رنگ و نور ۔۔۔سعدی کے قلم سے

شہید کی کرامت

رنگ و نور ۔۔۔سعدی کے قلم سے (شمارہ 439)

اﷲ تعالیٰ ہمارے تمام گناہوں کومعاف فرمائے:
رَبَّنَا فَاغْفِرْلَنَا ذُنُوْبَنَا وَکَفِّرْعَنَّا سَیِّاٰتِنَا وَتَوَفَّنَا مَعَ الْاَبْرَارِ

یہ قرآن مجید میں سکھائی گئی ایک بڑی قیمتی اور جامع دعاء ہے … اس میں تین چیزوں کا سؤال ہے

(۱) گناہوں کی مغفرت ہو جائ

ے…

(۲) برائیوں کا کفارہ… یعنی برائیوں کے اثرات مٹ جائیں اور دنیا و آخرت میں اُن پر پردہ پڑ جائے…

(۳) حُسن خاتمہ نصیب ہو جائے…

دل سے استغفار کے تین بڑے فائدے

شیطان ملعون کا ایک بڑا حربہ یہ ہے کہ انسان کے دل کو گناہ پر نادم نہیں ہونے دیتا تب:

(۱) بعض گناہوں کو انسان اپنی جہالت یا ضد کی وجہ سے نیکی سمجھنے لگتا ہے…

(۲) بعض گناہوں کو انسان اپنی مجبوری سمجھنے لگتا ہے کہ… کیا کریں مجبور ہوکر کیا

(۳) بعض گناہوں کو انسان ہلکا سمجھنے لگتا ہے کہ یہ تو صغیرہ ہیں… یا لوگ تو ہم سے بھی بڑے بڑے گناہ کرتے ہیں…

ان تین شیطانی خیالات کی وجہ سے انسان کا دل… گناہ پر نادم نہیں ہوتا اور اس دن سے نہیں ڈرتا جب ہم ایک بہت لمبے ’’پُل‘‘ پر سے گذر رہے ہوں گے وہ پُل بال سے باریک اور تلوار سے تیز ہے…اور اُس کے نیچے جہنم ہی جہنم اور آگ ہی آگ ہے… اور انسان کے گناہ اُس پُل پر بڑے سانپوں کی طرح لپک لپک کر لوگوں کو نیچے گرا رہے ہوں گے…

یا اﷲ مدد، یا اﷲ مدد، یا اﷲ امان

ہر مسلمان کو چاہئے کہ… اپنے دل میں اﷲ تعالیٰ کے لئے خشوع اور عاجزی بھرے تاکہ ہمارا دل ادھر اُدھر کی باتیں سوچنے کی بجائے… اﷲ تعالیٰ کے ذکر میں لگے اور گناہوں کو یاد کر کے ڈرے اور روئے… دل سے استغفار کرنا، دل سے نادم ہونا اور دل کی گہرائی سے ’’ یا اﷲ معاف فرما… یا اﷲ معاف فرما‘‘ کہنا ایک مؤمن کے لئے بڑی سعادت ہے…

تفسیر ابن کثیر میں لکھا ہے…جو بندہ اپنے دل کو استغفار پر لگا لیتا ہے اﷲ تعالیٰ اُسے یہ تین انعامات عطاء فرماتے ہیں…

(۱) اُس کا رزق آسانی سے اس تک پہنچتا ہے…

(۲) اﷲ تعالیٰ اُس کے تمام کاموں میں آسانی فرما دیتے ہیں…

(۳) اللہ تعالیٰ اس کی شان اور قوت کو سلامت رکھتے ہیں… شان کا مطلب ہے انسان کی دینی حالت اور اچھی کیفیات…
خالق کا شکر

الحمدﷲ جمعۃ المبارک کے اعمال کی مہم دس ہفتہ تک مسلسل چلی… جن دنوں جماعت کے ساتھی، بھائی محمد افضل گورو شہیدؒ کے اجتماع میں مصروف تھے انہیں دنوں محض اللہ تعالیٰ کی توفیق سے جمعۃ المبارک اور جمعۃ المبارک میں کثرت درود شریف کی آواز لگی… ابتداء میں اندازہ نہیں تھا کہ اس مہم میں اﷲ تعالیٰ اتنی برکت عطاء فرمائیں گے… مگر جیسے جیسے وقت گزرتا گیا یہ بات محسوس ہوئی کہ اس مہم پر الحمدﷲ خوب نصرت نازل ہورہی ہے… جمعۃ المبارک کے فضائل قرآن مجید میں بھی موجود ہیں اور احادیث نبویہ میں بھی… کل تھوڑی سے کوشش کی کہ اُن احادیث کو شمار کیا جائے جن میں جمعۃ المبارک کے فضائل اور احکامات وارد ہوئے ہیں… ماشاء اللہ احادیث صحیحہ کی اچھی خاصی مقدار جمع ہو گئی… ہمارے زندہ دل اسلاف تڑپ تڑپ کر مسلمانوں کو جمعۃ المبارک کی طرف بلاتے رہے… مگر شیطانی قوتوں نے ’’جمعۃ المبارک‘‘ کے گرد اپنے ایسے ایسے مورچے کھود لئے ہیں کہ اکثر مسلمان ’’جمعۃ المبارک‘‘ کی حقیقت، امان اور لذت سے محروم رہتے ہیں… حالانکہ یہ مبارک دن مسلمانوں کی عید ہے اور عید الفطر اورعید الاضحیٰ کے دنوں سے بھی افضل ہے… اور قیامت کے دن جمعۃ المبارک کو زندہ کرنے والے افراد کی شان ہی الگ ہو گی… اُن کے چہرے برف سے بھی زیادہ حسین سفیدی سے چمک رہے ہوں گے… اورجمعہ کا دن خود اُن کو اپنے ساتھ بڑے امن، امان اور اکرام کے ساتھ جنت میں لے جائے گا… ہمارے حضرت آقامدنیﷺ نے جمعۃ المبارک کا دن پانے کا سب سے اہم وظیفہ یہ ارشاد فرمایا ہے کہ… ہم جمعہ کی رات اور جمعہ کے دن درود شریف کی کثرت کریں… ہم جمعہ کے غسل کا اہتمام کریں… ہم جمعہ نماز کے لئے جلد مسجد پہنچیں… ہم جمعہ کے خطبہ کو توجہ سے سنیں اور ہم جمعہ کے دن سورۃ الکہف کی تلاوت اور دعاء کا اہتمام کریں…

الحمدﷲ دس ہفتے تک مکتوب کا سلسلہ جاری رہا اور ماشاء اﷲ بہت سے افراد تک دین کا یہ اہم پیغام پہنچا… اور یوں کئی مسلمانوں کے لئے ہر طرح کے فتنوں سے بچنے کی ’’کہف الایمان‘‘ واضح ہو گئی… ہم اﷲ تعالیٰ کے اس احسان اور نعمت پر اُس کا شکر ادا کرتے ہیں…
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ الَّذِیْ بِنِعْمَتِہٖ تَتِمُّ الصَّالِحَاتْ
مخلوق کا شکریہ

الحمدﷲ! مسلمان مردوں اور خواتین کی ایک بڑی تعداد نے اس مہم، اس یاد دہانی اور اس دعوت کو قبول فرمایا… کار گذاری لینے کا کوئی مستقل نظام نہیں تھا اور نہ ہی اس کی کوئی ضرورت تھی مگر… الحمدﷲ مختلف ذرائع سے بہت قابل شکر کار گذاری آتی رہی… جمعۃ المبارک کی نماز کے لئے جلدی مسجد پہنچنے کے معاملہ میں… مسلمان کافی غفلت اور سستی کرتے ہیں… الحمدللہ اب کئی افراد نے اپنی اس عادت کو تبدیل کیا ہے… اللہ تعالیٰ ہمیں اور انہیں تاحیات اس پر استقامت عطاء فرمائے… جبکہ درود شریف کی کثرت کی طرف ماشاء اللہ مسلمانوں کی بہت توجہ ہوئی…

یہ اللہ تعالیٰ کا ایسا انعام ہے کہ اس پر جتنا شکر ادا کیا جائے وہ کم ہے… مہم کے اثرات ملک سے باہر دوسرے ممالک تک بھی پہنچے… اور گھروں میں جب درود شریف کی رحمت اتری تو چھوٹے چھوٹے بچے بھی

