عقائدِ اہل السنۃ و الجماعۃ


عقائدِ اہل السنۃ و الجماعۃ
مولانا محمد الیاس گھمّن صاحب
وجودِ باری تعالیٰ:
کوئی بھی چیز خود بخود وجود میں نہیں آتی بلکہ وہ کسی بنانے والے کی محتاج ہوتی ہے، اس لئے اس بات پر ایمان لانا ضروری ہے کہ یہ کائنات بھی خود بخود وجود میں نہیں آئی بلکہ اس کو بنانے والی بھی کوئی ذات موجود ہے اور وہ ’’اللہ تعالیٰ‘‘ کی ذات ہے۔
توحیدِ باری تعالیٰ:
اللہ تعالیٰ اپنی ذات اور صفات میں یکتا ہیں، نہ کسی کے باپ نہ کسی کے بیٹے، کائنات کا ہر ذرّہ ان کا محتاج ہے، وہ کسی کے محتاج نہیں اور سارے جہاں کے خالق و مالک ہیں۔
تقدیسِ ذات و صفاتِ باری تعالیٰ:
اللہ تعالیٰ جسم، اعضاءِ جسم (جیسے ہاتھ، چہرہ، پنڈلیاں اور انگلیاں وغیرہ) اور لوازمِ جسم (جیسے کھانے پینے، نیز اترنے چڑھنے اور دوڑنے وغیرہ) سے بھی پاک ہیں، قرآن و حدیث میں جہاں اللہ تعالیٰ کی طرف اعضاءِ جسم یا مخلوق کی صفات کی نسبت ہے وہاں ظاہری معانی بالاتفاق مراد نہیں ہیں؛ بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کی بعض صفات کی تعبیرات ہیں، پھر متقدمین کے نزدیک وہ صفات متشابہات میں سے ہیں، ان کی حقیقت اور مراد سوائے اللہ تعالیٰ کے کوئی نہیں جانتا، جبکہ متاخرین کے نزدیک ان کی حقیقت و مراد درجۂ ظن میں معلوم ہے، جیسے ید اللہ سے مراد قدرتِ باری تعالیٰ اور اترنے سے مراد رحمت کا متوجہ ہونا ہے۔
صدقِ باری تعالیٰ:
اللہ تعالیٰ کا کلام سچا اور واقع کے مطابق ہے اور اس کے خلاف عقیدہ رکھنا بلکہ اللہ تعالیٰ کے کلام میں جھوٹ کا وہم رکھنا بھی کفر ہے۔
عمومِ قدرت باری تعالیٰ:
اللہ تعالیٰ اپنے کئے ہوئے فیصلوں کے تبدیل کرنے پر قادر ہیں، اگرچہ وہ اپنے فیصلوں کو بدلتے نہیں۔
تقدیر باری تعالیٰ:
اس عالم میں جو کچھ ہوتا ہے یا ہوگا وہ سب کچھ ہونے سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے علم کے موافق ہر چیز کو پیدا فرماتے ہیں، تقدیر علمِ الٰہی کا نام ہے نہ کہ امرِ الٰہی کا۔
اللہ کا عدل و فضل:
اللہ تعالیٰ جس طرح بندوں کے خالق ہیں اسی طرح بندوں کے افعال کے بھی خالق ہیں، البتہ بندوں کے بعض افعال اضطراری ہیں جن میں بندے کے ارادہ، اختیار اور خواہش و رغبت کا اختیار نہیں ہوتا، اور کچھ افعال اختیاری ہیں جن میں بندے کے طبعی شوق و رغبت یا طبعی نفرت و کراہت کا دخل ہوتا ہے، ان اختیاری افعال میں بندہ اپنے اختیار سے جو نیک کام کرے گا اس پر اس کا اجر و ثواب ملے گا اور جو برا کام کرے گا اس پر اُسے سزا ملے گی، یہ اللہ کا عدل ہے، البتہ اللہ اپنے فضل سے جس گناہگار کو چاہے معاف کردے، اللہ ہی سے مغفرت کی ہدایت مانگنی چاہئے۔
اللہ تعالیٰ مسبب الاسباب ہیں:
ہر چیز کا وجود اور عدم اللہ کے قبضۂ قدرت میں ہے، ہر چیز کی کیفیت، خاصیت اور اس کی تاثیر کا ہونا اور نہ ہونا بھی اسی کے اختیار میں ہے، وہ مسبب الاسباب ہے، کائنات کے اسباب اسی کی مخلوق ہیں، اور اسباب کی سببیت بھی اس کی مخلوق اور اسی کی مشیت کے تابع ہے، دنیا کی کوئی چیز اپنی ذات میں مؤثر نہیں، نہ لطف و ثواب اور نہ قہر و عذاب، وہ جسے چاہے عزت دے وہ اس کی رحمت ہے اور جسے چاہے ذلت و مصیبت دے اور یہ اس کی حکمت ہے، وہ مالک الملک جسے چاہے اختیار اور اقتدار دے وار جس سے چاہے چھین لے۔
شرک:
شرک یہ تو ہے ہی کہ کسی کو اللہ کے برابر سمجھے اور اس کے مقابل جانے، لیکن شرک بس اسی پر موقوف نہیں ہے بلکہ شرک یہ بھی ہے جو چیزیں اللہ نے اپنی ذات والا صفات کے لئے مخصوص فرمائی ہیں اور بندوں کے لئے بندگی کی علامتیں قرار دی ہیں انہیں غیروں کے لئے بجا لایا جائے، شرک کی کئی صورتیں ہیں۔
(۱) اللہ تعالیٰ کی ذات میں کسی کو شریک ٹھہرانا، مثلاً عیسائیوں اور مجوسیوں کی طرح دو یا زائد خدا ماننا۔
(۲) کسی بھی بندے کے لئے ان غیب کی باتوں کا علم اللہ تعالیٰ کی عطاء سے ماننا جن کے بارے میں قرآن و حدیث میں تصریح ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سواء ان کو کوئی نہیں جانتا، مثلاً یہ علم کہ قیامت کب آئے گی؟ وغیرہ۔
(۳) کسی بندے میں تصرف و قدرت کو اللہ تعالیٰ کی عطاء سمجھے اور ساتھ یہ بھی مانے کہ اس کا کسی کو نفع یا نقصان پہنچانا اللہ تعالیٰ کی مرضی اور ارادہ کا پابند ہے، رکوع و سجدہ وغیرہ جیسے افعال کسی مخلوق کے لئے عبادت کے طور پر نہیں بلکہ صرف تعظیم کے طور پر کرنا، اس کو فسقیہ شرک کہتے ہیں، پھر شریک کرنے میں نبی، ولی جن اور شیطان وغیرہ سب برابر ہیں، جس سے بھی یہ معاملہ کیا جائے گا شرک ہوگا اور کرنے والا مشرک ہوگا۔
چند کفریہ باتیں:
عقیدہ: ایمان اس وقت درست ہوتا ہے جبکہ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سب باتوں کو سچا سمجھے اور ان سب کو مان لے، اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی بات میں شک کرنا یا اس کو جھٹلانا یا اس میں عیب نکالنا یا اس میں مذاق اڑانا ان سب باتوں سے ایمان ختم ہوجاتا ہے۔
عقیدہ: قرآن و حدیث کے کھلے واضح مطلب کو نہ ماننا اور اس میں سے اپنے مطلب کے معانی گھڑنا بد دینی کی علامت ہے۔
عقیدہ: گناہ کو حلال سمجھنے سے ایمان جاتا رہتا ہے، اول تو گناہ کے قریب بھی نہ جانا چاہئے، لیکن اگر بدبختی سے اس میں مبتلا ہیں تو اس گناہ کو گناہ ضرور سمجھیں اور اس کی برائی اور اس کا حرام ہونا دل سے نہ نکالیں، ورنہ ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔
عقیدہ: گناہ چاہے کتنا بڑا ہی کیوں نہ ہو جب تک اس کو برا سمجھتا رہے گا ایمان نہیں جاتا؛ البتہ کمزور ہوجاتا ہے۔
عقیدہ: اللہ تعالیٰ سے بے خوف و نڈر ہوجانا یا نا امید ہوجانا کفر ہے، مطلب یہ ہے کہ یہ سمجھ لینا کہ آخرت میں ہر حال میں مجھے بڑے درجات ملیں گے کوئی پکڑ نہ ہوگی یا یہ سمجھنا کہ میری ہرگز کسی طرح نہ ہوگی کفریہ غلطی ہے، مسلمان کو چاہئے کہ خوف اور امید کے درمیان میں رہے۔
عقیدہ: کسی سے غیب کی باتیں پوچھنا اور ان کا یقین کرلینا کفر ہے۔
عقیدہ: یہ عقیدہ رکھیں کہ غیب کا حال سوائے اللہ تعالیٰ کے کوئی نہیں جانتا؛ البتہ انبیاء کرام علیہم السلام کو وحی سے اور اولیاء اللہ کو کشف اور الہام سے اور عام لوگوں وک نشانیوں سے بعض باتیں معلوم ہوجاتی ہیں، لیکن یہ باتیں علم الغیب نہیں بلکہ انباء الغیب (غیب کی خبریں) کہلاتی ہیں۔
عقیدہ: کسی کا نام لے کر کافر کہنا یا لعنت کنا بہت بڑا گناہ ہے، ہاں یوں کہہ سکتے ہیں کہ ظالموں پر لعنت، جھوٹوں پر لعنت، ہاں جن لوگوں کا نام لے کر اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت کی ہے یا ان کے کافر ہونے کی اطلاع دی ہے ان کو کافر یا ملعون کہنا گناہ نہیں۔
حقیقتِ نبوت:
’’نبی‘‘ ایسے انسان کو کہتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مبعوث ہو، معصوم عن الخطاء اور اس کی اتباع اور پیروی فرض ہو، یعنی وہ انسان جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مبعوث ہو، صغیرہ اور کبیرہ گناہوں سے پاک ہو اور اس کی تابعداری کرنا فرض ہو، ان صفات کو انبیاء علیہم السلام کے علاوہ کسی انسان کے لئے ثابت کرنا؛ اگرچہ اس کے لئے نبی کا لفظ استعمال نہ کیا جائے کفر ہے۔
نوٹ:۔ نبی ہمیشہ مرد ہوتا ہے عورت نبی نہیں بن سکتی، اور جناب کے لئے بھی انسان ہی نبی ہوتا ہے، نبوت وہبی چیز ہوتی ہے جو اللہ تعالیٰ کے عطاء کرنے سے عطا ہوتی ہے، اپنی محنت سے عبادت کرکے کوئی شخص نہ نبی بن سکتا ہے اور نہ ہی نبی کے مرتبہ کو پہنچ سکتا ہے۔
صداقتِ نبوت:
حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تک جتنے نبی اور رسول آئے ہیں سارے برحق اور سچے ہیں۔
دوامِ نبوت:
انبیاء کرام علیہم السلام وفات کے بعد بھی اپنی مبارک قبروں میں اسی طرح حقیقتاً نبی اور رسول ہیں جس طرح وفات سے پہلے ظاہری حیات مبارکہ میں نبی اور رسول تھے؛ البتہ اب باقی انبیاء علیہم السلام کی شریعت منسوخ ہوچکی ہے اور قیامت تک کے لئے نجات کا مدار نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت پر ہے۔
ختمِ نبوت:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے آخری نبی و رسول ہیں، آپؐ کے بعد عالمِ دنیا میں کسی بھی قسم کی جدید نبوت کے جاری رہنے کا عقیدہ رکھنا کفر ہے۔
عظمتِ انبیاء علیہم السلام:
کائنات کی تمام مخلوقات میں سب سے اعلیٰ مرتبہ اور مقام حضرات انبیاء علیہم السلام کا ہے اور انبیاءؑ میں سے بعض بعض سے افضل ہیں اور حضور اکرم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تمام انبیاءؑ سے افضل اور اعلیٰ اور تمام انبیاء علیہم السلام کے سردار ہیں۔
توہینِ رسالت:
انبیاء علیہم السلام میں سے کسی بھی نبی کی شان میں کسی بھی طرح کی گستاخی و بے ادبی کرنا یا گستاخی اور بے ادبی کو جائز سمجھنا کفر ہے، مثلاً آپؐ کے لئے صرف اتنی سی فضیلت کا قائل ہونا جتنی بڑے بھائے کو چھوٹے بھائی پر ہے کفر اور بے دینی ہے۔
انبیاء علیہم السلام کی نیند:
نیند کی حالت میں انبیاء علیہم السلام کی آنکھیں تو سوتی ہیں مگر دل نہیں سوتا، اس لئے ان مبارک ہستیوں کا خواب بھی وحی کے حکم میں ہے اور نیند کے باوجود انبیاء علیہم السلام کا وضو باقی رہتا ہے۔
حیاتِ انبیاء علیہم السلام:
تمام انبیاء علیہم السلام اپنی مبارک قبروں میں اپنے دنیوی جسموں کے ساتھ بتعلقِ روح بغیر مکلّف ہونے اور بغیر لوازمِ دنیا کے زندہ ہیں اور مختلف جہتوں کے اعتبار سے اس حیا کے مختلف نام ہیں، جیسے حیاتِ دنیوی، حیاتِ جسمانی، حیاتِ برزخی اور حیاتِ روحانی۔
ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم:
وہ تمام حالات و واقعات جن کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ذرا بھی تعلق ہے ان کا ذکر کرنا نہایت پسندیدہ اور مستحب ہے۔
فضیلت و زیارتِ روضۂ اطہر:
زمین کا وہ حضرت جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جسمِ مبارک کے ساتھ ملا ہوا ہے کائنات کے سب مقاماتِ مقدسہ حتی کہ کعبہ، عرش اور کرسی سے بھی افضل ہے۔
فائدہ:
روضۂ اطہر کی زیارت کے وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک کی طرف منہ کرکے کھڑا ہونا روضۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے آداب میں سے ہے اور اسی حالت میں دعاء مانگنا بہتر اور مستحب ہے۔
سفرِ مدینہ منورہ:
سفرِ مدینہ منورہ کے وقت روضۂ مبارک، مسجد نبویؐ اور مقاماتِ مقدسہ کی زیارت کی نیت کرنا افضل اور باعثِ اجر و ثواب ہے؛ البتہ خالص روضۂ پاک کی زیارت کی نیت سے سفر کرنا زیادہ بہتر ہے، کیونکہ اس میں آپؐ کی تعظیم زیادہ ہے۔
نبی کریم علیہ السلام پر صلوٰۃ و سلام:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر صلوٰۃ و سلام پڑھنا آپؐ کا حق اور نہایت اجر و ثواب کا باعث ہے، کثرت کے ساتھ صلوٰۃ و سلام پڑھنا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قرب اور شفاعت کے حصول کا بہت بڑا ذریعہ ہے، اور افضل درود شریف وہ ہے جس کے لفظ بھی آپؐ سے منقول ہوں، سب سے افضل درود درودِ ابراہیمی ہے۔
فائدہ:
زندی میں ایک مرتبہ صلوٰۃ و سلام پڑھنا فرض ہے اور جب مجلس میں آپؐ کا ذکر مبارک آئے تو ایک دفعہ صلوٰۃ و سلام پڑھنا واجب ہے اور ہر ہر بار پڑھنا مستحب ہے۔
عرضِ اعمال:
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر روضۂ مبارک میں امت کے اچھے اور برے اعمال اجمالی طور پر پیش ہوتے ہیں۔
مسئلہ استشفاع:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر اطہر کے پاس حاضر ہوکر شفاعت کی درخواست کرنا اور یہ کہنا کہ ’’اے نبیؐ! آپ میری مغفرت کی سفارش فرمائیں‘‘ جائز ہے۔
حقیقتِ معجزہ:
معجزہ چونکہ اللہ تعالیٰ کا فعل ہے جو نبی کے ہاتھ پر ظاہر ہوتا ہے اور اس میں نبی کے اختیار کو دخل نہیں ہوتا، اس لئے معجزہ کو شرک کہہ کر معجزہ کا انکار کرنا یا معجزہ سے دھوکہ کھاکر انبیاء علیہم السلام کے لئے مختارِ کل اور قادرِ مطلق ہونے کا عقیدہ رکھنا دونوں غلط ہیں۔
معجزاتِ انبیاء علیہم السلام:
انبیاء علیہم السلام کے معجزات (مثلاً حضرت موسیٰ علیہ السلام کے عصاء کا سانپ بن جانا، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا مُردوں کو زندہ کرنا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حالتِ نماز میں پشت کی جانب سے سامنے کی طرف دیکھنا وغیرہ) بر حق ہیں۔
عظمتِ علومِ نبوت:
ہر نبی اپنے زمانہ میں شریعتِ مطہرہ کا سب سے بڑا عالم ہوتا ہے اور ہر نبی کو لوازمِ نبوت علوم سارے کے سارے عطاء ہوتے ہیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ اوّلین و آخرین کے نبی ہیں اس لئے آپؐ کو اوّلین و آخرین کے اور تمام مخلوقات سے زیادہ علوم عطاء کئے گئے۔
توہینِ علمِ نبوت:
اس بات کا قائل ہونا کہ فلاں شحص کا علم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے علم سے زیادہ ہے یا علومِ نبوت یعنی علم دین کو باقی علوم و فنون کے مقابلہ میں گھٹیا و کمتر سمجھنا یا علمائے دین کی بوجہِ علمِ دین تحقیر کرنا کفر ہے۔
ملائکہ:
اللہ تعالیٰ نے ان کو نور سے پیدا فرمایا ہے، یہ ہماری نظروں سے غائب ہیں، نہ مرد ہیں اور نہ ہی عورت، جن کاموں پر اللہ نے ان کو مقرر کیا ہے ان کو سر انجام دیتے رہتے ہیں اور اس میں اللہ کی نافرمانی نہیں کرتے، ان کی تعداد اللہ تعالیٰ ہی کو معلوم ہے، البتہ ان میں حضرت جبرئیل، حضرت میکائیل، حضرت اسرافیل اور حضرت عزرائیل علیہم السلام مقرب اور مشہور فرشتے ہیں۔
فائدہ:
رسلِ بشر، رسلِ ملائکہ سے افضل ہیں اور رسلِ ملائکہ باقی تمام فرشتوں اور انسانوں سے افضل ہیں، اور عام فرشتے عام انسانوں سے افضل ہیں۔
کتبِ سماویہ:
جس زمانہ میں جس نبی پر جو کتاب اللہ تعالیٰ نے نازل فرمائی وہ برحق اور سچی تھی، جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر توارات، حضرت داؤد علیہ السلام پر زبور، حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر انجیل اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن کریم نازل فرمایا، البتہ باقی کتابیں منسوخ ہوچکی ہیں اور اب قیامت تک کے لئے کتب سماویہ میں سے واجب الاتباع اور نجات کا مدار صرف قرآن کریم ہی ہے۔
صداقتِ قرآن:
’’سورۂ فاتحہ‘‘ سے ’’والناس‘‘ تک قرآن کریم کا ایک ایک لفظ محفوظ ہے، اس میں ایک لفظ بھی کا بلکہ ایک حرف کے انکار یا تحریف کا عقیدہ رکھنا کفر ہے۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم:
صحابی اس شخص کو کہتے ہیں جس کو حالتِ ایمان میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت حاصل ہوئی ہو اور اسی حالت پر اس کا خاتمہ ہوا ہو، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم معیارِ حق و صداقت ہیں، یعنی وہی عقائد اور اعمال مقبول ہوں گے جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے عقائد و اعمال کے مطابق ہوں گے، صحابہ کرامؓ ہر قسم کی تنقید سے بالاتر ہیں، قبر اور آخرت کے ہر قسم کے عذاب سے محفوظ ہیں، وہ معصوم نہیں البتہ محفوظ ضرور ہیں، یعنی ان کی ہر قسم کی خطاء بخش دی گئی ہے اور وہ یقینی طور پر جنّتی ہیں، انبیاء علیہ السلام معصوم عن الخطاء ہیں اور صحابہؓ محفوظ عن الخطاء ہیں، معصوم عن الخطاء کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے نبی سے گناہ ہونے ہی نہیں دیتا اور محفوظ عن الخطاء کا مطلب یہ ہے کہ صحابیؓ سے گناہ تو ہو جاتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ ان کے نامۂ اعمال میں گناہ باقی نہیں رہنے دیتا۔
حبِ صحابہ و اہل بیت رضی اللہ عنہم اجمعین:
صحابہ و اہل بیت رضی اللہ عنہم اجمعین کے ساتھ محبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ محبت کی علامت ہے اور صحابہ کرام اور اہل بیت رضی اللہ عنہم دونوں سے بغض یا ان دونوں میں سے کسی ایک سے محبت اور دوسرے سے بغض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بغض کی علامت اور گمراہی ہے۔
