آسمانی کتابیں و صحیفے

ہم تورات’زبور’انجیل اورصحفِ انبیاءؑ کوکس طرح مانیں اور ان سے متعلق احکام و عقائد
ہم کلام اللہ’ کلامِ معجز قرآنِ مجید پرکس طرح ایمان لائیں اور ان سے متعلق احکام و عقائد

لوحِ محفوظ:
لوحِ محفوظ اور نبیوں کی جانب بھیجی گئی کتابیں دونوں کتاب اللہ ہیں، البتہ اب جب مطلق کتاب اللہ کہا جائے تو وہ قرآن مجید ہے۔کتاب اللہ کا اطلاق اللہ کے حکم پر بھی ہوتا ہے، جس سے کوئی کتاب مراد نہیں ہوتی، محض حکم الٰہی مراد ہوتا ہے، البتہ جہاں حکم نہیں بلکہ کتاب مراد ہو تو یہ قرآن میں دو طرح کی کتابوں کےلئے استعمال ہوا ہے، (۱) لوح محفوظ ، (۲) انبیاء کی جانب بھیجی گئی اللہ کی کتابیں۔
’’لوح محفوظ‘‘ اللہ کی وہ کتاب ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے کائنات کے آغاز سے لے کر انجام تک جو کچھ پیش آئے گا سب کچھ لکھوا دیا ہے، اس میں کائنات و تمام مخلوقات کی تخلیق، دنیا میں انسان کے آغاز، قوموں کے اجتماعی وانفرادی احوال، ہر فرد کے پیدا ہونے سے لے کر مرنے تک کا ایک ایک واقعہ، معاش و اجل، اختیاری و غیر اختیاری حرکات و سکنات، بھلائیاں و برائیاں، اعمال اور ان کا انجام غرض مخلوقات سے متعلق ہر ہر امر اس کتاب میں مذکور ہے۔
اسی کتاب میں انبیاء علیہم السلام اور ان کے احوال بھی مذکور ہیں اور وہ کتابیں یا صحیفے بھی لکھے ہوئے ہیں جو ایک ایک نبی کی جانب نازل کئے گئے ہیں، اس لوح محفوظ پر بھی ’’کتاب اللہ‘‘ کا اطلاق ہوتا ہے۔
اسی طرح ’’کتاب اللہ‘‘ کا اطلاق الگ الگ انبیاء کی جانب جو کتابیں بھیجی گئی ہیں ان پر بھی ہوتا ہے، بلکہ جب ’’اللہ کی کتابیں ‘‘ (کُتُبِہٖ) کہا جائے تو اس سے وہی کتابیں مراد ہوتی ہیں جو اللہ نے انبیاء علیہم السلام کی جانب بھیجی ہیں۔ چنانچہ تورات انجیل زبور سب ’’کتاب اللہ‘‘ ہیں، اور اب جب یہ لفظ مطلق استعمال کیا جائے تو اس سے مراد اللہ کی آخری کتاب یعنی قرآن مجید مراد ہوتی ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی رہنمائی اور ہدایت کے لئے چھوٹی بڑی بہت سے کتابیں اور صحیفے اپنے پیغمبروں پر نازل فرمائیں ۔تشریح
اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی رہنمائی اور ہدایت کے لئے چھوٹی بڑی بہت سے کتابیں اور صحیفے اپنے پیغمبروں پر نازل فرمائیں ۔جن کتابوں اور صحیفوں کا ثبوت دلائل قطعیہ سےثابت ہے ان پر ایمان لانا ضروری ہے، ان کے انکار سے انسان دائرۂ اسلام سے خارج ہوجاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے جو کتابیں اور صحیفے آسمانوں سے نازل فرمائے بعض روایات کے مطابق ان کی تعداد ایک سو چار ہے، ان میں سے دس صحیفے حضرت آدم علیہ السلام پر، دس صحیفے حضرت شیث علیہ السلام پر، تیس صحیفے حضرت ادریس علیہ السلام پر اور دس صحیفے حضرت ابراہیم علیہ السلام پر نازل فرمائے۔
’’ایمان بالکتب ‘‘ کا مفہوم اور اس کی بنیاد:
اللہ تعالیٰ کی کتابوں پر ایمان بھی ایمانیات کا حصہ ہے، اللہ رب العالمین نے جس طرح نبیوں اور رسولوں کو بھیجا ایسے ہی ان نبیوں و رسولوں پر اپنے بندوں کی ہدایت و رہنمائی کےلئے اپنی کتابیں بھی نازل فرمائیں، ان کتابوں پر ایسے ایمان لانا جیسے اللہ اور اس کے رسول چاہتے ہیں (جس کی تفصیل آگے آرہی ہے) یہ ’’ایمان بالکتب‘‘ کہلاتا ہے۔
تمام ایمانیات و عقائد کی بنیاد ’’ایمان باللہ‘‘ ہے، ’’ایمان بالکتب‘‘ کی بنیاد بھی ایمان باللہ ہی ہے، جیسا کہ اس سے پہلے ’’ایمان باللہ‘‘ میں بیان ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو پیدا کیا ہے اسی طرح ان کی ہدایت کا بھی اللہ نے انتظام کیا ہے، چنانچہ اللہ کی صفات میں ایک صفت ’’الھادی‘‘ (یعنی ہدایت دینے والا) بھی ہے، اللہ کی ہدایت کے سلسلہ میں جس طرح نبوت و رسالت شامل ہے، اسی میں ان نبیوں و رسولوں کی جانب اپنی کتابیں نازل کرنا بھی شامل ہے، اللہ تعالیٰ کی صفت ہدایت کا ظہور جس طرح رسالت و نبوت کی شکل میں ہوا اسی طرح اس صفت کا ظہور اللہ کی کتابوں کے ذریعہ بھی ہواہے۔
اللہ تعالیٰ نے نبیوں کے ساتھ کتابیں بھی نازل فرمائی ہیں:
یہ تاریخی طور پر ثابت حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدہ کے مطابق انبیاء کے ساتھ کتابیں نازل فرمائی ہیں، ابتداء میں انسانیت ایک ہی امت تھی، لیکن پھر وہ اللہ کی ہدایت سے دور ہٹ کر اختلافات میں بٹ گئے، اللہ تعالیٰ نے جب بھی اس کی حکمت و مصلحت ہوئی انبیاء کو مبشر و منذر بنا کر بھیجا ، اور ان کے ساتھ کتابیں بھی نازل فرمائیں، انبیاء اللہ کی کتاب کے ذریعہ اپنی قوموں کے فیصلہ فرماتے رہے اور پھر جب بھی انسانوں نے اپنی سرکشی سے اللہ کی کتاب میں تحریف کردی یا وہ اختلافات کا شکار ہوئے اللہ تعالیٰ نے دوسرے انبیاء و رسولوں کے ذریعہ سے کتابوں کو نازل فرمایا، یہ تاریخ خود اللہ کی آخری کتاب قرآن مجید بیان کرتی ہے، جس سے زیادہ قابل اعتماد استناد کسی اور کو حاصل نہیں ہے، جبکہ دنیا کی دیگر سبھی تاریخی ذرائع اس حقیقت کی تصدیق کرتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے سبھی انبیاء کو کتاب کا علم دیا ہے، بہت سے انبیاء کی جانب مستقل کتابیں نازل فرمائیں، اور بہت سے انبیاء کو سابقہ انبیاء کی کتابوں کے مطابق فیصلے کرنے کا حکم دیا، مثلاً انبیاء بنی اسرائیل تورات کے مطابق فیصلے کیا کرتے تھے، ہاں جو کچھ اضافی احکام انہیں دئے جاتے وہ بھی بنی اسرائیل کی شریعت کا حصہ بن جاتے، کبھی ایسا ہوتا کہ اللہ کی کوئی کتاب کوئی قوم ضائع کردیتی اور اللہ تعالیٰ کو اسی کتاب کی شریعت کو جاری رکھنا ہوتا تو وہ نئے بھیجے جانے والے نبی کو اس کتاب کے علم کے ساتھ بھیجتے جو ان سے پہلے کے رسول پر نازل کی گئی تھی، مثلاً حضرت عزیر علیہ السلام کے زمانہ میں بنی اسرائیل نے تورات کو بخت نصر کے حملہ میں بالکل کھو دیا تھا، اللہ تعالیٰ نے انہیں سو سال کےلئے سلا دیا اور جب دوبارہ جگایا تو انہیں بنی اسرائیل کے پاس بھیجا جبکہ بنی اسرائیل تورات گم ہونے کی وجہ سے سخت حیران اور اختلافات کے شکار تھے، حضرت عزیر علیہ السلام نے انہیں پھر تورات محفوظ کروائی۔
اسی طرح دیگر انبیاء بنی اسرائیل کو بھی تورات کا علم دیا گیا ہے، حضرت یحییٰ کو بھی اللہ کی کتاب کو مضبوطی سے قائم تھامے رکھنے کا حکم دیا ہے۔
صرف بنی اسرائیل میں تین بڑی کتابوں کو نازل کیا گیا ہے، حضرت موسی علیہ السلام پر تورات، حضرت داؤد علیہ السلام پر زبور اور حضرت عیسی علیہ السلام پر انجیل کو نازل کیا گیا ہے، یہ تینوں انبیاء بنی اسرائیل کے نبی و رسول ہیں، ان میں سے ہر ایک کتاب پر ہم آگے بات کررہے ہیں۔
دیگر انبیاء کی جانب بھی کتابیں یا صحیفے نازل کئے گئے ہیں ، مثلاً حضرت ابراہیم علیہ السلام پر صحیفے نازل کئے گئے ہیں۔
سب سے آخر میں خاتم النبیین سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن مجید کو نازل کیا گیا، یہ اللہ کی بنی انسان کےلئے آخری کتاب ہے، قیامت تک اب یہی کتاب باقی رہے گی، اس میں کوئی تحریف نہیں ہو سکتی ، اس کی تفصیل آگے مستقل آرہی ہے۔
کل کتنے صحیفے انبیاء پر نازل کئے گئے ہیں؟ اس کا علم اللہ ہی کے پاس ہے! جیسے بہت سے انبیاء کے واقعات ہمیں بتلائے گئے ہیں اور بہت سوں کے واقعات نہیں بتلائے گئے ہیں، اسی طرح چند مخصوص کتابوں کے بارے میں تو ہمیں بتلایا گیا ہے باقی کا علم اللہ کے پاس ہے۔
ہمیں اس بات پر ایمان لانا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انبیاء علیہم السلام کے ساتھ کتابیں نازل فرمائی ہیں، جس کے ذریعہ وہ اپنی قوموں کو اللہ کے احکامات بتلاتے اور ان میں اللہ کے حکم کے مطابق فیصلے کرتے تھے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
وحی اور اللہ کی کتابیں برحق ہیں، ان پر ایمان لانا ضروری ہے اور ان کا انکار کفر ہے۔تشریح
وحی الٰہی پر ایمان
اللہ تعالیٰ اپنے جو پیغامات اپنے پیغمبروں کو بھیجتا ہے اس کو وحی کہتے ہیں، ایسا بھی ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ راست کوئی بات نبی و رسول کے دل میں القا٫ فرماتے ہیں اس کو بھی وحی کہتے ہیں، اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نبی و رسول سے بغیر کسی واسطہ کے خود کلام فرماتے ہیں، یہ بھی وحئ الٰہی ہی ہوتی ہے، اکثر اللہ تعالیٰ اپنے پیغامات اپنے فرشتوں کے ذریعہ نبیوں اور رسولوں تک بھیجتے رہے ہیں، یہ سب وحی کی صورتیں ہیں، انبیاء کا خواب بھی وحی ہوتا ہے، جس کی پیروی نبی پر واجب ہوتی ہے، جبکہ غیر انبیا ء کے خواب کو شرعی حجیت کا مقام حاصل نہیں ہے۔
وحی پر ایمان لانا کہ ’’پروردگار نے اپنے بندوں تک اپنے احکام پہنچانے کےلئے نبیوں کو وحی بھیجی ہے‘‘ فرض ہے اور اس کا انکار کرنا کفر ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
اللہ تعالیٰ کی جانب سے وحی اور کتابیں فرشتوں کے ذریعہ بھیجی گئی ہیں۔تشریح
پیغام رسانی پر مأمور فرشتے:
فرشتوں میں پیغام رسانی پر مأمور خاص فرشتے ہیں جو انبیاء و رسولوں تک وحی کو پہنچاتے رہے ہیں،یہ فرشتے حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر خاتم النبیین حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک تمام انبیاء کی جانب اللہ تعالیٰ کے پیغام پہنچاتے رہے ہیں۔
پیغام بر فرشتوں کے سردار حضرت جبرئیل علیہ السلام ہیں، عام طور پر انبیاء ورسولوں کے پاس پیغام لے کر حضرت جبرئیل علیہ السلام ہی آیا کرتے تھے، ہاں ان کے ساتھ دیگر فرشتے بھی ہوتے ہیں، مثلاً سورہ انعام کے بارے میں وارد ہوا ہے کہ اس کے نزول کے وقت ستر ہزار فرشتے ساتھ تھے جو تسبیح بیان کررہے تھے اور آسمان و زمین ان کی تسبیح کی آواز سے گونج رہی تھی۔
قرآن مجید کی وحی بھی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تک حضرت جبرئیل علیہ السلام ہی لاتے تھے، ہاں بعض قرآن کے حصے بعض خاص فرشتوں کے ذریعہ بھی بھیجے گئے ہیں، کبھی ایسا بھی ہوا ہے کہ قرآن مجید کا کوئی خاص حصہ حضرت جبرئیل علیہ السلام کے علاوہ کوئی اور فرشتہ لایا ہو، مثلاً سورۃ فاتحہ کی خوشخبری لانے والا فرشتہ دوسرا ہے، ہاں! اس فرشتہ کی آمد کے وقت خود حضرت جبرئیل بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے۔
اللہ تعالیٰ فرشتوں کے ذریعہ انبیاء و رسولوں کو وحی بھیجتے ہیں یہ قطعی عقیدہ ہے، جس پر ایمان لازمی ہے اور اس کا انکار کرنا کفر ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
اللہ تعالیٰ نے تورات حضرت موسیٰ علیہ السلام پر، انجیل حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر، زبور حضرت داؤد علیہ السلام پر اور قرآن کریم حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرمائی۔تشریح
سابقہ اور موجودہ اہل ِکتاب کو حکم:
اہل کتاب خواہ وہ سابقہ کتابوں کے ماننے والے ہوں یا موجودہ کتاب کے پیروکار ہوں، سب کو اللہ کا یہ حکم ہے کہ وہ اللہ کی تمام کتابوں پر ایمان رکھیں اور اللہ کا تقوی اختیار کریں، اگر وہ کفر کے مرتکب ہوتے ہیں تو آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے وہ اللہ کا ہے، اللہ تعالیٰ ان کا محتاج نہیں ہے اور وہ سب سے بے نیاز ہے۔
خود اہل ایمان کو اس بات کا حکم ہے کہ وہ اس بات کا کھل کر اعتراف کریں کہ وہ ان کتابوں پر بھی ایمان رکھتے ہیں جو ان کے پیغمبر سے پہلے دوسرے پیغمبروں پر نازل کی گئیں ہیں اور اس پر بھی ایمان رکھتے ہیں جو ان کے پیغمبر کی جانب نازل کی گئی ہے، خود اہل کتاب میں سے بھی مؤمن قرآن پر ایمان رکھتے ہیں اور جو قرآن کا یا کسی ایک بھی اللہ کی کتاب کا انکار کرے گا وہ کا فرہے۔
سابقہ امتوں پر نازل کی گئیں اللہ کی کتابیں:
متعدد بار یہ بات اجمالاً آچکی ہے کہ اللہ نے انبیاء کے ساتھ کتابیں نازل کی ہیں اور سب میں بندوں کےلئے اللہ کی ہدایت تھی، اسی طرح اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کی جانب جو کتابیں نازل کی ہیں ان میں تورات، زبور اور انجیل ہیں۔
بنی اسرائیل کی جانب تورات کا نزول:
تورات اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے، جس کو اللہ تعالیٰ نے حضرت موسی اور حضرت ہارون علیہما السلام پر نازل فرمایا تھا، وہ بھی اللہ کی دوسری کتابوں کی طرح، ہدایت، نور، رحمت،امام و بصائر کی صفات سے متصف تھی، جس میں ہدایت کے بینات بیان کئے گئے تھے، اللہ تعالیٰ نے اس کتاب کے ذریعہ انہیں مفصل شریعت عطاء فرمائی تھی تاکہ بنی اسرائیل اللہ کے ان احکام کے مطابق اپنے فیصلے کریں، چنانچہ انبیاءِ بنی اسرائیل اسی کتاب میں دی گئی شریعت کے مطابق فیصلے کیا کرتے تھے اور حضرت موسی و ہارون علیہما السلام پر نازل کی گئی اس کتاب کے وارثین بنی اسرائیل بنائے گئے۔
