مقبول رمضان
رنگ و نور ۔۔۔سعدی کے قلم سے (شمارہ 452)
اللہ تعالیٰ کا عظیم احسان… ماہ رمضان، ماہ رمضان
دل خوش ہوا؟
کیارمضان المبارک کے تشریف لانے پر ہمارا دل خوش ہوتا ہے ؟؟
اگر خوش ہوتا ہے تو پھر مبارک ہو، صدمبارک
رمضان المبارک،اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس اُمت کے لئے بڑا انعام ہے… رمضان المبارک نہ آئے تو ہم نفس و شیطان کے ہاتھوں برباد ہوجائیں… رمضان المبارک کے روزے اسلام کے بنیادی اور لازمی فرائض میں سے ہیں… ایک مؤمن کی شان یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے فرائض کو بوجھ نہیں، نعمت سمجھتا ہے… اور اُن کی آمد اور ادائیگی پر خوش ہوتا ہے…
ہمارے آقا حضرت محمد مدنیﷺ رمضان المبارک کا خوشی سے استقبال فرماتے تھے اپنے صحابہ کرام کو رمضان المبارک کی خوشخبری دیتے تھے… اور رمضان المبارک کے آغازمیں علوم وحکمت کی بارش فرماتے تھے…یاد رکھیں روزہ بوجھ اور مشقت نہیں… قوّت اور لذت ہے… ایسی قوت کہ مسلمانوں نے رمضان المبارک میں بدر بھی فتح کر لیا… اور مکہ مکرمہ پر بھی فتح کاجھنڈا لہرادیا…
مرحبا اے رمضان!… خوش آمدید اے رمضان!
دل گھبرا گیا؟
کیا رمضان المبارک کے تشریف لانے پر ہمارا دل گھبراتا ہے؟
اگر گھبراتا ہے تو ہم ابامہ کی رنگت والے اس’’کالے‘‘ دل کی اصلاح کر لیں…جی ہاں! ابھی موقع ہے… اگر خدانخواستہ اسی حالت میں جان نکل گئی تو یہ’’ابامہ‘‘ ہمارے ساتھ قبر میں چلا جائے گا… اللہ نہ کرے قبر تندور بن جائے… جیسے بلوچستان میں سالم بکرے کو سجّی بنانے کیلئے ایک گڑھا کھود کر اُسے دھکتے انگاروں سے بھر دیتے ہیں…
…یا اللہ !عذاب قبر سے بچا لیجئے…
روزہ نہ گرمی کا مشکل نہ سردی کا مشکل… روزہ صرف ’’نفس پرست‘‘ کا مشکل… ارے محبوب کے لئے بھوکا، پیاسا رہنا… کمزوری سے خستہ حال ہوجانا یہ تو عشق کے مزیدار مراحل ہوتے ہیں… ایسے مراحل ہی میں اُن کی نظر خاص نصیب ہوتی ہے…
الصوم لی وانأ اجزی بہ
ارشاد فرمایا: روزہ میرے لئے ہے اور اس کا بدلہ میں خود دوں گا، خاص بدلہ، محبت والا بدلہ… بہت ہی بڑا بدلہ…
انسان جب تک اپنے محبوب کے لئے خستہ حال نہ ہو… کمزور اور زخمی نہ ہو، بھوکا اور پیاسا نہ ہو تو محبت دل میں کہاں اُترتی ہے؟
حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ اپنی محبوب ترین چیزوں میں سے ایک یہ بھی بیان فرماتے ہیں کہ:
الصوم فی الصیف
سخت گرمی میں روزہ رکھنا…
معروف صاحب حکمت صحابی، حضرت سیدنا ابو الدرداء رضی اللہ عنہ ارشادفرماتے ہیں:
صلّوافی ظلمۃ اللیل رکعتین لظلمۃ القبور
رات کے اندھیرے میں دو رکعت ادا کیا کرو،قبر کے اندھیرے سے بچنے کے لئے…
صوموا یوما شدید حرّہ، لحرّیوم النشور
سخت گرمی کے دن روزہ رکھا کرو، قیامت کے دن کی گرمی سے حفاظت کے لئے
تصدّقوا بصدقہٍ لِشَرِّ یومٍ عسیر
اور صدقہ دیا کرو، ایک مشکل دن کی آسانی کے لئے…
آج کل خوب گرمی ہے… سورج آگ برساتاہے اور لوڈ شیڈنگ پسینے نکالتی ہے… عاشقوں کے روزے اور زیادہ مزیدار ہوجاتے ہیں… اور عشق کی سرشاری سے بھیگ بھیگ جاتے ہیں… اے مسلمانو! خوش ہونا چاہئے، بہت خوش ہونا چاہئے کہ قرآن مجید کا موسم آگیا…مغفرت کا موسم آگیا… محبوب کے لئے روزے رکھنے اور بھوک پیاس اٹھانے کا موسم آگیا… ہم سب اپنے دل کو سمجھائیں کہ… بابا سیدھا ہوجا… ہروقت موٹا تازہ، ہٹا کٹا، بنا سنورا اور تروتازہ رہنا یہ عاشقوں کی شان نہیں… آگے قبر میں جانا ہے جس نے اس دنیا میں اپنے رب کے لئے جتنی مشکل اٹھائی، آگے اس کواتنی ہی آسانی نصیب ہوئی…
رمضان المبارک کے اعمال
رمضان المبارک میں جنت کے دروازے کھل جاتے ہیں…ایک دروازہ بھی بند نہیں رہتا… اور جہنم کے دروازے بند ہوجاتے ہیں… اور ایک دروازہ بھی کھلا نہیں رہتا… اس لئے یہ اعمال والا مہینہ ہے… شریعت نے بعض اعمال تو ایسے ارشاد فرمائے ہیں… جو صرف اسی مہینے میں ادا ہو سکتے ہیں… اور بعض ایسے اعمال بیان فرمائے ہیں کہ… جن کا اجر اس مہینہ میں بڑھا دیا جاتا ہے… قرآن وسنت میں رمضان المبارک کے جو اعمال بیان کئے گئے ہیں… ان کی ایک فہرست حاضر خدمت ہے… دیکھ لیں کہ ہم نے کون کون سے اعمال کمائے ہیں…
۱۔ روزہ… یہ سب سے اہم اور فرض ہے اور بڑی شان والا فریضہ ہے… اور یہی اس مہینہ کا اصل اور بنیادی عمل ہے…
۲۔ جہاد فی سبیل اللہ… اسی مہینہ میں غزوہ بدر اور غزوہ فتح مکہ پیش آئے، فضیلت کا اندازہ خود لگا لیں
۳۔ رات کا قیام… تراویح اور تہجد
۴۔ صدقہ… روایت میں آیا ہے کہ:
افضل الصدقۃ صدقۃ رمضان
سب سے افضل صدقہ… رمضان المبارک کا صدقہ ہے
۵۔ تلاوت… یہ قرآن مجید کا مہینہ ہے…اسی میں تمام آسمانی کتب نازل ہوئیں اس مہینہ میں قرآن مجید خوب کھلتا ہے اور خوب رنگ جماتا ہے
۶۔ اعتکاف… یہ عبادت اسی مہینے کے آخری عشرے کے ساتھ بطور سنت مؤکدہ خاص ہے… البتہ واجب یا نفل اعتکاف کسی بھی وقت کیا جا سکتا ہے…
۷۔ عمرہ… رمضان المبارک کا عمرہ فضیلت میں حج کے برابر ہوجاتا ہے
۸۔لیلۃ القدر کو تلاش کرنا اور اسے زندہ رکھنا… یہ عظیم فضیلت اسی مہینہ کے ساتھ خاص ہے
۹۔ ذکر، استغفار، درود شریف اور دعاء کی کثرت کرنا… رمضان المبارک میں ذکر اور دعاء زیادہ قبول ہوتے ہیں… بہت مقبول ہوتے ہیں…
۱۰۔ صلہ رحمی کرنا…
اللہ تعالیٰ ہمیں ان تمام اعمال کی توفیق عطاء فرمائے…
مقبول رمضان
ہمارا رمضان المبارک مقبول جارہا ہے یا نہیں؟… ہم میں سے ہر ایک کو خود اس کی فکر کرنی چاہئے… قبولیت کا اندازہ اس سے ہوگا کہ… ہم حضرت آقا مدنیﷺ کی طرف دیکھیں کہ… آپﷺ کا رمضان المبارک میں کیا رنگ اور کیا انداز ہوتاتھا…پھر اگر ہمیں اپنے اندر… اُس رنگ اور انداز کی کچھ خوشبو محسوس ہو تو ہم شکر ادا کریں… اسے قبولیت کی علامت سمجھیں اور مزید محنت کریں… حضرت آقا محمد مدنیﷺ پر رمضان المبارک میں فرض روزہ کے علاوہ… تین باتوں کا رنگ غالب رہتا…
(۱) قرآن مجید کی طرف توجہ
(۲) بہت بہادری اور جذبہ جہاد
(۳) بہت زیادہ سخاوت
ویسے تو آپﷺ کی یہ تین صفات دائمی تھیں… مگر سیرت مبارکہ پر غور کریں تو یہی نظر آتا ہے کہ… رمضان المبارک میں آپﷺ پر ان تین صفات کا گویا حال طاری ہوتا تھا… آپ قرآن مجید کی طرف متوجہ رہتے… حضرت جبریل امین علیہ السلام بھی تشریف لاتے اور پھر ان دو عظیم ہستیوں کے درمیان قرآن مجید کا دور چلتارہتا… دوسرا حال جہاد کی طرف توجہ اور بے حد بہادری کاہوتا… بدر کی طرف نکلنا آسان نہ تھا… بے سروسامانی تھی اور چاروں طرف سے خطرات… مگر رمضان المبارک کا عشق ایسا چمکا کہ یہ خستہ حال لشکر…مشرکین مکہ کے تروتازہ اور پُرشوکت لشکر سے ٹکرا گیا… اور جہاد کو ناقابل تسخیر بنیاد فراہم کر گیا…
فتح مکہ کا معاملہ بھی آسان نہ تھا… وہ فتح اکبر اور فتح اعظم تھی اور اسی سے دین اسلام کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے… ایک عظیم قوت اور مرکزیت ملی… اسی لئے کئی اہل علم رمضان المبارک کی خصوصیات میں جن دو بڑی چیزوں کا ذکر کرتے ہیں… ان میں پہلی نزول قرآن… اور دوسری فتح مکہ ہے…خلاصہ یہ کہ رسول کریمﷺ کی رمضان المبارک میں… جہاد کی طرف خاص توجہ رہتی تھی…
تیسرا حال جو رمضان المبارک میں آپﷺ پر زیادہ طاری رہتا… وہ تھا سخاوت… آپﷺ تیز ہواؤں سے بھی زیادہ سخی ہو جاتے … آپﷺ تو پہلے سے ہی سخیوں کے سخی بادشاہ تھے… مگر رمضان المبارک میںاس سخاوت میں بہت زیادہ اضافہ ہو جاتا… بس سب کچھ مالک کے لئے قربان اور ہر ضرورت مند کے ساتھ احسان… اور ہمدردی…
ہم اپنے اندر جھانک کر دیکھیں:
کیا قرآنِ پاک کی طرف توجہ زیادہ ہوئی؟
اگر ہوگئی ہے تو… الحمدﷲ، الحمدﷲ، الحمد ﷲ رب العالمین
کیا سخاوت زیادہ ہوئی؟
اگر ہوئی ہے تو…الحمدﷲ رب العالمین… الحمد ﷲ رب العالمین
کیا بہادری بڑھی؟… اللہ تعالیٰ کے لئے جان دینے کا جذبہ زیادہ ہوا؟… دل میں شوق جہاد بڑھا؟… اسلام کے لئے کچھ کر گزرنے کا جنون فراواں ہوا؟
اگرہواتو… الحمدﷲ، ثم الحمدﷲ… الحمد ﷲ رب العالمین
لا الہ الا اﷲ، لا الہ الا اﷲ، لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ…
اللّٰھم صل علیٰ سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا…
لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ…
مسجد نامہ
رنگ و نور ۔۔۔سعدی کے قلم سے (شمارہ 451)
اﷲ تعالیٰ نے ایمان کی ایک بڑی علامت ارشاد فرمائی ہے:
’’مساجد تعمیر کرنا، مساجد آباد کرنا‘‘
آج ان شاء اللہ اسی بارے چند اہم باتیں عرض کرنی ہیں… پہلے ایک نظر’’دنیا‘‘ پر…
حالات حاضرہ
۱۔ بی بی سی کے جنگی تجزیہ نگار… فرنیک گارڈنر نے ایک ’’قلم توڑ‘‘ بات لکھ دی ہے…
وہ کہتا ہے!!
’’تیرہ سال سے دنیا کے تمام ممالک مل کر جہاد اور مجاہدین کو ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں… انہوں نے اس کی خاطرہر حربہ آزما لیا ہے… مگر تیرہ سال کی ان متحدہ کوششوں کے باوجود اُن کے لئے خوشی کی ایک خبر بھی نہیں ہے‘‘…
دیکھیں کیسی سچی بات اس کے قلم اور زبان پر آگئی… سب پڑھیں:
لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ، الحمدﷲ، اﷲ اکبر، سبحان اﷲ وبحمدہ سبحان اﷲ العظیم
۲۔ ابامہ جو صدر ہے امریکہ کا… اس کے منہ سے ایک’’زبان کاٹ‘‘ بات نکل گئی وہ کہتا ہے:
’’عراق میں ہم امریکیوں نے جو قربانیاں پیش کیں وہ عراق کی نا اہل حکومت کی وجہ سے سب ضائع اور رائیگاں چلی گئیں‘‘
بھائیو!دل سے پڑھیں:
اﷲ اکبر کبیرا،اﷲ اکبرکبیرا
۳۔ ایران کی پاسداران انقلاب کا ایک جنرل… جس کا نام قاسم سلیمانی ہے وہ آج کل عراق میں ہے اور مجاہدین کے خلاف جنگ میں عراقی حکومت کی مدد کر رہا ہے… اس سے پہلے وہ شام میں تھا جہاں اُس نے مجاہدین کے خلاف بشار الاسد کے قاتلوں کی کمان کی… ایک ملک کا جنرل دوسرے ملکوں میں اس قدر کھلا کردار ادا کررہا ہے… مگر اس غیر ملکی مداخلت پر اقوام متحدہ خاموش، امریکہ خوش اور انڈیا مطمئن ہے… جبکہ پاکستان والے اگر اپنے کشمیر میں چلے جائیں تو غیر ملکی مداخلت کا شور بجنے لگتا ہے… اسے کہتے ہیں’’اسلام دشمنی‘‘ سب کہیں…
قَاتَلَھُمُ اللّٰہُ
مرگ بردشمنان اسلام
مساجد کی طرف
مساجد کا موضوع بڑا دلکش اور بہت مفصل ہے… پہلے تین قصے سن لیں
۱۔ ترکی کی ایک مسجد میں ایک بزرگ چھوٹے بچوں کو سورہ فاتحہ یاد کرا رہے تھے… بچے بس چھ سات سال کی عمر کے تھے… پوری مسجد میں سورہ فاتحہ کا ترنم گونج رہا تھا … بزرگ کی عادت تھی کہ روزآنہ سبق کا امتحان لیتے اور اول آنے والے بچے اور بچی کو دس روپے انعام دیتے … اور سب بچوں کو کچھ نصیحت فرماتے…
سبق کا وقت ختم ہوا… بزرگ نے ایک ایک بچے سے امتحان لیا… اور اب بچے آنکھیں مٹکا مٹکا کر انتظار میں کہ… دس روپے کسے ملتے ہیں؟… بزرگ نے آج انداز بدل لیا… فرمایا! آج ایک اور امتحان…ہر بچہ بتائے کہ اگر اُسے دس روپے ملے تووہ اُن سے کیا خریدے گا؟… بچے جواب دینے لگے
غبارے، کھلونا، گاڑی، آئس کریم وغیرہ… مگر’’فاطمہ‘‘ خاموش… بزرگ نے پوچھا اگر فاطمہ بیٹی انعام جیت گئی تو وہ کیا خریدے گی… فاطمہ تھوڑی دیر شرمائی پھر بولی ٹافیاں… بزرگ نے فرمایا! اب ایک قصہ سنو اس کے بعد بتاتا ہوں کہ آج کا انعام کسے ملے گا…
دیکھو! اس مسجد میں کتنے لوگ نماز ادا کرتے ہیں… وہ کتنے سجدے کرتے ہیں… کتنے رکوع… کتنی دعائ، کتنے آنسو… اس مسجد میں کتنا درس ہوتا ہے، کتنا دین کا کام اور کتنے لوگ یہاں توبہ کرتے ہیں… اس مسجد میں کتنی تعلیم ہوتی ہے، کتنے بچے پڑھتے ہیں… رمضان میں کتنے لوگ اعتکاف کرتے ہیں، کتنے روزے دار افطاری کرتے ہیں… اس مسجد میں کتنے جاہلوں کو علم ملتا ہے، کتنے گمراہوں کو ہدایت ملتی ہے… کتنا ذکر ہوتا ہے ، کتنی تلاوت ہوتی ہے…
کیا کسی کے بس میں ہے کہ… ایک آباد مسجد میں چوبیس گھنٹے میں جتنی نیکیاں ہوتی ہیں اُن کو لکھ سکے؟… کتنی بار سبحان ربی الاعلیٰ، کتنی بار سبحان ربی العظیم… کتنا صدقہ، خیرات… اور کتنی مناجات… مسجد کے تمام اعمال اگر لکھے جائیں تو صرف ایک دن کی نیکیوں کو ہزار صفحات پر بھی نہیں لکھا جا سکتا … پھر ایک سال میں کتنی نیکیاں ہوتی ہونگی؟…اور دس سال میں کتنی؟… کیا کسی کے بس میں ہے کہ شمار کر سکے؟… سب بچوں نے آواز لگائی… کسی کے بس میں نہیں…
بزرگ نے فرمایا ! کیا آپ کو معلوم ہے کہ ان تمام نیکیوں کا ثواب اُس ایک شخص کو ملتا ہے جس نے یہ مسجد تعمیر کی تھی…عمل کرنے والوں کے اپنے ثواب میں کوئی کمی نہیں ہوتی… مگر مسجد بنانے والے کو اُن تمام اعمال کا پورا ثواب ملتا ہے جواُس مسجد میں ہوتے ہیں، جو اس مسجد سے اٹھتے ہیں… اور جو اس مسجد سے پھیلتے ہیں… مثلاًآپ نے آج سورہ فاتحہ یاد کر لی… یہ آپ نے چونکہ اس مسجد میں بیٹھ کر یاد کی ہے… تو اس کا ثواب اور آپ لوگ پوری زندگی جتنی سورہ فاتحہ پڑھیں گے اُس کا ثواب… اور آپ آگے جن کو سورہ فاتحہ سکھائیں گے… اُس کا ثواب… یہ سب اس مسجد بنانے والے کے نامہ اعمال میں بھی شامل ہوتا جائے گا…کیا آپ اس شخص کو جانتے ہیں جس نے یہ مسجد بنائی؟… اس کا نام’’خیر الدین‘‘ تھا… ایک غریب، متوسط آدمی، نہ عالم نہ مشہور بزرگ…بس اللہ تعالیٰ کا مخلص بندہ… اُسے شوق تھا کہ میں اللہ تعالیٰ کا گھر بناؤں… اُس نے ایک تھیلا سلوایا… یہ تھیلا وہ اپنے ساتھ رکھتا… بازار جب بھی جاتا توجو پھل اچھا لگتا اُسے دیکھ کر کہتا… لو بھائی گویا کہ یہ میں نے کھالیا… پھر جیب سے اُس پھل کی قیمت برابر پیسے نکال کر تھیلے میں ڈال لیتا… کبھی گوشت کی دکان پر گوشت اچھا لگتا تو کہتا… لوبھائی! گویا کہ میں نے یہ گوشت خریدا، پکایا اور مزے سے کھا لیا… پھر اس گوشت کی قیمت تھیلے میں ڈال لیتا… سالہا سال تک اس محنت اور مجاہدے کے بعد اس نے تھیلا کھولا تو بڑی رقم جمع تھی… جس سے اُس نے یہ مسجد بنائی…
قصہ سنا کربزرگ نے کہا… اب آج کے انعام کا اعلان… آج کا انعام’’ فاطمہ‘‘ کا ہے اُس نے سورہ فاتحہ سب سے اچھی یاد کی ہے… فاطمہ کا چہرہ خوشی سے دمکنے لگا… اٹھ کر انعام وصول کیا… بزرگ نے پوچھا: فاطمہ ان پیسوں سے کیا لے گی… فوراً جواب آیا:کچھ بھی نہیں…
بزرگ نے کہا… تم نے تو ٹافیاں لینی تھیں… فاطمہ مسکرائی اور بولی… ٹافیاں گویا کہ میں نے کھا لیں… اب میں یہ پیسے جمع کروں گی اور مسجد بناؤں گی… سبحان اللہ وبحمدہ، سبحان اللہ العظیم…
۲۔ دوسرا قصہ بھی قریبی زمانے کا ہے… ایک مالدار شخص نے ارادہ کیا کہ اللہ تعالیٰ کے لئے مسجد بنائے… اپنے ملازموں سے کہا کوئی مناسب پلاٹ ڈھونڈو… چند دن کی کوشش سے ایک پلاٹ پسند کر لیا گیا… بہت مناسب جگہ پر تھا اور قیمت پینتیس لاکھ… جو اس مالدار کے لئے بہت آسان تھی… بات طیٔ ہو گئی…پتا چلا کہ یہ پلاٹ ایک غریب چوکیدار کا ہے… وہ اپنے پانچ چھ بچوں کے ساتھ سالہا سال سے غربت اور فقر و فاقہ کی زندگی کاٹ رہا تھا… اب کچھ خاندانی جائیداد تقسیم ہوئی تو اس کو یہ پلاٹ ملا جسے اُس نے فوراً ’’برائے فروخت‘‘ کر دیا تاکہ اس رقم سے اپنی معاشی حالت بہتر کر سکے… خریدنے کے دن مالدار شخص بیس لاکھ کا چیک لیکرپہنچا… پلاٹ کے مالک نے کہا باقی پندرہ لاکھ؟… اُس نے کہا اوقاف سے جس دن منظوری آگئی اس دن باقی پندرہ لاکھ دے دوں گا؟ پلاٹ والے نے کہا اس میں اوقاف کا کیا کام؟… مالدار نے کہا میں نے یہاں مسجد بنانی ہے اس لئے اوقاف سے اجازت مانگی ہے…مسجد کا نام سن کر پلاٹ کا مالک رونے اور کانپنے لگا… اس نے چیک پھاڑ کر پھینک دیا اور کہا! جائیے میں یہ پلاٹ نہیں بیچتا… پوچھا کیوں؟… کہنے لگا یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ آپ مجھ سے پلاٹ خرید کر اللہ کا گھر بنائیں… پھر اللہ تعالیٰ آپ کے لئے جنت میں گھر بنائے… اور میں پلاٹ کا مالک ہو کر اس سعادت سے محروم رہوں… اب میں اس پلاٹ پر مسجد ہی بناؤں گا… کروڑ پتی مالدار نے اُس غریب چوکیدار کے سامنے سر جھکا کر کہا… زندگی گزر گئی میں نے آج تک کسی کے سامنے خود کو چھوٹا یا حقیرنہ سمجھا… مگر آج میں خود کو آپ کے سامنے بے حد حقیر سمجھ رہا ہوں…
