خانہ کعبہ کے متعلق غلط نیت رکھنے والے کا انجام وہی ہوگا جو ابرہہ کے ساتھ ہو ا تھا

خانہ کعبہ کے متعلق غلط نیت رکھنے والے کا انجام وہی ہوگا جو ابرہہ کے ساتھ ہو ا تھا
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيْم

اَلْحَمْدُ لِلّهِ رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلامُ عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔

خانہ کعبہ کے متعلق غلط نیت رکھنے والے کا انجام وہی ہوگا جو ابرہہ کے ساتھ ہو ا تھا

سورۃ الفیل کا آسان ترجمہ: کیا تم نے نہیں دیکھا کہ تمہارے پروردگار نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیسا معاملہ کیا؟ کیا اُس نے اُن لوگوں کی ساری چالیں بیکار نہیں کردی تھیں؟ اور اُن پر غول کے غول پرندے چھوڑ دئے تھے۔ جو اُن پر پکی مٹی کے پتھر پھینک رہے تھے۔ چنانچہ اُنہیں ایسا کرڈالا جیسے کھایا ہوا بھوسا۔

شانِ نزول: اس سورت میں اصحاب فیل (ہاتھی والوں) کا واقعہ مختصراً ذکر کیا گیا ہے کہ انہوں نے مکہ مکرمہ میں واقع اللہ کے گھر کو ڈھانے کی غرض سے یمن سے مکہ مکرمہ پر حملہ کرنے کی کوشش کی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے مکہ مکرمہ سے تقریباً ۱۰ کیلومیٹر پہلے میدانِ عرفات کے قریب اُن کی فوج پر عذاب نازل کرکے ان کے ارادوں کو خاک میں ملا دیا۔ قرآن کریم میں اس واقعہ کا تذکرہ فرماکر حضور اکرم ﷺ کو تسلی دی گئی کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت بہت بڑی ہے، اس لئے جو لوگ دشمنی پر کمر باندھے ہوئے ہیں، آخر میں وہ بھی ہاتھی والوں کی طرح منہ کی کھائیں گے۔

اصحاب فیل کا واقعہ:یمن پر ملوک حِمْےَر کا قبضہ تھا۔ یہ لوگ مشرک تھے، اِن کا آخری بادشاہ ذو نواس تھا، جس نے اُس زمانہ کے عیسائیوں پر بہت ظلم کئے تھے۔ اس نے ایک لمبی خندق کھدواکر ایک اللہ کی عبادت کرنے والے تقریباً بیس ہزار عیسائیوں کو آگ میں جلا دیا تھا، جس کا ذکر سورۃ البروج (اصحاب الاخدود) میں ہے۔ کسی طرح یہاں سے بچ کر دو عیسائیوں نے قیصر ملک شام کے دربار میں جاکر فریاد کی۔ قیصر ملک شام نے حبشہ (جو یمن سے قریب تھا) کے عیسائی بادشاہ سے یمن پر حملہ کرنے کو کہا۔ اس طرح ارباط اور ابرہہ دو کمانڈر کی قیادت میں یمن پر حملہ کرکے پورے یمن کو قوم حِمْےَر سے آزاد کردیا۔ پھر ارباط اور ابرہہ دونوں کمانڈر وں میں اقتدار کو حاصل کرنے کے لئے باہمی جنگ ہوئی، ارباط جنگ میں مارا گیا، اور اس طرح ابرہہ یمن کا حاکم مقرر کردیا گیا۔ ابرہہ نے یمن پر قبضہ کرنے کے بعد ایک شاندار کنیسہ اس مقصد سے بنایا کہ یمن کے لوگ مکہ مکرمہ جانے کے بجائے اسی کنیسہ میں عبادت کریں۔ عرب قبائل میں غم وغصہ کی لہر دوڑ گئی، یہاں تک کہ کسی نے رات کے وقت کنیسہ میں گندگی پھیلادی اور اس کے ایک حصہ میں آگ لگادی۔ ابرہہ کو جب اس کا علم ہوا تو اس نے ملک حبشہ کے بادشاہ کی اجازت سے کعبہ کو ڈھانے کی تیاری شروع کردی۔ چنانچہ ہاتھیوں کے ساتھ ایک لشکر لے کر وہ مکہ مکرمہ کی طرف روانہ ہوگیا۔عرب لوگ باوجویکہ وہ مشرک تھے، حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہم السلام کے بنائے ہوئے بیت اللہ سے بہت عقیدت رکھتے تھے، چنانچہ انہوں نے ابرہہ کے خلاف جنگ لڑی مگر عرب لوگ مقابلہ میں کامیاب نہ ہوسکے اور ابرہہ آگے بڑھتا گیا۔ طائف کے مشہور قبیلہ ثقیف نے اس کے آگے ہتھیار ڈال دئے۔ اس طرح وہ مکہ مکرمہ سے چند کیلو میٹر کے فاصلہ پر میدان عرفات کے قریب مغمس مقام پر پہنچ گیا، جہاں قریش مکہ کے اونٹ چر رہے تھے۔ ابرہہ کے لشکر نے اُن اونٹوں پر قبضہ کرلیا، جن میں دو سو اونٹ حضور اکرم ﷺ کے دادا حضرت عبدالمطلب کے تھے۔ ابرہہ نے ایک نمائندہ مکہ مکرمہ بھیجا تاکہ وہ قریش کے سرداروں کے پاس جاکر اطلاع دے کہ ہم تم سے جنگ کرنے نہیں آئے ہیں، ہمارا مقصد بیت اللہ کو ڈھانا ہے۔ اگر تم نے اس میں رکاوٹ نہیں ڈالی تو تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔ حضرت عبدالمطلب ابرہہ سے ملنے کے لئے پہنچے اور اس سے اپنے دو سو اونٹوں کا مطالبہ کیا۔ ابرہہ کو بڑا تعجب ہوا کہ قبیلہ کا سردار صرف اپنے اونٹوں کی بات کرتا ہے، بیت اللہ کے متعلق کوئی بات نہیں کرتا۔ حضرت عبدالمطلب نے جواب دیا کہ اونٹوں کا مالک تو میں ہوں، مجھے اِن کی فکر ہے، اور بیت اللہ کا میں مالک نہیں ہوں بلکہ اس کا مالک ایک عظیم ہستی ہے، جو اپنے گھر کی حفاظت کرنا جانتا ہے۔ ابرہہ نے کہا کہ تمہارا اللہ اُس کو میرے ہاتھ سے نہ بچا سکے گا۔ حضرت عبدالمطلب نے کہا کہ پھر تمہیں اختیار ہے جو چاہو کرو۔ حضرت عبدالمطلب اونٹ لے کر واپس آئے تو انہوں نے قریش کی ایک جماعت کے ساتھ بیت اللہ کا دروازہ پکڑ کر اللہ تعالیٰ سے خوب دعائیں مانگی اور پھر مکہ والوں کو ساتھ لے کر اس یقین کے ساتھ پہاڑوں میں چلے گئے کہ یقیناًابرہہ کے لشکر پر اللہ کا عذاب نازل ہوگا۔ صبح ہوئی تو ابرہہ کے لشکر نے بیت اللہ پر حملہ آور ہونے کا ارادہ کیا تو اُس کا محمود نام کا ہاتھی بیٹھ گیا اور وہ مکہ مکرمہ کی طرف چلنے کے لئے تیار نہیں ہوا، جبکہ دوسری طرف وہ چلنے لگتا تھا۔ اسی دوران پرندوں کا ایک غول نظر آیا، جن میں سے ہر ایک کے پاس چنے کے برابر تین کنکریاں تھیں، ایک چونچ میں اور دو پنچوں میں، جو انہوں نے لشکر کے لوگوں کے اوپر برسانی شروع کردیں۔ ان کنکریوں نے وہ کام کیا جو بارودی گولی بھی نہیں کرسکتی تھی۔ جس پر یہ کنکری لگتی، اُس کے پورے جسم کو چھیدتی ہوئی زمین میں گھس جاتی تھی۔ یہ عذاب دیکھ کر سارے ہاتھی بھاگ کھڑے ہوئے ۔ لشکر کے سپاہیوں میں سے کچھ وہیں ہلاک ہوگئے اور کچھ لوگ جو بھاگ نکلے، وہ راستہ میں مرے، اور ابرہہ کے جسم میں ایسا زہر سرایت کرگیا کہ اُس کا ایک ایک حصہ سڑگل کر گرنے لگا، اسی حالت میں اسے یمن لایا گیا اور وہاں اُس کا سارا بدن بہہ بہہ کر ختم ہوگیا۔ اُس کی موت سب کے لئے عبرت ناک ہوئی۔ اُس کے دو ہاتھی بان مکہ مکرمہ میں رہ گئے تھے جو اپاہج اور اندھے ہوگئے تھے۔ صحابۂ کرام نے اُن کو دیکھا بھی تھا۔

ہاتھیوں کو ساتھ لانے کا مقصد: اُن کا یہ خیال تھا کہ بیت اللہ کے ستونوں میں لوہے کی مضبوط اور لمبی زنجیریں باندھ کر اُن زنجیروں کو ہاتھیوں کے گلے میں باندھیں اور ان کو ہنکادیں تو سارا بیت اللہ (معاذ اللہ) گر جائے گا۔ یہ اللہ کا نظام ہے کہ ہاتھیوں کا ساتھ لانا ہی ان کی ذلت آمیز شکست کا سبب بنا۔

اصحاب فیل کا واقعہ کب پیش آیا: اس واقعہ کی تاریخ اور سن میں مؤرخین کا اختلاف ہے، معتمد قول یہ ہے کہ یہ واقعہ حضور اکرم ﷺ کی ولادت کے سال پیش آیا تھا۔

الفاظ کی تحقیق: اَلَمْ تَرَ: اللہ تعالیٰ اپنے نبی سے فرماتاہے کہ کیا آپ نے نہیں دیکھا؟ حالانکہ یہ واقعہ آپ ﷺ کی ولادت سے کچھ دن پہلے کا ہے۔ اس طرح کہنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ واقعہ جو عنقریب ہی واقع ہوا ہے، جس کی صداقت پر کوئی شک وشبہ نہیں ہے، جس کے اثرات ابھی تک نظر آتے ہیں۔ طَيْرًا أَبَابِيلَ: سے ایسے پرندے مراد ہیں جو عجیب طرح کے تھے، جو اس سے پہلے کبھی نہ دیکھے گئے اور کبوتر سے کچھ چھوٹے تھے، جیساکہ احادیث میں وارد ہے۔ ایک چھوٹا سا کالے رنگ کا پرندہ جو اندھیری جگہوں پر رہتا ہے جس کو اردو زبان میں ابابیل کہتے ہیں، وہ یہاں مراد نہیں ہے۔ بِحِجَارَةٍ مِنْ سِجِّيلٍ: اِ ن کنکریوں میں کوئی طاقت نہیں تھی، معمولی گارے اور آگ سے بنی ہوئی تھیں ، لیکن اللہ تعالیٰ نے عصر حاضر میں موجود بارودی گولیوں سے زیادہ کام لیا۔ فَجَعَلَهُمْ كَعَصْفٍ مَأْكُولٍ: ابرہہ کا لشکر ، جس پر کنکریوں کی مار پڑی تھی، وہ ایسے ہوگئے جیسے جانوروں کا کھایا ہوا بھوسا۔ خود بھوسا ہی منتشر تنکے ہوتے ہیں، پھر جبکہ اسے کسی جانور نے چبا بھی لیا ہو تو وہ تنکے بھی اپنے حال پر نہیں رہتے اور دنیا میں اس کی کوئی قیمت بھی نہیں ہوتی۔ غرضیکہ اللہ تعالیٰ نے اپنا اصول وضابطہ کل قیامت تک کے انس وجن کے لئے بیان کردیا کہ جو بھی ہمارے گھر کے متعلق غلط نیت رکھے گا اس کا حشر وہی ہوگا جو ابرہہ کے لشکر کے ساتھ ہو ا تھا۔

اصحاب فیل (ہاتھی والوں) کے اس واقعہ کی وجہ سے عربوں میں اللہ کے گھر اور اس کی نگرانی کرنے والے قبیلہ قریش کی اہمیت وعظمت بڑھ گئی۔ چنانچہ وہ ان سے کوئی چھیڑ چھاڑ نہیں کرتے تھے، اور اس طرح ان کے سفرات کسی بھی خطرہ سے خالی تھے۔ غرضیکہ قبیلہ قریش کے لوگ سال میں دو سفر کیا کرتے تھے، ان ہی سفروں کا ذکر اللہ تعالیٰ اگلی سورت میں کررہے ہیں۔

بیت اللہ: بیت اللہ شریف اللہ تعالیٰ کا گھر ہے جس کا حج اور طواف کیا جاتا ہے۔ اس کو کعبہ بھی کہتے ہیں۔ یہ پہلا گھر ہے جو اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کے لئے زمین پر بنایا جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتاہے: اللہ تعالیٰ کا پہلا گھر جو لوگوں کے لئے مقرر کیا گیا وہی ہے جو مکہ مکرمہ میں ہے جو تمام دنیا کے لئے برکت وہدایت والا ہے۔ (سورۃ آل عمران) بیت اللہ مسجد حرام کے قلب میں واقع ہے اور قیامت تک یہی مسلمانوں کا قبلہ ہے۔ چوبیس گھنٹوں میں صرف فرض نمازوں کے وقت خانہ کعبہ کا طواف رکتا ہے باقی دن رات میں ایک گھڑی کے لئے بھی بیت اللہ کا طواف بند نہیں ہوتا۔ بیت اللہ کی اونچائی ۱۴ میٹر ہے جبکہ چوڑائی ہر طرف سے کم وبیش ۱۲ میٹر ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ کی ایک سو بیس (۱۲۰) رحمتیں روزانہ اس گھر (خانہ کعبہ) پر نازل ہوتی ہیں جن میں سے ساٹھ طواف کرنے والوں پر، چالیس وہاں نماز پڑھنے والوں پر اور بیس خانہ کعبہ کو دیکھنے والوں پر ۔ حدیث میں ہے کہ بیت اللہ پر پہلی نظر پڑنے پر جو دعا مانگی جاتی ہے وہ اللہ تعالیٰ قبول فرماتا ہے۔ حضور اکرم ﷺ کی سنت کے مطابق بیت اللہ شریف کو ہر سال غسل بھی دیا جاتا ہے۔

کعبہ شریف کی تعمیریں: ۱) حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش سے قبل سب سے پہلے اس کی تعمیر فرشتوں نے کی ۔ ۲) حضرت آدم علیہ السلام کی تعمیر ۔ ۳) حضرت شیث علیہ السلام کی تعمیر ۔ ۴) حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے صاحبزادے حضرت اسماعیل علیہ السلام کے ساتھ مل کر کعبہ کی از سرِ نو تعمیر کی جیسا کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے اس واقعہ کو ذکر کیا ہے۔ ۵) عمالقہ کی تعمیر ۶) جرہم کی تعمیر (یہ عرب کے دو مشہور قبیلے ہیں)۔ ۷) قصی کی تعمیر جو حضور اکرم ﷺ کی پانچویں پشت میں دادا ہیں۔ ۸) قریش کی تعمیر (اس وقت نبی اکرمﷺکی عمر ۳۵ سال تھی، اور آپ ﷺ نے اپنے ہی دست مبارک سے حجر اسود کو بیت اللہ کی دیوار میں لگایا تھا)۔ ۹) ۶۴ھ میں حضرت عبد اللہ بن زبیرؓ نے حطیم کے حصہ کو کعبہ میں شامل کرکے کعبہ کی دوبارہ تعمیر کی، اور دروازہ کو زمین کے قریب کردیا، نیز دوسرا دروازہ اس کے مقابل دیوار میں قائم کردیا تاکہ ہر شخص سہولت سے ایک دروازہ سے داخل ہو اور دوسرے دروازے سے نکل جائے۔ (حضور اکرم ﷺ کی خواہش بھی یہی تھی)۔ ۱۰) ۷۳ھ میں حجاج بن یوسف نے کعبہ کو دوبارہ قدیم طرز کے موافق کردیا(یعنی حطیم کی جانب سے دیوار پیچھے کو ہٹادی اور دروازہ اونچا کردیا،دوسرا دروازہ بند کردیا)۔ ۱۱) ۱۰۲۱ھ میں سلطان احمد ترکی نے چھت بدلوائی اور دیواروں کی مرمت کی۔ ۱۲) ۱۰۳۹ھ میں سلطان مراد کے زمانے میں سیلاب کے پانی سے بیت اللہ کی بعض دیواریں گر گئیں تھیں تو سلطان مراد نے ان کی تعمیر کرائی۔ ۱۳) ۱۴۱۷ھ میں شاہ فہد بن عبدالعزیزنے بیت اللہ کی کچھ ترمیم کی۔

ڈاکٹر محمد نجیب قاسمی سنبھلی (www.najeebqasmi.com)
اللہ کی عبادت کرنے والوں کے لئے کشادہ روزی اور امن وسکون کی زندگی کا وعدہ
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيْم

اَلْحَمْدُ لِلّهِ رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلامُ عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔

اللہ کی عبادت کرنے والوں کے لئے کشادہ روزی اور امن وسکون کی زندگی کا وعدہ

سورۃ قریش کی مختصر تفسیر

سورۃ قریش کا آسان ترجمہ: چونکہ قریش کے لوگ عادی ہیں ، یعنی وہ سردی اور گرمی کے موسموں میں (یمن اور شام کے) سفر کرنے کے عادی ہیں، اس لئے انہیں چاہئے کہ وہ اس گھر کے مالک کی عبادت کریں، جس نے بھوک کی حالت میں انہیں کھانے کو دیا، اور بدامنی سے انہیں محفوظ رکھا۔

معنی اور مضمون کے اعتبار سے یہ سورت پہلی سورۃ الفیل سے متعلق ہے، اسی لئے بعض نسخوں میں دونوں سورتوں کے درمیان بسم اللہ تحریر نہیں ہے، لیکن خیر القرون سے آج تک جمہور علماء کی رائے میں یہ دونوں مستقل الگ الگ سورتیں ہیں۔ اس سے قبل سورۃ الفیل میں اُن ہاتھی والوں کا ذکر کیا گیا جنہوں نے بیت اللہ کو ڈھانے کے لئے یمن سے آکر مکہ مکرمہ پر حملہ آور ہونے کی کوشش کی تھی، لیکن اللہ تعالیٰ نے مکہ مکرمہ سے صرف ۱۰ کیلومیٹر قبل ہاتھی والوں کے لشکر پر عذاب نازل کرکے ان کی تباہی اور بربادی کو قیامت تک آنے والے انس وجن کے لئے عبرت بنادیا۔ اور اس سورۃ قریش میں اُس قبیلہ کا ذکر کیا جارہا ہے جو بیت اللہ کی خدمت کیا کرتا تھا۔ قبیلہ قریش پر اللہ کی دو عظیم نعمتوں کا ذکر کرکے، ان کو بیت اللہ کے گھر کے پروردگار کی عبادت کی دعوت دی جارہی ہے۔

حضور اکرم ﷺکی تشریف آوری سے قبل زمانہ جاہلیت میں عربوں میں قتل وغارت گری کا بازار گرم تھا۔ کوئی شخص آسانی سے سفر نہیں کرسکتا تھا کیونکہ بعض لوگوں کا کام ہی یہی تھا کہ وہ راہ گیروں کو لوٹ لیا کرتے تھے۔ لیکن بیت اللہ کی نگرانی کرنے والے قبیلہ قریش کو سارے لوگ عزت کی نگاہ سے دیکھتے تھے، جس کی وجہ سے وہ لٹیروں سے محفوظ تھے ۔ مکہ مکرمہ میں بنجر زمین کی وجہ سے کھیتی وغیرہ نہیں تھی، اس لئے وہ اپنی ضروریات پوری کرنے کے لئے سال بھر میں دو سفر کیا کرتے تھے۔ سردیوں میں ملک یمن اور گرمیوں میں ملک شام کی طرف۔

اللہ تعالیٰ اس سورۃ میں قبیلہ قریش کے لوگوں کو یاد دلارہے ہیں کہ اُن کوعربوں میں جو عزت حاصل ہوئی ہے، جس کی وجہ سے وہ گرمی اور سردی میں کسی خوف کے بغیر دو اہم سفر کرتے ہیں، جن سفروں پر اُن کے معاش کا انحصار ہے، یہ سب کچھ اُس اللہ کے گھر کی برکت ہے جو بنی نوع انسان کے لئے زمین پر بسایا ہوا پہلا گھر ہے ۔ لہٰذا انہیں چاہئے کہ اِس گھر کے مالک یعنی اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ عبادت میں کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں کیونکہ اسی اللہ کے گھر کی وجہ سے انہیں کھانے کو مل رہا ہے اور اسی کی وجہ سے انہیں امن وامان ملا ہوا ہے۔ غرضیکہ اس سورت میں امت مسلمہ کو یہ سبق دیا گیا کہ اللہ کی عبادت کرنے والے دو عظیم نعمتوں سے سرفراز ہوتے ہیں، ایک کشادہ روزی اور دوسرے امن وسکون کی زندگی۔

قریش مکہ مکرمہ کا ایک اہم ترین قبیلہ تھا۔ انس وجن کے نبی حضرت محمد مصطفی ﷺ کا اسی قبیلہ کی شاخ بنو ہاشم سے تعلق ہے۔ حضور اکرم ﷺ کی تیرہویں پشت میں دادانضر بن کنانہ بن خزیمہ کی اولاد کو قریش کہا جاتا ہے۔ تاریخ طبری کے مطابق حضور اکرم ﷺ کی چھٹی پشت میں دادا قصی بن کلاب وہ پہلے شخص ہیں جنہیں قریش کہا گیا۔ بنو کنانہ حرم کی خدمت کی غرض سے ایک جگہ جمع رہتے تھے اس لئے نضر بن کنانہ کی اولاو کو قریش کہا جاتا تھا۔ نضر بن کنانہ قریش اکبر اور قصی بن کلاب کو قریش اصغر کہا جاتا ہے۔ اس سورت میں اشارہ ہے کے عرب کے تمام قبائل میں قریش کو فوقیت حاصل ہے۔ چنانچہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں کنانہ کو اور کنانہ کی اولاد میں سے قریش کو اور قریش میں سے بنو ہاشم کو اور بنو ہاشم میں مجھے منتخب کیا ہے۔

ڈاکٹر محمد نجیب قاسمی سنبھلی (www.najeebqasmi.com)
۷ آیات پر مشتمل چھوٹی سی سورۃ ’’الماعون‘‘ میں حقوق اللہ اور حقوق العباد کی خاص تلقین
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيْم

اَلْحَمْدُ لِلّهِ رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلامُ عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔

۷آیات پر مشتمل چھوٹی سی سورۃ ’’الماعون‘‘ میں حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کی خاص تلقین

یتیم کے ساتھ بدسلوکی، محتاج کی مدد نہ کرنا، ریاکاری اور نماز و زکوٰۃ کی ادائیگی میں کوتاہی مؤمن کی شان نہیں

سورۃ الماعون کا آسان ترجمہ: کیاتم نے اسے دیکھا جو دین اسلام یا قیامت کے دن کی جزا وسزا کو جھٹلاتا ہے؟ وہی تو ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے، اور مسکین کو کھانا دینے کی ترغیب نہیں دیتا۔ پھر بڑی خرابی (اور ویل نامی حہنم کی جگہ) ہے اُن حضرات کے لئے جو اپنی نماز سے غفلت برتتے ہیں، یعنی نماز کی پابندی نہیں کرتے۔ جو دکھاوا کرتے ہیں۔ اور دوسروں کو زکوٰۃ یا معمولی چیز دینے سے بھی انکار کرتے ہیں۔

اس سورۃ میں کفار ومنافقین کے بعض برے افعال اور اُن پر جہنم کی وعید مذکور ہے۔ اگر یہ افعال قیامت کے دن جزا وسزا پر ایمان لانے والے مؤمن سے سرزد ہوں تو وہ اگرچہ بڑے گناہ ہیں، لیکن اس سورۃ میں مذکور وعید اُس پر نہیں ہے کیونکہ وہ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانے کے ساتھ قیامت کے دن اور اس کی جزا وسزا پر ایمان لایا ہوا ہے۔ مگر اس میں اشارہ اس طرف ضرور ہے کہ یہ برے افعال مؤمن کی شان سے بعید ہیں، یعنی ایک مؤمن کو یہ افعال کبھی نہیں کرنے چاہئیں۔

جن برے افعال کا ذکر اس سورۃ میں کیا گیا ہے، وہ حسب ذیل ہیں: یتیم کے ساتھ بدسلوکی کرنا۔ قدرت کے باجود محتاج کی مدد نہ کرنا اور دوسروں کو اس کی ترغیب نہ دینا۔ نمازوں کی ادائیگی میں کوتاہی کرنا۔ ریاکاری کرنا، اور زکوٰۃ کی ادائیگی نہ کرنا۔یہ سارے افعال بڑے گناہ ہونے کے ساتھ اپنی ذات میں بھی مذموم ہیں۔ قیامت کے دن اور اس کی جزا وسزا کے انکار (یعنی کفر) کے ساتھ یہ افعال سرزد ہوں تو ان کی سزا دائمی جہنم ہے۔ البتہ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانے والا ان اعمال کی سزا بھگتنے کے بعد ایک نہ ایک دن جہنم سے نکال کر جنت میں داخل کردیا جائے گا۔ ہاں اگر کسی مؤمن نے موت سے قبل ان افعال سے سچی توبہ کرلی تو پھر ان شاء اللہ ان افعال کی وجہ سے جہنم میں نہیں جائے گا۔ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان نہ لانا یا اللہ کی ذات اور صفات میں کسی کو شریک ٹھہرانا ایسا جرم عظیم ہے کہ خالق کائنات کے فیصلہ کے مطابق مرنے کے بعد ان گناہوں کی بخشش نہیں ہے۔

قرآن وحدیث کی روشنی میں پوری امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ کفر یا شرک یا نفاق جیسے بڑے بڑے گناہ بھی موت سے قبل ایمان لانے اور سچی توبہ کرنے سے معاف ہوجاتے ہیں۔ لیکن اگر کوئی شخص کفر یا شرک یا نفاق کی حالت میں مرجائے تو اس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے اپنا اصول وضابطہ اپنی کتاب ’’قرآن کریم‘‘ میں ذکر کردیا کہ پھر اس کی معافی نہیں ہے، اسے ہمیشہ ہمیشہ جہنم میں رہنا ہوگا۔ بعض ملحدین (جن کا کوئی مذہب نہ ہو) اس موضوع کے متعلق اسلام پر اعتراض کرتے ہیں، حالانکہ اس دنیاوی زندگی کے بے شمار امور میں سمجھ میں نہ آنے کے باوجود ہم سر تسلیم خم کردیتے ہیں، مثلاً غریب گھرانے میں پیدا ہونے والا شخص عموماً غربت میں ہی زندگی گزار کر دنیا سے چلا جاتاہے، تو پھر یہاں اعتراض کیوں نہیں کیا جاتا کہ غریب گھر میں پیدا ہونے والے معصوم بچے نے کیا ظلم کیا کہ وہ پوری زندگی تکلیفوں میں گزارتا ہے، جبکہ مالدار گھرانے میں پیدا ہونے والا بچہ عموماً عیش وآرام میں زندگی گزارتا ہے۔ اسی طرح انسان دنیا میں کیوں آتا ہے اور دنیا سے نہ جانے کی ہر ممکن کوشش کے باوجود ہر بشر کیوں موت کا مزہ چکھتا ہے؟بعض اوقات ایک صحت مند نوجوان جس کی خدمات پوری قوم کو درکار ہیں، صرف ٹھوکر کھاکر ہی مر جاتا ہے، جبکہ بعض بیمار بوڑھے لوگ دوسروں کے سہارے پر سالوں سال زندہ رہ جاتے ہیں۔ اس طرح کے ہزاروں سوال کا جواب ہماری عقلیں دینے سے قاصر ہیں۔ جب ہزاروں دنیاوی امور میں سمجھ میں نہ آنے کے باوجود سارے انسان اپنے گھٹنے ٹیک دیتے ہیں تو پھر ہم اللہ کے حکم کے سامنے سر تسلیم خم کیوں نہ کریں؟

آخرت میں جزا وسزا: قرآن وحدیث کی روشنی میں ہمارا یہ ایمان وعقیدہ ہے کہ ایک دن یہ دنیا فنا ہوجائے گی اور دنیا کے وجود سے لے کر کل قیامت تک آنے والے تمام انس وجن کو قیامت کے میدان میں جمع کیا جائے گا، اور دنیاوی زندگی میں اچھے اور برے اعمال کے اعتبار سے اللہ تعالیٰ جنت یا جہنم کا فیصلہ فرمائے گا۔ جنت میں اللہ تعالیٰ نے ایسی ایسی آرائش وآرام کی چیزیں مہیا کررکھی ہیں کہ ہماری عقل ان کا تصور بھی نہیں کرسکتی۔ جہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ دنیاوی آگ کی تپش سے ۷۰ گنا زیادہ ہے، جہاں خون اور پیپ بہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ جہنم سے ہماری حفاظت فرماکر ہمارے لئے جنت الفردوس کا فیصلہ فرمائے۔ دنیا میں اس وقت ۷ کروڑ انسان بستے ہیں جن کی اکثریت اس بات کا یقین ضرور رکھتی ہے کہ اس دنیاوی زندگی کے بعد ایک دوسری زندگی بھی ہے جس میں اس دنیاوی زندگی کے اعمال کی جزا یا سزا ملے گی، جو اخروی زندگی کے برحق ہونے کی خود ایک دلیل ہے۔

یتیموں کا خیال سب سے زیادہ اسلام میں رکھا گیا ہے: یتیم وہ ہے جس کے بالغ ہونے سے قبل اس کے والد کا انتقال ہوگیا ہو۔ نبی اکرم ﷺ بھی یتیم تھے، آپ کے والد ماجد (عبداللہ) اس وقت انتقال فرماگئے جب آپ ﷺ اپنی ماں (آمنہ) کے پیٹ میں تھے، اور والدہ ماجدہ کی وفات اس وقت ہوئی جب آپﷺ ۶ سال کے تھے۔ یتیموں کے لئے آپ ﷺکے دل میں بڑی ہمدردی تھی، اس لئے آپ صحابۂ کرام کو یتیموں کی کفالت کرنے پر اکسایا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا دونوں جنت میں اس طرح ہوں گے ، آپ نے قربت بیان کرنے کے لئے بیچ اور شہادت کی انگلی سے اشارہ فرمایا۔ یعنی یتیم کی کفالت کرنے والا حضور اکرمﷺ کے ساتھ جنت میں ہوگا۔ بخاری

حاجتمندوں کی ضرورت پوری کرنے کی ترغیب وتعلیم میں مذہب اسلام کا کوئی ثانی نہیں: شریعت اسلامیہ میں مساکین وغریبوں کو کھانا کھلانے اور ان کی دنیاوی ضرورتوں کو پورا کرنے کی بار بار ترغیب وتعلیم دی گئی ہے۔ حضور اکرم ﷺ سے سوال کیاگیا کہ اسلام میں کون سا عمل زیادہ افضل ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایالوگوں کو کھانا کھلانا اور ہر شخص کو سلام کرنا خواہ اس کو پہچانو یا نہ پہچانو۔ (بخاری ومسلم) ا سی طرح فرمان رسول ﷺہے: جو شخص مؤمن کی کوئی دنیاوی مشکل دور کرے گا، اللہ تعالیٰ قیامت کی سختیوں میں سے اس پر سے ایک سختی دور کرے گا۔ اور جو شخص کسی تنگ دست پر سہولت کرے گا، اللہ تعالیٰ دنیا وآخرت میں اس پر سہولت کرے گا۔۔۔ جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں لگا رہتا ہے، اللہ تعالیٰ بھی اس کی مدد میں رہتا ہے۔ صحیح مسلم

نماز کی ادائیگی میں کوتاہی کرنے والوں کو جہنم میں ڈالا جائے گا: قرآن وحدیث کی روشنی میں پوری امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ فرض نماز جان بوجھ کر چھوڑنا بہت بڑا گناہ ہے۔ شریعت اسلامیہ میں زنا کرنے، چوری کرنے اور شراب پینے سے بھی بڑا گناہ نماز کا ترک کرنا ہے۔ نماز میں کوتاہی کرنے والوں کی سزا کے متعلق صرف تین آیات پیش ہیں: (۱) ان نمازیوں کے لئے خرابی (اور ویل نامی حہنم کی جگہ) ہے جو نماز سے غافل ہیں۔(سورۃ الماعون۴ ، ۵) اس سے وہ لوگ مراد ہیں جو نماز یا تو پڑھتے ہی نہیں، یا پہلے پڑھتے رہے ہیں پھر سست ہوگئے یا جب جی چاہتا ہے پڑھ لیتے ہیں یا تاخیر سے پڑھنے کو معمول بنالیتے ہیں یہ سارے مفہوم اس میں آجاتے ہیں، اس لئے نماز کی مذکورہ ساری کوتاہیوں سے بچنا چاہئے۔ (۲) پھر ان کے بعد ایسے ناخلف پیدا ہوئے کہ انھوں نے نماز ضائع کردی اور نفسانی خواہشوں کے پیچھے پڑگئے، وہ غی میں ڈالے جائیں گے۔ (سورۃ مریم آیت ۵۹) نمازنہ پڑھنے والوں کو جہنم کی انتہائی گہری اور شدید گرم وادی غی میں ڈالا جائے گا، جہاں خون اور پیپ بہتا ہے۔ (۳) تمہیں دوزخ میں کس چیز نے ڈالا۔ وہ جواب دیں گے کہ ہم نہ نمازی تھے، نہ مسکینوں کو کھانا کھلاتے تھے۔ (سورۃ المدثر ۴۲ و۴۴) اہل جنت، جنت کے بالاخانوں میں بیٹھے جہنمیوں سے سوال کریں گے کہ کس وجہ سے تمہیں جہنم میں ڈالا گیا؟ تو وہ جواب دیں گے کہ ہم دنیا میں نہ نماز پڑھتے تھے اور نہ ہی مسکینوں کو کھانا کھلاتے تھے۔ غور فرمائیں کہ جہنمی لوگوں نے جہنم میں ڈالے جانے کی سب سے پہلی وجہ نماز نہ پڑھنا بتایا کیونکہ نماز ایمان کے بعد اسلام کا اہم اور بنیادی رکن ہے جوہر مسلمان کے ذمہ ہے۔ ان تینوں آیات کی شرح کے حوالوں کے لئے مشہور ومعروف تفاسیر کا مطالعہ کریں۔

ریاکاری اعمال کی بربادی کا سبب ہے:اعمال کی قبولیت کے لئے اہم اور بنیادی شرط اخلاص ہے۔ بخاری کی پہلی حدیث میں ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: اعمال کا دار ومدار نیت پر ہے، ہر شخص کو وہی ملے گا جس کی اس نے نیت کی۔۔۔۔ لہذا نماز کی ادائیگی سے خواہ فرض ہو یا نفل صرف اللہ تعالیٰ کی رضامندی ہی مطلوب ہونی چاہئے۔ دوسروں کو دکھانے کے لئے نماز نہ پڑھیں کیونکہ دوسروں کو دکھانے کے لئے نماز پڑھنے کو ہمارے نبی نے فتنۂ دجال سے بھی بڑا فتنہ اور شرک قرار دیا ہے۔حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم لوگ مسیح دجال کا ذکر کررہے تھے، اتنے میں رسول اللہﷺ تشریف لائے اور فرمایا کہ میں تمہیں دجال کے فتنے سے زیادہ خطرناک بات سے آگاہ نہ کردوں؟ ہم نے عرض کیا: ضرور۔ یا رسول اللہ! آپ ﷺ نے فرمایا: شرک خفی دجال سے بھی زیادہ خطرناک ہے اور وہ یہ ہے کہ ایک آدمی نماز کے لئے کھڑا ہو اور نماز کو اس لئے لمبا کرے کہ کوئی آدمی اسے دیکھ رہا ہے۔ (ابن ماجہ ۔ باب الریاء والسمعہ) اسی طرح رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس نے دکھاوے کی نماز پڑھی اس نے شرک کیا۔ مسند احمد

زکوٰۃ کی ادائیگی نہ کرنے والوں کو جہنم میں ڈالا جائے گا: قرآن وسنت کی روشنی میں امت مسلمہ کا اجماع ہے کہ جوشخص زکوٰۃ کے فرض ہونے کا انکار کرے وہ کافر ہے، اور زکوٰۃ کی ادائیگی نہ کرنے والا گناہ کبیرہ کا مرتکب ہے، جس پر آخرت میں سخت سزائیں دی جائیں گی اگر مرنے سے قبل اس نے سچی توبہ نہیں کی۔ سورۂ التوبہ آیت نمبر ۳۴ ۔ ۳۵ میں اللہ تعالیٰ نے اُن لوگوں کے لئے بڑی سخت وعید بیان فرمائی ہے جو اپنے مال کی کما حقہ زکوٰۃ نہیں نکالتے۔

اس سورت کے آخری لفظ ’’ماعون ‘‘ کے معنی معمولی چیز سے کیا گیا ہے۔ اسی لفظ کے نام پر سورت کا نام ’’ماعون ‘‘ رکھا گیا ہے۔ اصل میں ’’ماعون ‘‘ اُن برتنے کی معمولی چیزوں کو کہتے ہیں جو عام طور سے ایک دوسرے سے مانگ لیاکرتے ہیں، جیسے برتن وغیرہ۔ پھر ہر قسم کی معمولی چیز کو بھی ’’ماعون ‘‘ کہہ دیتے ہیں۔ بعض صحابۂ کرام نے اس کی تفسیر زکوٰۃ سے کی ہے، کیونکہ وہ بھی انسان کی دولت کا معمولی (چالیسواں) حصہ ہوتا ہے۔

اس سورت میں ہمارے لئے سبق: اللہ اور اس کے رسول پر ایمان کے ساتھ آخرت کی جزا وسزا پر ایمان لانا۔ یتیموں کی کفالت کرنے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا۔ مسکین اور محتاج لوگوں کی دنیاوی ضرورتوں کو پورا کرنے میں سبقت کرنا۔ اگر خود غریب لوگوں کی مدد نہیں کرسکتے تو کم از کم ایسے کاموں میں شریک ہونا جن کے ذریعہ غریب لوگوں کی مدد کی جارہی ہو۔ خشوع وخضوع کے ساتھ فرض نمازوں کا اہتمام کرنا۔ فرض نماز کے ساتھ سنن ونوافل کی بھی پابندی کرنا۔ ہر نیک عمل صرف اور صرف اللہ کی رضاجوئی کے لئے کرنا۔ ریا اور شہرت اعمال کی بربادی کا سبب ہیں۔ مال پر زکوٰۃ کے فرض ہونے پر اس کا حساب لگاکر ہر سال زکوٰۃ کی ادائیگی کرنا۔ اگر کوئی پڑوسی یا رشتہ دار روز مرہ استعمال میںآنے والی چیزیں مانگے تو حتی الامکان اسے منع نہ کرنا۔ حقوق اللہ کے ساتھ حقوق العباد کی ادائیگی میں کوئی کوتاہی نہ کرنا۔ حقوق اللہ میں ایمان کے بعد سب سے اہم عبادت نماز اور زکوٰۃ ہے۔

ڈاکٹر محمد نجیب قاسمی سنبھلی (www.najeebqasmi.com)
سورۃ الکافرون کی مختصر تفسیر
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيْم

اَلْحَمْدُ لِلّهِ رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلامُ عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔

سورۃ الکافرون کی مختصر تفسیر

ترجمہ سورۃ الکافرون: تم کہہ دو کہ: ’’اے حق کا انکار کرنے والو! میں اُن چیزوں کی عبادت نہیں کرتاجن کی تم عبادت کرتے ہو۔ اور تم اُس کی عبادت نہیں کرتے جس کی میں عبادت کرتا ہوں۔اور نہ میں (آئندہ) اُس کی عبادت کرنے والا ہوں جس کی عبادت تم کرتے ہو۔ اور نہ تم اُس کی عبادت کرنے والے ہو جس کی میں عبادت کرتا ہوں۔ تمہارے لئے تمہارا دین اور میرے لئے میرا دین۔

شانِ نزول: یہ سورت اُس وقت نازل ہوئی تھی جب مکہ مکرمہ کے کچھ سرداروں نے، جن میں ولید بن مغیرہ اور عاص بن وائل وغیرہ شامل تھے، حضور اکرمﷺ کے سامنے صلح کی یہ تجویز پیش کی کہ ایک سال آپ ہمارے معبودوں کی عبادت کرلیاکریں تو دوسرے سال ہم آپ کے معبود کی عبادت کرلیں گے۔ کچھ اور لوگوں نے اسی قسم کی کچھ اور تجویزیں بھی پیش کیں، جن کا خلاصہ یہی تھا کہ حضور اکرم ﷺ کسی نہ کسی طرح ان کافروں کے طریقے پر عبادت کے لئے آمادہ ہوجائیں تو آپس میں صلح ہوسکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس سورت میں دو ٹوک الفاظ میں واضح فرمادیا کہ کفر اور ایمان کے درمیان اس قسم کی کوئی مصالحت قابل قبول نہیں ہے جس سے حق اور باطل کا امتیاز ختم ہوجائے، اور دین برحق میں کفر یا شرک کی ملاوٹ کردی جائے۔ ہاں اگر تم حق کو قبول نہیں کرتے تو تم اپنے دین پر عمل کرو جس کے نتائج خود بھگتوگے، اور میں اپنے دین پر عمل کروں گا۔ اس سے معلوم ہوا کہ غیرمسلموں سے کوئی ایسی مصالحت جائز نہیں ہے جس میں اُن کے دین کے شعائر کو اختیار کرنا پڑے۔ البتہ اپنے دین پر قائم رہتے ہوئے امن کا معاہدہ ہوسکتا ہے۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ فجر کی سنتوں میں پڑھنے کے لئے دو سورتیں بہتر ہیں: سورۃ الکافرون اور سورۃ الاخلاص۔ صحابۂ کرام سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ مغرب کی سنتوں میں یہ دو سورتیں (سورۃا لکافرون اور سورۃ الاخلاص)عموماً پڑھا کرتے تھے۔ احادیث میں مذکور ہے کہ طواف کے بعد دو رکعات میں یہ دو سورتیں (سورۃا لکافرون اور سورۃ الاخلاص)پڑھنا بہتر ہے۔ آپ ﷺ صحابۂ کرام کو سورۃ الکافرون بھی سونے سے قبل پڑھنے کی تعلیم دیا کرتے تھے۔غرضیکہ دیگر اذکار کے ساتھ سونے سے قبل ہمیں چاروں قل پڑھنے کا اہتمام کرنا چاہئے۔

اس سورۃ میں چند کلمات مکرر آئے ہیں، دو کلمہ ایک مرتبہ زمانہ حال کے لئے اور دوسری مرتبہ زمانہ مستقبل کے متعلق آئے ہیں۔ یعنی نہ تو بالفعل ایسا ہورہا ہے کہ میں تمہارے معبودوں کی عبادت کروں اور تم میرے معبودوں کی عبادت کرو۔ اور نہ آئندہ ایسا ہوسکتا ہے کہ میں اپنی توحید پر اور تم اپنے شرک پر قائم رہتے ہوئے ایک دوسرے کے معبود کی عبادت کریں۔

اسلام سے زیادہ کوئی مذہب رواداری اور حسن سلوک کا داعی نہیں ہے۔ اسلام نے ہمیشہ غیر مسلموں کے حقوق کا خیال رکھا ہے۔ شریعت اسلامیہ نے کسی بھی غیر مسلم کو مذہب اسلام قبول کرنے پر کوئی زبردستی نہیں کی، بلکہ صرف اور صرف ترغیب اور تعلیم پر انحصار کیا۔ فرمان الٰہی ہے: دین میں کسی پر جبر نہیں۔ (سورۃ البقرۃ: ۲۵۶) اسی طرح فرمان الٰہی ہے: آپ کہہ دیجیے کہ یہ تمہارے پروردگار کی طرف سے حق ہے اب جس کا جی چاہے مان لے اور جس کا جی چاہے انکار کردے۔ سورۃ الکہف : ۲۹

مدینہ منورہ ہجرت کے بعد یہودیوں کے ساتھ آپ کا معاہدۂ صلح مشہور ومعروف ہے۔ اسلام نے رواداری کی اعلیٰ مثال پیش کرکے کفار مکہ کے ساتھ صلح حدیبہ بھی کی۔ مگر اللہ کا انکار کرنے والوں کے ساتھ صلح میں اسلام کے بنیادی ارکان پر کوئی مصالحت نہیں ہوسکتی، یعنی اگر کوئی شخص یہ کہے کہ ہم بتوں کی عبادت شروع کردیں یا اللہ کے ساتھ کسی کو عبادت میں شریک ٹھہرالیں یا محمد ﷺ کو اپنا آخری نبی تسلیم نہ کریں یا مساجد میں نماز کی ادائیگی نہ کریں یا اذان دینا بند کردیں ، تو ان امور میں کوئی مصالحت نہیں کی جاسکتی ہے۔

اس سورۃ میں ہمارے لئے سبق:

اللہ ہی صرف عبادت کے لائق ہے۔ اللہ کے ساتھ کسی دوسری ذات کو عبادت میں شریک کرنا جرم عظیم ہے، جس کی کل قیامت کے دن معافی نہیں ہے۔

دیگر مذاہب کے ماننے والوں کے ساتھ قرآن وحدیث کے فیصلہ کے خلاف کوئی مصالحت نہیں ہو سکتی ہے۔

صرف اس نوعیت کی صلح ہوسکتی ہے کہ غیر اسلامی ممالک میں دیگر قومیں اپنے مذہب کے اعتبار سے زندگی گزاریں اور ہم قرآن وحدیث کی روشنی میں زندگی گزاریں۔البتہ حکمت ومصلحت کے ساتھ اپنے قول وعمل سے ان کو دین اسلام کی دعوت دیتے رہیں۔

محمد نجیب قاسمی سنبھلی (www.najeebqasmi.com)
کوثر جنت کی ایک نہر ہے، جس سے قیامت کے دن امتِ محمدی سیراب ہو گی
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيْم

اَلْحَمْدُ لِلّهِ رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلامُ عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔

کوثر جنت کی ایک نہر ہے، جس سے قیامت کے دن امتِ محمدی سیراب ہو گی

سورۃ الکوثر کا آسان ترجمہ : (اے پیغمبر!) یقین جانو ہم نے تمہیں کوثر عطا کردی ہے۔ لہٰذا تم اپنے پروردگار (کی خوشنودی) کے لئے نماز پڑھو اور قربانی کرو۔ یقین جانو تمہارا دشمن ہی وہ ہے جس کی جڑ کٹی ہوئی ہے(مقطوع النسل) یعنی تمہارے دشمن کا نام لینے والا کوئی نہیں ہوگا۔

شان نزول: جس وقت حضور اکرم ﷺ کے صاحبزادے (حضرت قاسم رضی اللہ عنہ) کا بچپن میں انتقال ہوا تو کفار مکہ خاص کر عاص بن وائل آپ کو ’’ابتر‘‘ کہہ کر طعنہ دینے لگا۔ ابتر کا مطلب جس کی نسل آگے نہ چلے (مقطوع النسل) یعنی جس کا کوئی لڑکا نہ ہو۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب کے اطمینان کے لئے یہ سورت نازل فرمائی کہ آپ کو تو اللہ تعالیٰ نے ایک ایسی عظیم نعمت سے نوازا ہے جو کسی نبی یا رسول کو بھی نہیں عطا کی گئی، یعنی حوض کوثر۔آپ کا نام لینے والے اور آپ کے دین پر عمل کرنے والے بے شمار لوگ ہوں گے۔ ’’ابتر‘‘ تو تمہارادشمن ہے جس کا نام لینے والا بھی کوئی نہیں ہوگا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ آپ ﷺکی قیمتی زندگی کا ایک ایک لمحہ کتابوں میں محفوظ ہے۔ آپ ﷺ کی ایک ایک سنت آج تک زندہ ہے۔ آپ ﷺکا نام لینے والے اور آپ کی سنتوں پر مرمٹنے والے بے شمار لوگ دنیا میں موجود ہیں اور ان شاء اللہ رہیں گے۔ طعنہ دینے والے کو کوئی جانتا بھی نہیں اور اگر کوئی تذکرہ بھی کرتا ہے تو برائی کے ساتھ۔

آپ ﷺ کا ذکر مبارک: اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کے ذکر مبارک کو کیسا عالی وبلند مقام عطا فرمایا کہ چودھ سو سال گزرنے کے بعد بھی دنیا کے چپہ چپہ پر ہر ہر لمحہ اللہ تعالیٰ کی بڑائی کے ساتھ نبی اکرم ﷺ کا نام مبارک مسجدوں کے مناروں سے پکاراجاتا ہے۔ اللہ کی وحدانیت کی شہادت کے ساتھ نبی اکرم ﷺ کے رسول ہونے کی شہادت دی جاتی ہے۔ کوئی شخص اس وقت تک مؤمن نہیں ہوسکتا ہے جب تک وہ اللہ کی وحدانیت کے اقرار کے ساتھ حضرت محمد مصطفی ﷺ کو اپنا نبی اور رسول تسلیم نہ کرلے۔ کوئی ایک سیکنڈ بھی ایسا نہیں گزرتا جس میں نبی اکرم ﷺ پر درودو سلام نہ بھیجا جاتا ہو۔ قیامت تک آنے والے انس وجن کے نبی کا یہ بلند مقام صرف دنیا میں نہیں بلکہ آخرت میں بھی حاصل ہوگا، چنانچہ آخرت میں آپ ﷺ کو شفاعت کبری کا مقام محمود حاصل ہوگا۔ جس کے ذریعہ کل قیامت کے دن آپ ﷺ لوگوں کی شفاعت فرمائیں گے۔ سورۃ الاسراء آیت ۷۹ سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی اکرم ﷺ کی شفاعت کے حصول کے لئے ہمیں نماز تہجد کا اہتمام کرنا چاہئے۔

آپ ﷺ کی نسل: نبی اکرمﷺ کی ساری اولاد آپ ﷺ کی پہلی بیوی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئی، سوائے آپ کے بیٹے حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ کے، وہ حضرت ماریہ قبیطہ رضی اللہ عنہا سے مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے۔ حضرت خدیجہؓ کی عمر نکاح کے وقت ۴۰ سال تھی، یعنی حضرت خدیجہ ؓ آپ ﷺ سے عمر میں ۱۵ سال بڑی تھیں۔ نیز وہ نبی اکرم ﷺ کے ساتھ نکاح کرنے سے پہلے دو شادیاں کرچکی تھیں، اور ان کے پہلے شوہروں سے بچے بھی تھے۔ جب نبی اکرم ﷺ کی عمر ۵۰ سال کی ہوئی تو حضرت خدیجہؓ کا انتقال ہوگیا۔ اس طرح نبی اکرمﷺ نے اپنی پوری جوانی (۲۵ سے ۵۰ سال کی عمر) صرف ایک بیوہ عورت حضرت خدیجہؓ کے ساتھ گزاردی۔
نبی اکرم ﷺ کے تین بیٹے :

۱۔ حضرت قاسمؓ ۲۔ حضرت عبداللہؓ ۳۔ حضرت ابراہیم ؓ

نبی اکرم ﷺکی چار بیٹیاں: ۱۔ حضرت زینبؓ ۲۔ حضرت رقیہؓ ۳۔ حضرت ام کلثومؓ ۴۔ حضرت فاطمہؓ۔۔

آپ ﷺ کی نسل آپ ﷺکی صاحبزادیوں سے چلی۔ اور ان شاء اللہ کل قیامت تک آپ ﷺ کی نسل باقی رہے گی۔ آپ ﷺ کو ماننے والے، جو آپ کی اولاد کے درجہ میں ہیں، وہ تو اس کثرت سے ہوں گے کہ پچھلی تمام انبیاء کرام کی امتوں سے بھی بڑھ جائیں گے۔ اور ان کا اعزاز واکرام بھی دیگر امتوں کے مقابلہ میں زیادہ ہوگا۔

کوثر کے لفظی معنی ’’بہت زیاد بھلائی‘‘ کے ہیں۔ اور کوثر جنت کی اس حوض کا نام بھی ہے جوحضور اقدس ﷺ کے تصرف میں دی جائے گی۔ اور آپ کی امت کے لوگ اس سے سیراب ہوں گے۔ ایک روز جبکہ حضور اکرم ﷺ مسجد میں ہمارے درمیان تھے، اچانک آپ پر ایک قسم کی نیند یا بیہوشی کی سی کیفیت طاری ہوئی، پھر ہنستے ہوئے آپ نے سر مبارک اٹھایا۔ ہم نے پوچھا یا رسول اللہ! آپ کے ہنسنے کی وجہ کیا ہے؟ تو آپ ﷺ نے فرمایاکہ مجھ پر اسی وقت ایک سورت نازل ہوئی ہے، پھر آپ نے بسم اللہ کے ساتھ سورۃ الکوثر پڑھی۔ پھر فرمایا: تم جانتے ہو کوثر کیا چیز ہے؟ ہم نے عرض کیا: اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ جنت کی ایک نہر ہے، جس کا میرے رب نے مجھ سے وعدہ فرمایا ہے، جس میں بہت خیر ہے اور وہ حوض ہے جس پر میری امت قیامت کے روز پانی پینے کے لئے آئے گی، اس کے پانی پینے کے برتن ستاروں کی تعداد کی طرح بہت زیادہ ہوں گے۔ اس وقت بعض لوگوں کو فرشتے حوض سے ہٹادیں گے تو میں کہوں گا کہ میرے پروردگار یہ تو میرے امتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ آپ نہیں جانتے کہ انہوں نے آپ کے بعد کیا نیا دین اختیار کیا ہے۔ (بخاری ومسلم)

حوض کوثر کیا ہے؟ احادیث میں مذکور ہے کہ نہر کوثر اصل میں جنت میں ہے، جس کی دو نالیوں سے حوض کوثر میں پانی آتا رہے گا۔ حوض کوثر قیامت کے میدان میں ہوگا۔ حوض کوثر پر نبی اکرمﷺ کی امت جنت میں داخل ہونے سے قبل پانی پئے گی۔ جو اس کا پانی پی لے گا اسے پھر کبھی پیاس نہ لگے گی۔ نبی اکرم ﷺ اس حوض کے وسط میں تشریف فرما ہوں گے۔ اس کی لمبائی ایلہ (اردن اور فلسطین کے درمیان ایک علاقہ)سے صنعاء (یمن) تک ہوگی، اور اس کی چوڑائی اتنی ہوگی جنتا ایلہ سے جحفہ (جدہ اور رابغ کے درمیان ایک مقام)تک فاصلہ ہے۔ حوض کوثر کا پانی دودھ سے زیادہ سفید، برف سے زیادہ ٹھنڈا، شہد سے زیادہ میٹھا ہوگا۔ اس کی تہ کی مٹی مشک سے زیادہ خوشبودار ہوگی۔
فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ: تم اپنے پروردگار (کی خوشنودی) کے لئے نماز پڑھو اور قربانی کرو۔ سورۃ کی پہلی آیت میں بتایا گیا کہ آپ کو ایک عظیم نعمت یعنی حوض کوثر سے نوازا گیا ہے۔ اور اس کے شکریہ کے لئے آپ کو دو چیزوں کا حکم دیا گیا۔ ایک: نماز کی ادائیگی، اور دوسرے قربانی کرنا۔ قرآن وحدیث کی روشنی میں پوری امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ ایمان کے بعد سب سے اہم عبادت نماز کی ادائیگی ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پاک کلام (قرآن مجید) میں سب سے زیادہ نماز کا ہی ذکر فرمایا ہے۔ محسن انسانیت کے فرمان کے مطابق: کل قیامت کے دن سب سے پہلے نماز ہی کا حساب لیا جائے گا۔ نبی اکرم ﷺ کی آخری وصیت بھی نماز کی پابندی کے متعلق ہے۔ نبی اکرم ﷺ کی ۲۳ سالہ نبوت والی قیمتی زندگی کا وافر حصہ نماز کی ادائیگی میں ہی لگا۔ لہٰذا ہمیں پانچوں نمازوں کی پابندی کے ساتھ سنن ونوافل کا بھی اہتمام کرنا چاہئے۔
قربانی بھی ایک عظیم عبادت ہے، چنانچہ حضوراکرم ﷺنے حجۃ الوداع کے موقع پر سو اونٹوں کی قربانی پیش فرمائی تھی جس میں سے ۶۳ اونٹ کی قربانی آپﷺ نے اپنے مبارک ہاتھوں سے کی تھی اور بقیہ ۳۷ اونٹ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے نحر (یعنی ذبح) فرمائے۔ (صحیح مسلم ۔حجۃ النبی ﷺ) اسی طرح حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ذی الحجہ کی ۱۰ تاریخ کو کوئی نیک عمل اللہ تعالیٰ کے نزدیک قربانی کا خون بہانے سے بڑھ کر محبوب اور پسندیدہ نہیں۔ قرآن کریم کی دوسری آیت میں نماز کے ساتھ قربانی کا ذکر کیا گیا ہے۔

تہارا دشمن ہی مقطوع النسل ہوگا یعنی اس کا کوئی نام لینے والا نہیں ہوگا۔ آپ کی اولاد ان شاء اللہ کل قیامت تک چلے گی اگرچہ دختری اولاد سے ہو۔ آپ کے ماننے والے کل قیامت تک بے شمار ہوں گے۔ اور قیامت کے دن آپ کی امت سارے نبیوں کی امتوں سے زیادہ تعداد میں ہوگی۔

سورۃ الکوثر میں ہمارے لئے سبق:

۱) حوض کوثر پر ایمان لانا کہ وہ برحق ہے اور نبی اکرم ﷺ کے امتی اس سے سیراب ہوں گے ۔ تقریباً پچاس صحابۂ کرام سے حوض کوثر کی احادیث مروی ہیں۔ ۲) پانچوں وقت کی نماز کی پابندی۔ ۳) حسب استطاعت قربانی کے ایام میں زیادہ سے زیادہ قربانی کرنا۔ ۴) اللہ رب العزت نے نبی اکرم ﷺ کا دنیا اور آخرت میں بلند واعلیٰ مقام عطا کیا ہے۔ہمارے نبی کے دشمنوں کا دونوں جہاں میں خسارہ اور نقصان ہے، اور ان کے لئے دردناک عذاب ہے۔ ۵) دین اسلام میں نئی باتیں پیدا کرنے والوں کو حوض کوثر سے دور کردیا جائے گا، لہٰذا ہم اپنی طرف سے کوئی نیا عمل دین اسلام میں شروع نہ کریں۔

ڈاکٹر محمد نجیب قاسمی سنبھلی (www.najeebqasmi.com)
محسن انسانیت ﷺ کو تکالیف دینے والے ابولہب اور اس کی بیوی کا انجام بد
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيْم

اَلْحَمْدُ لِلّهِ رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلامُ عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔

محسن انسانیت ﷺ کو تکالیف دینے والے ابولہب اور اس کی بیوی کا انجام بد

اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں ایک مکمل سورۃ (سورۃ اللہب) نازل فرماکر قیامت تک آنے والے انس وجن کو یہ بتلادیا کہ سارے نبیوں کے سردار حضور اکرم ﷺ کو تکالیف پہنچانے والوں کے لئے دنیا میں بربادی کے ساتھ آخرت میں بھی ان کے لئے دردناک عذاب تیار کیا گیا ہے۔

سب سے پہلے اس مختصر سورۃ کا آسان ترجمہ پیش ہے: ابولہب کے ہاتھ برباد ہوں،ا ور وہ خود برباد ہوچکا ہے۔اس کی دولت اور اس نے جو کمائی کی تھی، وہ اس کے کچھ کام نہیں آئی۔ وہ بھڑکتے شعلوں والی آگ میں داخل ہوگا۔ اور اس کی بیوی بھی، لکڑیاں ڈھوتی ہوئی۔ اپنی گردن میں مونجھ کی رسی لئے ہوئے۔

جب قرآن کریم کی آیت وَاَنْذِرْ عَشِيرَتَکَ الْاَقْرَبِينَ نازل ہوئی تو حضور اکرم ﷺ نے صفا پہاڑی پر چڑھ کر اپنے قبیلہ کے لوگوں کو آواز دی۔ جب قبیلہ قریش کے لوگ جمع ہوگئے تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ اگر میں تمہیں یہ خبر دوں کہ دشمن تمہارے اوپر حملہ آور ہونے والا ہے۔ کیا آپ لوگ میری تصدیق کرو گے؟ سب نے کہاکہ ہاں ضرور تصدیق کریں گے۔ پھر آپ ﷺ نے اپنی قوم کے لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دیتے ہوئے فرمایا کہ میں تمہیں دردناک عذاب سے ڈراتاہوں، لہٰذا کفر وشرک والی زندگی چھوڑ کر صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو۔ یہ سن کر حضور اکرم ﷺ کا چچا ابولہب ، جو آپ کی دعوت اسلام کے بعد آپ کا سب سے بڑا دشمن بن گیا تھا اور طرح طرح سے آپ کو تکلیف پہنچاتا تھا، نے کہا: ہلاکت ہو تیرے لئے، کیا تو نے ہمیں اس کے لئے جمع کیا تھا۔ اور آپ کو مارنے کے لئے ایک پتھر اٹھالیا۔اس پر یہ سورت نازل ہوئی۔

ید کے اصل معنی ہاتھ کے ہیں، لیکن یہاں اُس کی ذات مراد ہے، یعنی ابولہب کے لئے بربادی لکھ دی گئی، اب اس کی بربادی میں کوئی شک وشبہ نہیں، چنانچہ بدر کے سات روز کے بعد اس کو طاعون کی گلٹی نکلی۔ مرض دوسروں کو لگ جانے کے خوف سے سب گھر والوں نے اس کو الگ ڈال دیا یہاں تک کہ اسی بے کسی کی حالت میں مرگیا اور تین روز تک ا س کی لاش یونہی پڑی رہی۔ جب اس کی لاش سڑنے لگی تو مزدوروں سے اٹھواکر دبوادیا۔ انہوں نے ایک گڑھا کھود کر ایک لکڑی سے اس کی لاش کو گڑھے میں ڈال دیا اور اوپر سے پتھر بھر دئے۔

مَا اَغْنَی عَنْہُ مَالُہُ وَمَا کَسَبَ:ابولہب کا مال واسباب کچھ بھی اس کے کام نہیں آیا۔ جب حضور اکرم ﷺ نے اپنی قوم کو اللہ کے عذاب سے ڈرایا تھا تو ابولہب نے یہ بھی کہا تھا کہ جو کچھ میرا بھتیجہ کہتا ہے اگر وہ سچ بھی ہو تو میرے پاس مال واولاد بہت ہے، میں اس کو دے کر اپنی جان بچالوں گا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ جب اس کو اللہ تعالیٰ کے عذاب نے پکڑا تو نہ اس کا مال کام آیا، نہ اولاد۔یہ تو اس کا دنیا میں حال ہوا، آخرت میں اس کے ساتھ کیا معاملہ ہوگا تو فرمان الٰہی ہے: وہ بھڑکتے شعلوں والی آگ میں داخل ہوگا۔

وَامْرَاَتُہُ حَمَّالَۃَ الْحَطَب:ابولہب کی طرح اس کی بیوی بھی آپ ﷺ کو بہت تکلیف پہنچاتی تھی۔ یہ حضرت ابوسفیان کی بہن تھی اور ام جمیل کے نام سے پہچانی جاتی تھی۔ بعض روایتوں میں ہے کہ آپ ﷺ کے راستے میں کانٹے دار لکڑیاں بچھا دیا کرتی تھی۔ نیز بعض روایات میں آتا ہے کہ یہ بہت زیادہ چغلخوری کرنے والی تھی۔قرآن کریم میں ابولہب کی بیوی کا نام لئے بغیر اس کے عمل کو ذکر کیا ’’لکڑیاں ڈھوتی ہوئی‘‘تاکہ اس کے عمل کے مطابق جہنم میں اس کے لئے متعین سزا کی طرف بھی اشارہ ہوجائے۔ قرآن کریم میں ابولہب کے اصل نام کا ذکر کئے بغیر اس کی کنیت ابولہب کا ذکر کیا، اس بات کی طرف اشارہ کرنے کے لئے کہ وہ آگ کے انگاروں میں ڈالا جائے گا۔ لہب کے معنی شعلہ کے ہیں۔
فِیْ جِےْدِھَا حَبْلٌ مِّن مَّسَد:ابولہب کی بیوی کی جہنم کی حالت کو بیان کیا جارہا ہے کہ آہنی تاروں سے مضبوط بٹا ہوا طوق ا س کے گلے میں ہوگا۔ یعنی جس طرح وہ نبی اکرم ﷺ کے راستے میں کانٹے بچھانے کے لئے کانٹے اور لکڑیاں اپنے اوپر لاد کر لاتی تھی، اسی طرح جہنم میں آہنی تاروں کا طوق اس کے گلے میں ڈال دیا جائے گا۔

حضور اکرم ﷺ کی دو صاحبزادیاں (حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا اور حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا ) ابولہب کے دو بیٹوں (عتبہ اور عتیبہ) کے نکاح میں تھیں۔ لیکن دین اسلام کی دعوت دینے اور اس سورۃ کے نزول پر ابولہب نے دونوں بیٹوں سے طلاق دلوادی تھی۔ بعد میں یہ دونوں صاحبزادیاں یکے بعد دیگرے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے نکاح میں آئیں۔ آپ کی چار صاحبزادیوں میں سے تین صاحبزادیاں آپ ﷺ کی حیات میں ہی انتقال فرماگئی تھیں، جبکہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی وفات نبی اکرم ﷺ کے انتقال کے چھ ماہ بعد ہوئی۔ غرضیکہ آپ کی چاروں بیٹیاں ۳۰ سال کی عمر سے قبل ہی انتقال فرماگئیں۔

محمد نجیب قاسمی سنبھلی (www.najeebqasmi.com)
سورۃ النصر میں نبی اکرم ﷺ کو اللہ کے ذکر اور استغفار کرنے کی تعلیم
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيْم

اَلْحَمْدُ لِلّهِ رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلامُ عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔

سورۃ النصر میں نبی اکرم ﷺ کو اللہ کے ذکر اور استغفار کرنے کی تعلیم

سب سے پہلے سورۃ النصر کا آسان ترجمہ پیش خدمت ہے: جب اللہ کی مدد اور فتح آجائے، اور تم لوگوں کو دیکھ لو کہ وہ فوج در فوج اللہ کے دین میں داخل ہورہے ہیں، تو اپنے پروردگار کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرو اور اس سے مغفرت مانگو۔ یقین جانو وہ بہت معاف کرنے والا ہے۔
تین آیتوں پر مشتمل یہ مختصر سی سورۃ مدینہ منورہ میں نازل ہوئی۔ زیادہ تر مفسرین کے مطابق یہ سورۃ فتح مکہ سے کچھ پہلے نازل ہوئی تھی۔ اس میں یہ خوشخبری دی گئی ہے کہ مکہ مکرمہ فتح ہوجائے گا اور اس کے بعد لوگ جوق در جوق دین اسلام میں داخل ہوں گے۔ بعض مفسرین نے کہا ہے کہ یہ سورۃ حجۃ الوداع کے موقع پر نازل ہوئی، جس کے تین ماہ بعد (ربیع الاول ۱۱ ہجری) آپ ﷺ وفات پاگئے۔ یہ قرآن کریم کی آخری سورۃ ہے یعنی اس کے بعد کوئی مکمل سورۃ نازل نہیں ہوئی، البتہ بعض آیات اس کے بعد بھی نازل ہوئی ہیں۔
متعدد احادیث اور صحابۂ کرام کے اقوال سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سورۃ میں حضور اکرم ﷺ کی وفات کا وقت قریب آجانے کی طرف اشارہ ہے، جیسا کہ حدیث میں ہے کہ جب یہ سورۃ نازل ہوئی تو آپ ﷺ نے صحابۂ کرام کے مجمع کے سامنے اس کی تلاوت فرمائی جس میں حضرت ابوبکر ، حضرت عمر اور حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہم وغیرہ موجود تھے۔ سب اس کو سن کر خوش ہوئے کہ اس میں فتح مکہ کی خوشخبری ہے مگر حضرت عباس رضی اللہ عنہ رونے لگے۔ رسول اللہ ﷺ نے پوچھا کہ رونے کا کیا سبب ہے تو حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ اس میں تو آپ کی وفات کی خبر پوشیدہ ہے۔ حضور اکرمﷺ نے اس کی تصدیق فرمائی۔ اس سورۃ میں حضور اکرمﷺ کی وفات قریب ہونے کی طرف اشارہ ہونے کی وجہ سے اس سورۃ کو سورۃ التودیع بھی کہا گیا ہے۔
قرآن کریم کی اس سورۃ میں مذکور اصول وضابطہ سے معلوم ہوا کہ انسان کو اپنی زندگی کے آخری ایام میں تسبیح واستغفار کا خاص اہتمام کرنا چاہئے۔ یعنی ویسے تو ہمیں پوری زندگی ہی اللہ کے ذکر اور استغفار کے ساتھ گزارنی چاہئے۔ لیکن اگر بعض علامتوں سے محسوس ہو کہ موت کا وقت قریب آگیا ہے تو خاص طور پر استغفار کی کثرت کرنی چاہئے۔

فتح مکہ سے پہلے عربوں کی بہت بڑی تعداد کو حضور اکرم ﷺ کی رسالت اور اسلام کی حقانیت پر یقین تو ہوگیا تھا مگر قریش مکہ کی مخالفت کا خوف ان کے اسلام قبول کرنے سے مانع تھا۔ فتح مکہ کے بعد وہ رکاوٹ دور ہوگئی اور لوگ بڑی تعداد میں اسلام میں داخل ہونے لگے۔ اسی کی پیشن گوئی اس سورۃ میں دی گئی تھی۔ چنانچہ ۹ ہجری میں عرب کے گوشے گوشے سے بے شمار وفد حضور اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر اسلام قبول کرنے لگے۔ اسی لئے اس سال کو سال وفود کہا جاتا ہے۔

قیامت تک آنے والے تمام انس وجن کے نبی حضرت محمد مصطفی ﷺ نے نبوت کے بعد صرف ۲۳ سالہ زندگی میں ایسا انقلاب برپا کیا کہ کفر وشرک وجہالت میں ڈوبی ہوئی قوم کے عقائد واعمال واخلاق کو ایسی بلندی پر پہنچادیا کہ وہ پوری دنیا کے لئے نمونہ بن گئے۔ جن حضرات سے بکریاں چرانی نہیں آتی تھیں، انہوں نے دنیا کے ایک بڑے حصہ پر ایسی حکومت پیش کی کہ رہتی دنیا تک ان کی مثال پیش کی جاتی رہے گی۔ ۲۳ سالہ نبوت والی زندگی میں عظیم کامیابی حاصل کرنے والے سارے نبیوں کے سردار کو جشن منانے کا نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے اور اس سے مغفرت طلب کرنے کا حکم دیا جاتا ہے اور وہ عظیم ہستی پوری عاجزی کے ساتھ اللہ کے حکم کی تعمیل میں لگ جاتی ہے۔
فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ وَاسْتَغْفِرْہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اس سورۃ کے نازل ہونے کے بعد حضور اکرم ﷺ جب کوئی نماز پڑھتے تو یہ دعا کرتے تھے: سُبْحَانَکَ رَبَّنَا وَبِحَمْدِکَ، اللّٰہُمَّ اغْفِرْ لِی۔ (صحیح بخاری) حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اس سورت کے نزول کے بعد آپ اٹھتے بیٹھتے اور آتے جاتے ہر وقت یہ دعا پڑھتے تھے۔ سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہِ اَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ وَاَتُوْبُ اِلَےْہِ اور فرماتے تھے کہ مجھے اس کا حکم دیا گیا ہے، اور دلیل میں اِذَا جَآءَ نَصْرُ اللّٰہِ کی تلاوت فرماتے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اس سورت کے نزول کے بعد حضور اکرم ﷺ نے عبادت میں بڑا مجاہدہ فرمایا یہاں تک کہ آپ کے پاؤں مبارک میں ورم آجاتا۔

حضوراکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ کی قسم! میں اللہ تعالیٰ سے روزانہ ستر سے زیادہ مرتبہ گناہوں کی معافی طلب کرتا ہوں۔ (صحیح بخاری ۔ باب استغفار النبی فی الیوم واللیلۃ) ہمارے نبی اکرم ﷺ گناہوں سے پاک وصاف اور معصوم ہونے کے باوجود روزانہ ستر سے زیاہ مرتبہ استغفار کیا کرتے تھے، اس میں امت مسلمہ کو تعلیم ہے کہ ہم روزانہ اہتمام کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگتے رہیں، اس میں ہمارا ہی فائدہ ہے، جیسا کہ ہمارے نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص پابندی سے استغفار کرتا رہے (یعنی اپنے گناہوں سے معافی طلب کرتا رہے ) اللہ تعالیٰ اس کے لئے ہر تنگی سے نکلنے کا راستہ بنادیتے ہیں۔ ہر غم سے اسے نجات عطا فرماتے ہیں۔ اور ایسی جگہ سے روزی عطا فرماتے ہیں کہ جہاں سے اس کو گمان بھی نہیں ہوتا۔ ابوداود ۔ باب فی الاستغفار

قرآن وحدیث میں اللہ تعالیٰ کے ذکر کی متعدد فضیلتیں وارد ہوئی ہیں۔ صرف ایک حدیث پیش خدمت ہے کہ محسن انسانیت ﷺنے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ کے ذکر سے بڑھ کر کسی آدمی کا کوئی عمل عذاب سے نجات دلانے والا نہیں ہے۔ عرض کیا گیا : اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد بھی نہیں؟آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جہاد بھی اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچانے میں اللہ تعالیٰ کے ذکر سے بڑھ کر نہیں، مگر یہ کہ کوئی ایسی بہادری سے جہاد کرے کہ تلوار چلاتے چلاتے ٹوٹ جائے، پھر تو یہ عمل بھی ذکر کی طرح عذاب سے بچانے والا ہوسکتاہے۔ (طبرانی، مجمع الزوائد) قرآن کی تلاوت اور نماز بھی اللہ کا ایک ذکر ہے، لیکن قرآن وحدیث کی روشنی میں علماء امت نے تحریر کیا ہے کہ بعض اوقات خاص کر صبح وشام میں ہمارا کچھ وقت ضرور صرف اللہ کی تسبیح، تحمید اور تکبیر پڑھنے کے ساتھ درود شریف اور استغفار پڑھنے میں لگنا چاہئے۔

محمد نجیب قاسمی سنبھلی (www.najeebqasmi.com)
سورۃ الفلق ا ور سورۃ الناس کے ذریعہ جادو اور دیگر آفات سے حفاظت
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيْم

اَلْحَمْدُ لِلّهِ رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلامُ عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔

سورۃ الفلق ا ور سورۃ الناس کے ذریعہ جادو اور دیگر آفات سے حفاظت

ترجمہ سورۃ الفلق: (اے نبی!) کہو کہ میں صبح کے مالک (اللہ) کی پناہ مانگتا ہوں، ہر اُس چیز کے شر سے جو اُ س نے پیدا کی ہے، اور اندھیری رات کے شر سے جب وہ پھیل جائے، اور اُن جانو ں کے شر سے جو (گنڈے کی) گرہوں میں پھونک مارتی ہیں، اور حسد کرنے والے کے شر سے جب وہ حسد کرے۔

ترجمہ سورۃ الناس: (اے نبی!) کہو کہ میں پناہ مانگتا ہوں سب لوگوں کے پروردگار کی ، سب لوگوں کے بادشاہ کی، سب لوگوں کے معبود کی، اُس وسوسہ ڈالنے والے کے شر سے جو بار بار پلٹ کر آتا ہے۔ جو لوگوں کے دلوں میں وسوسے ڈالتا ہے، چاہے وہ جنات میں سے ہو، یا انسانوں میں سے۔

قرآن کریم کی یہ آخری دو سورتیں معوّذتین کہلاتی ہیں۔ ان دونوں سورتوں کے مکی یا مدنی ہونے میں مفسرین کا اختلاف ہے، لیکن جمہور مفسرین کی رائے ہے کہ یہ دونوں سورتیں مدنی ہیں اور یہ دونوں سورتیں اُس وقت نازل ہوئی تھیں جب ایک یہودی ’’لبید بن اعصم‘‘ نے نبی اکرم ﷺ پر جادو کرنے کی کوشش کی تھی، اور اس کے کچھ اثرات آپ ﷺ پر ظاہر بھی ہوئے تھے۔ احادیث سے ثابت ہے کہ ان سورتوں کی تلاوت اور اُن سے دم کرنا جادو کے اثرات دور کرنے اور دیگر دنیاوی آفات سے بچنے کے لئے بہترین عمل ہے۔ حضور اکرم ﷺان دونوں سورتوں کی تلاوت کرکے اپنے مبارک ہاتھوں پر دم کرتے اور پھر ان ہاتھوں کو پورے جسم پر پھیر لیتے تھے۔ آپ ﷺ صحابۂ کرام کو بھی ان سورتوں کو مختلف اوقات میں پڑھنے کی تعلیم دیتے تھے ۔ غرضیکہ ان دونوں سورتوں کو جادو، نظر بد اور جسمانی وروحانی آفات کے دور کرنے میں بڑی تاثیر ہے، اور ہر شخص ان کے منافع اور برکات کو حاصل کرنے کا محتاج ہے۔

الفاظ کی تحقیق: قُلْ ’’کہو‘‘ اس ارشاد کے اولین مخاطب تو حضور اکرم ﷺ ہیں، مگر قیامت تک آنے والے تمام انس وجن بھی اس کے مخاطب ہیں۔ اَعُوْذُ ’’میں پناہ مانگتا ہوں‘‘۔ پناہ مانگنے سے مراد کسی چیز سے خوف محسوس کرکے اپنے آپ کو اس سے بچانے کے لئے کسی دوسرے کی حفاظت میں جانا۔ مؤمن ایسی تمام آفات جن کو دور کرنے پر وہ خود اپنے آپ کو قادر نہیں سمجھتا، صرف اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرتا ہے اور اسی کی پناہ مانگتا ہے۔ فَلَق کے لفظی معنی پھٹنے کے ہیں، یہاں صبح کا نمودار ہونا مراد ہے۔ رَبِّ الْفَلَقِ سے اللہ جل جلالہ مراد ہیں۔ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ میں ساری مخلوق داخل ہے، یعنی میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں ساری مخلوق کے شر سے۔ یہاں تین چیزوں کے شر سے خاص طور پر پنا ہ مانگی گئی ہے: اور اندھیری رات کے شر سے جب وہ پھیل جائے، اور انُ جانوں کے شر سے جو (گنڈے کی) گرہوں میں پھونک مارتی ہیں، اور حسد کرنے والے کے شر سے جب وہ حسد کرے۔

اندھیری رات کے شر سے خاص طور پر اس لئے پناہ مانگی گئی ہے کہ عام طور پر جادوگروں کی کاروائیاں رات کے اندھیروں میں ہوا کرتی ہیں۔ ’’نفّٰثٰت‘‘ میں مردو عورت دونوں داخل ہیں، جادوگر مرد ہوں یا عورت، دھاگے کے گنڈے بناکر اس میں گرہیں لگاتے جاتے ہیں، اور ان پر کچھ پڑھ پڑھ کر پھونکتے رہتے ہیں، اُن کے شر سے پناہ مانگی گئی ہے۔ نبی اکرم ﷺ پر جادو رات میں کیا گیا تھا، گرہیں باندھ کر کیا گیا تھا اور آپ سے حسد کی بنیاد پر کیا گیا تھا، اس لئے ان تین چیزوں سے خاص طور پر پناہ مانگی گئی۔ ’’حسد‘‘ کے معنی ہیں کسی کی نعمت وراحت کو دیکھ کر جلنا اور یہ چاہنا کہ اس سے یہ نعمت ختم ہوجائے چاہے اس کو بھی حاصل نہ ہو۔ حسد حرام اور گناہ کبیرہ ہے۔سورہ فلق میں اللہ کی ایک صفت رب الفلق ذکر کرکے تین چیزوں سے پناہ مانگی گئی تھی۔ سورۃ الناس میں اللہ تعالیٰ کی تین صفات (رَبِّ النَّاسِ، مَلِکِ النَّاسِ اور اِلٰہِ النَّاسِ) ذکر کرکے ایک چیز سے پناہ مانگی گئی ہے اور وہ ہے شیطان کے وسوسہ ڈالنے سے۔ ’’وَسْوَاسِ الْخَنَّاسِ‘‘ وسواس کے معنی بار بار وسوسہ ڈالنے کے ہیں، اور خناس کے معنی ظاہر ہونے کے بعد چھپنے، یا آنے کے بعد پیچھے ہٹ جانے کے ہیں۔ یعنی وہ بار بار وسوسہ اندازی کی کوشش کرتا ہے، ایک بار ناکامی پر دوبارہ، سہ بارہ اور بار بار آتا رہتا ہے۔

کیا شیطان کوئی مستقل مخلوق ہے؟ انسان، جنات اور فرشتوں کی طرح شیطان کوئی مستقل مخلوق نہیں ہے بلکہ شیطان انسانوں اور جنات میں سے اللہ کے نافرمان بندے ہوتے ہیں، جو خود گمراہ ہونے کے ساتھ دوسروں کو بھی گمراہ کرتے ہیں۔ شیطانوں کا سردار ’’ابلیس‘‘ جن میں سے ہے، جیساکہ فرمان الہٰی ہے: اِلَّا اِبْلِيْسَ کَانَ مِنَ الْجِنِّ (سورۃ الکہف ۵۰)۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: اور (جس طرح یہ لوگ ہمارے نبی سے دشمنی کررہے ہیں) اسی طرح ہم نے ہر (پچھلے) نبی کے لئے کوئی نہ کوئی دشمن پیدا کیا تھا، یعنی انسانوں اور جنات میں سے شیطان قسم کے لوگ، جو دوھوکا دینے کی خاطر ایک دوسرے کو بڑی چکنی چپڑی باتیں سکھاتے رہتے تھے۔ اور اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو وہ ایسا نہ کرسکتے۔ لہٰذا ان کو اپنی افترا پردازیوں میں پڑا رہنے دو۔ (سورۃ الانعام ۱۱۲) شیطان جو جنات میں سے ہوتے ہیں، وہ نظر نہیں آتے اور دلوں میں وسوسہ ڈالتے ہیں، لیکن انسانوں میں سے جو شیطان ہوتے ہیں وہ نظر آتے ہیں، اور ان کی باتیں ایسی ہوتی ہیں کہ انہیں سن کر انسان کے دل میں طرح طرح کے برے خیالات اور وسوسے آجاتے ہیں۔ اس لئے اس سورت میں دونوں قسم کے وسوسہ ڈالنے والوں سے پناہ مانگی گئی ہے۔

ان آیات میں اگرچہ شیطان کے وسوسہ ڈالنے کا ذکر آیا ہے، لیکن اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگنے کی تلقین کرکے یہ بھی واضح فرمادیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگنے اور اُس کا ذکر کرنے سے وہ پیچھے ہٹ جاتا ہے۔ نیز سورۃ النساء ۷۶ میں فرمایا گیا ہے کہ اس کی چالیں کمزور ہیں، اور اس میں اتنی طاقت نہیں ہے کہ وہ انسان کو گناہ پر مجبور کرسکے۔ سورۃ ابراہیم ۲۲ میں خود اس کا یہ اعتراف اللہ تعالیٰ نے نقل فرمایا ہے کہ مجھے انسانوں پر کوئی اقتدار حاصل نہیں۔ یہ تو انسان کی ایک آزمائش ہے کہ وہ انسان کو بہکانے کی کوشش کرتا ہے، لیکن جو بندہ اس کے بہکانے میں آنے سے انکار کرے، اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگ لے تو شیطان اس کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتا ہے۔

کیا جادو برحق ہے؟ قرآن وحدیث کی روشنی میں پوری امت مسلمہ متفق ہے کہ جادو برحق ہے۔ تقریباً ۲۵ مرتبہ قرآن کریم میں جادو کا ذکر وارد ہوا ہے۔ سورۃ البقرہ آیت ۱۰۲ کی روشنی میں علماء کرام نے فرمایا ہے کہ جادو کرنا یا کروانا حرام ہے، بلکہ بعض علماء نے کہا ہے کہ جادو کرنے والا اور کروانے والا دائرہ اسلام سے ہی نکل جاتا ہے۔ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص جادو کرے یا جادو کروائے یا گرہ لگائے اور جو شخص کسی عامل کے پاس جائے اور اس کی باتوں کی تصدیق کرے تو گویا اس نے اس چیز کے ساتھ کفر کیا جو محمد پر نازل کی گئی ہے۔ (مسند بزاز، معجم کبیر، مجمع الزوائد) اسی طرح حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: سات ہلاک کرنے والی چیزوں سے بچو۔ اللہ کے ساتھ شرک کرنا۔ جادو کرنا۔ کسی کو ناحق قتل کرنا۔ سود کھانا۔ یتیم کا مال ناحق ہڑپ کرنا۔ میدان جنگ سے راہ فرار اختیار کرنا۔ معصوم پاکدامن عورتوں پر برائی کی تہمت لگانا۔ (صحیح بخاری وصحیح مسلم) کسی بھی صحابی یا تابعی نے جادو سے انکارنہیں کیا اور یہ جادو ان کے دور میں بلکہ اس سے بھی بہت پہلے سے موجود ہے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے عہد میں جادو کا ذکر تو وضاحت کے ساتھ قرآن کریم میں وارد ہوا ہے۔ غرضیکہ جادو برحق ہے، لیکن جادو کرنا یا کروانا حرام اور انسان کو ہلاک کرنے والا گناہ کبیرہ ہے۔ بعض علماء کی رائے میں جادو کرنا یا جادو کروانا کفر ہے۔ اس زمانہ میں بعض لوگوں نے اپنی اپنی دکانیں کھول رکھی ہیں، اس میں سے ۹۹فیصد لوگ ڈھونگی ہوتے ہیں، نہ وہ جادو کرنا جانتے ہیں اور نہ ہی ان کو جادو کا توڑ معلوم ہوتا ہے۔ یہ لوگ عوام خاص کر خواتین کو بے وقوف بناکر پیسہ ٹھگتے ہیں۔

کیا نبی اکرم ﷺ پر جادو ہوا تھا؟ متعدد احادیث صحیحہ حتی کہ حدیث کی سب سے مشہور ومعروف کتاب (صحیح بخاری ۔کتاب الطب ۔ باب السحر) میں وارد حدیث کی بنیاد پر جمہور مفسرین ومحدثین وعلماء کرام نے تحریر کیا ہے کہ حضور اکرم ﷺ پر جادو کروایا گیا تھا۔ اور اس کے کچھ اثرات آپ ﷺپر ظاہر بھی ہوئے تھے۔لبید بن اعصم ایک یہودی نے آپ ﷺ کی کنگھی حاصل کرکے اس میں گیارہ گرہیں لگاکر اس کو ایک (سوکھے) کنویں میں پتھر کے نیچے دبا دیا تھا۔ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے آپ ﷺ کو اس پورے واقعہ کی اطلاع فرمائی، آپ ﷺ نے اس کنگھی کو حاصل کیا، اللہ تعالیٰ نے یہ دونوں سورتیں نازل فرمائیں جن میں گیارہ آیات ہیں، آپﷺ ہر گرہ پر ایک ایک آیت پڑھ کر ایک ایک گرہ کھولتے رہے، یہاں تک کہ سب گرہیں کھل گئیں، اور آپ سے اچانک ایک بوجھ سا اتر گیا۔ بعض حضرات نے یہ کہہ کر حضور اکرم ﷺ پر جادو کا اثر ہونا منصب نبوت کے منافی ہے، تمام احادیث صحیحہ کا انکار کرکے کہہ دیا کہ حضور اکرم ﷺ پر کوئی جادو نہیں ہوا تھا۔ لیکن ان کے اس خود ساختہ موقف کی وجہ سے احادیث صحیحہ کا انکار کرنا لازم آئے گا، جو کسی بھی حال میں قابل قبول نہیں ہے۔ حضور اکرمﷺ پر ہوئے جادو کے اثرات صرف آپ ﷺ کی ذات تک محدود رہے حتی کہ صحابۂ کرام کو یہ معلوم تک نہ ہوسکا کہ آپ ﷺ پر کیا گزر رہی ہے۔ رہی آپ کے نبی ہونے کی حیثیت تو آپ ﷺ کے فرائض کے اندر کوئی خلل واقع نہ ہونے پایا۔ کسی ایک روایت میں بھی یہ نہیں ملتا کہ اس زمانہ میں آپ ﷺقرآن کی کوئی آیت بھول گئے ہوں یا آپﷺ سے نماز چھوٹ گئی ہو یا آپ ﷺکی زبان مبارک سے کوئی غلط بات نکلی ہو۔ غرضیکہ جادو کا اثر بھی اسباب طبیعہ کا اثر ہوتا ہے، بعض اسباب طبعیہ سے بخار آجانا یا مختلف قسم کے درد وامراض کا پیدا ہوجانا ایک امر طبیعی ہے، جس سے پیغمبر وانبیاء مستثنیٰ نہیں ہوتے، اسی طرح جادو کااثر بھی اسی قسم سے ہے۔
کیا دونوں سورتوں سے دنیاوی واخروی آفات سے حفاظت ممکن ہے؟ ہمارا یہ ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مرضی کے بغیر کوئی بھی چیز ہمیں نفع ونقصان نہیں پہنچا سکتی ہے۔ احادیث میں ان دونوں سورتوں کے متعدد فضائل اور برکات مذکور ہیں۔ یعنی اللہ کے حکم سے ان سورتوں کی تلاوت سے متعدد دنیاوی واخروی آفات سے حفاظت ہوسکتی ہے، حتی کہ جادو سے بھی ہماری حفاظت ممکن ہے۔

حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: تمہیں کچھ خبر بھی ہے کہ آج کی رات اللہ تعالیٰ نے مجھ پر ایسی آیات نازل فرمائی ہیں کہ ان کی مثل نہیں دیکھی۔ یعنی ’’قل اعوذ بربِّ الفلق‘‘ اور ’’قل اعوذ بربِّ الناس‘‘۔صحیح مسلم ۔ باب فضل قراء ۃ المعوذتین

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کو جب کوئی بیماری پیش آتی تو یہ دونوں سورتیں پڑھ کر اپنے اوپر دم کرتے۔ پھر جب مرض الوفات میں آپ کی تکلیف بڑھ گئی تو میں یہ سورتیں پڑھ کر آپ کے ہاتھوں سے آپ کے جسد مبارک پر پھیرتی تھی برکت کی امید سے۔ صحیح بخاری وصحیح مسلم

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہر رات جب بستر پر آرام کے لئے لیٹتے تو اپنی دونوں ہتھیلیوں کو ایک ساتھ کرکے ’’قل ہو اللہ احد‘‘، ’’قل اعوذ برب الفلق‘‘ اور ’’قل اعوذ برب الناس‘‘ پڑھ کر ان پر پھونکتے تھے اور پھر دونوں ہتھیلیوں کو جہاں تک ممکن ہوتا اپنے جسم پر پھیرتے تھے۔ سر ، چہرہ اور جسم کے آگے کے حصہ سے شروع کرتے۔ یہ عمل آپ تین مرتبہ کرتے تھے۔بخاری ۔ باب فضل المُعَوذات

حضرت عبد اللہ بن خبیب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک رات میں بارش اور سخت اندھیرا تھا، ہم رسول اللہ ﷺ کو تلاش کرنے کے لئے نکلے، جب آپﷺ کو پالیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ کہو، میں نے عرض کیا کہ کیا کہوں، آپ ﷺ نے فرمایا، قل ہو اللہ احد، اور معوذتین پڑھو، جب صبح اور شام ہو، تین مرتبہ یہ پڑھنا تمہارے لئے ہر تکلیف سے امان ہوگا۔ ابوداود، ترمذی، نسائی

حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے انہیں حکم کیا کہ ہر نماز کے بعد معوذات پڑھا کرو۔ یعنی ’’قل اعوذ بربِّ الفلق‘‘ اور’’ قل اعوذ بربِّ الناس‘‘۔ (صحیح مسلم ۔ باب فضل قراء ۃ المعوذتین) بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ سورۃ اخلاص بھی معوذات میں شامل ہے۔

خلاصۂ کلام یہ ہے کہ حضورا کرم ﷺ اور صحابۂ کرام کا ان دونوں سورتوں کو سوتے وقت، صبح وشام اور ہر نماز کے بعد پڑھنے کا معمول تھا۔ ہمیں بھی اس کا اہتمام کرنا چاہئے، اللہ تعالیٰ کے حکم سے جادو اور متعدد آفات سے حفاظت ہوگی۔ نیز ہمیں ہمیشہ شیطانی طاقتوں سے مقابلہ کرکے اللہ کی عبادت میں سبقت کرنی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ کی جانب سے جو فرائض ہم پر عائد کئے گئے ہیں ان پر نبی اکرم ﷺ کے طریقہ کے مطابق عمل کرنا چاہئے۔ اگر شیطانی طاقتیں ہمارے دل ودماغ میں اسلامی تعلیمات کے خلاف وساوس ڈالیں تو علماء کرام سے قرآن وحدیث کی روشنی میں رجوع فرمائیں۔ بے شمار دنیاوی امور میں بھی بات سمجھ میں آئے یا نہ آئے، ہم ہتھیار ڈال دیتے ہیں۔ مثلاً ایک خوبصورت صحت مند نوجوان جس نے پوری زندگی کسی کو تکلیف بھی نہیں دی اور بے شمار خوبیوں کا مالک بھی ہے مگر چلتے چلتے ٹھوکر کھاکر مرجائے تو پوری دنیا باوجویکہ اس کے ساتھ ہمدردی رکھتی ہے، اللہ تعالیٰ کے فیصلہ کے سامنے سرتسلیم خم کردیتی ہے۔ اسلام کی تو بنیاد ہی خالق کائنات کے سامنے اپنے آپ کو جھکانے پر ہے، لہٰذا اگر شیطانی طاقتیں اللہ کی عبادت سے ہٹانے کی کوشش کریں تو اللہ کی پناہ لیں، اس کا ذکر کریں اور اس کے احکام پر عمل کریں۔ اسی میں میری، آپ کی اور پوری انسانیت کی کامیابی مضمر ہے۔

محمد نجیب قاسمی سنبھلی (www.najeebqasmi.com)

ختم قرآن کے بعد سورۃ البقرہ کی پانچویں آیت تک تلاوت کرنے کا حکم
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيْم

اَلْحَمْدُ لِلّهِ رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلامُ عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔

ختم قرآن کے بعد سورۃ البقرہ کی پانچویں آیت تک تلاوت کرنے کا حکم

ختم قرآن کے بعد سورۃ البقرہ کی پانچویں آیت (وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ) تک دوبارہ سے تلاوت کرنے کی مشروعیت کے متعلق علماء کرام میں اختلاف ہے۔ علماء کرام کی ایک جماعت کی رائے ہے کہ مندرجہ ذیل دلائل کی روشنی میں یہ عمل مشروع ہونے کے ساتھ ساتھ مستحب بھی ہے۔

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اور حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ جب قل اعوذ برب الناس تک پڑھتے تو الحمد سے دوبارہ شروع فرماکر سورۃ البقرہ کی ابتداء سے وَاُولٰءِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنتک پڑھتے، پھر دعا فرماتے۔ یہ حدیث امام دارمی (۱۸۱ھ ۔ ۲۲۵ھ)نے سنن الدارمی میں اور امام سیوطیؒ نے الاتقان ۱/ ۲۹۵ میں ودیگر محدثین نے اپنی اپنی کتابوں میں ذکر فرمائی ہے۔

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے پوچھا یا رسول اللہ! کونسا عمل اللہ کے نزدیک زیادہ محبوب ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: آدمی قرآن ختم کرکے شروع کرنے والا بن جائے۔ سنن ترمذی ۔ کتاب القراء ۃ

علامہ ابن الجزری ؒ (۷۵۱ھ ۔ ۸۳۳ھ) نے اپنی کتاب (النشر ۲ / ۴۴۹) میں تحریر کیا ہے کہ اسلاف مستحب سمجھتے تھے کہ ختم قرآن کے بعد قرآن کی ابتدائی آیات پڑھی جائیں۔ نیز قراء حضرات بھی اس کا اہتمام کرتے چلے آئے ہیں۔

مسلم کی سب سے مشہور شرح لکھنے والے علامہ نووی ؒ (۶۳۱ھ ۔ ۶۷۶ھ) فرماتے ہیں کہ قرآن کے اختتام پر مستحب ہے کہ قرآن کی ابتدائی آیات پڑھی جائیں۔ اس عمل کو اسلاف اور اخلاف دونوں نے مستحب قرار دیا ہے، اور حضرت انس رضی اللہ عنہ کی حدیث کو دلیل کو طور پر پیش کیا ہے۔ التبیان فی آداب حملۃ القرآن ۱۱۰

مفسر قرآن اما م سیوطی ؒ نے تحریر کیا ہے: سنن ترمذی ودیگر کتب حدیث میں وارد حدیث کی بنا پر ختم قرآن کے موقعہ پر مستحب ہے کہ قرآن کی ابتدائی آیات بھی تلاوت کی جائیں۔ الاتقان ۱ / ۲۹۵

علماء کی دوسری جماعت نے کہا ہے کہ اس موضوع سے متعلق احادیث کی سند میں ضعف کی وجہ سے ختم قرآن کے بعد (وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ) تک پڑھنا مستحب نہیں ہے۔ لیکن علماء کی پہلی جماعت کہتی ہے کہ متعدد احادیث کا بالکلیہ انکار کرنا مناسب نہیں ہے۔ لہٰذا یہ کہنا بہتر ہے کہ جو چاہے اس پر عمل کرے اور جو چاہے اس پر عمل نہ کرے، البتہ اس پر عمل کرنا نہ کرنے سے بہتر اور افضل ہے۔

محمد نجیب قاسمی سنبھلی، ریاض (www.najeebqasmi.com)

سورۃ الاخلاص میں مکمل توحید اور ہر طرح کے شرک سے نفی ہے
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيْم

اَلْحَمْدُ لِلّهِ رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلامُ عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔

سورۃ الاخلاص میں مکمل توحید اور ہر طرح کے شرک سے نفی ہے

سورۃ الاخلاص کا آسان ترجمہ: اے محمد! کہہ دو کہ اللہ تعالیٰ ایک ہے۔ اللہ تعالیٰ بے نیاز ہے، یعنی سب اس کے محتاج ہیں، وہ کسی کا محتاج نہیں۔ نہ اس کی کوئی اولاد ہے، اور نہ وہ کسی کی اولاد ہے۔ اور اس کے جوڑ کا کوئی بھی نہیں، یعنی اس جیسا کوئی بھی نہیں ہے کیونکہ وہی خالق حقیقی ومعبود حقیقی ہے ،باقی کائنات کا ذرہ ذرہ اس کی مخلوق ہے۔

شان نزول: اس سورت کے مکی یا مدنی ہونے میں اختلاف ہے۔ بعض احادیث میں مذکور ہے کہ مشرکین مکہ نے رسول اللہ ﷺ سے کہا اپنے رب کا نسب ہمیں بیان کیجئے۔ اس پر یہ سورت نازل ہوئی۔ بعض روایات میں ہے کہ یہودیوں کے ایک گروہ نے حضور اکرم ﷺ سے کہا کہ اپنے رب کے متعلق بتائیں کہ وہ رب کیسا ہے، جس نے آپ کو بھیجا ہے۔ اس پر یہ سورت نازل ہوئی۔ غرضیکہ مختلف مواقع پر حضور اکرم ﷺ سے اُس معبود کے متعلق سوال کیا گیا جس کی عبادت کی طرف آپﷺ لوگوں کو دعوت دے رہے تھے۔ ہر موقع پر آپ ﷺ نے اللہ کے حکم سے ان کے جواب میں یہی سورت سنائی تھی۔ البتہ سب سے پہلے یہ سوال مشرکین مکہ نے کیا تھا، اور ان کے جواب میں ہی یہ سورت (سورۃ الاخلاص) نازل ہوئی تھی۔

الفاظ کی تحقیق: قُلْ: اس کے اولین مخاطب تو نبی اکرم ﷺ ہیں کیونکہ آپ ہی سے سوال کیا گیا تھا کہ آپ کا رب کون ہے اور کیسا ہے؟، لیکن حضور کے بعد ہر مسلمان اس کا مخاطب ہے، یعنی ہر مسلمان کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کو بیان کرے۔ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ: اللہ اُس ذات اقدس کا نام ہے جو ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا، جو یکتا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، جس نے اپنی قدرت سے یہ پوری کائنات بنائی ہے، اور وہی تنہا اس پوری کائنات کے نظام کو چلا رہا ہے۔ اللَّهُ الصَّمَدُ: اللہ تعالیٰ کی پہلی صفت بیان کی گئی کہ وہ صمد ہے۔ صمد لفظ کا مفہوم اردو کے کسی ایک لفظ سے ادا نہیں ہوسکتا۔ اس کے مفہوم میں دو باتیں ہیں کہ سب اس کے محتاج ہیں، اور وہ کسی کا محتاج نہیں ہے۔ لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ: نہ اس کی کوئی اولاد ہے، اور نہ وہ کسی کی اولاد ہے۔ یہ اُن لوگوں کا جواب ہے جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے نسب نامہ کا سوال کیا تھا کہ اللہ رب العزت کو مخلوق پر قیاس نہیں کیا جاسکتا ہے، جو توالد اور تناسل کے ذریعہ وجود میں آتی ہے۔ نیز اس میں اُن لوگوں کی تردید ہے جو فرشتوں کو اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں کہتے تھے، یا حضرت عیسیٰ یا حضرت عزیر علیہما السلام کو اللہ تعالیٰ کا بیٹا قرار دیتے تھے۔ وَلَمْ يَكُن لَّهُ كُفُوًا أَحَدٌ: کفو کے لفظی معنی مثل اور مماثل کے ہیں۔ یعنی نہ کوئی اس کا مثل ہے اور نہ کوئی اس سے مشابہت رکھتا ہے۔ بات دراصل یہ ہے کہ ہم موت کو آج تک اپنی عقلوں سے نہیں سمجھ سکے تو اس ذات اقدس کو اپنی عقلوں سے کیسے سمجھ سکتے ہیں جو زندگی اور موت کا خالق ہو۔اس کے دیکھنے، سننے اور ہر طرح کی خبر رکھنے کو مخلوق کے سننے، اور دیکھنے پر قیاس نہیں کیا جاسکتا۔ ہمیں اللہ کی ذات کو سمجھنے کے لئے اللہ کی مخلوقات میں غور وخوض کرنا چاہئے، مثلاً سورج، چاند، ستارے، آسمان، زمین، پانی، ہوا، آگ، دھوپ، درخت، پہاڑ، جانور، پھل، سبزیاں وغیرہ کیسے وجود میں آگئے۔ خود ہمیں اپنے جسم کے اعضاء پر بھی غور کرنا چاہئے کہ ہمارے جسم کا سارا نظام کیسے چل رہا ہے۔صرف انگوٹھے کے نشان پر غور کریں کہ آج تک دو انسانوں کے انگوٹھے کا نشان ایک جیسا نہیں ہوا۔

خلاصۂ تفسیر:اس سورت کی ان چار مختصر آیات میں اللہ تعالیٰ کی توحید کو انتہائی جامع انداز میں بیان فرمایا گیاہے۔ پہلی آیت (قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ) میں اُن لوگوں کی تردید ہے جو ایک سے زیادہ معبودوں کے قائل ہیں۔ دوسری آیت (اللَّهُ الصَّمَدُ) میں اُن لوگوں کی تردید ہے جو اللہ تعالیٰ کو ماننے کے باوجود کسی اور کو اپنا مشکل کشا اور حاجت روا تسلیم کرتے ہیں۔تیسری آیت (لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ) میں اُن لوگوں کی تردید ہے جو فرشتوں کو اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں کہتے تھے، یا حضرت عیسیٰ یا حضرت عزیر علیہما السلام کو اللہ تعالیٰ کا بیٹا قرار دیتے تھے۔ اور چوتھی آیت (وَلَمْ يَكُن لَّهُ كُفُوًا أَحَدٌ) میں اُن لوگوں کی تردید ہے جو اللہ تعالیٰ کی کسی بھی صفت میں کسی اور کی برابری کے قائل ہیں۔ اس طرح مختصر سی سورت نے شرک کی تمام صورتوں کو باطل قرار دے کر خالص توحید ثابت کی ہے۔ اسی لئے اس سورت کو سورۃ الاخلاص کہا جاتا ہے۔

سورۃ الاخلاص میں مکمل توحید اور ہر طرح کے شرک سے نفی ہے: اس سورت میں ہر طرح کے مشرکانہ خیالات کی نفی کرکے مکمل توحید کا سبق دیا گیا ہے کہ اللہ ہی ساری کائنات کا خالق، مالک اور رازق ہے۔ وہی حقیقی بادشاہ ہے، وہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ اسے اونگھ بھی نہیں آتی ہے۔ وہ نہ کبھی سوتا ہے، نہ کھاتا ہے اور نہ وہ پیتا ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔ اگر کائنات میں دو رب ہوتے تو دونوں کا آپس میں اختلاف ہونے کی وجہ سے دنیا کا نظام کب کا درہم برہم ہوگیا ہوتا۔ وہ انسان کے شہ رگ سے زیادہ قریب ہے۔ وہ ہر شخص کے ہر عمل سے پوری طرح واقف ہے۔ وہ کائنات کے ذرہ ذرہ کا علم رکھتا ہے۔ نہ وہ کسی کی اولاد ہے اور نہ کوئی اس کی اولاد ہے، بلکہ سب اس کی مخلوق ہیں۔انسان، جن، چرند، پرند، درند سب اس کے محتاج ہیں، وہ کسی کا محتاج نہیں ہے۔ وہ سب کے بغیر سب کچھ کرنے والا ہے، اور پوری کائنات مل کر بھی اس کی مرضی کے بغیر کچھ نہیں کرسکتی۔ حاجت روا، مشکل کشا اور مسائل کا حل کرنے والی ذات صرف اور صرف اللہ کی ہے۔ وہی مرض اور شفاد ینے والا ہے۔ وہی عزت وذلت دینے والا ہے۔ وہی زندگی اور موت دینے والا ہے۔ اسی نے زندگی اور موت کو بنایا ہے تاکہ وہ آزمائے کہ ہم میں سے کون اچھے اعمال کرنے والے ہیں۔

سورۃ الاخلاص کے بعض فضائل نبی اکرم ﷺ کی زبانی:

سورۃ الاخلاص ایک تہائی قرآن کے برابر:

ایک مرتبہ حضور اکرم ﷺ نے لوگوں سے فرمایا کہ سب جمع ہوجاؤ، میں تمہیں ایک تہائی قرآن سناؤں گا۔ جو جمع ہوسکتے تھے، جمع ہوگئے، تو آپ ﷺ تشریف لائے اور قُلْ ہُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ یعنی سورۃ الاخلاص کی تلاوت فرمائی۔ اور ارشاد فرمایا کہ یہ سورت ایک تہائی قرآن کے برابر ہے۔ صحیح مسلم ۔ باب فضل قراء ۃ قُلْ ہُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ

حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے ایک دوسرے صحابی (حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ) کو دیکھا کہ وہ سورۃ قُلْ ہُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ بار بار دہرارہے ہیں۔ صبح ہوئی تو حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے، اور نبی اکرم ﷺ کے سامنے اس کا ذکر کیا کیونکہ وہ اسے معمولی عمل سمجھتے تھے (کہ ایک چھوٹی سی سورت کو بار بار دہرایا جائے)۔ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے۔ یہ سورت قرآن کریم کی ایک تہائی کے برابر ہے۔ صحیح بخاری ۔ باب فضلقُلْ ہُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ

مذکورہ بالا ودیگر احادیث میں سورۃ الاخلاص کو ایک تہائی قرآن کے برابر قرار دیا ہے، جس کی مفسرین نے مختلف توجیہ بیان فرمائی ہیں:

۱) قرآن کریم نے بنیادی طور پر تین عقیدوں پر زور دیا ہے: توحید، رسالت اور آخرت۔ اس سورت میں ان تین عقیدوں میں سے توحید کے عقیدے کی مکمل وضاحت فرمائی گئی ہے۔ اس لئے اس سورت کو ایک تہائی قرآن کہا گیا ہے۔

۲) قرآن کریم میں تین امور خاص طور پر ذکر کئے گئے ہیں۔ اللہ کی صفات، احکام شرعیہ اور انبیاء کرام وپہلی امتوں کے قصے۔ اس سورت میں اللہ کی جملہ صفات کو اجمالی طور پر ذکر کیا گیا ہے، یعنی اس سورت میں تین امور میں سے ایک امر کا مکمل طور پر اجمالی ذکر آگیا ہے،اس لئے اس سورت کو ایک تہائی قرآن کہا گیا ہے۔

۳) قرآن کریم کے معانی اور مفہوم تین علوم پر مشتمل ہیں۔ علم التوحید، علم الشرائع اور علم اخلاق وتزکیہ نفس ، اس سورت میں علم التوحید سے متعلق بیان کیا گیا ہے، اس وجہ سے سورۃ الاخلاص کو نبی اکرم ﷺ نے ایک تہائی قرآن کے برابر قرار دیا ہے۔

سورۃ الاخلاص کی کثرت سے تلاوت کرنے والا اللہ کا عزیز:

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور اکرم ﷺ نے ایک صاحب کو ایک مہم پر روانہ کیا۔ وہ صاحب اپنے ساتھیوں کو نماز پڑھاتے تھے۔ اور نماز میں ختم قُلْ ہُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ پر کرتے تھے۔ جب لوگ واپس آئے تو اس کا تذکرہ حضور اکرم ﷺ سے کیا۔ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کہ ان سے پوچھو کہ وہ یہ طرز عمل کیوں اختیار کئے ہوئے تھے۔ چنانچہ لوگوں نے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ وہ ایسا ا س لئے کرتے تھے کہ یہ صفت اللہ کی ہی اور میں اسے پڑھنا عزیز رکھتا ہوں۔ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ انہیں بتادو کہ اللہ بھی انہیں عزیز رکھتا ہے۔ صحیح بخاری ۔ کتاب التوحید ۔ باب ما جاء فی دعاء النبی ﷺ

سورۃ الاخلاص سے سچی محبت کرنے والا جنت میں جائے گا:

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک انصاری صحابی مسجد قباء میں ہم لوگوں کی امامت کرتے تھے۔ ان کی عادت تھی کہ جب بھی نماز میں سورۃ فاتحہ کے بعد کوئی سورت پڑھنے لگتے تو پہلے سورۃ الاخلاص پڑھتے پھر کوئی دوسری سورت پڑھتے اور ہر رکعت میں اسی طرح کرتے تھے۔ ان کے ساتھیوں نے ان سے کہا کیا آپ سورۃ الاخلاص پڑھنے کے بعد یہ سوچتے ہیں کہ یہ کافی نہیں جو دوسری سورت بھی پڑھتے ہیں۔ یا تو آپ یہ سورت پڑھ لیا کریں یا پھر کوئی اور سورت۔ انہوں نے فرمایا: میں اسے (سورۃ الاخلاص کی تلاوت) ہرگز نہیں چھوڑوں گا۔ اگر تم لوگ چاہتے ہو کہ میں تمہاری امامت کروں تو ٹھیک ہے ورنہ میں (امامت) چھوڑ دیتا ہوں۔ وہ لوگ انہیں اپنے میں سب سے افضل سمجھتے تھے، لہٰذا کسی اور کی امامت پسند نہیں کرتے تھے۔ چنانچہ جب رسول اللہﷺ تشریف لائے تو انہوں نے حضور اکرم ﷺ سے یہ قصہ بیان کیا۔ آپ ﷺ نے اُن سے پوچھا: تمہیں اپنے ساتھیوں کی تجویز پر عمل کرنے سے کون سی چیز روکتی ہے؟ اور کیا وجہ ہے کہ تم ہر رکعت میں یہ سورت پڑھتے ہو؟ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! میں اس سورت سے محبت کرتا ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: تمہیں اس سورت کی محبت یقیناًجنت میں داخل کرے گی۔ ترمذی۔ کتاب فضائل القرآن ۔ باب ما جاء فی سورۃ الاخلاص

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں حضور اکرم ﷺ کے ساتھ تھا کہ آپ ﷺ نے کسی کو سورۃ الاخلاص پڑھتے ہوئے سنا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: واجب ہوگئی۔ میں نے پوچھا: کیا واجب ہوگی؟ آپ ﷺ نے فرمایا: جنت۔ (ترمذی۔ کتاب فضائل القرآن ۔ باب ما جاء فی سورۃ الاخلاص) یعنی جس نے اس سورت کے تقاضوں پر عمل کرلیا تو وہ ان شاء اللہ جنت میں داخل ہوگیا۔

معوذتین کی طرح سورۃ الاخلاص کی تلاوت دنیاوی آفات سے حفاظت کا ذریعہ:

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہر رات جب بستر پر آرام کے لئے لیٹتے تو اپنی دونوں ہتھیلیوں کو ایک ساتھ کرکے ’’قل ہو اللہ احد‘‘، ’’قل اعوذ برب الفلق‘‘ اور ’’قل اعوذ برب الناس‘‘ پڑھ کر ان پر پھونکتے تھے اور پھر دونوں ہتھیلیوں کو جہاں تک ممکن ہوتا اپنے جسم پر پھیرتے تھے۔ سر ، چہرہ اور جسم کے آگے کے حصہ سے شروع کرتے۔ یہ عمل آپ تین مرتبہ کرتے تھے۔بخاری ۔ باب فضل المُعَوذات

حضرت عبد اللہ بن خبیب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک رات میں بارش اور سخت اندھیرا تھا، ہم رسول اللہ ﷺ کو تلاش کرنے کے لئے نکلے، جب آپﷺ کو پالیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ کہو، میں نے عرض کیا کہ کیا کہوں، آپ ﷺ نے فرمایا، قل ہو اللہ احد، اور معوذتین پڑھو، جب صبح اور شام ہو، تین مرتبہ یہ پڑھنا تمہارے لئے ہر تکلیف سے امان ہوگا۔ ابوداود، ترمذی، نسائی

خلاصۂ کلام: جیساکہ قرآن وحدیث کی روشنی میں ذکر کیا گیا کہ سورۃا لاخلاص قرآن کریم کی ایک عظیم سورت ہے۔ حضور اکرم ﷺ نے اس سورت کو ایک تہائی قرآن کے برابر قرار دیا ہے، جس کی مختلف توجیہ بیان کی گئی ہیں۔ اس مختصر سی سورت سے محبت کرنے والوں اور اس کو اہتمام سے پڑھنے والوں کو آپﷺ نے جنت کی بشارت سنائی ہے۔ معوذتین (سورۃ الفلق اور سورۃا لناس) کے ساتھ سورۃ الاخلاص پڑھ کر اپنے اوپر دم کرنے سے متعدد آفات سے حفاظت ممکن ہے۔ اس سورت میں اللہ تعالیٰ کی متعدد صفات بیان کی گئی ہیں، ان پر غور وخوض کریں۔ اللہ کی وحدانیت کا اقرار کرتے ہوئے اللہ کی جملہ صفات پر ایمان لائیں اور اس کی ذات وصفات میں کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں۔ نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج وغیرہ تمام مدنی ومالی عبادات میں صرف اللہ کی ذات کی رضا مطلوب ہو۔

محمد نجیب سنبھلی قاسمی، ریاض (www.najeebqasmi.com)
قرآن کریم کو چھونے یا چھوکر پڑھنے کے لئے وضو ضروری ہے

بسم الله الرحمن الرحيم

اَلْحَمْدُ لِله رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلام عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔

قرآن کریم کو چھونے یا چھوکر پڑھنے کے لئے وضو ضروری ہے

قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا کلام ہے، یعنی اُس کی مخلوق نہیں بلکہ صفت ہے۔ کلام الہی لوح محفوظ میں ہمیشہ سے ہے اور یہ ہمیشہ رہے گا۔اللہ تبارک وتعالیٰ نے سارے کلاموں میں سب سے افضل واعلیٰ اپنا پاک کلام یعنی قرآن مجید قیامت تک آنے والے تمام انسانوں کی ہدایت ورہنمائی کے لئے سارے انسانوں میں سب سے افضل واعلیٰ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اوپر سب سے زیادہ مقرب فرشتہ کے ذریعہ نازل فرمایا ہے۔ اس پاک کلام کے نزول کی ابتداء سب سے افضل مہینہ یعنی رمضان المبارک کی سب سے افضل رات یعنی لیلۃ القدر میں ہوئی۔ اللہ تبارک وتعالیٰ جنت میں جنتیوں کے سامنے خود اپنے پاک کلام کی تلاوت فرمائے گا۔ اللہ تعالیٰ کے کلام کی تلاوت بھی بے شمار انسانوں کی ہدایت کا ذریعہ بنی ہے، امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے کا واقعہ تاریخ کی کتابوں میں قلمبند ہے۔
قرآن وحدیث کی روشنی میں امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ ہم جب بھی قرآن کریم کی تلاوت کریں یا اس کو چھوئیں تو کلام الہی کی عظمت کا تقاضا ہے کہ ہم باوضو ہوں۔ یعنی ہمیں اس کا خاص اہتمام کرنا چاہئے کہ تلاوت قرآن کے وقت حدث اصغر وحدث اکبر سے پاک وصاف ہوں۔ اگر کوئی شخص قرآن کریم کو چھوئے بغیر زبانی پڑھنا چاہتا ہے تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال وافعال کی روشنی میں علماء امت کا اتفاق ہے کہ وضو ضروری نہیں ہے۔ لیکن اگر کوئی شخص قرآن کریم صرف چھونا چاہتا ہے یا چھو کر پڑھنا چاہتا ہے جس طرح ہم عموماً قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہیں تو قرآن وحدیث کی روشنی میں جمہور علماء کی رائے ہے کہ وضو کا ہونا شرط ہے یعنی ہم بے وضو قرآن کریم کو چھو نہیں سکتے ہیں۔ متعدد صحابۂ کرام، تابعین عظام حتی کہ چاروں ائمہ (امام ابوحنیفہؒ ، امام مالک ؒ ، امام شافعیؒ اور امام احمد بن حنبل ؒ ) نے بھی قرآن وحدیث کی روشنی میں یہی فرمایا ہے۔ علماء احناف، برصغیرکے علماء کرام اور سعودی عرب کے مشائخ نے بھی یہی تحریر فرمایا ہے کہ بے وضو قرآن کریم چھوا نہیں جا سکتا۔جمہور علماء نے اس کے لئے قرآن وحدیث کے متعدد دلائل پیش فرمائے ہیں، یہاں اختصار کے مدنظر صرف ایک آیت اور ایک حدیث پر اکتفاء کررہا ہوں:
اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے پاک کلام میں ارشاد فرماتا ہے۔ اس کو (یعنی قرآن کریم کو) وہی لوگ چھوسکتے ہیں جو پاک ہوں۔ (سورۃ الواقعہ، آیت نمبر ۷۹) اس آیت سے مفسرین نے دو مفہوم مراد لئے ہیں۔
قرآن کریم کو لوح محفوظ میں پاک فرشتوں کے سوا کوئی اور چھو نہیں سکتا ہے۔
جو قرآن کریم حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا ہے یعنی وہ مصحف جو ہمارے ہاتھوں میں ہے اس کو صرف پاکی کی حالت میں ہی چھوا جاسکتا ہے۔ اس آیت کی دوسری تفسیر کے مطابق بغیر طہارت کے قرآن کریم کو چھونا یا چھو کر پڑھنا جائز نہیں ہے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے کا واقعہ جو تاریخ کی کتابوں میں مذکور ہے کہ انہوں نے اپنی بہن کو قرآن کریم پڑھتے ہوئے پایا تو اوراق قرآن کو دیکھنا چاہا، ان کی بہن نے یہی آیت پڑھ کر اوراق قرآن اُن کے ہاتھ میں دینے سے انکار کردیا تھا کہ اس کو پاک لوگوں کے سوا کوئی نہیں چھو سکتا، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے مجبور ہوکر غسل کیا، پھر قرآن کریم کے اوراق پڑھے۔ اس واقعہ سے بھی اسی دوسری تفسیر کی ترجیح ہوتی ہے۔ اور جن احادیث میں غیر طاہر کو قرآن کریم کے چھونے سے منع کیا گیا ہے، ان احادیث کو بھی علماء کرام نے اس دوسری تفسیر کی ترجیح کے لئے پیش فرمائی ہیں۔
اس باب میں متعدد احادیث ہیں ، لیکن طوالت سے بچنے کے لئے ایک حدیث پیش خدمت ہے۔
حضرت عمرو بن حزم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یمن والوں کو تحریر کیا کہ قرآن کریم کو طہارت کے بغیر نہ چھوا جائے۔ (موطا مالک ۔ باب الامر بالوضوء لمن مس القرآن) (دارمی ۔ باب لا طلاق قبل النکاح) یہ حدیث مختلف سندوں سے احادیث کی متعدد کتابوں میں وارد ہوئی ہے اور جمہور محدثین نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔
کتب حدیث میں متعدد صحابۂ کرام سے بھی یہی منقول ہے کہ قرآن کریم کو چھونے کے لئے وضو شرط ہے۔ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ وضو کے بغیر قرآن کریم پڑھنے میں مضائقہ نہیں سمجھتے تھے، مگر بے وضو قرآن کریم کو ہاتھ لگانے کو ناجائز سمجھتے تھے۔ یہی رائے حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ اور حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی بھی ہے۔ (احکام القرآن للجصاص) حضرت عطاء، حضرت طاؤس اور حضرت شعبی اور حضرت قاسم بن محمد رحمہم اللہ سے بھی یہی منقول ہے۔ (المغنی لابن قدامہ) البتہ قرآن کو ہاتھ لگائے بغیر یعنی یاد سے پڑھنا ان سب کے نزدیک بے وضو جائز تھا۔
قرآن وحدیث کی روشنی میں مشہور ومعروف چاروں ائمہ کی آراء:
مسلک حنفی کی تشریح امام علاء الدین کاسانی حنفی ؒ نے بدائع الصنائع میں یوں تحریر کی ہے: جس طرح بے وضو نماز پڑھنا جائز نہیں ہے اسی طرح قرآن مجید کو ہاتھ لگانا بھی جائز نہیں۔ البتہ کسی کپڑے کے ساتھ قرآن کریم کو چھوا جاسکتا ہے۔
مسلک شافعی کو امام نووی ؒ نے المنہاج میں اس طرح ذکر کیا ہے : نماز اور طواف کی طرح مصحف کو ہاتھ لگانا اور اس کے کسی ورق کو چھونا بھی وضو کے بغیر حرام ہے۔ اسی طرح قرآن کی جلد کو چھونا بھی ممنوع ہے۔ بچہ اگر بے وضوہو تو وہ قرآن کو ہاتھ لگا سکتا ہے۔ اور بے وضو آدمی اگر قرآن پڑھے تو لکڑی یا کسی اور چیز سے وہ اس کا ورق پلٹ سکتا ہے۔
مالکیہ کا مسلک جو الفقہ علی المذاہب الاربعہ میں نقل کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ جمہور فقہاء کے ساتھ وہ اس امر میں متفق ہیں کہ مصحف کو ہاتھ لگانے کے لئے وضو شرط ہے۔
شیخ ابن قدامہ ؒ حنبلی نے تحریر کیا ہے کہ جنابت اور حیض ونفاس کی حالت میں قرآن یا اس کی پوری آیت کو پڑھنا جائز نہیں ہے، البتہ بسم اللہ، الحمد للہ وغیرہ کہنا جائز ہے کیونکہ اگرچہ یہ بھی کسی نہ کسی آیت کے اجزاء ہیں مگر ان سے تلاوتِ قرآن مقصود نہیں ہوتی۔ رہا قرآن کو ہاتھ لگانا تو وہ کسی حال میں وضو کے بغیر جائز نہیں۔
علامہ ابن تیمیہ ؒ نے بھی یہی تحریر فرمایا کہ بغیر وضو کے قرآن کریم نہیں چھونا چاہئے، اور یہی حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اور دیگر صحابۂ کرام کی رائے تھی اور کسی ایک صحابی سے اس کے خلاف منقول نہیں۔ (مجمع الفتاویٰ ۲۲۶/۲۱ ۔ ۲۸۸/۲۱)
شیخ حافظ ابن البر ؒ نے تحریر فرمایا کہ تمام علماء امت کا اتفاق ہے کہ مصحف چھونے کے لئے وضو ضروری ہے۔ (الاستذکار ۱۰/۸)
غرضیکہ قرآن وحدیث کی روشنی میں خیر القرون سے عصر حاضر تک کے جمہور محدثین، مفسرین، فقہاء وعلماء کرام اور چاروں ائمہ نے یہی کہا ہے کہ بغیر وضو کے قرآن کریم کا چھونا جائز نہیں ہے۔ اس طرح امت مسلمہ کا تقریباً ۹۵ فیصد اس بات پر متفق ہے کہ مصحف کو چھونے کے لئے وضو کا ہونا شرط ہے۔ جن چند حضرات نے بغیر وضو کے قرآن کریم چھونے کی اجازت دی ہے، انہوں نے بھی یہی ترغیب دی ہے کہ بغیر وضو کے قرآن کریم نہیں چھونا چاہئے ۔ غرضیکہ ہمیں بغیر وضو کے قرآن کریم نہیں چھونا چاہئے اور نہ ہی مصحف سے قرآن کریم کی تلاوت بغیر وضو کے کرنی چاہئے۔
سعودی علماء کے فتاوے:
سعودی عرب کے سابق مفتی شیخ عبدالعزیز بن باز ؒ نے بھی قرآن وحدیث کی روشنی میں یہی فرمایا ہے کہ بغیر وضو کے قرآن کریم کا چھونا جائز نہیں ہے ۔

خلاصۂ کلام پیش ہے: مسئلہ میں علماء کے درمیان اختلاف ہے، جمہور علماء خاص کر چاروں ائمہ کی رائے ہے کہ بغیر وضو کے مصحف نہیں چھویا جاسکتا جیسا کہ حضرت عمرو بن حزم رضی اللہ عنہ کی حدیث (لَا ےَمَس الْقُرْآنَ الَّا طَاہِر ) میں وارد ہے۔ حافظ ابن عبد البر ؒ نے کہا کہ اس حدیث کی بہت شہرت کی وجہ سے محدثین سے اسے قبول کیا۔ بعض فقہاء نے قرآن کریم کی آیت (لَا ےَمَسُّہُ اِلَّا الْمُطَہَّرُوْنَ) سے بھی استدلال کیا ہے، لیکن یہ محل نظر ہے لیکن پھر بھی فرشتوں کی طرح مومنین کو بھی باوضو ہی قرآن کریم چھونا چاہئے۔
غرضیکہ قرآن وحدیث کی روشنی میں خیر القرون سے عصر حاضر تک کے جمہور محدثین، مفسرین، فقہاء وعلماء کرام اور چاروں ائمہ نے یہی کہا ہے کہ بغیر وضو کے قرآن کریم کا چھونا جائز نہیں ہے۔
محمد نجیب قاسمی
www.najeebqasmi.com
جُنبی اور حائضہ عورت کے لئے قرآن کی تلاوت ناجائز

بسم الله الرحمن الرحيم

اَلْحَمْدُ لِله رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلام عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔

جُنبی اور حائضہ عورت کے لئے قرآن کی تلاوت ناجائز
اگر کسی مرد یا عورت کو غسل کی حاجت ہوجائے یعنی جنبی یا عورت حیض (ماہواری) کی حالت میں ہو تو قرآن وحدیث کی روشنی میں جمہور محدثین، مفسرین، فقہاء وعلماء کرام کا اتفاق ہے کہ اس کے لئے جائز نہیں کہ وہ قرآن کریم کو چھوئے یا چھوکر تلاوت کرے۔ متعدد صحابۂ کرام، تابعین عظام اور چاروں ائمہ (امام ابوحنیفہؒ ، امام مالک ؒ ، امام شافعیؒ اور امام احمد بن حنبل ؒ ) نے بھی قرآن وحدیث کی روشنی میں یہی فرمایا ہے۔ علماء احناف، برصغیرکے علماء کرام اور سعودی عرب کے مشائخ نے بھی یہی تحریر فرمایا ہے کہ ناپاک مرد وعورت، اسی طرح وہ عورت جس کو ماہواری آرہی ہو اس کے لئے جائز نہیں کہ وہ قرآن کریم چھوئے یا قرآن چھوکر اس کی تلاوت کرے۔ جمہور علماء نے اس کے لئے قرآن وحدیث کے متعدد دلائل پیش فرمائے ہیں، من جملہ ان دلائل میں سے قرآن کریم (سورۃ الواقعہ، آیت نمبر ۷۹) میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: لَا ےَمَسُّہُ اِلَّا الْمُطَہَّرُوْنَ اس کو (یعنی قرآن کریم کو) وہی لوگ چھوسکتے ہیں جو پاک ہوں۔ اس آیت سے مفسرین نے دو مفہوم مراد لئے ہیں۔
۱) قرآن کریم کو لوح محفوظ میں پاک فرشتوں کے سوا کوئی اور چھو نہیں سکتا ہے۔
۲) جو قرآن کریم حضور اکرم ﷺ پر نازل ہوا ہے یعنی وہ مصحف جو ہمارے ہاتھوں میں ہے اس کو صرف پاکی کی حالت میں ہی چھوا جاسکتا ہے۔
دوسری تفسیر کے مطابق واضح طور پر معلوم ہوا کہ ناپاکی (یعنی حدث اصغر وحدث اکبر) کی حالت میں قرآن کریم چھونا جائز نہیں ہے۔ پہلی تفسیر میں جس کو مفسرین نے راجح قرار دیا ہے، اگرچہ ایک خبر دی جارہی ہے کہ قرآن کریم کو لوح محفوظ میں پاک فرشتوں کے سوا کوئی اور چھو نہیں سکتا ہے، مگر ہمارے لئے واضح طور پر یہ پیغام ہے کہ جب لوح محفوظ میں پاک فرشتے ہی اس کو چھو سکتے ہیں تو ہم دنیا میں ناپاکی کی حالت میں قرآن کریم کو کیسے چھو سکتے ہیں۔ نیز قرآن کریم کے پہلے مفسر اور ساری انسانیت میں سب سے افضل واعلیٰ حضور اکرم ﷺ کے ارشادات میں بھی یہی تعلیم ملتی ہے کہ ناپاکی کی حالت میں نیز وضو کے بغیر قرآن کریم کو نہ چھوئیں اور نہ چھوکر تلاوت کریں۔
حضرت عمرو بن حزم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ نے یمن والوں کو تحریر کیا کہ قرآن کریم کو طہارت کے بغیر نہ چھوا جائے۔ (موطا مالک ۔ باب الامر بالوضوء لمن مس القرآن) (دارمی ۔ باب لا طلاق قبل النکاح) یہ حدیث مختلف سندوں سے احادیث کی متعدد کتابوں میں وارد ہوئی ہے اور جمہور محدثین نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: حائضہ (یعنی وہ عورت جس کو ماہواری آرہی ہو) اور جنبی (یعنی جس پر غسل واجب ہوگیا ہے) قرآن کریم سے کچھ بھی نہ پڑھے۔ (ترمذی ۱۳۱، ابن ماجہ ۵۹۵، دار قطنی ۱/۱۱۷، بیہقی ۱/۸۹)
صحابۂ کرام وتابعین کے درمیان یہ بات اچھی طرح معلوم تھی کہ ناپاکی کی حالت میں اور بے وضو قرآن کریم کو نہیں چھوا جاسکتا ہے۔ چنانچہ بعض صحابۂ کرام اور تابعین کے اقوال حدیث کی مشہور کتاب: مصنف ابن ابی شیبہ ۔ باب الرجل علی غیر وضوء والحائض یمسان المصحف اور مصنف بن عبدالرزاق ۔ باب ہل تذکر اللہ الحائض والجنب) میں مذکور ہیں۔
غرضیکہ قرآن وحدیث کی روشنی میں خیر القرون سے عصر حاضر تک کے جمہور محدثین، مفسرین، فقہاء وعلماء کرام اور چاروں ائمہ نے یہی کہا ہے کہ بغیر وضو، اسی طرح ناپاکی کی حالت میں قرآن کریم کا چھونا جائز نہیں ہے۔ ہاں حضور اکرم ﷺکے اقوال کی روشنی میں فقہاء وعلماء نے تحریر کیا ہے کہ اگر کوئی شخص قرآن کریم کو چھوئے بغیر صرف زبانی پڑھنا چاہتا ہے تو اس کے لئے وضو ضروری نہیں ہے۔ لیکن ناپاکی کی حالت میں یعنی اگر کسی مرد یا عورت پر غسل واجب ہوگیا ہے تو قرآن وحدیث کی روشنی میں جمہور علماء کا اجماع ہے کہ پھر قرآن کریم کی زبانی بھی تلاوت نہیں کی جاسکتی ہے۔
حائضہ (یعنی وہ عورت جس کو ماہواری آرہی ہو) کے بارے میں ۸۰ ہجری میں پیدا ہوئے محدث وفقیہ شیخ نعمان بن ثابت ؒ (امام ابوحنیفہ) ، علماء احناف، ہندوپاک کے علماء اور دیگر محدثین ومفسرین نے حضور اکرم ﷺ کے فرمان (حائضہ اور جنبی قرآن کریم سے کچھ بھی نہ پڑھے) اور دیگر دلائل کی روشنی میں فرمایا ہے کہ جنبی کی طرح حائضہ بھی قرآن کریم کو زبانی نہیں پڑھ سکتی ہے۔ بعض علماء کرام نے مذکورہ حدیث کو ضعیف قرار دے کر اجازت دی ہے کہ حائضہ عورت صرف زبانی قرآن کریم کی تلاوت کرسکتی ہے۔ مگر غور طلب بات یہ ہے کہ جنبی اور حائضہ عورت کا متعدد مسائل میں ایک ہی حکم ہے، مثلاً مسجد میں دخول یا بیٹھنا ، نماز پڑھنا اور طواف کرنا اور مصحف چھوکر تلاوت کرنا دونوں کے لئے جائز نہیں ہیں وغیرہ وغیرہ تو اس مذکورہ حدیث کو ضعیف قرار دے کر حائضہ عورت کے لئے زبانی طور پر تلاوت کی اجازت دینا محل نظر ہے۔ ہاں اگر کوئی عورت قرآن کی آیت مثلاً (سبحان الذی سخرنا لنا ہذا وما کنا لہ مقرنین )کو ذکر یا (ربنا آتنا فی الدنیا حسنۃ وفی الآخرۃ حسنۃ وقنا عذاب النار) کودعا کے طور پر پڑھ رہی ہے تو پھر جائز ہے۔
خلاصۂ کلام:خیر القرون سے عصر حاضر تک کے جمہور محدثین، مفسرین وفقہاء وعلماء کرام کا اتفاق ہے کہ جنبی کی طرح حائضہ عورت کے لئے قرآن کریم کی چھوکر تلاوت کرنا جائز نہیں ہے، بلکہ بغیر وضو کے کسی بھی مرد یا عورت کے لئے قرآن کریم کو چھونا یا چھوکر تلاوت کرنا جائز نہیں ہے۔ امام ابوحنیفہ ؒ اور دیگر علماء کی رائے میں حدیث کی مشہور ومعروف کتابوں (ترمذی،ابن ماجہ، دار قطنی، بیہقی اور دیگر کتب حدیث) میں وارد حضور اکرم ﷺ کے فرمان (حائضہ اور جنبی قرآن کریم سے کچھ بھی نہ پڑھے ) کی روشنی میں جنبی اور حائضہ عورت کے لئے زبانی بھی قرآن کریم کی تلاوت کرنا جائز نہیں ہے۔
محمد نجیب قاسمیwww.najeebqasmi.com
جُنبی اور حائضہ عورت کے لئے قرآن کی تلاوت ناجائز

بسم الله الرحمن الرحيم

اَلْحَمْدُ لِله رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلام عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔

جُنبی اور حائضہ عورت کے لئے قرآن کی تلاوت ناجائز
اگر کسی مرد یا عورت کو غسل کی حاجت ہوجائے یعنی جنبی یا عورت حیض (ماہواری) کی حالت میں ہو تو قرآن وحدیث کی روشنی میں جمہور محدثین، مفسرین، فقہاء وعلماء کرام کا اتفاق ہے کہ اس کے لئے جائز نہیں کہ وہ قرآن کریم کو چھوئے یا چھوکر تلاوت کرے۔ متعدد صحابۂ کرام، تابعین عظام اور چاروں ائمہ (امام ابوحنیفہؒ ، امام مالک ؒ ، امام شافعیؒ اور امام احمد بن حنبل ؒ ) نے بھی قرآن وحدیث کی روشنی میں یہی فرمایا ہے۔ علماء احناف، برصغیرکے علماء کرام اور سعودی عرب کے مشائخ نے بھی یہی تحریر فرمایا ہے کہ ناپاک مرد وعورت، اسی طرح وہ عورت جس کو ماہواری آرہی ہو اس کے لئے جائز نہیں کہ وہ قرآن کریم چھوئے یا قرآن چھوکر اس کی تلاوت کرے۔ جمہور علماء نے اس کے لئے قرآن وحدیث کے متعدد دلائل پیش فرمائے ہیں، من جملہ ان دلائل میں سے قرآن کریم (سورۃ الواقعہ، آیت نمبر ۷۹) میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: لَا ےَمَسُّہُ اِلَّا الْمُطَہَّرُوْنَ اس کو (یعنی قرآن کریم کو) وہی لوگ چھوسکتے ہیں جو پاک ہوں۔ اس آیت سے مفسرین نے دو مفہوم مراد لئے ہیں۔
۱) قرآن کریم کو لوح محفوظ میں پاک فرشتوں کے سوا کوئی اور چھو نہیں سکتا ہے۔
۲) جو قرآن کریم حضور اکرم ﷺ پر نازل ہوا ہے یعنی وہ مصحف جو ہمارے ہاتھوں میں ہے اس کو صرف پاکی کی حالت میں ہی چھوا جاسکتا ہے۔
دوسری تفسیر کے مطابق واضح طور پر معلوم ہوا کہ ناپاکی (یعنی حدث اصغر وحدث اکبر) کی حالت میں قرآن کریم چھونا جائز نہیں ہے۔ پہلی تفسیر میں جس کو مفسرین نے راجح قرار دیا ہے، اگرچہ ایک خبر دی جارہی ہے کہ قرآن کریم کو لوح محفوظ میں پاک فرشتوں کے سوا کوئی اور چھو نہیں سکتا ہے، مگر ہمارے لئے واضح طور پر یہ پیغام ہے کہ جب لوح محفوظ میں پاک فرشتے ہی اس کو چھو سکتے ہیں تو ہم دنیا میں ناپاکی کی حالت میں قرآن کریم کو کیسے چھو سکتے ہیں۔ نیز قرآن کریم کے پہلے مفسر اور ساری انسانیت میں سب سے افضل واعلیٰ حضور اکرم ﷺ کے ارشادات میں بھی یہی تعلیم ملتی ہے کہ ناپاکی کی حالت میں نیز وضو کے بغیر قرآن کریم کو نہ چھوئیں اور نہ چھوکر تلاوت کریں۔
حضرت عمرو بن حزم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ نے یمن والوں کو تحریر کیا کہ قرآن کریم کو طہارت کے بغیر نہ چھوا جائے۔ (موطا مالک ۔ باب الامر بالوضوء لمن مس القرآن) (دارمی ۔ باب لا طلاق قبل النکاح) یہ حدیث مختلف سندوں سے احادیث کی متعدد کتابوں میں وارد ہوئی ہے اور جمہور محدثین نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: حائضہ (یعنی وہ عورت جس کو ماہواری آرہی ہو) اور جنبی (یعنی جس پر غسل واجب ہوگیا ہے) قرآن کریم سے کچھ بھی نہ پڑھے۔ (ترمذی ۱۳۱، ابن ماجہ ۵۹۵، دار قطنی ۱/۱۱۷، بیہقی ۱/۸۹)
صحابۂ کرام وتابعین کے درمیان یہ بات اچھی طرح معلوم تھی کہ ناپاکی کی حالت میں اور بے وضو قرآن کریم کو نہیں چھوا جاسکتا ہے۔ چنانچہ بعض صحابۂ کرام اور تابعین کے اقوال حدیث کی مشہور کتاب: مصنف ابن ابی شیبہ ۔ باب الرجل علی غیر وضوء والحائض یمسان المصحف اور مصنف بن عبدالرزاق ۔ باب ہل تذکر اللہ الحائض والجنب) میں مذکور ہیں۔
غرضیکہ قرآن وحدیث کی روشنی میں خیر القرون سے عصر حاضر تک کے جمہور محدثین، مفسرین، فقہاء وعلماء کرام اور چاروں ائمہ نے یہی کہا ہے کہ بغیر وضو، اسی طرح ناپاکی کی حالت میں قرآن کریم کا چھونا جائز نہیں ہے۔ ہاں حضور اکرم ﷺکے اقوال کی روشنی میں فقہاء وعلماء نے تحریر کیا ہے کہ اگر کوئی شخص قرآن کریم کو چھوئے بغیر صرف زبانی پڑھنا چاہتا ہے تو اس کے لئے وضو ضروری نہیں ہے۔ لیکن ناپاکی کی حالت میں یعنی اگر کسی مرد یا عورت پر غسل واجب ہوگیا ہے تو قرآن وحدیث کی روشنی میں جمہور علماء کا اجماع ہے کہ پھر قرآن کریم کی زبانی بھی تلاوت نہیں کی جاسکتی ہے۔
حائضہ (یعنی وہ عورت جس کو ماہواری آرہی ہو) کے بارے میں ۸۰ ہجری میں پیدا ہوئے محدث وفقیہ شیخ نعمان بن ثابت ؒ (امام ابوحنیفہ) ، علماء احناف، ہندوپاک کے علماء اور دیگر محدثین ومفسرین نے حضور اکرم ﷺ کے فرمان (حائضہ اور جنبی قرآن کریم سے کچھ بھی نہ پڑھے) اور دیگر دلائل کی روشنی میں فرمایا ہے کہ جنبی کی طرح حائضہ بھی قرآن کریم کو زبانی نہیں پڑھ سکتی ہے۔ بعض علماء کرام نے مذکورہ حدیث کو ضعیف قرار دے کر اجازت دی ہے کہ حائضہ عورت صرف زبانی قرآن کریم کی تلاوت کرسکتی ہے۔ مگر غور طلب بات یہ ہے کہ جنبی اور حائضہ عورت کا متعدد مسائل میں ایک ہی حکم ہے، مثلاً مسجد میں دخول یا بیٹھنا ، نماز پڑھنا اور طواف کرنا اور مصحف چھوکر تلاوت کرنا دونوں کے لئے جائز نہیں ہیں وغیرہ وغیرہ تو اس مذکورہ حدیث کو ضعیف قرار دے کر حائضہ عورت کے لئے زبانی طور پر تلاوت کی اجازت دینا محل نظر ہے۔ ہاں اگر کوئی عورت قرآن کی آیت مثلاً (سبحان الذی سخرنا لنا ہذا وما کنا لہ مقرنین )کو ذکر یا (ربنا آتنا فی الدنیا حسنۃ وفی الآخرۃ حسنۃ وقنا عذاب النار) کودعا کے طور پر پڑھ رہی ہے تو پھر جائز ہے۔
خلاصۂ کلام:خیر القرون سے عصر حاضر تک کے جمہور محدثین، مفسرین وفقہاء وعلماء کرام کا اتفاق ہے کہ جنبی کی طرح حائضہ عورت کے لئے قرآن کریم کی چھوکر تلاوت کرنا جائز نہیں ہے، بلکہ بغیر وضو کے کسی بھی مرد یا عورت کے لئے قرآن کریم کو چھونا یا چھوکر تلاوت کرنا جائز نہیں ہے۔ امام ابوحنیفہ ؒ اور دیگر علماء کی رائے میں حدیث کی مشہور ومعروف کتابوں (ترمذی،ابن ماجہ، دار قطنی، بیہقی اور دیگر کتب حدیث) میں وارد حضور اکرم ﷺ کے فرمان (حائضہ اور جنبی قرآن کریم سے کچھ بھی نہ پڑھے ) کی روشنی میں جنبی اور حائضہ عورت کے لئے زبانی بھی قرآن کریم کی تلاوت کرنا جائز نہیں ہے۔
محمد نجیب قاسمیwww.najeebqasmi.com
دنیا وآخرت کی کامیابی ۷ صفات میں مضمر

بسم الله الرحمن الرحيم

اَلْحَمْدُ لِله رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلام عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔

دنیا وآخرت کی کامیابی ۷ صفات میں مضمر

سورۂ المؤمنون کی ابتدائی ۱۱ آیات میں مومنین کی بعض صفات:
قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ. الَّذِينَ هُمْ فِي صَلَاتِهِمْ خَاشِعُونَ. وَالَّذِينَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُونَ. وَالَّذِينَ هُمْ لِلزَّكَاةِ فَاعِلُونَ. وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ. إِلَّا عَلَى أَزْوَاجِهِمْ أوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ. فَمَنِ ابْتَغَى وَرَاء ذَلِكَ فَأُوْلَئِكَ هُمُ الْعَادُونَ. وَالَّذِينَ هُمْ لِأَمَانَاتِهِمْ وَعَهْدِهِمْ رَاعُونَ. وَالَّذِينَ هُمْ عَلَى صَلَوَاتِهِمْ يُحَافِظُونَ. أُوْلَئِكَ هُمُ الْوَارِثُونَ. الَّذِينَ يَرِثُونَ الْفِرْدَوْسَ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ
ان ایمان والوں نے یقیناًکامیابی حاصل کرلی جن کی نمازوں میں خشوع وخضوع ہے۔ ۔۔ جو لغو کاموں سے دور رہتے ہیں۔۔۔ جو زکوٰۃ کی ادائیگی کرتے ہیں۔۔۔ جو اپنی شرمگاہوں کی (اور سب سے) حفاظت کرتے ہیں سوائے اپنی بیویوں اور اُن کنیزوں کے جو اُن کی ملکیت میں آچکی ہوں کیونکہ ایسے لوگ قابل ملامت نہیں ہیں۔ ہاں جو لوگ اس کے علاوہ کوئی اور طریقہ اختیار کرنا چاہیں تو ایسے لوگ حد سے گزرے ہوئے ہیں۔۔۔۔ اور وہ جو اپنی امانتوں اور اپنے عہد کا پاس رکھنے والے ہیں۔۔۔ اور جو اپنی نمازوں کی پوری نگرانی رکھتے ہیں۔۔۔ یہ ہیں وہ وارث جنہیں جنت الفردوس کی میراث ملے گی۔ یہ اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔
اللہ تبارک وتعالیٰ (جو انس وجن وتمام مخلوقات کا پیدا کرنے والا ہے، جو خالق مالک رازق کائنات ہے، جس کا کوئی شریک نہیں ہے، جو انسان کی رگ رگ سے ہی نہیں بلکہ کائنات کے ذرہ ذرہ سے اچھی طرح واقف ہے) نے انسان کی کامیابی کے لئے ان آیات میں اللہ اور اس کے رسول پر ایمان کے علاوہ ۷ صفات ذکر فرمائی ہیں کہ اگر کوئی شخص واقعی کامیاب ہونا چاہتا ہے تو وہ دنیاوی فانی زندگی میں موت سے قبل ان سات اوصاف کو اپنے اندر پیدا کرلے۔ ان سات اوصاف کے حامل ایمان والے جنت کے اُس حصہ کے وارث بنیں گے جو جنت کا اعلیٰ وبلند حصہ ہے، جہاں ہر قسم کا سکون واطمینان وآرام وسہولت ہے، جہاں ہر قسم کے باغات، چمن، گلشن اور نہریں پائی جاتی ہیں، جہاں خواہشوں کی تکمیل ہے، جس کو قرآن وسنت میں جنت الفردوس کے نام سے موسوم کیا گیا ہے۔۔۔ یہی اصل کامیابی ہے کہ جس کے بعد کبھی ناکامی، پریشانی، دشواری، مصیبت اور تکلیف نہیں ہے،لہذا ہم دنیاوی عارضی ومحدود خوشحالی کو فلاح نہ سمجھیں بلکہ ہمیشہ ہمیشہ کی کامیابی کے لئے کوشاں رہیں۔
ایمان والوں سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے اللہ تبارک وتعالیٰ کی وحدانیت کا اقرار کیا ، حضور اکرم ﷺ کو پیغمبر تسلیم کیا اور آپ ﷺ کی تعلیمات پر عمل پیرا ہوئے۔ انسان کی کامیابی کے لئے سب سے پہلی اور بنیادی شرط اللہ تعالیٰ اور اسکے رسول پر ایمان لانا ہے، اس کے علاوہ انسان کی کامیابی کے لئے جو سات اوصاف اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان آیات میں ذکر فرمائے ہیں وہ یہ ہیں:
۱) خشوع وخضوع کے ساتھ نماز کی ادائیگی:خضوع کے معنی ظاہری اعضاء کو جھکانے (یعنی جسمانی سکون) اور خشوع کے معنی دل کو عاجزی کے ساتھ نماز کی طرف متوجہ رکھنے کے ہیں۔ خشوع وخضوع کے ساتھ نماز پڑھنے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ ہم نماز میں جو کچھ پڑھ رہے ہیں اس کی طرف دھیان رکھیں اور اگر غیر اختیاری طور پر کوئی خیال آجائے تو وہ معاف ہے، لیکن جونہی یاد آجائے دوبارہ نماز کے الفاظ کی طرف متوجہ ہوجائیں۔ غرضیکہ ہماری پوری کوشش ہونی چاہئے کہ نماز کے وقت ہمارا دل اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ رہے اور ہمیں یہ معلوم ہو کہ ہم نماز کے کس رکن میں ہیں اور کیا پڑھ رہے ہیں۔ اسی طرح ہمیں اطمینان وسکون کے ساتھ نماز پڑھنی چاہئے جیساکہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ مسجد میں تشریف لائے۔ ایک اور صاحب بھی مسجد میں آئے اور نماز پڑھی پھر (رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور) رسول اللہ ﷺ کو سلام کیا۔ آپ ﷺ نے سلام کا جواب دیا اور فرمایا: جاؤ نماز پڑھو کیونکہ تم نے نماز نہیں پڑھی۔ وہ گئے اور جیسے نماز پہلے پڑھی تھی ویسے ہی نماز پڑھکر آئے، پھررسول اللہ ﷺ کو آکر سلام کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: جاؤ نماز پڑھو کیونکہ تم نے نماز نہیں پڑھی۔ اس طرح تین مرتبہ ہوا۔ اُن صاحب نے عرض کیا: اُس ذات کی قسم جس نے آپ ﷺ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے میں اس سے اچھی نماز نہیں پڑھ سکتا، آپ مجھے نماز سکھائیے۔ آپ ﷺنے ارشاد فرمایا: جب تم نماز کے لئے کھڑے ہو تو تکبیر کہو، پھرقرآن مجید میں سے جو کچھ پڑھ سکتے ہو پڑھو۔ پھر رکوع میں جاؤ تو اطمینان سے رکوع کرو، پھر رکوع سے کھڑے ہو تو اطمینان سے کھڑے ہو، پھر سجدہ میں جاؤ تو اطمینان سے سجدہ کرو، پھر سجدہ سے اٹھو تو اطمینان سے بیٹھو۔ یہ سب کام اپنی پوری نماز میں کرو۔ (صحیح بخاری)

۲) لغو کاموں سے دوری: لغو اس بات اور کام کو کہتے ہیں جو فضول، لایعنی اور لا حاصل ہو، یعنی جن باتوں یا کاموں کا کوئی فائدہ نہ ہو۔ مولائے حقیقی نے ان آیات میں ارشاد فرمایا کہ لغو کاموں کو کرنا تو درکنار اُن سے بالکل دور رہنا چاہئے۔ ۔۔ ہمیں ہر فضول بات اور کام سے بچنا چاہئے قطع نظر اس کے کہ وہ مباح ہو یا غیر مباح کیونکہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا : مِنْ حُسْنِ اِسْلامِ الْمَرْءِ تَرْکُہُ مَالَاےَعْنِیْہ (ترمذی) انسان کا اسلام اسی وقت اچھا ہوسکتا ہے جبکہ وہ بے فائدہ اور فضول چیزوں کو چھوڑدے۔
۳) زکوۃ کی ادائیگی:انسان کی کامیابی کے لئے تیسری اہم شرط زکوٰۃ کے فرض ہونے پر اس کی ادائیگی ہے، زکوۃ اسلام کے بنیادی پانچ ارکان میں سے ایک ہے، اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن کریم میں نماز کے بعد سب سے زیادہ حکم زکوۃ کی ادائیگی کا ہی دیا ہے۔ سورۂ التوبہ آیت نمبر ۳۴ ۔ ۳۵ میں اللہ تعالیٰ نے اُن لوگوں کے لئے بڑی سخت وعید بیان فرمائی ہے جو اپنے مال کی کما حقہ زکوٰۃ نہیں نکالتے۔ اُن کے لئے بڑے سخت الفاظ میں خبر دی ہے، چنانچہ فرمایا کہ جو لوگ اپنے پاس سونا چاندی جمع کرتے ہیں اور اُس کو اللہ کے راستے میں خرچ نہیں کرتے، تو (اے نبی ﷺ) آپ اُن کو ایک دردناک عذاب کی خبر دے دیجئے، یعنی جو لوگ اپنا پیسہ، اپنا روپیہ، اپنا سونا چاندی جمع کرتے جارہے ہیں اور اُن کو اللہ کے راستے میں خرچ نہیں کرتے، اُن پر اللہ نے جو فریضہ عائد کیا ہے اُس کو ادا نہیں کرتے، اُن کو یہ بتادیجئے کہ ایک دردناک عذاب اُن کا انتظار کررہا ہے۔ پھر دوسری آیت میں اُس دردناک عذاب کی تفصیل ذکر فرمائی کہ یہ دردناک عذاب اُس دن ہوگا جس دن سونے اور چاندی کو آگ میں تپایا جائے گا اور پھر اُس آدمی کی پیشانی ، اُس کے پہلو اور اُس کی پشت کو داغا جائے گااور اس سے یہ کہا جائے گا کہ یہ ہے وہ خزانہ جو تم نے اپنے لئے جمع کیا تھا، آج تم اس خزانے کا مزہ چکھو جو تم اپنے لئے جمع کررہے تھے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اِس انجام بد سے محفوظ فرمائے ، آمین۔ ۔۔ بعض مفسرین نے اس آیت سے مراد تزکیہ نفس لیا ہے یعنی وہ ایمان والے اپنے آپ کو برے اعمال اور اخلاق سے پاک صاف کرتے ہیں ۔
۴) شرمگاہوں کی حفاظت: اللہ تبارک وتعالیٰ نے جنسی خواہش کی تکمیل کا ایک جائز طریقہ یعنی نکاح مشروع کیا ہے۔ انسان کی کامیابی کے لئے اللہ تبارک وتعالیٰ نے ایک شرط یہ بھی رکھی ہے کہ ہم جائز طریقہ کے علاوہ اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں۔ اس آیت کے اختتام پر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: فَاِنَّہُمْ غَےْرُ مَلُوْمِےْنَ یعنی میاں بیوی کا ایک دوسرے سے شہوت نفس کو تسکین دینا قابل ملامت نہیں بلکہ انسان کی ضرورت ہے۔ لیکن جائز طریقہ کے علاوہ کوئی بھی صورت شہوت پوری کرنے کی جائز نہیں ہے جیساکہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: فَمَنِ ابْتَغٰی وَرَآءَ ذٰلِکَ فَاُولٰٓءِکَ ھُمُ الْعٰدُوْنَ،یعنی جائز طریقہ کے علاوہ کوئی اور طریقہ اختیار کرنا چاہیں تو ایسے لوگ حد سے گزرے ہوئے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے زنا کے قریب بھی جانے کو منع فرمایا ہے۔ وَلاتَقْرَبُوا الزِّنَی اِنَّہُ کَانَ فَاحِشَۃً وَّسَاءَ سَبِےْلاً (سورۂ الاسراء ۳۲) نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اَلْعَےْنُ تَزْنِیْ وَزِنَاہَا النَّظُرُ یعنی آنکھ بھی زنا کرتی ہے اور اس کا زنا نظر ہے۔۔۔ آج روزہ مرہ کی زندگی میں مرد وعورت کا کثرت سے اختلاط، مخلوط تعلیم، بے پردگی، TV اور انٹرنیٹ پر فحاشی اور عریانی کی وجہ سے ہماری ذمہ داری بڑھ جاتی ہے کہ ہم خود بھی زنا اور زنا کے لوازمات سے بچیں اور اپنے بچوں، بچیوں اور گھر والوں کی ہر وقت نگرانی رکھیں کیونکہ اسلام نے انسان کو زنا کے اسباب سے بھی دور رہنے کی تعلیم دی ہے۔ زنا کے وقوع ہونے کے بعد اس پر ہنگامہ، جلسہ وجلوس ومظاہروں کے بجائے ضرورت اس بات کی ہے کہ اسلامی تعلیمات کے مطابق حتی الامکان غیر محرم مردوعورت کے اختلاط سے ہی بچا جائے۔
۵) امانت کی ادائیگی: امانت کا لفظ ہر اس چیز کو شامل ہے جس کی ذمہ داری کسی شخص نے اٹھائی ہو اور اس پر اعتماد وبھروسہ کیا گیا ہو، خواہ اس کا تعلق حقوق العباد سے ہو یا حقوق اللہ سے۔ حقوق اللہ سے متعلق امانت فرائض وواجبات کی ادائیگی اور محرمات ومکروہات سے پرہیز کرنا ہے اور حقوق العباد سے متعلق امانت میں مالی امانت کا داخل ہونا تو مشہور ومعروف ہے، اس کے علاوہ کسی نے کوئی راز کی بات کسی کو بتلائی تو وہ بھی اس کی امانت ہے، اذن شرعی کے بغیر کسی کا راز ظاہر کرنا امانت میں خیانت ہے۔ اسی طرح کام کی چوری یا وقت کی چوری بھی امانت میں خیانت ہے۔ لہذا ہمیں امانت میں خیانت سے بچنا چاہئے۔
۶) عہد وپیمان پورا کرنا: عہد ایک تو وہ معاہدہ ہے جو دو طرف سے کسی معاملہ میں لازم قرار دیا جائے، اس کا پورا کرنا ضروری ہے، دوسرا وہ جس کو وعدہ کہتے ہیں یعنی کوئی شخص کسی شخص سے کوئی چیز دینے کا یا کسی کام کے کرنے کا وعدہ کرلے، اس کا پورا کرنا بھی شرعاً ضروری ہوجاتا ہے۔ غرضیکہ اگر ہم کسی شخص سے کوئی عہد وپیمان کرلیں تو اس کو پورا کریں۔
۷) نماز کی پابندی: کامیاب ہونے والے وہ ہیں جو اپنی نمازوں کی بھی پوری نگرانی رکھتے ہیں یعنی پانچوں نمازوں کو ان کے اوقات پر اہتمام کے ساتھ پڑھتے ہیں۔ نماز میں اللہ تعالیٰ نے یہ خاصیت وتاثیر رکھی ہے کہ وہ نمازی کو گناہوں اور برائیوں سے روک دیتی ہے مگر ضروری ہے کہ اس پرپابندی سے عمل کیا جائے اور نماز کو اُن شرائط وآداب کے ساتھ پڑھا جائے جو نماز کی قبولیت کے لئے ضروری ہیں،جیسا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا: وَاَقِمِ الصَّلاۃَ، اِنَّ الصَّلاۃَ تَنْہَی عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْکَرِ(سورۂ العنکبوت ۴۵) نماز قائم کیجئے، یقیناًنماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے۔ اسی طرح حدیث میں ہے کہ ایک شخص نبی اکرم ﷺکی خدمت میں آیا اور کہا کہ فلاں شخص راتوں کو نماز پڑھتا ہے مگر دن میں چوری کرتا ہے تو نبی اکرم ﷺنے فرمایا کہُ اس کی نماز عنقریب اُس کو اِس برے کام سے روک دے گی۔ (مسند احمد، صحیح ابن حبان، بزاز)
یہ بات قابل ذکر ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسان کی کامیابی کے لئے ضروری سات اوصاف کو نماز سے شروع کیا اور نماز پر ہی ختم کیا، اس میں اشارہ ہے کہ نماز کی پابندی اور صحیح طریقہ سے اس کی ادائیگی انسان کو پورے دین پر چلنے کا اہم ذریعہ بنتی ہے۔ اسی لئے قرآن کریم میں سب سے زیادہ نماز کی ہی تاکید فرمائی گئی ہے۔ کل قیامت کے دن سب سے پہلے نماز ہی کے متعلق سوال کیا جائے گا۔ نماز کے علاوہ تمام احکام اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت جبرائیل علیہ السلام کے واسطہ دنیا میں اتارے مگر نماز ایسا مہتم بالشان عمل ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ساتوں آسمانوں کے اوپر حضرت جبرائیل کے واسطہ کے بغیر نماز کی فرضیت کا تحفہ اپنے حبیب ﷺ کو عطا فرمایا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کو نمازوں کا اہتمام کرنے والا بنائے آمین، ثم آمین۔
ان سات اوصاف سے متصف ایمان والوں کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے ۱۰ اور ۱۱ آیات میں جنت الفردوس کا وارث بتلایا ہے۔ لفظ وارث میں اس طرف اشارہ ہے کہ جس طرح مورث کا مال اس کے وارث کو پہنچنا قطعی اور یقینی ہے اسی طرح ان سات اوصاف والوں کا جنت الفردوس میں داخلہ یقینی ہے۔
اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کو ان سات اوصاف کے ساتھ زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں جنت الفردوس کا وارث بنائے، آمین۔
محمد نجیب قاسمی سنبھلی (najeebqasmi@yahoo.com)
سورۂ الم نشرح کی مختصر تفسیر

بسم الله الرحمن الرحيم

اَلْحَمْدُ لِله رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلام عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔

سورۂ الم نشرح کی مختصر تفسیر
اس سورہ میں نبی اکرم ﷺ کے چند اوصاف حمیدہ ذکر کئے گئے ہیں-
ترجمہ: (اے نبی) کیا ہم نے تیرا سینہ نہیں کھول دیا؟۔ (یقیناًہم نے تیرا سینہ کھول دیا) اور تجھ پر سے تیرا بوجھ ہم نے اتاردیا، جس نے تیری پیٹھ بوجھل کردی تھی۔ اور ہم نے تیرا ذکر بلند کردیا۔ پس یقیناًمشکل کے ساتھ آسانی ہے۔ بیشک مشکل کے ساتھ آسانی ہے۔ پس جب تو فارغ ہو ‘ عبادت میں محنت کر۔ اور اپنے پروردگار ہی کی طرف دل لگا۔
یہ مکی سورت ہے اسمیں ۸ آیات ہیں۔ ابتدائی چار آیات میں نبی اکرم ا کے تین اوصاف حمیدہ بیان کئے گئے ہیں :
۱۔ ہم نے تیرے سینے کو کھول دیا۔ یعنی ہم نے تیرے سینے کو منور کردیا ، اسمیں علوم ومعارف کے سمندر اتار دئے۔ اور لوازم نبوت اور فرائضِ رسالت برداشت کرنے کے لئے بڑا وسیع حوصلہ دیا۔ اس آیت سے شق صدر بھی مراد لیا گیا ہے، جو دو مرتبہ نبی اکرم ا کے ساتھ پیش آیا۔ ایک مرتبہ بچپن میں ، دوسری مرتبہ معراج کی رات میں۔ شق صدر میں آپ ا کا سینہ مبارک چاک کرکے دل نکالا گیا، اسے آب زمزم سے دھوکر اپنی جگہ پر رکھ دیا گیا، اور اسے ایمان وحکمت سے بھر دیا گیا۔
۲۔ تجھ پر سے تیرا بوجھ ہم نے اتاردیا، جس نے تیری پیٹھ بوجھل کردی تھی۔ یعنی منصبِ رسالت کی ذمہ داریوں کو محسوس کرکے آپ ا پر گرانی گزرتی ہوگی، وہ دور کردی گئی۔ یا وزر (بوجھ ) سے وہ جائز امور مراد ہیں جو وقتاً فوقتاً آپ قرین حکمت وصواب سمجھ کر کرلیتے تھے ، اور بعد میں ان کا خلافِ حکمت یا خلافِ اولیٰ ہونا ظاہر ہوتا تھا، اور آپ ا بوجہ علو شان اور غایت قرب کے اس سے ایسے ہی مغموم ہوتے تھے جس طرح کوئی گناہ سے مغموم ہوتا ہے، تو اس آیت میں مواخدہ نہ ہونے کی بشارت دی گئی۔ اللہ تعالیٰ نے آپ ا کے اگلے پچھلے سارے گناہ معاف فرمادئے تھے۔ نبوت سے قبل ‘ ۴۰ سالہ زندگی میں بھی اللہ نے آپ کو گناہوں سے محفوظ رکھاتھا۔
۳۔ اور ہم نے تیرا ذکر بلند کردیا۔ حضرت مجاہدؓ فرماتے ہیں یعنی جہاں میرا (اللہ کا) ذکر کیا جائے گا وہاں تیرا (نبی کا) بھی ذکر کیا جائے گا، جیسے اَشْہَدُ اَن لَّا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَاَشْہَدُ اَنَّ مُحَمَّدَ رَّسُولُ اللّٰہِ۔ حضرت قتادۃ ؓ فرماتے ہیں کہ دنیا اور آخرت میں اللہ تعالیٰ نے آپ ا کا ذکر بلند کیا، کوئی خطیب، کوئی واعظ، کوئی کلمہ گو، کوئی مؤذن، کوئی نمازی ایسا نہیں جو اللہ کی وحدانیت کے ساتھ آپ ا کی رسالت کا کلمہ نہ پڑھتاہو۔ غرض دنیا اور آخرت دونوں جہاں میں اللہ تعالیٰ نے آپ ا کاذکر بلند فرمایا۔
پانچویں اور چھٹی آیت میں ایک اصول بیان کیا گیا کہ دشواری کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے آسانی ملتی ہے۔
آخری دو آیات میں اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم ا سے فرمایا : اے نبی: جب تو فارغ ہو ، تو اتنی عبادت کر کہ تو تھک جائے۔ یعنی نماز، تبلیغ ، جہاد اور دعا وغیرہ میں اتنا مشغول ہو کہ تو تھک جائے۔ اور اپنے پروردگار ہی کی طرف دل لگا۔

محمد نجیب قاسمی سنبھلی (www.najeebqasmi.com)
سورۂ العصر کی مختصر تفسیر

بسم الله الرحمن الرحيم

اَلْحَمْدُ لِله رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلام عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔

سورۂ العصر کی مختصر تفسیر
وَالْعَصْرِ. إِنَّ الإِنْسَانَ لَفِي خُسْرٍ. إِلا الَّذِينَ آَمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ”
ترجمہ: قسم ہے زمانے کی کہ ہر انسان بڑے خسارے میں ہے، مگر وہ لوگ جو ایمان لائے، اور انہوں نے اچھے کام کئے۔ اور آپس میں تاکید کرتے رہے سچے دین کی۔ اور آپس میں تاکید کرتے رہے صبر وتحمل کی۔
سورۂ العصر کی خاص فضیلت: یہ قرآن کریم کی بہت مختصر سی سورت ہے، جس میں صرف تین آیات ہیں، لیکن ایسی جامع ہے کہ بقول حضرت امام شافعی ؒ کہ اگر لوگ اس سورت کو غورو فکر اور تدبر کے ساتھ پڑھ لیں تو دین ودنیا کی درستی کے لئے کافی ہوجائے۔ حضرت عبد اللہ ابن حصین ؓ فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام میں سے دو شخص آپس میں ملتے تو اس وقت تک جدا نہ ہوتے جب تک ان میں سے ایک دوسرے کے سامنے سورۂ العصر نہ پڑھ لے۔ (طبرانی)
اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے العصر کی قسم کھائی ہے، جس سے مراد زمانہ ہے، کیونکہ انسان کے تمام حالات ، اسکی نشو ونما ، اسکی حرکات وسکنات ، اعمال اور اخلاق سب زمانے کے لیل ونہار میں ہی ہونگے۔
جہاں تک قسم کا تعلق ہے، اللہ تعالیٰ کے کلام میں قسم کے بغیر بھی شک وشبہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ‘ بندوں پر رحم فرماکر، کسی حکم کی خصوصی تاکید اور اسکی اہمیت کی وجہ سے قسم کھاکر کوئی حکم بندوں کو کرتا ہے،تاکہ بندے اس حکم کی اہمیت کو سمجھ کر اس پر عمل پیرا ہوں، اور حکم بجا لانے میں کوئی کوتاہی نہ کریں۔ البتہ یاد رکھیں کہ انسانوں کے لئے اللہ تعالیٰ کے نام کے علاوہ کسی چیز کی قسم کھانا جائز نہیں ہے، جیسا کہ نبی اکرم ا کی واضح تعلیمات احادیث کی کتابوں میں موجودہیں۔
خلاصہ تفسیر: اس سورت میں خالقِ انسان: اللہ تعالیٰ نے زمانہ کی قسم کھاکر ارشاد فرمایا کہ ہر انسان بڑے خسارے اور نقصان میں ہے، اور اس خسارے سے صرف وہی لوگ بچ سکتے ہیں جن کے اندر یہ چار صفات موجود ہوں۔
۱۔ ایمان: اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائیں، اور اسی طرح نبی اکرم ا کی تمام تعلیمات پر ایمان لائیں۔
۲۔ اعمال صالحہ (نیک اعمال): ہر عمل ‘ اللہ کے حکم، اور نبی اکرم ا کی تعلیمات کے مطابق کریں۔
۳۔ حق کی نصیحت کرنا: ایمان لانے اور نیک عمل کرنے والے لوگ‘ ایک دوسرے کو حق کی نصیحت کریں۔
۴۔ صبر کی تلقین کرنا: اور اسی طرح ایک دوسرے کو صبر کی تلقین کرتے رہیں۔
غرض دین ودنیا کے خسارے سے بچنے اور نفع عظیم حاصل کرنے کا یہ قرآنی نسخہ چار اجزاء سے مرکب ہے جن میں پہلے دو جزء (ایمان واعمال صالحہ) اپنی ذات کی اصلاح کے متعلق ہیں۔ اور دوسرے دو جزء دوسروں کی ہدایت واصلاح سے متعلق ہیں۔ یعنی ہم اپنی ذات سے بھی اللہ تعالیٰ کے احکامات نبی اکرم ا کی تعلیمات کے مطابق بجا لائیں، اور ساتھ میں یہ کوشش اور فکر کریں کہ میری اولاد ، میرے رشتے دار اور میرے پڑوسی سب اللہ کی مرضی کے مطابق اس دنیاوی فانی زندگی کو گزارنے والے بنیں، تاکہ ہم سب بڑے خسارے سے بچ کر، ہمیشہ ہمیشہ کی کامیابی حاصل کرنے والے بن جائیں۔
اب ہر شخص اپنی زندگی کا جائزہ لے کہ اس کے اندر یہ چار اوصاف موجود ہیں یا نہیں۔ قرآن کریم کے اس واضح اعلان سے معلوم ہوا کہ اگر یہ چار اوصاف یا ان میں سے کوئی ایک وصف بھی ہمارے اندر موجود نہیں ہیں تو ہم دنیاوآخرت میں ناکامی اوربڑے خسارے کی طرف جارہے ہیں۔
لہذاابھی وقت ہے، موت کب آجائے، کسی کو نہیں معلوم، ہم سب یہ عزم مصمم کریں کہ دنیا وآخرت کی کامیابی حاصل کرنے اور بڑے خسارے سے بچنے کے لئے یہ چار اوصاف اپنی زندگی میں آج ، بلکہ ابھی سے لانے کی مخلصانہ کوشش کریں گے۔ اللہ ہم سب کو زندگی کے باقی ایام ان چار اوصاف سے متصف ہوکر گزارنے والا بنائے۔ آمین، ثم آمین۔
محمد نجیب قاسمی سنبھلی (www.najeebqasmi.com)

ماہِ رمضان اور قرآن کریم

بسم الله الرحمن الرحيم

اَلْحَمْدُ لِله رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلام عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔

ماہِ رمضان اور قرآن کریم

ماہِ رمضان اسلامی کیلنڈر کا نواں مہینہ ہے، اس ماہ کے روزے رکھنا ہر مسلمان، بالغ، عاقل، صحت مند، مقیم، مردوعورت پر فرض ہے، جس کی ادائیگی کے ذریعہ خواہشات کو قابو میں رکھنے کا ملکہ پیدا ہوتا ہے اور وہی تقویٰ کی بنیاد ہے، جیسا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا : ( ےَا اَیُّھَا الَّذِےْنَ آمَنُوا کُتِبَ عَلَےْکُمُ الصِّےَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِےْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْن ) اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کئے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تاکہ تم متقی بن جاؤ۔ (سورۃ البقرۃ ۱۸۳) لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ میں اشارہ ہے کہ زندگی میں تقویٰ پیدا کرنے کے لئے روزہ کا بڑا اثرہے۔
اسی ماہِ مبارک کی ایک بابرکت رات میں قیامت تک آنے والے تمام انسانوں کی رہنمائی کیلئے اللہ تعالیٰ کی کتاب قرآن کریم سماء دنیا پر نازل ہوئی، جس سے استفادہ کی بنیادی شرط بھی تقویٰ ہے، اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد قرآن کریم میں ہے: (ذلِکَ الْکِتَابُ لَا رَےْبَ فِےْہِ ہُدًی لِّلْمُتَّقِےْن) یہ کتاب ایسی ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں، یہ ہدایت ہے متقیوں یعنی اللہ تعالیٰ سے ڈر نے والوں کے لئے۔ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے مطابق قرآن کریم سے ہر شخص کو ہدایت نہیں ملتی بلکہ قرآن کریم سے استفادہ کی بنیادی شرط تقویٰ ہے۔ دوسری طرف اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں روزوں کی فرضیت کا مقصد بتاتے ہوئے فرمایا: لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ یعنی تم پر روزے فرض کئے گئے تاکہ تم متقی بن جاؤ، غرض رمضان اور روزہ کے بنیادی مقاصد میں تقویٰ مشترک ہے۔
اس ماہ مبارک میں ایک رات ہے جس میں عبادت کرنا ہزار مہینوں کی عبادت سے زیادہ افضل ہے۔یہ ماہِ مبارک اللہ تعالیٰ کی رحمت، مغفرت اور جہنم سے چھٹکارے کا مہینہ ہے۔ اس ماہ مبارک میں سرکش شیاطین قید کردئے جاتے ہیں۔ جہنم کے دروازے بند کرکے جنت کے دروازوں کو کھول دیا جاتا ہے،ہر نیکی کا اجروثواب بڑھا دیا جاتا ہے۔ غرضیکہ یہ مہینہ اللہ کی عبادت، اطاعت اور لوگوں کے ساتھ ہمدردی وغمگساری اور قرآن کریم کا مہینہ ہے۔ اس ماہ میں روزہ رکھنا فرض ہے اور روزہ ایسا عظیم الشان عمل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر عمل کا دنیامیں ہی اجر بتا دیا کہ کس عمل پر کیاملے گا مگر روزہ کے متعلق ارشاد فرمایا کہ میں خود ہی اس کا بدلہ دوں گا یا فرمایا کہ میں خود ہی روزہ کا بدلہ ہوں۔
ماہ رمضان کا قرآن کریم سے خاص تعلق:
قرآن کریم کو رمضان المبارک سے خاص تعلق اور گہری خصوصیت حاصل ہے۔ چنانچہ رمضان المبارک میں اس کا نازل ہونا، حضور اکرم ﷺکا رمضان المبارک میں تلاوتِ قرآن کا شغل نسبتاً زیادہ رکھنا، حضرت جبرئیل علیہ السلام کا رمضان المبارک میں نبی اکرم ﷺکو قرآن کریم کا دور کرانا، تراویح میں ختم قرآن کا اہتمام کرنا، صحابۂ کرام اور بزرگان دین کا رمضان میں تلاوت کا خاص اہتمام کرنا، یہ سب امور اس خصوصیت کو ظاہر کرتے ہیں۔ لہذا اس ماہ میں کثرت سے تلاوتِ قرآن میں مشغول رہنا چاہئے۔
ماہ رمضان کا قرآن کریم سے خاص تعلق ہونے کی سب سے بڑی دلیل قرآن کریم کا ماہ رمضان میں نازل ہونا ہے۔ اس مبارک ماہ کی ایک بابرکت رات میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے لوح محفوظ سے سماء دنیا پر قرآن کریم نازل فرمایا اور اس کے بعد حسب ضرورت تھوڑا تھوڑا حضور اکرم ﷺ پر نازل ہوتا رہا اور تقریباً ۲۳ سال کے عرصہ میں قرآن مکمل نازل ہوا۔ قرآن کریم کے علاوہ تمام صحیفے بھی رمضان میں نازل ہوئے جیساکہ مسند احمد میں ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ مصحف ابراہیمی اور تورات وانجیل سب کا نزول رمضان میں ہی ہوا ہے۔ نزول قرآن اور دیگر مقدس کتب وصحائف کے نزول میں فرق یہ ہے کہ دیگر کتابیں جس رسول ونبی پر نازل ہوئیں ایک ساتھ ایک ہی مرتبہ میں، جبکہ قرآن کریم لوح محفوظ سے پہلے آسمان پر رمضان کی مبارک رات یعنی لیلۃ القدر میں ایک بار نازل ہوا اور پھر تھوڑا تھوڑا حسب ضرورت نازل ہوتا رہا۔ جیسا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کا فرمان ہے: اِنَّآاَنْزَلْنٰہُ فِیْ لَیْلَۃِ الْقَدْر ۔ وَمَآاَدْرٰ ئکَ مَا لَیْلَۃُ الْقَدْرِ۔ لَیْلَۃُ الْقَدْرِ، خَیْر’‘ مِّنْ اَلْفِ شَھْرٍ ۔ تَنَزَّلُ الْمَلآءِکَۃُ وَالرُّوْحُ فِیْھَا بِاِذْنِ رَبِّھِمْ مِّنْ کُلِّ اَمْر۔سَلٰمٌ، ھِیَ حَتّٰی مَطْلَعِ الْفَجْرِ۔بے شک ہم نے قرآن کریم کو شب قدر میں اتارا ہے ،یعنی قرآن شریف کو لوحِ محفوظ سے آسمانِ دنیا پر اِس رات میں اتارا ہے۔ آپ کو کچھ معلوم بھی ہے کہ شب قدر کیسی بڑی چیز ہے ، یعنی اس رات کی بڑائی اور فضیلت کا آپ کو علم بھی ہے ، کتنی خوبیاں اور کس قدر فضائل اس میں ہیں۔ اس کے بعد چند فضائل کا ذکر فرماتے ہیں، شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے، یعنی ہزار مہینوں تک عبادت کرنے کا جتنا ثواب ہے اس سے زیادہ شب قدر کی عبادت کا ہے اور کتنا زیادہ ہے؟ یہ اللہ ہی کو معلوم ہے۔ اس رات میں فرشتے اور حضرت جبرئیل علیہ السلام اپنے پروردگار کے حکم سے ہر امر خیر کو لے کر زمین کی طرف اترتے ہیں۔ اور یہ خیر وبرکت فجر کے طلوع ہونے تک رہتی ہے۔
سورۂ العلق کی ابتدائی چند آیات (اِقْرَاْ بِسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَق….) سے قرآن کریم کے نزول کا آغاز ہوا۔ اس کے بعد آنے والی سورۂ القدر میں بیان کیا کہ قرآن کریم رمضان کی بابرکت رات میں اتراہے، جیساکہ سورۂ الدخان کی آیت ۳ (اِنَّا اَنْزَلْنَاہٗ فِیْ لَےْلَۃٍ مُّبَارَکَۃٍ ہم نے اس کتاب کو ایک مبارک رات میں اتارا ہے) اور سورۂ البقرہ کی آیت ۱۸۵ (شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْ اُنْزِلَ فیہ القرآن رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں قرآن کریم نازل ہوا) میں یہ مضمون صراحت کے ساتھ موجود ہے۔ غرض قرآن وحدیث میں واضح دلائل ہونے کی وجہ سے امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ قرآن کریم لوح محفوظ سے سماء دنیا پر رمضان کی مبارک رات میں ہی نازل ہوا، اس طرح رمضان اور قرآن کریم کا خاص تعلق روز روشن کی طرح واضح ہوجاتا ہے۔
رمضان المبارک کا قرآن کریم کے ساتھ خاص تعلق کا مظہر نماز تراویح بھی ہے۔ احادیث میں وارد ہے کہ ہر سال ماہ رمضان میں آپ ﷺ حضرت جبرئیل علیہ السلام کے ساتھ قرآن کے نازل شدہ حصوں کا دور کرتے تھے۔ جس سال آپ ﷺ کا انتقال ہوا اس سال آپ ﷺ نے دوبار قرآن کریم کا دور فرمایا۔ (بخاری ومسلم) نماز تراویح آپ ﷺ نے شروع فرمائی اور مسجد میں باجماعت اس کو ادا بھی فرمایا لیکن اس خیال سے اس کو ترک کردیا کہ کہیں امت پر واجب نہ ہوجائے اور پھر امت کے لئے اس کو ادا کرنے میں مشقت ہو۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ انے (رمضان کی) ایک رات مسجد میں نماز تراویح پڑھی۔ لوگوں نے آپ اکے ساتھ نماز پڑھی۔ پھر دوسری رات کی نماز میں شرکاء زیادہ ہوگئے، تیسری یا چوتھی رات آپ ا نماز تراویح کے لئے مسجد میں تشریف نہ لائے اور صبح کو فرمایا کہ میں نے تمہارا شوق دیکھ لیا اور میں اس ڈر سے نہیں آیا کہ کہیں یہ نماز تم پر رمضان میں فرض نہ کردی جائے۔ (مسلم ۔ الترغیب فی صلاۃ التراویح)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ا قیام رمضان کی ترغیب تو دیتے تھے لیکن وجوب کا حکم نہیں دیتے تھے۔ آپ ا فرماتے کہ جوشخص رمضان کی راتوں میں نماز (تراویح) پڑھے اور وہ ایمان کے دوسرے تقاضوں کو بھی پورا کرے اور ثواب کی نیت سے یہ عمل کرے تو اللہ تعالیٰ اس کے سابقہ گناہ معاف فرمادیں گے۔ رسول اللہ ا کی وفات تک یہی عمل رہا، دورِ صدیقی اور ابتداء عہد فاروقی میں بھی یہی عمل رہا۔ (مسلم ۔ الترغیب فی صلاۃ التراویح) صحیح مسلم کی اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نبی اکرم ا کی حیات میں ، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے ابتدائی دور خلافت میں نماز تراویح جماعت سے پڑھنے کا کوئی اہتمام نہیں تھا، صرف ترغیب دی جاتی تھی اور انفرادی طور پر نماز تراویح پڑھی جاتی تھی۔ البتہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں یقیناًتبدیلی ہوئی، اس تبدیلی کی وضاحت محدثین ،فقہاء اور علماء کرام نے فرمائی ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانے میں عشاء کے فرائض کے بعد وتروں سے پہلے پورے رمضان باجماعت نماز تراویح شروع ہوئی، نیز قرآن کریم ختم کرنے اور رمضان میں وتر باجماعت پڑھنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ سعودی عرب کے نامور عالم ، مسجد نبوی کے مشہور مدرس اور مدینہ منورہ کے (سابق) قاضی الشیخ عطیہ محمد سالم ؒ (متوفی ۱۹۹۹) نے نماز تراویح کی چودہ سو سالہ تاریخ پر عربی زبان میں ایک کتاب (التراویح اکثر من الف عام فی المسجد النبوی) تحریر کی ہے جو اس موضوع کے لئے بے حد مفید ہے۔
قرآن اور رمضان کے درمیان چند مشترک خصوصیات:
قرآن اور رمضان کی پہلی اہم مشترک خصوصیت تقویٰ ہے، جیساکہ قرآن کریم کی آیات کی روشنی میں ذکر کیا گیا۔ دوسری مشترک خصوصیت شفاعت ہے۔حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ روزہ اور قرآن کریم دونوں بندہ کے لئے شفاعت کرتے ہیں۔ روزہ عرض کرتا ہے کہ یا اللہ میں نے اس کو دن میں کھانے پینے سے روکے رکھا ، میری شفاعت قبول کرلیجئے، اور قرآن کہتا ہے کہ یا اللہ میں نے رات کو اس کو سونے سے روکا ، میری شفاعت قبول کرلیجئے، پس دونوں کی شفاعت قبول کرلی جائے گی۔ (رواہ احمد والطبرانی فی الکبیر والحاکم وقال صحیح علی شرط مسلم)
تیسری خصوصیت جو رمضان اور قرآن دونوں میں مشترک طور پر پائی جاتی ہے وہ قرب الہی ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کے کلام کی تلاوت کے وقت اللہ تعالیٰ سے خاص قرب حاصل ہوتا ہے، ایسے ہی روزہ دار کو بھی اللہ تعالیٰ کا خاص قرب حاصل ہوتا ہے کہ روزہ کے متعلق حدیث قدسی میں اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے کہ میں خود ہی روزہ کا بدلہ ہوں۔ مضمون کی طوالت سے بچنے کیلئے قرآن ورمضان کی صرف تین مشترک خصوصیات کے ذکر پر اکتفاء کرتا ہوں۔
اسلاف کا ماہِ رمضان میں تلاوتِ قرآن کا خاص اہتمام:
روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ وتابعین وتبع تابعین رمضان المبارک میں قرآن کریم کے ساتھ خصوصی شغف رکھتے تھے۔ بعض اسلاف واکابرین کے متعلق کتابوں میں تحریر ہے کہ وہ رمضان المبارک میں دیگر مصروفیات چھوڑ کر صرف اور صرف تلاوت قرآن میں دن ورات کا وافر حصہ صرف کرتے تھے۔ امام مالکؒ جنہوں نے حدیث کی مشہور کتاب موطا مالک تحریر فرمائی ہے، جو مشہور فقیہ ہونے کے ساتھ ایک بڑے محدث بھی ہیں لیکن رمضان شروع ہونے پر حدیث پڑھنے پڑھانے کے سلسلہ کو بند کرکے دن ورات کا اکثر حصہ تلاوتِ قرآن میں لگاتے تھے۔ اسلاف سے منقول ہے کہ وہ ماہ رمضان اور خاص کر آخری عشرہ میں تین دن یا ایک دن میں قرآن کریم مکمل فرماتے تھے۔ صحیح مسلم کی سب سے زیادہ مشہور شرح لکھنے والے اور ریاض الصالحین کے مؤلف نے اپنی کتاب “الاذکار” ص ۱۰۲ میں ایسے شیوخ کا ذکر فرمایا ہے جو ایک رکعت میں قرآن کریم ختم فرماتے تھے۔ رمضان کے مبارک مہینہ میں ختم قرآن کریم کے اتنے واقعات کتابوں میں مذکور ہیں کہ ان کااحاطہ نہیں کیا جاسکتا ہے۔ لہذا اس مبارک مہینہ میں زیادہ سے زیادہ اپنا وقت قرآن کریم کی تلاوت میں لگائیں۔ نماز تراویح کے پڑھنے کا اہتمام کریں اور اگر تراویح میں ختم قرآن کا اہتمام کیا جائے تو بہت بہتر وافضل ہے کیونکہ حدیث میں وارد ہے کہ ہر سال ماہ رمضان میں آپ ﷺ حضرت جبرئیل علیہ السلام کے ساتھ قرآن کے نازل شدہ حصوں کا دور کرتے تھے۔ جس سال آپ ﷺ کا انتقال ہوا اس سال آپ ﷺ نے دوبار قرآن کریم کا دور فرمایا۔ ماہِ رمضان کے بعد بھی تلاوتِ قرآن کا روزانہ اہتمام کریں خواہ مقدار میں کم ہی کیوں نہ ہو، نیز علماءِ کرام کی سرپرستی میں قرآن کریم کو سمجھ کر پڑھنے کی کوشش کریں۔ قرآن کریم میں وارد احکام ومسائل کو سمجھ کر اُن پر عمل کریں اور دوسروں تک پہونچائیں۔ اگر ہم قرآن کریم کے معنی ومفہوم نہیں سمجھ پا رہے ہیں تب بھی ہمیں تلاوت کرنا چاہئے کیونکہ قرآن کی تلاوت بھی مطلوب ہے۔ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص ایک حرف قرآن کریم کا پڑھے اس کے لئے اس حرف کے عوض ایک نیکی ہے اور ایک نیکی کا اجردس نیکی کے برابر ملتا ہے۔میں یہ نہیں کہتا کہ اآآ ایک حرف ہے بلکہ الف ایک حرف،لام ایک حرف اور میم ایک حرف۔ (ترمذی)
تلاوت قرآن کے کچھ آداب ہیں جن کا تلاوت کے وقت خاص خیال رکھا جائے تاکہ ہم عند اللہ اجر عظیم کے مستحق بنیں۔ تلاوت چونکہ ایک عبادت ہے لہذا ریا وشہرت کے بجائے اس سے صرف اورصرف اللہ تعالیٰ کی رضا مطلوب ومقصود ہو، نیز وضو وطہارت کی حالت میں ادب واحترام کے ساتھ اللہ کے کلام کی تلاوت کریں۔ تیسرا اہم ادب یہ ہے کہ اطمینان کے ساتھ ٹھہر ٹھہر کر اور اچھی آواز میں تجوید کے قواعد کے مطابق تلاوت کریں۔ تلاوت قرآن کے وقت اگر آیتوں کے معانی پر غور وفکر کرکے پڑھیں تو بہت ہی بہتر ہے۔ قرآن کریم کے احکام ومسائل پر خود بھی عمل کریں اور اس کے پیغام کو دوسروں تک پہونچانے کی کوشش کریں۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو روزہ اور تلاوت قرآن کی برکت سے تقویٰ والی زندگی گزارنے والا بنائے اور ہمیں دونوں جہاں میں کامیابی وکامرانی عطا فرمائے۔ آمین۔
محمد نجیب قاسمی سنبھلی، ریاض (najeebqasmi@yahoo.com)

