دانشوران اسلام کے انمول اقوال

(۱) آدمیوں میں وہ درویش ذلیل ترین ہے جو امیر لوگوں کی چاپلوسی کرے۔
(عبد اللہ احمد مغربیؒ)

(۲) حضرت عبد اللہ احمد مغربیؒ نے ایک گھر میراث میں پایا، اُسے فروخت کرکے پچاس دینار کمر میں باندھے اور سفر کے لئے چل پڑے، راستہ میں ایک اعرابی نے للکارا اور پوچھا کہ تمہارے پاس کیا کچھ ہے؟ آپ نے بتایا کہ پچاس دینار ہیں، اس نے کہا، نکالو! جب اس نے گنے تو پورے پچاس نکلے، وہ آپ کی سچائی سے اس قدر متاثر ہوا کہ مدت تک آپ کے ساتھ رہا اور ایک کامل ولی بن گیا۔
(۳) عبد اللہ احمد مغربیؒ کے چار فرزند تھے، سب کو کام کاج سکھایا تاکہ دوستوں کو یہ کہہ کر جلاتے نہ رہیں کہ ہم فلاں بڑے آدمی کے بیٹے ہیں، آپ اکثر فرماتے تھے کہ اپنے بچوں کو روزی کمانے کے لئے کام کاج ضرور سکھاؤ۔
(۴) سب سے بزرگ شخص وہ ہے جو خلقت کے ساتھ تواضع سے پیش آئے۔
(عبد اللہ احمد مغربیؒ)

(۵) خواہش نفسانی کو ترک کرنا بھی حصول مراد ہے۔
(حضرت شاہ شجاع کرمانیؒ)

(۶) جو شخص آنکھ کو حرام سے اور تن کو شہوت سے محفوظ رکھے اور باطن کو مراقبہ اور ظاہر کو اتباعِ سنت سے آراستہ رکھے اور حلال روزی کی آرزو کرے اس کی فراست میں کبھی خطا نہ ہوگی۔
(حضرت شاہ شجاع کرمانیؒ)

(۷) خیانت اور غیبت کرنے سے اور جھوٹ بولنے سے دور رہو، اس کے علاوہ جو بھی چاہے کرتے رہو۔
(حضرت شاہ شجاع کرمانیؒ)

(۸) ایک آتش پرست کا قول بہت اچھا ہے کہ عاقل کو پہلے دن وہ کرنا چاہئے جو جاہل تین دن بعد کرے گا۔
(حضرت عبد اللہ بن مبارکؒ)

(۹) زیادہ عقل مفید ہے، اگر نہ ہو تو حسنِ ادب، اگر یہ نہ ہو تو مہربان دوست یہ بھی نہ ہو تو ہمیشہ خاموشی اور اگر یہ بھی نہ ہو تو جلدی موت۔
(حضرت عبد اللہ بن مبارکؒ)

(۱۰) تفویض و توکل کسب کے مانع نہیں، بلکہ ان کا ظہور ہی کسب میں ہوتا ہے۔
(حضرت عبد اللہ بن مبارکؒ)

(۱۱) توکل یہ ہے کہ حلال روزی کمائی اور کھائی جائے۔
(حضرت عبد اللہ بن مبارکؒ)

(۱۲) اگر کوئی شخص حرام کا ایک ذرہ بھی کھائے تو وہ متوکل نہیں ہے۔
(حضرت عبد اللہ بن مبارکؒ)

(۱۳) تمام اعمال کا رہبر علم ہے اور تمام علوم کا رہبر اللہ کا فضل ہے۔
(حضرت عبد اللہ بن مبارکؒ)

(۱۴) عمل کرو اور یوں سمجھ کہ زمین میں تمہارے اور آسمان میں اللہ کے سوا کوئی نہیں۔
(حضرت احمد عاصمؒ)

(۱۵) عدل کی دو قسمیں ہیں:
۱۔ عدل ظاہر ہو تو تمہارے اور لوگوں کے درمیان۔
۲۔ عدل باطن ہو تو تمہارے اور سچائی کے درمیان۔
(حضرت احمد عاصمؒ)

(۱۶) عدل کا راستہ یہ ہے کہ اچھے کام ہمیشہ کرتے رہو۔
(حضرت احمد عاصمؒ)

(۱۷) فضیلت اسی میں ہے کہ باوجود دوسروں کا حق ہونے کے ان کے ساتھ احسان کرو۔
(حضرت احمد عاصمؒ)

