محرم الحرام میں شادی

محرم الحرام میں شادی

ماہِ محرم الحرام کے فضائل ابتدائے آفرینش سے مُسلّم ہیں ،حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق کے وقت سے ہی یہ ماہ فضیلتوں والاہے ،اِن حُرمت والے مہینوں میں ایک چیز جس کا رواج عام طور پر بہت زیادہ ہو چکا ہے کہ اس مہینے میں شادی سے روکا جاتا ہےکہ یہ غم اور سوگ کا مہینہ ہے لہٰذا اس مہینے میں خوشی نہیں منانی چاہیے، کیوں؟اس لیے کہ اس مہینے میں نواسہٴ رسول حضرت حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے خاندان کے چھوٹوں اور بڑوں کو ظالمانہ طور پر نہایت بیدردی سے شہید کر دیا گیاتھا، ان کے ساتھ اظہار ہمدردی کے لیے غم منانا، سوگ کرنا اور ہر خوشی والے کام سے گریز کرنا ضروری ہے، تو یہ احکامات دینیہ سے ناواقفیت کی علامت ہے؛ اس لیے کہ ”شہادت“ جیسی نعمتِ بے بہا کسی بھی طور پر غم کی چیز نہیں ہے، یہ تو خوش بختی ہے،اوربلا شک و شبہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کا دن تاریخ اسلامی میں بہت ہی تاریک دن ہے، لیکن اس عظیم سانحے کی وجہ سے شادی یا منگنی کو حرام کر دینے کی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ ہماری شریعت میں سالانہ برسی وغیرہ کے موقعوں پرغم تازہ کرنے اور سوگ منانےکی اجازت نہیں ہےاور نہ ہی یہ کہ ان دنوں میں خوشی کا اظہار کرنا منع ہے۔اگر اس بات پر کوئی اتفاق کرےتو ہمیں یہ پوچھنے کا حق بنتا ہے کہ کیا جس دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوئے وہ دن امت کیلئے سب سے غمگین دن نہیں ہے؟تو پھر مکمل ماہِ ربیع الاول میں شادی کرنا منع کیوں نہیں کرتے؟! یا اس ماہ میں شادی بیاہ کی حرمت یا کراہت صحابہ کرام سے منقول کیوں نہیں ہے؟ یا خاتم النبیینﷺ کی آل و اولاد اور انکے بعد آنے والے علمائے کرام سے منقول کیوں نہیں ہے؟اگر ہمارا یہی حال رہا کہ جس دن بھی کوئی اسلامی شخصیت یا اہل بیت کا کوئی فرد فوت ہویا اسے شہید کیا گیا ہو، ہم ہر سال اس غم کو تازہ کرنے لگ جائیں، تو ہمارے لئے خوشی اور مسرت کا کوئی دن باقی نہیں رہے گا، اور لوگوں کو ناقابل برداشت حد تک مشقت اٹھانی پڑے گی۔یقیناً دین میں نت نئے احکام ایجاد کرنا اسلام مخالف لوگوں کا کام ہے، اور یہ لوگ اللہ تعالی کی طرف سے مکمل کر دیئے جانے والے دین میں بھی کمی کوتاہی نکالنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔
اس لئےمحرم الحرام کے مہینے میں نکاح کرنے میں کوئی قباحت نہیں،دیگر مہینوں کی طرح اس ماہ مبارک میں بھی نکاح کرنادرست اور جائزہے،بلکہ اس ماہ میں نکاح نہ کرنےکی رسم کو ختم کرنے کے لیے نکاح کرناموجب اجر ہوگا۔اگر اس ماہ مبارک میں شہادتوں کی وجہ سے اس کو غم اور سوگ کامہینہ قرار دے کر نکاح سے احتراز کیاجائے تو سال بھر میں کوئی مہینہ ایسانہیں جس میں کسی عظیم شخصیت کی شہادت کا واقعہ پیش نہ آیاہو،اور اس بنا پر تمام مہینوں میں نکاح سے احترازناممکن بات ہے۔اس لیے محرم الحرام میں بھی نکاح کرناعام مہینوں کی طرح جائزہے۔
