موسم سرما اور ہمارے گناہ ونیکیاں

موسم سرما اور ہمارے گناہ ونیکیاں
از قلم:… قاری محمد اکرام چکوالی
اللہ تبارک و تعالی نے اس دار فانی میں کچھ جگہیں ، بعض موسم اور کچھ حالات ایسے بنا رکھے ہیں جو اسے آخرت کی یاد دلاتے ہیں ، بعض جگہیں اور زمانے اسے جنت کی یاد دلاتے ہیں اور بعض جگہیں اور زمانے جہنم کی یاد دلاتے ہیں ۔عمومی طورپر اہل زمین سال بھر میں چار موسموں گرمی،سردی، بہار اور خزاں سے مستفید ہوتے ہیں ۔ان میں ہرموسم اپنی الگ خصوصیت وشناخت رکھتا ہے :گرمیاں ان کھیتوں،فصلوں اور پھلوں کے لیے موزوں اور مناسب ہوتی ہیں جو زیادہ درجۂ حرارت چاہتے ہیں۔ سردیوں میں خشک میوہ جات کی بہتات ہوتی ہے جو اپنا منفرد مزہ رکھتے ہیں۔ برسات کی ہوائیں اﷲ کی رحمت کی نوید لاتی ہیں اوربارش خشک ٹیلوں اور قحط زدہ علاقوں کو سرسبز و شاداب کردیتی ہے ۔ موسم خزاں میں پتے جھڑتے ہیں اور درخت نیا لبادہ پہننے کی تیاری کرتے ہیں۔ہم ذرا اس بات کا صرف تصور کریں کہ اگر ہمیشہ ایک ہی موسم اور ایک ہی درجۂ حرارت و برودت رہے تو اس دنیا میں انتشار برپاہوجائے ، بد مزگی اوربے رنگی پیدا ہو جائے ، وقت گزرنے کا احساس ختم ہو جائے اور رنج کی کیفیت کبھی راحت میں بدلنے نہ پائے ۔غور کیاجائے تو سال کے ان چاروں موسموں میں بندہ مؤمن کے لئے اس کے ایمان و اعمال،رہن سہن،چال ڈھال اور تبدیلی و انقلاب سے متعلق سبق آموزی کے ایسے مظاہرموجود ہیں؛جن میں غور و خوض کرکے وہ دنیا اور آخرت سنوار سکتاہے ،البتہ اکثر لوگ ان چیزوں سے ناواقفیت کی بناء پر بغیرعبرت و موعظت کے ہرموسم یوں ہی سرسری گزاردیتے ہیں۔
اور سخت سری وگرمی کی کا موسم انسان کو جہنم کی یاد دلاتا ہے کیونکہ ایک مسلمان کا عقیدہ ہے کہ اس روئے زمین پر سردی و گرمی کی شدت کا اصل سبب جہنم ہے ،لہذا جب انسان کو سخت اور ناقابل برداشت گرمی محسوس ہوتو اسے فورا جہنم کی گر می و تپش یاد آجاتی ہے او ر وہ اپنے رب سے بعجز وعاجزی جہنم سے بچنے کی دعا کرنے لگتا ہے حتی کہ اگر ایمان تازہ ہو معمولی گرمی بھی مومن کو جہنم کی یاد دلاتی ہے ، چنانچہ حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ : حمام بہت اچھا گھر ہے جسمیں ایک مومن داخل ہوتا ہے تو اپنے میل کچیل صاف کرتا ہے اور اسمیں جہنم سے اللہ تعالی کی پناہ چاہتا ہے ۔