۳۔ تیسرا قصہ کچھ پرانے زمانے کا ہے… ایک بادشاہ نے ارادہ کیا کہ وہ ایک ایسی مسجد بنائے گا جس میں اس کے سوا کسی کا کوئی حصہ نہ ہو… اس نے پہلے جگہ خریدی،پھر اعلان کر دیا…خبردار کوئی بھی اس مسجد میں کسی طرح کا اپنا حصہ شامل نہ کرے… نہ مال نہ خدمت… جس نے کام کرنا ہو مزدوری اور اجرت پر کرے… خیر: اسی شرط کے ساتھ مسجد تیار ہو گئی سارا مال بادشاہ کا لگا… مسجد کے دروازہ پر بادشاہ نے اپنا نام لکھوا دیا… اور مسجد میں نماز شروع ہو گئی… ایک رات بادشاہ نے خواب دیکھا کہ آسمان سے ایک فرشتہ اترا اُس نے مسجد کے دروازہ سے بادشاہ کا نام کاٹ کر ایک عورت کا نام لکھ دیا… بادشاہ نے وجہ پوچھی تو اس نے کہا مجھے اسی کا حکم ہے…صبح جب بادشاہ اٹھا تو بہت پریشان… اپنے کارندے بھیجے کہ جاکر دیکھو! میرا نام موجود ہے یا نہیں؟… انہوں نے جا کر دیکھا بادشاہ کا نام موجود تھا…مگر دوسری رات پھر وہی خواب… اور تیسری رات بھی…مگر جب جا کر دیکھتے تو بادشاہ کا کتبہ موجود ہوتا… بادشاہ نے خواب میں اس عورت کا نام یاد کر لیا تھا… اپنے لوگوں کو اس کی تلاش پر لگا دیا… وہ عورت مل گئی… اسے طلب کر لیا گیا… وہ بہت بوڑھی تھی اور رعشہ کی وجہ سے اس کا جسم کپکپاتاتھا… اور اس طلبی پر مزید بھی خوف سے کانپ رہی تھی… بادشاہ نے کہا…اے خاتون! آپ نے اس مسجد میں کیا حصہ ڈالا؟… اس نے کہا کچھ بھی نہیں… میں غریب کمزور بڑھیا… میری مجال کہ آپ کے اتنے سخت اعلان کے بعد کوئی جرأت کرتی… بادشاہ نے اس کو اللہ کا واسطہ دیا اور کہا آپ کو کچھ نہیں کہا جائے گا سچ بتا دیں… وہ بولی: بادشاہ سلامت کچھ بھی نہیں، بس اتنا کہ ایک گرمی کی دوپہر میں وہاں سے گزر رہی تھی… مزدور کاریگر سب اندر آرام میں تھے… ایک جانور جو مسجد کا سامان اٹھاتا تھا وہ باہر بندھا ہوا تھا… پیاس کی وجہ سے اس کا بُرا حال تھا… اس کے قریب ہی پانی کا بھرا برتن رکھا تھا مگر وہ اُس تک نہیںپہنچ سکتا تھا اور بار بار زور لگا کر ہانپ رہا تھا… میں نے وہ برتن اس کے قریب کر دیا اور اُس نے وہ پانی پی لیا… بس میں نے یہی خدمت کی… بادشاہ رو پڑا اور کہنے لگا…
اماں! آپ نے اتنا سا کام اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے کیا تو اللہ تعالیٰ نے ساری مسجد آپ کے نام کر دی… اور میں نے اتنا سارا کام اپنے نام کے لئے کیا تو اللہ تعالیٰ نے مسجد کے اجر میں مجھے شامل نہ فرمایا… پھر اس نے اپنے وزیر کو حکم دیا کہ جاکر مسجد سے میرا نام کاٹ دو اور اسی خاتون کا نام لکھ دو…
مقصد یہ کہ مسجد میں اخلاص کے ساتھ تھوڑی سی محنت کا بھی اللہ تعالیٰ کے ہاں یہ مقام ہے… دراصل مسجد ایمان کا قلعہ… اور زمین پر اللہ تعالیٰ کی محبوب ترین جگہ ہے…ارشاد فرمایا:
احب البلاد الی اﷲ مساجدھا وابغض البلاد الی اﷲ اسواقھا
اللہ تعالیٰ کے نزدیک محبوب ترین جگہ مسجد اور ناپسندیدہ ترین جگہ بازار ہے۔ (صحیح مسلم)
آج بازار کتنے آباد ہوگئے… کیسی کیسی جدیدمارکیٹیں اور ان مارکیٹوں پر اُن سے بھی زیادہ پرفریب مارکیٹیں… جبکہ مساجد کی طرف مسلمانوں کی وہ توجہ نہیں ہے جو ایک حقیقی مسلمان کو ہونی چاہئے… جماعت نے الحمدللہ تین سو تیرہ مساجد تعمیر اور آباد کرنے کی نیت کر رکھی ہے… اللہ تعالیٰ کافضل دیکھیں کہ الحمدللہ اب تک اٹھاون مساجد تیار ہو چکی ہیں… ابھی حال ہی میں کراچی کے ایک خوش نصیب تاجرنے خود ایک مسجد تمام ضروریات کے ساتھ تیار کر کے جماعت کو دے دی ہے…اللہ تعالیٰ اُن کے اس عمل کو خاص قبولیت عطاء فرمائے…اور اب جماعت کے پاس جتنے پلاٹ موجود ہیں… ان میں سے مناسب مقامات پر رمضان المبارک کے بعد مساجد کی تعمیر کا نیا سلسلہ شروع ہو جائے گا…
دراصل جہاد اور مسجد کا آپس میں بہت گہرا تعلق ہے… اہل علم نے تو یہاںتک لکھا ہے کہ… حضرت آقا مدنیﷺ مجاہدین کو مساجد کے ساتھ باندھ گئے ہیں تاکہ اُن کا جہاد مقبول اور کامیاب ہو… اسی لئے مسجد ہر جگہ مجاہد کے ساتھ چلتی ہے اور ہر قدم پر مجاہد کو نئی قوت، نیا جذبہ اور مضبوطی عطاء کرتی رہتی ہے… اہل سیر نے لکھا ہے کہ جہاد اور مسجد کے اس لزوم کی وجہ سے حضرت آقا مدنیﷺ کا معمول مبارک تھا کہ جب بھی جہاد کے سفر پر نکلتے تو راستے میں مساجد بناتے جاتے یا مساجد بنانے کا حکم فرماتے جاتے… صرف ایک غزوہ تبوک کے سفر کے دوران ایک قول کے مطابق آپﷺ نے سولہ مساجد… اور دوسرے قول کے مطابق بیس مساجد تعمیر فرمائیں… آپ سیر کی کتابوں میں دیکھ لیں… ان تمام مساجد کے نام اور مقامات تک محفوظ ہیں… مجاہد کے ساتھ مسجد رہتی ہے تو وہ کبھی ناکام نہیںہوتا… مگر جب وہ مسجد سے دور ہٹ جائے تو پھر طرح طرح کے فتنوں کا شکار ہو کر کمزور ہوجاتا ہے… دشمنان اسلام نے تعاون اور میڈیاوار کا دھوکہ دے کر اپنے لوگ مجاہدین میں گھسائے جنہوں نے مساجد سے کٹے ہوئے دفاتر قائم کر کے مجاہدین کو مساجد سے دور کر دیا…تاکہ ان میں حبّ دنیا اور حبّ الشہوات کے بیچ بو سکیں… پس جو دفاتر کے ہو کر رہ گئے وہ حقیقی جہاد سے کٹ گئے… مگر جو اس فتنے کا شکار نہیں ہوئے وہ کامیاب رہے… اور اللہ تعالیٰ نے انہیںشہادتوں اور فتوحات سے نوازا… ان شاء اللہ کبھی موقع ملا تو اُن مساجد کا مفصل تذکرہ القلم میں آجائے گا… جو حضور اقدسﷺ نے اسفارِ جہاد کے دوران قائم فرمائیں…
آج کی آخری بات
مسجد تعمیر کرنا، مسجد آباد کرنا، مسجد کی خدمت کرنا، مسجد میں خوشبومہکانا، مسجد کی حفاظت کرنا، مسجد کی صفائی کرنا… مسجد میں باادب رہنا… مسجد میں بیٹھ کر جہاد کی ترتیب بنانا… یہ تمام اعمال بہت فضیلت والے ہیں…جماعت کی توجہ الحمدللہ مساجد کی طرف بھی ہے اور اللہ تعالیٰ کی توفیق سے تین سو تیرہ کے ہدف کی جانب گامزن ہے… اس رمضان المبارک میں’’مسلمان‘‘ مساجد کے لئے بھی دل کھول کر اموال نکالیں… اور جہاد فی سبیل اللہ میں بھی بڑھ چڑھ کر جان و مال لگائیں… اور جہاد میں جان و مال لگانا… کعبہ شریف کی تعمیر سے بھی زیادہ افضل ہے…
لا الہ الا اﷲ، لا الہ الا اﷲ، لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ…
اللھم صل علیٰ سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا…
لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ…
٭…٭…٭
ایک ضروری دعوت
رنگ و نور ۔۔۔سعدی کے قلم سے (شمارہ 450)
اللہ تعالیٰ ہی ’’غیب ‘‘کا علم رکھتے ہیں… انسان کاعلم بہت تھوڑا ہے
وَمَآ اُوْتِیْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِیْلًا
ہماری جماعت کے بزرگ اور صاحب علم مجاہد… حضرت مولاناعبدالعزیزصاحب کشمیری ابھی دو روز قبل انتقال فرماگئے
اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّآ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ
عراق کی طرف حالات نے حیرت انگیزکروٹ لی ہے …امریکہ سے لیکرایران تک تمام باطل طاقتوں کی نیندیں اڑ گئی ہیں …عراق وشام کے مجاہدین کے ایک مشترکہ لشکر نے صوبہ نینوامکمل فتح کرلیا ہے …اوربغداد کی طرف پیش قدمی شروع کردی ہے …جب امریکہ نے عراق پر حملہ کیا تھاتوکون جانتا تھا کہ …ایسا بھی ہوجائے گا …ہاں بیشک جہاں ظلم آتاہے وہاں … جہادفی سبیل اللہ گرجنے برسنے لگتا ہے …
وَاللّٰہُ اَشَدُّ بَاْسًا وَّاَشَدُّ تَنْکِیْلًا
اس سال الحمدللہ آیات الجہاد کا دورہ تفسیر …بہت کامیاب،مفید اور منظم رہا …پڑھنے والوں کی تعداد بھی بڑھی اورپڑھانے والوں میں بھی اضافہ ہوا …یہ دورہ تین مراحل میں مکمل ہوا …اورماشاء اللہ ساڑھے پانچ ہزار سے زائد مرد اور خواتین نے قرآن مجیدکی آیات جہادکواس سال پڑھا
اِنَّ ھٰذَا الْقُرْاٰنَ یَھْدِیْ لِلَّتِیْ ھِیَ اَقْوَمُ
شمالی وزیرستان میں نیاآپریشن شروع ہوچکاہے …بہت عرصہ سے اس آپریشن کی تیاری تھی …اب جبکہ رمضان المبارک بالکل قریب ہے ،موسم سخت گرم اور زمینی مزاج شدید ہے …یہ آپریشن شروع کردیا گیا ہے …وہ جو مسلمانوں کوباہم لڑاناچاہتے تھے ان کے لئے اس شعبان میں …بس یہی ایک خوشی کی خبر ہے
اَللّٰھُمَّ ارْحَمْ اُمَّۃَ مُحَمَّدٍ صلی اللّٰہ علیہ وسلم
یہ ہیں آج کی چار باتیں جن پر مختصر سی نظر ڈالنی ہے …حضرت مولاناعبدالعزیز صاحب نوراللہ مرقدہ کے انتقال پرملال کی خبراس وقت آئی جب …بہاولپور میں جماعت کے ذمہ داروں کا اجتماع جاری تھا …پندرہ شعبان کے بابرکت دن اس میٹھے مزاج والے مہاجر فی سبیل اللہ بزرگ نے …اچانک رخت سفر باندھ لیا …ان کی صحت اچھی ہوتی تووہ ضروراجتماع میں تشریف لاتے …انہیں اپنی جماعت سے بہت محبت تھی اورجماعت کے اجتماعات میں وہ اہتمام سے شرکت کرتے تھے …وہ کشمیر کے اس معروف باجی باکروال خاندان سے تعلق رکھتے تھے …جس خاندان کی سیاحتی حکومت کشمیر،جموں ،لداخ سے لیکر بالاکوٹ کے پہاڑوں تک پھیلی ہوئی ہے …یہ سادہ طبیعت،باصلاحیت ،بہادر اور صاف دل خاندان …بڑے اللہ والے اولیاء کاقبیلہ ہے …۱۹۹۴ ء کے آغاز میں بندہ دہلی گیاتھاجہاں کشمیر کے دیگرعلماء کرام کے ساتھ حضرت مولاناعبدالعزیز صاحب سے بھی ملاقات ہوئی …ان دنوں کشمیر کی تحریک عروج پر تھی اورمجاہدین کی صف بندی پہاڑوں سے اتر کر میدانوں کارخ کررہی تھی …بندہ نے علماء کرام کے اس مختصر وفد کے سامنے ہجرت وجہاد کی بات رکھی …سب نے تائیداورحمایت فرمائی اور حضرت مولاناعبدالعزیزصاحب ؒ فوری ہجرت کے لئے آمادہ ہوگئے …وہ سری نگر میں مقیم تھے اوروہاں کے معروف ’’میرواعظ‘‘خاندان کے استاذتھے …سری نگر کامیرواعظ خاندان طویل عرصہ تک کشمیرکابے تاج بادشاہ رہا ہے …آج بھی اس خاندان کااثر ورسوخ کافی حد تک قائم ہے …اگرچہ سیاست کی خاردار جھاڑیوں نے پہلے جیسی بات نہیں رہنے دی …حضرت مولاناعبدالعزیز صاحب ؒ کاہجرت کے لئے تیارہونابندہ کے لئے ایک خوشگوار خبر تھی …پھر یہ ہوا کہ میں تو وہاں رہ گیااوروہ اپنے وعدہ کے مطابق یہاں پاکستان تشریف لے آئے …انڈیا سے رہا ئی کے بعد ان سے دوسری ملاقات یہیں پاکستان میں ہوئی … اور وہ ہماری جماعت میں محبت کے ساتھ شامل ہوگئے … ان کی ہجرت جہاد کے لئے تھی اس پر وہ تادم آخر ڈٹے رہے اورجہاد کی خدمت کے ساتھ ساتھ علم دین کی روشنی بھی پھیلاتے رہے …ماشاء اللہ بہت اچھے مدرس اورسراجی کے ماہر عالم دین تھے …مجاہدین کوبہت درد کے ساتھ اتفاق واتحاد اوراطاعت امیر کاہمیشہ درس دیتے تھے …آج وہ ’’گڑھی حبیب اللہ ‘‘کے قبرستان میں آسودہ خاک ہیں …جبکہ تحریک کشمیر کومسکراہٹوں،ساڑھیوں اورسازشوں میں دفن کرنے کی کوشش ان دنوں تیزترہے …کتنے عظیم لوگ اس تحریک کی ہجرت گاہوں میں دفن ہوگئے …کیسے کیسے البیلے جانباز اس تحریک میں ٹکڑے ٹکڑے ہوگئے …کیسی کیسی رشک بتاں جوانیاں اس تحریک کے دوران سایوں میں ڈھل گئیں …مگربے عزم اوربے ضمیر حکمرانوں نے کبھی بھی اس مبارک تحریک کے ساتھ وفاداری نہیں کی …ہاں یہ ضرور ہے کہ … اس تحریک کے ساتھ غداری اور ظلم کا معاملہ کرنے والے … خود قدرت کے انتقام کانشان بن گئے … اور آج جو غداری پر تلے ہیں ان کے دن بھی کچھ زیادہ باقی نہیں ہیں … مجھے یقین ہے کہ شہداء کاخون رائیگاںنہیں جاسکتا …ان شاء اللہ یہ تحریک … کامیابی پائے گی،بلکہ ہماری توقع سے بھی زیادہ بہتر اس کے نتائج نکلیں گے …ہاں شرمندگی ہے کہ ہم مولاناعبدالعزیزاوران جیسے مہاجرین فی سبیل اللہ کوان کی زندگی میں کشمیر کی اسلامی فتح کامژدہ نہ سنا سکے …مگر پہاڑوں کے اوپر سورج چمک رہا ہے …اور اس سے بھی اوپر شہداء کاخون چمک اور مہک رہا ہے … یہ افسانہ نہیں اور نہ ہی لفاظی …کل تک ہم جو کچھ عراق کے بارے میں کہتے تھے وہ مذاق کانشانہ بنایاجاتاتھا …مگرآج عراق کاکانٹاہردشمن اسلام کے حلق میں اٹکا ہوا ہے …ممکن ہے مجاہدین کوپھروقتی طور پرپسپاہوناپڑے …اوریہ بھی ممکن ہے کہ ان کی پیش قدمی جاری رہے …مگر یہ توسوچاجائے کہ اتنے سارے مجاہدین کہاں سے آگئے؟ …عراق میں عشروں تک جہادکانام لیناجرم تھا …اورپھربتیس ممالک نے مکمل طاقت کے ساتھ عراق کووحشی کتوں کی طرح بھنبھوڑا …اوروہاں اپنی پسند کی حکومت بٹھادی …اور اس حکومت کوپیسے اور اسلحے سے لیس کردیا
…توپھرمجاہدین کے اتنے بڑے لشکر کہاں سے آگئے ؟…سبحان اللہ وبحمدہ سبحان اللہ العظیم …جہاد ایک حقیقت ہے ،جہاد اللہ تعالیٰ کا نہ مٹنے والاحکم ہے …جہاد اللہ تعالیٰ کی ابدی اور دائمی کتاب قرآن مجیدکاموضوع ہے …جہاد میرے آقامدنی صلی اللہ علیہ وسلم کا محبوب عمل ہے …ارے جس جہاد میں حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کا مبارک خون لگا ہو… اس جہاد کو کون روک سکتا ہے؟ …اس جہاد کو کون شکست دے سکتا ہے؟ …ہم ہوں گے یانہیں ان شاء اللہ وہ وقت ضرورآئے گا …جب جماعت کا کوئی دیوانہ مجاہد … گڑھی حبیب اللہ کے قبرستان جائے گا … اور حضرت مولاناعبدالعزیز صاحب ؒ کو فتح کشمیراورفتح ہند کی خوشخبری سنا کر کہے گا …حضرت مبارک ہو!
’’بڑھاپے میں کی گئی آپ کی ہجرت ضائع نہیں گئی ‘‘ …
اس وقت کفر و اسلام کا معرکہ اب اپنے فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہورہا ہے …اور ان شاء اللہ اگلے دس سال میں جہادکامیدان بہت وسیع …اورجہاد کے محاذبہت دور تک پھیل جائیں گے …دشمنان اسلام نے تقریباًیہ تو طئے کرلیاہے کہ …اب خودمسلمانوں کے سامنے نہیں آنا …بلکہ مسلمانوں کو آپس میں لڑا کرمارنا ہے …اسی منصوبے کے تحت طرح طرح کے مضحکہ خیز ’’انتخابات‘‘ ہورہے ہیں … مصر کا دم کٹافرعون ’’السیسی ‘‘صرف آٹھ فیصدووٹ لیکر مصرکاصدر بن چکا ہے … اورحیرت یہ کہ ساری دنیا نے اس کی حکومت اور صدارت کو تسلیم کرلیا ہے … دشمنوں کا یہ قدم مصر ،وادی سینااوردور افریقہ تک جہاد کے نئے محاذ کھولنے کا ذریعہ بنے گا …ادھرشام کابھورادجال’’بشارالاسد‘‘ …اپنے سرکاری اہلکاروں کے ووٹ لیکر تیسری بار اس مقدس سرزمین پرطاعون کا چوہا بن کر ابھرا ہے …امید ہے کہ ا ن شاء اللہ یہ اس کی آخری مدت ہوگی …اور شام کامحاذگولان کی پہاڑیوں سے اترتاہوا … مسجداقصیٰ کے مجاہدین سے جاملے گا …الحمدللہ … آج مسلمانوں کے وجود کوتسلیم کیاجارہا ہے …دشمنان اسلام نے بے پناہ جنگی اورسائنسی طاقت بناکریہ سمجھ لیا تھا کہ …وہ دنیا سے اسلام اورمسلمانوں کا خاتمہ کردیں گے…مگر جب وہ اس امت کے سامنے زمین پر اترے تو …ماشاء اللہ منظر ہی کچھ اور تھا …سبحان اللہ!بیس سال سے جگہ جگہ مسلمانوں پر حملے کئے جارہے ہیں … اور حملے بھی اتحادی …مگرآج تک ایک فتح بھی ان کے کاغذوں میں جگہ نہ پاسکی …شکست جمع شکست جمع ذلت جمع ناکامی …نتیجہ بھاگواور مسلمانوں کو آپس میں لڑاؤ …اب مجاہدین اورعلماء کرام کا یہ کام ہے کہ ایک طرف تووہ خالص شرعی جہادفی سبیل اللہ کی دعوت تیز کردیں …کیونکہ جنگ فیصلہ کن مرحلے میں جانے کو ہے …اوردوسراکام یہ کہ اپنی دعوت میں اس بات کو بھی بیان کریں کہ … مسلمانوں کا خون ایک دوسرے پرحرام ہے …ہاں بیشک …مسلمان کے خون کی حرمت کعبہ شریف کی حرمت سے بھی زیادہ ہے …
لاالہ الااللّٰہ محمدرسول اللّٰہ …لاالہ الا اللّٰہ لاالہ الااللّٰہ لاالہ الااللّٰہ محمدرسول اللّٰہ
اللھم صل علیٰ سیدنامحمدوعلی اٰلہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیماکثیرا کثیرا
٭…٭…٭
ورد السعادۃ
رنگ و نور ۔۔۔سعدی کے قلم سے (شمارہ 449)
اللہ تعالیٰ ہی کے لیے تمام تعریفیں ہیں
الحمد للہ ربّ العالمین
کیا ہمارے دلوں میں اللہ تعالیٰ سے ملاقات کا شوق ہے؟
من اَحبّ لقاء اللّٰہ احبّ اللّٰہ لقائہ
جو اللہ تعالیٰ سے ملاقات کا شوق رکھتا ہے… اللہ تعالیٰ بھی موت کے وقت اُس سے محبت والی ملاقات فرماتے ہیں…
الحمد للہ ربّ العالمین
دن رات میں چوبیس گھنٹے ہوتے ہیں… ان چوبیس گھنٹوں میں کیا صرف ایک لمحہ بھی ہمارے دل میں یہ خیال آتا ہے کہ ہم نے ضرور اللہ تعالیٰ کے پاس جانا ہے؟
ارے بھائیو! اور بہنو!