علماء کرام فرماتے ہیں کہ اس مہینے میں فضیلت محض روزے رکھنے کی ہی نہیں ہے، بلکہ اس ماہ کا ہر نیک عمل بہ نسبت دوسرے مہینوں کے بہت بڑھا ہوا ہے،چنانچہ اعمال میں سے ایک بڑا اور اہم عمل نکاح کا بھی ہے”عمل ِ نکاح“ چاہے کسی مہینے میں ہو، یہ اپنی اصل کے اعتبار سے مباح ہے، اور مباح کام کا ناجائز ہونا کسی واضح ممانعت سے ہوتا ہے لیکن اس مہینے میں ، یا اس کے علاوہ کسی اور بھی مہینے میں شریعت کی طرف سے کسی قسم کی کوئی ممانعت نہیں ملتی، نہ کتاب وسنت میں، نہ اجماع امت سے اور نہ ہی قیاس وغیرہ سے چنانچہ جب ایسا ہے تو اس ماہ کا نکاح اپنی اصل (مباح ہونے )کے اعتبار سے جائز ہی رہے گا۔
خاتم الانبیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم، تابعین وتبع تابعین اور متقدمین یا متاخرین فقہاء میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں ہے، جو اس ماہ مبارک میں شادی، بیاہ وغیرہ کو ناجائز قرار دیتا ہو۔ لہٰذا اگر کوئی اس کو منع بھی کرتا ہے تو اس کا منع کرنا بغیر دلیل کے ہو گا اور کسی بھی درجہ قابل اعتبار نہیں ہو گا۔اورشرعاً سوگ کرنے کی اجازت صرف چند صورتوں میں ہے اور وہ بھی صرف عورتوں کے لیے نہ کہ مردوں کے لیے:(۱) ایسی عورت جس کو طلاق بائن دی گئی ہو اس کے لیے صرف زمانہ عدت میں۔(۲)جس عورت کا شوہر فوت ہو جائے، اس کے لیے صرف زمانہ عدت میں۔(۳)کسی قریبی رشتے دار کی وفات پر صرف تین دن کے لیے۔ اس کے علاوہ کسی بھی موقع پر عورت کے لیے سوگ کرنا جائز نہیں ہے ۔اور سوگ کا مطلب یہ ہے کہ وہ اس عرصہ میں زیب وزینت اور بناوٴ سنگار نہ کرے، زینت کی کسی بھی صورت کو اختیار نہ کرے، مثلا: خوش بو لگانا، سرمہ لگانا، مہندی لگانا اور رنگ برنگے خوشنما کپڑے وغیرہ پہننا، اس کے علاوہ کوئی صورت اپنانا، مثلاً: اظہارِ غم کے لیے سیاہ لباس پہننا یا بلند آواز سے آہ وبکا جائز نہیں۔نیز! مرد وں کے لیے تو کسی صورت میں سوگ کی اجازت نہیں ہے تو پھر محرم الحرام کے شروع ہوتے ہی سوگ اور ماتم کے نام پر پورے ملک وملت کو عملی طور پر یرغمال بنا لینا کیا معنی رکھتا ہے؟تو یہ ایک ایسا مہینہ ہے جس کی نسبت اللہ تعالی نے اپنی طرف فرمائی ہے۔ اس ماہ میں نفل روزوں کا ثواب دیگر مہینوں سے زیادہ ہے، اس لئے اس ماہ کی برکت، اور فضیلت پانے کیلئے پوری کوشش کرنی چاہیے، چنانچہ اس ماہ میں غمگین رہنا، یا شادی کرنے سے ہچکچانا، یا جاہلی دور کی طرح بد فالی لینا سب غلط ہے۔اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ہر طرح کے منکرات سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے اور افراط وتفریط سے بچتے ہوئے صراط مستقیم پر گامزن رکھے! آمین