یہ سردی کا موسم ہے ، لوگوں کے لباس وہیئت پر ہر طرف سے سردی کے آثار ظاہر ہیں ، بعض علاقوں میں سردی سے لوگ سخت پریشان ہیں ، ہر شخص نے اپنی اپنی حیثیت و وسعت اور علاقے کے مطابق گرم کپڑے ، لحاف اورمکان رہائش کا انتظام کیا ہے ، حتی کہ بازاروں اور سڑکوں پر بھی موسم سرما کی آمد کےآثارپائے جارہے ہیں ، ایسے موقعہ پر اپنی بساط ، مزاج اور طبیعت کے لحاظ سے لوگوں کے رجحانات مختلف ہیں ، کوئی سردی سے کبیدہ خاطر ہے کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جنکی زبانوں پر سردی کی برائی ہے۔چونکہ سردی وگرمی اللہ تعالی کی مخلوق ہیں ، ان میں سختی وگرمی بحکم الہی ہے لہذا انھیں گالی دینا اور برا بھلا کہنا جائز نہیں ہے ، چنانچہ حدیث قدسی میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ اللہ تعالی فرماتا ہے :آدم کابیٹا مجھ کو دکھ دیتا ہے ، اسطرح کہ وہ زمانے کا گالی دیتا ہے ، حالانکہ میں زمانہ ہوں ، رات ودن کو میں ہی پھیر تا ہوں ۔یہی وجہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہوا اور اس طرح کی دیگر فطری اور بحکم الہی آنے جانے والی چیزوں کو برا بھلا کہنے سے منع فرمایا ،ہوا حکم الہی کے تابع ہو کر چلتی ہے، اب اسے برا کہناگویا اسکے خالق اور اسمیں متصرف ذات کو برا کہنے کے ہم معنی ہےلہذا اگر کوئی شخص سخت یا تیز و تند ہوا دیکھے تو برا بھلا کہنے کے بجائے یہ چاہئے کہ وہ اللہ تعالی سے دعا کرے کہ اس ہوا کے شر سے اسے محفوظ رکھے اور اسمیں جو حیر کا پہلو ہو اس سے محروم نہ کرے ۔(سنن ابو داود:5097 الادب ) اور ایسے لوگ بھی ہمیں ملیں گے جنکے لئے موسم سرما کی آمد خوشی کا باعث ہے ۔
اس دنیا میں کسی بھی چیز کے وجود کا اللہ تبارک وتعالی نے ایک سبب رکھا ہے جسکا علم عام طور پر لوگوں کو ہے ،مثلا بارش کا ایک سبب ہے گرمی کا ایک سبب ہے اسی طرح رات و دن کی آمد کا ایک سبب ہے لیکن بسا اوقات کسی چیز کے وجودکا ایک باطنی سبب بھی ہوتا ہے جسکا علم صرف عالم الغیب ولشہادہ کے پاس ہے ، البتہ اگر وہ چاہتا ہے تو اپنے مخصوص بندوں کو ان میں سے بعض چیزوں کا علم دے دیتا ہے ، چنانچہ اس دنیا میں سردی وگرمی کا ایک محسوس سبب ہے جسے عام طور پر لوگ جانتے اور پہچانتے ہیں جیسے سورج کی گردش ، موسم سرما یا گرما کا داخل ہونا اور ہوائوں کا چلنا وغیرہ ، لیکن اسکا ایک باطنی سبب بھی ہے جسکا علم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ ہمیں ملا ہے ، چنانچہ صحیح بخاری ومسلم اور دیگر کتب حدیث میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
جہنم نے اپنے رب سے شکایت کرتے ہوئے کہا : اے میرے رب ؛ میرے ایک حصے نے دوسرے کوکھا لیا ،لہذا اللہ تعالی نے اسے دوسانس کی اجازت دے دی ، ایک سانس سردی کے موسم میں اور دوسرا سانس گرمی کے موسم میں ، اسطرح تمہیں جو سخت گرمی محسوس ہوتی ہے وہ جہنم کی گرمی کی وجہ سے ہے اور جو سخت سردی محسوس ہوتی ہے وہ جہنم کے زمہریر کی وجہ سے ہے ۔ ایک اور حدیث میں ارشاد نبوی ہے :جب گرمی سخت ہو تو نماز کو ٹھنڈا کر کے پڑھو ، ، کیونکہ گرمی کی شدت جہنم کی گرمی کی وجہ سے ہے ۔
