چار چیزوں سے آدمی بلندی پاتا ہے

از قلم:… قاری محمد اکرام چکوالی
ادب وآداب:
ادب اور اخلاق معاشرے کی بنیادی حیثیت کا درجہ رکھتا ہے، جو معاشرے کو بلند تر کرنےمیں نہایت اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ادب سے عاری انسان اپنا مقام نہیں بنا سکتا۔ یعنی ادب ایک ایسی صنف ہے جو انسان کو ممتاز بناتی ہے۔ ادب و آداب اور اخلاق کسی بھی قوم کا طرۂ امتیاز ہے۔ اسلام نے بھی ادب و آداب اور حسن اخلاق پر زور دیا ہے۔طریقت و شریعت میں ادب کا بہت بڑا مقام ہے، جس کے بغیر منازل طریقت طے نہیں ہوسکتیں، جتنا ادب کا خیال ہوگا ، اتنا ہی ترقی زیادہ اور پرواز بلند ہوگی اور اگر خدانخواستہ اس میں کمی ہو تو پھر ”خسر الدنیا والاخرۃ“ کا مصداق تو بن سکتا ہے، لیکن اہل طریق میں سے نہیں ہوسکتا۔ادب کا خلاصہ اور حقیقت یہ ہے کہ انسان اپنے کسی قول یا فعل سے بزرگوں کو ادنیٰ تکلیف بھی نہ پہنچائے اور ان کے دل کو مکدّر نہ کرے ،ورنہ استفادہ تو کیا بسااوقات سخت نقصان ہوتا ہے، اس لیے کہ یہ بات تجربہ سے ثابت ہے کہ جس طرح شیخ کی شفقت و محبت باعث ترقی ہوتی ہے ،اسی طرح اس کا غصہ بھی سبب محرومی بنتا ہے، اگر جان بوجھ کر اس طرح کا کام کیا جائے تو ظاہر ہے کہ دِل اس سے دکھتا ہے اور اگر بلاارادہ ہو اس سے بھی دِل پریشان ہوجاتا ہے ،جو سبب ہے حرمان و بد نصیبی کا۔ادب سے علم میں برکت ہوگی ، آپ جتنے با ادب ہوں گے اتنی ہی آپ کے علم میں برکت ہوگی اور اللہ تعالیٰ علوم کی فراوانی عطا فرمائیں گے ۔والدین کا ادب ہو ، کتاب کا ادب ہو، استاذ کا ادب ہو، کاغذ کا ادب ہو، کتابوں میں باہمی رعایت ہو کہ تفسیر پر حدیث کی کتاب نہ رکھی جائے ، حدیث پر فقہ کی کتاب نہ رکھی جائے، فقہ پر منطق کی کتاب نہ رکھی جائے اسی طرح قرآن پڑھنے کے بعد اس کو اپنی جگہ پر رکھیں ، آج کل بیٹے ماں باپ کے نافرمان ہیں، استاذ کا ادب نہیں ، کلاس اور کتاب کا ادب نہیں اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ علم میں برکت نہیں ۔ پہلے زمانے میں اتنے مولوی نہیں ہوتے تھے ،لیکن علم میں برکت تھی ، آج کل تو انٹر نیٹ ،سوشل میڈ،یاٹی وی ہے ، ڈش ہے، مخرّب اخلاق لٹریچر ہے ، جس کی وجہ سے ہر طرف بے حیائی ہے، اگر آپ بازاروں میں جائیں گے تو روحانیت متاثر ہوگی اور اگر آپ ان سے بچیں اور ادب کا اہتمام ہو تو آپ کا فیض عام ہوگا۔
شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللّہ علیہ فرماتے ہیں : ’بے ادب خالق و مخلوق دونوں کا معتوب و مغضوب ہوتا ہے۔ ‘ لہذٰا اپنے دل و دماغ سے غرور اور غصے کو ختم کریں۔ اپنے بڑوں کا حق پہچاننیے کیونکہ زندگی میں بہت کچھ آپ کو انہیں کی دعاؤں کی برکاکت سے ملتا ہے۔ آپ کے لیے بہتر ہے کہ عاجزی اختیار کریں ورنہ مشکل راستے کے لیے خود کو تیار کرلیں جہاں آپ کو ان لوگوں کی رحمت و شفقت کے بغیر سفر کرنا ہوگا۔ لیکن یاد رکھیں! اس طرح زندگی میں شاید آپ عارضی ترقی تو حاصل کر لیں، لیکن ابدی کامیابی کبھی آپ کا مقدر نہیں بن پائے گی۔معاشرے میں بلند مقام و مرتبہ اور کامیابی حاصل کرنے کے لیے اپنے بڑوں،والدین ،اساتذہ کا ادب و احترام کرنا ہوگا۔ شاید اسی لیے کسی دانش ور نے کہا تھا: ’با ادب با مراد اور بے ادب بے مراد‘ ۔
عفت وپاکدامنی:
عفت کے معنی پاک دامن کے ہیں یعنی حرام کاری و زنا و بدکاری اور ہر قسم کی برائیوں سے بچنا۔ اس کےلئے دوسرا لفظ احصان بھی جو اس معنی کے لیے بولا جاتا ہے۔یہ عفت و احصان اور پاکبازی ان اخلاقی خوبیوں کی جان ہے جن کا تعلق عزت وآبرو سے ہے اس لئے اس عفت و پاکبازی کو اسلامی محاسن میں شمار کیا گیا ہے۔اللہ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنا کر کئی فطری خوبیوں سے مالا مال کیا،انہیں خوبیوں میں سےایک اہم ترین خوبی حیا اور پاکدامنی ہے،دین اسلام میں اس کی اتنی زیادہ اہمیت ہیکہ:نبی اکرامﷺنے ارشاد فرمایاکہ: الحیاءمن الایمان (حیا ایمان میں سے ہےِ۔ (متفق علیہ)
دین اسلام کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ جو شخص اپنے اہل وعیال اور محرم عورتوں کے بارے دینی غیرت و حمیت سے خالی ہو یعنی ان کی بے حیائی، عریانی اور فحاشی کو دیکھے لیکن خاموش رہے تو وہ “دیوث” ہے۔ ایسے شخص کے بارے میں حدیث مبارکہ میں آیا ہے کہ اللہ تعالی ایسے شخص کی طرف قیامت والے دن دیکھے گا بھی نہیں۔ دیوث اس مرد کو کہتے ہیں جو اپنے گھر والوں میں بے غیرتی کے کاموں کو دیکھے اور اسے برقرار رکھے۔ بعض شارِحین نے فرمایا کہ جو اپنی بیوی بچّوں کے زِنا یا بے حیائی، بے پردگی، اجنبی مردوں سے اِختلاط، بازاروں میں زینت سے پھرنا، بے حیائی کے گانے ناچ وغیرہ دیکھ کر باوُجود قدرت کے نہ روکے وہ مرد بے حیاء “دیّوث” ہے۔ حدیث کی کتاب سنن نسائی شریف کی روایت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ’’دیوث‘‘ شخص پر جنت حرام کر دی گئی ہے۔(اللہ تعالیٰ ہمیں دیوث بننے سےمحفوظ فرمائے)معاشرے میں پھیلی ہوئی بے راہ روی ، بے حیائی اور بے دینی سے کون ہے جو واقف نہیں ؟ ذرا سی عقل و شعور رکھنے والے اور اپنے دین اسلام کو دل و جاں سے تسلیم کرنے والے والدین معاشرے میں بے حیائی کا عروج دیکھ کر بہت زیادہ پریشان نظر آتے ہیں۔ بے حیائی کے عروج کا اگر کسی کو یقین نہ آئے تو وہ اپنے قریبی شہر کے کسی بھی مشہور بازار یا دوکان پر چلیں جائیں، وہاں جا کر آپ حیران ہو جائیں گے کہ ہماری عورتیں ،بہنیں، بیٹیاں بغیر حجاب اوڑھنی کے خرید و فروخت کرتی ہوئی دکھائی دے رہی ہیں۔ جو کہ سراسر بےحیائی کو فروغ دینے کے مترادف ہے اور ہم مسلمانوں کے لیے لمحہ فکریہ بھی ہے ۔