اللہ تعالیٰ جیسا نہ کوئی مہربان… اللہ تعالیٰ جیسا نہ کوئی حسین، اللہ تعالیٰ جیسا نہ کوئی محبت کرنے والا، اللہ تعالیٰ جیسا نہ کوئی معاف کرنے والا… اللہ تعالیٰ جیسا نہ کوئی قدر اور اکرام کرنے والا… پھر کیا وجہ ہے کہ ہمارے دلوں میں ہر کسی سے ملنے کا شوق ابھرتا ہے مگر اللہ تعالیٰ سے ملاقات کا شوق نہیں ابھرتا… آخر یہ ساری نمازیں کس کے لیے ہیں؟… ساری محنتیں کس کے لیے ہیں… مزدور محنت کرتا ہے تاکہ مالک اُس سے خوش ہو اور اُسے اجرت دے… ہم بھی عبادت کرتے ہیں… کیونکہ معبود کے پاس جانا ہے… اگر ہم اپنے دلوں میں زندہ رہنے کا شوق کچھ کم کردیں… اور ہر نیکی اور عبادت کے بعد اللہ تعالیٰ سے مناجات کیا کریں کہ… یا اللہ! یہ سب آپ کے لیے ہے، آپ مجھے اپنی محبت والی ملاقات کا شوق نصیب فرما دیں… تو یقین کریں ہمارے لیے دنیا کی ہر تکلیف آسان ہوجائے… دنیا انہیں کو زیادہ کاٹتی ہے جو دنیا ہی میں رہنے کا شوق رکھتے ہیں… جو اس دنیا سے بے رغبت ہیں دنیا اُن کے پیچھے دوڑتی ہے…
الحمد للہ ربّ العالمین
سورۂ فاتحہ میں اللہ تعالیٰ نے بڑی تأثیرات رکھی ہیں… ان میں سے ایک تأثیر یہ بھی ہے کہ یہ سورت اللہ تعالیٰ کے غضب سے بچاتی ہے
الحمد للہ ربّ العالمین
اللہ تعالیٰ کے غضب کے خوف سے ساری مخلوق تھر تھر کانپتی ہے… ایک مسلمان اگر اللہ تعالیٰ کے غضب سے بچ کر اسکی رحمت میں آجائے تو اُسے اور کیا چاہیے… اسی لیے بار بار آواز لگائی جارہی ہے کہ… سورۂ فاتحہ کو حاصل کرلیں، سورۂ فاتحہ کو پالیں… یہ جو اس زمانے کے فدائی مجاہدین ہیں… اللہ تعالیٰ اُن کو مزید کامیابیاں عطاء فرمائے… اور سورۂ فاتحہ کی برکت سے اُن کو اور زیادہ فتوحات عطاء فرمائے… سورۂ فاتحہ اور فدائی مجاہدین میں کیا جوڑ ہے یہی بات عرض کرنی ہے… سورۂ فاتحہ میں اللہ تعالیٰ سے ملاقات ہے… بندہ پڑھتا ہے اللہ تعالیٰ سنتے ہیں… اور ہر جملے کا جواب عنایت فرماتے ہیں…
بندے نے کہا… الحمدللہ ربّ العالمین… اللہ تعالیٰ جواب میں فرماتے ہیں حمدنی عبدی… میرے بندے نے میری حمد کی… یہ سلسلہ سورۂ فاتحہ کے آخر تک چلتا رہتا ہے… اُدھر فدائی مجاہدین ہیں وہ بھی اللہ تعالیٰ سے ملاقات کے شوق میں جیتے اور مرتے ہیں…
اللہ تعالیٰ کا ایک سچا بندہ کہہ رہا تھا… بس یہی تمنا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے لیے ٹکڑے ٹکڑے ہو جائوں اور میرے جسم کو جانور کھالیں… ہاں! وہ سچ کہہ رہا تھا اور آج خبر آئی ہے کہ وہ شہید ہو گیا ہے… دیوانہ عاشق اپنے محبوب سے مل چکا ہے
الحمدللہ ربّ العالمین
میں کبھی سوچتا ہوں کہ ان فدائی مجاہدین کا کتنا اونچا مقام ہے؟… اور ان حضرات کا پوری اُمت مسلمہ پر کتنا بڑا احسان ہے؟… یہ نہ ہوتے تو آج دشمنان اسلام مسلمانوں کو کچھ بھی نہ سمجھتے… اور انہیں کافی حد تک مٹا دیتے… جس طرح تاتاریوں نے علاقوں کے علاقے مسلمانوں سے خالی کرا دئیے تھے… اور اُن کا سیلاب روکے نہیں رکتا تھا…
آج کے دشمنان اسلام نے مسلمانوں کے خلاف ایسی جنگی طاقت بنا لی ہے کہ… بظاہر اُس کا مقابلہ ممکن نظر نہیں آتا… ایسے وقت میں تن آسان لوگ دینی کتابوں سے وہ عبارتیں ڈھونڈ لاتے ہیں کہ… جب مقابلے اور مقاومت کی طاقت نہ ہو تو جہاد فرض نہیں ہوتا… تب اللہ تعالیٰ کا ایک سچا عاشق، اللہ تعالیٰ کا فدائی بن کر اُٹھتا ہے اور ایسا کام کرتا ہے کہ… کفار کہنے لگتے ہیں کہ ہمارے پاس ان کا مقابلہ کرنے کی طاقت نہیںہے… سبحان اللہ! ایٹم بموں اور ہائیڈروجن میزائلوں کے مالک… سیاروں، سیارچوں اور بحری بیڑوں کے مالک خود کو… ایک فدائی مجاہد کے سامنے بے بس محسوس کرتے ہیں… تب قرآن مجید کی جہادی آیات مسکرانے لگتی ہیں کہ… اے مسلمانو! جان تو لگا کر دیکھو! جہاد تب بھی ممکن تھا جب بدر کے میدان میں تمہارے پاس مکمل تلواریں نہ تھیں… اور جہاد آج بھی ممکن ہے جب تمہارے پاس غزوہ بدر کے جوان اور کڑیل بیٹے موجود ہیں… ارے جان تو لگائو، اپنے محبوب رب سے ملاقات کا شوق تو دل میں اٹھائو… یہ وہ شوق ہے جو تمہیں پاک کر دیتا ہے… یہ وہ جنون ہے جو تمہیں بہت طاقتور بنا دیتا ہے
الحمد للہ ربّ العالمین…
سورۂ فاتحہ کا ورد جس کا تذکرہ چند کالم پہلے گذر چکا ہے… وہ ’’ورد الغزالی‘‘ حقیقت میں ’’ورد السعادۃ‘‘ ہے… اس ورد کے بارے میں لکھا ہے کہ اسے وہی خوش نصیب شخص اختیار کر تا ہے جو اہل مشاہدہ میں سے ہو… یعنی جس کے دل کی آنکھیں کھلی ہوں… اچھا تو یہ ہے کہ یہ ورد ہمیشہ کیا جائے تاکہ قرآن مجید اور خاص سورۂ فاتحہ کے ساتھ مضبوط ربط اور تعلق نصیب رہے… مگر جن کے پاس فرصت کی کمی ہو وہ کم از کم چالیس دن اسے اپنا معمول بنا لیں… حضرت امام غزالیؒ نے اس ورد کے فضائل اور خواص پر چند اشعار لکھے ہیں… ان میں اس ورد کے جو خواص بیان فرمائے ہیں ان میں سے دس درج ذیل ہیں:
۱۔ رزق کی برکت
۲۔ تمام مقاصد کا حصول
۳۔ کسی سے بھی کوئی معاملہ ہو اسکا حل
۴۔ حوائج کا پورا ہونا
۵۔ دشمنوں اور مخالفوں کی سازشوں سے حفاظت
۶۔ عزت و مرتبے میں ترقی
۷۔ رعب کا نصیب ہونا، دشمنوں پر ہیبت طاری ہونا
۸۔ حفاظت کے پردے نصیب ہونا
۹۔ توفیق اور خوشیوں کا ملنا
۱۰۔ ہر طرح کے شر، تنگی، فقر وفاقہ، حکام کے ظلم سے حفاظت
طریقہ وہی ہے کہ… سورۂ فاتحہ فجر کے بعد تیس بار، ظہر کے بعد پچیس بار، عصر کے بعد بیس بار، مغرب کے بعد پندرہ بار، عشاء کے بعد دس بار…
لاالہ الااللّٰہ،لاالہ الااللّٰہ،لاالہ الااللّٰہ محمدرسول اللّٰہ
اللہم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا
لاالہ الااللّٰہ محمدرسول اللّٰہ
٭…٭…٭
اسلام اور جہاد کی فتح
رنگ و نور ۔۔۔سعدی کے قلم سے (شمارہ 448)
اللہ تعالیٰ کے تمام وعدے سچے ہیں…بالکل سچے،بالکل پکّے…ان وعدوں کے بارے میں شک کرنا محرومی ہے… یا اللہ ہمیں اپنے وعدوں پر ایمان اور یقین نصیب فرما…آمین
تاریخ کی طویل جنگ
ایک طرف دنیا کی بظاہر سب سے بڑی قوت تھی…اور یہ قوت بھی اکیلی نہیں…اس کے ساتھ دنیا کے تین درجن اور ممالک بھی تھے…جبکہ دوسری طرف اکیلی امارت اسلامیہ افغانستان…جی ہاں طالبان…یہ جنگ چودہ سال سے جاری ہے…چودہ سال کی اس لڑائی کے بعد نتیجہ کیا نکلا؟…
آپ نے خبروں میں پڑھ لیا ہو گا
’’امریکہ نے اپنے ایک فوجی کے بدلے پانچ طالبان رہنماؤں کو رہا کر دیا ہے‘‘
سبحان اللہ وبحمدہ،سبحان اللہ العظیم…اللہ اکبر کبیرا
یہ ہے اسلام کی طاقت اور یہ ہے جہاد کی قوت…بظاہر تو یہ لگتا تھا کہ ’’طالبان‘‘ چودہ سال تو دور کی بات چودہ دن بھی مقابلہ نہیں کر سکیں گے…کونسا اسلحہ ہے جو اُن کے خلاف استعمال نہیں ہوا…اور کونسی سازش ہے جو اُن کے خلاف نہیں اُٹھائی گئی…دنیا بھر کے جنگی ماہرین…اور بڑے بڑے جرنیل ہر آئے دن نئے نئے پینترے بدل کر جنگ بھڑکاتے رہے،تدبیریں رچاتے رہے…اور سر کھپاتے رہے…سمندروں میں پہاڑوں کی طرح جمے ہوئے بحری بیڑے … پچاس ہزار فٹ کی بلندی سے تاک کر نشانہ لگانے والے جنگی جہاز…لمحوں اور ذروں کو شمار کر کے اپنے ہدف کو تہس نہس کرنے والے کروز میزائل…میلوں تک ہر چیز کو بھسم کرنے والے ڈیزی کٹر بم…فضاؤں میں راج کرنے والے نگران مصنوعی سیارچے…ہزاروں میٹر کی بلندی پر قائم پیٹرول اسٹیشن طیارے…اپنی مہارت پر ناز کرنے والے خفیہ ادارے…ملکوں کی بساطیں لپیٹنے والے جاسوسی ماہرین…اور وحشی جسم رکھنے والے کمانڈوز…یہ سب استعمال ہوئے اور ناکام ہو گئے…ایمان والوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی نصرت کا وعدہ تھا جو الحمد للہ پورا ہوا…اور چودہ سال کی جنگ سہنے والوں کو ایسی طاقت بخش گیا کہ انہوں نے ایک کے بدلے اپنے پانچ رہنما آزاد کروالئے…
سبحان اللہ وبحمدہ،سبحان اللہ العظیم…اللہ اکبر کبیرا
فتح کے اس موقعہ پر کس کس کو مبارکباد دی جائے…کس کس پیارے فدائی کا تذکرہ مہکایا جائے…قرآن پاک کی کونسی کونسی آیات سنائی جائیں…بہت سی روشن آیات آنکھوں کے سامنے آتی ہیں اور دلنشین انداز سے مسکراتی ہیں…رب کعبہ کی قسم وہ ہو گیا جو کسی دشمن کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا…غامدی کے ایک شاگرد نے موجودہ افغان جہاد کے آغاز میں قرآن مجید کی ایک آیت مبارکہ کا (نعوذباللہ) مذاق اڑایا تھا … غامدی اور اس کے پرستاروں کی نظر امریکہ کی طاقت پر تھی…وہ نیٹو کی قوت پر توکل کر کے بار بار لکھ رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ اب دنیا میں طالبان نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہے گی…وہ ’’بش‘‘ کو سلامیاں پیش کر رہے تھے کہ جلد ان فسادی مجاہدین کو مٹا دو…مگر بش خود مٹ گیا اور اب ابامہ جانے کو ہے…اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَلَا تَھِنُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ
اُحد میں زخم کھانے والو! سست نہ پڑنا،غم میں نہ ڈوبنا، تم ہی غالب رہو گے اگر تم ایمان پر رہے…
غامدی کے شاگردوں نے اس آیت مبارکہ کو بار بار لکھا اور مذاق اڑایا…آج وہ شرم سے کیوں نہیں ڈوب مرتے؟…مگر طاغوت کے پجاریوں کو شرم کہاں؟…سبحان اللہ! اسلام کی شان دیکھیں،جہاد کی زندگی دیکھیں…موجودہ افغان جہاد شروع ہوا تو ’’غزوہ احد‘‘ جیسے مناظر تھے…ہر طرف شہداء کے ٹکڑے، زخمیوں کی آہیں…دربدر بھٹکتے مہاجرین کے قافلے…اور غموں کی برسات… اُن دنوں تو اچھے خاصے لوگ بھی دل ہار گئے تھے… یہی شعبان تھا اور پھر رمضان…افغانستان پر طیارے آگ انڈیل رہے تھے…مجاہدین کے خط اور محاذ ایک ایک کر کے ٹوٹ رہے تھے…مجاہدین کی عورتیں اپنے شیر خوار بچوں کو لے کر صحراؤں اور پہاڑوں میں غم اور حیرت کا مجسمہ بنی آسمان کو تک رہی تھیں…طیاروں کی کارپٹ بمباری سے قافلوں کے قافلے خون میں ڈوب رہے تھے … شمالی اتحاد کا سیلاب کابل پر چھا چکا تھا…معصوم بچے ماؤں کی گود میں بھوکے پیاسے مر رہے تھے… مغربی میڈیا خونخوار شیر کی طرح دھاڑ رہا تھا … اور مجاہدین کے رہنماؤں کا پتا نہیں چلتا تھا کہ کہاں چلے گئے…مجھے آج بھی ان دنوں کے بعض مناظر یاد آتے ہیں تو دل پر غم کی ضربیں لگتی ہیں…غزوہ احد کے بارے میں رب العالمین نے خود فرمایا:
فَاَثَابَکُمْ غَمًّا بِغَمٍّ
کہ تم پر غموں کی بارش ہو چلی تھی…ایک غم پر دوسرا غم اور دوسرے غم پر تیسرا غم…موجودہ افغان جہاد کے آغاز میں اس سے ملتی جلتی صورتحال تھی…حضرت مفتی نظام الدین شامزئیؒ بے چین ہو کر ہمارے مرکز تشریف لائے اور بیان کرتے ہوئے جگر مراد آبادی کے اشعار پڑھ کر رونے لگے ؎
اے خاصہ خاصان رسل وقت دعاء ہے
وہ بلند قامت،بلند ہمت اور زیادہ مسکرانے والے عالم دین تھے…مگر غم ایسا تھا کہ وہ کوہ ہمالیہ بھی آنسوؤں کی آبشار نہ روک سکا…اس وقت ہم سب کا واحد سہارا اللہ تعالیٰ کے وہ وعدے تھے جو ہم نے قرآن مجید میں پڑھے تھے…خود بھی ان وعدوں کو یاد کرتے اور دوسروں کو بھی یہی وعدے سنا کر تسلّی دیتے…اور پھر رمضان المبارک میں خبر آ گئی کہ…امارت اسلامیہ افغانستان کا سقوط ہو گیا…آہ! امارت اسلامیہ افغانستان…مگر رب تعالیٰ کے وعدے مسکرا رہے تھے…اور قرآن مجید کی آیات جہاد چمک رہی تھیں…بے سروسامان مجاہدین نے اپنے بچے کھچے حواس کو سنبھالا اور جس کے ہاتھ میں جو کچھ بھی آیا وہ اسے لے کر ایک اندھیری جنگ میں کود گیا…فضائی بمباری کچھ تھمی اور دشمن زمین پر اترا تو …منظر حیران کن تھا…وہ جو قیمہ ہو چکے تھے اور لہو میں ڈوب چکے تھے…اُن کے فرزند زمین پر دشمن کا استقبال کرنے کو موجود تھے… تب ایک غیر متوازن جنگ شروع ہوئی… ہمارے روشن خیالوں نے اپنی گھڑیوں اور کیلنڈروں کو اُلٹا چلا دیا…یہ جنگ ایک ماہ چلے گی یا پندرہ دن…وہ ایک ایک دن گھٹاتے گئے مگر یہ کیا؟…ہر دن گھٹنے کے ساتھ ان کی اُمیدیں بھی گھٹنے لگیں…سبحان اللہ! مجاہدین نے ایسی جنگ لڑی کہ آسمان بھی جھانک کر دیکھتا ہو گا…سبحان اللہ! فدائیوں نے ایسا جہاد اٹھایا کہ حوریں بھی منظر دیکھنے آسمان پر تشریف لاتی ہوں گی…ایک سال،دوسال، تین سال…کئی جنرل بدل گئے…کئی قید خانے بھر گئے…کئی لشکر آئے اور چلے گئے…مگر کعبۃ اللہ اور مسجد نبوی کے بیٹے آگے ہی بڑھتے گئے…اور قندھار سے لے کر کابل تک…خوست سے لے کر غزنی تک…اور جلال آباد سے لے کر قندوز تک دنیا کے طاقت ور لشکر خود کو ایک تنگ اور اندھیری گلی میں بند محسوس کرتے گئے … ہائے کاش کوئی اس عظیم اور مبارک جہاد کی تاریخ لکھے تو دنیا کا ہر عقلمند شخص مسلمان ہو جائے…اور الحمد للہ اس جہاد کی برکت سے لاکھوں افراد اب تک مسلمان ہو چکے ہیں…خود دشمن کے کئی فوجی مسلمان ہو کر گئے اور ان میں سے بعض آج اسلام کے مبلغ بنے ہوئے ہیں…وہ جہاد جس کا ابتدائی منظر نامہ ’’غزوہ احد‘‘ جیسا تھا آج چودہ برس بعد اس میں سے ’’غزوہ احزاب‘‘ کی خوشبو آ رہی ہے…
دل چاہتا ہے پہلے غزوہ احد والی آیات لکھ دوں…اور پھر غزوہ احزاب والی…ان آیات کو پڑھ کر معلوم ہوتا ہے کہ…جہاد واقعی ایک زندہ عمل ہے…اور قرآن پاک کے جہادی واقعات بار بار…اپنا منظر دکھاتے رہتے ہیں…غامدی اور اس کے شاگردوں کا یہ دعویٰ جھوٹا ہے کہ جہاد کی اکثر آیات رسول اکرم ﷺ کے زمانے کے ساتھ خاص تھیں… انکار ِ جہاد پر یہ دلیل تو مرزا قادیانی کو بھی نہ سوجھی… قرآن مجید قیامت تک کے لئے ہے اور تمام انس و جن کے لئے ہے…جب نماز والی آیات قیامت تک کے مسلمانوں کے لئے ہیں تو جہاد والی آیات بھی قیامت تک کے مسلمانوں کے لئے ہیں…آج کوئی بھی مسلمان غزوہ احزاب والی آیات پڑھ لے اور پھر افغانستان کے حالات دیکھے تو اس کا دل ایمان اور نور سے بھر جائے گا… الحمد للہ اس وقت پندرہ شہروں میں ’’دورہ آیات جہاد‘‘ پڑھایا جا رہا ہے…ماشاء اللہ تین ہزار سے زائد افراد کراچی سے لے کر پشاور تک…اور بہاولپور سے لے کر قلات اور ژوب تک قرآن مجید کی زندہ آیات جہاد کو پڑھ اور سمجھ رہے ہیں…مبارک ہو ان تمام مسلمانوں کو جنہوں نے افغان جہاد میں حصہ لیا…انہیں بھی جنہوں نے اس مبارک جہاد میں جان لگائی اور ان کو بھی جنہوں نے اس جہاد میں مال لگایا…اور انہیں بھی جنہوں نے اس جہاد کے لئے دعائیں اور محبت کے پھول کھلائے رکھے… ماشاء اللہ کسی کی محنت ضائع نہیں گئی…
آج وہ مظلوم شہید کتنے یاد آتے ہیں جنہیں شبرغان اور قندوز میں کنٹینروں میں بند کر کے شہید کیا گیا…اور وہ جو قلعہ جنگی کی جیل میں بمباری سے شہید ہوئے…آج ان شہداء کی ارواح کتنی خوش ہو ںگی کہ…ان کے سپہ سالار حضرت ملا فضل اخوند فاتحانہ رہائی پا چکے ہیں…اس وقت کے دردناک اور خون آشام حالات میں کون اس فتح کا تصور کر سکتا تھا؟؟…مگر اللہ تعالیٰ کے وعدے سچے ہیں…اور اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کے ساتھ دنیا اور آخرت کے جو وعدے کئے ہیںوہ ضرور پورے ہوں گے…
ایک دعاء اپنا لیں
ہمیں ہر دن تین چیزوں کی بے حد ضرورت ہوتی ہے…یہ تین چیزیں مل جائیں تو ہمارا پورا دن کامیاب ہو جاتا ہے…اور اگر کسی دن ہم ان تین چیزوں سے محروم رہیں تو ہمارا وہ دن…یعنی زندگی کا زمانہ (نعوذ باللہ) نا کام ہو جاتا ہے…
ہمارے محسن اور آقا حضرت محمد ﷺ نے ہمیں دعاء سکھا دی ہے اور ان تین چیزوں کی نشاندہی بھی فرما دی ہے…اور انہیں پانے کا طریقہ بھی ارشاد فرما دیا ہے…اور طریقہ یہی ہے کہ ہم ہر صبح دل کی توجہ سے وہ تین چیزیں مانگ لیا کریں…
اَللّٰہُمَّ اِنِّی اَسْئَلُکَ عِلْمًا نَّافِعًا وَّرِزْقًا طَیِّبًا وَّعَمَلًا مُّتَقَبَّلا
یا اللہ میں آپ سے سوال کرتا ہوں…یعنی مانگتا ہوں نفع دینے والا علم…پاکیزہ رزق اور مقبول اعمال سبحان اللہ! کیسی جامع اورکتنی ضروری دعاء ہے…علم نافع، رزق طیب اور مقبول اعمال…ان تین الفاظ کی تشریح کی جائے تو ایک پورا کالم درکار ہو گا…علم، اللہ تعالیٰ کا نور ہے… اور نفع دینے والا علم انسان کو راستہ بھی دکھاتا ہے اور منزل تک بھی لے جاتا ہے…پاکیزہ رزق انسان کی اہم ضرورت ہے…اور رزق میں صرف کھانا پینا اور مال ہی شامل نہیں…بلکہ انسان کو ملنے والی ہر نعمت رزق ہے…یہ رزق پاکیزہ ہو تو انسان کی قسمت جاگ اٹھتی ہے…اور مقبول اعمال کے ہم سب محتاج ہیں…کتنے لوگ طرح طرح کی سخت محنتیں کر کے اعمال کرتے ہیں مگر ان کی محنت رائیگاں جاتی ہے اور کسی وجہ سے اعمال قبول نہیں ہوتے…
فجر کی نماز کے بعد اس دعاء کو دل کی توجہ سے ہم سب تین بار مانگ لیا کریں
اَللّٰہُمَّ اِنِّی اَسْئَلُکَ عِلْمًا نَّافِعًا وَّرِزْقًا طَیِّبًا وَّعَمَلًا مُّتَقَبَّلا…
آمین یا ارحم الراحمین
لاالہ الااللّٰہ،لاالہ الااللّٰہ،لاالہ الااللّٰہ محمدرسول اللّٰہ
اللہم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا
لاالہ الااللّٰہ محمدرسول اللّٰہ
٭…٭…٭
مختصر نصابِ شعبان
رنگ و نور ۔۔۔سعدی کے قلم سے (شمارہ 447)
اللہ تعالیٰ ہم سب کی’’شماتتِ اَعداء‘‘ سے حفاظت فرمائے۔آمین۔
’’شماتتِ اَعداء‘‘کا کیا مطلب ہے؟ہم پر کوئی ایسی حالت یا مصیبت آئے کہ اسے دیکھ کر ہمارے دشمن خوش ہوں اور وہ ہمارا مذاق اڑائیں…اسے کہتے ہیں ’’شماتتِ اَعداء‘‘۔
ہمارے محسن حضرت آقا مدنی ﷺ نے ہمیں حکم فرمایا ہے کہ ہم چار چیزوں سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگا کریں…یعنی یہ دعاء کیا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی پناہ اور امان میں لے کر ان چار چیزوں سے بچائے…وہ چار چیزیں یہ ہیں:
۱۔ جہد البلاء
۲۔ درک الشقاء
۳۔ سوء القضاء
۴۔ شماتۃِ الاعداء
آج ان شاء اللہ کوشش ہو گی کہ ان چار مصیبتوں کی کچھ تشریح آ جائے…پہلے حضرت آقا مدنی ﷺ کا حکم پورا کریں اور یہ دعاء پڑھ لیں…
اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُ بِکَ مِنْ جَہْدِ الْبَلَاء وَدَرَکِ الشَّقَاء وَسُوْئِ الْقَضَائِ وَشَمَاتَۃِ الْاَعْدَاء
یااللہ! میں آپ کی پناہ چاہتا ہوں…سخت آزمائش سے،بد بختی اور بد نصیبی سے، بری تقدیر اور غلط فیصلے سے اور دشمنوں کے خوش ہونے سے…
تشریح تھوڑا آگے چل کر …پہلے اسی حوالے سے ایک اہم بات
جنگ اور جیو والوں کی شامت
پاکستانی میڈیا بہت ظالم ہے مگر اس پوری میڈیا کا فرعون ’’جنگ گروپ‘‘ تھا…یہی گروپ انگریزی اخبار’’دی نیوز‘‘ اور ٹی وی چینل’’ جیو‘‘ چلاتا ہے…یہی گروپ انڈیا کے ساتھ دوستی کے لئے ’’امن کی آشا‘‘ اڑاتا ہے…یہی گروپ اہلِ جہاد کی ہر قدم پر توہین وتنقیص کرتا ہے…جنگ والوں کی گردن یوں اکڑی ہوئی تھی جیسے ان کے گلے میں فرعون کے کنگن ہوں…
ابھی کچھ عرصہ پہلے ہم نے انڈیا کی تہاڑ جیل میں انتہائی مظلومیت کی حالت میں شہید ہونے والے اپنے بھائی محمد افضل گورو شہیدؒ کی یاد میں ایک جلسہ کیا تو…یہی جنگ گروپ کالے اژدھے کی طرح پھنکارنے لگا…کئی دن تک لگاتار ہمارے خلاف پروگرام نشر ہوتے رہے…اور انڈیا والوں کی ترجمانی میں ’’جنگ‘‘اخبار کالا ہوتا رہا…اسی گروپ کے بد دین اور متکبر کالم نویس منہ کھول کر زہر اگلتے رہے اور اسی گروپ کے خبیث النفس اینکر بے چینی اور غصے کی آگ میں منہ سے جھاگ پھینکتے رہے…یہ گروپ خود کو معلوم نہیں کیا سمجھ بیٹھا تھا کہ اچانک ’’ربّ قہار‘‘ کا ایک کوڑا اُن پر ایسا برسا کہ…کل تک ہر ایک کی پگڑی اچھالنے والے آج ہر کسی سے منہ چھپاتے پھر رہے ہیں…ابھی چند دن پہلے ان کا ایک معافی نامہ شائع ہوا اورا ٓج پھر تمام خبروں سے بڑی خبر یہ ہے کہ…جنگ اور جیو نے معافی مانگ لی ہے…سبحان تیری قدرت…وہ جو زمین کی طرف دیکھنا گوارہ نہ کرتے تھے آج زمین پر الٹے لیٹے ایک ایک سے معافیاں مانگ رہے ہیں … ایسی عبرتناک ذلت سے تو موت بہتر تھی مگر ایسے لوگ نہ عزت کا جیتے ہیں نہ عزت کی موت انہیں نصیب ہوتی ہے…حضرت سیدہ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا …اور حضرت سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی بے ادبی تک ان جاہل ظالموں نے اپنے نامہ اعمال میں درج کرا لی…اور اب معافی،معافی،معافی… وہ دوسرے اخبارات اور میڈیا گروپ جو ان کے دشمن تھے…آج منہ پھاڑ کر ان پر ہنس رہے ہیں…یا اللہ بد دینی اور تکبر سے بچا…یا اللہ !’’شماتتِ اعدائ‘‘ سے ہماری حفاظت فرما…
