریعہ مدد حاصل کیا کرو۔ بیشک وہ نماز بہت دشوار ہے مگر جن کے دلوں میں خشوع ہے ان پر کچھ بھی دشوار نہیں۔ البقرہ ۴۵
تمام نمازوں کی خاص طور پر درمیان والی نماز (یعنی عصر کی) پابندی کیا کرو اور اللہ کے سامنے باادب کھڑے رہا کرو۔ سورۂ البقرہ ۲۴۸
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب اقامت سنو تو پورے وقار، اطمینان اور سکون سے چل کر نماز کے لئے آؤ اور جلدی نہ کرو۔ جتنی نماز پالو پڑھ لو اور جو رہ جائے وہ بعد میں پوری کرلو۔ صحیح بخاری
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف لائے۔ ایک اور صاحب بھی مسجد میں آئے اور نماز پڑھی پھر (رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے پاس آئے اور) رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو سلام کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے سلام کا جواب دیا اور فرمایا: جاؤ نماز پڑھو کیونکہ تم نے نماز نہیں پڑھی۔ وہ گئے اور جیسے نماز پہلے پڑھی تھی ویسے ہی نماز پڑھکر آئے، پھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آکر سلام کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: جاؤ نماز پڑھو کیونکہ تم نے نماز نہیں پڑھی۔ اس طرح تین مرتبہ ہوا۔ اُن صاحب نے عرض کیا: اُس ذات کی قسم جس نے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو حق کے ساتھ بھیجا ہے میں اس سے اچھی نماز نہیں پڑھ سکتا، آپ مجھے نماز سکھائیے۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب تم نماز کے لئے کھڑے ہو تو تکبیر کہو، پھرقرآن مجید میں سے جو کچھ پڑھ سکتے ہو پڑھو۔ پھر رکوع میں جاؤ تو اطمینان سے رکوع کرو، پھر رکوع سے کھڑے ہو تو اطمینان سے کھڑے ہو، پھر سجدہ میں جاؤ تو اطمینان سے سجدہ کرو، پھر سجدہ سے اٹھو تو اطمینان سے بیٹھو۔ یہ سب کام اپنی پوری نماز میں کرو۔ صحیح بخاری
حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا: جو مسلمان بھی فرض نماز کا وقت آنے پر اسکے لئے اچھی طرح وضو کرتاہے پھر خوب خشوع کے ساتھ نماز پڑھتا ہے جسمیں رکوع بھی اچھی طرح کرتا ہے تو جب تک کوئی کبیرہ (بڑا) گناہ نہ کرے یہ نماز اس کے لئے پچھلے گناہوں کا کفارہ بن جاتی ہے اور یہ فضیلت ہمیشہ کے لئے ہے۔ صحیح مسلم
حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص بھی اچھی طرح وضو کرتاہے پھر دو رکعت اس طرح پڑھتا ہے کہ دل نماز کی طرف متوجہ رہے اور اعضاء میں بھی سکون ہو تو اسکے لئے یقیناًجنت واجب ہوجاتی ہے۔ ابوداؤد
حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ بندہ کی طرف اس وقت تک توجہ فرماتے ہیں جب تک وہ نماز میں کسی اور طرف متوجہ نہ ہو۔ جب بندہ اپنی توجہ نماز سے ہٹالیتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اس سے اپنی توجہ ہٹالیتے ہیں۔ نسائی
حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بدترین چوری کرنے والا شخص وہ ہے جو نماز میں سے چوری کرے۔ صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! نماز میں کس طرح چوری کرے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اس کا رکوع اور سجدہ اچھی طرح سے ادا نہ کرنا۔ ( غرض اطمینان و سکون کے بغیر نماز ادا کرنے کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے بدترین چوری قرار دیا)۔ مسند احمد، طبرانی
حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا: آدمی نماز سے فارغ ہوتا ہے اور اس کے لئے ثواب کا دسواں حصہ لکھا جاتا ہے، اسی طرح بعض کے لئے نواں حصہ، بعض کے لئے آٹھواں، ساتواں، چھٹا، پانچواں، چوتھائی، تہائی، آدھا حصہ لکھا جاتا ہے۔ ابوداؤد، نسائی، صحیح ابن حبان
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ ایسے آدمی کی نماز کی طرف دیکھتے ہی نہیں جو رکوع اور سجدہ کے درمیان یعنی قومہ میں اپنی کمر کو سیدھا نہ کرے۔ مسند احمد
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھاجو رکوع اور سجدہ کو پوری طرح سے ادا نہیں کررہا تھا۔ جب وہ شخص نماز سے فارغ ہوگیا تو حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ تو نے نماز نہیں پڑھی۔ اگر تو اسی طرح نماز پڑھتے ہوئے مرگیا تو محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے دین کے بغیر مرے گا۔ بخاری
حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہمارے پاس آئے اور فرمانے لگے کہ میں تم لوگوں کو دیکھتا ہوں کہ نماز میں گھوڑے کی دُم کی طرح اپنے ہاتھ اٹھاتے ہو۔ نماز میں سکون اختیار کرو۔ مسلم
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے سات اعضاء پر سجدہ کرنے کا حکم دیا، اور نیز اس بات کا حکم فرمایا کہ نماز میں کپڑوں اور بالوں کو نہ سمیٹیں۔ بخاری، مسلم
حضرت عبد الرحمن رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے منع فرمایا کوّے کی طرح ٹھونگے مارنے سے (یعنی جلدی جلدی نماز پڑھنے سے) اور درندہ کی کھال بچھاکر نماز پڑھنے سے اور اس سے کہ کوئی شخص مسجد میں نماز کی کوئی خاص جگہ مقرر کرلے جیسے کہ اونٹ (اپنے اصطبل) میں ایک خاص جگہ مقرر کرلیتاہے۔ مسند احمد، ابوداؤد، نسائی، ابن ماجہ، صحیح ابن حبان
حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ سب سے پہلے جس چیز کا علم لوگوں سے اٹھا لیا جائیگا وہ خشوع کا علم ہے۔ عنقریب مسجد میں بہت سے لوگ آئیں گے، تم ان میں ایک شخص کو بھی خشوع والا نہ پاؤگے۔ ترمذی
نماز میں خشوع وخضوع پیدا کرنے کا طریقہ:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب نماز کے لئے اذان دی جاتی ہے تو شیطان بآواز ہوا خارج کرتا ہوا پیٹھ پھیر کر بھاگ جاتا ہے تاکہ اذان نہ سنے پھر جب اذان ختم ہوجاتی ہے تو وہ واپس آجاتا ہے۔ جب اقامت کہی جاتی ہے تو وہ پھر بھاگ جاتا ہے اور اقامت پوری ہونے کے بعد پھر واپس آجاتا ہے تاکہ نمازی کے دل میں وسوسہ ڈالے۔ چنانچہ نمازی سے کہتا ہے یہ بات یاد کر اور یہ بات یاد کر۔ ایسی ایسی باتیں یاد دلاتا ہے جو باتیں نمازی کو نماز سے پہلے یاد نہ تھیں یہاں تک کہ نمازی کو یہ بھی خیال نہیں رہتا کہ کتنی رکعتیں ہوئیں۔ مسلم۔ باب فضل الاذان
شیطان کی پہلی کوشش مسلمان کو نماز سے ہی دور رکھنا ہے کیونکہ نماز اللہ کی اطاعت کے تمام کاموں میں سب سے افضل عمل ہے۔ لیکن جب اللہ کا بندہ‘ شیطان کی تمام کوششوں کو ناکام بناکر اللہ تعالیٰ کے سب سے زیادہ محبوب عمل نماز کو شروع کردیتا ہے تو پھر وہ نماز کی روح یعنی خشوع وخضوع سے محروم کرنے کی کوشش کرتا ہے، چنانچہ وہ نماز میں مختلف دنیاوی امور کو یاد دلاکر نماز کی روح سے غافل کرتا ہے جیسا کہ مذکورہ حدیث میں وارد ہوا ہے۔ لہذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ ایسے اسباب اختیار کرے کہ جن سے نمازیں خشوع وخضوع کے ساتھ ادا ہوں ۔
