بجلی کی قیمتوں میںریکارڈ اضافہ

بجلی کی قیمتوں میں ریکارڈ اضافہ

تفصیلات کے مطابق مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ کی زیر صدارت اقتصادی رابطہ کمیٹی کا اجلاس ہوا، ای سی سی 4 نکاتی ایجنڈے پر غور کیا گیا۔ای سی سی نے کےالیکٹرک صارفین کیلئے بجلی مہنگی کرنےکی منظوری دے دی ، کےالیکٹرک ٹیرف میں اضافہ سہ ماہی ایڈجسٹمنٹ کی مد میں کیا جائے گا، صارفین کیلئے بجلی ٹیرف میں 2 روپے 89 پیسے تک اضافے کی منظوری دی گئی۔،
بجلی کی قیمتوں میں اضافے کے لئے نام نہاد ماہرین جو جواز بتاتے ہیں، ان میں روپے کی قیمت میں کمی، ٹرانسمیشن اور تقسیم کاری میں نقصانات، بجلی کا کم استعمال اور ٹیرف میں قانونی اور غیر قانونی اضافے کو بیان کیا جاتا ہے۔ یہ سب حیلے بہانے اور ڈھکوسلے ہیں۔ یہ بالکل واضح ہے کہ آئی ایم ایف سے قرضہ جات لینے کی ایک اہم شرط بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کیا جانا تھا، جو اب وقفے وقفے سے کیا جا رہا ہے۔اور وزیر بجلی عمر ایوب نے ایک عجیب منطق دیتے ہوئے مسلم لیگ ن کو اس کا ذمہ دار قرار دیا۔ انہوں نے یہ اعلیٰ فرمان جاری کیا کہ ن لیگ نے اپنے دور کے آخری اٹھارہ ماہ میں بجلی کی قیمتوں میں اضافہ نہ کر کے ملک کو جو 226 ارب روپے کا نقصان پہنچایا اسے اب پورا کرنا ضروری ہے۔اگرچہ مسلم لیگی دور بھی کوئی مثالی دور نہ تھا۔لیکن مسلم لیگی دور میں 28000 میگا واٹ تک بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت حاصل کر لی گئی تھی۔ مگر اس میں امپورٹڈ کوئلے سے پیدا ہونے والی بجلی مہنگی بھی ہے اور ماحول کی تباہی کا باعث بھی بن رہی تھی۔ مگر انکو اس بات کے طعنے دینا کہ انہوں نے اپنے دور میں بجلی مہنگی کیوں نہ کی، خان صاحب کی حکومت کے سیاسی دیوالیہ پن اور نااہلی کی انتہا کا اظہار ہے۔موجودہ تحریک انصاف حکومت نیو لبرل پالیسیوں پر تیزی سے عمل کر رہی ہے۔ وہ بجلی اور گیس کے ساتھ ساتھ، پٹرول کی قیمتوں میں بھی مسلسل اضافہ کر رہی ہے اور سینکڑوں اداروں کی نجکاری کے درپے ہے۔ روپے کی قیمت میں کمی کا نقصان بھی عوام پر ان ڈائریکٹ ٹیکس لگا کر کیا جا رہاہے۔ گویا ہر طریقے سے عوام کی جیبوں میں ہاتھ ڈالا جا رہا ہے۔مار کھاتا ہے تو محنت کش طبقہ، جو طبقاتی طور پر اتنا منظم نہیں کہ کھل کر جدوجہد کرے۔اور ظلم کی انتہا دیکھئے /300یونٹ بجلی بل=/3285روپے۔۔۔اور /360یونٹ بجلی بل=/6235روپے۔اس کے علاوہ بجلی اہلکارجان بوجھ کر ایک مہینے میں/70/60یونٹ کم اور دوسرے مہینے میں/70/60یونٹ زیادہ ڈال کربل ڈبل بھیج دیتے ہیںجس کی وجہ سے بل /300 یونٹ سے اوپر جانے کی وجہ سےپہلے کی نسبت بل ڈبل ہو جا تا ہے اس لئے صارفین کا اربابِ اختیار سے مطالبہ ہے اس لوٹ کھسوٹ کے ٹیرف کو فی الفور ختم کیا جائے اور فی یونٹ کے حساب سے ریٹ لگایا جا ئے۔اور بجلی بل پر جو کئی قسم کے ٹیکس مثلاً:انکم ٹیکس ڈبل،ٹیلی ویژن کی ڈبل فیس اور(یہ فیس مسجد کے بل میں بھی ہو تی ہے اور جن کےگھر ٹی وی نہیں ہے ان پر بھی لاگوں ہوتی ہے)بقایا جات ،یہ وضاحت نہیں ہوتی کون سابقایا جات،ایکسٹرا ٹیکس اسکے بارے میں وضاحت نہیں ہے کس چیز کا ایکسٹرا ٹیکس،اور نیلم جہلم سرچارج کس بات کے وغیرہ وغیرہ۔اور بجلی کے آنے جانے کا وقت ہی نہیں،کب گئی اور کب آئی بالخصوص پسماندہ دیہاتوں میں تھوڑاساموسم خراب ہونے کی دیرہےپھر کئی کئی گھنٹے بے چاری عوام کو خوار ہونا پڑتا ہے۔
ایک صاحب کے گھر ان کے پیر صاحب تشریف لائے اس وقت صاحب خانہ کے ایک رشتہ دار بھی ان سے ملنے آئےہوئے تھے جو کے پیری مریدی کے سخت مخالف تھے۔ اُن کے اور پیر صاحب کے درمیان کچھ سخت الفاظ کا تبادلہ ہوا اور اچانک ہی سارا گھر اندھیرے میں ڈوب گیا، ہر طرف ہا ہا کار مچ گئی اور صاحب خانہ سمجھے کے پیر صاحب جلال میں آ گئے ہیں اور تمام گھر والوں کو اندھا کر دیا ہے، گرتے پڑتے پیر صاحب کے قدموں میں لیٹے اور گڑگڑانے لگے۔“موتیاں والیو معاف کردیو ساڈی نظر واپس کر دیو ”پیر صاحب نے ٹھوکر لگائی اور غصہ سے بولے ” انہی دیو میں کجھ نہیں کیتا، بجلی چلی گئی اے تے تہاڈا یو پی ایس کم نہیں کردا ”یہ اور اس طرح کے بےشمار لطیفے آج کل پاکستان کی عوام کے زبان زد عام ہیں ۔اسکی وجہ یہ ہے کے پاکستان میں اول تو بجلی اتنی ہے ہی نہیں ،کے پورے پاکستان کے عوام کو مل سکے اور جن کو سہولت میسر ہے وہ گرمیوں کے شروع ہوتے ہی اسکا انتظار شروع کر دیتے ہیں کے کب آئی اور کب گئی۔ اس دفعہ جو جماعت برسر اقتدار ہے اس نے عوام سے ووٹ ہی اسی مسئلے کو حل کرنے کے وعدہ پر لئے تھے ۔پاکستان کی بدقسمتی یہ ہے کہ نجی بجلی گھر ہوں یا کرائے کے بجلی گھر، موٹر وے ہو یا پیلی ٹیکسی سکیم ہر وقت کے حکمرانوں نے عوامی فلاح کے منصوبے اپنی جیب گرم کرنے کی خاطر بنائے گئےہیں۔ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے کیچڑ اچھالتے ہیں اور آخر میں مصیبت عام آدمی کو ہی جھیلنی پڑتی ہے۔