(۱۸) جو اپنے نفس کے ذریعہ سے اونچے مرتبہ کو پہنچے، وہ گر سکتا ہے
(۱۹) نیک و بد کوششوں اور حیلوں سے مغرور ہونا آخر رسوائی اور بدنامی کا باعث ہوتا ہے۔
(حضرت ابو عبد اللہ جلادؒ)

(۲۰) جو حقانی مساعی کرتا رہے اور اجر و عوض کا خیال بھی نہ کرے اُسے جو اکرام و احترام ملتا ہے دائمی ہوتا ہے۔
(حضرت ابو عبد اللہ جلادؒ)

(۲۱) جو حق و باطل کے ساتھ ملا ہو اور جب حق کے ساتھ باطل مل جائے تو وہ باطل کی قسم ہوجاتا ہے، کیونکہ حق غیور ہے۔
(حضرت ابو عبد اللہ جلادؒ)

(۲۲) اگر کسی مفید کام کو سرانجام دینے کے لئے مکرو فریب استعمال کیا جائے تو اس کا نفع مؤثر نہیں ہوتا بلکہ ذلت نتیجہ ہوتا ہے۔
(۲۳) احسان حق ہے اور اس کا جتلانا باطل ہے۔
(حضرت ابو عبد اللہ جلادؒ)

(۲۴) اگر احسان کرکے جتلایا جائے تو خود احسان باطل ہوجاتا ہے۔
(حضرت ابو عبد اللہ جلادؒ)

(۲۵) قساوت یہ ہے کہ:
۱۔ علم ہو اور عمل نہ کرو،
۲۔عمل ہو اور اخلاص نہ ہو،
۳۔کسی کو صالحین کی صحبت میسر ہو اور وہ ان کی حرمت بجا نہ لائے۔
(حضرت محمد فضیلؒ)

(۲۶) اسلام چار باتوں سے لوگوں کو متعارف کرتا ہے:
۱۔ وہ جو عمل نہ کرے اس بات پر جس کی خوبی کو جانتا ہو۔
۲۔ وہ جو عمل کرے اس پر جس کو نہ جانتا ہو۔
۳۔ وہ جو تلاش نہ کرے اس چیز کی جس کی بہتری کو پہچانتا ہے۔
۴۔ وہ جو لوگوں کو تحصیلِ علم سے روکتا ہے۔
(حضرت محمد فضیلؒ)

(۲۷) علم کے تین حروف ہیں: جاننا، کام کرنا اور دونوں میں حق کو ہمیشہ ذہن نشین رکھنا۔
(حضرت محمد فضیلؒ)

(۲۸) اللہ کا دین تین چیزوں پر مبنی ہے،:
۱۔راہِ حق،
۲۔عدل،
۳۔صدق۔
(حضرت ابوبکر کتانیؒ)

(۲۹) عدل دل پر اور صدق عقل پر، حق کے لئے ظاہر ہونا ضروری ہے۔
(حضرت ابوبکر کتانیؒ)

(۳۰) عدل دل میں کیا جاتا ہے اور ہر کسی کے موافق تقسیم عدل دل میں ہوتی ہے اور صدق عقل ہی سے ہوسکتا ہے۔
(حضرت ابوبکر کتانیؒ)

(۳۱) جو مرید حکیم ہو تین باتوں پر عمل کرتا ہے:
۱۔ نیند کا غلبہ ہو تو سوتا ہے۔
۲۔ بھوک فاقہ تک پہنچ جائے تو کھاتا ہے۔
۳۔ گفتگو صرف ضرورت کے وقت ہی کرتا ہے۔
(حضرت ابوبکر کتانیؒ)

(۳۲) تصوف کل خُلق ہے، جس کا خُلق زیادہ اس کا تصوف زیادہ۔
(حضرت ابوبکر کتانیؒ)

(۳۳) اس شخص کی صحبت اختیار کرو جس کا دیکھنا تمہیں اللہ کی یاد دلائے اور اس کی ہیبت تمہارے دل میں بیٹھے، وہ تمہیں زبانِ فعل سے نصیحت کرے نہ کہ گفتار سے۔
(حضرت عبد اللہ خفیفؒ)

(۳۴) تقویٰ دور ہتا ہے اس چیز سے جو تمہیں اللہ سے دور کرے۔
(حضرت عبد اللہ خفیفؒ)

(۳۵) قناعت یہ ہے کہ جو چیز تمہارے ہاتھ میں نہ ہو اس کی طلب میں پریشان خاطر نہ ہو۔
(حضرت عبد اللہ خفیفؒ)

(۳۶) اپنے آپ کو حقیر جاننا اور دوسروں کو معزز جاننا ہی مردانگی ہے۔
(حضرت جعفر جلدیؒ)

