رنگ و نور ۔ سعدی کے قلم سے

رنگ و نور ۔ سعدی کے قلم سے
افضل ایّام الدنیا (رنگ و نور ۔ سعدی کے قلم سے)

rangonoor 463 – Saadi kay Qalam Say – Afzal Ayaam ud Duniya
افضل ایّام الدنیا

رنگ و نور ۔۔۔سعدی کے قلم سے (شمارہ 463)

اللہ تعالیٰ جسے چاہتے ہیں’’فضیلت‘‘ عطاء فرماتے ہیں… وہ کوئی شخص ہو، مہینہ ہو، دن ہو یا عمل…ہم پر لازم ہے کہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ’’فضیلت‘‘ کا احترام کریں اور اس سے فائدہ اُٹھائیں…
شکر کا مقام ہے

اللہ تعالیٰ نے پورے رمضان المبارک کو خاص فضیلت عطاء فرمائی ہے… اورپھر خصوصاً آخری عشرے کی راتوں کو… الحمدللہ مسلمانوں کو اس فضیلت کا شعور ہے… رمضان المبارک اور آخری عشرہ میں دنیا کا رنگ ہی بدل جاتا ہے… مساجدخوب آباد رہتی ہیں اور مسلمان رمضان المبارک کے فضائل سے وافر حصہ پاتے ہیں… یقیناً یہ شکر کا مقام ہے…

والحمدللّٰہ رب العالمین
فکر کی بات ہے

اللہ تعالیٰ نے’’ذوالحجہ‘‘ کے مہینہ کے پہلے دس دنوں کو خاص فضیلت عطاء فرمائی ہے…’’عشرہ ذی الحجہ‘‘ کے فضائل قرآن مجید میں بھی ہیں… اور احادیث صحیحہ میں بھی… اور فضائل بھی ایسے کہ دل جھوم اُٹھے… حتی کہ کئی اہل علم کے نزدیک ذوالحجہ کے پہلے دس دن رمضان المبارک کے آخری دنوں سے بھی افضل ہیں… مگر فکر اور افسوس کی بات یہ ہے کہ اکثرمسلمانوں کوان فضائل کا علم اور شعور نہیں ہے… اکثر کو تو پتا ہی نہیں چلتا کہ ذوالحجہ کا مہینہ کب شروع ہوا… اور اس مہینہ میں اعمال کی کیا قیمت ہے؟…

چنانچہ وہ زندگی کے یہ قیمتی ترین دن… جن کو حضرت آقا مدنیﷺ نے ’’افضل ایام الدنیا‘‘ قرار دیاہے… ضائع کر دیتے ہیں… دنیا میں انسان کی عمر کے سب سے قیمتی دن… بغیر کچھ کمائے اور بغیر کچھ بنائے گزر جاتے ہیں…

یقینا دُکھ، افسوس اور فکر کی بات ہے…
انا للّٰہ وانا الیہ راجعون…
سمجھدار اور عقلمند افراد کا جنون

حضرات صحابہ کرامؓ اور ہمارے اَسلاف بہت سمجھدار اور بے حد عقل مند تھے… جی ہاں! آج کل کے سائنسدانوں سے بہت زیادہ ذہین اور بہت زیادہ سمجھدار… انہوں نے قرآن و سنت میں جب ’’عشرہ ذی الحجہ‘‘ کے والہانہ فضائل دیکھے تو بس ان دنوں کوکمانے اور بنانے میں جان توڑ محنت لگا دی… چونکہ ان دنوں میں ہر عبادت کا اجر و ثواب عام دنوں کی عبادت سے بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے … چنانچہ حضرات اَسلاف نے اپنے اپنے رنگ میں ان اَیام کو پانے کی جستجو کی… چند جھلکیاں ملاحظہ فرمائیں:

o… حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، ہمارے ہاں یعنی حضرات صحابہ کرامؓ میں یہ کہا جاتا تھا کہ اس عشرہ کا ہردن… فضیلت میں ایک ہزار دنوں کے برابر ہے، جبکہ عرفہ(یعنی نو ذی الحجہ) کا دن دس ہزار دنوں کے برابر ہے…

o…مشہور تابعی حضرت سعید بن جبیر شہیدؒ کا طریقہ یہ تھا کہ جب عشرہ ذی الحجہ شروع ہوتا تو آپ عبادت میں ایسی سخت محنت فرماتے کہ… معاملہ بس سے باہر ہونے لگتا… اور آپ فرمایا کرتے تھے … لوگو! ان راتوں میں اپنا چراغ نہ بجھایا کرو… یعنی ساری رات تلاوت وعبادت میں رہا کرو…

o… حضرت حسن بصریؒ فرمایا کرتے تھے کہ… عشرہ ذی الحجہ کا ہر روزہ دو مہینوں کے روزوں کے برابر ہے

o …بعض محدثین کرام کا طرز عمل یہ تھا کہ جیسے ہی عشرہ ذی الحجہ شروع ہوتا وہ اپنے اَسباق میں ضعیف احادیث بیان کرنا بالکل بند کر دیتے… حالانکہ ان احادیث کے ساتھ یہ بتایا جاتاتھا کہ یہ ضعیف ہیں… مگر ان ایام کے تقدس کا ایسااحترام کہ ضعیف حدیث زبان پر نہ لاتے…

o… بعض اَسلاف کا ان ایام میں عبادت کا یہ رنگ تھا کہ تعلیم و تدریس تک چھوڑ دیتے کہ اس میں کچھ نہ کچھ قیل و قال ہوجاتی ہے… بس خود کو ذکر و عبادت کے لئے وقف کر دیتے…

o… بعض اَسلاف ان ایام میں حاجیوں کی طرح احرام کی چادریں اوڑھ لیتے اور صبح شام تکبیرات بلند کرتے رہتے…

o …اِبن عساکرؒ جو مشہور محدث، مؤرخ اور بزرگ گزرے ہیں وہ رمضان المبارک کے آخری عشرے کا اعتکاف کرتے… اور پھر عشرہ ذی الحجہ بھی پورا اعتکاف میں گزارتے…

o …حضرت امام عبداللہ بن مبارکؒ کی پوری زندگی کا معمول ان ایام میں یہ تھا… یا تو جہاد پر ہوتے یا حج پر تشریف لے جاتے…

اور ان سب سے بڑھ کر ان دو جلیل القدر… اہل علم صحابہ کرام کا عمل دیکھیں… یہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ… اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ہیں…

یہ دونوں حضرات ان ایام میں خاص طور پر صرف اس لئے بازار جاتے کہ… لوگوں کو’’تکبیر‘‘ کی طرف متوجہ کریں کہ… یہ ایام اللہ تعالیٰ کی بڑائی بیان کرنے کے ہیں… چنانچہ آپ بازار تشریف لے جاتے اور زور زور سے تکبیرات بلند فرماتے… اس پر بازار والے بھی آپ دونوں کے ساتھ تکبیرات بلند کرنے میں مشغول ہوجاتے … اور حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ ان مبارک ایام میں پابندی اور باقاعدگی کے ساتھ… ظہر تا عصر منبر پر جلوہ اَفروز ہوتے اورلوگوںکو حج کے اَحکامات تلقین فرماتے…

خلاصہ یہ ہے کہ… چونکہ یہ تمام حضرات ان دنوں کی قیمت کو جانتے تھے اس لئے وہ ان دنوں میں زیادہ سے زیادہ نیک اَعمال کا ذخیرہ اور خزانہ اپنے لئے جمع کر لیتے… اور ان ایام میں ان حضرات پر عبادت کا ایک خاص حال طاری رہتاتھا… اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اس میں سے کچھ حصہ نصیب فرما دے…
ہر عمل وزنی اور قیمتی

عشرہ ذی الحجہ کے فضائل کو تفصیل سے لکھا جائے تو ایک اچھی خاصی کتاب بن سکتی ہے رات اللہ تعالیٰ نے توفیق عطاء فرمائی… قرآن مجید میں تھوڑا سا غور کیا تو اس عشرہ کے بارے آیات پر آیات سامنے آتی چلی گئیں… اس پر خود حیرانی ہوئی کہ اس موضوع پر اتنی زیادہ آیات مبارکہ کی طرف پہلے کبھی توجہ نہیں ہوئی تھی… پھر احادیث مبارکہ کو دیکھنا شروع کیا تو بالکل ممکن لگا کہ صرف اس عشرہ مبارکہ کی فضیلت پر… چالیس احادیث کا مجموعہ آسانی سے تیارکیاجا سکتا ہے… ارادہ بھی ہوا کہ آج کا’’رنگ ونور‘‘ عشرہ ذی الحجہ کی چہل احادیث پر آجائے… مگراس کے لئے جگہ زیادہ چاہئے… اللہ تعالیٰ توفیق عطاء فرمائے کہ چہل حدیث کا یہ مجموعہ الگ کتابچے کی صورت میں آجائے… خلاصہ یہ ہے کہ یہ دس دن بہت قیمتی ہیں… عام دنوںسے ہزار گنا زیادہ قیمتی… ان دنوں کا جہاد عام دنوں کے جہاد سے بہت افضل ہے…مبارک ہو انہیں جو یہ دن محاذوں پر… یا جہادی محنت میں گزارتے ہیں… ان دنوں کا روزہ عام دنوںکے نفلی روزے سے بہت زیادہ قیمتی ہے … مبارک ہو ان کو جو ان نو دنوں کے روزے کماتے ہیں… خود حضرت آقامدنیﷺ عشرہ ذی الحجہ کے نو روزوں کا مکمل اہتمام فرماتے تھے… کتب احادیث میں تفصیل موجود ہے…

ہاں بعض اوقات کسی عذر کی بنا پر روزہ نہ رکھنے کا تذکرہ بھی’’حدیثِ عائشہؓ ‘‘ میں موجود ہے… ان دس مبارک ایام کی تہلیل، تکبیر اور تسبیح عام دنوں کے ذکر سے بہت افضل ہے… خاص طور پر’’ لا الہ الا اللہ‘‘ اور’’اللہ اکبر‘‘ کی کثرت… اور ’’سبحان اللہ وبحمدہ‘‘… اگر تیسرے کلمے کا اہتمام کر لیا جائے تو اس میں سب کچھ آجاتا ہے…

اسی لئے کئی اللہ والے… ان ایام میں صلوٰۃ التسبیح اداء کرتے ہیں…اس میں چار رکعت کے دوران تین سو بار یہ مبارک کلمات ادا ہو جاتے ہیں… ان دس مبارک ایام کی تلاوت عام دنوں کی تلاوت سے بہت افضل ہے… مبارک ہو ان لوگوں کو جو ان ایام میں قرآن مجید کو زیادہ وقت دیتے ہیں… اور اللہ تعالیٰ کے کلام کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرتے ہیں… اسی طرح اس مبارک عشرے میں توبہ کرنا عام دنوں کی توبہ سے زیادہ افضل، زیادہ محبوب اور زیادہ قیمتی ہے…خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو اس عشرے میں گناہوں سے بچتے ہیں… اور توبہ، اِستغفار کی کثرت کرتے ہیں …اسی طرح اس مبارک عشرہ میں جہاد پر خرچ کرنا، صدقہ دینا، والدین کی مالی خدمت کرنا… عام دنوں کے خرچ سے بہت افضل اور بہت قیمتی ہے… خوش بخت ہیں وہ لوگ… جو ان ایام میں اپنی جیب ہلکی اوراپنا نامہ اعمال وزنی کر لیتے ہیں… جیب تو پھر بھی بھر جاتی ہے مگر ایسے قیمتی دن روز روز نہیں آتے … اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ان دنوںکاحج فرض کے بعد سب سے افضل عمل قربانی ہے… عام دنوں میں کوئی ایک سو اونٹ بھی اللہ تعالیٰ کی رضا کیلئے ذبح کرے تو وہ دس ذوالحجہ یعنی عیدالاضحیٰ کے دن ایک بکرے کی قربانی کے برابر نہیں ہو سکتے… جی ہاں! عیدالاضحیٰ کی قربانی بہت بڑا عمل ہے… اور مسلمانوں کو چاہئے کہ بہت شوق، بہت رغبت اور بہت کھلے دل کے ساتھ قربانی کیا کریں… شیطان اور اس کے کارندے… قربانی کے خلاف طرح طرح کے دلائل اور وساوس لاتے ہیں مگر ان کی ایک بھی نہ سنیں، بلکہ بہت اچھی اور زیادہ سے زیادہ قربانیاں کریں… اور اپنے گھر کے علاوہ ’’الرحمت ٹرسٹ‘‘ کی وقف قربانی میں بھی اپنا حصہ بڑھ چڑھ کر ڈالیں…آپ کی قربانی کا گوشت اُمت مسلمہ کے افضل ترین افراد تک پہنچے گا… کسی محترم شہید کے بچوں کا لقمہ بنے گا تویہ… کتنی بڑی سعادت ہوگی… مال تو ہوتا ہی اس لئے ہے کہ … اس سے جنت خریدی جائے، اس سے آخرت بنائی جائے… بس بھائیو! اور بہنو! عشرہ ذی الحجہ تشریف لارہا ہے… اس کے آنے سے پہلے ہی تیاری کر لیں کہ ہم نے اس عشرہ کو کس طرح سے کمانا ہے، کس طرح سے بنانا ہے اور کس کس طرح سے پانا ہے…اللہ تعالیٰ سے توفیق مانگیں، جسم کو روزے اور عبادت کی مشقت کے لئے تیار کر لیں …جیب کا منہ کھولیں… جہاد میںمال اور جان لگائیں… قربانی کھلے دل سے کریں… اور یہ مبارک عشرہ اپنی آخرت کے لئے ذخیرہ کرنے کی ترتیب بنا لیں…
قرآن مجید سے ایک جھلک

(۱) اللہ تعالیٰ نے اس مبارک عشرہ کی راتوں کی قسم کھائی ہے… جوکہ ان ایام کے لئے بڑی فضیلت کی دلیل ہے… وَالْفَجْرِ وَلَیَالٍ عَشْرٍ

(۲) اللہ تعالیٰ نے حضرت سیدنا ابراہیم علیہ السلام سے حج کا اعلان کروایا… وَأذِّنْ فِیْ النَّاسِ بِالْحَجِّ… اور پھر اسی آیت میں عشرہ ذی الحجہ کو… ’’ایام معلومات‘‘ کا لقب عطاء فرمایا…

(۳) قرآن مجید میں حج کے بارے میں جہاں آیات ہیں… وہاں ضمناً ان مبارک ایام کا تذکرہ موجود ہے…اسلام کا مقدس ’’فریضۂ حج‘‘ انہیں مبارک ایام میں ادا ہوتا ہے… اور حج کے تمام فرائض عشرہ ذی الحجہ میں ادا ہوتے ہیں… اور بعض مناسک ایامِ تشریق میں…
سبحان اللّٰہ وبحمدہ سبحان اللّٰہ العظیم

(۴) سورۃ الکوثرمیں… کئی مفسرین کے نزدیک :
فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ

میں دس ذی الحجہ کی نماز فجر، یا عید کی نماز اور قربانی کا تذکرہ ہے…

(۵) سورۃ ’’والصّافات ‘‘میں حضرت سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے خواب… اور اپنے لخت جگر کی قربانی کا واقعہ ہے… یہ سب اسی مبارک عشرہ میں پیش آیا…

(۶) سیدنا موسیٰ علیہ السلام کو تیس راتوں کی خلوت کے لئے اللہ تعالیٰ نے طلب فرمایا… پھر دس دن مزید روک لیا… کئی مفسرین کے نزدیک یہ دس دن عشرہ ذی الحجہ کے تھے…

(۷)دین اسلام کے مکمل اور کامل ہونے کاعظیم قرآنی اعلان… اور اِتمامِ نعمت کا اعلان اسی مبارک عشرہ کے ایک دن… یعنی نو ذی الحجہ کو ہوا…
اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ
مسک الختام

آج کی مجلس کا اختتام رسول اکرمﷺ کی دو مبارک احادیث پر کرتے ہیں، یہ احادیث مبارکہ… اُن تمام باتوں کی واضح دلیل ہیں جو اوپر عرض کی گئی ہیں…

(۱) صحیح بخاری کی روایت ہے، رسول نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا:

کسی بھی دن کا نیک عمل اللہ تعالیٰ کے نزدیک اتنا محبوب نہیں جتنا ان دنوں یعنی عشرہ ذی الحجہ کا ہے… صحابہ کرام نے عرض کیا… یا رسول اللہ! جہاد بھی نہیں؟ ارشاد فرمایا! جہاد بھی نہیں مگر یہ کہ کوئی شخص اپنی جان اور اپنا مال لے کر جہاد میں جائے اور پھر ان میں سے کچھ بھی واپس نہ لائے… (یعنی شہید ہو جائے)(بخاری)

(۲) حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا: افضل ایام الدنیا ایام العشر یعنی عشر ذی الحجۃ

دنیا کے ایام میں سب سے افضل… یہ دس دن ہیں یعنی عشرہ ذی الحجہ…(صحیح ابن حبان، البزاز)

لاالہ الااللّٰہ،لاالہ الااللّٰہ،لاالہ الااللّٰہ محمدرسول اللّٰہ

اللھم صل علیٰ سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا

لاالہ الااللّٰہ محمد رسول اللّٰہ

٭……٭…٭
زمرہ: رنگ و نور ۔ سعدی کے قلم سے
آزمائش (رنگ و نور ۔ سعدی کے قلم سے)

rangonoor 462 – Saadi kay Qalam Say – Aazmaish
آزمائش

رنگ و نور ۔۔۔سعدی کے قلم سے (شمارہ 462)

اﷲ تعالیٰ اپنے غضب اور عذاب سے ہم سب کی حفاظت فرمائے… پہلے وزیرستان کے مسلمان بے گھر ہوئے… ان کی آہ لگی یا کس کی… اب پنجاب اور آزاد کشمیر کے لاکھوں مسلمان بھی خیمہ بستیوں میں ہیں… مقبوضہ کشمیر میں صدی کا سخت ترین سیلاب ہے اور اوپر حکمران بھی کشمیری مسلمانوں کے بدترین دشمن ہیں…

حسبنا اللّٰہ ونعم الوکیل

نائن الیون کے واقعہ کو تیرہ سال بیت چلے… اس بار بہت خاموشی سے برسی منائی گئی… تیرہ سال پہلے مسلمانوںکے خلاف جو جنگ شروع کی گئی تھی… اور اُسے دہشت گردی کے خلاف آخری اور حتمی لڑائی کا نام دیا گیا تھا… اُس جنگ نے کیا نتائج حاصل کئے؟… آج صرف اسی موضوع پر لکھنے کا ارادہ تھا… اور خیال جی نے ایک دلچسپ کہانی کے ذریعہ اس موضوع کے ہر پہلو پر بات کی ہے… مگر سیلاب سے تباہ حال مسلمانوں کا درد ایسا ہے کہ اس کی موجودگی میں کسی اورموضوع پر لکھنا اچھا نہیں لگ رہا … جس طرف بھی نظر اٹھائیں درد ہی درد ہے اور حقیقی دردناک کہانیاں… کہیں لوگ اپنے وفات پائے ہوئے عزیزوں کو اُٹھائے پھرتے ہیں کہ پانی نے تدفین کی جگہ ہی نہیں چھوڑی… اور کہیں اسی پانی نے ہنستے کھیلتے آباد علاقوں کو خود ہی قبرستان بنا دیا ہے… پانی میں غرق ہو کر مرنا کافر اور منافق کے لئے دردناک عذاب کا آغاز ہے… فرعون کے عذاب کی ابتداء پانی میں غرق ہونے سے ہوئی… پانی کی موت بڑی سخت ہوتی ہے، بہت تکلیف دہ اور بہت ہیبت ناک… مگر مؤمن کے لئے پانی میں غرق ہو کرمرنا شہادت ہے… جبکہ مجاہد کے لئے دورانِ جہاد پانی میں غرق ہونا… ایک ایسی نعمت ہے جو ساری دنیا کی تمام نعمتوں پر بھاری ہے… ایسے شہید کو دُگنا اجر ملتا ہے اوراس کی روح اللہ تعالیٰ… خود قبض فرماتے ہیں… سبحان اللہ! اللہ تعالیٰ خود استقبال فرماتے ہیں… درمیان میں فرشتوں کا واسطہ بھی نہیں رہتا…