معیارِ حق و صداقت:
پوری امت کے لئے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم معیارِ حق و صداقت ہیں، یعنی جو عقائد اور مسائل صحابہ کرامؓ اور مسائل کے مطابق ہوں وہ حق ہیں اور جو ان کے مطابق نہ ہوں وہ باطل اور گمراہی ہیں۔
عفت امہات المؤمنین رضی اللہ عنہن:
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اہلِ بیت جن کا اوّلین مصداق امہات المؤمنین رضی اللہ عنہن ہیں کو پاکدامن اور صحابِ ایمان ماننا ضروری ہے۔
مقام صحابہ کرام رضی اللہ عنہن:
انبیاء کرام علیہم السلام کے بعد انسانوں میں سب سے اعلیٰ ترین درجہ بہ ترتیبِ ذیل:
(۱) خلفائے راشدینؓ علی ترتیب الخلافۃ۔
(۲) عشرۂ مبشرہؓ۔ (۳) اصحابِ بدرؓ۔
(۴) اصحابِ بیعتِ رضوانؓ۔ (۵) شرکائے فتحِ مکہؓ۔
(۶) وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جو فتح مکہ کے بعد اسلام لائے ان صحابہؓ کا ہے، اور قرآن کریم میں اہل ایمان کی جس قدر صفاتِ کمال کا ذکر آیا ہے ان کا اوّلین اور اعلیٰ ترین مصداق صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین ہیں۔
خلافتِ راشدہ موعودہ:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اس امت کے خلیفۂ اول بلا فصل حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں، دوسرے خلیفہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ، تیسرے خلیفہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ ہیں، چوتھے خلیفہ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ ہیں، ان چاروں کو خلفائے راشدین اور ان کے زمانہ کو خلافتِ راشدہ کا دَور کہتے ہیں، آیتِ استخلاف میں جس خلافت کا وعدہ ہے وہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے شروع ہوکر حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ پر ختم ہوگئی، لہٰذا دورِ خلافتِ راشدہ سے مراد خلفائے اربعہ (چاروں خلفاءؓ) کا دور ہے، اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی خلافت، خلافتِ عادلہ ہے۔
مشاجراتِ صحابہ رضی اللہ عنہم:
مشاجراتِ صحابہ رضی اللہ عنہم میں حق حضرت علی کی جانب تھا اور ان کے مخالف خطاء پر تھے، لیکن یہ خطاء خطائے عنادی نہ تھی بلکہ خطاء اجتہادی تھی اور خطاء اجتہادی پر طعن اور ملامت جائز نہیں بلکہ سکوت واجب ہے اور اس پر اجر کا حدیثِ پاک میں وعدہ ہے۔
حق حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ:
حضرت حسین رضی اللہ عنہ اور یزید کے باہمی اختلاف میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ حق پر تھے اور یزید کی حکومت نہ خلافتِ راشدہ تھی اور نہ خلافتِ عادلہ، اور یزید کے اپنے عملی فسق سے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ بَری ہیں۔
اولیاء اللہ:
ولی اللہ: اس شخص کو کہتے ہیں جو گناہوں سے بچے، ولی کی بنیادی پہچان اتباعِ سنت ہے، جو جتنا زیادہ متبعِ سنت ہوگا وہ اتنا بڑا ولی اللہ ہوگا، ولی سے کرامت اور کشف کا ظہور برحق ہے۔
ولایت: کسبی چیز ہے، کوئی بھی انسان عبادت کرکے اللہ تعالیٰ کا ولی بن سکتا ہے اور ولایت کا مدار کشف و الہام پر نہیں بلکہ تقویٰ اور اتباعِ سنت پر ہے۔
کراماتِ اولیاء:
اولیاء اللہ کی کرامات برحق ہیں اور کرامت چونکہ اللہ تعالیٰ کا فعل ہے جو ولی کے ہاتھوں ظاہر ہوتا ہے اور اس میں ولی کے اپنے اختیار کو کوئی دخل نہیں ہوتا، اس لئے کرامت کو شرک کہہ کر اس کا انکار کرنا یا کرامت سے دھوکہ کھاکر اولیاء اللہ کے لئے اختیارات کا عقیدہ رکھنا دونوں غلط ہیں، غیر متقی سے خرق عادت کام کا صدور استدراج ہے نہ کرامت، کرامت اللہ کی طرف سے ہوتی ہے اور استدراج شیطان کی طرف سے۔
تصوف:
روحانی بیماریوں کی تشخیص اور ان کے علاج کا نام تصوف ہے، جس کو قرآن کریم میں ’’تزکیہ نفس‘‘ اور حدیث میں لفظ ’’احسان‘‘ سے تعبیر کیا گیا ہے۔
بیعت:
عقائد و اعمال کی اصلاح فرض ہے، جس کے لئے صحیح العقیدہ، سنت کے پابند، دنیا سے بے رغبت و آخرت کے طالب، مجازِ بیعت، شیخِ طریقت سے بیعت ہونا مستحب بلکہ واجب کے قریب ہے۔
وسیلہ جائز ہے:
دعاء میں انبیاء علیہم السلام اور اولیاء اللہ کا وسیلہ ان کی زندگی میں یا ان کی وفات کے بعد (مثلاً یوں کہنا ’’اے اللہ! فلاں نبی یا فلاں بزرگ کے وسیلہ سے میری دعاء قبول فرما) جائز ہے، کیونکہ ذواتِ صالحہ کے ساتھ توسّل در حقیقت ان کے نیک اعمال کے ساتھ وسیلہ ہے اور اعمالِ صالحہ کے ساتھ وسیلہ بالاتفاق جائز ہے۔
جنّات:
اللہ تعالیٰ نے ایک مخلوق کو آگ سے پیدا فرمایا ہے جس کو ’’جِنّات‘‘ کہتے ہیں، ان میں اچھے بھی ہیں اور بُرے بھی، جنات بھی انسانوں کی طرح احکامِ شریعت کے مکلّف ہیں اور مرنے بعد انسانوں کی طرح ان کو بھی ثواب و عذاب ہوگا اور جنات میں کوئی نبی نہیں ہے، ان میں سے زیادہ مشہور اور معروف ابلیسِ لعین ہے، یہ فرشتے اور جنات اگرچہ ہمیں نظر نہیں آتے مگر ہم ان کے وجود کو ایمان بالغیب کے طور پر مانتے ہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی احادیثِ مبارکہ میں ان کا ذکر فرمایا ہے۔
اجتہاد و تقلید:
اکمالِ دین کی عملی صورت مجتہد کا اجتہاد اور مجتہد کے اجتہاد پر عمل یعنی تقلید ہے، پس مطلق اجتہاد اور مطلق تقلید ضروریاتِ دین میں سے ہے جس کا انکار کفر ہے، البتہ متعین چار ائمہ (امام اعظم ابوحنیفہ نعمان بن ثابت رحمہ اللہ، امام مالک بن انس رحمہ اللہ، امام محمد بن ادریس شافعی رحمہ اللہ اور امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ) کی فقہ اور تقلید کا انکار کرنا گمراہی ہے۔
چونکہ حق اہل السنۃ و الجماعۃ کے مذاہب اربعہ(حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی) میں بند ہے اس لئے نفس پرستی اور خواہش پرستی کے اس زمانہ میں ان چاروں اماموں سے کسی ایک کی تقلید واجب ہے۔
نوٹ:۔ ہم اور ہمارے سارے مشائخ تمام اصول و فروع میں امام اعظم ابوحنیفہ نعمان بن ثابت رحمۃ اللہ علیہ کے مقلِّد ہیں۔
اعتقادی و اجتہادی اختلاف:
اعتقادی اختلاف امت کے لئے زحمت ہے، جبکہ مجتہدین کا اجتہادی اختلاف امت کے لئے رحمت ہے اور مقلدین و مجتہدین دونوں کے لئے باعثِ اجر وثواب ہے، مگر درست اجتہاد پر دو اجر ہیں اور غلط اجتہاد پر ایک اجر، بشرطیکہ اجتہاد کنندہ میں اجتہاد کرنے کی اہلیت ہو۔
اصولِ اربعہ:
دین اسلام کے اعمال و احکام اور جامعیت کے لئے اصولِ اربعہ یعنی چار اصولوں (۱) کتاب اللہ (۲) سنتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (۳) اجماعِ امت (۴) قیاسِ شرعی، کا ماننا ضروری ہے اور ان اصولِ اربعہ سے ثابت شدہ مسائل کا نام فقہ ہے، جس کا انکار حدیث کے انکار کی طرح دین میں تحریف کا بہت بڑا سبب ہے۔
جہاد فی سبیل اللہ:
دین اسلام کی سربلندی کے لئے دشمنانِ اسلام سے مسلح جنگ کرنا اور اس میں خوب جان و مال خرچ کرنا ’’جہاد فی سبیل اللہ‘‘ کہلاتا ہے، دین اسلام کی سربلندی، دین کا تحفظ، دین کا نفاذ، دین کی بقاء، مسلمانوں کی عصمت، عزت و عظمت، شان و شوکت اور جان و مال کا واحد ذریعہ ’’جہاد فی سبیل اللہ‘‘ ہے۔
اللہ تعالیٰ قرآن کریم کی سورۃ التوبہ میں ارشاد فرماتے ہیں:
إِنَّ اللَّهَ اشْتَرَى مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنْفُسَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَيَقْتُلُونَ وَيُقْتَلُونَ (۱۱۱)
ترجمہ:۔ بے شک اللہ نے ایمان والوں کی جان اور مال کو جنت کے بدلہ میں خرید لیا ہے، وہ لڑتے ہیں اللہ کے راستہ میں، (مجرموں کو) قتل کرتے ہیں اور قتل ہوجاتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ قرآن کی سورۃ الصفّ میں فرماتے ہیں:
إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِهِ صَفًّا كَأَنَّهُمْ بُنْيَانٌ مَرْصُوصٌ(۴)
ترجمہ:۔ بے شک اللہ تعالیٰ ان لوگوں سے محبت کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے راستہ میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر لڑتے ہیں۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
مَنْ قَاتَلَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَوَاقَ نَاقَةٍ وَجَبَتْ لَهُ الْجَنَّةُ۔ (سنن ترمذی:۱۵۷۴)
ترجمہ:۔ جو شخص تھوڑی دیر کے لئے بھی اللہ تعالیٰ کے راستہ میں قتال کرتا ہے جنت اس کے لئے واجب ہوجاتی ہے۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ۲۷،مرتبہ خود جہاد کا سفر فرمایا اور اللہ کے راستہ میں لڑتے ہوئے شہید ہونے کی تمناء فرمائی ہے۔
جہاد کے اقسام:
(۱) اقدامی جہاد۔ (۲) دفاعی جہاد۔
اقدامی جہاد:
کافروں کے ملک میں جاکر کافروں سے لڑنا اقدامی جہاد کہلاتا ہے، اقدامی جہاد میں سب سے پہلے کافروں کو اسلام کی دعوت دی جاتی ہے، اگر وہ اسلام قبول نہ کریں تو ان سے جزیہ طلب کیا جاتا ہے اگر وہ جزیہ دینے سے انکار کردیں تو پھر ان سے قتال کیا جاتا ہے، عام حالات میں جہادِ اقدامی فرضِ کفایہ ہے اور اگر امیر المؤمنین نفیرِ عام (یعنی سب کو نکلنے) کا حکم دے تو اقدامی جہاد بھی فرض عین ہوجاتا ہے۔
دفاعی جہاد:
اگر کافر مسلمانوں کے ملک پر حملہ کردیں تو ان مسلمان کا کافروں کے حملے کو روکنا دفاعی جہاد کہلاتا ہے، اگر وہ مسلمان ان کے روکنے کی طاقت نہ رکھتے ہوں اور اگر طاقت رکھتے ہوں مگر سستی کرتے ہوں تو ہمسایہ ممالک کے مسلمان ان کے حملے کو روکیں۔
دفاعی جہاد فرض عین ہے:
جہاد کرنے سے پہلے جہاد کی تربیت کرنا بھی ضروری ہے، جہاد کی تربیت کرنا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے، قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے سورۂ انفال میں ارشاد فرمایا:
وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّةٍ۔ (۶۰)
ترجمہ:۔ اور کافروں کے ساتھ لڑنے کے لئے جتنی قوت حاصل کر سکتے ہو کرو۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو جہاد کی توفیق عطاء فرمائے اور لڑتے ہوئے میدانِ جہاد میں شہادت کی موت عطاء فرمائے۔ (آمین)
موت اور موت کے بعد کے متعلق عقیدہ:
جب انسان مرجاتا ہے تو اس کو جس جگہ دفن کیا جاتا ہے اس کو ’’قبر‘‘ کہتے ہیں اور اگر کوئی مردہ جل کر راکھ ہوجائے یا کوئی انسان پانی میں غرق ہوجائے یا کسی انسان کو کوئی جانور کھا جائے تو جہاں جہاں بھی اُس کے ذرّات ہوں گے ان کے ساتھ روح کا تعلق قائم کرکے اسی جگہ کو اس انسان کے لئے قبر بنادیا جاتا ہے، مردے سے قبر مںی سوالات کے لئے فرشتے ’’منکَر و نکیر‘‘ آتے ہیں، وہ تین سوال کرتے ہیں:
(۱) من ربُّکَ۔ تیرا رب کون ہے؟
(۲) مَنْ نبیُّکَ۔ تیرا نبی کون ہے؟
(۳) مَا دینُکَ۔ تیرا دین کیا ہے؟
جو انسان ان تین سوالات کا درست جواب دیتا ہے اس کو قبر میں سکون اور آرام ملتا ہے، اس کے لئے جنت کی کھڑکی کھول دی جاتی ہے اور اس کی قبر کو جنت کا باغ بنادیا جاتا ہے۔
اور جن ان تین سوالوں کا درست جواب نہیں دیتا اس کی قبر کو اس کے لئے تنگ کردیا جاتا ہے اور قبر کو جہنم کا گڑھا بنادیاجاتا ہے۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
إِنَّمَا الْقَبْرُ رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ الْجَنَّةِ أَوْ حُفْرَةٌ مِنْ حُفَرِ النَّارِ۔ (ترمذی:۲۳۸۴)
’’قبر جنت کے باغوں میں ایک باغ ہے یا جہنم کے گڑوھوں میں سے ایک گڑھا ہے‘‘۔
قیامت:
اللہ تعالیٰ جب اس عالم کو فناء کرنا چاہیں گے تو حضرت اسرافیل علیہ السلام کو حکم ہوگا تو وہ صور پھونکیں گے، جس کی آواز شروع میں نہایت دھیمی اور سریلی ہوگی جو آہستہ آہستہ بڑھتی چلی جائے گی جس سے انسان، جنات، چرند پرند اور ہر جاندار سب حیرت کے عالم میں بھاگنے لگیں گے، جب آواز کی شدت اور بڑھے گی تو سب کے جگر ٹکڑے ٹکڑے ہوں جائیں گے، پہاڑ ریزہ ریزہ ہوکر روئی کی طرح اڑنے لگیں گے، آسمان پھٹ جائے گا، ستارے جھڑ جائیں گے، اللہ ذات کے علاوہ کوئی چیز باقی نہیں رہے گی۔
کچھ عرصہ بعد اللہ تعالیٰ حضرت اسرافیل علیہ السلام کو زندہ کرکے دوبارہ صور پھونکنے کا حکم دیں گے جس سے پورا عالم ایک پھر وجود میں آجائے گا، مردے قبروں سے اٹھیں گے، یہی قیامت کا دن ہوگا، ہر بندے کو بارگاہِ الٰہی میں پیش ہونا پڑے گا، رب کے سامنے آکر ہم کلام ہونا پڑے گا، درمیان میں کوئی ترجمان نہیں ہوگا، دنیا میں کے ہوئے سب اعمال سامنے ہوں گے، ان کے بارے میں جواب دہی ہوگی، انسان کا ہر عمل اللہ کے علم، لوح محفوظ اور کراماً کاتبین کے رجسٹر میں محفوظ ہوگا۔
جس طرح ٹیپ ریکارڈر انسان کی آواز کو محفوظ کرلیتا ہے، اسی طرح زمین بھی انسان کے ہر قول و فعل کو ریکارڈ کر رہی ہے اور قیامت کے دن وہ سب کچھ اُگل دے گی اور گواہی دے گی کہ اس انسان نے فلاں وقت اور فلاں جگہ یہ کام (اچھا یا بُرا) کیا تھا، انسانی اعضاء و جوارح کو بھی اُس دن زبان مل جائے گی جو انسان کے حق میں یا اس کے خلاف بولیں گے، اس دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم شفاعت فرمائیں گے، آپؐ کے پیروکاروں کو یہ سعادت نصیب ہوگی اور گمراہ اس سے محروم رہیں گے۔
اس دن ایک ترازو قائم ہوگا جس کے ذریعہ اعمال تولے جائیں گے، جبکہ جہنم کی پشت پر پلصراط قائم ہوگا جو بال سے زیادہ باریک اور تلوار سے زیادہ تیز ہوگا، ہر شخص کی رفتار اس کے اعمال کے مطابق ہوگی، قیامت کا دن دنیا کے دنوں کے اعتبار سے پچاس ہزار (۵۰۰۰۰) سال کا ہوگا، اس دن موت کو ایک دنبے کی شکل میں لاکر ذبح کردیا جائے گا، جو اس بات کی علامت ہوگی کہ اس کے بعد کسی کو موت نہیں آئے گی، اہل جنت اور اہل جہنم سب کو ہمیشہ رہنا ہے، یہ فیصلہ کا دن ہے، انجام کار جنّتی جنت میں اور دوزخی دوزخ میں چلے جائیں گے۔
قیامت کی علامتِ صغریٰ:
یہ وہ علامات ہیں جن میں بعض کا ظہور تو آج سے کافی عرضہ پہلے ہوچکا ہے اور بعض کا ظہور ہو رہا ہے اور بڑی علامات ظاہر ہونے تک سلسلہ جاری رہے گا، علاماتِ صغریٰ بہت ساری ہیں جن میں سے چند یہ ہیں:
(۱) چرواہے اور کم درجے کے لوگ فخر و نمود کے طور پر اونچی اونچی عمارتیں بنائیں گے۔
(۲) ظلم و ستم عام ہوجائے گا۔
(۳) شرم و حیاء اٹھ جائے گی۔
(۴) شراب کو ’’نبیذ‘‘ سود کو ’’خرید و فروخت‘‘ اور رشوت کو ’’ہدیہ‘‘ کا نام دے دیا جائے گا۔
(۵) علم اٹھ جائے گا اور جہل زیادہ ہوجائے گا۔
(۶) سرکاری خزانہ کو حکومتی لوگ لوٹیں گے۔
(۷) زکوٰۃ کو ٹیکس سمجھا جائے گا۔
(۸) دین کو دنیا کے لئے استعمال کیا جائے گا۔
(۹) شوہر بیوی کی اطاعت کرے گا اور ماں کی نافرمانی کرے گا۔
(۱۰) دوست سے پیار کرے گا اور باپ سے بے توجہی کرے گا۔
(۱۱) ذلیل اور فاسق شخص قوم کے سردار بن جائیں گے۔
(۱۲) گانا گانے والیوں کا بول بولا ہوگا۔
(۱۳) مسجدوں میں زور زور سے باتیں ہوں گی۔
(۱۴) شراب عام ہوگی۔
(۱۵) اس امت کے آخری لوگ پہلے لوگوں پر لعنت کریں گے۔
(۱۶) مردوں میں ریشم عام ہوجائے گا۔
(۱۷) جھوٹ کا رواج عام ہوجائے گا۔
قیامت کی علامتِ کُبریٰ:
وہ نشانیاں جن کی نسبت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی ہے کہ وہ قیامت کے قریب ظاہر ہوں گی، جیسے امام مہدیؑ کا ظہور، دجال کا خروج، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا آسمان سے نزول، یاجوج ماجوج اور دابۃ الارض کا خروج وغیرہ۔
(۱) ظہور امام مہدی علیہ السلام:
قیامت کی علاماتِ کبریٰ میں پہلی علامت حضرت امام مہدی علیہ السلام کا ظہور ہے، مہدی لغت میں ہر ہدایت یافتہ کو کہتے ہیں، لغوی معنیٰ کے لحاظ سے ہر اس عالم کو جس کا علم صحیح ہو اس کو مہدی کہا جاسکتا ہے، بلکہ ہر سچے اور پکے مسلمان کو مہدی کہا جاسکتا ہے، لیکن جس ’’مہدی موعود‘‘ کا ذکر احادیث میں آیا ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اخیر زمانہ میں ان کے ظہور کی خبر دی ہے اس سے ایک خاص شخص مراد ہیں جو حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی اولاد میں سے ہوں گے، ان کا نام محمد اور ان کے والد کا نام عبد اللہ ہوگا، سیرت میں حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مشابہ ہوں گے، مدینہ کے رہنے والے ہوں گے، مکہ میں ظہور ہوگا، شام اور عراق کے اولیاء اور ابدال ان کے ہاتھ پر بیعت کریں گے اور جو خزانہ خانۂ کعبہ میں مدفون ہے وہ نکال کر مسلمانوں پر تقسیم فرمائیں گے، پہلے عرب اور پھر تمام روئے زمین کے بادشاہ ہوں گے، دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے، جیسا کہ اس سے بیشتر ظلم و ستم سے بھری ہوگی، شریعتِ محمدیہ کے مطابق ان کا عمل ہوگا، امام مہدیؑ کے زمانہ میں دجال نکلے گا اور انہی کے زمانہ بادشاہت میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے دمشق کے مشرقی منارہ پر عصر کی نماز کے قریب نازل ہوں گے اور امام مہدی علیہ السلام کے پیچھے نماز ادا فرمائیں گے، امام مہدی علیہ السلام نصاریٰ سے جہاد کریں گے اور قسطنطنیہ کو فتح کریں گے۔
(۲) خروجِ دجال:
قیامت کی علاماتِ کبریٰ میں دوسری علامت خروجِ دجال ہے، جو احادیث متواترہ اور اجماعِ امت سے ثابت ہے، دجال دجل سے مشتق ہے جس کے معنیٰ لغت میں بڑے جھوٹ، مکر، فریب اور حق و باطل کو خلط ملط کرنے کے ہیں، لغوی معنیٰ کے لحاظ سے ہر جھوٹے اور مکار کو دجال کہہ سکتے ہیں، لیکن حدیث شریف میں جس دجال موعود کے خروج خبر دی گئی ہے، وہ ایک خاص کافر شخص کا نام ہے جو قوم یہود سے ہوگا اور مسیح لقب کا ہوگا، اس لقب کی وجہ یہ ہے کہ وہ کانا ہوگا، اور مسیح کا مطلب ہوا جس کی آنکھ ہاتھ پھیر کر صاف اور ہموار کردی گئی ہو، ایک آنکھ میں انگور کے دانے کے برابر ناخونہ ہوگا، دونوں کے آنکھوں کے درمیان ’’ک ف ر‘‘ لکھا ہوا ہوگا۔
سب سے پہلے اس کا ظہور شام اور عراق کے درمیان ہوگا اور نبوت کا دعویٰ کرے گا، پھر اصفہان آئے گا، وہاں ستر ہزار یہودی اس کے تابع ہوجائیں گے، بعد ازاں وہ خدائی کا دعویٰ کرے گا اور زمین میں فساد پھیلاتا پھرے گا، حق تعالیٰ بندوں کے امتحان کے لئے اس کے ہاتھ سے قسم قسم کے کرشمے اور شعبدے ظاہر فرمائیں گے، لیکن اخیر میں وہ ایک شخص کو قتل کرکے زندہ کرے گا اور پھر اس کو قتل کرنا چاہے گا لیکن اس کے قتل پر ہرگز قادر نہ ہوگا، تو اس سے صاف ظاہر ہو جائے گا کہ یہ شخص دعوے خدائی میں بالکل جھوٹا ہے۔
اول تو اس کا کانا ہونا ہی اس کے خدا نہ ہونے کی نہایت روشن اور بیِّن دلیل تھی، دوم یہ کہ اس کی آنکھوں کے درمیان ’’ک ف ر‘‘ لکھا ہوگا، سوم یہ کہ قتل کرنا ایسا فعل ہے جو بشر کی قدرت میں داخل ہے، جب اس میں اب یہ قدرت باقی نہ رہی کہ وہ دوبارہ قتل کرسکے تو وہ خدا کیونکر ہوسکتا ہے؟ اور یہ جو چند روز اس کے ہاتھ سے احیاءِ موتیٰ کا ظہور ہوتا رہا فی الحقیقت اللہ تعالیٰ کا فعل تھا جو اس کے ہاتھ سے محض استدراج، ابتلاء اور امتحان کے طور پر کرایا گیا۔
خروج دجال کب ہوگا؟
حضرت امام مہدی علیہ السلام ظاہر ہونے کے بعد نصاریٰ سے جہاد و قتال کریں گے یہاں تک کہ جب قسطنطنیہ کو فتح کرکے شام واپس ہوں گے اور شہر دمشق میں مقیم ہوں گے اور مسلمانوں کے انتظام میں مصروف ہوں گے اس وقت دجال کا خروج ہوگا، دجال مع اپنے لشکر کے زمین میں فساد مچاتا پھرے گا، یمن سے ہوکر مکہ مکرمہ کا رخ کرے گا، مکہ مکرمہ پر فرشتوں کا پہرہ ہوگا اس لئے دجال مدینہ منورہ کا ارادہ کرے گا، مدینہ منورہ کے دروازہ پر بھی فرشتوں کا پہرہ ہوگا اس لئے دجال مدینہ منورہ میں بھی داخل نہ ہوسکے گا، بالآخر پھر پھرا کر شام واپس آئے گا، حضرت عیسیٰ علیہ السلام دمشق کی جامع مسجد کے مشرقی مینارہ پر دو فرشتوں کے بازؤوں پر ہاتھ رکھے ہوئے آسمان سے نازل ہوں گے اور اس لعین کو قتل کردیں گے، جیسا کہ آئندہ علامات کے بیان میں آئے گا۔
(۳) نزولِ عیسیٰ بن مریم علیہ السلام:
قیامت کی علامات کبریٰ مںی سے تیسری علامت یہ ہے کہ قیامت کے قریب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا آسمان سے نازل ہونا اور دجال کو قتل کرنا ہے جو برحق اور سچ ہے، اور قرآن کریم و احادیثِ متواترہ اور اجماعِ امت سے ثابت ہے، اس کی تصدیق کرنا اور اس پر ایمان لانا فرض اور ضروری ہے۔
کانا دجال کا خروج ہوچکا ہوگا اور امام مہدی علیہ السلام دمشق کی جامع مسجد میں نماز کے لئے تیاری میں ہوں گے، یکایک حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے دمشق کی جامع مسجد کے مشرقی مینارہ پر دو فرشتوں کے بازوؤں پر ہاتھ رکھے ہوئے نزول فرمائیں گے اور نماز سے فراغ کے بعد حضرت امام مہدی علیہ السلام کی معیت میں دجّال پر چڑھائی کریں گے۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی سانس میں یہ تاثیر ہوگی کہ کافر اس کی تاب نہ لاسکے گا، اس کے پہنچتے ہی مرجائے گا اور دجال حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو دیکھتے ہی ایسا پگھلنے لگے گا جیسے نمک پانی میں پگھل جاتا ہے، حضرت عیسیٰ علیہ السلام دجال کا تعاقب کریں گے اور ’’باب لُد‘‘ جاکر اس کو اپنے نیزے سے قتل کردیں گے اور اس کا خون مسلمانوں کو دکھائیں گے، بعد ازاں لشکرِ اسلام کا مقابلہ دجال کے لشکر سے ہوگا جو یہودی ہوں گے ان کو خوب قتل کرے گا اور اسی طرح زمین دجال اور یہود کے ناپاک وجود سے پاک ہوجائے گی، جن کا دعویٰ یہ تھا کہ ہم نے اللہ کے رسول کو قتل کردیا وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اب تک آسمان پر زندہ تھے اور اب آسمان سے ہمارے قتل کے لئے زمین پر اُترے ہیں۔
حضرت عیسیٰ اور حضرت امام مہدی علیہما السلام دو الگ الگ شخصیات ہیں:
ظہورِ امام مہدی علیہ السلام اور نزولِ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں جو احادیث آئی ہیں ان سے یہ امر روزِ روشن کی طرح واضح ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت امام مہدی علیہ السلام دو شخصیتیں علاحدہ علاحدہ ہیں، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ کے وقت سے لے کر اس وقت تک کوئی اس کا قائل نہیں ہوا کہ نازل ہونے والے مسیح اور ظاہر ہونے والے مہدی ایک ہی شخص ہوں گے! کیونکہ…..
(۱) حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام نبی اور رسول ہیں اور حضرت امام مہدی علیہ السلام امتِ محمدیہ کے خلیفہ ہوں گے، نبی نہیں ہوں گے۔
(۲) حضرت مسیح بن مریم علیہ السلام حضرت مریم علیہا السلام کے بطن سے بغیر باپ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے تقریباً ۶۰۰،سال پہلے بنی اسرائیل میں پیدا ہوئے اور حضرت امام مہدی علیہ السلام قیامت کے قریب مدینہ منورہ میں پیدا ہوں گے، ان کے والد کا نام عبد اللہ ہوگا۔
(۳) حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام بنی اسرائیل میں سے ہیں اور حضرت امام مہدی علیہ السلام حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا کی اولاد سے ہوں گے۔
ایک شبہ اور اس کا ازالہ:
ایک روایت میں آیا ہے کہ ’’لَا مَهْدِيَّ إِلَّا عِيسَى بْنِ مَرْيَمَ کہ نہیں ہیں کوئی مہدی مگر حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام‘‘، اس راویت سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام اور مہدی دونوں ایک ہی شخص ہیں۔
جواب:
یہ ہے اوّل تو یہ روایت محدثین کے نزدیک ضعیف اور غیر مستند ہے جیسا کہ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے فتح الباری (۶،۳۵۸) میں اس کی تصریح کی ہے، دوم یہ کہ یہ روایت ان بے شمار احادیثِ صحیحہ اور متواترہ کے خلاف ہے جن سے حضرت عیسیٰ علیہ اور امام مہدی علیہ السلام کا دو الگ الگ شخص ہونا خوب صاف ظاہر ہے اور متواتر کے مقابلہ میں ضعیف اور منکر روایت معتبر نہیں ہوتی۔
(۴) خروج یاجوج ماجوج:
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول اور دجال کی ہلاکت کے کچھ عرصہ بعد حضرت امام مہدی علیہ السلام انتقال فرما جائیں گے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام ان کی نماز جنازہ پڑھائیں گے، بیت المقدس میں ان کا انتقال ہوگا اور وہیں مدفون ہوں گے، امام مہدی علیہ السلام کی وفات کے بعد تمام انتظام حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ہاتھ میں ہوگا اور زمانہ نہایت سکون اور راحت سے گذر رہا ہوگا کہ یکایک وحی نازل ہوگی کہ ’’عیسیٰ! تم میرے بندوں کو کوہِ طور پر لے جاؤ! میں اب ایک ایسی قوم نکالنے والا ہوں کہ جس کے ساتھ کسی کو لڑائی کی طاقت نہیں، وہ قوم یاجوج ماجوج کی قوم ہے جو یافث بن نوح کی اولاد میں سے ہے۔
شاہ ذو القرنین نے دو پہاڑوں کے درمیان ایک نہایت مستحکم آہنی سیسہ کی دیوار قائم کرکے ان کا راستہ بند کردیا تھا، قیامت کے قریب وہ دیوار ٹوٹ جائے گی اور یہ غارت گر قوم ٹڈی دل کی طرح ہر طرف نکل پڑے گی اور دنیا میں فساد پھیلائے گی، (جس کا ذکر قرآن کریم کے سورۂ کہف کی آیات ۹۳ تا ۹۸ میں ہے) اس وقت حضرت عیسیٰ علیہ السلام اپنے ساتھیوں کو لے کر کوہِ طور کی طرف چلے جائیں گے، بارگاہِ خداوندی میں یاجوج ماجوج کو طاعون سے ہلاکت کی دعاء کریں گے، جبکہ باقی لوگ اپنے اپنے طور پر قلعہ بن اور محفوظ مکانوں میں بند ہوجائیں گے۔
اللہ تعالیٰ یاجوج ماجوج کو طاعون کی بیماری سے ہلاک کردیں گے اور اس بلاءِ آسمانی سے سب مرجائیں گے، بعد ازاں اللہ تعالیٰ لمبی گردن والے پرندے بھیجے گا جو بعض کو تو کھا جائیں گے اور بعض کو اٹھاکر سمندر میں ڈال دیں گے، پھر بارش ہوگی جس کے سبب ان مرداروں کی بدبو سے نجات ملے گی اور زندگی نہایت راحت اور آرام سے گذرے گی، حضرت عیسیٰ علیہ السلام چالیس (۴۰) یا پینتالیس (۴۵) سال زندہ رہ کر مدینہ منورہ میں انتقال فرمائیں گے، حضرت عیسیٰ علیہ السلام اپنے بعد ایک قحطانی شخص کو اپنا خلیفہ مقرر کر جائیں گے جس کا نام ’’جہجاہ‘‘ ہوگا، وہ خوب اچھی طرح عدل و انصاف کے ساتھ حکومت کرے گا مگر ساتھ ہی شر اور فساد بھی پھیلنا شروع ہوجائے گا۔
(۵) خروجِ دُخان یعنی دھویں کا ظاہریں ہونا:
جہجاہ کے بعد چند بادشاہ ہوں گے، کفر و الحاد، شر اور فساد بڑھنا شروع ہوجائے گا، یہاں تک کہ ایک مکان مغرب میں اور ایک مکان مشرق میں جہاں منکرینِ تقدیر رہتے ہوں گے وہ دھنس جائے گا اور انہیں دِنوں آسمانوں سے ایک بہت بڑا دھواں ظاہر ہوگا جو آسمان سے زمین تک تمام چیزوں کو گھیر لے گا، جس سے لوگوں لوگوں کا دم گھٹنے لگے گا، وہ دھواں چالیس دن تک رہے گا، مسلمانوں کو زُکام سا معلوم ہوگا اور کافروں پر بے ہوشی طاری ہوجائے گی، کسی کو دو دن میں اور کسی کو تین دن میں ہوش آئے گا، قرآن کریم میں اس دُخان کا ذکر ہے:
فَارْتَقِبْ يَوْمَ تَأْتِي السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مُبِينٍ۔ (سورۃ الدخان:۱۰)
ترجمہ:۔ پس اس روز کا انتظار کیجئے کہ آسمان کی طرف سے ایک دھواں نمودار ہوگا۔
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ یہ دخان کی علامت گذر چکی ہے، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بد دعاء سے اس زمانہ میں سخت قحط پڑا تھا جس کی شدت سے کفار زمین پر دھواں دیکھتے تھے۔
(۶) دابۃ الارض کا نکلنا:
قیامت کی ایک بڑی نشانی زمین سے دابۃ الارض کا نکلنا ہے، جو نصِّ قرآنی سے ثابت ہے:
وَإِذَا وَقَعَ الْقَوْلُ عَلَيْهِمْ أَخْرَجْنَا لَهُمْ دَابَّةً مِنَ الْأَرْضِ تُكَلِّمُهُمْ أَنَّ النَّاسَ كَانُوا بِآيَاتِنَا لَا يُوقِنُونَ۔ (النمل:۸۲)
ترجمہ:۔ اور جب قیامت کا وعدہ پورا کرنے کا وقت قریب الوقوع ہوجائے گا تو اس وقت ہم لوگوں کی عبرت کے لئے زمین سے ایک عجیب و غریب جانور نکالیں گے جو لوگوں سے باتیں کرے گا (اور کہے گا کہ اب قیامت قریب آگئی ہے، یہ جانور زمین ہم اس لئے نکالیں گے) کہ لوگ ہماری نشانیوں کا یقین نہیں کرتے تھے۔
جس روز آفتاب مغرب سے طلوع کرے گا اسی دن یہ عجیب الخلقت جانور زمین سے نکلے گا، مکہ مکرمہ کا ایک پہاڑ جس کو کوہِ صفا کہتے ہیں وہ پھٹے گا، اس میں سے ایک عجیب الخلقت جانور نکلے گا جس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی کو پتھر سے نکالا تھا اسی طرح اپنی قدرت سے قیامت کی خبر دے گا، مؤمنوں کے چہرے پر ایک نورانی نشانی لگائے گا جس سے مؤمنین کے چہرے روشن ہوجائیں گے اور کافروں کی آنکھوں کے درمیان ایک مہر لگائے گا جس سے ان کے چہرے سیاہ ہوجائیں گے، اور ارشادِ باری تعالیٰ وَامْتَازُوا الْيَوْمَ أَيُّهَا الْمُجْرِمُونَ کے مطابق اس طرح مسلم اور مجرم کا امتیاز شروع ہوجائے گا اور پورا امتیاز حساب و کتاب کے بعد ہوگا۔
(۷) ٹھنڈی ہوا کا چلنا:
دابۃ الارض کے نکلنے کے کچھ عرصہ بعد ایک ٹھنڈی ہوا چلے گی جس سے تمام اہلِ ایمان اور اہلِ خیر مرجائیں گے، یہاں تک کہ اگر کوئی مومن کسی غار یا پہاڑ میں چھپا ہوا ہوگا تو وہاں بھی یہ ہوا پہنچے گی اور وہ شخص اس ہوا سے مرجائے گا، نیک لوگ سب مرجائیں اور نیکی اور بدی میں فرق کرنے والا بھی کوئی باقی نہ رہے گا۔
(۸) حبشیوں کا غلبہ اور خانۂ کعبہ کو ڈھانا:
بعد ازاں حبشہ کے کافروں کا غلبہ ہوگا اور زمین پر ان کی سلطنت ہوگی، ظلم و فساد عام ہوگا، بے شرمی اور بے حیائی کھلم کھلا ہوگی، چوپایوں (جانوروں) کی طرح لوگ سڑکوں پر جماع کریں گے، وہ خانہ کعبہ کی ایک ایک اینٹ کرکے توڑدیں گے۔
حدیث میں ہے:
لَا يَسْتَخْرِجُ كَنْزَ الْكَعْبَةِ إِلَّا ذُو السُّوَيْقَتَيْنِ مِنْ الْحَبَشَةِ۔ (ابوداؤد:۳۷۵۵)
ترجمہ:۔ خانہ کعبہ کے (امام مہدی علیہ السلام کے بعد جمع ہونے والے) خزانہ کو چھوٹی پنڈلیوں والا حبشہ کا رہنے والا آدمی نکالے گا۔
(۹) آگ کا نکلنا:
قیامت کی آخری نشانی یہ ہے کہ وسط عدن سے ایک آگ نکلے گی، لوگوں کو گھیر کر ملکِ شام کی طرف لائے گی، جہاں مرنے کے بعد حشر ہوگا، (یعنی قیامت میں جو نئی زمین بنائی جائے گی اس کا وہ حصہ جو موجودہ زمین کے ملک شام کے مقابل ہوگا) یہ آگ لوگوں سے دن رات میں کسی وقت جدا نہ ہوگی اور جب صبح ہوگی اور آفتاب بلند ہوجائے گا تو یہ آگ لوگوں کو ہنکائے گی، جب لوگ ملک شام میں پہنچ جائیں گے تو یہ آگ غائب ہوجائے گی۔
صحیح مسلم میں حضرت حذیفہ بن اسید غفاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قیامت کی دس علامتیں بیان فرمائیں، ان میں سے آخری علامت یہ ہے:
نَارٌ تَخْرُجُ مِنْ الْيَمَنِ تَطْرُدُ النَّاسَ إِلَى مَحْشَرِهِمْ۔ (صحیح مسلم،ح:۵۱۶۲)
ترجمہ:۔ ایک آگ یمن سے نکلے گی اور لوگوں کو ارضِ محشر یعنی سر زمینِ شام کی طرف ہنکا کر لے جائے گی۔
اس کے بعد کچھ عرصہ نہایت عیش و آرام سے گذرے گا، کفر اور بت پرستی پھیل جائے گی اور زمین پر کوئی خدا کا نام لینے والا باقی نہ ہوگا، اس وقت قیامت قائم ہوگی اور حضرات اسرافیل علیہ السلام کو صور پھونکنے کا حکم ہوگا۔
تنبیہ:
اکثر احادیث میں خروجِ نار کو قیامت کی آخری نشانی بتایا گیا ہے، لیکن صحیح بخاری کی ایک اور روایت میں ہے کہ اوّل نشانی قیامت کی وہ آگ ہوگی جو لوگوں کو مشرق سے مغرب کی طرف نکالے گی، ان دونوں روایتوں میں تطبیق یہ ہے کہ گذشتوں علامتوں کے اعتبار سے یہ آخری نشانی ہے، لیکن اس اعتبار سے کہ اس علامت کے ظہور کے بعد اب دنیا کی کوئی چیز باقی نہ رہے گی؛ بلکہ اس کے بعد متصل نفخِ صور واقع ہوگا، اس کو اوّل نشانی کہا گیا ہے۔
اعتبارِ خاتمہ کا ہے:
عقیدہ: عمر بھر کوئی کیسا ہی بھلا ہو مگر جس حالت پر اس کا خاتمہ ہوتا ہے اسی کے موافق اس کا اچھا برا بدلہ ملتا ہے۔
عقیدہ: آدمی عمر بھر میں جب کبھی توبہ کرے یا مسلمان ہو، اللہ کے یہاں مقبول ہے، البتہ مرتے دم جب سانس ٹوٹنے لگے اور عذاب کے فرشتے دکھائی دینے لگیں اس وقت نہ توبہ قبول ہوتی ہے اور نہ ایمان۔
آئینۂ ایمان
مولانا مفتی سید مختار الدین صاحب

بنیادی عقائدپانچ ہیں:
(۱) اللہ تعالیٰ پر ایمان، (۲) فرشتوں پر ایمان، (۳) اللہ کی کتابوں پر ایمان، (۴) اللہ کے نبیوں پر ایمان، (۵) روزِ آخرت پر ایمان۔