نزول وحفاظت قرآن کریم

بسم الله الرحمن الرحيم

اَلْحَمْدُ لِله رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلام عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔

نزول وحفاظت قرآن کریم

قرآن:
قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا وہ عظیم الشان کلام ہے جو انسانوں کی ہدایت کے لئے خالق کائنات نے اپنے آخری رسول حضور اکرم ﷺ پر نازل فرمایا۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی حفاظت خود اپنے ذمہ لی ہے جیساکہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ قرآن کریم میں موجود ہے: اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَه لَحَافِظُوْنَ (سورۃ الحجر آیت ۹) یہ ذکر (یعنی قرآن) ہم نے ہی اتارا ہے، اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ قرآن کریم آخری آسمانی کتاب ہے جو قیامت تک کے لئے نافذ العمل رہے گی، برخلاف پہلی آسمانی کتابوں کے کہ وہ خاص قوموں اور خاص زمانوں کے لئے تھیں۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ان کو قیامت تک محفوظ رکھنے کی کوئی ضمانت نہیں دی تھی، لیکن اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی حفاظت کا ذمہ خود لیا ہے۔
وحی:
قرآن کریم چونکہ حضور اکرم ﷺ پر وحی کے ذریعہ نازل کیا گیا ہے اس لئے سب سے پہلے مختصراً وحی کو سمجھیں۔ وحی وہ کلام ہے جو اللہ تعالیٰ حضرت جبرئیل علیہ السلام کے واسطہ یا بلا واسطہ اپنے انبیاء پر القاء فرماتا ہے، جس کے ذریعہ خالق کائنات انسان کو دنیاوی زندگی گزارنے کا طریقہ بتلاتا ہے تاکہ لوگ اس کے بتلائے ہوئے طریقہ پر دنیاوی زندگی گزارکر جہنم سے بچ کر ہمیشہ ہمیشہ کی جنت میں داخل ہوجائیں۔
انسان تین ذرائع میں سے کسی ایک ذریعہ سے علم حاصل کرتا ہے۔ ایک انسان کے حواس یعنی آنکھ، کان، منہ اور ہاتھ پاؤں، دوسرا ذریعہ عقل اور تیسرا ذریعہ وحی ہے۔ انسان کو بہت سی باتیں اپنے حواس کے ذریعہ معلوم ہوجاتی ہیں، جبکہ بہت سی عقل کے ذریعہ اور جو باتیں ان دونوں ذرائع سے معلوم نہیں ہوسکتیں ان کا علم وحی کے ذریعہ عطا کیا جاتا ہے۔حواس اور عقل کے ذریعہ حاصل شدہ علم میں غلطی کے امکان ہوتے ہیں لیکن وحی کے ذریعہ حاصل شدہ علم میں غلطی کے امکان بالکل نہیں ہوتے کیونکہ یہ علم خالق کائنات کی جانب سے انبیاء کے ذریعہ انسانوں کو پہنچتا ہے۔ غرض وحی انسان کے لئے وہ اعلیٰ ترین ذریعہ علم ہے جو اسے اسکی زندگی سے متعلق ان سوالات کا جواب مہیا کرتا ہے جو عقل وحواس کے ذریعہ حل نہیں ہوسکتے۔ یعنی صرف عقل اور مشاہدہ انسان کی رہنمائی کے لئے کافی نہیں ہے بلکہ اس کی ہدایت کے لئے وحئ الہی ایک ناگزیر ضرورت ہے۔ چونکہ وحی عقل اور مشاہدہ سے بڑھ کر علم ہے لہذا ضروری نہیں کہ وحی کی ہر بات کا ادراک عقل سے ہوسکے۔

نزول وحی کے چند طریقے:حضور اکرم ﷺ پر مختلف طریقوں سے وحی نازل ہوتی تھی۔
۱) گھنٹی کی سی آواز سنائی دیتی اور آواز نے جو کچھ کہا ہوتا وہ حضور اکرم ﷺ کو یاد ہوجاتا۔ جب اس طریقہ پر وحی نازل ہوتی تھی تو آپ ﷺپر بہت زیادہ بوجھ پڑتا تھا۔
۲) فرشتہ کسی انسانی شکل میں آپ ﷺ کے پاس آتا اور اللہ تعالیٰ کا پیغام آپ کو پہنچادیتا۔ ایسے مواقع پر عموماً حضرت جبرئیل علیہ السلام مشہور صحابی حضرت دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ کی صورت میں تشریف لایا کرتے تھے۔
۳) حضرت جبرئیل علیہ السلام اپنی اصل صورت میں تشریف لاتے تھے، آپ ﷺ کی عمر میں صرف تین مرتبہ ایسا ہوا ہے۔ ایک نبوت کے بالکل ابتدائی دور میں، دوسری بار خود حضور اکرم ﷺ نے حضرت جبرئیل علیہ السلام سے ان کی اصل صورت میں دیکھنے کی خواہش ظاہر فرمائی تھی اور تیسری مرتبہ معراج کے موقع پر۔
۴) بلاواسطہ اللہ تعالیٰ سے حضور اکرم ﷺ کی ہم کلامی ہوئی۔ یہ صرف ایک بار معراج کے موقع پر ہوا۔ نماز کی فرضیت اسی موقع پر ہوئی۔
۵) حضرت جبرئیل علیہ السلام آپ ﷺ کے سامنے آئے بغیر آپ ﷺ کے قلب مبارک پر کوئی بات القاء فرمادیتے تھے۔

تاریخ نزول قرآن:
ماہ رمضان کی ایک بابرکت رات لیلۃ القدر میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے لوح محفوظ سے سماء دنیا پر قرآن کریم نازل فرمایا اور اس کے بعد حسب ضرورت تھوڑا تھوڑا حضور اکرم ﷺ پر نازل ہوتا رہا اور تقریباً ۲۳ سال کے عرصہ میں قرآن کریم مکمل نازل ہوا۔ قرآن کریم کا تدریجی نزول اُس وقت شروع ہوا جب آپ ﷺ کی عمر مبارک چالیس سال تھی۔ قرآن کریم کی سب سے پہلی جو آیتیں غارِ حرا میں اتریں وہ سورۂ علق کی ابتدائی آیات ہیں: اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ۔ خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ۔ اِقْرَاْ وَرَبُّکَ الْاَکْرَمْ پڑھو اپنے اس پروردگار کے نام سے جس نے پیدا کیا۔ جس نے انسان کو منجمد خون سے پیدا کیا۔ پڑھو، اور تمہارا پروردگار سب سے زیادہ کریم ہے۔ اس پہلی وحی کے نزول کے بعد تین سال تک وحی کے نزول کا سلسلہ بند رہا۔ تین سال کے بعد وہی فرشتہ جو غار حرا میں آیا تھا آپ ﷺ کے پاس آیا اور سورۃ المدثر کی ابتدائی چند آیات آپ ﷺ پر نازل فرمائیں: ےَا اَیُّہَا الْمُدَثِّرْ ۔ قُمْ فَاَنْذِرْ۔ وَرَبَّکَ فَکِبِّرْ۔ وَثِےَابَکَ فَطَہِّرْ۔ والرُّجْزَ فَاہْجُرْ۔اے کپڑے میں لپٹنے والے۔ اٹھو اور لوگوں کو خبردار کرو۔ اور اپنے پروردگار کی تکبیر کہو۔ اور اپنے کپڑوں کو پاک رکھو۔ اور گندگی سے کنارہ کرلو۔
اس کے بعد حضور اکرم ﷺ کی وفات تک وحی کے نزول کا تدریجی سلسلہ جاری رہا۔ قرآن کریم کا سب سے چھوٹا حصہ جو مستقلاً نازل ہوا ہے وہ “غَيْرِ اُولِی الضَّرَرِ” (النساء ۹۵) ہے جو ایک طویل آیت کا ٹکڑا ہے۔ دوسری طرف پوری سورۃ الانعام ایک ہی مرتبہ نازل ہوئی ہے۔ غرض تقریباً ۲۳ سال کے عرصہ میں قرآن کریم مکمل نازل ہوا۔

قرآن کریم کے تدریجی نزول کا مقصد:
دیگر آسمانی کتابوں کے برخلاف قرآن کریم کو ایک دفعہ نازل کرنے کے بجائے تھوڑا تھوڑا نازل کیا گیا۔ اس کی وجہ خود اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں مشرکین مکہ کے سوال کے جواب میں ان الفاظ میں بتائی ہے:
اور یہ کافرلوگ کہتے ہیں کہ ان پرسارا قرآن ایک ہی دفعہ میں کیوں نازل نہیں کردیا گیا؟ (اے پیغمبر!) ہم نے ایسا اس لئے کیا ہے تاکہ اس کے ذریعہ تمہارا دل مضبوط رکھیں اور ہم نے اسے ٹھہر ٹھہر کر پڑھوایا ہے۔ اور جب کبھی یہ لوگ تمہارے پاس کوئی انوکھی بات لے کر آتے ہیں، ہم تمہیں (اس کا ) ٹھیک ٹھیک جواب اور زیادہ وضاحت کے ساتھ عطا کردیتے ہیں۔ (سورۃ الفرقان ۳۲، ۳۳)
امام رازی ؒ نے اس آیت کی تفسیر میں قرآن کریم کے تدریجی نزول کی جو حکمتیں بیان فرمائی ہیں، اُن کا خلاصۂ کلام یہ ہے:
۱)حضور اکرم ﷺ اُمی تھے، اس لئے اگر سارا قرآن ایک مرتبہ نازل ہوگیا ہوتا تو اس کا یاد رکھنا اور ضبط کرنا دشوار ہوتا۔
۲)اگر پورا قرآن ایک دفعہ میں نازل ہوجاتا تو تمام احکام کی پابندی فوراً لازم ہوجاتی اور یہ اس حکیمانہ تدریج کے خلاف ہوتا جو شریعت محمدی میں ملحوظ رہی ہے۔
۳)حضور اکرم ﷺ کو اپنی قوم کی طرف سے ہر روز نئی اذیتیں برداشت کرنی پڑتی تھی، حضرت جبرئیل علیہ السلام کا بار بار قرآن کریم لے کر آنا ، ان اذیتوں کے مقابلے کو آسان بنادیتا تھا اور آپ کی تقویتِ قلب کا سبب بنتا تھا۔
۴) قرآن کریم کا ایک حصہ لوگوں کے سوالات کے جواب اور مختلف واقعات سے متعلق ہے۔ اس لئے ان آیتوں کا نزول اسی وقت مناسب تھا جس وقت وہ سوالات کئے گئے یا وہ واقعات پیش آئے۔

مکی ومدنی آیات وسورۃ:
ہجرت مدینہ منورہ سے قبل تقریباً ۱۳ سال تک قرآن کریم کے نزول کی آیات وسورتوں کو مکی اور مدینہ منورہ پہنچنے کے بعد تقریباً ۱۰ سال تک قرآن کریم کے نزول کی آیات وسورتوں کو مدنی کہا جاتا ہے۔ کسی سورۃ کے مدنی ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس سورۃ کی ہر ہر آیت مدینہ منورہ ہجرت کرنے کے بعد نازل ہوئی ہو بلکہ اکثر آیتوں کے نزول کے اعتبار سے سورۃ کو مکی یا مدنی کہا گیا ہے۔

تاریخ حفاظت قرآن:
جیسا کہ ذکر کیا گیا کہ قرآن کریم ایک ہی دفعہ میں نازل نہیں ہوا بلکہ ضرورت اورحالات کے اعتبار سے مختلف آیات نازل ہوتی رہیں۔ قرآن کریم کی حفاظت کے لئے سب سے پہلے حفظ قرآن پر زور دیا گیا۔ چنانچہ خود حضور اکرم ﷺ الفاظ کو اسی وقت دہرانے لگتے تھے تاکہ وہ اچھی طرح یاد ہوجائیں۔ اس پر اللہ تعالیٰ کی جانب سے وحی نازل ہوئی کہ عین نزول وحی کے وقت جلدی جلدی الفاظ دہرانے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ خود آپ میں ایسا حافظہ پیدا فرمادے گا کہ ایک مرتبہ نزول وحی کے بعد آپ اسے بھول نہیں سکیں گے۔ اس طرح حضور اکرم ﷺ پہلے حافظ قرآن ہیں۔ چنانچہ ہر سال ماہ رمضان میں آپ ﷺ حضرت جبرئیل علیہ السلام کے ساتھ قرآن کے نازل شدہ حصوں کا دور فرمایا کرتے تھے۔ جس سال آپ ﷺ کا انتقال ہوا اس سال آپ ﷺ نے دوبار قرآن کریم کا دور فرمایا۔ پھر آپ ﷺ صحابۂ کرام کو قرآن کے معانی کی تعلیم ہی نہیں دیتے تھے بلکہ انہیں اس کے الفاظ بھی یاد کراتے تھے۔ خود صحابۂ کرام کو قرآن کریم یاد کرنے کا اتنا شوق تھا کہ ہر شخص ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی فکر میں رہتا تھا۔ چنانچہ ہمیشہ صحابۂ کرام میں ایک اچھی خاصی جماعت ایسی رہتی جو نازل شدہ قرآن کی آیات کو یاد کرلیتی اور راتوں کو نماز میں اسے دہراتی تھی۔ غرضیکہ قرآن کی حفاظت کے لئے سب سے پہلے حفظ قرآ ن پر زور دیا گیا اور اُس وقت کے لحاظ سے یہی طریقہ زیادہ محفوظ اور قابل اعتماد تھا۔
قرآن کریم کی حفاظت کے لئے حضور اکرم ﷺ نے قرآن کریم کو لکھوانے کا بھی خاص اہتمام فرمایا چنانچہ نزول وحی کے بعد آپ کاتبین وحی کو لکھوادیا کرتے تھے۔ حضور اکرم ﷺ کا معمول یہ تھا کہ جب قرآن کریم کا کوئی حصہ نازل ہوتا تو آپ کاتب وحی کو یہ ہدایت بھی فرماتے تھے کہ اسے فلاں سورۃ میں فلاں فلاں آیات کے بعد لکھا جائے۔ اس زمانہ میں کاغذ دستیاب نہیں تھا اس لئے یہ قرآنی آیات زیادہ تر پتھر کی سلوں، چمڑے کے پارچوں، کھجور کی شاخوں، بانس کے ٹکڑوں، درخت کے پتوں اور جانور کی ہڈیوں پر لکھی جاتی تھیں۔ کاتبین وحی میں حضرت زید بن ثابتؓ، خلفاء راشدین، حضرت ابی بن کعبؓ، حضرت زبیر بن عوامؓ اور حضرت معاویہؓ کے نام خاص طور پر ذکر کئے جاتے ہیں۔

حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے عہد خلافت میں حفاظت قرآن:
حضور اکرم ﷺ کے زمانے میں جتنے قرآن کریم کے نسخے لکھے گئے تھے وہ عموماً متفرق اشیاء پر لکھے ہوئے تھے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ کے عہد خلافت میں جب جنگ یمامہ کے دوران حفاظ قرآن کی ایک بڑی جماعت شہید ہوگئی تو حضرت عمر فاروقؓ نے حضرت ابوبکر صدیقؓ کو قرآن کریم کو ایک جگہ جمع کروانے کا مشورہ دیا۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ ابتداء میں اس کام کے لئے تیار نہیں تھے لیکن شرح صدر کے بعد وہ بھی اس عظیم کام کے لئے تیار ہوگئے اور کاتب وحی حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کو اس اہم وعظیم عمل کا ذمہ دار بنایا۔ اس طرح قرآن کریم کو ایک جگہ جمع کرنے کا اہم کام شروع ہوگیا۔
حضرت زید بن ثابتؓ خود کاتب وحی ہونے کے ساتھ پورے قرآن کریم کے حافظ تھے۔وہ اپنی یادداشت سے بھی پورا قرآن لکھ سکتے تھے، اُن کے علاوہ اُس وقت سینکڑوں حفاظ قرآن موجود تھے ،مگر انہوں نے احتیاط کے پیش نظر صرف ایک طریقہ پر بس نہیں کیا بلکہ ان تمام ذرائع سے بیک وقت کام لے کر اُس وقت تک کوئی آیت اپنے صحیفے میں درج نہیں کی جب تک اس کے متواتر ہونے کی تحریری اور زبانی شہادتیں نہیں مل گئیں۔ اس کے علاوہ حضور اکرم ﷺ نے قرآن کی جو آیات اپنی نگرانی میں لکھوائی تھیں، وہ مختلف صحابۂ کرام کے پاس محفوظ تھیں، حضرت زید بن ثابتؓ نے انہیں یکجا فرمایاتاکہ نیا نسخہ ان ہی سے نقل کیا جائے۔ اس طرح خلیفہ اوّل حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے عہد خلافت میں قرآن کریم ایک جگہ جمع کردیا گیا۔

حضرت عثمان غنیؓ کے عہد خلافت میں حفاظت قرآن:
جب حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ خلیفہ بنے تو اسلام عرب سے نکل کر دو دراز عجمی علاقوں تک پھیل گیا تھا۔ ہر نئے علاقہ کے لوگ ان صحابہ وتابعین سے قرآن سیکھتے جن کی بدولت انہیں اسلام کی نعمت حاصل ہوئی تھی ۔ صحابۂ کرام نے قرآن کریم حضور اکرم ﷺسے مختلف قرأتوں کے مطابق سیکھا تھا۔ اس لئے ہر صحابی نے اپنے شاگردوں کو اسی قراء ت کے مطابق قرآن پڑھایا جس کے مطابق خود انہوں نے حضور اکرم ﷺ سے پڑھا تھا۔ اس طرح قرأتوں کا یہ اختلاف دور دراز ممالک تک پہنچ گیا۔ لوگوں نے اپنی قراء ت کو حق اور دوسری قرأتوں کو غلط سمجھنا شروع کردیا حالانکہ اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے اجازت ہے کہ مختلف قرأتوں میں قرآن کریم پڑھا جائے۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس پیغام بھیجا کہ اُن کے پاس (حضرت ابوبکر صدیقؓ کے تیار کرائے ہوئے) جوصحیفے موجود ہیں ، وہ ہمارے پاس بھیج دیں۔ چنانچہ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کی سرپرستی میں ایک کمیٹی تشکیل دے کر ان کو مکلف کیا گیا کہ وہ حضرت ابوبکر صدیقؓ کے صحیفہ سے نقل کرکے قرآن کریم کے چند ایسے نسخے تیار کریں جن میں سورتیں بھی مرتب ہوں۔ چنانچہ قرآن کریم کے چند نسخے تیار ہوئے اور ان کو مختلف جگہوں پر ارسال کردیا گیا تاکہ اسی کے مطابق نسخے تیار کرکے تقسیم کردئے جائیں۔ اس طرح امت مسلمہ میں اختلاف باقی نہ رہا اور پوری امت مسلمہ اسی نسخہ کے مطابق قرآن کریم پڑھنے لگی۔ بعد میں لوگوں کی سہولت کے لئے قرآن کریم پر نقطے وحرکات (یعنی زبر، زیر اور پیش) بھی لگائے گئے، نیز بچوں کو پڑھانے کی سہولت کے مدنظر قرآن کریم کو تیس پاروں میں تقسیم کیا گیا۔ نماز میں تلاوت قرآن کی سہولت کے لئے رکوع کی ترتیب بھی رکھی گئی۔

اللہ تعالیٰ ہمیں اہتمام سے قرآن کریم کی تلاوت کرنے والا بنائے،اس کو سمجھ کر پڑھنے والا بنائے، اس کے احکام ومسائل پر عمل کرنے والا بنائے اور اس کے پیغام کو دوسروں تک پہونچانے والا بنائے۔ آمین، ثم آمین۔

محمد نجیب قاسمی (najeebqasmi@yahoo.com)

قرآنی معلومات

بسم الله الرحمن الرحيم

اَلْحَمْدُ لِله رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلام عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔

قرآنی معلومات

اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو لوح محفوظ سے سماء دنیا پر لیلۃ القدر میں نازل فرمایا ، پھر تقریباً ۲۳ سال کے عرصہ میں حضوراکرم ﷺ پر نازل ہوا۔ یہ قرآن انس وجن کی ہدایت ورہبری کا سرچشمہ ہے۔ اللہ کی یہ کتاب دنیا میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب ہے۔ قرآن کے لفظی معنی بھی باربار اور بہت زیادہ پڑھی جانے والی کتاب کے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے پاک کلام میں بھی لفظ قرآن کا متعدد مرتبہ ذکر فرمایا ہے۔ قرآن کریم کی پہلی وحی کا پہلا کلمہ اِقْرأ بھی اسی طرف اشارہ کرتا ہے۔ قرآن کے نزول کا اصل مقصد قرآن کریم کو سمجھ کر پڑھنا اور اس پر عمل کرنا ہے، اگرچہ صرف قرآن کریم کی تلاوت پر بھی اجرعظیم ملتا ہے، جیساکہ مفسر اوّل حضور اکرم ﷺ نے مختلف سورتوں کے مختلف اوقات میں پڑھنے کے متعدد فضائل بیان کئے ہیں۔ قرآن کریم سے متعلق چند معلومات پیش خدمت ہیں۔
علماء کرام نے لوگوں کی سہولت کے لئے قرآن کریم کو مختلف طریقوں سے تقسیم کیا ہے:
منزلیں: قرآن کریم میں ۷ منزلیں ہیں۔ یہ منزلیں اس لئے مقرر کی گئی ہیں تاکہ جو لوگ ایک ہفتہ میں ختم قرآن کریم کرنا چاہیں وہ روزانہ ایک منزل تلاوت فرمائیں۔
پارے: قرآن کریم میں ۳۰ پارے ہیں، انہی کو جز بھی کہا جاتا ہے۔ جوحضرات ایک ماہ میں قرآن کریم ختم کرنا چاہیں وہ روزانہ ایک پارہ تلاوت فرمائیں۔ بچوں کو قرآن کریم سیکھنے کے لئے بھی اس سے سہولت ہوتی ہے۔
سورتیں: قرآن کریم میں ۱۱۴ سورتیں ہیں۔ ہر سورۃ کے شروع میں بسم اللہ لکھی ہوئی ہے سوائے سورۂ توبہ کے۔ سورۃ النمل میں بسم اللہ ایک آیت کا جز بھی ہے، اس طرح قرآن کریم میں بسم اللہ کی تعداد بھی سورتوں کی طرح ۱۱۴ ہی ہے۔ ان تمام سورتوں کے نام بھی ہیں جو بطور علامت رکھے گئے ہیں بطور عنوان نہیں۔ مثلاً سورۃالفیل کا مطلب یہ نہیں کہ وہ سورہ جو ہاتھی کے موضوع پر نازل ہوئی، بلکہ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ وہ سورہ جس میں ہاتھی کا ذکر آیا ہے۔ اسی طرح سورۃالبقرہ کا مطلب وہ سورہ جس میں گائے کا ذکر آیا ہے۔
آیات: قرآن کریم میں چھ ہزار سے کچھ زیادہ آیات ہیں۔
سجدۂ تلاوت: قرآن کریم میں ۱۴ آیات ہیں، جن کی تلاوت کے وقت اور سننے کے وقت سجدہ کرنا واجب ہوتا ہے۔
مکی ومدنی آیات وسورتیں:
ہجرت مدینہ منورہ سے قبل تقریباً ۱۳ سال تک قرآن کریم کے نزول کی آیات وسورتوں کو مکی اور مدینہ منورہ پہنچنے کے بعد تقریباً ۱۰ سال تک قرآن کریم کے نزول کی آیات وسورتوں کو مدنی کہا جاتا ہے۔
مضامین قرآن:
علماء کرام نے قرآن کریم کے مضامین کی مختلف قسمیں ذکر فرمائی ہیں، تفصیلات سے قطع نظر ان مضامین کی بنیادی تقسیم اس طرح ہے:
۱) عقائد۔ ۲) احکام۔ ۳) قصص
۱) عقائد: توحید ، رسالت، آخرت وغیرہ کے مضامین اسی کے تحت آتے ہیں۔ عقائد پر قرآن کریم نے بہت زور دیاہے اور ان بنیادی عقائد کو مختلف الفاظ سے بار بار ذکر فرمایا ہے۔ ان کے علاوہ فرشتوں پر ایمان، آسمانی کتابوں پر ایمان، تقدیر پر ایمان، جزاوسزا، جنت ودوزخ، عذاب قبر، ثواب قبر، قیامت کی تفصیلات وغیرہ بھی مختلف عقیدوں پر قرآن کریم میں روشنی ڈالی گئی ہے۔
۲) احکام: اس کے تحت مندرجہ ذیل احکام اور ان سے متعلق مسائل آتے ہیں:
عبادتی احکام : نماز، روزہ، زکاۃ اور حج وغیرہ کے احکام ومسائل۔ قرآن کریم میں سب زیادہ تاکید نماز پڑھنے کے متعلق وارد ہوئی ہے۔ قرآن کریم میں نماز کی ادائیگی کے حکم کے ساتھ ہی عموماً زکاۃ کی ادائیگی کا حکم بھی وارد ہوا ہے۔
معاشرتی احکام : مثلاً حقوق العباد کی ساری تفصیلات۔
معاشی احکام : خرید وفروخت، حلال اور حرام اور مال کمانے اور خرچ کرنے کے مسائل۔
اخلاقی وسماجی احکام: انفرادی اور اجتماعی زندگی سے متعلق احکام ومسائل۔
سیاسی احکام : حکومت اور رعایا کے حقوق سے متعلق احکام ومسائل۔
عدالتی احکام : حدود وتعزیرات کے احکام ومسائل۔
۳) قصص: گزشتہ ابنیاء کرام اور ان کی امتوں کے واقعات کی تفصیلات۔
قرآن کریم کے مختلف زبانوں میں بے شمار ترجمے ہوئے ہیں اور تفسیریں تحریر کی گئی ہیں اور یہ سلسلہ برابر جاری ہے اور ان شاء اللہ کل قیامت تک جاری وساری رہے گا۔ مگر سب کا مأخذ قرآن وحدیث ہی ہے، یعنی مفسر اوّل حضور اکرم ﷺ کے اقوال وافعال کی روشنی میں ہی قرآن کریم سمجھا جاسکتا ہے۔
محمد نجیب قاسمی (najeebqasmi@yahoo.com)

قرآن کریم پڑھنے کا ثواب میت کو پہنچنے کا حکم

بسم الله الرحمن الرحيم

اَلْحَمْدُ لِله رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلام عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔

قرآن کریم پڑھنے کا ثواب میت کو پہنچنے کا حکم
روز مرہ کے تقریباً ۸۰ فیصد پریکٹیکل مسائل میں امت مسلمہ متفق ہے، کیونکہ شریعت اسلامیہ کا واضح حکم موجود ہے۔ البتہ چند اسباب کی وجہ سے روز مرہ کے تقریباً ۲۰ فیصد پریکٹیکل مسائل میں زمانۂ قدیم سے اختلاف چلا آرہا ہے اور ان میں سے بعض اسباب یہ ہیں:
* نص فہمی میں اختلاف : ( یعنی قرآن وحدیث کی عبارت سمجھنے میں اختلاف ہوجائے) مثلاً اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: اَوْ لٰمَسْتُمُ النِّسَاءَ (سورہ النساء ۴۳)۔ علماء کی ایک جماعت نے اس آیت سے نواقض وضو مراد لیا ہے کہ عورت کو چھوتے ہی وضوٹوٹ جاتا ہے۔ جبکہ دیگر مفسرین وفقہاء مثلاً امام ابوحنیفہ ؒ نے اس آیت سے نواقض غسل مراد لیا ہے کہ صحبت کرنے سے غسل واجب ہوتا ہے، عورت کو صرف چھونے سے وضو نہیں ٹوٹتا ہے۔ غرضیکہ نص فہمی میں اختلاف ہوا جس کی وجہ سے بعض مسائل میں اختلاف ہوگیا۔
* ناسخ ومنسوخ کو طے کرنے میں اختلاف : (یعنی حضور اکرم ا کا آخری عمل کونسا ہے؟) مثلاًنبی اکرم اسے رکوع میں جاتے اور اٹھتے وقت رفع یدین کا کرنا اور نہ کرنا دونوں احادیث سے ثابت ہے، البتہ نبی اکرم ا کا آخری عمل کیا ہے ، اس سلسلہ میں اختلاف ہے۔
* جدید استنباطی مسائل: نئے نئے مسائل میں اختلاف کا ہونا بدیہی ہے، کیونکہ ہر مجتہد وفقیہ کو اختیار ہے کہ وہ نئے مسائل کا حل قرآن وسنت کی روشنی میں تلاش کرے۔ مثال کے طور پر اپنے جسم کے کسی عضو (مثلاً کڈنی) کو ہبہ کرنے کا مسئلہ۔
* کسی معین حدیث یا کسی خاص موضوع سے متعلق احادیث کو قابل قبول ماننے میں اختلاف ہوجائے (مثلاًموضوع بحث مسئلہ)۔
انہی ۲۰ فیصد مختلف فیہ مسائل میں قرآن کریم پڑھنے کا ثواب میت کو پہونچنے کا مسئلہ بھی ہے ۔ اس مسئلہ میں زمانۂ قدیم سے اختلاف چلا آرہا ہے۔ علماء وفقہاء کی ایک جماعت کی رائے ہے کہ قرآن کریم پڑھنے کا ثواب میت کو نہیں پہنچتا ، ان علماء وفقہاء میں سے حضرت امام شافعی ؒ اور حضرت امام مالک ؒ بھی ہیں، جبکہ دوسری جماعت کی رائے ہے کہ قرآن کریم پڑھنے کا ثواب میت کو پہنچتا ہے ، ان علماء وفقہاء میں سے حضرت امام ابوحنیفہ ؒ ، حضرت امام احمد ابن حنبل ؒ نیز حضرت امام شافعی ؒ اور حضرت امام مالک ؒ کے متعدد شاگرد بھی ہیں۔
علامہ قرطبی ؒ نے اپنی کتاب تذکرۃ فی احوال الموتی میں تحریر کیا ہے کہ اس باب میں اصل صدقہ ہے جس میں کسی کا کوئی اختلاف نہیں ہے تو جس طرح سے صدقہ کا ثواب میت کو پہونچتا ہے، قرآن کریم پڑھنے، دعا اور استغفار کا ثواب بھی میت کو پہونچے گا کیونکہ یہ بھی صدقات ہی ہیں، اور جن حضرات نے امام شافعی ؒ کے متعلق گمان کیا ہے کہ وہ میت پرقرآن کریم پڑھنے کو ناجائز قرار دیتے ہیں، وہ غلط ہے۔ کیونکہ صرف اختلاف اس میں ہے کہ اس کا ثواب میت کو پہنچتا ہے یا نہیں۔ امام شافعی ؒ اور دیگر جمہور علماء اس بات پر متفق ہیں کہ قرآن کریم پڑھنے کا ثواب میت کو پہونچے گا اگر پڑھنے والا اللہ تعالیٰ سے پہنچنے کی دعا کرتا ہے۔ اور جن حضرات نے کہا ہے کہ قرآن کریم پڑھنے کا ثواب نہیں پہونچتا، تو یہ اس وقت ہے جب کہ پڑھنے والا اللہ تعالیٰ سے پہونچنے کی دعا نہ کرے۔ (تذکرۃ فی احوال الموتی للقرطبی) غرضیکہ علامہ قرطبی ؒ کی تحقیق کے مطابق اکثر علماء کی رائے میں قرآن کریم پڑھنے کا ثواب میت کو پہونچتا ہے۔
اس موضوع سے متعلق چند احادیث شریفہ :
* حضرت عائشہؓ ، حضرت ابو ہریرہؓ، حضرت جابرؓ، حضرت ابورافع ؓ ، حضرت ابو طلحہ ؓ انصاری اور حضرت حذیفہ ؓ کی متفقہ روایت ہے کہ رسول اللہ انے دو مینڈھے قربان کئے۔ ایک اپنی طرف سے اور دوسرا امت کی طرف سے۔ (بخاری، مسلم، مسند احمد، ابن ماجہ، طبرانی، مستدرک اور ابن ابی شیبہ ) ۔ امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ قربانی کاثواب دوسروں حتی کہ زندوں کو بھی پہنچتا ہے ۔
* ایک شخص نے رسول اللہ اسے عرض کیا کہ میری ماں کا اچانک انتقال ہوگیا ہے۔ میرا خیال ہے کہ اگر انہیں بات کرنے کا موقع ملتا تو وہ ضرور صدقہ کرنے کے لئے کہتیں۔ اب اگر میں ان کی طرف سے صدقہ کروں تو کیا ان کے لئے اجر ہے؟ رسول اللہ انے فرمایا: ہاں۔ (بخاری، مسلم، مسند احمد، ابو داؤد، نسائی)۔ امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ صدقہ کاثواب میت حتی کہ زندوں کو بھی پہنچتا ہے ۔