(۳۷) ہلاکت کی جگہوں سے دور رہنا ہی عقلمندی ہے۔
(حضرت جعفر جلدیؒ)

(۳۸) آزادی کی کوشش اوروں کے لے ہوتی ہے نہ کہ اپنے لئے۔
(حضرت جعفر جلدیؒ)

(۳۹) تمہاری ہمت میں شرافت ہونا چاہئے۔
(حضرت جعفر جلدیؒ)

(۴۰) جن کے ارادوں میں بلندی ہو وہ مردوں کے مرتبہ تک پہنچ جاتے ہیں۔
(حضرت جعفر جلدیؒ)

(۴۱) صرف کوشش اور سعی ہی نہیں پختہ ارادہ بھی کامیابی کی ضمانت ہے۔
(حضرت جعفر جلدیؒ)

(۴۲) اللہ تعالیٰ لاکھوں فرزندان ِ آدم میں سے کسی ایک کو اپنے لئے سنوارتا ہے۔
(حضرت ابو العباس قصابؒ)

(۴۳) میرے مریدو! میں تم سے ادب نہیں چاہتا، کیونکہ بیہودہ ماں وہ ہوتی ہے جو کہ اپنے شیرخوار بچہ سے ادب کی طالب ہو۔
(حضرت ابو العباس قصابؒ)

(۴۴) اللہ تعالیٰ کے ایسے بندے بھی ہیں جنہوں نے دنیا اور اس کی زینت کو لوگوں کے لئے چھوڑ رکھا ہے، عقبیٰ اور اس کی بہشت کو فرمانبرداروں کے لئے اور وہ خود اللہ تعالیٰ کے ساتھ قرار پکڑے ہوئے ہیں۔
(حضرت ابو العباس قصابؒ)

(۴۵) بندگی کا طالب ہوں! کیونکہ بندہ اس کے ماتحت سلامت رہتا ہے اور آزاد خطرے اور معرض ہلاکت میں پڑتا ہے۔
(۴۶) علم کے ساتھ عمل بھی کرو، کیونکہ علم بے عمل جسد بے جان ہے۔
(حضرت امام ابوحنیفہؒ)

(۴۷) اگر اہل کو علم نہ سکھایا جائے تو ظلم ہے۔
(حضرت امام شافعیؒ)

(۴۸) اگر نا اہل کو تعلیم دی جائے جائے تو علم کا حق ضائع کرنا ہے۔
(حضرت امام شافعیؒ)

(۴۹) ایک غبی شخص کیسے عالم ہوسکتا ہے، اس کے لئے کوئی اور ہنر موزوں ہے۔
(حضرت امام شافعیؒ)

(۵۰) علم حاصل کرکے ایک شریر شخص اور زیادہ موذی بن سکتا ہے۔
(حضرت امام شافعیؒ)

(۵۱) گناہ کی قدرت حاصل ہونے پر خوش ہونا گناہ کرنے سے بدتر ہے۔
(حضرت منصور عمارؒ)

(۵۲) میری باتوں پر عمل کرو، کیونکہ میری بات اور علم تم کو فائدہ ہی پہنچائیں گے اور میرا عمل نہ کرنا تمہیں نقصان نہیں پہنچاسکتا۔
(حضرت منصور عمارؒ)

(۵۳) سب سے بڑا عالم وہ ہے جو اطاعت کرے۔
(حضرت منصور عمارؒ)

(۵۴) سب سے برا جاہل وہ ہے جو نہ جانے اور بے پرواہ رہے۔
(حضرت منصور عمارؒ)

(۵۵) ایسی بات اور نگاہ کو ترک کردو جس میں کوئی فائدہ نہ ہو اور وہ بالکل زائد اور فضول ہے۔
(حضرت داؤد طائیؒ)

(۵۶) جس شخص میں مروت نہیں، نہ صرف اس کی عبادت بلکہ اس کا دین بھی اس کے کام نہیں آتا۔
(۵۷) کھانا کم کھانا ہی درویشی ہے۔
(حضرت فتح موصلیؒ)

(۵۸) جو کوئی علم و حکمت اور بزرگوں کی باتوں سے دور رہے اس کا دل مرجاتا ہے۔
(حضرت فتح موصلیؒ)

(۵۹) مالدار کے لئے تواضع سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں۔
(حضرت فتح موصلیؒ)

(۶۰) نادار کے لئے یہ بہتر ہے کہ اللہ تعالیٰ سے اجر اور ثواب کی امید رکھے، اُس پر اعتماد کرے اور مالداروں سے استغفار کرے، بلکہ ان کے ساتھ کبر کے ساتھ پیش آئے۔
(حضرت فتح موصلیؒ)

