ویران مساجد کی آبادکاری کا ذمہ دار کون ؟

ویران مساجد کی آبادکاری کا ذمہ دار کون ؟

سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ نظر سے گذری جو گوجرانوالہ کے قریب ایمان آباد میںواقع ایک مسجد کی ہے،جو مغل دور میں بنائی گئی ہے،جس کا نام عثمانیہ مسجد ہے،حقیقت میں اگر ایسا ہی ہےجو تصویر میں دکھایا گیا ہے تو ہم مسلمانو ں کے لئے بہت ہی افسوس کا مقام ہے۔اسی طرح کی اور کئی ایسی مسجدوں کی ویرانیاں اور پھر ان کی بربادیاں کسی باشعور اور زندہ ضمیر مسلمان اور کسی صاحب نظر انسان سے مخفی نہیں ۔ آہ افسوس صد افسوس! کہ ہم مسلمان اپنے بڑوں ، بزرگوں کے آثار و نشان اور ان کے تعلیمی اور تعمیری کارناموں کا جو کہ مدارس و مساجد کی شکلوں میں ہے تحفظ نہ کرسکے نہ ہی ان مساجد کی اراضی کو ہم بچاسکے ۔ذلت ہی ذلت ہے ،شرمساری ہی شرمساری ہے ، رسوائی ہی رسوائی ،بدنامی ہی بدنامی ہے ،ان مسلم لیڈروں اور نمائندوں کے نام جو مذہب کے نام پر اقتدار پر ہیں ۔ اقتدار کے لالچی ہیں کرسیوں کے حریض ہیں ۔ صرف ان کا مقصد حکومتوں کی گدی نشینی کے سوا اور کچھ بھی نہیں ۔ نہ انہیں اللہ سے محبت نہ رسول اللہ سے واسطہ ۔
جو چیز کسی قوم کے ساتھ مخصوص ہو وہ اس کا شعار اور اس کے تشخص کی خاص علامت سمجھی جاتی ہے، چنانچہ مسجد بھی اسلام کا خصوصی شعار ہے، یعنی کسی قریہ، شہر یا محلہ میں مسجد کا ہونا وہاں کے باشندوں کے مسلمان ہونے کی علامت ہے۔اورزمین کے تمام حصوں میں اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ محبوب مساجد ہیں، یہ آسمان والوں کے لئے ایسے ہی چمکتی ہیں جیسا کہ زمین والوں کے لئے آسمان کے ستارے چمکتے ہیں۔ ان مساجد کو نماز، ذکر وتلاوت، تعلیم وتربیت، دعوت وتبلیغ اور دیگر عبادتوں سے آباد رکھنے کا مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے۔ آج مسلمانوں میں جو دن بدن بگاڑ آتا جارہا ہے، اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارا تعلق مساجد سے کمزور ہوگیا ہے۔ لہٰذا ہمیں چاہئے کہ ہم اللہ کے گھر یعنی مساجد سے اپنا تعلق مضبوط کریں کیونکہ مساجد مسلمانوں کی نہ صرف تربیت گاہیں ہیں بلکہ مساجد مسلم معاشرہ کی عکاسی کرتی ہیں۔ دنیا میں سب سے پہلا گھر بیت اللہ ہے، جو مسجد حرام کے وسط میں واقع ہے، جس کی طرف رخ کرکے ہم ایمان کے بعد سب سے اہم رکن یعنی نماز کی ادائیگی کرتے ہیں۔ حضور اکرمﷺنے مدینہ منورہ پہنچنے سے تھوڑا قبل قبا بستی میں ’’مسجد قبا‘‘ اور مدینہ منورہ پہنچنے کے بعد سب سے پہلے جس مسجد کی بنیا رکھی وہی بعد میں مسجد نبوی کے نام سے موسوم ہوئی، جو اسلام کے دنیا کے کونے کونے تک پہنچنے کا ذریعہ بنی۔ لہٰذا ہم اپنا تعلق مسجدوں سے جوڑ کر اس بات کی کوشش کریں کہ ہماری مسجدیں آباد ہوں۔ اگر ہمارا تعلق مسجد سے جڑا ہوا ہے تو جہاں اللہ تعالیٰ سے قربت حاصل ہوگی اور کل قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے (رحمت کے) سایہ میں جگہ ملے گی، وہیں ان شاء اللہ دشمنان اسلام کی تمام کوششیں بھی رائیگاں ہوں گی۔
مساجد کو آباد رکھنے والوں کے لئے بے شمار فضیلتیں قرآن وحدیث میں وارد ہوئی ہیں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: اللہ کی مسجدوں کو وہی آباد کرتے ہیں جو اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہوں اور نمازوں کے پابند ہوں اور زکاۃ دیتے ہوں اوراللہ کے سوا کسی سے نہ ڈرتے ہوں، توقع ہے کہ یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں۔ (سورۃ التوبۃ: 18) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اگر کسی شخص کی مسجد میں آمد ورفت رہتی ہے تو تم اس کے ایمان کی گواہی دو“! صرف آمدورفت پر ایمانی شہادت کی تعلیم دی گئی ہے،اس سے آگے بڑھ کر اگر کوئی مسجد کی خدمت میں مصروف رہتا ہو تو اس کے کیا فضائل ومناقب ہونگے؟ کسی کو مسجد کی خدمت نصیب ہوجائے تو یہ ایک بڑی نعمت ہے ، اس پر جس قدر شکر گزاری کی جائے کم ہے ،اور مسجد کا مقصد تعمیر نہیں، بلکہ مسجد کا مطلوب نماز اور نمازی ہے ، مسجد کی تعمیر سے زیادہ مسجد کو نمازیوں سے آباد کرنے کی ضرورت ہے، جب مسجدیں ناپختہ تھیں تو نمازی پکے تھے ، اب مسجدیں پختہ ہیں ، رنگ وروغن سے مزین ہیں؛ لیکن نمازیوں سے خالی ہیں۔اس لئے ادائیگی نماز فرض ہے، نگرانی ِ مسجد نفل ہے، فرائض سے غافل ہوکر صرف نوافل کی کثرت یا نوافل میں انہماک کسی کی نجا ت کے لیے کا فی نہیں،یہ نوافل تو رنگ وروغن کے مماثل ہیں ،اور فرائض دیوار کی طرح ہیں ، جب دیوار ہی نہ ہوتو رنگ وروغن کس پر؟کیوں کہ جو فرائض پر مداومت کرے گا وہ نوافل کو بھی صحیح ڈھنگ سے انجام دینے کی کوشش کرے گا، جو فرائض ہی سے غافل ہو وہ نوافل میں بدرجہٴ اولیٰ کوتاہی کرے گا۔
میری بڑے دردمندانہ التجاہے، اے مسلمانو بالخصوص اے قوم کے نوجوانوں ہم سب مل کر خدارا ایک ہوجائیں،آؤ ہم سب مل کر اللہ کے ویران اور غیر آباد گھروں کو آباد کریں ، مسجدوں کی ویرانیاں دور کریں اور وقف جائیدادوں کا تحفظ کریں ۔وقف بورڈ کے حکام بھی اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں ، اللہ تعالیٰ نے جب آپ کو وقف جائیدادوں اور مسلم اثاثوں کے تحفظ کا ذمہ دار بنایا ہے تو آپ بھی اللہ کے حضور جوابدہی کا احساس اور خیال رکھتے ہوئے ان ذمہ داریوں کو بحسن و خوبی نبھائیں ۔