رجب گیا شعبان آیا
آج ستائیس رجب کی رات ہے…یعنی شعبان کے آنے میں صرف دو یا تین دن باقی ہیں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ…اپنے مسلمان بھائیوں اور بہنوں کے لئے شعبان کو پانے کا ایک مختصر سا نصاب عرض کر دیا جائے…
شعبان کے مہینہ کے بارے میں حضرت آقا مدنی ﷺ نے فرمایا ہے کہ…
’’لوگ اس مہینے سے غافل رہتے ہیں‘‘
ارشاد فرمایا:
ذلک شہر یغفل الناس عنہ بین رجب و رمضان
یہ وہ مہینہ ہے رجب اور رمضان کے درمیان کہ لوگ اس سے غافل رہتے ہیں…
اب پہلی نیت تو ہم سب یہ کریں کہ ہم ان شاء اللہ اس مبارک مہینہ سے غفلت نہیں کریں گے بلکہ اسے مسنون اعمال کے ذریعہ قیمتی بنائیں گے…
لیجیے دعا پڑھ لیں:
اَللّٰھُمَّ بَارِکْ لَنَا فِیْ رَجَبَ وَ شَعْبَانَ وَبَلِّغْنَا رَمَضَانْ
دوسری بات اس مبارک مہینہ کے بارے میں حضرت آقا مدنی ﷺ نے یہ ارشاد فرمائی کہ اس مہینہ میں بندوں کے اعمال اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش کئے جاتے ہیں:
ترفع فیہ الاعمال الی رب العالمین
اس لئے ارشاد فرمایا:
فاحب ان یرفع عملی وانا صائم
مجھے یہ بات پسند ہے کہ میرے اعمال اس حالت میں اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش ہوں کہ میں روزے میں ہوں…(النسائی)
آپ حدیث شریف کی کوئی بھی بڑی اور مستند کتاب دیکھ لیں…آپ یہی فیصلہ کریں گے کہ رسول کریم ﷺ سب سے زیادہ نفلی روزے شعبان میں رکھتے تھے…
کبھی پورا مہینہ …اور کبھی اکثر مہینہ… بخاری اور مسلم میں روایات موجود ہیں…
تیسری بات اس مہینہ کے بارے میں آپ ﷺ نے یہ ارشاد فرمائی کہ اس مہینے کے نصف والی رات…یعنی پندرہ شعبان کی رات،اللہ تعالیٰ مسلمانوں کی عمومی مغفرت فرماتے ہیں… بس وہ لوگ مغفرت سے رہ جاتے ہیں جن کے دل میں اپنے مسلمان بھائیوں کے لئے بغض اور دشمنی ہوتی ہے…حسد،بغض اور دشمنی رکھنے والوں کی مغفرت نہیں کی جاتی…یہ مضمون کئی احادیث مبارکہ میں آیا ہے…
چوتھی بات جو اس مہینہ کے بارے میں ارشاد فرمائی ہے…وہ ہے پندرھویں شعبان کا روزہ اور اس سے پہلے والی رات کی عبادت…اس میں کئی علماء کرام کا کہنا ہے کہ اس مضمون کی احادیث ضعیف میں…جبکہ کئی علماء کرام ان روایات کو قابل عمل قرار دیتے ہیں (واللہ اعلم بالصواب)
اب ہمارے علم میں شعبان کے بارے میں کل چار باتیں آ گئیں…پہلی تین باتوں میں کسی کا اختلاف نہیں جبکہ چوتھی بات میں اختلاف ہے…ان تمام باتوں کو سامنے رکھ کر یہ معلوم ہوتا ہے کہ…مسلمانوں کو اس مہینہ میں اپنے اعمال زیادہ بہتر کرنے چاہیں تاکہ وہ رمضان المبارک کو اچھی طرح سے کما سکیں…حضرات صحابہ کرام اور ہمارے اسلاف شعبان آتے ہی چند باتوں کا اہتمام فرماتے تھے…ایک تو روزوں کی کثرت تاکہ رمضان المبارک کے آنے سے پہلے روزوں کی حلاوت اور عادت پا لیں…دوسرا تلاوت کی کثرت…کئی حضرات کے بارے میں آتا ہے کہ شعبان آتے ہی گھروں کے دروازے بند کر کے قرآن مجید میں مشغول ہو جاتے…تیسرا زکوۃ اور صدقات میں اضافہ…تاکہ غربائ،مساکین تک رمضان المبارک سے پہلے رمضان المبارک کا سامان پہنچ جائے…اب ہمارے لئے نصاب آسان ہو گیا…
۱۔ ہم رجب اور شعبان میںبرکت والی دعاء کثرت سے مانگیں:
اَللّٰھُمَّ بَارِکْ لَنَا فِیْ رَجَبَ وَ شَعْبَانَ وَبَلِّغْنَا رَمَضَانْ
۲۔ ہم شعبان میں زیادہ روزے رکھیں یا کم از کم چار روزوں کا اہتمام کر لیں ایک تو یکم شعبان کا روزہ تاکہ مہینہ کا استقبال روزے سے ہو جائے اور ہمارے سال بھر کے اعمال جب اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہوں تو ہم روزے کی حالت میں ہوں…ایک مسلمان روزے کی حالت میں اللہ تعالیٰ کو زیادہ اچھا لگتا ہے …اور تین روزے ایام بیض کے تیرہ،چودہ اور پندرہ شعبان…یہ روزے ہر ماہ مسنون ہیں
۳۔ جن کو صدقہ، خیرات،زکوۃ کی طاقت ہو وہ شعبان میں کچھ صدقہ اور زکوۃ نکال کر ان مسلمانوں تک سامان پہنچائیں جن کی مالی حالت کمزور ہے…اس انتظار میں کہ رمضان المبارک کا صدقہ ستر گنا اجر والا ہوتا ہے ، مال روک کر نہ بیٹھیں رہیں…
اگر ایک مسلمان نے رمضان کا چاند اس حالت میں دیکھا کہ…آپ کے دئیے ہوئے مال یا سامان کی وجہ سے اسے مالی بے فکری حاصل ہوئی تو یہ… آپ کے لئے بہت بڑا ذخیرہ ہو گا…باقی کوئی بھی سارا پیسہ یا سامان ایک دن میں نہیں کھا سکتا…وہ رمضان میں آپ کے مال سے کھائیں گے تو آپ کو رمضان والا اجر بھی مل جائے گا…خصوصاً امت مسلمہ کا سب سے مقرب اور اونچا طبقہ حضرات مجاہدین جو محاذوں اور تربیتوں میں ہوتے ہیں ان تک رمضان المبارک کا سامان پہلے ہی پہنچا دینا چاہیے…
۴۔ اپنی تلاوت میں کچھ اضافہ کریں…اسی طرح نمازوں کا باجماعت اہتمام کریں…
۵۔ جو عید کی خریداری کا شوقین ہو وہ شعبان میں کپڑے وغیرہ سلوا لیں تاکہ رمضان المبارک کے آخری قیمتی دن بازاروں اور درزیوں کے پاس ضائع نہ ہوں…
بس یہ ہے پانچ نکاتی مختصر نصاب…خود بھی عمل کریں اور دوسروں تک بھی پہنچائیں
انفاق فی سبیل اللہ مہم
الحمد للہ ’’جماعت‘‘ جہاد اور خیر کا وسیع کام اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے کر رہی ہے…چاروں طرف اندھیرے اور گمراہیوں کے سمندر ہیں…ان خوفناک سمندروں اور طوفانوں کے بیچ اللہ کے نام اور اللہ کے کام سے وفاداری کرنا…اور امت مسلمہ کو روشنی،عزت،غیرت اور ایمان کے جزیرے پر لانا ایک بڑا عظیم کام ہے…اس وقت بھی ماشاء اللہ دس مقامات پر دورہ تفسیر جاری ہے اور اگلے چند دنوں میں تقریباً تیس مقامات پر یہ دورہ ہو گا…محاذوں کی گرمی،کفالت شہداء کے ٹھنڈے سائے،دعوت کے برستے بادل،تعلیم و تعلم کے انوارات،اصلاح اور تزکیہ کے میٹھے جام…تصنیف و تالیف کی روشنیاں…اور دور دور تک اذانیں سناتیں مساجد…ماشاء اللہ ہر لمحہ خیر،ہر قدم خیر، اور ہر سانس خیر…
اپنی جماعت اور اس کام کی قدر کریں… اخلاص کے ساتھ محنت کریں اور خود اپنا مال اس مبارک کام پر شرح صدر کے ساتھ لگائیں…بیس شعبان سے یہ مہم شروع ہر کر یکم شوال کی مغرب تک جاری رہتی ہے…اللہ والے دیوانے اس مہم میں شعبان بھی پاتے ہیں ، رمضان بھی کماتے ہیںاور عید بھی لگاتے ہیں … آپ سب کے لئے ڈھیروں دعائیں…اور آپ سب کو پیار بھرا سلام… اللہ تعالیٰ آپ کو امت مسلمہ کی طرف سے بہترین جزائے خیر عطا فرمائے…
چار الفاظ کی تشریح
بخاری شریف میں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے…نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
تعوذوا باللہ من جہد البلاء ودرک الشقاء وسوء القضاء وشماتۃ الاعداء
اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگا کرو…جہد البلاء سے، درک الشقاء ہے، سوء القضاء سے اور شماتۃ الاعداء سے…
۱۔ جہد البلاء: ہر ایسی مصیبت،سختی اور تکلیف جس کی انسان میں طاقت نہ ہو… ایسے فتنے جن کے آنے پر انسان موت مانگنے لگے…ایسے امراض جو ناقابل برداشت اور ناقابل علاج ہوں…ایسے قرضے جو کمر توڑ دیں …ایسی خبریں جو غم میں ڈبو دیں…ایسے غم جو خون نچوڑ لیں یا اولاد کی کثرت اور ساتھ مال کی بے حد کمی…
۲۔ درک الشقاء: شقاوت یعنی بد نصیبی،بد بختی … شقاوت ضد ہے سعادت کی اور شقاوت کی دو قسمیں ہیں…پہلی دنیوی شقاوت اور وہ یہ کہ انسان کا دل اور جسم گناہوں میں غرق ہو جائے اور نیک کاموں کی توفیق نہ ملے…اور دوسری اخروی شقاوت کہ کوئی انسان نعوذ باللہ جہنم میں ڈال دیا جائے…
۳۔ سوء القضاء: بری تقدیر،برا فیصلہ…یعنی ایسے حالات من جانب اللہ پیش آئیں کہ جن سے انسان کو نقصان اور تکلیف پہنچے… یا انسان خود کوئی ایسے غلط فیصلے کر بیٹھے جن میں گناہ ہو، ظلم ہو اور دنیا و آخرت کا نقصان ہو… یا انسان کے بارے میں کوئی حاکم یا قاضی ظالمانہ فیصلہ سنا دے…
۴۔ شماتۃ الاعداء: ہر آدمی کے دشمن بھی ہوتے ہیں اور حاسدین بھی…اگر اس انسان پر کوئی ایسی حالت اور مصیبت آ جائے جس سے اس کے دشمن اور حاسدین خوش ہوں اور وہ اس کا مذاق اڑائین تو اسے ’’شماتۃ الاعدائ‘‘ کہتے ہیں…
اندازہ لگائیے حضرت آقا مدنی ﷺ کے ’’احسانات‘‘ کا کہ کیسی عمدہ،جامع اور ضروری دعاء اپنی امت کو تعلیم فرما دی…
صلی اللہ علیہ وسلم، صلی اللہ علیہ وسلم، صلی اللہ علیہ وسلم،
اَللّٰھُمَّ بَارِکْ لَنَا فِیْ رَجَبَ وَ شَعْبَانَ وَبَلِّغْنَا رَمَضَانْ…اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُ بِکَ مِنْ جَہْدِ الْبَلَائِ وَدَرَکِ الشَّقَائِ وَسُوْئِ الْقَضَائِ وَشَمَاتَۃِ الْاَعْدَائْ
آمین یا ارحم الراحمین
٭…٭…٭
مسلمانوں کے لئے دردمندی
رنگ و نور ۔۔۔سعدی کے قلم سے (شمارہ 446)
اللہ تعالیٰ نے رات اور دن کے آنے جانے میں عقل والوں کے لئے بڑی نشانیاں رکھی ہیں…
موہن گیا مودی آیا
انڈیا میں انتخابات ہوئے…نتیجہ وہی آیا جس کا سب کو اندازہ تھا…جمہوری نظام حکومت میں لوگ ہر پانچ سال میں اپنی حکومت سے اکتا جاتے ہیں…کوئی حکومت گھسٹ گھسٹ کر دو باریاں بھی کھیل جاتی ہے…پھر عوام کا رخ کسی نئے تجربے کی طرف ہو جاتا ہے…
حالانکہ انگریزی نظام حکومت میں اصل حکمران… بیوروکریسی،پولیس،عدلیہ اور خفیہ ایجنسیاں ہوتی ہیں…سیاستدان کھانے کمانے آتے ہیں،کچھ لوٹ مار مچاتے ہیں…اپنی باری لوٹتے ہیں اور پھر دوسروں کو موقع دینے کے لئے،پیچھے ہٹ جاتے ہیں … کانگریس نے گذشتہ دس سال انڈیا پر مسلسل حکومت کی …ظاہر بات ہے لوگ تنگ آ گئے تو کانگریس والے خود’’پیچھے ہٹ‘‘ گئے کہ پانچ سات سال بعد لوگ پھر بی جے پی سے تنگ آ کر خود ان کو پکاریں گے…انڈیا میں کانگریس بہت تجربہ کار اور خطرناک پارٹی ہے…اسی پارٹی نے پاکستان کے دو ٹکڑے کئے،اسی پارٹی نے کشمیر کا مسئلہ کھڑا کیا…اسی پارٹی نے حیدر آباد اور جوناگڑھ کے مسلمانوں کا قتل عام کیا اور انہیں بھارت کے ساتھ الحاق پر مجبور کیا…اسی پارٹی نے کشمیر پر جگموہن جیسے درندے کو مسلط کیا…اسی پارٹی نے محمد افضل گورو ؒ کو شہید کیا…اسی پارٹی کے دور اقتدار میں بی جے پی نے بابری مسجد شہید کی اور کانگریس کی وفاقی حکومت درپردہ ان کی مدد کرتی رہی…لوگ انڈیا کی داخلی سیاست کو نہیں سمجھتے اسی لئے وہ ’’مودی‘‘کے آنے کو بڑا خطرہ سمجھ رہے ہیں…بے شک مودی بھی خطرہ ہے مگر کانگریس جیسا نہیں…وہ کم عقل،جذباتی اور آمرانہ طبیعت کا بے وقوف انسان ہے…
انڈیا کے ارب پتی اپنے تجارتی مفادات کے لئے اسے لائے ہیں…وہ مسلمانوں کا کھلم کھلا دشمن ہے مگر وزیر اعظم کی کرسی بڑی مجبورکرسی ہوتی ہے…اب وہ گجرات جیسی غنڈہ گردی نہیں کر سکتا…واجپائی اور ایڈوانی بھی مسلمانوں کے خطرناک دشمن تھے…مگر مسلمان کوئی کچی دیوار تو نہیںکہ جو چاہے گرا دے … انڈیا کے مسلمان ہندوستان کے حکمران تھے…ہزار سال انہوں نے حکومت کی … اب چھیاسٹھ سال سے غلامی میں ہیں مگر زندہ ہیں … کانگریس کی دشمنی ’’نفاقی‘‘ تھی،جبکہ بی جے پی کی دشمنی کھلم کھلا ہے…بی جے پی والے مسلمانوں کے خلاف جو کچھ بھی کریں گے …اس کا انہیں ان شاء اللہ بہت کرارا جواب ملے گا …جس لشکر کا سربراہ ابو جہل جیسا کھلم کھلا دشمن ہو مسلمان اس لشکر کو کسی اندھے کنویںمیں ڈالنے کا ہنر جانتے ہیں…اخبارات و رسائل میں ’’مودی‘‘ کے حوالے سے خوف کی جو فضا بنائی جا رہی ہے…وہ درست اور اچھی نہیں…کیا من موہن مسلمانوں کا دوست تھا ؟ …کیا راہل گاندھی سے خیر کی کوئی توقع تھی؟…مودی جب گجرات میں مسلمانوں کو کاٹ رہا تھا…تو اس کے کچھ عرصہ بعد ہی کانگریس کے دور اقتدار میں مظفر نگر اورآسام کے مسلمان ذبح ہو رہے تھے…اس لئے مودی کے آنے پر خطرے کی گھنٹیاں بجانے کا کوئی عقلی جواز نہیں ہے…ہاں رات دن کے آنے میں عقل والوں کے لئے بڑے سبق اور بڑی نشانیاں ہیں … انڈیا والوں نے مسلمانوں کے قاتل کو اپنا وزیر اعظم بنایا ہے…مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ قاتلوں کا علاج کرنے والے فریضے ’’جہاد فی سبیل اللہ‘‘ کی طرف متوجہ ہوں…جہاد فی سبیل اللہ کے سامنے کوئی مودی اور کوئی موذی نہیں ٹھہر سکتا…جہاد فی سبیل اللہ کے خلاف اس وقت سازشیں زوروں پر ہیں اور یہ منحوس کاوشیں اب ان لوگوں میں بھی گھس آئی ہیں جو ’’اپنے ‘‘ کہلاتے ہیں…حال میں گوجرانوالہ سے شائع ہونے والے ماہنامہ ’’الشریعہ‘‘ نے ’’جہاد فی سبیل اللہ‘‘ پر اپنا ایک ’’ضخیم نمبر‘‘ شائع کیا ہے…ایک دردمند عزیز نے یہ ’’جہالت نامہ‘‘ مجھے بھی بھیج دیا ہے…نام تو اس کا ’’جہاد فی سبیل اللہ نمبر‘‘ ہے مگر حقیقت میں یہ ’’انکار جہاد نمبر‘‘ ہے…اول تا آخر تقریباً شر ہی شر اور لفاظی کا فضول کھیل…اکثر لکھنے والے وہ ہیں جنہیں کبھی’’جہاد فی سبیل اللہ‘‘ کا مبارک غبار اور معطر جھونکا نصیب نہیں ہوا…اورنہ ان کی زندگی کے منشور میں ایک لمحہ کے لئے ’’جہاد فی سبیل اللہ‘‘ میں نکلنے کا ارادہ یا نیت شامل ہے…
انہوں نے کتابوں کی ورق گردانی کی اور جو مواد انہیں مسلمانوں کو جہاد سے روکنے کے لئے مل سکا اسے جمع کر دیا…اللہ تعالیٰ امام اہلسنت حضرت مولانا سرفراز صفدر صاحب نور اللہ مرقدہ کو غریق رحمت فرمائے…انہوں نے چند صفحات پر مشتمل ایک رسالہ’’شوق جہاد‘‘ تحریر فرمایا تھا…اس رسالے کو جو بھی پڑھتا ہے کم از کم اس کے دل میں جہاد فی سبیل اللہ کا شوق ضرور ابھرتا تھا…اور ایک مومن کے لئے جہاد فی سبیل اللہ کا شوق لوازم ایمان میں سے ہے…ایسا شخص جو نہ جہاد میں نکلے اور نہ اس کے دل میں جہاد کا شوق ہو وہ منافقت کے ایک شعبے پر مرتا ہے…یعنی نعوذ باللہ حسن خاتمہ سے محروم رہتا ہے…ماہنامہ الشریعہ کے مدیر صاحب حضرت امام اہلسنتؒ کے پوتے ہیں…ان کا نسبی رشتہ حضرت امام اہلسنت سے جبکہ فکری شجرہ ’’غامدی‘‘ سے جڑا ہوا ہے…اللہ تعالیٰ بے نیاز ہے،وہ زندہ سے مردہ اور مردہ سے زندہ کو پیدا فرماتا ہے…فتنۂ غامدی جو اس وقت پاکستان میں سرگرم ہے…اس فتنے کا اصل مقصد مسلمانوں کو احساس کمتری میں مبتلا کر کے…انہیں کفار کی بدترین ذہنی غلامی میں دھکیلنا ہے…اس فتنے کی کئی شاخیں ہیں اور ان میں سے ایک شاخ کا کام اہل علم اور اہل عمل کو لفظی بحثوں میں الجھانا ہے…جہاد فی سبیل اللہ جیسے اسلام کے محکم اور قطعی فریضے پر یہ ’’خصوصی نمبر‘‘بھی اسی کوشش کا حصہ ہے…ممکن ہے کوئی بد نصیب انسان اسے پڑھ کر جہاد سے دور ہو…ورنہ اس میں نہ کوئی دلیل ہے اور نہ کوئی عقلی روشنی…جہاد فی سبیل اللہ کے تمام فضائل،احکامات اور طریقے قرآن مجید نے سکھا دئیے ہیں…حضور اقدس ﷺ کے مبارک غزوات، قرآن مجید کی دعوت جہاد کی عملی تفسیر ہیں…اب جو مسلمان سورۃ انفال پڑھ لیتا ہے یا سورۃ توبہ اور سورۃ محمد کو سمجھ لیتا ہے…اس پر کسی قادیانی،کسی غامدی یا کسی ناصری کا جادو کہاں چل سکتا ہے؟…
جو مسلمان غزوہ بدر،غزوہ احد اور غزوہ احزاب و تبوک کے پُرنور سمندر میں غوطہ لگا آتا ہے اس پر منکرین جہاد کی بدبودار تحریروں کا کہاں اثر ہوتا ہے؟…یہ بے چارے خود کو خوامخواہ تھکا رہے ہیں…جہاد کی شمع الحمد للہ ایسی روشن ہو چکی ہے کہ اب مشرق تا مغرب فدائی مجاہدین کے طوفانی ریلے ہیں…الشریعہ کے اس نمبر سے اس کے مدیران گرامی بس یہی فائدہ اٹھا سکتے ہیں کہ وہ اسے امریکن،برٹش یا انڈین سفارت خانے میں بھیج کر …وہاں سے شاباش،ویزے اور کچھ مراعات لے لیں گے…اور بس…اور شائد ان بے فکرے مفکرین کو اس دنیا میں یہی کچھ درکار ہے…انہیں نہ امت مسلمہ کا غم ہے اور نہ اسیران اسلام کا درد…وہ نہ عافیہ صدیقی کو اپنی بہن سمجھتے ہیں…اور نہ انہیں بابری مسجد اور مسجد اقصی کی کوئی فکر ہے…اس موقع پر مجھے امام العارفین حضرت خواجہ عبید اللہ احرار نقشبندؒ یاد آ رہے ہیں … سبحان اللہ…حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے خاندان سے امت مسلمہ کو کتنا نفع پہنچا…ابھی ہمارے ماہنامہ المرابطون کے حجۃ الاسلام نمبر میں آپ نے پڑھ لیا ہو گا کہ …حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ بھی حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے مبارک خاندان سے تھے…حضرت خواجہ عبید اللہ احرار نقشبندؒ کا سلسلہ نسب بھی حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ تک پہنچتا ہے…آپ ۸۰۶ھ تاشقند میں پیدا ہوئے…آپ نے ثمرقند کو اپنا مسکن بنایا اور وہیں مدفون ہوئے…بندہ کو ان کی قبر پر حاضری کی سعادت حاصل ہوئی ہے حضرت خواجہ صاحبؒ کو اللہ تعالیٰ نے تحریر و بیان میں عجیب تاثیر سے نوازا تھا…
آپ فرماتے تھے:
’’بزرگوں کی خدمت سے مجھے دو چیزیں عطاء ہوئیں، ایک یہ کہ جو کچھ لکھوں اس میں نیا پن ہو،دوسرا جو کچھ کہوں پسندیدہ ہو‘‘
آپ پہلے بہت غریب تھے…پھر اللہ تعالیٰ نے بے حد و بے حساب مال و دولت عطاء فرمایا…غربت میں تھے تب بھی امانت اور سادگی پر مضبوط رہے…اور جب بڑے مالدار ہو گئے تب بھی امانت و سادگی وہی رہی … البتہ سخاوت ایسی بڑھی کہ دین کا کام کرنے والے فقراء کے مزے ہو گئے…حضرت خواجہ صاحبؒ ان کی خدمت کرتے،ان کے تمام اخراجات اٹھاتے اور ان کے لئے دین کے کاموں میں آسانی کے لئے اسباب فراہم کرتے…آپ بڑی ہمت والا اس کو سمجھتے تھے جس کے پاس دنیا ہو مگر پھر بھی وہ اللہ تعالیٰ سے غافل نہ ہو اور دنیا کی محبت اس کے دل میں نہ اترے…
بندہ کو حضرت خواجہ صاحبؒ سے خاص عقیدت و محبت والا تعلق ہے…اس لئے ان کا تذکرہ آیا تو اب دل چاہتا ہے کہ اسی میٹھے تذکرے میں لگا رہوں…مگر آج موضوع کچھ اور ہے …اور اسی کی مناسبت سے حضرت خواجہ صاحب نوراللہ مرقدہ کا ایک فرمان سنانا ہے … آپ فرماتے ہیں:
’’اگر ہم پیری مریدی کرتے تو اس عہد (یعنی زمانے) میں کسی( اور) پیر کو کوئی مرید نہ ملتا،لیکن ہمارے ذمے یہ کام لگایا گیا ہے کہ ہم مسلمانوں کو ظالموں کے شر سے محفوظ رکھیں‘‘
حضرات مفسرین کرام نے جہاد کے مقاصد اور اہداف میں سے ایک یہ بھی لکھا ہے کہ مسلمانوں کی ظالم دشمنوں سے حفاظت رہے…حضرت خواجہؒ اپنے زمانے کے مسلمان حکمرانوں کو اس طرف متوجہ فرماتے رہتے تھے…آپ نے اپنے ایک ارادتمند بادشاہ کو یہاں تک لکھا کہ…آپ کے لئے نماز کے بعد سب سے اہم کام یہ ہے کہ آپ مسلمانوں کی حفاظت کے لئے پوری ہمت اور محنت صرف کریں اور ان کے دشمنوں کا مکمل طاقت اور سختی کے ساتھ مقابلہ کریں…
جہاد کے خلاف امریکی اور انڈین فنڈ سے چلنے والے اداروں،رسالوں اور افراد کے لئے…یہ ضروری اطلاع ہے کہ آج سے صرف چار دن بعد الحمد للہ پورے ملک میں…تقریباً تیس مقامات پر آیات جہاد کا دورہ تفسیر شروع ہو رہا ہے…تین مرحلوں میں مکمل ہونے والے اس دورے میں ان شاء اللہ ہزاروں مسلمان مرد اور خواتین شریک ہوں گی…اور یہ سب جہاد کے بارے میں نازل ہونے والی قرآنی آیات کا ترجمہ اور تفسیر پڑھیں گے…غزوات النبی ﷺ کے پُر کیف مناظر یاد کریں گے…اور عصر حاضر میں جاری جہاد کا ماضی کے ساتھ رشتہ سمجھیں گے…ان تفسیری اسباق کی صوتی ریکارڈنگ بھی ہوتی ہے…اور دنیا بھر کے مسلمان اسے سنتے،سمجھتے اور مانتے ہیں…اور الحمد للہ بہت سے مسلمان اس پُرتاثیر دعوت کی برکت سے عملی جہاد میں بھی شریک ہوتے ہیں…جماعت کے ذمہ داروں اور کارکنوں سے تاکیدی گزارش ہے کہ …اس سال ’’دورات تفسیر‘‘ کے لئے پہلے سے زیادہ محنت کریں…تاکہ ’’انکار جہاد‘‘ کا فتنہ اپنی ناکامی خود اپنی آنکھوں سے دیکھ لے…