(۶۱) خطا کار شخص تائب نہیں ہوتا، جب تک اس کا دل پریشان نہ ہو۔
(حضرت احمد حواریؒ)

(۶۲) توبہ کے لئے ضروری ہے کہ چاہے نہ کرے مگر آئندہ نیک کام کا ارادہ کرے۔
(حضرت احمد حواریؒ)

(۶۳) انسان جتنا عاقل ہوگا اتنا ہی اللہ تعالیٰ کو پہچانے گا، وہی جلد منزلِ مقصود کو پہنچ جائے گا۔
(حضرت احمد حواریؒ)

(۶۴) غفلت اور سخت دلی سے بدتر اور کوئی چیز نہیں، یعنی غافل اور سخت دل ان کی وجہ سے بلا میں پھنسا رہتا ہے۔
(حضرت احمد حواریؒ)

(۶۵) اگر اللہ تعالیٰ نے تمہیں گفتار و کردار دونوں عنایت کیا ہو تو سعادت ہے۔
(حضرت ابو محمد رویمؒ)

(۶۶) اگر اللہ تعالیٰ تمہیں فقط کردار عطا کرے تو نعمت ہے۔
(حضرت ابو محمد رویمؒ)

(۶۷) اگر اللہ تعالیٰ تمہیں فقط گفتار عطا کرے تو مصیبت ہے۔
(حضرت ابو محمد رویمؒ)

(۶۸) اگر تمہیں کردار اور گفتار دونوں عطا نہ ہوں تو آفت ہے۔
(حضرت ابو محمد رویمؒ)

(۶۹) تمہیں یہ چاہئے کہ احکام کو دوسروں پر فراخ اور اپنے اوپر تنگ کرے، کیونکہ ان پر فراخ اور آسانی ایمان اور علم ہے اور اپنے اوپر تنگی اور سختی تقویٰ ہے۔
(حضرت ابو محمد رویمؒ)

(۷۰) ایمان اور علم کا تقاضا یہ ہے کہ دوسروں پر صرف اصول و فرائض لازم جان کر باقی اعمال کو ایثار سے اپنے اوپر واجب بناؤ۔
(حضرت ابو محمد رویمؒ)

(۷۱) تقویٰ یہ ہے کہ گوشۂ چشم سے بھی دنیوی لذات پر نگاہ نہ ڈالی جائے اور دل میں ان کی بابت خیال نہ کیا جائے۔
(حضرت احمد مسروقؒ)

(۷۲) مسلمان کی عزت کا لحاظ اللہ کی بڑائی جاننے سے ہوتا ہے، اگر دوسرے کی حرمت بجا لائی گئی تو اللہ تعالیٰ کی عظمت اور تقویٰ کی حقیقت معلوم ہوجائے گی۔
(حضرت احمد مسروقؒ)

(۷۳) کفر کے بعد بخیلی سے بڑھ کر اور کوئی بُری خصلت نہیں۔
(حضرت یعقوب چرخیؒ)

(۷۴) ایمان کے بعد مروت سے بہتر کوئی اچھی صفت نہیں۔
(حضرت یعقوب چرخیؒ)

(۷۵) پریوں کو حاضر کرنے اور دور کرنے کے لئے چراغ اور خوشبو جلانے پر اعتقاد رکھنا کفر ہے۔
(حضرت یعقوب چرخیؒ)

(۷۶) تجارت سے حلال رزق حاصل کرنا بمنزلہ جہاد ہے۔
(حضرت یعقوب چرخیؒ)

(۷۷) سچے فقراء کا سارا کام متانت و حقیقت ہے، اس لئے ان کے ساتھ میں نے مزاح و ظرافت کو ترک کیا۔
(حضرت ممشاد دینوریؒ)

(۷۸) طالب حق کا ادب یہ ہے کہ بزرگوں کی حرمت بجائے لائے اور دوستوں کے حرمت کی رعایت کرے۔
(حضرت ممشاد دینوریؒ)

(۷۹) طالب حق کو چاہئے کہ ان تمام امور سے کنارہ کرشی اختیار کرے جن کے اچھے اور مفید ہونے میں شبہ ہو۔
(حضرت ممشاد دینوریؒ)

(۸۰) طالب حق شریعت کی پابندی کرے اور ناجائز خواہشات کی موافقت سے بچتا رہے۔
(حضرت ممشاد دینوریؒ)

(۸۱) صاحب استقامت ہو نہ کہ طالب کرامت! کیونکہ اللہ تعالیٰ استقامت چاہتا ہے اور نفس کرامت۔
(حضرت ابوعلی جرجانیؒ)

