بس تھوڑا صبر کریں

بس تھوڑا صبر کریں

چند دن پہلے کراچی میں 5بچوں کے باپ نے اس لیے خودکشی کر لی کیونکہ اس کے پاس اتنے پیسے نہیں تھے کہ وہ اپنے بچوں کی فرمائش یا ضد پوری کر سکتا۔ وہ بیروزگار تھا۔ اس لیے اپنے بچوں کے لیے سردیوں کے نئے کپڑے نہیں خرید سکا۔ وہ کتنے کرب، تکلیف اور غم کی کیفیت میں مبتلا رہا ہو گا۔ اس کے دل و دماغ پر کیا گزری ہو گی جو اپنے بچوں کو ہنستا کھیلتا دیکھ کر جیتا ہو گا۔ اپنے بچوں کے چہروں پر ایک مسکراہٹ لانے کے لیے کتنے جتن کرتا ہو گا مگر وہ بچوں کی خواہش پوری نہ کر سکنے پر ہمیشہ کے لیے انہیں چھوڑ کر چلا گیا۔اسی طرح لیہ میں ایک باپ نےچار بیٹیوں اور ایک بیٹے کو زہر دے کر مارڈالااور پھر خود زہر پی کرکود کشی کرلی۔
انہوںنے اپنے بچوں کی آنکھوں میں ایسا کیا دیکھا ہو گا جو ان سے برداشت نہیں ہوا۔ انہوں نے اپنے بچوں کے چہروں پر ایسا کیاپڑھ لیا کہ دنیا چھوڑ گئے۔کیا ہمارےمعاشرے میں یہی دو شخص تھے جو اس کرب اور تکلیف سے گزر رہے تھے۔ ہمارے ملک کے عوام کی اکثریت اسی کیفیت میں مبتلا ہے۔ جسم اور روح کا رشتہ برقرار رکھنا مشکل سے مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ غربت اور مہنگائی نے عوام کا جینا دوبھر کر دیا ہے۔ خاص طور پر مہنگائی نے تو لوگوں سے مسکراہٹ اور چھوٹی چھوٹی خوشیاں بھی چھین لی ہیں۔ انہیں روزانہ اپنی چھوٹی چھوٹی خواہشات اور آرزوؤں کو بھی قتل کرنا پڑتا ہے۔ جب آرزوؤں اور خواہشات کو مسلسل دبانا اور ان کا گلا گھونٹنا مشکل ہوتا جاتا ہے تو پھر لوگ اپنی زندگی کےخاتمے کو ترجیح دیتے ہیں۔
موجودہ حکومت کوآئےقریباًدوسال ہوچکے ہیں اس کی کارکردگی اور کارناموں سے ہر فرد باں باں کررہا ہےان کارناموں میں بڑا کارنامہ تمام اشیائے خورو نوش، آٹا، چینی، چاول، دالوں، سبزیوں، گھی، میدہ، پٹرول، ڈیزل، سوئی گیس، بجلی کی قیمتوں میں ریکارڈ اضافہ ہے،تمام اشیا غریب عوام کی قوت خریدسے باہر ہوگئی ہیں۔روزمرہ کی ضرورت کی اشیاء کی قیمتوں میں مسلسل اضافے اور کمر توڑ مہنگائی نے عوام کا جینا دوبھر کر دیا ہے۔نرخوں میں مسلسل اضافے کی بدولت اس وقت عام آدمی کا سب سے بڑا مسئلہ مہنگائی ہے۔ آٹا، چینی،گھی، چاول،دودھ ،دالیں، سبزیاں اورگوشت کے ساتھ ساتھ موجودہ دورمیں بجلی،گیس،پٹرول اورادویات بھی بنیادی انسانی ضروریات ہیں۔جن کی ارزاں نرخوں پر دستیابی عوام کابنیادی انسانی حق ہے۔ ہماراحکمران طبقہ ہر معاملے میں امریکہ اوریورپ کی نقالی کی حدتک پیروی کرنا ضروری سمجھتاہے ،لیکن اس طبقہ نے کیا کبھی یہ سوچنے کی زحمت بھی کی ہے کہ امریکہ اوریورپ میں اشیائے خوردونوش پر حکومت نے کنٹرول کررکھاہے اوروہاں کی حکومتوں اور سپرمارکیٹ بزنسز کااس بات پر اتفاق ہے کہ ان چیزوں کی قیمت کم رہنی چاہیے ،کیوں کہ یہ چیزیں ہر انسان کی بنیادی ضرورت ہیں۔