لا الہ الا اﷲ، لا الہ الا اﷲ، لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ…
اللھم صل علیٰ سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا…
لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ…
٭…٭…٭
ایک آنسو کا سؤال
رنگ و نور ۔۔۔سعدی کے قلم سے (شمارہ 445)
اﷲ تعالیٰ کا’’خوف‘‘اُن خوش نصیبوں کو ملتاہے جنہوں نے جہنّم میں کبھی نہیں جلنا… کبھی نہیں جلنا…
اَللّٰھُمَّ اَجِرْنَا مِنَ النَّار
کبھی کباب والی دکان پر انگاروں پرپکتاہوا گوشت دیکھا ہے؟ کبھی سجّی کی دکان پر آگ کی تپش سے نرم ہوتی مرغیوں کو دیکھا ہے؟
دنیا کی آگ تو کچھ نہیں… وہ کیسا منظر ہوگا جب زندہ انسانوں کو زنجیروںمیں پرو کر جہنم کی خوفناک آگ پر رکھ دیا جائے گا:
ذُوْقُوْا عَذَابَ الْحَرِیْقِ
اﷲ تعالیٰ نے اعلان فرما دیا:
’’جواپنے رب سے ڈرے گا اُسے دو جنتیں ملیں گی‘‘
مگر دل کی سختی، دل کی قساوت، دل کا زنگ ہمیں… اﷲ تعالیٰ سے ڈرنے نہیں دیتا اور ہماری آنکھیں اُن آنسوؤں سے محروم ہیں، جو آنسو جہنّم سے بچا لیتے ہیں…
ارشاد فرمایا:
اﷲ کے ڈر سے رونے والا جہنم میں نہیں جائے گا یہاں تک کہ دودھ تھنوںمیں واپس چلا جائے(ترمذی)
جس طرح دودھ کا تھنوں میں واپس جانا ناممکن… اسی طرح اُس خوش نصیب کا جہنم میں جانا ناممکن… جو اللہ تعالیٰ کے خوف سے روتا ہو…
یا اللہ… اے عظیم ربّ! ایک آنسوکا سؤال ہے…
ویسے تو ہم بہت روتے ہیں،صبح شام اور دن رات روتے ہیں… خواتین تو فلموں میں جذباتی مناظر دیکھ کر بھی رو پڑتی ہیں… مگر کہاں ہیں وہ مقدس آنسو… جنہیںشہید کے خون کے ساتھ بیان فرمایا گیا… کہاں ہیں وہ گرم اورمیٹھے آنسو… جن کے برسنے سے پہلے دل میں حرارت آتی ہے…
…’’ یا اللہ! ایک آنسو کا سؤال ہے‘‘…
وہ آنسو جو یا اللہ! آپ کے لئے ہو… صرف آپ کے لئے… جو آپ کی عظمت کے اظہار میں آپ کے خوف اور آپ کی خشیت سے گرا ہو…
یہ دیکھیں ایک مجلس برپا ہے… دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کیا کبھی ہمیں بھی آج کل ایسی کوئی مجلس ملتی ہے؟… ہماری مجالس میں یا غیبت ہے یا جھوٹ… یا چغل خوری ہے یا فخر… تکبر کا اظہار ہے یا بے حیائی…
’’ یا اللہ! ایسی مجالس سے بچا لیجئے‘‘
حضرت سیدناانس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
حضرت آقا مدنیﷺ نے خطبہ ارشاد فرمایا:
میں نے تو اس سے پہلے کبھی ایسا خطبہ نہیں سنا تھا… آپﷺ نے ارشاد فرمایا:
(اے میرے صحابہ) اگر آپ لوگ وہ جان لیں جو میں جانتا ہوں تو پھر بہت کم ہنسو گے اور زیادہ روؤ گے… آپﷺ کا یہ فرمان سن کر حضرات صحابہ کرام نے اپنے چہرے ڈھانپ لئے اور بلک بلک کر رونے لگے… (بخاری)
اللہ اللہ… حضرت آقا مدنیﷺ کی مجلس تو صحابہ کرام کی قسمت میں تھی مگر آپﷺ کے ورثاء تو موجود ہیں… وہ جو ڈراتے بھی ہیں اور امید بھی دلاتے ہیں… وہ جن کے اپنے دل پاک ہیں… ہائے کاش کبھی کبھار ہی سہی… ہماری مجالس کا رنگ بھی ایسا ہو جائے… ہم تو اپنی ہر مجلس میں اپنے ٹوٹے پھوٹے اعمال کی بھری بوریوں کو بھی آگ لگا دیتے ہیں… ارے بھائیو! اور بہنو… ہمارے دل کالے ہو گئے… وہ دیکھو! جو اللہ تعالیٰ کو جتنا پہچانتا ہے…جو اللہ تعالیٰ کو جتنا جانتا اور جتنا مانتا ہے… اسی قدر وہ خوف سے تھر تھر کانپتا ہے… قرآن مجید میں دیکھو… فرشتے اللہ تعالیٰ کے خوف سے لرز رہے ہیں… حضرات انبیاء علیہم السلام اللہ تعالیٰ کے خوف سے روتے ہوئے سجدوں میں گرے پڑے ہیں… اور بالکل واضح سمجھا دیا کہ… جس میں اللہ تعالیٰ کا خوف نہیں اس کے دل میں گویا ایمان ہی نہیں…
’’ یا اللہ! ایمان کا سؤال ہے… یا اللہ! آپ کے خوف سے بہنے والے آنسو کا سؤال ہے‘‘
آج کل عمل بہت کم اور دعوے بہت اونچے ہیں…اب حال ہی میں میلسی میں ایک ملعون نے نبوت کا دعویٰ کر دیا… ابھی جیل میں پڑا ہے… اللہ کرے جلد مُردار ہو کر زمین کے شکنجے میں جکڑا جائے… مہدی کادعویٰ کرنے والے تو اتنے ہو گئے جتنے گیس کے سلنڈر… ناپاک لوگ، صبح شام غلاظتوں میں اور دعوے امام مہدی ہونے کے… مصر میں ایک نے مہدی ہونے کا دعویٰ کر دیا ہے… یمن میں ایک بڑا نقلی مہدی بیٹھا ہے… پاکستان میں ہر چوتھے روز اسی طرح کے دعوے… ہائے دلوں کی سختی ہائے دنیا کی محبت… جہاں دیکھو! بس بیوٹی پارلروں کے بورڈ ہیں… جہاں دیکھو! اندرونی بیرونی صحت کے راز ہیں… کوئی نہ اپنی شکل سے مطمئن نہ کوئی اپنے قد سے مطمئن… کبھی ایک منٹ بھی اس کی فکر ہوئی کہ آگے چل کر اللہ تعالیٰ سے ملاقات ہے… اتنے عظیم شہنشاہ کے پاس لیجانے کے لئے ہمارے پاس کیا ہے؟
حضرت جبرئیل امین جیسا عظیم الشان فرشتہ… اللہ تعالیٰ کے خوف سے چڑیا کی طرح کانپتا ہے… حضرت آقا مدنیﷺ سے وعدہ تھا کہ آپ بخشے بخشائے ہیں مگر رات کو یوں روتے کہ سینہ اقدس سے ہانڈی ابلنے جیسی آواز آتی… اماں جی عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں… ایک رات وضو اور نماز کے بعد حضرت آقا مدنیﷺ اتنا روئے کہ دامن مبارک آنسوؤں سے بھیگ گیا… پھر بھی گریہ جاری رہایہاں تک کہ داڑھی مبارک مکمل بھیگ گئی… مگر آنسو جاری رہے یہاں تک کہ سامنے والی زمین بھی بھیگ گئی…
’’ یا اللہ! دل کے نور کا سؤال ہے، یا اللہ! ایک آنسو کا سؤال ہے‘‘
اندھے دل کیا جانیں کہ اللہ تعالیٰ کی عظمت کیا ہے… اللہ تعالیٰ کا جلال کیا ہے… اللہ تعالی کا قہر کیا ہے… اللہ تعالیٰ کا غضب کیا ہے… اللہ تعالیٰ کی رحمت کیا ہے… کبھی آپ نے قرآن مجید میں… سورۂ ابی لہب پڑھی… حضرت آقا مدنیﷺ کا چچا آگ میں جل رہا ہے… ارے مالک کا غضب آجائے تو پھر کون بچ سکتا ہے…
اَللّٰھُمَّ اَجِرْنَا مِنَ النَّار… اَللّٰھُمَّ اَجِرْنَا مِنَ النَّار
دنیا کی محبت، فیشن کی محبت، دنیا داروں کی محبت… زیادہ جینے کا شوق، ظاہری ٹیپ ٹاپ… اور پروٹوکول کا شوق… یہ سب کچھ دل پر زنگ لگا دیتا ہے… اب زنگ آلود دل اللہ تعالیٰ کو کیسے پہچانے؟… ارے بھائیو! اور بہنو! چھوڑو میک اپ، چھوڑو فیشن، چھوڑو مال جمع کرنا… اگر اپنے مالک کو راضی کرنا ہے تو بس دو قطروں کو حاصل کرنے کی فکر میں لگ جاؤ
ارشاد فرمایا:
دو قطروں سے زیادہ اللہ تعالیٰ کوکوئی چیز محبوب نہیں… ایک آنسو کا قطرہ جو اللہ تعالیٰ کے خوف سے ٹپکا ہو… اور ایک خون کا قطرہ جو جہاد فی سبیل اللہ میں بہا ہو…(ترمذی)
’’ یا اللہ! دو قطروں کا سؤال ہے… ایک آپ کے خوف کا آنسو اور ایک آپ کے لئے شہادت کا خون‘‘
دل سخت ہو جاتے ہیں تو شیطان کا اُن پر قبضہ ہو جاتا ہے…پھر شیطان طرح طرح کے دعوے کراتا ہے… تم ایسے ہو اور تم ویسے ہو…
کسی کو محقق ہونے کا زعم، کسی کو بڑا مجاہد ہونے کادعویٰ… کسی کو مجتہد ہونے کا وہم اور کسی کو مہدی ہونے کا شبہ…
… یا اللہ! ہمارے دلوں کو ایمان اور ہدایت دے دیجئے…
یاد رکھیں جو آپ کو اللہ تعالیٰ کی طرف نہ بلائے بلکہ… اپنی ذات کی طرف بلائے اس سے دور رہیں اور اُس سے کٹ جائیں… جو آپ کے دل میں اللہ تعالیٰ کا خوف پیدا کرنے کی محنت نہ کرے بلکہ آپ کو غیبت اور دیگر گناہوں میں لگا کر آپ کے دل کو کالا کرے اُس سے کٹ جائیں، اُس سے دور ہو جائیں… جماعتوں میں اچانک شیطان کسی کو بہکاتا ہے اور پھر وہ موبائل اٹھا کر… دوسروں کے دل کالے کرنے لگتا ہے… پہلا جملہ یہ ہوتا ہے کہ… یار میرا تو سر پھٹ رہا ہے… آخر یہ سب کچھ کیا ہو رہا ہے؟… ہاں! جب تیرے سر سے ایمان نکلا اور اُس پر شیطان آبیٹھا تو اب اس سر نے پھٹنا ہی ہے… ہائے کاش تو اس ظالم خنّاس کا شکار ہونے سے پہلے… اللہ تعالیٰ کی طرف دوڑپڑتا… تو اپنے گناہوں کو یاد کرتا… تو دوسروں کے عیب دیکھنے کی بجائے اپنے کالے گناہ یاد کر کے بلک بلک کر روتا تو تیرا سر نہ پھٹتا… آپ سے جوبھی اسی جملے سے بات شروع کرے، اُسے کہیں… ارے ظالم! تیرا سر پھٹ رہا ہے تو پھٹ جائے تو میرا ایمان کیوں پھاڑتا ہے؟… اسی طرح جو بھی اپنی ذات کے بارے میں اونچے اونچے دعوے کرتا ہو اُس سے دور رہیں… بڑائی،عظمت اور کبریائی اللہ تعالیٰ کے لئے ہے… اللہ تعالیٰ کے سچے بندے دعوے نہیں کرتے بلکہ وہ تو اللہ تعالیٰ کے خوف اور ڈر سے تھر تھر کانپتے رہتے ہیں
اِنَّمَا یَخْشَی اللّٰہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمَاء
یہ دیکھو: حضرت سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ جیسے جلیل القدر صحابی دھاڑیں مار مار کر رو رہے ہیں…اُن سے عرض کیا گیا کہ کس بات پر اتنا رونا آرہا ہے… فرمایا: اللہ تعالیٰ نے دو مٹھیاں بھریں… ایک مٹھی میں جو لوگ آئے اُن کو جنت میں داخل فرمادیا اور دوسری مٹھی میں جو آئے اُن کو جہنم میں ڈال دیا…مجھے کیا معلوم کہ میں کونسی مٹھی میں ہوں؟… یہ دیکھو! حضرت آقا مدنیﷺ کے محبوب نواسے حضرت سیدنا حسن رضی اللہ عنہ رو رہے ہیں… وجہ پوچھی گئی تو فرمایا:
میں ڈرتا ہوں کہ کہیں کل قیامت کے دن اللہ تعالیٰ مجھے جہنم میں نہ پھینک دے اور پرواہ بھی نہ فرمائے
’’ یا اللہ! ایک آنسو کا سؤال ہے‘‘
ایک بار جمعہ کے لئے مسجد جانا ہوا ، ابھی مسجد کھلی نہ تھی ایک معذور بزرگ سیڑھیوں میں بیٹھے تھے… ٹانگ سے بھی معذور اور بازو بھی ٹوٹا ہوا… دوسرے ہاتھ میں تسبیح تھی اور چہرے پر اطمینان اور زبان رواں دواں اپنے خالق کی یاد میں… بندہ بھی اُن کے ساتھ بیٹھ گیا… وہ مسجد کھلنے کے انتظار میں تھے… تھوڑی دیر میں اُن سے کچھ تعلق بنا تو انہوں نے دعا دی
’’اللہ تعالیٰ ایمان نصیب فرمائے‘‘
میں حیرانی اور سکتے میں آگیا… پہلے تو دل ڈرا کہ شائد اُن کو کشف ہوا کہ میں ایمان سے محروم ہوں…یہ سوچ کر ہاتھ پاؤں ٹھنڈے ہو گئے… اس سے پہلے کبھی زندگی میں یہ دعاء کسی نے اس طرح نہ دی تھی… تھوڑی دیر کی پریشانی کے بعد اندازہ ہوا کہ وہ جس سے بھی شفقت فرماتے ہیں، یہی قیمتی دعاء دیتے ہیں… پھر یہ دعاء محبوب بن گئی… میں اُن کی تلاش میں رہتا اور ملاقات کے بعد دھڑکتے دل کے ساتھ اسی دعاء کا انتظار کرتا… اور پھر میں نے بھی اپنے اہل محبت کو یہی دعا دینا شروع کر دی… بے شک ایمان والوں کو یہی حکم ہے کہ وہ ایمان مانگا کریں اور مرتے دم تک مانگتے رہیں… بے شک ایمان ہی سب سے قیمتی اور سب سے اونچی نعمت ہے… ایمان مل جائے تو پھر اور کیا چاہئے؟…اور قرآن پاک ایمان والوں کی صفات بار بار سمجھاتا ہے کہ…
وہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہیں… وہ اللہ تعالیٰ کے خوف سے روتے ہیں، صدقہ دیتے وقت بھی اُن کے دل اس خوف سے کانپ رہے ہوتے ہیں کہ کل انہوں نے اپنے رب کی طرف لوٹنا ہے…وہ قرآن پاک سن کر روتے ہیں اور جب اُن کے سامنے اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا جاتا ہے تو اُن کے دل ڈر جاتے ہیں… جی ہاں! اللہ تعالیٰ کی عظمت کے رعب سے اُن کے دل دب جاتے ہیں…
اِذَا ذُکِرَ اللّٰہُ وَجِلَتْ قُلُوْبُھُمْ
بھائیو! اللہ تعالیٰ نے کتنی اچھی دعوت اور کتنا اونچا کام اپنے فضل سے عطاء فرما دیا… ایمان کی دعوت، اقامت صلوٰۃ کی دعوت… اور جہاد فی سبیل اللہ… خود بھی عمل دوسروں کو بھی پکارنا… خود بھی محنت اور دوسروں کی بھی فکر… بس زندگی مختصر ہے… چندسانس باقی ہیں… اس کام کی قدر کرو، مایوسیاں، بے چینیاں،غیبتیں اور عدم تحفظ کے گندے خیالات جھٹک کر… اللہ تعالیٰ کے سامنے جھک جاؤ… اس کے خوف سے آنسو بہاؤ… اور اس کی رضاء کے لئے جان توڑ محنت میں لگ جاؤ…
لا الہ الا اﷲ، لا الہ الا اﷲ، لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ…
اللھم صل علیٰ سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا…
لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ…
٭…٭…٭
مقامِ خوف
رنگ و نور ۔۔۔سعدی کے قلم سے (شمارہ 444)
اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں:
وَاِیَّایَ فَارْھَبُوْنِ
صرف مجھ ہی سے ڈرو…
جی ہاں! صرف اﷲ تعالیٰ سے ڈرو اور کسی سے نہیں…
آج کئی باتیں کرنے کا ارادہ ہے… ان شاء اللہ… مگر آغاز رجب کی دعاء سے کر لیتے ہیں… آئیے پڑھ لیں اور دو ماہ تک پڑھتے اور مانگتے رہیں:
اَللّٰھُمَّ بَارِکْ لَنَا فِیْ رَجَبَ وَ شَعْبَانَ وَبَلِّغْنَا رَمَضَان
سبحان اﷲ! رمضان المبارک کی خوشبو اور مٹھاس ابھی سے محسوس ہونے لگتی ہے…
ایک نظر دنیا پر
٭…افغانستان میں انتخابات کا دوسرا مرحلہ شروع ہونے جارہا ہے… دونوں امیدوار کافی خطرناک ہیں… اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو مسلمان حکمران عطاء فرمائے…
٭…انڈیا میں انتخابات کا شور، مسلمانوں کا آسام میں بہتا ہوالہو… غلاظت بکتا ہوا نجس و ناپاک’’مودی‘‘… بڑھکیں مارتا ہوا سانپ کا بچہ’’راھل‘‘… مقبوضہ کشمیر میں بائیکاٹ…
وہاں بی جے پی آئے یا کانگریس… دونوں مسلمانوں کی دشمن ہیں… فرق اتنا ہے کہ بی جے پی زیادہ خطرناک نظرآتی ہے،جبکہ حقیقت میں کانگریس زیادہ خطرناک ہے…
٭…افغانستان میں بدخشاں کے ضلع میں ایک پہاڑ پورے گاؤں کو نگل گیا… ڈھائی ہزار افراد مارے گئے… تین سو مکانات ایک اجتماعی قبر میں تبدیل ہو گئے… معلوم نہیں کون کس حالت میں ہوگا، کون کس طرح کے منصوبوں میں ہوگا… اور کون کس طرح کی سوچوں میں ہوگا کہ اچانک پورا پہاڑ گاؤں پر آگرا اور سب اپنے اعمال اوراپنے ارادوں سمیت دفن ہو گئے…
یا اللہ! امان… یا اللہ حُسن خاتمہ کی التجا ہے…
٭…ہم مسلمانوں کے وزیراعظم صاحب لندن گئے… وہاں اُن کے پڑوس میں انڈیا کا ایک ارب پتی تاجر رہتا ہے… نام اُس کا’’لکشمی متل‘‘ ہے… یہاں دو خبریں ہیں اور دونوںایسی کہ لکھتے ہوئے بھی شرم محسوس ہورہی ہے…
پہلی شرمناک خبر یہ کہ پاکستان کے سابق وزیراعظم ’’شوکت عزیز‘‘ آج کل ’’لکشمی متل‘‘ کے ملازم ہیں… اور دوسری شرمناک خبر یہ کہ پاکستان کے موجودہ وزیراعظم نواز شریف خود پیدل چل کر’’لکشمی متل‘‘ کے گھر حاضر ہوئے اور اُس سے ملاقات کی… ملاقات کے دوران میوزک بھی بجتا رہا… اور شایدپاکستان کے مسلمانوں کی قسمت پر ہنستا رہا… شوکت عزیز خود اربوں پتی ہے، اس کی صرف ایک بیوی اور دوبچے ہیں… دونوں بچے جوان، شادی شدہ،برسرروزگار اور باپ کی طرح سودی نوکریوں میں مال کما رہے ہیں… اب شوکت عزیز کے ذمے صرف دو پیٹ ہیں ایک اپنا اور ایک بیگم کا… جبکہ مال اتنا ہے کہ سونے کے نوالے کھائیں تو مرتے دم تک ختم نہ ہوں… مگر پھر بھی اپنے ملک اور اپنی قوم کی ناک کٹوانے اوراپنے اندر کے حرص کی آگ بجھانے کے لئے… وہ اس عمر میں نوکری کررہا ہے… اور نوکری بھی ایک دشمن ملک کے سرمایہ دارکی… یا اللہ! حبّ دنیا سے بچائیے… یہ مرض انسان کو جانوروں سے بدتر بنا دیتا ہے… اب نواز شریف صاحب بھی’’لکشمی‘‘ کے درپر حاضر ہوئے تو خبر پڑھ کر آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا… کاش کچھ تو ملک و قوم کی عزت کا پاس ہوتا… کاش کچھ تو اپنے مسلمان ہونے اور مسلمانوں کے وزیراعظم ہونے کا لحاظ ہوتا… آج کل انڈیا کے تمام ہندو گجراتی اور مراٹھی سرمایہ کار… نریندر مودی کو انڈیا کا وزیراعظم بنانے کے لئے پانی کی طرح پیسہ بہا رہے ہیں… اور مودی پاکستان پر حملے کی بات کر رہا ہے… اور پاکستان کے حکمران مشرکوں کے قدموں پر گرے جارہے ہیں… یا اللہ! اس ملک پر رحم فرمائیے…
ایک سؤال ہم سب سے
٭…ہم ایک الگ تھلک گھر میں ہوں… اچانک ہمارے کچھ دشمن کلاشنکوفوں سے مسلّح ہمارے گھر کا گھیرا کر لیں… مکمل لوڈ اور بھری ہوئی دس کلاشنکوفیں اور دشمن بھی بہت ماہر جنگجو… کیا ہمیں خوف اور ڈر محسوس ہوگا یا نہیں؟
اور اگر ایک سو افراد مکمل مسلّح ہو کر ہمارے گھر کا محاصرہ کر لیں تو ہماری کیا حالت ہو گی؟…
٭…ہم کسی بستی میں جائیں اور بستی والوں سے کوئی بات کریں، جس پر وہ تمام لوگ ناراض اور غصہ ہو جائیں… اور لاٹھیاں پتھر لیکر ہمارے پیچھے دوڑیں… کیا ہمیں خوف اور ڈر محسوس ہو گا یا نہیں؟…
٭…ہم سفر میں کسی جگہ اکیلے لیٹے ہوئے ہوں اور ہمیں نیند آجائے… اچانک آنکھ کھلے تو دیکھیں کہ ایک دشمن ہم پر اپنی بندوق تانے کھڑا ہے…
کیا ہمیں ڈر اور خوف محسوس ہو گا یا نہیں؟…
٭…کچھ لوگ ہمیں قتل کرنا چاہتے ہوں… وہ ہمارے پیچھے لگے ہوں، ہم اُن سے چھپ کر کسی مکان میں جا بیٹھیں… اور تھوڑی دیر بعد ہمارے دشمن اپنا اسلحہ لہراتے بالکل ہمارے سر پر پہنچ جائیں… اُس وقت خوف سے ہماری حالت کیا ہو گی؟…
سؤال سادہ سا ہے اور جواب بالکل واضح ہے کہ… ان تمام مواقع پر خوف اور ڈر کی وجہ سے ہمارے حواس تک کام کرنا چھوڑ دیں گے… مگر حضرت آقا مدنیﷺ کو دیکھیں… ہجرت کی رات آپ کے گھر پر ایک سو ماہر اور مسلّح جنگجو تلواریں لئے محاصرہ کر چکے تھے… اس زمانے کی تلواریں جن مضبوط بازوؤں میں ہوتی تھیں… اُن کا حال پڑھیں تو معلوم ہو کہ… کلاشن سے کم خطرناک نہ تھیں… مگر حضرت آقا مدنیﷺ کو ذرہ برابر خوف محسوس نہ ہوا…غزوہ حنین کے موقع پر آپﷺ چار ہزار تیراندازوں کے نرغے میں اکیلے رہ گئے… مگر خوف کی ایک دھڑکن دل مبارک تک نہ پہنچ سکی… طائف میں سینکڑوں افراد لاٹھیاں برساتے اور پتھر پھینکتے آپﷺ کے پیچھے لگے…جسم سے لہو تو بہت گرا مگر نہ آنکھ سے ایک آنسو ٹپکا اور نہ دل پر خوف، ڈر اور مایوسی کے جھٹکے لگے… آپﷺ ایک درخت کے نیچے آرام فرما رہے تھے کہ دشمن ننگی تلوار لیکر سر مبارک پر آکھڑا ہوا اور للکارنے لگا کہ کوئی ہے جو آپ کو بچا سکے… آپﷺ کے سینہ مبارک میں خوف کی ایک لہر نہ اٹھی… اطمینان سے فرمایا… اللہ…
کس کس موقع کا تذکرہ کیا جائے… ایسی جگہیں جہاں شیر دل افراد کا دل دھڑکنے پر مجبور ہو جاتا ہے… حضرت آقا مدنیﷺ کے قلب مبارک میں ڈر اور خوف کی ہلکی سی لرزش بھی جگہ نہ پاتی تھی
ﷺ، ﷺ، ﷺ
اب دوسرا سؤال
٭…ہمارے ہاں اکثر تیز ہوا چلتی ہے… کیا کبھی آندھی کے وقت ہمارے دل میں اتنا خوف آیا جتنا گلی میں دھماکے یا پٹاخے کی آواز سے آتا ہے؟
٭… کیا کبھی بادلوں کو دیکھ کر ہم اتنے خوفزدہ ہوئے جتنا ہم کسی بڑے کتے کو سامنے دیکھ کر ہو جاتے ہیں؟…
٭… کیا چاند گرھن اور سورج گرھن کے وقت ہمارے دلوں پر خوف کی کوئی ایسی لہر اٹھی جیسی امریکہ اور انڈیا کی دھمکیوں کو سن کر اٹھتی ہے…
جواب بالکل واضح ہے کہ… جی نہیں! آندھی، بادل اور سورج چاند گرھن کے وقت ہم اپنے دل میں کوئی خاص خوف اور ڈر محسوس نہیں کرتے…
اب دیکھئے اپنے محبوب آقا مدنیﷺ کو…
حضرت امّاں عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ…
جب آندھی، بادل وغیرہ آتے تو حضور اقدسﷺ کے چہرہ انور پر اس کا اثر ظاہر ہوتا تھا اور چہرہ کا رنگ فق ہو جاتاتھا… خوف کی ایسی حالت طاری ہوتی کہ کبھی اندر تشریف لے جاتے اور کبھی باہر تشریف لے جاتے…وجہ پوچھی جاتی تو ارشاد ہوتا کہ…
عائشہ! مجھے اس کا کیا اطمینان کہ اس میں عذاب نہ ہو…
سبحان اللہ! اللہ تعالیٰ کا خوف، اللہ تعالیٰ کے عذاب کا خوف…
حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
حضور اقدسﷺ کا معمول تھا کہ جب آندھی چلتی تو حضور اقدسﷺ گھبرائے ہوئے مسجد میں تشریف لے جاتے… حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اقدسﷺ کے زمانے ذرا سی تیز ہوا چلتی تو ہم قیامت کے خوف سے مسجدوں کو دوڑ جاتے…مدینہ میں سورج گرہن ہو گیا… آپﷺ فوراًنماز کی طرف لپکے، بہت لمبی نماز پڑھی اور پھر روتے ہوئے عذاب سے بچنے کی دعاء اور استغفار میں مشغول ہو گئے… کس کس واقعہ کو لکھا جائے… غزوہ تبوک کے موقع پر قوم ثمودکی بستی سے گذر ہوا تو اللہ کے عذاب کے خوف سے آپﷺ پر گریہ طاری ہو گیا…چہرہ مبارک ڈھانپ لیا اور صحابہ کرام کو حکم فرمایا کہ یہاں سے روتے ہوئے، استغفار کرتے ہوئے تیزتیز گزریں…
اب تیسرا سؤال
بھائیو! اور بہنو!