ان پانچ امور کے اندر اسلام کے تمام عقائد و نظریات آجاتے ہیں، مثلاً تقدیر، یہ اللہ تعالیٰ کے لامحدود علم و حکمت و قدرت کے ساتھ لازم ہے، اس کی نفی العیاذ باللہ اللہ کے علم و حکمت اور قدرت کو محدود کرنا ہے، اب عقائد کی ضروری تفصیل سمجھ لیں:
اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے کا خلاصہ:
انسان اس بات کو تسلیم کرے کہ کائنات کا ذرّہ ذرّہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہے، اور تمام کائنات میں صرف اسی کی مشیت اور قانونِ مشیت چل رہا ہے، صرف وہی نفع و نقصان، عزت و ذلت کا مالک ہے، اور حقیقی نفع و عزت اور خیر صرف اللہ تعالیٰ کے قانون حکم کے مطابق چلنے (بندگی) میں ہے اور اس کے خلاف سراسر نقصان و خسران ہے۔
اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے کا اثر:
(۱) اس عقیدہ کا لازمی اثر یہ ہوگا کہ ایسے شخص کا اللہ تعالیٰ اور اس کے ہر قانون، ہر حکم اور ہر بات و ہدایت پر کامل اعتماد و بھروسہ ہوگا۔
(۲) ایسا شخص کامل طور پر اللہ تعالیٰ اور اس کے قانون و احکامات و ہدایات کے حوالے ہوجاتا ہے اور صرف اس کی بندگی کرتا ہے اور صرف ایک اللہ تعالیٰ کی بندگی کو اپنا نصب العین بنالیتا ہے۔
(۳) وہ صرف ایک اللہ تعالیٰ اور اس کی خوشنودی کو چاہے گا، صرف اسی سے اور اس کے احکامات و ہدایات پر چلنے میں نفع و خیر کی امید رکھے گا اور صرف اسی سے اور اس کے قانون و حکم کے خلاف ورزی سے ڈرے گا اور صرف اسی سے مانے گا، اس طرح اس کے طمع و خوف، امید و بیم کا مرکز و مرجع اور معبود صرف ایک اللہ رب العالمین کا ہوکر رہ جاتا ہے، اور جو شخص اللہ تعالیٰ کے قانون کے مقابلہ میں دوسروں کے قوانین پر اعتماد کرکے مطمئن ہوجاتا ہے، اور اللہ تعالیٰ کے قانون کی خلاف ورزی کے بجائے دوسروں کے قوانین کی خلاف ورزی کو باعثِ نقصان و خسران سمجھتا ہے یا خوف و امید کی حالتوں میں اللہ تعالیٰ ک وچھوڑ کر دوسروں کی طرف متوجہ ہوجاتا ہے یا اللہ تعالیٰ کے سواء دوسروں کو ذرّہ برابر بھی نفع و نقصان کا مالک سمجھتا ہے تو ایسا شخص دعوائے ایمان کے باوجود ایمان سے خالی اور اپنے دعوے میں جھوٹا ہے۔
فرشتوں پر ایمان لانے کا مطلب:
فرشتے بے اختیار ہیں:
ان کے اندر برائی اور نافرمانی کا مادّہ نہیں رکھا گیا، ان کے پاس ذرّہ برابر بھی اختیار نہیں اور نہ ہوسکتا ہے، نہ وہ اپنی مرضی سے کچھ کرسکتے ہیں، اس لئے یہ ملکوتی قوتیں بلا چون و چرا صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے قانون و حکم کے تحت چلتی ہیں اور ہر آن سرگرمِ عمل رہتی ہیں، فرشتوں کے متعلق قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
لَا يَعْصُونَ اللَّهَ مَا أَمَرَهُمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ۔ (التحریم:۶)
وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی نافرمانی نہیں اور صرف وہی کرتے ہیں جو انہیں حکم دیا جاتا ہے۔
فرشتوں کی مختلف جماعتیں:
کائنات کے نظم و نسق چلانے کے لئے فرشتوں کی مختلف جماعتیں ہیں اور ہر ایک کے لئے ایک کام مقرر ہے، وہ صرف اسی کام پر لگی رہتے ہیں، وہ اپنے کام میں ذرہ برابر خیانت نہیں کرتے اور نہ سہل نگاری سے کام لیتے ہیں، جیسے کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے پیغامات و احکامات پیغمبروں کے پاس لاتے تھے۔
فرشتے انسانوں کے اعمال کے نتائج مرتب کرتے ہیں:
اسی طرح بعض فرشتے انسان کے ساتھ ساتھ ہوتے ہیں، جیسے کراماً کاتبین، جن میں سے ایک فرشتہ نیک کام لکھتا ہے اور دوسرا فرشتہ بُرے کام لکھتا ہے، اسی طرح یہ فرشتے اللہ تعالیٰ کے حکم کے تحت ہر عمل کا نتیجہ مرتب کرتے ہیں اور وہ نتیجہ انسان کی ذات پر اثر انداز ہوتا ہے، اور یہی اعمال قانونِ الہٰی کے مطابق مستقبل میں نفع و خیر یا نقصان و خسران کی صورتوں میں سامنے آجاتے ہیں۔
وَ إِنَّ عَلَيْكُمْ لَحَافِظِينَ۔ كِرَامًا كَاتِبِينَ۔ يَعْلَمُونَ مَا تَفْعَلُونَ۔ (الانفطار:۱۰تا۱۲)
اور بے شک تم پر نگہبان مقرر ہیں، معزز لکھنے والے، وہ جانتے ہیں جو کچھ تم کرتے ہو۔
إِذْ يَتَلَقَّى الْمُتَلَقِّيَانِ عَنِ الْيَمِينِ وَعَنِ الشِّمَالِ قَعِيدٌ۔ مَا يَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ إِلَّا لَدَيْهِ رَقِيبٌ عَتِيدٌ۔ (قٓ:۱۷،۱۸)
جبکہ دو فرشتے (انسان کے اقوال و افعال کو) لینے (ضبط و ریکارڈ کرنے) والے (ہر وقت انسان کے) دائیں بائیں بیٹھے رہتے ہیں، وہ انسان جو بھی لفظ بولتا ہے تو اس کے پاس ایک مستعد نگران موجود رہتا ہے۔ (کہ ادھر اس کی زبان سےکوئی لفظ نکلا اور ادھر فوراً ایک محافظ اور نگران نے محفوظ لیا، کیا مجال کہ کوئی ایک عمل اور ایک لفظ بھی ریکارڈ سے اور اپنے نتیجہ خیزی سے رہ سکے)
اسی طرح بعض فرشتے ایسے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے قانون کے مطابق آفتوں اور مضر اثرات سے انسان کی حفاظت کرنے پر مقرر ہیں۔
کچھ فرشتے انسان کے مرنے کے بعد برزخ میں اس سے سوال کرنے پر مقرر ہیں، ہر انسان کی قبر اور برزخ کی زندگی میں دو فرشتے آتے ہیں، جنہیں منکر نکیر کہا جاتا ہے۔
غرض یوں سمجھیں کہ اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین، جنت و جہنم کے انتظامات پر فرشتوں کو مقرر فرمایا ہے، وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق اپنا کام پورا کرتے ہیں، اس کام میں وہ کسی طرح خود مختار نہیں ہوتے، بلکہ اللہ تعالیٰ جو کام جس طرح چاہے اسی طرح اس کے حکم کے مطابق کر دیتے ہیں۔
فرشتوں پر ایمان لانا کیوں ضروری ہے؟
فرشتوں پر ایمان کے بارے میں بعض ذہنوں میں ایک سوال پیدا ہوسکتا ہے کہ حقائق تو بے شمار ہیں لیکن ایمانیات کے اندر وہی حقائق ہونے چاہئیں جن کی وجہ سے انسان کی مندگی پر مفید اثرات مرتب ہوسکیں، تو آخر فرشتوں کے وجود پر ایمان لانے کی وجہ سے انسان کی زندگی اور عمل میں کیا فرق آسکتا ہے؟ اگر یہ کہا جائے کہ فرشتے چونکہ اقوامِ عالم کے نزدیک ایک مسلَّم حقیقت ہیں اور شروع سے آج تک تمام لوگ ان کو کسی نہ کسی صورت میں مانتے آئے ہیں، اس لئے آسمانی کتابوں اور قرآن مجید میں بھی اس حقیقت کو سامنے لایا گیا اور ان فرشتوں کے متعلق جو غلط عقائد و نظریات تھے، انہیں دور کرکے فرشتوں کی صحیح حیثیت کو واضح کیا گیا ہے، لیکن اگر کوئی شخص ان کے وجود کا ہی قائل نہ ہو تو اس کے متعلق زیادہ سے زیادہ یہی کہا جائے گا کہ وہ اس حقیقت سے بے خبر اور جاہل ہے، باقی رہا کہ اس کی علمی اور عملی زندگی پر اس کے کیا برے نتائج مرتب ہوسکتے ہیں؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ فرشتوں کی حقیقت پر ایمان لانے سے انسان کی علمی اور عملی زندگی پر بہت مفید اثرات مرتب ہوسکتے ہیں، جن کی تفصیل آگے آتی ہیں، لہٰذا اس حقیقت سے انکار کی صورت میں وہ شخص ان تمام مفید اثرات سے محروم رہے گا۔
فرشتوں پر ایمان لانے کے اثرات:
(۱) مادہ پرست لوگ مادی چیزوں کے خواص اور طبائع کو دیکھ کر انہی مادی خواص اور طبائع کی بالذات کارفرمائی کا یقین کرتے ہیں اور بے اختیار مادّہ ہی کو سب کچھ جان کر اللہ تعالیٰ کا انکار کرتے ہیں، حالانکہ ان مادّی خواص و طبائع پر روحانی قوتیں مقرر ہیں جو اللہ تعالیٰ کے مقررہ اصول کے مطابق نظام عالم کو چلا رہی ہیں، اس حقیقت کو ذہن کے قریب کرنے کے لئے ایک مثال پیش کرتا ہوں۔
مثلاً اللہ تعالیٰ نے انسان کے ہاتھ، پاؤں، آنکھ اور کان وغیرہ کو پیدا کیا، ان میں سے ہر عضو میں اللہ تعالیٰ نے کچھ خاصیتیں اور قوتیں رکھ دی ہیں، مثلاً ہاتھ میں پکڑنے کی قوت، آنکھ میں دیکھنے اور کان میں سننے کی قوت رکھ دی ہے، لیکن یہ قوتیں اس وقت تک از خود ذرّہ برابر بھی کوئی حرکت نہیں کرسکتیں جب تک کہ ان چیزوں کو حرکت دینے والی چیز یعنی حیوانی روح موجود نہ ہو، اور یہی روحِ حیوانی انسان کے پورے مادّی جسم پر مسلط رہتی ہے، اور آنکھ سے دیکھنے، کانوں سے سننے، ہاتھ سے پکڑنے اور پاؤں سے چلنے، غرض ایک ایک چیز کو اس کی خاصیت و طبع کے مقررہ قانون کے مطابق چلاتی رہتی ہے، اگر یہ روح نہیں تو پکڑنے یا دیکھنے کی قوت ہونے کے باوجود یہ قوتیں بے حس و حرکت ہوکر ناکارہ ہوجاتی ہیں، یہ حیوانی روح انسان کے ارادہ کے مطابق ان اعضاء کو چلاتی رہتی ہے، اور یہ حیوانی روح قطعاً کوئی اختیار نہیں رکھتی کہ اختیاری اعمال میں وہ ذرّہ برابر انسان کی نافرمانی کرے، ایک طرف تو وہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے انسان کے ارادہ کی تابع ہے اور اس کے ارادی اعمال میں ارادہ کو پاکر اُسے عملی جامہ پہنانے کی کوشش کرتی ہے، اور جو انسان کے غیر اختیاری اعمال ہیں مثلاً بڑھنا، کمزور ہونا اور موٹا ہونا وہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے مقررہ قانون کے مطابق سرانجام دیتی ہے، اسی طرح اللہ تعالیٰ نے مادّہ، پتھروں، پہاڑوں، چاند، سورج حتی کہ ہر مادّہ میں جو قوتیں اور جو خاصیتیں رکھی ہیں ان پر بھی ارواح یعنی ملائکہ مقرر کئے ہوئے ہیں، وہ ان چیزوں کو اللہ تعالیٰ کے مقررہ اصولوں کے مطابق چلاتے رہتے ہیں، اس طرح یہ فرشتے ایک طرف تو انسان کے سامنے چیزوں کو پیش کرتے رہتے ہیں اور دوسری طرف ان کے حصول و استعمال میں اللہ تعالیٰ کے مقررہ قانون کے مطابع نتائج مرتب کرتے ہیں، لہٰذا قرآن مجید نے ملائکہ کی حقیقت کو سامنے لاکر ایک طرف ان لوگوں کے غلط عقائد کو مٹادیا جو فرشتوں کو خدائی اختیارات دے دیتے ہیں، دوسری طرف مادّیت کے بت کو بھی پاش پاش کردیا اور بتایا کہ یہ مادّہ اور خواص بالذات مؤثر نہیں بلکہ کوئی دوسری ذات ہے جو ارواحِ مجردہ یعنی ملائکہ کے ذریعہ ان کو مؤثر بناتی اور چلاتی ہے، اگر یہ ذات نہ ہو تو یہ تمام قوتیں بے حس و حرکت ہوکر ناکارہ رہ جائیں گی، یہی وجہ ہے کہ فرشتوں کو ماننے والا مادّی قوتوں سے خوفزدہ نہیں ہوتا بلکہ وہ صرف اللہ تعالیٰ اور اس کی نافرمانی سے خوفزدہ ہوتا ہے، کیونکہ مادی قوتوں کو چلانے والے فرشتے اللہ تعالیٰ ہی کے حکم کے ماتحت چلتے ہیں۔
(۲) جب اللہ تعالیٰ اور اس کی صفات رحم و عدل اور حکمت پر ایمان لانے کے ساتھ یہ لازم ہے کہ اعمال کے نتائج کے لئے روزِ آخرت اور دوسری زندگی بھی ہو تو اب سوال یہ ہے کہ دنیا اور آخرت میں عروج و ترقی اور آخرت کی ابدی فلاح و ترقیات کو کیسے حاصل کیا جائے، ظاہر ہے وہ اللہ تعالیٰ کی خالقِ کائنات کے قانون اور اس کی خالص بندگی سے ہی حاصل ہوگی، اور اس بندگی اور اللہ تعالیٰ کے احکامات، قوانین و ہدایات کے لئے کتابوں اور کتابوں کے بتانے اور سمجھانے کے لئے رسولوں کی ضرورت ہوئی، پس جب انسان کی ترقی اور فلاح کے لئے اللہ تعالیٰ کی ہدایت اور رہنمائی ضروری ہوئی تو ظاہر ہے کہ ان حقائق پر ایمان لانا ضروری ہوگیا، جن کے ذریعہ یہ ہدایات اور احکامات انسان کو مل سکتے ہیں اور ان ذرائع میں پہلا ذریعہ فرشتے ہیں، کیونکہ فرشتے اللہ تعالیٰ کی ظاہری اور حسی مخلوق کے درمیان قابل اعتماد واسطہ ہیں، یہ اپنی خداداد روحانیت اور لطافت کی وجہ سے ایک طرف اللہ تعالیٰ سے بھی غایت درجہ کا قرب رکھتے ہیں اور دوسری طرف مخلوق ہونے کے سبب بقیہ مخلوقات سے بھی نسبت و تعلق رکھتے ہیں، اسی طرح ایک طرف تو وہ اپنی خداداد نورانیت اور لطافت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہونے والے انوار و احکامات کو براہ راست قبول کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں اور دوسری طرف ان انوار و احکام کو مخلوق تک منتقل کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں، چنانچہ یہ فرشتے خصوصاً حضرت جبرئیل علیہ السلام براہِ راست اللہ تعالیٰ سے وحئی الٰہی کو اخذ کرتے تھے اور پھر اس کے حکم کے مطابق اس کے پیغمبروں کو بلا کم و کاست پہنچادیتے تھے، پس معلوم ہوا کہ کتابوں اور نبیوں کے ساتھ فرشتوں پر بھی ایمان لانا ضروری ہوا، کیونکہ ملائکہ کتابوں اور نبیوں پر ایمان سب ایک دوسرے سے اتصال رکھنے والی کڑیاں ہیں، اور یہ سب کڑیاں مل کر ہی انسان کی عملی زندگی پر اثر انداز ہوتی ہیں اور انسان کے مستقبل اور آخرت کو سنوارتی ہیں، اس لئے آپ قرآن مجید میں غور کریں، جہاں بھی تمام ایمانیات کی بات آتی ہے وہاں رسولوں سے پہلے کتاب وار اللہ تعالیٰ کی نازل شدہ ہدایات کا ذکر ہوگا، کیونکہ یہ وحی اور کتاب فرشتوں ہی کے ذریعہ حاصل ہوتی ہے، خلاصہ یہ ہوا کہ جس طرح انبیاء علیہم السلام عام انسانوں کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسانی پیغمبر ہوتے ہیں اور وہ اللہ تعالیٰ کی ہدایات کو انسانوں تک بلا کم و کاست پہنچاتے ہیں اور ان کے عملی طریقے بتاکر ان پر ڈالتے ہیں، اسی طرح انسانی پیغمبروں کے لئے یہ فرشتے اللہ تعالیٰ کی طرف سے روحانی پیغمبر ہوتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی ہدایات اور احکامات اور بندگی کے طور طریقوں کو بلا کم و کاست انسانی پیغمبروں تک پہنچاتے ہیں، اور یہ تینوں کڑیاں یعنی ایمان بالملائکہ، ایمان بالکتب اور ایمان بالرُّسُل مل کر انسان کے لئے اس کی ترقی اور فلاح کی راہوں کو کھول دیتی ہیں۔
(۳) جب انسان اس حقیقت کو پالیتا ہے کہ دنیا میں اللہ تعالیٰ کی مخلوقات کی حفاظت و ترقی اور ہر چیز پر فرشتے مقرر ہیں اور یہ بھی مان لیتا ہے کہ یہ تمام کارندے اللہ تعالیٰ کے حکم اور قانون کے تحت چلتے ہیں اور اسی کے حکم سے ایک طرف تو وہ انسان کو اسباب کے استعمال اور حصول سے نہیں روکتے بلکہ جو انسان ان ساباب کو حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے تو فرشتے اللہ تعالیٰ کے قانون اور سنت کے مطابق انسان کو وہ اسباب فراہم کرتے ہیں، لیکن اگر اس نے اسباب کو غلط طریقہ پر حاصل کیا یا غلط استعمال کرکے ناقدری کی تو یہ فرشتے اللہ تعالیٰ کے قانون کے مطابق اس کے خلاف نقاصان کی صورتیں پیدا کردیتے ہیں اور اگر وہ ان کو ٹھیک ان احکامِ الٰہی کے مطابق جو پیغمبروں کے ذریعہ بھیجے گئے ہیں حاصل کرے اور یا استعمال کرے تو اس قدردانی کی وجہ سے فرشتے اس شخص کے لئے اللہ تعالیٰ کے قانون کے مطابق نفع و خیر کی صورتیں پیدا کردیتے ہیں، اور نفع و نقصان کے یہ اثرات خود انسان کی ذات پر پڑتے ہیں، اور اس کا اثر انسان کی دنیوی زندگی پر بھی پڑتا ہے اور اخروی زندگی میں کامل طور پر وہ اس سے متاثر ہوتا ہے، چنانچہ آدمی یا ابدی راحتیں اور راحتیں اور ترقیاں پاتا رہتا ہے اور یا ہمیشہ کے لئے بے چینی کے عذاب میں مبتلا رہتا ہے، تو ظاہر ہے کہ انسان جب اس حقیقت سے باخبر ہو تو وہ اسباب کے حصول یا استعمال میں عارضی لذت اور راحت کو نہیں دیکھے گا، بلکہ وہ ہر وقت چوکنا رہے گا کہ کوئی ایسی بات اور ایسا کام نہ کرے جو اللہ تعالیٰ کے قانون اور حکم کے خلاف ہو، ورنہ عارضی راحت و لذت کے بعد دنیا کی مندگی میں بھی اور کامل طور پر آخرت کی زندگی میں بھی اُسے بے چینی، بے اطمینانی، سخت نقصان و خسران اور تباہی کا سامنا کرنا پڑے گا۔
(۴) جب انسان ٹھیک ٹھیک اللہ تعالیٰ کے عدل و رحم کے قوانین پر چلتا ہے تو اس کے آس پاس جو حفاظتی فرشتے ہیں وہ اس کی شیطانی اور جنّاتی اثرات سے پوری حفاظت کرتے ہیں اور اگر اللہ تعالیٰ کی بندگی چھوڑ دیتا ہے تو اللہ تعالیٰ کے قانون کے مطابق فرشتے بھی اس کا ساتھ چھوڑ دیتے ہیں، تو پھر جس قدر انسان بندگی کی سیدھی راہ سے ہٹتا چلا جاتا ہے اتنا ہی فرشتے بھی اپنی حفاظتی سرگرمیاں کم کردیتے ہیں، جس کے بعد وہ شخص قسم قسم کے اوہامِ قلبی، پریشانیوں اور مصائب کا شکار ہوجاتا ہے اور بالآخر مکمل طور پر شیطانی اور جنّاتی اثرات کا شکار ہوکر تباہی کے گڑھوں میں پھینک دیا جاتا ہے۔