ان ممالک کے علاوہ متحدہ عرب امارات میں بھی کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتیں مستحکم ہیں۔ وہاں بنیادی ضرورت کی اشیاء حکومتی کنٹرول کی وجہ سے برس ہا برس سے بڑھنے نہیں پاتیں۔یہی وجہ ہے کہ وہاں کے عوام اپنے حکمرانوں سے خوش ہیں،کیونکہ ان کویہ بنیادی ضروریات بہ آسانی اورسستے داموں حاصل ہوجاتی ہیں ۔اس کے برعکس ہمارے ہاں خوردونوش کی اشیاء کی قیمتوں پر کوئی نگرانی نہیں ہے۔ہردوکان میں اپنی مرضی کے نرخ وصول کیے جاتے ہیں۔قوتِ خریدکی ابتری سے حالت یہاں تک آپہنچی ہے کہ کچھ برس پہلے جو لوگ آٹا چینی، گھی، چاول، دال ہفتے یا مہینے کے لیے اکٹھا خریداکرتے تھے،آج وہ روزانہ کے حساب سے خریدنے پر مجبور ہیں۔
حکومتی معاشی ماہرین تو معیشت کے استحکام کے لیے کوشاں ہیں۔ انہیں تو آئی ایم ایف اور عالمی بینک کو مطمئن کرنا ہے۔ انہیں خوش رکھنا ہے۔ ان کے پاس اتنا وقت کہاں ہے کہ وہ غریبوں کے تلخ حالات زندگی کے بارے میں سوچیں۔ہمارے ارباب و اقتدارکو احساس ہی نہیں ہوتا کہ ضروریات زندگی، خوراک، بجلی، گیس ، پٹرول اور سبزیوں وغیرہ کی قیمتوں میں معمولی ردوبدل انہیں کتنی مشکلات اور اذیتوں سے دو چار کرتا ہے ۔ جو لوگ 7 ہزار سے 15 ہزار روپے ماہانہ کماتے ہیں ۔ کرایوں کے گھروں میں رہتے ہیں۔ ان کی جیبوں پر جب 1000 روپے یا اس سے زیادہ کا اضافی بوجھ پڑتا ے تو ان کی کیا حالت ہوتی ہے۔ 1000 روپے کی حکمران اشرافیہ کے سامنے کیا اوقات ہے۔ اتنی تو وہ کسی بھی ریسٹوڑنٹ میں کھانا کھا کر ٹپ دے دیتے ہیں۔ بالائے درمیانے طبقے کو بھی دو چار ہزار سے کوئی فرق نہیں پڑتا مگر جو شخص کماتا ہی سات ، دس یا پندرہ ہزار ہو تو اس کو ایک یا دو ہزار روپے سے بہت فرق پڑتا ہے۔ قیمتوں میں معمولی ردوبدل انہیں یہ فیصلہ کرنے پر مجبور کر دیتا ہے کہ انہوں نے بچوں کو سکول بھیجنا ہے یا کام پر ۔ انہیں یہ فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ انہوں نے بیماری کے لیے دوا خریدنی ہے یا بچوں کا پیٹ بھرناہے۔ عوام پر کیا بیت رہی ہے، وہ کس اذیت میں مبتلا ہیں اس سے حکومتی معاشی ماہرین کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ٹیکس لگائے جاؤ۔ مہنگائی کرتے جاؤ۔ بجلی، گیس، پٹرول مہنگا کرتے جاؤ اور پھر معصومیت سے کہو کہ مہنگائی کی وجہ ہماری پالیسیاں تو نہیں ہیں۔ یہ تو پچھلی حکومتوں کی لوٹ مار کا نتیجہ ہے۔ بس تھوڑا صبر کریں۔ پھر سب ٹھیک ہو جائے گا۔ کب تک ہو جائے گا یہ خود ان کو بھی پتہ نہیں ہے۔