کوئی انسان نہیں جانتا کہ اس کی موت کیسے آئے گی… ڈوب کر مریں گے یا آگ میں جل کر… چھت گرنے سے مریں گے یا سڑک کے حادثے سے… کوئی پکڑ کر ذبح کر دے گایا گولی مار دے گا… سانپ بچھو کاٹے گا یا کوئی زہر دے ڈالے گا… کوئی پھانسی پر لٹکا دے گا… یا کوئی دواء اُلٹا اثر کر جائے گی… موت کے ہزاروں طریقے ہیں… بعض موتیں دیکھنے میں بڑی خوفناک نظر آتی ہیں مگر حقیقت میں بہت میٹھی ہوتی ہیں… جبکہ بعض موتیں ظاہر میں بڑی پُرسکون نظر آتی ہیں مگر وہ حقیقت میں بہت تکلیف دِہ ہوتی ہیں… مرنے و الے پر جو کچھ بِیت رہا ہوتا ہے وہ اس دنیا میں رہنے والوں کو نہ نظر آتا ہے نہ محسوس ہوتا ہے… ہاں بعض علامات سے کچھ اَندازے لگائے جا سکتے ہیں مگر وہ اندازے بھی حتمی نہیں ہوتے… مثلاً ایک آدمی موت سے پہلے سخت تکلیف میں ہوتا ہے… بہت بے چین بہت بے قرار…لوگ اسے موت کا درد سمجھتے ہیں حالانکہ وہ موت کا درد نہیں ہوتا بلکہ دنیوی بیماری کا درد ہوتا ہے جو آخری لمحے تک اُس انسان کو پاک کرتا رہتا ہے… اور جب اس کی موت شروع ہوتی ہے تو وہ بڑی آسان ہوتی ہے… بس بھائیو! اور بہنو!… موت کو کبھی نہیں بھولنا چاہئے اور ہمیشہ اچھی موت، اچھے خاتمے اور مقبول شہادت کی فکر اور دعاء کرنی چاہئے…

موت نے تو آنا ہے… اسے یاد کرتے رہو، اس کی تیاری کرتے رہو تو یہ ’’محبوبہ‘‘ بن کر آتی ہے… اور ایسی محبوبہ کہ جس کے آتے ہی سارے دکھ، درد اور تنہائیاں ختم ہوجاتی ہیں…اور موت سے غافل رہو تو موت ایک ایسی مصیبت بن کر آتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی امان… اس دعاء کو روزآنہ پچیس بار توجہ سے پڑھا کریں:
اَللّٰھُمَّ بَارِکْ لِی فِی الْمَوْتِ وَفِیْمَا بَعْدَ الْمَوتْ

دنیا میں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو جو نعمتیں عطاء فرماتا ہے… ان نعمتوں کی حفاظت کا نسخہ قرآن مجید نے سورۃ الکہف میں سکھا دیا ہے… مگر اکثر لوگ اُس سے غافل ہیں… نسخہ بہت آسان ہے کہ نعمتوں کو دیکھ کر یہ کلمات پڑھو…
مَاشَائَ اللّٰہُ لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہْ

اپنے گھر میں داخل ہوئے تو فوراً
مَاشَاء اللّٰہُ لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہْ

کہ یہ اللہ تعالیٰ نے ہی عطاء فرمایا ہے… میرا اس میں کوئی ہنر، کوئی کمال نہیں… اللہ تعالیٰ چاہے تو ایک منٹ میں ’’بے گھر‘‘ کر دے… اس زمانہ میں جبکہ دین پر عمل کمزور ہوچکا ہے کسی مسلمان کا بے گھرہونا ایک بڑی سخت آزمائش ہے…

دین پرعمل ہوتا تو… بے گھر مسلمانوں کے لئے ہر مسلمان کا گھر عزت، احترام اور حفاظت کے ساتھ کھلا رہتا… ناموس کی حفاظت اپنے گھر سے زیادہ دوسرے مسلمانوں کے گھروں میں ہوتی … بہن بیٹی کی عزت سلامت رہتی… اور پناہ دینے والے حقارت اور نفرت کی ایک نظر بھی نہ ڈالتے… مگر اب ماحول بدل گیا ہے… مسلمانوں کے نزدیک’’مہاجر‘‘ کا لفظ نعوذ باللہ، گالی… اور حقارت کا استعارہ بن گیا ہے…اور آنکھوں سے حیاء کی نعمت چھن گئی ہے… ایسے حالات میں اپنے گھر والوں سمیت بے گھر ہوجانا بڑی سخت آزمائش ہے… اس لئے جس کے پاس جیسا بھی مکان ہے… اپنا ہو یا کرائے کا… ذاتی ہو یا کسی نے رہنے کے لئے دے دیا ہو… کچا ہویا پکّا… ہمیشہ اسے دیکھ کر اور اس میں داخل ہوتے وقت دل کے یقین سے پڑھیں:
مَاشَاء اللّٰہُ لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہْ

یعنی یہ میرے اللہ نے مجھے دیا ہے… یہ میرے اللہ تعالیٰ کا مجھ پر احسان ہے… یہ میرے اللہ تعالیٰ کی مجھ پر نعمت ہے… والحمدللہ رب العالمین…

لوگ سمجھتے ہیں کہ’’ماشاء اللہ‘‘ کا مطلب ہے، بہت اچھا، بہت عمدہ… یہ درست نہیں… بلکہ ماشاء اللہ کا مطلب ہے… یہ میرا نہیں میرے اللہ تعالیٰ کا ہے… اور انہون نے محض اپنے فضل سے مجھے عطاء فرمایا ہے… اور اس میں میرا کوئی ہنر اور کمال نہیں… یہی حال ہر نعمت کا ہے… وہ ایمان کی نعمت ہو یا دین کی… وہ صحت کی نعمت ہو یا مال کی… جو فخر کرتا ہے وہ مارا جاتا ہے … جو اپنا کمال سمجھتا ہے وہ محروم رہ جاتا ہے… اورجو اللہ تعالیٰ کا فضل اور احسان سمجھتا ہے وہ کامیاب رہتاہے…
مَاشَاء اللّٰہُ لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہْ

قرآن مجید میں سب کچھ موجود ہے … سیلاب کے مسئلہ پر قرآن مجید کی ایک پوری سورت بائیسویں پارے میں سورۃ سبا کے نام سے موجود ہے… ایک قوم تھی جس کا نام’’قوم سبأ‘‘ تھا… ان کا ایک شہر تھا جس کا نام’’مأرب‘‘ تھا… یہ قوم پانی کی نعمت سے مالا مال تھی… اور پانی جس کو مل جائے اُسے ہر نعمت مل جاتی ہے کیونکہ زمین پر اللہ تعالیٰ نے پانی کو… ہرنعمت کی بنیاد بنایا ہے… اس قوم سے کہا گیا کہ…
کُلُوْا مِنْ رِّزْقِ رَبِّکُمْ وَاشْکُرُوْالَہٗ

اپنے رب کی نعمتیں کھاؤ، خوب استعمال کرو… مگر شکر ادا کرتے رہو… ان نعمتوں کو اللہ تعالیٰ کا فضل اور احسان سمجھو… ان نعمتوں کو اپنا حق اور اپنا کمال نہ سمجھو… مگر قوم کے لوگوں نے اس نصیحت اور حکم کو بُھلا دیاا ور فخر میں پڑ گئے… وہ ان نعمتوں کو اپنا ہنر اوراپنا کمال سمجھنے لگے… دیکھو! ہم نے کس طرح سے پانی کو بڑا بند اور ڈیم بنا کر… اپنے قابو میں کر لیا ہے … اور اب یہ پانی ہم اپنی مرضی سے استعمال کر کے… باغات اور زمینوں کو آباد کرتے ہیں… دیکھو! ہم تجارت میں کتنے ماہر ہیں کہ بین الاقوامی راستوں پر… اپنا کاروبار چمکا چکے ہیں… اب ہر کوئی ہمارا محتاج ہے… اسی طرح اپنی پلاننگ، اپنی ٹیکنالوجی او ر اپنی تاجرانہ سوچ پر فخر… اللہ تعالیٰ نے پانی کو اشارہ فرمایا… پانی ایسا بپھرا کہ اُن کے بند اور ڈیم تنکوں کی طرح بہہ گئے… بڑے بڑے باغات اور کھیتیاں کھنڈر کھلیان بن گئے… اور تجارت تباہ و برباد ہو گئی… ایک مثال دے کر قرآن مجید نے پانی اور سیلاب کا سارا معاملہ سمجھا دیا… آج ہمارے حکمرانوں کے دماغ پر… صرف اور صرف تجارت سوار ہے… تجارت کی خاطر دین بیچنا پڑے، ضمیر بیچنا پڑے، ملک بیچنا پڑے یہ سب کچھ انہیں گوارہ ہے… تجار ت کی خاطر شہداء کرام کے مقدس خون سے دن رات غداری کی جارہی ہے… تب سیلاب ہی آئے گا کوئی رحمت تو نہیں برسے گی… تجارت کوئی بُری چیز نہیں مگر تجارت ہمیشہ وہی درست ہے جو شریعت کے تابع ہو…ورنہ تجارت محض خسارہ ہی خسارہ ہے… سیلاب کی آزمائش جن مسلمانوں پر نہیں آئی… وہ سیلاب زدہ مسلمانوں کی مدد کریں… اُن کے لئے مستقل دعائیں کریں… اور اُن کی عزت و حرمت کا خیال رکھیں… اور خود استغفار کرتے رہیں… اپنی نعمتوں پر اللہ تعالیٰ کا شکر اداکریں اور کثرت سے پڑھیں…
مَاشَاء اللّٰہُ لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہْ

اگر کبھی پانی سے واسطہ پڑے تو اسماء الحسنیٰ میں سے
یَا حَیُّی یَا قَیُّومُ

کا ورد پانی کے غیض و غضب کو ٹھنڈا کردیتا ہے…
یَا حَیُّی یَا قَیُّومُ لَا اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ بِرَحْمَتِکَ اَسْتَغِیْثُ

کتنے ہی مسلمان… ان دومبارک اسماء الحسنیٰ کی برکت سے ڈوبنے سمیت دیگر آبی آفات سے محفوظ رہے… بے شک اللہ تعالیٰ کے ’’ اسماء الحسنیٰ‘‘ میں بڑی تأثیر اور بڑی طاقت ہے… ہمیں ہمارے عظیم رب نے حکم دیا ہے کہ ہم ’’اسماء الحسنیٰ‘‘ کے ذریعہ اللہ تعالیٰ سے مانگا کریں…

او ر وہ مسلمان جو سیلاب کی آفت کا شکار ہیں… وہ اس آفت کو اپنے لئے’’سعادت‘‘ بنا لیں… آزمائش اور ابتلاء اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے… اور یہ ایک مؤمن کو اللہ تعالیٰ کے بہت قریب کرنے کا ذریعہ ہے…

اللہ تعالیٰ اپنے محبوب بندوں کو دنیا کی آزمائشوں میں ڈالتے ہیں… تاکہ اُن کا مقام اور اونچا ہو جائے… ان کی منزل اور قریب ہو جائے… اُن کے گناہ معاف ہو جائیں… اُن کے لئے آخرت کا بوجھ بالکل ہلکا ہو جائے… اور اُن کے لئے آخرت کی دائمی نعمتیں پکی ہو جائیں… قرآن و سنت میں غور کریں تو ایک مؤمن مسلمان پر جو دنیوی تکلیفیں اور آزمائشیں آتی ہیں… اُن کے فوائد اور ثمرات بے شمار ہیں… ان میں سے چند یہ ہیں…

(۱) گناہوں کا بالکل مٹ جانا اور معافی نصیب ہونا

(۲) آخرت کے اونچے اونچے درجات کا ملنا

(۳)اس بات کا شعور نصیب ہونا کہ میں نے اللہ تعالیٰ کے حقوق میں کتنی کوتاہی کی ہے… اس پر اپنے نفس کو ملامت کرنے کی سعادت ملنا

(۴) اللہ تعالیٰ کے سامنے عاجزی، انکساری اورتواضع نصیب ہونا

(۵) توبہ اور استغفار کی زیادہ توفیق ملنا

(۶) دعاء کی زیادہ توفیق ملنا

(۷) بندے کا اللہ تعالیٰ سے تعلق مضبوط ہونا کہ… دنیا میں نعمت ملے یا نہ ملے اللہ تعالیٰ سے تعلق اور محبت قائم رہے…

(۸) محروم اور مصیبت زدہ لوگوں کے درد کو محسوس کرنے کی استعداد پیدا ہونا

(۹) دنیا سے بے رغبتی نصیب ہونا اور دنیا کے فانی ہونے کا یقین مضبوط ہونا

(۱۰) اللہ تعالیٰ کی تقدیر پر راضی ہونے کی قوت نصیب ہونا اور اس قوت کی برکت سے ایمان کا مضبوط اور اعلیٰ درجہ نصیب ہونا…

ہماری محبتیں، ہمدردیاں او ر دعائیں… تمام مصیبت زدہ مسلمانوں کے ساتھ ہیں…آپ حضرات و خواتین… مکمل صبر اور رضا کے ساتھ ان حالات کا مقابلہ کریں… اور اللہ تعالیٰ کی طرف مکمل یقین کے ساتھ متوجہ ہو جائیں…

دنیا کی طرح یہاں کی مصیبتیں اوریہاں کی نعمتیں سب فانی ہیں… اصل ایمان کی نعمت ہے … اسے زنگ نہ لگنے دیں… اللہ تعالیٰ آپ سب کی آزمائش دور فرمائے اور دنیا و آخرت میں نعمتِ عافیت عطاء فرمائے

آمین یا ارحم الراحمین

لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ

اللھم صل علیٰ سیدنا محمد وآلہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا

لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
زمرہ: رنگ و نور ۔ سعدی کے قلم سے
مستحکم نظریات (رنگ و نور ۔ سعدی کے قلم سے)

rangonoor 461 – Saadi kay Qalam Say – Mustahkam Nazriyat
مستحکم نظریات

رنگ و نور ۔۔۔سعدی کے قلم سے (شمارہ 461)

اللہ تعالیٰ ’’فتنوں‘‘ سے ہم سب کی حفاظت فرمائے…فتنے ظاہری ہوں یا باطنی…

حضرت آقا محمد مدنی ﷺ نے ہمیں حکم فرمایا ہے کہ…ہم فتنوں سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگا کریں:
اَللّٰہُمَّ اِنَّا نَعُوْذُ بِکَ مِنَ الْفِتَنِ مَا ظَھَرَ مِنْھَا وَمَا بَطَنَ

اس دعاء کو اپنی نمازوں میں شامل کر لیں… قعدہ اخیرہ میں سلام سے پہلے اور نوافل کے سجدوں میں…

الحمد للہ! اسلامی جہاد…اپنی شاندار فتوحات کے دور میں داخل ہو رہا ہے…یہ وہ دور ہوتا ہے جب شہرت پسند ریاکار طبقہ بھی جہاد اور مجاہدین کی حمایت میں نکل آتا ہے…اور فتوحات اور تنظیموں کا ناجائز وارث بن بیٹھتا ہے…آپ سب کو امارت اسلامیہ افغانستان کے عروج کا زمانہ یاد ہو گا؟…اس وقت پاکستان میں ہر طرف طالبان کے حمایتی،طالبان کے وارث،طالبان کے سرپرست،اور طالبان کے مشیر نظر آتے تھے…بہت سے لوگوں نے ان جیسی شباہت بھی اختیار کرلی تھی…وہی عمامے،وہی قندھاری کرتے…اور وہی انداز…پھر آزمائش کا دور آیا،امارت اسلامیہ کے سقوط کا دردناک لمحہ آیا تو یہ…ڈھولچی طبقہ ایک دم غائب ہو گیا…

طالبان کے بڑے بڑے رہنما ’’پناہ‘‘ کے لئے دربدر پھرتے تھے مگر انہیں…پاکستان کے اکثر دروازے اپنے لئے بند ملے…لوگوں نے پگڑیاں چھپا لیں،قندھاری کرتے غائب کر دئیے …اور لمبے بال کتروا لئے…اور طالبان کے لئے اپنے دروازے بند کر دئیے…کچھ لوگوں نے ابتداء میں چند زور دار جلوس اور چند بڑی ریلیاں نکالیں اور پھر اپنے کاموں میں مشغول ہو کر… طالبان کو اتحادی فورسز کے سامنے اکیلا ڈال دیا … مگر اہل استقامت اس وقت بھی امارت اسلامیہ کے ساتھ کھڑے رہے اور پھر جنگ و جہاد میں بھی ان کے ساتھ میدان میں موجود رہے…خیر یہ ایک مثال تھی امید ہے کہ منظر آپ کے ذہن میں تازہ ہو گیا ہو گا…اب آتے ہیں موجودہ حالات کی طرف…

عراق و شام میں مظلوم مسلمانوں پر اللہ تعالیٰ کی نصرت اتری…اور ’’الدولۃ الاسلامیہ‘‘ نامی جماعت جسے ’’داعش‘‘ بھی کہا جاتا ہے ایک دم چھا گئی…ایک زمانہ جس طرح مسلمانوں نے افغان جہاد کا رخ کیا تھا اور پشاور تا پل خمری دنیا بھر کے مجاہدین سے آباد تھا…یہی صورتحال عراق میں بھی پیش آئی…دنیا بھر کے اکیاسی ممالک کے مجاہدین ’’الدولۃ الاسلامیہ‘‘ تنظیم میں شامل ہیں…صدام حسین شہید کے بچے کھچے رفقاء بھی اس جماعت کا حصہ ہیں…اور یورپ و امریکہ سے آئے ہوئے مجاہدین بھی اس جماعت میں موجود ہیں…جب کوئی علاقہ ظلم و ستم کی آگ میں جلتا ہے تو وہاں جہاد اور مجاہدین کے لئے راستے کھل جاتے ہیں… ترکی کی قدرے اسلام پسند حکومت نے شامی مہاجرین کو جگہ دی اور عراق و شام کے مجاہدین کو کچھ سہولیات دیں…قطر کی قدرے اسلام پسند حکومت نے مالی تعاون کیا…اور عرب دنیا میں موجود اہل خیر نے بھی دل کھول کر مجاہدین کی امداد کی…ادھر پاکستان میں مجاہدین کے لئے راستے بند ہوئے تو بہت سے چیچن اور عرب مجاہدین نے بھی عراق کا رخ کیا…عراق کے سنی قبائل جو ایران کے ظلم و ستم سے سخت اذیت میں تھے انہوں نے اپنے گھر اور دل مجاہدین کے لئے کھول دئے…اُدھر بشار الاسد کے مظالم نے شام کو جہاد کی چنگاری دی جو وہاں کے بہادر اور غیور مسلمانوں نے شعلوں میں بدل دی…ایران کا معاملہ صرف فرقہ پرستی کا نہیں ہے…یہ ملک اور اس کا نظام مسلمانوں کا بدترین دشمن ہے…آپ نے تازہ خبروں میں سن لیا ہو گا کہ…اب ایران نے ’’سوڈان‘‘ کے مسلمانوں کو بھی گمراہ کرنے کے لئے ایک نئے پلان پر عمل درآمد شروع کر رکھا ہے…اس سے پہلے یہ وسطی ایشیا کی ریاستوں میں بھی اپنی نجاست پھیلا چکا ہے…افغان جہاد کے دوران بھی اس نے مسلمانوں کے خلاف امریکہ اور نیٹو کا بھر پور ساتھ دیا…اور عراق اور شام کی جنگ تو باقاعدہ…ایران کی کمان میں مسلمانوں کے خلاف لڑی جا رہی ہے … پاکستان میں بد امنی اور فرقہ واریت کے پیچھے بھی ایران کا ہاتھ ہے…مگر پاکستان میں ان کی لابی اتنی مضبوط ہے کہ ایران کے خلاف دو لفظ لکھنے یا بولنے پر…خفیہ ادارے حرکت میں آ جاتے ہیں اور فوراً فرقہ پرستی کا لیبل لگا دیا جاتا ہے…ایران کے انڈیا کے ساتھ تو بالکل ویسے ہی گہرے مراسم ہیں جس طرح مشرکین اور مجوسیوں کے ہمیشہ سے رہے ہیں…آپ کبھی ایران کا ریڈیو سنیں…پچھتر فیصد خبریں اور تبصرے پاکستان کے خلاف ہوتے ہیں…مگر پاکستان کی ہر حکومت ایران سے یاری کو اپنا مقدس فریضہ سمجھتی ہے…ایران کے ان مظالم نے غیور مسلمانوں کو ایسا تڑپایا کہ وہ دیوانہ وار جہاد کی طرف دوڑے اور یوں…مسلمانوں کو امارت اسلامیہ افغانستان کے بعد ایک اور بڑی جہادی جماعت’’ الدولۃ الاسلامیہ فی العراق و الشام‘‘ کی صورت میں مل گئی…بلاشبہ یہ ایک اسلامی اور جہادی جماعت ہے…اور افرادی قوت کے اعتبار سے یہ اس وقت دنیا کی دوسری بڑی جہادی تنظیم ہے…امارت اسلامیہ افغانستان کے پاس مقامی مجاہدین لاکھوں کی تعداد میں ہیں…اور ان کے معاونین پاکستانی مجاہدین بھی ہزاروں میں ہیں…جبکہ ’’داعش‘‘ کے پاس مقامی اور غیر مقامی تیس سے پچاس ہزار تک موجود ہیں…والحمد للہ رب العالمین