(۸۲) زاہدوں کا حون محفوظ رکھا گیا ہے اور عارفوں کا خون ٹپکایا گیا ہے۔
(حضرت عبد اللہ خسیقؒ)

(۸۳) آنکھ سے وہ مت دیکھو جو مناسب نہیں۔
(حضرت عبد اللہ خسیقؒ)

(۸۴) زبان سے وہ مت کہو جس کے خلاف کچھ اور تمہارے دل میں ہو۔
(حضرت عبد اللہ خسیقؒ)

(۸۵) دل کو خیانت سے اور مسلمانوں پر کبر سے دور رکھو۔
(حضرت عبد اللہ خسیقؒ)

(۸۶) دماغ میں خواہشات کو ملحوظ رکھ کر کسی سے کچھ مت چاہو۔
(حضرت عبد اللہ خسیقؒ)

(۸۷) معاملات دو چیزوں سے درست ہوتے ہیں، صبر اور اخلاص سے۔
(حضرت عبد اللہ خسیقؒ)

(۸۸) ایمان اور توکل یہ ہے کہ اپنی روٹی کھاؤ، اکرام دل سے چھوٹا لقمہ ڈال کر چباؤ اور یاد رکھو کہ جو کچھ تمہارا ہے وہ تم سے گم نہ ہوگا۔
(حضرت ابو الحسن بوسنجیؒ)

(۸۹) جو اپنے آپ کو عاجز اور خوار سمجھ کر سلوک کرتا ہے اللہ تعالیٰ اُسے رفیع القدر بناتا ہے اور جو اپنے آپ کو معزز جانتا ہے اللہ تعالیٰ اُسے دلیل کرتا ہے۔
(حضرت ابو الحسن بوسنجیؒ)

(۹۰) جو اپنے آپ کو حقیقت کے قریب خیال کرے وہ اتنا بعید ہے جیسا کہ ایک بچہ آئینہ میں سورج کی شعاعوں کو پکڑے۔
(حضرت علی سہل اصفہانیؒ)

(۹۱) دولتمندی کی خواہش کی، علم میں پائی۔
(حضرت علی سہل اصفہانیؒ)

(۹۲) فخر خواہش کی، فقر میں پائی۔
(حضرت علی سہل اصفہانیؒ)

(۹۳) عافیت کی خاوہش کی، زہد میں پائی۔
(حضرت علی سہل اصفہانیؒ)

(۹۴) حساب دہی سے بچنے کی خواہش کی، خاموشی میں پائی۔
(حضرت علی سہل اصفہانیؒ)

(۹۵) راحت کی خاوہش کی مایوسی میں پائی۔
(حضرت علی سہل اصفہانیؒ)

(۹۶) جو حال علم کے بغیر ہو حالانکہ بڑا شاندار ہو اس کا نتیجہ اس کے لئے مالک پر بجائے فائدہ نقصان ہی ہوگا۔
(حضرت ابو عمرو نخیلؒ)

(۹۷) ایک جاہل چور کو اگر بادشاہی تک پہنچادیا جائے تو آخر کار مارا جائے گا، کیونکہ جہاں پانی کے قواعد سے بے خبر ہے۔
(حضرت ابو عمرو نخیلؒ)

(۹۸) جس کی فکر صحیح ہو اس کی گفتار میں سچائی ہوتی ہے اور کرداری میں اخلاص۔
(حضرت ابو عمرو نخیلؒ)

(۹۹) جو جوانی میں کام نہ کرے اور وقت ضائع کرے ، اللہ تعالیٰ اُسے بڑھاپے میں ذلیل کرتا ہے۔
(حضرت ابوعبد اللہ تروغندیؒ)

(۱۰۰) جو صدق دل سے کسی جواں مرد کی خدمت بجالائے، اس کی برکت ہمیشہ اُسے پہنچتی رہتی ہے۔
(حضرت ابوعبد اللہ تروغندیؒ)

(۱۰۱) مجھے اللہ تعالیٰ سے ابدی عمر درکار ہے کہ جب لوگ جنت میں غافل ہوجائیں تو میں دنیا میں جاکر پھر تیری بندگی اور خدمت کے ساتھ یاد کرتا رہو۔
(حضرت ابواسحاق خواصؒ)

(۱۰۲) عالمیت عمل کےساتھ ہے۔
(حضرت ابواسحاق خواصؒ)