اَللّٰھُمَّ صِلِّ عَلیٰ سَیَّدِنَا مُحَمَّدٍ

کا ورد اور اس ورد میں ایک دوسرے کا مقابلہ کرنے لگے… بعض گھرانوں میں یہ مقابلہ لاکھوں کے عدد تک پہنچا، جبکہ ہزاروں کے عددوالوں کی تعداد ماشاء اللہ بہت زیادہ رہی… مسلمانوں کی طرف سے اپنے سے زیادہ تعداد کی کارگذاریاں آتیں تو اپنا سر شرم سے جھک جاتا کہ دیکھو! ماشاء اللہ یہ افراد اس معاملہ میں کتنا آگے نکل گئے… تب ہاتھ خود بخود اُن سب افراد کے لئے دعاء کو اٹھ جاتے… چلیں ہم ان اہل ذوق کے لئے دعاء کریں گے تو ان شاء اللہ اُن کے عمل میں شریک ہو جائیں گے… مکتوب خادم کو قبول فرمانے والے اور اس پر عمل کرنے والے بھائیوں اور بہنوں کے لئے دعاء کی سعادت تو الحمدللہ ملتی رہی… آج اُن سب کا باقاعدہ شکریہ بھی ادا کرتے ہیں…
جزاکم اللّٰہ خیرا واحسن الجزاء فی الدارین
شہید کی کرامت

کشمیری مسلمان شروع سے ’’عاشق مزاج‘‘ ہیں… صحراؤں اور پہاڑوں کے فطری ماحول میں رہنے والے افراد اکثر زندہ دل ہوتے ہیں… عاشق مزاج اور بہادر… اور عاشق مزاج افراد پر دین اسلام کا اثر بہت جلدی ہوتا ہے… کیونکہ دین اسلام عشق ہی عشق ہے… اور یہ اللہ تعالیٰ کا محبوب ترین دین ہے… کشمیر میں صوفیاء کرام کی آمد رہی… اورصوفیاء کرام قلوب پر محنت کرتے ہیں… کشمیری قوم کا جہاد میں آنا بھی اُن کے ’’ عاشق مزاج‘‘ ہونے کی بڑی دلیل ہے… یاد رکھیں! جہاد عشق الہٰی کا سب سے اونچا مقام ہے… دہ دیکھیں ہمارے پیر جی حضرت عبداللہ بن مبارکؒ کیا فرماتے ہیں!!
من کان یخضب خدہ بدموعہ
فنحورنا بدمائنا تتخضب

ارے بہتے آنسوؤں کے ذریعے اپنے عشق کا اظہار کرنے والے سچے عاشقو!

تمہارا عشق بھی بہت اونچا… عشق کے آنسو ہر کسی کو نصیب نہیں ہوتے اس کے لئے بڑا سچا دل درکار ہوتا ہے… اکثر لوگ تو اللہ تعالیٰ کے سامنے بھی اپنے شکوؤں، شکایتوں اور دکھوں کے آنسو بہاتے ہیں… عشق کے آنسو کسی کسی کو نصیب ہوتے ہیں… مگر اے عاشقو! ذرا ہمارے عشق کی گرمی اور گہرائی کا بھی اندازہ لگاؤ کہ… ہم تو عشق میں اپنی گردنوں کا لہو پیش کرتے ہیں… یعنی جان سے بھی گذر جاتے ہیں…

یہ جملہ انہوں نے شہداء اور مجاہدین کی طرف سے تحریر فرمایا تھا… اور زمانے کے بڑے ولی حضرت فضیل بن عیاضؒ نے ان کی تصدیق فرمائی…

میں سوچتاہوں، جماعت میں الحمدللہ کئی مہمات چلیں… مگر درود شریف کی عاشقانہ مہم اُن دنوں اُتری جب ہم سب… بھائی محمد افضل گورو شہیدؒ کی کتاب اوراُن کے اجتماع کی تیاری میں تھے… محمد افضل گورو… ایک سچا مسلمان، ایک سچا مجاہد، ایک سچا عاشق، ایک سچا شہید… اور ہمارے زمانے کا افتخار… کیا بعید ہے کہ بھائی محمد افضل گورو شہیدؒ کو’’درود شریف‘‘ کا خاص ذوق ہو… اور اُن کی راتیں کثرت درود شریف سے مٹھاس پاتی رہی ہوں… ویسے بھی درود شریف کی کثرت کرنے والوں کے لئے شہادت زیادہ آسان اور میٹھی ہو جاتی ہے… بھائی محمد افضل گورو شہید کے اجتماع کی بہت سی ’’کرامات‘‘ تو سب نے کھلی آنکھوں سے دیکھ لی ہیں… اس اجتماع کی خوشبو بھی دور دور تک پھیلی اور اس کے رعب کے جھٹکے بھی دشمنان اسلام کے لئے زلزلہ سے کم نہیں تھے… خبروںمیں آیا ہے کہ اجتماع کے بعد سے اب تک انڈیا دو بار مکمل ہائی الرٹ پر جا چکا ہے… آپ جانتے ہوں گے کہ ہائی الرٹ پر جانے کا معمولی خرچہ بھی اربوں میں ہوتا ہے… اس لئے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ جمعۃ المبارک اور درود شریف کی مہم بھی… اللہ تعالیٰ کے فضل سے بھائی محمد افضل شہید کی ایک کرامت بن کر ہمیں نصیب ہوئی ہے…

والحمدﷲ رب العالمین

لا الہ الا اﷲ، لا الہ الا اﷲ، لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ…

اللھم صل علیٰ سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا…

لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ…

٭…٭…٭
مقامِ عبرت

رنگ و نور ۔۔۔سعدی کے قلم سے (شمارہ 438)

اﷲ تعالیٰ ہم سب کو تمام روحانی اور جسمانی امراض سے شفاء عطاء فرمائے…
اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَسْئَلُکَ الصِّحَّۃَ وَ الْعِفَّۃَ وَالْاَمَانَۃَ وَحُسْنَ الْخُلُق

بُرے نام سے اللہ تعالیٰ کی پناہ

دنیا اور مال کے لالچی کو حضور اقدسﷺ نے معلوم ہے کیا نام دیا ہے؟
’’عبدالدرھم، عبدالدینار‘‘

درہم اور دینار کا بندہ اور غلام… اور آپﷺ نے اس پر لعنت فرمائی ہے:
لُعِنَ عبدالدینار، لعن عبدالدرھم(ترمذی)

لعنت کے معنیٰ ہیں… اللہ تعالیٰ کی رحمت سے محروم ہونا… دراصل لالچ اورایمان ایک دل میں جمع نہیں ہو سکتے…لالچ ہو گی تو ایمان دل سے روٹھ جائے گا… اور جب دل میں ایمان نہیں ہوگا تو ایسے دل پر اللہ تعالیٰ کی رحمت نازل نہیں ہوگی…اسی لئے کہتے ہیں کہ’’حبّ دنیا‘‘ہی وہ چیز ہے جس نے جہنم کو آباد کرنا ہے… حضرت آقا مدنیﷺ نے واضح الفاظ میں فرمادیاکہ!!
الا ان الدنیا ملعونۃ(ترمذی)

خوب اچھی طرح سن لو کہ دنیا ملعون ہے… ہاں دنیا میں جو کچھ اللہ تعالیٰ کے لئے ہو وہ رحمت والا ہے… مگر انسان بہت تیزی سے حبّ دنیا کی طرف گرتا ہے…
بَلْ تُؤْثِرُوْنَ الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا

ہاں تم دنیا کی زندگی کو ترجیح دیتے ہو… حالانکہ آخرت بہترین اور باقی رہنے والی ہے… ہم سب کو بہت دعاء اور بہت فکر کرنی چاہئے کہ یہ بُرا لقب ہمارا نہ ہو
عبدالدینار، عبدالدرھم

بلکہ ہمارا نام، ہمارا لقب اور ہمارا مقام یہ ہونا چاہئے

عبداللہ، عبدالرحمن… جی ہاں! ہم دنیا اور مال کے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے بندے ہیں…
اَللّٰھُمَّ اَنْتَ خَلَقْتَنِیْ وَاَنَا عَبْدُک

ہم سب کہہ دیں…
یَا رَبِّ اَنَا عَبْدُک…

یا اللہ میں آپ کا بندہ ہوں، میں آپ کا غلام ہوں… حبّ دنیا سے توبہ کرتا ہوں، حبّ دنیا سے آپ کی پناہ مانگتاہوں…

بے شک دنیاجارہی ہے…بے شک آخرت آرہی ہے… حدیث شریف میں آیا ہے کہ کچھ لوگ دنیا کے بیٹے ہیں… اور کچھ لوگ آخرت کے بیٹے…

کچھ دنیا سے پیار کرتے ہیں… اور کچھ آخرت سے محبت رکھتے ہیں… آج سے سو سال پہلے والے سب لوگ دنیا سے جا چکے… کہاں گئے اُن کے اموال؟ کہاں گئے اُن کے عہدے اور کہاں گئے اُن کے عیش و آرام؟… دنیا کے بیٹے! اپنی ماں سے محروم ہوگئے… جبکہ آخرت کے بیٹے اپنی پیاری ماں کی گود میں جا بسے…
نعوذ باللّٰہ، اللّٰہ تعالیٰ سے اختلاف

