متحدہ عرب امارات اور اسرائیلی معاہدہ

متحدہ عرب امارات اور اسرائیلی معاہدہ

اطلاعات کے مطابق 13 اگست بروز جمعرات کومتحدہ عرب امارات (یو اے ای) نے اسرائیل کو تسلیم کر لیا ہے۔متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کی غاصب حکومت کے درمیان سمجھوتہ طے پاگیااورعرب امارات نے عربی حمیت اور غیرت کا سودا کر کے عام مسلمانوں اور خاص طور پر فلسطینی مسلمانوں کی پشت میں خنجر گھونپ دیا ہے۔اس مجرمانہ اقدام سے امت مسلمہ اور خاص طور پر فلسطینی مسلمانوں میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ متحدہ عرب امارات کی اس سنگين خيانت کو تاریخ میں کبھی فراموش نہیں کیا جائے گا۔ترکی نے اس اقدام پر برملا تنقید کرتے ہوئے متحدہ عرب امارت کے فیصلے کو فلسطین کی آزادی کی جدوجہد میں بڑی رکاوٹ اور غداری سے تشبیہ دی ہے۔متحدہ عرب امارات کا اسرائیل کے حوالے سے یہ فیصلہ فلسطین میں70 سال سے جاری جدوجہد کی نفی ہےاور فلسطینوں کی قربانیوں کے ساتھ بہت بڑی زیادتی ہے،اور متحدہ عرب امارات دنیا کے ان کمزور ممالک میں سے ہےجو خطے میں عالمی استعمار کے کارندے کا کردار ادا کررہا ہے،یو،اے،ای ،اتنا بڑا ملک نہیں ہےکہ اسرائیل کے حوالے سے اس کے فیصلے کو اسلامی ممالک یا عرب دنیا کا فیصلہ تصور کیا جائے،اسلامی دنیا کواس حوالے سے جلد اور موثر حکمت عملی بنانے ہوگی۔
متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کی غاصب حکومت کے درمیان سمجھوتے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ان میں نہ صرف سیاسی بصیرت اور اسلامی حمیت کی کمی ہے بلکہ اُنہیں مظلوم و مجبور کروڑوں مسلمانوں کے جذبات کا بھی ہرگز خیال نہیں ہے۔اصل حقائق سے بے بہرہ یہ گروہ اپنے تئیں یہ سمجھتا ہے کہ اگر پاکستان نے اسرائیل کو اب تک تسلیم نہیں کیا، تویہ سب مولویوں کی مخالفت کی وجہ سے ہے جو لوگوں کو گمراہ کررہے ہیں۔اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ فلسطین میں یہودیوں کی آباد کاری وہاں کی صدیوں سے چلی آنے والی آبادی یعنی فلسطینیوں کی رضامندی کے ساتھ نہیں ہوئی، بلکہ پہلے برطانیہ نے اس خطہ پر 1917ء میں باقاعدہ قبضہ کر کے فوجی طاقت کے بل پر یہودیوں کو فلسطین میں آباد کیا ہے، اور اب امریکہ اور اس کے اتحادی پوری فوجی قوت استعمال کر کے فلسطینیوں کو یہودیوں کی اس جبری آباد کاری کو تسلیم کرنے پر مجبور کر رہے ہیں جس پر فلسطینی راضی نہیں ہیں کیونکہ یہ دھونس اور جبر کا راستہ ہے جسے دنیا کی کوئی مہذب اور متمدن قوم قبول نہیں کر سکتی۔ انصاف اور مسلمہ اصولوں کا تقاضا تو بہرحال یہی ہے اور اگر بالادست قوتیں طاقت کے نشے میں اس اصول پر نہیں آتیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم اپنے موقف سے دستبردار ہو جائیں اور بے اصولی اور دھونس کو اصول و قانون کے طور پر تسلیم کر لیں۔
1948ء میں جب تمام مسلم دنیا نے اسرائیل کوتسلیم نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا، تو اس کی فوری وجہ یہ تھی کہ فلسطین کے بے گناہ مسلمانوں کو ان کی صدیوں سے ملکیتی زمین سے محروم کرکے اسے یہودیوں کو دے دیا گیا جس کے نتیجے میں لاکھوں فلسطینی مسلمان آج تک مہاجرین کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ جدید تاریخ اسرائیل کے علاوہ کوئی اور مثال پیش کرنے سے قاصر ہے کہ جہاں ایک مقامی قوم کو بے دخل کرکے ان کے علاقے پر مختلف ملکوں سے آنے والے دوسری قوم کے افراد کو نہ صرف بسا دیا جائے بلکہ ان کی ریاست بھی قائم کردی جائے۔ یہ سراسر ظلم اور ناانصافی تھی جسے اس وقت کی استعماری طاقتوں نے فلسطین کے بے چارے مسلمانوں سے روا رکھا۔ ان لوگوں کے عالمی تصورِ انصاف کا ماتم نہ کیا جائے توکیا کیا جائے جنہوں نے بزعم خویش یہودی قوم سے کی جانے والی ‘ناانصافی کی تلافی فلسطینی مسلمانوں سے اس سے بڑھ کرناانصافی کی صورت میں کی،اوریہود کو فلسطین کو چھوڑے ہوئے ہزاروں سال ہوگئے تھے۔ وہ اپنی مرضی سے یہ خطہ چھوڑ کر امریکہ، یورپ اور روس کے علاقوں میں آباد ہوگئے تھے، مسلمانوں نے انہیں زبردستی نہیں نکالاتھا۔ اب ایک ہزار سال کے بعد ان کے چند لیڈروں میں یہ اُمنگ بیدار ہوئی کہ ان کی یہودی ریاست ہونی چاہئے تو اس کا یہ طریقہ ہرگز نہیں تھا جو اپنایا گیا۔ استعماری طاقتوں نے جب اسرائیل کو قائم کرنے کا فیصلہ کیا تھا، تب بھی ان کاضمیر مردہ تھا اور آج بھی ان کی سوچ میں تبدیلی نہیں آئی۔ 1967ء اور 1973ء کی عرب اسرائیل جنگوں میں اسرائیل نے صحراے سینا، مغربی کنارہ، گولان کی پہاڑیاں اور یروشلم کے جس علاقے پر قبضہ کیا تھا، وہ آج تک قائم رکھے ہوئے ہے۔
ہمارے نام نہاد روشن خیال دانشوروں نے ہر معاملے میں مولویوں پر تنقید کو اپنا وطیرہ بنا رکھا ہے، ورنہ کون نہیں جانتاکہ اسرائیل کوتسلیم کرنے یا نہ کرنے کا معاملہ محض پاکستان کے مولویوں کا معاملہ نہیں ہے، یہ اُمت ِمسلمہ کے ہرفرد کے ضمیر کا معاملہ ہے۔ اُمت ِمسلمہ ہی کیا، ہر اس انسان کے ضمیر کامسئلہ ہے جسے انصاف پسند ہونے کا دعویٰ ہے۔ نادانوں کو اتنا بھی علم نہیں ہے کہ بانی ٔ پاکستان محمدعلی جناح نے ۱۹۴۸ء میں جب اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے کا فیصلہ فرمایا تھا، تو یہ مولویوں کے دباؤ کا نتیجہ نہیںتھا، بعد کے سیکولر حکمرانوں نے بھی اگر اس پالیسی کو جاری رکھا، تو اس کی وجوہات امت ِ مسلمہ سے یکجہتی، مظلوم فلسطینیوں کی حمایت اور ظلم و عدوان کے خلاف احتجاج تھیں نہ کہ مولویوں کا دباؤ۔
اسلامی تاریخ سے واقفیت کی ان ملت فروشوں سے کیونکر توقع کی جائے، انہیں تو دورِ حاضر کی تاریخ سے بھی مَس نہیںہے۔ ان کی طبیعتوں میں یہودیت نوازی کا جوش جب زور مارتا ہے تو کہتے ہیں کہ پاکستان کی اسرائیل سے کیا لڑائی ہے؟ مگر وہ یہ نہیں سوچتے کہ آخر کچھ تو بات ہے کہ اسرائیلی قیادت پاکستان کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کے ناپاک منصوبے بناتی رہی ہے، آخر اسرائیل بھارت کے ساتھ مل کر پاکستان کے ایٹمی مرکز کہوٹہ کو تباہ کرنے کی مکروہ منصوبہ بندی کیوں کرتا رہا ہے، کشمیر میں اسرائیل بھارتی افواج کے ساتھ مل کر حریت پسندوں پر ظلم و ستم کیوں ڈھا رہا ہے؟ اگر کوئی لڑائی نہیں ہے تو اسرائیل پاکستان کے خلاف ان ریشہ دوانیوں اورسازشوں میں ملوث کیوں ہے؟ کاش یہ لوگ مولویوں پر غصہ برسانے کی بجائے کبھی اسرائیلی قیادت سے بھی پوچھ لیتے کہ اسے پاکستان سے کیا تکلیف ہے؟
ان حالات میں فلسطینی مسلمانوں کی اخلاقی حمایت کی بجائے اُلٹا وحشی اسرائیلی ریاست کو تسلیم کرنے کی بات کرنا کس قدر شقاوتِ قلبی ہے، کتنی انسانیت دشمنی ہے اور اخلاقی اصولوں سے کس قدر سنگین روگردانی ہے۔ اے کاش! یہ افراد اگر مصیبت کے وقت میں مسلمانوں کی مدد نہیں کرسکتے، کم از کم ان کی دل آزاری تو نہ کریں، ان کے زخموں پر نمک پاشی کا مکروہ فریضہ تو ادا نہ کریں…!!