اسلام میں قتل کی سنگینی اور اس کی سزا

اسلام میں قتل کی سنگینی اور اس کی سزا

بسم الله الرحمن الرحيم
اَلْحَمْدُ لِله رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلام عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔
اسلام میں قتل کی سنگینی اور اس کی سزا
شریعت اسلامیہ میں جتنی تاکید کے ساتھ انسان کے قتل کی حرمت کو بیان کیا گیا ہے، عصر حاضر میں اس کی اتنی ہی بے حرمتی ہورہی ہے، چنانچہ معمولی معمولی باتوں پر قتل کے واقعات روزانہ اخباروں کی سرخیاں بنتے ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ان دنوں بعض مسلمان بھی اس جرم کا ارتکاب کبھی کبھی دینی خدمت سمجھ کر کرجاتے ہیں، حالانکہ قرآن وحدیث میں کسی انسان کو ناحق قتل کرنے پر ایسی سخت وعیدیں بیان کی گئی ہیں جو کسی اور جرم پر بیان نہیں ہوئیں۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق کسی انسان کو نا حق قتل کرنا شرک کے بعد سب سے بڑا گناہ ہے، بلکہ بعض علماء نے سورۃ النساء آیت نمبر ۹۳ کی روشنی میں فرمایا ہے کہ کسی مسلمان کو ناحق قتل کرنے والا ملت اسلامیہ سے ہی نکل جاتا ہے۔ اگرچہ جمہور علماء نے قرآن وحدیث کی روشنی میں تحریر کیا ہے کہ کسی کو ناحق قتل کرنے والا بہت بڑے گناہ کا مرتکب تو ضرور ہے مگر وہ اس جرم کی وجہ سے کافر نہیں ہوتا ہے اور ایک طویل عرصہ تک جہنم میں دردناک عذاب کی سزا پاکر آخر کار وہ جہنم سے نکل جائے گا۔ نیز قرآن وحدیث کی روشنی میں علماء امت کا اتفاق ہے کہ کسی کو ناحق قتل کرنے والے کی آخرت میں بظاہر معافی نہیں ہے اور اسے اپنے جرم کی سزا آخرت میں ضرور ملے گی اگرچہ مقتول کے ورثاء قاتل سے قصاص نہ لے کر دیت وصول کرلیں یا اسے معاف کردیں۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی کسی کو ناحق قتل کرنے پر سخت سے سخت وعیدیں ارشاد فرمائی ہیں اور امت کو اس سنگین گناہ سے باز رہنے کی بار بار تلقین فرمائی ہے۔ اختصار کے مدنظر صرف دو حدیثیں پیش خدمت ہیں:
حجۃ الوداع کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عظیم خطبہ میں اس بات پر بھی زور دیا کہ کسی کا خون نہ بہایا جائے، چنانچہ ارشاد فرمایا: تمہارے خون، تمہارے مال اور تمہاری آبروئیں ایک دوسرے کے لئے ایسی ہی حرمت رکھتی ہیں جیسے تمہارے اس مہینے (ذی الحجہ) میں تمہارے اس شہر (مکہ مکرمہ) اور تمہارے اس دن کی حرمت ہے۔ تم سب اپنے پروردگار سے جاکر ملو گے، پھر وہ تم سے تمہارے اعمال کے بارے میں پوچھے گا ۔ لہٰذا میرے بعد پلٹ کر ایسے کافر یا گمراہ نہ ہوجانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو۔ (صحیح بخاری۔ باب حجۃ الوداع) یعنی کسی شخص کو ناحق قتل کرنا کافروں اور گمراہوں کا کام ہے نیز ایک دوسرے کو کافر یا گمراہ کہہ کر قتل نہ کرنا۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کبیرہ گناہوں میں سے سب سے بڑے گناہ یہ ہیں: اللہ کے ساتھ کسی کوشریک ٹھہرانا، کسی انسان کو قتل کرنا، والدین کی نافرمانی کرنا اور جھوٹی بات کہنا۔ (صحیح بخاری۔باب قول اللہ تعالیٰ من احیاھا)
قتل کی اقسام اور ان کی سزا:
اگر کوئی شخص کسی دوسرے شخص کو قتل کردے تو آخرت میں دردناک عذاب کے ساتھ دنیا میں بھی اسے سزا ملے گی جس کو قرآن وحدیث کی روشنی میں اختصار کے ساتھ بیان کررہا ہوں۔ سب سے پہلے سمجھیں کہ قتل کی تین قسمیں ہیں:
قتل عمد۔ قتل شبہ عمد۔ قتل خطا۔
قتلِ عمد (یعنی جان بوجھ کر کسی کو ناحق قتل کرنے) کا حکم:
قتل عمد شرک کے بعد سب سے بڑا گناہ ہے اور مرنے کے بعد قاتل کو دردناک عذاب ہوگا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے (سورۃ النساء آیت نمبر ۹۳ )اور (سورۃ الفرقان آیت نمبر ۶۸ اور ۶۹) میں بیان فرمایا ہے کہ جو شخص کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کی سزا جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اللہ اس پر غضب نازل کرے گا اور لعنت بھیجے گا اور اللہ نے اس کے لئے بڑا عذاب تیار کررکھا ہے۔
قصاص یا دیت یا معافی: قتل ثابت ہونے پر مقتول کے ورثاء کو اختیار ہے کہ وہ اسلامی حکومت کی نگرانی میں قاتل سے قصاص لیں یعنی حکومت قاتل کو قصاصاً قتل کرے۔ شریعت اسلامیہ نے مقتول کے ورثاء کو یہ بھی اختیار دیا ہے کہ وہ قاتل کو قصاصاً قتل نہ کراکے قاتل کے اولیاء سے دیت یعنی سو اونٹ کی قیمت یا اس سے کچھ کم یا زیادہ پیسہ لے لیںیا معاف کردیں۔
وراثت سے محرومی: اگر قاتل نے اپنے کسی قریبی رشتہ دار کو قتل کردیا تو وہ مقتول کی وراثت سے محروم ہوجائے گا، مثلاً کسی شخص نے اپنے والد کو قتل کردیا تو وہ والد کی وراثت سے محروم ہوجائے گا۔
قتل شبہ عمد کا حکم:
اگر کسی شخص نے کسی شخص کو ایسی چیز ماری جس سے عام طور پر قتل نہیں کیا جاتا ہے مثلاً پتھر، ڈنڈا، گھونسا، کوڑا وغیرہ مگر وہ اس کی وجہ سے مرگیا تو یہ بھی قتل ہوگا، لیکن اس قتل پر قصاص نہیں آئے گا، البتہ یہ بھی بڑا گناہ ہے اگرچہ قتل عمد سے کم ہے کیونکہ اس میں قصد پھر بھی ہے۔ اس کے علاوہ مقتول کے ورثاء کو دیت لینے کا حق حاصل ہوگا۔ اگر فریقین راضی ہیں تو دیت سے کم یا زیادہ قیمت پر بھی صلح کرسکتے ہیں۔
قتل خطا کا حکم:
اگر کسی شخص سے غلطی سے کسی شخص کا قتل ہوجائے مثلاً جانور کا شکار کررہا تھا مگر وہ تیر یا گولی غلطی سے کسی شخص کے لگ گئی اور وہ مرگیا، اس میں قصاص تو نہیں ہے، البتہ شریعت اسلامیہ نے مقتول کے ورثاء کو یہ اختیار دیا ہے کہ وہ قاتل اور اس کے اولیاء سے دیت یعنی سو اونٹ کی قیمت یا اس سے کچھ کم یا زیادہ پیسہ لیںیا معاف کردیں۔ مقتول کے ورثاء دیت لیں یا معاف کردیں لیکن قاتل کو اللہ تعالیٰ سے معافی مانگنے کے ساتھ ۶۰ دن کے مسلسل روزے بھی رکھنے ہوں گے۔
نوٹ: قتل خطا میں بھی بے احتیاطی کا گناہ ہے، کفارہ کا وجوب اور توبہ کا لفظ اس پر دال ہے، اگرچہ قتل شبہ عمد کے مقابلہ میں کم ہے۔
نوٹ: عمومی طور پر گاڑیوں کے حوادث میں مرنے والے افراد بھی قتل خطا کے ضمن میں آتے ہیں الَّا یہ کہ مرنے والی کی خود کی غلطی ہو۔
نوٹ: قتل عمد اور قتل شبہ عمد میں کفارہ (غلام کی آزادی یا ۶۰ روزے رکھنا) نہیں ہے،اگرچہ بعض علماء نے قتل خطا پر قیاس کرکے قتل عمد اور قتل شبہ عمد میں بھی کفارہ کے وجوب کا قول اختیار کیا ہے۔