’’حبّ دنیا‘‘ کے نقصانات بے شمار ہیں… ایک بڑا اور خطرناک نقصان یہ کہ دنیا سے محبت رکھنے والے اور اپنے دل میں دنیا کی عظمت رکھنے والے لوگ نعوذ باللہ، اللہ تعالیٰ سے اختلاف کرتے ہیں… اللہ تعالیٰ نے دنیا کو حقیر اور ذلیل قرار دیا… اللہ تعالیٰ نے دنیا کو مچھر کے پر سے بھی زیادہ بے وقعت قرار دیا… قرآن مجید میں جابجا اُن لوگوں کی مذمت فرمائی جو دنیا کو اپنا مقصود اور مطلوب بناتے ہیں… اور اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو بار بار سمجھایا کہ دنیا کی زندگی کے دھوکے میں نہ پڑو، دنیا کی چمک دمک کی طرف نہ دیکھو… کفار کی دنیوی ترقی کی طرف نہ دیکھو… مگرہم ان تمام فرامین کو پس پشت ڈال کر دنیا سے محبت کریں… دنیا کی مالداری اور چمک دمک کو کامیابی سمجھیں… اور بار بار کفار کے حوالے دیں کہ وہ ہم سے کتنا آگے نکل گئے… وہ چاند پر پہنچ گئے، وہ کامیاب ہوگئے… کیا یہ اپنے رب تعالیٰ سے اختلاف کرنا نہیں ہے؟ یادرکھیں! دنیا کی محبت مسلمانوں کے لئے دنیا اور آخرت کی’’ذلت‘‘ ہے… اسی کو حضرت آقا مدنیﷺ نے ’’وھن‘‘ کے نام سے بیان فرمایا ہے اور مسلمانوں کو تنبیہ فرمائی ہے کہ… جب تم’’وھن‘‘ میں مبتلا ہو جاؤ گے… یعنی دنیا کی محبت میں جا پڑو گے اور دنیا کو اپنا مقصود بنالوگے تو ایسے ذلیل ہو جاؤگے کہ دنیا کی دوسری قومیں تم سے کھیلیں گی اور تمہیں نوچ نوچ کر کھائیں گی… مسلمانوں کی عزت اور غلبہ’’جہاد‘‘ میں ہے اور جہاد کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ’’ حبّ دنیا‘‘ ہے… دنیا کی محبت ایک مسلمان کو جہاد میں نہیں آنے دیتی… کیونکہ جہاد میں ہجرت ہے، مال کی قربانی ہے، جان کی قربانی ہے… اور جب کوئی مسلمان’’حبّ دنیا‘‘ کی پہلی رکاوٹ توڑ کر جہاد میں آجاتا ہے تو پھر’’حبّ دنیا‘‘ کا دوسرا گڑھا منہ پھاڑ دیتا ہے… مال کا شوق، عہدے کا شوق، ناموری اور شہرت کا شوق … تب بہت سے لوگ اس میں جا گرتے ہیں… صحیح حدیث میں وہ افراد جن کے ذریعہ سب سے پہلے جہنم کی آگ کو بھڑکایا جائے گا ان میں’’شہید‘‘ بھی ہے… جہاد میں جان لٹانے والا شہید… مگر اس کے دل پر دنیا میں بہادرلقب، ناموری اور شہرت کی نیت چھائی ہو گی… وہ بھی ناکام ہو جائے گا… پس جہاد جیسے عظیم فریضے پر آنے کے لئے بھی’’حبّ دنیا‘‘ سے لڑنا پڑتا ہے… اور پھر جہاد میں آنے کے بعد اپنے جہاد کی قبولیت کے لئے بھی’’حبّ دنیا‘‘ سے لڑنا پڑتا ہے… اسی لئے تو حضرت حکیم الامتؒ کی تحقیق کے مطابق’’قتال فی سبیل اللہ‘‘ ہی ’’جہاد اکبر‘‘ ہے… کیونکہ اس میں مجاہدہ ہی مجاہدہ ہے… ایک مجاہدے کے بعد دوسرا مجاہدہ… اور ساتھ جان و مال کی قربانی بھی…
مقام عبرت

الحمدللہ آج کے زمانے میں بھی سچے مسلمان موجود ہیں اور ان شاء اللہ تاقیامت موجود رہیں گے…

سچے مسلمان کی ایک بڑی نشانی!!

’’حضرت آقا مدنیﷺ سے محبت رکھنا ہے‘‘

یہ ایمان کی لازمی علامت ہے… الحمدللہ آج بھی ایسے مسلمان موجود ہیں جو حضرت آقا مدنیﷺ کی عزت، حرمت اور ناموس پر اپنی جان کے ٹکڑے کروانا اپنی سعادت سمجھتے ہیں… ایسے سچے مؤمن بھی موجود ہیں جو حضرت محمدﷺ کی محبت میں اپنا سارا مال خرچ کر سکتے ہیں… اور ایسے بھی موجود ہیں کہ خواب میں حضرت آقا مدنیﷺ کی ایک مبارک جھلک دیکھنے کے لئے طرح طرح کے جتن، وظیفے اور عمل کرتے ہیں اور بڑے بڑے صدقات دیتے ہیں… بالاکوٹ کے ایک مقبول اللہ والے بزرگ حضرت شیخ مفتی ولی حسن صاحب نوراللہ مرقدہ سے ملنے تشریف لائے… اور یہ کہہ کر بلک بلک کررونے لگے کہ حضرت! مجھے حضور اقدسﷺ کی خواب میں زیارت نہیں ہوتی… حضرت نے انہیں یہ درود شریف بتایا
صَلّٰی اللّٰہُ عَلٰی النَّبِیِّ الْاُمِّی…

الحمدللہ جمعۃ المبارک کے درود سلام والے’’مقابلہ حسن‘‘ میں شریک کئی افراد نے اطلاع دی ہے کہ انہیں اس مقابلہ کے دوران خواب میں یہ نعمت نصیب ہوئی ہے… الحمدللہ آج بھی ایسے مسلمان موجود ہیں جنہیں اگر کہا جائے کہ زمانہ سمیٹ کر آپ کو حضور اقدسﷺ کے دور میں لے جایا جائے گا اور آپ صرف ایک نماز رسول اقدسﷺ کی اقتداء میں ادا کر سکیں گے… مگر اس کے بدلے آپ کو اپنا تمام مال دینا ہوگا اور اس نماز کے فوراً بعد موت کو قبول کرنا ہو گا تو وہ فوراً راضی ہو جائیں گے… مگر اب ایک بھیانک منظر دیکھیں… یہ منظر اگر ہمیں یاد رہے تو ہمیں’’حبّ دنیا‘‘ سے انتہائی نفرت ہو جائے… کچھ اشخاص تھے جن کا شمار رسول کریمﷺ کے میزبان قبیلے’’انصار‘‘ میں ہوتا تھا… انصار کے فضائل آپ نے سن رکھے ہوں گے… یہ لوگ دن رات جنت سے بھی زیادہ لذیذ سعادتوں کے قریب تھے… وہ جب چاہتے حضرت آقامدنیﷺ کی صحبت میں حاضر ہوتے… یہ روزآنہ پانچ نمازیں رسول کریمﷺ کی اقتداء میں ادا کرتے تھے… ان کے پاس موقع تھا کہ جب چاہتے رسول اقدسﷺ سے اپنے لئے استغفار اور دعاء کرواتے… ان کی آنکھیں ماہتاب نبوت کو براہ راست دیکھتی تھیں… اور اُن کے کان حضرت آقا مدنیﷺ کی پُراثر شیریں آواز مبارک کو سنتے تھے… یہ لوگ ہر طرح سے ایمانی، دینی اور روحانی نعمتوں کے قریب تھے… وہ چاہتے تو احسان مانتے اور قدر کرتے… مگر’’حبّ دنیا‘‘ کا کینسر اُن کے دلوں کو مسخ کر چکا تھا… ہم جب سورۃ التوبہ کی اُن آیات پر پہنچتے ہیں جہاں ان ظالموں کی ایک بڑی گستاخی کا تذکرہ ہے تو دل خوف سے کانپنے لگتا ہے…

یا اللہ رحم! کیا کوئی انسان مال اور دنیا کی لالچ میں اتنا بھی گر سکتا ہے؟ ہوا یہ کہ حضرت آقا مدنیﷺ کی خدمت اقدس میں کچھ مال آیا… آپﷺ نے وہ تقسیم فرما دیا یہ ظالم افراد بھی ان میں شامل تھے جنہیں مال ملا… مگر وہ جتنا چاہتے تھے اتنا نہ ملا پس اُن کے دل کا حرص اور اندر کا نفاق کالے سانپ کی طرح سر اٹھا کر پھنکارنے لگا…