(۵) جس شخص کا اس بات پر ایمان ہو کہ فرشتے انسان (حضرت آدم علیہ السلام) کے سامنے جھک گئے تھے، تو اُسے یہ یقین ہوجائے گا کہ جب یہ انسان کے آگے جھک گئے ہیں تو وہ اسباب اور قوتیں جن پر یہ فرشتے مقرر ہیں بطریقِ اولیٰ انسان کے لئے مسخر ہیں تو اس کا ایک فائدہ تو یہ ہوگا کہ ہر مؤمن ان اسباب کو اور ان قوتوں کو حاصل کرکے دنیا کے سامنے پیش کرسکتا ہے اور اس سے دنیا والوں کے لئے نفع کے اسباب پیدا کرسکتا ہے اور ظاہر ہے کہ ایسا شخص اسباب اور قوتوں کے سامنے نہیں جھکے گا اور نہ ہی وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے قانون کے سواء کسی دوسری ذات یا قانون کو تسلیم کرے گا۔
لیکن آج مسلمانوں کی اکثریث کا حال دیکھیں تو وہ ان اسباب اور قوتوں کے سامنے ہی نہیں بلکہ ان قوموں کے سامنے بھی جھکے ہوئے ہیں جنہوں نے ان قوتوں اور اسباب کو اختیار کیا ہے، پس ایسی قوم مسلمان تو کیا مقام انسانیت سے بھی گرچکی ہے۔
مندرجہ بالاتفصیل سے یہ معلوم ہوا کہ بلاشبہ فرشتوں پر ایمان انسان کی علمی اور عملی زندگی پر بہت گہرے اور مفید طور پر اثر انداز ہوتا ہے بشرطیکہ اس حقیقت پر صدق دل سے ایمان لایا جائے۔
آسمانی کتابیں انسانوں کے لئے دستورِ حیات ہیں:
اللہ تعالیٰ کی کتابوں پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ یہ یقین کیا جائے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں کے ذریعہ وقتاً فوقتاً جو ہدایت نامے بھیجے ہیں وہ برحق ہیں اور وہی حق و باطل کی کسوٹی ہیں اور ان ہدایت ناموں میں اللہ تعالیٰ کی بندگی اور بندوں کے لئے زندگی گذارنے کا دستور ہوتا ہے، لہٰذا ان کی رہنمائی پر پورا پورا اعتماد کیا جائے، ان پر عمل پیرا ہونے میں سراسر نفع ہے اور ان کی مخالفت میں سراسر نقصان و خسران ہے، جن لوگوں نے انہیں اپنا دستور بنالیا اور اس کے مطابق چلے تو وہ دنیا و آخرت دونوں لحاظ سے کامیاب و کامران ہوگئے۔
اللہ کی کتابوں پر ایمان لانے کااثر اس کا لازمی نتیجہ:
اللہ تعالیٰ کی کتاب پر ایمان لانے سے انسان کی زندگی پر یہ اثر پڑے گا کہ وہ اس کو پسند کرے گا اور اس سے محبت رکھے گا اور اسی کی تعلیم و ہدایت اور رہنمائی پر اعتماد و بھروسہ کرے گا اور اسی کو اپنی زندگی کا دستور بنائے گا اور اسی کے مطابق چلنے میں خیر و نفع کی امید رکھے گا اور اس کے خلاف سے لرزاں و ترساں رہے گا، اسی طرح ہر شخص ان کتابوں کی رہنمائی میں دنیا و آخرت کی بھلائی اور کامیابی حاصل کرسکے گا۔
لیکن اگر کوئی قوم یا فرد کتاب اللہ پر ایمان لانے کا مدّعی تو ہے مگر اس کو اپنا دستور نہیں بناتا یا اس کے مطابق چلنے میں نفع کی امید نہیں رکھتا اور اس کے خلاف چلنے سے لرزاں و ترساں نہیں تو ایسا شخص اور قوم دونوں کتاب اللہ پر ایمان کے باوجود ایمان سے خالی اور اپنے دعوائے ایمان میں جھوٹے ہیں۔
انبیاء کرام علیہم السلام پر ایمان لانا
نبی وحئی الہٰی کا ذریعہ ہوتا ہے:
اللہ تعالیٰ کی بندگی کا طریقہ انسان پوری طرح عقل سے حاصل نہیں کرسکتا اور نہ ہی تنہاء عقل کے مور پر شاہراہِ زندگی پر چلنے کے لئے رہنمائی حاصل کرسکتا ہے؛ بلکہ یہ رہنمائی وحئی الٰہی سے ملتی ہے اور وحی ہر انسان کو براہِ راست نہیں ملتی؛ بلکہ اللہ تعالیٰ کے منتخب کردے افراد کی وساطت سے ملتی ہے، ان منتخب افراد کو انبیاء و رسل کہا جاتا اور وحی کا یہ سلسلہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہوگیا۔
انبیاء علیہم السلام کی اطاعت ہی میں انسانیت کا نفع ہے!
کسی کو نبی اور رسول ماننے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس حقیقت کو تسلیم کیا جائے کہ وہ غیبی حقیقتوں کے بارے میں جو کچھ ہمیں بتلاتے ہیں اور جو ہدایات دیتے ہیں سب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں اور رسول کی یہ ساری باتیں گویا اللہ کی باتیں ہیں اور اس کا ہر حکم اللہ تعالیٰ کا حکم ہے، اس لئے سب حق ہی حق ہیں اور ان میں سے کسی میں بھی چون و چرا اور شک و شبہ کی بالکل گنجائش نہیں اور یہی حضرات ہوتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی صحیح بندگی بتانے والے ہیں، لہٰذا ان کی اطاعت و اتباع در اصل اللہ تعالیٰ ہی کی اطاعت اور بندگی ہے، اسی میں انسان کا نفع اور اس کی مخالفت سراسر نقصان اور خسارہ ہے۔
پیغمبر کے ہر حکم پر ایمان لانا ضروری ہے!
جب یہ بات معلوم ہوئی کہ کسی بھی نبی یا رسول کو ماننے کے بعد یہ ضروری ہوجاتا ہے کہ دین کے متعلق اس کی ہر بات کا انکار اس کی نبوت کا انکار ہے، اس لئے ہر اس حقیقت اور حکم پر یقین کرنا اور اس پر عمل کرنا جس کی اطلاع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے، غرض یہ کہ پیغمبر کے ہر فیصلہ اور حکم کو ماننا شرط ایمان ہے، اور جو شخص پیغمبر کے کسی ایک حکم سے بھی انکا کرے وہ مومن نہیں ہوسکتا۔
البتہ جن مسلمانوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانۂ مبارک نہ پایا اور آپ کی دینی تعلیم ان کو بالواسط پہنچی ہو (جیسا کہ ہمارا حال ہے) ان کے لئے یہ حکم صرف انہی تعلیمات اور عقائد ہی کی حد تک ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسے قطعی اور یقینی طریقہ سے ثابت ہیں جس میں کسی شک و شبہ اور کسی تاویل کی گنجائش نہیں اور ہر دور میں ان کی شہرت بھی اتنی عام رہی ہے کہ دین سے معمولی واقفیت رکھنے والے عوام بھی اس سے واقف رہے ہیں اور جن چیزوں کی قطعیت اور شہرت اس درجہ کی نہیں ہے (اگرچہ ان کا ثبوت ہمارے لئے قابلِ اطمینان ہے) تو ان کی حیثیت اور ان کا حکم یہ نہیں، یعنی اگرچہ ان کا انکار کرنا بھی ایک درجہ کی گمراہی ہے لیکن کفر نہیں ہے۔
(پیغمبر کی کسی بات سے انکار کفر کا مستلزم اس وقت ہوتا ہے جبکہ (۱) یہ انکار اعتقاداً اور قلباًیا استخفافاً ہو، (۲) وہ بات بھی دینی امور میں سے ہو، (۳) یہ جان کر ہو کہ یہ بات پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے، اور (۴) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات وحی کی بنیاد پر فرمائی ہو۔)
انبیاء علیہم السلام پر ایمان لانے کےاثرات:
انبیاء علیہم السلام اور سیدنا و مولانا حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کی وجہ سے لازماً انسان کی زندگی میں تبدیلی آئے گی اور اس کی پوری زندگی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور طریقے کے مطابق ہوگی، اس میں وہ شخص نفع و خیر کو دیکھے گا اور پائے گا اور جو آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ان ہدایات اور احکامات کا اتباع نہیں کرے ج وآپؐ سے یقینی ثابت ہیں، تو یہ ایمان نہیں بلکہ ایمان کا زعم و خیال ہے، ایسا شخص صرف خوش فہمی میں مبتلا ہے، حالانکہ فلاح و کامیابی کا دار و مدار ایمان پر ہے نہ کہ زعم و خیال پر۔
آخرت پر ایمان اور اس کامطلب
آخرت پر ایمان، مرنے کے بعد زندگی اور دوبارہ زمین سے اٹھائے جانے کو تسلیم کرنے اور اپنے ہر قول و فعل اور نیت میں اللہ تعالیٰ کے سامنے جوابدہ ہونے کو ماننا ہے، اس عقیدہ کی ضروری تفصیل یہ ہے:
قیامت کا قیام ناگزیر ہے!
انسان دنیا میں غیر ذمہ دار نہیں ہے؛ بلکہ دنیا کی زندگی کے ہر اختیار، حرکت، قول و فعل اور نیت کے لئے اللہ تعالیٰ کے سامنے جوابدہ ہے، جس طرح انسان دنیا میں ہمیشہ نہیں رہتا اسی طرح یہ دنیا کا نظام بھی ہمیشہ کے لئے نہیں؛ بلکہ اس نظامِ عالم کے لئے بھی ختم ہونے کا ایک مقرر ہے اور یہ مقررہ وقت پر درہم ہوجائے گا اور اس وقتِ مقررہ کو قیامت کہا جاتا ہے، اس کے بعد اللہ تعالیٰ ایک دوسرے عالم میں اس پوری نوعِ انسانی کو جو ابتداء سے قیامت تک زمین پر پیدا ہوئی تھی بیک وقت اٹھائے گا اور سب کو جمع کرکے ان کے اعمال کا حساب لے گا اور ہر ایک کو اس کے کئے کا پورا بدلہ ملے گا، اللہ تعالیٰ کے اس فیصلہ کی رو سے جو لوگ نیک نکل آئیں گے تو وہ جنت کی دائمی خوشیاں حاصل کریں گے اور جو لوگ اس فیصلہ کی رُو سے مجرم ٹھہریں گے وہ جہنم میں پھینک دئے جائیں گے۔
موت کی حقیقت:
انسان اس معنیٰ میں نہیں مرتا کہ وہ بالکل معدوم اور ختم ہوجائے؛ بلکہ ایک جگہ سےدوسری جگہ، ایک حالت سے دوسری حالت میں منتقل ہوجاتا ہے، مثلاً دادا کی پشت سے باپ کی پشت میں ،باپ کی پشت سے ماں کے پیٹ میں آگیا اور اس میں اس کی صورت اور جسم کا ڈیل ڈول بنا اور اب دنیا کے پیٹ میں آگیا، جہاں آکر انسان اپنی سیرت بناتا ہے اور پھر دنیا سے چلا جاتا ہے، اور جب مرجاتا ہے تو وہاں اس دنیوی سیرت کے مطابق معاملات شروع ہوجاتے ہیں اور ہر شخص اپنی سیرت کے مطابق خوشی و راحت یا غم و تکلیف اور درد و الم کو اللہ تعالیٰ کے قانون کے مطابق پالیتا ہے اور جب پوری دنیا پر اجتماعی موت طاری ہوجائے گی اور یہ نظامِ عالم درہم برہم ہوجائے گا تو تمام لوگ برزخی اور قبر کی زندگی اور اس کے بعد ایک اور قسم کی زندگی میں داخل ہوجائیں گے، جسے حیاتِ اُخروی کہا جاتا ہے، پس آخرت سے مراد انسان کی پچھلی اور بعد میں آنے والی زندگی ہے اور اس لفظ کے عموم میں وہ تمام منازل و مقامات داخل ہیں جو ابتدائے موت سے (جو انسان کے جسم اور اس کے اعضاء اور رگ و ریشہ پر طاری ہوتی ہے) حشر و نشر اور اس کے بعد پیش آتی ہیں، آخرت کے اس لغوی معنیٰ کی تصدیق خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث میں بھی موجود ہے، جس کا مفہوم یہ ہے کہ ’’قبر (برزخ) آخرت کی منزلوں میں سب سے پہلی منزل ہے‘‘۔ (ترمذی، ابن ماجہ، حاکم)
بہر حال انسان کامل طور پر مرتا نہیں کہ اس کے جسم اور روح دونوں پر فناء آجائے؛ بلکہ اس کے جسم پر وقتی موت طاری ہوجاتی ہے جس کا مزہ یہ انسان خود بھی چکھ لیتا ہے اور اس طرح وہ ایک حالت سے دوسری حالت اور ایک مقام سے دوسرے مقام میں منتقل ہوتا رہتا ہے اور ہر جگہ سے دوسری جگہ کو وقعت اور خوشی یا اس کے برعکس پریشانیوں اور دکھ درد میں ایک دوسرے سے بڑھا ہوا پاتا ہے، اس سے معلوم ہوا کہ کامیابی و ناکامی کا اصل معیار دنیا کی خوشحالی و بدحالی نہیں بلکہ درحقیقت فلاح پانے والا کامیاب انسان وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے آخری فیصلہ کی رُو سے کامیاب ٹھہرے اور ناکام وہی ہے جو پچھلی اور بعد میں آنے والی زندگی اور آخری فیصلہ میں ناکام رہے۔
آخرت پر ایمان لانے کا اثر و نتیجہ:
(۱) آخرت کو ماننے والا ایک ذمہ دار شخص ہوتا ہے۔
(۲) وہ اہل و عیال، رشتہ داروں، غریبوں، مسکینوں، یتیموں اور بیکسوں کا خیال رکھتا ہے، اور ہر ذی حق کو اپنا حق پورا پورا دیتا اور دلواتا ہے، کیونکہ جس طرح ایک کاشتکار اپنی ڈھیروں گندم زمین میں بکھیر دیتا ہے اور صبح و شام مشقت کرتا ہے، صرف اس لئے کہ اس کو یہ گمان ہوتا ہے کہ اس سے مستقبل میں کئی سو گناہ زیادہ گندم ملے گی، اسی طرح جس شخص کا آخرت پر ایمان ہو تو وہ فقیر اور ہر ذی حق کو حق دے کر خوش ہوگا اور اس کو وہ غنیمت سمجھے گا کہ اس کا ثمرہ مستقبل اور آخرت میں ضرور ملے گا۔
(۳) وہ ہر اس بات کو اور اس کام کو اختیار کرے گا جو اس کی اُخروی زندگی کے لئے مفید ہو، اگرچہ اس بات اور کام کی وجہ سے اُسے دنیا کی زندگی میں سخت مشقت یا دُکھ درد یا نقصان اٹھانا پرے اور وہ ہر اس بات اور کام سے پرہیز کرے گا جس سے اس کی آخرت کی زندگی پر زد پڑتی ہو اگرچہ دنیا کی زندگی میں اس بات اور کام کی وجہ سے بڑی راحت و عزّت اور لذت اور بڑا مال و دولت ہاتھ آنے کا یقین ہو۔
(۴) آخرت پر ایمان رکھنے والا انتہائی مخلص ہوتا ہے، وہ ریاء کاری جیسے امراض میں قطعاً گرفتار نہیں ہوتا؛ کیونکہ وہ جو کارِ خیر بھی کرتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اور آخرت کے لئے کرتا ہے، تو پھر اس میں ریاءکاری کی کیا گنجائش! جیسا کہ ایک کاشتکار اور باغبان اپنی کاشت اور مشقت کے بارے میں یہ گمان رکھتا ہے کہ ایک ایک تخم کے بدلہ میں سینکڑوں ہزاروں گناہ ملتا ہے تو دن رات محنت کرات ہے، وہ یہ نہیں دیکھتا کہ کوئی دیکھ رہا ہے یا نہیں؛ بلکہ ایسی تمام باتوں اور نمائشوں سے بے فکر ہوکر محنت کرتا ہے، اس طرح آخرت پر ایمان رکھنے والے کی نظر اللہ تعالیٰ پر اور آخرت کے نتائج پر ہوتی ہے نہ کہ لوگوں پر کہ وہ دیکھتے ہیں یا نہیں؟ یا لوگوں کو میرے کارِ خیر کا عالم ہورہا ہے یا نہیں؟ وہ ایسی تمام باتو سے بے پرواہ ہوکر آخرت کی کھیتی میں محنت کرتا ہے، جو شخص یتیموں، بیکسوں، غریبوں اور مسکینوں کا خیال نہیں رکھتا اور دنیا کی عارضی لذت، راحت اور عزت کو اپناکر آخرت کی زندگی کو نظر انداز کردیتا ہے وہ اپنے دنیوی معاملات اور مفادات میں تو محتاط ہوتا ہے، مگر جو شخص آخرت کے معاملہ میں صرف توقعات کو کافی سمجھتا ہے یا آخرت کے معاملہ میں باطل سفارشوں اور شفاعتوں پر سہارا کئے رکھتا ہے ایسے شخص کا آخرت پر ایمان نہیں اور وہ دعوئے ایمان کے باوجود بے ایمان اور اپنے دعوے میں جھوٹا ہے۔
خلاصہ یہ کہ جو شخص آخرت کی دائمی زندگی کی عزت اور خوشی پر دنیا کی عزت و راحت کو ترجیح دیتا ہے وہ آخرت پر ایمان رکھنے والا نہیں اور ایسا شخص جو کارِ خیر بھی کرتا ہو اور اس کے پیش نظر دنیا کی عزت یا اور کوئی دنیوی مفاد ہو تو یہی شخص ریاء کاری ہے اور اس کی زندگی ایک نمائشی زندگی ہے جو آخرت کے مقصد سے بے پرواہ کرکے انسان کی پوری زندگی کو ایک کھیل تماشہ بناکر رکھ دیتی ہے۔
مومن اور مسلم:
جو شخص اللہ تعالیٰ، اس کی صفات، اس کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں اور اس کے پیغمبروں پر ایمان رکھتا ہے اور ان پانچ حقائق پر محکم یقین اور اعتماد کرتا ہے اس کو مومن کہتے ہیں اور جو شخص بھی ان حقائق کو پاکر ان پر یقین کرلے گا تو وہ اپنے آپ کو صرف ایک اللہ رب العالمین کا محتاج پائے گا اور اس کے تمام امور میں خوف و امید اور تمام حوائج و مشکلات کے حل کا مرکز و مرجع اور مأویٰ و ملجأ ایک اللہ تعالیٰ کی ذات ہوکر رہ جائے گی، اس رح وہ عاجزی و انکساری کے ساتھ اللہ تعالیٰ اور اس کے احکامات کے سامنے جھکے گا اور صرف اللہ تعالیٰ ہی کے احکامات و ہدایات کے حوالے اور سپرد ہوجائے گا۔
انسان کی اسی کامل حوالگی اور سپردگی کا نام اسلام ہے اور جو شخص اپنے آپ کو صرف اللہ تعالیٰ اور اس کے قانون و ہدایت کے حوالے اور سپرد کردے اس کو مسلم یا مسلمان کہا جاتا ہے۔
اور یہی وہ مومن اور مسلم ہے جس پر تمام امور میں اعتماد و بھروسہ کیا جاتا ہے اور لوگ اس کے قول و فعل و کردار پر اعتماد کرتے ہیں اور وہ ہر ذی حق کا حق خود بھی ادا کرتا ہے اور دوسروں سے بھی دلوانے کی کوشش کرتا ہے، وہ گھر، معاشرہ، ملک اور پوری دنیا میں حسبِ استطاعت امن و سلامتی قائم رکھنے کا ذمہ دار ہوتا ہے اور لوگوں کو عدل و قسط پر لانے کے لئے دوڑ دھوپ بھی کرتا رہتا ہے، چنانچہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
لَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنَاتِ وَأَنْزَلْنَا مَعَهُمُ الْكِتَابَ وَالْمِيزَانَ لِيَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ وَأَنْزَلْنَا الْحَدِيدَ فِيهِ بَأْسٌ شَدِيدٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ۔ (الحدید:۲۵)
ترجمہ:۔ البتہ ہم نے رسولوں کو نشانیاں دے کر بھیجا اور ان کے ہمراہ ہم نے کتاب اور ترازو (عدل) بھی بھیجی تاکہ لوگ انصاف پر قائم رہیں اور ہم نے لوہا بھی اتارا جس میں سخت جنگ کے سامان اور لوگوں کے فائدے بھی ہیں‘‘۔
امت مسلمہ کے زوال کی بنیادی وجوہات:
جب بندگی کے چند اہم شعبوں کا ذکر سامنے ؤیا تو اب یہ سمجھیں کہ مسلمانوں پر زوال کیوں آیا؟
اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت نے اسلام اور ایمان کا نام لینے کے باوجود اسلام اور ایمان احکامات، مقاصد اور تقاضوں کو نظر انداز کردیا ہے اور یہی رویہ پہلی امتوں نے بھی اختیار کیا تھا جسی وجہ سے وہ زوال پذیر ہوئیں۔
ایمان اور اسلامی اعمال کے نتائج اور سچے مومن کی صفات اور کردار!
