سال نو کا پیغام امت مسلمہ کے نام

از قلم:… قاری محمد اکرام چکوالی
آنے والاہر نیا سال زندہ دلوں کو دستک دیتا ہے۔ یہ جائزہ لینے کے لئے کہ کس حد تک اللہ سبحانہ وتعالیٰ اور اس کے رسولﷺ کے ان پسندیدہ اعمال کا جذبہ موجود ہے؟اس وقت پوری دنیا میں سن وتاریخ کے حوالے سے کئی کیلنڈر رائج ہیں مگر ان تمام میں دو کیلنڈر لوگوں میں بہت زیادہ معروف و مقبول ہیں ،ایک اسلامی اور دوسرا عیسوی ،بلاشبہ کیلنڈر کی اہمیت مسلم ہے ،یہ ایک معاشرہ کی اہم ترین ضرورت ہے ،اسی سے ماہ وسال کا علم ہوتا ہے ، انسانی عمر کا پتہ لگایا جاتا ہے اور حالات و واقعات کے رونما ہونے کا تعین کیا جاتا ہے، نیا سال ہر سال آتا ہے اور امت مسلمہ کوایک پیغام دیتا ہے،ہمیں اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ ہماری انفرادی اجتماعی اور معاشرتی حالت کیسی ہےاورآئیندہ کیسی ہونی چاہئے اور آج ہم گزشتہ سال کے مقابلہ کہاں کھڑے ہیں کیا آنے والے سال کو ہم نے گذرے ہوے سال کے مقابلہ میں اچھا بنانے کی کوشش کی ہے،یا نہیں!کیا آنے والے سال میں ہم اپنی ذات سے اپنے دوست احباب کو اپنے معاشرے کو فائدہ پنہچا سکیں گے؟یانہیں!سال نو کی آمدہم سے ان تمام باتوں کے عملی جواب کا مطالبہ کرتی ہے اورہمیں دینی و دنیوی دونوں میدان میں اپنا محاسبہ کرنے کی دعوت دیتی ہے،مطلب یہ ہےکہ مسلمان سال نو کے موقع اپنا محاسبہ کریں اوقرآن وسنت کی روشنی میں رہنمائی حاصل کرتے ہوئے اپنے اندر ایک تحریک پیدا کریں ،اللہ سبحانہ وتعالیٰ اور اس کے رسولﷺ کے لئے سب کچھ قربان کرنا سیکھیں ،کیونکہ اس کے بغیر نصرت و کا میابی کا تصول محال ہے،صبر وتحمل کا مظاہرہ کریں ،حکمت ودانائی سے حالات کا مقابلہ کریں ،دین کی دعوت کو اپنے لئے لازم سمجھیں ،پہلے خود دین پر قائم رہیں ،نفرت کا جواب محبت اور دشمنی کا مقابلہ دوستی سے کریں ،آزمائش سے گھبرائیں نہیں بلکہ اس کے ذریعہ کامیابی کے حصول کی کوشش کریں ، رضاء الٰہی کے لئے قربانیاں درکارر ہوتی ہیں اور قربانی کے لئے بہت کچھ قربان کرنا پڑتا ہے ،موجود ہ عالمی وملکی حالات میں ہم کو اپنے اسلاف سے ہمت اور قوت حاصل کرنے کی ضرورت ہے ،حالات سے مایوس ہوجانا اور دشمن آگے ہمت ہار جانا بزدلی کی علامت ہے ، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کو اپنا آئیڈیل ماننے والی قوم قربانی دینے سے پیچھے نہیں ہٹتی ہے بلکہ بڑے بڑے طاقتوروں کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیتی ہے، باتوں کے بجائے عمل وکردار کا مظاہرہ کریں ،بزدلی کے بجائے مقابلہ کے لئے ہمہ وقت تیار رہیں ، اپنے اندر ایمانی قوت ،روحانی طاقت کے ساتھ وہ تمام چیزوں کے حصول کی فکر کریں جو کامیابی میں مدد گار ثابت ہوتے ہیں ، اس وقت دشمن اسلام کو دنیا سے مٹانے اور دولت ایمان کو مسلمانوں سے چھیننے کے لئے بھر پور کوشش کررہا ہے اور آگے بھی کرتا رہے گا ،کبھی مال سے آئے گا تو کبھی اقتدار سے آئے گا ،تو کبھی تجارت ومعیشت سے آئے گا تو