بنی اسرائیل کی جانب دوسری اہم کتاب زبور کا نزول:
اللہ کی دوسری کتاب جس کا متعین نام ہمیں بتلایا گیا ہے زبور ہے، زبور بنی اسرائیل کے نبی حضرت داؤد علیہ السلام کی جانب نازل کی گئی،اس میں اللہ کی کبریائی و عظمت ، تحمید و تمجید دعائیں اور مناجات اور حکمت و موعظت کی باتیں مذکور تھیں۔
بنی اسرائیل کی جانب تیسری اہم کتاب انجیل کا نزول:
اللہ کی تیسری کتاب جس کا نام ہمیں بتلایا گیا ہے انجیل ہے، یہ کتاب اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسی علیہ السلام پر نازل فرمائی تھی، حضرت عیسی علیہ السلام بنی اسرائیل کی جانب رسول بنا کر بھیجے گئے تھے۔
یہ محض اتفاق نہیں ہے کہ ہمیں قرآن سے پہلے کی تین کتابوں کا نام بتلایا گیا ہے اور وہ تینوں ہی بنی اسرائیل کی جانب بھیجی گئی تھیں، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ امت سے پہلے بنی اسرائیل ہی بحیثیت امت مسلمہ دنیا میں تھی، جس کو اللہ تعالیٰ نے پوری دنیا پر فضیلت دی تھی، چونکہ وہ ہم سے پہلے کی امت ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے ہمیں ان کے بارے میں اس درجہ تفصیل سے بتلایا ہے ، اور باقیوں کے بارے میں اتنا بتلانے پر اکتفاء کیا ہے کہ تمام بنی نوع انسانی کےلئے انبیاء کے ذریعہ کتابیں بھیجی جاتی رہی ہیں، بعض احادیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ تقریباً ایک سو سے زائد کتابیں اللہ تعالیٰ نے نازل فرمائی ہیں۔
متعین طور پر ان تمام کتابوں پر جن کے نام بتلائے گئے نام بنام ایمان لانا لازم ہے کہ وہ اللہ کی کتابیں ہیں، اور جن کے نام نہیں بتلائے گئے ان پر اجمالاً اس طرح ایمان لانا لازم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی جانب ہدایت کےلئے اپنی کتابیں بھیجی ہیں۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
آسمان سے اترنے والی تمام کتابیں اور صحیفے حق اور سچے تھے، بعد میں لوگوں نے ان میں تحریف کی، چنانچہ اب سوائے قرآن مجید کے کوئی آسمانی کتاب اپنی اصلی اور صحیح حالت میں موجود نہیں ہے۔تشریح
تورات و انجیل میں تحریف ہو چکی ہے، اور بائبل پر تورات و انجیل کا اطلاق نہیں ہوسکتا، ہاں بائبل میں تورات و انجیل کی بہت سی تعلیمات بھی موجود ہیں۔
اس لئے اہل کتاب کی صرف انہیں باتوں کی تصدیق کی جاسکتی ہے جس کی خود قرآن تصدیق کرتا ہو، اور ان باتوں کی تکذیب کی جائے گی جن کی قرآن تکذیب کرتا ہے۔
کیا بائبل اللہ کی کتاب ہے؟
تورات اور انجیل اپنی اصل شکل میں دنیا میں کہیں نہیں ہیں، فطری طور پر یہ یہودیوں یا نصاری کا دعوی ہونا چاہئے کہ ان کی کتابیں اصل شکل میں موجود ہیں، لیکن یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ وہ خود اس دعوی سے دور ہیں، اور ان میں سے کوئی ایک گروہ بھی یہ نہیں کہتا کہ تورات و انجیل اس اصلی شکل میں موجود ہیں جیسی کہ وہ نازل کی گئیں تھیں، اسی حقیقت کو قرآن نے بیان کیا ہے کہ بنی اسرائیل اللہ کی کتاب میں تحریف کیا کرتے تھے۔
سوال یہ ہے کہ پھر بائبل کیا ہے؟ ہم یہاں بائبل کے بارے میں صرف اتنا کہنا چاہتے ہیں کہ: بائبل نہ تورات ہے نہ انجیل ہے، ہاں یہود و نصاری کے احبار نے بائبل میں تورات و انجیل کی تعلیمات کو جمع کرنے کی کوشش کی ہے، ان کے مطابق عہد نامہ عتیق میں تورات کی تعلیمات اور عہد نامہ جدید میں انجیل کی تعلیمات ہیں۔
اس تحریف میں لفظی و معنوی دونوں طرح کی تحریفیں ہوئی ہیں، یعنی بہت سی باتیں آج بھی اس میں ایسی ہیں جن کی قرآن تصدیق کرتا ہے لیکن بنی اسرائیل اس کو کچھ اور معنی پہناتے ہیں اور لفظی تحریف میں یہ ہوا کہ بہت سی باتیں جو اللہ کی کتاب میں نہیں تھیں انہوں نے اس میں بڑھا دیں یا اس میں سے کم کردیں ہیں۔
بعض نادانوں نے یہودیوں یا نصاریٰ سے خوش عقیدگی میں لفظی تحریف کا انکار کیا ہے، انہیں چاہئے کہ وہ بائبل میں انبیاء سے متعلق مذکور مثلاً حضرت یعقوب اور حضرت لوط علیہما السلام کے تذکروں کو غور سے پڑھیں جس میں ان بدبختوں نے انبیاء جیسے مقدس گروہ پر کیسے کیسے اخلاقی رذالت کی الزام تراشی کی ہے، اور ان یہود و نصاری سے متعلق خوش عقیدگی اور حسن ظن پر خود اپنی عقلوں پر ماتم کریں۔
عقیدہ و ایمان کی رُو سے بائبل پر تورات و انجیل کا اطلاق صحیح نہیں ہے، اس لحاظ سے ہم تورات و انجیل کو اللہ کی کتاب مانتے ہوئے بائبل کو اللہ کی کتاب نہیں مانتے۔
اس بارے میں ایک اہم اصول یہ ہے کہ اہل کتاب کی انہیں باتوں میں تصدیق کی جائے گی جن کی خود قرآن تصدیق کرتا ہے؛ جبکہ ان کی ان باتوں میں تکذیب کی جائے گی جن کی قرآن تکذیب کرتا ہے، ہاں ان کی جن باتوں کے بارے میں قرآن خاموش ہو ان کے بارے میں سکوت اختیار کیا جائے گا۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
ہدایت کا صحیح ذریعہ صرف اللہ کی ہدایت ہے، جو اس نے نبیوں اور کتابوں کے ذریعہ سے دی ہے۔تشریح
انسان کو دنیا میں بھیجنے سے پہلے اللہ نے ہدایت کا وعدہ فرمایا تھا:
انسان کےلئے دنیا میں روز اول سے ہدایت کا سامان ہے، اللہ تعالیٰ نے انسان کو دنیا میں بھیجنے سے پہلے ہی سے ان تک ہدایت بھیجتے رہنے کا وعدہ کر رکھا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے جب انسان کو دنیا میں بھیجا اسی وقت اس نے ان کے سامنے واضح کردیا تھا کہ اللہ کی جانب سے ہدایت کا سلسلہ جاری رہے گا او رجو کوئی اس ہدایت کی پیروی کرے گا اس کو نہ کوئی خوف ہوگا نہ حزن ہوگا، جبکہ وہ جو اللہ کی آیات اور اس کی ہدایت سے رو گردانی کریں گے اور اس کے کفر کے مرتکب ہوں گے ان کے لئے آخرت میں سخت عذاب ہوگا۔
اس ہدایت کے وعدہ میں نبیوں و رسولوں کے سلسلہ کے ساتھ اللہ کی کتابیں دونوں شامل ہیں، اللہ کے رسولوں ہی پر اللہ کی آیات اور اللہ رب العزت کی کتابیں نازل کی جاتی رہی ہیں اور وہ اللہ کی آیات کو بندوں تک پہنچاتے رہے ہیں ۔
کتاب وحکمت اللہ کی نعمتوں میں سے بڑی نعمت ہے:
اللہ نے انسان کو پیدا فرمایا اور اس کی پرورش کررہا ہے ، اور ہر طرح کی نعمتوں سے اس کو نوازا ہے، ان میں ظاہری اور باطنی سبھی طرح کی نعمتیں ہیں، یہ زمین و آسمان، سورج و چاند، دن و رات، ہر طرح کا رزق و لذتیں ظاہری نعمتیں ہیں، تو ہدایت کے سلسلے باطنی نعمتیں ہیں ، باطنی نعمتوں میں بلاشبہ اللہ کی کتابیں اہم ترین نعمت الٰہی ہیں، اور ظاہری نعمتوں کے مقابلہ میں باطنی نعمتیں کہیں زیادہ اہم ہیں، کیونکہ اللہ کی موجودہ ظاہری نعمتوں کا فائدہ صرف اسی زندگی تک ہے؛ جبکہ ہدایت کی نعمت کا فائدہ ہمیشہ ہمیشہ کی زندگی سے ہے۔ فللّٰہ الحمد و المنۃ
ہدایت کا صحیح ذریعہ صرف اللہ کی ہدایت ہے:
انسان کو اللہ تعالیٰ نے عقل اور حواس کی صورت میں علم کے ذرائع دئیے ہیں، لیکن علم حاصل کرنے کے یہ ذرائع محض ظاہر اور مادی امور تک رہنمائی کےلئے محدود ہیں، ان سے آگے یہ کام نہیں کرتے، خود اللہ کی ذات اقدس کے بارے میں اور اس کی مرضیات کے بارے میں کہ اس نے انسان کو کیوں پیدا کیا ہے؟ اور وہ انسان سے کیا چاہتا ہے؟ اس کا تفصیلی جواب انسان اپنی عقل سے یا حواس سے حاصل نہیں کر سکتا ، اس لئے اللہ تعالیٰ نے آغاز سے ہی انسان کو اس سے مستغنی رکھا اور اپنی ہدایت اور اپنی آیات و کتب اپنے بندوں تک بھیجتا رہا ہے۔
اللہ کی ہدایت ہی اللہ کے بارے میں صحیح علم دینے کا ذریعہ ہے، اوراس علم کے بغیر اللہ کے بارے میں مجادلہ کرنا یااس کی نازل کی ہوئی وحی کے ہوتے ہوئے اس کو چھوڑ کر دوسرا راستہ متعین کرنا ہدایت سے ہٹ کر صرف گمراہیوں میں بھٹکتا پھرتا ہے۔
گمراہیوں کی بعض شکلیں بہت خوبصورت بھی نظر آتی ہیں، جس کی وجہ یہ نہیں ہوتی کہ وہ فی الواقع اچھی اور خوبی والی ہوتی ہیں بلکہ اس کی وجہ صرف یہ ہوتی ہے کہ شیطان اس کو مزین بنا کر پیش کرتا ہے، ان سے بچنے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے کہ بندہ اللہ کی ہدایت میں اپنی پناہ ڈھونڈے۔
خود انبیاء علیہم السلام جو سلیم الفطرت ہوتے ہوئے شرک اور دیگر اخلاقی رذالتوں سے یقیناً پاک ہوتے تھے، لیکن اللہ کی مرضیات کی تفصیلات خودانہیں بھی وحئ الٰہی کے ذریعہ حاصل ہوتی تھیں او رہر نبی اپنی زندگی بھر ہر نئے معاملہ میں وحئ الٰہی کے منتظر رہتے تھے، اور اللہ کی ہدایات کو حاصل کرکے اس کے مطابق عمل کرتے تھے، اس نکتہ کی مزید تفصیل آخری وحی ’’قرآن مجید‘‘ کے بیان میں بھی آئے گی۔
انبیاء کو مستقل حکم ہوا ہے کہ وہ اللہ کی کتاب اور اس کے احکام کے مطابق فیصلے کریں، یہی حکم تورات میں تھا، یہی حکم انجیل میں دیا گیا اور یہی حکم قرآن مجید میں دیا گیا ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ جو شخص اللہ کی نازل کردہ وحی کے مطابق فیصلہ نہیں کرتا، وہ فاسق، ظالم اور کافر ہے۔
بندوں پر لازم ہے کہ وہ اپنی زندگی کو گذرانے کےلئے اللہ کی کتاب کو اپنا راہنما بنائے، فکر و عمل کے ہر معاملہ میں اس کی نازل کردہ وحی کے مطابق اپنے عمل کی راہ متعین کرے، جو شخص ایسا کرتا ہے وہ مؤمن ہے اور جو شخص فکری طور پر اس سے انحراف کرتا ہے اور کتابِ ہدایت کو ماننے سے انکار کرتا ہے وہ کافر ہے، اور جو شخص کتابِ ہدایت کو مانتا تو ہے لیکن اس سے عملی انحراف کرتا ہے وہ یقیناً فاسق و ظالم ہے۔
اللہ کی کتابوں کی صفات:
اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیوں کی جانب جو کتابیں بھیجی ہیں ان کا واحد مقصد بندوں کی ہدایت ہے، اور اللہ کی یہ کتابیں بندوں کی ہدایت کےلئے جن مضامین اور ان کے دلائل و براہین کو شامل ہونا چاہئے ان سے بھرے ہوئے ہیں، جن میں حق کو کھول کھول کر تفصیل سے بیان کیا گیا اور باطل کو بھی ہر طرح سے صاف اور واضح کردیا گیا ہے ۔
اللہ کی یہ کتابیں ایک طرف حق کو بیان کرتی ہیں اسی طرح حق کی پیروی کرنے والوں کے اچھے انجام کی بھی بشارت دیتی ہیں کہ بندے اس کو اختیار کریں، اور اسی طرح باطل کو بھی واضح کرنے کے بعد بندوں کے سامنے باطل پرستوں کے انجام بد سے بھی ڈراتی ہیں کہ بندے باطل سے گریز کریں۔
اللہ کی کتابوں میں بیان کردہ حقائق ہی اصل حقیقت ہے، ہر طرح کا حق اسی کتاب کی حقانیت سے ہے اور اسی کی تائید میں ہے، اور ہر قسم کا باطل اس کتاب میں واضح کیا گیا ہے اور کوئی باطل ایسا نہیں ہے جو اس حق کا مقابلہ کر سکے۔
اللہ کی ان کتابوں میں بندگان خدا میں سے ہر ایک کے ذہنی سطح کے معیار سے خطاب اور حجتیں الگ الگ اپنی اپنی جگہ پر مذکور ہیں، جن میں ترغیب و ترہیب کے مضامین بھی ہیں، آفاق و انفس کے دلائل بھی ہیں، احکام و قانون بھی ہیں، اور اللہ کے علم و حکمت کا تفصیلی بیان بھی ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
انبیاء علیہم السلام اللہ کی کتابوں کی جو تشریح کرتے ہیں وہ بھی اللہ کی وحی ہوتی ہے،جس کی پیروی لازمی ہے۔تشریح
تبیین کتاب الٰہی:
انبیاء علیہم السلام پر جو وحی کی جاتی ہے اس کی تفصیل اور تشریح اس کا عملی مظاہرہ بھی انبیاء کی ذمہ داری ہوتی ہے، اس ذمہ داری پر انبیاء علیہم السلام اللہ تعالیٰ کی جانب سے مأمور ہوتے ہیں اور انبیاء کتاب اللہ کی جو کچھ تفصیل و تشریح کرتے ہیں وہ خود بھی کتاب و شریعت کا حصہ ہوتا ہے، کتاب ایک طرح سے متن یا اصول ہوتی ہے، اور انبیاء کی تبیین اس کی تشریح و فروع ہوتی ہیں ، اس لئے انبیاء کی تعلیمات جو زائد از کتاب ہوں وہ بھی اللہ کی جانب سے وحی ہوتی ہیں اور ایسے ہی واجب التعمیل ہوتی ہیں جیسا کہ کتاب اللہ ہوتی ہے اور اس کو ماننے سے انکار کرنا گویا خود کتاب کو ماننے سے انکار کرنا ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
اللہ تعالیٰ نے ہر نبی سے یہ عہد لیا ہے کہ وہ تمام انبیاء کی اور ان پر نازل ہونے والی کتابوں کی تصدیق کریں گے۔تشریح
عقیدہ:
اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب قوموں سے بھی عہد لیا کہ وہ کتاب کے علم کو عام کریں گے اس کے کسی حصہ کو نہیں چھپائیں گے ۔تشریح
میثاقِ اہلِ کتاب:
جس طرح انبیاء سے میثاق لیا گیا ہے اسی طرح خود اہل کتاب یعنی جن قوموں کو اللہ نے کتاب ہدایت دی ہے ان سے بھی یہ میثاق لیا گیا ہے کہ وہ ان کی کتاب کی نبیوں کے بارے میں پیشین گوئیوں کو واضح کریں گے اور ان کو نہیں چھپائیں گے ۔
چنانچہ حضرت عیسی علیہ السلام کا جب ظہور ہوا تو بنی اسرائیل و یہودی ان کو بحیثیت رسول اچھی طرح جان گئے تھے اور ان کو یقین تھا کہ حضرت عیسی علیہ السلام اللہ کے رسول ہیں، لیکن ان کی اکثریت نے ان کی مخالفت کی اور اللہ کی کتاب میں ان سے لئے گئے میثاق کو انہوں نے توڑ دیا۔