داعش کی فتوحات سامنے آنے کے بعد…ڈھولچی طبقہ بھی زمین پر اپنے بلوں سے باہر نکل رہا ہے…بس اسی سے ہوشیار کرنا مقصود ہے…داعش کا جہاد عراق اور شام میں ہے اور ان کے لئے وہاں ابھی کافی کام موجود ہے… افغانستان میں الحمد للہ امارت اسلامیہ افغانستان بر سرپیکار ہے…یہ ایک خالص اسلامی اور منظم جماعت ہے اور اس کے ’’امیر محترم‘‘ زمانے کے معتبر ترین شخص…حضرت ملا محمد عمر مجاہد حفظہ اللہ تعالیٰ ہیں…اور یہ جماعت باقاعدہ شرعی بیعت کے نظام پر قائم ہے…اور اس جماعت نے اسلام کے ’’نظام نصرت‘‘ کے لئے ایسی عظیم قربانی دی ہے کہ …صدیوں میں اس کی مثال نہیں ملتی…اس جماعت کا جہادی نظام اتنا مؤثر،جدید اور پائیدار ہے کہ…چالیس ملکوں کا اتحادی لشکر دنیا کا ہر اسلحہ اور ہر ٹیکنالوجی استعمال کرنے کے باوجود…نہ اس جماعت کو توڑ سکا اور نہ اسے کمزور کر سکا…مگر طالبان کا نظام…شہرت پسندی اور کھلی بھرتی سے بہت دور ہے…

یہ حضرات نہ تو خواتین کو بھرتی کرتے ہیں اور نہ ان کی پریڈ لگاتے ہیں…اور نہ جہادی شادیوں کے اشتہار چلاتے ہیں…ان کا ویڈیو آڈیو نظام بھی چمک دمک سے دور اور جہاد کے قریب ہے…یہ اپنے لیڈروں کو میڈیا سے دور رکھتے ہیں اور روز روز نئے ’’ہیرو‘‘ نہیں بناتے…آج ساری دنیا میں جہاں بھی جہاد کی روشنی ہے وہ سب افغانستان سے ہی چمکی ہے…اور افغان جہاد اس زمانے کی تحریکوں کے لئے اصل مرکز اور منبع کی حیثیت رکھتا ہے…اور افغان جہاد کی یہ کامیابی… اخلاص، سادگی اور شریعت کی پابندی کی وجہ سے ہے… ظاہر بات ہے یہ وہ چیزیں ہیں جو شہرت پسند طبقے…اور انٹرنیٹ کے جہادیوں کے لئے کسی بھی طرح کی کوئی کشش نہیں رکھتیں…چنانچہ اب افغانستان اور پاکستان میں بھی ’’داعش‘‘ کے خود ساختہ اور ناجائز ولی وارثوں نے…اپنا کام شروع کر دیا ہے…آپ چند دن تک ایسے افراد بھی دیکھیں گے جو یہ کہتے پھرتے ہوں گے کہ ہم…پاکستان میں ’’داعش‘‘ کے نمائندے ہیں … کچھ لوگوں نے داعش کا لٹریچر بھی انٹرنیٹ سے ڈاؤن لوڈ کر کے چھاپنا شروع کر دیا ہے…اور کئی لوگوں کا یہ دعوی بھی ہے کہ وہ مستقل داعش کے رابطے میں ہیں…افغانستان اور پاکستان میں یہ ساری صورتحال…یقیناً تشویشناک ہے… داعش ایک جہادی جماعت ہے اور جہادی جماعت کی قیادت اس زمانے میں خفیہ ہوتی ہے…تو پھر یہاں موجود افراد کا داعش کی قیادت سے رابطہ کس طرح ممکن ہے؟

داعش کی قیادت اگر فون اور انٹرنیٹ پر بیٹھی ہوتی تو کب کی شہید ہو چکی ہوتی…وہ حضرات تو ایک بڑی گھمسان کی جنگ میں مشغول ہیں… ہاں ان کے بہت سے حامی انٹرنیٹ پر موجود رہتے ہیں…اور لوگ انہیں سے رابطے کو…قیادت کے ساتھ رابطہ قرار دے دیتے ہیں…

دوسری طرف امت میں ایک طبقہ ایسا بھی پیدا ہو چکا ہے جو…خلافت کے نام پر مسلمانوں کو مسلسل تقسیم اور گمراہ کر رہا ہے…دیکھیں کیسا ستم ہے کہ …خلافت ہی دنیا بھر کے مسلمانوں کو جوڑنے کا واحد ذریعہ ہے…مگر ان کم عقل لوگوں نے خلافت کے نام کو مسلمانوں میں مزید تقسیم اور تفریق کا ذریعہ بنا لیا ہے…یہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم مسلح جہاد نہیں کرتے مگر ہمارا عقیدہ ہمارا اسلحہ ہے اور ہم اسی کے ذریعے خلافت قائم کریں گے…یہ کافی خطرناک اور گمراہ کن نعرہ ہے اور اس تنظیم کی ساری قیادت امریکہ اور برطانیہ میں بیٹھی ہوئی ہے…یہ لوگ جہاد اور خلافت کی جڑوں کو کاٹ رہے ہیں…اور مسلمانوں کو ایک مقدس نام سے گمراہ کر رہے ہیں…جہاد و قتال کے بغیر خلافت کا قیام ایک غیر فطری بات ہے…افغانستان میں جب خالص اسلامی حکومت قائم ہوئی تو انہوں نے ایک پائی یا ایک گولی کی مدد نہیں کی…پھر یہ کون سی خلافت چاہتے ہیں…اب جب ’’الدولۃ الاسلامیہ‘‘ نے فتوحات حاصل کیں تو یہ لوگ ان کی صفوں میں گھس گئے اور وہاں سے ’’خلافت‘‘ کا اعلان کرا دیا…حالانکہ خلافت تو زمین پر ہوتی ہے…
اِنِّیْ جَاعِلٌ فِیْ الْاَرْضِ خَلِیْفَۃً

زمین فتح ہی نہیں ہوئی تو اس پر خلافت کا کیا مطلب ؟ … ہاں جتنی زمین فتح ہو چکی اس پر خلافت کی طرز سے ا سلامی امارت اور حکومت قائم ہوتی ہے…جو افغانستان میں طالبان نے …اور عراق و شام کے کئی علاقوں میں ’’الدولۃ الاسلامیہ‘‘ نے قائم کی ہے…اور مجھے یقین ہے کہ ’’الدولۃ الاسلامیہ‘‘ اگر عراق کے بعد ایران کو فتح کر لے تب بھی وہ افغانستان میں …امیر المومنین ملا محمد عمر مجاہد سے بیعت کر کے…امارت اسلامیہ کا حصہ بن جائے گی…کیونکہ امارت اسلامیہ کا نظام زیادہ مستحکم،اور شریعت کے زیادہ قریب اور مطابق ہے…جبکہ داعش کو ابھی بننے اور سنبھلنے میں وقت لگے گا…اس میں ہر رنگ،ہر نسل اور طرح طرح کے نظریات کے افراد شامل ہیں…جنگ گرم ہونے کی وجہ سے سب کو قابو میں کرنا اور ایک عقیدہ اور نظام پر لانا آسان نہیں ہے…پچھلے دو ماہ میں داعش اپنے پانچ بڑے کمانڈروں کو معزول اور گرفتار کر چکی ہے…ایک کمانڈر تکفیری تھا…ایک کمانڈر انٹرنیٹ پر جماعت کو بدنام کر رہا تھا…اور باقی تین بھی اسی طرح کے جرائم میں ملوث تھے…

اچھا اب ایک اور بات سنیں…پاکستان میں ’’داعش‘‘ کے کئی نمائندے اور ولی وارث وہ لوگ بنے ہوئے ہیں جو جمہوریت کے تحت انتخابات میں حصہ لیتے ہیں…جبکہ’’داعش‘‘ کے اعلان کردہ عقیدے کے مطابق جمہوری انتخابات میں حصہ لینا ’’کفر‘‘ ہے…اب اسی سے آپ ان کی نمائندگی کا اندازہ لگا سکتے ہیں…اے مسلمانو! جھوٹ،شہرت پسندی اور فضول کاموں سے بچو…قربانی والے فریضے جہاد کو مذاق نہ بناؤ…اللہ تعالیٰ امارت اسلامیہ افغانستان کو فتوحات اور اپنی نصرت عطاء فرمائے…اللہ تعالیٰ ’’الدولۃ الاسلامیہ فی العراق و الشام‘‘ کو بھی فتوحات اور اپنی نصرت عطاء فرمائے…جہاد ایک خالص اسلامی فریضہ ہے جیسا کہ نماز…نماز وہی قبول ہوتی ہے جو شریعت کے مطابق ہو…جہاد بھی وہی قبول ہوتا ہے جو شرعی احکامات کے مطابق ہو…اپنے نظریات کو فتنوں سے بچائیں اور وقتی نعروں اور شور شرابوں سے اپنے نظریات تبدیل نہ کیا کریں…

مستحکم،مضبوط اور مستقل نظریات ہی… مقبول اور پسندیدہ ہوتے ہیں…

کل ہی خبروں میں پڑھا کہ …وہ لوگ جو ہمیں ایجنسیوں کا ایجنٹ قرار دے کر بھاگ گئے تھے…اور پاکستان فتح کرنے کا کہتے تھے…انہوں نے اعلان کیا ہے کہ ہم اپنی کارروائیاں افغانستان تک محدود کر رہے ہیں…پاکستان میں ہم صرف’’ تبلیغ دین‘‘ کا کام کریں گے…کس منہ سے؟

کس منہ سے؟…

لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ

اللہم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا

لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
مختصر، مختصر (رنگ و نور ۔ سعدی کے قلم سے)

rangonoor 460 – Saadi kay Qalam Say – Mukhtasar Mukhtasar
مختصر، مختصر

رنگ و نور ۔۔۔سعدی کے قلم سے (شمارہ 460)

اللہ تعالیٰ میری اور آپ سب کی مغفرت فرمائے…آج کچھ مختصر باتیں
توبہ، اِستغفار نہ چھوڑیں

اگر شیطان اور نفس کا غلبہ ایسا ہو چکا کہ گناہ نہیں چھوٹتے…بار بار ہو جاتے ہیں تو بس ایک ہمت کریں کہ توبہ کرنا نہ چھوڑیں…اِستغفار سے نہ بھاگیں …شیطان توبہ اور اِستغفار کے وقت طرح طرح کے وسوسے ڈالے گا…منہ چڑائے گا…منافق منافق کے نعرے لگائے گا…مگر آپ لگے رہیں…

معافی مانگتے رہیں،معافی مانگتے جائیں…کوئی گناہ اللہ تعالیٰ کی رحمت اور مغفرت سے بڑا نہیں…اور یہ سوچنا جرم ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے معاف نہیں فرمائے گا…ہاں بس! گناہ کو گناہ سمجھیں،اس پر نادم ہوں اور اسے برا سمجھیں…’’اہل ھویٰ‘‘ اس لئے مارے جاتے ہیں کہ وہ اپنے گناہ کو نیکی سمجھ بیٹھتے ہیں اور توبہ نہیں کرتے…
محدود اور وسیع

آج کل ایک نیا شوشہ میڈیا میں اُڑ رہا ہے… محدود نظریہ والے جہادی اور وسیع نظریہ والے جہادی…وہ جو افغانستان میں چالیس ملکوں کی فوج سے لڑ رہے ہیں…اور کشمیر میں بھارتی سامراج سے برسرپیکار ہیں…ان کو ’’محدود جہادی‘‘ اور ایجنسیوں کا غلام قرار دیا جا رہا ہے…اور جو صرف پاکستانی حکومت سے لڑ رہے ہیں وہ ہیں…عالمی جہادی، وسیع نظریہ والے جہادی…ایسی نابغۃ العصر جاہلانہ تشریح…زندگی میں پہلی بار سنی ہے…اکتالیس طاقتوں سے لڑنے والے محدود اور غلام…اور ایک طاقت سے لڑنے والے وسیع اور آزاد…بلکہ یہ بھی سنا ہے کہ…کچھ لوگ سرے سے جہاد میں اُترے ہی نہیں… وہ صرف انٹرنیٹ پر ویڈیو چلانے اور انگلیاں گھمانے کا کام کرتے ہیں …مگر اُن کا خیال یہ ہے کہ…وہ ’’انٹرنیشنل مجاہد‘‘ اور بہت بڑے جہادی ہیں…

اللہ تعالیٰ نفس اور شیطان کے فریب سے تمام اہلِ اسلام اور تمام اہلِ جہاد کی حفاظت فرمائے…ہر مجاہد ایمان اور تقویٰ کی راہ چلے اور خود اپنے مال،جان، وقت کی قربانی دے…بس یہی بڑی کامیابی ہے…باتیں کرنا،تنقید کرنا،غیبت کرنا،فخر اور عجب میں مبتلا ہونا…کوئی کمال کی بات نہیں…
داعش کا شکریہ

داعش نے امریکی جاسوس’’جیمز فولی‘‘ جو صحافی کے روپ میں کام کر رہا تھا کے بدلے…محترم بہن جی عافیہ صدیقی کی رہائی کا مطالبہ کیا تھا…امریکہ نے یہ مطالبہ مسترد کر دیا،جس کے نتیجے ’’جیمزفولی‘‘ جان سے گیا…بہن جی کی رہائی کا مطالبہ پورے عالم اِسلام کے جذبات کی ترجمانی ہے…عافیہ صدیقی سب مسلمانوں کی محترم بہن ہیں…اور ان کی آزادی کا خواب ہر مجاہد کی آنکھ میں چمکتا ہے…داعش نے بہن جی کی رہائی کے لئے ایک کوشش کی…اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر عطاء فرمائے اور فتنوں سے ان کی حفاظت فرمائے…ایسے مطالبات اور ایسی کوششیں کامیاب نہ بھی ہوں تب بھی ان میں کامیابی پوشیدہ ہوتی ہیں…عالم کفر کے سامنے اُمت مسلمہ کی غیرت اور باہمی دردمندی کا ثبوت آ جاتا ہے…اور یہ ثبوت ان پر رُعب طاری کر دیتا ہے…اور سب سے بڑھ کر یہ کہ…ایسی مبارک کوششوں پر اللہ تعالیٰ کی رحمت نازل ہوتی ہے…امید ہے کہ ان شاء اللہ یہ سلسلہ آگے بھی جاری رہے گا…

داعش والوں کا شکریہ! …
خوش آمدید

جہاد کی عمومی برکات ظاہر ہو رہی ہیں…اور الحمد للہ پوری دنیا میں اِسلام تیزی سے پھیل رہا ہے…یہ بڑا حوصلہ افزا اِتفاق ہے کہ جب بھی خبریں پڑھتے ہیں تو کسی نہ کسی معروف شخصیت کے مسلمان ہونے کی خبر دل کو باغ باغ کر دیتی ہے…ایسا پہلے نہیں تھا…یہ سب جہاد کے پھیلاؤ کے بعد ہوا کہ مسلمانوں کو مانا جا رہا ہے،دیکھا جا رہا ہے اور ان کے وجود کو تسلیم کیا جا رہا ہے…اور اُن دینی کاموں کو سرپر بٹھایا جا رہا ہے جن میں جہاد کی بات نہیں ہے…چنانچہ اسلام کی روشنی ہر طرف پہنچ رہی ہے…معروف شخصیات کے علاوہ …جو غیر معروف افراد مسلمان ہو رہے ہیں ان کی تعداد بے شمار اور ان کا اسلامی جنون قابل رشک ہے…موجودہ زمانے میں کامیابی کا سفینہ ایک ہی ہے…اور وہ ہے ’’سفینۂ اسلام‘‘ اس سفینے پر سوار ہونے والے نئے بھائیوں اور بہنوں کو …سلام اور خوش آمدید…

بے شک شہدائِ اسلام کا خون…خوب رنگ لا رہا ہے…
مجاہدین اور میڈیا

مجاہدین کی کامیابی اسی میں ہے کہ …وہ مروّجہ میڈیا سے دور رہیں،ہوشیار رہیں اور اس سے بچیں…اگر تمام مجاہدین مکمل عزم کے ساتھ یہ کام کر لیں تو جہاد کی منزل بہت قریب آ سکتی ہے…اس میڈیا نے مجاہدین کو لڑایا،گمراہ کیا، مروایا اور فتنوں میں ڈالا…مجاہدین کو چاہیے کہ خالص اسلامی اصولوں پر اپنا میڈیا فعال کریں…اپنی کتابیں،رسائل ،اپنے اخبارات…اور اپنا مواصلاتی نظام…اپنا سمعی بصری نظام…یاد رکھیں! دنیا بھر کا میڈیا آپ کا محتاج ہے…مگر جب آپ خود کو ان کا محتاج بناتے ہیں…اُن کے ہر سوال کا جواب دینا ضروری سمجھتے ہیں…اور ان کے ہاں موجود رہنے کو ہی اپنی زندگی سمجھتے ہیں تو …ناکامیاں اور فتنے آپ کو گھیر لیتے ہیں…شہرت پسندی سے بچیں اور شہادت پسندی کو اپنا شعار بنائیں…اگر آپ زندہ نظر آنا چاہتے ہیں تو اپنے عمل سے نظر آئیں…نہ کہ اپنی تصویروں اور میڈیا بیانات کے ذریعے…

کسی کو یہ بات سمجھ نہ آئے تو…وہ مُردہ قذافی کی تصاویر،ڈرامے اور ناٹک شمار کر لے…
لیبیا سے ٹھنڈی ہوا

براعظم افریقہ کے تاریخی اسلامی ملک… لیبیا سے اسلامی جہاد کی ٹھنڈی ہوائیں چل پڑی ہیں …یہ اس پورے خطے کے لئے بہت اہم پیش رفت ہے…مصر وغیرہ کے طواغیت تو ابھی سے ایسے خوفزدہ ہیں کہ…وہ لیبیا کے مجاہدین پر بمباری بھی کر آئے ہیں…ان کے پڑوس میں غزہ دن رات ذبح ہوتا رہا…ڈھائی ہزار مسلمان شہید اور ایک لاکھ مسلمان زخمی ہو گئے…مگر مصر نے اسرائیل کی طرف ایک تھوک بھی نہ پھینکی…لیکن لیبیا کے مجاہدین پر بمباری کرنا انہوں نے ضروری سمجھا…لیبیا کے مجاہدین کو سلام…
تین سو تیرہ میں سے پینسٹھ

اللہ تعالیٰ کے بھروسے پر’’ تین سو تیرہ‘‘ مساجد کا ارادہ ’’جماعت‘‘ نے کر رکھا ہے…الحمد للہ ’’اٹھاون‘‘مساجد تعمیر ہو چکی ہیں…اس سال ان شاء اللہ کوشش کریں گے کہ ان تمام مساجد کا تعارف اور تصاویر ڈائری میں آ جائیں…یہ اٹھاون مساجد بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے تعمیر ہوئی ہیں…ورنہ ہم بے وسائل لوگوں کے بس میں ایک مسجد بھی نہ تھی…اس سال ان شاء اللہ سات مساجد مزید تعمیر کی جائیں گی…ان سات مساجد کی فہرست اور تعیین حتمی ہو چکی ہے…جس کا اعلان…ان شاء اللہ عید الاضحی کے فوراً بعد کر دیا جائے گا…اور کوشش ہو گی کہ رمضان المبارک تک ان تمام مساجد میں اذان گونجے،خطبہ جمعہ اور با جماعت نماز کا نور چمکے…تمام رُفقائِ کار کو مبارک…اللہ تعالیٰ سے نصرت اور قبولیت کی اِلتجا ہے…