قرآن وحدیث کی روشنی میں نماز میں خشوع وخضوع پیدا کرنے کے چند اسباب ذکر کئے جارہے ہیں۔ اگر ان مذکورہ اسباب کو اختیار کیا جائیگا تو انشاء اللہ شیاطین سے حفاظت رہے گی اور ہماری نمازیں خشوع وخضوع کے ساتھ ادا ہوں گی۔
نماز شروع کرنے سے پہلے:
جب مؤذن کی آواز کان میں پڑے تو دنیاوی مشاغل کو ترک کرکے اذان کے کلمات کا جواب دیں اور اذان کے اختتام پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر درود پڑھکر اذان کے بعد کی دعا پڑھیں۔
پیشاب وغیرہ کی ضروریات سے فارغ ہوجائیں کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا فرمان ہے: کھانے کی موجودگی میں(اگر واقعی بھوک لگی ہو) نماز نہ پڑھی جائے اور نہ ہی اس حالت میں جب پیشاب پائخانہ کا شدید تقاضہ ہو۔ صحیح مسلم
بسم اللہ پڑھکر سنت کے مطابق اس یقین کے ساتھ وضو کریں کہ ہر عضو سے آخری قطرے کے گرنے کے ساتھ اس عضو کے ذریعہ کئے جانے والے صغائر گناہ بھی معاف ہورہے ہیں اور وضو کی وجہ سے اعضاء قیامت کے دن روشن اور چمکدار ہوں گے جن سے تمام نبیوں کے سردار حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم اپنے امت کے افراد کی شناخت فرمائیں گے۔
صاف ستھرہ لباس پہن لیں۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: (يا بَنِی آدَمَ خُذُوا زِینَتَکُم عِندَ کُلِّ مَسجِد) اے آدم کی اولاد! ہر نماز کے وقت ایسا لباس زیبِ تن کرلیا کرو جسمیں ستر پوشی کے ساتھ زیبائش بھی ہو۔ (سورۂ الاعراف ۳۱) نیز نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: اللہ تبارک وتعالیٰ خوبصورت ہے اور خوبصورتی کو پسند کرتا ہے۔ مسلم
وضاحت: تنگ لباس ہرگز استعمال نہ کریں، احادیث میں تنگ لباس پہننے سے منع فرمایا ہے۔ نیز مرد حضرات پائجامہ یا کوئی دوسرا لباس ٹخنوں سے نیچے نہ پہنیں ، احادیث میں ٹخنوں سے نیچے پائجامہ وغیرہ پہننے والوں کے لئے سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں۔
جو چیزیں نماز میں اللہ کی یاد سے غافل کریں، ان کو نماز سے قبل ہی دور کردیں۔
اپنی وسعت کے مطابق سخت سردی اور سخت گرمی سے بچاؤ کے اسباب اختیار کریں۔
شور وغل کی جگہ نماز پڑھنے سے حتی الامکان بچیں۔
مرد حضرات فرض نماز جماعت کے ساتھ مسجدوں میں اور مستورات گھر میں ادا کریں۔
صرف حلال روزی پر اکتفا کریں اگرچہ بظاہر کم ہی کیوں نہ ہو ۔
نماز میں خشوع وخضوع پیدا ہوجائے ، اس کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرتے رہیں۔
نماز شروع کرنے کے بعد:
نہایت ادب واحترام کے ساتھ اپنی عاجزی وفروتنی اور اللہ جلّ شانہ کی بڑائی، عظمت اور علو شان کا اقرار کرتے ہوئے دونوں ہاتھ اٹھاکر زبان سے اللہ اکبر کہیں، دل سے یقین کریں کہ اللہ تعالیٰ ہی بڑا ہے اور وہی جی لگانے کے لائق ہے اس کے علاوہ ساری دنیا حقیر اور چھوٹی ہے، اور دنیا سے بے تعلق ہوکر اپنی تمام تر توجہ صرف اسی ذات کی طرف کریں جس نے ہمیں ایک ناپاک قطرے سے پیدا فرماکر خوبصورت انسان بنادیا اور مرنے کے بعد اسی کے سامنے کھڑے ہوکر اپنی اس دنیاوی زندگی کا حساب دینا ہے۔