اسی طرح انہیں خاتم النبیین محمد الامین صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی نہ صرف یہ کہ پیشین گوئی کردی گئی تھی بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نشانیاں بھی انہیں بتلا دی گئی تھیں، جن سے وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اللہ کے رسول ہونے کو بہت اچھی طرح جانتے تھے، اور ان میں کے وہ لوگ جن کی فطرت سلیم تھی انہوں نے اس کا اعتراف بھی کیا اور آپ پر ایمان بھی لائے، لیکن ان کی اکثریت نے اس بار بھی اپنے میثاق کو توڑ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کی ہے۔
جب تک نبوت و کتابوں کے نزول کا سلسلہ جاری رہا، انبیاء نے اپنے بعد میں آنے والے نبیوں کی پیشین گوئی کی، لیکن جب سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نبیوں کا سلسلہ ختم ہو گیا تو اب آخری نبی کی ذمہ داری ٹھہری کہ وہ اپنی قوم کو خبردار کردیں کہ آخری نبی اور آخری کتاب آچکی ہے اور اب نہ کوئی اور نبی آئیں گے اور نہ کوئی اور کتاب یا وحی آئے گی ، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو اس اہم واقعہ کی خبر دی اور ساتھ ہی آگاہ بھی کردیا کہ کچھ جھوٹے نبی بھی پیدا ہوں گے ان سے خبردار رہو۔
چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی نے اگر یہ دعوی کیا کہ اس کے پاس اللہ کی جانب سے وحی آتی ہے تو وہ جھوٹا ہے اور خود وہ اور اس کی تصدیق کرنے والے دونوں کافر ہیں۔
اہل کتاب سے متعلق تفصیل آگے آرہی ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
اللہ کی کسی ایک کتاب کا بھی انکار کرنا کفر ہے ،اسی طرح ایک کتاب کے بعض حصوں کو ماننا اور بعض حصوں کا انکار کرنا بھی کفر ہے۔تشریح
اللہ کی کتابوں کا انکار کرنے والے:
اللہ کی کتابیں جو تسلسل کے ساتھ انبیاء کے ساتھ بھیجی گئی ہیں اور ان کے ساتھ اس بات پر ہر طرح کے دلائل و براہین تھے کہ وہ یقینی طور پر اللہ کی کتابیں ہیں، پھر بھی انہوں نے ان کو جھٹلایااور بہت سے منکروں نے یہاں تک کہہ دیا کہ اللہ تعالیٰ نے کوئی کتاب نہیں اتاری ہے، اور بعضوں نے بعض کتابوں کو مانا اور بعض کا انکار کیا ہے اور بعضوں نے کتابوں کے سلسلہ کو بھی مانا اور اپنے نبی کی کتاب پر بھی ایمان لائے لیکن اپنی کتاب ہی کے بعض حصوں کو مانا اور بعض کا انکار کیا۔
جنہوں نے اللہ کی ہدایت اور کتابوں کے سلسلہ کا ہی انکار کردیا تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں انہوں نے اللہ کی قدر ہی نہیں کی، جو اس بات کا تجربہ رکھتے ہیں کہ اللہ نے انہیں پیدا کرکے ہر طرح کی ظاہری نعمتوں سے انہیں نوازا، پھر یہ کیسے ممکن تھا کہ اللہ تعالیٰ بندوں کی اہم ترین ضرورت یعنی ہدایت سے انہیں محروم کردیتا اور اپنے نبیوں و رسولوں کے ذریعہ اپنی کتابیں نہیں بھیجتا؟ وہ لوگ جو وحی اور کتاب و شریعت کا انکار کرتے ہیں در حقیقت وہ خواہشات نفس کے پیروکار اور شہوت پرست ہیں جو درحقیقت احکام کی پابندی قبول نہ کرکے آزاد رہنا چاہتے ہیں ، وہ ہو سکتا ہے اس دنیا میں آزاد رہ لیں لیکن ان کی یہ آزادی اس دنیا میں اللہ کی با برکت کتابوں سے محرومی کا ذریعہ بنے گی اور آخرت میں یہی انکار انہیں ہمیشہ کی جہنم کا مستحق بنائے گا۔
یہی حال ان کا بھی ہوگا جو اللہ کی ایک کتاب کو تو مانیں اور اللہ ہی کی دوسری کتاب کو ماننے سے انکار کردیں، کیونکہ ان کا یہ انکار خواہشِ نفس کی پیروی اور تعصب کی بنیاد پر ہوتا ہے، ورنہ وہ خود جس کتاب کے پیروکار ہیں اللہ کی دوسری کتابیں جب آ جائیں تو ان کو ماننے کی تعلیم دیتی ہیں، اسی طرح اللہ کی ہر آنے والی کتاب اللہ کی پچھلی کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہوتی ہیں، گویا ایسا شخص جو اللہ کی بعض کتابوں کو ماننے کا اقرار کرے اور بعض کا انکار کرے وہ اس کتاب کا بھی منکر ہے جس کو ماننے کا وہ دعوی کررہا ہے، اس کا بھی انجام کافروں میں ہی ہوگا۔
اور یہی حال اس شخص کا بھی ہے جو اللہ کی ایک کتاب کے بعض حصوں پر تو ایمان لائے اور بعض کا انکار کرے وہ بھی کافر ہی ہے، کیونکہ اللہ کی ماننے والا تو اللہ کی سب باتوں کو مانتا ہے اور جو شخص ایک بات مانے اور ایک بات نہ مانے تو گویا وہ اس ایک بات کو بھی اپنے نفس کی پیروی میں مان رہا ہے اللہ کی نہیں مان رہا ہے! وہ لوگ جو اللہ کی کتاب کا کسی بھی طریقہ سے انکار کرتے ہوں وہ اللہ کی لعنت کے مستحق ہیں اور کافر ہیں ، ہمیشہ ہمیشہ کی جہنم میں ان کا ٹھکانہ ہوگا۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
امت محمدیہ سے پہلے گذری ہوئی قوموں میں بنی اسرائیل کو اہلِ کتاب کہا جاتا ہے۔تشریح
اہلِ کتاب:
اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیوں کو کتابیں اور صحیفوں کے ساتھ بھیجا ہے ، اس معنی کر صاحب کتاب انبیاء جن قوموں کی جانب مبعوث ہوئے ہیں انہیں اہل کتاب کہا جا سکتا ہے، لیکن یہ ساری اقوام اب موجود نہیں ہیں، ہاں امت محمدیہ سے پہلے کی اہل کتاب قوم بنی اسرائیل موجود ہے، نسلاً تو بنی اسرائیل حضرت یعقوب علیہ السلام کی اولاد ہیں، کیونکہ اسرائیل حضرت یعقوب علیہ السلام کا نام ہے، البتہ قرآن میں بنی اسرائیل کو حضرت موسی علیہ السلام کی تورات کے حوالہ سے اہل کتاب کہا جاتا ہے، انہیں بنی اسرائیل کی جانب حضرت داؤد علیہ السلام بھی بھیجے گئے اور ان پر زبور اتری، یہودی ان دونوں کتابوں کو مانتے ہیں، پھر ان کے بعد بنی اسرائیل ہی میں حضرت عیسی علیہ السلام کی بعثت ہوئی، ان پر انجیل نازل کی گئی، یہودیوں نے حضرت عیسی علیہ السلام کو نہیں مانا، اس لئے وہ انجیل کو نہیں مانتے، لیکن حضرت عیسی علیہ السلام کے پیروکار انجیل کے ساتھ ان کے پیشرو انبیاء اور ان کی جانب نازل کی گئی کتابوں یعنی تورات اور زبور کو مانتے ہیں، اس طرح اہل کتاب کے دو گروہ ہو گئے ایک وہ جو تورات اور حضرت عیسی علیہ السلام کے علاوہ دیگر انبیاء بنی اسرائیل کی وحی کو مانتے ہیں یہ یہودی ہیں، دوسرے وہ جو حضرت عیسی علیہ السلام کو نبی اور ان کی کتاب کو اللہ کی کتاب مانتے ہیں یہ عیسائی ہیں، قرآن نے ان دونوں کو اہل کتاب کہا ہے۔
موجودہ امت مسلمہ سے پہلے بنی اسرائیل کے یہ دونوں گروہ ہی اہل کتاب ہیں، باقی دنیا میں اس وقت جتنی اقوام ہیں ان میں بھی بعض ایسے گروہ ہیں جو خود کے بارے میں آسمانی مذہب اور الہامی کتب کے حامل ہونے کے دعویدار ہیں، لیکن ان کی کتاب کو کتاب اللہ اور خود ان کو قرآن کے مخاطب ’’اہل کتاب ‘‘کا مصداق قرار نہیں دیا جا سکتا، کیونکہ ان کی متعین طور پر تصدیق قرآن سے نہیں ہوتی ہے، مثلاً ان کے انبیاء کا ذکر قرآن میں نہیں ہے، اسی طرح ان کی کتابوں کا متعین طور پر ذکر قرآن میں نہیں ہے، یہ محض ان کی چند تعلیمات کی بنیاد پر اندازے ہیں، اور صرف ان اندازوں بلکہ غالب گمان پر بھی ان کتابوں کو متعین طور پر ’’کتاب اللہ‘‘ اور خود ان کو متعین طور پر ’’اہل کتاب‘‘ کہنا قطعاً درست نہیں ہے۔
سوال پیدا ہو سکتا ہے ایسا کہنا کیوں صحیح نہیں ہے؟ اس کا بالکل صاف جواب یہ ہے کہ یہ ایمان کا معاملہ ہے، اور اہل ایمان کو حکم یہ ہے کہ وہ اپنے نبی کی کتاب پر بھی ایمان لائیں اور جو کچھ ان سے پہلے اللہ نے نازل کیا ہے اس پر بھی ایمان لائیں، اس حکم کی بنیاد پر اہل ایمان اللہ کی تمام کتابوں پر اجمالاً ایمان لاتے ہیں کہ جو کچھ اللہ نے نازل کیا وہ حق ہے اور اس پر ان کا ایما ن ہے، جبکہ وہ تفصیل کے ساتھ فلاں کتاب اللہ کی کتاب ہے اور فلاں قوم اہل کتاب ہے صرف اسی کو سمجھتے ہیں جس کا قرآن اور رسول کی تعلیمات میں متعین ذکر ہے۔
مثلاً تورات ، زبور، انجیل اور قرآن پر متعین ایمان ہے کہ یہ کتابیں اللہ کی کتابیں ہیں، اسی طرح مثلاً قرآن میں ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام پر صحیفے نازل کئے گئے تھے، اہل ایمان کا اس پر ایمان ہے کہ یہ بر حق ہے، مگر آج مشرقِ وُسطی ٰ کے کسی علاقہ یا دنیا کے کسی خطہ میں اگر کہیں آثار قدیمہ کی کھدائی ہوتی ہو اور کچھ نوشتے خواہ چمڑے پر لکھے ہوئے یا پتھروں پر لکھے ہوئے حاصل ہوتے ہوں اور ان کے بارے میں دعوی کیا جائے کہ وہ صُحُفِ ابراہیمؑ ہیں، تو ہم ان کے بارے میں نہ صرف یہ کہ ان کی متعین طور پر تصدیق کرنے کے پابند نہیں ہیں بلکہ ہم کہیں گے کہ متعین طور پر تصدیق نہ کرنا ہی عین ایمان ہے، اس لئے ایسے اندازوں کی بنیاد پر اللہ کی جانب کتاب کی نسبت نہیں ہوتی، ایمان جس تصدیق کا نام ہے اس کےلئے یقینی دلائل و ذرائع درکار ہوتے ہیں۔
اہل ایمان کے پاس ایمانیات کے قطعی ذرائع خود قرآن یا احادیث متواترہ ہیں، جس نوشتہ یا قوم کے بارے میں ان ذرائع علم میں یہ مذکور ہے کہ وہ اللہ کی کتاب اور کوئی قوم اہل کتاب ہے ہم صرف اسی کی تصدیق کریں گے، اور باقیوں کے بارے میں جہاں اتحاد تعلیمات ملیں زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ اللہ کی کسی ہدایت کے سلسلہ سے مستفاد ہے۔
یہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ ’’اہل کتاب‘‘ کے بارے میں اسلام کی چند خاص تعلیمات ہیں، مثلاً یہ کہ ان کا ذبیحہ جائز ہے، اسی طرح ان کی عورتوں سے مسلمان مردوں کا نکاح جائز ہے، جبکہ ان کے مردوں سے مسلمان عورتوں کا نکاح جائز نہیں ہے۔
ظاہراً محض اندازہ کی بنیاد پر متعین طور پر مثلاً ویدوں کے ماننے والوں کو اہل کتاب کہہ کر ان کا ذبیحہ حلال یا ان کی عورتوں سے نکاح کو جائز نہیں قرار دیا جا سکتا ، کیونکہ وہ پوری طرح سے مشرکین و کفار کے زمرہ میں آتے ہیں ، وہ انبیاء کے سلسلہ کے قائل نہیں ہیں، وہ آخرت کے قائل نہیں ہیں وغیرہ ، قرآن کی تعبیرات کو متعین کرنے کے اتنے دور رس نتائج پیدا ہوتے ہیں، اس لئے ان میں منقول احتیاطوں کو شدت سے برتنا پڑتا ہے۔
موجودہ امت مسلمہ بھی قرآن کو ماننے کی وجہ سے لغوی معنی میں اہل کتاب کے زمرہ میں آتی ہے ، لیکن قرآن میں اہل کتاب کی اصطلاح صرف سابقہ امت مسلمہ بنی اسرائیل یہود و نصاری کےلئے استعمال ہوئی ہے اور قرآن کے پیروکار چونکہ قرآن کے ساتھ ہی انجیل، زبور، اور تورات پر بھی ایمان رکھتے ہیں اس لئے قرآن موجودہ امت کو یااھل الکتاب نہیں بلکہ یایھا الدین آمنوا یعنی ’’ایمان والے‘‘ کا خطاب دیتا ہے۔
اہل کتاب، کتاب پر ایمان تو رکھتے ہیں لیکن ان کا یہ ایمان کامل نہیں ناقص ہے، وہ ایک کو مانتے ہیں اور ایک کو چھوڑتے ہیں، یہودی صرف تورات کو مانتے ہیں اور انجیل و قرآن کے منکر ہیں، عیسائی تورات و انجیل کو مانتے ہیں لیکن قرآن کے منکر ہیں، اس لئے انہیں صرف اہل کتاب کہا گیا، جبکہ مؤمنین قرآن کے ساتھ سب کتابوں پر ایمان رکھتے ہیں اس لئے وہ مؤمن یعنی ایمان والےکہلائے ۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
اللہ کی کتاب پر ایمان لانے والے اور اس کی پیروی کرنے والے فلاح پائیں گے اور اللہ کی کتاب کے منکر کافر ہیں اور خسارہ اٹھانے والے ہیں۔تشریح
اللہ کی کتاب کی پیروی کرنے والے:
انسان نے دنیا میں اپنے سفر کا آغاز تاریکی میں نہیں بلکہ ہدایت کے ساتھ کیا ہے، حضرت آدم علیہ السلام پہلے انسان ہدایت پر تھے، پھر جب تک انسان اختلاف کا شکار نہیں ہوا ہدایت پر رہا، جہاں انسان اختلاف کا شکار ہوا ہدایت سے ہٹ گیا اور گمراہی اس حد تک جا پہنچی کہ انسان شرک و کفر میں جا پڑا، اللہ نے اپنے وعدہ کے مطابق نبیوں و رسولوں کو اور ان کے ساتھ اپنی کتابوں کو بھیجا، اور جب بھی انبیاء آئے انسانوں میں دو گروہ ہو گئے، ایک وہ جن کی فطرت سلیم تھی اور وہ مسخ نہیں ہوئی تھی اور خدا سے ڈرنے کا مادہ ان میں تھا، انہوں نے انبیاء کی آواز پر لبیک کہا اور انبیاء کی دعوت کو قبول کیا اور اللہ ، اس کے رسول اور اس کی کتاب پر ایمان لے آئے؛ لیکن ان کی تعداد ہر زمانہ میں کم رہی ہے،جبکہ ایک دوسرا گروہ جو ہدایت سے دور جا پڑا تھا انہوں نے سرکشی کی راہ اختیار کی، رسول اور اللہ کی کتاب اور آیات کو جھٹلایا اور ان کی تعداد ہر قوم میں بڑھی ہوئی رہی ہے۔
اللہ کے نبی اور اس کی کتاب پر ایمان لانے والے ہر دور میں سخت آزمائے گئے ہیں، انہیں ستایا گیا ہے، انہیں طرح طرح کی قربانیاں دینی پڑیں، انہوں نے اذیتیں برداشت کیں؛ لیکن اللہ کی اگر مصلحت ہوئی تو کبھی دنیا میں بھی وہ غالب ہوئے اور بہرحال آخرت میں انہیں ہمیشہ ہمیشہ کی کامیابی و فلاح حاصل ہوگی، بلکہ ایمان لانے کے بعد جان و مال کی قربانیاں دینا ان کے ایمان لانے کا لازمی تقاضہ بنایا گیا، اللہ کے دین کی خدمت کےلئے ان کی قربانیاں لازمہ رہی ہیں، ایمان کے بعد جان و مال کی انہیں قربانیوں کی بنیاد پر ان سے ہمیشہ ہمیشہ کی جنت کا اللہ کی کتابوں میں وعدہ کیا گیا ہے۔
اور کفار جنہوں نے اللہ کی کتاب اور اللہ کی آیات کو جھٹلایا، ہر قوم میں ایسے سرکشوں نے اللہ کے رسول اور مؤمنین کو ستایا، عام طور پر ایسے سرکشوں کو دنیا میں مؤمنین کے مقابلہ میں غلبہ اور حکومت حاصل رہی، لیکن کبھی خود دنیا میں اگر اللہ کی مصلحت ہوئی تو انہیں مؤمنین کے مقابلہ میں مغلوب ہونا پڑا اور بہر حال آخرت میں جہنم ان کا مقدر ہے جس میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
