مقابلۂ حُسن
رنگ و نور ۔۔۔سعدی کے قلم سے (شمارہ 435)
اﷲ تعالیٰ اپنا فضل فرما کرہم سب کے دلوں سے دنیا کی محبت دور فرما دے…
اَللّٰھُمّ زَھِّدْنَا فِی الدُّنْیَا وَأَحْسِنْ خَاتِمَتَنَا
تعجب ہے اُن لوگوںپر
ایک روایت میں آیا ہے:
اُن لوگوںپر تعجب ہے جو ہمیشہ باقی رہنے والے گھر…یعنی آخرت کو مانتے ہیں مگر محنت اور بھاگ دوڑ فنا ہونے والے گھر یعنی دنیا کے لئے کرتے ہیں…
ہاں! بے شک دنیا وہی جمع کرتا ہے جو عقل سے محروم ہے، اور دنیا کی خاطر وہی دشمنی کرتا ہے جو علم سے خالی ہے اور دنیا کے بارے میں ایک دوسرے سے وہی حسد کرتے ہیں جو ناسمجھ ہیں اور دنیا کی خاطر وہی محنت کرتے ہیں جو یقین سے محروم ہیں…
الحمدﷲ رب العالمین
کئی ہفتے سے جمعۃ المبارک کے اعمال کی طرف توجہ دلائی جارہی ہے… جمعرات کو’’مکتوب‘‘ جاری ہوتا ہے اور مسلمانوں کو پکارتا ہے کہ’’سید الایام‘‘ دنوں کے امام یعنی جمعہ کے دن کو سمجھو اور قیمتی بناؤ…درود شریف کی کثرت، جمعہ نماز کے لئے جلد مسجد پہنچنا، سورۃ الکہف کی تلاوت اور دیگر سنتیں… اس دوران ایک مقابلہ بھی منعقد ہوتا ہے جسے ’’مقابلہ حُسن‘‘ کا نام دیا گیا ہے… بے شک درود شریف اور سلام شریف کی کثرت سے مسلمان کو ہر چیز میں’’حسن‘‘ نصیب ہوتا ہے… ایمان میں بھی مزید حُسن آجاتا ہے اور اعمال میں بھی… اور درود شریف کی خوشبو سے روح کی بدبو اور کثافت دور ہوجاتی ہے… الحمدﷲ یہ مقابلہ خوب جارہا ہے… کئی افراد ماشاء اﷲ بیس ہزار سے زائد درود وسلام کی اطلاع بھیجتے ہیں تودل بہت خوش ہوتا ہے… جمعۃ المبارک کی نماز کے لئے جلدی مسجد پہنچنے کی بھی کئی حضرات ہمت کر رہے ہیں… آج کل فتنے ہی فتنے ہیں… ان فتنوں کی حفاظت کے لئے اﷲ تعالیٰ نے جمعۃ المبارک کے دن اور جمعۃ المبارک کے اعمال میںخاص تأثیر رکھی ہے… دنیا اور مال کی محبت انسان کو بے عقل اور بے وقوف بنا دیتی ہے… جو مال سے محبت رکھتاہو اس کی عقل میں اندھیراچھا جاتاہے… الحمدﷲ درود شریف کی محنت سے جو روشنی اور خوشبو دل و دماغ اور ارواح میں آرہی ہے اُس کی موجودگی میں’’حبّ دنیا‘‘ کے فتنے کو سمجھنا آسان ہوجاتا ہے… ان شاء اﷲ
بڑا فتنہ، بڑا گناہ
ارشاد فرمایا:
ہر اُمت کے لئے ایک فتنہ ہے اور میری اُمت کا فتنہ مال ہے…(ترمذی)
فتنہ… یعنی سخت آزمائش میں ڈالنے والی چیز… یہ کوئی معمولی لفظ نہیں فتنہ ایسی چیز ہے جس کے خوف سے حضرات انبیاء علیہم السلام بھی روتے اور پناہ مانگتے تھے حالانکہ انہیں کسی فتنہ سے کوئی خطرہ نہیں تھا… مال ہماری اس اُمت کا کڑا امتحان ہے… ہم اپنے اندر جھانکیں اور دائیں بائیں دیکھیں تو مال کا فتنہ سانپ کی طرح پھن اٹھائے پھنکار رہا ہے…اکثر لوگ کسی نہ کسی طرح اس فتنے کی زد میں آکر اپنا دین اور اپنی آخرت برباد کر رہے ہیں… مال، مال، مال، پیسہ ، پیسہ، پیسہ بس یہی سوچ ہے، یہی فکر ہے، یہی کامیابی کا معیار، یہی محبت اور دوستی کا معیار ہے… اسی کی خاطر جینا ہے، اسی کی خاطر مرنا ہے… نہ حلال، حرام کا فرق نہ چاروں طرف اٹھتے ہوئے جنازوں پر نظر… عزت بھی مال کی اورغیرت بھی مال کی… وہ چیز جسے حضرت آقامدنیﷺ نے گندگی اور غلاظت سے بدتر قرار دیا وہ آج ہمارے سروں کاتاج ہے… دنیا اﷲ تعالیٰ کے نزدیک مچھر کے پر سے بھی زیادہ گھٹیا ہے… جب کوئی انسان اس دنیا سے محبت کرتا ہے تو وہ بھی بے وقعت، بے عزت اور گھٹیا ہو جاتا ہے… جو شخص صبح اس حال میں اٹھے کہ اس کے دل میں دنیا کی فکر ہو تو اُس پر چار مصیبتیں مسلط کر دی جاتی ہیں… وہ سارا دن پریشانی، غم اور بے اطمینانی میں گذارتا ہے… اور اس کا دل ہر طرح کے نور اور قوّت سے محروم رہتا ہے…
حملہ بار بار ہوتا ہے
لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم نے نماز ادا کرلی، زکوٰۃ دے دی، جہاد کر لیا، روزہ رکھ لیا اور وظائف کر لئے تو اب شیطان ہم پر دنیا کی محبت کا زہریلا حملہ نہیں کرے گا… ایسا نہیں ہے… نیک لوگوںپر’’حبّ دنیا‘‘ کا حملہ زیادہ ہوتا ہے اور بار بار ہوتا ہے… اور شیطان اس کوشش میں لگا رہتا ہے کہ ان’’سعادت مندوں‘‘ یعنی خوش نصیبوں کو’’شقی‘‘ یعنی بدبخت، بدنصیب اور جہنمی بنا دے… جب انسان کے دل میں دنیا کی محبت آتی ہے تووہ لمبے لمبے اور دور دور کے منصوبے بناتا ہے… جب دور دور کے منصوبے بنتے ہیں توموت کی یاد بھول جاتی ہے… جب موت کی یاد بھولتی ہے تو دل سخت ہو جاتا ہے… اور جب دل سخت ہوجاتا ہے تو آنکھیں خشک ہوجاتی ہیں… وہ اللہ تعالیٰ کے خوف اور اللہ تعالیٰ کی یاد سے نہیں روتیں… اور آنکھوں کا خشک ہونا شقاوت یعنی محرومی اور بدنصیبی کی علامت ہے…
’’یا اللہ! شقاوت سے ہم سب کی حفاظت فرما‘‘
دنیا کی محبَّت کا حملہ ہر نیک مسلمان پر روز ہوتا ہے اور بار بار ہوتا ہے… اور یہ حملہ معمولی نہیں ہوتا بکہ ماہر ترین جادوگروں کے جادو سے بھی زیادہ تیز اور خطرناک ہوتا ہے… اور جیسے جیسے انسان موت کے قریب ہوتا ہے یہ حملہ سخت ہوتا جاتا ہے کہ… اب کچھ تو اپنی دنیا کا بھی سوچو، کچھ تو اپنی زندگی بھی سنوار لو، کچھ تو اپنے بچوں کے لئے بھی بنا جاؤ… ایک جادوگر گذرا ہے’’سامری‘‘ جس کا تذکرہ قرآن مجید میں ہے… ایسا خطرناک جادو گر کہ جس نے ایک حملے سے بنی اسرائیل کو ایمان سے شرک پر گرا دیا… اور ایسا گناہ کروایا کہ ستر ہزار افراد کے خون سے وہ گناہ دُھل پایا…
اس اُمت پر’’حب دنیا‘‘ کا حملہ سامری کے جادو سے بھی زیادہ خطرناک اور تیز ہوتا ہے… اس لئے کبھی اس بات سے مطمئن نہ ہوںکہ اب مجھ پر ’’حبّ دنیا‘‘ کا حملہ نہیں ہوگا… ہم سب اپنے دل کا ہمیشہ جائزہ لیں کہ اس میں دنیا کی محبت گھس تو نہیں گئی… اور ہر دن اور ہر نماز اور ہر عمل کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے دعاء مانگا کریں کہ… یا اللہ! اپنے فضل سے ہمیں حبّ دنیا اور حبّ مال سے بچائیے… خوب محتاج بن کر دعاء کریں… صبح شام سورہ الھکم التکاثر کم از کم تین بار پڑھیں… یَاخَبِیْرُیَا آخِر کا زیادہ ورد کریں… دنیا پرستوں کی صحبت سے دور رہیں موت کو یوں یاد کریں کہ بس ابھی آئی… اور مال کے بارے میں شریعت کے احکامات معلوم کریں اور اُن کو سختی سے اپنے عمل میں لائیں… مجاہدین خاص طور پر اس کی فکر کریں کیونکہ اُن پر حبّ دنیا کا حملہ عام نیک لوگوں سے بھی زیادہ ہوتا ہے…
آج کل دبئی میں کچھ لوگ اپنے مثالی مرکز سے کٹ کر کرزئی حکومت سے مذاکرات کر رہے ہیں…اُن کا ماضی اور اب اُن کا حال دیکھ کر دل خوف سے کانپنے لگتا ہے… یا اللہ! زندگی کے آخری دن پچھلے دنوں سے اچھے بنا دیجئے… اور ایمان پر خاتمہ نصیب فرما دیجئے…
سخت ترین گناہ
قرآن مجید اول تا آخر… حبّ دنیا کی مذّمت سے بھرا ہوا ہے… پوری پوری سورتیں صرف یہی مسئلہ سمجھاتی ہیں کہ… دنیا کے دھوکے میں نہ پھنسو اورآخرت کی فکر اور محنت کرو… سورۃ الکہف جو جمعہ کے دن پڑھی جائے تو اگلے جمعہ تک دل کو نور سے بھر دیتی ہے… وہ عجیب عجیب طریقوں سے دنیا کی محبت سے روکتی ہے… وہ ہمیں سکھاتی ہے کہ تمہاری ٹوٹی ہوئی کشتی تمہارے لئے بہتر ہے کہ وہ تمہیں قزاقوں سے بچاتی ہے… نئی کشتی کی فکر میں نہ پڑو ورنہ مارے جاؤ گے… وہ ہمیں سمجھاتی ہے کہ اولاد کی وجہ سے دنیا کی محبت میں نہ پڑو بعض اولاد ایسی ہوتی ہے جو تمہیں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جہنم کا مستحق بنا سکتی ہے… اور نیکی کر کے اس کا معاوضہ طلب نہ کرو… اور نیکی کرنے والوں کی اولاد کے لئے اللہ پاک رزق کی حفاظت کا خود بندوبست فرماتے ہیں… سورۃ الکہف ہمیں جلتے اور اجڑتے ہوئے باغات دکھاتی ہے… اوراصحاب کہف کی ہجرت کے قصے سناتی ہے… وہ نوجوان جنہوں نے دنیا کی ترقی اور اُس کے عیش و آرام کو چھوڑا تو کیسی عظیم الشان نعمتوں اور کامیابیوں کے مستحق بن گئے…الغرض یہ قرآن پا ک کا خاص موضوع ہے… وہ ہمیں قارون کا انجام اور فرعون و ہامان کی تباہی بھی دکھاتا ہے… اورقوم عاد کی سائنسی ترقی کو برباد ہوتے ہوئے بھی دکھاتا ہے… دراصل’’حبّ دنیا‘‘ دل میں ہو تو نہ ایمان مضبوط جگہ پکڑتا ہے… اور نہ جہاد کی ٹھیک توفیق ملتی ہے… اور نہ انسان کے ارادے بلند ہو سکتے ہیں… ایک حکایت میں تو یہاں تک آیا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے فرمایا گیا:
’’اے موسیٰ! دنیا کی محبت پر مائل نہ ہوں،کیونکہ دنیا کی محبت سے بڑا کبیرہ گناہ اور کوئی نہیں ہے ‘‘
حضرت فضیل بن عیاضؒ بڑے ولی اور صاحب علم گزرے ہیں، وہ فرماتے ہیں:
تمام شرور کو ایک گھر میں بند فرما دیا گیا ہے اور اُس گھر کی چابی دنیا کی محبت ہے… یعنی جسے دنیا کی محبت کا مرض لگ گیا اب وہ ہر شر میں مبتلا ہو جائے گا… اور تمام خیروں کو ایک گھر میں بند کر دیا گیا ہے اور اس گھر کی چابی ’’زُہد‘‘ ہے… یعنی دنیا سے بے رغبتی… پس جو دنیا سے بے رغبت ہو جائے گا اُسے ان شاء اللہ ہر خیر مل جائے گی…
آج اس بات کی سخت ضرورت ہے کہ… قرآن پاک کی وہ آیات جو’’حبّ دنیا‘‘ کی مذمت کرتی ہیں… انہیں ہم خود بھی بار بار پڑھیں، اپنے اہل اولاد کو بھی سنائیں اور مسلمانوں تک بھی… اُن کی روشنی پہنچائیں… کیونکہ مال کی محبت کا سیلاب ایک خطرناک سونامی کی شکل میں مسلمانوں کو تباہ اور کمزور کررہا ہے… اور دشمنان اسلام کی تین کوششیں ہیں:
۱۔ مال کی ضرورت بہت بڑھا دی جائے
۲۔ مالداروں کو پُرکشش بنا کر لوگوں کا آئیڈیل بنا دیا جائے
۳۔ حلال حرام کا فرق مٹا دیا جائے… مسلمان حرام کھائے گا تو کسی کام کا نہیں رہے گا
آپ باریکی سے غور کریں کہ ان تین چیزوں پر کس طرح سے محنت کی جارہی ہے… چنانچہ آج انسان کی ضروریات اتنی بڑھا دی گئی ہیں کہ ہر انسان مزید مال کا خود کو محتاج سمجھتا ہے… پھر وہ مال اُسے بھیک مانگ کرملے، سؤال کر کے ملے یا حرام طریقے سے ملے وہ خود کو مجبور سمجھتا ہے کہ میں اور کیا کروں؟مثلاً مہنگا علاج تو میں نے ضرور کرانا ہے… یا بچوں کے ولیمے اور شادی کی دعوتیں میں نے ضرور کرنی ہیں…
ایسے حالات میں جب کہ مسلمان مال کے پیچھے اندھا دھند دوڑ رہے ہیں انہیں قرآن پاک کے احکامات… اور رسول اللہ ﷺ کی احادیث مبارکہ اور سیرت طیبہ سنانے کی ضرورت ہے… اور جہاد کی دعوت اس کا سب سے بہترین علاج ہے… بشرطیکہ دعوت دینے والے خود اس عظیم فتنے سے دور ہوں…
کم از کم حفاظت کا درجہ
اللہ تعالیٰ نے دنیا میں کوئی ایسا’’فتنہ‘‘ پیدا نہیں فرمایا جس سے بچنا ناممکن ہو…’’ حبّ دنیا‘‘ سے بھی بچا جا سکتا ہے، بس فکر کی ضرورت ہے… اور اس میں کم ازکم درجہ یہ ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کا نام کسی کو لوٹنے اور مال بٹورنے کے لئے استعمال نہ کریں… دینداری کے لبادے میں، جہاد کے لبادے میں، علم دین کے لبادے میں لوگوں کو لوٹنا ایسا جرم ہے، جس کی شدّت بہت سخت ہے…
آج کئی لوگوں نے دینی بھیس اپنا کر لوگوں کو’’مضاربت‘‘ میں لوٹ لیا… ہائے کاش وہ اللہ تعالیٰ کے نام اور دینی نسبت کی اس قدر گستاخی کی جرأت نہ کرتے… اسی طرح جو مال دین کے نام پر، اللہ تعالیٰ کے نام پر اجتماعی طور پر جمع کیا گیا ہو اس میں ہر گز خیانت نہ کریں اور اُسے کبھی اپنے ذاتی مقاصد کے لئے خرچ نہ کریں…مجاہد کسی سے چندہ لینے جائے… اور پھر بعد میں اُسی فرد سے اپنی ذاتی حاجات کے لئے سؤال کرے… یہ کتنا بُرا عمل ہے؟ اے مسلمانو!رزق مقدرہوچکا اور اس میں کسی حیلے بہانے اور تعارف سے نہ کمی ہو سکتی ہے نہ زیادتی… ایک آدمی بھیک مانگے اور کہے اے لوگو! میری مدد کرو… یہ اگر ضرورت مند نہیں ہے تو گناہ گارہوگا… اور دوسرآدمی بھیک مانگے… اس میں بار بار اللہ رب العزت کا نام لے کہ… اللہ گواہ ہے میری یہ حالت ہے وہ حالت ہے… یہ اگر ضرورت مند نہیں تو بڑا مجرم ہے اس نے سؤال کا گناہ بھی کیا اور اللہ رب العالمین کے عظیم نام کو بھی غلط استعمال کرنے کی گستاخی کی…
بھائیو! اور بہنو! ہم کسی سے بھی سؤال نہ کریں… نہ کسی مالدار سے، نہ کسی جماعت سے، نہ کسی ٹرسٹ سے… ہم صرف اللہ تعالیٰ سے مانگا کریں تو ہمارے ایمان میں بہار اور نکھار آجائے… حضرت آقا مدنیﷺ نے ارشاد فرمایا:
دنیا کی محبت ہر برائی کی جڑ ہے…
یا اللہ! امان، یا اللہ! امان، یا اللہ! حبّ دنیا سے امان…
لا الہ الا اﷲ، لا الہ الا اﷲ، لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ…
اللھم صل علیٰ سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا…
لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ…
٭…٭…٭
ماشاء اﷲ لا قوہ الا باﷲ
رنگ و نور ۔۔۔سعدی کے قلم سے (شمارہ 434)
اﷲ تعالیٰ جو چاہے تو ہوتا ہے اور اﷲ تعالیٰ کی مددکے سوا کوئی طاقت نہیں
مَا شَاَء اﷲُ لَا قُوَّۃَ اِلاَّ بِاﷲ
جہاد کا نیا محاذ
اوپر جو آپ نے پڑھا وہ قرآن مجید کی ایک آیت مبارکہ کا حصہ اور مفہوم ہے، ایک بار پھر محبت سے پڑھ لیں:
مَا شَاء اﷲُ لَا قُوَّۃَ اِلاَّ بِاﷲ
ایک تصویر پر اچانک نظر پڑی اور پھر نظر بھیگ گئی… ایک شخص اپنے ہاتھ میں ایک کٹی ہوئی انسانی پنڈلی لے کر اُسے اپنے دانتوں سے نوچ رہا تھا… میڈیا والے دھڑا دھڑ فوٹو کھینچ رہے تھے وہ پنڈلی کا گوشت کھاتے ہوئے کہہ رہا تھا… میں پاگل کتا ہوں، میں اسی طرح مسلمانوں کا گوشت کھاؤں گا… منظر وسطی افریقہ کا تھا، پنڈلی ہمارے ایک مسلمان محمدی بھائی کی تھی… اور اُسے نوچنے چبانے والا ویٹی کن کے پاپا کا مُرید ایک کالا صلیبی، عیسائی تھا… آہ امت مسلمہ!!! آہ ہمارے مظلوم مسلمان بھائی اور بہنیں!… ویٹی کن کا پاپا امن امن کے جھوٹے گیت گاتا پھرتا ہے، مغربی دنیا مسلمانوں کو دہشت گرد کہتی ہے… اور پھر یہی لوگ ہمارے مسلمان بھائیوں کو مارتے ہیں، کاٹتے ہیں، جلاتے ہیں… اور اب کھاتے بھی ہیں…
ان شاء اﷲ اب وسطی افریقہ پر بادل گرجیں گے، بجلیاں کڑکیں گی، موت برسے گی اورالجہاد، الجہاد کے دلکش نعرے گونجیں گے… ہاں! کسی کو ا س بات میں شک نہیںہونا چاہئے کہ… مسلمانوں کے ساتھ جب یہ سلوک کیا جائے گا تو ساری دنیا’’امن‘‘ کو ترسے گی…اے مسلمانو! مظلومیت اور بے کسی کی موت مرنے کی بجائے… بہادروں اور فدائیوں والی موت کے گلے میں بانہیں ڈال دو… ہم کب تک مرثیے روتے رہیں گے… وہ دیکھو! مکہ میں حضرت آقا مدنیﷺ… مکمل مسلح جنگی لباس میں فاتحانہ داخل ہو رہے ہیں… ارے کبھی تو اپنے محبوب آقاﷺ کا یہ لباس بھی پہن لیا کرو…
مَا شَاء اﷲُ لَا قُوَّۃَ اِلاَّ بِاﷲ
دل میں اتاریں
یہ جو قرآن پاک کے روشن الفاظ ہیں، ان کو دل میں اتاریں
مَا شَاء اﷲُ لَا قُوَّۃَ اِلاَّ بِاﷲ
یہ الفاظ دل میں اُتریں گے تو روشنی ہوجائے گی… خوف کے چوہے، بزدلی کے گیدڑ اور حرص و لالچ کے کتے دل سے بھاگ جائیں گے… پھر وجد کے ساتھ پڑھیں:
مَا شَاء اﷲُ لَا قُوَّۃَ اِلاَّ بِاﷲ
یہ سورۃ الکہف کی آیت ۳۹ کا ایک حصہ ہے… اس کے تین ترجمے ملاحظہ فرمائیں
ترجمہ لاہوری:حضرت مولانااحمد علی لاہوریؒ یوں ترجمہ کرتے ہیں!
(۱) جو اﷲ تعالیٰ چاہے تو ہوتا ہے اور اﷲ تعالیٰ کی مدد کے سوا کوئی طاقت نہیں
ترجمہ محمودی: حضرت شیخ الہندؒ اس طرح سے ترجمہ فرماتے ہیں!
(۲) جو چاہے اﷲ، سو ہو، طاقت نہیں مگر جو دے اﷲ
ترجمہ شاہی: آخر میں اردو ترجموں کا امام… حضرت شاہ عبدالقادرؒ کا ترجمہ!
(۳) جو چاہا اﷲ کا، کچھ زور نہیں مگر دیا اﷲ کا
اب ترجمہ ذہن میں رکھ کر یقین کے ساتھ پڑھیں:
مَا شَاء اﷲُ لَا قُوَّۃَ اِلاَّ بِاﷲ
حدیث شریف میں آیا ہے کہ جو شخص اپنی کوئی بھی نعمت دیکھ کرپڑھے:
مَا شَاء اﷲُ لَا قُوَّۃَ اِلاَّ بِاﷲ
تو موت کے سوا کوئی آفت اس نعمت کو اس سے نہیں چھین سکتی
مَا شَاء اﷲُ لَا قُوَّۃَ اِلاَّ بِاﷲ
بس طاقت صرف’’اﷲ‘‘ کی ہے اور اﷲ تعالیٰ جسے طاقت دے وہی طاقت والا ہے… اے مسلمانو! اسے دل میں بٹھا لو… امریکہ، انڈیا، اسرائیل، سائنس، ٹیکنالوجی اور ایٹم بم کا خوف دل سے نکال دو… اﷲ تعالیٰ جو چاہے وہی ہوتا ہے…
یہ سب بے بس، بے کس اور بے چارے ہیں… ان میں تو اتنی بھی’’طاقت‘‘ نہیں کہ سچا کلمہ پڑھ سکیں… ان میں تو اتنی قوت بھی نہیں کہ اپنے رب اور مالک کو پہچان سکیں…
ان میں اتنی سی صلاحیت بھی نہیںکہ چاند یا سورج کا رخ موڑ سکیں یا اُن کے طلوع و غروب کے اوقات بدل سکیں… ان میں تو اتنی طاقت بھی نہیں کہ پانی کا ایک قطرہ بنا سکیں… ان میں تو اتنا زور نہیں کہ مردہ کو زندہ کر سکیں… یا اﷲ تعالیٰ کے حکم کے بغیر کسی زندہ کو مُردہ کر سکیں… یہ جن کو مارنا چاہتے ہیں وہ بھرپور زندگی جی رہے ہیں اور یہ جن کو بچانا چاہتے ہیں اُن کے تابوت روز اٹھ رہے ہیں…
مَا شَاء اﷲُ لَا قُوَّۃَ اِلاَّ بِاﷲ
آیت مبارکہ کا ورد
بات آگے بڑھانے سے پہلے یہ گزارش ہے کہ اس آیت مبارکہ کو بھی اپنا ورد بنا لیں
مَا شَاء اﷲُ لَا قُوَّۃَ اِلاَّ بِاﷲ
اہل علم فرماتے ہیں کہ یہ قرآنی الفاظ:
’’مفتاح زیادۃ الخیر فی الدنیا و دوام النعمۃ فیھا‘‘
دنیا میں زیادہ خیر پانے کی چابی اور نعمتوں کے برقرار رہنے کا ذریعہ ہیں…
ہم روز اپنے بُرے اعمال کی وجہ سے طرح طرح کی نعمتوں سے محروم ہوتے جارہے ہیں… کتنے زندہ دل، مُردہ ہو گئے، کتنے شب بیدار غافل ہو گئے… کتنے بہادرمجاہد دنیا کی حقارتوں میں پھنس گئے… کتنے شان والی نمازی، سجدوں کی حلاوت کھو بیٹھے، کیسے پُرنور ذاکر گناہوں کی دلدل میں دھنس گئے… کتنے خوش خرام چہرے، غموں اور اداسیوں میں ڈھل گئے، کیسی قابل رشک صحتیں بیماریوں میں روندی گئیں… کیسے متحرک دین کے کارکن ادنی دھندوں میں گم ہو گئے… ہائے کاش ہم اپنی ہر نعمت کودیکھ کر فوراً ان نعمتوں کے دینے والے کو یاد کر لیا کریں اور اس کا بہترین طریقہ ہے:
مَا شَاء اﷲُ لَا قُوَّۃَ اِلاَّ بِاﷲ، مَا شَاء اﷲُ لَا قُوَّۃَ اِلاَّ بِاﷲ
جہاد آگے
آج کا اصل عنوان ہے… افریقہ کا جہاد کہ وہاں ظلم بہت بھونک رہا ہے… یاد رکھیں ایک زمانے تک جہاد اُمت مسلمہ کے آگے آگے تھا… قرآن مجید کی روشن آیات نے ہمیں سمجھایا اور حضرت آقا مدنیﷺ نے ہمیں… خون میں اپنا مقدس چہرہ تر کر کے سکھایا کہ ہم مسلمان جہاد فی سبیل اﷲ کو اپنے آگے آگے رکھیں… یوں اُمت مسلمہ کمزوری سے اور مسلمان ظلم سے بچے رہیں گے… ہمیں حکم دیا گیاکہ ہم اپنے گھروں میں نہ بیٹھیں بلکہ کلمہ طیبہ:
’’لاالہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ‘‘