تمام مسلمان مرد اور عورت کو چاہیے کہ اپنے سارے بدن کو حیا و پاکدامنی کا مسکن بنا لیں،جس میں غیر محرمات اور بری چیزوں کو دیکھنے سے آنکھ کی حیا،برے کام کرنے سے ہاتھ اور پیر کی حیا،اور ذہن میں برے خیا لات آنے اور لانے سے دل کی حیا کا خا ص اہتمام کرنا چا ہئے،اگر بندۂ مؤمن ان باتوں کا خیال رکھے تو اللہ اس کے سر پر رحمتوں و انعامات کے تاج سجائے گا،حیا جہاں رحمت کا ذریعہ ہے وہی حیا برکت کا بھی سبب بنتی ہے:ایک مرتبہ دہلی میں قحط سالی ہوئی تو سارے لوگ پریشان ہوگئے،اور بارش کی دعا مانگنے لگ کئے، ایک دن تمام لوگ،اور علماءکرام میدان میں نماز استسقاء ادا کرنے کے بعد اللہ سے بارش کی دعا مانگنے لگے،یہ عمل صبح سے شام تک چلتا رہا،لیکن بارش نہیں ہوئی،اسی وقت ایک مسافر نوجوان وہاں آگیا،اس کے ساتھ ایک پردہ نشین عورت بھی اونٹ پر تھی،جب اس نوجوان نے یہ سارا ماجرا سنا تو کہنے لگا کہ میں بارش کی دعا مانگنا چاہتا ہوں،سب خوشی سے راضی ہوگئے،تو وہ اونٹنی کے قریب گیااور رب کے دربار میں دعا کرنے لگا،تو اس کے ہاتھ نیچے رکھنے سے پہلے بارش ہونے لگی،یہ دیکھ کر سارے علماءکرام کہنے لگے کہ آپ مستجاب الدعوات ہے،تو اس نے کہا حقیقت یہ ہیکہ:یہ جو اونٹنی پر سوار ہے وہ میری ماں ہے،اور ایک چادر ہاتھ میں پکڑ کر کہا: یہ میری ماں کی چادر ہے،اور میں نے میری ماں کی چادر پکڑ کراس طرح دعا کی ہےکہ:اے اللہ یہ میری ماں کی چادر ہے،اس نے کبھی اپنے سر سے دوپٹہ نہیں ہٹا یا،اور کسی غیر مرد کو اپنا سر نہ دکھایا،اور وہ ساری زندگی اپنی عزت کی حفاظت کرتے رہی،یا اللہ اسکی پاکدامنی کا واسطہ دیتاہوں تو اپنے بندوں پر بارش بر سادے،تو اللہ نے میرے ہاتھ نیچے رکھنے سے پہلے بارش برسا دی۔جو لوگ دنیا میں حیا اور پاکدامنی کا اہتمام کرتے ہیں اور نفسانی،شیطانی اور شہوانی خواہشات سے دور رہتے ہیں تو اللہ انکو دنیا اور آخرت میں ان گنت انعامات سے نوازتا ہے،دنیا میں عزت اور آخرت میں مغفرت عطا کرتا ہے۔تو خیر اس بے حیائی و عریانی کے سدباب کے لیے اسلامی سوچ و فکر کے حامل والدین بے بس اور لاچار نظر آتے ہیں ۔ ایسے حالات میں ہم پر یہ لازم ہے اور ہمارا یہ حق بھی بنتا ہے کہ ہم بطور مسلمان معاشرے کو مزید بے حیائی کی طرف لے جانے سے بچائیں۔ اس کے لیے ہم سب کے لیے جو ضروری کام ہے وہ یہ کہ ہمیں اپنی ماں ، بہن ، بیٹی اور اپنی شریک حیات کو حجاب کی پابندی کروانی چاہیے۔ عورت کا حجاب اوڑھنا پردہ ہی نہیں بلکہ عفت و پاکدامنی کا بھی ضامن ہوتا ہے، کہ جس کی بدولت شیطان کے حواریوں کی غلیظ نظروں سے باآسانی بچا جا سکتا ہے۔اللہ ہم سب کو حیا اور پاکدامنی کا خیال رکھنے اور بے پردگی سے بچنے کی توفیق عطا فرمائیں،آمین۔
علم