لا الہ الا اللہ،لا الہ الا اللہ،لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ

اللہم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا

لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ

٭…٭…٭
مؤثر نسخہ (رنگ و نور ۔ سعدی کے قلم سے)

rangonoor 459 – Saadi kay Qalam Say – Muasir Nuskha
مؤثر نسخہ

رنگ و نور ۔۔۔سعدی کے قلم سے (شمارہ 459)

اللہ تعالیٰ نے مجاہدین کے لئے جہاد میں کامیابی کا نسخہ ارشاد فرما دیا ہے:
واذکرواللّٰہ کثیرالعلکم تفلحون

اللہ تعالیٰ کا بہت ذکر کرو…کامیابی یقینی ہے…

الحمد للہ پشاور میں دورہ تربیہ شروع ہو چکا ہے …اللہ تعالیٰ سے امید ہے کہ آگے چل کر ملک کے ہر ڈویژن میں یہ مبارک دورہ شروع ہو جائے گا…
سبحان اللّٰہ وبحمدہ سبحان اللّٰہ العظیم

دین کا درد رکھنے والے افراد کے لئے کتنی آسانی ہو گئی…ہر شخص خود نہ تو اچھی طرح دین سمجھا سکتا ہے اور نہ ہی دنیا میں پھنسے ہوئے کسی مسلمان کا ذہن درست کر سکتا ہے…

اب آسانی ہو گئی کہ… دعوت دے کر،منت سماجت کر کے ’’دورہ تربیہ‘‘ میں لے آئے… یہاں ماشاء اللہ سب کچھ ہے…الف اللہ سے بات شروع ہوتی ہے…کلمہ دل میں اترتا ہے اور پھر دین کی سب سے اونچی چوٹی’’جہاد فی سبیل اللہ‘‘ تک بات پہنچ جاتی ہے…

ماحول میں نورانیت ہوتی ہے…خدمت اور رہنمائی کے لئے اہل محبت…اکرام اور محبت کے ساتھ موجود ہوتے ہیں…اور گناہوں سے الحمد للہ دوری کا ماحول ملتا ہے…

آپ اندازہ لگائیں کہ …دین کے دشمن کیسے سرگرم ہوئے کہ…فتنوں اور گناہوں کو ہر مسلمان کے گھر میں داخل کر دیا…گھر تو اب بڑی بات ہر مسلمان کی جیب میں گناہوں اور فتنوں کا پورا سامان پہنچا دیا گیا ہے…ظالموں نے دن رات محنت کی کہ کس طرح اللہ تعالیٰ کے بندوں کو گمراہ کریں…اور اللہ تعالیٰ کے بندوں کو اللہ تعالیٰ سے دور کریں…یہ ان کی محنت ہے کہ آج ہر گناہ سستا ہو گیا،آسان ہو گیا، ہر کسی کو میسر ہو گیا…اور اللہ معاف فرمائے ہر کسی کی زندگی اور معاشرے کا حصہ بن گیا…اب کون کس کی نگرانی کرے…اور کون کس کو گناہ سے باز رکھے…سود کی لعنت ایسی عام کر دی کہ مسلمان حلال کو ترسے…ہر طرف جوا ہی جوا اور سود ہی سود ہے…

صرف ایک گھنٹے میں ہر کسی کو اس کے موبائل پر…پانچ بار گناہ کی دعوت ملتی ہے…لاٹری کھیل لو…گانے سن لو…بدمعاشی دیکھ لو…سودی انعامی مقابلے میں کود پڑو…میوزک بجا لو…آہ افسوس! اس ماحول نے دل کی مٹھاس اور چہرے کا پانی چھین لیا…

دل ایسے سخت اور قساوت زدہ ہوئے کہ دو آنسو بھی اللہ تعالیٰ کے لئے نہیں ٹپکتے…موبائل فون ہر کسی کے گلے میں بندھی ہوئی رسی ہے…یا یوں سمجھیں کہ ناک کی نکیل ہے… ایک منٹ فارغ نہیں چھوڑتا کہ انسان کچھ اپنے اندر جھانک لے…اپنی روح کو کچھ وقت دے …اپنے دین کو کچھ درست کرے…اپنی قبر کی کچھ فکر کرے…

موبائل نے انسان کو ایک بے وقوف مشین بنا دیا ہے…فلاں گر گیا،فلاں اٹھ گیا، فلاں بیمار ہے،فلاں کا ایکسیڈینٹ ہو گیا…فلاں آخری سانس لے رہا ہے…فلاں یہ کہہ رہا ہے …اب ہم فلاں،فلاں اور فلاں کے ہو گئے… اور ’’اپنے‘‘ نہ رہے…

اپنے لئے تو ہمارے پاس وقت ہی نہیں کہ کچھ اپنا بھی بنا لیں کہ…آگے جب اکیلی قبر میں ہوں گے تو وہاں ہمارے ساتھ جائے گا اور کام آئے گا…

خیر یہ ایک الگ موضوع ہے … بات یہ چل رہی تھی کہ اہل فساد اور اہل فتنہ نے دن رات محنت کی…اور ہر گناہ کو ہمارے گھر کے دروازے تک پہنچا دیا…کیا ’’اہل دین‘‘ کا فرض نہیں بنتا کہ وہ محنت کریں اور مسلمانوں کو گناہوں کے ماحول سے نکال کر …خالص دینی ماحول میں لے جائیں …ساز اور گانے کے شور سے نکال کر …اللہ، اللہ ، اللہ کی صداؤں میں لے جائیں… دنیا کی تنگی اور گھٹن سے نکال کر…آخرت کی وسعت یاد دلانے والی جگہوں پر لے جائیں… دنیا پرستی کے تعفن سے نکال کر…شوق شہادت کی خوشبوؤں میں لے جائیں…الحمد للہ دورہ تربیہ کا نصاب ایک مسلمان کو ایمان،ذکر ،جہاد ہر ایک کی لذت چکھاتا ہے…اور زندگی کو تنگ گلی سے نکال کر کھلی شاہراہ پر ڈالتا ہے…آپ اپنے بچوں پر بھی یہ احسان کریں کہ جو بالغ ہو چکے ان کو دورہ تربیہ میں بھیجیں اور بار بار بھیجیں…آپ اپنے رشتہ داروں کے ساتھ بھی یہ بڑی بھلائی کریں…وہ رشتہ دار مالدار ہوں یا غریب آپ ان کے پاس چل کر جائیں…اور انہیں منت سماجت کے ساتھ ترغیب دیں کہ…آپ اللہ تعالیٰ کی رضاکے لئے اپنی زندگی کا ایک ہفتہ دے دیں…ان شاء اللہ اس ایک ہفتہ کی روشن راتیں اور معطر دن آپ کے بہت کام آئیں گے…یہی دعوت اپنے پڑوسیوں کو بھی دیں…جماعت کے ذمہ دار دورہ تربیہ کی قدر کریں اور اس میں بڑھ چڑھ کر خود حصہ لیا کریں…اپنے اندر ایمانی کیفیات مضبوط ہوں گی تو ہماری دعوت میں بھی برکت ہو گی اور ہمارے اوقات میں بھی…

اہل برکت،بہت تھوڑے وقت میں سالہا سال کا کام کر لیتے ہیں…اپنے نفس کی اصلاح ہر مسلمان کے ذمہ لازم اور فرض ہے…دورہ تربیہ اصلاح نفس کا بہترین اور آسان نسخہ ہے…ہر مسلمان کے لئے لازم ہے کہ وہ اپنے ایمان کی تجدید کرتا رہے اور دورہ تربیہ ایمان کی تجدید کا بہترین ذریعہ ہے…اپنے گناہوں پراستغفار اور سچی توبہ کرنا یہ ہر مسلمان کے لئے لازم ہے…دورہ تربیہ سچی توبہ اور سچے استغفار کی بہترین مجلس ہے …جہاد کو ماننا فرض ہے اور جہاد میں نکلنا بھی فرض ہے…جہاد کو مانے بغیر ایمان مکمل نہیں ہوتا… اور جہاد میں نکلے بغیر اعمال صالحہ کی بلند چوٹی نصیب نہیں ہوتی…دورہ تربیہ جہاد سمجھاتا ہے اور جہاد کی راہیں دکھاتا ہے…ذکر اللہ ہر عمل کی روح ہے… ذکر ہی میں مسلمانوں کی اصل ترقی ہے …اور ذکر ہی تمام اعمال کا سرتاج ہے…دورہ تربیہ ذکر اللہ کی شاندار محفل ہے…کئی لوگوں نے بتایا کہ ہم نے دورہ تربیہ کے سات دنوں میں جتنا ذکر کیا ہے…اتنا اپنی پوری سابقہ زندگی میں نہیں کیا تھا…

جب بندہ اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس بندے کا ذکر فرماتے ہیں:
سبحان اللّٰہ وبحمدہ سبحان اللّٰہ العظیم

محبت پہلے اللہ تعالیٰ کی طرف سے آتی ہے…
ویحبھم

یہ محبت دل میں اتر کر اس دل میں اللہ تعالیٰ کے لئے محبت پیدا کرتی ہے
ویحبونہ

یعنی عرش کے اوپر سے محبت آتی ہے…اور مومن کے دل میں اتر جاتی ہے…پھر اس دل سے محبت بلند ہوتی ہے…اور عرش کے نیچے جا کر سجدہ کرتی ہے…
ویحبھم ویحبونہ

اللہ تعالیٰ ان سے محبت فرماتا ہے اور وہ اللہ تعالیٰ سے محبت کرتے ہیں

ذکر اللہ اسی محبت کا پھل ہے…بہت میٹھا اور بہت لذیذ پھل

اللّٰہ، اللّٰہ، اللّٰہ، اللّٰہ، اللّٰہ

نماز ایک مسلمان کے لئے…اس کی زندگی کا سب سے اہم کام اور اہم فریضہ ہے…دورہ تربیہ …نماز سکھاتا ہے،نماز سمجھاتا ہے اور فرائض کے ساتھ ساتھ نوافل کا ذوق عطاء کرتا ہے…دراصل نماز اسی مسلمان کی محفوظ رہتی ہے جس کو نوافل کا ذوق ہو…تب فرائض ،واجبات اور سنن اس کے لئے بہت آسان ہو جاتے ہیں…الغرض دورہ تربیہ ایک مختصر سا نصاب مگر بہت انمول نعمت ہے…اہل پشاور کو مبارک کہ ان کے ہاں یہ ’’دورہ‘‘ پہنچ گیا…زندگی مختصر ہے اس دورہ سے خوب فائدہ اٹھائیں…یہ دورہ زندگی کو قیمتی اور کامیاب بنانے کا مؤثر نسخہ ہے…

لا الہ الا اللّٰہ، لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ

اللہم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا

لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ

٭…٭…٭
’’امیر المومنین‘‘ کی فراست (رنگ و نور ۔ سعدی کے قلم سے)

rangonoor 458 – Saadi kay Qalam Say – Amir ul Momineen ki Farasat
’’امیر المومنین‘‘ کی فراست

رنگ و نور ۔۔۔سعدی کے قلم سے (شمارہ 458)

’’اللہ تعالیٰ‘‘ حضرت امیر المومنین ملا محمد عمر مجاہد کی حفاظت فرمائے…اور انہیں اس وقت موجود پوری امت مسلمہ کی طرف سے جزائے خیر عطاء فرمائے…ماشاء اللہ انہوں نے تاریخ اسلام کی گود میں ایک بڑی فتح ڈالنے میں مرکزی کردار ادا کیا ہے…ایک ایسی فتح جسے کبھی نہیں بھلایا جا سکے گا…ایک ایسی فتح جو تاقیامت مسلمانوں کا عزم اور حوصلہ بڑھاتی رہے گی…

سبحان اللہ! کارنامہ ہو تو ایسا ہو…نہ سنانے کی ضرورت،نہ منوانے کی حاجت…ساری دنیا خود کھلی آنکھوں سے دیکھ رہی ہے…افغانستان میں ’’امیر المومنین‘‘ کی فتح اللہ تعالیٰ کی کھلی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے…یہ آیۃ من آیات اللہ ہے…وہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی نصرت سے ہو گیا جو کل تک نا ممکن نظر آتا تھا…قارئین سوچتے ہوں گے کہ آج کے ماحول میں…جبکہ ہر طرف جلوس،لانگ مارچ اور دھرنوں کی گہما گہمی ہے…میں یہ کیا موضوع لے کر بیٹھ گیا ہوں…مگر آپ ہی بتائیں کہ دھرنوں اور لانگ مارچوں پر کیا لکھا جائے؟…سب کچھ خبروں میں آ رہا ہے…اخبارات،ٹی وی، اور نیٹ سب پر تازہ ترین صورتحال دستیاب ہے… موجودہ حکومت بھی اس قابل نہیں کہ اس کی حمایت یا وکالت کی جائے … ہندوستان میں مسلمانوں کے قاتل کو جس طرح ساڑھیاں بھیج کر…شہداء کشمیر…شہداء ہند کے مبارک اور معطر خون سے غداری کی گئی…اس کا فوری رد عمل زمین پر جلوہ افروز ہوا کہ…کل تک جو تکبر اور رعونت کا بت بنے بیٹھے تھے…آج وہ خوف،گھبراہٹ اور عدم تحفظ کے احساس میں گردن تک دفن ہیں…شہداء کا وارث اللہ تعالیٰ ہے وہ اپنے ان وفادار عاشقوں کے کام،عمل اور اجر کی حفاظت فرماتا ہے…یہ حکمران بے چارے تو چار دن کھا پی کر…عیاشی کر کے،خزانے جمع کر کے مر کھپ جاتے ہیں…جبکہ شہداء کرام زندہ رہتے ہیں…اور زندہ رہیں گے…کشمیر میں تو ایسے ایسے اللہ والے صدیقین شہید ہوئے کہ وہ…اس زمانے میں اپنی مثال آپ تھے…حالیہ حالات میں اگر موجودہ حکومت ختم ہوئی تو اس کا اصل اور حقیقی سبب ایک ہی ہو گا…اور وہ ہے قاتل انڈیا کے ساتھ ناجائزیاری کا جذبہ…واقعی یہ جذبہ منحوس ہے،ناپاک ہے اور ناجائز ہے…اور آج کل حکومت اسی نحوست کے وبال میں ہے…یہ بات تو ہوئی حکومت کی…جبکہ دوسری طرف دھرنے والے جو دو حضرات ہیں ان کی تائید اور حمایت بھی بہت مشکل کام ہے…ایک تو ان میں کافروں کا چھوڑا ہوا غبارہ ہے…جبکہ دوسرا بالکل بے اعتبارا ہے … اسی لئے اس موضوع پر نہ کچھ لکھا ہے اور نہ ہی لکھنے کا فی الحال ارادہ ہے…الا ان یشاء اللہ

اب سوال یہ ہے کہ حضرت ملا محمد عمر صاحب مدظلہ العالی آج کیسے یاد آ گئے؟…پہلی بات تو یہ ہے کہ وہ آج یاد نہیں آئے ،روز یاد آتے ہیں اور بار بار یاد آتے ہیں…ان کے ساتھ ہمارا تعلق دنیا کے لئے نہیں آخرت کی کامیابی کے لئے ہیں…اور جو تعلق آخرت میں کام آنے والا ہو وہ بہت قیمتی ہوتا ہے…

جی ہاں! بے حد قیمتی…ایسے تعلق کی حفاظت کے لئے انسان کو جو قربانی دینی پڑے خوشی سے دے دینی چاہیے … کیونکہ آخرت میں ہمیشہ رہنا ہے…حقیقی محبت کا جذبہ انسان کو اندر سے بے حد مضبوط کر دیتا ہے…اور یہ وہ محبت ہوتی ہے جو کسی دنیاوی نقصان سے کم نہیں ہوتی…محبوب سے ملاقات ہوتی ہے یا نہیں؟حقیقی محبت کو اس کی ضرورت نہیں:

’’جب ذرا گردن جھکائی دیکھ لی‘‘

محبوب اس محبت کی قدر کرتا ہے یا نہیں؟…حقیقی محبت کو اس کی بھی ضرورت نہیں…محبت تو انسان کے اپنے اندر ہوتی ہے…اور یہ محبت خود محبت کرنے والے کو طرح طرح کے فوائد عطا کرتی ہے…اپنی مختصر سی زندگی میں بہت سے اہل دل اور اہل کمال کو دیکھا…اللہ تعالیٰ نے ایک زمانہ میں سیاحت فی الارض بھی آسان فرما دی تھی…ملک ملک نگر نگر کا پانی پیا…اور اصحاب کمال سے ملاقاتیں نصیب ہوئیں… ماشاء اللہ …اللہ تعالیٰ کی زمین کبھی صادقین،صدیقین اور اولیاء کرام سے خالی نہیں ہوتی…

سب اہل دل اور اہل بصیرت کو سلام…مگر حضرت ملا محمد عمر مجاہد کی بات ہی کچھ اور ہے…
اللہم اغفرلہ واحفظہ وبارک لہ

ان سے بہت کم ملاقات رہی…الحمد للہ ایسا تعلق بن گیا تھا کہ مزید صحبت کی امید بن چلی تھی کہ اچانک وہ بادلوں میں چھپ گئے…اپنی رائے کسی پر نہیں ٹھونستا مگر اس کا اظہار ضرور کرتا ہو ں کہ…اپنی زندگی میں ان جیسا باکمال کوئی اور نہیں دیکھا…
ماشاء اﷲ لا قوۃ الا باﷲ وبارک اﷲ علیہ ولہ