شرعی اعتبار سے موسم سرما سے متعلق ایک مومن کا موقف کیا ہونا چاہئے اس سے عمومی طور پر لوگ غفلت میں ہیں ، لہذا موسم سرما کی مناسبت سے خیر کے طالب مسلمانوں بھائیوں کے لئے چند ہدایات رکھی جارہی ہیں ۔اسی شرعی قاعدے کے تحت ہر مسلمان کو چاہئے کہ جہاں وہ سردی سے بچنے کے لئے ظاہری اسباب اختیار کرے وہیں اس طرف بھی توجہ دے کہ اس موسم میں ہمارے لئے خیر کے پہلو کیا ہیں؟ اب اگر غور کیا جائے تو نیکیوں پر حریص مسلمان موسم سرما میں ان فضیلتوں کو بڑی آسانی سے حاصل کرسکتا ہے ، کیونکہ سردی کے موسم میں دن چھوٹا ہوتا ہے ، موسم ٹھنڈا رہتا ہے جس کی وجہ سے انسان کو بھوک و پیاس کا احساس کم اور کم ہی ہوتا ہے ، لہذا بڑیآسانی سے روزہ رکھا جاسکتا ہے مسلمانوں کی توجہ اسی طرف دلاتے ہوئے نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : آسان ہےکہ سردی کے موسم میں روزہ رکھا جائے ۔
ابل غور ہے کہ موسم سرما کی راتیں قیام اللیل اور تہجد کے لئے کسقدر مناسب ہیں کیونکہ موسم سرما کی راتیں اسقدر طویل ہوتی ہیں کہ بندہ اگر رات میں دیر گئے سوئے تو بھی تہجد کے لئے آسانی سے بیدار ہو سکتا ہے۔آپ ﷺ نے فرمایا:تم لوگ قیام اللیل کا اہتمام کرو اسلئے کہ یہ تم سے قبل نیک لوگوں کا طریقہ رہا ہے اور یہ تمھارے رب کی قربت کے حصول کا ذریعہ ہے ، قیام اللیل گناہوں کی معافی اور گناہوں سے بچنے کا سبب ہے ۔ بوقت تحریرجب یہ سطریں لکھی جارہی ہیں عشاء کی اذان اور طلوع فجر کے درمیان دس گھنٹے سے زیادہ کا وقفہ ہے ، اب اگر ایک مسلمان اس میں سے چار گھنٹے بھی اپنے ضروریات کے لئے رکھ لے تو باقی ساڑھ پانچ گھنٹے یا اس سے زیادہ کی مدت کسی بھی شخص کے نیند سے آسودہ ہونے کے لئے کافی ہیں۔
صدقہ گناہوں کو اسطرح مٹادیتا ہے جسطرح پانی آگ کو بجھا دیتا ہے ۔پھر اگر یہی صدقہ وقت حاجت و ضرورت ہو تو اسکی اہمیت و فضیلت اور بڑھ جاتی ہے ، خاصکر سردی کے موسم میں جبکہ لوگ سردی سے بچنے کے لئے ، کپڑے ، گرم لباس اور لحاف وغیرہ اور آمدنی میں کمی کی وجہ سے کھانے پینے کی اشیاءکے محتاج ہوتے ہیں تو ایسے ایام میں صدقہ کی فضیلت بڑھ جاتی ہے ، چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا کہ سب سے افضل عمل کیا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” سب سے افضل عمل یہ ہے کہ کسی مومن کے دل کو تو خوش کردے ، اسطرح کہ اسکی شرمگاہ کو چھپا دو { یعنی کپڑا پہنا دو }اسکی بھوک کو دور کردو یا اسکی ضرورت پوری کردو” ۔