قتل سے متعلق متفرق مسائل:
سورۃ المائدہ آیت نمبر ۴۵ کی روشنی میں فقہاء وعلماء نے تحریر کیا ہے کہ اگر کسی شخص نے کسی شخص کے جسم کے کسی عضو کو تلف کردیا مثلاً آنکھ پھوڑدی تو اسے اس کی سزا دی جائے گی الَّا یہ کہ مجروح یعنی زخمی شخص اس کا معاوضہ حاصل کرلے یا وہ جارح کو معاف کردے۔
مقتول کی دیت سو اونٹ یا دس ہزار درہم یا ایک ہزار دینار یا اس کے برابر قیمت ہے یا فریقین جو طے کرلیں۔
اگر مقتول عورت ہے تو آدھی دیت یعنی پچاس اونٹ یا اس کی قیمت واجب ہوگی۔
کفارہ میں روزے خود قاتل کو رکھنے ہوں گے البتہ دیت قاتل کے اہل نصرت پر ضروری ہوگی جسے شرعی اصطلاح میں عاقلہ کہتے ہیں۔ دیت کی ادائیگی کی ذمہ داری تمام گھر والوں بلکہ تمام قریبی رشتہ داروں پر اس لئے رکھی گئی ہے تاکہ معاشرہ کا ہر شخص قتل کرنے سے نہ صرف خود بچے بلکہ ہر ممکن کوشش کرے کہ معاشرہ اس جرم عظیم سے پاک وصاف رہے، اسی لئے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ایک شخص کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیا اور ایک شخص کی زندگی کی حفاظت کو پوری انسانیت کی زندگی قرار دی۔ غرضیکہ دیت کی ادائیگی خاندان کے تمام افراد پر رکھی گئی ہے تاکہ دیت کے خوف سے ہر شخص معاشرہ کو قتل سے محفوظ کرنے کی ہر ممکن کوشش کرے۔
کفارہ کے روزے میں اگر مرض کی وجہ سے تسلسل باقی نہ رہے تو از سرنو رکھنے پڑیں گے،البتہ عورت کے حیض کی وجہ سے تسلسل ختم نہیں ہوگا یعنی اگر کسی عورت نے کسی شخص کو قتل کردیا اور وہ ۶۰ روزے کفارہ میں رکھ رہی ہے، ۶۰ روزے رکھنے کے دوران ماہواری کے آنے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا وہ ماہواری سے فراغت کے بعد ۶۰ روزوں کو جاری رکھے گی۔اگر کوئی قاتل اپنی کمزوری کی وجہ سے ۶۰ روزے رکھنے کی استطاعت نہیں رکھتا ہے تو اسے قدرت تک توبہ کرتے رہنا ہوگا۔
دیت میں حاصل شدہ مال مقتول کے ورثہ میں شرعی اعتبار سے تقسیم ہوگا۔ جو وارث اپنا حصہ معاف کردے گا اس قدر معاف ہوجائے گااور اگر سب نے معاف کردیا تو سب معاف ہوجائے گا۔ اگر کسی ایک شرعی وارث نے بھی اپنے حصہ کی دیت کا مطالبہ کرلیا یا معاف کردیا تو پھر قصاص نہیں لیا جائے گا۔ اب دوسرے ورثاء کے لئے دو ہی اختیار ہوں گے یا تو اپنے حصہ کی دیت لیں یا پھر معاف کردیں۔
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ کسی بھی انسان کو قتل کرنا تو درکنار، ہم کسی بھی حال میں کسی بھی انسان کے قتل میں کسی بھی نوعیت سے معاون ثابت نہ ہوں تاکہ ہم آخرت میں دردناک عذاب سے محفوظ رہیں۔ اگر کسی نے کوئی قتل کیا ہے تو حکومت وقت ہی کو اسے قصاصاً قتل کرنے کا حق حاصل ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں تمام گناہوں سے محفوظ رہ کر یہ دنیاوی فانی زندگی گزارنے والا بنائے اور ہمیں دونوں جہاں میں کامیابی عطا فرمائے۔
محمد نجیب قاسمی ،ریاض (www.najeebqasmi.com)

والدین کی فرمانبرداری

بسم اللہ الرحمن الرحیم
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِےْن، وَالصَّلاۃُ وَالسَّلامُ عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِےْمِ وَعَلٰی آلِہِ وَاَصْحَابِہِ اَجْمَعِےْن۔
والدین کی فرمانبرداری
قرآن وحدیث میں والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی خصوصی تاکید کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے متعدد مقامات پر اپنی توحید وعبادت کا حکم دینے کے ساتھ والدین کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے کا حکم دیا ہے، جس سے والدین کی اطاعت ان کی خدمت اور ان کے ادب واحترام کی اہمیت واضح ہوجا تی ہے۔ احادیث میں بھی والدین کی فرمانبرداری کی خاص اہمیت وتاکید اور اسکی فضیلت بیان کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو والدین کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے والا بنائے۔ ان کی فرمانبرداری کرنے والا بنائے۔ ان کے حقوق کی ادائیگی کما حقہ ادا کرنے والا بنائے۔
آیات قرآنیہ:
* اور تیرا پروردگار صاف صاف حکم دے چکا ہے کہ تم اس کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرنا۔ اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرنا۔ اگر تیری موجودگی میں ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کے آگے اف تک نہ کہنا، نہ انہیں ڈانٹ ڈپٹ کرنا بلکہ ان کے ساتھ ادب واحترام سے بات چیت کرنا۔ اور عاجزی ومحبت کے ساتھ ان کے سامنے تواضع کا بازو پست رکھنا۔ اور دعا کرتے رہنا کہ اے میرے پرودگار! ان پر ویسا ہی رحم کر جیسا کہ انہوں نے میرے بچپن میں میری پرورش کی ہے ۔۔۔۔۔ (سورہ بنی اسرائیل ۲۳ ، ۲۴) جہاں اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت کرنے کا حکم دیا وہیں والدین کے ساتھ احسان کرنے کا حکم بھی دیا ۔ ایک دوسری جگہ اپنے شکر بجا لانے کے ساتھ والدین کے واسطے بھی شکر کا حکم دیا ۔ اللہ اکبر، ذرا غور کریں کہ ماں باپ کا مقام ومرتبہ کیا ہے توحید وعباد ت کے بعداطاعت وخدمت والدین ضروری قرار دیا گیا کیونکہ جہاں انسانی وجود کا حقیقی سبب اللہ ہے تو وہیں ظاہری سبب والدین ۔اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ شرک کے بعد سب سے بڑا گناہ والدین کی نافرمانی ہے، جیساکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ کے ساتھ شرک کرنا اور والدین کی نافرمانی کرنا بہت بڑا گناہ ہے۔ بخاری
ماں باپ کی نافرمانی تو کجا ، ناراضگی وناپسندید گی کے اظہار اور جھڑکنے سے بھی روکا گیا ہے اور ادب کے ساتھ نرم گفتگو کا حکم دیا گیا ہے’’ وَلَاَ تْنہَرْ ہُمَا وقُلْ لَّہُما قَوْلًا کَرِیْمَا‘‘ ساتھ ہی ساتھ بازوئے ذلت پست کرتے ہوئے تواضع وانکساری اور شفقت کے ساتھ برتاؤ کا حکم ہوتا ہے ’’ واخْفِضْ لَہُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمۃِ‘‘ اور پوری زندگی والدین کے لئے دعا کرنے کا حکم ان کی اہمیت کو دوبالا کرتا ہے وقُلْ رَّبِّ ارْحَمْہماکَما رَبّیَانِی صَغِیْرًا۔ * اور تم سب اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ نیک برتاؤ کرو ۔ سورہ النساء ۳۶