اب وہ بادلوں کے پیچھے ہیں…مگر روشنی تو چھم چھم آتی ہے نا؟…وہ روشنی جو مایوسی کی رات نہیں پڑنے دیتی…یہ تو ہوئی پہلی بات…اب آئیے دوسری بات کی طرف کہ آج وہ خاص طور سے کیوں یاد آئے کہ ہماری محفل کو ہی مہکا دیا …دراصل شام و عراق میں مجاہدین کی جماعت…الدولۃ الاسلامیہ فی العراق والشام…کے بارے آجکل دینی طبقوں میں طرح طرح کی بحثیں گرم ہیں…کچھ بحثیں تو بالکل فضول،لا یعنی اور ضرر رساں ہیں…ٹویٹر اور فیس بک پر لاکھوں مسلمان…ان لا یعنی بحثوں میں الجھ کر اپنے اعمال اور اپنا قیمتی وقت ضائع کر رہے ہیں…القلم کے صفحات پر عزیزم مولانا طلحہ السیف کا اس بارے مضمون بہت عمدہ اور نافع تھا…ان بحثوں میں افسوسناک پہلو یہ ہے کہ مسلمانوں کے درمیان تفریق اور تفرقے میں اضافہ ہوتا ہے…اور آپس کی طعن تشنیع اور گالم گلوچ سے اعمال بھی برباد ہوتے ہیں…بہت سے افراد کو اپنی زبان کی خارش اور کھجلی دور کرنی ہوتی ہے… یہ لوگ قرآن مجید کا ایک پارہ تلاوت کریں تو تھک جاتے ہیں…جبکہ اس طرح کی بحثوں میں گھنٹوں تک بک بک کرنا یا کمپیوٹر سے جڑے رہنا ان کے لئے آسان ہوتا ہے…اللہ تعالیٰ اس بری عادت سے ہم سب کی حفاظت فرمائے…شام کا جہاد بھی مبارک ہے… فلسطین کا جہاد بھی مبارک ہے…افغانستان کا جہاد بھی مبارک ہے … کشمیر کا جہاد بھی مبارک ہے…الغرض جہاں بھی شرعی شرائط کے ساتھ جہاد فی سبیل اللہ ہو رہا ہے وہ مبارک ہے…ہمیں اپنی مکمل استطاعت کے ساتھ جہاد فی سبیل اللہ میں لگ جانا چاہیے…جہادی تربیت لینا،محاذوں پر جانا… جان سے جہاد کرنا،مال سے جہاد کرنا…زبان کے ذریعہ جہاد کی دعوت دینا وغیرہ…اور اس میں ترتیب یہ ہو گی کہ ہمیں جہاد کا جو محاذ میسر ہو ہم اس میں اپنی مکمل صلاحیتیں لگا دیں…نفس اور شیطان کا دھوکہ یہ ہے کہ قریب ہی جہاد موجود ہوتا ہے…اور شیطان بہکاتا ہے کہ نہ ابھی شرکت نہ کرو… حضرت امام مہدی رضی اللہ عنہ کی علامات قریب ہیں وہ تشریف لائیں گے تو ان کے ساتھ نکل کر لڑنا…بس اس انتظار میں عمر کٹ جاتی ہے،جسم اور عزائم کمزور ہو جاتے ہیں…اور جہاد میسر ہونے کے باوجود محرومی قسمت بن جاتی ہے…اسی طرح یہ خیال کہ…میں صرف فلاں جگہ جا کر لڑوں گا؟…اللہ کے بندو!جس جہاد کی کمان زمانے کا معتبر ترین مسلمان…ملا محمد عمر مجاہد کر رہا ہو…اس جہاد سے رکے رہنا اور دور دور کی تیاریوں میں اپنا وقت لگانا…یہ کون سی دانش ہے اور کونسا کارنامہ؟…قریب ہی غزوہ ہند کی بہاریں ہیں جس میں حافظ سجاد خان شہید، غازی بابا شہیدؒ… اور افضل گورو شہیدؒ اونچی چوٹیوں سے مسکراتے ہیں…اسے چھوڑ کر بیٹھے رہنا کہ میں نے تو دور جا کر لڑنا ہے…پھر بتائیے کہ اگر یہ سوچ یہاں سب کی ہو گئی تو… ان دشمنان اسلام سے کون لڑے گا؟…اگر یہ سوچ سب کی ہو جاتی تو اسلام کی تاریخ میں اتنی بڑی فتح کیسے لکھی جاتی کہ…آج چالیس ملکوں کے لشکر زخمی زخمی شکست خوردہ اپنا سامان باندھ کر بھاگ رہے ہیں…اور افغانستان میں لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ کا ڈنکا بج رہا ہے…خیر یہ بات تو درمیان میں آ گئی…عرض یہ کرنا تھا کہ اس وقت علمی طبقوں میں …مسئلہ خلافت اور مسئلہ امارت بہت شدت کے ساتھ زیر بحث ہے…اور یہ بحث لا یعنی بھی نہیں…کیونکہ زمین پر خلافت قائم کرنا…دین اسلام کے عظیم ترین مقاصد میں سے ہے…اس میں ایک یہ نکتہ سمجھ لیں تو ان شاء اللہ گمراہی سے حفاظت رہے گی…شادی صرف ’’دعوی‘‘ کرنے سے نہیں ہو جاتی…کوئی آدمی دعوی کر دے کہ میں فلاں حکمران کا داماد ہوں…کیا یہ کہہ لینے سے اسے ’’داماد‘‘ کے حقوق مل جائیں گے؟…جواب واضح ہے حقوق تو بالکل نہیں ملیں گے البتہ جوتے وغیرہ پڑ سکتے ہیں…بس اس طرح کوئی یہ دعوی کر دے کہ میں ’’خلیفہ‘‘ ہوں…اس دعوے کا کوئی وزن،کوئی اعتبار اور کوئی شرعی حیثیت نہیں ہے…آج کل کوئی لوگ ’’مہدی‘‘ ہونے کا دعوی کرتے ہیں…ارے اللہ کے بندو! مہدی کو کسی دعوے کی ضرورت ہی نہیں ہو گی…وہ خود زمین پر چھا جائیں گے…اور ان کی خلافت و حکومت ہر کسی کو اپنی آنکھوں سے نظر آئے گی…دوسرا نکتہ یہ ہے کہ اصل میں مسلمانوں کا خلیفہ ساری دنیا میں ایک ہوتا ہے…ایسا کئی صدیوں تک رہا…اور ان شاء اللہ قرب قیامت میں پھر ایسا ہو جائے گا…ایسی خلافت کو ’’خلافت کبری‘‘ کہتے ہیں…تیسری بات یہ ہے کہ جب مسلمانوں سے خلافت کبری کی نعمت چھن گئی اور مسلمان کئی ملکوں اور ٹکڑوں میں بٹ گئے تو ایسے حالات میں مسئلہ یہ ہے کہ اگر کسی مسلمان حاکم کو زمین کے کسی خطے پر غلبہ نصیب ہو جائے…وہ وہاں قبضہ کر لے…اس کا حکم وہاں نافذ ہوتا ہو تو یہ شخص اس خطے کے مسلمانوں کا حاکم یا امیر ہو گا…اسلام اس کی حاکمیت اور امارت کو تسلیم کرتا ہے اور اس کے زیر انتظام مسلمانوں کو اس کی اطاعت کا حکم دیتا ہے…شرط یہ ہے کہ وہ اسلامی حاکمیت کے اصول پورے کرے…اور اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے احکامات کے خلاف حکم نافذ نہ کرے … اب اگر اس علاقے کے مسلمان اپنے اس حاکم یا امیر کو ’’خلیفہ‘‘ کا لقب دے دیں تو یہ بھی جائز ہے…مگر اس کی امارت یا خلافت بس وہاں تک ہوگی…جہاں تک اس کا حکم نافذ ہوتا ہے…وہ دور کے مسلمان جو دوسرے ملکوں میں رہتے ہیں…یہ نہ ان کا خلیفہ ہوگا اور نہ ہی امیر… کیونکہ خلیفہ وہ ہوتا ہے کہ جس کی کمان میں جہاد کیا جائے…جو دشمنوں سے تحفظ فراہم کرتا ہو…جو مظالم میں انصاف دے سکے…اب جب آپ ایک ملک میں رہتے ہیں…اور خلیفہ دوسرے ملک میں ہے تو و ہ آپ کا حاکم اور خلیفہ کس طرح ہو سکتا ہے؟…جہاں اس کا حکم ہی نہیں چلتا تو وہ وہاں کا حاکم کیسا؟…اب حضرت امیر المومنین ملا محمد عمر مجاہد…دامت برکاتہم العالیہ کی دینی فراست اور زمینی حقائق پر نظر دیکھیں کہ جب انہوں نے…افغانستان میں قبضہ کیا تو وہاں جو حکومت قائم کی اس کا نام خلافت کی بجائے’’امارت اسلامیہ افغانستان‘‘ رکھا…اپنے خلیفۃ المسلمین ہونے کا دعوی نہیں کیا…افغانستان سے باہر کسی مسلمان کو اپنی اطاعت کا حکم نہیں دیا…یہ ہے ایمان اور یہ ہے اسلام کی سمجھ…چنانچہ کوئی فتنہ نہ اٹھا اور امارت اسلامیہ نے سات سال تک مسلمانوں کو…قرون اولیٰ کے مزے یاد کرا دئیے…اور پھر وہ ایک عظیم جہاد میں اتر گئی…اور اب الحمد للہ فاتح ہو گئی…عراق و شام کے مجاہدین نے خلافت اور خلیفہ کا نام استعمال کیا تو…ہر طرف سے شور پڑ گیا اور مسلمانوں میں طرح طرح کی بحثوں نے جنم لے لیا…واللہ اعلم آگے کیا ہو گا…فی الحال تو مسلمانوں کو وہاں برسرپیکار تمام مجاہدین کے ساتھ حسن ظن رکھنا چاہیے…ان کے لئے دل کی توجہ سے خوب دعائیں مانگنی چاہئیں…اور ان کے لئے ہر طرح کے ممکنہ تعاون کا جذبہ دل میں رکھنا چاہیے…’’داعش‘‘ نے خلافت کبری کا علان کیا ہو، ایسا ہمارے علم میں نہیں ہے…جن علاقوں پر آنے کا قبضہ ہے وہاں ان کی شرعی حکومت اور امارت قائم ہو چکی ہے…مسلمانوں کو اس کی حمایت کرنی چاہیے…ایران کا مجوسی عفریت…اور شام کا نصیری اژدھا جس طرح سے عراق و شام میں مسلمانوں پر مظالم ڈھا رہا تھا اسے سن کر دل خون کے آنسو روتا تھا…ان مجاہدین نے وہاں اس ظلم کا مقابلہ کیا ہے…اور کسی حد تک مسلمانوں کے قلوب کو ٹھنڈک پہنچائی ہے…تمام مسلمانوں کو ان کے اس کارنامے کی قدر کرکے اور ان کا ممنون ہونا چاہیے … داعش کے مجاہدین کے خلاف ساری دنیا کا کفر جمع ہو چکا ہے…ایسے حالات میں اہل ایمان کو ان کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے…اور خود داعش والوں کے لئے ضروری ہے کہ…وہ دعووں سے دور اور عمل میں مگن رہیں…زمین خود بتا دیتی ہے کہ اس کا حاکم اور خلیفہ کون ہے…

لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ

اللہم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا

لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ

٭…٭…٭
مسلسل دعوت (رنگ و نور ۔ سعدی کے قلم سے)

rangonoor 457 – Saadi kay Qalam Say – Musalsal Dawat
مسلسل دعوت

رنگ و نور ۔۔۔سعدی کے قلم سے (شمارہ 457)

اللہ تعالیٰ اُن ایمان والے مردوں… اور ایمان والی عورتوں پر ’’رحمت‘‘ فرماتے ہیں… جو نیکیوں کی دعوت دیتے ہیں… اور برائیوں سے روکتے ہیں… والحمدللہ رب العالمین
ایک صاحب یاد آگئے

کراچی میں دعوتِ جہاد کا کام شروع ہوا تو آغاز… چھوٹے چھوٹے رسائل اور چھوٹی چھوٹی نشستوں سے ہوا… چند مختصر رسالے تھے… آہ بابری مسجد، میرا بھی ایک سوال ہے، اسلام اور جہاد کی تیاری، اللہ والے، بنیاد پرستی، جہاد رحمت یا فساد وغیرہ…

پھر ایک ماہنامہ بھی شروع ہوا’’صدائے مجاہد‘‘… اتوار کی شام ناظم آباد کی ایک دوکان میں دعوتِ جہاد کی نشست چلتی تھی… کبھی کبھار چھوٹے جلسے بھی ہو جاتے تھے… جہاد کے معاملے میں کافی اجنبیت اور بے رُخی تھی مگر… اللہ تعالیٰ کے فضل سے کام آگے بڑھ رہا تھا… جہادی نظموں کی ایک کیسٹ بھی نہیں ملتی تھی… ایک رات عشاء تا فجر محنت ہوئی اور الحمدللہ کیسٹ تیار ہوگئی… خیر یہ سب کچھ اپنی جگہ… اصل بات یہ بتانی ہے کہ ایک دن ایک صاحب تشریف لائے… بڑی عمر کے تھے مگر چاک و چوبند… فرمانے لگے اب بس دعوتِ جہاد ہی اوڑھنا بچھونا ہے… کپڑے کا ایک تھیلا اُن کے پاس تھا اس میں جہادی کتابچے تھے… فرمانے لگے یہ تقسیم کرتا رہتا ہوں اور لوگوں کو دعوت دیتا رہتا ہوں… اپنی دعوت بھی انہوں نے سنائی بندہ نے دعوت کی کچھ تصحیح اور اُن کی حوصلہ افزائی کی… اگر وہ انتقال فرما چکے تو اللہ تعالیٰ اُن کی مغفرت فرمائے… اور حیات ہیں تو ایمانِ کامل اور حسن خاتمہ اُن کا مقدر بنائے… سائیکل پر چلتے تھے اور دن رات دعوت میں مگن رہتے تھے… بعد میں اُن جیسے کچھ اور حضرات بھی زندگی میں آئے… اُن سب کی عزیمت اور اُن سب کے ذوق کو سلام… جہاد کی بہاریں جہاں جہاں تک پھیلیں اور پھیل رہی ہیںاور جہاں تک ان شاء اللہ پھیلیں گی… اُن سب میں ان باذوق اور محنتی حضرات کا حصہ ہے… سبحان اللہ! ایک ایسا صدقہ جاریہ جس کی وسعت اور پھیلائو کا خود ان حضرات کو بھی کبھی اندازہ نہیں ہوگا… مگر جب اعمال کے دفتر کھلیں گے… تو ایسے لوگ کتنے خوش اور کتنے حیران ہوں گے… اور ان شاء اللہ کیسے جھوم جھوم کر جنت کے بالا خانوں میں جائیں گے… بے شک دعوت کا بڑا مقام ہے… بہت بڑا، بہت بڑا
الحمدللہ اب بھی ہیں

ایک صاحب برطانیہ میں تھے… کیسٹ سن کر دین پر آئے اور پھر خود کو دعوت کے لیے وقف کر دیا… خود دعوت نہ دے سکتے تھے… زندگی ایک بُرا کلب چلاتے گذری تھی… انہوں نے کیسٹوں کا سہارا لیا… جدید مشینیں خریدیں اور اُس طبقے تک دعوت پہنچائی جس کے شرکے خوف سے شرفاء اُن تک پہنچ ہی نہیں سکتے… کیا معلوم کیسٹیں سنتے، سناتے اور تقسیم کرتے… اللہ تعالیٰ نے اُنکی زبان بھی کھول دی ہو… بعد میں اُن سے رابطہ نہ رہا… جماعت کے رفقاء میں… اس ’’محبوبانہ ذوق‘‘ والے چند افراد اب بھی ہیں… اللہ تعالیٰ انہیں سلامت رکھے اور اُن کے کام کو خصوصی قبولیت عطاء فرمائے… اس ذوق کو ’’محبوبانہ‘‘ اس لیے لکھا کہ حدیثِ صحیح ہے… رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
احب الناس الی اللّٰہ انفعھم

لوگوں میں اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب وہ ہے جو دوسروں کو زیادہ نفع پہنچانے والا ہو… زیادہ نفع تو صرف ’’دعوت الی اللہ‘‘ کے ذریعہ ہی ہو سکتا ہے… ایمان کی دعوت، نماز کی دعوت، جہاد کی دعوت… اور پورے دین کی دعوت کے ذریعہ… ہاں! کسی کو کھانا کھلانا، کپڑے دینا، علاج کرنا یہ بھی نفع ہے… مگر عارضی… جبکہ کسی کو اللہ تعالیٰ سے جوڑ دینا یہ ہمیشہ کا دائمی نفع ہے… کسی کو جہاد جیسے فلاح کے راستے پر لانا یہ ہمیشہ کا دائمی نفع ہے… پس جسے اللہ تعالیٰ یہ دھن اور فکر عطاء فرما دے… اُس کے محبوب الی اللہ ہونے میں کیا شبہ ہے؟… کاش ایسا ہو کہ … جماعت کے سب ساتھیوں کو یہ ذوق، یہ دُھن اور یہ فکر نصیب ہو جائے… کوئی انہیں کہے یا نہ کہے… مہم کے دن ہوں یا نہ ہوں… کوئی ان کی سنے یا انہیں دھتکارے… وہ غریب مزدوروں کے درمیان بیٹھے ہوں یا جہاز اور ائرپورٹ پر مالداروں کے درمیان… ہر حال میں ہر جگہ دعوت، دعوت اور دعوت… تب پتا ہے کیا ہوگا؟ایسے افراد پر اللہ تعالیٰ کی رحمت چھم چھم برسے گی… خود اُن کا دین پختہ اور مضبوط ہو جائے گا… اور وہ ’’اہل خسارہ‘‘ میں سے نکال دئیے جائیں گے… فرمایا:
اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍ

بے شک تمام انسان خسارے اور نقصان میں جا رہے ہیں… مگر دین کی دعوت دینے والے… ان اہل خسارہ میں شامل نہیں… وہ تو ایسا نفع کما رہے ہیں… جس نفع کا کھاتہ قیامت تک کھلا رہے گااور بڑھتا رہے گا… افسوس کہ بہت سے مسلمان دین کی دعوت دیتے ہوئے شرماتے ہیں… اور جہاد کی دعوت سے گھبراتے ہیں… اسی وجہ سے اُن کا اپنا معاملہ ایسا کمزور ہو جاتا ہے کہ… ذرا سا دنیاداروں کے ماحول میں جاتے ہیں تو اپنی پگڑی، اپنی ٹوپی اور اپنی پیاری داڑھی… انہیں بوجھ اور عار محسوس ہونے لگتی ہے… آہ افسوس… حضرت آقا مدنی ﷺ کی شان والی، عزت و عظمت والی شباہت جب ایک مسلمان کو عار لگنے لگے تو وہ خود سوچ لے کہ وہ کیسا مسلمان ہے؟ یہی حال مسلمان بہنوں کا ہے… جو دعوت نہیں دیتیں وہ جب بے وقوف عورتوں کے ماحول میں جاتی ہیں تو ان کے طرح طرح کے … فیشنوں سے متأثر ہو جاتی ہیں… ایسے فیشن جن کو سوچ کر بھی الٹی اور ابکائی آتی ہے… ہاے کاش اے بہنا… تیرے دوپٹے پر امی فاطمہ رضی اللہ عنہا کے دوپٹے جیسا پیوند ہوتا… تیرے کرتے پر امی عائشہ رضی اللہ عنہا کے کرتے جیسا پیوند ہوتا… اور تیرے دل میں ایمان سورج کی طرح… اور تیرے دماغ میں شکر چاند کی طرح چمک رہا ہوتا… اور تو اپنی حالت پر خوش اور مسرور ہوتی… تب تجھ سے خیر کے قیامت تک جاری رہنے والے چشمے پھوٹتے…
استقامت اور ترقی کا راز

کئی لوگ دیندار تھے… پھر دین سے محروم ہوگئے… کئی نمازوں کے شان والے پکّے تھے پھر ان کی کمر پر شیطان نے تالے ڈال دئیے… کئی جہاد میں نامور تھے مگر پھر وہ جہاد سے اور جہاد اُن سے روٹھ گیا… ایسا کئی وجوہات سے ہوتا ہے… مگر اہم ترین وجہ دعوت نہ دینا ہے… دعوت دیتے رہو، پختگی پاتے رہو… دعوت دیتے رہو ترقی پاتے چلے جائو… دعوت دیتے رہو خیر کے باغات میں رہو… وجہ یہ ہے کہ … دعوت دینے سے انسان کا اپنا دل زندہ رہتا ہے… دعوت دینے سے شیطان کی کمر ٹوٹتی ہے… اور دعوت دینے والے کے لیے آسمانی رحمتوں اور نصرتوں کی بوچھاڑ ہوتی ہے…

یہ دیکھیں حدیثِ صحیح… رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
ان اﷲ عزوجل و ملائکتہ واھل السمٰوٰت والارض حتی النملۃ فی حجرھا وحتی الحوت لیصلون علی معلم الناس الخیر…

بے شک اللہ تعالیٰ اور اُس کے فرشتے اور آسمانوں اور زمین کی تمام مخلوقات یہاں تک کہ چیونٹیاں اور مچھلیاں… اُس شخص پر صلوٰۃ بھیجتے ہیں جو لوگوں کو خیر سکھاتا ہو…

اللہ تعالیٰ کا ’’صلوٰۃ‘‘ بھیجنا یہ ہے کہ … اللہ تعالیٰ اُس پر اپنی رحمت نازل فرماتے ہیں… اور اپنے ملائکہ کے سامنے اس کی تعریف فرماتے ہیں… جبکہ مخلوق کا صلوٰۃ بھیجنا… استغفار ہے… کہ ساری مخلوق ایسے شخص کے لیے استغفار کرتی ہے… اور اُس کے لیے رحمت کی دعاء مانگتی ہے…

پس اسی لیے جو دعوت میں لگے رہتے ہیں… اُن کا دین اور ایمان محفوظ رہتا ہے اور وہ جہاد کے راستے میں ترقی کرتے ہیں… مگر جو دعوت چھوڑ دیتے ہیں خود اُن کے اندر کمزوری اور دنیا سے متاثر ہونے کا مرض آجاتا ہے، عبادت میں غفلت اور سستی آجاتی ہے…
ابھی وقت ہے