(۱۰۳) تمام علوم دو حروف میں جمع ہیں، ایک یہ کہ جو تکلیف حق نے تم سے اٹھوائی ہے اس میں تکلف نہ برتو اور اُسے خوشی سے برداشت کرو، دوسرا یہ کہ جو تم پر فرض کیا ہے اُے ضائع نہ ہونے دو اور اس کے ادا کرنے میں تقصیر نہ کرو۔
(حضرت ابواسحاق خواصؒ)

(۱۰۴) جو بہت سارا وقت مسجد میں بغرض ادائیگی نماز گذارے اُسے بہشت عطا ہوتی ہے اور اس کا بدلہ یہ ہے کہ انسان اللہ کے واسطے مسلمان بھائیوں سے ملاقات کرے، اُسے عاقبت میں اللہ تعالیٰ جل شانہ کا قرب نصیب ہوتا ہے۔
(حضرت ابواسحاق شیبانیؒ)

(۱۰۵) وقت کی مخالفت بے ادبی ہے۔
(حضرت ابواسحاق شیبانیؒ)

(۱۰۶) ایک وقت کوئی خاص کام بہترین انداز میں کرنے کا ہوگا ہے، اس کو چھوڑ کر دوسری باتوں میں مشغول ہونا حالانکہ اچھی باتیں ہی ہوں حکمت کے خلاف ہے۔
(حضرت ابواسحاق شیبانیؒ)

(۱۰۷) غایت عمل یہ ہے کہ جو کام کیا جائے اس میں سوائے عجز اور تقصیر کے اور نہ دیکھا جائے۔
(حضرت شیخ خیرنساجؒ)

(۱۰۸) ظاہر کو خلق کے لئے اور باطن کو حق کے لئے آراستہ و پیراستہ رکھو۔
(حضرت ذو النون مصریؒ)

(۱۰۹) جو کچھ گذر گیا اس پر حسرت مت کرو اور جو آنے والا ہے اس کو اندیشہ مت کرو، بلکہ موجودہ وقت کی قدر و حفاظت کرو۔
(حضرت ذو النون مصریؒ)

(۱۱۰) دہقان جو کچھ بوتا ہے وہی کاٹتا ہے۔
(ہشام بن عبد الملک)

(۱۱۱) ہر درہم جو حاصل کرے ایسی جگہ سے حاصل کرو جو حلال ہو اور ایسی جگہ دو جو اس کا حقدار ہو، اور ایسا وہی شخص کرتا ہے جو دوزخ سے گریزاں اور بہت کا خواہاں ہو۔
(ہشام بن عبد الملک)

(۱۱۲) عاقل وہ ہے جو دوسروں کے خوف کے بغیر محض بخوف الٰہی گناہ سے شرم رکھے اور عبادتِ الٰہی دلی خواہش سے کرے۔
(۱۱۳) اللہ تعالیٰ کو قسم سے یاد نہ کرو خواہ وہ جھوٹی ہو یا سچی۔
(حضرت حارث محاسبیؒ)

(۱۱۴) جہاں تک ممکن ہو وعدہ نہ کرو، کیونکہ یہ بات صواب سے زیادہ نزدیک ہے۔
(حضرت حارث محاسبیؒ)

(۱۱۵) مالِ دنیا کو ضرور عزیز رکھنا چاہئے، کیونکہ وقائع و حوادث کا احتمال ہمیشہ باقی ہے۔
(کیکاؤس)

(۱۱۶) عزیز و اقارب کے ساتھ رعایت رکھو۔
(حضرت حارث محاسبیؒ)

(۱۱۷) کسی کے حق میں بددعاء نہ کرو۔
(حضرت حارث محاسبیؒ)

(۱۱۸) اپنی گفتار اور اپنے کردار سے بدلہ کے خواہاں بنو اور اللہ عز و جل کے لئے تحمل کرو۔
(حضرت حارث محاسبیؒ)

(۱۱۹) جو شخص اپنے دل میں موت کی محبت رکھتا ہے اس کو باقی چیزوں پر دوست اور فانی چیزوں پر دشمن بنادیتے ہیں۔
(حضرت ابوحمزہ خراسانیؒ)

(۱۲۰) توکل یہ ہے کہ صبح کو اٹھ کر شام کو یاد نہ کرے اور جب رات ہو تو صبح کو یاد نہ کرے۔
(حضرت ابوحمزہ خراسانیؒ)

(۱۲۱) حریض، بخیل، بددل اور شتاب کار شیطان کے دوست ہیں۔
(حضرت نوح)

(۱۲۲) جہاں تک ہوسکے محال کے طلبگار نہ بنو۔
(نوشیروان عادل)

(۱۲۳) گذشتہ پر افسوس مت کرو۔
(نوشیروان عادل)

(۱۲۴) وقت کو ہاتھ سے مت کھو۔
(نوشیروان عادل)