سابقہ بیان سے یہ بات اچھی طرح معلوم ہوگئی کہ توحید و ایمان زبانی جمع خرچ یا محض دعویٰ کا نام نہیں اور صرف یہ کہنا کہ میں مومن ہوں یا توحید کی باریکیوں کو بیان کرنا یا یہ کہ میں موحد ہو، انسان کو مومن اور موحد اور خدا کا بندہ بناسکتا ہے، بلکہ بسا اوقات یہ امید ہوتی ہے کہ انسان ایک چیزکی نیت کرتا ہے یا ایک چیز کا دعویٰ کرتا ہے اور حالات اس کو بتاتے ہیں کہ تیری نیت سچی نہ تھی بلکہ صرف آرزو تھی اور تیرا ایمان واقعی ایمان نہ تھا بلکہ محض ایک دعویٰ تھا جس کو حالات نے جھوٹا ثابت کیا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَقُولُ آمَنَّا بِاللَّهِ وَبِالْيَوْمِ الْآخِرِ وَمَا هُمْ بِمُؤْمِنِينَ۔ (البقرۃ:۸)
ترجمہ:۔ اور لوگوں میں سے بعض لوگ ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم اللہ پر اور روزِ آخرت پر ایمان رکھتے ہیں، حالانکہ وہ (سچے) مومن نہیں ہیں‘‘۔
موحِّد، مومن اور اللہ تعالیٰ کا سچا بندہ کون ہے؟
اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر سچا مومن اور موحد کون ہے؟ تو اس کا آسان جواب یہی ہے کہ جس طرح ہر درخت اپنے پھول اور پھل سے پہچانا جاتا ہے اسی طرح مومن کو اس کے عمل اور کردار سے پہچانا جاتا ہے، لیکن کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ بعض لوگ دجل و فریب کی وجہ سے اعمالِ صالحہ اور مومن کے کردار کو احتیار کرلیتے ہیں، حالانکہ ان کے یہ اعمال و کردار ایمانی صفات کی وجہ سے نہیں، بلکہ ریاءکاری، دنیاپرستی، منصب، مال و جاہ کی وجہ سے وجود میں آتے ہیں اور آزمائش اور حالات کے آنے پر ثابت ہوتا ہے کہ یہ پھل پھول ایمان سے نہیں بنے تھے بلکہ صرف نمائشی اور کاغذی پلاسٹک کے پھول تھے، اس لئے یہاں مومن کے کردار کے ساتھ مومن کی بعض صفات کو بھی ذکر کیا جاتا ہے تاکہ جس کو توفیق ہوجائے اسی طرح اپنے آپ کو بنانے کی کوشش کرے۔
مومن کا اللہ تعالیٰ کے متعلق اچھا گمان رکھنا اور اس سے امید رکھنا:
یہ دونوں اوصاف لازم و ملزوم ہیں، کیونکہ ایمان نام ہی اس عظیم اور اعلیٰ و برتر طاقت کو تسلیم کرنے کا ہے جو اس کائنات کا انتظام کر رہی ہے جس سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں، جو کسی کام سے عاجز نہیں اور وہ ہے بھی ایسی ہستی کہ مجبور اور مضطر کی پکار کو سنتی ہے اور جواب دیتی ہے، وہ رحیم و کریم بھی ہے اور اپنے بندوں پر اس سے کہیں زیادہ مہربان بھی ہے جتنی کہ ایک ماں اپنے بچے پر ہوتی ہے اور اس کی مشکلات اور مصیبت کو دور کرنے کی پوری صلاحیت رکھتی ہے تو ایسی ہستی کو ماننے والا اپنے پروردگار کے ساتھ اچھا گمان کیوں نہیں رکھے گا اور ایسی ہستی کو ماننے والا نا امید کیسے ہوسکتا ہے، یہی وجہ ہے کہ جب مومن رکھتا ہے کہ وہ اُسے معاف کرے گا اور جب وہ لڑتا ہے تو کامیابی کی مضبوط امید سے لڑتا ہے۔
صفاتِ مومن:
مومن اللہ تعالیٰ سے ہر حال میں راضی رہتا ہے۔
مومن اللہ تعالیٰ کے عطاء کردہ رزق و عزت پر راضی رہتا ہے وہ دوسروں سے نہیں جلتا۔
مومن کو اللہ تعالیٰ سے شدید محبت ہوا کرتی ہے۔
مومن شیطان کے جال میں پھنسے ہوئے لوگوں کو آزاد کرانے کی حتی الوسع کوشش کرتا ہے۔
مومن مخلوقِ خدا پر مہربان ہوتا ہے۔
مومن متواضع اور سختی ہوتا ہے، متکبر اور بخیل نہیں ہوتا۔
مومن صابر و شاکر ہوتا ہے۔
مومن کے عام فیصلے عدل پر مبنی ہوتے ہیں۔
مومن راہِ خدا میں اپنا سب کچھ قربان کردیتا ہے۔
مومن صرف اللہ تعالیٰ پر اعتماد کرتا ہے۔
مومن متقی ہوتا ہے اور وہ محتاط زندگی گذارتا ہے۔
مومن سے غلطی ہوسکتی ہے لیکن وہ ہٹ دھرمی نہیں کرتا۔
روحانی صحت کی علامت اور پہچان:
یہاں اس بات کو بھی یاد رکھیں کہ انسان کمزور ہے، وہ خواہشاتِ نفس، شریعت کے خلاف عادات و روایات، تہذیب اور طاغوت کا جب مسلسلہ مقابلہ کرتا ہے تو اس میں کبھی کبھی انسان کمزور پڑجاتا ہے اور نفس وغیرہ یہ چیزیں اس پر غالب آجاتی ہیں اور اس سے لغزش ہوجاتی ہے، تو ایسی صورت میں پھر توبہ کریں اور جد و جہد کو جاری رکھیں، پھر لغزش ہوجائے پھر اٹھیں اور اپنی جد و جہد کو جاری رکھیں اور کبھی مجاہدے اور جد و جہد کی راہ کو نہ چھوڑیں، اگر نفس اور طاغوت کے ساتھ کشمکش ہر وقت جاری رکھنے کی کوشش کریں گے تو راستہ کی ٹھوکریں جن کے بعد فوراً اٹھنا ہو اور توبہ و اصلاح کا پورا عزم اور پھر لغزش کی پوری تلافی ہو تو یہ آپ کے ایمان کی صحتیابی کی علامت ہے، اللہ تعالیٰ اپنے محبوب بندوں کے اوصاف بیان کرتے ہوئے آخر میں فرماتا ہے کہ:
وَالَّذِينَ إِذَا فَعَلُوا فَاحِشَةً أَوْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ ذَكَرُوا اللَّهَ فَاسْتَغْفَرُوا لِذُنُوبِهِمْ وَمَنْ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا اللَّهُ وَلَمْ يُصِرُّوا عَلَى مَا فَعَلُوا وَهُمْ يَعْلَمُونَ۔ (اٰل عمران:۱۳۵)
ترجمہ:۔ اور اللہ تعالیٰ کو محسنین بہت پسند ہیں اور جن کا حال یہ ہے کہ اگر ان سے کبھی فحش کام سرزد ہوجاتا ہے یا کسی گناہ کا ارتکاب کرکے وہ اپنے اوپر ظلم کرتے ہیں (تو فوراً انہیں اللہ تعالیٰ یاد آجاتا ہے) تو وہ اس سے (اپنی لغزشوں کی) معافی مانتے ہیں، کیونکہ (ان کو یقین ہوتا ہے کہ) اللہ تعالیٰ کے سوا کون ہے جو گناہ معاف کرسکتا ہے اور (ان کی یہ لغزش وقتی اور عارضی ہوتی ہے، اس لئے وہ) دیدہ و دانستہ اپنے کئے پر اصرار نہیں کرتے‘‘۔
غرض یہ کہ جو شخص ایمان کی صفات، اخلاق اور کردار اور ذکر و فکر، اسلامی اعمال کو اس کی روح کے ساتھ (جس کا بیان گذر چکا) پوری کوشش کے ساتھ ادا کرتا ہے، اپنے نفس اور حالات کے ساتھ مقابلہ کرکے مجاہدہ کرتا ہے، تو انشاء اللہ تعالیٰ اس کا ایمان بہت مضبوط ہوجاتا ہے، پھر یہی چیزیں تکلف کے ساتھ نہیں بلکہ یہ اس کے اخلاق بن جاتے ہیں اور اچھے اعمال رحم و عدل، امانت داری، ہمدردی، ارادے، قول و اعمال خود بخود اس سے نکلنے لگتے ہیں، کچھ عرصہ تکلف اور اپنے نفس وغیرہ سے مجاہدہ کے بعد پھر تکلف کی ضرورت نہیں پڑتی، جس طرح چشمے سے خود بحود بغیر تکلف کے پانی نکلتا ہے اور آم کے درخت سے آم اور سورج سے روشنی اسی طرح انسان سے ایمان اخلاق، ایمانی کردار اور اللہ تعالیٰ کی بندگی خود بخود ٹپکنے لگتی ہے۔
اچھی صحبت کی ضرورت:
اپنی مرضی اور ارادہ کو اللہ تعالیٰ کی مرضیات میں گم کرنے اور ختم کرنے اور ایمان کو مضبوط بنانے اور برابر بڑھاتے رہنے کے لئے اچھے ایمان دار متقی لوگوں کی زیادہ سے زیادہ صحبت اکسیر ہے، اس سے انسان کے اندر جد و جہد کا شوق اور اچھے اعمال و کرادر کا شوق بڑھ جاتا ہے اور اچھے اور متقی لوگوں سے ایمانی رنگ حاصل ہوتا ہے اور صحبت کا اکسیر ہونا ایک ایسی مسلمہ چیز ہے کہ اس کے ثبوت و ضرورت کو سب نقل کرتے ہیں، تو جس طرح محسن، متقی، ایماندار لوگوں کے ساتھ محبت، انسان کے لئے بہت مفید اور بہترین علاج ہے، تو اسی طرح بُری صحبت بہت ہی سخت خطرناک اور اس کے نتائج بہت ہولناک ہوتے ہیں، لہٰذا اس بات کی خوب کوشش کریں کہ نیک ایماندار سچے لوگوں اور متقی لوگوں کی صحبت کو اختیار کریں اور یہ یاد رکھیں کہ کتاب اور ریڈیو کی بھی ایک صحبت ہے، اس کے بھی اچھے اور بُرے اثرات ہوتے ہیں، اس لئے ہر بری چیز کے سننے اور دیکھنے سے پرہیز کریں، انشاء اللہ تعالیٰ ایمان اور بندگی باطل کی آمیزشوں سے پاک رہے گی۔
اہم باتیں:
۱۔ نفع و نقصان کا مالک صرف ایک اللہ تعالیٰ رب العالمین ہے، اس کے سوا کوئی بھی نفع و نقصان کا مالک و مختاج نہیں اور نہ کوئی ہوسکتا ہے۔
۲۔ نفع اللہ تعالیٰ کے قانون اور اس کی تعلیم و حکم کے مطابق چلنے سے ملتا ہے اور اس کے حکم و تعلیم کی خلاف ورزی میں سراسر نقصان و ضرر ملے گا۔
۳۔ اللہ تعالیٰ کے قوانین اور اس کی تعلیم و ہدایت پر چل کر نفع کی امید رکھیں اور اس کی تعلیم و ہدایت کی خلاف ورزی سے خوف زدہ اور لرزاں و ترساں رہیں۔
۴۔ اللہ تعالیٰ کی بندگی کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ وہ انسان کی اندرونی فطری قوتوں کی نشو و نما کرتی ہے اور اس کی وجہ سے انسان اللہ تعالیٰ کی صفات کے رنگ میں رنگ جاتا ہے اور انسان کے اندر رحم و عدل، امانت داری، صبر و شکر، حیاء، عفت اور استغناء جیسی صفات پیدا ہوتی ہیں۔
۵۔ نماز، روزہ، ذکر و اذکار وغیرہ جیسی عبادات ان اخلاق و صفات میں پختگی پیدا کرتی ہیں اور اس میں مزید ترقی کا باعث بنتی ہیں، اگر اس کی وجہ سے یہ پختگی اور ترقی نہ ہو تو سمجھو کہ ان عبادات میں کوئی نہ کوئی نقصان ہے یا صرف بطور رسوم ادا کی جاتی ہے، اس لئے ان عبادات اور نظامِ ترزکیہ کا بڑا اہتمام کرنا چاہئے اور اس کے نتائج پر کڑی نظر رکھنی چاہئے اور یاد رہے کہ اس نظام کا مطلب ہواؤں میں اُڑنا نہیں اور نہ ہی کشفِ قبور وغیرہ سے اس کا تعلق ہے اور نہ اس کا تصوراتی اور خیالی ترقی ہپناٹزم وغیرہ سے کوئی جوڑ ہے؛ بلکہ اس سے بغض، حسد، تکبر اور چاپلوسی وغیرہ جیسے رذائل کا ازالہ ہوجاتا ہے اور اس سے تعظیم لامر اللہ، رحم، صبر، شکر، امانت داری، حیاء و عفت وغیرہ جیسے اخلاق کی آبیاری ہوتی ہے اور انہی صفات کی وجہ سے انسان کی روحانی ترقی ہوتی ہے۔
۶۔ ایمان اور بندگی اور اس سے پیدا ہونے والے پائیدار اور ابدی اچھے نتائج کے لئے ضروری ہے کہ آزمائش ہو، خوشحالی و تنگی، غم و خوشی اور امن و خوفر، جانی و مالی نقصانات اور لوگوں کے پروپیگنڈے وغیرہ جیسے حالات آئیں گے،لیکن ان چیزوں سے قطعاً نہ گھبرائیں، یہ آپ کے تخمِ ایمان کے لئے کھاد ہیں جو اس مںی اور قوت پیدا کریں گے، البتہ اس سے خوف زدہ رہیں اور اللہ تعالیٰ سے بھی مانگیں کہ کہیں ان آزمائشوں میں ناکام نہ ہوجاؤں اور یہ خیال رکھیں کہ ہر حالت کے مطابق اللہ تعالیٰ کا جو حکم ہو اس پر سختی سے عمل کرنے کی کوشش کریں۔
۷۔ اگر کسی آزمائش کی وجہ سے آپ سے لوگ کٹ گئے اور آپ کی جماعت پہلے کی نسبت کم رہ گئی تو اس سے بھی قطعاً نہ گھبرائیں، ایسا ضروری بھی ہے! کیونکہ گندم کے دانے جب پک جاتے ہیں تو پھر ہمیں یہی بتایا گیا ہے گندم کو بھوسہ سے نکالنے کے لئے تمام کٹی ہوئی فصل پر بیل، ٹریکٹر یا تھریشر وغیرہ چلائیں اور اُسے ہوا میں اُڑائیں تاکہ گندم و بھوسہ علاحدہ علاحدہ کیا جائے، اور اللہ تعالیٰ کا یہی قانون جماعتِ حقہ کے لئے بھی ہوتا ہے کہ ان پر ایک آزمائش لاتا ہے تاکہ اس جماعت میں سچوں کو جھوٹوں سے الگ کردیا جائے اور اس آزمائش میں سچوں کی صلاحیتیں اور قوتیں مزید ابھر کر سامنے آجاتی ہیں اور ان کا کھوٹ اور کمزوریاں دور ہوجاتی ہیں اور جو جھوٹے اور کھوٹے ہوتے ہیں وہ جماعت سے پھینک دئے جاتے ہیں اور جماعت صاف ستھری ہوکر رہ جاتی ہیں، تاکہ وہ اپنے قول و عمل سے دوسرے انسانوں کے لئے گواہ اور رہنما بن سکیں، عارضی مفادات، عارضی لذت، عارضی خوشی اور عارضی عزت و منصب کے مقابلہ میں اور اختلافات کے مواقع میں ہر چیز سے بالاتر ہوکر صرف حق کی جستجو اور حق کے متلاشی رہیں تو انشاء اللہ اللہ تعالیٰ کی سنت اور قانون کے مطابق حق کی یہی جستجو اور حق کے لئے یہی بے چینی آپ پر حق و ہدایت کی راہوں کو کھول دے گی۔
۸۔ اگرکبھی جذبات سے مغلوب ہوگئے یا اب تک آپ نے توبہ نہیں کی اور اصلاح کی وہ راہ احتیار کی ہے تو مایوس نہ ہوں، اللہ تعالیٰ کے ہاں عفو و درگذر کا قانون بھی ہے، آپ دیکھتے ہیں کہ جب کسی پودے کو کچھ وقت پانی اور کھاد نہ ملے تو وہ مرجھا جاتا ہے اور کمزور ہوجاتا ہے، لیکن اگر اس کی جڑیں بالکل خشک نہ ہوں تو اُسے اگر پھر سے پانی دیا جائے اور کھاد ڈالی جائے تو وہ پودا پھر سے ترقی کرتا ہے، اسی طرح ایک آدمی بد پرہیزی کرتا ہے، بیمار ہوتا ہے، اگر وہ پھر سے پرہیز شروع کردے اور علاج کرے تو صحتمند ہوجاتا ہے، بشرطیکہ وہ زندہ ہو، اسی طرح جب انسان کا ضمیر زندہ ہو تو اُسے مایوں نہیں ہونا چاہئے؛ بلکہ سابقہ روش کو چھوڑ کر راہِ حق اور بندگی کی طرف پلٹ آئے اور پھر بندگی کی راہ اور اعمالِ صالحہ کو اختیار کرے تو اللہ تعالیٰ کے قانون کے مطابق پہلے گناہ مٹ جائیں گے اور اس کی انسانیت اور روحانیت پھر سے سرسبز ہوکر دنیا و آخرت کی فلاح کی راہ پر رواں دواں ہوجائے گی۔
باقی رہی یہ بات کہ یہ کیسے معلوم ہو کہ ضمیر زندہ ہے؟ تو اس کا اندازہ لگانا بہت آسان ہے، وہ یہ کہ اگر آپ کے اندر اللہ تعالیٰ کی طرف اور اس کی بندگی کی طرف رجوع موجود ہے یا بالفاظِ دیگر اگر آپ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہیں اور سابقہ گناہوں اور روش پر نادم ہیں تو یہی ضمیر کی زندگی ہے اور یہی وہ چیز ہے جو آپ کی اندرونی انسانیت کے زندہ ہونے کی علامت ہے اور جس کا ضمیر مردہ ہو اور اس کے اندر کا انسان مرچکا ہو تو اس کے اندر نہ تو حق کی جستجو باقی رہ جاتی ہے اور نہ اس کے اندر ندامت اور نہ اللہ تعالیٰ اور اس کے قانون و حکم کی خلاف ورزی کا خوف باقی رہ جاتا ہے، لہٰذا ایسے شخص کو نہ توبہ کی توفیق مل سکتی ہے اور نہ وہ توبہ کرتا ہے، اللہ تعالیٰ حفاظت فرمائے اور سچی توبہ اور اصلاح کی توفیق سے نوازے۔
۹۔ بری صحبت مثلاً جھوٹے، غیر ذمہ دار، ظالم اور بدگمان، بدزبان، غیر معتدل اور بے رحم، خائن، متکبر اور دنیا پرست وغیرہ جیسے لوگوں کی صحب سے اور ان کی دوستی و محبت سے دور رہیں، البتہ انسانیت سے ہمدردی کے ناتے انہیں برابر حق کی طرف بلاتے رہیں اور انہیں ظلم و بے حیائی وغیرہ جیسے کاموں سے منع کرنے کی کوشش کرتے رہیں۔