صرف صرف اپنے فائدے کے لیے… اپنے دین کی مضبوطی کے لیے… اپنی نسلوں میں دین کو جاری رکھنے کے لیے… اپنی قبر، حشر اور آخرت بنانے کے لیے … اور خود کو ملعون دنیا کے دھوکے میں پھنسنے سے بچانے کے لیے… دعوت کا کام شروع کر دیں… اپنے گھر میں تعلیم اور دعوت، اپنے آس پڑوس میں دعوت، دن دعوت، رات دعوت… یہ بڑا اونچا عمل ہے… آپ کی دعوت کے اثرات کہاں تک جائیں گے… آپ کو اندازہ بھی نہ ہوگااور حالت یہ ہوگی کہ… آپ مزے سے سو رہے ہوں گے اور آپ کے نامہ اعمال میں دھڑا دھڑ نیکیاں جمع ہو رہی ہوں گی… دعوت کے لیے نہ لمبی چوڑی تقریر کی ضرورت… نہ سر پر قراقلی اور اونچی آواز کی ضرورت… نہ جلسے اسٹیج اور اعلان کی ضرورت… نصاب آپ کے پاس بہت اونچا اور جامع موجود ہے… کلمہ، نماز اور جہاد فی سبیل اللہ…

سیدھے سادے الفاظ میں… درد کے ساتھ… اللہ تعالیٰ کی رضا کی نیت کرتے ہوئے… دل میں اُمت اور دین کی فکر گرماتے ہوئے… اہل اسلام کے لیے خیر خواہی کے جذبے کے ساتھ… دشمنان اسلام سے شدید نفرت شدید عداوت کے جوش کے ساتھ… مظلوم مسلمانوں کے ساتھ غیر مشروط وابستگی کے رشتے کے ساتھ… دعوت دیتے جائیں، دعوت دیتے جائیں… آپ جس قدر اس میں محنت کریں گے… تکلیف اٹھائیں گے، اسی قدر راستے کھلتے جائیں گے، روشنی پھیلتی جائے گی… اور اندھیرے دور ہوتے جائیں گے… ان شاء اللہ، ان شاء اللہ

لا الہ الا اﷲ، لا الہ الا اﷲ، لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ

اللھم صل علیٰ سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیراً کثیرا…

لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ

٭…٭…٭
ماہ شوال برکت یا نحوست؟ (رنگ و نور ۔ سعدی کے قلم سے)

rangonoor 456 – Saadi kay Qalam Say – mah e shawal barkat ya nahoosat
ماہ شوال برکت یا نحوست؟

رنگ و نور ۔۔۔سعدی کے قلم سے (شمارہ 456)

اللہ تعالیٰ ’’شوال‘‘ کے مہینہ کو اُمتِ مسلمہ کے لیے برکت والا بنائے…
برکت اور نحوست

سال میں بارہ مہینے ہوتے ہیں… ان میں سے کوئی ایک بھی ’’منحوس‘‘ یا نحوست والا مہینہ نہیں… اس پر اپنا عقیدہ مضبوط کرلیں… مہینے میں اُنتیس یا تیس دین ہوتے ہیں… نہ اٹھائیس نہ اکتیس… ان اُنتیس یا تیس دنوں میں ایک بھی دن منحوس نہیں ہے… ہفتے میں کل سات دن ہوتے ہیں… جمعہ کا دن ان سات دنوں کا سیّد یعنی بادشاہ ہے… ان سات دنوں میں کوئی دن بھی منحوس نہیں… اس پر اپنا یقین پکّا کرلیں… آج طرح طرح کے نقصان دہ علوم لوگوں میں عام کئے جا رہے ہیں… ان میں سب سے خطرناک نجوم کا علم یا فن ہے… یہ فن خود بہت بڑی نحوست ہے… اسمیں پھنسنے والا انسان ہمیشہ بے چین رہتا ہے، بے قرار رہتا ہے… اور پریشان رہتا ہے… کسی نے نعوذباللہ منگل کے دن کو منحوس قرار دے دیا… ہندو اس دن شادی نہیں رچاتے، بال نہیں کٹواتے… اور منگل کے دن پیدا ہونے والے لڑکے یا لڑکی کو … منگلی یعنی منحوس کہتے ہیں… اگر اس کی شادی کرنی ہو تو… پہلی شادی بندر سے کراتے ہیں یا کیلے کے درخت سے… تاکہ نحوست کا اثر اس پر منتقل ہو جائے…

افسوس کے ہم مسلمانوں میں بھی… طرح طرح کے نجومی، عامل، حساب دان آبیٹھے ہیں… وہ منہ بھر کر جھوٹ بولتے ہیں، توہمات پھیلاتے ہیں… لوگوں کو وساوس کا غلام بناتے ہیں… اور پریشانیاں بانٹتے ہیں… ارے بھائیو اور بہنو!… مسلمانوں کو جو کلمہ طیبہ ملا ہے:

لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ

یہ ستاروں سے اونچا ہے… یہ آسمانوں سے اونچا ہے… یہ قسمت اور خوش نصیبی کی چابی ہے… یہ خوش بختی اور برکت کا راز اور خزانہ ہے… جو اس پر یقین کرلے ستاروں کی چالیں اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں… اور برجوں، حسابوں اور منتروں سے وہ بہت اونچا ہو جاتا ہے، بہت اونچا…

لا الہ الا اللّٰہ، لا الہ الا اللّٰہ، لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ…
شوال کی برکت

شوال کے مہینہ کوعرب لوگ… اپنے بعض نقصان دہ علوم کی وجہ سے ’’منحوس‘‘ سمجھتے تھے… ایک علم کا تعلق لغت سے تھا اور دوسرے علم کا تعلق تاریخ سے… شوال میں کبھی ’’طاعون‘‘ کا مرض آیا تھا جو عربوں کی بستیاں اُجاڑ گیا… کچھ پنڈتوں نے ان تاریخوں کو پکا د با لیا اور شوال کی نحوست کا پرچار کر دیا… جبکہ لغت میں بھی شوال کے بعض معنیٰ… زائل ہونے، کم ہونے کے آتے ہیں… تو اس سے یہ سمجھ لیا کہ اگر اس مہینے میں شادی ہوگی… یا رخصتی ہو گی تو زیادہ نہ چلے گی… میاں، بیوی میں جو ملاپ ہوگا وہ پائیدار اور محبت خیز نہ ہوگا… جب اسلام کی روشنی آئی تو ’’شوال‘‘ کی بدنامی بھی دور کر دی گئی… شوال کے چھ روزے رکھو اور پورے سال کے فرض روزوں کا ثواب پالو… کسی اور مہینے کے نفل روزوں کا یہ مقام نہیں ہے… فرما دیا کہ… جس نے رمضان کے پورے روزے رکھے اور پھر شوال کے چھ روزے بھی ساتھ جوڑ دئیے تو وہ ایسا ہے جیسے ہمیشہ پوری زندگی روزہ دار رہا… یہ تو ہوئی ایک بہت بڑی اور زوردار برکت شوال کے مہینہ کی… اب دوسری برکت دیکھئے کے مسلمانوں کی کُل دو عیدیں ہیں… ان میں سے پہلی عید… یعنی عید الفطر شوال میں رکھ دی گئی… سبحان اللہ!… لوگ جس ماہ کو نحوست والا قرار دیتے تھے… اسلام نے اس مہینہ کو عید مبارک کا مہینہ بنادیا… اب اس سے بڑھ کر برکت کی دلیل اور کیا ہوگی؟؟… اب آتے ہیں تیسری فضیلت کی طرف… اس فضیلت نے تو شوال کو باقاعدہ ’’شوال شریف‘‘ بنا دیا ہے… اس مہینے میں ایک ایسا نکاح اور ایک ایسی رخصتی ہوئی کہ… اس نکاح کے موقع پر آسمان و زمین میں خوشیاں ہی خوشیاں تھیں… جی ہاں! خوشیاں ہی خوشیاں… ایسا نکاح نہ پہلے کبھی ہوا نہ قیامت تک آئندہ کبھی ہوگا… ایسا نکاح جس کی برکتیں چودہ سو سال سے جاری ہیں، ساری ہیں… اور قیامت تک جاری رہیں گی… ایسا نکاح جس نے میاں ، بیوی کی محبت کا وہ منظر سکھایا کہ لفظ محبت بھی… خوشی سے سرشار ہوگیا…

ایسا نکاح کہ جس نے… علم کے دریاوں کو… اور روحانیت کے چشموں کو پورے عالم میں جاری کر دیا… ایسا نکاح کہ جس نے امت مسلمہ کو ایک ایسی عظیم ’’امی جان‘‘ دے دی کہ… جنہیں ’’امی امی‘‘ کہتے وقت مغفرت کی امید ہونے لگتی ہے… جی ہاں! حضرت رسول اقدس آقا محمد مدنیﷺ کا… حضرت اُم المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے نکاح… اسی شوال کے مہینہ میں ہوا اور رخصتی بھی اسی مہینہ میں ہوئی … جب لوگ کہتے کہ شوال کے مہینہ میں نکاح کرنے والی دلہنوں کا نصیب کم ہوتا ہے تو … حضرت امی جی فرماتیں… میرا نکاح شوال میں ہوا… رخصتی بھی شوال میں ہوئی… تمام ازواج مطہرات میں… مجھ سے زیادہ کس کو حضرت آقا مدنیﷺ کا قرب ملا؟…

سبحان اللہ وبحمدہ، سبحان اللہ العظیم

اسی شوال کے مہینے میں… غزوۂ احد برپاہوا… سبحان اللہ! ایک ایسی ظاہری شکست جس نے مسلمانوں کے لیے فتوحات کے سمندر اگل دئیے اور انہیں فتح کار از سمجھا دیا… اورسنیں!… شہداء کرام کی صدارت اور سیادت کا شرف جس اولی المقام شہید کو ملا ہے… ان کی شہادت بھی شوال کے مہینے میں ہوئی… سید الشہداء حضرت سیدنا حمزہؓ… اور اسلام کا قابلِ فخر اور قابلِ اعزاز غزوہ… غزوہ حمراء الاسد بھی شوال کے مہینے میں ہوا… اور مدینہ منورہ کو پاک کرنے والاغزوہ… غزوہ بنی قینقاع بھی شوال کے مہینے میں برپا ہوا… یہ غزوہ یہودیوں کے خلاف تھا اور یہودیوں کی بڑھکیںاور دعوئے، ہر سمت گونج رہے تھے… وہ کہتے تھے کہ… غزوہ بدر کی فتح نے مسلمانوں کو خوامخواہ دھوکے میں ڈال دیا ہے… یہ جب ہم سے لڑیں گے تو انہیں پتا چل جائے کہ جنگ کیا ہوتی ہے… مگر جب مسلمانوں کا لشکر حضرت آقا مدنیﷺ کی کمان میں سامنے آیا تو بزدل یہودی… قلعہ بند ہوگئے… اور بالآخر ذلت، شرمندگی، عار، شکست اور رسوائی کا داغ قیامت تک اپنے منہ پر لگائے… جلاوطن کر دئیے گئے…

آج بھی شوال ہے… اور مسلمانوں کے مدّمقابل بزدل، قلعہ بند یہودی ہیں… ۱۹۴۸ئ؁ میں اسرائیل کی ناجائز مملکت بننے کے بعد اسرائیل نے جتنا نقصان موجودہ جنگ میں اُٹھایا ہے… اُتنا پہلے کبھی نہیں بھگتا… اہلِ غزہ کی جرأت، عزیمت، شہادت اور جانبازی کو سلام… اللہ تعالیٰ اُن پر اپنی مزید نصرت نازل فرمائے… اور ہم سب کو توفیق عطاء فرمائے کہ… ہم اس مبارک جہاد میں ’’کلمۂ طیبہ‘‘ کے جھنڈے تلے یہودیوں کو تہس نہس کر سکیں…

لا الہ الا اللّٰہ، لا الہ الا اللّٰہ، لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ…
چھٹی کی نحوست

بات دل میں بیٹھ گئی ہوگی کہ… کوئی دن منحوس نہیں، کوئی تاریخ منحوس نہیں، کوئی ہفتہ منحوس نہیں، کوئی مہینہ منحوس نہیں… نحوست جب بھی آتی ہے خود ہمارے اندر سے آتی ہے… مسلمان ہو کر فجر کی نماز قضاء کردی اب نحوست آگئی… خواہ دن جمعہ کا ہی کیوں نہ ہو… اور نحوست بھی ایسی زوردار کہ اللہ تعالیٰ کی پناہ … فجر کی نماز مومن کے ایمان کا ہر دن پہلا امتحان اور ٹیسٹ ہے… اس لیے فجر کو وقت پر اہتمام سے ادا کرنے والوں کو… احباب الرحمن… اللہ تعالیٰ کے دوست کا لقب دیا جاتا ہے… یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے دن کے پہلے آغاز میں ہی… اپنے مومن ہونے کا بہترین ثبوت پیش کر دیا تو اب… اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھی ان پر رحمت اور امان کی بوچھاڑ ہوتی ہے… ایسے لوگوں کے لیے خاص فرشتے اُتارے جاتے ہیں جو اُن کے ساتھ ساتھ چلتے ہیں… اور انہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے امن اور امان کی ضمانت دے دی جاتی ہے… خیر یہ ایک الگ موضوع ہے… رمضان المبارک ختم ہونے کے بعد… کئی مسلمان پہلا جرم یہی کرتے ہیں کہ فجر کی نماز میں سست ہوجاتے ہیں… حالانکہ ہمارے مرشد ’’رمضان المبارک‘‘نے ہمیں انگلی پکڑ کر تیس دن تک یہی سکھایا کہ… دیکھو! فجر کتنی آسان ہے… بس ایک کام کرلو… تہجد کی عادت ڈال لو اور سحری کے وقت کچھ برکت والا طعام کھا پی لیا کرو… بس فجر آسان… رمضان المبارک آتا ہی ہمیں سکھانے اور ہماری تربیت کرنے کے لیے ہے… اس تربیت کا ایک اہم سبق یہ ہے کہ… مسلمان فجر کی نماز کو مشکل نہ سمجھیں… شیطان کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ… فجر اور عشاء کو بھاری بنا دے… اور منافق کی علامات میں بھی یہ شامل ہے کہ… اس کے لیے فجر اور عشاء کی نماز بہت بھاری ہوتی ہے… رمضان المبارک کی عشاء اتنی بڑی ہوتی ہے کہ… ایک مومن کو پورا سال عشاء کی نماز آسان اور ہلکی محسوس ہونے لگتی ہے… ارے واہ! آج تو بیس منٹ میں فارغ ہوگئے… رمضان المبارک میں دو گھنٹے لگتے تھے… اور فجر بھی ایسی آسان کہ مساجد میں جگہ نہیں ملتی… وجہ یہ کہ رمضان نے سکھایا کہ اچھا مسلمان وہ ہے جو فجر کے لیے نہیں… تہجد کے لیے اٹھتا ہے… صبح صبح برکت والا کچھ کھانا کھاتا ہے… اور پھر اہم ترین فرض… نماز فجر کے لیے مکمل چستی کے ساتھ حاضر ہو جاتا ہے… ہم اگر ہر روز فجر کے لیے جاگنے کی کوشش کریں گے تو … شیطان ہمیں گراتا رہے گا… لیکن اگر ہم تہجد میں جاگنے والے ہو گئے تو… ہماری فجر محفوظ ہو جائے گی… اور فجر کو محفوظ کرنا… ہر ایمان والے مرد اور عورت پر لازمی فرض ہے… اصل بات یہ عرض کرنی تھی کہ… شوال آتے ہی ساتھ ’’چھٹیاں‘‘ آجاتی ہیں… اور چھٹیوں میں مسلمانوں کے لیے اکثر نحوست ہوتی ہے… اسی لیے سلف میں سے کسی کا قول ہے کہ… بہت بُرے ہیں وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کو صرف رمضان المبارک ہی میں مانتے اور پہچانتے ہیں… یعنی رمضان ختم تو اعمال بھی ختم … چھٹیوں کی جو عمومی نحوست… مسلمانوں کے ایمان اور اعمال پر اثر کرتی ہے اُسے دور کرنے کی ضرورت ہے… شوال کے روزے اس کا بہترین ذریعہ ہیں… ان چھ فضیلت والے روزوں کا موقع شوال کے آخر تک رہتا ہے خواہ اکٹھے رکھیں … یا الگ الگ… دوسرا یہ کہ اپنے دینی کام میں… دوبارہ جوش، جذبے اور محنت سے جڑ جائیں… اور تلاوت و نوافل کا جوذوق… مرشد جی رمضان المبارک کی صحبت میں پایا اس کو… ایک حد تک برقرار رکھنے کی ہم سب دعائ، فکر اور کوشش کریں…

لا الہ الا اﷲ، لا الہ الا اﷲ، لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ

اللھم صل علیٰ سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیراً کثیرا

لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ

٭…٭…٭
اسلام مبارک ایمان مبارک

رنگ و نور ۔۔۔سعدی کے قلم سے (شمارہ 455)

اﷲ تعالیٰ نے مسلمانوں کو دو عیدیں عطاء فرمائی ہیں:

عید الفطر… عید الاضحیٰ

یہ سچی بات حضرت آقا مدنیﷺ نے مدینہ منورہ میں ارشاد فرمائی کہ مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ نے دو عیدیں عطاء فرمائی ہیں(ابوداؤد)… اب تیسری کوئی عید نہیں… چوتھی کوئی عید نہیں… قیامت تک مسلمانوں کی عیدیں دو ہی رہیں گی…

عیدالفطر… عیدالاضحیٰ

دوسری بات یہ کہ’’عیدالفطر‘‘ بس ایک دن کی ہوتی ہے… یکم شوال…یہ عید دو دن یا تین دن کی نہیں ہوتی… رمضان المبارک مکمل ہوا… اس سعادت کی خوشی میں عید آگئی… اور ایک دن رہ کر چلی گئی… اللہ کرے خیر سے آئے اورخیر سے جائے…

تیسری بات یہ ہے کہ… عید خود آتی ہے… اور خود جاتی ہے…

لوگ عید کریں یا نہ کریں… عید منائیں یا نہ منائیں… رمضان المبارک ختم ہوتے ہی عید آجاتی ہے… اپنے ساتھ خیر، خوشی، خوشخبری اور برکتیں لاتی ہے… بعض لوگ کہتے ہیں… اس سال ہمارے گھر میں وفات ہوئی ہے،ہم عید نہیں کر رہے… عید کرنے یا نہ کرنے کا کیا مطلب؟… عید نہ نئے کپڑوں کا نام ہے اور نہ ھلّا گُلّا کرنے کا… عید نہ کسی شور شرابے کا نام ہے اور نہ کسی خاص پکوان کا… عیدکادن، رمضان المبارک اچھی طرح گذارنے والے مسلمانوں کیلئے… ’’یوم الجائزہ‘‘ یعنی انعام کا دن ہے… عید کی صبح ہی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان سب کی مغفرت کر دی جاتی ہے… اور انہیں اجر وثواب عطاء فرمایا جاتا ہے… اوریوں اُن کے لئے عید ہو جاتی ہے عید… کئی لوگ عید کے دن لاکھوں کا لباس پہنتے ہیں… لاکھوں کے پکوان کھاتے ہیں… مگر وہ عید کی رحمت اور برکت سے محروم رہ جاتے ہیں… جبکہ کئی لوگ عید کے دن اپنا پیوند زدہ دُھلا ہوا لباس پہنتے ہیں… گھر میں دال روٹی کھاتے ہیں… مگر ان کی ایسی عیدہوتی ہے کہ زمین تاآسمان… اور آسمان تا عرش اُن کی عید چمک رہی ہوتی ہے، دمک رہی ہوتی ہے… اور فرشتوں میں اُن کے تذکرے چل رہے ہوتے ہیں…

چوتھی بات یہ ہے کہ… عید کا دن’’یوم الجائزہ‘‘ انعام کا دن ہے… غلط رسومات کی وجہ سے اسے حسرت کا دن نہ بنایا جائے… آپ خود سوچیں اگر ایک بندہ جو خود کو مسلمان کہتا ہے… عید کے دن بھی اللہ تعالیٰ سے(نعوذباللہ) ناخوش اور ناراض ہوگا… تو وہ کس منہ سے اللہ تعالیٰ کی رضا اور جنت مانگے گا…