کی دعوت لیکر دنیا بھر میں پھیل جائیں… ہم یہ دعوت لیکر جب جائیں تو’’مسلّح‘‘ جائیں اور اس سب سے قیمتی کلمے کو اپنی سب سے قیمتی چیز یعنی ’’جان‘‘ پر رکھ کر جائیں…
پھر جو مان لے اور دل کے یقین کے ساتھ پڑھ لے:
لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ
وہ ہمارا بھائی ہے… وہ گورا ہو یا کالا، مشرقی ہو یا مغربی… اور جو نہ مانے اُس کے لئے جزیہ ہے یا قتال… ہم زبردستی کسی کو مسلمان نہیں بناتے مگر اسلام کے دشمنوں کو طاقتور بھی نہیں رہنے دیتے… اور کفر کو ایسا پُرکشش نہیں بننے دیتے کہ لوگ بھاگ بھاگ کر کافر بننے لگیں…یہ ہے اصل ترتیب جو قرآن پاک لیکر آیا ہے:
کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاس
مگر ہم آج اپنی نااہلی کی وجہ سے اس ترتیب سے محروم ہیں… ہم خود نکل پڑتے تو یوں ہر جگہ سے دھتکار کر نہ نکالے جاتے، ہم خود لڑ پڑتے تو یوں ہم پر لڑائیاں گرائی نہ جاتیں… ہم کلمہ کو جان پر رکھ کر آگے بڑھتے تو کلمہ خود ہمارے دل اورجان میں اُتر جاتا… اور زمین و آسمان کی ساری مخلوق ہماری نصرت کے لئے مسخر کر دی جاتی… یہ اصل ترتیب ان شاء اﷲ پھر لوٹے گی… مگر افسوس کہ آج ہم اس سے محروم ہیں
اِنَّا ﷲ وَاِنَّا اِلَیْہٖ رَاجِعُون…وَلَا حَوْلَ وَلَاقُوَّۃَ اِلاَّ بِاﷲ
جہاد پیچھے
وہ دیکھو! اُحد کے میدان میں حضرت آقا مدنیﷺ کا خون مبارک رخسار سے بہہ کر داڑھی مبارک کو سرخ کر رہا ہے… اس مقدس خون پر ہم سب کا خون فدا…اے مسلمانو! اس منظر کے بعد کیا جہاد کو کسی اوردلیل کی ضرورت ہے؟؟ دل پر ہاتھ رکھ کر بتاؤ کیا یہ منظر سوچ کر بھی جہاد سمجھ میں نہیں آتا؟… یاد رکھیں!اسلام کے پہلے غزوہ کے بعد سے لیکر آج تک جہاد ایک دن کے لئے بھی نہیں رکا…ہاں!جس جہاد کو حضرت آقا مدنیﷺ نے اپنا لہو مبارک دیا ہے اُسے کوئی نہیں روک سکتا… اس لئے جہاد ہر زمانے میں جاری رہا… تاریخ کے اوراق اُسے محفوظ رکھ سکے یا نہیں… اس تحقیق کی کوئی ضرورت نہیں… مجاہدین ہر دور میں موجود رہے… جہاد کی دعوت، جہاد کی تیاری، اور کارروائیوں کا تعاقب کہ جیسے ہی موقع ملے جنگ شروع… یہ ہیں جہاد کے جاری رہنے کی صورتیں… ہاں! کسی زمانے جہاد زیادہ وسیع اور طاقتور رہا اور کسی زمانے بہت کم مسلمان اس سعادت سے ہمکنار ہوئے… ہم تاریخ میں جھانکے بغیر اپنے زمانے پر آتے ہیں… اور اس میں پہلے اس نعمت کا شکر ادا کرتے ہیں کہ الحمدﷲ ہمارے زمانے میں جہاد فی سبیل اﷲ موجود ہے، ممکن ہے، میسر ہے، مؤثر ہے اور فاتح ہے…
مَا شَاء اﷲُ لَا قُوَّۃَ اِلاَّ بِاﷲ وَالْحَمْدُﷲ رَبِّ الْعَالَمِیْن
مگر یہ جہاد ابھی آگے آگے نہیں، پیچھے پیچھے ہے… پیچھے کا مطلب یہ کہ آج جہاں بھی ظلم بھونکتا ہے، جہاد وہاں للکارتا ہواپہنچ جاتاہے… آج کل ظلم کا پاگل کتا وسطی افریقہ اور برما میں دانت دکھا رہا ہے… ان شاء اﷲ دنیا دیکھ لے گی کہ اُمت مسلمہ کی کلمے والی ماؤں کے حلال بیٹے… ضرور ان علاقوں میں جہاد فی سبیل اﷲ کی آسمانی بجلیاں بن کر گریں گے…
مَا شَاء اﷲُ لَا قُوَّۃَ اِلاَّ بِاﷲ
بچپن سے اب تک
ہم جب چھوٹے تھے تو اپنے بڑوں سے… اوراپنی مساجد میں یہ دعاء سنتے تھے:
’’یااﷲ! فلسطین کے مسلمانوں کی مدد فرما‘‘
پھر جب تھوڑے بڑے ہوئے تو فلسطین کے ساتھ افغانستان بھی جڑ گیا…
’’یا اﷲ! فلسطین اور افغانستان کے مسلمانوں کی مدد فرما‘‘
پھر آگے چل کر اس دعاء کی فہرست میں ناموں کا اضافہ ہوتا چلا گیا…
بوسنیا، تاجکستان، کشمیر، چیچنیا… پھر عراق، شام، لیبیا اور اب وسطی افریقہ اور برما… فہرست طویل ہوتی جارہی ہے… اور اگر ہمیں حالات کا مکمل ادراک ہو تو یہ فہرست اور بھی لمبی ہوجائے… تھائی لینڈ، فلپائن،ایتھوپیا، صومالیہ، اریٹریا، سنکیانگ… اور معلوم نہیں کہاں کہاں کے کلمہ گو مسلمان مظلوم ہیں… مسلمان اگر واقعی سچا مسلمان ہو تو وہ نہ دعاء سے تھکتا ہے اور نہ جہاد سے اکتاتا ہے…
مسلمان کے دل میں کلمہ طیبہ:
لا الہ الااﷲ محمد رسول اﷲ
کا تروتازہ درخت قائم ہوتا ہے… اور اس درخت کے بارے میں قرآن مجید کا یہ فیصلہ ہے کہ یہ درخت ہر آن نئے پھل دیتا رہتا ہے…
اﷲ تعالیٰ کا مسلمانوں پر انعام دیکھیں کہ…دشمنان اسلام جہاں بھی ظلم کا نیا اڈہ کھولتے ہیں، انہیں وہاں چند ہی دن بعد جہاد کے تھپڑوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے… اور پھر وہ چیخنے چلانے لگتے ہیں کہ… دہشت گرد آگئے، ارھابی آگئے، انتہا پسند آگئے… وہ دیکھو! کہاں کہاں سے آگئے…
مَا شَاء اﷲُ لَا قُوَّۃَ اِلاَّ بِاﷲ
مَا شَاء اﷲُ لَا قُوَّۃَ اِلاَّ بِاﷲ
شکر ادا کریں
مجاہدین نہ آسمان سے گرتے ہیں اور نہ زمین سے اگتے ہیں… یہ اﷲ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس نے جہاد کی مسلسل محنت کو جاری فرما دیا ہے… جہاد کی یہ مسلسل محنت ہر طرف اپنا رنگ دکھا رہی ہے… حیرانی اس پر ہوتی ہے کہ جہاد کی عالی شان محنت کرنے والے افراد ہر وقت بجھے بجھے اور پریشان نظر آتے ہیں… جبکہ جمہوریت وغیرہ کی لاحاصل اور فضول محنتوں میں خود کو کھپانے والے اپنی کامیابیوں پر ناز کرتے ہیں… حالانکہ جہاد کی محنت نے الحمدﷲ زمین کا رنگ اور اس کا نقشہ بدل دیا ہے… اور اب روزآنہ ہزاروں افراد کفر چھوڑ کر اسلام میں داخل ہورہے ہیں… اور دنیا مسلمانوں کے وجود کو تسلیم کرنے پر مجبور ہے…
جہادی محنت کرنے والے افراد اگرچہ اپنے تھانے کے ایس ایچ او کو فون کر کے… فخر محسوس نہیں کر سکتے… مگر ان کی مسلسل محنت ہی دنیا بھر کے مظلوم مسلمانوں کو عزت اور غلبے کے راستے پر لاتی ہے… تب وہ برائلر مرغی کی طرح مرنے کی بجائے شیر بن کر لڑتے اور جیتے ہیں… اور یہی مسلسل محنت دور دراز علاقوں تک جہادی محاذ کھلواتی ہے… جہادی محنت کا اصل بدلہ تو ان شاء اﷲ ’’جنت‘‘ ہے… مگر اس کے ثمرات دنیا میں بھی ہر طرف نظر آرہے ہیں… پھر مایوسی کیوں؟ پریشانی کیوں؟ عدم تحفظ جیسی فضول بات کیوں؟… کہاں شہادت کا شوق اور کہاں’’عدم تحفظ‘‘ جیسا بزدلانہ لفظ… ارے بھائیو! اگر تمہیں اپنی اس مبارک محنت کی حقیقت نظر آجائے تو پھر اپنی زندگی کے اس وقت سے نفرت ہونے لگے جو نیند اور گپ شپ میں ضائع ہو جاتا ہے… قرآن مجید کو دیکھو، حضرت آقا مدنیﷺ کے لہو مبارک کو دیکھو! اﷲ تعالیٰ کے وعدوں پر یقین رکھو… اور اس محنت کی قدر کرکے اس پر شکر اداکرو…
وَالْحَمْدُﷲ رَبِّ الْعَالَمِیْن، مَا شَاء اﷲُ لَا قُوَّۃَ اِلاَّ بِاﷲ
لا الہ الا اﷲ، لا الہ الا اﷲ، لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ…
اللھم صل علیٰ سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا…
لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ…
٭…٭…٭
معتدل
رنگ و نور ۔۔۔سعدی کے قلم سے (شمارہ 433)
اﷲ تعالیٰ اور اس کے پیارے بندوں کے درمیان ایک خاص اور خفیہ تعلق ہوتا ہے… اُس خاص تعلق کا نام ہے’’اخلاص‘‘…
سُبْحَانَ اﷲِ وَبِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اﷲِ الْعَظِیْم…
بس بھائیو اور بہنو! بڑا خوش نصیب ہے وہ مسلمان جسے’’اخلاص‘‘ کی دولت نصیب ہو جائے… اچھا یہاں ایک دعاء یاد کر لیں… جی ہاں! ریاکاری سے حفاظت کی دعاء… صبح شام اہتمام سے پڑھ لیا کریں…
اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکِ مِنْ اَنْ اُشْرِکَ بِکَ شَئِیًا وَّاَنَا اَعْلَمُ بِہٖ وَ اَسْتَغْفِرُکَ لِمَا لَا اَعْلَمُ بِہ
آسان ترجمہ یہ کہ… یا اﷲ جان بوجھ کر شرک اور ریاکاری کرنے سے آپ کی پناہ چاہتا ہوں اور جو بھولے چوکے سے بے علمی میں ہو جائے اُس پر معافی مانگتاہوں…
برادر محترم جناب محمد افضل گوروشہیدؒ کی مؤقر کتاب’’ آئینہ‘‘ ماشاء اﷲ خوب چل رہی ہے… اﷲ تعالیٰ اُن سب کو جزائے خیر عطاء فرمائے جو اپنے مظلوم اور قابل فخر شہید بھائی کاپیغام مسلمانوں تک پہنچانے کی محنت کر رہے ہیں…’’آئینہ‘‘ کی تقریب رونمائی کی شعاعیں بھی… الحمدﷲ دور دورتک پھیل رہی ہیں…
اجتماع کو اگرچہ کئی دن گزر چکے مگر ماشاء اﷲ اجتماع کے بیانات گونج رہے ہیں… اورنظمیں لہک رہی ہیں… جب زمین پر بارش برستی ہے وہاں پھل پھول اُگ آتے ہیں… سبزہ بھی ہر طرف نگاہوں کو خوش کرتا ہے… مگر اس کے ساتھ کیڑے مکوڑے اور زہریلے سانپ بھی باہر آجاتے ہیں… افضل شہیدؒ کا اجتماع بھی بارش کی طرح تھا… بہتسے مسلمانوں نے جہاد کو سمجھا،بہت سے بانصیب افراد نے جہاد کا عزم کیا… اور بہت سے افراد جہاد میں نکلنے کے لئے مکمل تیار ہو گئے… اجتماع نے تحریک کشمیر میں ایک نیا جذبہ اٹھایا ہے… ان تمام مثبت نتائج کے ساتھ… زہریلے سانپ اور کیڑے مکوڑے بھی تیزی سے نمودار ہونا شروع ہو گئے ہیں… لاہور سے لے کر دہلی تک کالے سانپ ایک ہی سُر میں پھنکار رہے ہیں… اور دشمنان اسلام کی صفوںمیں کھلبلی مچ گئی ہے… پہلے ایک انگریزی اخبار نے جہاد اور جماعت کے خلاف زہر اگلا… اور پھر امن کی آشا والے اخبار نے بھی اپنا ’’ترشول‘‘ بلند کر دیا… صحافت اور میڈیا کے بارے میں ہمارا مؤقف الحمدﷲ ’’اعتدال‘‘ پر مبنی ہے… اور وہ یہ کہ ان لوگوں سے نہ دوستی نہ دشمنی… ہم ان کے ذریعہ اپنا پیغام اُمت تک پہنچانے کے قائل نہیں ہیں اور نہ ہی… آج تک ہم نے ایک پیسہ ان حضرات کی ناز برداری پر خرچ کیا ہے… ہم چھوٹے لوگ ہیں… مگر چھوٹے اپنے بڑوں سے ہی سیکھتے ہیں، اس لئے بڑوں کا حوالہ دینے میںکوئی حرج نہیں… اور نہ ہی اس کا یہ مطلب ہوتا ہے کہ ہم خود کو بڑوں کے برابر سمجھتے ہیں… حضرت صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ کا ایک خاص مقولہ ہے:
اسمعت من ناجیت
یعنی میں تو اُس کو سناتا ہوں جس کے لئے میں عمل کرتا ہوں
جہاد کا کام بھی اﷲ تعالیٰ کے لئے ہے… اور وہی جہاد مقبول ہوتا ہے جو خالص اﷲ تعالیٰ کے لئے ہو اور اعلاء کلمۃ اﷲ کے لئے ہو… آج کل کی’’صحافت‘‘ ایک انتہائی غلط رخ پر چل پڑی ہے…
میڈیا اور صحافت کا اصل کام یہ تھا کہ وہ سچی خبریں ڈھونڈتے… اور پھر ان میں سے وہ خبریں جو انسانیت کے لئے مفید ہوتی اُن کو چھاپتے… قرآن مجید نے اس بارے میں کئی بہت اونچے اصول تلقین فرمائے ہیں… آپ قرآن مجید میں غور کریں گے تو آپ کو جا بجا مثبت صحافت کے کئی اصول چمکتے دمکتے نظر آئیں گے… سورہ نور کو لے لیجئے… وہ لوگ جو انسانوں میں فحاشی اور بے حیائی پھیلاتے ہیں اُن کو سخت تنبیہ کی گئی… آج کونسا اخبار اس انسانی اور اخلاقی جرم سے خالی ہے؟… فنکاروں اوراداکاروں اور بدکاروں کی رنگین تصاویر اور اُن کی خبریں اور اُن کے برے اعمال کی تشہیر آخر کس مقصد سے کی جاتی ہے؟… خیر یہ ایک تفصیلی موضوع ہے اور آج اسے چھیڑنے کا ارادہ نہیں ہے… آج کی صحافت ذاتی تشہیر اور تجارت کا ذریعہ بن چکی ہے… صحافی ہر اچھی اور بری خبر کے پیچھے پڑے رہتے ہیں… اور ایسی خبریں نمایاں طور پر شائع کرتے ہیں جن کی وجہ سے معاشرے میںطرح طرح کی بیماریاں جنم لیتی ہیں… اکثر صحافی پیسے کے پیچھے اس قدر تیزی سے دوڑ رہے ہیں کہ… اُن کے نزدیک اسلام اور کفر تک میں کوئی فرق نہیں رہتا… وہ ایسی خبروں کی تلاش میں رہتے ہیں جن سے عالم کفر خوش ہو اور پھر وہ ان صحافیوں کو طرح طرح کے انعامات اور اپنے ملکوں میں اقامت کے ویزے دے…کافی پہلے کی بات ہے… میں ایک ایسی مجلس میں پھنس گیا جہاں بہت سے صحافی تھے… ان میں سے بعض ایک زبردستی مجھ سے ایسا بیان دلوانا چاہتے تھے جس میں بلاوجہ بعض کفریہ ممالک کے لئے دھمکی ہو… اس پر میں نے ایک صحافی سے کہا کہ آپ بار بار کیوں اصرار کر رہے ہیں کہ میں فلاںملک کو ضرور دھمکی دوں؟… وہ کہنے لگا مولانا! آپ کا کیا جاتا ہے؟ آپ دھمکی دیں گے تویہ بیان دور دور تک چلے گا اور بکے گا اور ہمیں اپنے بچوں کے لئے چند سو ڈالر مل جائیں گے… ہمارے ملک کے بعض صحافی خود مجاہدین کو چھیڑتے ہیں، تنگ کرتے ہیں اور اُن کے خلاف طرح طرح کی جھوٹی رپورٹیں لگاتے ہیں… مقصد یہ ہوتا ہے کہ اس طرح سے وہ امریکہ، انڈیا اور دیگر ممالک کی خوشنودی حاصل کریں گے… اسلام کے خلاف کام کرنے والے تھنک ٹینکس کو اپنی طرف متوجہ کر کے اُن سے مال بٹوریں گے… اور اگر مجاہدین نے انہیں کوئی دھمکی یا جواب دیا تو اسے ٹیپ کر کے فوراً یورپ کے کسی ملک کو پناہ کی درخواست دے دیں گے کہ… ہماری جان کو سخت خطرہ ہے… دوسری طرف ہمارے لیڈروں نے صحافت اور صحافیوں کو اپنی مجبوری بنا لیا ہے… ہر مشہور شخص اپنے لئے ایک پریس سیکرٹری رکھتا ہے… بڑی پارٹیاں اپنے لئے کالم نگار خریدتی ہیں… جلسوں اور جلوسوں کی کوریج کے لئے ٹی وی چینلوں کی منتیں کی جاتی ہیں اور اُن کے ناز اٹھائے جاتے ہیں… سیاسی پارٹیاں یہ سب کچھ کرتیں تو اتنا بُرا نہ سمجھا جاتا مگر اب تو دین کا کام کرنے والے… اور جہاد کی بات کرنے والے بھی ہروقت صحافیوں کی منتیں ترلے کرتے نظر آتے ہیں… آخر یہ سب کچھ کرنے سے کیا ملتا ہے؟… آپ کام کریں آپ کا کام مضبوط ہوگا تو میڈیا خود ہی مجبور ہو کر آپ کی خبریں لگائے گا… ایسی جماعتیں جو میڈیا سے دور رہتی ہیں اُن کی خبریں کئی کئی دنوںتک ذرائع ابلاغ پر چھائی رہتی ہیں… اور اگر خبریں نہ بھی آئیں اور کام ہوتا رہے تو اس میں آخرت کا بھی بھلا ہے اور دنیا کا بھی… اور اگر خبریں آتی رہیں اور کام کچھ نہ ہو تو اس سے کسی کو دنیا اور آخرت میں کیا ملے گا؟… ٹی وی یا میڈیا پر نام آنا تو کوئی عزت اور کمال کی بات نہیں ہے… ایسے ایسے گندے اور غلیظ لوگ میڈیا پر بھرپور کوریج پاتے ہیں جن کے ساتھ کوئی مسلمان اپنا نام لکھنا بھی کبھی گوارہ نہیں کر سکتا… یاد رکھیں… آج کا مروجہ میڈیا عالم کفر اور صہیونیت کے قبضے میں ہے… آج کے صحافی بے عقیدہ، بے عمل اور غیروں کے لئے کام کرنے والے افراد ہیں… آج کا میڈیا جہاد کو مٹانے اور ختم کرنے کے مشن پر گامزن ہے… اس لئے دین کی سلامتی اسی میں ہے کہ میڈیا سے دور رہا جائے… میڈیا سے بے پرواہ رہا جائے… میڈیا کو کم سے کم دیکھا، سنا اور پڑھا جائے… اور خالص اسلامی صحافت کو اپنے حلقوں میں فروغ دیا جائے… اردو اخبارات میں کالم لکھنے والے اکثر لوگ گمراہ اور بدعمل ہیں… اور ان میں سے کئی ایک باقاعدہ بکے ہوئے لوگ ہیں… ان کے کالم پڑھنے سے دل پر سیاہی، مایوسی اور کفر کے دھبے لگنے کا خطرہ ہوتا ہے… میری آپ سب سے عاجزانہ درخواست ہے کہ اپنے ایمان کی قدر جانیں اور اپنے ایمان کی حفاظت کے لئے میڈیا، کالم نگاروں اور میڈیائی دانشوروں سے دور رہیں… باقی رہا ہمارے خلاف میڈیا کا لکھنا تو الحمدﷲ ایک رتی کے دانے برابر نہ کوئی فکر ہے اور نہ اس کا کچھ غم… اگر کوئی صحافی ہمارے خلاف کوئی رپورٹ چلا کر اس انتظار میں ہے کہ ہم اسے دھمکی دیں گے تو وہ اس سے مایوس ہو جائے… اور اگر کوئی اس انتظار میں ہے کہ ہم اسی اخبار میں تردیدی بیان جاری کریں گے تو وہ بھی اپنا انتظار ختم کر کے نئی رپورٹ تیار کرے… ہم الحمدﷲ اپنے کام سے مطمئن ہیں اور مکمل شرح صدر کے ساتھ یہ کام کر رہے ہیں… ہمارے دشمنوں نے ہمیں پھانسیاں دیںتو الحمدﷲ کام نہیں رکا آپ کی رپورٹیں پھانسیوں سے زیادہ سخت نہیں ہیں… نوائے وقت اور دی نیشن جیسے اخبارات پر تھوڑا سا افسوس ضرور ہوتا ہے کہ ایک طرف نظریہ پاکستان کے بلند بانگ دعوے، جہاد اکبر کے غلغلے… انڈیا تک ٹینک لے جانے کا عزم… اور دوسری طرف انڈیا کے مقاصد پورے کرنے کے لئے ان مجاہدین کے خلاف پروپیگنڈہ جن سے انڈیا… آپ کی بنسبت زیادہ خوف کھاتا ہے… آپ تو معلوم نہیں کس دن ٹینک پر بیٹھ کر انڈیا جائیں گے یہ مجاہدین ہتھیار اٹھاکر انڈیا جاتے ہیں اور الحمدﷲ فاتح بن کر واپس آتے ہیں یا جام شہادت پی جاتے ہیں… والحمدﷲ رب العالمین
لا الہ الا اﷲ، لا الہ الا اﷲ، لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ…
اللھم صل علیٰ سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا…
لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ…
٭…٭…٭
مؤقف اور امکانات
رنگ و نور ۔۔۔سعدی کے قلم سے (شمارہ 432)
اﷲ تعالیٰ سے دنیا اور آخرت میں عافیت کا سؤال ہے:
اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَسْئَلُکَ الْعَافِیَۃَ فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃ
حضور اقدسﷺ… اﷲ تعالیٰ سے’’عافیت‘‘ کا سؤال فرماتے تھے اور آپ نے مسلمانوں کو بھی تاکید فرمائی کہ وہ اﷲ تعالیٰ سے عافیت مانگا کریں… اور آپﷺ نے اپنے محبوب چچا حضرت سیدنا عباس رضی اﷲ عنہ کو بار بار اس بات کی ترغیب دی کہ اے میرے چچا! اﷲ تعالیٰ سے’’عافیت‘‘ مانگا کریں…
ایک ہے’’معافی‘‘ اورایک ہے’’عافیت‘‘ دونوں کا کیا مطلب ہے اور دونوں میں کیا فرق ہے؟
ایک بہت اونچی دعاء جو آپﷺ نے اپنی سب سے عزیز اہلیہ محترمہ حضرت سیدہ عائشہ رضی اﷲ عنہا کو سکھائی…
اَللّٰھُمَّ اِنَّکَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّی
اس میں’’معافی‘‘ کا سؤال ہے… یا اﷲ آپ معاف فرمانے والے ہیں، معافی کو پسند کرتے ہیں، مجھے معاف فرمائیں…
لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ’’دعاء‘‘ صرف رمضان المبارک کے آخری عشرے میں مانگی جاتی ہے… یہ بڑی غلطی ہے… روز مانگا کریں اور بار بار مانگا کریں… آج جب یہ کالم پڑھیں تو فرض کے علاوہ اپنی باقی نمازوں کے رکوع، سجدے، قومے اور جلسے میں دل کی توجہ سے یہ دونوں نعمتیں مانگیں…معافی بھی… اور عافیت بھی، آپ عجیب سکون اور لطف پائیں گے…
معافی سے گناہ ایسے مٹ جاتے ہیں کہ کسی بھی جگہ اُن کا نام و نشان تک باقی نہیں رہتا اور عافیت سے گناہوں کی سزائیں، نعمتوں میں تبدیل ہوجاتی ہیں…
معافی اور عافیت کا مطلب اور ان دونوںمیں فرق پھر کبھی ان شاء اﷲ… آج کچھ باتیں حالات حاضرہ پر عرض کرنی ہیں…
مذاکرات کے بارے ہمارا مؤقف
حکومت اور مقامی طالبان کے درمیان مذاکرات کا ماحول بن رہا ہے… اس بارے میں جو خبریں آرہی ہیں، اُن کو دھرانے کی ضرورت نہیں کیونکہ مجھے یقین ہے کہ آپ سب میڈیا پر مجھ سے زیادہ اپنا وقت ضائع کرتے ہیں… اس لئے لازمی بات ہے کہ آپ کے علم میں’’خبریں‘‘ بھی مجھ سے زیادہ ہوں گی… ہمارے رفقاء اس بارے ’’جماعت‘‘ کا موقف پوچھتے ہیں… جماعت کا موقف یہ ہے کہ ہم مذاکرات کے حامی ہیں، پاکستان میں ایمان اور امن دیکھنا چاہتے ہیں اور مذاکرات کے بارے میں نیک تمنائیں رکھتے ہیں…