اگر غور کیا جائے تو سردی کے موسم کی اس فضیلت کوحاصل کرنے کا بہترین موقعہ ہے کیونکہ ہمارے پڑوس میں ، ہمارے علم میں اور ہمارے آس پاس کے علاقے میں کتنے ایسے لوگ ملیں گے جنکے پاس سردی سے بچنے کے لئے کپڑے ہونگے اور نہ لحاف و رضائی انھیں دستیاب ہوگی اور بہت سے لوگ ایسے بھی ملیں گے کہ گھر کا سرپرست بیمار ی یا کمزوری کی وجہ سے کھانے اور علاج کیلئے پیسہ نہ کماپا رہا ہو گااسے بچوں کے کھانے اور اپنے علاج کیلئے پیسوں کی ضرورت ہے ، ایسی صورت میں ہر شخص اپنی استطا عت اور بساط کے مطابق صدقہ کرکے اپنے رب کو راضی کر سکتا ہے اور محشر کے میدان میں اپنے لئے سایہ انتظام کرسکتا ہے ۔
المختصر ایک مومن سردیوں میں تھوڑے اہتمام سے درج ذیل نیکیاں آسانی سے کرسکتا ہےمثلاً:…کسی کو گرم لباس یا بستر فراہم کرنا۔٭…جو خواتین عموماً پردہ نہیں کرتیں وہ سردی کی وجہ سے اپنے آپ کو لپٹنے پر مجبور ہو تی ہیں جس کی وجہ سے پردہ والی نیکی بن جا تی ہے ۔٭…سردیوں میں عموماً راتیں لمبی ہو تی ہیں ،تو تہجد کا ناغہ نہیں کرنا چاہیے یہ بہت بڑی نیکی اور صالحین کی خاص عبادت ہے۔ ٭…کسی کو آگ یا ماچس یا جلانے کی چیز یا سینکنے کی چیز فراہم کرنا یا گیس استعمال کے لیے دینا یا کہیں آپ آگ جلا کر بیٹھے ہو ں تو آنے والوں کو سینکنے کے لیے جگہ دینا وغیرہ یہ سب نیکیاں ہیں ۔٭…گنجائش کے مطابق اپنے بیوی بچوں ،بچیوں کے لیے لباس فروٹ میوہ جات اور سردیوںکے سوغات مہیا کرنا بھی نیکی ہے ۔٭…جانوروں کے لیے جہاں تک ہوسکے (اپنے بس میں ہو)گرمائش کا انتظام کرنا بھی نیکی ہے ٭…سردیوں میں پانی پینے کی عادت کم نہ کی جائے کیونکہ عموماً پیاس نہیں لگتی تو لوگ سردیوں کے موسم میںپانی بھی کم پیتے ہیں یہ کمی صحت کے لیے نقصان دہ ہے کھانے سے پہلے یا کھانا کھانے کے ڈیڑھ دو گھنٹے کے بعدوقفہ وقفہ سے پانی پیتے رہنا چاہیے۔٭…صدقہ خیرات دینے کا اہتمام کیا جائے یوں تو بارہ مہینے ہی صدقات کا اہتمام رہنا چاہیے مگر سردیوں میں چونکہ غریب لوگ گرم لباس آسانی سے نہیں خرید سکتے وہ سکڑ کر یا باریک لباس ہی میں گزارا کررہے ہوتے ہیں،ہمارے ملک پاکستان میں عموماً ڈیڑ ھ دوماہ سے زیادہ شدید سردی نہیں پڑتی۔٭…اجتماعی مقامات پر جیسے گرمیوں میں ٹھنڈے پانی کا انتظام کیا جاتا ہے ویسے ہی سردیوں میں گرم پانی کا انتظام کرنا بھی عباد ت ہے،خصوصاً مساجد ،مدارسِ دینیہ میں (اور اپنے گھروں میں بھی)۔٭…خواتین گھر میں بھی سردی کی وجہ سے دو پٹہ یا اسکارف لے کر کے کچن کا کام کریں گی تو رحمت کے فرشتے شاملِ حال ہو سکیں گے۔