ثنا، سورۂ فاتحہ، سورہ، رکوع وسجدہ کی تسبیحات، جلسہ وقومہ کی دعائیں، التحیات، نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر درود اور دعاؤں وغیرہ کو سمجھ کر اور غور وفکر کرتے ہوئے اطمینان کے ساتھ پڑھیں، اگر تدبر وتفکر نہیں کرسکتے تو کم از کم اتنا معلوم ہو کہ نماز کے کس رکن میں ہیں اور کیا پڑھ رہے ہیں۔
اس یقین کے ساتھ نماز پڑھیں کہ نماز میں اللہ جلّ شانہ سے مناجات ہوتی ہے جیسا کہ حضرت انس ؓ کی حدیث میں گزرا ۔ نیز دوسری حدیث میں ہے کہ سورۂفاتحہ کی تلاوت کے دوران اللہ تبارک و تعالیٰ ہر آیت کے اختتام پر بندہ سے مخاطب ہوتا ہے۔
اپنی نگاہوں کی حفاظت کریں، نیز بالوں اور کپڑوں کو سنوارنے میں نہ لگیں۔
سجدہ کے وقت یہ یقین ہو کہ میں اس وقت اللہ کے بہت زیادہ قریب ہوں جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: بندہ نماز کے دوران سجدہ کی حالت میں اپنے رب کے سب سے زیادہ قریب ہوتا ہے۔ مسلم
نماز کے تمام ارکان واعمال کو اطمینان اور سکون کے ساتھ ادا کریں۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے طریقے کے مطابق نماز ادا کریں۔
نماز میں خشوع وخضوع کی کوشش کے باوجود اگر بلا ارادہ دھیان کسی اور طرف چلا جائے تو خیال آتے ہی فوراً نماز کی طرف توجہ کریں۔ اس طرح بلا ارادہ کسی طرف دھیان چلا جانا نماز میں نقصان دہ نہیں ہے (انشاء اللہ) ، لیکن حتی الامکان کوشش کریں کہ نماز میں دھیان کسی اور طرف نہ جائے۔
وضاحت: نماز میں خشوع وخضوع پیدا کرنے کے لئے کثرت سے اللہ کے ذکر کو بھی خاص اہمیت حاصل ہے اس لئے صبح وشام پابندی سے اللہ کا ذکر کرتے رہیں کیونکہ ذکر شیطان کو دفع کرتا ہے اور اس کی قوت کو توڑتا ہے نیز دل کو گناہوں کے زنگ سے صاف کرتا ہے۔
اہم گزارش: نماز میں خشوع وخضوع پیدا کرنے اور نماز کی قبولیت کے لئے سب سے اہم اور بنیادی شرط اخلاص ہے کیونکہ اعمال کی قبولیت کا انحصار نیت اور ارادہ پر ہوتا ہے جیسا کہ بخاری شریف کی پہلی حدیث میں ہے: اعمال کا دار و مدار نیت پر ہے، ہر شخص کو وہی ملے گا جس کی اس نے نیت کی۔۔۔ لہذا نماز کی ادائیگی سے خواہ فرض ہو یا نفل صرف اللہ جل شانہ کی رضامندی مطلوب ہو۔ دوسروں کو دکھانے کے لئے نماز نہ پڑھیں کیونکہ دوسروں کو دکھانے کے لئے نماز پڑھنے کو احادیث میں فتنۂ دجال سے بھی بڑا فتنہ اور شرک قرار دیا ہے۔
حضرت ابو سعید خدری فرماتے ہیں کہ ہم لوگ مسیح دجال کا ذکر کررہے تھے، اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم تشریف لائے اور فرمایا کہ میں تمہیں دجال کے فتنے سے زیادہ خطرناک بات سے آگاہ نہ کردوں؟ ہم نے عرض کیا : ضرور۔ یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: شرکِ خفی‘ دجال سے بھی زیادہ خطرناک ہے اور وہ یہ ہے کہ ایک آدمی نماز کے لئے کھڑا ہو اور نماز کو اس لئے لمبا کرے کہ کوئی آدمی اسے دیکھ رہا ہے۔ ابن ماجہ ۔ باب الریاء والسمعہ
حضرت شداد بن اوس فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: جس نے دکھاوے کی نماز پڑھی اس نے شرک کیا۔ مسند احمد ۔ج ۴، ص۱۲۵
اللہ تعالیٰ ہم سب کو نمازیں خشوع وخضوع کے ساتھ ادا کرنے والا بنائے۔ آمین۔ ثم آمین۔
محمد نجیب سنبھلی قاسمی، ریاض (najeebqasmi@yahoo.com)