یہ گندے منہ بنا کر مجلس سے اٹھے اور فوراً اُن افراد کو جمع کرکے جو ان بد نصیبوں کی بات سنتے تھے… غیبت کاناپاک بازارکھول کر بیٹھ گئے… اور غیبت بھی کس کی؟ کہتے ہوئے زبان لرزتی ہے… غیبت اور وہ بھی حضرت آقا مدنیﷺ کی اور الزام یہ کہ مال کی تقسیم میں انصاف نہیں ہوتا… اور نعوذ باللہ حضور اقدسﷺ اللہ تعالیٰ کی رضا کے مطابق مال تقسیم نہیں فرماتے

استغفراللہ، استغفراللہ، استغفراللہ

اندازہ لگائیں، دنیا کی لالچ اور مال کی محبت انسان کو کتنا ذلیل اور کتنا کمینہ بنادیتی ہے… ایک طرف وہ مہاجرین و انصار صحابہ کرام تھے… جو حضرت آقا مدنی ﷺ کے حکم پر جان، مال، گھر، وطن سب کچھ قربان کر رہے تھے…اور ہر وقت اس تاک میں رہتے تھے کہ ہمیں مزید جان و مال لگانے کا موقع ملے… اور دوسری طرف یہ بدنصیب تھے جن کو حضرت آقامدنیﷺ نے خود مال عطاء فرمایا، مگر اُن کے دل کی حرص کم نہ ہوئی… بے شک مال کی محبت اوردنیا کی محبت انسان کو اندھا، بہرہ اور محروم بنا دیتی ہے…
اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَعُوْذُبِکَ مِنْ حُبِّ الدُّنْیَا وَنَعُوْذُبِکَ مِنَ الْوَھْنِ وَالْحِرْمَان
تجربہ کر لیں

انسان کو پتہ نہیں چلتا کہ وہ کب’’حبّ دنیا‘‘ کی بیماری کا شکار ہوا… اور حبّ دنیا کی بیماری بہت خطرناک اور بڑی وسیع ہے… نشے میں مدہوش شخص کو یہ یاد نہیں رہتا کہ وہ نشے میں ہے…

حضرت یحییٰ بن معاذؒ فرماتے ہیں:

دنیا شیطان کی شراب ہے، پس جو اس شراب کے نشے میں آگیا اسے قبر میں جا کر ہی ہوش آئے گا…

ہاں دوصورتیں ہیں… ایک یہ کہ انسان قبرستان جائے اور مردوں کے پاس بیٹھ کر غور وفکر کرے…یا اُن لوگوں کی صحبت میں جائے جو حبّ دنیا سے دور ہیں…

یہاں چند باتیں ضروری ہیں:

۱۔ ہم خود کو حبّ دنیا سے محفوظ نہ سمجھیں

۲۔ ہم دوسروں کو نہ دیکھیں کہ کون حبّ دنیا کا مریض ہے؟ ایک تو اس عمل کا کوئی فائدہ نہیں بلکہ نقصان ہی نقصان ہے… اوردوسرا یہ کہ حبّ دنیا ایک چھپی ہوئی بیماری ہے کوئی بھی کسی کے بارے میں درست فیصلہ نہیں دے سکتا… ایک شخص دس روٹیاں کھاتا ہے مگر وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں’’زاہد‘‘ لکھا ہوا ہوتا ہے… اور دوسرا دو روٹیاں کھاتا ہے مگر وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں’’حریص‘‘ شمار ہوتا ہے… وجہ یہ ہے کہ اس آدمی کی بھوک اور صحت پندرہ روٹیاں کھانے کی ہے وہ دس کھاتا ہے اورپانچ صدقہ کرتا ہے… اور دل میں حرص نہیں رکھتا… جبکہ دوسرے کی بھوک اور صحت ایک روٹی کی ہے مگر وہ دوسری حرص کی وجہ سے پیٹ میں ٹھونس لیتا ہے… اکثر مالدار حبّ دنیا کے مریض ہوتے ہیں لیکن ایسے مالدار بھی ہیں جن کے پاس بہت مال ہے مگر وہ حبّ دنیا سے محفوظ ہیں… اور ایسے غریب بھی ہیں جن کے پاس دنیا نہیں مگر وہ حبّ دنیا میں دنیا داروں سے بھی بڑھ کر ہوتے ہیں… اس لئے دوسروں کے بارے میں فیصلہ کرنے کی ضرورت نہیں…

۳۔ کسی بڑے سے بڑے آدمی کے حرام کھانے سے وہ حرام ہمارے لئے حلال نہیں ہوجاتا… عالم، بزرگ، مجاہد ، خطیب … سب انسان ہیں اور سب پر حبّ دنیا کا حملہ ہو سکتا ہے… اب اُن کی حبّ دنیا کو دلیل بنا کر اپنے لئے اس مرض کو جائزسمجھنا ایک بڑا خسارہ ہے… شیطان ایک انسان کو پہلے اس بات پر لاتا ہے کہ فلاں اتنا کھا گیا، فلاں اتنا لوٹ گیا… وہ بار بار مال میں خیانت کے تذکرے زباں پر لاکر پھریہ ترغیب دیتا ہے کہ… جب دوسرے لوگ حرام کھا رہے ہیں تو تم بھی تھوڑا سا کھالو، جب اتنے بڑے لوگ باز نہیں آتے تو تمہیں تقویٰ کی کیا ضرورت ہے؟

ایسے حالات میں خود کو سنبھالنا چاہئے کہ ہر شخص سے خود اس کی اپنی ذات کا سؤال ہوگا… مجھے اپنی حالت درست کرنی چاہئے کیونکہ میں نے اکیلے اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش ہونا ہے…

۴۔ حبّ دنیا کا خطرناک پہلو یہ ہے کہ…دل میں مال کی عظمت ایسی آجائے کہ انسان کو صرف مالدار لوگ ہی اچھے لگتے ہوں اور غریبوں مسکینوں سے اسے گھن آتی ہو… یہ وہ مقام ہے جہاں سے آدمی کفر اورنفاق کی طرف گر سکتا ہے… کیونکہ دنیا میں اللہ تعالیٰ کفار کو زیادہ دولت اورعیش دیتے ہیں… اورقرآن مجید کی سورہ الزخرف میں تو یہاں تک سمجھایا ہے کہ اگر تمام لوگوں کے گمراہ ہونے کا خطرہ نہ ہوتا تو اللہ تعالیٰ کافروں کو اور زیادہ مال دیتا یہاں تک کہ ان کے گھروں کی چھتیں اور سیڑھیاں تک سونے چاندی کی ہو جاتیں…

۵۔ ہم اس بات کا درد لیکر کہ واقعی ہمارے اندر یہ موذی مرض… ’’حبّ دنیا‘‘ موجود ہے دو رکعت نماز ادا کریں… اور اللہ تعالیٰ سے فریاد کریں کہ وہ ہمیں اس مرض سے نجات عطاء فرمائے… خوب رو رو کر دعاء کرنے کے بعد ہم یہ یقین باندھ لیں کہ آج مغرب تک میں نے ضرور مرجانا ہے … پس ساری زندگی خراب کی اب چندگھنٹے پورے اخلاص سے آخرت کی دائمی زندگی کی تیاری کرلوں… پھر مغرب تک کلمہ طیبہ اور استغفار میں لگے رہیں اور دائیں بائیں کچھ توجہ نہ کریں… مغرب کے وقت موت آگئی تو اچھی ہوگی اور موت نہ آئی تو ہم اپنے دل کو دیکھیں گے کہ کئی بڑے بڑے بوجھ اتر گئے… پہاڑوں جیسے کئی بھاری مسائل حل ہو گئے اور بہت سی پریشانیاں دور ہو گئیں… دراصل دنیا کی محبت ہی وہ بوجھ ہے جو ہمیں مایوس اورویران کر دیتا ہے…
مقامات

کچھ عرصہ پہلے اچانک یہ خیال آیا کہ… رنگ و نور کے مضامین کا عنوان’’میم‘‘ سے شروع کیا جائے… ہمارے محبوب آقا حضرت محمدﷺ کا اسم گرامی’’ میم‘‘ سے شروع ہوتا ہے… ارادہ تھا کہ چالیس مضامین’’میم‘‘ والے عنوان سے آجائیں… مگر الحمدللہ برکت ہو گئی رنگ و نور کی ساتویں جلد میں بھی کئی مضامین’’میم‘‘ والے آگئے… اور اس کے بعد یہ ساٹھواں مضمون بھی… اسی اہتمام کے ساتھ آرہا ہے…یہ بس ایک ذوق تھا اور ایک جنون… اور کچھ بھی نہیں… عشق کا دعویٰ نہیں مگر خواہش بہت ہے…
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ سَیِّدِنَا مُحَمَّدِ وَّاٰلِہٖ وَصَحْبِہٖ وَبَارِکْ وَسَلِّم