انسانی زندگی میں تعلیم کی ضرورت و اہمیت ایک مسلم حقیقت ہے۔ اس کی تکمیل کے لیے ہر دور میں اہتمام کیا جاتا رہا ہے ،لیکن اسلام نے تعلیم کی اہمیت پر جو خاص زور دیا ہے اور تعلیم کو جو فضیلت بتائی ہے دنیا کے کسی مذہب اور کسی نظام نے وہ اہمیت اور فضیلت نہیںبتلائی۔علم کے ذریعے آدمی ایمان و یقین کی دنیا آباد کرتا ہے، بھٹکے ہوئے لوگوں کو سیدھا راستہ دکھاتا ہے، بروں کو اچھا بناتا ہے، دشمن کو دوست بناتا ہے، بے گانوں کو اپنا بناتا ہے اور دنیا میں امن و امان کی فضا پیدا کرتا ہے۔ علم کی فضیلت و عظمت، ترغیب و تاکید مذہب اسلام میں جس بلیغ و دلآویز انداز میں پائی جاتی ہے اس کی نظیر اور کہیں نہیں ملتی، تعلیم و تربیت، درس وتدریس تو گویا اس دین برحق کا جزو لاینفک ہے، کلام پاک کے تقریباً اٹھتر ہزار الفاظ میں سب سے پہلا لفظ جو پروردگار عالم جل شانہ نے رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب مبارک پر نازل فرمایا وہ اِقرَاء ہے، یعنی پڑھ، اور قرآن پاک کی چھ ہزار آیتوں میں سب سے پہلے جو پانچ آیتیں نازل فرمائی گئیں ان سے بھی قلم کی اہمیت اور علم کی عظمت ظاہر ہوتی ہے، ارشاد ہے: پڑھ اور جان کہ تیرا رب کریم ہے، جس نے علم سکھایا قلم کے ذریعے سکھلایا آدمی کو جو وہ نہ جانتا تھا۔(سورۃ القلم آیت 4،5)
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین نے بھی تعلیم کی اہمیت، نیز لوگوں کو زیادہ سے زیادہ علم حاصل کرنے پر ابھارنے اور جہالت کے برے نتائج سے آگاہ کرنے میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔حضرت علی رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے: ” جس نے علم سیکھا اور دوسروں کو سکھایا آسمان کے فرشتوں میں اسے عظیم کہہ کر پکارا جاتا ہے ۔“ سفیان ثوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ” میری دانست میں اشاعتِ علم سے زیادہ افضل کوئی عبادت نہیں“ انہیں کا قول ہے” اے قوم عرب! علم حاصل کرو، ورنہ مجھے ڈر ہے کہ علم تم سے نکل کر غیروں میں چلا جائے گا اور تم ذلیل ہو کر رہ جاؤگے علم حاصل کرو، کیوں کہ علم دنیا میں بھی عزت ہے اور آخرت میں بھی۔“امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں:”کھانے پینے سے کہیں زیادہ انسان علم کا ضرورت مند ہے“۔حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:”اگر اہل علم نہ ہوتے تو لوگ جانوروں جیسے ہو جاتے“۔ یعنی اہل علم ہی لوگوں کو جانوروں کی صف سے نکال کر انسانیت میں داخل کراتے ہیں ۔حضرت ابو ذررضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ”جس شخص کی یہ تجویز ہو کہ علم کا طلب کرنا جہاد نہیں تو وہ اپنے عقل و تجویز میں ناقص ہے“۔ زمیری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ علم نر(مذکر) ہے اور اس کو مردوں میں وہی پسند کرتے ہیں جو مرد ہوں۔“