اللہ کی کتاب اور اللہ کی آیات کے ساتھ استہزاء کرنے والے بدترین انجام سے دوچار ہوں گے۔تشریح
اللہ کی کتاب کے ساتھ استہزاء کرنے والے:
اللہ کی کتاب کو جھٹلانے والوں کا ہمیشہ سے شیوہ رہا ہے کہ وہ اللہ کی آیات اور اللہ کی کتاب اور و حی کے ساتھ استہزاء کرتے ہیں، اللہ کی کتاب کے ساتھ استہزاء کرنے والوں کا انجام ہمیشہ سے برا ہوا ہے، دنیا میں بھی وہ برے انجام کو پہنچے اور آخرت میں وہ اس استہزاء کا انجام بھگتیں گے، ایسے سرکشوں کےلئے صرف حسرت ہی ہو سکتی ہے، جن میں سے ہر ایک کو اللہ کے سامنے حاضر ہونا ہے اور اللہ کی کتاب کی ناقدری کرنے کا مزہ چکھنا ہے۔
کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کتاب کو ماننے کا دعویٰ کرنے والے بھی اللہ کی کتاب اور اس کی آیات کے ساتھ استہزاء کرنے لگتے ہیں، اگر یہ شعوری طور پر ہو جائے مثلاً کتاب اللہ کے کسی حکم کا مذاق اڑایا جائے، دنیا کے کسی فکر و فلسفہ کے تأثر میں اللہ کی کتاب کو مذاق کا نشانہ بنایا جائے تو یہ بھی کتاب کے انکار اور کفر کے برابر ہے اور ایسا شخص بلاشبہ کافر ہو جائے گا، کبھی ایسا ہوتا ہے کہ انسان کا اٹھنا بیٹھنا کافروں اور منافقوں کے ساتھ ہو جاتا ہے جو اللہ کی وحی و کتاب اور اس کی آیات کے ساتھ استہزاء کرتے ہیں ، اول تو ایسے بدبختوں کے ساتھ مؤمن کا کوئی کام نہیں اور اگر کوئی دینی مصلحت ان سے ملنے کی ہو اور کسی مجلس میں وہ اللہ کی آیات کے ساتھ استہزاء کرنے لگیں تو مؤمن کا فرض ہے کہ وہ ایسی مجلس سے فوراً اٹھ جائے، وہاں بیٹھنے میں کوئی دینی مصلحت کا حیلہ خلاف شریعت ہے، اگر وہ ایسا نہیں کرتا ہے تو وہ خود بھی اللہ کی کتاب کے ساتھ استہزاء کرنے والوں میں شمار ہوگا۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
اللہ کی کتاب یا اس کی آیات و احکام کو چھپانا اللہ کی کتاب والوں کا بدترین جرم ہے جو انہیں اللہ کی لعنت کا مستحق بناتا ہے۔تشریح
کِتمانِ ہدایاتِ کتاب:
اہل کتاب کی اہم ترین ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اللہ کی آیات و بینات کو کھول کھول کر بیان کرے، یہ نہیں کہ مال کےلئے یا کسی اور منفی جذبہ سے جیسے یہودیوں کی عصبیت تھی اللہ کی تعلیمات کو ہی چھپانے لگ جائیں ، یہ ایسا بدترین عمل ہے کہ اس سے وہ اللہ، اس کے فرشتوں اور پوری انسانیت کی لعنت کے مستحق بن جاتے ہیں۔
پھر جو لوگ اللہ کی ہدایات و تعلیمات کو دنیوی مال و متاع کے لئے چھپاتے ہیں، ان کا حال یہ ہے کہ وہ مال در حقیقت جہنم کی آگ ہے جس سے وہ اپنے پیٹوں کو بھر رہے ہیں، جس کا ظہور کل جہنم میں ہوگا اور روز قیامت وہ اللہ کی نظر کرم سے محروم رہیں گے اور دردناک عذاب کے مستحق ہوں گے، کیسے بد بخت ہیں وہ جو ہدایت کے بدلے گمراہی خریدتے ہیں اور مغفرت کو داؤ پر لگا کر عذاب مول لیتے ہیں، یہ محروم جہنم کی آگ کےلئے کتنے با ہمّت ہیں ۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
جس امت کو جو کتاب دی گئی ہے اس سے گریز انہیں تباہ و رسوا کردیتا ہےتشریح
اہل کتاب کو اللہ کی خاص ہدایات:
تمام آسمانی کتابوں کے ماننے والے کو یہ تعلیم تھی کہ جب بھی ان کے پاس اللہ کا کوئی نبی و رسول آئے تو ان کی تصدیق کریں اور ان کی اطاعت و اتباع کریں، یہی حکم بنی اسرائیل کو بھی تھا ؛ لیکن انہوں نے ہر طرح سے اللہ کے احکام کی نافرمانی کی، قرآن اپنے ابتدائی زمانۂ نزول میں ان کو خاص تنبیہ اور ہدایات دی ہیں، یہ ہدایات قرآن کے ذریعہ سے انہیں ضرور دی گئی ہیں لیکن اس کےخطاب میں عمومیت ہے کہ موجودہ امت مسلمہ بھی ان احکام کے عموم میں شامل ہے۔
اہل کتاب کو حکم ہے کہ اللہ کی کتاب سے رجوع کریں اور اسی کے مطابق اپنے فیصلے کریں، لیکن وہ معمولی مفادات کےلئے اس سے منہ پھیر لیتے ہیں، انہیں یہ غلط فہمی ہوجاتی ہے کہ وہ تو اصلاً جنتی ہیں، جہنم میں اگر جائیں بھی تو تھوڑی مدت کےلئے جائیں گے، اور اس دھوکہ میں بہت سے ایسے کام کر جاتے ہیں جو انہیں دین ہی سے باہر کردیتے ہیں، اور جب کل قیامت کے دن اللہ فیصلہ کے لئے سب کو جمع کرے گا تب انہیں بھی ان کی بدکاریوں کی پوری سزا ملے گی۔
حد تو یہ ہے کہ اہل کتاب خود کو کتاب والے سمجھ کر یہ خیال کرتے ہیں وہ تو راہ یاب ہیں جبکہ ان میں خود اللہ کی کتاب کے علم سے دوری کے نتیجہ میں اللہ کی کتاب کے پہلے اور بنیادی اصول یعنی توحید سے تک دوری آجاتی ہے اور وہ شرک میں مبتلا ہوجاتے ہیں، اور پھر خود انہیں شرک سے گریز کرنے اور توحید اختیار کرنے کی دعوت دینے کی ضرورت پیش آجاتی ہے۔
اہل کتاب کی ایک اصولی غلطی یہ بھی ہوجاتی ہے کہ وہ اللہ کی کتاب کی تعلیمات اور اصول چھوڑ کر صرف شخصیات سے تعلق کے اظہار پر زور دیتے ہیں، اور اس میں اوٹ پٹانگ جھوٹے دعوؤں سے بھی گریز نہیں کرتے، اور اللہ کی کتاب کی اصولی تعلیمات کو پیٹھ پیچھے ڈال دیتے ہیں، حالانکہ ان کی پہلے ذمہ داری تو یہ تھی کہ اللہ کی کتاب کی اصولی تعلیمات کو سامنے رکھیں اور جن شخصیات سے وہ اپنے تعلق کو ظاہر کرنا چاہتے ہیں مثلاً حضرت ابراہیم علیہ السلام خود ان کا طریقہ کار یہ تھا کہ وہ اللہ کے حکم کو سب سے مقدم رکھتے تھے۔
اہلِ کتاب اللہ کے احکام کو بھول کر جب تعصب کا شکار ہوتے ہیں تو انہیں حق و باطل کی تمیز یاد نہیں رہتی اور وہ ایمان والوں کا ساتھ چھوڑ کر کافروں و مشرکوں اور اللہ کے دشمنوں کا ساتھ دینے لگتے ہیں، وہ خود بھی اللہ کی آیات کا کفر کرنے لگتے ہیں، اور اللہ کے بندوں کو بھی کفر کی طرف لگاتے ہیں، اور اللہ کی بارگاہ میں رکاوٹ بن کر بیٹھ جاتے ہیں، انہیں اس سے غرض باقی نہیں رہتی ہے کہ اللہ کا کیا حکم ہے؟ وہ شیطان کی طرح اس حسد کا شکار ہو جاتے ہیں کہ انہیں چھوڑ کر کسی اور کو کیسے فضل و رحمت سے نوازا گیا، اس حسد میں وہ اللہ کے احکام کو بھول کر گمراہی میں بہت دور جا پڑتے ہیں، جو بالآخر ان کی دنیا و آخرت دونوں برباد کردیتا ہے، دنیا میں رسوائی و ذلت ان کا مقدر بنتی ہے اور وہ اللہ کے غضب کا شکار ہوتے ہیں۔
اللہ کی کتاب کے حامل ہونے کا صرف ایک ہی تقاضہ ہے اور وہ ہے اللہ کے حکم کی تعمیل اور اللہ کی کتاب کی تعلیم کو عام کرنا، خود بھی اللہ والے بننا اور اللہ کے بندوں کو بھی اللہ والےبنانا۔
آخری نبی سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جو قرآن نازل کیا گیا ان اہل کتاب کو اس وحی پر بھی ایمان کی دعوت دیتا ہے کہ اس سے قبل کے انہیں مسخ کردیا جائے اور وہ اللہ کی لعنت کے مستحق بنیں وہ اس کتاب پر ایمان لے آئیں، یہی آخرت میں ان کی کامیابی کا ذریعہ ہے۔
ہاں کچھ کتاب والے ایسے بھی ہوتے ہیں جو اللہ کے احکام سے جڑے رہتے ہیں، اللہ کی کتاب کو اپنا رہنما بناتے ہیں، اللہ کے آگے جھکے رہتے ہیں، اللہ پر ایمان رکھتے ہیں، آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں، نیکیوں کا حکم دیتے ہیں اور برائیوں سے روکتے ہیں اور خیر کے کاموں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے میں لگے رہتے ہیں، وہ تعصب سے بھی دور رہتے ہیں اور اللہ نے جو کچھ نازل کیا ہے خواہ کسی کی جانب نازل کیا ہو سب کو مانتے ہیں، ان نیکوکاروں کے اعمال کی قدردانی ہوگی اور اللہ تعالیٰ اپنے متقی بندوں کو خوب جانتے ہیں۔

قرآن مجید اللہ کی آخری کتاب:
قرآن مجید اللہ کی آخری کتاب ہے جو اللہ تعالیٰ نے آخری پیغمبر سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرمائی ہے،قرآن میں شائد ہی کوئی اور حقیقت اس درجہ دوہرا دوہرا کر بیان کی گئی ہو جتنی یہ بات کہ قرآن رب العالمین کی جانب سے نازل کی گئی کتاب ہے ، اور اس کو ہر طرح سے مؤکد کیا گیا ہے کہ یہ یقینی حقیقت ہے جس میں کسی قسم کے شک کی گنجاش نہیں ہے، اس سچائی کے بارے میں قرآن کا چیلنج جو رہتی دنیا تک کے منکر انسانوں اور جنوں کو دیا گیا ہے ہم آگے مستقل ذکر کریں گے، یہاں جس بات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ قرآن مجید کی اکثر سورتوں کا آغاز اور ان کا اختتام اس مضمون پر ہوتا ہے کہ یہ اللہ کی جانب سے منزل کتاب ہے، یہ بات قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کے اسماء حسنی کو بدل بدل کر اور دوہرا دوہرا کر بیان کی گئی ہے۔
مثلاً ایک جگہ باری تعالیٰ کا ارشاد ہے:’’قرآن زمین اور بلند آسمانوں کے پیدا کرنے والے کی جانب سے نازل کیا گیا ہے۔‘‘
ایک جگہ کہا گیا : ’’یہ حکیم و علیم کی جانب سے نازل کیا گیا قرآن ہے‘‘۔
ایک جگہ کہا گیا ہے کہ: ’’قرآن کے نزول سے قبل آپ کو اس کی امید کہاں تھی؟ یہ تو آپ کے رب کی رحمت ہے، آپ بلا جھجک اس کے ذریعہ اپنے رب کی جانب بندوں کو دعوت دیجئے‘‘۔
ایک جگہ ارشاد ہے: ’’قرآن رب العالمین کی جانب سے نازل کردہ کتاب ہے، اس کے منزَّل من اللہ ہونے میں کسی شک کی گنجائش نہیں ہے۔
ایک جگہ کہا گیا : ’’اللہ جو العزیز اور الحکیم ہے یہ قرآن اس کی جانب سے نازل کیا گیا ہے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب کرکے کہا گیا اس کتاب کا آپ کی جانب نزول بر حق ہے‘‘۔
ایک اور جگہ کہا گیا: ’’اللہ جو العزیز اور العلیم ہے یہ اس کی جانب سے نازل کی گئی کتاب ہے‘‘۔
ایک جگہ کہا گیا : ’’یہ الرحمن الرحیم کی جانب سے نازل کیا گئی کتاب ہے‘‘۔
ایک جگہ کہا گیا : ’’یہ حکیم و حمید کی جانب سے نازل کی گئی کتاب ہے‘‘۔
ایک جگہ کہا گیا: ’’وہ اللہ ہی ہے جس نے کتاب حق کے ساتھ اور میزان کو نازل کیا‘‘۔
ایک جگہ کہا گیا کہ: ’’آپ کتاب پہلے سے نہیں جانتے تھے ،اللہ نے اس کو نور کی شکل میں آپ پر نازل کیا، جس کے ذریعہ اللہ جس کو چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے‘‘۔
ایک جگہ ارشاد فرمایا: ’’وہ الرحمن ہی تو ہے جس نے قرآن سکھلایا ہے‘‘۔
ایک جگہ ارشاد فرمایا: ’’قرآن لوح محفوظ میں تھا جس تک پاک فرشتے کی پہنچ تھی، پھر وہ رب العالمین کی جانب سے اپنے پیغمبر پر نازل کیا گیا‘‘۔
اور ایک جگہ اس قرآن کے اللہ کے جانب سے ہونے کی تکذیب کرنے والے کے بارے میں فرمایا کہ: ’’اس کو جلد ہی معلوم ہوجائے گا کہ جھوٹا کون ہے‘‘۔ یعنی اسے معلوم ہوجائے گا کہ اس کتاب کے اللہ کی جانب سے منزل ہونے کی تکذیب کرنے والا خود جھوٹا ہے اور اپنے بدترین انجام کو پہنچے گا ۔
اس تکرار کے ساتھ یہ مضمون جس طرح قرآن میں آیا ہے وہ بالکل ظاہر کردیتا ہے کہ اللہ رب العالمین اس بات کو کس درجہ تاکید کے ساتھ بیان کیا ہے، تاکہ بندے اس میں کسی قسم کے شک و شبہ کے بغیر اس سے صراط مستقیم کی ہدایت حاصل کریں۔
جو لوگ اس کتاب پر ایمان لائیں اور اس کی پیروی کریں وہی لوگ حقیقی فوز و فلاح پانے والے اور کامیاب ہیں، اور وہ لوگ جو اللہ کے اس کلام سے انحراف اور اعراض کریں اور اس کی تکذیب و انکار کریں ، اللہ تعالیٰ ان کے اور اس کتاب کے درمیان ایک وہ ہمیشہ ہمیشہ کی نا کامی اور خسارہ اٹھانے والے ہیں، اور وہ لوگ جو بندگان خدا کو قرآن سے روکنے کا ذریعہ بنتے ہیں وہ اس دنیا میں بھی سخت عذاب کا شکار ہوتے ہیں اور آخرت میں ان کا بدترین انجام ہوگا۔
حاصل یہ کہ قرآن اللہ تعالیٰ کی جا نب سے سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کیا گیا ہے، اس پر ایمان لانا فرض ہے اور اس کا انکار تو دور اس میں کسی قسم کا شک کرنا بھی کفر ہے۔
قرآن مجید عربی زبان میں نازل ہوا ہے اور الفاظ و معانی دونوں کا نام ہے، لہٰذا غیر عربی میں اس کی تلاوت کرنا یا غیر عربی میں نماز میں پڑھنا یا عربی متن کے بغیر کسی دوسری زبان میں اس کا ترجمہ لکھنا ناجائز ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
قرآن مجید اللہ کا کلام ہے۔ تشریح
عظمتِ قرآن:
قرآن اللہ کا کلام ہے، اور اللہ کا کلام اس کی صفت ہے اس لئے کلام اللہ غیر مخلوق ہے، ہاں کتابوں میں جو حروف لکھے جاتے ہیں، مخلوق کی زبان سے جو الفاظ ادا ہوتے ہیں اور صحائف میں جو عبارت لکھی جاتی ہے وہ سب مخلوق ہے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ کلام اللہ اس درجہ بھاری ہے کہ اگر اس کو کسی پہاڑ پر نازل کیا جاتا تو وہ اللہ کے ڈر سے دب جاتا ،پھٹ جاتا اور یزہ ریزہ ہو جاتا، یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان عالی ہے کہ انہوں نے اس عظیم کلام کی وحی کو سہارا، اللہ تعالیٰ نے بھی اس کلام کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک ہی بار پورا کا پورا نازل نہیں فرمایا بلکہ تھوڑا تھوڑا کرکے تیئیس (۲۳) سال میں نازل کیا۔