* ہم نے ہر انسان کو اپنے ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کی نصیحت کی ہے ۔ سورہ العنکبوت ۸
احادیث شریفہ:
* حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ اللہ کو کونسا عمل زیادہ محبوب ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: نماز کو اس کے وقت پر ادا کرنا۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے کہا کہ اس کے بعد کونسا عمل اللہ کو زیادہ پسند ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: والدین کی فرمانبرداری۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے کہا کہ اس کے بعد کونسا عمل اللہ کو زیادہ محبوب ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کے راستہ میں جہاد کرنا۔ بخاری، مسلم
* حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ میں اللہ تعالیٰ سے اجر کی امید کے ساتھ آپ کے ہاتھ پر ہجرت اور جہاد کرنے کے لئے بیعت کرنا چاہتا ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کیا تمہارے ماں باپ میں سے کوئی زندہ ہے؟ اس شخص نے کہا : (الحمد للہ) دونوں حیات ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص سے پوچھا : کیا تو واقعی اللہ تعالیٰ سے اجر عظیم کا طالب ہے؟ اس نے کہا ہاں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اپنے والدین کے پاس جا اور ان کی خدمت کر۔ مسلم
* ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر دریافت کیا: میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کو ن ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : تمہاری ماں ۔ اس شخص نے پوچھا پھر کون؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تمہاری ماں۔ اس نے پوچھا پھر کون؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تمہاری ماں۔ اس نے پوچھا پھر کون؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تمہارا باپ۔ بخاری
* رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: باپ جنت کے دروازوں میں سے بہترین دروازہ ہے۔ چنانچہ تمہیں اختیار ہے خواہ (اس کی نافرمانی کرکے اور دل دکھاکے) اس دروازہ کو ضائع کردو یا (اس کی فرمانبرداری اور اس کو راضی رکھ کر) اس دروازہ کی حفاظت کرو۔ ترمذی
* رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کی رضامندی والد کی رضامندی میں ہے اور اللہ تعالیٰ کی ناراضگی والد کی ناراضگی میں ہے۔ ترمذی
* رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص کو یہ پسند ہو کہ اس کی عمردراز کی جائے اور اس کے رزق کو بڑھادیا جائے اس کو چاہئے کہ اپنے والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرے، اور رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کرے۔ مسند احمد
* رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے اپنے والدین کے ساتھ اچھا سلوک کیا اس کے لئے خوشخبری ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی عمر میں اضافہ فرمائیں گے۔ مستدرک حاکم
* رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ شخص ذلیل وخوار ہو ، ذلیل وخوار ہو،ذلیل وخوار ہو۔ عرض کیا گیا: یا رسول اللہ! کون ذلیل وخوار ہو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : وہ شخص جو اپنے ماں باپ میں سے کسی ایک یا دونوں کو بڑھاپے کی حالت میں پائے پھر (ان کی خدمت کے ذریعہ) جنت میں داخل نہ ہو۔مسلم
قرآن وحدیث کی روشنی میں امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ والدین کی نافرمانی بہت بڑا گناہ ہے۔ والدین کی ناراضگی اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا سبب بنتی ہے۔ لہذا ہمیں والدین کی اطاعت اور فرمانبرداری میں کوئی کوتاہی نہیں کرنی چاہئے۔ خاص کر جب والدین یا دونوں میں سے کوئی بڑھاپے کو پہنچ جائے تو انہیں ڈانٹ ڈپٹ کرنا حتی کہ ان کو اُف تک نہیں کہنا چاہئے۔ ادب واحترام اورمحبت وخلوص کے ساتھ ان کی خدمت کرنی چاہئے۔ ممکن ہے کہ بڑھاپے کی وجہ سے ان کی کچھ باتیں یا اعمال آپ کو پسند نہ آئیں، آپ اس پر صبر کریں، اللہ تعالیٰ اس صبر کرنے پر بھی اجر عظیم عطا فرمائے گا، ان شاء اللہ۔
قرآن وحدیث کی روشنی میں علماء نے والدین کے حسب ذیل بعض حقوق مرتب کئے ہیں ، اللہ تعالیٰ ہم سب کو والدین کے حقوق ادا کرنے والا بنائے :
دوران حیات حقوق: ان کا ادب واحترام کرنا۔ ان سے محبت کرنا۔ ان کی فرمانبرداری کرنا۔ ان کی خدمت کرنا۔ ان کو حتی الامکان آرام پہنچانا۔ ان کی ضروریات پوری کرنا۔ وقتاً فوقتاً ان سے ملاقات کرنا۔
بعد از وفات حقوق: ان کے لئے اللہ تعالیٰ سے معافی اور رحمت کی دعائیں کرنا۔ ان کی جانب سے ایسے اعمال کرناجن کا ثواب ان تک پہنچے۔ ان کے رشتے دار ، دوست ومتعلقین کی عزت کرنا۔ ان کے رشتے دار ، دوست ومتعلقین کی حتی الامکان مدد کرنا۔ ان کی امانت وقرض ادا کرنا۔ ان کی جائز وصیت پر عمل کرنا۔ کبھی کبھی ان کی قبر پر جانا ۔
نوٹ: والدین کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اولاد کے درمیان مساوات قائم رکھیں اور ان کے حقوق کی ادائیگی کریں۔ عموماً غیر شادی شدہ اولاد سے محبت کچھ زیادہ ہوجاتی ہے، جس پر پکڑ نہیں ہے، لیکن بڑی اولاد کے مقابلے میں چھوٹی اولاد کو معاملات میں ترجیح دینا مناسب نہیں ہے، جس کی وجہ سے گھریلو مسائل پیدا ہوتے ہیں، لہذا والدین کو حتی الامکان اولاد کے درمیان برابری کا معاملہ کرنا چاہئے۔ اگر اولاد گھر وغیرہ کے اخراجات کے لئے باپ کو رقم دیتی ہے تو اس کا صحیح استعمال ہونا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے والدین کی فرمانبردای کرنے والا بنائے اور ہماری اولاد کو بھی ان حقوق کی ادائیگی کرنے والا بنائے۔
محمد نجیب قاسمی سنبھلی، ریاض (www.najeebqasmi.com)

حقوق الزوجین یعنی میاں بیوی کی ذمہ داریاں

بسم الله الرحمن الرحيم
اَلْحَمْدُ لِله رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلام عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔
حقوق الزوجین یعنی میاں بیوی کی ذمہ داریاں