اسی طرح سردیوں میں کی جانے والی چند کو تاہیاں(گناہوں)سے بھی بچا جائےمثال کے طورپر…٭… حد سے زیادہ گیس کا استعمال یا جتنی اجازت ادارہ یا سوسائٹی نے دی ہے اس سے زیادہ استعمال کرنا۔٭…رات کو ہیٹر چلا کر سونا ممنوع ہے کیونکہ اس میں جان کا خطرہ ہے۔وہ اس طرح کہ رات گیس چلی گئی اور پھر آگئی تو وہ کمرہ میں گیس پھیلنے کی وجہ سے آپ سوتے سوتے ہی وفات پاسکتے ہیں ۔٭…اپنی غرض پوری کرنے کے لیے ایسے طریقہ سے آگ جلا کر رکھناکہ دوسروں کو دھویں وغیرہ سے تکلیف ہو۔یہ بری بات ہے۔٭…بدبودار چیز جلانا سردی کی غرض سے ممنوع ہے ،جس سے کسی کو تکلیف پہنچتی ہوں ۔٭…دھوپ سینکنے کے لیے ایسی جگہ بیٹھنا جس سے (پردہ والے)گھروں میں نظر جاتی ہو اور وہ پریشان ہوتے ہوں۔٭…ایسی جگہ بیٹھنا جہاںآدھی دھوپ ہو اور آدھا سایہ ہو ۔اس سے حدیث شریف میں منع کیا گیا ہے (ابن ماجہ)٭…کسی سے پوچھے بغیر کسی کی چیزیں ایندھن کے لیے لینا ۔٭…باوجود سردی لگنے کے فیشن وغیرہ کی وجہ سے گرم لباس نہ پہننا (جبکہ موجود بھی ہو)یعنی ٹھٹھرنے والی سردی سے بچاؤ کی تدبیر نہ کرنا۔٭…سردی کی وجہ سے مردوں کا مسجد کی جماعت کی نماز کو چھوڑنا یا نماز قضا کرنا گناہ ہے،اور عورتوں کا سردی کی وجہ سے نماز قضا کردینا بہت بڑا گناہ ہے۔٭…مردوں کو عورتوں جیسا اور عورتوں کو مردوں جیسا گرم لباس چادر وغیرہ پہننا (یہ تو عام موسم میں بھی درست نہیں ہے)٭…سردیوں میں جرابوں پر مسح کرنا وضو میں حنفیہ کے نزدیک درست نہیں ۔چمڑے یا ریگزین کے موزوں پر مسح کرنا درست ہے ۔٭…سردیوں کی وجہ سے ڈیوٹی ٹائم اپنے بوس کی اجازت کے بغیر کم کرنا بھی گناہ ہے ۔بلا ضرورت گیزر کا پانی بہت زیادہ ضائع کرنا ،گرم پانی نکالنے کے لیے۔
مومن بندہ کو جب سردی اور اسکی شدت محسوس ہو اور اسے تنگ کرے تو اسے زمہریر کی ٹھنڈک یاد کرنا چاہئے کیونکہ جس طرح اللہ تبارک وتعالی اہل جہنم کو سخت اور ناقابل برداشت جلن اور آگ کا عذاب دیگا اسی طرح ناقابل برداشت ٹھنڈکا بھی عذاب دیگا چنانچہ علماء کہتے ہیں کہ جہنم میں ایک طبقہ زمہریر یہ ہے ، جب کافر آگ میں جلتے جلتے تنگ آجائیں گے اور رب سے ٹھنڈے پانی کا مطالبہ کریں گے تو اللہ تبارک وتعالی انھیں جہنم کے طبقہ زمہریریہ میں ڈال دیگا جسمیں سخت سردی کی وجہ سے انکی ہڈیاں پھٹ جائیں گی ۔لہذا سخت سردی کے موسم میں ایک مومن کو چاہئے کہ وہ جہنم کو کثرت سے یاد کرے اور اس سے بچنے کی دعا کرے
٭…بعض روایات میں ہے کہ جب سردی کا موسم ہوتو ہمیں یہ دعا پڑھنی چاہیے:…لَآ اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ مَآ اَشَدَّ بَرَدَ ھٰذَا الْیَوْمَ اَللّٰھُمَّ اَجِرْنِیْ مِنْ زَمْھَرِیْرِ جَھَنَّمَ۔
’’اﷲ تعالیٰ کے علاوہ کو ئی عباد ت کے لائق نہیں ،آج بڑی سردی ہے ،یااﷲ مجھے جہنم کے ٹھنڈے طبقہ سے بچائیے۔‘‘
جب بندہ یہ پڑھ لیتا ہے تو اﷲ تعالیٰ جہنم سے فرماتے ہیں کہ میرے بندہ نے تیرے زمھریر(ٹھنڈے طبقہ) سے پناہ مانگی ہے ،میں تجھے گواہ بناتا ہوں کہ میں نے اسے پناہ دے دی۔اﷲ تبارک وتعالیٰ ہمیں گناہوں سے بچنے اور نیکیاں کرنے کی تو فیق نصیب فرمائیں۔(آمین)