امکانات
ہمارا موقف تو وہی ہے جو اوپر آپ نے پڑھ لیا… اب آتے ہیں ان مذاکرات کے نتائج اور امکانات کی طرف تو نہایت افسوس کے ساتھ لکھنا پڑ رہا ہے کہ اب تک جو اقدامات فریقین کی طرف سے ہوئے ہیں ان میں ان مذاکرات کی کامیابی کا امکان صرف پانچ فیصد ہے… یعنی نہ ہونے کے برابر…
وجوہات
مذاکرات کے کامیاب نہ ہونے کی کئی وجوہات ہیں، جن میں سے چند اہم وجوہات یہ ہیں…
(۱) مذاکرات میں’’میڈیا‘‘ کا حد سے زیادہ عمل دخل… میڈیا غیروں کے قبضے میں ہے درجنوں چینل ہیں جن کو اپنا پیٹ بھرنے کے لئے خبروں کی ضرورت رہتی ہے… خبریں نہ ملیں تو افواہوں سے کام چلتا ہے…میڈیا شہرت پسندی کے جراثیم پھیلا رہا ہے حالانکہ مسئلہ خون کا ہے، جانوں کا ہے، ملک کی بقا کا ہے… او رایسے مسائل کے حل کے لئے’’اخلاص‘‘ شرط اول ہے… شہرت پسندی مزید خون خرابے کا باعث بنتی ہے…
(۲) دونوںطرف کی کمیٹیاں مؤثرنہیں ہیں… کمیٹیوں میں اگرچہ بعض قابل احترام شخصیات شامل ہیں… مگر بندوقوں کے ٹریگر ان کے قبضے میں نہیں ہیں… مذاکرات صرف اور صرف اسی وقت کامیاب ہو سکتے ہیں جب اس میں ایک طرف مقامی طالبان کے عسکری کمانڈر ہوں اور دوسری طرف پاکستانی افواج کے عسکری کمانڈر…اﷲ تعالیٰ کو جب پاکستان’’امن‘‘ کے قابل نظر آئے گا تو ساری دنیا دیکھے گی کہ حقیقی اور واقعاتی مذاکرات انہیں دو فریقوں کے درمیان ہوں گے…
(۳) پاکستان میں بدامنی کے بنیادی اسباب کی طرف توجہ نہیں دی جارہی… پاکستان میں بدامنی کے بنیادی اسباب دو ہیں…
(الف) پاکستان کا اس صلیبی جنگ میں صلیبیوں کے ساتھ تعاون
(ب) پاکستانی حکمرانوں کی سیکولر انتہا پسندی
ہم اس بارے میں پہلے بھی کئی بار تفصیل سے عرض کر چکے ہیں کہ ایک حرام فیصلے کی آگ سے ہمارا ملک جل رہا ہے… دوسری طرف پاکستان کے حکمران مشرف کے دور سے سیکولر ازم یا بد دینی میں مکمل انتہا پسند بن چکے ہیں… یہ ایسا پاکستان دیکھنا چاہتے ہیں جس میں’’دینداری‘‘ ممنوع ہو… حضرات صوفیاء کرام کے وہ اشعار جن میں ’’مسجد گرادو مگر کسی کا دل نہ توڑو‘‘ کے الفاظ ہوں… انہیں بغیر سمجھے بہت پسند آتے ہیں… کیونکہ ان میں مسجد گرانے کا تذکرہ ہوتا ہے… کیا مسجد گرانے سے کسی کا دل نہیں ٹوٹتا؟… جس اﷲ والے بزرگ کے یہ اشعار ہیں ان کی پوری زندگی مسجد ہی میں گذری ہے… جب کہ ہمارے حکمرانوں کو روڈ کے کنارے بنی ہوئی مسجد دیکھ کر بخار آجاتا ہے… بددینی جب اپنی اس’’انتہا‘‘ کو پہنچ چکی ہو تو پھر اس کا ردعمل بھی ’’انتہا پسندی‘‘ کی شکل میں آتا ہے… یاد رکھیں جب تک ملک کے حکمرانوں کے دلوں سے بددینی کی انتہا پسندی نہیں نکلتی… یا ملک کواچھے اور باایمان حکمران نصیب نہیں ہوجاتے یہ ملک اسی طرح(نعوذباﷲ) آفتوں کی زد میں رہے گا… کیونکہ اس ملک کی جڑوں میں لاکھوں شہداء کا خون ہے… اور ان شہداء نے یہ قربانی’’اسلام‘‘ اور’’لا الہ الا اﷲ‘‘ کے لئے دی ہے تو جب حکمران اس خون سے غداری کریں گے تو ملک میں خون ہی ابلتا اور بہتا رہے گا… پرویز مشرف سے پہلے کے حکمران بھی دیندار نہیں تھے… مگر وہ کھلم کھلا بددینی کی ہمت بھی نہ رکھتے تھے، چنانچہ ملک میں امن تھا… مگر اس منحوس دجال نے حکمرانوں کے لئے بددین انتہا پسندی کو آسان بنا دیا… وہ چلا گیا مگر اس کے بعد جو بھی آرہا ہے وہ اسی کے نقش قدم پر چل رہا ہے… اور تو اور اب تو سرکاری تبادلوں اور ترقیوںتک میں’’دینداری‘‘ سب سے بڑا جرم ہے…مقامی طالبان نے تو حکومت کے ساتھ جنگ کی لیکن جن مجاہدین نے حکومت کے ساتھ جنگ نہیں کی، حکومت نے اُن کو کب چین کا سانس لینے دیا؟ مشرف نے ملک میں بددینی کی جو خبیث عمارت کھڑی کی اب ہر آنے والا حکمران اس عمارت کو مزید مضبوط کر رہا ہے… یہ ملک کافروں کا ہوتا تو اس میں بددینی سے ترقی آتی مگر یہ مسلمانوں کا ملک ہے اس لئے اس میں’’بددینی‘‘ سے کوئی ترقی نہیں آسکتی صرف بدامنی اور خونریزی ہی آسکتی ہے… اور وہ آچکی ہے…
(۴) مذاکرات کامیاب نہ ہونے کی چوتھی وجہ… فریقین کا انتشار ہے… حکومت کو بھی ملک کے تمام اداروںپر کنٹرول حاصل نہیں… اور طالبان قیادت کو بھی اپنے تمام افراد پر قابو نہیں… ہمارے وزیراعظم صاحب ہر کسی کے کام میں اپنی بے بسی کارونا روتے رہتے ہیں… اور چپکے سے یہ بتانا نہیں بھولتے کہ فلاںفلاں ادارے بہت گڑ بڑ کر رہے ہیں میں انہیں قابو کرنے کی کوشش میں ہوں… اور دوسری طرف مقامی طالبان کے بھی ان گنت دھڑے ہیں…اور اکثر عسکری کمانڈر اپنے فیصلوںمیں خود مختار ہیں…
(۵) مذاکرات کامیاب نہ ہونے کی پانچویں اہم وجہ… ملکی معاملات میں غیر ملکیوں کا عمل دخل ہے… پرویز مشرف کی صدارت اور حسین حقانی کی سفارت سے فائدہ اٹھا کر صہیونیوں، صلیبیوں، مشرکوں اور دیگر اسلام دشمن قوتوں نے ملک میں اپنے اڈے مضبوط بنالئے ہیں اور ریاستی مشینری میں اپنے افراد داخل کر لئے ہیں… پنجاب کے سابق مقتول گورنر سلمان تأثیر کے بارے میں یہ خبر فاش ہو گئی تھی کہ وہ… برطانوی خفیہ ایجنسی کا باقاعدہ اہلکارہے… وہ تو چلو مارا گیا مگراس جیسے اور کتنے افراد اہم عہدوں پرہوں گے… حال ہی میں پاکستانی فوج کے ایک سابق جنرل نے کتاب لکھی ہے … وہ مشرف کے زمانے اہم عہدوں پر رہے ہیں… انہوں نے لکھا ہے کہ امریکی خفیہ اداروں نے انہیں اپنے کام کے لئے بھرتی ہونے کی پیشکش کی تھی… اﷲ تعالیٰ کا شکر ہے انہوں نے پیشکش ٹھکرا دی… لیکن کیا سب میں اتنا ایمان اور ہمت ہے کہ ایسی بھاری پیشکش ٹھکرا دیں؟… جب دنیا ہی مطلوب اور مقصود بن چکی ہے اور دینداری جرم کے درجے میں داخل ہو چکی ہے تو ماہانہ لاکھوں ڈالر کی تنخواہ پر بکنے والوں کی کیا کمی ہوگی؟… کیا ایسے لوگ جو غیروں کے لئے کام کر رہے ہیں، اس ملک میں امن دیکھنا گوارہ کر لیں گے؟… چند وجوہات اور بھی ہیں مگر آج انہیں پانچ پر اکتفا کرتے ہیں…
پھر کیا ہوگا؟
پہلے عرض کر دیا کہ… ہم مذاکرات کے حامی ہیں اور ملک میں ایمان اور امن دیکھنے کی شدید خواہش رکھتے ہیں… ہمیں بھی حکومت کی طرف سے بہت ستایا گیا اور بندوق اٹھانے پر بہت اکسایا گیا مگر ہم نے… حکومت پاکستان اور یہاں کی فورسز کے خلاف ایک کارروائی بھی نہیں کی… اس کی وجہ سے ہمیں طرح طرح کے طعنوں کا سامنا ہے… کوئی ہمیں ایجنسی کا ایجنٹ کہتا ہے تو کوئی بزدلی کے طعنے دیتاہے… لیکن ہم نے کسی کی پرواہ نہیں کی اور دینی علم کی روشنی میں جو کچھ اپنے ایمان اور اپنے جہاد کے لئے مناسب سمجھا وہی کیا… ہم نے حکومت کے خلاف جنگ نہ کر کے کوئی مراعات نہیں لیں اور نہ کبھی اپنے اس عمل کا واسطہ دے کر حکومت سے کوئی بھیک مانگی… ہم نے اﷲ تعالیٰ کی رضا کے لئے ایک مؤقف شعوری طور پر اختیار کیا ہے… ہم نے اپنے ہاتھ مسلمانوں کے لہو سے پاک رکھنے کی جان توڑ اور مشکل محنت کی ہے… اور اپنا رُخ اُن محاذوں کی طرف رکھا ہے جہاں کفار، مسلمانوں پر حملہ آور ہیں… ہم نے یہ سب کچھ اﷲ تعالیٰ کے لئے کیا، اپنے دین، ایمان اور جہاد کے لئے اسے بہتر سمجھا اس لئے ہم اس پر دنیا میں کسی صلے یا اجر کے امیدوار نہیں ہیں… ہماری یہ خواہش بھی نہیں ہے کہ… حکومت اور مقامی طالبان کے درمیان مذاکرات ناکام ہو جائیں… اور کل ہم لوگوں سے کہہ سکیں کہ دیکھو! ہمارا تجزیہ بالکل ٹھیک نکلا… ایسا بالکل نہیں بلکہ یہ خواہش ہے کہ ہمارا تجزیہ غلط نکلے اور ملک میں ایمان اورامن قائم ہو جائے… لیکن جو کچھ کھلی آنکھوں سے نظرآرہا ہے اسے بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا…پاکستان میں حالات واقعی خطرناک حدتک خراب ہو چکے ہیں…لیکن ہم مسلمان… کبھی بھی امید کا دامن اپنے ہاتھ سے نہیں چھوڑتے… اﷲ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے اوروہ اپنے بندوں پر مہربان ہے… الحمدﷲ جہاد کی برکت سے عالم کفر کو شکست ہوئی ہے اور ہمارے پڑوس سے…’’مغضوب علیھم‘‘… اور’’ضالین‘‘ کے قافلے اس سال کے آخر تک اپنے ملکوں کو لوٹ رہے ہیں…’’مغضوب علیھم‘‘ وہ جن پر اﷲ تعالیٰ کا غضب نازل ہوتا ہے… اور اﷲ تعالیٰ کا سب سے بڑا غضب یہ ہے کہ کسی کافر کو اپنے کفر پر اطمینان ہو جائے اوروہ اسی کفر میں مرے اور ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جہنم کا ایندھن بن جائے… اور ضالین وہ گمراہ لوگ جو صراط مستقیم سے بھٹک گئے اور انہوں نے اپنی خواہشات کو اپنا معبود بنالیا… ہمارے پڑوس میں اتنے گندے اور برے لوگوں کا اجتماع… ایک بڑی نحوست ہے اور افسوس کہ اس نحوست کو ہمارے حکمران پالتے رہے… اب الحمدﷲ وہ سب واپس جارہے ہیں… اُن کے واپس جانے سے بھی ان شاء اﷲ اس خطے پر بہت فرق پڑے گا… انسانوں کے اعمال کا زمین پر بڑا اثر پڑتا ہے…