ضروریاتِ دین
حضرت مولانا سیدمحمد یوسف صاحب بنوریؒ
۱۔ دین اسلام کے مہمات عقائد و اعمال یا اصول و فروع کا ایک ذخیرہ جیسے قرآن کریم اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے توسط سے ہم تک پہنچا ہے، اسی طرح اعتقادی و عملی ضروریاتِ دین ہم تک بذریعہ توارث یا تعامل طبقہ بہ طبقہ بھی پہنچتے رہے ہیں؛ بلکہ اگر غور کیا جائے تو یہ معلوم ہوگا کہ دین اسلام اور اس کی کل ضروریات ہم کو اسی توارث کے ذریعہ پہنچی ہیں، لاکھوں کروڑوں مسلمان جن کو نہ تو قرآنی تعلیمات کی پوری خبر ہے نہ احادیثِ نبویؐ کا علم ہے، لیکن باوجود اس کے وہ دین کی مہمات و ضروریات سے واقف رہتے ہیں، یہ دوسری بات ہے کہ عوام کا ایمان اجمالی ہوتا ہے، تفصیلات کے وہ اس وقت مکلف ہوتے ہیں جب ان کے علم میں آجائے، یہ حق تعالیٰ کا ایک مستقل احسان ہے کہ باوجود اس دینی توارث کے قرآن کریم و حدیثِ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شکل میں ایک ایسا دستورِ اساسی بھی دے دیا کہ اگر کسی وقت مدتوں کے بعد اس دینی عملی توارث میں فتور یا قصور آجائے یا لوگ منحرف ہوجائیں تو تجدید و احیاء کے لئے ایک مکمل ’’اساسی قانون‘‘ اور علمی ذخیرہ بھی محفوظ رہے؛ تاکہ امم سابقہ کی طرح ضلالت کی نوبت نہ آئے اور حق تعالیٰ کی حجت پوری ہوجائے اور ظاہر ہے جب کتابِ الہٰی خاتم الکتب الالہٰیہ ہو اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء ہوں اور دین خاتم الادیان اور امت خیر الامم ہو تو اس کے لئے یہ تحفظات ضروری تھے اور اسی لئے اس علمی قانون پر عمل کرنے کے لئے عملی نمونوں کی ایک جماعت بھی ہمیشہ موجود رہے گی تاکہ علمی و عملی دونوں طرح حق و باطل کا امتیاز قائم رہ سکے اور پوری طرح تحفظ کیا جائے اور مزید اطمینان یا اتمام حجت کے لئے دونوں باتوں کا صاف صاف نہایت مؤکد طریقہ پر اعلان بھی کردیا، چنانچہ ارشاد ہوتا ہے:
إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ۔ (الحجر:۹)
ترجمہ: ہم ہی نے قرآن کو اتارا اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں۔
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:
لَا تَزَالُ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِي قَائِمَةً بِأَمْرِ اللَّهِ لَا يَضُرُّهُمْ مَنْ خَذَلَهُمْ أَوْ خَالَفَهُمْ حَتَّى يَأْتِيَ أَمْرُ اللَّهِ وَهُمْ ظَاهِرُونَ عَلَى النَّاسِ۔ (صحیح مسلم:۲،۱۴۳)
ترجمہ:۔ ایک گروہ ہمیشہ قیامت تک کے لئے اللہ کے حکم (دینِ حق) پر قائم رہے گا، کسی کے امداد نہ کرنے سے یا مخالفت سے اس کا کچھ نہ بگڑے گا۔
اور میرے خیالِ ناقص میں تو: فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ۔ (النحل:۴۳) (اگر تم نہیں جانتے ہو تو اہل علم سے پوچھتے رہو) میں بھی ایک لطیف اشارہ ہے کہ ہر دور میں کچھ اہل حق ضرور ہوں گے۔
بہر حال اتنی بات واضح ہوئی کہ محافظینِ حق اور قائمین علی الحق کا ایک گروہ قیامت تک رہے گا، جس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ مہماتِ دین کے لئے ضروری علمی اور ذہنی دستور اساسی ہی نہیں بلکہ ایک عملی نمونہ بھی موجود رہے گا اور اسی طرح توارث اور تعامل کا سلسلہ بدستور جاری رہے گا، اگر بالفرض وہ علمی و دفتری قانون دنیا سے مفقود بھی ہوجائے تو حصولِ مقصود کے لئے اس گروہ کا وجود بھی کافی ہوگا۔
دینِ اسلام کی بہت سی ضروریات اور قطعیات مثلاً نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج، نکاح، طلاق، خرید و فروخت کی اجازت، شراب خوری، زنا کاری، قتل و قتال کی حرمت وغیرہ وغیرہ بیسیوں باتیں اسی توارث کے ذریعہ ہم تک پہنچتی رہی ہیں، بلکہ نماز بعض کیفیات اور زکوٰۃ کی بعض تفصیلات نہ تو صریح قرآن سے ثابت ہیں نہ اس بارے میں احادیث اصطلاحی متواتر ہیں، لیکن باوجود اس کے دنیا جانتی ہے کہ وہ سب چیزیں ضروری اور قطعی ہیں اور اس میں کوئی شک و شبہ بھی نہیں ہے۔
نصوصِ قرآن و حدیث کی حکم کے اعتبار سے اقسام:
۲۔ ادلۂ سمعیہ یعنی عقائد و احکام کے ثبوت کے لئے قرآن و حدیث کی نصوص چار قسم کی ہوتی ہیں:
الف: ثبوت و دلالت دونوں قطعی ہوں۔
ب: ثبوتِ قطعی ہو اور دلالت ظنی ہو۔
ج: دلالت قطعی ہو اور ثبوت ظنی ہو۔
د: ثبوت و دلالت دونوں ظنی ہوں۔
ثبوت کے معنیٰ یہ ہیں کہ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام ہے، دلالت کے معنیٰ یہ ہے کہ اس کے کلام کی مراد یہ ہے۔
قرآن و احادیث متواترہ ثبوت کے اعتبار سے دونوں قطعی ہیں، البتہ دلالت کے اعتبار سے کبھی قطعیت ہوگی، کبھی ظنیت۔
اخبارِ آحاد میں تیسری چوتھی قسم پائی جاتی ہے، مزید تفصیل کے لئے عبدالعزیز بخاری کی کتاب کشف الاسرار شرح اصول فخر الاسلام اور شرح تحریر الاصول ابن امیر حاج وغیرہ ملاحظہ ہوں۔
پہلی قسم سے انکار کفر ہے، دوسری اور تیسری قسم کے انکار سے کفر تک نوبت نہیں پہنچتی۔
تصدیقِ رسالت کا مطالب:
۳۔ تصدیقِ رسالت جو بنیادی عقیدہ ہے اس میں تصدیق کے معنیٰ یہ ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر بات کو دل قبول کرے اور تسلیم کرے، قرآن مجید میں و صدق بہ اور و یسلموا تسلیما سے یہی مراد ہے، صرف کسی شئی کا علم میں آجانا جو منطقی و معقول تصدیق ہے قطعاً کافی نہیں ہے، ورنہ صرف معرفت تو بہت سے یہودیوں کو اور ہرقل کو بھی حاصل تھی؛ لیکن مسلمان ہونے کے لئے اور نجات کے لئے اتنی بات کافی نہ ہوئی۔
۴۔ احادیثِ متواترہ کا افادۂ قطعیت اہل حق بلکہ امت کا اجماعی مسئلہ ہے۔
تواتر اصطلاحی کی شرط:
۵۔ اصطلاحی تواتر میں ایک شرط یہ ہے کہ ہر دور میں نقل کرنے والے اتنے ہوں کہ غلطی اور شبہ کی گنجائش نہ رہے، نقل کرنے والوں کی کوئی خاص تعداد مقرر نہیں، بسا اوقات کسی خاص موقع پر پانچ خاص آدمیوں کی روایت سے یقین حاصل ہوتا ہے جو پچاس دوسروں سے کسی دوسرے موقع پر حاصل نہیں ہوسکتا ہے، اس لئے علماءِ اصول نے تصریح کردی ہے کہ بیان کرنے والوں یا سننے والوں کے مرتبہ سے فرق پڑجاتا ہے اور کبھی مضمون اور بات کی نوعیت سے بھی تفاوت ہوسکتا ہے۔ (دیکھئے: فواتح الرحموت شرح مسلم الثبوت:۲،۱۱۰ مطبوعہ مصر)
تواترِ حدیث کا دار و مدار:
۶۔ بعض اصولیین کے نزدیک تواترِ حدیث کا مدار راویوں کی کثرت اور طرق و مخارج کی تعداد پر نہیں بلکہ دار و مدار ’’تلقی بالقبول‘‘ پر ہے، جن احادیث کو قرنِ اول یعنی صحابہ رضی اللہ عنہم کے عہد ہی میں امت نے قبول کرلیا ہے وہی متواتر ہیں، اس تعریف کے پیشِ نظر متواتر احادیث کی تعداد بہت بڑھ جاتی ہے، بعض محققین نے اسی تعریف کو زیادہ پسند کیا ہے، اس میں کوئی شبہ نہیں کہ عملی اعتبار سے قبولیتِ عامہ نفس کثرتِ رواۃ سے کہیں زیادہ مؤثر اور قوی ہے، اس کو ہم نے توارث و تعامل سے تعبیر کیا ہے، عنقریب اس بات کی تائید دوسری طرح سے بھی ہوجائے گی۔
قرنِ ثانی و ثالت میں ناقلین کی کمی:
۷۔ قرنِ اول میں ناقلین شرطِ تواتر پر ہوں اور قرنِ ثانی و ثالث میں کمی آجائے تو یہ محض عقلی احتمال ہے، ذخیرۂ حدیث میں اس کی مثال نہیں ملتی؛ بلکہ احادیث کی روایت میں واقعہ یہ ہے کہ یہ راوی بڑھ گئے اور قرنِ ثانی و ثالث میں اخبارِ آحاد کے راوی بھی اس کثرت کو پہنچ گئے ہیں جو قرنِ اول میں احادیث متواترہ کے بھی نہیں تھے، جئے پوری صاحب کو یہاں بھی بظاہر اشتباہ ہے، اگرچہ آخری جزو کو خود بھی ایک مقام پر تسلیم کرگئے ہیں۔
احادیثِ متواترہ کی قلت یا معدودمیت کا دعویٰ:
۸۔ احادیثِ متواترہ کا ذخیرۂ حدیث میں نہ ہونا یا نہایت کم ہونا دونوں دعوے تحقیق اور واقعیت کے خلاف ہیں، حافظ ابن حجر وغیرہ محققین اس خیال کی تردید کرتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ اس قسم کے خیالات کا منشاء احوالِ رواۃ و کثرتِ طرق پر قلتِ اطلاع کے سواء اور کچھ نہیں، بلکہ فرماتے ہیں کہ صحاح ستہ میں اس کی مثالیں بکثرت موجود ہیں، حافظ جلال الدین سیوطی نے تو دو مستقل رسالے تصنیف کئے ہیں جن میں احادیثِ متواترہ کو جمع کیا ہے: (۱) الازھار المتناثرۃ فی الاخبار المتواتر، یہ رسالہ چھپ چکا ہے، (۲) تدریب الراوی۔ (فتح المغیث للعراقی:۱،۲۷۔ فتح المغیث للسخاوی:۹۵)
صحیح بخاری و مسلم کی ان احادیث کا حکم جو درجۂ تواتر کو نہیں پہنچیں:
۹۔ محدثین میں کبارِ محدثین کی رائے یہ ہے کہ صحیح بخاری و صحیح مسلم کی وہ احادیث صحیحہ جو درجۂ تواتر کو نہیں بھی پہنچیں وہ بھی قطعی ہیں اور ان سے علم یقینی حاصل ہوتا ہے، استاذ ابومنصور بغدادی، امام ابواسحاق اسفرائینی، امام الحرمین امام ابوحامد اسفرائینی، قاضی ابوطیب طبری، امام ابواسحاق شیرازی، شمس الائمہ سرخسی حنفی، قاضی عبد الوہاب مالکی، ابویعلیٰ حنبلی، ابوخطاب حنبلی، ابن فورک، ابن طاہر مقدسی، ابونصر عبد الرحیم شافعی ابن صلاح رحمہم اللہ محققینِ مذاہبِ اربعہ کا یہی مذہب ہے؛ بلکہ اکثر اشاعرہ اور عام محدثین کا بھی یہی مسلک ہے اور یہی رائے ہے۔
متأخرین میں سے ابن تیمیہ، ابن قیم، ابن کثیر، ابن حجر اور سیوطی رحمہم اللہ کا یہی دعویٰ ہے، نووی وغیرہ نے جو اختلاف کیا ہے حافظ ابن حجرؒ نے اس کو بھی نزاع لفظی بتایا ہے، الافصاح فی المحاکمۃ بین النووی و ابن الصلاح یہ ابوعلی غانیؒ کی جو اس موضوع پر مستقل کتاب ہے وہ بھی نزاعِ لفظی ٹھہراتے ہیں، فرماتے ہیں علم قطعی نظری کا افادہ سب کے یہاں مسلم ہے، امام ابن طاہر مقدسی تو یہاں تک فرماتے ہیں جو صحیحین کی روایتیں نہیں ہیں لیکن صحیحین کی شرط پر ہوں وہ بھی مفید قطع ہیں۔
مکہ کے کبارِ تابعین میں سے عطاء بن ابی رباحؒ فرماتے ہیں:
ان ما اجمعت علیہ الامّۃ اقویٰ من الاسناد۔
ترجمہ:۔ جس حدیث پر امت کا اتفاق ہو کہ یہ صحیح ہے، نفسِ اسناد کے تواتر سے یہ زیادہ قوی چیز ہے۔
امام ابواسحاق اسفرائینیؒ فرماتے ہیں:
اہل الصنعۃ مجمعون عن علی ان الاخبار التی اشتمل علیھا الصحیحان مقطوع بصحۃ اصولھا و متونھا فمن خالف حکمہ خبراً منھا و لیس لہ تاویل سائغ للخبر نقضنا حکمہ لان ھذہ الاخبار تلقتھا الامۃ بالقبول۔ (فتح المغیث: للسخاوی)
ترجمہ:۔ محدثین سب اس پر متفق ہیں کہ بخاری و مسلم کی احادیث سب قطعی ہیں، اگر بغیر صحیح تاویل کوئی ایک حدیث کی بھی مخالفت کرے گا تو اس کے حکم کو ہم توڑیں گے؛ کیونکہ امتِ محمدؐیہ نے ان احادیث کو قبول کرلیا ہے۔
الاجماع علی القول بصحۃ الخبر اقویٰ فی افادۃ العلم من مجرد کثرۃ الطرق۔
ترجمہ:۔ کسی حدیث کی صحت پر علماء کا متفق ہونا افادۂ علم (قطعیت) میں کثرتِ طرق سے زیادہ قوی ہے۔
متواترِ لفظی کی تشریح:
۱۰۔ متواترِ لفظی کے یہ معنیٰ ہرگز نہیں کہ بعینہٖ ایک ہی لفظ سے وہ احادیث مروی ہوں؛ بلکہ جس لفظ سے بھی ہوں مضمون ایک ہونا چاہئے اور ایک یا دو محدثین نے جو نفئ تواترِ حدیث کا دعویٰ کیا تپا یا صرف ایک ہی مثل بتلائی تھی، بعض محققین کے نزدیک ان کی مراد بھی یہی ہے کہ ایک لفظ سے متواتر کی مثال نہیں ملتی، عزیز الوجود ہے گویا ان کے نزدیک بھی احادیث متواتر بہت ہیں لیکن ایک لفظ سے نہیں ہیں، صرف حدیث من کذب علیّ متعمداً فلیتبوّأ معقدہ من النار کو ایسا بتلایا گیا ہے، اس بناء پر نزاع بھی لفظی ہوجاتا ہے۔
متواتر معنوی کے یہ معنیٰ نہیں کہ لفظ مختلف ہوں اور مضمون الگ الگ ہو اور ایک بات قدر مشترک نکل آئے جیسے احادیثِ معجزات کہ ہر ایک اگرچہ اخبار آحاد میں سے ہے، لیکن نفس ثبوت معجزہ سب میں قدر مشترک ہے، اسی کو اصطلاح میں تواتر معنوی یا تواتر قدرِ مشترک کہتے ہیں۔ (ملاحظہ ہو: فواتح الرحموت شرح مسلم الثبوت)
اجماعِ امت اور اس کا حکم:
۱۱۔ ادلۂ شرعیہ میں ایک دلیل اجماعِ امت ہے، اگر اس اجماع کا ثبوت قطعی ہو تو اجماع قطعی ہوگا اور اس کا منکر بھی کافر ہوگا، جیسی دوسری قطعیاتِ شرعیہ کا منکر، بعض عقائد اگرچہ اخبار آحاد سے ثابت ہوں لیکن ان پر امت کا اجماع ہوجائے وہ بھی قطعی ہوجاتے ہیں، جیسے التلویح اور شرح التحریر (۳،۱۱۶) میں ہے۔
آئندہ غیبی امور کے متعلق علاماتِ قیامت کے بارے میں اگر اجماع ہو تو اس کے معنیٰ یہ ہیں کہ اس بارے میں فجر صادق سے جو نقل ہے وہ صحیح ہے، ملاحظہ ہو تفصیل کے لئے فواتح الرحموت شرح مسلم الثبوت (۲،۲۹۶) شرح تحریر الاصول لابن امیر الحاج (۳،۱۱۶)، حدوث عالم پر اجماع کے معنیٰ بھی یہی ہیں، جیسے فتح الباری (۲،۱۷۷) میں تقی الدین ابن دقیق العید سے منقول ہے، جئے پوری صاحب نے اس بارے میں کسی قدر تلبیس سے کام لیا فلیتنبہ۔
ضروریاتِ دین کی تعریف:
۱۲۔ جو چیز قرآن کریم یا احادیثِ متواترہ سے ثابت ہو یا اجماعِ امت سے ،اور دلالت بھی قطعی ہو تو وہ سب ضروریاتِ دین میں داخل ہیں، ضروریاتِ دین کے معنیٰ یہ ہیں کہ ان کا دین اسلام سے ہونا بالکل بدیہی ہو، خواص سے گذر کر عوام تک اس کا علم پہنچ گیا ہو، یہ نہیں کہ ہر عامی کو اس کا علم ہو؛ کیونکہ بسا اوقات تعلیمِ دین نہ ہونے سے بعض ضروریاتِ دین کا علم عوام کو نہیں ہوتا، لیکن تعلیم کے بعد اور جان لینے کے بعد اس پر ایمان لانا ضروری ہوتا ہے، علماء نے تصریح فرمادی ہے کہ بعض متواترات شرعیہ کے جہل سے تو کفر نہیں لازم آتا، لیکن معلوم ہونے کے بعد جحود و انکار سے آدمی کافر ہوجاتا ہے۔ (جواہر التوحید کی شرح:۵۱۔ حاشیہ الموفقات للشاطبی:۳،۱۵۶۔ اکفار الملحدین:۲)