ہمارے اعمال زیادہ اچھے ہیں… یا حضور اقدسﷺ اور حضرات صحابہ کرام کے اعمال زیادہ اونچے اور اچھے تھے؟…
جواب واضح ہے کہ… اُن کے اعمال کے مقابلہ میں ہمارے اعمال کچھ بھی نہیں… تو پھر کیا وجہ ہے کہ…
وہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے تھے، اللہ تعالیٰ کے خوف سے روتے تھے اور اللہ تعالیٰ کے عذاب کا سن کر اُن پر غشی طاری ہو جاتی تھی…
جبکہ ہم ہر کسی سے ڈرتے ہیں… مگر اللہ تعالیٰ سے نہیں ڈرتے… اور اللہ تعالیٰ کے عذاب سے خوف نہیں کھاتے…یقینا یہ بڑی مصیبت ہے… اور اس مصیبت کی دو وجوہات ہو سکتی ہیں…
پہلی یہ کہ ہم اللہ تعالیٰ کی عظمت، قہر، جبروت اور شان کو نہیں پہچانتے… اس وجہ سے ہم اللہ تعالیٰ کے خوف سے محروم ہیں… اور دوسری یہ کہ … ہم اپنے اعمال پر فخر میںمبتلا ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم پر تو عذاب آہی نہیں سکتا…
استغفراللّٰہ، استغفراللّٰہ، استغفراللّٰہ…
اے مسلمانو!… دنیا کی طاقتوں کی عظمت اور خوف دل سے نکالو صرف ایک اللہ تعالیٰ سے ڈرو… صرف ایک اللہ تعالیٰ سے ڈرو…
جو اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے وہ کامیاب ہو جاتا ہے…اللہ تعالیٰ کی ذات غنی اور صمد ہے…ہمیں کبھی بھی اس کے عذاب سے بے پرواہ نہیں ہونا چاہئے…حضرات انبیاء معصوم ہیںپھر بھی اللہ تعالیٰ کے خوف سے تھر تھر کانپتے ہیں…یا اللہ مُعافی…یا اللہ رحم، یا اللہ مُعافی…
باقی رہے ہمارے اعمال… تو بس بھائیو اور بہنو!
اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے انہیں قبول فرمائے…ورنہ ان میں قبولیت والی کوئی جان تو نظر نہیں آتی… اب آج کی آخری بات سنیں…
شیطان کہتا ہے … ہر کسی سے ڈرو، اللہ تعالیٰ سے نہ ڈرو
اِنَّمَا ذٰلِکُمُ الشَیْطٰنُ یُخَوِّفُ اَوْلِیَآء ہُ
جبکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
فَلَا تَخَافُوْھُمْ وَخَافُوْنِ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ
کسی سے نہ ڈرو، صرف مجھ سے ڈرو اگر ایمان والے ہو…
یا اللہ! اپنے خوف اور اپنی خشیت کا وہ آنسو مجھے اور تمام پڑھنے والوں کو نصیب فرما دیجئے… جو جہنم کی آگ کو بجھا دیتا ہے …
آمین یا ارحم الراحمین
لا الہ الا اﷲ، لا الہ الا اﷲ، لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ…
اللھم صل علیٰ سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا…
لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ…
٭…٭…٭
موتی پا لیجئے
رنگ و نور ۔۔۔سعدی کے قلم سے (شمارہ 443)
اﷲ تعالیٰ … تمام مجاہدین اسلام کو’’سورۂ فاتحہ‘‘ کی قوت عطاء فرمائے
بے شک: سورہ فاتحہ قوت و طاقت کا خزانہ ہے
اِیَّاکَ نَعْبُدُوَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنَُ
اﷲ تعالیٰ…تمام اسیران اسلام کو’’سورہ فاتحہ‘‘ کی وہ تأثیر عطاء فرمائے جس سے ہر بند چیزکُھل جاتی ہے… ہر قید،ہرہتھکڑی، ہر تالا کھل جاتا ہے
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ، الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
اﷲ تعالیٰ… تمام بیماروں کو’’سورہ فاتحہ‘‘ کی ’’شفائ‘‘ عطاء فرمائے
بے شک: سورہ فاتحہ ہر بیماری کا علاج ہے… جسمانی بیماری ہو یاروحانی… کوئی زہر ہو یا پاگل پن… کوئی جادوہو یا نظر… کوئی دردہویا وبا…
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ
اﷲ تعالیٰ… مالی تنگی میں مبتلا ہر مسلمان کو سورہ فاتحہ کے’’رزق حلال‘‘ والے تحفے عطاء فرمائے… بے شک سورہ فاتحہ قرضہ سمیت ہر مالی تنگی کا بہترین علاج ہے
مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ
اﷲ تعالیٰ… ہر گناہ گار،گمراہ، مایوس اور بھٹکے ہوئے مسلمان کو سورہ فاتحہ کی ہدایت والا نور اور فیض عطاء فرمائے… بے شک سورہ فاتحہ ہر طرح کی’’ہدایت‘‘ اور روشنی سے لبریز ہے…
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ، صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ
سچی بات یہ ہے کہ سورہ فاتحہ کے فضائل، مناقب اور خواص کو کسی ایک مضمون یا کتاب میں سمیٹنا ناممکن ہے… بالکل ناممکن… بس ایک مثال لے لیجئے
ایک شخص کے پاس اﷲ تعالیٰ کے فضل سے ہر طرح کا وافر سامان موجود ہو… گندم کی ہزاروں بوریاں، گوشت کے لئے بکریوں کے ریوڑ… پہننے کے لئے کپڑوں کے انبار… علاج اور صحت کیلئے ہزاروں غذائیں اور دوائیں… خدمت کے لئے سینکڑوں نوکر، غلام اور خادم… رہنمائی اور تعلیم کے لئے بہترین علماء اور اساتذہ… تفریح کے لئے ہر طرح کا سامان…
مگر اچانک اس شخص کو بہت دور کا اور بہت لمبا سفرپیش آگیا… اور سفر بھی سالہا سال کا… اس عقلمند شخص نے سوچا کہ اتنا سامان ساتھ تو نہیں اٹھا سکتا… چنانچہ اس نے سارا سامان اور ساری جائیداد… سونے کے بدلے بیچ دی… اب اس کے پاس ایک من سونا ہو گیا… مگر اسے یہ بھی بوجھ لگتا ہے تو اس نے سارا سونا چند قیمتی موتیوں کے بدلے بیچ دیا… ایسے موتی جو ہر جگہ اور ہر ملک میں بیچے جا سکتے ہیں… اب یہ شخص ہلکا پھلکا ہو گیا، اس کی جیب میں چند موتی ہیں… مگر ان چند موتیوں میں… گندم اورآٹے کے ڈھیر بھی موجود، گوشت والے جانور بھی موجود، پہننے کے کپڑے بھی موجود… یہ جہاں بھی جائے گا موتی بیچ کر جو چاہے خریدلے گا… جیسے آج کل کے مالدار لوگ کروڑوں روپے اٹھانے کی بجائے ایک کریڈٹ کارڈ جیب میں ڈال لیتے ہیں… بس اسی سے’’سورہ فاتحہ‘‘ کا اندازہ لگانے کی کوشش کریں… اگرچہ مکمل اندازہ نہیں لگایا جا سکتا … سورہ فاتحہ کی سات آیات میں… پوراقرآن مجید موجود ہے… سورہ فاتحہ کی سات آیات میں… سات آسمانوں اور سات زمینوں کے ہدایت والے، علم والے، روشنی والے، رزق والے، حفاظت والے اور برکت والے خزانے موجود ہیں… سورہ فاتحہ اگر آپ کے پاس ہے تو آپ نہ کسی بادشاہ کے محتاج، نہ کسی فقیر کے… سورہ فاتحہ آپ کے ساتھ ہے تو نہ آپ کو کسی انسان کی محتاجی، نہ کسی جن کی… آپ سورہ فاتحہ کا انتہائی قیمتی موتی ساتھ لے لیں… یہ وہ موتی ہے جسے بیچنا بھی نہیں پڑتا بس دکھانا پڑتا ہے… اسے دکھاتے جائیں اور دنیا کے سارے مسئلے حل کراتے جائیں… یہ موتی آپ کے پاس ہی رہے گا… اورپھر یہی موتی دکھا کر آخرت کے مسائل حل کراتے جائیں… ایک بار کسی دوسرے ملک کا سفر تھا… واپسی کے وقت میزبانوں نے بطور اکرام ایک شخص کو ساتھ کر دیا… ہم جب پہلے گیٹ پر پہنچے تو تلاشی لینے والے آگے بڑھے، اس شخص نے جیب میں دو انگلیاں ڈال کر ایک کارڈ کو تھوڑا سا اونچا کیا… تلاشی لینے والے فوراً باادب ہو گئے اور راستہ چھوڑدیا… پھر سامان کی تلاشی کے وقت بھی یہی منظر… حتیٰ کہ جہاز کی طرف جانے والے آخری دروازے پر بھی یہی ہوا… یہ زندگی کا پہلا ایسا سفرتھا جس میں نہ سامان کی تلاشی ہوئی اور نہ جسم کی… ایک کارڈ میںاتنی طاقت تھی… اندازہ لگائیںکہ قرآن پاک کی سب سے عظیم اور افضل سورت کی طاقت کتنی ہوگی… اگر ہم سورہ فاتحہ کو پالیں، اور سورہ فاتحہ کاکارڈ ہمارے دل میں ہو، ہماری آنکھوں میں ہو اور ہماری جیب میں ہو تو… ہر منزل کتنی آسان ہو جائے…
کراچی میںقیام کے دوران کبھی کبھارلانچ کرائے پر لیکر سمندر میں مچھلیاں پکڑنے چلے جاتے تھے… الحمدللہ اس حلال اور پرکشش تفریح میں کئی بڑے مجاہدین اور اولیاء کرام کی رفاقت نصیب ہوئی… جہاد کے ابتدائی رفقاء کمانڈر عبدالرشید شہیدؒ اور بھائی اختر شہیدؒ… اور پھر برادرم حافظ کمانڈر سجاد شہیدؒ… بندہ ان سب کو سمندر پر لے گیا اور خوب خوشگوار مجالس رہیں… حتیٰ کہ حضرت مولانا جلال الدین حقانی مدظلہ العالی بھی ایک بار ساتھ تشریف لے گئے اور انہوں نے خود چندمچھلیاں شکار کیں… سمندر کا یہ سفر بار بار ہوا… اور اس میں سورہ فاتحہ کے عجیب انوارات دیکھے… ایک طالب علم ساتھی جب بھی ڈور پھینکتے مچھلی آجاتی… انہوںنے بتایا کہ ڈور پھینکتے وقت وہ سورہ فاتحہ پڑھتے ہیں… اس واقعہ کے بعدسمندری سفر کے ہر مرحلے میں سورہ فاتحہ کام آتی… سمندر میں کبھی موسم بہت خراب ہو جاتا ہے سخت اندھیرا اور موجوں کے تھپیڑے…مگر الحمدللہ سورہ فاتحہ کی تلاوت سے ہر طرح کا طوفانی موسم کھل جاتا ہے … اور خوشگوار ہو جاتا ہے… آپ دیکھیں کہ ایک مسلمان کو سورہ فاتحہ سے جوڑنے کے لئے… اللہ تعالیٰ نے کیسے کیسے انتظامات فرما دیئے ہیں… پہلا تو یہ کہ قرآنی ترتیب میں… سورہ فاتحہ کو سب سے پہلے رکھا گیا… اب قرآن مجیدکھولتے ہی سورہ فاتحہ سب سے پہلے سامنے آجاتی ہے… حالانکہ نزول قرآن کی ترتیب میں سورہ فاتحہ سب سے پہلے نازل نہیں ہوئی… پھر اسلام کے سب سے اہم فریضے نماز میںسورہ فاتحہ کو ہر رکعت میں لازمی قرار دے دیا گیا… آپ فرض نماز ادا کریں یا سنت اور وتر… ہر رکعت میں سورہ فاتحہ موجود ہے… پھر اس سورت کے الفاظ بھی بے حد آسان رکھے گئے کہ انتہائی آسانی کے ساتھ اسے یاد کیا جا سکتا ہے… اس لئے کسی نے یہ خوب دعوت چلائی کہ… اپنے بچوں کو سورہ فاتحہ خود یادکراؤ… تاکہ یہ جب بھی سورہ فاتحہ پڑھیں تو تمہیں اجرو ثواب ملے…
اورایک مسلمان بچہ… جوان اور بوڑھا ہونے تک لاکھوں بار سورہ فاتحہ پڑھ لیتا ہے… اس لئے کوشش کرو کہ اس کی ساری زندگی کی ’’فاتحہ‘‘ تمہارے نامہ اعمال کو وزنی کرتی رہے… مگر اس سعادت کے حصول کے لئے یہ ضروری ہے کہ خود آپ کو’’سورہ فاتحہ‘‘ آتی ہو…کیا ہی اچھا ہوگا کہ آپ کسی عالم یا قاری کو اپنی’’سورہ فاتحہ‘‘ سنا دیں… وہ امریکی خلاباز جس نے چاند پر پہلا قدم رکھا تھا چند ماہ پہلے مر گیا…میں نے خبر پڑھی اور اگلی رات آسمان پر دیکھا کہ چاند اپنی جگہ موجودتھا… جبکہ وہ خلا بازاکیلا قبر میں جاپڑا… مگر جو مسلمان سورہ فاتحہ کو پالیتا ہے سورہ فاتحہ اس کے ساتھ قبر اور عالم برزخ میں جاتی ہے… ہر مسلمان کو چاہئے کہ سورہ فاتحہ کا ترجمہ اچھی طرح یاد کر لے… اور اسے دل میں بٹھائے اور اس میں جو عقیدہ بیان کیا گیا ہے… اس عقیدے کو اپنائے… ہم مسلمان جب سے قرآن اور سورہ فاتحہ سے دور ہوئے ہمارے اندر طرح طرح کے شرکیہ عقائد آگئے ہیں… بھائیو! اور بہنو، شرک سب سے بڑا ظلم ہے، شرک سب سے بڑا گناہ ہے… شرک سب سے بڑی نجاست اور گندگی ہے… اور مشرک کے لئے ہمیشہ ہمیشہ کی ناکامی ہے… سورہ فاتحہ کی ساتوں آیات شرک کو توڑتی ہیں… اور بندے کو صرف اللہ تعالیٰ سے جوڑتی ہیں…تعریف کے لائق صرف اللہ، شکر کے لائق صرف اللہ، رب العالمین صرف اللہ… رحمتوں کا مالک صرف اللہ… قیامت کا مالک صرف اللہ… عبادت کے لائق صرف اللہ… اور مدد مانگنے کے لائق صرف اللہ…
ہمارے جدت پسندوں نے بندگی نما تعریف و ثنا کا حقدار ترقی اور ٹیکنالوجی کو قرار دے دیا ہے…
انّا للّٰہ وانّا الیہ راجعون
ہم نے آج کے نقلی طاقتور کفار کو اس قابل سمجھ لیا ہے کہ ہم اُن کی غلامی اختیار کریں اور اُن سے مدد مانگیں… بڑی بے حیائی سے کہتے ہیں کہ ہم دنیا میں اکیلے تو نہیں رہ سکتے… ہم ان کافروں کی مدد کے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتے…اور پھر ہمارے حکمرانوں کے ماتھے ان طاغوتوں کے سامنے جھک جاتے ہیں
انّا للّٰہ وانّا الیہ راجعون
شرک کی اس بیماری نے ہمارے حکمرانوں… اورہمارے مالدار طبقے کو ایسا گھیر لیا کہ وہ ہر وقت ستاروں، پتھروں، نجومیوں اور پیشن گوئیوں کے تھپیڑے کھاتے رہتے ہیں… ہر حکمران کے پاس طرح طرح کے عامل ہیں… اور ان عاملوں میں سے کئی سی آئی اے، موساد اور را کے باقاعدہ ایجنٹ ہیں… ہمارے حکمران جب سورہ فاتحہ میں موجود:
اِیَّاکَ نَعْبُدُوَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنَُ
کی طاقت سے محروم ہوئے تو پھر… کٹی ہوئی پتنگ کی طرح کہیں کے نہ رہے… اب جو بھی اُن کو اچھی قسمت، اچھی صحت اور ہمیشہ کے اقتدار کی لالچ دے دے یہ اس کے ہاتھوں… اپنا ایمان اور اپنی غیرت سب لٹوا بیٹھتے ہیں… مسلمانو! اللہ کے لئے سورہ فاتحہ کو سمجھو، سورہ فاتحہ کو سیکھو اور سورہ فاتحہ کو حاصل کرو… کم از کم ایک بار تو مکمل اخلاص کے ساتھ وضو کر کے دو رکعت ادا کریں… اور پھر دل کی توجہ اور گہرائی سے دعاء کریں کہ:
یا اللہ! … سورہ فاتحہ سکھا دیجئے، سورہ فاتحہ عطاء فرما دیجئے، سورہ فاتحہ پر یقین نصیب فرمادیجئے، سورہ فاتحہ کا نور میرے دل میں اتار دیجئے…
بس دعاء میں سورہ فاتحہ پڑھتے جائیں اور عاجزی، احتیاج اور آنسوؤں کے ساتھ سورہ فاتحہ مانگتے جائیں… یا اللہ سورہ فاتحہ کی برکت سے سورہ فاتحہ عطاء فرما دیجئے
آمین یا ارحم الراحمین…
جہاں تک سورہ فاتحہ کے مجربات کا تعلق ہے تو حسب وعدہ ان میں سے چند پیش خدمت ہیں…
۱۔ گھر میں داخل ہو کر ایک بار سورہ فاتحہ اور تین بار سورہ اخلاص پڑھ لیں تو فقر و فاقہ دور ہو جاتا ہے اور گھر میں برکت آجاتی ہے
۲۔ ہر بیماری کے لئے چالیس بار پڑھیں اور پانی پر دم کر کے پی لیں
۳۔ اسیری سے رہائی کے لئے ایک سو اکیس بار پڑھیں
۴۔ رزق، قرضہ کی ادائیگی اور حلال وافر مال کے لئے تین سو چونسٹھ بار پڑھیں… اور ساتھ اتنی ہی تعداد میں سورہ اخلاص اور اتنی ہی تعداد میں درود شریف
۵۔ فجر کی سنتوں اور فرضوں کے درمیان چالیس دن تک روز چالیس بار یا اکتالیس بار پڑھنا ہر بیماری کا علاج ہے،خواہ کتنی بڑی بیماری ہو
۶۔اگر اولاد نافرمان ہو، خاوند نشے اور گناہوں کا عادی ہو تو پانی پر سورہ فاتحہ پڑھیں جب’ ’اِھْدِنَا‘‘ کے لفظ پر پہنچیں تو اسے ستر بار پڑھ کر سورت مکمل کریں اورپانی اولاد یا خاوندکوپلادیں
۷۔ نسیان یعنی بھولنے کی بیماری، عقل کی خرابی، سستی وغیرہ دورکرنے کے لئے کسی برتن پر سورہ فاتحہ لکھیں، پھر اسے بارش کے پانی سے دھو لیں پھر اس پر سات بار سورہ فاتحہ پڑھ کر دم کر کے پی لیں…
۸۔ سورہ فاتحہ کا ایک خاص الخاص ورد… ’’الغزالی‘‘کہلاتاہے…اہل علم نے اس ورد کے فضائل پر اشعار اور نظمیں لکھی ہیں… یہ ورد ہر طرح کی حاجات،ہر طرح کی پریشانیوں اورہر طرح کی مصیبتوں سے چھٹکارے کا ذریعہ ہے…
کچھ عرصہ پابندی سے کریں تو انسان نہ کسی کامحتاج رہتا ہے اور نہ کوئی اسے ذلیل و رسوا کر سکتا ہے، اور قرضہ کی ادائیگی کے لئے بھی مجرب ہے… اس میں سورہ فاتحہ فجر کے بعد تیس بار، ظہر کے بار پچیس بار، عصر کے بعد بیس بار، مغرب کے بعد پندرہ بار اور عشاء کے بعد دس بار پڑھیں… اور مزید دس بار کسی بھی وقت پڑھ لیں…
۹۔ کوئی عزیز سفر پر گیا ہو اوراس کی بخیر واپسی مطلوب ہو تو اکتالیس بارسورہ فاتحہ پڑھ کر دعا کریں…
۱۰۔ سانپ، بچھو نے کاٹا ہو تو سات بار سورہ فاتحہ پڑھ کر دم کریں، کسی کی صلح کرانے کے لئے جارہے ہوں تو چند بار پڑھ لیں، صلح آسان ہو جائے گی… کسی بھی حاجت کے لئے پڑھنا ہو توایک ہزار بار یاایک ہزار گیارہ بار پڑھ لیں… ویسے روزآنہ ایک ہزار بارکا وردرکھنا عجیب تأثیرات رکھتا ہے…
لا الہ الااللّٰہ،لا الہ الااللّٰہ،لا الہ الااللّٰہ محمد رسول اللّٰہ…
اللھم صل علیٰ سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک سلم تسلیماکثیراًکثیرا
لا الہ الااللّٰہ محمد رسول اللّٰہ…
٭…٭…٭
سچا یار
رنگ و نور ۔۔۔سعدی کے قلم سے (شمارہ 442)
اﷲ تعالیٰ کا اپنے بندوں پر عظیم احسان… القرآن، القرآن…
آہ! آج ہم مسلمانوں کا بہت سا وقت موبائل، نیٹ اور کمپیوٹر پر ضائع ہو جاتا ہے، جی ہاں تباہ اور برباد ہو جاتا ہے
انا للّٰہ وانا الیہ راجعون
وہ کتنے خوبصورت اور حسین لمحات ہوتے ہیں جو کسی مسلمان کے ’’قرآن مجید‘‘ کے ساتھ گزرتے ہیں… بے شک کسی نے سچ کہا ہے کہ قرآن مجید اس دنیا میں’’جنت‘‘ ہے…پڑھنے کا الگ مزا، سننے کا الگ لطف، دیکھنے کی الگ حلاوت، سمجھنے کا الگ ذائقہ، سنانے کی الگ مٹھاس… عمل کرنے کی الگ شان… اور سب سے بڑھ کر یہ کہ جب ہم مرنے والے ہوں گے اورہم سب سے جدا ہو رہے ہوں گے تو اگر ہم نے دنیا میں قرآن مجید کا حق ادا کیاتو… اُس وقت قرآن مجید تشریف لے آئے گا… روح نکلتے وقت بھی ساتھ، غسل اور کفن کے وقت بھی ساتھ… قبر میں بھی ساتھ… فرشتوں کے سؤال کے وقت بھی ساتھ… قبر کی تنہائی میں حشر تک ساتھ ساتھ… پھر میدان حشر میں بھی ساتھ، پل صراط پر بھی ساتھ… ہاں! جب تک جنت میں نہیں پہنچا دے گا اس وقت تک یہ سچا’’یار‘‘ ساتھ ساتھ رہے گا…
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعالَمِیْن…
ڈاک میں کوئی لکھتا ہے کہ تلاوت میں سستی ہوجاتی ہے… توبہ توبہ مسلمان اور تلاوت میں سُستی؟… کیا قبر میں اکیلے رہنے کا ارادہ ہے؟… یا اپنا موبائل سیٹ اور لیپ ٹاپ ساتھ دفن کرانا ہے… وہاں کوئی کمپنی سروس نہیں دے گی، قبر دیکھنے میں تو زمین پر ہے مگر حقیقت میں یہ ایک بالکل الگ دنیا ہے اور الگ جہان… وہاں زونگ،موبی لنک اور وارد کی سروس نہیں چلتی… وہاں ڈالر، پونڈ، یورو، ریال اور روپے نہیں چلتے… وہاں بجلی، گیس وغیرہ سے روشنی نہیں ہوتی… وہ الگ جہان ہے کسی کے لئے بہت اونچا اور بہت کشادہ… تب اُس کا نام ہوتا ہے’’علّیّین‘‘ اور کسی کے لئے بہت گہرا، بہت تنگ اور تاریک تب اُس کا نام ہوتا ہے’’سِجّین‘‘…
وہاں جو چیز بہت کام آتی ہے وہ ہے… قرآن مجید… یہ آج ہمارے پاس آسانی سے موجود ہے… آپ کے گھرمیں کئی قرآن مجید ہوں گے… آج اسے پڑھانے والے بھی دستیاب ہیں، اور سمجھانے والے بھی… اور وقت بھی ہمارے پاس بہت ہے… لیکن اگر یہ روٹھ جائے تو پھر… اس کی ایک آیت کوحاصل کرنے کے لئے کوئی ساری زمین کے خزانے لٹا دے تو وہ آیت نصیب نہیں ہوتی… یاد رکھیں جس دن ہم میں سے کسی کی تلاوت رہ جاتی ہے… یہ وہ دن ہوتا ہے جس میں شیطان اس آدمی پر فتح پا لیتا ہے… کیونکہ اب یہ دن کبھی واپس نہیں آئے گا کبھی بھی… اور اس دن کی تلاوت اب کبھی نہ ہو سکے گی، کبھی بھی… اور نامہ اعمال میں یہ دن بغیرتلاوت کے لکھا جائے گا… آہ! افسوس ہم اپنے جسم کے تقاضے کسی دن نہیں بھولتے… جبکہ روح کی غذا اور آخرت کے سرمائے میں ہم سے سستی ہو جاتی ہے… حضرات صحابہ کرامؓ، قرآن مجید کے سچے عاشق اور قدر دان تھے… ان میں سے بعض حضرات یہ دعاء مانگتے تھے
اَللّٰھُمَّ نَوِّرْ بِالْکِتَابِ بَصَرِیْ
یا اﷲ! قرآن مجید کے نور سے میری آنکھوں کو روشن فرما دیجئے
وَاشْرَحْ بِہٖ صَدْرِیْ
اورقرآن مجید کے ذریعہ میرا سینہ کھول دیجئے
وَاَطْلِقْ بِہٖ لِسَانِی
اور قرآن پاک کو میری زبان پر جاری فرما دیجئے
وَقَوِّبِہٖ عَزْمِی
اور قرآن پاک کے ذریعہ میرے عزم اورایمان کو قوت دے دیجئے…