حق کے معنی: حق کے لغوی معنی ثابت ہونے یعنی واجب ہونے کے ہیں، اس کی جمع حقوق آتی ہے جیساکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: اُن میں سے اکثر لوگوں پر بات ثابت ہوچکی ہے، سو یہ لوگ ایمان نہ لائیں گے۔۔۔(سورۂ یس ۷) حق باطل کے مقابلہ میں بھی استعمال ہوتا ہے جیساکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: اور اعلان کردو کہ حق آچکا اور باطل مٹ گیا، یقیناًباطل کو مٹنا ہی تھا۔ (سورۂ اسراء ۸۱)
حقوق کی ادائیگی: شریعت اسلامیہ نے ہر شخص کو اس بات پر متوجہ کیا ہے کہ وہ اپنے فرائض ادا کرے،اپنی ذمہ داریوں کو صحیح طریقہ پر انجام دے اور لوگوں کے حقوق کی مکمل ادائیگی کرے۔ شریعت اسلامیہ نے ہر شخص کو مکلف بنایا ہے کہ وہ حقوق اللہ کے ساتھ حقوق العباد یعنی بندوں کے حقوق کی مکمل طور پر ادائیگی کرے حتی کہ بعض وجوہ سے حقوق العباد کو زیادہ اہتمام سے ادا کرنے کی تعلیمات دی گئیں۔
آج ہم دوسروں کے حقوق تو ادا نہیں کرتے ہیں البتہ اپنے حقوق کا جھنڈا اٹھائے رہتے ہیں۔ دوسروں کے حقوق کی ادائیگی کی کوئی فکر نہیں کرتے ہیں، اپنے حقوق کو حاصل کرنے کے لئے مطالبات کئے جارہے ہیں، تحریکیں چلائی جارہی ہیں، مظاہرے کئے جارہے ہیں، ہڑتالیں کی جارہی ہیں، حقوق کے نام سے انجمنیں اور تنظیمیں بنائی جارہی ہیں۔ لیکن دنیا میں ایسی انجمنیں یا تحریکیں یا کوششیں موجود نہیں ہیں کہ جن میں یہ تعلیم دی جائے کہ اپنے فرائض، اپنی ذمہ داریاں اور دوسروں کے حقوق جو ہمارے ذمہ ہیں وہ ہم کیسے ادا کریں؟ شریعت اسلامیہ کا اصل مطالبہ بھی یہی ہے کہ ہم میں سے ہر ایک اپنی ذمہ داریوں یعنی دوسروں کے حقوق ادا کرنے کی زیادہ کوشش کرے۔
میاں بیوی کے باہمی تعلقات میں بھی اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی طریقہ اختیا ر کیا ہے کہ دونوں کو ان کے فرائض یعنی ذمہ داریاں بتادیں۔ شوہر کو بتادیا کہ تمہارے فرائض اور ذمہ داریاں کیا ہیں اور بیوی کو بتا دیا کہ تمہاری ذمہ داریاں کیا ہیں، ہر ایک اپنے فرائض اور ذمہ داریوں کو ادا کرنے کی کوشش کرے۔ زندگی کی گاڑی اسی طرح چلتی ہے کہ دونوں اپنے فرائض اور اپنی ذمہ داریاں ادا کرتے رہیں۔ دوسروں کے حقوق ادا کرنے کی فکر اپنے حقوق حاصل کرنے کی فکر سے زیادہ ہو۔ اگر یہ جذبہ پیدا ہوجائے تو پھر زندگی بہت عمدہ خوشگوار ہوجاتی ہے۔

زوجین (میاں بیوی): دو اجنبی مرد وعورت کے درمیان شوہر اور بیوی کا رشتہ اسی وقت قائم ہوسکتا ہے جبکہ دونوں کے درمیان شرعی نکاح عمل میں آئے۔ نکاحِ شرعی کے بعد دو اجنبی مرد وعورت رفیق حیات بن جاتے ہیں، ایک دوسرے کے رنج وخوشی،تکلیف وراحت اور صحت وبیماری غرضیکہ زندگی کے ہر گوشہ میں شریک ہوجاتے ہیں۔ عقد نکاح کو قرآن کریم میں میثاق غلیظ کا نام دیا گیا ہے یعنی نہایت مضبوط رشتہ۔ نکاح کی وجہ سے بے شمار حرام امور ایک دوسرے کے لئے حلال ہوجاتے ہیں حتی کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ایک دوسرے کو لباس سے تعبیر کیا ہے یعنی شوہر اپنی بیوی کے لئے اور بیوی اپنے شوہر کے لئے لباس کے مانند ہے۔ شرعی نکاح کے بعد جب آدمی شوہر اور عورت بیوی بن جاتی ہے تو ایک دوسرے کا جسمانی اور روحانی طور پر لطف اندوز ہونا جائز ہوجاتا ہے اور ایک دوسرے کے ذمہ جسمانی اور روحانی حقوق واجب ہوجاتے ہیں۔ شرعی احکام کی پابندی کرتے ہوئے شوہر اور بیوی کا جسمانی اور روحانی طور پر لطف اندوز ہونا نیز ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی کرنا یہ سب شریعت اسلامیہ کا جزء ہیں اور ان پر بھی اجر ملے گا، ان شاء اللہ۔
نکاح کے دو اہم مقاصد:
اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن کریم میں نکاح کے مقاصد میں سے دو اہم مقصد مندرجہ ذیل آیت میں بیان فرمائے ہیں: اور اُس کی نشانیوں میں سے ہے کہ تمہاری ہی جنس سے بیویاں پیدا کیں تاکہ تم اُن سے آرام پاؤ۔ اور اُس نے تمہارے درمیان محبت اور ہمدری قائم کردی، یقیناًغوروفکر کرنے والوں کے لئے اس میں بہت سی نشانیاں ہیں۔ (سورۂ الروم ۲۱) غرض اِس آیت میں نکاح کے دو اہم مقاصد بیان کئے گئے:
میاں بیوی کو ایک دوسرے سے قلبی وجسمانی سکون حاصل ہوتا ہے۔
میاں بیوی کے درمیان ایک ایسی محبت، الفت، تعلق ، رشتہ اور ہمدردی پیدا ہوجاتی ہے جو دنیا میں کسی بھی دو شخصوں کے درمیان نہیں ہوتی۔
زوجین (میاں بیوی)کی ذمہ داریوں کی تین قسمیں :
انسان صرف انفرادی زندگی نہیں رکھتا ہے بلکہ وہ فطرتاً معاشرتی مزاج رکھنے والی مخلوق ہے ، اس کا وجود خاندان کے ایک رکن اور معاشرہ کے ایک فرد کی حیثیت سے ہی پایا جاتا ہے۔ معاشرہ اور خاندان کی تشکیل میں بنیادی اکائی میاں بیوی ہیں جن کے ایک دوسرے پر کچھ حقوق ہیں:
شوہر کی ذمہ داریاںیعنی بیوی کے حقوق شوہر پر ۔
بیوی کی ذمہ داریاںیعنی شوہر کے حقوق بیوی پر۔
دونوں کی مشترکہ ذمہ داریاں یعنی مشترکہ حقوق۔
شوہر کی ذمہ داریاں یعنی بیوی کے حقوق شوہر پر :
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا: اور (مردوں پر ) عورتوں کا حق ہے جیسا کہ (مردوں کا) عورتوں پر حق ہے، معروف طریقہ پر۔ (سورۂ البقرہ ۲۲۸) اس آیت میں میاں بیوی کے تعلقات کا ایسا جامع دستور پیش کیا گیا ہے جس سے بہتر کوئی دستور نہیں ہوسکتا اور اگر اس جامع ہدایت کی روشنی میں ازدواجی زندگی گزاری جائے تو اِس رشتہ میں کبھی بھی تلخی اور کڑواہٹ پیدا نہ ہوگی، ان شاء اللہ۔ واقعی یہ قرآن کریم کا اعجاز ہے کہ الفاظ کے اختصار کے باوجود معانی کا سمندر گویا کہ ایک کوزے میں سمودیا گیا ہے۔ یہ آیت بتارہی ہے کہ بیوی کو محض نوکرانی اور خادمہ مت سمجھنا بلکہ یہ یاد رکھنا کہ اس کے بھی کچھ حقوق ہیں جن کی پاس داری شریعت میں ضروری ہے۔ ان حقوق میں جہاں نان ونفقہ اور رہائش کا انتظام شامل ہے وہیں اسکی دل داری اور راحت رسانی کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے۔ اسی لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تم میں سب سے اچھا آدمی وہ ہے جو اپنے گھر والوں (یعنی بیوی بچوں) کی نظر میں اچھا ہو۔۔۔ اور ظاہر ہے کہ ان کی نظر میں اچھا وہی ہوگا جو اُن کے حقوق کی ادائیگی کرنے والا ہو۔ دوسری طرف اِس آیت میں بیوی کو بھی آگاہ کیا کہ اُس پر بھی حقوق کی ادائیگی لازم ہے۔ کوئی بیوی اُس وقت تک پسندیدہ نہیں ہوسکتی جب تک کہ وہ اپنے شوہر کے حقوق کو ادا کرکے اُس کو خوش نہ کرے، چنانچہ احادیث میں ایسی عورتوں کی تعریف فرمائی گئی ہے جو اپنے شوہر کی تابع دار اور خدمت گزار ہوں اور ان سے بہت زیادہ محبت کرنے والی ہوں اور ایسی عورتوں کی مذمت کی گئی ہے جو شوہروں کی نافرمانی کرنے والی ہوں۔