صلیبی افواج نے افغانستان میں وہ گندے اعمال کئے کہ جنہیں سننا بھی محال ہے… یہ کالم ہماری مسلمان بہنیں اور بچیاں بھی پڑھتی ہیں… اس لئے تفصیل لکھنے کی ہمت نہیں… یہ انسانیت کے لئے کینسر جیسے افراد جب افغانستان سے چلے جائیں گے تو ان شاء اﷲ وہاں اور یہاں اچھی تبدیلیاں شروع ہو جائیں گی…اس لئے مایوسی، ناامیدی اور پریشانی کی بات نہیں ہے … بلکہ سر اونچا کرنے کا وقت ہے کہ حضرت محمد عربی ﷺ کے غلاموں نے… اپنے آقا کی غلامی کا حق ادا کیا اور ایسی سرفروشانہ جنگ کی کہ… دنیا بھر کی عسکری ٹیکنالوجی کو مکڑی کے جالے کی طرح روند ڈالا… سلام ہو فدایان اسلام کو… سلام ہو فقیرعطاء اﷲ شہیدؒ اور اُن کے رفقاء کو… آج مجھے صبح سے وہ یاد آرہے ہیں… سلام ہو استقامت کے ساتھ جہاد پر ڈٹے رہنے والوں کو… اور سلام ہو قابل فخر اُمت محمدیہ، اُمت مسلمہ کو… بس اے بھائیو! اور بہنو! سلامتی کاراستہ کھلا ہے…
(۱) ایمان…’’لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ‘‘ کو دل میں بٹھانا اور اس پر کامل یقین رکھنا اور اس کا خوب ورد کرنا(۲) نماز… زندگی کا سب سے اہم اور میٹھا کام نماز… اﷲ تعالیٰ سے ہر نعمت پانے کا ذریعہ نماز(۳) جہاد فی سبیل اﷲ… مغفرت، عزت،غلبے، کامیابی، سعادت، حسنِ خاتمہ، آزادی… اور شہادت جیسی اونچی نعمتیں حاصل کرنے کا ذریعہ… جہاد فی سبیل اﷲ…
لا الہ الا اﷲ، لا الہ الا اﷲ، لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ…
اللھم صل علیٰ سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا…
لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ…
٭…٭…٭
مجاہدہ مشاہدہ
رنگ و نور ۔۔۔سعدی کے قلم سے (شمارہ 429)
اﷲ تعالیٰ کی خاطرجو لوگ تکلیفیں برداشت کرتے ہیں۔۔۔ اﷲ تعالیٰ اُن پر اپنے راستے کھول دیتے ہیں۔۔۔ ہمارے بھائی محمد افضل گورو شہیدؒ نے بہت تکلیفیں برداشت کیں۔۔۔ وہ ’’مجاہدۂ نفس‘‘ کے اُس مقام پر پہنچے، جس کا تصور بھی عام انسانوں کے لئے مشکل ہے۔۔۔انڈیا کے مشرک۔۔۔ دنیا کی غیر مہذب ترین قوم ہیں۔۔۔ آپ یقین کریں، انتہائی بدترین قوم۔۔۔ نہ اخلاق، نہ حیا، نہ غیرت اورنہ کوئی اصول۔۔۔ بس جانوروں کی طرح مفاد پرست، ہرطرح سے آزاد۔۔۔ اور ہر طرح کے انسانی جذبوں سے عاری۔۔۔ وہ اپنے قیدیوں کے ساتھ ایسا بُرا سلوک کرتے ہیں، جس کا کسی اور ملک یا قوم میں رواج نہیں۔۔۔ بھائی محمد افضلؒ نے ایسے ظالموں کی قید میں مسلسل تیرہ سال کاٹے۔۔۔ بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ’’جیل‘‘ کی آزمائش’’اضطراری‘‘ ہوتی ہے۔۔۔ یعنی جبراً انسان پر مسلّط ہوجاتی ہے، کوئی اپنی مرضی سے توجیل جاتانہیں۔۔۔ اس لئے اسے’’مجاہدۂ نفس‘‘ نہیں کہا جا سکتا۔۔۔ کیونکہ یہ’’مجاہدہ‘‘ اپنے اختیاراور اپنی مرضی سے نہیں کیا جاتا۔۔۔لوگوں کی یہ سوچ غلط ہے۔۔۔ اول توایسے راستے کو اختیار کرنا جس میں قید اور جیل آسکتی ہو یہ انسان کے اپنے اختیار سے ہوتا ہے۔۔۔ دوسرا یہ کہ جیل جانے کے بعد انسان کے لئے آرام اور راحت حاصل کرنے کے کئی راستے کھلے رہتے ہیں۔۔۔ جموںکشمیر میں انڈین حکمرانوں نے ایک ایسی جیل بھی بنا رکھی ہے جہاں کی سہولتیں بعض معاملات میں آزادی سے بھی زیادہ ہیں۔۔۔ جو کچے افراد جہاد میں آجاتے ہیں اور پھرتھوڑی سی تکلیف اورمجاہدہ بھی برداشت نہیں کر سکتے بلکہ گرفتار ہوتے ہی دشمن کے قدموںمیں گر جاتے ہیں۔۔۔ اور اُن کے لئے اپنی خدمات پیش کر دیتے ہیں ایسے افراد کو اُس جیل میں رکھا جاتاہے۔۔۔ اور وہاںاُن کے اخلاق اورعادات کومزید بگاڑاجاتا ہے۔۔۔ جیلوں میں بیٹھ کر کئی افراد نے بڑی بڑی جائیدادیں بنائیں اور ہر وہ ناجائز لذت حاصل کی جو بہت سے آزاد افرادکو بھی آسانی سے میسّر نہیں آتی۔۔۔ اس لئے دشمن کی جیل میں اپنے ایمان اور جہاد پر ثابت قدم رہنا۔۔۔ وہ عمل ہے جو انسان کو بہت سے ’’مجاہدات‘‘اور تکلیفوں میں ڈالنے کا ذریعہ بنتا ہے۔۔۔ اسی طرح جیل میں اپنے دینی اعمال پر ثابت قدم رہنا بھی آسان کام نہیں ہوتا۔۔۔ وہاں کوئی نہیں پوچھتا کہ آپ نے نماز پڑھی یا نہیں۔۔۔ وقت پر پڑھی یاقضا کردی۔۔۔ صبح دس بجے اٹھے یاچار بجے۔۔۔ وہاں معمولات کے بارے میں پوچھنے والا بھی کوئی نہیں ہوتا۔۔۔ اور دشمن کی جیل میں یہ دعوت چلانے والے شیاطین بکثرت پائے جاتے ہیں کہ۔۔۔ خود کو’’سیکولر‘‘ بنا کر رکھو تاکہ آزادی مل سکے اورجیل میں زیادہ سختی نہ ہو۔۔۔ بہت سے باریش افراد اسی پھندے میں پھنس کر داڑھی سے محروم ہوئے۔۔۔کئی نے نمازیں ترک کر دیں اورکئی نے دینی اعمال اور اچھے کردار سے ہاتھ دھولئے۔۔۔ آپ اپنے ملک میں چاروں طرف نظر دوڑائیں آپ کو ایسی کئی شخصیات نظر آجائیں گی۔۔۔ جنہوں نے محض چارچھ ماہ کی قید میں ہی اپنے’’نظریات‘‘ بدل لئے۔۔۔ بھائی محمد افضل شہیدؒ تیرہ سال تک ایسے ظالم اور موذی دشمن کی قید میں رہے۔۔۔ مگر اُن کے نظریات میں ذرہ برابر تبدیلی نہ آئی۔۔۔ بلکہ اُن کے عزم اورشرح صدر میںمزید اضافہ ہی ہوتا چلا گیا۔۔۔ وہ شادی شدہ تھے اور شادی شدہ افراد کے لئے جیل کاٹنا کنوارے افراد کی بنسبت کافی مشکل ہوتا ہے۔۔۔ اُن کا ایک معصوم پھول جیساپیارا بیٹا تھا۔۔۔ اس بچے نے جب سے شعور کی آنکھیں کھولیں اپنے والدکو سلاخوں کے پیچھے ہی دیکھا۔۔۔ مگر اُسے یہ بات کبھی نہیں بھولے گی کہ اُس نے اپنے باپ کو ہمیشہ مسکراتے ہی دیکھا۔۔۔ اُن کی اہلیہ کو اپنے خاوند کی قید کے دوران سوپور سے دہلی تک ڈھائی ہزار بار سفر کرنا پڑا۔۔۔ کوئی اور ہوتا تو اپیلیں، فریادیں، انسانی حقوق کی دھائیاں اور حکمرانوں کی منت سماجت کے راستے ڈھونڈتا۔۔۔ مگر یہاں ماشاء اﷲ ہر منظر ایمان اور زندگی سے بھرپور ہے۔۔۔ لوگ جیلوں میں بیٹھ کر لمبی لمبی درخواستیں لکھتے ہیں۔۔۔ اپنی رہائی کے لئے بااثرافراد کو خطوط لکھواتے ہیں۔۔۔ مگر بھائی محمد افضلؒ کے ہاتھ میں جب قلم آیا تو وہ آفاق شہیدؒ کی داستان لکھنے بیٹھ گئے۔۔۔ انہوں نے کشمیر کے نوجوانوں کو سمجھایا کہ پتھر چھوڑو بندوق اٹھاؤ۔۔۔ انہوں نے گاندھی واد اور عدم تشدد کا پرچارکرنے والے لیڈروں کے مکر کا پردہ چاک کیا۔۔۔ اور مسلمانوں کو ایمان اور جہاد کی طرف کھینچنے والا ایک ’’آئینہ‘‘ تیار کر ڈالا۔۔۔ ایک بات یاد رکھیں دنیا میں کسی انسان کی دنیاوی خواہش مکمل پوری نہیں ہوتی۔۔۔ جو میاں بیوی ساتھ رہتے ہیں وہ بھی بالآخر ایک دن جدا ہوجاتے ہیں۔۔۔ بیس سال دودھ اور شہد کی طرح محبت میں ساتھ رہنے والے میاں بیوی کے درمیان جب اچانک نفرت کی لکیر آتی ہے تو انہیں آپس میں ایک ساتھ گزارا ہوا ایک دن بھی یاد نہیں رہتا۔۔۔ انسان ساری زندگی شاہانہ کھانے کھائے صرف ایک دن معدے کا درد اٹھے تو یہ تک یاد نہیںرہتا کہ پوری زندگی بکرے کھائے یا دال۔۔۔ بس ہر چیز بری لگنے لگتی ہے۔۔۔ انسان دنیا میںجتنی بھی دنیوی عزت پالے پھر بھی اُس کے اندر کا احساس تنہائی ختم نہیں ہوتا۔۔۔ کیونکہ نفس پرست انسانوں کا نفس ۔۔۔ نعوذباﷲ خدائی کا دعویدارہوتا ہے اور وہ سب کچھ اپنی مرضی کے مطابق چاہتا ہے۔۔۔ اورپھر جب سب کچھ اپنی مرضی کے مطابق نہیں ہوتا ہے تو انسان۔۔۔محرومی کے احساس میں تڑپنے لگتا ہے۔۔۔
اس لئے یہ سوچنا کہ جس کو دنیا میں کچھ نہیں ملا۔۔۔ وہ ناکام ہے۔۔۔ یہ بڑی غلط سوچ ہے۔۔۔ دنیا میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو کیا ملا؟۔۔۔ آج اُن کے نام پر ویٹی کن میں سونے کی ریاست قائم ہے۔۔۔ مگر سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی زندگی غریبی، مسکینی اور مظالم سہتے ہوئے گزری۔۔۔ اور بالآخر اُن کے دشمنوں نے انہیں اپنے گمان میں سولی پر قتل کر دیا۔۔۔ تب اﷲ تعالیٰ نے انہیں زندہ سلامت اسی دنیوی زندگی کے ساتھ آسمانوں پر اٹھا لیا۔۔۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کامیاب رہے، اُن کی کامیابی میں شک کرنا بھی کفر ہے۔۔۔ مگر اپنی زندگی میں انہوں نے اس دنیا میں کیا پایا؟۔۔۔ معلوم ہوگیا کہ جو دنیا میں اپنے مجاہدات اور تکلیفوں کا دنیوی بدلہ نہ پائے وہ زیادہ بڑا کامیاب ہوتا ہے۔۔۔ ابھی کچھ دن پہلے جب لاہور والے’’داتا جی‘‘ کا عرس منا رہے تھے، پورا لاہور بند تھا۔۔۔ اربوں پتی حکمران پھول چڑھانے مزار پر جارہے تھے۔۔۔ کروڑوں نہیں اربوں روپے اس عرس میں اِدھر اُدھر ہورہے تھے۔۔۔ ہر طرف دیگیں ہی دیگیں پک رہی تھیں۔۔۔ تب مجھے خود حضرت ہجویریؒ کی زندگی کے مجاہدات اور تکلیفیں یاد آئیں کہ۔۔۔ لاہوریوں نے اُن کی زندگی میں اُن کے ساتھ کیا معاملہ کیا۔۔۔ اور اب اُن کے وصال کے بعد کیا معاملہ کر رہے ہیں۔۔۔ حضرت ہجویریؒ کا اسم گرامی’’علی‘‘ اور والد محترم کا نام’’عثمان‘‘ ہے۔۔۔ آپ کی کنیت ابوالحسن تھی اور قبیلہ سادات کے چشم و چراغ تھے۔۔۔ ان سب چیزوں کو جوڑیں تو پورا نام یوں بنتا ہے۔۔۔
سید ابوالحسن علی بن عثمان ہجویریؒ
آپ لاہور کے رہنے والے نہیں تھے۔۔۔ بلکہ افغانی تھے یعنی غزنی کے رہنے والے تھے۔۔۔ لاہور میں آپ جب اپنی مایہ ناز کتاب’’کشف المحجوب‘‘ لکھ رہے تھے تو آپ نے افسوس کے ساتھ فرمایا کہ۔۔۔ میں یہاں لاہور میں اپنے ناجنسوں۔۔۔ یعنی غیر مانوس لوگوں کے درمیان ہوں اور میرا کتب خانہ غزنی میں رکھا ہے۔۔۔ اﷲ تعالیٰ کے اس مقبول ولی کی پوری زندگی اسفار اور مجاہدات میں گزری۔۔۔ اور دنیا میں ناقدری کے ایسے واقعات پیش آئے کہ آج کے بزرگ اُن کا تحمل نہیں کر سکتے۔۔۔