* حضرت سعدؓ بن عبادہ نے حضور اکرم اسے پوچھا کہ میری والدہ کا انتقال ہوگیا ہے۔ کیا میں ان کی طرف سے صدقہ کروں؟ آپ انے فرمایا: ہاں۔ (مسند احمد، ابوداؤد، نسائی اور ابن ماجہ) ۔ اسی مضمون کی متعدد دوسری روایات حضرت عائشہؓ ، حضرت ابوہریرہؓ اور حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے بخاری، مسلم ، مسند احمد، نسائی، ترمذی، ابوداؤد اور ابن ماجہ وغیرہ میں موجود ہیں، جن میں رسول اللہ ا نے میت کی طرف سے صدقہ کرنے کی اجازت دی ہے اور اسے میت کے لئے نافع بتایا ہے۔
* حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاصؓ کی روایت ہے کہ ان کے دادا عاص بن وائل نے زمانۂ جاہلیت میں سو اونٹ ذبح کرنے کی نذر مانی تھی۔ ان کے چچا ہشام بن العاص نے اپنے حصہ کے پچاس اونٹ ذبح کردئے۔ حضرت عمرو بن العاصؓ نے رسول اللہ اسے پوچھا کہ میں کیا کروں۔ رسول اللہ ا نے ارشاد فرمایا کہ اگر تمہارے باپ نے توحید کا اقرار کرلیا تھا تو تم ان کی طرف سے روزہ رکھو یا صدقہ کرو وہ ان کے لئے نافع ہوگا۔ (مسند احمد)
* رسول اللہ انے ارشاد فرمایا: جب کسی شخص کا انتقال ہوجائے تو اس کی تدفین میں جلدی کرو۔ اس کے سرہانے کی طرف سورۂ فاتحہ اور پیروں کی طرف سورۂ البقرہ کا آخر پڑھو۔ (علامہ حافظ ابن حجر ؒ نے بخاری شریف کی شرح میں تحریر کیا ہے کہ یہ حدیث طبرانی نے صحیح (حسن) سند کے ساتھ ذکر کی ہے) ۔
* صحابہ کرام سے بھی نبی اکرم اکے مذکورہ فرمان پر عمل کرنا ثابت ہے جیسا کہ امام بیہقی ؒ نے حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے میت کے سرہانے کی طرف سورۂ فاتحہ اور پیروں کی طرف سورۂ البقرہ کا آخری رکوع پڑھنے کا عمل ذکرکیا ہے۔ مسلم کی مشہور شرح لکھنے والے امام نووی ؒ نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے ( الاذکار ) ۔
* رسول اللہ انے ارشاد فرمایا: سورۂ یس قرآن کریم کا دل ہے، جو شخص بھی اللہ تعالیٰ کا قرب اور آخرت میں بھلائی حاصل کرنے کی غرض سے اسے پڑھے گا، وہ اس کو حاصل ہوگی۔ اور اس سورہ کو اپنے مُردوں پر پڑھا کرو۔ (مسند احمد، ابن ابی شیبہ، ابوداؤد، ابن ماجہ، صحیح ابن حبان، سنن بیہقی، نسائی) محدثین کی ایک جماعت نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے، علماء کرام کی ایک بڑی جماعت نے اسی اور دیگر احادیث کی بنیاد پر میت پر قرآن کریم پڑھنے کو جائز قرار دیا ہے، جبکہ دیگر محدثین نے اس حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے لیکن محدثین کا اصول ہے کہ فضائل کے سلسلہ میں ضعیف حدیث معتبر ہوتی ہے جیسا کہ امام نووی ؒ نے جمہور علماء کے قول کو تحریر فرمایا ہے۔
* رسول اللہ انے ارشاد فرمایا: کوئی شخص حالت نزاع میں ہو اور اس کے پاس سورۂ یس پڑھی جائے تو اللہ تعالیٰ اس پر نزاع کی حالت کو آسان فرمادیتا ہے۔ (مسند للدیلمی، نیل الاوطارشرح منتقی الاخبار من احادیث سید الاخیار للقاضی الشوکانی)
* حضرت انسؓ سے مرفوعاً روایت ہے : اگر کوئی قبرستان میں سورۂ یس پڑھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس قبرستان کے مُردوں سے عذاب قبر کو کم کردیتا ہے۔ شیخ عبد العزیزؒ (صاحب الخلال )نے اس کی تخریج کی ہے۔ اس حدیث کو امام محمد بن عبد الوہاب ؒ نے اپنی کتاب احکام تمنی الموت میں ، امام حافظ الزیلعیؒ نے کنز الدقائق کی شرح میں اور امام ابن قدامہ حنبلی ؒ نے اپنی کتاب المغنی ،کتاب الجنائز میں ذکر کیا ہے۔ امام ابن قدامہ حنبلی ؒ نے اپنی اس مشہور کتاب المغنی ،کتاب الجنائز میں ایک اور حدیث ذکر فرمائی ہے کہ نبی اکرم انے ارشاد فرمایا: جس کسی شخص نے اپنے والدین یا ان میں سے کسی ایک کی قبر پر سورۂیس پڑھی تو میت کی مغفرت کردی جاتی ہے۔
مشہور ومعروف محدث حضرت ابو مغیرہ ؒ کہتے ہیں کہ حضرت صفوان ؒ نے فرمایا کہ مشائخ کہا کرتے تھے کہ اگر میت پر سورۂ یس پڑھی جاتی ہے تواس کی برکت سے اس کے ساتھ تخفیف کامعاملہ کیا جاتا ہے۔ (مسند احمد) امام احمد بن حنبل ؒ نے حضرت ابو مغیرہ ؒ سے متعدد احادیث نقل کی ہیں۔ شیخ محب الدین الطبری ؒ اور علامہ الشوکانی ؒ نے فرمایا ہے کہ اس سے مرنے کے بعد کسی کی قبر پر سورۂ یس پڑھنا مراد ہے۔
* رسول اللہ انے ارشاد فرمایا: جس شخص کا قبرستان پر گزر ہو اور وہ گیارہ مرتبہ قل ھو اللہ احد پڑھ کر اس کا ثواب مرنے والوں کو بخش دے تو پڑھنے والے کو مردوں کی تعداد کے برابر ثواب ملے گا۔ (دار قطنی)
* رسول اللہ انے ارشاد فرمایا: جو شخص قبرستان میں داخل ہوکر سورۂ فاتحہ، قل ہو اللہ احد اور الہاکم التکاثر پڑھے، پھر کہے کہ میں نے جو پڑھا ہے اس کا ثواب ان حضرات کو پہونچایا جو اس قبرستان میں مدفون ہیں تو وہ حضرات کل قیامت کے دن اس شخص کے لئے اللہ تعالیٰ سے شفاعت کریں گے۔ (دار قطنی)
* حضرت عبد الرحمن بن العلاء ؒ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ ان کے والد نے فرمایا کہ جب میں انتقال کرجاؤں تو بسمِ اللّہِ وعَلَی سُنَّۃِ رَسُولِ اللّٰہِ کہہ کر لحد والی قبر میں دفن کردینا اور میرے سرہانے سورۂ فاتحہ پڑھنا، اس لئے کہ میں نے حضرت عبد اللہ بن عمرؓ کو اس طرح فرماتے ہوئے سنا ہے۔ (اخرجہ الخلال فی الجامع “کتاب القراء ۃ عند القبور”)
علامہ حافظ ابن قیم ؒ نے اس حدیث کو اپنی کتاب “الروح” میں ذکر کیا ہے، نیز انہوں نے تحریر فرمایا ہے کہ سلف صالحین کی ایک جماعت نے کتابوں میں تحریر کیا ہے کہ انہوں نے وصیت کی کہ دفن کے وقت ان کی قبر پر قرآن کریم پڑھا جائے۔
* ایک شخص نے رسول اللہ اسے عرض کیا کہ میں اپنے والدین کی خدمت ان کی زندگی میں تو کرتا رہا، ان کے انتقال کے بعد کیسے خدمت کروں؟ رسول اللہ ا نے ارشاد فرمایا: ان کے ساتھ نیکی یہ ہے کہ اپنی نماز کے ساتھ ان کے لئے بھی نماز پڑھو اور اپنے روزہ کے ساتھ ان کے لئے بھی روزہ رکھو ۔ (دار قطنی)
علامہ حافظ الزیلعی ؒ نے اپنی کتاب “شرح کنز الدقائق” میں، امام ابن الہمامؒ نے “فتح القدیر” میں اور شیخمحمد العربی بن التبانی المالکی المغربی ؒ نے اپنی کتاب “اسعاف المسلمین والمسلمات بجواز ووصول ثوابہا الی الاموات” میں اس حدیث کو ذکر کیا ہے۔
* رسول اللہ انے ارشاد فرمایا: والدین کے ساتھ نیکی یہ ہے کہ اپنی نماز کے ساتھ ان کے لئے نماز پڑھو ، اپنے روزہ کے ساتھ ان کے لئے بھی روزہ رکھو ، اپنے صدقہ کے ساتھ ان کے لئے بھی صدقہ کرو۔ (المصنف للشیخ ابن ابی شیبہ) اور امام محمد بن عبد الوہاب ؒ نے اس حدیث کو اپنی کتاب “احکام تمنی الموت” میں ذکر کیا ہے۔
* حضرت عبد اللہ بن عباسؓ کی روایت ہے کہ قبیلہ خشعم کی ایک عورت نے رسول اللہ اسے عرض کیا کہ میرے باپ کو فریضۂ حج کا حکم ایسی حالت میں پہنچا ہے کہ وہ بہت بوڑھے ہوچکے ہیں، اونٹ کی پیٹھ پر بیٹھ بھی نہیں سکتے ہیں۔ آپ انے ارشاد فرمایا: تم ان کی طرف سے حج ادا کرو۔ (بخاری، مسلم، مسند احمد، ترمذی، نسائی)
* حضرت عبد اللہ بن زبیرؓ قبیلہ خشعم ہی کے ایک مرد کا ذکر کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنے بوڑھے باپ کے متعلق یہی سوال کیا تھا۔ رسول اللہ انے فرمایا : تمہارا کیا خیال ہے کہ اگر تمہارے باپ پر قرض ہو اور تم اس کو ادا کردو تو وہ ان کی طرف سے ادا ہوجائے گا؟ اس شخص نے کہا جی ہاں۔ تو آپ انے ارشاد فرمایا: بس اسی طرح تم ان کی طرف سے حج ادا کرو۔ (مسند احمد، نسائی)
* حضرت عبد اللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ قبیلۂ جہینہ کی ایک عورت نے نبی اکرم اسے سوال کیا کہ میری ماں نے حج کرنے کی نذر مانی تھی مگر وہ اس سے پہلے ہی مرگئیں۔ اب کیا میں ان کی طرف سے حج ادا کرسکتی ہوں؟ رسول اللہ انے فرمایا : تیری ماں پر اگر قرض ہوتا تو کیا تو اس کو ادا نہیں کرتی، اسی طرح تم لوگ اللہ کا حق بھی ادا کرو۔ اور اللہ اس کا زیادہ مستحق ہے کہ اس کے ساتھ کئے ہوئے عہد پورے کئے جائیں۔ (بخاری، نسائی)
* حضرت عبد اللہ بن عباسؓ کی روایت ہے کہ قبیلہ جہینہ کی ایک عورت نے حضور اکرم اسے پوچھا : میری ماں نے روزہ کی نذر مانی تھی اور وہ پوری کئے بغیر مرگئیں، تو کیا میں ان کی طرف سے روزہ رکھ سکتی ہوں؟ حضور اکرم ا نے ارشاد فرمایا : ان کی طرف سے روزہ رکھ لو۔ (بخاری، مسلم ، مسند احمد، نسائی)
حضرت بریدہؓ کی ایک روایت ہے کہ ایک عورت نے حضور اکرم اسے اپنی ماں کے متعلق پوچھا کہ ان کے ذمہ ایک مہینے (یا دوسری روایت کے مطابق دو مہینے) کے روزے تھے، کیا میں یہ روزے ادا کردوں؟ آپ نے ان کو اس کی اجازت دی۔ (مسلم، مسند احمد، ترمذی، ابو داؤد)
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ حضور اکرم انے ارشاد فرمایا : مَنْ مَاتَ وَعَلَےْہِ صِےَامٌ صَامَ عَنْہُ وَلِیُّہُ جوشخص انتقال کرجائے اور اس کے ذمہ کچھ روزے ہوں تو اس کی طرف سے اس کا ولی روزہ رکھ لے ۔ (بخاری، مسلم، مسند احمد)
(وضاحت) : ان احادیث میں دوسروں کی طرف سے نماز اور روزہ رکھنے کا جو ذکر آیا ہے، ان سے نفلی یا نذر کی نماز اور روزہ مراد ہیں، کیونکہ دیگر احادیث میں فرض نماز یا رمضان کے روزہ کے متعلق واضح حکم موجود ہے کہ وہ دوسروں کی طرف سے ادا نہیں کئے جاسکتے ہیں بلکہ اس کے لئے فدیہ ہی ادا کرنا ہوگا۔
رسول اللہ انے ارشاد فرمایا : گھر والوں کے میت پر (بلند آواز کے ساتھ) رونے کی وجہ سے میت کو عذاب دیا جاتا ہے۔ (بخاری، مسلم)
جن علماء وفقہاء کی رائے میں قرآن کریم پڑھنے کا ثواب میت کو نہیں پہنچتا ہے، وہ عموماً مندرجہ ذیل ۲ دلائل پیش کرتے ہیں:
* اَلَّا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزْرَ اُخْرٰی۔ وَاَنْ لَّےْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعَی کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ آدمی کو وہی ملتا ہے جو اس نے کمایا۔ (سورہ النجم ۳۸ ۔ ۳۹)
اگر اس آیت کے عموم سے قرآن کریم پڑھنے کا ثواب میت کو نہیں پہنچ سکتا ہے تو پھر ایصال ثواب، قربانی اور حج بدل وغیرہ کرناسب ناجائز ہوجائیں گے،بلکہ دوسرے کے حق میں دعائے استغفار حتی کہ نمازِ جنازہ بھی بے معنی ہوجائے گی، کیونکہ یہ اعمال بھی اُس شخص کا اپنا عمل نہیں ہے جس کے حق میں دعا کی جارہی ہے۔ بلکہ اِس سے مراد یہ ہے کہ عمومی طور پر ہر شخص اپنے ہی عمل کی جزا یا سزا پائے گا۔ لیکن باپ یا بیوی یا کسی قریبی رشہ دار کے انتقال کے بعد اگر کوئی شخص ان کی جنازہ کی نماز پڑھتا ہے یا ان کے لئے مغفرت کی دعا کرتا ہے یا ان کی طرف سے حج یا عمرہ کرتا ہے یا قربانی کرتا ہے یا صدقہ کرتا ہے یا اللہ تعالیٰ کے پاک کلام کی تلاوت کرکے اس کا ثواب میت کو پہونچاتا ہے، تو اللہ تعالیٰ اِس عمل کو قبول فرماکر میت کو اس کا ثواب عطا فرمائے گا ان شاء ا للہ ، خواہ میت گناہ گار ہی کیوں نہ ہو، لیکن اگر اللہ تعالیٰ کے حکم سے میت کو ثواب نہیں ملا تو ان شاء اللہ ان اعمال کو کرنے والے کی طرف اس کا اجر پلٹ کر آئے گا، جس طرح منی آرڈر اگرپانے والے کو نہیں ملتا ہے تو بھیجنے والے کو واپس مل جاتا ہے۔
* رسول اللہ انے ارشاد فرمایا: انسان کے انتقال کے بعد اس کے عمل کا سلسلہ منقطع ہوجاتا ہے مگر تین عمل : صدقۂ جاریہ، ایسا علم جس سے لوگ فائدہ اٹھائیں اور نیک لڑکے کی دعا جو وہ اپنے والد کے لئے کرے۔ (ابن ماجہ ، ابن خزیمہ)
آپ کا یہ ارشاد صرف ان مذکورہ تین اعمال کی خاص اہمیت کو بتلانے کے لئے ہے۔ اگر اس حدیث کو عام رکھا جائے توبیٹے کی ماں کے لئے یا بھائی کی بہن کے لئے یا کسی شخص کی اپنے متعلقین اور رشتہ داروں کے لئے دعا، استغفار اور جنازہ کی نماز سب بے معنی ہوجائیں گی۔ رسول اکرم اکے ارشادات میں اس طرح کی متعدد مثالیں ملتی ہیں، جیسے نبی اکرم انے ارشاد فرمایا کہ جس نے نماز فجر اور عصر کی پابندی کرلی تو ووہ جنت میں داخل ہوگیا۔(بخاری ،مسلم) اس حدیث کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم صرف ان دو وقت کی نماز کی پابندی کرلیں، باقی جو چاہیں کریں،ہمارا جنت میں داخلہ یقینی ہے۔ نہیں ، ہر گز ایسا نہیں ہے، بلکہ نبی اکرم ا کا یہ ارشاد ان دو نمازوں کی خاص اہمیت کو بتلانے کے لئے ہے کیونکہ جو ان دو نمازوں کی پابندی کرے گا وہ ضرور دیگر نمازوں کا اہتمام کرنے والا ہوگا، اور نمازوں کا واقعی اہتمام کرنے والا دیگر ارکان کی ادائیگی کرنے والا بھی ہوگا، ان شاء اللہ۔ اسی طرح اس حدیث میں ان تین اعمال کی صرف خاص اہمیت بتلائی گئی ہے۔
خلاصۂ کلام: جیسا کہ ابتداء میں تحریر کیا گیا ہے کہ شریعت اسلامیہ کا واضح حکم موجود ہونے کی وجہ سے روز مرہ کے ۸۰ فیصد پریکٹیکل مسائل میں امت مسلمہ متفق ہے، جس میں کسی طرح کا کوئی اشکال ہی نہیں ہے۔ البتہ بعض مندرجہ بالا اسباب کی وجہ سے روز مرہ کے ۲۰ فیصد پریکٹیکل مسائل میں زمانۂ قدیم سے اختلاف چلا آرہا ہے، جن کا نہ آج تک کوئی حل ہوا ہے اور نہ ہی حل کی بظاہر کوئی خاص امید ہے، اور نہ ہی ہمیں اِن مختلف فیہ مسائل کو حل کرنے کا مکلف بنایا گیا ہے۔ اس کا حل کل قیامت کے روز ہی ہوگا جیسا کہ سعودی عرب کے مشہور عالم دین شیخ ڈاکٹر عائض القرنی نے ہندوستان کے حالیہ سفر کے دوران اپنی تقریر کے دوران فرمایا تھا۔
لہذا ہمیں اختیار ہے کہ ہم جن علماء کے ساتھ عقیدت رکھتے ہیں یا جن سے قرآن وحدیث کا علم حاصل کرتے ہیں، انہی علماء کی سرپرستی میں ان ۲۰ فیصد مسائل پر دوسری رائے کا احترام کرتے ہوئے عمل کریں، ا لّا یہ کہ دوسری رائے شریعتِ اسلامیہ کے واضح احکامات کے خلاف ہو۔
انہی مختلف فیہ مسائل میں قرآن کریم پڑھنے کا ثواب میت کو پہونچنے کا مسئلہ ہے ۔ علماء وفقہاء کی ایک جماعت کی رائے ہے کہ قرآن کریم پڑھنے کا ثواب میت کو نہیں پہنچتا ۔ جبکہ دوسری جماعت کی رائے ہے کہ حج، زکاۃ، قربانی اور صدقات کی طرح قرآن کریم پڑھنے کا ثواب بھی میت کو پہنچتا ہے ، ان علماء وفقہاء میں سے حضرت امام ابوحنیفہ ؒ اور حضرت امام احمد ابن حنبل ؒ ہیں۔ حضرت امام شافعی ؒ اور حضرت امام مالک ؒ کے بعض اصحاب کی رائے بھی یہی ہے کہ میت کو قرآن کریم پڑھنے کا ثواب پہنچتا ہے ، جیساکہ امام نوویؒ نے اپنی کتاب الاذکار اور امام سیوطی ؒ نے اپنی کتاب شرح الصدور میں تحریر فرمایا ہے ۔ امام حافظ قاضی القضاۃ تقی الدین السبکی الشافعیؒ نے اپنی کتاب “قضاء الارب فی اسئلۃ حلب” میں قرآن کریم پڑھنے کے ثواب کو میت کے لئے ہبہ کرنے کو جائز قرار دیا ہے۔
علامہ ابن تیمیہ ؒ نے بھی قرآن کریم پڑھنے کے ثواب کو میت کے لئے ہبہ کرنے کو جائز قرار دیا ہے (مجموعہ فتاوی ابن تیمیہ ، جزء ۲۴)۔ امام احمد بن حنبل ؒ کے شاگرد امام ابو بکر المروزی ؒ نے کہا ہے کہ میں نے امام احمد بن حنبل ؒ سے سنا ہے کہ جب تم قبرستان میں داخل ہو تو آیت الکرسی، پھر تین مرتبہ قل ہو اللہ احد پڑھو ۔ اس کے بعد کہو کہ یا اللہ اس کا ثواب قبرستان والوں کو پہونچا۔ (المقصد الارشد فی ذکر اصحاب الامام احمد )۔ سعودی عرب کی مجلس قضاء اعلیٰ کے سابق صدر شیخ عبد اللہ بن محمد بن حمید ؒ نے اس موضوع پر ۱۶ صفحات پر مشتمل ایک کتابچہ تحریر فرمایا ہے جسمیں علماء کے اقوال دلائل کے ساتھ تحریر فرمائے ہیں کہ اکثر علماء کی رائے یہی ہے کہ قرآن کریم پڑھنے کا ثواب میت کو پہونچایا جاسکتا ہے۔
کیونکہ احادیث سے مالی اور مالی و بدنی مرکب عبادات میں نیابت کا واضح ثبوت ملتا ہے، جس پر ساری امت مسلمہ متفق ہے۔ رہی خالص بدنی عبادت تو متعدد احادیث سے اس میں بھی نیابت کاجواز ثابت ہوتاہے۔ نیکیوں کی بعض اقسام کو مستثنیٰ کرنے کی کوئی معقول وجہ سمجھ میں نہیں آتی ہے۔ نیز قرآن وحدیث میں کسی بھی جگہ قرآن کریم کی تلاوت کرکے میت کو اس کا ثواب پہونچانے سے منع نہیں کیا گیا ہے۔ نیز آدمی جس طرح مزدوری کرکے مالک سے یہ کہہ سکتا ہے کہ اس کی اجرت میرے بجائے فلاں شخص کو دے دو، اسی طرح وہ کوئی نیک عمل کرکے اللہ تعالیٰ سے یہ دعا بھی کرسکتا ہے کہ اس کا اجر میری طرف سے فلاں شخص کو عطا کردیا جائے۔ لہذا ہمیں قرآن کریم کی تلاوت کرکے اپنے مُردوں کو اس کا ثواب پہنچانا چاہئے، لیکن اس کے لئے کسی وقت کی تعیین کرنا غلط ہے، بلکہ جب بھی موقع ملے اور جتنی توفیق ہو، قرآن کریم کی تلاوت فرمائیں اور میت کو اس کا ثواب پہونچائیں اور اس کے لئے دعائے مغفرت فرمائیں۔
واللہ اعلم بالصواب۔ محمد نجیب قاسمی سنبھلی (www.najeebqasmi.com)

حکیم لقمان ؒ اور ان کی قیمتی نصیحتیں

بسم الله الرحمن الرحيم

اَلْحَمْدُ لِله رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلام عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔

حکیم لقمان ؒ اور ان کی قیمتی نصیحتیں
حکیم لقمان رحمۃ اللہ علیہ کا نام تو بچپن سے ہی سنتے چلے آرہے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کے نام سے قرآن کریم میں ایک سورت نازل فرمائی ہے۔ جس کی قیامت تک تلاوت ہوتی رہے گی ان شاء اللہ۔ لیکن بہت کم لوگ اس بات سے واقف ہیں کہ حضرت حکیم لقمان کون تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے نسب، خاندان اور زمانہ کے بارے میں تو اپنے کلام میں کوئی ذکر نہیں کیا، لیکن ان کے حکیمانہ اقوال کا ذکر فرمایا ہے۔ تاہم قدیم تاریخ اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ اس نام کا ایک شخص سرزمین عرب پر موجود تھا ،البتہ اُن کی شخصیت اور نسب کے بارے میں اختلاف پایاجاتا ہے۔ ایک روایت کے مطابق وہ حضرت ایوب علیہ السلام کے بھانجے یا خالہ زاد بھائی جبکہ دوسری روایت سے حضرت داؤد علیہ السلام کا ہم عصر ہونا معلوم ہوتا ہے۔
اکثر مؤرخین کی رائے ہے کہ حکیم لقمان رحمۃ اللہ علیہ افریقی النسل تھے اور عرب میں ان کی آمد بحیثیت غلام ہوئی تھی۔ جمہور علماء کا اتفاق ہے کہ حکیم لقمان نبی نہیں تھے اور نہ ان پر وحی نازل ہوئی کیونکہ قرآن وحدیث میں کسی بھی جگہ کوئی ایسا اشارہ موجود نہیں ہے جو حکیم لقمان کے نبی یا رسول ہونے پر دلالت کرتا ہو۔غرضیکہ اللہ تعالیٰ نے حکیم لقمان کو نبوت عطا نہیں کی مگر حکمت ودانائی سے وافر حصہ دیا۔ روایات میں آتا ہے کہ آپ صورت شکل کے اعتبار سے اچھے نہیں تھے، جیسا کہ مشہور تابعی حضرت سعید بن مسیب رحمۃ اللہ علیہ نے ایک حبشی سے کہا تھا کہ تو اس بات سے دل گیر نہ ہو کہ تو کالا حبشی ہے ، اس لئے کہ حبشیوں میں تین آدمی دنیا کے بہترین انسان ہوئے ہیں۔ حضرت بلال حبشی رضی اللہ عنہ، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا غلام مہجع اور حکیم لقمان رحمۃ اللہ علیہ۔ غرضیکہ حکیم لقمان کے حالاتِ زندگی اور زمانہ میں اختلاف کے باوجود پوری دنیا ان کو ایک مشہور شخصیت تسلیم کرتی ہے۔جاہلیت کے متعدد شعراء نے بھی ان کا تذکرہ کیا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے سورۃ لقمان میں حضرت حکیم لقمان رحمۃ اللہ علیہ کی اُن قیمتی نصیحتوں کا ذکر فرمایا ہے جو انہوں نے اپنے بیٹے کو مخاطب کرکے بیان فرمائی تھیں۔ یہ حکیمانہ اقوال اللہ تعالیٰ نے اس لئے قرآن کریم میں نقل کئے ہیں تاکہ قیامت تک آنے والے انسان ان سے فائدہ اٹھاکر اپنی زندگی کو خوب سے خوب تر بنا سکیں اور ایک اچھا معاشرہ وجود میں آسکے۔
پہلی نصیحت: شرک سے دوری: سب سے پہلی حکمت عقائد کی درستگی کے متعلق ہے۔ يا بُنَیَّ لَاتُشْرِکْ بِاللهِ، اِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِيْمٌ اے میرے بیٹے! اللہ کے ساتھ شرک نہ کرنا۔ یقین جانو شرک بہت بڑا ظلم ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ ہی پوری کائنات کا خالق ومالک ورازق ہے اور اس کے ساتھ کسی غیر اللہ کو شریک عبادت نہ کرنا۔اس دنیا میں اس سے بڑا ظلم نہیں ہوسکتا کہ اللہ تعالیٰ کی کسی مخلوق کو اس کے برابر ٹھہرایا جائے۔ یہی وہ پیغام ہے جس کی دعوت تمام انبیاء ورسل نے دی کہ معبود حقیقی صرف اور صرف اللہ تعالیٰ ہے، وہی پیدا کرنے والا، وہی رزق دینے والا ہے اور پوری دنیا کے نظام کو تنہا وہی چلانے والا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔ ہم سب اس کے بندے ہیں اور ہمیں صرف اسی کی عبادت کرنی چاہئے۔ وہی مشکل کشا، حاجت روا اور ضرورتوں کو پورا کرنے والا ہے۔
دوسری نصیحت: اللّہ کا علم ہر چیز کو محیط ہے:
حکیم لقمان کی دوسری نصیحت اپنے بیٹے کو یہ تھی کہ اس کا یقین رکھا جائے کہ آسمان وزمین اور اس کے اندر جو کچھ ہے اس کے ایک ایک ذرہ سے اللہ جل شانہ اچھی طرح واقف ہے، کوئی چیز بھی اس سے مخفی نہیں ہے اور اس پر اس کی قدرت بھی کامل ہے۔ کوئی چیز کتنی بھی چھوٹی سے چھوٹی ہو جو عام نظروں میں نہ آسکتی ہو، اسی طرح کوئی چیز کتنی ہی دور دراز پر ہو، اسی طرح کوئی چیز کتنے ہی اندھیروں اور پردوں میں ہو اللہ تعالیٰ کے علم ونظر سے نہیں چھپ سکتی۔ : يا بُنَیَّ اِنَّہَا اِنْ تَکُ مِثْقَالَ حَبة مِنْ خَرْدَلٍ فَتَکُنْ فِی صَخْرَۃٍ اَوْ فِی السَّمَاوَاتِ اَوْ فِی الْاَرْضِ ياْتِ به الله غرضیکہ ہم دنیا کے کسی بھی میدان میں ہوں، تجارت کررہے ہوں، درس وتدریس کی خدمات انجام دے رہے ہوں، ملازمت کررہے ہوں، قوم وملت کی خدمت کر رہے ہوں، لیکن ہمیں، ہمارے ماں باپ اور کائنات کو پیدا کرنے والا ہماری زندگی کے ایک ایک لمحہ سے پوری طرح واقف ہے اور ہمیں مرنے کے بعد اس کے سامنے کھڑے ہوکر زندگی کے ایک ایک پل کا حساب دینا ہے۔ اگر ہم نے کسی سے چھپ کر رشوت لی ہے یا کسی شخص پر ظلم کیا ہے یاکسی غریب کو ستایا ہے یا کسی کا حق مارا ہے تو ممکن ہے کہ ہم دنیا والوں سے بچ جائیں لیکن اللہ تعالیٰ کی عدالت میں اندھیر نہیں ہے اور ہمیں اس کا ضرور حساب دینا ہوگا۔
تیسری نصیحت: نماز قائم کرنا:
حکیم لقمان نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے یہ بھی فرمایا : ےَا بُنَیَّ اَقِمِ الصَّلَاۃَ بیٹا! نماز قائم کرو۔ نماز ایمان کے بعد اسلام کا اہم ترین رُکن ہے۔ نماز خود اہم ہونے کے ساتھ وہ دوسرے اعمال کی درستگی کا ذریعہ بھی ہے جیسا کہ ارشاد باری ہے: وَاَقِمِ الصَّلاۃَ، اِنَّ الصَّلاۃَ تَنهى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْکَرِ (سورۂ العنکبوت ۴۵) جو کتاب آپ پر وحی کی گئی ہے اسے پڑھئے اور نماز قائم کیجئے، یقیناًنماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے۔ نماز میں اللہ تعالیٰ نے یہ خاصیت وتاثیر رکھی ہے کہ وہ نمازی کو گناہوں اور برائیوں سے روک دیتی ہے مگر ضروری ہے کہ اس پرپابندی سے عمل کیا جائے اور نماز کو اُن شرائط وآداب کے ساتھ پڑھا جائے جو نماز کی قبولیت کے لئے ضروری ہیں،جیسا کہ حدیث میں ہے کہ ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا اور کہا کہ فلاں شخص راتوں کو نماز پڑھتا ہے مگر دن میں چوری کرتا ہے تو نبی اکرمصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہُ اس کی نماز عنقریب اُس کو اِس برے کام سے روک دے گی۔ (مسند احمد، صحیح ابن حبان) لہٰذا ہمیں نمازوں کا اہتمام کرنا چاہئے۔
چوتھی نصیحت: اصلاح معاشرہ کے لئے کوشش کرنا:
حکیم لقمان اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے آگے فرماتے ہیں: وَاْمُرْ بِالْمَعْرُوْفِ وَانْہَ عَنِ الْمُنْکَرِیعنی اپنی ذات سے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کے ساتھ معاشرہ کی اصلاح کی کوشش کرتے رہنا یعنی اس بات کی فکر کرنا کہ سارے انسان اللہ کو مان کر، اللہ کی مان کر زندگی گزارنے والے بن جائیں۔امر بالمعروف اور نہی عن المنکر (اچھائیوں کا حکم کرنا اور برائیوں سے روکنا) کی ذمہ داری کو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بار بار بیان کیا ہے۔ سورہ توبہ کی آیت نمبر ۷۱ میں اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا کہ ایمان والے مرد اور ایمان والی عورتیں ایک دوسرے کے معاون ومددگار ہیں، ان کے چار اوصاف ہیں: اچھائیوں کا حکم کرتے ہیں اور برائیوں سے روکتے ہیں۔ نماز قائم کرتے ہیں۔ زکاۃ ادا کرتے ہیں۔ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں۔ یعنی جس طرح ہر مؤمن پر اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرنا، نماز قائم کرنا اور زکاۃ ادا کرنا (اگر مال پر زکاۃ فرض ہے) ضروری ہے، اسی طرح اچھائیوں کا حکم کرنا اور برائیوں سے روکنا ہر ایمان والے کے لئے ضروری ہے، اگرچہ ہرِ شخص استطاعت کے مطابق ہی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا مکلف ہے۔
پانچویں نصیحت: حالات پر صبر کرنا:
اپنے ساتھ دوسروں کی اصلاح کی کوشش کرنا ایسا عمل ہے کہ اس کی پابندی میں خاصی مشقت برداشت کرنی پڑتی ہے۔اس پر ثابت قدم رہنا آسان نہیں ہے خصوصاً امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی خدمت کا صلہ دنیا میں عموماً عداوتوں اور مخالفتوں سے ملتا ہے، اس لئے حکیم لقمان نے اس کے ساتھ یہ وصیت بھی فرمائی: وَاصْبِرْ عَلَی مَآ اَصَابَکَ، اِنَّ ذٰلِکَ مِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِ یعنی دین پر چلنے اور اس کو دوسروں تک پہنچانے میں جو مشکلات سامنے آئیں ان پر صبر کریں، جیساکہ سورہ العصر میں اللہ تعالیٰ زمانے کی قسم کھاکر ارشاد فرماتا ہے کہ تمام انسان خسارے اور نقصان میں ہیں مگر وہ لوگ جو اپنے اندر چار صفات پیدا کرلیں: ایمان لائیں۔ نیک اعمال کریں۔ محض اپنی انفرادی اصلاح وفلاح پر قناعت نہ کریں بلکہ امت کے تمام افراد کی بھی کامیابی کی فکر کریں۔ دین پر چلنے اور اس کو دوسروں تک پہنچانے میں جو مشکلات آئیں ان پر صبر کریں۔
حکیم لقمان کی چند دیگر نصیحتیں آداب معاشرت کے متعلق:
حکیم لقمان اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: وَلَا تُصَعِّرْ خَدَّکَ لِلنَّاسِ لوگوں کے سامنے (تکبر سے) اپنے گال مت پھلاؤ۔ یعنی لوگوں سے ملاقات اور ان سے گفتگو کے وقت ان سے منہ پھیر کر گفتگو نہ کرو جو اُن سے اعراض کرنے اور تکبر کرنے کی علامت اور اخلاق شریفانہ کے خلاف ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے نبی کے متعلق قرآن کریم (سورۃ القلم: ۴) میں ارشاد فرماتا ہے۔ وَاِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ اور یقیناًتم اخلاق کے اعلیٰ درجہ پر ہو۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کے متعلق سوال کیا گیا تو حضرت عائشہ نے فرمایا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اخلاق قرآنی تعلیمات کے عین مطابق تھا۔ (صحیح بخاری وصحیح مسلم) حضور اکرمصلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مجھے بہترین اخلاق کی تکمیل کے لئے بھیجا کیا گیا ہے۔ (مسند احمد) غرضیکہ حکیم لقمان کی اپنے بیٹے کی نصیحت کو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ذکر کرکے پوری انسانیت کو یہ پیغام دیا کہ ہمیں تمام انسانوں کے ساتھ اچھے اخلاق پیش کرنے چاہئیں۔ نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو بندہ درگزر کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی عزت بڑھاتا ہے اور جو بندہ اللہ کے لئے عاجزی اختیار کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کا درجہ بلند کرتا ہے۔ (صحیح مسلم)
حکیم لقمان اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: وَلَا تَمْشِ فِی الْاَرْضِ مَرَحاً زمین پر اِتراتے ہوئے مت چلو۔ یعنی زمین کو اللہ تعالیٰ نے سارے عناصر سے پست افتادہ بنایا ہے، تم اسی سے پیدا ہوئے، اسی پر چلتے پھرتے ہو، اپنی حقیقت کو پہچانو، اِتراکر نہ چلوجو متکبرین کا طریقہ ہے، اس کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اِنَّ اللّٰہَ لَا ےُحِبُّ کُلَّ مُخْتَالٍ فَخُوْرٍ یقین جانواللہ کسی اترانے والے شیخی باز کو پسند نہیں کرتا۔ حضورا کرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس شخص کے دل میں ذرہ برابر بھی تکبر ہوگاوہ جنت میں نہیں جائے گا۔ایک شخص نے عرض کیا یا رسول اللہ! آدمی چاہتاہے کہ اس کا لباس اچھا ہو اور اس کا جوتا عمدہ ہو ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہ تعالیٰ جمیل ہے، جمال کو پسند کرتا ہے۔ کبر اور غرور تو حق کو ناحق کرنا اور لوگوں کو حقیر سمجھنا ہے۔ (مسلم ۔ کتاب الایمان ۔ باب تحریم الکبر) یعنی اپنی وسعت کے مطابق اچھا لباس پہننا کبر اور غرور نہیں بلکہ لوگوں کو حقیر سمجھنا تکبر اور غرور ہے۔
حکیم لقمان اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: وَاقْصِدْ فِیْ مَشْےِکَ اور اپنی چال میں میانہ روی اختیار کرو۔ یعنی انسان کو درمیانی رفتار سے چلنا چاہئے، رفتار نہ اتنی تیز ہو کہ بھاگنے کے قریب پہنچ جائے اور نہ اتنی آہستہ کہ سستی میں داخل ہوجائے۔ یہاں تک کہ اگر کوئی شخص جماعت کی نماز کو حاصل کرنے کے لئے جارہا ہو تو اس کو بھی حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھاگنے سے منع فرماکر اطمینان وسکون کے ساتھ چلنے کی تاکید فرمائی ہے۔
حکیم لقمان کی اپنے بیٹے کو ایک اور اہم نصیحت : وَاغْضُضْ مِنْ صَوْتِکَ اپنی آواز آہستہ رکھو۔آہستہ آواز رکھنے سے مراد یہ نہیں کہ انسان اتنا آہستہ بولے کہ سننے والے کو دقت پیش آئے بلکہ مراد یہ ہے کہ جن کو سنانا مقصود ہے، اُن تک تو آواز وضاحت کے ساتھ پہنچ جائے، لیکن اس سے زیادہ چیخ چیخ کر بولنا اسلامی آداب کے خلاف ہے۔ غرضیکہ ہمیں اتنی ہی آواز بلند کرنی چاہئے جتنی اُس کے مخاطبوں کو سننے اور سمجھنے کے لئے ضروری ہے۔ اِنَّ اَنْکَرَ الْاَصْوَاتِ لَصَوْتُ الْحَمِےْرِ بیشک سب سے بری آواز گدھے کی آواز ہے۔
آخر میں آداب معاشرت سے متعلق چار نصیحتیں ذکر کی گئیں۔ اوّل لوگوں سے گفتگو اور ملاقات میں متکبرانہ انداز سے رخ پھیر کر بات کرنے سے منع کیا گیا۔ دوسرے زمین پر اکڑکر چلنے سے منع کیا گیا۔ تیسرے درمیانی رفتار سے چلنے کی ہدایت دی گئی۔ اور چوتھے بہت زور سے شور مچاکر بولنے سے منع کیا گیا۔ ان تمام ہی نصیحتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ ہر وقت ہم دوسروں کا خیال رکھیں، کسی شخص کو بھی خواہ وہ مسلمان ہو یاکافر، ہم اس کو جانتے ہوں یا نہ جانتے ہوں لیکن ہماری طرف سے کوئی تکلیف کسی بھی بشر کو نہیں پہنچنی چاہئے، مگر ہم ان امور میں کوتاہی سے کام لیتے ہیں، حالانکہ ان امور کا تعلق حقوق العباد سے ہے اور حقوق العباد میں حق تلفی انسان کے بڑے بڑے نیک اعمال کو ختم کردے گی، لہٰذا ہمیں چاہئے کہ ہم حکیم لقمان رحمۃ اللہ علیہ کی ان قیمتی نصیحتوں پر عمل کرکے ایک اچھے معاشرہ کی تشکیل دیں۔

محمد نجیب قاسمی سنبھلی (www.najeebqasmi.com)

آيۃ الکرسی

بسم الله الرحمن الرحيم

اَلْحَمْدُ لِله رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلام عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔

آيۃ الکرسی

اللَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ لَّهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ مَن ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِندَهُ إِلَّا بِإِذْنِهِ يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ وَلَا يُحِيطُونَ بِشَيْءٍ مِّنْ عِلْمِهِ إِلَّا بِمَا شَاءَ وَسِعَ كُرْسِيُّهُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَلَا يَئُودُهُ حِفْظُهُمَا وَهُوَ الْعَلِيُّ الْعَظِيمُ(البقرۃ ۲۵۵)

اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، زندہ ہے (جس کو کبھی موت نہیں آسکتی) (ساری کائنات کو) سنبھالنے والاہے، نہ اسے اونگھ آتی ہے اور نہ نیند، اس کی ملکیت میں زمین وآسمان کی تمام چیزیں ہیں، کون شخص ہے جو اُس کی اجازت کے بغیر اُس کے سامنے شفاعت کرسکے، وہ جانتا ہے ان (کائنات) کے تمام حاضر وغائب حالات کو ، وہ (کائنات) اُس کی منشا کے بغیرکسی چیز کے علم کا احاطہ نہیں کرسکتے، اُس کی کرسی کی وسعت نے زمین وآسمان کو گھیر رکھا ہے، اللہ تعالیٰ کو ان (زمین وآسمان) کی حفاظت کچھ گراں نہیں گزرتی، وہ بہت بلند اور بہت بڑا ہے۔

یہ سورۂ البقرہ کی آیت نمبر ۲۵۵ ہے جو بڑی عظمت والی آیت ہے، اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی توحید اور بعض اہم صفات کا ذکر ہے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی کرسی کا بھی ذکر آیا ہے جس کی وجہ سے اس آیت کو آیت الکرسی کہا جاتا ہے۔ آیت الکرسی کی فضیلت میں بہت سی حدیثیں کتب احادیث میں وارد ہیں لیکن اختصار کے مدنظر یہاں صرف چند اہم فضیلتیں ذکر کررہا ہوں جن کے صحیح ہونے پر جمہور علماء امت متفق ہیں۔

سب سے زیادہ عظمت والی آیت:

حضرت ابی بن کعبؓ سے رسول اللہ ﷺ نے دریافت فرمایا کہ کتاب اللہ میں سب سے زیادہ عظمت والی آیت کون سی ہے؟ حضرت ابی بن کعبؓ نے جواب میں فرمایا: اللہ اور اس کے رسول ہی کو اس کا سب سے زیادہ علم ہے۔ آپ ﷺ نے دوبارہ یہی سوال کیا۔ بار بار سوال کرنے پر حضرت ابی بن کعبؓ نے فرمایا: آیت الکرسی۔ حضور اکرم ﷺ نے حضرت ابی بن کعبؓ کے سینے پر ہاتھ مارکر فرمایا: ابو المنذر! اللہ تعالیٰ تجھے تیرا علم مبارک کرے۔ (مسلم، باب فضل سورۃ الکهف وآيۃ الکرسی،ح۸۱۰) مسند احمد میں یہ بھی مذکور ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا: اُس اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ، اِس (آیت الکرسی) کی زبان ہوگی اور ہونٹ ہوں گے اور یہ بادشاہ حقیقی کی تقدیس بیان کرے گی اور عرش کے پایہ سے لگی ہوئی ہوگی۔ (مسند احمد ۵/۱۴۱۔۱۴۲)

حضرت ابو ذر غفاریؓ کے سوال پر آپ ﷺ نے فرمایا کہ سب سے زیادہ عظمت والی آیت‘ آیت الکرسی اللَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُالخ .ہے۔ (مسند احمد ۵/۱۷۸، نسائی ح ۵۵۰۹)

دخول جنت کا سبب:

حضرت ابو امامہ الباہلیؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص ہر فرض نماز کے بعد آیت الکرسی پڑھ لے‘ اسے جنت میں جانے سے کوئی چیز نہیں روکے گی سوائے موت کے۔ (ابن حبان نے اپنی صحیح میں اور امام نسائی نے عمل الیوم واللیلہ میں یہ حدیث ذکر کی ہے، اس حدیث کی سند شرط بخاری پر ہے)

شیاطین وجنات سے حفاظت:

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ میں رمضان میں وصول کی گئی زکاۃ کے مال پر پہرا دے رہا تھا، ایک آنے والا آیا اور سمیٹ سمیٹ کر اپنی چادر میں جمع کرنے لگا۔ حضرت ابوہریرہؓ نے اس کو ایسا کرنے سے بار بار منع فرمایا۔ اس آنے والے نے کہا کہ مجھے یہ کرنے دو، میں تجھے ایسے کلمات سکھاؤں گا کہ اگر تو رات کو بستر میں جاکر ان کو پڑھ لے گا تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے تجھ پر حافظ مقرر ہوگا اور صبح تک شیطان تیرے قریب بھی نہ آسکے گا اور وہ آیت الکرسی ہے۔ جب حضرت ابوہریرہؓ نے حضور اکرم ﷺ کو یہ واقعہ سنایا تو آپ ﷺنے فرمایاکہ اس نے سچ کہا مگر وہ خود جھوٹا ہے اور وہ شیطان ہے۔ (صحیح بخاری، کتاب الوکالة، باب اذا وکل رجلا فترک الوکيل شيئا،،، ح ۲۳۱۱، ۳۲۷۵، ۵۰۱۰)

حضرت ابی بن کعبؓ فرماتے ہیں کہ میرے پاس کچھ کھجوریں تھیں جو روزانہ گھٹ رہی تھیں، ایک رات میں نے پہرا دیا۔ میں نے دیکھاکہ ایک جانور مثل جوان لڑکے کے آیا،میں نے اس کو سلام کیا، اس نے میرے سلام کا جواب دیا۔ میں نے اس سے پوچھا کہ تو انسان ہے یا جن؟ اس نے کہا میں جن ہوں۔ میں نے کہا کہ ذرا اپنا ہاتھ دو۔ اس نے اپنا ہاتھ بڑھادیا ۔ میں نے اپنے ہاتھ میں لیا تو کتے جیسا ہاتھ تھا اور اس پر کتے جیسے بال بھی تھے۔ میں نے پوچھا تم یہاں کیوں آئے ہو؟ اس نے کہا کہ تم صدقہ کو پسند کرتے ہو اور میں تمہارے مال کو لینے آیا ہوں تاکہ تم صدقہ نہ کرسکو۔ میں نے پوچھا کہ تمہارے شر سے بچنے کی کوئی تدبیر ہے؟ اس نے کہا: آیت الکرسی ، جو شخص شام کو پڑھ لے وہ صبح تک اور جو صبح کو پڑھ لے وہ شام تک محفوظ ہوجاتا ہے۔ صبح ہونے پر حضرت ابی بن کعبؓ نے نبی اکرم ﷺ سے اس واقعہ کا ذکر فرمایا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ خبیث نے یہ بات بالکل سچی کہی ہے۔ (نسائی، طبرانی۔۔ الترغیب والترہیب ۶۶۲)

اسی طرح کا ایک واقعہ حضرت ابوایوب انصاریؓ کا بھی احادیث کی کتابوں میں مذکور ہے۔ غرض آیت الکرسی کے ذریعہ جنات وشیاطین سے حفاظت کے متعدد واقعات صحابہ کے درمیان پیش آئے۔ (تفسیر ابن کثیر)

حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص سورۂ المؤمن کو حٰمٓسے الیہ المصیر تک اور آیت الکرسی کو صبح کے وقت پڑھ لے گا‘ وہ شام تک اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں رہے گا اور شام کو پڑھنے والے کی صبح تک حفاظت ہوگی۔ (ترمذی، کتاب فضائل القرآن، باب ما جاء فی سورہ البقرہ وآیہ الکرسی ج ۲۸۷۹)

آیت الکرسی اسم اعظم پر مشتمل:

حضرت اسماء بنت یزیدؓ سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اِن دونوں آیتوں میں اللہ تعالیٰ کا اسم اعظم ہے ایک تو آیت الکرسی اور دوسری آیت الم اللَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ(مسند احمد۶/۴۶۱، ابوداؤد، کتاب الوتر، باب الدعاء ح ۱۴۹۶، ترمذی، کتاب الدعوات، باب فی ایجاب الدعاء بتقدیم الحمد ح ۳۴۷۸، ابن ماجہ، کتاب الدعاء، باب اسم اللہ الاعظم ج ۳۸۵۵)

حضرت ابوامامہ الباہلیؓ سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اسم اعظم جس نام کی برکت سے جو دعا اللہ تعالیٰ سے مانگی جائے وہ قبول فرماتا ہے، وہ تین سورتوں میں ہے سورۂ البقرہ، سورۂ آل عمران اور سورۂ طہ۔ (ابن ماجہ، کتاب الدعا،، باب اسم اللہ الاعظم ح ۳۸۵۵)

وضاحت: سورۂ البقرہ میں آیت نمبر ۲۵۵، سورۂ آل عمران میں آیت نمبر ۲ اور سورۂ طہ میں آیت نمبر ۱۱۱ہے۔

آیت الکرسی چوتھائی قرآن:

حضور اکرم ﷺ نے آیت الکرسی کو چوتھائی قرآن کہا ہے۔ (مسند احمد ۳/۲۲۱، ترمذی کتاب فضائل القرآن،باب ما جاء فی اذا زلزلت، ح ۲۸۹۵)

مفہوم آيت الکرسی: اس توحید کی اہم آیت میں ۱۰ جملے ہیں:

اللَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ: یہی وہ پیغام ہے جس کی دعوت تمام انبیاء ورسل نے دی کہ معبود حقیقی صرف اور صرف اللہ تبارک وتعالیٰ ہے، وہی پیدا کرنے والا، وہی رزق دینے والا اور وہی اس پوری دنیا کے نظام کو تنہے تنہا چلانے والا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔ ہم سب اس کے بندے ہیں اور ہمیں صرف اسی کی عبادت کرنی چاہئے۔ وہی مشکل کشا، حاجت روا اور ضرورتوں کو پورا کرنے والا ہے۔ اس نے انسانوں کی ہدایت ورہنمائی کے لئے انبیاء ورسل بھیجے۔ آخر میں تمام نبیوں کے سردار حضرت محمد مصطفی ﷺ کو قیامت تک آنے والے تمام انسانوں کے لئے رحمت للعالمین بناکر بھیجا۔

اَلْحَیُّ الْقَيُّوْمُ: لفظ حَیُّ کے معنی ہیں زندہ یعنی اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیشہ زندہ رہنے والا ہے اور وہ موت سے بالا تر ہے۔ کُلُّ شَیْءٍ هَالِکٌ اِلَّا وَجَْهه،،، کُلُّ مَنْ عَلَيهافَانٍ، وَيَبْقٰی وَجه رَبِّکَ ذُو الْجَلَالِ وَالْاکْرَامِ اللہ تعالیٰ کے سوا ہر چیز ہلاک اور فنا ہوجانے والی ہے۔ قَیُّوْمُ مبالغہ کا صیغہ ہے جس کے معنی ہیں وہ ذات جو خود اپنے بل پر قائم اور دوسروں کے قیام وبقا کا واسطہ اور ذریعہ ہو۔

نوٹ: قیوم اللہ تعالیٰ کی خاص صفت ہے، جس میں کوئی مخلوق شریک نہیں ہوسکتی، کیونکہ جو چیزیں خود اپنے وجود وبقا میں کسی دوسرے کی محتاج ہوں وہ کسی دوسری چیز کو کیا سنبھال سکتی ہیں۔ اس لئے کسی انسان کو قیوم کہنا جائز نہیں ہے۔ لہذا عبدالقیوم نامی شخص کو صرف قیوم کہہ کر پکارنا غلط ہے۔

لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ: سِنَۃٌکے معنی اونگھ اور نَوْمٌ کے معنی نیند کے ہیں۔ ان دونوں کی نفی سے نیند کی ابتدا اور انتہا دونوں کی نفی ہوگئی یعنی اللہ تعالیٰ غفلت کے تمام اثرات سے کمال درجہ پاک ہے۔

لَّهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ: تمام چیزیں جو آسمانوں یا زمین میں ہیں وہ سب اللہ تعالیٰ کی مملوک ہیں، وہ مختار ہے جس طرح چاہے ان میں تصرف کرے۔

مَن ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِندَهُ إِلَّا بِإِذْنِهِ: جب یہ بات واضح ہوگئی کہ اللہ تعالیٰ ہی کائنات کا مالک ہے ، کوئی اس سے بڑا اور اس کے اوپر حاکم نہیں ہے تو کوئی اس سے کسی کام کے بارے میں بازپرس کرنے کابھی حق دار نہیں ہے ، وہ جو حکم جاری فرمائے اس میں کسی کو چون وچرا کرنے کی گنجائش نہیں ہے۔ ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ کوئی شخص اللہ تبارک وتعالیٰ سے کسی کی سفارش یا شفاعت کرے، سو اس کو بھی واضح کردیا کہ اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر اللہ تعالیٰ کے نیک ومقبول بندے بھی کسی کے لئے شفاعت نہیں کرسکتے ہیں۔

رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ محشر میں سب سے پہلے میں ساری امتوں کی شفاعت کروں گا،یہ حضور اکرم ﷺ کی خصوصیات میں سے ہے۔ اسی کا نام مقام محمود ہے، جس کا ذکر سورۂ الاسراء ۷۹ میں آیا ہے عَسَی اَنْ يَّبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَاماً مَّحْمُوداً ۔ نبی اکرم ﷺ کی عام امتیوں کی شفاعت کے علاوہ اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں کو بھی تین شرطیں پائی جانے پر دوسروں کے لئے شفاعت کرنے کی اجازت ہوگی۔

۱) جسکے لئے شفاعت کی جارہی ہے اس سے اللہ تعالیٰ کی رضامندی ہو، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَلَا يَشْفَعُوْنَ اِلَّا لِمَنِ ارْتَضٰی وَهُمْ مِّنْ خَشْيَته مُشْفِقُوْنَ (سورۂ الانبیاء ۲۸) وہ کسی کی بھی شفاعت نہیں کرتے بجز ان کے جن سے اللہ خوش ہو اور وہ اسکی ہیبت سے ڈرتے ہیں۔

۲) شفاعت کرنے والے سے اللہ تعالیٰ راضی ہوں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اِلَّا مِنْ بَعْدِ اَن يَّاْذَنَ اللّهُ لِمَن يَّشَاءُ وَيَرْضَی(سورۂ النجم ۲۶)

۳) اللہ تعالیٰ شفاعت کرنے والے کو شفاعت کی اجازت دے۔ سورہ النجم کی آیت میں اَن يَّاْذَنَ اللّه اور آیت الکرسی میں اِلَّا بِاِذْنه سے یہ شرط واضح طور پر معلوم ہوتی ہے۔ اسی طرح سورۂ یونس آیت ۳ میں ہے : مَا مِنْ شَفِيْعٍ الَّا مِنْ بَعْدِ اِذْنه اس کی اجازت کے بغیر کوئی اس کے پاس سفارش کرنے والا نہیں۔

يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ: اللہ تعالیٰ لوگوں کے آگے پیچھے کے تمام حالات وواقعات سے واقف ہے۔ آگے اور پیچھے کا یہ مفہوم بھی ہوسکتا ہے کہ ان کے پیدا ہونے سے پہلے اور پیدا ہونے کے بعد کے تمام حالات وواقعات اللہ تعالیٰ کے علم میں ہیں۔ اور یہ مفہوم بھی ہوسکتا ہے کہ آگے سے مراد وہ حالات ہیں جو انسان کے لئے کھلے ہوئے ہیں اور پیچھے سے مراد اس سے مخفی واقعات وحالات ہوں تو معنی یہ ہوں گے انسان کا علم تو بعض چیزوں پر ہے اور بعض چیزوں پر نہیں، کچھ چیزیں اس کے سامنے کھلی ہوئی ہیں اور کچھ چھپی ہوئی ، مگر اللہ تبارک وتعالیٰ کے سامنے یہ سب چیزیں برابر ہیں، اس کا علم ان سب چیزوں کو یکساں محیط ہے ۔

وَلَا يُحِيطُونَ بِشَيْءٍ مِّنْ عِلْمِهِ إِلَّا بِمَا شَاءَ: انسان اور تمام مخلوقات اللہ تعالیٰ کے علم کے کسی حصہ کا بھی احاطہ نہیں کرسکتے، مگر اللہ تعالیٰ ہی خود جس کو جتنا حصہ علم عطا کرنا چاہیں صرف اتنا ہی اس کو علم ہوسکتا ہے۔ اس آیت میں بتلادیا گیا کہ تمام کائنات کے ذرہ ذرہ کا علم محیط صرف اللہ تبارک وتعالیٰ کی خصوصی صفت ہے، انسان یا کوئی مخلوق اس میں شریک نہیں ہوسکتی۔

وَسِعَ كُرْسِيُّهُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ: یعنی اس کی کرسی اتنی بڑی ہے کہ جس کی وسعت کے اندرساتوں آسمان اور زمین سمائے ہوئے ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نشست وبرخاست اور حیزومکان سے بالا تر ہے، اس قسم کی آیات کو اپنے معاملات پر قیاس نہ کیا جائے، اس کی کیفیت وحقیقت کا ادراک انسانی عقل سے بالاتر ہے۔ البتہ صحیح احادیث سے اتنا معلوم ہوتا ہے کہ عرش اور کرسی بہت عظیم الشان جسم ہیں جو تمام آسمان اور زمین سے بدرجہا بڑے ہیں۔ علامہ ابن کثیر ؒ نے بروایت حضرت ابو ذر غفاریؓ نقل کیا ہے کہ انہوں نے حضور اکرم ﷺ سے دریافت کیا کہ کرسی کیا اور کیسی ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے کہ ساتوں آسمانوں اور زمینوں کی مثال کرسی کے مقابلہ میں ایسی ہے جیسے ایک بڑے میدان میں انگشتری کا حلقہ (چھلّہ) ڈال دیا جائے۔ اور بعض احادیث میں ہے کہ عرش کے سامنے کرسی کی مثال بھی ایسی ہے کہ جیسے ایک بڑے میدان میں انگشتری کا حلقہ (چھلّہ) ۔

کرسی سے مراد حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے علم منقول ہے، بعض حضرات سے دونوں پاؤں رکھنے کی جگہ منقول ہے، ایک حدیث میں یہ بھی مروی ہے کہ اس کا اندازہ بجز باری تعالیٰ کے اور کسی کو نہیں۔ ابو مالکؒ فرماتے ہیں کہ کرسی عرش کے نیچے ہے۔ سدیؒ کہتے ہیں کہ آسمان وزمین کرسی کے جوف میں اور کرسی عرش کے سامنے۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ ساتوں زمینیں اور ساتوں آسمان اگر پھیلادئے جائیں تو بھی کرسی کے مقابلہ میں ایسے ہوں گے جیسے ایک حلقہ (چھلّہ) کسی چٹیل میدان میں۔ ابن جریر کی ایک مرفوع حدیث میں ہے کہ ساتوں آسمان کرسی میں ایسے ہی ہیں جیسے سات درہم ڈھال میں۔ (تفسیر بن کثیر) بعض مفسرین نے تحریر کیا ہے کہ اس کے معنی ہیں کہ اللہ کا اقتدار آسمانوں اور زمین کے تمام اطراف واکناف پر حاوی ہے، کوئی گوشہ اور کونہ بھی اس کے دائرہ اقتدار سے الگ نہیں ہے۔

وَلَا يَئُودُهُ حِفْظُهُمَا:اللہ تعالیٰ کو ان دونوں عظیم مخلوقات یعنی آسمان وزمین کی حفاظت کچھ گراں نہیں معلوم ہوتی کیونکہ اس قادر مطلق کی قدرت کاملہ کے سامنے یہ سب چیزیں نہایت آسان ہیں۔ ےَءُودکے معنی ہیں کسی چیز کا ایسا بھاری اور گراں ہونا کہ اس کا سنبھالنا مشکل ہوجائے۔

وَهُوَ الْعَلِيُّ الْعَظِيمُ: گزشتہ نو جملوں میں اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات وصفات کے کمالات بیان کئے گئے، ان کو سمجھنے کے بعد ہر عقل مند شخص یہی کہنے پر مجبور ہے کہ ہر عزت وعظمت اور بلندی وبرتری کا مستحق وہی پاک ذات ہے۔

ان دس جملوں میں اللہ جل شانہ کی صفات کمال اور اس کی توحید کا مضمون وضاحت اور تفصیل کے ساتھ آگیا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو قرآن کریم سمجھ کر پڑھنے والا اور اس پر عمل کرنے والا بنائے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کو شرک کی تمام شکلوں سے محفوظ فرمائے، آمین، ثم آمین۔

محمد نجیب سنبھلی قاسمی (najeebqasmi@yahoo.com)

اور ہم خوار ہوئے تارک قرآن ہوکر
بسم الله الرحمن الرحيم
اَلْحَمْدُ لِله رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلام عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔
اور ہم خوار ہوئے تارک قرآن ہوکر

قرآن کیا ہے؟
قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا پاک کلام ہے جو اللہ تعالیٰ نے قیامت تک آنے والے انس وجن کی رہنمائی کے لئے آخری نبی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کے ذریعہ عربی زبان میں ۲۳ سال کے عرصہ میں نازل فرمایا، قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی صفت ہے، مخلوق نہیں اور وہ لوح محفوظ میں ہمیشہ سے ہے۔
قرآن کے نزول کا مقصد؟
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو قیامت تک آنے والے انسانوں کی ہدایت کے لئے نازل فرمایا ہے مگر اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والے ہی اس کتاب سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ جیساکہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ذٰلِکَ الْکِتَابُ لَا رَےْبَ فِےْہِ ہُدًی لِّلْمُتَّقِےْنَ (سورۃ البقرۃ آیت ۲) یہ کتاب ایسی ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں، یہ ہدایت ہے (اللہ سے ) ڈر رکھنے والوں کے لئے۔
قرآن کریم کس طرح اور کب نازل ہوا؟
ماہ رمضان کی ایک بابرکت رات لیلۃ القدر میں اللہ تعالیٰ نے لوح محفوظ سے سماء دنیا (زمین سے قریب والا آسمان) پر قرآن کریم نازل فرمایا اور اس کے بعد حسب ضرورت تھوڑا تھوڑا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوتا رہا اور تقریباً ۲۳ سال کے عرصہ میں قرآن کریم مکمل نازل ہوا۔ قرآن کریم کا تدریجی نزول اُس وقت شروع ہوا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر مبارک چالیس سال تھی۔ قرآن کریم کی سب سے پہلی جو آیتیں غارِ حرا میں اتریں وہ سورۂ علق کی ابتدائی آیات ہیں: اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ۔ خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ۔ اِقْرَاْ وَرَبُّکَ الْاَکْرَمْ پڑھو اپنے اس پروردگار کے نام سے جس نے پیدا کیا۔ جس نے انسان کو منجمد خون سے پیدا کیا۔ پڑھو، اور تمہارا پروردگار سب سے زیادہ کریم ہے۔ اس پہلی وحی کے نزول کے بعد تین سال تک وحی کے نزول کا سلسلہ بند رہا۔ تین سال کے بعد وہی فرشتہ جو غار حرا میں آیا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور سورۃ المدثر کی ابتدائی چند آیات آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرمائیں: ےَا اَیُّہَا الْمُدَثِّرْ ۔ قُمْ فَاَنْذِرْ۔ وَرَبَّکَ فَکِبِّرْ۔ وَثِےَابَکَ فَطَہِّرْ۔ والرُّجْزَ فَاہْجُرْ۔اے کپڑے میں لپٹنے والے۔ اٹھو اور لوگوں کو خبردار کرو۔ اور اپنے پروردگار کی تکبیر کہو۔ اور اپنے کپڑوں کو پاک رکھو۔ اور گندگی سے کنارہ کرلو۔ اس کے بعد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات تک وحی کے نزول کا تدریجی سلسلہ جاری رہا۔ غرض تقریباً ۲۳ سال کے عرصہ میں قرآن کریم مکمل نازل ہوا۔
قرآن کریم کس طرح ہمارے پاس پہنچا؟
قرآن کریم ایک ہی دفعہ میں نازل نہیں ہوا بلکہ ضرورت اورحالات کے اعتبار سے مختلف آیات نازل ہوتی رہیں۔ قرآن کریم کی حفاظت کے لئے سب سے پہلے حفظ قرآن پر زور دیا گیا، چنانچہ خود حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم الفاظ کو اسی وقت دہرانے لگتے تھے تاکہ وہ اچھی طرح یاد ہوجائیں۔ اس پر اللہ تعالیٰ کی جانب سے وحی نازل ہوئی کہ عین نزول وحی کے وقت جلدی جلدی الفاظ دہرانے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ خود آپ میں ایسا حافظہ پیدا فرمادے گا کہ ایک مرتبہ نزول وحی کے بعد آپ اسے بھول نہیں سکیں گے۔ اس طرح حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پہلے حافظ قرآن ہیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابۂ کرام کو قرآن کے معانی کی تعلیم ہی نہیں دیتے تھے بلکہ انہیں اس کے الفاظ بھی یاد کراتے تھے۔ خود صحابۂ کرام کو قرآن کریم یاد کرنے کا اتنا شوق تھا کہ ہر شخص ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی فکر میں رہتا تھا۔ چنانچہ ہمیشہ صحابۂ کرام میں ایک اچھی خاصی جماعت ایسی رہتی جو نازل شدہ قرآن کی آیات کو یاد کرلیتی اور راتوں کو نماز میں اسے دہراتی تھی۔ غرضیکہ قرآن کی حفاظت کے لئے سب سے پہلے حفظ قرآ ن پر زور دیا گیا اور اُس وقت کے لحاظ سے یہی طریقہ زیادہ محفوظ اور قابل اعتماد تھا۔
قرآن کریم کی حفاظت کے لئے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کریم کو لکھوانے کا بھی خاص اہتمام فرمایا چنانچہ نزول وحی کے بعد آپ کاتبین وحی کو لکھوادیا کرتے تھے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول یہ تھا کہ جب قرآن کریم کا کوئی حصہ نازل ہوتا تو آپ کاتب وحی کو یہ ہدایت بھی فرماتے تھے کہ اسے فلاں سورۃ میں فلاں فلاں آیات کے بعد لکھا جائے۔ اس زمانہ میں کاغذ دستیاب نہیں تھا اس لئے یہ قرآنی آیات زیادہ تر پتھر کی سلوں، چمڑے کے پارچوں، کھجور کی شاخوں، بانس کے ٹکڑوں، درخت کے پتوں اور جانور کی ہڈیوں پر لکھی جاتی تھیں۔ کاتبین وحی میں حضرت زید بن ثابت، خلفاء راشدین، حضرت ابی بن کعب، حضرت زبیر بن عوام اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہم کے نام خاص طور پر ذکر کئے جاتے ہیں۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں جتنے قرآن کریم کے نسخے لکھے گئے تھے وہ عموماً متفرق اشیاء پر لکھے ہوئے تھے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں جب جنگ یمامہ کے دوران حفاظ قرآن کی ایک بڑی جماعت شہید ہوگئی تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو قرآن کریم ایک جگہ جمع کروانے کا مشورہ دیا۔ حضرت ابوبکر صدیق ابتداء میں اس کام کے لئے تیار نہیں تھے لیکن شرح صدر کے بعد وہ بھی اس عظیم کام کے لئے تیار ہوگئے اور کاتب وحی حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کو اس اہم وعظیم عمل کا ذمہ دار بنایا۔ اس طرح قرآن کریم کو ایک جگہ جمع کرنے کا اہم کام شروع ہوگیا۔
حضرت زید بن ثابت خود کاتب وحی ہونے کے ساتھ پورے قرآن کریم کے حافظ تھے۔وہ اپنی یادداشت سے بھی پورا قرآن لکھ سکتے تھے، اُن کے علاوہ اُس وقت سینکڑوں حفاظ قرآن موجود تھے ،مگر انہوں نے احتیاط کے پیش نظر صرف ایک طریقہ پر بس نہیں کیا بلکہ ان تمام ذرائع سے بیک وقت کام لے کر اُس وقت تک کوئی آیت اپنے صحیفے میں درج نہیں کی جب تک اس کے متواتر ہونے کی تحریری اور زبانی شہادتیں نہیں مل گئیں۔ اس کے علاوہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کی جو آیات اپنی نگرانی میں لکھوائی تھیں، وہ مختلف صحابۂ کرام کے پاس محفوظ تھیں، حضرت زید بن ثابت نے انہیں یکجا فرمایاتاکہ نیا نسخہ ان ہی سے نقل کیا جائے۔ اس طرح خلیفہ اوّل حضرت ابوبکر صدیق کے عہد خلافت میں قرآن کریم ایک جگہ جمع کردیا گیا۔
جب حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ خلیفہ بنے تو اسلام عرب سے نکل کر دور دراز عجمی علاقوں تک پھیل گیا تھا۔ ہر نئے علاقہ کے لوگ ان صحابہ وتابعین سے قرآن سیکھتے جن کی بدولت انہیں اسلام کی نعمت حاصل ہوئی تھی ۔ صحابۂ کرام نے قرآن کریم حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلمسے مختلف قرأتوں کے مطابق سیکھا تھا۔ اس لئے ہر صحابی نے اپنے شاگردوں کو اسی قراء ت کے مطابق قرآن پڑھایا جس کے مطابق خود انہوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پڑھا تھا۔ اس طرح قرأتوں کا یہ اختلاف دور دراز ممالک تک پہنچ گیا۔ لوگوں نے اپنی قراء ت کو حق اور دوسری قرأتوں کو غلط سمجھنا شروع کردیا حالانکہ اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے اجازت ہے کہ مختلف قرأتوں میں قرآن کریم پڑھا جائے۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس پیغام بھیجا کہ اُن کے پاس (حضرت ابوبکر صدیق کے تیار کرائے ہوئے) جوصحیفے موجود ہیں ، وہ ہمارے پاس بھیج دیں۔ چنانچہ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کی سرپرستی میں ایک کمیٹی تشکیل دے کر ان کو مکلف کیا گیا کہ وہ حضرت ابوبکر صدیق کے صحیفہ سے نقل کرکے قرآن کریم کے چند ایسے نسخے تیار کریں جن میں سورتیں بھی مرتب ہوں۔ چنانچہ قرآن کریم کے چند نسخے تیار ہوئے اور ان کو مختلف جگہوں پر ارسال کردیا گیا تاکہ اسی کے مطابق نسخے تیار کرکے تقسیم کردئے جائیں۔ اس طرح امت مسلمہ میں اختلاف باقی نہ رہا اور پوری امت مسلمہ اسی نسخہ کے مطابق قرآن کریم پڑھنے لگی۔ بعد میں لوگوں کی سہولت کے لئے قرآن کریم پر نقطے وحرکات (یعنی زبر، زیر اور پیش) بھی لگائے گئے، نیز بچوں کو پڑھانے کی سہولت کے مدنظر قرآن کریم کو تیس پاروں میں تقسیم کیا گیا۔ نماز میں تلاوت قرآن کی سہولت کے لئے رکوع کی ترتیب بھی رکھی گئی۔
قرآن کریم کا ہمارے اوپر کیا حق ہے؟
۱) تلاوت قرآن:احادیث میں تلاوت قرآن کی بڑی فضیلت وارد ہوئی ہے، چنانچہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مَنْ قَرَأ حَرْفاً مِنْ کِتَابِ اللّٰہِ فَلَہٗ بِہِ حَسَنَۃٌ وَالْحَسَنَۃُ بِعَشْرِ اَمْثَالِہَا لَا اَقُوْلُ اآآ حَرَفٌ وَلٰکِنْ اَلِفٌ حَرَفٌ وَلَامٌ حَرَفٌ وَمِےْمٌ حَرَفٌجس نے قرآ ن مجید کا ایک حرف پڑھا اس کے لئے ایک نیکی ہے او رایک نیکی دس نیکیوں کے برابر ہوتی ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ اآآ ایک حرف ہے بلکہ” ا” ایک حرف ہے، “ل” ایک حرف ہے اور” م” ایک حرف ہے۔ (ترمذی)
۲) حفظِ قرآن: حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ قیامت کے دن صاحب قرآن سے کہا جائے گا کہ قرآن پڑھتا جا اور جنت کے درجوں پر چڑھتا جا اور ٹھہر ٹھہر کر پڑھ جیسا کہ تو دنیا میں ٹھہر ٹھہر کر پڑھا کرتا تھا۔ پس تیرا مرتبہ وہی ہے جہاں آخری آیت پر پہونچے۔ (صحیح مسلم)
۳) قرآن فہمی: چونکہ قرآن کریم کے نزول کا اہم مقصد بنی نوع انسان کی ہدایت ہے اور اگر سمجھے بغیر قرآن پڑھا جائے گا تو اس کا اہم مقصد ہی فوت ہوجاتا ہے۔ لہٰذا ہمیں چاہئے کہ ہم علماء کرام جنہوں نے قرآن وحدیث کو سمجھنے اور سمجھانے میں اپنی زندگی کا بیشتر حصہ لگایا، ان کی سرپرستی میں قرآن کریم کو سمجھ کر پڑھیں۔ قرآن وحدیث کی روشنی میں یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ جس ذات عالی پر قرآن کریم نازل ہوا اس کے اقوال وافعال کے بغیر قرآن کریم کو کیسے سمجھا جاسکتا ہے؟ خود اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں متعدد مرتبہ اس حقیقت کو بیان فرمایا ہے، ایک آیت پیش ہے: وَاَنْزَلْنَا اِلَےْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَےْہِمْ وَلَعَلَّہُمْ ےَتَفَکَّرُوْنَ (سورۃ النحل ۴۴) یہ کتاب ہم نے آپ کی طرف اتاری ہے تاکہ لوگوں کی جانب جو حکم نازل فرمایا گیا ہے، آپ اسے کھول کھول کر بیان کردیں، شاید کہ وہ غوروفکر کریں۔ لہٰذا ہم روزانہ تلاوتِ قرآن کے اہتمام کے ساتھ کم از کم علماء کرام وائمہ مساجد کے درس قرآن میں پابندی سے شریک ہوں۔
۴) العمل بالقرآن: یہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ہدایت کی تطبیق ہے اور اسی میں بنی نوع انسانی کی دنیاوی واخروی سعادت مضمر ہے ، اور نزول قرآن کی غایت ہے۔ اگر ہم قرآن کریم کے احکام پر عمل پیرا نہیں ہیں تو گویا ہم قرآن کریم کے نزول کا سب سے اہم مقصد ہی فوت کررہے ہیں۔ لہٰذا جن امور کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے ان کو بجالائیں اور جن چیزوں سے منع کیا ہے ان سے رک جائیں۔
۵) قرآنی پیغام کو دوسروں تک پہنچانا: امت مسلمہ پر یہ ذمہ داری عائد کی گئی کہ اپنی ذات سے قرآن وحدیث پر عمل کرکے اس بات کی کوشش وفکر کی جائے کہ ہمارے بچے، خاندان والے، محلہ والے، شہر والے بلکہ انسانیت کا ہر ہر فرد اللہ کو معبود حقیقی مان کر قرآن وحدیث کے مطابق زندگی گزارنے والا بن جائے۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر (اچھائیوں کا حکم کرنا اور برائیوں سے روکنا) کی ذمہ داری کو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بار بار بیان کیا ہے۔ سورۂ العصر میں اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی کامیابی کے لئے چار صفات میں سے ایک صفت دوسروں کو حق بات کی تلقین کرنا ضروری قرار دیا۔ لہٰذا ہم احکام الٰہی پر خود بھی عمل کریں اور دوسروں کو بھی ان پر عمل کرنے کی دعوت دیں۔
اگر ہم حقیقی معنوں میں دونوں جہاں میں کامیابی حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں قرآن وحدیث کی طرف لوٹ کر آنا ہوگا، ہمیں قرآن کریم سے اپنا رشتہ جوڑنا ہوگا، جو تلاوت ، حفظ، تدبر اور عمل بالقرآن سے ہی ممکن ہے۔
محمد نجیب قاسمی سنبھلی (www.najeebqasmi.com)

قرآن فہمی حدیث نبوی کے بغیر ممکن نہیں

بسم الله الرحمن الرحيم

اَلْحَمْدُ لِله رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلام عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔

قرآن فہمی حدیث نبوی کے بغیر ممکن نہیں

قرآن: قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا وہ عظیم الشان کلام ہے جو انسانوں کی ہدایت کے لئے خالق کائنات نے اپنے آخری رسول حضور اکرم ﷺ پر نازل فرمایا تاکہ آپ ﷺ اپنے اقوال وافعال کے ذریعہ لوگوں کے سامنے اس کے احکام ومسائل بیان فرمادیں۔
حدیث: حدیث اُس کلام کو کہا جاتا ہے جس میں نبی اکرم ﷺ کے قول یا عمل یا کسی صحابی کے عمل پر آپ ﷺکے سکوت یا آپ ﷺکی صفات میں سے کسی صفت کا ذکر کیا گیا ہو۔
حضور اکرم ﷺ قرآن کریم کے مفسّر اوّل:
قرآن وحدیث کی تعریف سے ہی یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ جس ذات عالی پر قرآن کریم نازل ہوا اس کے اقوال وافعال کے بغیر قرآن کریم کو کیسے سمجھا جاسکتا ہے؟ خود اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن کریم میں متعدد مرتبہ اس حقیقت کو بیان فرمایا ہے، جن میں سے دو آیات مندرجہ ذیل ہیں:
* وَاَنْزَلْنَا اِلَےْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَےْہِمْ وَلَعَلَّہُمْ ےَتَفَکَّرُوْنَ (سورۃ النحل ۴۴) یہ کتاب ہم نے آپ ﷺ کی طرف اتاری ہے تاکہ لوگوں کی جانب جو حکم نازل فرمایا گیا ہے، آپ ﷺ اسے کھول کھول کر بیان کردیں، شاید کہ وہ غوروفکر کریں۔
* یہ کتاب ہم نے آپ ﷺ پر اس لئے اتاری ہے تاکہ آپ ﷺ ان کے لئے ہر اس چیز کو واضح کردیں جس میں وہ اختلاف کررہے ہیں۔ (سورۃ النحل ۶۴)
اللہ تعالیٰ نے ان دونوں آیات میں واضح طور پر بیان فرمادیا کہ قرآن کریم کے مفسر اول حضور اکرم ﷺ ہیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے نبی اکرم ﷺ پر یہ ذمہ داری عائد کی گئی کہ آپ ﷺامت مسلمہ کے سامنے قرآن کریم کے احکام ومسائل کھول کھول کر بیان کریں۔ اور ہمارا یہ ایمان ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے اپنے اقوال وافعال کے ذریعہ قرآن کریم کے احکام ومسائل بیان کرنے کی ذمہ داری بحسن خوبی انجام دی۔ صحابۂ کرام، تابعین اور تبع تابعین کے ذریعہ حضور اکرم ﷺ کے اقوال وافعال یعنی حدیث نبوی کے ذخیرہ سے قرآن کریم کی پہلی اہم اور بنیادی تفسیر انتہائی قابل اعتماد ذرائع سے امت مسلمہ کوپہونچی ہے، لہذا قرآن فہمی حدیث کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے۔
اللّہ کی اطاعت کے ساتھ رسول اکرم ﷺ کی اطاعت بھی ضروری:
اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن کریم کی سینکڑوں آیات میں اپنی اطاعت کے ساتھ رسول کی اطاعت کا حکم دیا ہے۔ کہیں فرمایا: (اطیعوا اللہ واطیعوا الرسول)، کہیں فرمایا: (اطیعوا اللہ ورسولہ)، کسی جگہ ارشاد ہے: (اطیعواا للہ والرسول) اور کسی آیت میں ارشاد ہے: (اطیعوا الرسول)۔ ان سب جگہوں پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے بندوں سے ایک ہی مطالبہ ہے کہ فرمانِ الہی کی تعمیل کرو اور ارشاد نبوی ﷺکی اطاعت کرو۔ غرضیکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں متعدد جگہوں پر یہ بات واضح طور پر بیان کردی کہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کی اطاعت بھی ضروری ہے اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت رسول اکرم ﷺ کی اطاعت کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں رسول کی اطاعت کا حکم دیا اور رسول کی اطاعت جن واسطوں سے ہم تک پہونچی ہے یعنی احادیث کا ذخیرہ ، اگر ان پر ہم شک وشبہ کریں تو گویا ہم قرآن کریم کی سینکڑوں آیات کے منکر ہیں یا زبان حال سے یہ کہہ رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ایسی چیز کا حکم دیا ہے یعنی اطاعت رسول ،جو ہمارے اختیار میں نہیں ہے۔
سورۃ النساء آیت ۸۰میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کو اطاعت الہی قرار دیتے ہوئے فرمایا: مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰہَ جس شخص نے رسول اللہ ﷺکی اطاعت کی ، اس نے دراصل اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی۔
سورۃ آل عمران آیت ۳۱ میں اللہ تعالیٰ نے اطاعتِ رسول کو حب الہی کا معیار قرار دیا یعنی اللہ تعالیٰ سے محبت رسول اکرم ﷺکی اطاعت میں ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِی ےُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ وَےَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ اے نبی! لوگوں سے کہہ دیں کہ اگر تم حقیقت میں اللہ تعالیٰ سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی اختیار کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہوں کو معاف فرمائے گا۔
اللہ تعالیٰ نے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت پر دائمی جنت نیز اللہ اور اس کے رسول ﷺکی نافرمانی پر دائمی عذاب کا فیصلہ فرمایا۔ وَمَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہُ ےُدْخِلْہُ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہَارُ خَالِدِےْنَ فِےْہَا، وَذٰلِکَ الْفُوْزُ الْعَظِےْمُ۔ وَمَنْ ےَعْصِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہُ وَےَتَعَدَّ حُدُوْدَہٗ ےُدْخِلْہُ نَاراً خَالِدًا فِےْہَا وَلَہُ عَذَابٌ مُّہِےْنٌ (سورۂ النساء ۱۳۔۱۴) جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کرے گا اسے اللہ تعالیٰ ایسی جنتوں میں داخل فرمائے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور ان باغوں میں وہ ہمیشہ رہیں گے، اور یہی بڑی کامیابی ہے۔ اور جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺکی نافرمانی کرے گا اور اسکی مقررہ حدوں سے آگے نکلے گا ، اسے وہ جہنم میں ڈال دے گا، جس میں وہ ہمیشہ رہے گا، ایسوں ہی کے لئے رسوا کن عذاب ہے۔ غرضیکہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت نہ کرنے والوں کا ٹھکانا جہنم ہے۔۔۔۔ وَمَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہُ ےُدْخِلْہُ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہَارُ، وَمَنْ یَّتَوَلَّ ےُعَذِّبْہُ عَذَاباً اَلِےْماً (سورۂ الفتح ۱۷) جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کرے گا اسے اللہ تعالیٰ ایسی جنتوں میں داخل فرمائے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔ اور جو منہ پھیرے گا اسے وہ دردناک عذاب دے گا۔
اللہ تعالیٰ نے قیامت تک آنے والے انسانوں کے لئے حضور اکرم ﷺکے قول وعمل یعنی حدیث نبوی کو نمونہ بناکر ارشاد فرمایا: لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِی رَسُولِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ لَِّمَنْ کَانَ ےَرْجُو اللّٰہَ وَالْےَوْمَ الْآخِرَ وَذَکَرَ اللّٰہَ کَثِےْراً (سورۃ الاحزاب ۲۱) یقیناًتمہارے لئے رسول اللہ ﷺ میں عمدہ نمونہ موجود ہے، ہر اس شخص کے لئے جو اللہ تعالیٰ کی اور قیامت کے دن کی توقع رکھتا ہے اور بکثرت اللہ تعالیٰ کی یاد کرتا ہے۔ یعنی نبی اکرم ﷺکی پوری زندگی کے احوال جو احادیث کے ذخیرہ کی شکل میں ہمارے پاس محفوظ ہیں کل قیامت تک آنے والے تمام انسانوں کے لئے بہترین نمونہ ہے تاکہ ہم اپنی زندگیاں اسی نمونہ کے مطابق گزاریں۔
اطاعت رسول ﷺ کی فرضیت خود نبی اکرم ﷺ کے اقوال سے:
سارے انبیاء کے سردار و آخری نبی حضور اکرم ﷺنے بھی قرآن کریم کے ساتھ سنت رسول ﷺکی اتباع کو ضروری قرار دیا ہے، حضور اکرم ﷺ کے اقوال وافعال سے واقفیت کے بغیر اطاعت رسول ممکن ہی نہیں ہے اور حضور اکرم ﷺ کے اقوال وافعال حدیث کے ذخیرہ ہی میں تو ہیں۔ حدیث کی تقریباً ہر کتاب میں اطاعت رسول کے متعلق نبی اکرم ﷺکے ارشادات تواتر کے ساتھ موجود ہیں، ان میں سے صرف تین احادیث پیش خدمت ہیں:
* رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا: جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی۔ (بخاری ومسلم)
* رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا: جب میں تمہیں کسی چیز سے روکوں تو اس سے باز آجاؤ اور جب میں تمہیں کسی کام کا حکم دوں تو حسب استطاعت اس کی تعمیل کرو۔ (بخاری ومسلم)
* رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا: میری امت کے تمام افراد جنت میں جائیں گے، سوائے ان لوگوں کے جنہوں نے انکار کیا۔ آپ ﷺسے کہا گیا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ ! دخولِ جنت سے کون انکار کرسکتا ہے؟ تو آپ ﷺنے فرمایا : جس نے میری اطاعت کی وہ جنت میں داخل ہوگیا اور جس نے میری نافرمانی کی، اس نے (دخول جنت سے) انکار کیا۔ (بخاری ومسلم)
رسول ﷺ کی اطاعت کی فرضیت پر اجماع امت:
حضور اکرم ﷺکی زندگی میں اور انتقال کے بعد صحابۂ کرام کے عمل سے امت مسلمہ نے رسول اکرم ﷺکی تعلیمات کی اتباع کے فرض ہونے پر اجماع کیاہے کیونکہ صحابۂ کرام کسی بھی مسئلہ کا حل پہلے قرآن کریم میں تلاش کیا کرتے تھے ،پھر نبی اکرم ﷺکی سنت میں۔ اسی وجہ سے جمہور علماء کرام نے وحی کی دو قسمیں کی ہیں:
(۱) وحی متلو: وہ وحی جس کی تلاوت کی جاتی ہے، یعنی قرآن کریم، جس کا ایک ایک حرف کلام الٰہی ہے۔
(۲) وحی غیر متلو: وہ وحی جس کی تلاوت نہیں کی جاتی ہے، یعنی حدیث رسول ﷺ،جس کے الفاظ نبی اکرم ﷺکے ہیں ، البتہ بات اللہ تعالیٰ کی ہے۔
جیساکہ سورۃ النجم کی ابتدائی آیات سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے(وَمَا ےَنْطِقُ عَنِ الْہَوٰی اِنْ ہُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰی) اور نہ وہ اپنی خواہش سے کوئی بات کہتے ہیں ۔ وہ تو صرف وحی ہے جو اتاری جاتی ہے ۔ سورۃ البقرہ آیت نمبر ۱۲۹ سے بھی یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہوجاتی ہے: رَبَّنَا وَابْعَثْ فِےْہِمْ رَسُوْلاً مِّنْہُمْ ےَتْلُوْا عَلَےْہِمْ آےَاتِکَ وَےُعَلِّمُہُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ وُےُزَکِّےْہِمْ اے ہمارے رب! اِن میں اِنہیں میں سے رسول بھیج جو اِن کے پاس تیری آیتیں پڑھے، اِنہیں کتاب وحکمت سکھائے اور اِن کو پاکیزہ بنائے۔ یہاں کتاب سے مراد قرآن کریم اور حکمت سے مراد حدیث ہے۔
قرآن کریم میں مجمل احکام:
قرآن کریم میں عموماً احکام کی تفصیل مذکور نہیں ہے، حتی کہ اسلام کے بنیادی ارکان نماز، روزہ، زکاۃ اور حج کے احکام بھی قرآن کریم میں تفصیل کے ساتھ مذکور نہیں ہیں، نبی اکرم ﷺنے اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق اپنے اقوال واعمال سے ان مجمل احکام کی تفصیل بیان کی ہے۔ اللہ تعالیٰ اسی لئے نبی ورسل بھیجتا ہے تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کے احکام اپنے اقوال واعمال سے امتیوں کے لئے بیان کریں۔ مثلاً اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بے شمار مقامات پر نماز پڑھنے، رکوع کرنے اور سجدہ کرنے کا حکم دیا ہے، لیکن نماز کی تفصیل قرآن کریم میں مذکور نہیں ہے کہ ایک دن میں کتنی نمازیں ادا کرنی ہیں؟ قیام یا رکوع یا سجدہ کیسے کیا جائے گا اورکب کیا جائے گا ؟اور اس میں کیا پڑھا جائے گا؟ ایک وقت میں کتنی رکعت ادا کرنی ہیں؟ اسی طرح قرآن کریم میں زکاۃ کی ادائیگی کا تو حکم ہے لیکن تفصیلات مذکور نہیں ہیں کہ زکاۃ کی ادائیگی روزانہ کرنی ہے یا سال بھر میں یا پانچ سال میں یا زندگی میں ایک مرتبہ؟ پھر یہ زکاۃ کس حساب سے دی جائے گی؟ کس مال پر زکاۃ واجب ہے اور اس کے لئے کیا کیا شرائط ہیں؟ غرضیکہ اگرحدیث نبوی کو قرآن کی پہلی اہم اور بنیادی تفسیر ماننے سے انکار کریں تو قرآن کریم کی وہ سینکڑوں آیات جن میں نماز پڑھنے ، روزہ رکھنے ، زکاۃ اور حج کی ادائیگی کا حکم ہے، وہ سب نعوذ باللہ بے معنی ہوجائیں گی۔
اسی طرح قرآن کریم (سورۂ المائدہ ۳۸) میں حکم ہے کہ چوری کرنے والے مرد وعورت کے ہاتھوں کو کاٹ دیا جائے۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ دونوں ہاتھ کاٹیں یا ایک ہاتھ؟ اور اگر ایک ہاتھ کاٹیں تو داہنا کاٹیں یا بایاں؟ پھر اسے کاٹیں تو کہا ں سے؟ بغل سے؟ یا کہنی سے؟ یا کلائی سے؟ یا ان کے بیچ میں کسی جگہ سے؟ پھر کتنے مال کی قیمت کی چوری پر ہاتھ کاٹیں؟ اس مسئلہ کی مکمل وضاحت حدیث میں ہی ملتی ہے، معلوم ہوا کہ قرآن کریم کو حدیث کے بغیر نہیں سمجھا جاسکتا ۔
اسی طرح قرآن کریم (سورۂ الجمعہ) میں ارشاد ہے کہ جب جمعہ کی نماز کے لئے پکارا جائے تو اللہ تعالیٰ کے ذکر کی طرف دوڑو اور خرید وفروخت چھوڑدو۔ سوال یہ ہے کہ جمعہ کا دن کونسا ہے؟ یہ اذان کب دی جائے؟ اس کے الفاظ کیا ہوں؟ جمعہ کی نماز کب ادا کی جائے؟ اس کو کیسے پڑھیں؟ خریدو فروخت کی کیا کیا شرائط ہیں ؟ اس مسئلہ کی مکمل وضاحت احادیث میں ہی مذکور ہے۔
نزول قرآن کی کیفیت کا بیان، مختلف سورتوں وآیات کے پڑھنے کی خاص فضیلت کا ذکر، آیات کا شان نزول، قرآن کریم میں مذکور ابنیاء اور ان کی امتوں کے واقعات کی تفصیل، ناسخ ومنسوخ کی تعیین، اسی طرح حفاظت قرآن کے مراحل کا بیان احادیث میں ہی تو ہے لہذا حدیث کے بغیر قرآن کریم کو کیسے سمجھا جاسکتا ہے؟
ایک وضاحت:
اللہ تعالیٰ نے ہمیں قرآن کریم میں تدبر وتفکر کرنے کا حکم دیا ہے،مگر یہ تدبر وتفکر مفسر اول حضور اکرم ﷺکے اقوال وافعال کی روشنی میں ہی ہونا چاہئے کیونکہ اللہ تعالیٰ ہی نے متعدد جگہوں پر ارشاد فرمایا ہے کہ اے نبی! یہ کتاب ہم نے آپ پر نازل فرمائی ہے تاکہ آپ ﷺ اس کلام کو کھول کھول کر لوگوں کے لئے بیان کردیں اور ہمارا یہ ایمان ہے کہ نبی اکرم ﷺنے اپنی اس ذمہ داری کو بخوبی انجام دیا۔ لیکن کچھ حضرات قرآن کریم کی تفسیر میں نبی اکرم ﷺکے اقوال وارشادات کو ضعیف قرار دے کر اپنی رائے تھوپنا شروع کردیتے ہیں، جو کہ سراسر غلط ہے۔ یقیناًہمیں قرآن کریم سمجھ کر پڑھنا چاہئے کیونکہ یہ کتاب ہماری ہدایت ورہنمائی کے لئے اللہ تعالیٰ نے نازل فرمائی ہے نیز نبی اکرم ﷺنے قرآن کریم کے احکام کھول کھول کر بیان فرمادئے ہیں، لیکن ہمارے لئے ضروری ہے کہ جن مسائل میں بھی نبی اکرم ﷺ کے اقوال یا اعمال سے رہنمائی مل سکتی ہے خواہ حدیث کی سند میں تھوڑا ضعف بھی ہو،ان مسائل میں اپنے اجتہاد وقیاس اور اپنے عقلی گھوڑے دوڑانے کے بجائے نبی اکرم ﷺ کے اقوال و اعمال کے مطابق ہی عمل کریں۔ نئے نئے مسائل کے حل کے لئے قرآن کریم میں تدبر وتفکر اور حدیث نبوی کے ذخیرہ میں غوطہ اندوزی ضرور کریں مگر قرآن وحدیث کو بالائے طاق رکھ کر نہیں بلکہ قرآن وحدیث کی روشنی ہی میں۔
ایک شبہ کا ازالہ:
بعض حضرات قرآن کریم کی چند آیات مثلاً (تِبْےَاناً لِکُلِّ شَیْءٍ۔ سورۂ النحل ۸۹) اور (تَفْصِےْلاً لِکُلِّ شَیْءٍ۔ سورۂ الانعام ۱۵۴) سے غلط مفہوم لے کر یہ بیان کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ قرآن کریم میں ہر مسئلہ کا حل ہے اور قرآن کریم کو سمجھنے کے لئے حدیث کی کوئی خاص ضرورت نہیں ہے۔ حالانکہ حدیث رسول ﷺ بھی قرآن کریم کی طرح شریعتِ اسلامیہ میں قطعی دلیل اور حجت ہے، جیسا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے پاک کلام میں متعدد مقامات پر مکمل وضاحت کے ساتھ ذکر کیا ہے۔ نیز قرآن کریم میں یہ کہاں ہے کہ جو قرآن میں ہو بس اسی پر عمل کرنا لازم ہے، بلکہ قرآن کریم میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے سینکڑوں آیات (اطیعوا اللہ واطیعوا الرسول)، (اطیعوا اللہ ورسولہ)، (اطیعواا للہ والرسول) (اطیعوا الرسول)میں رسول اکرم کی ﷺاطاعت کاحکم دیا ہے، بلکہ رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کو اپنی اطاعت قرار دیا ہے: مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰہَ۔ اگر قرآن کریم ہی ہمارے لئے کافی ہے تو پھر اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں جگہ جگہ رسول اللہ ﷺکی اطاعت کا حکم کیوں دیا ہے؟
دوسرے شبہ کا ازالہ:
بعض حضرات سند حدیث کی بنیاد پر ہوئی احادیث کی اقسام یا راویوں کو ثقہ قرار دینے میں محدثین وفقہاء کے اختلاف کی وجہ سے حدیث رسول ﷺ کو ہی شک وشبہ کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، حالانکہ انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو قیامت تک آنے والے تمام عرب وعجم کی رہنمائی کے لئے اپنے آخری رسول حضور اکرم ﷺپر نازل فرمایا ہے اور قیامت تک اس کی حفاظت کا وعدہ کیاہے۔ اور اسی قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے متعدد جگہوں پر ارشاد فرمایا ہے کہ اے نبی! یہ کتاب ہم نے آپ پر نازل فرمائی ہے تاکہ آپ ﷺ اس کلام کو کھول کھول کر لوگوں کے لئے بیان کردیں۔ تو جس طرح اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے الفاظ کی حفاظت کی ہے، اس کے معانی ومفاہیم جو نبی اکرم ﷺنے بیان فرمائے ہیں وہ بھی کل قیامت تک محفوظ رہیں گے، ان شاء اللہ۔ قرآن کریم کے الفاظ کے ساتھ اس کے معنی ومفہوم کی حفاظت بھی مطلوب ہے ورنہ نزول قرآن کا مقصد ہی فوت ہوجائے گا۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو قرآن وحدیث کے مطابق زندگی گزارنے والا بنائے۔ آمین۔ ثم آمین۔
محمد نجیب قاسمی سنبھلی ریاض (najeebqasmi@yahoo.com)

نزول وحفاظت قرآن کریم

بسم الله الرحمن الرحيم

اَلْحَمْدُ لِله رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلام عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔

نزول وحفاظت قرآن کریم

قرآن:
قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا وہ عظیم الشان کلام ہے جو انسانوں کی ہدایت کے لئے خالق کائنات نے اپنے آخری رسول حضور اکرم ﷺ پر نازل فرمایا۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی حفاظت خود اپنے ذمہ لی ہے جیساکہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ قرآن کریم میں موجود ہے: اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَه لَحَافِظُوْنَ (سورۃ الحجر آیت ۹) یہ ذکر (یعنی قرآن) ہم نے ہی اتارا ہے، اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ قرآن کریم آخری آسمانی کتاب ہے جو قیامت تک کے لئے نافذ العمل رہے گی، برخلاف پہلی آسمانی کتابوں کے کہ وہ خاص قوموں اور خاص زمانوں کے لئے تھیں۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ان کو قیامت تک محفوظ رکھنے کی کوئی ضمانت نہیں دی تھی، لیکن اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی حفاظت کا ذمہ خود لیا ہے۔
وحی:
قرآن کریم چونکہ حضور اکرم ﷺ پر وحی کے ذریعہ نازل کیا گیا ہے اس لئے سب سے پہلے مختصراً وحی کو سمجھیں۔ وحی وہ کلام ہے جو اللہ تعالیٰ حضرت جبرئیل علیہ السلام کے واسطہ یا بلا واسطہ اپنے انبیاء پر القاء فرماتا ہے، جس کے ذریعہ خالق کائنات انسان کو دنیاوی زندگی گزارنے کا طریقہ بتلاتا ہے تاکہ لوگ اس کے بتلائے ہوئے طریقہ پر دنیاوی زندگی گزارکر جہنم سے بچ کر ہمیشہ ہمیشہ کی جنت میں داخل ہوجائیں۔
انسان تین ذرائع میں سے کسی ایک ذریعہ سے علم حاصل کرتا ہے۔ ایک انسان کے حواس یعنی آنکھ، کان، منہ اور ہاتھ پاؤں، دوسرا ذریعہ عقل اور تیسرا ذریعہ وحی ہے۔ انسان کو بہت سی باتیں اپنے حواس کے ذریعہ معلوم ہوجاتی ہیں، جبکہ بہت سی عقل کے ذریعہ اور جو باتیں ان دونوں ذرائع سے معلوم نہیں ہوسکتیں ان کا علم وحی کے ذریعہ عطا کیا جاتا ہے۔حواس اور عقل کے ذریعہ حاصل شدہ علم میں غلطی کے امکان ہوتے ہیں لیکن وحی کے ذریعہ حاصل شدہ علم میں غلطی کے امکان بالکل نہیں ہوتے کیونکہ یہ علم خالق کائنات کی جانب سے انبیاء کے ذریعہ انسانوں کو پہنچتا ہے۔ غرض وحی انسان کے لئے وہ اعلیٰ ترین ذریعہ علم ہے جو اسے اسکی زندگی سے متعلق ان سوالات کا جواب مہیا کرتا ہے جو عقل وحواس کے ذریعہ حل نہیں ہوسکتے۔ یعنی صرف عقل اور مشاہدہ انسان کی رہنمائی کے لئے کافی نہیں ہے بلکہ اس کی ہدایت کے لئے وحئ الہی ایک ناگزیر ضرورت ہے۔ چونکہ وحی عقل اور مشاہدہ سے بڑھ کر علم ہے لہذا ضروری نہیں کہ وحی کی ہر بات کا ادراک عقل سے ہوسکے۔

نزول وحی کے چند طریقے:حضور اکرم ﷺ پر مختلف طریقوں سے وحی نازل ہوتی تھی۔
۱) گھنٹی کی سی آواز سنائی دیتی اور آواز نے جو کچھ کہا ہوتا وہ حضور اکرم ﷺ کو یاد ہوجاتا۔ جب اس طریقہ پر وحی نازل ہوتی تھی تو آپ ﷺپر بہت زیادہ بوجھ پڑتا تھا۔
۲) فرشتہ کسی انسانی شکل میں آپ ﷺ کے پاس آتا اور اللہ تعالیٰ کا پیغام آپ کو پہنچادیتا۔ ایسے مواقع پر عموماً حضرت جبرئیل علیہ السلام مشہور صحابی حضرت دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ کی صورت میں تشریف لایا کرتے تھے۔
۳) حضرت جبرئیل علیہ السلام اپنی اصل صورت میں تشریف لاتے تھے، آپ ﷺ کی عمر میں صرف تین مرتبہ ایسا ہوا ہے۔ ایک نبوت کے بالکل ابتدائی دور میں، دوسری بار خود حضور اکرم ﷺ نے حضرت جبرئیل علیہ السلام سے ان کی اصل صورت میں دیکھنے کی خواہش ظاہر فرمائی تھی اور تیسری مرتبہ معراج کے موقع پر۔
۴) بلاواسطہ اللہ تعالیٰ سے حضور اکرم ﷺ کی ہم کلامی ہوئی۔ یہ صرف ایک بار معراج کے موقع پر ہوا۔ نماز کی فرضیت اسی موقع پر ہوئی۔
۵) حضرت جبرئیل علیہ السلام آپ ﷺ کے سامنے آئے بغیر آپ ﷺ کے قلب مبارک پر کوئی بات القاء فرمادیتے تھے۔

تاریخ نزول قرآن:
ماہ رمضان کی ایک بابرکت رات لیلۃ القدر میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے لوح محفوظ سے سماء دنیا پر قرآن کریم نازل فرمایا اور اس کے بعد حسب ضرورت تھوڑا تھوڑا حضور اکرم ﷺ پر نازل ہوتا رہا اور تقریباً ۲۳ سال کے عرصہ میں قرآن کریم مکمل نازل ہوا۔ قرآن کریم کا تدریجی نزول اُس وقت شروع ہوا جب آپ ﷺ کی عمر مبارک چالیس سال تھی۔ قرآن کریم کی سب سے پہلی جو آیتیں غارِ حرا میں اتریں وہ سورۂ علق کی ابتدائی آیات ہیں: اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ۔ خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ۔ اِقْرَاْ وَرَبُّکَ الْاَکْرَمْ پڑھو اپنے اس پروردگار کے نام سے جس نے پیدا کیا۔ جس نے انسان کو منجمد خون سے پیدا کیا۔ پڑھو، اور تمہارا پروردگار سب سے زیادہ کریم ہے۔ اس پہلی وحی کے نزول کے بعد تین سال تک وحی کے نزول کا سلسلہ بند رہا۔ تین سال کے بعد وہی فرشتہ جو غار حرا میں آیا تھا آپ ﷺ کے پاس آیا اور سورۃ المدثر کی ابتدائی چند آیات آپ ﷺ پر نازل فرمائیں: ےَا اَیُّہَا الْمُدَثِّرْ ۔ قُمْ فَاَنْذِرْ۔ وَرَبَّکَ فَکِبِّرْ۔ وَثِےَابَکَ فَطَہِّرْ۔ والرُّجْزَ فَاہْجُرْ۔اے کپڑے میں لپٹنے والے۔ اٹھو اور لوگوں کو خبردار کرو۔ اور اپنے پروردگار کی تکبیر کہو۔ اور اپنے کپڑوں کو پاک رکھو۔ اور گندگی سے کنارہ کرلو۔
اس کے بعد حضور اکرم ﷺ کی وفات تک وحی کے نزول کا تدریجی سلسلہ جاری رہا۔ قرآن کریم کا سب سے چھوٹا حصہ جو مستقلاً نازل ہوا ہے وہ “غَيْرِ اُولِی الضَّرَرِ” (النساء ۹۵) ہے جو ایک طویل آیت کا ٹکڑا ہے۔ دوسری طرف پوری سورۃ الانعام ایک ہی مرتبہ نازل ہوئی ہے۔ غرض تقریباً ۲۳ سال کے عرصہ میں قرآن کریم مکمل نازل ہوا۔

قرآن کریم کے تدریجی نزول کا مقصد:
دیگر آسمانی کتابوں کے برخلاف قرآن کریم کو ایک دفعہ نازل کرنے کے بجائے تھوڑا تھوڑا نازل کیا گیا۔ اس کی وجہ خود اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں مشرکین مکہ کے سوال کے جواب میں ان الفاظ میں بتائی ہے:
اور یہ کافرلوگ کہتے ہیں کہ ان پرسارا قرآن ایک ہی دفعہ میں کیوں نازل نہیں کردیا گیا؟ (اے پیغمبر!) ہم نے ایسا اس لئے کیا ہے تاکہ اس کے ذریعہ تمہارا دل مضبوط رکھیں اور ہم نے اسے ٹھہر ٹھہر کر پڑھوایا ہے۔ اور جب کبھی یہ لوگ تمہارے پاس کوئی انوکھی بات لے کر آتے ہیں، ہم تمہیں (اس کا ) ٹھیک ٹھیک جواب اور زیادہ وضاحت کے ساتھ عطا کردیتے ہیں۔ (سورۃ الفرقان ۳۲، ۳۳)
امام رازی ؒ نے اس آیت کی تفسیر میں قرآن کریم کے تدریجی نزول کی جو حکمتیں بیان فرمائی ہیں، اُن کا خلاصۂ کلام یہ ہے:
۱)حضور اکرم ﷺ اُمی تھے، اس لئے اگر سارا قرآن ایک مرتبہ نازل ہوگیا ہوتا تو اس کا یاد رکھنا اور ضبط کرنا دشوار ہوتا۔
۲)اگر پورا قرآن ایک دفعہ میں نازل ہوجاتا تو تمام احکام کی پابندی فوراً لازم ہوجاتی اور یہ اس حکیمانہ تدریج کے خلاف ہوتا جو شریعت محمدی میں ملحوظ رہی ہے۔
۳)حضور اکرم ﷺ کو اپنی قوم کی طرف سے ہر روز نئی اذیتیں برداشت کرنی پڑتی تھی، حضرت جبرئیل علیہ السلام کا بار بار قرآن کریم لے کر آنا ، ان اذیتوں کے مقابلے کو آسان بنادیتا تھا اور آپ کی تقویتِ قلب کا سبب بنتا تھا۔
۴) قرآن کریم کا ایک حصہ لوگوں کے سوالات کے جواب اور مختلف واقعات سے متعلق ہے۔ اس لئے ان آیتوں کا نزول اسی وقت مناسب تھا جس وقت وہ سوالات کئے گئے یا وہ واقعات پیش آئے۔

مکی ومدنی آیات وسورۃ:
ہجرت مدینہ منورہ سے قبل تقریباً ۱۳ سال تک قرآن کریم کے نزول کی آیات وسورتوں کو مکی اور مدینہ منورہ پہنچنے کے بعد تقریباً ۱۰ سال تک قرآن کریم کے نزول کی آیات وسورتوں کو مدنی کہا جاتا ہے۔ کسی سورۃ کے مدنی ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس سورۃ کی ہر ہر آیت مدینہ منورہ ہجرت کرنے کے بعد نازل ہوئی ہو بلکہ اکثر آیتوں کے نزول کے اعتبار سے سورۃ کو مکی یا مدنی کہا گیا ہے۔

تاریخ حفاظت قرآن:
جیسا کہ ذکر کیا گیا کہ قرآن کریم ایک ہی دفعہ میں نازل نہیں ہوا بلکہ ضرورت اورحالات کے اعتبار سے مختلف آیات نازل ہوتی رہیں۔ قرآن کریم کی حفاظت کے لئے سب سے پہلے حفظ قرآن پر زور دیا گیا۔ چنانچہ خود حضور اکرم ﷺ الفاظ کو اسی وقت دہرانے لگتے تھے تاکہ وہ اچھی طرح یاد ہوجائیں۔ اس پر اللہ تعالیٰ کی جانب سے وحی نازل ہوئی کہ عین نزول وحی کے وقت جلدی جلدی الفاظ دہرانے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ خود آپ میں ایسا حافظہ پیدا فرمادے گا کہ ایک مرتبہ نزول وحی کے بعد آپ اسے بھول نہیں سکیں گے۔ اس طرح حضور اکرم ﷺ پہلے حافظ قرآن ہیں۔ چنانچہ ہر سال ماہ رمضان میں آپ ﷺ حضرت جبرئیل علیہ السلام کے ساتھ قرآن کے نازل شدہ حصوں کا دور فرمایا کرتے تھے۔ جس سال آپ ﷺ کا انتقال ہوا اس سال آپ ﷺ نے دوبار قرآن کریم کا دور فرمایا۔ پھر آپ ﷺ صحابۂ کرام کو قرآن کے معانی کی تعلیم ہی نہیں دیتے تھے بلکہ انہیں اس کے الفاظ بھی یاد کراتے تھے۔ خود صحابۂ کرام کو قرآن کریم یاد کرنے کا اتنا شوق تھا کہ ہر شخص ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی فکر میں رہتا تھا۔ چنانچہ ہمیشہ صحابۂ کرام میں ایک اچھی خاصی جماعت ایسی رہتی جو نازل شدہ قرآن کی آیات کو یاد کرلیتی اور راتوں کو نماز میں اسے دہراتی تھی۔ غرضیکہ قرآن کی حفاظت کے لئے سب سے پہلے حفظ قرآ ن پر زور دیا گیا اور اُس وقت کے لحاظ سے یہی طریقہ زیادہ محفوظ اور قابل اعتماد تھا۔
قرآن کریم کی حفاظت کے لئے حضور اکرم ﷺ نے قرآن کریم کو لکھوانے کا بھی خاص اہتمام فرمایا چنانچہ نزول وحی کے بعد آپ کاتبین وحی کو لکھوادیا کرتے تھے۔ حضور اکرم ﷺ کا معمول یہ تھا کہ جب قرآن کریم کا کوئی حصہ نازل ہوتا تو آپ کاتب وحی کو یہ ہدایت بھی فرماتے تھے کہ اسے فلاں سورۃ میں فلاں فلاں آیات کے بعد لکھا جائے۔ اس زمانہ میں کاغذ دستیاب نہیں تھا اس لئے یہ قرآنی آیات زیادہ تر پتھر کی سلوں، چمڑے کے پارچوں، کھجور کی شاخوں، بانس کے ٹکڑوں، درخت کے پتوں اور جانور کی ہڈیوں پر لکھی جاتی تھیں۔ کاتبین وحی میں حضرت زید بن ثابتؓ، خلفاء راشدین، حضرت ابی بن کعبؓ، حضرت زبیر بن عوامؓ اور حضرت معاویہؓ کے نام خاص طور پر ذکر کئے جاتے ہیں۔

حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے عہد خلافت میں حفاظت قرآن:
حضور اکرم ﷺ کے زمانے میں جتنے قرآن کریم کے نسخے لکھے گئے تھے وہ عموماً متفرق اشیاء پر لکھے ہوئے تھے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ کے عہد خلافت میں جب جنگ یمامہ کے دوران حفاظ قرآن کی ایک بڑی جماعت شہید ہوگئی تو حضرت عمر فاروقؓ نے حضرت ابوبکر صدیقؓ کو قرآن کریم کو ایک جگہ جمع کروانے کا مشورہ دیا۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ ابتداء میں اس کام کے لئے تیار نہیں تھے لیکن شرح صدر کے بعد وہ بھی اس عظیم کام کے لئے تیار ہوگئے اور کاتب وحی حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کو اس اہم وعظیم عمل کا ذمہ دار بنایا۔ اس طرح قرآن کریم کو ایک جگہ جمع کرنے کا اہم کام شروع ہوگیا۔
حضرت زید بن ثابتؓ خود کاتب وحی ہونے کے ساتھ پورے قرآن کریم کے حافظ تھے۔وہ اپنی یادداشت سے بھی پورا قرآن لکھ سکتے تھے، اُن کے علاوہ اُس وقت سینکڑوں حفاظ قرآن موجود تھے ،مگر انہوں نے احتیاط کے پیش نظر صرف ایک طریقہ پر بس نہیں کیا بلکہ ان تمام ذرائع سے بیک وقت کام لے کر اُس وقت تک کوئی آیت اپنے صحیفے میں درج نہیں کی جب تک اس کے متواتر ہونے کی تحریری اور زبانی شہادتیں نہیں مل گئیں۔ اس کے علاوہ حضور اکرم ﷺ نے قرآن کی جو آیات اپنی نگرانی میں لکھوائی تھیں، وہ مختلف صحابۂ کرام کے پاس محفوظ تھیں، حضرت زید بن ثابتؓ نے انہیں یکجا فرمایاتاکہ نیا نسخہ ان ہی سے نقل کیا جائے۔ اس طرح خلیفہ اوّل حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے عہد خلافت میں قرآن کریم ایک جگہ جمع کردیا گیا۔

حضرت عثمان غنیؓ کے عہد خلافت میں حفاظت قرآن:
جب حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ خلیفہ بنے تو اسلام عرب سے نکل کر دو دراز عجمی علاقوں تک پھیل گیا تھا۔ ہر نئے علاقہ کے لوگ ان صحابہ وتابعین سے قرآن سیکھتے جن کی بدولت انہیں اسلام کی نعمت حاصل ہوئی تھی ۔ صحابۂ کرام نے قرآن کریم حضور اکرم ﷺسے مختلف قرأتوں کے مطابق سیکھا تھا۔ اس لئے ہر صحابی نے اپنے شاگردوں کو اسی قراء ت کے مطابق قرآن پڑھایا جس کے مطابق خود انہوں نے حضور اکرم ﷺ سے پڑھا تھا۔ اس طرح قرأتوں کا یہ اختلاف دور دراز ممالک تک پہنچ گیا۔ لوگوں نے اپنی قراء ت کو حق اور دوسری قرأتوں کو غلط سمجھنا شروع کردیا حالانکہ اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے اجازت ہے کہ مختلف قرأتوں میں قرآن کریم پڑھا جائے۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس پیغام بھیجا کہ اُن کے پاس (حضرت ابوبکر صدیقؓ کے تیار کرائے ہوئے) جوصحیفے موجود ہیں ، وہ ہمارے پاس بھیج دیں۔ چنانچہ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کی سرپرستی میں ایک کمیٹی تشکیل دے کر ان کو مکلف کیا گیا کہ وہ حضرت ابوبکر صدیقؓ کے صحیفہ سے نقل کرکے قرآن کریم کے چند ایسے نسخے تیار کریں جن میں سورتیں بھی مرتب ہوں۔ چنانچہ قرآن کریم کے چند نسخے تیار ہوئے اور ان کو مختلف جگہوں پر ارسال کردیا گیا تاکہ اسی کے مطابق نسخے تیار کرکے تقسیم کردئے جائیں۔ اس طرح امت مسلمہ میں اختلاف باقی نہ رہا اور پوری امت مسلمہ اسی نسخہ کے مطابق قرآن کریم پڑھنے لگی۔ بعد میں لوگوں کی سہولت کے لئے قرآن کریم پر نقطے وحرکات (یعنی زبر، زیر اور پیش) بھی لگائے گئے، نیز بچوں کو پڑھانے کی سہولت کے مدنظر قرآن کریم کو تیس پاروں میں تقسیم کیا گیا۔ نماز میں تلاوت قرآن کی سہولت کے لئے رکوع کی ترتیب بھی رکھی گئی۔

اللہ تعالیٰ ہمیں اہتمام سے قرآن کریم کی تلاوت کرنے والا بنائے،اس کو سمجھ کر پڑھنے والا بنائے، اس کے احکام ومسائل پر عمل کرنے والا بنائے اور اس کے پیغام کو دوسروں تک پہونچانے والا بنائے۔ آمین، ثم آمین۔

محمد نجیب قاسمی (najeebqasmi@yahoo.com)

قرآن کریم اور ہم

بسم الله الرحمن الرحيم

اَلْحَمْدُ لِله رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلام عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔

قرآن کریم اور ہم

قرآن کیا ہے؟
قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا پاک کلام ہے جو اللہ تعالیٰ نے قیامت تک آنے والے انس وجن کی رہنمائی کے لئے آخری نبی حضور اکرم ﷺ پر وحی کے ذریعہ نازل فرمایا، قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی صفت ہے، مخلوق نہیں۔ اور وہ لوح محفوظ میں ہمیشہ سے ہے۔ اللہ تعالیٰ کے جو فیصلے ملأ اعلیٰ یعنی آسمانوں کے اوپر تحریرہیں اور وہ کسی بھی تبدیلی سے محفوظ ہونے کے ساتھ شیاطین کے شر سے بھی محفوظ ہیں، اس لئے اس کو لوح محفوظ کہا جاتا ہے۔ اس کی شکل وصورت وحجم کیا ہے؟ ہم نہیں جانتے، مگر قرآن وحدیث کی روشنی میں ہم اس پر ایمان لائے ہیں۔
قرآن قرأ کا مصدر ہے جس کے معنی ہیں پڑھی جانے والی کتاب ۔ واقعی دنیا میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب قرآن کریم ہے، جس کی بغیر سمجھے بھی لاکھوں لوگ ہر وقت تلاوت کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے متعدد جگہوں پر اپنے پاک کلام کے لئے قرآن کا لفظ استعمال کیا ہے: اِنَّہُ لَقُرْآنٌ کَرِےْمٌ (الواقعہ ۷۷) اسی طرح فرمایا: بَلْ ہُوَ قُرْآنٌ مَّجِےْدٌ (البروج ۲۱)
قرآن کریم عربی زبان میں نازل کیا گیا ہے جیساکہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: اِنَّآ اَنْزَلْنَاہُ قُرْآناً عَرَبِیّاً لَّعَلَّکُمْ تَعْقِلُوْن (سورۃ یوسف آیت ۲) ہم نے اس کو ایسا قرآن بناکر اتارا ہے جو عربی زبان میں ہے تاکہ تم سمجھ سکو۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن کریم کو قیامت تک آنے والے انسانوں کی ہدایت کے لئے نازل فرمایا ہے مگر اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والے ہی اس کتاب سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ جیساکہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ذٰلِکَ الْکِتَابُ لَا رَےْبَ فِےْہِ ہُدًی لِّلْمُتَّقِےْنَ (البقرۃ آیت ۲) ہٰذَا بَیاَنٌ لِّلنَّاسِ وَہُدًی وَّمَوْعِظَۃٌ لِّلْمُتَّقِےْنَ (آل عمران آیت ۱۳۸)
نزول قرآن: حضور اکرم ﷺ پر مختلف طریقوں سے وحی نازل ہوتی تھی۔
۱) گھنٹی کی سی آواز سنائی دیتی اور آواز نے جو کچھ کہا ہوتا وہ حضور اکرم ﷺ کو یاد ہوجاتا۔ جب اس طریقہ پر وحی نازل ہوتی تھی تو آپ ﷺپر بہت زیادہ بوجھ پڑتا تھا۔
۲) فرشتہ کسی انسانی شکل میں آپ ﷺ کے پاس آتا اور اللہ تعالیٰ کا پیغام آپ کو پہنچادیتا۔ ایسے مواقع پر عموماً حضرت جبرئیل علیہ السلام مشہور صحابی حضرت دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ کی صورت میں تشریف لایا کرتے تھے۔
۳) حضرت جبرئیل علیہ السلام اپنی اصل صورت میں تشریف لاتے تھے۔
۴) بلاواسطہ اللہ تعالیٰ سے حضور اکرم ﷺ کی ہم کلامی ہوئی۔ یہ صرف ایک بار معراج کے موقع پر ہوا۔ نماز کی فرضیت اسی موقع پر ہوئی۔
۵) حضرت جبرئیل علیہ السلام آپ ﷺ کے سامنے آئے بغیر آپ ﷺ کے قلب مبارک پر کوئی بات القاء فرمادیتے تھے۔
تاریخ نزول قرآن:
ماہ رمضان کی ایک بابرکت رات لیلۃ القدر میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے لوح محفوظ سے سماء دنیا پر قرآن کریم نازل فرمایا اور اس کے بعد حسب ضرورت تھوڑا تھوڑا حضور اکرم ﷺ پر نازل ہوتا رہا اور تقریباً ۲۳ سال کے عرصہ میں قرآن کریم مکمل نازل ہوا۔ قرآن کریم کا تدریجی نزول اُس وقت شروع ہوا جب آپ ﷺ کی عمر مبارک چالیس سال تھی۔ قرآن کریم کی سب سے پہلی جو آیتیں غارِ حرا میں اتریں وہ سورۂ علق کی ابتدائی آیات ہیں: اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ۔ خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ۔ اِقْرَاْ وَرَبُّکَ الْاَکْرَمْ پڑھو اپنے اس پروردگار کے نام سے جس نے پیدا کیا۔ جس نے انسان کو منجمد خون سے پیدا کیا۔ پڑھو، اور تمہارا پروردگار سب سے زیادہ کریم ہے۔ اس پہلی وحی کے نزول کے بعد تین سال تک وحی کے نزول کا سلسلہ بند رہا۔ تین سال کے بعد وہی فرشتہ جو غار حرا میں آیا تھا آپ ﷺ کے پاس آیا اور سورۃ المدثر کی ابتدائی چند آیات آپ ﷺ پر نازل فرمائیں: ےَا اَیُّہَا الْمُدَثِّرْ ۔ قُمْ فَاَنْذِرْ۔ وَرَبَّکَ فَکِبِّرْ۔ وَثِےَابَکَ فَطَہِّرْ۔ والرُّجْزَ فَاہْجُرْ۔اے کپڑے میں لپٹنے والے۔ اٹھو اور لوگوں کو خبردار کرو۔ اور اپنے پروردگار کی تکبیر کہو۔ اور اپنے کپڑوں کو پاک رکھو۔ اور گندگی سے کنارہ کرلو۔ اس کے بعد حضور اکرم ﷺ کی وفات تک وحی کے نزول کا تدریجی سلسلہ جاری رہا۔ غرض تقریباً ۲۳ سال کے عرصہ میں قرآن کریم مکمل نازل ہوا۔ امام رازی ؒ نے قرآن کریم کے تدریجی نزول کی جو حکمتیں بیان فرمائی ہیں، اُن کا خلاصۂ کلام یہ ہے:
۱) حضور اکرم ﷺ اُمی تھے، اس لئے اگر سارا قرآن ایک مرتبہ نازل ہوگیا ہوتا تو اس کا یاد رکھنا اور ضبط کرنا دشوار ہوتا۔
۲) اگر پورا قرآن ایک دفعہ میں نازل ہوجاتا تو تمام احکام کی پابندی فوراً لازم ہوجاتی اور یہ اس حکیمانہ تدریج کے خلاف ہوتا جو شریعت محمدی میں ملحوظ رہی ہے۔
۳) حضور اکرم ﷺ کو اپنی قوم کی طرف سے ہر روز نئی اذیتیں برداشت کرنی پڑتی تھی، حضرت جبرئیل علیہ السلام کا بار بار قرآن کریم لے کر آنا ، ان اذیتوں کے مقابلے کو آسان بنادیتا تھا اور آپ کی تقویتِ قلب کا سبب بنتا تھا۔
۴) قرآن کریم کا ایک حصہ لوگوں کے سوالات کے جواب اور مختلف واقعات سے متعلق ہے۔ اس لئے ان آیتوں کا نزول اسی وقت مناسب تھا جس وقت وہ سوالات کئے گئے یا وہ واقعات پیش آئے۔
حفاظت قرآن:
جیسا کہ ذکر کیا گیا کہ قرآن کریم ایک ہی دفعہ میں نازل نہیں ہوا بلکہ ضرورت اورحالات کے اعتبار سے مختلف آیات نازل ہوتی رہیں۔ قرآن کریم کی حفاظت کے لئے سب سے پہلے حفظ قرآن پر زور دیا گیا۔ چنانچہ خود حضور اکرم ﷺ الفاظ کو اسی وقت دہرانے لگتے تھے تاکہ وہ اچھی طرح یاد ہوجائیں۔ اس پر اللہ تعالیٰ کی جانب سے وحی نازل ہوئی کہ عین نزول وحی کے وقت جلدی جلدی الفاظ دہرانے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ خود آپ میں ایسا حافظہ پیدا فرمادے گا کہ ایک مرتبہ نزول وحی کے بعد آپ اسے بھول نہیں سکیں گے۔ اس طرح حضور اکرم ﷺ پہلے حافظ قرآن ہیں۔ چنانچہ ہر سال ماہ رمضان میں آپ ﷺ حضرت جبرئیل علیہ السلام کے ساتھ قرآن کے نازل شدہ حصوں کا دور فرمایا کرتے تھے۔ جس سال آپ ﷺ کا انتقال ہوا اس سال آپ ﷺ نے دوبار قرآن کریم کا دور فرمایا۔ پھر آپ ﷺ صحابۂ کرام کو قرآن کے معانی کی تعلیم ہی نہیں دیتے تھے بلکہ انہیں اس کے الفاظ بھی یاد کراتے تھے۔ خود صحابۂ کرام کو قرآن کریم یاد کرنے کا اتنا شوق تھا کہ ہر شخص ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی فکر میں رہتا تھا۔ چنانچہ ہمیشہ صحابۂ کرام میں ایک اچھی خاصی جماعت ایسی رہتی جو نازل شدہ قرآن کی آیات کو یاد کرلیتی اور راتوں کو نماز میں اسے دہراتی تھی۔ غرضیکہ قرآن کی حفاظت کے لئے سب سے پہلے حفظ قرآ ن پر زور دیا گیا اور اُس وقت کے لحاظ سے یہی طریقہ زیادہ محفوظ اور قابل اعتماد تھا۔
قرآن کریم کی حفاظت کے لئے حضور اکرم ﷺ نے قرآن کریم کو لکھوانے کا بھی خاص اہتمام فرمایا چنانچہ نزول وحی کے بعد آپ کاتبین وحی کو لکھوادیا کرتے تھے۔ حضور اکرم ﷺ کا معمول یہ تھا کہ جب قرآن کریم کا کوئی حصہ نازل ہوتا تو آپ کاتب وحی کو یہ ہدایت بھی فرماتے تھے کہ اسے فلاں سورۃ میں فلاں فلاں آیات کے بعد لکھا جائے۔ اس زمانہ میں کاغذ دستیاب نہیں تھا اس لئے یہ قرآنی آیات زیادہ تر پتھر کی سلوں، چمڑے کے پارچوں، کھجور کی شاخوں، بانس کے ٹکڑوں، درخت کے پتوں اور جانور کی ہڈیوں پر لکھی جاتی تھیں۔ کاتبین وحی میں حضرت زید بن ثابتؓ، خلفاء راشدین، حضرت ابی بن کعبؓ، حضرت زبیر بن عوامؓ اور حضرت معاویہؓ کے نام خاص طور پر ذکر کئے جاتے ہیں۔
حضور اکرم ﷺ کے زمانے میں جتنے قرآن کریم کے نسخے لکھے گئے تھے وہ عموماً متفرق اشیاء پر لکھے ہوئے تھے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ کے عہد خلافت میں جب جنگ یمامہ کے دوران حفاظ قرآن کی ایک بڑی جماعت شہید ہوگئی تو حضرت عمر فاروقؓ نے حضرت ابوبکر صدیقؓ کو قرآن کریم ایک جگہ جمع کروانے کا مشورہ دیا۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ ابتداء میں اس کام کے لئے تیار نہیں تھے لیکن شرح صدر کے بعد وہ بھی اس عظیم کام کے لئے تیار ہوگئے اور کاتب وحی حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کو اس اہم وعظیم عمل کا ذمہ دار بنایا۔ اس طرح قرآن کریم کو ایک جگہ جمع کرنے کا اہم کام شروع ہوگیا۔
حضرت زید بن ثابتؓ خود کاتب وحی ہونے کے ساتھ پورے قرآن کریم کے حافظ تھے۔وہ اپنی یادداشت سے بھی پورا قرآن لکھ سکتے تھے، اُن کے علاوہ اُس وقت سینکڑوں حفاظ قرآن موجود تھے ،مگر انہوں نے احتیاط کے پیش نظر صرف ایک طریقہ پر بس نہیں کیا بلکہ ان تمام ذرائع سے بیک وقت کام لے کر اُس وقت تک کوئی آیت اپنے صحیفے میں درج نہیں کی جب تک اس کے متواتر ہونے کی تحریری اور زبانی شہادتیں نہیں مل گئیں۔ اس کے علاوہ حضور اکرم ﷺ نے قرآن کی جو آیات اپنی نگرانی میں لکھوائی تھیں، وہ مختلف صحابۂ کرام کے پاس محفوظ تھیں، حضرت زید بن ثابتؓ نے انہیں یکجا فرمایاتاکہ نیا نسخہ ان ہی سے نقل کیا جائے۔ اس طرح خلیفہ اوّل حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے عہد خلافت میں قرآن کریم ایک جگہ جمع کردیا گیا۔
جب حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ خلیفہ بنے تو اسلام عرب سے نکل کر دور دراز عجمی علاقوں تک پھیل گیا تھا۔ ہر نئے علاقہ کے لوگ ان صحابہ وتابعین سے قرآن سیکھتے جن کی بدولت انہیں اسلام کی نعمت حاصل ہوئی تھی ۔ صحابۂ کرام نے قرآن کریم حضور اکرم ﷺسے مختلف قرأتوں کے مطابق سیکھا تھا۔ اس لئے ہر صحابی نے اپنے شاگردوں کو اسی قراء ت کے مطابق قرآن پڑھایا جس کے مطابق خود انہوں نے حضور اکرم ﷺ سے پڑھا تھا۔ اس طرح قرأتوں کا یہ اختلاف دور دراز ممالک تک پہنچ گیا۔ لوگوں نے اپنی قراء ت کو حق اور دوسری قرأتوں کو غلط سمجھنا شروع کردیا حالانکہ اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے اجازت ہے کہ مختلف قرأتوں میں قرآن کریم پڑھا جائے۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس پیغام بھیجا کہ اُن کے پاس (حضرت ابوبکر صدیقؓ کے تیار کرائے ہوئے) جوصحیفے موجود ہیں ، وہ ہمارے پاس بھیج دیں۔ چنانچہ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کی سرپرستی میں ایک کمیٹی تشکیل دے کر ان کو مکلف کیا گیا کہ وہ حضرت ابوبکر صدیقؓ کے صحیفہ سے نقل کرکے قرآن کریم کے چند ایسے نسخے تیار کریں جن میں سورتیں بھی مرتب ہوں۔ چنانچہ قرآن کریم کے چند نسخے تیار ہوئے اور ان کو مختلف جگہوں پر ارسال کردیا گیا تاکہ اسی کے مطابق نسخے تیار کرکے تقسیم کردئے جائیں۔ اس طرح امت مسلمہ میں اختلاف باقی نہ رہا اور پوری امت مسلمہ اسی نسخہ کے مطابق قرآن کریم پڑھنے لگی۔ بعد میں لوگوں کی سہولت کے لئے قرآن کریم پر نقطے وحرکات (یعنی زبر، زیر اور پیش) بھی لگائے گئے، نیز بچوں کو پڑھانے کی سہولت کے مدنظر قرآن کریم کو تیس پاروں میں تقسیم کیا گیا۔ نماز میں تلاوت قرآن کی سہولت کے لئے رکوع کی ترتیب بھی رکھی گئی۔
معلومات قرآن:
منزلیں: قرآن کریم میں ۷ منزلیں ہیں۔ یہ منزلیں اس لئے مقرر کی گئی ہیں تاکہ جو لوگ ایک ہفتہ میں ختم قرآن کریم کرنا چاہیں وہ روزانہ ایک منزل تلاوت فرمائیں۔
پارے: قرآن کریم میں ۳۰ پارے ہیں، انہی کو جز بھی کہا جاتا ہے۔ جوحضرات ایک ماہ میں قرآن کریم ختم کرنا چاہیں وہ روزانہ ایک پارہ تلاوت فرمائیں۔ بچوں کو قرآن کریم سیکھنے کے لئے بھی اس سے سہولت ہوتی ہے۔
سورتیں: قرآن کریم میں ۱۱۴ سورتیں ہیں۔ ہر سورۃ کے شروع میں بسم اللہ لکھی ہوئی ہے سوائے سورۂ توبہ کے۔ سورۃ النمل میں بسم اللہ ایک آیت کا جز بھی ہے، اس طرح قرآن کریم میں بسم اللہ کی تعداد بھی سورتوں کی طرح ۱۱۴ ہی ہے۔ ان تمام سورتوں کے نام بھی ہیں جو بطور علامت رکھے گئے ہیں بطور عنوان نہیں۔ مثلاً سورۃالفیل کا مطلب یہ نہیں کہ وہ سورہ جو ہاتھی کے موضوع پر نازل ہوئی، بلکہ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ وہ سورہ جس میں ہاتھی کا ذکر آیا ہے۔ اسی طرح سورۃالبقرہ کا مطلب وہ سورہ جس میں گائے کا ذکر آیا ہے۔
آیات: قرآن کریم میں چھ ہزار سے کچھ زیادہ آیات ہیں۔
سجدۂ تلاوت: قرآن کریم میں ۱۴ آیات ہیں، جن کی تلاوت کے وقت اور سننے کے وقت سجدہ کرنا واجب ہوتا ہے۔
مکی ومدنی آیات وسورتیں: ہجرت مدینہ منورہ سے قبل تقریباً ۱۳ سال تک قرآن کریم کے نزول کی آیات وسورتوں کو مکی اور مدینہ منورہ پہنچنے کے بعد تقریباً ۱۰ سال تک قرآن کریم کے نزول کی آیات وسورتوں کو مدنی کہا جاتا ہے۔
فضائل قرآن:
حضوراکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: قرآن کا ماہر جس کو خوب یاد ہو، خوب پڑھتا ہو ان کا حشر فرشتوں کے ساتھ قیامت کے دن ہوگا۔ (بخاری، ابوداود)
حضوراکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: قیامت کے دن صاحب قرآن سے کہا جائے گا کہ قرآن پڑھتا جا اور جنت کے درجوں پر چڑھتا جا اور ٹھہر ٹھہر کر پڑھ جیسا کہ تو دنیا میں ٹھہر ٹھہر کر پڑھا کرتا تھا۔ پس تیرا مرتبہ وہی ہے جہاں آخری آیت پر پہونچے۔ (مسلم)
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : جو شخص قرآن پڑھے اور اس پر عمل کرے اس کے والدین کو قیامت کے دن ایک تاج پہنایا جائے گا، جس کی روشنی سورج کی روشنی سے بھی زیادہ ہوگی۔ اگر وہ آفتاب تمہارے گھروں میں ہو تو کیاگمان ہے تمہارا اس شخص کے بارے میں جو خود اس پر عمل پیرا ہو۔ (رواہ احمد ، ابوداود)
فہم قرآن:
اللہ تعالیٰ نے ہمیں قرآن کریم میں تدبر وتفکر کرنے کا حکم دیا ہے،مگر یہ تدبر وتفکر مفسر اول حضور اکرم ﷺکے اقوال وافعال کی روشنی میں ہی ہونا چاہئے کیونکہ اللہ تعالیٰ ہی نے ارشاد فرمایا ہے: وَاَنْزَلْنَا اِلَےْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَےْہِمْ وَلَعَلَّہُمْ ےَتَفَکَّرُوْنَ (سورۃ النحل ۴۴) یہ کتاب ہم نے آپ ﷺ کی طرف اتاری ہے تاکہ لوگوں کی جانب جو حکم نازل فرمایا گیا ہے، آپ ﷺ اسے کھول کھول کر بیان کردیں، شاید کہ وہ غوروفکر کریں۔ وَمَآ اَنْزَلْنَا عَلَےْکَ الْکِتَابَ اِلَّا لِتُبَیِّنَ لَہُمُ الَّذِیْ اخْتَلَفُوا فِےْہِ (سورۃ النحل ۶۴) یہ کتاب ہم نے آپ ﷺ پر اس لئے اتاری ہے تاکہ آپ ﷺ ان کے لئے ہر اس چیز کو واضح کردیں جس میں وہ اختلاف کررہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان دونوں آیات میں واضح طور پر بیان فرمادیا کہ قرآن کریم کے مفسر اول حضور اکرم ﷺ ہیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے نبی اکرم ﷺ پر یہ ذمہ داری عائد کی گئی کہ آپ ﷺامت مسلمہ کے سامنے قرآن کریم کے احکام ومسائل کھول کھول کر بیان کریں۔ اور ہمارا یہ ایمان ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے اپنے اقوال وافعال کے ذریعہ قرآن کریم کے احکام ومسائل بیان کرنے کی ذمہ داری بحسن خوبی انجام دی۔ صحابۂ کرام، تابعین اور تبع تابعین کے ذریعہ حضور اکرم ﷺ کے اقوال وافعال یعنی حدیث نبوی کے ذخیرہ سے قرآن کریم کی پہلی اہم اور بنیادی تفسیر انتہائی قابل اعتماد ذرائع سے امت مسلمہ کوپہونچی ہے، لہذا قرآن فہمی حدیث کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے۔
مضامین قرآن:
علماء کرام نے قرآن کریم کے مضامین کی مختلف قسمیں ذکر فرمائی ہیں، تفصیلات سے قطع نظر ان مضامین کی بنیادی تقسیم اس طرح ہے:
۱) عقائد۔ ۲) احکام۔ ۳) قصص قرآن کریم میں عمومی طور پر صرف اصول ذکر کئے گئے ہیں لہٰذا عقائد واحکام کی تفصیل احادیث نبویہ میں ہی ملتی ہے، یعنی قرآن کریم کے مضامین کو ہم احادیث نبویہ کے بغیر نہیں سمجھ سکتے ہیں۔
۱) عقائد: توحید ، رسالت، آخرت وغیرہ کے مضامین اسی کے تحت آتے ہیں۔ عقائد پر قرآن کریم نے بہت زور دیاہے اور ان بنیادی عقائد کو مختلف الفاظ سے بار بار ذکر فرمایا ہے۔ ان کے علاوہ فرشتوں پر ایمان، آسمانی کتابوں پر ایمان، تقدیر پر ایمان، جزاوسزا، جنت ودوزخ، عذاب قبر، ثواب قبر، قیامت کی تفصیلات وغیرہ بھی مختلف عقیدوں پر قرآن کریم میں روشنی ڈالی گئی ہے۔
۲) احکام: اس کے تحت مندرجہ ذیل احکام اور ان سے متعلق مسائل آتے ہیں:
عبادتی احکام: نماز، روزہ، زکاۃ اور حج وغیرہ کے احکام ومسائل۔ قرآن کریم میں سب زیادہ تاکید نماز پڑھنے کے متعلق وارد ہوئی ہے۔ قرآن کریم میں نماز کی ادائیگی کے حکم کے ساتھ ہی عموماً زکاۃ کی ادائیگی کا حکم بھی وارد ہوا ہے۔
معاشرتی احکام: مثلاً حقوق العباد کی ساری تفصیلات۔
معاشی احکام: خرید وفروخت، حلال اور حرام اور مال کمانے اور خرچ کرنے کے مسائل۔
اخلاقی وسماجی احکام: انفرادی اور اجتماعی زندگی سے متعلق احکام ومسائل۔
سیاسی احکام: حکومت اور رعایا کے حقوق سے متعلق احکام ومسائل۔
عدالتی احکام: حدود وتعزیرات کے احکام ومسائل۔
۳) قصص: گزشتہ ابنیاء کرام اور ان کی امتوں کے واقعات کی تفصیلات۔
قرآن اور ہم:
یہ کتاب مقدس حضور پاک ﷺ کے زمانہ سے لے کر رہتی دنیا تک مشعل راہ بنی رہے گی کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کتاب کو اتنا جامع اور مانع بنایا ہے کہ ایمانیات، عبادات، معاملات ، سماجیات ، معاشیات واقتصادیات کے اصول قرآن کریم میں مذکور ہیں، ہاں ان کی تفصیلات احادیث نبویہ میں موجود ہیں۔ مگر بڑے افسوس کی بات ہے کہ ہمارا تعلق اس کتاب سے روز بروز منقطع ہوتا جارہا ہے۔ یہ کتاب ہماری مسجدوں اور گھروں میں جزدانوں میں قید ہوکر رہ گئی ہے، نہ تلاوت ہے نہ تدبر ہے اور نہ ہی اس کے احکام پر عمل، آج کا مسلمان دنیا کی دوڑ میں اس طرح گم ہوگیا ہے کہ قرآن کریم کے احکام ومسائل کو سمجھنا تو درکنار اس کی تلاوت کے لئے بھی وقت نہیں ہے۔ علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے دور کے مسلمانوں کے حال پر رونا روتے ہوئے اسلاف سے اس وقت کے مسلمان کا مقارنہ ان الفاظ میں کیا تھا:
وہ زمانہ میں معزز تھے مسلمان ہوکر اور ہم خوار ہوئے تارک قرآن ہوکر
آج ہم اپنے بچوں کی دنیاوی تعلیم کے بارے میں سوچتے ہیں، انہیں عصری علوم کی تعلیم دینے پر اپنی تمام محنت وتوجہ صرف کرتے ہیں اور ہماری نظر صرف اور صرف اس عارضی دنیا اور اس کی آرام وآسائش پر ہوتی ہے اور اُس ابدی ولافانی دنیا کے لئے کوئی خاص جدوجہد نہیں کرتے، الا ما شاء اللہ۔ لہٰذا ہمیں چاہئے کہ ہم اپنا اور اپنے بچوں کا تعلق وشغف قرآن وحدیث سے جوڑیں، اس کی تلاوت کا اہتمام کریں، علماء کی سرپرستی میں قرآن وحدیث کے احکام سمجھ کر ان پر عمل کریں اور اس بات کی کوشش وفکر کریں کہ ہمارے ساتھ، ہمارے بچے، گھر والے، پڑوسی ، دوست واحباب ومتعلقین بھی حضور اکرم ﷺ کے لائے ہوئے طریقہ پر زندگی گزارنے والے بن جائیں۔
آج عصری تعلیم کو اس قدر فوقیت واہمیت دی جارہی ہے کہ لڑکوں اور لڑکیوں کو قرآن کریم ناظرہ کی بھی تعلیم نہیں دی جارہی ہے کیونکہ ان کو اسکول جانا ہے، ہوم ورک کرنا ہے، پروجیکٹ تیار کرنا ہے، امتحانات کی تیاری کرنی ہے وغیرہ وغیرہ یعنی دنیاوی زندگی کی تعلیم کے لئے ہر طرح کی جان ومال اوروقت کی قربانی دینا آسان ہے، لیکن اللہ تعالیٰ کے کلام کو سیکھنے میں ہمیں دشواری محسوس ہوتی ہے۔ غور فرمائیں کہ قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا کلام ہے جو اس نے ہماری رہنمائی کے لئے نازل فرمایا ہے اور اس کے پڑھنے پر اللہ تعالیٰ نے بڑا اجر رکھا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہدایت عطا فرمائے اور قرآن کریم کو سمجھ کر پڑھنے والا اور قرآن وحدیث کے احکام پر عمل کرنے والا بنائے، آمین۔
محمد نجیب قاسمی سنبھلی (www.najeebqasmi.com)