شوہر کی چند اہم ذمہ داریاں حسب ذیل ہیں:
مکمل مہر کی ادائیگی: اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے: عورتوں کو ان کا مہر راضی وخوشی سے ادا کردو۔ (سورۂ النساء ۴) نکاح کے وقت مہر کی تعیین اور شب زفاف سے قبل اس کی ادائیگی ہونی چاہئے، اگرچہ طرفین کے اتفاق سے مہر کی ادائیگی کو مؤخر بھی کرسکتے ہیں۔ مہر صرف عورت کا حق ہے، لہذا شوہر یا اس کے والدین یا بھائی بہن کے لئے مہر کی رقم میں سے کچھ بھی لینا جائز نہیں ہے۔ (وضاحت): شریعت نے کوئی بھی خرچہ صنف نازک پر نہیں رکھا ہے، شادی سے قبل اسکے تمام اخراجات والد کے ذمہ ہیں اور شادی کے بعد عورت کے کھانے، پینے، رہنے، سونے اور لباس کے تمام اخراجات شوہر کے ذمہ ہیں، لہذا مہر کی رقم عورت کی خالص ملکیت ہے اس کو جہاں چاہے اور جیسے چاہے استعمال کرے، شوہر یا والد مشورہ تو دے سکتے ہیں مگر اُس رقم میں تصرف کرنے کا مکمل اختیار صرف عورت کو ہے، اِسی طرح اگر عورت کو کوئی چیز وراثت میں ملی ہے تو وہ عورت کی ملکیت ہوگی، والد یا شوہر کو وہ رقم یا جائیداد لینے کا کوئی حق نہیں ہے۔
بیوی کے تمام اخراجات: اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے: بچوں کے باپ (یعنی شوہر ) پرعورتوں (یعنی بیوی) کا کھانا اور کپڑا لازم ہے دستور کے مطابق۔ (سورۂ البقرہ ۲۳۳)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عورتوں کے سلسلہ میں اللہ تعالیٰ سے ڈرو کیونکہ اللہ کی امان میں تم نے اُن کو لیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے حکم کی وجہ سے اُن کی شرمگاہوں کو تمہارے لئے حلال کیا گیا ہے۔ دستور کے مطابق اُن کا مکمل کھانے پینے کا خرچہ اور کپڑوں کا خرچہ تمہارے ذمہ ہے۔ (مسلم)
بیوی کے لئے رہائش کا انتظام: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: تم اپنی طاقت کے مطابق جہاں تم رہتے ہووہاں اُن عورتوں کو رکھو۔ (سورۂ الطلاق ۶) اس آیت میں مطلقہ عورتوں کا حکم بیان کیا جاررہا ہے کہ عدت کے دوران ان کی رہائش کا انتظام بھی شوہر کے ذمہ ہے۔ جب شریعت نے مطلقہ عورتوں کی رہائش کا انتظام شوہر کے ذمہ رکھا ہے تو حسب استطاعت بیوی کی مناسب رہائش کی ذمہ داری بدرجہ اولیٰ شوہر کے ذمہ ہوگی۔
بیوی کے ساتھ حسن معاشرت:
شوہر کو چاہئے کہ وہ بیوی کے ساتھ اچھا سلوک کرے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ان کے ساتھ اچھے طریقے سے پیش آؤ یعنی عورتوں کے ساتھ گفتگو اور معاملات میں حسن اخلاق کے ساتھ معاملہ رکھو گو تم انہیں ناپسند کرو لیکن بہت ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو برا جانو اور اللہ تعالیٰ اس میں بہت ہی بھلائی کردے۔(سورۂ النساء ۱۹)
شوہر کی چوتھی ذمہ داری “بیوی کے ساتھ حسن معاشرت ” بہت زیادہ اہمیت رکھتی ہے، اس کی ادائیگی کے مختلف طریقے حسب ذیل ہیں:
حسب استطاعت بیوی اور بچوں پر خرچہ کرنے میں فراخدلی سے کا م لینا چاہئے جیساکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اگر کوئی شخص اللہ تعالیٰ سے اجر کی امید کے ساتھ اپنے گھر والوں پر خرچ کرتا ہے تو وہ صدقہ ہوگا (بخاری) یعنی اللہ تعالیٰ اس پر اجر عطا فرمائے گا۔
بیوی سے مشورہ: اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ گھر کے نظام کو چلانے کی ذمہ داری مرد کے ذمہ رکھی گئی ہے جیساکہ قرآن کریم میں مرد کے لئے قوَّام کا لفظ استعمال کیا گیا ہے یعنی مرد عورتوں پر نگہبان اور منتظم ہیں۔ لیکن حسن معاشرت کے طور پر عورت سے بھی گھر کے نظام کو چلانے کے لئے مشورہ لینا چاہئے، جیساکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: یعنی بیٹیوں کے رشتے کے لئے اپنی بیوی سے مشورہ کیا کرو۔(ابوداؤد، مسند احمد)
بیوی کی بعض کمزوریوں سے چشم پوشی کریں، خاص طور پر جب کہ دیگر خوبیاں ومحاسن ان کے اندر موجود ہوں، یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ نے عموماً ہر عورت میں کچھ نہ کچھ خوبیاں ضرور رکھی ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اگر عورت کی کوئی بات یا عمل ناپسند آئے تو مرد عورت پر غصہ نہ کرے کیونکہ اس کے اندر دوسری خوبیاں موجود ہیں جو تمہیں بھی اچھی لگتی ہیں۔ (مسلم)
مرد بیوی کے سامنے اپنی ذات کو قابل توجہ یعنی اسمارٹ بناکر رکھے کیونکہ تم جس طرح اپنی بیوی کو خوبصورت دیکھنا چاہتے ہو وہ بھی تمہیں اچھا دیکھنا چاہتی ہے۔ صحابی رسول ومفسر قرآن حضرت عبد اللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ میں اپنی بیوی کے لئے ویسا ہی سجتا ہوں جیسا وہ میرے لئے زیب وزینت اختیار کرتی ہے۔ (تفسیر قرطبی)
گھر کے کام وکاج میں عورت کی مدد کی جائے، خاص کر جب وہ بیمار ہو۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم گھر کے تمام کام کرلیا کرتے تھے، جھاڑو بھی خود لگالیا کرتے تھے، کپڑوں میں پیوند بھی خود لگالیا کرتے تھے اور اپنے جوتوں کی مرمت بھی خود کرلیا کرتے تھے۔ (بخاری)
بیوی کی ذمہ داریاں یعنی شوہر کے حقوق بیوی پر:
شوہر کی اطاعت: اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا: مرد عورتوں پر حاکم ہیں اس وجہ سے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے اور اس وجہ سے کہ مردوں نے اپنے مال خرچ کئے ہیں۔ جو عورتیں نیک ہیں وہ اپنے شوہروں کا کہنا مانتی ہیں اور اللہ کے حکم کے موافق نیک عورتیں شوہر کی عدم موجودگی میں اپنے نفس اور شوہر کے مال کی حفاظت کرتی ہیں، یعنی اپنے نفس اور شوہر کے مال میں کسی قسم کی خیانت نہیں کرتی ہیں۔ (سورۂ النساء ۳۴)
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مرد کو عورت پر فوقیت وفضیلت دینے کی دو وجہیں ذکر فرمائی ہیں۔