مگر آج ساری دنیا مانتی ہے کہ۔۔۔ حضرت ہجویریؒ کامیاب تھے اور اُن کا فیض آج تک جاری ہے۔۔۔ مصر کے معروف زمانہ ولی حضرت ذوالنون مصریؒ کے بارے میں آتا ہے کہ۔۔۔ اُن کے شہر اور محلے کے لوگ تک اُن کو نہیں پہچانتے تھے۔۔۔ جبکہ آج ہماری یہ حالت ہے کہ کوئی دکاندار ہمیں زیادہ رعایت نہ دے تو ہمیںخطرہ لگنے لگتا ہے کہ۔۔۔ شاید ہماری نماز قبول نہیں ہوئی ہو گی۔۔۔ کیونکہ اگر نماز قبول ہوتی تو یہ دکاندار ہمیں زیادہ رعایت دیتا اور ہمارا زیادہ اکرام کرتا۔۔۔
اَسْتَغْفِرُاﷲ، اَسْتَغْفِرُاﷲ، اَسْتَغْفِرُاﷲ
کتنے خسارے کی بات ہے کہ۔۔۔ ہر نیکی کا بدلہ دنیا ہی میں پانے کی خواہش انسان کے دل پر سوار ہوجائے۔۔۔
بھائی محمد افضل گوروؒ نے جیل میں بھرپور’’مجاہدہ‘‘پایا۔۔۔ ایسے ’’مجاہدہ‘‘ سے انسان کے اندر کی آنکھیں کھل جاتی ہیں۔۔۔ اور اُسے ’’حقائق‘‘ کا مشاہدہ ہونے لگتا ہے۔۔۔ اس کو ایک مثال سے سمجھیں۔۔۔ چار پانچ سال کے ایک بچے کو بتایا جائے کہ ہم آپ کو۔۔۔ اسم اعظم سکھا دیں گے۔۔۔ یہ وہ اسم ہے کہ جس کو پڑھ کر آپ جو کچھ مانگیں گے۔۔۔ وہ فوراً مل جائے گا۔۔۔ اب وہ بچہ کیا مانگے گا۔۔۔ بہت سی چاکلیٹ، ٹافیوں کے بھرے ہوئے پیکٹ۔۔۔ اوریہ کہ میری امی مجھے دودھ کا فیڈر لبالب بھر کر دیا کرے۔۔۔ آپ اس بچے کو لاکھ سمجھائیں کہ بیٹا آپ وزارت عظمٰی مانگیں،لندن میں فلیٹ مانگیں، امریکہ کا گرین کارڈ مانگیں۔۔۔ خوبصورت دلہن مانگیں۔۔۔ مگر وہ نہیں سمجھے گا،بلکہ ڈرے گاکہ دلہن آگئی تو آدھی ٹافیاں وہ کھا جائے گی۔۔۔ اب دوسرا منظر آپ کسی بالغ عمر کے شخص کو اسم اعظم بتائیں۔۔۔ کیا وہ بھی ٹافیاں اور چاکلیٹ مانگے گا؟۔۔۔ بلکہ اگر اُسے کہا جائے کہ اسم اعظم کے ذریعہ دعاء کر کے ٹافیاں مانگو تو اُسے ہنسی آئے گی اور یہ سب کچھ مذاق معلوم ہوگا۔۔۔
یس یہی حال اُن لوگوں کا ہے جن کو ’’مشاہدہ‘‘ نصیب ہو۔۔۔ یعنی دیکھنے کی طاقت۔۔۔ اُن کو دنیا کی یہ پوری زندگی ایک ٹافی جیسی لگتی ہے۔۔۔ یہاںکی حکومت، یہاں کی عزت، یہاںکی شہوات، یہاں کی خواہشات۔۔۔ بس ایک ٹافی کے برابر۔۔۔ اور آخرت ہمیشہ ہمیشہ کی دائمی لذت۔۔۔ چنانچہ وہ باوجود اسم اعظم رکھنے کے کبھی دنیانہیں مانگتے۔۔۔ بلکہ دنیا کی ناقدری اور دنیا کے دکھ درد پر صبر کر لیتے ہیں۔۔۔ اور یوں کامیاب ہو جاتے ہیں۔۔۔ ایک اﷲ والے بزرگ نے کسی کو بتایا کہ۔۔۔ میرا ہمیشہ تہجد کا معمول ہے۔۔۔اوراب یہ حالت ہے کہ تہجد کے وقت مجھے پوری دنیا ایک چھوٹے سے خوبصورت گلدستے کی طرح نظر آتی ہے۔۔۔ اوروہ گلدستہ میرے سامنے رکھا ہوتاہے۔۔۔ سننے والے نے تڑپ کر کہا! پھر آپ اس گلدستے کے کسی حصے پر اپنا ہاتھ کیوں نہیں رکھ دیتے؟ یعنی دنیا میں سے وافر حصہ لے کیوںنہیں لیتے؟۔۔۔ وہ فرمانے لگے کہ ! اگرمیں تہجد کی نماز کے بدلے اتنی چھوٹی سی دنیا لے لوں تو اس سے بڑا خسارے والا سودا اور کیا ہوگا؟۔۔۔ انڈین حکومت اپنی پارلیمنٹ پر حملے کی وجہ سے سخت شرمندگی، ذلت اور غصے کا شکار تھی اور اُس کے ہاتھ میں۔۔۔ یہ سارے بوجھ اتارنے کے لئے ایک ہی مظلوم جان تھی۔۔۔ اور وہ تھے ہمارے پیارے بھائی محمد افضل گورو شہیدؒ۔۔۔ انڈیا غصے اور غم سے پھٹ رہا تھا جبکہ۔۔۔ پُرسکون ’’افضل‘‘ جیل میں ’’مشاہدے‘‘ کی اونچی منزلیں طئے کررہا تھا۔۔۔ بالآخر اُس کا ’’شرح صدر‘‘ ایک خاص مقام تک پہنچا تو۔۔۔’’آئینہ‘‘ نامی کتاب قلم سے کاغذ پر اُتر آئی۔۔۔ الحمدﷲ یہ کتاب شائع ہو چکی ہے۔۔۔ ہمارا پہلا ہدف کتاب کے ایک لاکھ نسخے مسلمانوںتک پہنچانے کا ہے۔۔۔ آپ سب اس مبارک کام میں اپنا حصہ ڈالیں۔۔۔ایک زندہ، ایک شہید اور ایک مقبول انسان کے دینی کام کو ہم آگے بڑھائیں گے تو۔۔۔ ان شاء اﷲ ہمیں بھی زندگی اور قبولیت ملے گی۔۔۔
بندہ نے چند نسخے خرید کر تقسیم کرنے کی نیت کر لی ہے۔۔۔ آپ بھی کرلیں اور جلد اپنی نیت کو عمل تک پہنچائیں۔۔۔ الحمدﷲ پورے ملک سے کتاب کے لئے ’’آرڈر‘‘ مکتبے کو موصول ہو رہے ہیں اور اہل مکتبہ کے پریشانی سے ہاتھ پاؤںپھول رہے ہیں۔۔۔ اسی لئے تو ہم کہتے ہیں کہ۔۔۔ بلاشبہ شہید زندہ ہے۔۔۔
26جنوری۴۱۰۲ء اتوار کے دن۔۔۔ مظفر آباد میں اس کتاب کی تقریب افتتاح کا اجتماع ہے۔۔۔ اجتماع میں شرکت کے تین درجے ہیں۔۔۔ پہلا یہ کہ۔۔۔ اپنا مال اور اپنا وقت لگا کر خود اجتماع میں شریک ہوں۔۔۔ ایسے مواقع زندگی میں روز نہیں آتے۔۔۔
دوسرا درجہ یہ کہ۔۔۔ اجتماع کے اخراجات میں مالی تعاون کریں اور تیسرا درجہ یہ کہ۔۔۔ دل کے مکمل اخلاص کے ساتھ اجتماع کی کامیابی اورقبولیت کی مستقل دعاء اجتماع مکمل ہونے تک کرتے رہیں۔۔۔
وَمَا تَوْفِیْقِیْ اِلّا بِاﷲ عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ وَاِلَیْہِ اُنِیْب
لا الہ الا اﷲ، لا الہ الا اﷲ، لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ۔۔۔
اللھم صل علیٰ سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا۔۔۔
لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ۔۔۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭
مختصرمحبس نامہ
رنگ و نور .سعدی کے قلم سے 424
اللہ تعالیٰ مجھے اور آپ سب کو.دنیا و آخرت کی رسوائی سے بچائے.
آج بھی’’جیل‘‘ اور قید خانے کی بات کرتے ہیں.یہ وہ موضوع ہے جو قرآن پاک نے اٹھایا ہے اور’’قرآن مجید‘‘میں ’’اَلسِّجْنْ‘‘ یعنی جیل کا لفظ چھ ﴿۶﴾ بار آیا ہے.
اس لئے کم از کم چھ کالم اس موضوع پر لکھنے چاہئیں.فی الحال دو پر اکتفائ کرتے ہیں.کوشش ہو گی کہ آج ان شائ اللہ یہ موضوع سمٹ جائے.
وحشت ناک سزائیں
یورپ کے دو ٹانگوں والے حیوانات نے یہ شور مچا رکھا ہے کہ.اسلامی سزائیں وحشت ناک ہیں.جبکہ’’جیلوں‘‘کا موجودہ نظام انسانی حقوق کے عین مطابق ہے.
استغفر اللّٰہ، استغفر اللّٰہ، استغفر اللّٰہ
اب سنئے! ایک شخص نے چوری کی.کیا چوری کرنا وحشت ناک عمل نہیں ہے؟
اسلامی حکم کے مطابق اس شخص کو پکڑا گیا،چند دن الزام کی تحقیق کے لئے اسے ’’قید‘‘رکھا گیا، الزام ثابت ہوا اور اس کا ہاتھ کاٹ دیا گیا اور اسے چھوڑ دیا گیا.کیا یہ وحشت ناک عمل ہے؟یہ شخص اپنے اس ہاتھ سے تو ضرور محروم ہوا جو ہاتھ ’’خائن‘‘ہو چکا تھا.ایسا ہاتھ سلامت رہتا تو معلوم نہیں کتنے گھر اجاڑ دیتا،کتنے عزتمندوں کو رسوا کر دیتا، کتنی معصوم بیٹیوں کو بھکاری بنا دیتا.ہاتھ کٹ گیا خود اس کے لئے بھی عبرت کا سامان ہوا اور دیکھنے والوں کے لئے بھی.اب کوئی چوری کرنے سے پہلے سو بار سوچے گا.اور یہ شخص واپس اپنے بیوی بچوں میں آ گیا.ایک شرمندگی اس کے ساتھ ضرور لگی ہے لیکن اگر وہ اپنی حالت بدل لے تو لوگ اس کے کٹے ہاتھ کو بھی چومیں.کتنے بڑے بڑے گناہگاروں نے جب سچی توبہ کر لی تو مخلوق کے ’’محبوب‘‘بن گئے.اب یہ شخص اپنے گھر والوں اور بچوں کی دیکھ بھال کر سکتا ہے.ان کی تعلیم و تربیت اور روزی کا بندوبست کر سکتا ہے.اور یوں درجنوں افراد بے آسرا اور بے سہارا ہونے سے بچ گئے.
اب دوسرا منظر دیکھیں.اس چور کو پکڑ لیا گیا اور جیل میں ڈال دیا گیا.چار پانچ سال اس کا کیس ٹرائل ہو گا.یہ چور اس دوران جیل میں کئی دیگر افراد کو چوری کا فن سکھادے گا.مقدمہ لڑنے اور وکیلوں کی فیس دینے کے لئے اس کے گھر والے یا تو زیور بیچیں گے یا مکان فروخت کریں گے یاکسی جرم کے ذریعے پیسہ کمائیں گے.وہ آٹھ دس سال جیل میں گذارے گا.اس دوران اگر اس کے گھر کا ماحول دینی اور خاندان کا نظام مستحکم نہیں تو اس کے زیر کفالت افراد طرح طرح کے جرائم اور برائیوں میں مبتلا ہو جائیں گے.اس کے بچے معاشرے میں مجرم بن جائیں گے.اور یوں چوری کے ایک جرم سے ہزار جرائم جیل کے اندر اور باہر جنم لیتے جائیں گے.ہاں!جب دین فطرت سے ہٹ کر حیوانی طریقوں کو ’’انسانی حقوق‘‘ سمجھ لیا جائے تو یہی نتیجہ نکلتا ہے اور آج ساری دنیا اسی طرح کے نتائج کو بھگت رہی ہے.اور چوری اتنی عام ہو گئی کہ کئی حکمران تک چور بن گئے ہیں.کیا یہ سب کچھ خوفناک اور وحشت ناک نہیں ہے؟.
پہلی جیل
ہمارے اسلامی مورخین اور فقہائ کرام کے ہاں یہ مسئلہ زیر بحث رہا ہے کہ اسلام میں’’جیل‘‘کا تصور ہے یا نہیں؟.اور اگر ہے تو کسی انسان کو زیادہ سے زیادہ کتنا عرصہ قید میں رکھا جا سکتا ہے؟.سبحان اللہ! کیسا پیارا دین ہے. زیادہ سے زیادہ ایک دو ماہ .یا جب بھی مجرم توبہ کر لے.
ترمذی کی روایت ہے: رسول اللہ ö نے ایک شخص کو کسی الزام میں روک لیا اور پھر اسے چھوڑ دیا.بس اتنی سی قید.علامہ ابن الہمام(رح) نے’’فتح القدیر‘‘میں تحقیق فرمائی ہے کہ.رسول اللہ ö کے زمانہ میں اور حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے دور میں’’جیل‘‘نہیں تھی.سیدنا حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مکہ مکرمہ میں صفوان بن امیہ کا گھر چار ہزار درہم میں خرید کر اسے ’’قیدخانہ‘‘بنایا.کچھ دن کے لئے بعض جرائم پر کسی انسان کو کسی جگہ روک لینا یا پابند کر دینا.یہ اسلام میں منع نہیں ہے.مثلاً کسی پر الزام لگا.اب الزام کی جلد تحقیق تک اسے پابند کرنا.کسی نے قرضہ لیا اور اب ادا نہیں کر رہا حالانکہ ادائیگی کی طاقت رکھتا ہے.ایسے شخص کو چند دن کے لئے یا قرض کی ادائیگی تک ’’بند‘‘ کر دینا.کوئی شخص فتنہ فساد اور گمراہی پھیلا رہا ہے،اسے چند دن بطور تنبیہ’’بند‘‘کر دینا.