وحی کے نزول کی کیفیت کے بارے میں ایک موقع پر حضرت حارث بن ہشام رضی اللہ عنہ نے سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! آپ پر وحی کیسے آتی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کبھی ’’صلصلۃ الجرس‘‘ کے مثل گھن گرج کے ساتھ آتی ہے، اور ویسے تو وحی کے نزول کی ہر صورت شدید ہوتی ہے لیکن خاص یہ کیفیت مجھ پر بہت زیادہ سخت ہوتی ہے، جب وحی کا سلسلہ ختم ہوتا ہے تو میں نازل شدہ وحی کومحفوظ کرلیتا ہوں، اسی طرح کبھی فرشتہ انسان کی شکل میں ظاہرہوتا ہے اور مجھ سے کلام کرتا ہے پھر وہ جو کچھ کہتا ہے میں اس کو محفوظ کرلیتا ہوں۔
حضرت عائشہ فرماتی ہیں: میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر سخت سردی کے موقعہ پر وحی نازل ہوتی تو بھی آپ کو پسینہ آجاتا۔
ایک حدیث کے مطابق حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: جب وحی نازل ہوتی تو آپ سر ڈھانک لیتے، اور آپ کے چہرہ کا رنگ متغیر ہوجاتا، آپ کے سامنے کے اوپری دانت ٹھنڈے پڑ جاتے اور آپ سے پسینے ایسے ٹپکتا جیسے موتیوں کی لڑی بکھر گئی ہے۔
حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے برابر میں ایسے بیٹھا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ران میری ران پر تھی اور اسی حالت میں وحی آنی شروع ہوئی، اس کیفیت میں آپ کی ران کا بوجھ مجھ پر ایسے محسوس ہوا جیسے میری ران ٹوٹ ہی جائے گی، پھر جب وحی کا سلسلہ پورا ہوا تو یہ کیفیت ختم ہوگئی۔
ایک حدیث کے مطابق اگر آپؐ سواری پر ہوتے اور اس حالت میں وحی آتی تو اس کے بوجھ سے آپؐ کی اونٹنی کی کیفیت یہ ہوتی کہ اپنی گردن تک زمین پر رکھ دیتی اور ہلا بھی نہ سکتی۔
یہ اس کلام کا ثقل اور وزن ہے، اسی طرح اس کلام کے معانی و گہرائیوں کی عظمت ہے، جو کامل و مکمل حق کو شامل ہے، جس میں ہدایت ربانی ہے، جس میں علوم و معارف کے خزانے ہیں، جس میں اللہ کے اسماء و صفات کا عظیم علم ہے، جس میں اللہ کی شریعت کا بیان ہے،جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا عظیم معجزہ ہے اور یہ کتاب ہر اعتبار سے ایک عظیم کتاب ہے۔
اس کتاب کی عظمت کا تقاضہ ہے کہ بندے اس کی تعظیم و توقیر کریں اور احترام کا ہر پہلو جو اس کتاب کے لائق ہو اس کو اختیار کریں۔
اس کتاب کی ہر بات کو قبول کریں، اس کے مقابلہ میں کسی کو ترجیح نہ دیں، اس کو پاکیزگی کی حالت میں چھوئیں، اس کتاب کو ہدایت کےلئے پڑھیں اور جب اس کتاب کو پڑھا جائے تو خاموش رہیں اور پوری توجہ سے اس کو سنیں، جب اس کتاب کو پڑھنے کا آغاز کریں تو شیطانی وساوس سے محفوظ رہنے کےلئے اللہ کی پناہ طلب کریں اور تعوذ پڑھ کر اس کی قرأت کریں۔
قرآن مجید اللہ تعالیٰ کا کلام اور اس کی صفت ہے، لہٰذا یہ اللہ تعالیٰ کی دیگر صفات کی طرح قدیم، غیر حادث اور غیر مخلوق ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
قرآن حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا عظیم معجزہ ہے۔تشریح
قرآن کی زبان اور قرآن کا چیلنج:
اللہ تعالیٰ نے قرآن عربی زبان میں نازل کیا ہے، اتنا ہی نہیں کہ قرآن اللہ کی کتاب ہدایت ہے بلکہ قرآن کی ایک اہم ترین شان یہ ہے کہ وہ خود نبی کریم حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت نبوت کا عظیم ترین معجزہ ہے، جس کو قرآن نے تمام جنوں اور انسانوں کو اس چیلنج کے ساتھ پیش کیا ہے کہ اگر اس کتاب کے اللہ کی جانب سے نازل کئے جانے پر شبہ ہو اور یہ گمان کیا جاتا ہو کہ یہ ایک انسان کا اختراع کیا ہوا کلام ہے، تو اسی جیسے کسی ایک انسان نہیں بلکہ پوری انسانیت اور ساتھ ہی جنوں سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ اس کتاب کا مثل پیش کردو، اور اگر نہ کرسکیں تو اس پر ایمان لے آؤ۔
اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ پچھلے انبیاء کے اکثر معجزات حِسِّی تھے، مثلاً: حضرت موسی علیہ السلام کے عصاء کا اژدہا بن جانا، حضرت عیسی علیہ السلام کا مادر زاد اندھے یا کوڑھ کے مریض کو چھو کر شفا یاب کر دینا و غیرہ، مگر حضرت سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سب سے اہم معجزہ حِسِّی نہیں بلکہ عقلی معجزہ ہے یعنی معجزۂ قرآن دیگر حِسِّی معجزات سے بھی بڑا معجزہ ہے۔
سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے قرآن کے علاوہ بھی کئی اور معجزات ثابت ہیں، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی نبوت کے ثبوت پر سب سے بڑا معجزہ قرآن مجید ہی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی نبوت پر معجزۂ حِسِّی کے بجائے معجزۂ عقلی دینے کی وجہ یہ ہے کہ تمام شریعتوں میں آپ کی شریعت سب سے آخری ہے اور اب قیامت تک باقی رہے گی، اس وجہ سے آپ کو قیامت تک باقی رہنے والا عقلی معجزہ دیا گیا، تاکہ اصحاب بصیرت ہر زمانہ میں اس سے روشنی حاصل کرتے رہیں، جبکہ دیگر انبیاء کے حِسِّی معجزے ان کے زمانہ تک ہی باقی رہتے اور ان کی زندگی کے ساتھ ختم ہو جاتے اور معجزۂ قرآن تا قیام قیامت باقی رہے گا، بلکہ قیام قیامت کے بعد بھی۔
قرآن کریم کس کس اعتبار سے معجزہ ہے بہت ہی وسیع موضوع ہے، چنانچہ وجوہ اعجاز قرآن کا احصاء اور حد بندی ممکن نہیں ہے، قرآن مجید کے بارے میں تو سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہے : لا تنقضی عجائبہ، اس لئے یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ چند نکات گِنواکر یہ دعویٰ کیا جائے کہ قرآن کے وجوہ اعجاز کا احاطہ ہو گیا، ہاں یہ ممکن ہے کہ قرآن کا چیلنج یعنی وہ بات جس پر معارضہ اور مقابلہ کی دعوت تھی اس کو سمجھا جائے،اور وہ ہے قرآن مجید کی زبان و بیان کا معیار، فصاحت و بلاغت میں انوکھا اسلوب، نظم و اسلوب میں ایسی جزالت، تمکن اور وقار جس کا اپنے کلام میں پیدا کرنا کسی مخلوق کے لئے ممکن ہی نہیں ہے، کلام الٰہی کے اسی جزالت، تمکن و وقار سے اہل عرب خواہ انہوں نے اسلام قبول کیا ہو یا نہ کیا ہو سب کے سب مسحور تھے، جس کے آگے اسلام قبول نہ کرنے والے ہٹ دھرموں کو بھی اعتراف کرنا پڑا کہ إن ہذا إلا سحر يؤثر! اور بے اختیار بول اٹھے: ما ہذا قول البشر۔
خود عربوں کو اپنی زبان دانی پر بڑا ناز تھا، عربوں کا اصل امتیاز ان کی زبان دانی ہی تھی، جس پر انہیں غیر معمولی فخر تھا بلکہ ما فی الضمیر کی خوبصورتی کے ساتھ ادائیگی پر ان کو دنیا کے مقابلہ میں ایسا غرور تھا کہ پوری دنیا کو وہ گویا گونگا (عجم) اور تنہا خود کو بولنے والا (عرب) کہتے تھے، اور ان کی زبان تھی بھی بہت خوبصورت، یہ ان کا صرف دعوی ہی نہیں بلکہ حقیقت بھی تھی کہ تمام عرب نہایت درجہ کے فصیح و بلیغ تھے، وہ کلام کی ہر صنف پر انتہاء درجہ کا درک رکھتے تھے، فی البدیہہ فصیح و بلیغ خطبے دیتے اور شعر کہتے، طنز و طعن کے موقع پر غیر معمولی رجزیہ کلام پیش کرتے، کسی کی تعریف کرتے تو اس کو آسمان پر بٹھا دیتےاور کسی کو گراتے تو تحت الثری تک پہنچا دیتے، اپنی تعریف کے ذریعہ ناقص کو بھی کامل بنا دیتے اور ایک یکتائے روزگار کو اپنی ہجو کے ذریعہ کہیں کا نہ چھوڑتے، زبان و بیان ان کی جاگیر تھی اور بلاغت ان کی سلطنت، زبان کے فنون کو انہوں نے بڑا سنوارا اور نکھارا تھا اور خوبصورت کلام کے میٹھے پانی کے چشمے جاری کئے تھے، ان کی طرح کا کلام دنیا کی دوسری اقوام اپنی زبان میں بھی پیش کرنے پر قادر نہیں تھیں، ایسے میں جبکہ وہ اپنے اس غرور میں چور چور تھے اللہ نے اپنے نبی کو معجزہ انہیں کی مناسبت سے دیا اور اپنے معجز کلام کو نبی کے لئے دلیلِ رسالت بنادیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اللہ کے رسول ہونے کا ثبوت خود یہ کلام ہے، اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اللہ کے رسول ہونے اور قرآن کے اللہ کی جانب سے اتارا ہوا کلام ہونے میں کوئی شک ہو تو زبان دانی تو تمہاری ریاست ہے، اس کلام کا مثل پیش کردو، یہ مثل پیش کر دینا ہی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دعوے کو جھوٹا قرار دینے کا ثبوت ہوگا، اور اگر ایسا نہ کر سکو تو پھر محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کلام کی مخالفت سے باز آجاؤ۔
قرآن نے اپنے بارے میں فرمایا: ’’اس قرآن کا معاملہ ایسا نہیں ہے کہ اللہ کے سوا کوئی اپنی طرف سے اس کو گھڑ لایا ہو وہ تو اللہ کی وحی ہے ، اس کتاب کے تمام جہانوں کے پروردگار کی جانب سے نازل ہونے میں کچھ شبہ نہیں‘‘۔ (سورۂ یونس)
قرآن نے عربوں کو اس قرآن کا مثل پیش کرنے کا جو چیلنج کیا تھا اس کے کئی مراحل ہیں، سب سے پہلے قرآن نے یہ چیلنج کیا کہ اگر یہ کلام محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے خود گڑھا ہے تو تم بھی تو اہل زبان ہو؟ تم بھی اس کلام کا مثل پیش کر کے دکھادو؟ (سورۃ الطور) اور ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا کہ تمام انسان و جن مل کر بھی اس کا مثل پیش کرنا چاہیں تو بھی ہرگز نہیں کر سکتے۔ (سورہ بنی اسرائیل)
لیکن جب عرب اس چیلنج کے باوجود اس کا جواب نہ دے سکے تو بر سبیل تنزل قرآن نے ان سے کہا ٹھیک ہے! اگر پورے قرآن کا جواب تم سے نہیں بن پڑتا ہے تو اس کلام جیسی محض دس سورتیں ہی بنا کر لاؤ۔ (سورہ ھود)
اور پھر جب اس چیلنج کا جواب بھی ان سے نہ بن سکا تو قرآن نے اور نیچے اتر کر ان سے کہا کہ دس سورتیں بنانا بھی ممکن نہ ہو تو اس کلام جیسی صرف ایک ہی سورت بنا لاؤ۔ ( سورہ یونس)
یہ ایک عظیم ترین سچائی اور حقیقت ہے کہ عرب باوجودیکہ زبان دانی کی غیر معمولی صلاحیت کے ان کے انسان و جن سب مل کر بھی اس کلام کا مقابلہ نہ کر سکے اور یہ کلام دنیا میں غیر معمولی تبدیلیاں پیدا کرتا چلا گیا، ایک طرف وہ جو اپنے خالق و مالک سے محبت کرنے والے تھے ان کے لئے یہ کلام رحمت اور فضل کا مظہر تھا تو دوسری طرف معاندین اور ہٹ دھرموں کے غرور کو خاک میں ملانے والا تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد تیئیس (۲۳) سال تک وحی کا سلسلہ جاری رہا اور اس دوران اس چیلنج کو بار بار ان کے سامنے دوہرایا گیا کہ اس کلام کے منزل من اللہ ہونے میں اگر شبہ ہے تو اس کا مثل پیش کرکے دکھادو، اور اسی کے ساتھ قرآن ان کی غلط کاریوں اور بت پرستی پر لعنت بھیجتا رہا، ان کی اور ان کے آباء و اجداد کی گمراہی پر تنبیہ کرتا رہا، ان کے معبودوں کی مذمت کرتا رہا اور ان کے باطل ہونے کو ڈنکے کی چوٹ پر بیان کرتا رہا، وہ اس سب پر پیچ و تاب کھاتے رہے اور ان کے سینوں پر سانپ لوٹتے رہے، لیکن وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کے چیلنج کا جواب نہ دے سکے۔
اور ان کے سامنے یہ واضح ہو چکا تھا کہ اس کلام کا مقابلہ بشری طاقت سے باہر ہے، وہ اپنے دلوں میں اس کلام کی عظمت مان چکے تھے، خواہ وہ عرب جن کے دلوں کو اللہ نے قبول اسلام کے لئے کھول دیا ہو یا ان کی آنکھوں پر پردہ پڑا ہو سبھی قرآن کے زیر اثر تھے، اگر ہم ابتداء میں اسلام لانے والے ان چند لوگوں کو چھوڑ دیں جنہوں نے اسلام کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت سے متأثر ہو کر قبول کیا تھا، مثلاً حضرت خدیجۃ الکبری، حضرت ابو بکر صدیق، حضرت علی، حضرت زید رضی اللہ عنہم وغیرہ ﷡ تو ہمیں نظر آئے گا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایامِ دعوت میں جبکہ نہ آپؐ کا کوئی اثر و رسوخ تھا اور نہ اسلام کو کوئی طاقت و قوت حاصل ہوئی تھی، اسلام کی اشاعت کا سب سے زیادہ مؤثر ذریعہ قرآن مجید رہا ہے، حضرت طفیل بن عمرو دوسی ﷜ رضی اللہ عنہ جو موسم حج میں مکۃ المکرمہ آئے ہوئے تھے قریش کے بہکانے پر تہیہ کر چکے تھے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں سنیں گے ہی نہیں، اور اس مقصد سے کانوں میں روئی ڈالے پھرتے تھے کہ کہیں اتفاقاً آپ کی آواز کانوں میں نہ پڑ جائے، لیکن اس احتیاط کے باوجود کعبۃ اللہ میں جب آپ کی آواز کانوں میں پڑ ہی گئی تو وہ اللہ کا کلام سن کر جھوم اٹھے، اور خود کو ملامت کی کہ اتنے خوبصورت کلام کو سننے سے وہ گریز کر رہے تھے، اور پھر حضرت طفیل رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مل کر آپؐ کی دعوت کے بارے میں جاننا چاہا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں سورہ اخلاص اور سورہ فلق پڑھ کر سنائیں جن کو سن کر وہ اسلام لے آئے، حضرت عمرو بن جموح ﷜ رضی اللہ عنہ صرف سورہ فاتحہ سن کر اسلام لے آئے، حضرت ابو ذر غفاری ﷜ رضی اللہ عنہ نے بھی قرآن کا ایک حصہ سن کر ہی اسلام قبول کیا، نہ صرف حضرت اُسید بن حضیر ﷜ رضی اللہ عنہ بلکہ ہجرت سے قبل مدینہ کی آبادی کا ایک بڑا حصہ حضرت مصعب بن عمیر ﷜ رضی اللہ عنہ سے قرآن سن سن کر ہی اسلام قبول کرتا رہا، حضرت عمر بن الخطاب ﷜ رضی اللہ عنہ نے قرآن سن کر ہی اسلام قبول کیا، شاہِ حبش نجاشی رضی اللہ عنہ پر اثر کرنے والا کلام بھی یہی تھا جس کو سن کر وہ زار و قطار رونے لگے تھے، بلکہ صرف نجاشی ہی نہیں ان کے پورے درباریوں کی آنکھیں اشکبار تھیں، حضرت جعفر بن ابی طالب ﷜ رضی اللہ عنہ نے انہیں سورہ مریم کی آیات پڑھ کر سنائیں تھیں، حضرت سعد ابن ابی وقاص ﷜ رضی اللہ عنہ نے بھی قرآن سن کر ہی اسلام قبول کیا، جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی دلیل قرآن تھا وہیں آپ کی دعوت اسلام کا سب سے بڑا ذریعہ بھی قرآن ہی تھا، آپ کلام الٰہی پڑھ کر لوگوں کو سناتے اور اس کلام میں بیان کئے گئے حقائق، فطری دلائل، رب ذو الجلال کی رحمت و شفقت سے بھرپور تنبیہ اور ترغیب و ترہیب بندہ کے دل پر ایک خاص اثر ڈالتی ہے؛ بشرطیکہ اس بندہ میں اچھائی کو اختیار کرنے اور برائی سے بچنے کا مادہ باقی رہ گیا ہو اور اس کی فطرت مسخ نہ ہو گئی ہو۔
