نئے سال کی آمد اور ہمارا طرزِ عمل

از قلم:… قاری محمد اکرام چکوالی
دنیامیں اس وقت دو قسم کے کلینڈر رائج ہیں، ہجری کلینڈر اور عیسوی ۔مؤخرالذکر کلینڈر ہی پوری دنیامیں، بشمول مسلم ممالک میں بھی عملی طور پر نافذ ہے، اسی بنا پر مفتیان کرام نے بھی اسلامی تاریخ کے استعمال کو فرض کفایہ قرار دیتے ہوئے انگریزی تاریخوں کے استعمال کی اجازت دے رکھی ہے اور بالاتفاق دفتری ضروریات کے تحت عیسوی کیلنڈر کا استعمال درست ہے، تاہم اسلامی مہینوں کے ناموں کا جاننا اور ان کی عظمت و فضیلت کا قائل ہونا بھی فرض کفایہ ہے۔ شریعت محمدیہ ﷺمیں احکام شرعیہ مثلاً: حج وغیرہ کا دارومدار قمری تقویم پر ہے۔ روزے قمری مہینے رمضان کے ہیں۔ نزول قرآن بھی رمضان میں ہوا، عورتوں کی عدت، زکوٰۃ کے لیے سال گزرنے کی شرط وغیرہ سب قمری تقویم کے اعتبار سے ہیں۔ عیدین یعنی عیدالفطر اور عیدالاضحی کا تعلق بھی قمری تقویم سے ہے۔اگرچہ مسلمانوں کا اصل کلینڈر عیسوی نہیں ہجری ہے جس کے مطابق نئے سال کا آغاز محرم الحرام سے اور اختتام ذی الحجہ کے مہینے میں ہوتا ہے۔ دوسری جانب عیسوی کلینڈر کے مطابق نئے سال کا آغاز جنوری سے اور سال کا اختتام دسمبر میں ہوتاہے۔ عیسوی کلینڈر کے مطابق سال 2020ء اپنی آخری سانسیں لے رہا ہے اور 31 دسمبر کی شام کا سورج اپنے ساتھ ساتھ سال کے بھی اختتام کا اعلان کردے گا، اور وہ رات نئے سال کی پہلی رات ہوگی، اسی کی مناسبت سے اب تقریباً دنیا کے ہر خطے میں ہیپی نیوایئر کے نام سے نئے سال کے استقبال کے لیے تقریبات کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ نئے سال کے آغاز کے حوالے سے اسلام کسی قسم کے اہتمام کی روایت سے خالی ہے، نئے سال کا سورج ہر شخص کو اس بات کی تنبیہ کرتا ہے کہ تمھاری زندگی کا ایک سال کم ہوگیا، تمھیں اللہ تعالیٰ نے دنیا میں جو عمل کی مہلت عطا فرما رکھی ہے، اس کا ایک سال گھٹ گیا، اور تمھاری دنیا میں زندگی کے جتنے سال کاتب تقدیر نے لکھ رکھے تھے، ان میں سے ایک سال تمھارے ہاتھ سے نکل گیا، ہمیں اس ایک سال کے کم ہونے اور مہلت عمل کے گھٹ جانے پر اور موت کے ایک سال مزید قریب ہونے پر اپنا محاسبہ کرنا چاہیے، ڈوبتے سال کو اس جذبے کے ساتھ الوداع کہنا چاہیے کہ ہم ان انفرادی و اجتماعی کوتاہیوں کا ان شاء اللہ اگلے برس اعادہ نہ کریں گے جو ہم سے اس سال سرزد ہوئیں۔
دنیا کے تمام مذاہب اور قوموں میں تیوہار اور خوشیاں منانے کے مختلف طریقے ہیں۔ ہر ایک تیوہار کا کوئی نہ کوئی پس منظر ہے اور ہر تیوہار کوئی نہ کوئی پیغام دے کر جاتا ہے، جن سے نیکیوں کی ترغیب ملتی ہے اور برائیوں کو ختم کرنے کی دعوت ملتی ہے؛ لیکن لوگوں میں بگاڑ آنے کی وجہ سے ان میں ایسی بدعات وخرافات بھی شامل کردی جاتی ہیں کہ ان کا اصل مقصد ہی فوت ہوجاتا ہے۔ جیسے جیسے دنیا ترقی کی منازل طے کرتی گئی اور مہذب ہوتی گئی انسانوں نے کلچر اور آرٹ کے نام پر نئے جشن اور تیوہار وضع کیے انھیں میں سے ایک نئے سال کا جشن ہے ۔در اصل یہ نئے سال کا جشن عیسائیوں کاایجاد کیا ہوا ہے، عیسائیوں میں قدیم زمانے سے نئے سال کے موقع پر جشن منانے کی روایت چلتی آرہی ہے، اس کی ایک وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ ان کے عقیدے کے مطابق ۲۵/دسمبر کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش ہوئی ، اسی کی خوشی میں کرسمس ڈے منایا جاتا ہے ، جس کی وجہ سے پوری دنیا میں جشن کی کیفیت رہتی ہے اور یہی کیفیت نئے سال کی آمد تک برقرار رہتی ہے۔