اب ان ساٹھ مضامین کی کتاب تیار ہو رہی ہے… اوریہ اس کا آخری مضمون ہے اورکتاب کا نام ہے’’مقامات‘‘… اللہ تعالیٰ قبول فرمائے اور نافع بنائے…آمین یا ارحم الراحمین
لا الہ الا اﷲ، لا الہ الا اﷲ، لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ…
اللھم صل علیٰ سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا…
لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ…

٭…٭…٭
مقصود

رنگ و نور ۔۔۔سعدی کے قلم سے (شمارہ 437)

اﷲ تعالیٰ ہم سب کو صراط مستقیم پر چلائے
اَللّٰھُمَّ اھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم

اﷲ تعالیٰ ہمیں ایمان پر ثابت قدمی نصیب فرمائے
اَللّٰھُمَّ یَا مُقَلِّبَ الْقُلُوْبِ ثَبِّتْ قُلُوْبَنَا عَلیٰ دِیْنِک

اﷲ تعالیٰ ہم سب کو گمراہی سے بچائے
رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ ھَدَیْتَنَا وَ ھَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْکَ رَحْمَۃً

اﷲ تعالیٰ ہم سب کو تفرقے، نفاق اور برے اخلاق سے بچائے
اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَعُوْذُبِکَ مِنَ الشِّقَاقِ وَالنِّفَاقِ وَسُوْئِ الْاَخْلَاق

ایک شخص پہلے بہت نیک تھا مگر پھر اس کی حالت بدل گئی… وہ گناہ اور گمراہی میں جا گرا کسی نے ایک ’’صاحب علم‘‘ سے پوچھا یہ کیسے ہو گیا؟ انہوں نے فرمایا: یہ شخص ہدایت پر ثابت قدمی کی دعاء نہیں مانگتا ہوگا… اور یہ شخص ہدایت کے بعد گمراہی آنے سے حفاظت کی دعاء نہیں مانگتا ہو گا… اﷲ تعالیٰ بے نیاز ہے… وہ مانگنے والوں سے محبت فرماتا ہے اور نہ مانگنے والوں سے ناراض ہوتا ہے… ہدایت پر ہونا کسی کا ذاتی کمال نہیں، جب انسان اپنی کسی خوبی کو اپنا ذاتی کمال سمجھنے لگتا ہے تو وہ خوبی اس کے لئے وبال بن جاتی ہے…
اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَسْئَلُکَ مِنْ فَضْلِکَ وَرَحْمَتِکْ
اندھے دل

حضرت ابراہیم بن ادھمؒ بڑے بزرگ، نامور صوفی اور مقبول مجاہد گذرے ہیں، وہ ارشاد فرماتے ہیں:

’’اے میرے بھائی!دنیا کی محبت چھوڑ دو، کیونکہ دنیا کی محبت انسان کو اندھا اور بہراکر دیتی ہے‘‘

جی ہاں! دنیا کے مال کی محبت، دنیا کی عزت کی محبت… حبّ مال اور حب جاہ انسان کے دل کو اندھا کر دیتی ہے… روز اٹھتے جنازے نظر نہیں آتے… اپنے سفید ہوتے ہوئے بال نظر نہیں آتے… سامنے منہ پھاڑے قبر نظر نہیں آتی… قرآن پاک کی آیات نظر نہیں آتیں… اور کان ایسے بہرے ہو جاتے ہیں کہ کوئی نصیحت اثر نہیں کرتی… ایک میٹھی دعاء یاد کر لیں… یہ دعاء مشہور محدث حضرت سفیان ثوریؒ مانگا کرتے تھے:
اَللّٰھُمَّ زَھِّدْنَا فِی الدُّنْیَا وَوَسِّعْ عَلَیْنَا فِیْھَا

یا اﷲ! ہمیں دنیا سے زہد اور بے رغبتی عطاء فرمائیے اور ہمارے لئے دنیا میں وسعت عطاء فرمائیے…
دنیا کے بدلتے رنگ

عرب کا ایک مشہور قبیلہ تھا… بڑا مالدار اور سردار… مگر پھر اچانک دنیا نے آنکھیں پھیر لیں اور بھکاری بنا دیا… اس خاندان کی ایک عورت حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ کے دربار میں حاضر ہوئی، آپؓ نے حالات پوچھے تو اس نے کہا:

وہ ایک شام تھی جب ملک عرب کا ہر شخص ہم سے محبت کرتا تھا اور ہم سے ڈرتا تھا… مگر جب صبح ہوئی تو یہ حالت تھی کہ ہم ملک عرب کے ہر شخص کے محتاج تھے اور اس سے ڈرتے تھے…
بینا نسوس الناس فی کل بلدۃ
اذا نحن فیھم سوقۃ نتنصّفُ
فاُف لدنیا لایدوم نعیمھا
تقلب تارات بنا وتصرف

ایک وقت تھا جب ہم سب کے سردار تھے… مگر پھر اچانک ہم بری طرح سے حقیر ہو گئے… اُف ہو اس دنیا پر کہ اس کی نعمتیں ہمیشہ نہیں رہتیں… ہر دن ان کا رنگ بدلتا رہتا ہے…

اسی لئے تو حضرت آقا مدنیﷺ نے اس دنیا کو ’’ملعونۃ‘‘ فرمایا…

حضرت آقا مدنیﷺ کے ہاں’’لَعْنت‘‘ کے لفظ کا استعمال بہت کم اور خاص تھا… جب آپﷺ نے’’حب دنیا‘‘ پر لعنت بھیج دی تو ’’حب دنیا‘‘ کا کوئی مریض اب کہاں رحمت پا سکتا ہے… ہائے مال، ہائے عہدہ، ہائے عزت، ہائے ناموری کرنے والے ہائے ہائے ہی پکارتے ہیں… دنیا کی زیب و زینت اور چمک دمک پر کوئی منافق ہی مرتا ہے… قرآن پاک نے سمجھایا:

’’مزین کر دی گئیں لوگوں کے لئے دنیا کی خواہشات یعنی عورتیں، بیٹے، سونا، چاندی، گھوڑے، مویشی اور کھیتی…‘‘

یا اللہ! رحم … ہم نے آج کل میں ہی اس ظالم دنیا کو چھوڑنا ہے… اس کی محبت سے ہماری حفاظت فرما… ایک میٹھی دعاء یاد کر لیجئے
اَللّٰھُمَّ صَغِّرِ الدُّنْیَا بِاَعْیُنِنَا وَعَظِّمْ جَلَالَکَ فِی قُلُوْبِنَا، اَللّٰھُمَّ وَفِّقْنَا لِمَرْضَاتِکَ وَثَبِّتْنَا عَلیٰ دِیْنِکَ وَطَاعَتِک

یا اللہ! دنیا کو ہماری آنکھوں میں حقیر بنا دیجئے اور اپنے جلال کو ہماری آنکھوں میں بڑا یعنی عظیم بنا دیجئے، یا اللہ! ہمیں اپنی رضاوالے اعمال کی توفیق عطاء فرمائیے اور ہمیں اپنے دین اور اپنی اطاعت پر ثابت قدمی عطاء فرمائیے…
حساب، عقاب، عتاب

سیدنا حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے کسی نے دنیا کے بارے میں پوچھا تو ارشاد فرمایا

دنیا تو ایسی چیز ہے جس کے حلال میں حساب ہے…یعنی حلال کا بھی حساب دینا ہوگا… اور اس کے حرام میں عقاب یعنی اللہ تعالیٰ کا عذاب ہے اور اس کے شک والے مال میں عتاب ہے…

دنیا کی محبت انسان کے دل میں’’وھن‘‘ بزدلی اور نفاق پیدا کرتی ہے… اور انسان کو ہمیشہ فکر اور پریشانی میں مبتلا کرتی ہے… دنیا کے طالب کو خریدنا آسان، گمراہ کرنا آسان، ڈرانا آسان… اور راہ مستقیم سے ہٹانا آسان…

ایک میٹھی مسنون دعاء یاد کر لیجئے
اَللّٰھُمَّ لَا تَجْعَلِ الدُّنْیَا اَکْبَرَ ہَمِّنَا وَلَا مَبْلَغَ عِلْمِنَا

یا اللہ! دنیا کو ہماری بڑی فکر اور ہمارے علم کا مبلغ نہ بنائیے…

کافر دنیا سے اپنی خواہشات پوری کرتا ہے… جبکہ منافق دنیا کو اپنی عزت اور ظاہری ٹیپ ٹاپ پر لگاتا ہے… اور دونوں کے نزدیک آخرت کا کوئی نام و نشان نہیں ہوتا…
فتنہ اور آزمائش