ہائے میرے پاس نئے کپڑے نہیں… ہائے میرے پاس نیا جوتا نہیں… ہائے میرے بچوں کی اس سال کیا عید؟… فلاں سامان نہیں، فلاںشخص نہیں…

یہ سب محرومی والی سوچیں اور شیطان کے حربے ہیں… رمضان المبارک میں آپ نے محنت کی… روزے رکھے، رات کا قیام کیا… اب اُس ساری محنت کے انعام پانے کا دن ہے تو اپنے محبوب رب سے شکوے لیکر بیٹھ گئے… ذرا دماغ سے تو سوچو کہ آخر نئے کپڑوں سے کیا ہوتا ہے؟… کیا نئے کپڑوں سے کوئی غریب مالدار ہوجاتا ہے؟… کوئی بیمار تندرست ہو جاتا ہے؟… کوئی ذلیل عزت مند ہو جاتا ہے؟… کوئی قیدی رہا ہو جاتا ہے؟… کوئی مصیبت اور بلا ٹل جاتی ہے؟… کوئی قرضہ یا آفت اُتر جاتی ہے؟… کچھ بھی نہیں… کچھ بھی نہیں… بادشاہ پرانے کپڑے پہن کر بادشاہ ہی رہتا ہے… اور چپڑاسی نئے کپڑے پہن کر افسر نہیں بن جاتا … کائنات کے سب سے افضل اور سب سے شان والے انسان نے اکثر پیوند زدہ کپڑے پہنے… اس سے اُن کے مقام میں کوئی کمی نہیں آئی… دراصل مسلمانوں میں عید اور خوشی کا مطلب ہی تبدیل ہوتا جارہا ہے… وہ نعوذباللہ عید کے مقدس دن کو… کرسمس، ہولی، بسنت، دیوالی جیسا کوئی تہوار سمجھ بیٹھے ہیں… ایک مسلمان اور کافر کے درمیان جو فرق ہے وہ… بڑے دن منانے میںبھی ظاہر ہوتا ہے… کافروں کے ہاں تہوار کا مطلب شہوت، لذت، آزادی، غفلت، چھٹی، فخر، نمائش… اور درندگی ہے… اسی دن وہ دل بھر کے گناہ کی پیپ پیتے ہیں… اور اسی دن مالدار لوگ اپنے مال کی نمائش کر کے… غریبوں کا دل دکھاتے… اور اپنی نقلی شان بڑھاتے ہیں…

تہوار کے دن… آزادی ہوتی ہے، عقل، اخلاق اور ہرضابطے سے آزادی… اور انسان ایک ایسے جانور جیسا ہوتا ہے جسے پنجرے سے باہر نکال دیا گیا ہو… مگر عید تو عید ہے… سبحان اللہ! عبادت اور راحت کا شاندار امتزاج… خوشی اور خدمت کا بہترین جوڑ… اور برکت اور مسرّت کا حسین سنگم…اس میں نہ غفلت ہے نہ حرام کاری… نہ نمائش ہے اور نہ ایذاء رسانی… مگر کیا کریں، کافروں کی دوستی اور صحبت نے کئی مسلمانوں کو ڈس لیا ہے… اور انہوں نے ’’عید‘‘ جیسے پاکیزہ دن کو کافروں کے تہواروں جیسا سمجھ لیا ہے… اور اب عید کے دن ناشکری کے جملے اُٹھتے ہیں… کپڑے نہیں، جوتے نہیں… فلاںعزیز گھر نہیں… فلاں کیوں انتقال کرگیا… بس میری قسمت میں خوشیاں کہاں؟…

اَسْتَغْفِرُاللّٰہَ، وَاِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُونْ

آئیے عزم کریں کہ… عید کے انعام والے دن… ہر حال میں اپنے عظیم رب تعالیٰ سے خوش اور راضی رہیں گے…

پانچویں بات یہ ہے کہ… عید کے دن اس بات کی فکر رہے کہ… ہمارا رمضان المبارک قبول ہوجائے… حضرت جبیرؒ بن نفیر فرماتے ہیں:

حضرات صحابہ کرامؓجب عید کے دن آپس میں ملتے تو ایک دوسرے کو یہ دعاء دیتے:

تَقَبَّلَ اللّٰہُ مِنَّا وَمِنْکَ

اللہ تعالیٰ ہمارے اور آپ کے اعمال قبول فرمائے…

عید کے دن کوئی ایسی حرکت، غفلت اور گناہ نہ ہو جو رمضان المبارک کے اعمال کو بھی ضائع کر دے… خوشی کریں مگر حلال اور مباح اورایک مسلمان کے لئے حرام میں خوشی ہے بھی کہاں؟…

حضرت حسن بصریؒ فرماتے ہیں:

ہر وہ دن جس میں کوئی بندہ، اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہ کرے وہ اس کے لئے عید کا دن ہے… اور ہر وہ دن جو ایک مومن اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور اللہ تعالیٰ کے ذکر اور شکر میں گزارے وہ اُس کے لئے عید کا دن ہے…

بس آج یہی پانچ باتیں… آپ سب کو ’’رمضان‘‘ مبارک… عیدمبارک… اہل اعتکاف کو اعتکاف مبارک… اہل عزیمت کو جہاد فی سبیل اللہ مبارک… اہل سعات جیسے بھائی حامد اور اُن کے رفقائ… کو شہادت مبارک… اہل غزہ کو سرخ ر مضان اور صبر و استقامت مبارک… ساری اُمت مسلمہ کو… اِسلام مبارک، اِیمان مبارک

لا الہ الا اﷲ، لا الہ الا اﷲ، لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ…

اللھم صل علیٰ سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا…

لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ…

٭…٭…٭
مہکتی یادیں

رنگ و نور ۔۔۔سعدی کے قلم سے (شمارہ 454)

اللہ تعالیٰ بھائی حبیب کی مغفرت فرمائے
اللھم اغفرلہ و ارحمہ واکرم نزلہ ووسع مدخلہ

آج اُن کے ایصال ثواب کے لئے یہ کالم لکھنے بیٹھا ہوں… یادوں اور باتوںکا ہجوم راستہ ہی نہیں چھوڑ رہا… جیسے وہ خود بہت متحرک … بلکہ خیر کا ایک ہنگامہ تھے، اُن کی یادیں اُن سے بھی زیادہ تیز ہیں، سانحہ بیتے آج پانچواں دن ہے… دماغ و دل کو بہت سمجھایا مگر وہ بھائی حبیب کی یادوں سے نہیں نکلتے…

آئی جب اُن کی یاد تو آتی چلی گئی

ہر نقش ماسوا کو مٹاتی چلی گئی

ہر منزلِ جمال دکھاتی چلی گئی

جیسے اُنہی کو سامنے لاتی چلی گئی

ہر واقعہ قریب تر آتا چلا گیا

ہر شے حسین تر نظر آتی چلی گئی

وہ ایک سیدھے سادے سے انسان تھے… بشری کمزوریاں بھی ان میں عام انسانوں سے کم نہیں تھیں… نہ عالم تھے نہ علامہ… نہ شیخ تھے نہ بڑے بزرگ … لیکن کیا کریں وہ ہمارے یار تھے یار… اور جو یار ہوجائے وہ آسانی سے جان نہیں چھوڑتا… اور اگر وہ جان چھوڑ دے تو پھر جان اُسے نہیں چھوڑتی… اسی لئے تو رب تعالیٰ نے ’’یاروں‘‘ کے لئے قیامت کے دن اپنے عرش مبارک کا سایہ مقدر فرما دیا ہے …کیونکہ اللہ تعالیٰ کو یاری پسند ہے… وہ یاری جو اللہ تعالیٰ کے لئے ہو… وہ زمین پر خیر کے باغات لگا دیتی ہے… بھائی حبیب پر اللہ تعالیٰ کا فضل تھا… اللہ تعالیٰ نے انہیں کئی نعمتیں وافر مقدار میں عطاء فرمائیں… مثلا!

۱۔ شکر گزاری…

۲۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ حسن ظن…

۳۔ خدمت جہاد کا ولولہ…

۴۔ انتھک محنت کی عادت…

۵۔ رقت قلب…

۶۔ خیر کے کاموں کی مثالی توفیق…

۷۔ حرمین شریفین کا عشق اور بار بار حاضری کی سہولت…

۸۔ خدمت فقرائ…

۹۔ تلاوت اور عبادت خاص طور پر رمضان اور نفلی روزوں کا ذوق…

۱۰۔ سخاوت…

۱۱۔ دوسروں کے لیے دردمندی…

۱۲۔ سیاحت فی الارض…

۱۳۔ اچھی صحبت… وغیرہ

چلیں اللہ تعالیٰ سے مدد مانگ کر … یادوں کی آندھی میں سے کچھ خوشگوار جھونکے منتخب کرتے ہیں …تاکہ پڑھنے والوں کو فائدہ ہو … اور بھائی حبیب صاحب کو ثواب پہنچے…
شکر گزاری

اللہ تعالیٰ کا بڑا انعام ہے کہ کسی کو ’’شکر گزاری‘‘ کی عادت نصیب فرما دے… اہل دل کا قول ہے …جسے شکر نصیب ہوگیا اُس پر اللہ تعالیٰ کی نعمتیں بارش کی طرح برستی رہتی ہیں… بھائی حبیب کو ہم نے جب سے دیکھا وہ تکلیف دہ بیماریوں میں مبتلا تھے… شوگر ایسی کہ اللہ تعالیٰ کی پناہ! انسولین کے ٹیکے سفر و حضر میں اُن کے ساتھ رہتے تھے… ایک آنکھ کی بینائی مکمل ختم ہوچکی تھی جبکہ دوسری آنکھ ہمیشہ تکلیف میں رہتی تھی… بعض اوقات آنکھ سے خون بھی جاری ہو جاتا تھا… مگر اللہ تعالیٰ کا وہ شکر گزار بندہ… بیماریوں سے یوں کھیلتا تھا جس طرح کوئی بچہ گیند سے کھیلتا ہے… وہ علاج بھی کراتے مگر نہ بیمار بنتے نہ بیماری سناتے … بلکہ اگر کوئی انہیں صحت مند کہہ دیتا تو بہت خوش ہوتے …بھاگ دوڑ، محنت اور کام میں اُن کی جان تھی … وہ بیماریوں کو ساتھ اٹھائے اورکبھی اپنے پیچھے لگائے بھاگتے دوڑتے کام کرتے رہے… ہر بیماری نے اُن سے شکست کھائی … مگر کسی انسان نے اس دنیا میں ہمیشہ نہیں رہنا… جب اُن کی ٹانگ پر وار ہوا … وہ چلنے پھرنے سے معذور ہوئے تو واقعی پریشان ہوگئے…

پھر بھی انہوں نے ہمت نہ ہاری … باربار آپریشن اور علاج کراکے دوبارہ بھاگ دوڑ کا میدان پانے کی جدوجہد میںلگے رہے …وہ خیر والی زندگی گزار رہے تھے اور کام کرنا چاہتے تھے… جب معذور ہوئے تو پھر زیادہ وقت بستر اور اس دنیا میں نہ رہے اور جلد ہی کھلی فضاؤں کی طرف پرواز کرگئے…
خوشی کا استعارہ، غم کا تیشہ

بھائی حبیب … جنہیں ہم محبت سے ’’دادا‘‘ کہتے تھے… ہماری زندگی میں اُس وقت آئے جب ہر طرف راستے بند تھے… ایسے دردناک حالات میں وہ خوشی کا استعارہ بن کر ایک دم زندگی میں شامل ہوگئے… اور پھر مسلسل اُنیس سال تک خوشی کا پیغام، راحت کا ذریعہ اور محبت کا عنوان بن کر ساتھ رہے… اندازہ لگائیں کہ تہاڑ جیل کے سخت اور تاریک ماحول میں … جہاں ہم پر کڑی نظر تھی …دادا ہمارے لئے بیرونی دنیا سے رابطے کی کھڑکی بن گئے… اب انہیں اگر اللہ تعالیٰ کی نصرت کہا جائے تو کون سامبالغہ ہے… پہلے خط تک نہیں جاسکتا تھا اب وہاں سے کتابیں روانہ ہورہی تھیں… وہیں زاد مجاہد وجود میں آئی… اور فتح الجواد کی بنیاد پڑی… اور خطوط کا ایک مفید سلسلہ شروع ہوا… ہمیں بس اتنا معلوم تھا کہ کوئی تاجر ہیں بھائی فرقان… وہ یہ سارا کام کرتے ہیں … پھر اللہ تعالیٰ نے چالیس دن کے لئے موبائل کی سہولت بھی نصیب فرما دی… والدین، عزیز و اقارب اور مجاہدین سے خوب رابطے رہے… رابطے کے دوران ایک جگہ بات ختم ہونے کے بعد …دوسری جگہ ملانے کے وقفے میں داد اجلدی سے اپنا نام … فرقان بتا کر ’’دعاؤں کی درخواست ہے‘‘ کا جملہ بول دیتے… پھر کچھ سختی ہوگئی تو موبائل ضائع کردیا گیا… باہر والوں کو طلب ہوئی کہ جیل سے کوئی تازہ بیان آجائے … دادا نے ایک بہت چھوٹا ڈیجیٹل ٹیپ ریکارڈر بھیج دیا… میں نے اس سے پہلے اس حجم کا ٹیپ نہیں دیکھا تھا… اس ٹیپ پر بیان تیار کرکے کراچی بھجوادیا گیا… جیل میں ہمارے آس پڑوس بمبئی مافیا کے کئی ’ڈان‘ قید تھے… اُن کا جیل میں رہن سہن اور کھانا، پہننا اونچے معیار کا تھا… مگر جب دادا نے سامان کی بوچھاڑ کی تو یہ ’’ڈان‘‘ بھی حسرت سے ہماری چیزوں کو دیکھتے اور پوچھتے… پھر ہم نے دادا کو مزید سامان اور چیزیں بھیجنے سے روک دیا… اللہ تعالیٰ نے کوٹ بھلوال میں ’’فضائل جہاد‘‘ کی توفیق بخشی… ہم نے یہ کتاب باہر بھجوانے کے لئے جیل کے جس ہندو اہلکار کو خریدا… اُس کا دادا سے براہ راست رابطہ ہوگیا… بس پھر کیا تھا…

دادا نے اُسے ایسا خوش کیا کہ وہ مکمل وفاداری سے آخر تک کام کرتا رہا…پھر اللہ تعالیٰ نے رہائی عطافرمائی… کراچی پہنچنے تک دادا سے کئی بار فون پر بات ہوئی…مگر زیارت کا مرحلہ نہیں آرہا تھا… اور آنکھوں کو …اللہ تعالیٰ کی نصرت مجسم شکل میں دیکھنے کا اشتیاق تھا… خیال تھا کہ جب دادا ملیں گے تو دیگر پرانے دوستوں کی طرح بہت دیر تک گلے لگے رہیں گے… آنسو بہائیں گے… ہاتھوں اور پیشانی پر بوسوں کا تبادلہ ہوگا… دس پندرہ منٹ تک خاموشی ، سنجیدگی اور خوشی و غم کی درمیانی کیفیت میں مجلس پر سکتہ رہے گا…مگر ایسا کچھ بھی نہ ہوا وہ جلدی سے کمرے میں آئے، غیر جذباتی انداز میں تیزی سے گلے ملے اور سامنے بیٹھ کر … میرے لئے نیا موبائل سیٹ تیار کرنے لگے… میں نے میزبانوں سے پوچھا یہ کون؟… جواب ملا بھائی فرقان…

وہ دن … اور آج کا دن دادا ساتھ رہے… دوست رہے، بے تکلف یار رہے… جماعت کے کاموں میں معاون رہے… دین کے راستے میں ہمسفر رہے … مگر خوشیوں کے ساتھ… پھر ایک اور دن بھی آگیا…

پیغام آیا … دادا، انا للّٰہ وانا الیہ راجعون… شاید لکھنے والے میں بھی اسے زیادہ لکھنے کی ہمت نہیں تھی …اور پڑھنے والے کے دل پر غم کا تیشہ چل گیا … اب بس دادا کے لئے دعائیں ہیں اور ایصال ثواب … اور ان گنت یادوں کا طوفان… اچھا ہوا وہ معذوری کی تکلیف سے نکل کر اپنے محبوب رب کے پاس چلے گئے … اللہ تعالیٰ اُن کے ساتھ اکرام والا معاملہ فرمائیں … دادا! آپ کو بھولنا بہت مشکل ہے، بہت مشکل… ہاں آپ ان شاء اللہ نہیں بھولیں گے … اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم جب تک زندہ رہیں… آپ کا حق ادا کرتے رہیں…
رمضان کے شیدائی

رمضان المبارک کے آنے سے پہلے ہی ’’دادا‘‘ … ہر طرح کی تیاری شروع کردیتے… بندہ نے ایک بار ’’رنگ و نور‘‘ میں اُن کے شوق رمضان کا تذکرہ بھی …اُن کا نام لکھے بغیر کیا تھا… وہ شعبان سے دنوں کی گنتی سناتے رہتے کہ اب اتنے دن باقی ہیں… رمضان المبارک سے پہلے اُن کی فرمائش آجاتی:

’’بابا رمضان المبارک کے معمولات بھیج دیجئے…‘‘

وہ مجھ سے عمر میں بڑے تھے مگر پھر بھی محبت سے ’’بابا‘‘ کہہ کر پکارتے تھے… میں جواب دیتا:

’’دادا پچھلے سال جو معمولات بھیجے تھے بس وہی اس سال بھی‘‘

اُن کا جواب آتا کہ … وہ پرچہ تو میں نے کسی کو دے دیا تھا بابا! واپس لکھ دیں… بہت معذرت وغیرہ… پھر رمضان المبارک میں وہ عمرہ پر چلے جاتے تو کبھی پیغام آتا:

بابا کعبہ شریف کے سامنے بیٹھا ہوں فون ملاؤں دعا کریں گے؟

کبھی بتاتے کہ حطیم میں بیٹھا ہوں … کبھی اطلاع بھیجتے کہ مدینہ پاک جارہا ہوں وہاں کے معمولات بھیج دیں … پھر پیغام آتا کہ روضہ اطہر پر کھڑا ہوں آپ کا سلام عرض کردیا ہے… دوسرے عشرہ وہ دبئی چلے جاتے… وہاں ایک مسجد تھی وہ اس سال ضرور آنسو بہائے گی… حجم کے اعتبار سے مختصر مسجد… یہاں دادا کا ٹھاٹھ والا اعتکاف ہر سال چلتا تھا… خوب تلاوت بھرپور رابطے… عبادت اور خدمت … اچانک تاکیدی پیغام آجاتا:

بابا لیلۃ القدر کے معمولات بھیج دیں…

وہ اسی لاڈ اور پیار میں مجھ سے وہ دعائیں اور وظائف بھی لے لیتے جو میں عموماً کسی کو نہیں بتاتا… اور نہ بتانے کی وجہ بخل نہیں کچھ اور ہے… بعد میں پتا چلتا کہ وہ بھی دادا نے آگے چلا دیئے ہیں… رمضان المبارک کا اختتام بھی بڑا عجیب کرتے… ایک عید دبئی میں … اور پھر بھاگتے دوڑتے دوسری عید کراچی میں کرلیتے…

یا اللہ! دادا کی مغفرت فرمادیجئے … اور اب ان کے لئے ہر دن عید کا دن بنا دیجئے… آمین…
ایک عجیب واقعہ

ایک بار آنکھ کے علاج کے لئے برطانیہ گئے… وہاں ڈاکٹروں نے کچھ اندیشہ ظاہر کیا کہ شائد آنکھ کی روشنی بالکل ختم ہو جائے… دادا واپس آگئے … نہ غم نہ پریشانی… جب رابطہ ہوتا قرآن پڑھ رہے ہوتے… کہنے لگے…

بابا ! حفظ کررہا ہوں ، تاکہ آنکھ نہ رہے تو زبانی پڑھتا رہوں…

سبحان اللّٰہ وبحمدہ سبحان اللّٰہ العظیم
امانت داری

کسی دن یا رات اچانک پیغام آتا کہ …

بابا کوئی نصیحت کریں…

میرے دل میں جو آتا لکھ دیتا… میں اُن کو دنیاداری میں زیادہ پھنسنے سے ہمیشہ روکتا رہتا تھا… بندہ کے کہنے پر انہوں نے بعض کام چھوڑ بھی دیئے … وہ وضاحت کرتے کہ مجھے دنیا سے محبت نہیں ہے … اور آخرت میرا مقصود ہے…