کبھی جدید ہتھیار لے کر آئے گا مگر اہل ایمان کو اسی طرح ثابت قدم رہنا ہوگا جس طرح مکی دور میں اور بوقت ہجرت مسلمان ایمانی قوت سے بھر پور ہوکر دین پر ثابت قدم تھے اور ذات الٰہی پر بھروسہ رکھتے ہوئے امید کا دامن تھامے ہوئے تھے ، یقینا مومن اپنا بھروسہ اللہ تعالیٰ جل شانہ پر رکھتا ہے اور موت سے گھبراتا نہیں ،وہ جانتا ہے کہ اس کی حیات خدا کا انعام ہے اور اس کی شہادت خدا کا تحفہ ہے، خدا کی غلامی بڑی نعمت ہے ، اسلام اور پیغمبر اسلام سے وابستگی بڑی چیز ہے،جو ان سے وابستہ ہوگیا وہ دنیا میں کا میاب اور آخرت میں سرخرو ہوگیا ،تمہارا سر تن سے جدا ہوتا ہے تو ہونے دو مگر ایمان سلامت رہنا چاہیے ،زندگی زندہ دلی کا نام ، اپنے خواہشات کو دین کے تابع کرنے اور خود کو اس پر مٹانے کا نام قربانی ہے اور اسی سے کامیابی حاصل ہوتی ہے ،اگر ہم سربلندی چاہتے ،دنیا پر حکومت کرنا چاہتے ہیں اور دنیا وآخرت کی کامیابی چاہتے ہیں تو ہر طرح کی قربانیاں د ینے کے لئے اسی طرح تیار رہنا ہوگا جس طرح ہجرت کے موقع پر امت کا سب سے مبارک ومحترم طبقہ قربانی دے کر سر بلند ہوا تھا اور دین پر استقامت کے ذریعہ مدد ونصرت کو حاصل کیا تھا اور اس کے بعد انہیں وہ مقام ملا تھا جس پر پوری دنیا رشک کرتی ہے اور قیامت تک کرتی رہے گی ۔
اس لئےہر شخص اپنی زندگی، اپنی جوانی ، اپنے آمد و خرچ، اور اپنے علم و عمل کا دنیا ہی میں محاسبہ کرے اور ذرا سوچے کہ دربارِ خداوندی میں کھڑا کر کے جب مجھ سے سر محشر یہ سوالات کئے جائیں گے تو میرا حال اور انجام کیا ہو گا؟ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت اور اپنے کرم سے آسان فرمائے ورنہ امتحان اپنی نوعیت کے لحاظ سے یقینا بڑا سخت ہے، اور صرف وہی خوش نصیب بندے اس دن رسوائی سے بچ سکیں گے جو اس گھڑی کے آنے اور اس امتحان گاہ میں پہنچنے سے پہلے اسی دنیا میں تیاری کر لیں، اور زندگی اس طرح گزاریں کہ اس محاسبہ اور اس امتحان میں کامیاب اور سرخرو ہو سکیں۔
حضرت عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ رسول اللہ!صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلَّم سے راوی ہیں کہ آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: قیامت کے دن (جب حساب کیلئے بار گاہِ خداوندی میں پیشی ہو ئی تو )آدمی کے پائوں سر ک نہ سکیں گے جب تک کہ اس سے پانچ چیزوں کا سوال نہ کر لیا جائے گا۔ ایک اس کی پوری زندگی اور عمر کے بارے میں کہ کن کن کاموں میں اس کو ختم کیا۔ اور دوسرا خصوصیت سے ان کی جوانی (اور جوانی کی قوتوں)کے بارے میں کہ کن مشاغل میں جوانی اور اس کی قوتوں کو بوسیدہ اور پرانا کیا، اور تیسرا اور چوتھا مال و دولت کے بارے میں کہ کہاں سے اور کن طریقوں اور راستوں سے اس کو حاصل کیا تھا اور کن کاموں اور کن راہوں میں اس کو صرف کیا۔ اور پانچواں سوال یہ ہو گا کہ جو کچھ معلوم تھا اس کے بارے میں کیا عمل کیا؟