نئے سال کے جشن میں پورے ملک کو رنگ برنگی لائٹوں اور قمقموں سے سجایا جاتا ہے اور ۳۱/دسمبر کی رات میں ۱۲/ بجنے کا انتظار کیا جاتاہے اور ۱۲/بجتے ہی ایک دوسرے کو مبارک باد دی جاتی ہے، کیک کاٹا جاتا ہے، ہر طرف ہیپی نیو ائیر کی صدا گونجتی ہے، آتش بازیاں کی جاتی ہیں اور مختلف نائٹ کلبوں میں تفریحی پروگرام رکھےجاتےہیں، جس میں شراب و شباب اور ڈانس کا بھر پور انتظام رہتا ہے؛ اس لیے کہ ان کے تفریح صرف دو چیزوں سے ممکن ہے اوّل شراب دوسرے عورت۔آج ان عیسائیوں کی طر ح بہت سے مسلمان بھی نئے سال کے منتظر رہتے ہیں اور ۳۱/ دسمبر کا بے صبری سے انتظار رہتا ہے، ان مسلمانوں نے اپنی اقدارو روایات کو کم تر اور حقیر سمجھ کر نئے سال کا جشن منانا شروع کر دیا ہے۔
حالانکہ ہمیںاپنی خود احتسابی اور جائزے اس کے تجربات کی روشنی میں بہترین مستقبل کی تعمیر اور تشکیل کے منصوبے میں منہمک ہونا ہوگا کہ کیا ہماری کمزوریاں رہی ہیں اور ان کو کس طرح دور کیا جاسکتا ہے؟ دور نہ سہی تو کیسے کم کیا جاسکتا ہے؟انسان غلطی کا پتلا ہے اس سے غلطیاں تو ہوں گی ہی ، کسی غلطی کا ارتکاب تو برا ہے ہی اس سے بھی زیادہ برا یہ ہے کہ اس سے سبق حاصل نہ کیا جائے اور اسی کا ارتکاب کیا جاتا رہے۔ہمارے لیے نیا سال وقتی لذت یا خوشی کا وقت نہیںبلکہ گزرتے ہوئے وقت کی قدر کرتے ہوئے آنے والے لمحا تِ زندگی کا صحیح استعمال کرنے کے عزم و ارادے کا موقع ہے اور از سر نو عزائم کو بلند کرنے اور حوصلوں کو پروان چڑھانے کا وقت ہے۔ آنے والے نئے سال کا سورج معاشرے اور سماج کے لئے نئی سوچ، نئی فکر اور مثبت طرزِ عمل کا پیغام لے کر اُبھرتا ہے۔ قومیں اور افراد اپنا احتساب کرتے ہیں کہ گزرے ہوئے سال میں جو کوتاہیاں ہوئیںیا خامیاں رہ گئیں وہ آنے والے سال میں نہ دُہرائی جائیں تاکہ زندگی ایک نئی لہر اور روشنی سے رُوشناس ہو۔ وطنِ عزیز پاکستان بھی کچھ ایسے ہی مراحل سے گزر رہا ہے۔جہاں ہماری یہ کوشش ہونی چاہئے کہ آنے والا ہر نیا دن خوبصورتی اور اُمید بن کر ہمارے معاشرے کو معطر کرے۔ہمیں بطورِ قوم دوسری اقوام کے آگے ہاتھ نہ پھیلانا پڑیں۔ اس کے لئے قوم کے ہر ایک فرد اور تمام اداروں کو دیانت ، امانت اور راست بازی کواپنا شعار بنانا ہوگا اورہر موقع پر اعلیٰ کردار کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ بانیٔ پاکستان قائداعظم محمدعلی جناح نے طلباء سے اپنے ایک خطاب میں فرمایاتھا کہ زندگی کے ہر شعبے میں کریکٹر کی بلندی ضروری چیز ہے۔ آپ کے احساسِ خودی و کردار کے ساتھ ساتھ یہ صفت ہونا ضروری ہے کہ آپ دنیا میں کسی چیز کے لئے بِک نہ جائیں۔ قائد کے فرمان کی روشنی میں دیکھیں تو ہماری قوم کا کردار اور موجودہ حالات میں کئے گئے فیصلے ہمارے مستقبل اور قومی وقار کا تعین کریں گے۔بے شک قومیں ایک دن میں نہیں بنتیں لیکن وہ اقوام جنہوںنے ترقی کی منازل طے کیں اُن کا ہر آنے والا دن اپنے گزرے ہوئے دن سے بہتر ہوتا ہے۔ ہمیں آج اس امر کا اعادہ کرنا ہوگا کہ معاشرے میں سب کے لئے صحت، انصاف ، بہبود اور حصولِ تعلیم کے یکساں مواقع یقینی بنائے جائیں اور نوجوان نسل کو تعلیمی نصاب رٹانے کے بجائے ان کی تربیت اس نہج پر کی جائے جس سے معاشرے میں برداشت اور افہام و تفہیم کا کلچر فروغ پاسکے۔ جس انداز سے بسا اوقات ہمارے ہاں سوشل میڈیا پر ایک دوسرے کی تضحیک حتیٰ کہ قومی روایات کا بھی تمسخر اڑایا جاتا ہے، اس سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ نئی نسل کو تربیت کی اشدضرورت ہے۔ بلا شبہ جس قوم میں آئین اور نظم و ضبط کی پاسداری زیادہ ہوتی ہے وہ قوم ہی ترقی کے مدارج طے کرتی ہیں کیونکہ امن آزادی سے جُڑا ہوا ہے تو آزادی نظم و ضبط سے جُڑی ہوئی ہوتی ہے۔ہمیں سال 2021 کے آغاز پر بحیثیت قوم اپنی اپنی ذمہ داریوں کا نہ صرف تعین کرنا ہے بلکہ نیت نیتی کے ساتھ ملک کی تعمیر میں اس انداز سے حصہ لینا ہے جس میں تمام سیاسی ومذہبی جماعتیں اور وطن عزیز کا ہر فرد سبز ہلالی پرچم کی سربلندی کے لئے اپنا اپنا کردار ادا کرنے میں عملی طور پر آگے بڑھیں۔ خدا کرے نیاسال قوم اور مادرِ وطن کے لئے مسرتوںاور محبتوں سے لبریز سال ثابت ہو۔
اسلامی تعلیمات کیا ہیں؟ اور اسلام کس طرح نئے سال کے استقبال کی تیاری کا حکم دیتاہے؟ اس بحث میں پڑے بغیر معزز والدین اپنی ضمیر سے یہ سوال تو کرلیں کہ کیا ان کی بیٹیاں اور بیٹے جس مادر پدر آزاد کلچر کا نیوائیر نائٹ کے نام پر حصہ بننے جا رہے ہیں، کیا ان کی غیرت اسے گوارا کرتی ہے؟ کیا وہ یہ پسند کرتے ہیں کہ ان کی نازوں سے پلی بیٹیوں پر جنسی بھیڑیوں کی ہوس ناک شہوت انگیز نگاہیں پڑیں؟ حوا کی بیٹیاں غیر مردوں کے ساتھ ناچیں، گائیں، تھرکیں؟ نہیں اور یقیناً نہیں، تو پھر اپنا کردار ادا کیجیے ، غیرت کا یوں جنازہ تو نہ نکلنے دیجیے۔ایک طرف رکھیے دینی تعلیمات کو، لیکن عزت کویوں نیلام تو نہ ہونے دیجیے۔ ٹھیک ہے آپ نئے سال کا استقبال کرنا چاہتے ہیںکریں، نئے سورج کو خوش آمدید کہنا اور ڈوبتے سورج کو الوداع کہنا چاہتے ہیں تو ایسا شوق سے کیجیے، سو جان سے کیجیے، لیکن حیا، غیرت اور عزت کی نیلامی اس کی قیمت ہرگز نہیں ہے۔ آپ اس رات کو اچھا کھانا پکانا چاہتے ہیں تواچھا کھانا پکائیے، دوست احباب کی گھر پر دعوت کیجیے، بچوں کوان کی صلاحیتوں کے مظاہرے کا موقع دینے کے لیے گھر پر چھوٹا موٹا پروگرام ترتیب دیجیے، حاضرین سے گزشتہ سال کی تلخیوں اور کمی کوتاہیوں پر معافی مانگ لیجیے اور نیا سال اچھے طریقے سے گزارنے کا عہد کیجیے. اسلام اس پر کوئی قدغن نہیں لگاتا، بلکہ نیوائیر کے نام سے مغرب و یورپ سے درآمد کی جانے والی خرافات سے نوجوان نسل کو بچانے کا یہ ایک اچھا حل بھی ہے۔چونکہ نئی نسل صرف فتوے سے کسی کام کو چھوڑنے پر ہرگز تیار نہیں ہوتی، آپ کو ان کے ساتھ گھل مل جانا چاہیے، ان کی نفسیات کے مطابق ان کی راہ نمائی کے لیے ضروری ہے کہ آپ بھی خود کو خلائی و آسمانی مخلوق سمجھنا چھوڑ دیں۔ ہر غیر شر عی رسم کا بہترین نعم البدل شریعت کی حدود میں رہتے ہوئے اگر فراہم کر دیا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ نوجوان نسل مغرب و یورپ کی اندھی تقلید کے حصار سے باہر نہ نکلےمزید یہ کہ اس کے لیے اہل علم کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا، اس موضوع پر سوچنا ہوگا، سر جوڑ کر بیٹھنا ہوگا، اپنی بہترین صلاحیتیں بروئے کار لانی ہوں گی، اگر اس ایک نکتے کو کہ، شریعت میں ہر اس رسم کی گنجائش ہے جس کی صراحتاً ممانعت نہ کی گئی ہو، راہ نما بنا کر اگر قوم کے علماء، مفتیان کرام و دانش ور اپنے اپنے دائرے میں محنت کریں تو ان شاء اللہ ہم قوم کو مغرب کی بےدام کی غلامی سے چھڑانے میں کسی حد تک ہم انشاء اللہ ضرور کامیاب ہوسکتے ہیں۔ کیا ہے کوئی جو کان دھرے!