حضرت عمرر رضی اللہ عنہ نے ایک شاعر’’حطیئۃ‘‘کو اس کے غلط اشعار پر تنبیہ کے لئے ’’بند‘‘ فرما دیا.شاعر جی کا دماغ فوراً ٹھیک ہو گیا،چند اشعار لکھ کر حضرت کی خدمت میں بھیجے.مفہوم یہ تھا کہ.حضرت ! اللہ تعالیٰ آپ کو سلامت رکھے،ان چھوٹے چھوٹے چوزوں کا کیا بنے گا،جن کے پاس نہ خوراک ہے،نہ پانی اور ان کا کھلانے پلانے والا بند کر دیا گیا ہے.یعنی اس نے اپنے بچوں کا رونا رویا اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسے فوراً رہا فرما دیا.
دوسری جیل
کہتے ہیں کہ حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ نے ایک جگہ بطور وقتی قید خانہ تعمیر کروائی.بالکل کھلی،روشنی والی اور ہر طرح سے با سہولت.اور اس کا نام ’’النافع‘‘رکھا یعنی نفع پہنچانے والی جگہ.کیونکہ مقصد قیدیوں کی اصلاح تھا.خلافت راشدہ کے دور میں بس یہی نظام چلتا رہا.حضور پاک ö اور حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں.کسی کی وقتی قید کے لئے کوئی خاص جگہ نہیں تھی.
بعض افراد کو مسجد میں بند کر دیا جاتا تھا.اسلام میں ’’مسجد‘‘کا بہت وسیع نظام ہے.ایک بزرگ نے اس پر بہت تفصیلی کتاب لکھی ہے.اسلام کا نظام مساجد از قلم مفتی ظفیر الدین صاحب.حیرت ہے ان مسلمانوں پر جو مسجد میں اپنی مخصوص اجارہ داری قائم کر کے لوگوں کو عبادات سے روکتے ہیں.درس شروع ہو گیا تو اب ہر کوئی ذکر چھوڑے،نماز بند کرے،تلاوت روک دے اور درس میں حاضر ہو.کیا کوئی درس فرض کے درجے تک جا پہنچا ہے؟؟.تعلیم شروع ہوئی تو اب نہ کوئی نماز پڑھے،نہ ذکر و تلاوت کرے.کیا تعلیم فرض ہے؟.یاد رکھیں! کسی بھی عمل کی اہمیت اس کی شرعی حدود سے بڑھانا’’الحاد‘‘ اور بد دینی ہے.رسول کریم ö کے زمانہ میں مسجد نبوی شریف میں کوئی نماز میں لگا رہتا،کوئی ذکر میں گم ہوتا،کوئی تعلیم و تعلم کا حلقہ سجاتا اور کوئی تلاوت میں مست رہتا.کوئی بھی کسی کو نہیں روکتا تھا.اور مسجد کی شان یہی ہے کہ اس میں جہادی تشکیلات سمیت یہ تمام اعمال زندہ رہیں.کسی پانچ وقت کے پختہ نمازی کو اس لئے حقیر سمجھنا یا طعنہ زنی کا نشان بنانا کہ وہ ’’تعلیم‘‘میں نہیں بیٹھتا.یہ خود ایک خطرناک جرم ہے.اور ایسا کرنے والے لوگ’’مساجد‘‘ پر ظلم کرتے ہیں.مسجد اللہ تعالیٰ کا گھر ہے اور مساجد پر ظلم کرنا بہت ہی برا عمل ہے.آپ درس دیتے ہیں،یا تعلیم کراتے ہیں تو بہت اچھا.آپ لوگوں کو مثبت ترغیب دیں کہ وہ آپ کے ساتھ بیٹھیں.کوئی نہیں بیٹھتا اور دوسری عبادات میں لگا رہتا ہے تو آپ اسے تنگ نہ کریں اور نہ ہی اسے اپنے سے کم تر سمجھیں.یاد رکھیں اگر آپ کی ناجائز شدت کی وجہ سے کوئی ایک شخص بھی مسجد سے محروم ہوا تو یہ جرم آپ کے سارے نیک اعمال کو کھانے کے لئے کافی ہے.اسی طرح آپ مسجد میں کوئی ایسا عمل نہ کریںجس سے نمازیوںکو تکلیف ہو یا ان کی نمازوں میں خلل ہو.تلاوت آہستہ آواز سے کریں.ذکر میں بھی آواز ایسی بلند نہ کریں کہ نمازیوں کی نماز خراب ہو.گندے اور بدبودار لباس کے ساتھ مسجد نہ جائیں.کوئی سخت کراہیت آمیز بیماری لگی ہو.ایسی بیماری جس سے لوگ گھن کھاتے ہیں تو آپ گھر میں ہی نماز ادا کر لیں مسجد نہ جائیں.آپ کا یہ عمل مسجد آباد کرنے کے ثواب میں لکھا جائے گا،حالانکہ آپ نے نماز اپنے گھر میں ادا کی ہے.لیکن اگر اس بیماری کے ساتھ مسجد گئے اور آپ کی وجہ سے کچھ لوگ مسجد آنا بند ہو گئے تو آپ نے مسجد کو ویران کرنے والا عمل کر ڈالا.بھائیو! مساجد سے دل جوڑو،مساجد سے رشتہ بناؤ،مساجد سے محبت کرو،مساجد کو آباد کرو اور مساجد کی ہر طرح سے خدمت کرو.عارضی قیدیوں کو رکھنے کا ایک طریقہ تو یہی تھا کہ مساجد میں رکھ لیا جاتا تھا.دوسرا طریقہ گھروں کی دہلیز میں رکھنے کا تھا.اس زمانے گھر کے دروازے اور صحن کے درمیان کچھ جگہ ہوتی تھی اسے ’’دہلیز‘‘ کہتے تھے.تیسرا طریقہ اپنے گھر میں نظربندی کا تھا جس کا تذکرہ سورۃ النسائ میں موجود ہے.اور ایک طریقہ ترسیم کا تھا.اس میں دائرہ بنایا جاتا تھا.اور ایک طریقہ لزوم کا تھا کہ حقدار کو مسلسل اس کے پیچھے لگا دیا جاتا تھا.یہ بس مختصر خاکہ ہے تفصیل آپ تاریخ اور فقہ کی کتابوں میں دیکھ سکتے ہیں.
اسلامی قید خانوں کا اصل دستور.حضرت عمر بن عبد العزیز(رح) کے دور میں بطور’’دیوانی قانون‘‘جاری کیا گیا.اس کے چند اہم نکات یہ تھے.
﴿۱﴾ قیدیوں کو ان کے جرم کے مطابق الگ الگ رکھا جائے.مثلاً قرض ادا نہ کرنے والوں کو چوری کرنے والوں کے ساتھ ہرگز خلط نہ کیا جائے۔
﴿۲﴾ تمام قیدیوں کو گرمی اور سردی کی الگ غذا اور ان موسموں کے موافق لباس دیا جائے۔
﴿۳﴾ بیمار قیدیوں کا خاص خیال رکھا جائے، ان کے علاج وغیرہ کی ترتیب رہے
﴿۴﴾ کسی قیدی کو اس طرح سے نہ قید کیا جائے کہ اسے ’’اقامت صلوۃ‘‘میں دشواری یا تنگی ہو.وغیرہ
خوفناک جیلیں
آپ نے پڑھ لیا کہ.اسلام میں لمبی قید اور آج کل جیسی جیلوں کا کوئی تصور نہیں.بس کسی شخص کو بہت تھوڑے اور محدود وقت کے لئے’’بند‘‘رکھا جا سکتا ہے، پہلے اس کے لئے کوئی جگہ مخصوص نہیں تھی.مگر بعد میں افراد اور آبادی کے اضافے کی وجہ سے بعض جگہیں مخصوص کی گئیں.ہم ایسی جگہوں کو ’’سجن‘‘کی جگہ’’محبس‘‘ کہہ سکتے ہیں.اور اسلام میں ان جرائم کی تعداد بہت محدود ہے جن میں کسی کو تھوڑے عرصے کے لئے بھی بند رکھا جا سکے.کسی نے کل تین جرائم لکھے ہیں اور کسی نے پانچ سات.حضرت امام احمد بن حنبل(رح) سے بعض مجرموں کو قید کرنے کی اجازت کا فتوی مانگا گیا تو انکار فرما دیا.لوگوں نے وجہ پوچھی تو فرمایا: ان کے گھروں میں ان کی بہنیں اور بیٹیاں ہیں.
یہ تو ہے اصل اسلام.لیکن خود کو مسلمان کہنے والے بعض حکمرانوں نے بڑی خوفناک جیلیں بنائیں.حجاج بن یوسف کے مظالم میں سے ایک ظلم اس کی وہ’’جیل‘‘ بھی ہے جس میں وہ ہزاروں مسلمانوں کو بند رکھتا تھا اور ان قیدیوں کی تسبیح اور آہ و بکا سے پورا شہر لرزتا تھا.مصر پر جب رافضیوں کے فرقے’’فاطمیہ‘‘کی حکومت آئی تو انہوں نے بڑی دہشت ناک جیلیں بنائیں لوگ ان جیلوں کو ’’سرخ جہنم‘‘کہتے تھے.گوانتاناموبے اور ابو غریب جیسی.وہاں قیدیوں کو بڑے دردناک حالات میں رکھا جاتا تھا اور ان سے سخت مشقت لی جاتی تھی.شام میں بشار الاسد نے آج کل ایسی ہی جیلیں قائم کر رکھی ہیں.
قصہ مختصر
یہ سب ہوئی عام باتیں.اصل یہ کہ ہم میں سے ہر ایک کے لئے ان تفصیلات میں کیا سبق ہے؟. لیجیے ایک مختصر نصاب:
﴿۱﴾ ہم پر لازم ہے کہ ہم دنیا بھر میں موجود جیلوں کے موجودہ ’’غیر انسانی‘‘نظام سے نفرت کریں.گناہ اور برائی سے نفرت کرنا ایمان کا تقاضا ہے
﴿۲﴾ ہم خصوصی طور پر اسیر مجاہدینِ اسلام کی باعزت رہائی کے لئے دعائ کو اپنے معمولات کا حصہ بنائیں.کوئی دن ایسا نہ گزرے جس میں ہم نے’’اسیران اسلام‘‘کے لئے دعائ نہ کی ہو.اسی طرح تمام بے گناہ قیدیوں کی رہائی کی دعائ بھی کرتے رہیں.اور اسیران اسلام کی رہائی کے لئے.جہادی اور مالی طور پر جو کچھ کر سکتے ہوں کر گزریں.اس عظیم عمل کے فضائل آپ.فضائل جہاد میں پڑھ سکتے ہیں
﴿۳﴾ اسیران اسلام.اور مسلمان قیدیوں کے گھر والوں اور بچوں کا حرمت اور احترام کے ساتھ خیال رکھیں.جس طرح کہ ہم اپنے بچوں کا خیال رکھتے ہیں.آج اس بارے میں مسلمانوں میں بہت کوتاہی پائی جاتی ہے
﴿۴﴾ ہم جیل،ہتھکڑی اور کوڑوں سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگا کریں جیسا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی دعا ہے:
اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوذُ بِکَ مِنَ السِّجْنِ وَالْقَیْدِ وَالسَّوْطِ
یا اللہ! میں آپ کی پناہ چاہتا ہوں قید خانے ،ہتھکڑی اور کوڑے سے
﴿۵﴾ ہم جیل اور قید کا خوف اپنے دل میں نہ بٹھائیں.حضرت سیدنا یوسف علیہ السلام نے جیل کاٹی،حضرات صحابہ کرام نے قیدیں کاٹیں.امت کے ائمہ کرام جیلوں میں بند رہے.ان سب کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا معاملہ فضل اور رحمت والا تھا.معلوم ہوا کہ بعض اوقات یہ بھی اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحمت کا ایک رنگ ہوتا ہے کہ انسان جیل چلا جائے.اس لئے جیل اور قید کے خوف سے دین کا کام چھوڑنا،جہاد فی سبیل اللہ سے محروم ہونا یا حق کے بارے میں مداہنت اختیار کرنا درست نہیں.
﴿۶﴾ کبھی جیل جانا پڑے تو’’حسن یوسف‘‘ سے روشنی لیں.حضرت سیدنا یوسف علیہ السلام نے خود’’جیل‘‘مانگی.کیونکہ گناہ اور بد دینی میں مبتلا ہونے سے جیل جانا بہتر ہے.اور جیل میں دین کی دعوت کو انہوں نے اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا.
بس جیل کو خوبصورت بنانے اور اپنی قید کو ’’اعتبارافزا‘‘بنانے کا ایک نکاتی نصاب ’’دین کی دعوت‘‘ ہے.جو یہ کر لے جیل اُس کے لئے نعمت.اور جو یہ نہ کرے جیل اُس کے لئے بڑی مصیبت.سورۃ یوسف میں غور فرمائیں یہ نکتہ اچھی طرح سمجھ میں آ جائے گا.ان شاء اللہ
﴿۷﴾ آپ میں سے اللہ تعالیٰ کسی کو کبھی حکومت یا اقتدار دے تو اپنے زیر انتظام علاقے میں جیلوں کے موجودہ غیر انسانی نظام کو ختم کرنے اور اسلام کا پاکیزہ نظام مقرر کرنے کے اقدامات کرے.
اللّٰہ اکبر ، اللّٰہ اکبر،لا الہ الااللّٰہ.
لا الہ الااللّٰہ ، لا الہ الااللّٰہ ،لا الہ الااللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
اللھم صل علیٰ سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا…..
لا الہ الااللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
٭.٭.٭