(۱۲۵) ناکردہ کو کردہ مت خیال کرو۔
(نوشیروان عادل)

(۱۲۶) میری کامیابی کی وجہ یہ ہے کہ میں ہمیشہ تمام کاموں میں عقلمندوں سے مشورہ لیتا رہا اور کبھی آج کے کام کو کل پر نہیں چھوڑا۔
(امیر تیمور)

(۱۲۷) میں نے عالم بے طمع اللہ کو پایا۔
(حضرت ابواسحاقؒ)

(۱۲۸) میں یارِ موافق کلام اللہ کو پایا۔
(حضرت ابواسحاقؒ)

(۱۲۹) میں نے طاعت بے ریاء طاعت شب کو پایا۔
(حضرت ابواسحاقؒ)

(۱۳۰) میں نے لقمۂ حلال غصہ کھانے میں پایا۔
(حضرت ابواسحاقؒ)

(۱۳۱) حقیقی صبر اس کو کہتے ہیں کہ بلاء آنے کو ایسا سمجھے جیسا اس کے جانے کو سمجھتا ہے۔
(ابو الحسین النوریؒ)

(۱۳۲) ہر ایک ایماندار کے لئے تین چیزوں کا ہونا ہر حال میں ضروری ہے:
۱۔ اللہ جل شانہ کے احکامات کی تعمیل کرے۔
۲۔ اللہ جل شانہ نے جن چیزوں سے منع فرمایا ہے ان سے باز رہے۔
۳۔ تقدیر سے راضی رہے۔
(حضرت شیخ عبد القادر جیلانیؒ)

(۱۳۳) ایمان کا قائم رہنا، دین کا اجر ملنا اور بدن کی صحت تین چیزوں میں ہے:
۱۔ اللہ جل شانہ کو کافی ماننا۔
۲۔ ممنوعات سے دور رہنا۔
۳۔ غذاء کے استعمال میں احتیاط رکھنا۔
(حضرت شیخ عبد القادر جیلانیؒ)

(۱۳۴) جو کوئی اللہ تعالیٰ کو کافی سمجھے اس کو ہر طرف سے سکون ملے گا۔
(حضرت شیخ عبد القادر جیلانیؒ)

(۱۳۵) جو کوئی بری باتوں سے پرہیز کرے وہ ہر طرح سے نیک ہوگا۔
(حضرت شیخ عبد القادر جیلانیؒ)

(۱۳۶) جو خوراک میں حفاظت سے کام لے اس کے نفس کو ریاضت حاصل ہوگی۔
(حضرت شیخ عبد القادر جیلانیؒ)

(۱۳۷) اللہ کو کافی جاننے کا بدلہ معرفت کی صفائی ہوگی۔
(حضرت شیخ عبد القادر جیلانیؒ)

(۱۳۸) کھانے پینے میں انضباط تندرستی اور اعتدالِ طبیعت کا موجب ہوگا۔
(حضرت شیخ عبد القادر جیلانیؒ)

(۱۳۹) ایک ولی ایمان کے مقام پر ہے اور اس کی علامت یہ ہے کہ تمام مسلمانوں پر شفیق ہو، ان کے کاروبار میں کوشش کی جائے اور ان کو مدد دی جائے۔
(ابو الخیر اقطعؒ)

(۱۴۰) ایک نفاق کے مقام پر ہے اور اس کی نشانی کینہ، بغض، حسد اور فریب ہے۔
(ابو الخیر اقطعؒ)

(۱۴۱) نیک مردوں کی ابتلاء و آزمائش نااہلوں کی دوستی میں ہے۔
(ابو علی رودباریؒ)

(۱۴۲) تمہارا اپنے تئیں پسند کرنا اور عزیز جاننا اپنے آپ کو ہلاک کرنا ہے۔
(ابو الحسن صائعؒ)

(۱۴۳) ذکر و فکر الٰہی کو اپنا شعار بناؤ تاکہ وہ بھی تمہیں اپنا سکے۔
(خواجہ ابومحمد ناصر الدین چشتیؒ)

(۱۴۴) زندگی بھر قرینۂ حیات کو سنوارو، کیونکہ یہی مقصودِ حیات ہے۔
(خواجہ ابومحمد ناصر الدین چشتیؒ)

(۱۴۵) صرف اتنا سو کہ غافل نہ ہوسکے، اتنا کھاؤ کہ بدنی بیماری نہ لاحق ہوسکے۔
(خواجہ ابومحمد ناصر الدین چشتیؒ)

(۱۴۶) شب و روز کے دھندوں سے جان چھڑاؤ۔
(خواجہ ابومحمد ناصر الدین چشتیؒ)