ان میں سے کوئی ساری رات تلاوت کرتا تھا، کوئی آدھی رات اور کوئی ایک تہائی رات… ان کی کم سے کم تلاوت سات پارے کی ہوتی تھی… وہ قرآن مجید سیکھنے اور سکھانے میں محنت کرتے تھے… ایسا ہرگز نہیں کہ وہ فارغ تھے… نہیں وہ تو اپنی روزی بھی خود کماتے تھے… مشرق و مغرب میں جہاد کے لئے بھی جاتے تھے… دیگر عبادات میں بھی بھرپور وقت دیتے تھے… انسانوں کے حقوق بھی مکمل ادا کرتے تھے… ان کی شادیاں بھی تھیں اور بچے بھی… مگر قرآن مجید ان کی روح میں اُتر چکا تھا اس لئے… کوئی بھی عمل انہیں قرآن پاک سے غافل نہیں کرتا تھا… میدان جہاد میں ان کی تلاوت سے گھوڑے تک سکون پاتے تھے اور ان کی جہادی پہرے داری اور رباط کے دوران قرآن مجید ہی اُن کا واحد دوست اور رفیق ہوتا تھا…
رضی اللّٰہ تعالیٰ عنھم اجمعین…
بات سورہ فاتحہ کی شروع ہوئی تھی… یہ عظیم الشان سورت مبارکہ پورے قرآن مجید کاخلاصہ، بنیاد اور نچوڑ ہے… اس سورت میں نور، علم، رزق اور معرفت کے بڑے بڑے خزانے ہیں… اﷲ تعالیٰ خود چاہتے ہیں کہ اس کے پیارے بندے یہ سورت بار بار پڑھیں اور زیادہ پڑھیں… اسی لئے نماز کی ہر رکعت میں اس کو لازم فرما دیا…اہل دل اور اہل علم نے اپنی زندگیوں کے سالہا سال اس مبارک سورت کی خدمت پر لگا دیئے… اور امت تک اس سورت کے معانی، فوائد، نکات اور معارف پہنچائے… اس مبارک سورت کے کس کس خادم کا نام لیا جائے… انسان تو کیا بے شمار فرشتے اس مبارک سورت کی خدمت پر مامور ہیں… آپ اندازہ لگائیں کہ دنیا میں کتنی مساجد ہیں؟… ان مساجد میں جب امام صاحب سورہ فاتحہ پڑھتے ہیں… پھر وہ اور اُن کے مقتدی’’آمین‘‘ کہتے ہیں تو ہر جگہ ایسے فرشتے موجود ہوتے ہیں جو اُن کے ساتھ’’آمین‘‘ کہتے ہیں… پس جس کو فرشتوں کی آمین نصیب ہوجاتی ہے اس کے گناہ بخشے جاتے ہیں… امام قرطبیؒ نے اس مبارک سورت کے بارہ نام لکھے ہیں… صرف اُن ناموں پر ہی غور کریں تو دل بے اختیار پڑھنے لگتا ہے…
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعالَمِیْن، اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعالَمِیْن، اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعالَمِیْن
(۱) الصلوٰۃ رحمت والی، نماز والی، اللہ تعالیٰ سے براہ راست مناجات والی سورت
(۲) سورۃ الحمد حمد والی سورت… بندے کو ساری مخلوق سے کاٹ کر اللہ تعالیٰ سے جوڑنے والی سورت
(۳) فاتحۃالکتاب قرآن مجید کے آغاز والی سورت، پورے قرآن مجید کو کھولنے والی سورت
(۴) اُم الکتاب پورے قرآن مجید کی بنیاد، پورے قرآن مجید کی اصل، پورے قرآن مجید کا خلاصہ اور نچوڑ
(۵) اُم القرآن اس کا بھی وہی مطلب ہے جو اُم الکتاب کا ہے
(۶) المثانی بار بار پڑھی جانے والی سورت، جس کا بار بار پڑھا جانا مطلوب و مقصود ہے
(۷) القرآن العظیم یہ سورت گویا خود قرآن عظیم ہے… اور قرآن مجید کی سب سے عظیم سورت ہے
(۸) الشفاء یہ شفاء والی سورت ہے… روح کی بیماریوں کا علاج، عقیدے کی بیماریوں کا علاج… دل کی بیماریوں کا علاج، عمل کی بیماریوں کا علاج… گمراہی کی بیماریوں کا علاج، غضب کی بیماریوں کا علاج… جسمانی بیماریوں کا علاج… ناشکری اور مایوسی کی بیماری کا علاج… الغرض ہر طرح کے امراض سے شفاء کا ذریعہ ہے…
(۹) الرقیہ یعنی ایسی سورت جس کے ذریعہ بیماروں کو دم کیا جاتا ہے
(۱۰) الاساس یعنی بنیاد… دین، دنیا، آخرت اور عقیدہ و عمل سب کی بنیاد اس سورت میں موجود ہے…
(۱۱) الوافیہ پورا پورا فائدہ دینے والی سورت، پورا بدلہ دلوانے والی سورت
(۱۲) الکافیہ کافی ہو جانے والی اور کفایت عطاء فرمانے والی سورت…
علّامہ سیوطیؒ نے اور بھی کئی ناموں کا اضافہ کیا ہے… اُن کے نزدیک اس سورت کے ناموں کی تعداد بیس سے زیادہ ہے
…اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعالَمِیْن…
امام رازیؒ کی تفسیر دیکھیں تو انسان حیران ہو جاتا ہے… سورہ فاتحہ کی تفسیر اتنی مفصل تحریر کی ہے کہ اگر اردو ترجمہ کیا جائے تو کئی سو صفحات کی کتاب بن جائے… ذکر کا شوق اور ذوق رکھنے والے اہل علم نے’’سورہ فاتحہ‘‘ کو سب سے بڑا اور جامع ذکر قرار دیا ہے… وہ فرماتے ہیں کہ بنیادی ذکر پانچ ہیں…
(۱) سبحان اﷲ(۲) والحمدللّٰہ(۳) لا الہ الا اللّٰہ(۴) اللّٰہ اکبر(۵) ولا حول ولا قوۃ الا باللّٰہ العلی العظیم
اور سورہ فاتحہ میں اللہ تعالیٰ کی پانچ صفات کا ذکر ہے… اور ہر صفت میں الگ شان کا ذکر پوشیدہ ہے… اللّٰہ میں سبحان اللّٰہ ہے، رَبِّ العَالَمِین میں اَلْحَمْدُ لِلّٰہ ہے، اَلرَّحْمٰن میں لا الہ الا اللّٰہ ہے، اَلرَّحِیْم میں اللّٰہ اَکبر ہے… مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْن میں لاحول ولاقوۃ الا باللّٰہ العلی العظیم ہے…
…اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعالَمِیْن، اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعالَمِیْن…
وہ اہل علم جو قرآن مجید کے انوارات اور روشنیوں کو تلاش کرتے ہیں اور ان میں گم ہو کر بڑے بڑے راز تلاش کرتے ہیں…وہ کہتے ہیں کہ ہر انسان کو پانچ طرح کے انوارات اور روشنیوں کی ضرورت ہوتی ہے…
اور یہ پانچوں اَنوارات سورہ فاتحہ میں موجود ہیں…
ایک انسان کو کیا چاہئے؟
(۱) اسے اللہ مل جائے
(۲) اس دنیا کی خیر مل جائے
(۳) اس دنیا کے شر سے حفاظت مل جائے
(۴) آخرت کے شر یعنی جہنم سے نجات مل جائے
(۵) آخرت کی خیر یعنی جنت مل جائے
سورہ فاتحہ میں لفظ’’اللہ‘‘ موجود ہے… جسے اس لفظ کا نور نظر آجاتا ہے اس کی روشنی میں وہ اللہ تعالیٰ کو پہچان لیتا ہے اور پالیتا ہے…سورہ فاتحہ میں’’رب العالمین‘‘موجود ہے… اس کی روشنی اگر کسی کو نظر آجائے تو وہ آخرت کی تمام خیریں مانگ اور پاسکتا ہے… سورہ فاتحہ میں’’الرحمن‘‘ موجود ہے اس کا نور الگ نظر آجائے تو دنیا کے تمام مسائل کا حل مانگ سکتا ہے… سورہ فاتحہ میں ’’الرحیم‘‘ موجود ہے اس کے نور سے آخرت کی تمام تکلیفوں سے بچنے کی راہ نظر آجاتی ہے… اور سورہ فاتحہ میں ’’مالک یوم الدین‘‘ موجود ہے اس کی روشنی ظاہر ہو جائے تو دنیا کے ہر گناہ اور ہر آفت سے حفاظت مل سکتی ہے کیونکہ فکر آخرت ہی دنیا کے تمام مسائل کا حل ہے…
…اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعالَمِیْن، اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعالَمِیْن…
سورہ فاتحہ واقعی عجیب ہے… یہ سورت انسان کو مٹی سے اٹھا کر عرش کے نیچے لا کھڑا کرتی ہے… ہمیں عدم سے وجودمیں لانے والا، پیدا کرنے والاکون؟ اللہ
الحمدللہ!پھرہمیںپالنے والا کون… رَبِّ الْعالَمِیْن … دنیا میں ہمیں تھامنے اور چلانے والا کون’’اَلرَّحْمٰن‘‘ … آخرت میں ہم کس کے سہارے ہوں گے… ’’اَلرَّحِیْم‘‘… ہمیںدار دنیا سے آخرت منتقل کرنے والا اور وہاں ہمیں انصاف دینے والا…’’مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْن‘‘… جب ہماری پیدائش سے لے کر ہمیں اگلے جہاں لے جانے والا… صرف اللہ تو بس پھر ہم اسی کے بندے اسی کے غلام …اِیَّاکَ نَعْبُدُ… جب غلامی اس کی اختیار کی تو اب مدد کے لئے بھی صرف اسی کے سامنے جھکیں گے’’وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْن‘‘…
مانگو کیا مانگتے ہو… اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ… یا اللہ آپ سے آپ ہی کو مانگتے ہیں… وہ راستہ جو سیدھا آپ تک پہنچا دے… اور ہمیں انعام یافتہ افراد میں شامل کرادے… اور ہمیں گمراہی اور آپ کے غضب سے بچا دے…
وہ حضرات جو اوراد اور وظائف کاذوق رکھتے ہیں، انہوں نے سورہ فاتحہ کے مجرّبات پر کتابوں کی کتابیں لکھ ڈالی ہیں… روحانی نعمتیں حاصل کرنی ہوں تو سورہ فاتحہ کیسے اور کتنی بار پڑھیں… اور ظاہری نعمتیں حاصل کرنی ہوں تو سورہ فاتحہ کو کب اور کتنی بار پڑھیں… ان میں سے بعض وظائف ان شاء اللہ اگلے کالم میں پیش کئے جائیں گے… آج بس وہی دعوت ہے کہ سورہ فاتحہ کو درست پڑھیں، اچھی طرح سمجھیں، نمازوں میں توجہ سے پڑھیں، اور سورہ فاتحہ اورقرآن مجید کی تمام مسلمان عموماً اور مجاہدین خصوصاً زیادہ تلاوت کریں…
لا الہ الا اﷲ، لا الہ الا اﷲ، لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ…
اللھم صل علیٰ سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا…
لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ…
٭…٭…٭
الفاتحہ
رنگ و نور ۔۔۔سعدی کے قلم سے (شمارہ 441)
اﷲ تعالیٰ نے اپنے ایک خاص فرشتے کو زمین پر بھیجا… اُس دن سے پہلے یہ فرشتہ کبھی زمین پر تشریف نہیں لایا تھا… اس فرشتے کے لئے آسمان کا ایک خاص دروازہ کھولا گیا جس سے وہ زمین پر اُترا… آسمان کا یہ دروازہ اس سے پہلے کبھی نہیں کھولا گیا تھا… یہ فرشتہ اپنے رب کا پیغام لیکر ایک صحرائی زمین پر اُترا… وہاں دو عظیم شخصیات تشریف فرما تھیں…
(۱) تمام جہان کے سردار حضرت آقا مدنی محمدﷺ
اور
(۲) تمام ملائکہ یعنی فرشتوں کے سردار حضرت جبریل امین علیہ السلام
فرشتے نے آکر سلام عرض کیا اور فرمایا:
آپ(ﷺ) کو دو نوروں کی بشارت ہو جو پہلے کسی نبی کو عطاء نہیں کئے گئے…ان میں سے ایک نور ’’سورۃ الفاتحہ‘‘ ہے اور دوسرا نور’’سورہ بقرہ‘‘ کی آخری آیات ہیں…
سُبْحَانَ اﷲ وَبِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اﷲِ الْعَظِیْم وَالْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْن
یہ جو کچھ اوپر لکھا ہے یہ ایک’’حدیث صحیح‘‘ کا مفہوم ہے، اور یہ حدیث’’مسلم شریف‘‘ میں موجود ہے… لیجئے نور مل گیا، روشنی مل گئی، راستہ مل گیا… آپ میں سے جو پاکی کی حالت میں ہوں… ابھی ایک بار دل کی توجہ سے سورۂ فاتحہ پڑھ لیں پھر بات آگے بڑھاتے ہیں… امید ہے آپ نے پڑھ لی ہوگی… سبحان اﷲ! قرآن مجید کی سب سے عظیم سورت… ایسی سورت جس میں ہمارے ہر مسئلے کا حل موجود ہے… ایسی سورت جو نہ تورات میں نازل ہوئی اور نہ انجیل و زبور میں… ایسی سورت جو خاص طور پر حضرت آقا مدنیﷺ اور آپ کی اُمت کو عطاء فرمائی گئی…
لا الہ الا اﷲ، لا الہ الا اﷲ، لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ…
ارے بھائیو! اوربہنو! اپنے مسلمان ہونے پر شکر ادا کرو… اگر کوئی صرف سورہ فاتحہ کے نور کی ایک جھلک دیکھ لے تو اسے اندازہ ہو جائے کہ اسلام کتنی بڑی نعمت ہے اور کلمہ طیبہ کتنی عظیم نعمت ہے… کلمہ طیبہ کی برکت سے ہمیں سورۂ فاتحہ مل گئی…
لا الہ الا اﷲ، لا الہ الا اﷲ، لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ…
دیکھیں سورۃ فاتحہ میں ایک وسیع جزیرہ ہے… عبدیت اور طاقت کا شاندار پُرسکون جزیرہ…
اِیَّاکَ نَعْبُدُوَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْن…
بس ایک کی غلامی میں آکر ہر غلامی سے آزاد ہو جائو… ایک کی بندگی میں آکر ہر ذلت اور ہر طاقت کی بندگی سے نجات پا جائو… اور ایک سے مدد مانگ کر ساری مخلوق کی محتاجی سے بچ جائو… دنیا بھر کے کافر مشرک اور منافق اس پُر کیف جزیرے سے محروم… ہر ذلت ہر غلامی اور ہر محتاجی میں جکڑے ہوئے… چلو وہ تو جدیدیت اور مادہ پرستی کے پجاری مگر ایمان والوں کو کیا ہوا… مسلمانوں کو کیا ہوا کہ سورہ فاتحہ سے فائدہ نہیں اٹھا پارہے… سبحان اﷲ… الفاتحہ، الفاتحہ، الفاتحہ… کھولنے والی، رستہ دکھانے والی، تاریکیوں کو توڑنے والی… گمراہیوں کو شکست دیکر ہدایت کی فتح کے جھنڈے گاڑنے والی سورہ فاتحہ…تعجب ہے ہم پر کہ ہمارے پاس سورہ فاتحہ موجود ہے مگر ہم پھر بھی دھکے کھا رہے ہیں… اچھا ایک بات بتائیں! آج صبح سے اب تک آپ نے کتنی بار سورہ فاتحہ پڑھی ہے؟… نماز کی ہر رکعت میں تو ضرور پڑھی ہو گی، مگر یہ بتائیں کہ کتنی بار سمجھ کر توجہ سے پڑھی؟… ہاں! شاید ایک بار بھی نہیں… ہم تو نماز میں سورہ فاتحہ اتنی جلدی پڑھتے ہیں جیسے ہمارے پیچھے کوئی بھیڑیا لگا ہوا ہو اور ہم جان بچانے کو بھاگ رہے ہوں… آہ! افسوس، جس عظیم سورۃ کے ہر جملے پر بادشاہوں کے شہنشاہ حضرت رب العالمین خود جواب عطاء فرماتے ہیں، ہم اس سورت کو بھی جلدی جلدی بے توجہی سے پڑھ جاتے ہیں… نہ توجہ، نہ سمجھ، نہ شوق نہ ولولہ… نہ محبت نہ مناجات، نہ عظمت، نہ احترام… اور نہ اپنے محبوب رب سے گفتگوکرنے کی کیفیت اور حلاوت…
موبائل یاریاں کرنے والوں کو دیکھا ہو گا کہ ناپاک آوازوں میں کیسے کھوئے کھوئے ہوتے ہیں… اور ہم اپنے عظیم رب سے مناجات کرتے وقت… نہ اُن کی عظمت سے لرزتے ہیں اور نہ اُن کے شوق میں پگھلتے ہیں… ارے، سورہ فاتحہ کے ہر جملے پر اﷲ رب العالمین خود جواب عطاء فرماتے ہیں
لا الہ الا اﷲ، لا الہ الا اﷲ، لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ…
آج سے نیت کر لیں کہ ہم ان شاء اﷲ… آئندہ جب بھی سورہ فاتحہ پڑھیں گے… رک رک کر، ٹھہر ٹھہر کر شوق اور توجہ سے پڑھیں گے… تب ہم پر اس عظیم ترین اور مبارک ترین سورت کے انوارات چھم چھم برسیں گے… تھوڑا سا سوچیں…
آج ہم پر جو سب سے بڑی بیماری مسلّط ہے… وہ ہے ناامیدی،مایوسی اور ناشکری کی بیماری… سورۃ فاتحہ کا پہلا لفظ’’الحمد‘‘… ہمیں شکر گزار بناتا ہے… ہم شکر گزار بن گئے تو تمام مایوسیاں، ناکامیاں اور ناشکریاں منہ چھپا کر بھاگ جائیں گی… ہم آج رزق، رہائش اور معیشت کے مسائل سے دوچار ہیں… سورہ فاتحہ میں’’ربّ العالمین‘‘ موجود ہے… جس کو ربّ مل جائے گا یعنی خوب دیکھ بھال کر کے محبت کے ساتھ پالنے والا… تو پھر اور کیا چاہئے؟…
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن، اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن، اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن…
آج ہم پریشان ہیں، دربدر ہیں، منتشر ہیں اور اس دنیا کے فریبوں میں پھنسے ہوئے مر رہے ہیں، لٹک رہے ہیں… سورہ فاتحہ میں ہمارا مالک موجود ہے جو ہمارے اصل دن کا مالک ہے… مالک مل جائے تو مملوک چیزیں ضائع نہیں ہوتیں… اور آخرت کی فکر نصیب ہو جائے تو دنیا کے مسائل بہت ہلکے ہو جاتے ہیں… دوسری طرف ہم اپنے گناہوں کی وجہ سے، اپنی شامت اعمال سے اور اپنے دشمن شیطان کی سازشوں کی وجہ سے ہر طرح کی زحمتوں اور مصیبتوں میں پھنسے ہوئے ہیں… سورہ فاتحہ میں رحمتوں کا وسیع سمندر موجود ہے… عام رحمتیں بھی اور خاص رحمتیں بھی… دنیا کی رحمتیں بھی اورآخرت کی رحمتیں بھی…
الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم… مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْن… الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم، مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْن…
سوچئے اور غور کیجئے سورہ فاتحہ میں ہر وہ چیز مل جائے گی، جس کے ہم محتاج ہیں اور جس کے ہم آگے محتاج ہوں گے… سب سے بڑی چیز سیدھا راستہ ہے، منزل تک پہنچانے والا راستہ… اسی کو ہدایت کہتے ہیں… وہ بھی فاتحہ میں موجود ہے…
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم، اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم، اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم…
اﷲ والے بندے تو بس اسی جملے سے ہی… اﷲ تعالیٰ کی رہنمائی حاصل کر لیتے ہیں… یہ جملہ ایک طرف’’ ہدایت‘‘ کے لامتناہی دروازے کھولتا ہے تو دوسری طرف بندے کے دل میں’’الہام‘‘ کا دروازہ بھی کھول دیتا ہے … تب اُسے ہر معاملہ میں اﷲ تعالیٰ کی طرف سے سیدھی راہ اور ٹھیک راستے کا الہام ہونے لگتا ہے… کئی لوگ تو سورہ فاتحہ سے ہی استخارہ کر لیتے ہیں… دو رکعت نماز ادا کی، استخارہ کی مسنون دعاء پڑھی… اور پھر سورہ فاتحہ کے نور میں غوطے لگانے لگے… جب بھی کسی مسئلے نے الجھایا، جب بھی کسی مشکل نے تڑپایا… وہ سورہ فاتحہ کے ذریعہ روشنی مانگنے لگے… ہمارے چاروں طرف تو اندھیرا ہی اندھیرا ہے نا؟… شیطان کے اندھیرے، نفس کے اندھیرے، شہوات کے اندھیرے، کم فہمی اور بے علمی کے اندھیرے… روشنی ہو تو کمرے کی ہر چیز نظر آجاتی ہے… اسی طرح نور ہو تو سیدھا اور غلط سب نظر آجاتا ہے… اندھیرے میں گاڑی چلاؤ تو کسی کھائی میں گرے گی… اس کی لائٹیں جلا لو تو مزے سے سیدھی سڑک پر دوڑتے ہوئے منزل تک جا پہنچو… سورہ فاتحہ کے ’’نور‘‘ ہونے میں کوئی مسلمان شک نہیں کر سکتا… مگر نور کو روشن کرنے کے لئے دل کی توجہ اور اخلاص کا بٹن دبانا پڑتا ہے… اخلاص اور توجہ سے سورہ فاتحہ پڑھتے جارہے ہیں… اور جب اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم پر پہنچتے ہیں تو… اسے بار بار پڑھتے ہیں…
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم، اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم، اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم
تب نور چمکتا ہے اور ہر مسئلے کا حل اور ہر مشکل سے نکلنے کا راستہ نظر آنے لگتا ہے… عرض یہ کر رہا تھا کہ اس میں استخارہ بھی ہے…اچھا:آج ایک بات کا وعدہ کر لیں… آپ یقین کریں آپ یہ وعدہ کرنے کے بعد نہ ان شاء اﷲ دنیا میں پچھتائیں گے اور نہ آخرت میں…وعدہ یہ کریں کہ’’استخارہ‘‘ کو اپنا معمول بنائیں گے… اور کبھی بھی، جی ہاں کبھی بھی کسی اور سے اپنے لئے استخارہ نہیں کرائیں گے… یاد رکھیں استخارہ بہت اونچا اور مبارک عمل ہے… حضرات صحابہ کرام کو استخارہ یوں سکھایا جاتا تھا جس طرح سے قرآن مجید کی آیات سکھائی جاتی ہیں… استخارہ انسان کی زندگی کو خیر اور رحمت سے بھر دیتا ہے… صرف پانچ منٹ کا عمل اور فضائل و فوائد ہمیشہ ہمیشہ کروڑوں اور اربوں سالوں سے بھی زیادہ کے… مگر کسی اور سے اپنے لئے استخارہ کرانا اچھا کام نہیں… اوراس سے کچھ بھی فائدہ حاصل نہیں ہوتا… کیا نعوذباﷲ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ… اﷲ تعالیٰ ہماری نہیں سنتے اور فلاں کی سنتے ہیں؟… توبہ توبہ اﷲ تعالیٰ سے ایسی بدگمانی… کیا ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہمیں استخارہ کا جواب سمجھ نہیں آتااس لئے دوسروں سے کراتے ہیں… یہ بھی غلط… استخارہ کا کوئی جواب ہوتا ہی نہیں… بلکہ استخارہ کے بعد خیر کاراستہ خود کھل جاتا ہے اور شر کا راستہ خود بند ہوجاتا ہے… نہ خواب، نہ الہام اور نہ کچھ اور… ہمارے ہاں کچھ لوگ نجومیوں سے مستقبل کے حالات پوچھتے ہیں…سفر ٹھیک ہے یا نہیں؟… فلاں تجارت نفع مند ہو گی یا نہیں؟ فلاں رشتہ اچھا ہوگا یا نہیں؟… نجومیوں کے ہاں جو جاتاہے وہ ایمان سے دور ہوجاتا ہے… حضوراقدسﷺ نے بہت سخت وعید فرمائی ہے… اور نجومیوں کی تصدیق کرنے کو کفر جیسا قرار دیا ہے… اب جو لوگ ان وعیدوں کی وجہ سے نجومیوں کے پاس نہیں جا سکتے… مگراُن کو بھی ہر وقت دنیا کے مسائل کی فکر اور خواہش لگی رہتی ہے… انہوں نے اس کا متبادل نکال لیا ہے کہ فلاں سے استخارہ کرالو… اور اس میں انداز بالکل نجومیوں والا ہوتا ہے کہ جی ہم نے فلاں سے استخارہ دکھلوایا ہے…