ایسی بے شمار مثالیں ہیں جنہوں نے اسلام قبول نہیں کیا لیکن وہ قرآن کی چاشنی اور اعجازی شان کے زیر اثر تھے، وہ لوگ جو اسلام قبول نہیں کرتے تھے وہ بھی قرآن کے لذت آشنا تھے، حتی کے اللہ کے اس کلام کو سننے کے لئے چھپ چھپ کر آپ کی عبادت کی جگہ کے پاس راتوں کو منڈ لاتے تھے اور اس کلام کی عذوبت اور مٹھاس سے لطف اندوز ہوتے تھے، اور اس میں بیان کی گئی وعیدوں سے گھبراتے اورخوف بھی کھاتے تھےعتبہ بن ربیعہ کا واقعہ ہے کہ قریش نے اسے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آپ کو سمجھانے بھیجا کہ آپ اپنی دعوت سے باز آجائیں، اس نے آکر آپؐ سے بات کی اور پہلے تو الزام لگائے کہ آپؐ نے اپنی قوم کا شیرازہ بکھیر دیا ہے اور کوئی اپنی قوم کے لئے ایسا نقصان کا باعث نہ بنا ہوگا جیسے آپ بنے ہیں وغیرہ وغیرہ، اس طرح کی باتیں وہ پہلے کرتا رہا، پھر اس نے آپؐ کے سامنے چند تجویزیں رکھیں کہ اگر آپؐ اس دعوت کے ذریعہ مال کے طالب ہیں تو اس دعوت سے باز آجائیں! ہم آپ کے لئے بڑی مقدار میں مال جمع کر دیں گے، اور اگر شرف و منصب کے متمنی ہیں تو ہم سب آپؐ کو اپنا سردار منتخب کر لیتے ہیں، اور اگر آپ کو کوئی روگ لگ گیا ہے تو ہم سب آپ کے علاج پر اپنی توجہات کو مرتکز کر دیں گے، جب عتبہ اپنی بات سے فارغ ہو گیا تو آپ نے کہا: کیا تمہاری بات مکمل ہو چکی؟ اس نے کہا: ہاں! آپ نے فرمایا: اب میری سنو: حم (۱) تَنْزِيلٌ مِنَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ (۲) كِتَابٌ فُصِّلَتْ آيَاتُهُ قُرْآنًا عَرَبِيًّا لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ (۳) بَشِيرًا وَنَذِيرًا فَأَعْرَضَ أَكْثَرُهُمْ فَهُمْ لَا يَسْمَعُونَ (۴) سورہ فصلت کی ان آیات کو پڑھتے آپ جب فَإِنْ أَعْرَضُوا فَقُلْ أَنْذَرْتُكُمْ صَاعِقَةً مِثْلَ صَاعِقَةِ عَادٍ وَثَمُودَ والے حصہ پر پہنچے تو عتبہ نے گھبرا کے اپنا ہاتھ آپ کے دہن مبارک پر رکھ دیا اور کہنے لگا ہم پر بد دعا مت بھیجو۔اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے انذار کو بد دعاء سمجھا اور واپس ہو گیا، قریش نے اس سے پوچھا: کیا بات ہوئی؟ تو اس نے جواب دیا: خدا کی قسم! میں نے ان سے ایسی بات سنی ہے جس کا مثل آج تک نہیں سنا تھا، خدا کی قسم! نہ وہ شعر ہے، نہ سحر ہے اور نہ ہی کہانت ہے، خدا کی قسم! جو باتیں میں نے ان سے سنی ہیں وہ یقیناً ہو کر رہیں گی، دیکھو محمد نے کبھی جھوٹ نہیں کہا ہے، مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں تم پر عذاب نہ آ جائے، غور کیا جائے قرآن سن کر یہ احساس اس شخص کا ہے جس نے پھر بعد میں بھی اسلام قبول نہیں کیا تھا، اور جب آیا تھا تو بڑے زعم کا شکار تھا کہ آپ کو کچھ سکھائے گا، لیکن اس کی واپسی خود ایک خاص قسم کے تأثر کے ساتھ ہوئی۔
اسی طرح کا واقعہ ولید بن مغیرہ کا ہے جو فصاحت کلام میں تمام قریش کا سردار تھا، اس نے آپ سے کہا اپنا کلام مجھے بھی تو سناؤ! میں بھی اس میں غور و فکر کروں گا، آپ نے سورۂ نحل کی ان آیات کو پڑھ کر سنایا: إِنَّ اللہ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ۔ ولید نے اس کلام کو سن کر کہا: ایک مرتبہ پھر دوھراؤ! آپ نے پھر دوہرا کر یہ کلام سنایا، ولید کہنے لگا: و اللہ ان لہ لحلاوۃ، و ان عليہ لطلاوۃ، و ان أعلاہ لمثمر، و ان أسفلہ لمغدق و ما يقول ہذا بشر: خدا کی قسم! اس کلام میں چاشنی ہے اور بڑا بھرپور اور شان والا کلام ہے، اس کا ظاہر پھلدار اور باطن مغز سے بھرا ہوا ہے، یہ کسی بشر کا کلام ہر گز نہیں ہے۔
ایک واقعہ مفسرین نے سورہ نجم کی آخری آیت فَاسْجُدُوا لِلَّهِ وَاعْبُدُوا کے تحت تفسیر کرتے ہوئے نقل کیا ہے کہ جب سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے بر سر عام قرآن مجید کے اس حصہ کو سنایا اور اس آخری آیت یعنی فَاسْجُدُوا لِلَّهِ وَاعْبُدُوا پر پہنچے تو اس کا اثر یہ ہوا کہ اس جگہ موجود وہ لوگ جو اسلام قبول کر چکے تھے اور وہ بھی جنہوں نے اسلام قبول نہیں کیا تھا سب کے سب بے اختیار سجدہ میں گر پڑے، یہ در حقیقت قرآن کی تأثیر ہی کا نتیجہ تھا۔
یہ ایک دو نہیں بلکہ ایسی سینکڑوں مثالیں ہیں جن میں کفار و مشرکین پر اس کلام کے غیر معمولی اثر کا ثبوت ملتا ہے، لیکن یہ توفیق سے محرومی کی بات ہے کہ ضد اور ہٹ دھرمی کی روش اختیار کرنے کی وجہ سے وہ اسلام سے محروم رہے، ابو جہل کے بارے میں منقول ہے کہ وہ بھی چھپ چھپ کر کلامِ الٰہی سننے کی کوشش کرتا تھا اور پھر جب قریش کے بچے بچے پر کلام الٰہی کا اثر پڑنے لگا اور رب ذو الجلال کے کلام سے قریش کے گھرانوں میں غیر معمولی تبدیلی آنے لگی، باوجود اسلام قبول کرنے والوں کے لئے مکہ میں زندگی تنگ کئے جانے کے قرآن کے اثر سے اسلام کو قبول عام حاصل ہونے لگا؛ تب قریش نے عاجز آکر فیصلہ کیا کہ اس کلام کو نہ خود سنو اور نہ لوگوں کے کانوں تک اس کو پہنچنے دو،کیونکہ اس کو سننے کے بعد ہی سارے مسائل پیدا ہوتے ہیں اور جب محمد صلی اللہ علیہ وسلم یا کوئی مسلمان اس کلام کو پڑھ کر سنائے تو وہاں مستقل شور شرابہ شروع کردو، اب یہی ایک صورت باقی رہ گئی ہے کہ تم اس دین کے پھیلنے پر غالب آسکتے ہو، چنانچہ قرآن نے ان کے اس عمل کو نقل کیاکہ جہاں وہ اس کلام کے سننے سنانے کو روک سکتے تھے اس طرح شور شرابہ کر کے روکتے، اور جہاں انہیں موقع ملتا وہاں اس کلام کے سنانے والے پر دست درازی سے بھی نہیں چوکتے، خودحضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا ﷜ واقعہ ہے کہ اس طرح کے ایک موقع پر بعض خبیث باطن بدبختوں نے انہیں اتنا مارا کہ خود مارنے والوں نے یہ سمجھا کہ وہ اب مر چکے ہیں تب چھوڑ کر گئے، لیکن ان تمام کے باوجود اللہ کو اپنی نعمت اور اپنے نور کا اتمام تو کرنا تھا اور اپنے دین کو تمام ادیان پر غالب کرنا تھا، اور کون ہے جو اللہ کی مشیت کو مغلوب کر سکے، قریش کی ہزار کوششوں کے باوجود وہ اس کلام کی تأثیر کو پھیلنے سے نہ روک سکے اور قرآن کے چیلنج کا جواب نہ دے سکنے پر اس کی حقانیت کو قبول کرنے کے بجائے جحود و عناد کا شکار ہوئے، جس کا بدترین بھگتان ان کو دنیا میں بھی بھگتنا پڑا اور آخرت کے عذاب سے بھی وہ دو چار ہوں گے۔
قرآن مجید نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا سب معجزات سے بڑا، عظیم الشان اور دائمی معجزہ اور مذہبِ اسلامی کی حقانیت کی ایک بہت بڑی دلیل ہے۔دلائل
.بند
عقیدہ:
قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی دیگر کتابوں کی تصدیق کرنے والی کتاب ہے۔تشریح
قرآن پہلی کتابوں کی مصدق ہے:
قرآن مجید کی اہم صفت یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی دیگر کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ نے دیگر پیغمبروں پر نازل فرمائی ہیں، چنانچہ ہم تورات ، زبور اور انجیل پر اس لئے ایمان رکھتے ہیں کیونکہ ان کی تصدیق قرآن نے کی ہے کہ وہ اللہ کی کتابیں ہیں۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
قرآن مجید تمام آسمانی کتابوں میں سب سے افضل کتاب ہے۔تشریح
قرآن مجید سب افضل نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی۔
قرآن مجید سب سے آخری آسمانی کتاب ہے اور پہلی تمام آسمانی کتابوں کے لئے ناسخ ہے۔
پہلی آسمانی کتابیں مضمون کے اعتبار سے معجز تھیں اور قرآن مجید مضمون اور الفاظ دونوں کے اعتبار سے معجز ہے، لہٰذا قرآن مجید کی نظیر نہ مضمون کے اعتبار سے پیش کی جاسکتی ہے اور نہ ہی لفظوں کے اعتبار سے۔
پہلی آسمانی کتابوں کا کوئی ایک حافظ بھی موجود نہیں؛ جبکہ قرآن مجید کے لاکھوں حافظ موجود ہیں اور قیامت تک موجود رہیں گے۔
پہلی آسمانی کتابوں کے احکام یا تو بہت سخت تھے یا بہت نرم، قرآن مجید کے احکام انتہائی معتدل اور ہر قوم اور ہر زمانہ کے مناسب ہیں کہ قیامت تک ان پر عمل ہوسکتا ہے۔
پہلی آسمانی کتابیں نازل ہی ایک مقررہ زمانہ تک کے لئے ہوتی تھیں اور قرآن مجید قیامت تک کے لئے نازل ہوا ہے، لہٰذا وہ باقی نہ رہیں اور قرآن مجید قیامت تک باقی رہے گا۔
پہلی آسمانی کتابوں کی حفاظت کا ذمہ اللہ تعالیٰ نے نہیں لیا تھا، جبکہ قرآن مجید کی حفاظت اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ لی ہے، اس لئے پہلی کتابیں ختم ہوگئیں اور قرآن مجید باقی ہے اور باقی رہے گا۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
قرآن نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر جیسا نازل ہوا ویسا ہی بغیر کسی تبدیلی اور بغیر کسی تحریف کے محفوظ ہے۔ قرآن مجید کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے خود لی ہے۔تشریح
قرآن اللہ کی محفوظ کتاب ہے:
قرآن اللہ کی محفوظ کتاب ہے، جس کی حفاظت کا ذمہ اللہ نے خود لی ہے، چنانچہ وہ قرآن جوسیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم علیہ و سلم پر نازل کیا گیا تھا آج بھی بعینہ بلا کسی تبدیلی کے محفوظ شکل میں موجود ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن جب بھی نازل ہوتا آپ صلی اللہ علیہ وسلم وحی لکھنے والے صحابہؓ کو لکھوا دیتے اور کہہ دیتے کہ کونسی آیت کس سورت میں لکھی جائے، اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کو نازل شدہ قرآن کا حصہ سکھا دیتے اور صحابہ اس کو یاد کرلیتے، بہت سے صحابہ ایسے ہیں جو قرآن مجید کے حافظ تھے۔
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دور میں جنگ یمامہ میں سینکڑوں حفاظ شہید ہوئے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو رائے دی کہ قرآن کو ایک ہی جگہ جمع کردیا جانا چاہئے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں قرآن جو متفرق چیزوں مثلاً چمڑے پر یا ہڈیوں پر لکھا گیا تھا حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے دور میں اس کو ایک جلد میں (ما بین الدفتین)جمع کیا گیا ، اس کی ذمہ داری ایک کمیٹی کو دی گئی جس نے حضرت زیدبن ثابت رضی اللہ عنہ کی سرکردگی میں اس کام کو انجام دیا اور پھر حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے دور میں اسی مجموعہ کو رسم عثمانی میں لکھ کر تمام اقطاع عالم میں پھیلایا گیا کہ وہ قرآن جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے امت کو ملا وہ پوری دنیا میں پھیل جائے۔
اور ہر زمانہ اور علاقہ کے لوگوں نے اللہ کی مشیت سے اللہ کے کلام کو سینوں اور لکھ کر محفوظ کرلیا، ہر زمانہ میں ہزاروں لاکھوں حفاظ قرآن پائے جاتے، جو ایک ہی قرآن کے حافظ تھے اور وہی قرآن آج بھی محفوظ ہے، اور یہ خود قرآن کی حقانیت کا ایک ثبوت ہے کہ وہ کتاب جس کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو جس شکل میں دیا وہ بغیر کسی تغیر و تبدیلی کے اور بغیر کسی تحریف کے امت کے پاس محفوظ ہے، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کے ذریعہ واضح فرما دیا تھا کہ اس قرآن کی حفاظت کا ذمہ اللہ نے لیا ہے، ظاہر ہے جس کتاب کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ نے لی ہو اس میں کوئی کیسے تبدیلی کر سکتا ہے۔
اس بات پر ایمان فرض ہے کہ قرآن بغیر تحریف کے محفوظ ہے، جو شخص قرآن میں تحریف کا گمان رکھتا ہو یا یہ کہتا ہو کہ جو قرآن نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا تھا وہ امت کے پاس نہیں وہ کافر ہے۔
اللہ کی کتابوں اور قرآن میں نسخ:
اللہ تعالیٰ جب ایک شریعت کے بعد دوسری شریعت دوسرے نبی اور قوم کو دیتا تو احکام میں اس قوم کے مناسب حال کچھ تبدیلی بھی کردیتا ، ایک حکم بدل کر دوسرا حکم دینا یہ ’’نسخ‘‘ کہلاتا ہے، عملی احکام میں نسخ ہوتا ہے، ایمانیات و عقائد میں نسخ نہیں ہوتا، اور آسمانی کتابوں میں احکام عملیہ اور شریعت میں نسخ ہوتا رہا ہے، آسمانی کتابوں میں نسخ ماننے میں کوئی حرج نہیں ہے، اس کا آسان سا مفہوم یہی ہے کہ ایک حکم اللہ نے ایک قوم کے مناسب حال سمجھا تو اس کو دیا اور بعد میں دوسری قوم کو بدل کر ایک دوسرا حکم دیا، مثلاً حضرت یعقوب علیہ السلام کی شریعت میں نکاح میں جمع بین الاختین (یعنی دو بہنوں سے بیک وقت نکاح) جائز تھا لیکن بعد میں اس کو بدل دیا گیا، اسی طرح حضرت موسی علیہ السلام کی شریعت میں طلاق کی عام اجازت تھی، لیکن حضرت عیسی علیہ السلام کی شریعت میں صرف زنا کی وجہ سے عورت کو طلاق دی جا سکتی تھی ورنہ نہیں، حاصل یہ کہ شریعتوں میں نسخ کا عمل ہوا ہے، جو حکم ختم کردیا جائے اس کو منسوخ اوراس کی جگہ جو نیا حکم آئے اس کو ناسخ کہتے ہیں۔
قرآن مجید میں پچھلی شریعتوں کے مقابلہ میں بھی نسخ ہوا ہے، مثلاً شریعت عیسوی کے بعد پھر سے طلا ق کی عام اجازت دے دی گئی، اسی طرح ابتداءِ اسلام میں ایک حکم دیا گیا بعد میں پھر اس حکم کو کسی مصلحت سے بدل دیا گیا، جیسے مدینہ ہجرت کے بعد بیت المقدس کی جانب رخ کرکے نماز پڑھنے کا حکم ہوا تھا جو وحی غیر متلو کے ذریعہ دیا گیا، پھر قرآن میں دوبارہ کعبۃ اللہ کو قبلہ بنا کر نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا، غرض یہ کہ قرآن میں بھی نسخ ہوا ہے، اللہ تعالیٰ بندوں کے مناسب حال جو حکم چاہتے ہیں بدل کر دے سکتے ہیں، ہاں جب دین مکمل ہو گیا شریعت بہ تمام وکمال نازل کر دی گئی اب کوئی نسخ نہیں ہوگا، کیونکہ اب کوئی نئی شریعت آنے والی نہیں ہے، اب قیامت تک قرآن اور اس کی شریعت ہی واجب التعمیل ہے۔
نسخ سے متعلق یہاں صرف عقائد سے متعلقہ بات کہی گئی ہے، باقی قرآن میں کہاں کہاں نسخ ہوا ہے وغیرہ تفصیلات علوم القرآن موضوع پر لکھی گئی کتابوں میں موجود ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
قرآن مجید علم کا یقینی ذریعہ ہے، جو بات قرآن میں مذکور ہے وہی بر حق ہے۔تشریح
قرآن علم کا یقینی ذریعہ ہے:
قرآن اللہ کا کلام ہے، جو العلیم ،الخبیر ، عالم الغیب و الشھادۃ اور علیم بذات الصدور ہے، کائنات میں جس کسی کے یہاں علم کی صفت ہے اسی اللہ کی عطاء کردہ ہے، ظاہر ہے پھر خود اس کے علم سے جو کلام صادر ہوا ہے وہی علم کا سب سے یقینی ذریعہ ہوگا۔
قرآن کو علم یقینی کا ذریعہ ماننے کا تقاضہ یہ ہے کہ اس بات پر ایمان رکھا جائے کہ قرآن جو کچھ کہتا ہے وہی حق ہے اور جو بات قرآن سے ٹکراتی ہے وہ غلط اور جھوٹ ہے۔
توحید، انبیاء کی سچائی ،آخرت کا وجود، اس دنیا کا ہمیشہ نہ ہونا، اعمال کا حساب و کتاب ، فرشتے اور جنت و جہنم یہ سب قرآن کے بیان کردہ حقائق ہیں اور یہی حق ہے، جو کچھ بھی نظریات و افکار اس کے خلاف ہیں وہ جھوٹ ہیں۔
آگے یہ بات آرہی ہے کہ قرآن کا موضوع ہدایت ہے ، لیکن ساتھ ہی قرآن اپنے اصل موضوع کے ساتھ کائنات کی بہت سی حقیقتوں کو بیان کرتا ہے، قرآن کائنات کی جس حقیقت کو بیان کرتا ہے وہی حق ہے، اگر انسانی مشاہدہ و تجربہ اس کے خلاف جاتا ہے تو انسان کا مشاہدہ و تجربہ غلط اور فہم کا قصور ہے، انسان کو اپنی تحقیق جاری رکھنی چاہئے اور ایک دن وہ اسی حقیقت تک پہنچے گا جو قرآن نے بتلائی ہے اور ساتھ ہی قرآن کے دعوی کی سچائی پر یقین رکھنا لازم ہے ، یہی ایمان ہے، ورنہ اپنی تحقیق کے نتیجہ کے انتظار تک ایمان کے بجائے سکوت اختیار کرنا ایمان کے خلاف ہے۔
قرآن تاریخ کی کتاب بھی نہیں ہے، لیکن بہت سے تاریخی حقائق قرآن بیان کرتا ہے، قرآن جو کچھ تاریخی حقائق بیان کرتا ہے وہی حق ہے، کوئی تاریخ اگر قرآن کے خلاف وکئی دعوی کرتی ہو تو وہ جھوٹی ہے، انبیاء بنی اسرائیل جو قرآن کی تاریخ کے خلاف کوئی دعوی کرتے ہوں تو وہ سوائے جھوٹ کے کچھ نہیں ہے، حق وہی ہے جو قرآن بیان کرتا ہے، کیونکہ وہ العلیم کا نازل کردہ ہے اور وہی علم کا یقینی ذریعہ ہے، مثلاً بنی اسرائیل نے تورات و انجیل میں تحریف کرکے بہت سے رذائل اور گھناؤنے کاموں کو انبیاء سے متصف کیا ہے، جبکہ قرآن انبیاء کو اخلاق حمیدہ کا حامل بتلاتا ہے اور رذائل سے ان کی کلی طور پر نفی کرتا ہے، یہود حضرت مریم بنت عمران علیہا السلام پر تہمت لگاتے ہیں جبکہ قرآن ان کو عفیفہ و پاکدامن اور تمام عالم کی خواتین میں چنندہ قرار دیتا ہے، حق وہی ہے جو قرآن نے بیان کیا ہے کہ انبیاء رذائل کا ارتکاب ہر گز نہیں کر سکتے، اور حضرت مریم علیہا السلام پاک دامن و عفیفہ تھیں اور اس پر ایمان اس لئے ضروری ہے کہ علم کا یقینی ذریعہ قرآن ہے، جب قرآن کوئی بات کہہ دے تو وہی بر حق ہے۔
قرآن بینات و براہین سے بھر پور کتاب ہے:
قرآن مجید کی ایک اہم صفت یہ ہے کہ وہ محض دعوؤں پر مشتمل کتاب نہیں ہے ؛بلکہ دلائل و براہین سے بھی بھر پور ہے اور اپنے تمام دعوؤں پر آفاقی و انفسی اور عقلی اور فطری حجتیں پیش کرتی ہے۔
اور اپنے مخاطبین سے بھی کہتی ہے کہ اندھوں ، بہروں اور بے عقلوں اور جانوروں کی طرح مت رہو ؛ بلکہ غور و فکر اور تدبر سے کام لو، قرآن اپنے دعووں پر دلائل پیش کرتا ہے اور مخالفت کرنے والوں سے کہتا ہے کہ اگر تمہاری مخالفت پر کوئی ہو تو لاؤ۔
قرآن کہتا ہے کہ اس کتاب میں کوئی اختلاف اور تضاد نہیں ہے، اس میں کوئی تیڑھ نہیں ہے۔ قرآن خود دعوی بھی ہے اور بھی ہے، خود قرآن اس کی صفت بیان کرتے ہیں کہتا ہے کہ یہ ’’آیات بینات ‘‘ ہیں۔
قرآن کہتا ہے کہ قرآن کے ہی پر ہے جبکہ قرآن کے موقف کو ترک کرکے جو لوگ الگ راہ اپنائے ہوئے ہیں وہ صرف اندازوں اور اٹکلوں پر ہیں، ان کے پاس کوئی علم و نہیں ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
قرآن کتابِ ہدایت ہے، اب اس کے علاوہ کوئی اور کتاب،کتابِ ہدایت نہیں ہے۔تشریح
قرآن کتابِ ہدایت ہے:
قرآن کی سب سے اہم صفت یہ ہے کہ وہ کتاب ہدایت ہے، اس کی صفت ’’الھدی‘‘ جو کامل ہدایت نامہ ہے، جو آخری پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر آپ کی بعثت کے بعد سے رہتی دنیا تک کے تمام انسانوں اور جنوں کی ہدایت کےلئے نازل کی گئی، قرآن کا حقیقی مقصد نزول یہی ہے کہ اس کے ذریعہ بندگان خدا ہدایت یاب ہو جائیں، اب اس کتاب کے علاوہ کسی اور کتاب میں ہدایت نہیں ہے کیونکہ پچھلی تمام کتابیں محرف اور منسوخ ہوگئی ہیں، اب یہی کتاب ہدایت کے لئے کافی ہے، اس لئے اس کتاب کے علاوہ کسی اور کتاب کو ہدایت کا ذریعہ سمجھنا کفر اور بذات خود گمراہی ہے۔
قرآن کو اللہ تعالیٰ نے اس لئے نازل کیا ہے تاکہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس کے ذریعہ بندگان خدا کو گمراہیوں کے اندھیروں سے نکال کر ہدایت کے نور کی جانب لائیں، اب اس کتاب کے علاوہ کسی اور میں یہ صفت نہیں ہے کہ وہ انسانوں کو گمراہیوں کے اندھرے سے نکال کر ہدایت کے نور کی جانب لا سکے۔
قرآن اللہ کی کتاب رحمت ہے اور ایک با بر کت کتاب ہے، اس کتاب میں اللہ نے بندوں کے لئے ان تمام پہلوؤں کو واضح کردیا ہے جو ان کے لئے رحمت کا باعث ہیں، جب بندگان خدا اس کتاب کی پیروی کرتے ہیں تو وہ اللہ تعالیٰ کی برکات کے مستحق بن جاتے ہیں اور اس فرد اور جماعت میں جو اس کتاب کی پیروی کرتے ہیں وہ برکات بالکل ظاہر دکھائی دینے لگتے ہیں، اور اسی طرح یہ کتاب ان تمام پہلووں کو بھی واضح کرنے والی ہے جو بندگان خدا کے لئے رحمت کے خلاف اور ان کی دنیوی اور اخروی زندگی کو جہنم بنانے والے ہیں کہ اگر بندگان خدا اس کتاب کی تنبیہات کو ملحوظ نہیں رکھتی ہے تو وہ رحمت و برکات سے محرومی کا بذات خود تجربہ کرتے ہیں۔
قرآن سلیم طبیعتوں کو جن میں پیدا کرنے والے اور پروردگار کا ڈر موجود ہے ، انہیں میثاق عہد الست جو ہر بندہ کے شعور میں کہیں نہ کہیں موجود ہے یہ کتاب اس کی یاد دہانی کرنے والی ہے، جو اللہ کے پر سے تذکرہ اور موعظت کے طو پر نازل کی گئی ہے۔
قرآن کو اللہ نے دلوں کے امراض کےلئے شفا بنا کر بھیجا ہے، انسانی دل و دماغ جس طرح کی گتھیوں میں پڑ کر ذہنی و دلی بیماریوں میں مبتلا ہوتا ہے یہی کتاب اس کےلئے شفاء کا ذریعہ ہے، اس کے علاوہ کسی اور کتاب میں ایسے شفاء بننے کی صلاحیت نہیں ہے۔
جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کی پکار پر لبیک کہتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کے احکام کی اطاعت کرتے ہیں یہ قرآن ان کے لئے اچھے انجام ، دنیا میں پاکیزہ زندگیاور آخرت میں ہمیشہ کی جنت اور وہاں کے عیش و عشرت اور اللہ کی رضا کی خوشخبری دینے والی ہے، اور جو لوگ اللہ کی پکار سے منہ موڑیں اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت سے گریز کریں یہ کتاب ان کو برے انجام اور جہنم کے عذاب سے ڈرانے والی ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
بے سمجھے تلاوتِ قرآن بھی باعث اجر ہے، ہاں سمجھ کر پڑھنا اجر اور ہدایت میں اضافہ کا ذریعہ ہے۔تشریح
تلاوت و تدبّرِ قرآن:
قرآن کے اللہ کی کتابِ ہدایت ہونے کا لازمی تقاضہ ہے کہ بندے اس کتاب سے رہنمائی حاصل کریں، اس کتاب کو پڑھیں ، اس کتاب کی تلاوت کریں، اس کو سمجھیں اور اس کے معانی میں غور و فکر کریں اور ان کو اپنے لئے مشعل راہ بنائیں۔
جس طرح سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ ذمہ داری تھی کہ دعوت اسلام کےلئے اور تعلیمِ کتاب کےلئے اس کی دوسروں کے سامنے تلاوت کریں اسی طرح خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن مجید کی تلاوت کا حکم تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن مجید کی بکثرت تلاوت کیا کرتے، خاص طور پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نمازوں میں قرآن کی تلاوت کرتے، آپ کی تہجد قرآن مجید کے ساتھ پوری ہوتی، جس میں صرف چند رکعات پورے کرنا نہیں ہوتا تھا بلکہ زیادہ سے زیادہ قرآن مجید کی تلاوت ہوتی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تہجد کی نمازجس کا غالب حصہ قرآن مجید کی تلاوت پر مشتمل ہوتا آدھی رات یا اس سے کچھ کم اور کبھی آدھی رات سے بھی زیادہ ہوتی تھی۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی دوسروں سے بھی قرآن مجید کی تلاوت کا مطالبہ کرتے تاکہ آپ دوسروں کو قرآن مجید کی تلاوت کرتے ہوئے سنیں ، یہ سننا صرف تعلیم کتاب کے طور پر نہیں تھا بلکہ تلاوت قرآن کا سننا خود ایک عبادت ہے اس طور پر تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کو تلاوت کلام مجید کی تلقین کیا کرتے اور سبھی صحابہ قرآن مجید کی بکثرت تلاوت کیا کرتے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو قرآن مجید کی تلاوت مکمل کرنے کا کم از کم نصاب تین دن اور زیادہ سے زیادہ تیس دن دیا تھا، عام طور پر صحابہ روزانہ ایک حزب یا ایک منزل کے اعتبار سے سات دن میں مکمل قرآن مجید کی تلاوت کرلیا کرتے تھے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن مجید کی تلاوت پر بے شمار اجر کی بشارت دی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قرآن کے ہر حرف کی تلاوت پر دس نیکیاں ملتی ہیں، پھر آپ نے فرمایا کہ میں یہ نہیں کہتا کہ: الم ایک حرف ہے بلکہ الف ایک حرف ہے ،لام ایک حرف ہے اور میم ایک حرف ہے۔
تلاوت چاہے سمجھ کر ہو چاہے سمجھے بغیر ہو بہر صورت اجر کا باعث ہے، بعض لوگ یہ کہدیتے ہیں کہ بغیر سمجھے پڑھنے کا کیا فائدہ؟ یہ غلط ہے! ایک شخص اگر احکام اسلام عربی سمجھے بغیر یا ترجمہ قرآن پڑھے بغیر عمل کرتا ہے، فرائض ادا کرتا ہے اور اسلام کی منع کی ہوئی چیزوں سے بچتا ہے ، پھر بغیر سمجھے صرف تلاوت سیکھ کر قرآن کی بھی تلاوت کرتا ہے تو اس کو اس تلاوت کا یقیناً فائدہ پہنچتا ہے، خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ارشاد میں الم کی مثل دی ہے، ظاہر ہے امت کو حروف مقطعات کے معنی نہیں معلوم ہیں پھر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کی تلاوت پر تیس نیکیاں ملتی ہیں، اس لئے یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ بغیر سمجھے پڑھنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔
ہاں قرآن مجید سمجھنا اور اس کے معانی میں غور وفکر کرنا بھی قرآن کا ایک حق ہے، جو شخص اس حق کو پورا کرتا ہے وہ زیادہ ثواب کا مستحق بنتا ہے اور اس کو اللہ کی کتاب کے سمجھنے سے ایمان وعمل اور علم و معرفت کے بے شمار فائدے حاصل ہوتے ہیں، اور یہ بھی صحیح ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کو سمجھنے اور اس کے معانی میں غور و فکر کرنے کا بھی حکم دیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود معلم کتاب تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : تم میں بہترین وہ ہے جو قرآن سیکھے اور سکھائے۔
سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم خود صحابہ کو کتاب اللہ کے معانی کی تعلیم دیتے اور صحابہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن کے معانی کی تعلیم حاصل کرتے تھے، بنیادی طور پر مؤمن ہونے کےلئے قرآن کا علم سبھی صحابہ حاصل کرتے، ہاں تفصیلی علم حاصل کرنے والے خاص خاص صحابہ بھی تھے، مثلاً آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود فرمایا کہ: چار اصحاب سے قرآن کے علم کو حاصل کرو، حضرت عبد اللہ بن مسعود ، حضرت سالم مولی ابی حذیفہ، حضرت ابی بن کعب اور حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہم سے، اسی طرح حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کو فہم قرآن کےلئے خاص دعاء دی، صحابہ قرآن کے سمجھنے اور اس کے معانی میں تدبر پر اپنی محنتیں لگاتے۔
اس لئے یہ کہنا بھی غلط ہے کہ اس کتاب کو سمجھنا مشکل ہے یا اس کو مخصوص لوگ ہی سمجھ سکتے ہیں، جبکہ صحیح یہ ہے کہ جو بھی اس کتاب کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو علم و ہدایت سے سرفراز کرتے ہیں، شرط یہ ہے کہ اس کو سمجھنے کےلئے ایسی کوشش کی جائے جیسے کہ اس کا حق ہے، اس میں اپنی رائے سے کچھ کہنا یا جنہیں قرآن کا علم نہیں ہے انہیں اس کو سمجھنے کا ذریعہ بنانا، اسی سے گمراہی کے دروازہ کھلتے ہیں، اسی پر علماء تنبیہ کرتے ہیں، غور کرنے والی بات ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کیوں فرمایا کہ قرآن کے علم کو چار اصحاب سے حاصل کرو اور پھر ان کے نام بھی بتائے، یہ باتیں سمجھنے اور غور کرنے کی ہیں۔
حدیث مبارکہ میں وارد ہے کہ جو شخص قرآن مجید کی تلاوت کرتا ہے اور اس پر عمل کرتا ہو تو اس کی مثال سنگترہ کھانے والے کی سی ہے جس کی خوشبو بھی پاکیزہ ہے اور لذت بھی مٹھاس والی ہے اور وہ مؤمن جو با عمل تو ہو لیکن قرآن نہ پڑھتا ہو اس کی مثال کھجور کی سی ہے، جس میں کوئی خوشبو تو نہیں ہے لیکن اس کامزہ میٹھا ہے، اور جو منافق قرآن بھی نہیں پڑھتا کی مثال اندرائن پھل جیسی ہے جس میں خوشبو بھی نہیں ہے اور مزہ بھی تلخ اور کڑوا ہے۔
بہر حال اس کتابِ ہدایت کے پڑھنے اور تلاوت کرنے اور سمجھنے اور اس سے تعلق رکھنے اور اس کے احکام کی پیروی کرنے میں امت کی بھلائی اور خیر مضمر ہے اور اس کتاب سے دوری ہی زوال و انحطاط کا باعث ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
قرآن فرقان ہے، یعنی حق و باطل کے درمیان تمیز کرنے والی کتاب ہے۔تشریح
قرآن فرقان ہے:
قرآن مجید کی ایک اہم صفت یہ ہے کہ وہ حق اور باطل دونوں کو جدا جد کرنے والی کتاب ہے، وہ ایسی کتاب ہے جو باطل کے دماغ پر ایسی ضرب لگاتی ہے کہ اس کو پاش پاش کر دیتی ہے،کسی باطل میں یہ طاقت نہیں ہے کہ وہ قرآن کی حقانیت کے سامنے ٹک سکے۔
اس کتاب کے نازل ہونے کے بعد کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اس تردد کا اظہار کرے کہ وہ حق اور باطل میں تمیز نہیں کر سکتا، ایسے تمام حیلوں کو قرآن نے جڑ سے اکھاڑ پھینکا ہے، اس کتاب نے یہ بھی بتلادیا کہ کونسی چیزیں باطل ہیں اور ان کی بے حیثیت و بے وقعتی کو بھی ہر طرح سے واضح کردیا ہے۔
جو شخص اس فرقان کی پیروی کرے گا اس کے بارے میں پورا اطمینان ہے کہ وہ باطل سے محفوظ ہے۔
قرآن مجید کے بہت سے نام ہیں جو قرآن میں ذکر کئے گئے ہیں، مثلاً قرآن مجید، قرآن حکیم، قرآن مبین، قرآن عربی، برہان، نور مبین، شفاء، رحمت، ہدایت، تذکرہ اور ذکر وغیرہ۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
قرآن اللہ کی شریعت و احکام کی کتاب ہے، یہی کتاب اللہ کا قانون ہے۔تشریح
قرآن میں اللہ کی شریعت کا بیان ہے:
قرآن اللہ کی شریعت و آئین کا بیان ہے، اس کتاب کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نےاپنے بندوں کو شریعت و قانون اور احکام دئیےہیں کہ بندگن خدا اس شریعت کے مطابق عمل کریں کہ اللہ ان کے درمیان اس کتاب کے فیصلے چاہتا ہے، جس پر عمل کرکے بندے اطمینان رکھ سکتے ہیں کہ وہ اللہ کے احکام اور اس کی مرضی کے مطابق زندگی گذار رہے ہیں، اور جو بندے اس سے انحراف کریں گویا وہ اللہ کی مرضی اور اس کے احکام کے خلاف زندگی گذار رہے ہیں۔ اور جو لوگ اللہ کی کتاب و شریعت کو ماننے کے باوجود اس کے احکام کے مطابق اپنے فیصلے سے اعراض کریں وہ فاسقو ظالم ہیں، اور جو ان احکام و شریعت ہی کا انکار کردیں وہ کافر ہیں۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کے معانی کا حصہ ہے۔تشریح
تعلیم و تبیین کتاب اور تعلیمِ حکمت:
کتاب اللہ کی تفسیر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم جو کچھ احکامات صادر فرمائیں وہ بھی کتاب اللہ کی طرح واجب التسلیم اور واجب التعمیل ہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کی تشریح و تبیین نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذمہ داری بتلائی ہے، گویا قرآن کی جو کچھ تبیین نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمائیں گے وہ قرآن کریم ہی کے مضمرات اور اس کے معانی کا حصہ ہیں، ظاہر ہے جو بات قرآن کریم کے معانی ہیں وہ بلا شبہ واجب التسلیم اور واجب التعمیل ہیں۔
پھر اللہ تعالیٰ نے قرآن کی شکل میں جو کچھ نازل کیا ہے اس کی اپنی اہمیت ہے، اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو کچھ ’’دین کے طور پر‘‘ فرمائیں وہ بھی وحی ہے، خواہ وہ ارشاد قرآن مجید میں بصراحت ہمیں نظر آتا ہو یا نہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر دینی خطاب پر لبیک کہنا لازمی ہے اور اس سے انحراف کرنا ایمان کے خلاف ہے،کیونکہ تبیین کتاب کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک اہم ذمہ داری خود قرآن کے مطابق ’’تعلیم کتاب و حکمت ‘‘بھی ہے، تبیین و تعلیم کتاب کے علاوہ قرآن نے ’’تعلیم حکمت‘‘ کی جو ذمہ داری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بتلائی ہے وہ اس پورے دین کو شامل ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کتاب اللہ کے علاوہ امت کو دیا ہے، اس حکمت کی تعلیم میں شریعت اسلامیہ کی تفصیلات اور علوم و معارف کا مخزن شامل ہے، اگر کوئی قرآن کے علاوہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اضافی تعلیمات کو چھوڑتا ہے تو گویا وہ خود اللہ کی جانب سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ’’حکمت ‘‘ جو علم دیا گیا تھا اس سے خود کو محروم کرتا ہے اور اس طرح وہ خود قرآن کا انکار کرتا ہے، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دین کے معاملہ میں تصدیق کے اصول سے انحراف کرکے ایمان سے بھی محروم ہوتا ہے۔
اس لئے یہ کہنا کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا وہی ارشاد مانیں گے جو بصراحت قرآن میں مذکور ہو جو قرآن میں نہیں ہے وہ نہیں مانیں گے یہ صریح کفریہ کلمات ہیں، اسی طرح یہ کہنا کہ ’’ہمارے لئے قرآن کافی ہے!‘‘ یہ دھوکہ کے الفاظ ہیں، اگر ان الفاظ سے یہ غرض ہو کہ احادیث میں جو کچھ ہے اس کو ماننا لازم نہیں ہے تو یہ کفریہ عقیدہ ہے ، اسی طرح کوئی بات صحیح ثابت حدیث میں ہونے کے باوجود یہ کہنا کہ وہ قرآن میں کہا ں ہے؟ اس سوال سے اگر حدیث میں ثابت امر کو نظر انداز کرنا ہو تو یہ سوال خود کفر ہے، کیونکہ ایمان کا اصل اصول یہ ہے کہ انبیاء جو کچھ اللہ کے پاس سے لے کر اس کی تصدیق لازم ہے، خواہ وہ وحئ کتاب اللہ ہو یا وحئ غیرِ کتاب اللہ ہو۔
جو شخص وحی حدیث کو ماننے سے سرے سے ہی انکار کرے وہ بلا شبہ کافر ہے، اور جو شخص تواتر سے ثابت وحی حدیث کے احکام کا انکار کرے وہ بھی بلاشبہ کافر ہے، اور وحی حدیث کے اتباع کے لازم ہونے کا عقیدہ رکھتے ہوئے خبر آحاد سے ثابت وحئ حدیث کا جو شخص انکار کرے وہ فاسق ہے۔
جو لوگ وحئ حدیث یا حجیتِ سنت کا انکار کرتے ہیں وہ گویا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم میں فرق کررہے ہیں، حالانکہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم میں کوئی فرق نہیں ہے، نبی کا حکم اللہ کی جانب سے ہوتا ہے، وہ دین کا کوئی حکم اپنی جانب سے نہیں دیتے، اسی لئے بار تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ’’جس نے رسول کی اطاعت کی گویا اس نے اللہ کی اطاعت کی ہے‘‘۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
قرآن میں آیات محکمات اور آیات متشابہات دونوں ہیں۔تشریح
محکمات و متشابہاتِ قرآن:
قرآن میں اللہ تعالیٰ نے آیات محکمات کے ساتھ آیات متشابہات بھی رکھی ہیں، جن آیتوں میں ایمانیات کی تعلیم، صاف احکام اور عملی مطالبے مذکور ہیں وہ آیات محکمات ہیں، جبکہ چند آیات میں کچھ ایسے مضامین کا بیان ہے جن کا مفہوم امت کو نہیں بتلایا گیا ہے، ان میں سے ہر دو کے بارے میں اصول یہ ہے کہ ودنوں طرح کی آیتوں پر ایمان رکھنا ہے کہ وہ اللہ کی جانب سے نازل کی ہوئی ہیں، آیات محکمات پر عمل کرنا ہے، آیات متشابہات کیوں نازل کی گئی ہیں اس کی حکمت و مصلحت صرف اللہ تعالیٰ جانتے ہیں، ان کو حق مانتے ہوئے ان کی تصدیق کرتے ہوئے ان کی حقیقت و کیفیت کے علم کو اللہ کی جانب منسوب کرنا ہے کہ اس کا علم اللہ کے پاس ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
قرآن کریم قیامت تک اپنے الفاظ و معانی کے ساتھ باقی رہے گا۔تشریح
اللہ تعالیٰ نے صرف قرآن کریم کے الفاظ کی حفاظت کا ذمہ نہیں لیا ہے ؛بلکہ اس کے معانی اور تفسیر کی حفاظت کا ذمہ بھی لیا ہے، لہٰذا قرآن کریم قیامت تک اپنے الفاظ و معانی کے ساتھ باقی رہے گا۔
قرآن مجید زمانِ نزول سے لے کر اب تک بطریق تواتر منقول ہے اور قیامت تک اسی نقل تواتر کے ساتھ موجود رہے گا۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
قرآن مجید کی آیات اور سورتوں کی موجودہ ترتیب اللہ اور اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے مقرر کی ہوئی ہے۔تشریح
قرآن مجید کے نزول کی تفصیل اور اس کی ترتیب:
قرآن مجید کا نزول ماہ مبارک رمضان میں شب قدر کو لوح محفوظ سے سماء دنیا پر ایک ساتھ مکمل طو پر ہوا، اور پھر تیئیس (۲۳) سال تک سماء دنیا سے تھوڑا تھوڑا قرآن نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوتا رہا۔
قرآن مجید سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک ساتھ مکمل کتاب کی شکل میں نازل نہیں کیا گیا ، بلکہ وقتاً فوقتاً تھوڑا تھوڑا کرکے حسب حال قرآن مجید کی آیات اور سورتیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کی جاتی رہیں ، مشرکین مکہ یہ مطالبہ کرتے تھے کہ ایک ساتھ پوری کتاب آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر کیوں نازل نہیں کی گئی؟اللہ تعالیٰ نے اس کا جواب دیا کہ یہ اس لئے ہوا تاکہ آپ کے قلب کو جماؤ حاصل رہے، ’’عظمت قرآن ‘‘ کے عنوان کے تحت آیا ہے کہ قرآن اللہ کا کلام ہے، اگر یہ پہاڑ پر نازل کیا جاتا تو وہ ریزہ ریزہ ہوجاتا، عظمت قرآن کا تقاضہ تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر اللہ کا کلام تھوڑا تھوڑا کرکے نازل کیا جائے تاکہ آپ پر آسانی رہے اور آپ کے قلب میں جماؤ کی کیفیت پیدا ہو۔
قرآن مجید کی وحی عام طور پر حضرت جبرئیل امین علیہ السلام سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم تک لاتے تھے، ہاں بعض قرآن کا حصہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے براہ راست بھی دیا ہے، مثلاً معراج کی رات سورۂ بقرہ کی آخری چند آیتیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو راست بطور تحفہ ملی ہیں۔
قرآن مجید کی پہلی آیات سورہ علق کی نازل ہوئی ہیں اور پہلی مکمل سورت قرآن مجید کی سورہ فاتحہ نازل ہوئی۔
جب قرآن مجید کا نزول مکمل ہوگیا تو اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر آیت: الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَ أَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًانازل کی، جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر دین و ہدایت کے نزول کے اتمام اور تکمیل کی نوید سنائی۔
سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر جب بھی قرآن مجید نازل ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم وحی لکھنے والے صحابہ کو بتلاتے کہ نازل شدہ آیا ت کو کس سورت میں کہاں رکھا جائے ؟ اسی طرح کونسی سورت کو کس ترتیب سے رکھا جائے؟ اس ترتیب کو توقیفی ترتیب کہتے ہیں، یعنی وہ جو اللہ اور اس کے جانب سے مقرر شدہ ہے۔