زندگی اللہ پاک کا عظیم عطیہ اور قیمتی امانت ہے ؛اس کا درست استعمال انسان کے لیے دنیوی کامیابی اور اخروی سرفرازی کا سبب ہے اوراس کا ضیاع انسان کو ہلاکت وبربادی کے دہانے تک پہونچادیتا ہے۔ قیامت میں انسان کو اپنے ہر قول و عمل کا اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے سامنے پوراپورا حساب دیناہےاس لیے ضروری ہے کہ انسان کسی بھی عمل کو انجام دینے سے پہلے اس بات پر بہ خوبی غورکرلے کہ اس عمل کے ارتکاب کی صورت میں وہ کل کیا صفائی پیش کرے گااور اپنے معبود حقیقی کو کیا منہ دکھائے گا؟۔آج مسلمانوں نے دیگر اقوام کی دیکھا دیکھی بہت سی ان چیزوں کواپنی زندگی کا حصہ بنالیا اور انہیں اپنے لیے لازم و ضروری سمجھ لیا،جو دین و دنیا دونوں کی تباہی و بربادی کا ذریعہ ہیں، ان ہی خرافات اور ناجائز رسومات میں “سال نو کا جشن” بھی خصوصیت کے ساتھ قابل ذکرہے۔ ایک سال کا اختتام اور دوسرے سال کا آغاز اس بات کا کھلا پیغام ہے کہ ہماری زندگی سے ایک سال کم ہو گیا، حیات مستعار کا ایک ورق الٹ گیا اورہم موت کے مزید قریب ہوگئے، اس لحاظ سے ہماری فکر اور ذمہ داری اور بڑھ جانی چاہیے، ہمیں پوری سنجیدگی کے ساتھ اپنی زندگی اور وقت کو منظم کرکے اچھے اختتام کی کوشش میں لگ جانا چاہیے اوراپنا محاسبہ کرکے کمزوریوں کو دور کرنے اور اچھائیوں کو انجام دینے کی سعی کرنی چاہیے۔
محاسبہ یا احتساب بہتر سے بہترین کا سفر ہے، خوب سے خوب تر کی تلاش ہے، ٹارگٹ یا نصب العین کو پورا کرنے کے لیے کماحقہ کوشش کرتے ہوئے جو کمی، کوتاہی ہوجائے اس کا بر وقت تدارک کرنا محاسبہ کہلاتا ہے، یہی وہ محاسبہ ہے جو نفس انسانی کے لیے ضروری ہے، عبادات میں خشوع، نیک اعمال پر مداومت، اور اخلاص اور للہیت کو فروغ دینے یہی محاسبہ معاون بنتا ہے، بدعات اور خود پسندی جیسے برے عادات کی روک تھام میں یہ اہم رول ادا کرتا ہے۔
چنانچہ امیر المومنین خلیفہ المسلمین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا جامع ارشاد ہے:
اس سے قبل کہ تم سے حساب کیا جائے خود اپنامحاسبہ کرلو ،اورقبل اس کے کہ تمہیں تولاجائے اپنے نفس کوتول لو ،کل قیامت کے دن حساب کی آسانی اسی میں ہے کہ آج اپنے نفس کا محاسبہ کرلو ،اورقیامت کے ہولناک دن کے لیے توشہ تیار کرلو جس دن اللہ کے سامنے پیش کئے جاوگے ،تمہاراکوئی بھید پوشیدہ نہ رہ سکے گا ۔
سال گزر گیا، دنیوی تاجر اور نفع اور نقصان کا اندازہ لگارہا ہے،نقصان کی تلافی،منافع میں بڑھوتری کے عزائم کررہا ہے، لیکن کیا ایک وہ مسلمان جس کے لیے دنیا آخرت کی کھیتی ہے سال کے اختتام پر کبھی خلوت میں بیٹھ کر اپنے مقصد تخلیق پر غور کرتا ہے؟ اپنے اقوال واعمال کاجائزہ لیتا ہے؟ کیا اپنے یومیہ کاموں کامحاسبہ کرتا ہے؟ کیا اپنے گناہوں اور غلطیوں کو شمار کرکے اس کے دور کرنے کی فکر کرتا ہے؟اگر آپ اسکا جائزہ لیں تو مجموعی طور پر بہت کم لوگ ایسے نظر آئیں گے جبکہ ہم بڑی بڑی غلطیاں کرلیتے ہیں،لیکن ہمیں ان کا احساس تک نہیں ہوتا ،آئے دن ہم برائیوں کاارتکاب کررہے ہوتے ہیں لیکن ہمارے کانوں پرجوں تک نہیں رینگتی۔