مرد وعورت و ساری کائنات کو پیدا کرنے والے اللہ تبارک وتعالیٰ نے مرد کو عورت پر فضیلت دی ہے۔
مرد اپنے اور بیوی وبچوں کے تمام اخراجات برداشت کرتا ہے۔
اسی طرح دوسری آیت میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا: مردوں کو عورتوں پر فضیلت حاصل ہے۔ (سورۂ البقرۃ ۲۲۸)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اگر عورت نے (خاص طور پر)پانچ نمازوں کی پابندی کی، ماہ رمضان کے روزے اہتمام سے رکھے، اپنی شرمگاہ کی حفاظت کی اور اپنے شوہر کی اطاعت کی تو گویا وہ جنت میں داخل ہوگئی۔ (مُسند احمد)
ایک عورت نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ مجھے عورتوں کی ایک جماعت نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک سوال کرنے کے لئے بھیجا ہے اور وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جہاد کا حکم مردوں کو دیا ہے، چنانچہ اگر ان کو جہاد میں تکلیف پہنچتی ہے تو اُس پر ان کو اجر دیا جاتا ہے اور اگر وہ شہید ہوجاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کے خصوصی بندوں میں شمار ہوجاتے ہیں کہ مرنے کے باوجود وہ زندہ رہتے ہیں اور اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے خصوصی رزق ان کو دیا جاتا ہے۔ (جیساکہ سورۂ آل عمران آیت ۱۶۹ میں مذکور ہے) ہم عورتیں ان کی خدمت کرتی ہیں، ہمارے لئے کیا اجر ہے؟ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جن عورتو ں کی طرف سے تم بھیجی گئی ہو، ان کو اطلاع کردو کہ شوہر کی اطاعت اور اس کے حق کا اعتراف تمہارے لئے اللہ کے راستے میں جہاد کے برابر ہے، لیکن تم میں سے کم ہی عورتیں اس ذمہ داری کو بخوبی انجام دیتی ہیں۔ (بزاز ، طبرانی)
وضاحت: اِن دِنوں مرد وعورت کے درمیان مساوات اور آزادئ نسواں کا بڑا شور ہے اور بعض ہمارے بھائی بھی اس پروپیگنڈے میں شریک ہوجاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مرو وعورت زندگی کے گاڑی کے دو پہیے ہیں، زندگی کا سفر دونوں کو ایک ساتھ طے کرنا ہے، اب زندگی کے سفر کو طے کرنے میں انتظام کی خاطر یہ لازمی بات ہے کہ دونوں میں سے کوئی ایک سفر کا ذمہ دار ہو تاکہ زندگی کا نظام صحیح چل سکے۔ لہذا تین راستے ہیں : (۱) دونوں کو ہی امیر بنایا جائے۔ (۲) عورت کو اس زندگی کے سفر کا امیر بنا یا جائے۔ (۳) مرد کو اس زندگی کے سفر کا امیر بنا یا جائے۔ پہلی شکل میں اختلاف کی صورت میں مسئلہ حل ہونے کے بجائے پیچیدہ سے پیچیدہ ہوتا جائے گا۔ دوسری شکل بھی ممکن نہیں ہے کیونکہ مردوعورت کو پیدا کرنے والے نے صنف نازک کو ایسی اوصاف سے متصف پیدا کیا ہے کہ وہ مرد پر حاکم بن کر زندگی نہیں گزار سکتی ہے۔ لہذا اب ایک ہی صورت بچی اور وہ یہ ہے کہ مرد اس زندگی کے سفر کا امیر بن کر رہے۔ مرد میں عادتاً وطبعاً عورت کی بہ نسبت فکروتدبر اور برداشت وتحمل کی قوت زیادہ ہوتی ہے، نیز انسانی خلقت ، فطرت، قوت اور صلاحیت کے لحاظ سے اور عقل کے ذریعہ انسان غوروخوض کرے تو یہی نظر آئے گا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے جو قوت مرد کو عطا کی ہے ، بڑے بڑے کام کرنے کی جو صلاحیت مرد کو عطا فرمائی ہے، وہ عورت کو نہیں دی گئی۔ لہذا امارت اور سربراہی کا کام صحیح طور پر مرد ہی انجام دے سکتا ہے۔ اس مسئلہ کے لئے اپنی عقل سے فیصلہ کرنے کے بجائے اس ذات سے پوچھیں جس نے اِن دَونوں کو پیدا کیا ہے۔ چنانچہ خالق کائنات نے قرآن کریم میں واضح الفاظ کے ساتھ اس مسئلہ کا حل پیش کردیا ہے: (وَلِلرِّجَالِ عَلَےْہِنَّ دَرَجَۃ) (سورۂ البقرۃ ۲۲۸) (الرِّجَالُ قَوَّامُوْنَ عَلَی النِّسَاءِ) (سورۂ النساء ۳۴) ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے واضح الفاظ میں ذکر فرمادیا کہ مرد ہی زندگی کے سفر کا سربراہ رہے گا اور فیصلہ کرنے کا حق مرد ہی کو حاصل ہے، اگرچہ مرد کو چاہئے کہ عورت کو اپنے فیصلوں میں شامل کرے۔۔ مرد حضرات بھی اس بات کو اچھی طرح ذہن نشیں کرلیں کہ بیشک مرد عورت کے لئے قوام یعنی امیر کی حیثیت رکھتا ہے لیکن ساتھ ہی دونوں کے درمیان دوستی کا بھی تعلق ہے، یعنی انتظامی طور پر تو مرد قوام یعنی امیر ہے لیکن باہمی تعلق دوستی جیسا ہے، ایسا تعلق نہیں ہے جیسا مالک اور نوکرانی کے درمیان ہوتا ہے۔
ایک مرتبہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہؓ سے فرمایا کہ جب تم مجھ سے راضی ہوتی ہو اور جب تم مجھ سے ناراض ہوتی ہو، دونوں حالتوں میں مجھے علم ہوجاتا ہے۔ حضرت عائشہؓ نے پوچھا : یا رسول اللہ! کس طرح علم ہوجاتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم مجھ سے راضی ہوتی ہو رب محمد کے الفاظ کے ساتھ قسم کھاتی ہو اور جب تم مجھ سے ناراض ہوتی ہو رب ابراہیم کے الفاظ کے ساتھ قسم کھاتی ہو۔ اس وقت تم میرا نام نہیں لیتی بلکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا نام لیتی ہو۔ حضرت عائشہؓ نے فرمایا کہ یا رسول اللہ! میں صرف آپ کا نام چھوڑتی ہوں، نام کے علاوہ کچھ نہیں چھوڑتی۔ (بخاری۔ باب ما یجوز من الہجر)
اب آپ اندازہ لگائیں کہ کون ناراض ہورہا ہے؟ حضرت عائشہؓ ۔ اور کس سے ناراض ہورہی ہیں؟ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ۔ معلوم ہوا کہ اگر بیوی ناراضگی کا اظہار کررہی ہے تو یہ مرد کی قوامیت یعنی امارت کے خلاف نہیں ہے کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑی خوشی طبعی کے ساتھ اس کا ذکر فرمایا کہ مجھے تمہاری ناراضگی کا پتہ چل جاتا ہے۔
اسی طرح واقعۂ افک کو یاد کریں، جس میں حضرت عائشہؓ پر تہمت لگائی گئی تھی، جس کی وجہ سے حضرت عائشہؓ پر قیامت صغریٰ برپا ہوگئی تھی۔ حتی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی شبہ ہوگیا تھا کہ کہیں حضرت عائشہؓ سے واقعی غلطی تو نہیں ہوگئی ہے۔ جب آیت برأت نازل ہوئی جس میں اللہ تعالیٰ نے حضرت عائشہؓ کی برأت کا اعلان کیا تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر صدیق ؓ بہت خوش ہوئے اور حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے حضرت عائشہؓ سے کہا کھڑی ہوجاؤ اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کرو۔ حضرت عائشہ ؓ بستر پر لیٹی ہوئی تھیں اور برأت کی آیات سن لیں اور لیٹے لیٹے فرمایا کہ یہ تو اللہ تعالیٰ کا کرم ہے کہ اس نے میری برأت (اپنے پاک کلام میں) نازل فرمادی لیکن میں اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کا شکر ادا نہیں کرتی کیونکہ آپ لوگوں نے تو اپنے دل میں یہ احتمال پیدا کرلیا تھا کہ شاید مجھ سے غلطی ہوگئی ہے۔ (بخاری،کتاب التفسیر، سورۂ النور، حدیث نمبر ۷۵۰)