علم نافع اور رزق وسیع کے لیے اللہ کے حضور یہ دعا بھی کرتے تھے:”اے اللہ! میں تجھ سے علم نافع، عمل مقبول اور پاک رزق کی درخواست کرتا ہوں”۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام عالم بد عمل کے متعلق فرماتے ہیں :عالم بے عمل کی مثال ایسی ہے جیسے اندھے نے چراغ اٹھایا ہو کہ لوگ اس سے روشنی حاصل کرتے ہیں اور وہ خود محروم رہتا ہے۔حضرت عثمان غنی فرماتے ہیں کہ علم بغیر عمل کے نفع دیتا ہے اور عمل بغیر علم کے فائدہ نہیں بخشتا۔حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہماکا مقولہ ہے کہ اگر اہل علم اپنے علم کی قدر کرتے اور اپنا عمل اس کے مطابق رکھتے تو اللہ تعالیٰ اور اللہ تعالیٰ کے فرشتے اور صالحین اُن سے محبت کرتے اور تمام مخلوق پر اُن کا رعب ہوتا ۔ لیکن انہوں نے اپنے علم کو دنیا کمانے کا ذریعہ بنا لیا ۔ اس لیے اللہ تعالیٰ بھی اُن سے ناراض ہو گیا اور وہ مخلوق میں بھی بے وقعت ہو گئے۔حضرت عبد اللہ ابن مبارک رحمہ اللہ فرماتے ہیں: علم کے لیے پہلے حسن نیت پھر فہم پھر عمل پھر حفظ اور اس کے بعد اس کی اشاعت اور ترویج کی ضرورت ہے۔شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:دین کی اصل عقل،عقل کی اصل علم اور علم کی اصل صبر ہے۔اسلام یا قرآن ہم کو تعلیم حاصل کرنے سے روکتا نہیں، بلکہ تعلیم کو ہمارے لئے فرض قرار دیتا ہے، وہ تعلیم کے ذریعے ہم کو صحیح معنوں میں اشرف المخلوقات کے درجہ پر پہنچانا چاہتا ہے، وہ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حقیقی علم ثابت کرتا ہے، اور اس کو بنی نوع انسان کی حقیقی صلاح و فلاح اور کامیابی و بہبودی کا ضامن بتاتا ہے، وہ کہتا ہے کہ قرآن حقیقی علم ہے، اور دوسرے تمام علوم و فنون معلومات کے درجہ میں ہیں، ان تمام معلومات کو اپنی اپنی استعداد کے مطابق حاصل کر سکتے ہیں۔ تاریخ کی ورق گردانی سے معلوم ہوتا ہے کہ علم و حکمت اور صنعت و حرفت کے وہ ذخائر جن کے مالک آج اہل یورپ بنے بیٹھے ہیں ان کے حقیقی وارث تو ہم لوگ ہیں، لیکن اپنی غفلت و جہالت اور اضمحلال و تعطل کے سبب ہم اپنی خصوصیات کے ساتھ اپنے تمام حقوق بھی کھو بیٹھے ہیں۔اللہ تعالیٰ ہمیں علم حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔
امانت داری:
امانت داری ایمان کا حصہ ہے‘ جو شخص اللہ اورآخرت پر یقین رکھتا ہے وہ کسی کی امانت میں خیانت نہیں کر سکتا۔خیانت جرم ہے امانت میں خیانت کرنا انتہائی گھناؤنا گناہ ہے اور ایساگناہ ہے جس کے دائرے میں عبادات سے لے کر معاملاتِ زندگی کے تمام شعبے داخل ہیں۔ سچا مومن وہی ہے جو کسی طرح کسی بھی شعبہ میں اپنی امانت داری پر آنچ نہ آنے دے ۔مومن کو اس بات کا احساس ہو تا ہے کہ اگر میں نے کسی کا حق دبالیا یا اس کی ادائیگی میں کمی اورکو تاہی کی تو میرا رب مجھے دیکھ رہا ہے، وہ یقینا اس کا حساب لے گا اوراس دن جب کہ ہر شخص ایک ایک نیکی کا محتاج ہوگا حق تلفی کے عوض میری نیکیاں دوسروں کو تقسیم کردی جائیں گی، پھر میری مفلسی پر وہاں کو ن رحم کرے گا؟ اس طرح کے تصورات سے اہل ایمان کا دل کانپ اٹھتا ہے اورپھر خیانت یا حق تلفی کر نے سے باز آجاتا ہے؛ لیکن جس کے دل میں ایمان ہی نہ ہو یا ماحول اورحالات نے ایمان کی روشنی سلب کر لی ہو تو خیانت کر نے میں ایسے شخص کو کوئی تردد نہیں ہوتا؛ اسی لیے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے امانت داری کو ایمان کی علامت اورپہچان قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:” جس میں امانت داری نہیں اس میں ایمان نہیں اور جس شخص میں معاہدہ کی پابندی نہیں اس میں دین نہیں “۔(سنن بیہقی)
عموماً ہمارے معاشرے میں (دین کے محدود تصور کی طرح)امانت کا مفہوم بھی مالی امانت کے ساتھ خاص سمجھ لیا جاتا ہے ۔ عموماً اس کا دائرہ کار صرف ودیعت کے طور پر رکھے جانے والے مال کی حفاظت کرنے اور اسے لوٹا دینے تک محدودکرلیا گیاہے۔عربی زبان میں”امانت”کے معنی کسی شخص پر کسی معاملے میں بھروسہ اور اعتماد کرنے کے آتے ہیں۔(المعجم الوسیط)شریعت کی نظرمیں امانت ایک وسیع المفہوم لفظ ہے جس کا خلاصہ یہ ہے۔امانت کہتے ہیں” ہر صاحبِ حق کو اس کا حق پورا پورا ادا کرنا اور اپنی ذمہ داری کو ٹھیک طرح سے نبھانا” نکلتا ہے۔
آج بہت سے فسادات‘لڑائی جھگڑے اسی امانت داری کے نہ ہو نے کی وجہ سے پیش آتے ہیں۔ اگر مالی‘ قانونی‘ اخلاقی اورتمام طرح کی دیانت کو ملحوظ رکھا جائے تو معاشرہ میں امن چین اورسکون ہوگا‘ بہتر سماج کی تشکیل عمل میں آئے گی اورلوگ خیانت کے گناہ اورآخرت کی گرفت سے بچ سکیں گے ۔امانت داری انبیاء کرام علیہم السلام کی صفات ہیں ہمیں بھی انہیں اوصاف کے حصول کے لئے جدوجہد اور محنت کرنے کی ضرورت ہے ہمارے اطراف میں خاندان میں معاشرہ او راہل وعیال میں امانت داری اور صداقت کے پیغام کو عام کرنا ہے اپنی زندگی میں نافذ کرنا ہے تاکہ جو لوگ ہمارے ہمراہ چل رہے ہیں ان کے سامنے صداقت وامانت معاملات میں صفافیت اور وضاحت کو اپنا وطیرہ بنائیں شک اور بے اعتمادی کا ماحول پیدا نہ ہونے دیں آئیے اہل وعیال خاندان دوست احباب آپ کے مشوروں کو اسی لحاظ سے قبول کریںگے کیونکہ سچائی اور اعتماد او رامانت داری دلوں کو کھولنے کا سب سے اہم راستہ ہے لوگوں کو آپ پر اسی قدر بھروسہ ہونا چاہئے اور صداقت وامانت کی دعوت وتبلیغ کے لئے ہمہ وقت مصروف بہ عمل رہنا چاہئے اسلامی تعلیمات سے واقف ہونے اور واقف کرانے کی سعی میں مسلسل کوشاں رہنے کی ضرورت ہے اصلاح کا عمل اپنی ذات سے شروع کرنے کی دعا اور توفیق باری تعالیٰ سے طلب کرنی چاہئے۔اللہ ہم تمام مسلمانوں کو امانت داری کو سمجھنے اوراس پر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔آمین، ثم آمین!