ہم نے مرتے دم تک اسی دنیا میں رہنا ہے… اور حکم یہ ہے کہ دنیا میں دل نہ لگاؤ…

ہمارے اندر طرح طرح کی ضرورتوں کے خانے ہیں… کھانے کی ضرورت، پینے کی ضرورت، جسمانی ضرورتیں… رہنے کی ضرورت، وغیرہ وغیرہ…

گویا دنیا کے دریا میں ہمیں ڈال دیا گیا ہے… اور ساتھ حکم فرمایا گیا ہے کہ اس میں ڈوبنا نہیں… ہمارے چاروں طرف دنیا کے پجاری… ہرطرف مالداروں کی ظاہری عزت اور ٹیپ ٹاپ…مگر ہمیں حکم دیا گیا کہ ہم نے ان کی طرف رشک اور پسند کی نظر سے دیکھنا تک نہیں… ہمارے چاروں طرف دنیا کی زیب و زینت مگر ہمیں حکم کہ تم نے اس دنیا کو ملعون سمجھنا ہے… ہاں بے شک آزمائش ہے… ہاں!بے شک امتحان ہے… مگر اسی آزمائش اور امتحان میں کامیابی پر ہی جنت ملتی ہے… انسان نہ اپنی مرضی سے مالدار ہوسکتا ہے اور نہ اپنی مرضی سے غریب … مال جو قسمت میں لکھا ہے وہ مل کر رہے گا… مگر یہ مال ہم نے جیب میں رکھنا ہے یادل میں… یہ ہمیں اچھی طرح سمجھا دیا گیا… آزمائش کے اس میدان میں… نہ ہی اللہ تعالیٰ نے ہمیں اکیلا چھوڑا اور نہ ہی ہمارے محسن آقا ﷺ نے ہمیں لاوارث کھڑا کیا… قرآن پاک کامیاب مالداروں کے حالات بھی سناتا ہے اور ناکام مالداروں کے بھی… کامیاب مالدار وہ تھے جن کے پاس دنیا تھی مگر اُن کے دل دنیا کی محبت سے پاک تھے… اور ناکام مالدار وہ جو دنیا کو دل میں بسا بیٹھے تھے… بالآخر دنیا اُن کو لے ڈوبی… قرآن پاک ہمیں کامیاب غریبوں کے حالات بھی سناتا ہے اور ناکام غریبوں کے بھی…

کامیاب غریب وہ جنہوں نے… دنیا کو اپنا مقصود نہیں بنایا… اور ناکام غریب وہ جو دنیا میں مالدار بننے کو ہی اپنی کامیابی سمجھ بیٹھے…

قرآن پاک نے ہمارے سامنے منافقین کو کھڑا کر دیا… ان کی ایک ایک بُری عادت سمجھا دی… مال کے بھوکے، جاہ ، زیب و زینت اور دنیاوی عزت کے بھوکے… قرآن مجید نے ہمیں چند خواتین دکھائیں… وہ روئے زمین کی خوش بخت ترین عورتیں تھیں… عرش سے اُن کے لئے سلام آتا تھا… وہ بڑے بڑے خاندانوں کی شہزادیاں تھیں… وہ ظاہری اور باطنی ہر خوبی میں دنیا کی تمام عورتوں سے فائق تھیں…

ان میں سے کوئی بھی کسی معمولی گھرانے میں نہیں پلی بڑھی تھیں… مگر پھر قدرت نے ان کو حضرت آقا مدنیﷺ کے گھرمبارک میں لا بسایا… یہاں فاقے تھے، پیوند زدہ کپڑے تھے اور تین تین دن تک ٹھنڈے رہنے والے چولہے تھے…

جنت کی حوروں سے زیادہ افضل اور زیادہ مقام والی ہماری ان ماؤں نے ایک بار اپنے خرچے میں اضافے کا جائز مطالبہ کر دیا… انہوں نے نہ کوٹھیاں مانگیں اور نہ طرح طرح کے لباس… انہوں نے نہ جائیداد مانگی اور نہ سونے کے زیورات… بس اتنا کہ کم از کم کھانا تو دو وقت کا پورا مل جائے… مگر جواب کیا ملا؟ حضرت آقا مدنیﷺ اُن سے روٹھ کر مسجد شریف میں مقیم ہوگئے…

یا اللہ! خیر… حضرت آقا مدنیﷺ کی خفگی… اور پھر ربّ تعالیٰ نے بھی صاف اعلان فرما دیا… سورۂ احزاب کھول کر دیکھ لیجئے…

اے نبی ان سے پوچھ لیجئے کہ دنیا چاہئے یا اللہ اور رسول؟

ان پاکیزہ ہستیوں کے دل اونچے تھے، شیطان ان میں یہ ضد نہ ڈال سکا کہ وہ اتنا ہی عاجزی سے پوچھ لیتیں!!

یا اللہ! ہم نے کون سی دنیا مانگی تھی کہ اتنا سخت فیصلہ کہ… اگر دنیا چاہئے تو حضرت آقا مدنیﷺ کچھ سامان دے دیںگے مگر اُس سامان کے ساتھ طلاق بھی ہوگی… مگر وہ تو باسعادت تھیں، عقلمند تھیں ہماری وہ مائیں فوراً پکار اٹھیں

ہمیں اللہ چاہئے… ہمیں رسول اللہ چاہئیں

بس اللہ، بس اللہ، بس اللہ… اور بس رسول اللہ ﷺ دنیا نہیں، دنیا نہیں، دنیا نہیں…

سبحان اللہ! اُن کے گھر پھر بس گئے… اور دنیا اور آخرت میںحضرت آقا مدنیﷺ کا قرُب نصیب ہو گیا…

بس اسی واقعہ سے ہم اندازہ لگالیں کہ… اللہ تعالیٰ کے نزدیک دنیا کی کیا قیمت ہے… اور دنیا کی محبت کا کیا انجام ہے؟…

آہ! آج دنیا کی محبت نے ہمارے دلوں کو ویران کر دیا… ہمارے گھروں کو اجاڑ دیا…

ہماری جماعتوں کو غیبت، تفرقے اور رسہ کشی کا بازار بنا دیا… ہائے کاش ہم سورہ انفال کی ابتدائی چند آیات ہی سمجھ کر پڑھ لیں اور دل میں اتار لیں تو… ہمارا جہاد کتنا مبارک، کتنا طاقتور، کتنا خوشبودار ہو جائے… حضرات صحابہ کرام نے جب مال غنیمت پر تھوڑی سی آپس میں بات چیت کی تو قرآن پاک نے کیسی واضح تنبیہ فرمائی… مال،مال کی باتیں چھوڑو، اگر تم واقعی ایمان والے ہو تو اللہ تعالیٰ سے ڈرو، آپس کے معاملات درست کرو… اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو… ساتھ ساتھ اجتماعی اموال کی نزاکت، امانت اور احتیاط کا مسئلہ بھی سمجھا دیا… حضرات صحابہ کرامؓ بڑے اونچے لوگ تھے… ان کے پاس دنیا میں جو کچھ تھا وہ سارا انہوں نے اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے لگا دیا… تب اللہ تعالیٰ نے دنیا کو اُن کے قدموں میں ڈال دیا… مگر پھر بھی دنیا اُن کے قدموں میں ہی رہی اُن کے دلوں میں کوئی جگہ نہ بنا سکی… یا اللہ! ہمارے دلوں میں بھی نور اور روشنی عطاء فرمادیجئے
اَللّٰھُمَّ اجْعَلْ فِی قُلُوْبِنَا نُوْرَا… اَللّٰھُمَّ اجْعَل لَّنَا نُوْرَا
لا الہ الا اﷲ، لا الہ الا اﷲ، لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ…
اللھم صل علیٰ سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا…
لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ…

٭…٭…٭
مُعْطِی بھی وہی… رزَّاق بھی وہ

رنگ و نور ۔۔۔سعدی کے قلم سے (شمارہ 436)

اﷲ تعالیٰ دنیا کی محبت، دنیا کے فتنے اور دنیا کی تنگی سے میری اور آپ سب کی حفاظت فرمائے… آمین…