بدقسمتی سے آج ہم ایک ایسے دور سے گزر رہے ہیں جس میں وقت کی ناقدری کا جذبہ تو بے رحمی تک جاپہنچا ہے، کیا چھوٹے کیا بڑے، کیا مرد کیا عورت انٹرنیٹ اور موبائل فون میں دن بھر خود کو مصروف رکھتے ہیں،پھر موبائل کے ساتھ دیگر لاتعداد خرافات کا شکار ہوکر وقت برباد کرتے ہیں یاد رکھیں! یہ نہ صرف ہم اپنا وقت ضایع کررہے ہیں بلکہ اپنی قسمت کے دروازے بھی خود اپنے ہاتھوں سے بند کررہےہیں ایسے پرآشوب ملحدانہ اور مفسدانہ ماحول میںایک بیدار ضمیرانسان کی علامت یہ ہے کہ وہ کسی کام کے کرنے سے پہلے بھی اپنے نفس کامحاسبہ کرتاہے، اورکام کرنے کے بعد بھی ، کام کرنے سے پہلے نفس کا محاسبہ یہ ہے کہ ایک بندہ جب کسی کام کے کرنے کاارادہ کرے تو سب سے پہلے یہ سوچ لے کہ اسے بجالانااولی ہے یاترک کرنا؟ اگربجا لانا اولی ہے تو بجا لائے، ورنہ اس سے باز رہے اور کام کی انجام دہی کے بعد نفس کا محاسبہ یہ ہے کہ وہ عمل خالص اللہ کے لیے تھا یا نہیں؟ کہیں اس میں ریا تو شامل نہیں، کہیں اس میں کسی کے حق کا ضیاع تو نہیں وغیرہ
برف کے پگھلنے کی طرح ہماری زندگی کے لمحات ختم ہورہے ہیں، لیکن ایک کامیاب اور کامران انسان کی علامت یہ ہے کہ وہ اپنے اوقات کی قدر و قیمت کو جانے، ماہ و سال کی گردش میںاپنے اعمال و افعال کا جائزہ لے، نفع اور نقصان کا تخمینہ لگائے، دینی ہو یا دنیوی ہر معاملہ کو ہر زاویہ سے سونچے،اور یہی محاسبہ یا احتساب انسان کو کامیابی کی منزلوں پر پہنچاتا ہے، وقت کا قدردان اور سعادت مند بناتا ہے،اور یہ ان لوگوں کا وطیرہ ہے جو اپنے عزائم کی تکمیل میں کوشاں رہتے ہیں،اس لئے ہر شخص اپنی ذمہ داری کا احساس پیدا کرے، خدا تعالیٰ کے سامنے جواب دہی کی فکر اپنے اندر لائے، دنیا کی وقتی لذتیں اور راحتیں اور آخرت کے ابدی انعامات کے بارے میں سوچیں،عبادات اور معاملات، دونوں کو جائزہ لیں، اگر ہم تاجرہیں تواپنے مال کا جائزہ لیں کہ اس میں کہیں حرام کی آمیزش تونہیں؟ اگر ہم ملازم ہیں تواپنی ڈیوٹی کاجائزہ لیں کہ ہم اس میں کوتاہی تونہیں کررہے ہیں؟ اگرہم مدرس ہیں تواپنی ذمہ داری کا جائزہ لیں کہ ہم کس حدتک منصب کی کی ذمہ داری کو انجام دے رہے ہیں،الغرض جس منصب اور جس کام میں بھی ہمارے اوقات اور لمحات صرف ہورے ہوں، ان سب کا محاسبہ کریں، اب تک ہم میں آخرت کی یاد سے جو غفلت تھی،ہمیں اپنی کوتاہیوں کا احساس نہیں تھا ،غلطیوں پر شرمندگی نہیں تھی ،حقوق الہی کا پاس ولحاظ نہیں اوراللہ تعالی کے پاس جوابدہی کا خوف نہیں تھا تو اب توبہ و استغفار ،ندامت،اوراحساس گناہ کے ذریعہ اپنے نفس کا احتساب کریں اور وقت کی قدردانی کے ساتھ آنے والے سال کا استقبال کریں غورکیاجائے تونیا سال ہمیں دینی اور دنیوی دونوں میدانوں میں اپنا محاسبہ کرنے کی طرف متوجہ کرتاہے کہ ہماری زندگی کا جو ایک سال کم ہوگیا ہے اس میں ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا؟