بظاہر حضرت عائشہؓ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کھڑے ہونے سے اعراض فرمایا، لیکن حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو برا نہیں سمجھا، اس لئے کہ یہ ناز کی بات ہے۔ یہ ناز درحقیقت اسی دوستی کا تقاضہ ہے جو میاں بیوی کے درمیان ہوتی ہے۔ معلوم ہواکہ میاں بیوی کے درمیان حاکمیت اور محکومیت کا رشتہ نہیں بلکہ دوستی کا بھی رشتہ ہے اور اس دوستی کا حق یہ ہے کہ اس قسم کے ناز کو برداشت کیا جائے۔
بہرحال! چونکہ اللہ تعالیٰ نے مرد کو قوام بنایا ہے اس لئے فیصلہ اس کا ماننا ہوگا۔ ہاں بیوی اپنی رائے اور مشورہ دے سکتی ہے اور شریعت نے مرد کو یہ ہدایت بھی دی ہے کہ وہ حتی الامکان بیوی کی دلداری کا خیال بھی کرے لیکن فیصلہ اسی کا ہوگا۔ لہذا اگر بیوی چاہے کہ ہر معاملے میں فیصلہ ان کا چلے اور مرد قوام نہ بنے، تو یہ صورت فطرت کے خلاف ہے، شریعت کے خلاف ہے، عقل کے خلاف ہے اور انصاف کے خلاف ہے اور اس کا نتیجہ گھر کی بربادی کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔
شوہر کے مال وآبرو کی حفاظت:
اللہ تبارک وتعالیٰ نے ارشاد فرمایا: جو عورتیں نیک ہیں وہ اپنے شوہروں کی تابعدار ی کرتی ہیں اور اللہ کے حکم کے موافق نیک عورتیں شوہر کی عدم موجودگی میں اپنے نفس اور شوہر کے مال کی حفاظت کرتی ہیں، (سورۂ النساء ۳۴) یعنی اپنے نفس اور شوہر کے مال میں کسی قسم کی خیانت نہیں کرتی ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میں تمہیں مرد کا سب سے بہترین خزانہ نہ بتاؤں؟ وہ نیک عورت ہے، جب شوہر اس کی طرف دیکھے تو وہ شوہر کو خوش کردے، جب شوہر اس کو کوئی حکم کرے تو شوہر کا کہنا مانے۔ اگر شوہر کہیں باہر سفر میں چلا جائے تو اس کے مال اور اپنے نفس کی حفاظت کرے۔ (ابوداؤد، نسائی)
شوہرکے مال کی حفاظت میں یہ ہے کہ عورت شوہر کی اجازت کے بغیر شوہر کے مال میں سے کچھ نہ لے، اور اس کی اجازت کے بغیر کسی کو نہ دے۔ ہاں اگر شوہر واقعی بیوی کے اخراجات میں کمی کرتا ہے تو بیوی اپنے اور اولاد کے خرچے کو پورا کرنے کے لئے شوہر کی اجازت کے بغیر مال لے سکتی ہے۔ جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہند بنت عتبہ سے کہا تھا جب انہوں نے اپنے شوہر ابو سفیانؓ کے زیادہ بخیل ہونے کی شکایت کی تھی: اتنا مال لے لیا کرو جو تمہارے اور تمہاری اولاد کے متوسط خرچہ کے لئے کافی ہو۔ (بخاری مسلم)
شوہر کی آبرو کی حفاظت میں یہ ہے کہ عورت شوہر کی اجازت کے بغیر کسی کو گھر میں داخل نہ ہونے دے، کسی نامحرم سے بلا ضرورت بات نہ کرے۔ شوہر کی اجازت کے بغیر گھر سے باہر نہ نکلے۔

گھر کے اندرونی نظام کو چلانا اور بچوں کی تربیت کرنا: یہ عورتوں کی وہ ذمہ داری ہے جو ان کی خلقت کے مقاصد میں سے ایک اہم مقصد ہے، بلکہ یہ وہ بنیادی ذمہ داری ہے جسکی ادائیگی عورتوں پر لازم ہے۔ عورتوں کو اس ذمہ داری کے انجام دینے میں کوئی کمی نہیں چھوڑنی چاہئے کیونکہ اسی ذمہ داری کو صحیح طریقہ پر انجام دینے سے فیملی میں آرام وسکون پیدا ہوگا نیز اولاد دونوں جہاں کی کامیابی وکامرانی سے سرفراز ہوگی۔ حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ جب صحابۂ کرام اپنی بیٹی یا بہن کو رخصت کرتے تھے تو اس کو شوہر کی خدمت اور بچوں کی بہترین تربیت کی خصوصی تاکید کرتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: عورت اپنے شوہر کے گھر میں نگہبان اور ذمہ دار ہے اور اس سے اس کے بچوں کی تربیت وغیرہ کے متعلق سوال کیا جائے گا۔(بخاری ومسلم)
بیوی کی چند اہم دیگر ذمہ داریاں:
بیوی شوہر کی اجازت کے بغیر نفلی روزہ نہ رکھے۔ حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:کسی عورت کے لئے حلال نہیں کہ وہ اپنے شوہر کی موجودگی میں روزے رکھے مگر شوہر کی اجازت سے یعنی کسی عورت کے لئے نفلی روزہ رکھنا شوہر کی اجازت کے بغیر حلال نہیں ۔
عورت کے دل میں شوہر کے پیسے کا درد ہو: عورت کے دل میں شوہر کے پیسے کا درد ہونا چاہئے تاکہ شوہر کا پیسہ فضول خرچی میں خرچ نہ ہو۔ گھر کو نوکرانیوں پر نہیں چھوڑنا چاہئے کہ وہ جس طرح چاہیں کرتی رہیں بلکہ عورت کی ذمہ داری ہے کہ وہ گھر کے داخلی تمام امور پر نگاہ رکھے۔
چند مشترکہ حقوق اور ذمہ داریاں:
حتی الامکان خوشی وراحت وسکون کو حاصل کرنے اور رنج وغم کو دور کرنے کے لئے ایک دوسرے کا تعاون کرنا چاہئے۔
ایک دوسرے کے راز لوگوں کے سامنے ذکر نہ کئے جائیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: قیامت کے دن اللہ کی نظروں میں سب سے بدبخت انسان وہ ہوگا جو میاں بیوی کے آپسی راز کو دوسروں کے سامنے بیان کرے۔ (مسلم)
شوہر باہر کے کام اور بیوی گھریلوکام انجام دے:
قرآن وسنت میں واضح طور پر ایسا کوئی قطعی اصول نہیں ملتا جس کی بنیاد پر کہا جائے کہ کھانا پکانا عورتوں کے ذمہ ہے، البتہ حضرت فاطمہ ؓ کی شادی کے بعد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علیؓ اور حضرت فاطمہؓ کے درمیان کام کی جو تقسیم کی وہ اس طرح تھی کہ باہر کے کام حضرت علیؓ دیکھتے تھے، گھریلو کام مثلاً کھانا بنانا، گھر کی صفائی کرنا وغیرہ حضرت فاطمہؓ کے ذمہ تھا۔ لیکن یاد رکھیں کہ زندگی قانونی پیجیدگیوں سے نہیں چلا کرتی، لہذا جس طرح قرآن وحدیث میں مذکور نہیں ہے کہ کھانا پکانا عورت کے ذمہ ہے اسی طرح قرآن وسنت میں کہیں واضح طور پر یہ موجود نہیں ہے کہ شوہر کے ذمہ بیوی کا علاج کرانا لازم ہے، اسی طرح قرآن وسنت میں مرد کے ذمہ نہیں ہے کہ وہ بیوی کو اس کے والدین کے گھر ملاقات کے لئے لے جایا کرے۔ اسی طرح اگر بیوی کے والدین یا بھائی بہن اس کے گھر آئیں تو مرد کے ذمہ نہیں ہے کہ مرغ مسلم وکوفتے وکباب وغیرہ لے کر آئے۔ معلوم ہوا کہ دونوں ایک دوسرے کی خدمت کے جزبہ سے رہیں۔ باہر کے کام مرد انجام دے اور عورت گھر کے معاملات کو بخوبی انجام دے۔