ضروریاتِ دین کا حکم:
۱۳۔ ضروریاتِ دین کا انکار کرنا یا اس میں خلافِ مقصود تاویل کرنا دونوں کو علماء کرام نے موجبِ کفر بتلایا ہے، حجۃ الاسلام غزالی رحمہ اللہ نے اس موضوع میں ’’التفرقۃ بین الاسلام و الزندقۃ‘‘ مستقل کتاب لکھی ہے اور فیصلہ کن بحث فرمائی ہے، مدت ہوئی مصر سے چھپ کر آگئی ہے اور غالباً ہندوستان میں بھی طبع ہوئی ہے اور امام العصر محدثِ وقت حضرت الاستاذ مولانا محمد انور شاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب ’’اکفار الملحدین فی ضروریات الدین‘‘ اس موضوع پر نہایت ہی جامع اور بے مثل کتاب ہے۔
۱۴۔ جو چیز متواتر ہوجائے وہ دین میں ضروری ہوجاتی ہے، کیونکہ متواتر کا افادہ علمِ ضروری قطعی مسلمات سے ہے، پس اگر کسی کو اس کا علم ہوجائے کہ یہ حدیث احادیث متواترہ میں سے ہے یا یہ بات حدیثِ متواتر سے ثابت ہے تو اس پر ایمان لانا ضروری ہوجاتا ہے، خواہ اس کا تعلق کائنات ماضیہ سے ہو یا مغیباتِ مستقبلہ سے، خواہ عقائد کے متعلق ہو، خواہ احکام کے بارے میں ہو، تصدیقِ رسالت کے لئے اس سے چارہ نہیں ورنہ تکذیبِ رسولؐ کا کفر ہونا کسی دلیل کا محتاج نہیں، بہر حال تصدیقِ رسولؐ کا ایمان کے لئے ضروری ہونا اور تکذیب سے کفر کا لازم آنا یہ خود دین کی ضروریات میں داخل ہے، کتبِ کلامیہ اور کتبِ اصولِ فقہ میں یہ قواعد کلیہ مفصل مل جاتے ہیں، بطورِ نمونہ ہم اس سمندر سے چند قطرے پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں:
(۱) و من اعترف بکون شیئ من الشرع ثم جحدہ کان منکراً للشرع و انکار جزء من الشرع کانکار کلہ۔ (شرح التحریر:۳،۱۳)
ترجمہ:۔ جو شخص یہ مانے کہ یہ چیز شریعت میں ہے؛ باوجود اس کے اس کا انکار کرے تو یہ کل شریعت کا انکار ہے۔
(۲) و صح الاجماع لعی ان کل من جحد شیئاً صح عندنا بالاجماع ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اتی بہ کفراً و جحد شیئا صح عندہ بان النبی صلی اللہ علیہ وسلم قالہ فھو کافر۔ (الملل لابن حزم:۱،۲۵ و ۲۵۶)
ترجمہ:۔ اس پر اجماع ہے کہ جس چیز کے متعلق یہ اتفاق ہو کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماچکے ہیں تو اس کا انکار کفر ہے، یا یہ مانتا ہو کہ آپؐ فرماچکے ہیں باوجود اس کے نہ مانے یہ کفر ہے۔
(۳) من انکر الاخبار المتواترۃ فی الشریعۃ مثل حرمۃ لبس الحریر علی الرجال کفر۔ (شرح فقہ اکبر نقلًا عن المحیط)
ترجمہ:۔ کسی شرعی حکم کی حدیث متواتر ہو اور اس سے انکار کیا جائے تو کافر ہوگا، جیسے ریشمی کا لباس مردوں کے لئے حرام ہونا۔
(۴) فصار منکر المتواتر و مخالفہ کافراً ۔ (اصول فخر الاسلام بحث السنۃ)
ترجمہ:۔ متواتر کا انکار یا مخالفت دونوں کفر ہیں۔
(۵) و الصحیح ان کل قطعی من الشرع فھو ضروریّ۔ (المحصول للرازی بحوالہ اکفر الملحدین:۶۷)
ترجمہ:۔ دین میں جو چیز قطعیات کو پہنچ چکی ہو وہ ضروریاتِ دین میں داخل ہے۔
(۶) شروط القطع فی النقلیات التواتر الضروری فی النقل و التجلی الضروری فی المعنیٰ۔ (ایضاً:۶۹)
ترجمہ:۔ شرعی امور جب تواتر سے ثابت ہوں اور معنیٰ بھی واضح ہوں، یہی قطعیت ہے۔
(۷) کل مالم یحتمل التأویل فی نفسہ و تواتر نقلہ و لم یتصور ان یقوم برھان علی خلافہ فمخالفتہ تکذیب محض۔ (التفرقۃ للغزالی:۱۴)
ترجمہ:۔ جس چیز کی نقل متواتر ہو اور تاویل کی گنجائش نہ ہو اور کوئی دلیل خلاف پر قائم نہ ہو تو ایسی چیز کی مخالف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب ہے۔
(۸) بل انکار المتواتر عدم قبول اطاعۃ الشارع ….. ورد علی الشریعۃ و ان لم یکذب و ھو کفر بواح نفسہ۔ (شرح الاشباہ للحموی رد المختار، طحطاوی بحوالہ اکفار الملحدین)
ترجمہ:۔ بلکہ حقیقت میں تو متواتر کا انکار شارع علیہ السلام کی عدمِ اطاعت ہے اور شریعت اسلام کا رد جو خود کھلا ہوا کفر ہے اگرچہ تکذیب نہ کرے۔
(۹) و من انکر شیئا من شرائع الاسلام فقد ابطل قول لا الہ الا اللہ۔ (السیر الکبیر للامام محمد بحوالہ اکفار الملحدین)
ترجمہ:۔ شریعتِ اسلامیہ کی کسی چیز سے انکار کرنا کلمۂ اسلام سے انکار کرنا ہے۔
(۱۰) فلا خلاف بین المسلمین ان الرجل لو اظہر انکار الواجبات الظاہرۃ المتواترۃ و نحو ذٰلک فانہ یستتاب فان تاب و الا قتل کافرًا مرتدًا۔ (شرح عقیدۃ طحاویۃ مطبوعہ حجاز:۲۴۷)
ترجمہ:۔ امتِ مسلمہ میں کوئی خلاف اس بات میں نہیں کہ جو کوئی متواترات سے انکار کرے چاہے اس کا کرنا فرض ہو یا ترکِ حرام ہو اس سے توبہ نہ کرے تو کافر ہے اور واجب القتل ہے۔
(۱۱) لا یکفر اھل القبلۃ الا فیما فیہ انکار ما علم مجیئہ بالضرورۃ أو أجمع علیہ کاستحلال المحرمات۔ (المواقف و مثلہ فی العضدیۃ)
ترجمہ:۔ اہل قبلہ کی اس وقت تک تکفیر نہیں کی جاتی جب تک ضروریاتِ دین کا یا کسی ایسی چیز کا جس پر اجماع منعقد ہو انکار نہ کرے، مثلاً حرام کو حلال سمجھنا۔
(۱۲) و کذالک یقطع بتکفیر من کذب أو أنکر قاعدۃ من قواعد الشریعۃ و ما عرف یقیناً بالنقل المتواتر من فعل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم۔
ترجمہ:۔ جو شخص تکذیب کرے یا کلیات شریعت میں سے کسی قاعدہ سے انکار کرے یا جو چیز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے متواتر ثابت ہے اس سے انکار کرے اس کی تکفیر قطعی و یقینی ہے۔
(۱۳) و خرق الاجماع القطعی الذی صار من ضروریات الدین کفر۔ (کلیات ابی البقاء بحوالہ اکفر الملحدین)
ترجمہ:۔ قطعی اجماع جو ضروریاتِ دین میں داخل ہے اس کا خلاف کرنا کفر ہے۔
ضروریاتِ دین کی فہرست:
۱۴۔ ضروریاتِ دین کی مثال میں علماءِ امت اپنی اپنی کتابوں میں دو چار مثالیں ذکر کر دیتے ہیں، ناظرین کو یہ غلط فہمی ہوجاتی ہے کہ ضروریاتِ دین بس یہی ہیں، آگے سلسلہ ختم ہوگیا، یہ چیز جئے پوری صاحب کو بھی پیش آرہی ہے، حالانکہ ان اکابر کا مقصود محض مثال پیش کرنا ہے، نہ استقصار، نہ حصر، نہ تخصیص، اس غلط فہمی کے ازالہ کے لئے ذیل میں ہم ان مثالوں کو ایک جگہ جمع کردیتے ہیں، جو سرسری محنت سے مل سکیں تاکہ اس مختصر فہرست سے خود بخود یہ حقیقت واضح ہوجائے کہ مقصود تمثیل تھی نہ کہ پوری فہرست، کتبِ فقہ، اصولِ فقہ، کتبِ کلامِ اصولِ حدیث میں ذیل کی مثالیں ملتی ہیں:
(۱)اثباتِ علمِ الہٰی (۲)قدرتِ محیط (۳)ارادۂ کاملہ (۴)صفتِ کلام (۵)قرآن مجید (۶)قِدَم قرآن (۷)قِدَم صفات باری (۸)حدوثِ عالم (۹)حشرِ اجساد (۱۰)عذابِ قبر (۱۱)جزاء و سزاء (۱۲)رؤیتِ باری قیامت میں (۱۳)شفاعتِ کبریٰ (۱۴)حوض کوثر (۱۵)وجودِ ملائکہ (۱۶)وجودِ کراماً کاتبین (۱۷)ختمِ نبوت (۱۸)نبوت کا وہبی ہونا (۱۹)مہاجرین و انصار کی اہانت کا عدمِ جواز (۲۰)اہلِ بیت کی محبت (۲۱)خلافتِ شیخین (۲۲)پانچ نماز فرض (۲۳)رکعات کی تعداد (۲۴)تعدادِ سجدات (۲۵)رمضان کے روزے (۲۶)زکوٰۃ (۲۷)مقادیرِ زکوٰۃ (۲۹)وقوفِ عرفات (۳۰)تعدادِ طواف (۳۱)جہاد (۳۲)نماز میں استقبالِ کعبہ (۳۳) جمعہ (۳۴)جماعت (۳۵) اذان (۳۶)عیدین (۳۷)جوازِ مسح خفین (۳۸)عدمِ جواز سبِّ رسولؐ (۳۹)عدمِ جواز سبِّ شیخینؓ (۴۰)انکارِ جسم (۴۱)انکارِ حلول اللہ (۴۲)عدمِ استحلال محرمات (۴۳)رجمِ زانی (۴۴)محض حرمتِ لبسِ حریر (ریشم پہننا) (۴۵)جوازِ بیع (۴۶)غسلِ جنابت (۴۷) تحریمِ نکاحِ امہات (۴۸)تحریمِ نکاحِ بنات (۴۹)تحریمِ نکاحِ ذوی المحارم (۵۰)حرمتِ خمر (۵۱) حرمتِ قمار۔
اس وقت یہ اکیاون (۵۱) مثالیں پیش کی گئی ہیں، اب تو خیال مبارک میں آگیا ہوگا کہ بعض وہ امور جس کی طرف التفات بھی نہ ہوگا، وہ بھی ضروریاتِ دین میں داخل ہیں۔
ضروریاتِ دین کے لئے ایک کلیہ:
اب ہم اس بحث کے آخر میں محقق ہند حضرت عبد العزیز صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی عبادت کا اقتباس پیش کرتے ہیں، پوری عبارت ’’اکفار الملحدین‘‘ میں منقول ہے، اس سے انشاء اللہ تعالی یہ بات بالکل بدیہی ہوجائے گی کہ ضروریاتِ دین کے لئے ضابطۂ کلیہ کیاہے اور جو چیزیں بطورِ تمثیل پیش کی جاتی ہیں، ان کا دائرہ صرف تمثیل ہی کی حد تک محدود ہے، فرماتے ہیں:
ضروریات الدین منحصرۃ عندھم فی ثلاثۃ مدلول الکتاب بشرط ان یکون نصاً صریحاً لا یمکن تأویلہ کتحریم البنات و الامھات و مدلول السنۃ المتواترۃ لفظاً أو معنی سواء کان من الاعتقادیات أو من العملیات و سواء کان فرضاً أو نفلاً ….. و المجمع علیہ اجماعاً قطعیاً کخلافۃ الصّدِّیق و الفاروق و نحو ذٰلک و لا شبھۃ أن أنکر أمثال ھذہ الامور لم یصح ایمانہ بالکتاب و النبیین۔
ترجمہ:۔ ضروریاتِ دین تین قسم کی ہیں: پہلی قسم یہ کہ تصریحِ نصِ قرآنی سے ثابت ہوں، جیسے ماں بیٹی سے نکاح کا حرام ہونا، دوسری قسم یہ کہ سنتِ متواترہ سے ثابت ہوں، تواتر خواہ لفظی ہو، خواہ معنوی، عقائد میں ہو یا اعمال میں ہو، فرض ہو یا نفل ہو، تیسری قسم یہ ہے کہ اجماع قطعی سے ثابت ہوں، جیسے حضرت صدیق اکبر و حضرت فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہما کی خلافت وغیرہ، اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس قسم کے امور سے اگر انکار کیا جائے تو اس شخص کا ایمان قرآن اور انبیاء پر صحیح نہیں ہے۔
حضرت علامہ کشمیریؒ کے نزدیک ضروریاتِ دین کی تشریح:
امام العصرمحدث حاضر حضرت الاستاذ علامہ مولانا محمد انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ مزید توضیح کے ساتھ فرماتے ہیں: ’’ضروری کے معنیٰ یہ ہیں کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ثبوت ضروری ہو، دین سے ہونا یقینی ہو اور جو بھی اس کا شرعی مرتبہ ہو اسی درجہ کا عقیدہ اس کا ضروری ہوگا، مثلاً نماز فرض ہے اور فرضیت کا عقیدہ بھی فرض ہے اور اس کا سیکھنا بھی فرض ہے اور انکارِ کفر ہے، اسی طرح مسواک کرنا سنت ہے اور سنت ہونے کا عقیدۂ فرض ہے اور سیکھنا سنت اور انکار کرنا کفر ہے اور عملاً ترک کردینا باعثِ عتاب یا عقاب ہے۔
اب امید ہے کہ اس تشریح سے ضروریاتِ دین کی حقیقت واضح ہوگئی ہوگی، بات تو بہت لمبی ہوگئی لیکن توقع ہے کہ طالب حق کے لئے نہایت کارآمد ثابت ہوگی اور آج کل جو عام طور پر ایمان و کفر کے قواعد یا مسائل میں عوام کو یا عالم نماز جاہلوں کو شبہات و شکوک یا وساوس پیش آرہے ہیں ان کا بھی اس سے تصفیہ ہوجائے گا۔
اہل سنت و الجماعت کی خصوصیات
شیخ ناصر بن عبد الکریم العقل
اہل سنت و الجماعت فرقہ ناجیہ اور طائفۂ منصورہ ہیں، باہمی تفاوت کے باوجود مندرجہ ذیل صفات انہیں دوسروں سے ممتاز کرتی ہیں:
(۱) کتاب اللہ کے حفظ نیز تفسیر و بیان کرنے کا اہتمام کرنا، اس کے ساتھ حدیث کی معرفت، صحیح اور ضعیف کی پہچان اور علم پر کاربند رہنا ان کی صفت ہے۔
(۲) پورے دین کو اختیار کرنا، پورے قرآن پر ایمان لانا، جس میں خوشخبری اور پکڑ دونوں شامل ہیں اہل سنت و الجماعت بیک وقت اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات کا اثبار بھی کرتے ہیں اور اُسے ہر عیب سے مبرأ بھی جانتے ہیں، اللہ کی تقدیر پر ایمان رکھتے ہیں مگر اس بات کے بھی قائل ہیں کہ بندہ خود اپنا ارادہ بھی رکھتا ہے اور اختیار بھی اور فعل بھی اپنے اختیار سے کرتا ہے، اسی طرح علم کی اہمیت اپنی جگہ مانتے ہیں اور عبادت و ریاضت کی اہمیت اپنی جگہ، اللہ کی قوت بھی تسلیم کرتے ہیں اور رحمت بھی، اسباب احتیار کرنا بھی ضروری سمجھتے ہیں اور زہد اپنانا بھی۔
(۳) بدعت اختیار کرنے کے بجائے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی پیروی اپناتے ہیں اور دین میں اختلاف و افتراق کے بجائے اتفاق اور اجتماعیت اختیار کرتے ہیں۔
(۴) علم و عمل اور تبلیغ میں قابلِ اقتداء ائمہ کرام رحمہم اللہ کا طرز اپنانا، ان سے رہنمائی حاصل کرنا اور ان کے مخالفین سے کنارہ کش رہنا۔
(۵) عقائد اعمال اور اخلاقیات میں افراط و تفریط کے درمیان راہِ اعتدال اختیار کرنا۔
(۶) مسلمانوں کو حق پر مجتمع رکھنے اور توحید و اتباع میں انہی منظم رکھنے کے لئے کوشاں رہنا، ہر قسم کے اختلافات اور نزاع کو ختم کرنا، اسی لئے وہ عقائد کے سلسلہ میں ’’السنۃ و الجماعۃ‘‘ کے علاوہ کسی دوسرے نام سے نہیں پہچانے جاتے، اور اسلام و راہِ سنت کے علاوہ کسی اور تعلق کی بناء پر نہ دوستی رکھتے ہیں اور نہ عداوت۔
(۷) دعوت الی اللہ، امر بالمعروف، نہی عن المنکر، جہاد، راہِ سنت کا احیاء اور تجدیدِ دین کا کام کرنا، ہر چھوٹے بڑے معاملہ میں اللہ کی شریعت اور حاکمیت کو قائم کرنا۔
(۸) عدل و انصاف کا دامن تھامے رکھنا، اپنے گروہ یا ذات کے بجائے حقوق اللہ کا پاس رکھنا، اہلِ سنت نہ دوستی میں غلو کرتے ہیں اور نہ دشمنی میں حدیں پھلانگتے ہیں اور ہر اہلِ فضیلت کو قابلِ احترام سمجھتے ہیں۔
(۹) زمان و مکان کے اختلاف کے باوجود ایک جیسا فہم رکھنا اور ملتے جلتے موقف اختیار کرنا ان کا خاصہ ہے، جو کہ صرف وحدتِ مصدر اور منہجِ تلقی کا ثمرہ ہے۔
(۱۰) تمام لوگوں سے حسن خلق، ہمدردی اور خوش اسلوبی سے پیش آنا۔
(۱۱) اللہ، آسمانی کتاب، اس کے رسولؐ، مسلم حکمران اور عوام الناس کی خیر خواہی کرنا۔
(۱۲) مسلمانوں کے لئے فکر مند رہنا، تمام مسلمانوں سے بھلائی کرنا اور ان کے حقوق ادا کرنا اور انہیں اذیت پہنچانے سے اجتناب کرنا، اہلِ سنت و الجماعت کی امتیازی خصوصیات ہیں۔