اِنَّالِلّٰہِ وَاِنَّااَلِیْہِ رَاجِعُوْن، اِنَّالِلّٰہِ وَاِنَّااَلِیْہِ رَاجِعُوْن، اِنَّالِلّٰہِ وَاِنَّااَلِیْہِ رَاجِعُوْن…
آہ مسلمان! اﷲ تعالیٰ نے تیرے لئے اپنے ہاں ایک دروازہ کھولا اور تو دوسروں کی ڈیوٹی لگا رہا ہے کہ وہ اس دروازے پر جا کر تیرے مستقبل کے بارے میں اﷲ تعالیٰ سے پوچھ آئیں… بھائیو! آپ جن سے استخارہ کرواتے ہیں، کبھی جا کر خود اُن کے حالات دیکھیں کہ وہ کیسی پریشانیوںمیں ہوتے ہیں… اگر اُن کے پاس عرش سے ہر ’’خیر‘‘ پوچھنے کا موبائل ہوتا تو وہ اپنے لئے ہر خیر جمع کر لیتے، نہ کبھی بیمار ہوتے نہ کبھی تکلیف پاتے، نہ کبھی ان کا حادثہ ہوتا… علم غیب تو اﷲ تعالیٰ کا خاصّہ ہے… اور استخارہ کا یہ مقصد ہرگز نہیں… بلکہ استخارہ تو بندگی کا ایک قرینہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ سے خیر کی دعاء مانگی جائے اور شر سے بچانے کی درخواست کی جائے… اﷲ تعالیٰ نے اس عمل میں یہ تأثیر اور برکت عطاء فرما دی ہے کہ جو شخص اپنے معاملات میں استخارہ کرتارہے… یعنی اللہ تعالیٰ سے پوچھ پوچھ کر چلے تو اللہ تعالیٰ اُسے ایک خاص قوت اور روشنی عطاء فرما دیتے ہیں… آپ سب اپنے معاملات کا ضرور استخارہ کیا کریں… مگر کبھی بھی کسی اور سے اپنے لئے ہرگز ہرگزاستخارہ نہ کرائیں… اس سے عقیدہ بھی بگڑتا ہے، عمل بھی خراب ہوتا ہے… اور انسان توہم پرست بن کر بالآخر نجومیوں اور غلط عاملوں کے ہاتھوں اپنا ایمان کھو بیٹھتا ہے…
ہاں، اللہ والوں اور نیک لوگوں سے مشورہ کیا کریں… اُن سے دعاء کرایا کریں اور اُن سے شرعی رہنمائی لیا کریں… مگر اُن کو غیب دانی، اور مستقبل کے خیر و شر کے فیصلے کرنے کی ڈیوٹی نہ دیں… کئی نیک لوگ اس لئے لوگوں کے ’’استخارے‘‘ کر دیتے ہیں کہ اگر ہم نے نہ کئے تو یہ باز نہیں آئیں گے بلکہ کسی نجومی یا غلط عقیدہ کے عامل کے پاس چلے جائیں گے… چنانچہ وہ دعاء کرکے کسی ایک پہلو کا فیصلہ سنا دیتے ہیں… حالانکہ انہیں بھی کچھ نظر نہیں آتا… اور نہ شریعت میں ایسے شعبدے موجود ہیں…بس جن میں کچھ روحانیت ہوتی ہے وہ اپنی دعائ، اپنے رونے دھونے اور اپنی عاجزی کے ذریعہ روشنی پانے کی کوشش کرتے ہیں… اور پھر ان کی طبیعت کا رجحان جس طرف ہو وہ بتا دیتے ہیں… ان کی نیت اچھی ہوتی ہے… مگر بہتر یہ ہوگا کہ وہ سامنے والے کو پوری حقیقت بتا دیا کریں…اورخود استخارہ کرنے کی ترغیب دیا کریں… آپ آج تو اس شخص کو نجومیوں اور غلط عاملوں سے بچالیں گے مگر… کل کیا ہوگا؟… اس کی عادت اگر یہی بن گئی کہ ہر سفر سے پہلے، ہر رشتہ سے پہلے اور ہرکام سے پہلے اسے مستقبل میں خیر کی گارنٹی درکار ہوئی تو یہ… ضرور نجومیوں اور غلط عاملوں کے ہاتھوں پھنسے گا… اس لئے اچھا ہے کہ اس کو خیر اور شر کی تقدیر، علم غیب کا مسئلہ اور استخارہ کی حقیقت آج ہی سمجھا دی جائے… تاکہ اگر اس کی قسمت اچھی ہو تو اس کا ایمان بچ جائے…
لا الہ الا اﷲ، لا الہ الا اﷲ، لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ…
بات سورہ فاتحہ کی چل رہی تھی… بہت سی اہم باتیں رہ گئیں… مگر موضوع استخارہ کی طرف پھسل گیا، دراصل کافی عرصہ سے استخارہ کے موضوع پر لکھنے کا ارادہ ہے مگر وہ پورا نہیں ہورہا… ہر طرف’’استخارہ سینٹر‘‘ کھل رہے ہیں… سنا ہے ٹی وی پر بھی استخارہ کے پروگرام چل رہے ہیں…ایسے لوگ بھی دوسروں کے استخارے کر رہے ہیں جو خود قدم قدم پر بھٹکتے ہیں اور غلطیاں کرتے ہیں… فیس لیکربھی استخارے کئے جارہے ہیں… آہ! افسوس استخارہ جیسا مقدس لفظ بھیڑیوں کے ہاتھوں میں آگیا ہے… کاش وہ اپنے ان نجومیانہ کاموں کا’’استخارہ‘‘ کے علاوہ کوئی اور نام رکھ لیتے… سورہ فاتحہ میں الحمدللہ ہر مسئلے کا حل موجود ہے… یہ سات آیات ہیں… جو سات آسمانوں اور سات زمینوں پر حاوی ہیں… یہ سات آیات جہنم کے سات دروازے بند کر دیتی ہیں… یہ سات آیات ہر روحانی اور ظاہری ترقی کو سات آسمانوں سے اوپر لے جانے کی طاقت رکھتی ہیں… آپ آج ارادہ کر لیں کہ…سورہ فاتحہ کا ترجمہ یاد کریں گے، سورہ فاتحہ کو صحیح تلفظ سے پڑھیں گے… اور نماز میں سورہ فاتحہ کی تلاوت ٹھہرٹھہر کر توجہ سے کریں گے… اور اپنے معاملات، بیماریوںاور پریشانیوںکے حل کے لئے… سورہ فاتحہ پڑھیں گے… باقی باتیں پھر کبھی ان شاء اللہ…
لا الہ الا اﷲ، لا الہ الا اﷲ، لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ…
اللھم صل علیٰ سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا…
لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ…
٭…٭…٭
سیدہ آسیہ سے بہن جی عافیہ تک
رنگ و نور ۔۔۔سعدی کے قلم سے (شمارہ 440)
اﷲ تعالیٰ کی کتاب قرآن مجید میں ہم سب کا تذکرہ موجود ہے…
ارشاد فرمایا
فِیْہِ ذِکْرُکُمْ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ
ہم نے ایسی کتاب نازل فرمائی ہے جس میں تمہارا تذکرہ ہے کیا تم نہیں سمجھتے
امریکہ کی جیل کے کسی تاریک سے سیل میں… میری اور آپ سب مسلمانوں کی پاکیزہ بہن عافیہ صدیقی… جب قرآن مجید کی تلاوت کرتی ہوں گی تو انہیں کونسی آیات میں اپنا تذکرہ نظر آتاہو گا؟… دشمنوں کی قید میں قرآن مجید کی والہانہ تلاوت عجیب لذت بخش ہوتی ہے…
سبحان اﷲ! قرآن مجید میں تو اﷲ تعالیٰ بولتے ہیں، جب قیدی قرآن مجید میں اﷲ تعالیٰ کو سنتا ہے تو زخمی دل پر مرھم لگتا ہے… ہاں میں سب سے کٹ گیا مگر میراپیارا رب میرے ساتھ ہے میرا عظیم رب میرے پاس ہے… دو چاردن مشرکوں کی قید ہم نے بھی دیکھی، قرآن مجید کی بعض آیات پڑھتے وقت انسان کی چیخیں نکل جاتی ہیں… یہ دراصل اُن آیات کی خاص روشنی ہوتی ہے جو دل پر پڑتی ہے… انسان اُس وقت صرف اُس روشنی میں کھوجاتا ہے مگر چند دن یا چند سالوں کے بعد وہ اُن آیات کا مصداق اپنی آنکھوں سے دیکھ لیتا ہے… ہم ڈیڑھ ارب مسلمانوں کی بہن’’ عافیہ‘‘ جیل میں اکیلی جب تلاوت کرتی ہو گی تو اُس پر کون کون سی آیات چمکتی ہوں گی؟… ہاں بے شک بہت سی آیات! عافیہ بہن نے ایمان، عزم اور عزیمت کا جوراستہ اختیار کیا… اُس کا مقام بہت اونچا ہے… یقینا وہ قرآن مجید کی کئی آیات میں اپنا تذکرہ اور اپنا مقام پاتی ہوں گی… تب کتنے آنسو ٹپ ٹپ برستے ہوں گے… کان متوجہ ہوتے ہوں گے کہ
وَالْعادِیٰتِ ضَبْحًا
مسلمان مجاہدین کے گھوڑوں کی ٹاپیں کب سنائی دیں گی… اور
وَالْمُسْتَضْعَفِیْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَآء وَالْوِلْدَانِ…
پر دل بھر آتا ہوگا…
مگر میں سوچتا ہوں کہ بہن جی عافیہ جب… حضرت سیدہ آسیہ رضی اﷲ عنہا کا تذکرہ پڑھتی ہوں گی تو اُن پر قرآن مجید کے انوارات کس تیزی سے برستے ہوں گے…
اﷲ تعالیٰ ایمان والوں کی مثال کے طور پر… فرعون کی بیوی کو پیش فرماتے ہیں…
دیکھو!ایمان ہو تو ایسا… عزم ہو تو ایسا، قربانی ہو تو ایسی، شوق ہو تو ایسا، اور انجام ہو تو ایسا…
سبحان اﷲ وبحمدہ سبحان اﷲ العظیم
کیا اس زمانے کے فرعون کی قید میں ظلم سہتی ’’عافیہ‘‘ کو… پرانے زمانے کے فرعون کے مظالم سہتی ’’آسیہ‘‘ کے تذکرے سے سکون نہیں ملتا ہو گا…
امریکہ اور فرعون کے درمیان بہت سی مشابہتیں ہیں… قرآن مجید ایک زندہ کتاب ہے… اس کے حروف، الفاظ، اسماء اور زیر زبر تک میں بڑے بڑے راز اور بڑے بڑے نکتے پوشیدہ ہیں… فرعون کو بار بار ذکر فرمایا، بے کار ہر گز نہیں… بلکہ زمین پر فرعونوں نے بار بار آنا ہے… فرعون ایک شخص تھا مگر فرعونیت ایک سوچ ہے اور ایک مزاج ہے… آپ قرآن مجید کی وہ آیات جن میں فرعون کا تذکرہ ہے اُن کو الگ کاغذ پر لکھ لیں…پھر انہیں ترجمہ اور تفسیر کے ساتھ پڑھ کر فرعون کی سوچ، فرعون کا مزاج، فرعون کا طرز عمل… اور فرعون کا طریقہ حکمرانی لکھ لیں… پھر امریکہ کو دیکھتے جائیں آپ حیران ہوں گے کہ نوے فیصد باتیں، پالیسیاں اور طریقہ کار بالکل ایک جیسا ہے…مجھے آج اپنی بہن جی عافیہ صدیقی کا تذکرہ کرنا ہے… اُن کو امریکہ کی قید میں گیارہ سال بیت گئے… اُن کی قید اور اسارت ہمارے دلوں پر ایک سلگتے انگارے جیسا زخم ہے… اس لئے میں امریکہ اور فرعون کے درمیان مشابہتوں کو نہیں گنواتا کہ بات دوسری طرف نکل جائے گی… کچھ لوگ امریکہ کو’’دجال اکبر‘‘ کہتے ہیں… یہ لوگ غلطی پر ہیں…
ممکن ہے امریکہ نے خود یہ سوچ ان لوگوں میں پھیلائی ہو کہ… وہ’’دجال اکبر‘‘ ہے… نہیں بالکل نہیں… وہ دجّالی فتنہ ضرور ہے اور چھوٹا موٹا دجال بھی اسے کہہ سکتے ہیں مگر وہ’’دجال اکبر‘‘ نہیں… دجّال اکبر کی سوچ اس لئے پھیلائی جاتی ہے تاکہ مسلمانوںکے ہاتھ پاؤں خوف سے ڈھیلے ہو جائیں… اور وہ یہ فیصلہ کر لیں کہ چونکہ یہ دجال اکبر ہے تو اس کا مقابلہ ہمارے بس میں نہیں… اسے ختم کرنے کے لئے حضرت سیدنا عیسیٰ علیہ السلام… اور حضرت امام مہدی رضی اللہ عنہ تشریف لائیں گے… اُن کے آنے تک ہم غلامی برداشت کریں…دجال کی ایک آنکھ والی تصویریں، خوف اور دہشت پھیلانے والی موویاں، سازشوں کے انکشاف کرنے والی خوف آلود کتابیں… یہ سب کچھ بالکل غلط بلکہ خود دشمنان اسلام کی چالیں ہیں… امریکہ اس زمانے کا فرعون ہے… فرعون کے پاس جادوگروں کی طاقت تھی… امریکہ کے پاس سائنسی ٹیکنالوجی ہے… فرعون کے جادوگر لوگوں کوہیبت زدہ کر دیتے تھے…
وَاسْتَرْھَبُوْھُمْ وَجَآء وْ بِسِحْرٍ عَظِیْمٍ
امریکہ کی ٹیکنالوجی بھی بالکل وہی اثردکھاتی ہے… مگر ایک خشک لاٹھی نے اس جادو کا رعب توڑ دیا… جس طرح آج کے لاٹھی بردار مجاہدین اور فدائیوں نے امریکہ کی جنگی ٹیکنالوجی کا رعب خاک میں ملا دیا ہے… فرعون خاندانی منصوبہ بندی کا بانی تھا… مرد کم ہوں عورتیں زیادہ تو قوم کو غلام بنانا آسان… آج مسلمان ممالک میں اسی فرعونی تھیوری پر کام جاری ہے… فرعون کے پاس جنگی طاقت تھی، افرادی قوت تھی اور لوگوں کو اپنا غلام بنانے کا جنون… اس کی طاقت اپنے زمانے کے اعتبار سے امریکہ سے زیادہ تھی… کیونکہ اُس سے لڑنے کا کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا… بات دور نکل رہی ہے… خلاصہ بس اتنا ہے کہ امریکہ ختم نہیں ہوگا… جس طرح فرعون کا جسم آج تک موجود ہے… مگر اس کی فرعونیت ختم ہو گئی… اب وہ ایک بے جان لاشہ ہے… امریکہ بھی روئے زمین کے ایک خطے کا نام ہے… یہ خطہ موجود رہے گا مگر امریکہ کی امریکیت ختم ہو جائے گی… اس کے اندر غلام قوموں کا طوفان اٹھے گا… اور دوسری طرف سمندر اس پر چڑھ دوڑیںگے… اور یہ سب اس وجہ سے ہوگا کہ امریکہ کی حکومت اُس کے ’’رعب‘‘ پر قائم ہے… اسی رعب کو قائم رکھنے کے لئے وہ مسلمانوں میں اپنا خوف پھیلاتا ہے… مگر مجاہدین نے اس کے اس رعب کو پنکچر کر دیا ہے… یہ رعب جیسے جیسے گھٹتا جائے گا امریکہ میں موجود قومیں اپنے حقوق کے لئے سراٹھاتی چلی جائیں گی… یہ اچھاوقت ہم دیکھیں گے یا ہمارے بعد والی نسل… یااُن کے بعد والی نسل یہ تو اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے… ہم بہرحال اُس زمانے میں ہیں جب امریکہ اس زمین کے فرعونوں میں سے ایک بڑا فرعون ہے… اور ہم نبی الملحمہ حضرت محمدﷺ کے اُمتی ہونے کے ناطے… اس فرعون کے مقابلے پر کھڑے ہیں… اور ان شاء اللہ اس مقابلہ میں مسلمان ہی کامیاب اور سرفراز ہوں گے… ہماری مظلوم اور عظیم بہن عافیہ صدیقی… اس زمانے میں حضرت آسیہ رضی اللہ عنہا کی مثال ہیں… آسیہ فرعون کے گھر میں بہت راحت سے تھیں… بہت بڑا محل تھا ہزاروں باندیاں اورغلام خدمت پر مامور تھے… محل کے اندر پوری دنیا کی نعمتیں جمع تھیں… حتی کہ دریا کا رخ موڑ کر محل میں نہریں اور ساحل بنائے گئے تھے… ان سب نعمتوں کی وہ تن تنہا مالک تھیں… مگر پھر اچانک یہی ’’محل ‘‘اُن کے لئے قید خانہ اور عقوبت خانہ بن گیا… کیونکہ انہوں نے اعلان کر دیا کہ… لا الہ الا اللہ، لا الہ الا اللہ، لا الہ الا اللہ…
فرعون غصے سے پاگل ہو گیا… وہ خود کو ربّ اور سپر پاور کہلواتا تھا اور دنیا کو اپنے قدموں پر جھکاتا تھا… اس کی تویہ کوشش تھی کہ آسمانوں پر بھی اس کی حکومت قائم ہوجائے… اس نے اس کام کے لئے ایک بڑے ماہر تعمیر سائنسدان کی خدمات حاصل کیں… علماء لغت نے ’’ھامان‘‘ کے لفظ کی تحقیق کی ہے … ھامان جو فرعون کا وزیر تھا… ھامان کہتے ہیں ارضیات، تعمیرات اور سائنس کے ماہر کو… امریکہ بھی چاند کی طرف، مریخ کی طرف اور کائنات کے ذرہ اولیٰ کی طرف چھلانگیں لگا رہا ہے… کیونکہ زمین عجیب جگہ ہے… یہاں ہر مکھی اور مچھر کو یہ شبہ ہونے لگتا ہے کہ بس وہی سب کچھ ہے… اور اب اُسے خدائی کے رتبے تک (نعوذباللہ) پہنچ جانا چاہئے…یہی شبہ فرعون کو تھا یہی شبہ تاتاریوں کو تھا… یہی شبہ سوویت یونین کو تھا اور آج یہی شبہ امریکہ کو ہے… اور انڈیا بھی کوشش کرتا ہے کہ وہ بھی شائد کچھ بن جائے… اللہ تعالیٰ کی تقدیر ان بیو قوفوں کی چھلانگیں دیکھ کر مسکراتی ہے… آسیہ کے لئے کفر پر رہنے میں ظاہری فائدہ ہی فائدہ تھا… اور ہر طرح سے عیش ہی عیش تھی… آج کل کئی لوگ بہن جی عافیہ کا موازنہ’’ملالہ‘‘ کے ساتھ کرنے بیٹھ جاتے ہیں… توبہ، توبہ، توبہ… ان دونوں میں نسبت ہی کیا ہے… ایک ایمان کی علامت ہے تو دوسری نفاق کا سمبل… ایک آزادی کا استعارہ ہے تو دوسری غلامی کا نشان… ایک ایمان و عزم کی خوشبو ہے تو دوسری گندے ڈالروں اور ناپاک ایوارڈوں سے لت پت… ایک غیرت اور حیاء کا پاکیزہ چشمہ ہے تو دوسری پوری امت مسلمہ کے لئے شرم اور عار کا باعث… ایک علم، تقویٰ، بہادری اور قربانی کاپیکر ہے تو دوسری جہالت، شرارت، حرص اور لالچ کا مجّسمہ… ایک وہ ہے کہ جس کا نام سنتے ہی گناہگاروں کے دل بھی اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں… اور دوسری وہ ہے جس کا نام مسلمانوں کو گالی اور طعنہ دینے کے لئے استعمال ہوتا ہے… ایک وہ ہے کہ جس کی پاکیزہ عقیدت نے کتنے بدکار مسلمانوں کو… متقی مجاہد اور جانباز فدائی بنا دیا… اور دوسری وہ ہے کہ جس کے نام پر نفاق اور فسق پھیلایا جارہا ہے…
آج ملالہ کو جو کچھ ملا ہواہے، سیدہ آسیہ کو اس سے ہزاروں گنا زیادہ نعمتیں ملی ہوئی تھیں… وہ جب اُن آسائشوں میں تھیں تو کچھ بھی نہ تھیں… مگر جب انہوں نے اُن سب راحتوں اور عیش و آرام کو چھوڑا تو قرآن مجید کا کامیاب کردار بن گئیں… اب جس مسلمان نے قرآن مجید میں یہ سب کچھ پڑھ رکھا ہو وہ کس طرح سے ملالہ کو کامیاب اور عافیہ کو نعوذباللہ ناکام کہہ سکتا ہے؟… ملالہ جو کچھ کمارہی ہے یہ سب یہیں رہ جائے گا…اور عافیہ جو کچھ بنا رہی ہے وہ قیامت تک چلے گا… دیکھ لینا ملالہ تاریخ کے کوڑہ دان میں گم ہوجائے گی مگر عافیہ کے نام سے تاریخ ہمیشہ زندگی پائے گی… عافیہ بہن کا فرعون، امریکہ ہے… وہ پہلے وہاں گئیں تو آرام و راحت میں تھیں… تعلیم حاصل کی، ڈاکٹریٹ کی ڈگری پائی… بڑی پرکشش ملازمتوں کی آفریں آئیں…مگر جب عافیہ نے پکارا
لاالہ الااللّٰہ، لا الہ الا اللّٰہ، لا الہ الا اللّٰہ
تو امریکہ غصہ سے پاگل ہو گیا… میرے ہاں پڑھنے والی،میری زمین پر پلنے والی ایک عورت… مجاہدین کی حامی، جہاد کی دیوانی، شہادت کی متوالی اور امریکہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اُس کی خدائی کاانکار کرنے والی؟… بس فرعون کی آنکھیں بدل گئیں… وہی امریکہ جو عافیہ کے لئے محل کی طرح تھا… آج اس کا قیدخانہ ہے… اور اس قید خانے میں رات کے آخری پہر میں ایک آواز ہلکی ہلکی… مگر گہری گہری، آنسوؤں میں بھیگی بھیگی…اٹھتی ہے
رَبِّ ابْنِ لِیْ عِنْدَکَ بَیْتًا فِی الْجَنَّۃ
اے میرے رب اپنے پاس جنت میں میرے لئے ایک گھر بنا دیجئے…
وَنَجِّنِیْ مِنْ فِرْعَوْنَ وَعَمَلِہٖ
اور مجھے فرعون اور اس کے کرتوتوں سے نجات عطاء فرمادیجئے
وَنَجِّنِیْ مِنَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ
اور مجھے ظالموں سے نجات عطاء فرما دیجئے
فرعون نے سیدہ آسیہ پر طرح طرح کے ظلم ڈھائے… وہ چاہتا تھا کہ یہ مجھے واپس مل جائے… یہ میرے خلاف سرکشی چھوڑ دے… یہ میری بن جائے… مگر سیدہ آسیہ… اپنے رب کی بن چکی تھی… وہ جسم اور نفس کے تقاضوں سے بہت اونچی جا چکی تھی… اُس کی نظر میں دنیا اور اس کی ساری دولت ایک حقیرقطرے جیسی ہو چکی تھی… ہاں آسیہ
لاالہ الااللّٰہ، لا الہ الا اللّٰہ، لا الہ الا اللّٰہ
کے بلند مقام پر جا بیٹھی تھیں… ارے جو مٹھائیوں اور ٹافیوں کی پانچسو کمپنیوں کا مالک بن چکا ہے تو کوئی بیو قوف اُسے ایک ٹافی دکھا کر… اُن کمپنیوں کو چھوڑ دینے پر راضی کر سکتا ہے؟… جو اصل عیش دیکھ چکا ہو اُسے دنیا کے عیش بہت ہی حقیر لگتے ہیں… فرعون کا تشدد بڑھتا گیا، غصہ بڑھتاگیا… سیدہ آسیہ کی آزمائش بھی بڑھتی گئی… وہ بڑے اونچے ذوق والی اور کامل ایمان والی خاتون تھیں… انہوں نے اللہ تعالیٰ سے اصل بدلہ مانگا… فرعون نے حکم دیا کہ کھال اتارنا شروع کر دو… تب فرشتوں نے جنت کا محل بی بی آسیہ کے سامنے کردیا… ڈاکٹرایک ٹیکہ لگا کر مریض کوایسا بے ہوش اور مدہوش کر دیتے ہیں کہ اُسے آپریشن کی چیر پھاڑ کا درد نہیں ہوتا… ارے جو جنت دیکھ رہا ہو اس کی مدہوشی کا کیا عالم ہوگا… کھال اترنے کا ذرہ برابر درد نہ ہوا… اور زمین تا آسمان ان کی روح کی خوشبو ایسی پھیلی کہ… کیا پوچھنے…
اور قسمت کا عروج دیکھو! دنیا میں قربانی دی، چند منٹ لگے، اور بدلہ اتنااونچا کہ جنت میں رسول نبی کریمﷺ کی زوجہ بن کر رہیں گی…
سبحان اللّٰہ وبحمدہ سبحان اللّٰہ العظیم…
ہاں بے شک جتنی بڑی قربانی اتنا بڑا مقام…
آسیہ رضی اللہ عنہا کامیاب… ہماری بہن جی’’عافیہ‘‘ بھی ان شاء اللہ کامیاب… وہ سیدہ آسیہ کے راستے پر جارہی ہیں… انہوں نے ہمارے زمانے کی عورتوں کی لاج رکھ لی ہے کہ… امت مسلمہ کی بیٹیاں کیسی بہادر اور کیسی غیرت مند ہوتی ہیں… بعض لوگ خبروں میں اڑاتے ہیں کہ نعوذباللہ عافیہ بہن کی عصمت دری کی گئی… نہیں، نہیں، ہرگز نہیں… میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ ایسی عظیم خواتین کی عزت و عصمت کی حفاظت کے لئے خاص ملائکہ اتارے جاتے ہیں… وہ لاکھ دشمنوں کے درمیان ہوں… اُن پر اور تو ہر ستم ہو سکتا ہے مگر ان کی پاکیزگی اور عفت پر کوئی ہاتھ نہیں اٹھ سکتا… لیکن یہ بھی تو سچ ہے کہ عافیہ بہن جب تک دشمنوں کی قید میں ہیں… پوری اُمت مسلمہ خود کو’’بے آبرو‘‘ محسوس کر رہی ہے…
یا اللہ بے شمار جانیں حاضر ہیں… غیب سے نصرت فرما… بہن جی عافیہ کو باعزت رہائی عطاء فرما…
آمین یا ارحم الراحمین
لا الہ الا اﷲ، لا الہ الا اﷲ، لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ…
اللھم صل علیٰ سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا…
لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ…
٭…٭…٭