میاں بیوی کی مشترکہ ذمہ داریوں میں سے ایک اہم ذمہ داری یہ ہے کہ دونوں ایک دوسرے کی جنسی ضرورت کو پورا کریں۔ حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جب مرد اپنی بیوی کو اپنی طرف بلائے (یہ میاں بیوی کے مخصوص تعلقات سے کنایہ ہے کہ شوہر اپنی بیوی کو ان تعلقات کو قائم کرنے کے لئے بلائے) اور وہ عورت نہ آئے یا ایسا طرز اختیار کرے کہ جس سے شوہر کا وہ منشا پورا نہ ہو اور اس کی وجہ سے شوہر ناراض ہوجائے تو ساری رات صبح تک فرشتے اس عورت پر لعنت بھیجتے رہتے ہیں، یعنی اس عورت پر خدا کی لعنت ہو اور لعنت کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت اس کو حاصل نہیں ہوگی۔ (بخاری ومسلم)
جنسی خواہشات کی تکمیل پر اجروثواب: حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میاں بیوی کے جو باہمی تعلقات ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ ان پر بھی اجر عطا فرمائے گا۔ صحابۂ کرام نے سوال کیا : یا رسول اللہ! وہ انسان اپنی نفسانی خواہشات کے تحت کرتا ہے، اس پر کیا اجر؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر وہ نفسانی خواہش کو ناجائز طریقے سے پورا کرتا ہے تو اس پر گناہ ہوتا ہے یا نہیں؟ صحابۂ کرام نے عرض کیا یا رسول اللہ! گناہ ضرور ہوتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: چونکہ میاں بیوی ناجائز طریقہ کو چھوڑکر جائز طریقے سے نفسانی خواہشات کو اللہ کے حکم کی وجہ سے کررہے ہیں، اس لئے اس پر بھی ثواب ہوگا۔ (مسند احمد ج ۵ ص ۱۶۹۱۶۷)
اپنے اہل وعیال کو جہنم کی آگ سے بچانے کے لئے مشترکہ فکر وکوشش:
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: اے ایمان والوں تم اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان ہیں اور پتھر، جس پر سخت دل مضبوط فرشتے مقرر ہیں جنہیں جو حکم اللہ تعالیٰ دیتا ہے اس کی نافرمانی نہیں کرتے بلکہ جو حکم دیا جائے بجالاتے ہیں۔ (سورۂ التحریم ۶)
جب مذکورہ آیت نازل ہوئی تو حضرت عمر فاروق ؓ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں تشریف لائے اور فرمایا کہ ہم اپنے آپ کو تو جہنم کی آگ سے بچاسکتے ہیں مگر گھر والوں کا کیا کریں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تم ان کو برائیوں سے روکتے رہو اور اچھائیوں کا حکم کرتے رہو، ان شاء اللہ یہ عمل ان کو جہنم کی آگ سے بچانے والا بنے گا۔
وراثت میں شرکت:
دونوں میں سے کسی ایک کے انتقال ہونے پر دوسرا اسکی وراثت میں شریک ہوگا۔
شوہر اور بیوی کی وراثت میں چار شکلیں بنتی ہیں۔ (سورۂ النساء ۱۲)
بیوی کے انتقال پر اولاد موجود نہ ہونے کی صورت میں شوہر کو 1/2ملے گا۔
بیوی کے انتقال پر اولاد موجود ہونے کی صورت میں شوہر کو 1/4ملے گا۔
شوہر کے انتقال پر اولاد موجود نہ ہونے کی صورت میں بیوی کو 1/4ملے گا۔
شوہر کے انتقال پر اولاد موجود ہونے کی صورت میں بیوی کو 1/8ملے گا۔
محمد نجیب سنبھلی قاسمی، ریاض

حقوق العباد – بندوں کے حقوق

بسم الله الرحمن الرحيم
اَلْحَمْدُ لِله رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلام عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔
حقوق العباد (بندوں کے حقوق)
جن کبیرہ گناہوں کا تعلق حقوق اللہ (اللہ کے حقوق) سے ہے، مثلاً نماز ، روزہ ، زکاۃ اور حج کی ادائیگی میں کوتاہی، اللہ تعالیٰ سے سچی توبہ کرنے پراللہ تعالیٰ معاف فرمادے گا، ان شاء اللہ۔ لیکن اگر ان گناہوں کا تعلق‘ حقوق العباد (بندوں کے حقوق)سے ہے مثلاً کسی شخص کا سامان چرایا، یا کسی شخص کو تکلیف دی یا کسی شخص کا حق مارا، تو قرآن وحدیث کی روشنی میں تمام علماء و فقہاء اس بات پر متفق ہیں کہ اس کی معافی کے لئے سب سے پہلے ضروری ہے کہ جس بندے کا ہمارے او پر حق ہے، اس کا حق ادا کریں یا اس سے حق معاف کروائیں، پھر اللہ تعالیٰ کی طرف توبہ واستغفار کے لئے رجوع کریں۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاہے : شہید کے تمام گناہ معاف کردئے جاتے ہیں، مگر کسی شخص کاقرضہ۔ (مسلم، ۱۸۸۶) یعنی اگر کسی شخص کا کوئی قرض کسی کے ذمہ ہے تو جب تک ادا نہیں کردیا جائے، وہ ذمہ میں باقی رہے گا خواہ کتنا بھی بڑا نیک عمل کرلیا جائے۔ مشہور محدث حضرت امام نووی ؒ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں کہ قرض سے مراد ‘ تمام حقوق العباد ہیں یعنی اللہ کے راستے میں شہید ہونے سے حقوق اللہ تو سب معاف ہوجاتے ہیں، لیکن حقوق العباد معاف نہیں ہوتے ہیں۔ (شرح مسلم)
معلوم ہوا کہ ہمیں حقوق العباد کی ادائیگی میں کوئی کوتاہی نہیں کرنی چاہئے ۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاہے : کیا تم جانتے ہو کہ مفلس کون ہے؟ صحابہ نے عرض کیا : ہمارے نزدیک مفلس وہ شخص ہے جس کے پاس کوئی پیسہ اور دنیا کا سامان نہ ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میری امت کا مفلس وہ شخص ہے جو قیامت کے دن بہت سی نماز، روزہ، زکاۃ (اور دوسری مقبول عبادتیں) لے کر آئے گا مگر حال یہ ہوگا کہ اس نے کسی کو گالی دی ہوگی، کسی پر تہمت لگائی ہوگی، کسی کا مال کھایا ہوگا، کسی کا خون بہایا ہوگا یا کسی کو مارا پیٹا ہوگا تو اس کی نیکیوں میں سے‘ ایک حق والے کو (اس کے حق کے بقدر) نیکیاں دی جائیں گی، ایسے ہی دوسرے حق والے کو اس کی نیکیوں میں سے (اس کے حق کے بقدر) نیکیاں دی جائیں گی۔ پھر اگر دوسروں کے حقوق چکائے جانے سے پہلے اس کی ساری نیکیاں ختم ہوجائیں گی تو (ان حقوق کے بقدر) حقداروں اور مظلوموں کے گناہ (جو انہوں نے دنیا میں کئے ہوں گے) ان سے لے کر اس شخص پر ڈال دئے جائیں گے ، اور پھر اس شخص کو دوزخ میں پھینک دیا جائے گا۔ (مسلم ۔ باب تحریم الظلم) یہ ہے اس امت مسلمہ کا مفلس کہ بہت ساری نیکیوں کے باوجود ‘ حقوق العباد میں کوتاہی کرنے کی وجہ سے جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو حقوق اللہ کے ساتھ حقوق العباد میں بھی کوتا ہی کرنے سے محفوظ فرمائے۔ آمین۔
محمد نجیب قاسمی سنبھلی (www.najeebqasmi.com)