نصیحت والے پیغام پر اُن کا جواب اور تبصرہ بڑا دلچسپ ہوتا تھا… دنیاداری کے بارے میں باہمی باتوں کے دوران انہوں نے … ایک بار بتایا:

بابا! دنیا سے محبت ہوتی تو بڑی دنیا مفت ہاتھ آگئی تھی، چھوڑ دی…

دراصل دادا نے ایک شخص کو تجارت میں اپنا ’استاد‘ بنایا تھا… تجارت کے یہ ’’استاد‘‘ ہزاروں سال سے اپنا فنی سلسلہ دنیا میں چلا رہے ہیں… یہ بہت عجیب و غریب لوگ ہوتے ہیں… یہ نہ مال سے زیادہ کھاتے ہیں ، نہ پہنتے ہیں … اور نہ محلات بناتے ہیں… ان میں سے اکثر عیاش بھی نہیں ہوتے … آپ ان کو مال کا ’’شکاری‘‘ سمجھ لیں… مال کمانا اور بہت زیادہ کمانا یہ ان کا شوق، مشغلہ اور فن ہوتا ہے… وہ خالی ہاتھ نکلتے ہیں اور گھنٹوں میں مہینوں کا مال کما کر اُسے جال کی طرح بکھیر دیتے ہیں… اور پھر اُن کے اس جال میں مزید مال پھنستا چلا جاتا ہے… جیسے مچھلی کے شکاری بمشکل ایک دو بوٹی مچھلی کھاتے ہیں… مگر ان کی خوشی اور فتح اس میں ہوتی ہے کہ اتنی بڑی مچھلی پکڑی… اتنی زیادہ مچھلی پکڑی … دادا کو بھی اسی مخلوق سے تعلق رکھنے والا ایک استاد مل گیا … دادا ابھی دنیاداری کی لائن میں مکمل نہیں جڑے تھے … استاد نے شاگرد کی تعلیم کے لئے پیسے کے جال پھیلانے شروع کئے… ان جالوں کا علم بس استاد اور شاگرد کو تھا … اچانک ایک دن استاد صاحب وفات پا گئے … یہ لوگ نہ کہیں مال کا حساب لکھتے ہیں اور نہ کہیں اس کا ریکارڈ رکھتے ہیں… وہ سارا مال دادا کے ہاتھ آگیا، اور روئے زمین پر دادا کے سوا کوئی نہیں جانتا تھا کہ یہ مال ’’استاد‘‘ کا ہے … مگر جن کی مٹی اچھی ، خمیر ایمان والا ہو … اللہ تعالیٰ ان کی رہنمائی فرماتے ہیں… دادا نے وہ سارا مال جمع کرکے اپنے استاد کے ورثاء تک پہنچا دیا…
بڑی سعادت

بات مختصر کرتے ہیں … دادا کی بڑی سعادت تھی کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو اس زمانہ میں ’’جہاد فی سبیل اللہ‘‘ کے ساتھ جوڑ دیا… جہاد کے ساتھ جڑ جانا اور جہاد میں خدمت کرنا یہ ایک مسلمان کے مقبول ہونے کی بہت بڑی علامت ہے … تفسیر روح المعانی میں تمام دلائل جمع کرکے اس بات پر بحث کی گئی ہے کہ … اگر کوئی مسلمان دین کے تمام فرائض ادا کرے اور تمام ضروری عبادات بجا لائے مگر جہاد میں اس کا حصہ نہ ہو تو کیا اس کی مغفرت ہوگی؟ …علامہ آلوسیؒ نے تمام دلائل کو مدنظر رکھ کر فتویٰ لکھا ہے کہ … اگر جہاد فرض عین نہ ہو … اور تمام عبادات بجا لانے والا شخص جہاد سے بغض نہ رکھتا ہو … بلکہ محبت رکھتا ہو مگر وہ عملی طور پر نہ نکل سکا ہو تو اس کی مغفرت کی امید ہے…

لیکن کوئی مسلمان … دین کے تمام احکام پورے کرے… تمام فرائض ادا کرے، تمام حرام کاموں سے بچے … مگر وہ جہاد فی سبیل اللہ سے بغض اور کھچاؤ رکھتا ہو تو … نعوذ باللہ … اس کی مغفرت نہیں ہے… کیونکہ وہ دین کے ایک محکم اور قطعی فریضے سے بغض، عناد اور کھچاؤ رکھتا ہے تو اس کے اصل ایمان ہی میں فرق ہے …ایک عام مسلمان بھی اگر غور کرے تو یہ بات سمجھ سکتا ہے کہ جب رسول کریم ﷺ خود کئی بار جنگ و قتال میں نکلے ہیں … تو جو انسان اس عمل کو نہیں کرتا وہ کیسے کامل و مکمل ہوسکتا ہے…

ہاں! کسی زمانے میں جہاد کی سہولت اور گنجائش ہی بعض علاقوں میں نہ رہی ہو تو اور بات ہے … وہاں بھی اہل دل کو ’’احیاء جہاد‘‘ کی دعا اور فکر میں رہنا چاہئے… ہمارے زمانے میں الحمدللہ جہاد فی سبیل اللہ کا میدان چار سو سجا ہوا ہے… جہاد میں شرکت کی ہر سہولت موجود ہے …ایسے حالات میں جہاد سے دور رہنا اور کٹا رہنا …کافی بڑا نقصان ہے…

اللہ تعالیٰ اپنے محبوب اور مقبول بندوں کو… جہاد کی توفیق عطا فرماتے ہیں… دادا کی قبولیت اور مقبولیت کے لئے یہ بات بھی ان شاء اللہ کافی ہے کہ … انہوں نے جہاد میں شرکت کی، جہاد کی بھرپور خدمت کی… جہاد کے ساتھ محبت رکھی… اسیران اسلام کی بھرپور اعانت کی …امارت اسلامیہ افغانستان کے کاموں کے سلسلے میں قیدکاٹی… اور عصر حاضر کے شرعی جہاد میں بڑے بڑے کارنامے سرانجام دئیے… اللہ تعالیٰ ان ساری محنتوں کو قبول فرمائے… اور دادا کو مقبول شہداء کرام کے ساتھ وسیع، اونچا اور بہترین مقام عطاء فرمائے…

لا الہ الا اﷲ، لا الہ الا اﷲ، لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ…

اللھم صل علیٰ سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا…

لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ…

٭…٭…٭
وضاحت

ہمارے محترم بزرگ جہادی رہنما حضرت اقدس مولانا عبدالعزیز کشمیری صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ کا نسبی تعلق قبیلہ ’’سلیمان خیل‘‘ سے تھا…

رنگ ونور کے قارئین تصحیح فرما لیں… جیل کے بعض دلچسپ واقعات کی وجہ سے یہ غلط فہمی ہوئی جس پر معذرت ہے…

٭٭٭
معافی نامہ

رنگ و نور ۔۔۔سعدی کے قلم سے (شمارہ 453)

اللہ تعالیٰ’’مُعافی‘‘ کو پسند فرماتے ہیں…

رمضان المبارک کو قیمتی بنانے کا ایک اہم نسخہ’’مُعافی‘‘ ہے… آپ اللہ تعالیٰ کے بندوں کو’’معاف‘‘ کریں… اللہ تعالی آپ کومعاف فرمائے گا…
وَلْیَعْفُوْا وَلْیَصْفَحُوْا اَلَا تُحِبُّوْنَ اَنْ یَّغْفِرَ اللّٰہُ لَکُمْ

ایک مشکل کام

جو آپ کے ساتھ بُرا سلوک کرے … اس کے ساتھ برابر کا بُرا سلوک کرنا جائز ہے… جو آپ پر ظلم کرے اس پر اتنا ہی ظلم کرنا جائز ہے… جو آپ کو نقصان پہنچائے اس کے بدلے میں اُسے نقصان پہنچانا جائز ہے… مگراپنے ان جائز حقوق کو ذبح کرنا اور معاف کر دینا… یہ بڑا اونچا عمل ہے… مگر آسان نہیں، بہت مشکل ہے، بہت مشکل… یہ کام وہی کر سکتا ہے جس کا ایمان سچا اور مضبوط ہو… جس کی روح پاک ہو… جس کا دل بہادر ہو… اور جس کے اخلاق اعلیٰ ہوں…مُعافی کا مطلب ہے… طاقت ہونے کے باوجود بدلہ نہ لینا… بہت سے لوگ مُعافی کااعلان کرتے ہیں مگر وہ مُعافی نہیں ہوتی کیونکہ جتناکچھ وہ کر سکتے ہیں وہ کر لیتے ہیں…غیبت ، چغلی، بدگوئی وغیرہ… مُعافی یہ ہے کہ… بس اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے معاملہ ختم کر لیا جائے اور کسی طرح کا بھی بدلہ نہ لیا جائے… یہ ایک سچے مجاہد کی شان اور ایک سچے ولی کی علامت ہے… اور یہ حضرات انبیاء علیہم السلام کی مبارک صفت ہے…
مُعافی کا لفظ

پہلے’’مُعافی‘‘ کا لفظ درست پڑھنا سیکھ لیں… اس میں میم پر پیش (یعنی ضمہ) ہے اور عین پر زبر… عام لوگ میم پر بھی زبر پڑھتے ہیں جو درست نہیں …
معافی کے فضائل اور فوائد

مُعافی کے مسئلہ کو قرآن مجید نے بارہا بیان فرمایا ہے… سورہ یوسف کو پڑھا جائے تو مُعافی کا مطلب بھی سمجھ آتا ہے … اور معافی کی فضیلت اور مقام بھی…حضرت یعقوب علیہ السلام کا اپنے بیٹوں کو معاف فرمانا… حضرت یوسف علیہ السلام کا اپنے بھائیوں کو معاف فرمانا… پورا منظر اور قصہ پڑھیں، اس کی باریکی میں جائیں… اور اُس کے نفسیاتی پہلوؤں کو دیکھیں تو یہی سمجھ آتا ہے کہ…

مُعافی بہت مشکل عمل ہے… مگر یہ بہت اونچااور بہت نفع مند کام ہے… اور اس عمل کے دنیا اور آخرت میں بڑے عمدہ نتائج حاصل ہوتے ہیں… اگر ہم سورۃ یوسف کی روشنی میں’’معافی‘‘ کے مسئلہ کو تفصیل سے لکھیں تو اسی میں کالم پورا ہوجائے گا… اس لئے صرف اشارہ عرض کر دیا… اب دیکھئے قرآن و سنت میںمُعافی کے فضائل کی ایک مختصر فہرست:

۱۔ اللہ تعالیٰ کی ایک صفت’’عفو‘‘ ہے… بہت معاف فرمانے والا… پس مُعافی کو اختیار کرنے والا مسلمان… اللہ تعالیٰ کی صفت کا تخلّق کرتا ہے… ’’تخلّق‘‘ کے معنیٰ اپنے اخلاق کو اللہ تعالیٰ کی صفات کے تابع بنانا…

۲۔ معافی حضور اقدسﷺ کی بڑی صفت ہے… اور معافی حضرات انبیاء علیہم السلام کی صفت ہے …

۳۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کے متقی بندوں کی صفات میں سے ایک
’’وَالْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ‘‘

ہے… یعنی لوگوں کو معاف کرنے والے… ایسے متقی افرادکا بدلہ جنت ہے…

۴۔ قرآن مجید میں معاف کرنے والوں سے اس بات کا وعدہ کیا گیا ہے کہ…اُن کا اجر اور بدلہ اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے…
فاجرہ علی اللہ

۵۔ معافی کا بدلہ مغفرت ہے… یعنی جولوگوں کو معاف کرتا ہے اللہ تعالیٰ اُسے اپنی معافی اور مغفرت عطاء فرماتے ہیں…

۶۔ اللہ تعالیٰ نے کچھ اعمال کو’’عزائم‘‘ کا درجہ دیا ہے… یعنی وہ بڑی عزیمت اور ہمت والے مسلمانوں کو نصیب ہوتے ہیں… قرآن مجید نے معاف کرنے کو بھی انہیں’’عزم الامور‘‘میں شامل فرمایا ہے…

۷۔ حدیث شریف میں آتا ہے:

جو اپنے غصے کو ایسی حالت میں دبا دے کہ وہ اُسے نافذ کرنے کی طاقت رکھتا ہو تو اللہ تعالیٰ اسے تمام لوگوں کے سامنے بلا کر اس بات کا اختیار دیں گے کہ… وہ جس حور کو پسند کرے وہ اسے عطاء کر دی جائے گی(ابو داؤد، ترمذی)

یعنی معاف کرنا، ایسا عظیم عمل ہے کہ… اس کے بدلے یہ سارے اعزازات ملیں گے…تمام خلق کے سامنے عزت افزائی… اللہ تعالیٰ کا انعام کے لئے خود طلب فرمانا… مرضی اور پسند کی حور عطاء فرماناوغیرہ…

۸۔ معافی کی برکت سے اللہ تعالیٰ بندے کو دنیا کی عزت بھی عطاء فرماتے ہیں… ارشادفرمایا:
ما زاد اللّٰہ عبدابعفو الاعزاً(صحیح مسلم)

کہ معافی سے اللہ تعالیٰ بندے کی عزت ضرور بڑھاتے ہیں
جہاد اور معافی

جہاد اور معافی کا آپس میں کوئی ٹکراؤ نہیں… یہ دونوں بہادر افراد کی صفات ہیں… اسلام کے دشمنوں سے جہاد کرنا… دین کے دشمنوں سے لڑنا… مسلمانوں کے دشمنوں سے قتال کرنا… یہ بھی بہادر انسان کا کام ہے…

بزدل کے بس میں نہیں کہ… وہ جان ہتھیلی پر رکھ کر میدان میں اُترے…

اسی طرح مسلمانوں کو معاف کرنا… کمزوروں سے بدلہ نہ لینا… آپس کے معاشرے میں خود کو معافی کی علامت بنانا… یہ بھی بہادر انسانوں کاکام ہے…

بزدل آدمی کے بس میں نہیں کہ وہ کسی کو معاف کرسکے… وہ تو جو کچھ کر سکتا ہے ضرور کر گزرتا ہے… بلکہ برابری سے بڑھ کر بدلہ لیتا ہے…

ایک حدیث شریف پڑھیں تو… بات دل میں اُترے گی…

اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:

رسول اللہ ﷺ نے کبھی اپنے ہاتھ مبارک سے کسی عورت یا خادم کو بالکل نہیں مارا پیٹا مگر یہ کہ آپﷺ میدان جہاد میں ہوں… (یعنی میدان جہاد میں آپﷺ نے ہاتھ مبارک سے جنگ فرمائی) اورکبھی ایسا نہیں ہوا کہ آپﷺ کو کسی نے ایذاء پہنچائی ہو اورآپﷺ نے اس سے ذاتی انتقام لیا ہو ہاں! اللہ تعالیٰ کے محارم کی بے حرمتی کرنے والوں سے آپﷺ اللہ تعالیٰ کے لئے بدلہ لیتے تھے (مسلم)

آج بہت سے لوگوں کا معاملہ الٹا ہو گیا ہے… وہ اللہ تعالیٰ کے دشمنوں کے لئے دعائیں کرتے ہیں… اور اپنے مسلمان بھائیوں کو ایذاء کا نشانہ بناتے ہیں…

یاد رکھیں… کفار دشمنان اسلام کے لئے بددعاء کرنا… یہ رسول کریمﷺ کی سنت مطہرہ ہے… اس بارے تفصیل ان شاء اللہ پھر کبھی…

اللہ تعالیٰ روئے زمین پر موجود ہر انسان کو ہدایت عطاء فرمائے… مگر وہ جن کی قسمت میں ہدایت نہیں اور جو مسلمانوں سے لڑتے ہیں، اُن پر مظالم ڈھاتے ہیں… ان کی بہنوں بیٹیوں کوقیدی بناتے ہیں… اللہ تعالیٰ اُن کو چن چن کر ہلاک فرمائے… اوراُن کو عذاب کا کالا دن دکھائے… اور اُن کا نام و نشان ختم فرمائے…

…آمین…

اللہ تعالیٰ کے دشمن جہنم میں جائیں یہ کوئی غم کی بات نہیں… خوشی کی بات ہے… دشمنان اسلام کے جہنم جانے پر غم منانے والے… کبھی محبت کی ایک نظر مسلمان مجاہدین پر بھی ڈال لیا کریں… آپ پر کافروں کا اگر اتنا حق ہے تو اپنے مسلمان بھائیوں کا بھی کچھ حق ضرور ہوگا… حضرات صحابہ کرام کی صفت قرآن مجید میں مذکور ہے
اَشِدَّآء عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَآء بَیْنَھُمْ…
خلاصۂ موضوع

معاف کرنا ایمان والوں کی علامت ہے… یہ اہل عزیمت کا شعار ہے… یہ بہادر مسلمانوں کا طریقہ ہے… آپ نے معاف نہ کرناہو تو ہزاروں بہانے موجود ہیں… شرعی بھی اور غیر شرعی بھی… بہانے بھی بہت طاقتور… اورکئی بالکل جائز… ان سب کے ہوتے ہوئے اپنے اندر معافی کی صفت پیدا کرنا… یہ ایسا عمل ہے جو انسان کو اللہ تعالیٰ کی ’’معافی‘‘ کا مستحق بنا سکتا ہے…

اس لئے دعاء کریں، کوششںکریں کہ یہ صفت… ہمارے اندرپیدا ہوجائے… اور ہمارا معاشرہ معافی کے نور سے جگمگا کر…مضبوط اور طاقتور ہوجائے…
قصہ ایک شخص کا

آج جب’’مُعافی‘‘ کے موضوع پر لکھنے کا ارادہ بنا تو… معاف کرنے کے کئی واقعات سامنے آگئے… ان واقعات میں کافی نصیحت ہے… مگر بات کو مختصر کرنے کے لئے صرف ایک واقعہ پر اکتفا کرتے ہیں…ایک شخص نے معافی کے فضائل پڑھے تو معاف کرنے کی عادت اختیار کر لی… اس کا طریقہ تھا کہ روزآنہ یہ دعاء کرتا…

’’یا اللہ! جن مسلمانوں نے میری غیبت کی، کوئی حق تلفی کی، مجھے ایذاء یا نقصان پہنچایا میں نے اُن سب کو آپ کی رضا کیلئے معاف کردیا… آپ بھی انہیں معاف فرمادیں‘‘…

مگر پھر اُسے ایذاء دینے والے اتنی کثرت سے ہو گئے کہ… اس کی ہمت ٹوٹ گئی…

اس نے یہ دعاء بند کر دی… بس یہ کہتا کہ… یا اللہ! اُن سب کا معاملہ آپ کے سپرد… یوںایک سال گذر گیا… اچانک ایک دن اُسے خیال آیا کہ… وہ مسلمان جو تمہیں ایذاء پہنچاتے ہیں اگر اللہ تعالیٰ کے عذاب کا شکار ہوبھی گئے تو اس سے تمہیںکیا ملے گا؟… کیا اس سے تمہاری قبر اچھی ہو جائے گی، تمہاری آخرت بہتر ہو جائے گی… ؟

دل سے جواب آیا… کچھ بھی نہیں… اُن کے عذاب سے میراکیا فائدہ؟… تب دل میں روشنی آئی کہ… پھر ایسا کیوں نہیں کرتے کہ تم انہیں معاف کرو اور اس کے بدلے اللہ تعالیٰ سے مُعافی چاہو…
اَلَا تُحِبُّوْنَ اَنْ یَّغْفِرَ اللّٰہُ لَکُمْ…

بس اُس نے… اللہ تعالیٰ کی معافی پانے کی خواہش میں دوبارہ لوگوں کومعاف کرنے کا عمل شروع کر دیا…
اَللّٰھُمَّ رَبِّ اغْفِرْلِیْ وَلِوَالِدَیَّ وَلِلْمُؤمِنِیْنَ وَالْمُؤمِنَاتِ وَالْمُسْلِمِیْنَ وَالْمُسْلِمَاتْ، اَلأحْیَائِ مِنْھُمْ وَالأ مْوَاتْ
لا الہ الا اﷲ، لا الہ الا اﷲ، لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ…
اللھم صل علیٰ سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا…
لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ…

٭…٭…٭