(۱) دنیا کی محبت بھی خطرناک… دل کو مُردہ کرنے والی

(۲) دنیا کا فتنہ بھی خطرناک… دل کو غافل کرنے والا

(۳) دنیا کی تنگی بھی خطرناک… دل کو لوگوں کا محتاج بنانے والی…
ایک قصہ

ایک نیک اور مالدار شخص نے اپنا قصہ لکھا ہے کہ… ایک دن میرا دل بہت بے چین ہوا… ہر چند کوشش کی کہ دل بہل جائے، پریشانی کا بوجھ اُترے اور بے چینی کم ہو، مگر وہ بڑھتی ہی گئی… بالآخر تنگ آکر باہر نکل گیا اور بے مقصد اِدھر اُدھر گھومنے لگا، اسی دوران ایک مسجد کے پاس سے گذراتو دیکھا کہ دروازہ کھلا ہے… فرض نمازوں میں سے کسی کا وقت نہیں تھا، میں بے ساختہ مسجد میں داخل ہوا کہ وضو کر کے دو چار رکعت نماز ادا کرتاہوں، ممکن ہے دل کو راحت ملے… وضو کے بعد مسجد میں داخل ہوا تو ایک صاحب کو دیکھا… خوب رو رو کر گڑ گڑا کر دعاء مانگ رہے ہیں اور کافی بے قرار ہیں… غور سے ان کی دعاء سنی تو قرضہ اتارنے کی فریاد میں تھے… اُن کو سلام کیا، مصافحہ ہوا، قرضہ کا پوچھا… بتانے لگے کہ آج ادا کرنے کی آخری تاریخ ہے اپنے مالک سے مانگ رہا ہوں… اُن کاقرضہ چند ہزار روپے کا تھا وہ میں نے جیب سے نکال کر دے دیئے… ان کی آنکھوں سے آنسوچھلک پڑے…اور میرے دل کی بے چینی سکون میں تبدیل ہو گئی… میں نے اپنا وزیٹنگ کارڈ نکال کر پیش کیا کہ آئندہ جب ضرورت ہو مجھے فون کر لیں… یہ میرا پتا ہے اور یہ میرا فون نمبر… انہوں نے بغیر دیکھے کارڈ واپس کر دیا اور فرمایا… نہ جناب! یہ نہیں… میرے پاس اُن کا پتا موجود ہے جنہوں نے آج آپ کو بھیجا ہے… میں کسی اور کا پتا جیب میں رکھ کر اُن کو ناراض نہیں کر سکتا…
سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْم
تھوڑا سا غور فرمائیں

اللہ تعالیٰ ہی ہمارے اور تمام جہان کے رب ہیں… یعنی پالنے والے ہیں… وہی سب کے رزّاق ہیں، وہی معطی ہیں یعنی عطاء فرمانے والے… ہم ماں کے پیٹ میں تھے تواللہ تعالیٰ نے ہمیں روزی دی… ہم چلنے پھرنے سے معذور معصوم بچے تھے تو اللہ تعالیٰ نے ہمیں روزی دی… ہم نے مرنے کے بعد اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش ہونا ہے… مگرہم یہ سب کچھ کتنا جلدی بھول جاتے ہیں… کوئی ہمیں کچھ مال دے توہم اس کا نام پتا بہت احتیاط سے محفوظ کرلیتے ہیں… اور اپنی کئی توقعات اُس سے وابستہ کر لیتے ہیں… ہمارادل بھکاری کے پیالے کی طرح دنیا داروں کے سامنے منہ کھولے رہتا ہے کہ فلاں ہمیں یہ دے اور فلاںہمیں وہ دے… حالانکہ دنیاکے انسان فانی ہیں، آج ہیں کل نہیں ہوں گے… اُن کا دل بھی چھوٹا اورہاتھ بھی تنگ… ہم جب کسی سے مانگیں گے تو وہ ہم سے نفرت کرے گا… ہم اللہ تعالیٰ سے مانگیں گے تو وہ ہم سے محبت فرمائے گا… ہم جب دنیا والوں سے یہ توقع رکھیں گے کہ وہ ہمیں دیںتو وہ لوگ ہم سے ڈریں گے، ہم سے بھاگیں گے اور ہم سے چھپیں گے… لیکن اگر ہم اللہ تعالیٰ سے امید اور توقع رکھیں گے تو اللہ تعالیٰ ہمیں اپنا پیار عطاء فرمائے گا اور ہمارے دل کو اپنے اور زیادہ قریب فرمالے گا… جو کہتا ہے یا اللہ! میں صرف آپ کا فقیر… اللہ تعالیٰ اُسے کسی اور کا فقیر اور محتاج نہیں بناتے حضرت سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے دو بچیوں کے جانوروں کو پانی پلایا… پھر؟
ثُمَّ تَوَلّٰی اِلَی الظِّلِّ

پھر پیٹھ پھیر کر ایک درخت کے نیچے جا بیٹھے… ہاں!جب کسی پر احسان کرو تو پھر اپنا چہرہ بھی اس کی طرف اس امید میں نہ کرو کہ وہ شکریہ ادا کرے، وہ بدلہ دے، وہ دعاء دے بس فوراً اُس سے پیٹھ اور دل پھیر کر اپنے رب کے پاس آبیٹھو:
رَبِّ اِنِّیْ لِمَآ اَنْزَلْتَ اِلَیَّ مِنْ خَیْرٍ فَقِیْر

موسیٰ علیہ السلام فرما رہے ہیں… یا اللہ! آپ کی طرف سے آنے والی خیر کا فقیر اور محتاج ہوں…

دل جب خالص اللہ تعالیٰ سے جڑا ہو… اور کسی کی طرف خیال نہ ہو تو پھر ایک خیر نہیں ہزاروں خیریں خود چل کر آتی ہیں…
فَجَآئَ تْہُ اِحْدٰھُمَا تَمْشِیْ عَلَی اسْتِحْیَآئٍ

خیر خود آگئی… کھانا، ٹھکانا، شادی، انصار اور بہترین معاشرہ سب کچھ ایک آن میں مل گیا… اسی لئے تو آج جب سے کالم لکھنے کا ارادہ کیا یہ الفاظ زبان پر بار بار آرہے ہیں:
معطی بھی وہی، رزاق بھی وہ

بھائیو! اور بہنو!… کسی سے سؤال نہیں، کسی سے توقع اور غرض نہیں، کسی کا پتا اور فون نمبر نہیں… بس ایک اللہ، بس ایک اللہ، بس ایک اللہ…
اَلْمُعْطِی ھُوَاللّٰہ، اَلرَّزَاقُ ھُوَاللّٰہ، اَلرَّبُّ ھُوَاللّٰہ
حضرت علی رضی اللہ عنہ کا فرمان

وہ شخص جس نے مالدار آدمی کا کارڈ واپس کر دیا کتنا عقلمند تھا؟ اُس نے اپنے اور اپنے رب کے درمیان پردہ آنا گوارہ نہ کیا… جب ضرورت پڑے توجہ کسی مالدار کی طرف چلی جائے اور اللہ تعالیٰ کی طرف نہ جائے… یہ کتنی محرومی کی بات ہے… مالدار کا فون کبھی کھلا کبھی بند… جبکہ اللہ تعالیٰ کا رابطہ ہروقت کھلا اور وہ ہماری شہہ رگ سے بھی زیادہ قریب… مالدار کا موڈ کبھی ٹھیک کبھی خراب، جبکہ اللہ تعالیٰ کا ہاتھ ہمیشہ کھلا:
بَلْ یَدٰہُ مَبْسُوْطَتٰنِ

مالدار مر گیا تو اب فون ملانے سے کیا ہوگا جبکہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ حیٌّ اور قیوم

ارے بھائیو! ایمان والے کو تو حاجت پیش آتی ہی اس لئے ہے کہ وہ بار بار
’’یا ربِّ، یا ربِّ، یا ربِّ‘‘

پکارے… اس کی حاجت پوری ہونے میں بعض اوقات تأخیر اس لئے ہوتی ہے کہ اُس کے نامۂ اعمال میں مزید دعاء اورمزید آہ وزاری لکھی جائے… ورنہ مالک کے خزانوں میں کیا کمی ہے… مگر جب بندہ مانگ رہا ہو تو وہ اللہ تعالیٰ کو اچھا لگتا ہے… اور یہ مانگنا اُس بندے کے لئے آخرت کا سرمایہ بن جاتا ہے… ہم کسی مالدار سے مانگیں گے تو ہمارا چہرہ بگڑ جائے گا اور ہم اللہ تعالیٰ سے مانگیں گے تو ہماراچہرہ روشن ہو جائے گا…

مالدارلوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ آپ سے کہہ دیں گے… جناب! جب ضرورت ہو مجھے بتادیجئے گا… حالانکہ وہ ہماری ہر ضرورت پوری نہیں کر سکتے… اگر ہم خدانخواستہ اُن کو اپنی ضرورت بتانے لگیں تو وہ دو چار بار کے بعد اپنا فون نمبر ہی بدل لیں گے… آخر وہ بھی انسان ہیں، اُن کو اپنے مال سے محبت ہوتی ہے… اُن کی بھی اپنی ضرورتیں ہوتی ہیں… اُن سے اور بھی بہت سے لینے والے ہوتے ہیں… توپھر اُن کے ایک جملے سے… ہماری توقعات کا رُخ اللہ ربّ العالمین سے ہٹ کر اُن کی طرف کیوں مُڑ جاتا ہے؟… جبکہ اللہ ربّ العالمین نے ہمیں فرمایا ہے کہ مجھ سے جب چاہو مانگو… میرے خزانے بے شمار ہیں… اور اللہ تعالیٰ جس کو جتنا بھی دیں اُن کے ہاں کمی نہیں آتی… آج سے ایک معمول بنا لیں… ضرورت کے وقت جب ہماری توجہ اللہ تعالیٰ سے ہٹ کر کسی انسان کی طرف جائے تو ہم فوراً اپنے لئے اور اس انسان کے لئے استغفار شروع کردیں…

اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِیْ وَلَہٗ

یااللہ! میری بھی مغفرت فرما،اس کی بھی مغفرت فرما… یا اللہ! مجھے بھی معاف فرما اور اُسے بھی معاف فرما… ان شاء اللہ اس عمل کی برکت سے ہم ’’ اِشراف‘‘ کے گناہ سے بچ جائیں گے… مالدار بے چارے تو مصیبت میں ہوتے ہیں وہ کسی کو دس بار دیں مگرگیارہویں بار نہ دے سکیں تو سامنے والا اُن سے ناراض ہوجاتا ہے… اُن کو بددعائیں دیتا ہے… اُن کے دس بار دیئے ہوئے کو بھول کر اُن سے نفرت کرنے لگتاہے کیونکہ’’حبّ دنیا‘‘ نے لوگوں کو اندھا کر دیا ہے… ایسے اندھیرے ماحول میں ہم یہ روشنی پالیں کہ جو ہم پر احسان کرے ہم اُس کے لئے دعاء کریں، آئندہ اُس سے مزید کی توقع نہ رکھیں اور اگر دل میں توقع آئے تو ہم اُس کے لئے استغفار کا ہدیہ بھیجیں یوں ہم اُسے دینے والے بن جائیں گے… اور اللہ تعالیٰ کو اوپر کا ہاتھ… یعنی دینے والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے زیادہ پسند ہے…

حضرت علی رضی اللہ عنہ… زاہدوں کے امام ہیں، آج اُن کے کئی مبارک فرامین نقل کرنے تھے مگر کالم کی جگہ مختصر ہے تو بس ایک ہی فرمان پر اکتفا کرتے ہیں… اللہ کرے وہ میرے اور آپ سب کے دل میں اُتر جائے…

حضرت ہجویریؒ کشف المحجوب میں لکھتے ہیں:

ایک شخص حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ اے امیر المؤمنین! مجھے کوئی وصیت کیجئے، آپؓ نے فرمایا:

تم اپنے اہل و اولاد میں مشغول ہونے کو(یعنی ان کی خاطر دنیا جمع کرنے کو) اپنا سب سے بڑا اور اہم کام نہ بناؤ… کیونکہ اگر تمہارے اہل و اولاد اللہ تعالیٰ کے دوستوں میں سے ہیں تو اللہ تعالیٰ اپنے دوستوں کو کبھی ضائع نہیں کرتا، اور اگر وہ اللہ تعالیٰ کے دشمنوں میں سے ہیں تو اللہ تعالیٰ کے دشمنوں میں مشغول ہونا اور ان کی فکر کرنا تمہارے لئے کسی بھی طرح درست نہیں… (کشف المحجوب ص ۱۱۳)
ایک جامع نصاب

’’حبّ دنیا‘‘ سے حفاظت کا موضوع بڑا اہم اور بہت مفصل ہے… اوراسے بار بار دُھرانے کی ضرورت ہے… کیونکہ جن لوگوں کے دل میں آخرت کی فکر ہوتی ہے انہیں پر’’حبّ دنیا‘‘ کا زیادہ حملہ ہوتا ہے… حضرت ابو سلیمان الدارانیؒ فرماتے ہیں:

’’جب آخرت دل میں ہو تو دنیا وہاں حملہ آور ہوتی ہے تاکہ آخرت کو دل سے نکال دے… لیکن جب دنیا دل میں ہو تو آخرت اُس پرحملہ آور نہیں ہوتی… کیونکہ دنیا کمینی ہے اور آخرت معزز ہے…‘‘

حبّ دنیا کا مکمل موضوع کسی ایک کالم میں نہیں آسکتا… بس آج ہم سب ایک نصاب یاد کر لیں اور ساری زندگی اُس سے غافل نہ ہوں… یہ نصاب ان شاء اللہ ہمیں دنیا کی محبت میں اندھا ہونے سے بچانے کا ذریعہ بن سکتا ہے

(۱) حبّ دنیا سے حفاظت کی ہمیشہ دعاء بہت عاجزی کے ساتھ مانگنے کا معمول رہے

(۲) حرام مال قطعاً نہ کمائیں، نہ لیں

(۳) کسی بھی انسان سے ہرگز سؤال نہ کریں

(۴) کسی بھی انسان سے ’’اِشراف‘‘ نہ رکھیں یعنی دل میں اُس سے کچھ لینے، کچھ ملنے کی لالچ اور توقع نہ ہو

(۵) مال میں اِسراف و تبذیر نہ کریں… نہ حرام پرخرچ کریں، نہ حلال میں ضرورت سے زیادہ لگائیں

(۶) مال میں بخل نہ کریں…خصوصاً زکوٰۃ اور دیگر شرعی حقوق ادا کرنے میں

(۷) امانت اور اجتماعی اموال میں ہرگز خیانت نہ کریں…

بس یہ ہے مختصر اور جامع نصاب… اللہ تعالیٰ میرے لئے بھی اس پرعمل آسان فرمائے اور آپ کے لئے بھی…
دینی،جہادی دعوت دینے والوں کے لئے

اگرلوگوں کی مالی حاجات پوری کرنے سے لوگ ہدایت پر آتے تو اللہ تعالیٰ حضرات انبیاء علیہم السلام کو زمین کے خزانے دے کر بھیجتے… وہ لوگوں کو مال دیتے اور لوگ دین پر آجاتے… مگر مال سے دین پر کوئی نہیں آتا… مال سے گمراہی تو پھیلائی جا سکتی ہے، اسلام اور جہاد کو نہیں پھیلایا جا سکتا … آپ لوگوں کو دین کی اور جہاد کی دعوت دیں… یہی آپ کے لئے اور اُن کے لئے کامیابی کا راستہ ہے… اگرآپ ریلیف کے کاموں کو بھی ساتھ لگا کر دعوت چلائیں گے تو…لینے والے مزید کی توقع کریں گے اورجن کو نہیں ملے گا وہ آپ سے اور آپ کی دعوت سے نفرت کرنے لگیں گے… ریلیف اور خدمت خلق کا کام دین کا ایک الگ شعبہ ہے… اُس شعبہ کے بھی بہت فضائل ہیں… مگر وہ ایمان اور جہاد کی دعوت کے برابرنہیں… ایمان اور جہاد کی دعوت بہت بڑی چیز اور بڑی عظیم نعمت ہے… حضرات انبیاء علیہم السلام نے یہ دعوت دی اورلوگوں کو جان و مال کی قربانی میں لگایا… جب لوگ دنیا سے کٹ کر جان ومال کی قربانی پر آگئے تو اللہ تعالیٰ نے دنیا بھی اُن کے قدموں میں ڈال دی… کسی کے ساتھ نیکی کرنا، خدمت خلق کرنا ان کاموں سے کوئی بھی مسلمان کسی کو روکنے کا تصور نہیں کر سکتا… مگر ان کاموں کو ایمان اور جہاد کی برحق دعوت کے ساتھ خلط کرنے سے … وہ عظیم دعوت کمزور ہوتی ہے… اپنی توجہ ایمان، اقامت صلوٰۃ اور جہاد کی دعوت اورعمل پررکھیں… اپنا مال جہادپرلگائیںاور اپنے ذاتی مال سے مسلمانوں کی جو حاجت پوری کر سکتے ہوں وہ کریں… حبّ دنیا کے فتنے سے خود بھی بچیں اور مسلمانوں کو بھی بچنے کی دعوت دیں… دین کی خاطر خود بھی جان و مال کی قربانی دیں اور مسلمانوں کو بھی اس قربانی پرلائیں… بس جلد ہی ہم زمین کے نیچے ایک ایسی جگہ ہوں گے جہاں نہ کوئی تکیہ ہوگا اور نہ کوئی نرم لحاف… ہمارے پاس جو کچھ ہے یہ اُن کا تھا جو مر گئے… پھر ہم مرجائیں گے اور یہ سب کچھ پیچھے والوں کا ہو جائے گا… اور ہم خالی ہاتھ قبرمیں ہوں گے… وہاں جو کچھ کام آسکتا ہو بس اسی کی ہم سب فکر اورمحنت کریں…

لا الہ الا اﷲ، لا الہ الا اﷲ، لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ…

اللھم صل علیٰ سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا…

لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ…

٭…٭…٭