(۱۴۷) اپنی زندگی کو کامیاب بناؤ، فضول و بیکار باتوں سے جان چھڑاؤ۔
(خواجہ ابومحمد ناصر الدین چشتیؒ)

(۱۴۸) اہل اللہ کی مجالس یقیناً سودمند ثابت ہوتی ہے۔
(خواجہ ابومحمد ناصر الدین چشتیؒ)

(۱۴۹) اہل اللہ کی مجلس سے کوئی بھی خالی از مفاد نہیں جاتا۔
(خواجہ ابومحمد ناصر الدین چشتیؒ)

(۱۵۰) دنیا کو دنیاداروں کے سپرد کردو، تاکہ راہ فلاح نصیب ہو۔
(خواجہ ابومحمد ناصر الدین چشتیؒ)

(۱۵۱) زندگی کے کام اللہ کے سپرد کرکے اللہ کے احکامات کی بجاآور کرو۔
(خواجہ ابومحمد ناصر الدین چشتیؒ)

(۱۵۲) سماع دوست کو دوست کے رابطہ کو مضبوط تر کرتی ہے۔
(خواجہ ابومحمد ناصر الدین چشتیؒ)

(۱۵۳) سب کی خدمت بلا امتیاز اور بے غرض کرو۔
(خواجہ ابومحمد ناصر الدین چشتیؒ)

(۱۵۴) سب سے زیادہ نعمتِ الٰہی علم ہے، اپنی زندگی کو علم سے سنوارو۔
(حضرت خواجہ سراج الدینؒ)

(۱۵۵) جو لطف دوسروں کی دلجوئی میں ہے وہ ذاتی مفاد میں نہیں۔
(حضرت خواجہ سراج الدینؒ)

(۱۵۶) کثافتِ جسم علم کے نور ہی سے دھل سکتی ہے۔
(حضرت خواجہ سراج الدینؒ)

(۱۵۷) کثافتِ باطنی علم پر عمل کرنے سے دور ہوتی ہے۔
(حضرت خواجہ سراج الدینؒ)

(۱۵۸) اللہ اور بندے کے درمیان حدِ فاصل ختم کرنا پسند کرتے ہو تو احکاماتِ شریعت کی پابندی کرو۔
(حضرت خواجہ سراج الدینؒ)

(۱۵۹) تمہاری بھلائی اللہ کے دین ہی میں ہے۔
(حضرت خواجہ سراج الدینؒ)

(۱۶۰) دوسروں کی بھلائی کرو، یہی تمہیں دوسروں سے افضل کرے گی۔
(حضرت خواجہ سراج الدینؒ)

(۱۶۱) اپنے آپ کو مت بھول کہ کس کی اولاد ہے؟
(حضرت خواجہ سراج الدینؒ)

(۱۶۲) اپنے آپ کو کسی کامل کے سپرد کردو۔
(حضرت خواجہ سراج الدینؒ)

(۱۶۳) رات کو گریہ کرو اور دن میں مخلوق کی خدمت۔
(حضرت خواجہ سراج الدینؒ)

(۱۶۴) دوسروں کے عیوب پوشیدہ رکھو تاکہ اللہ تمہارے عیوب کی پردہ پوشی کرے۔
(حضرت خواجہ سراج الدینؒ)

(۱۶۵) علمِ شریعت حاصل کرو، اس کے بغیر ہر فرد جاہل ہے۔
(حضرت خواجہ سراج الدینؒ)

(۱۶۷) علم کی قدر اہل علم و فضل ہی جانتے ہیں۔
(حضرت خواجہ سراج الدینؒ)

(۱۶۸) تم علم حاصل کرو، عمل کی توفیق اللہ تعالیٰ عطا فرمائے گا۔
(حضرت خواجہ سراج الدینؒ)

(۱۶۹) جو رات کو جی بھر کر سویا اور دن غفلت سے بسر کیا اس پر ہر شئے حرام کردی گئی ۔
(حضرت شیخ علیم الدینؒ)

(۱۷۰) اللہ کے نام لینے والے کے ساتھ ہمیشہ اللہ ہوتا ہے۔
(حضرت شیخ علیم الدینؒ)

(۱۷۱) اپنی جوانی کے دنوں کو ذکر و فکر میں گذارو۔
(حضرت شیخ علیم الدینؒ)

(۱۷۲) جس نے دوسروں کو تنگ کیا وہ ضرور اذیت اٹھاتا ہے۔
(حضرت شیخ علیم الدینؒ)

(۱۷۳) دوسروں کا ہمیشہ خیال رکھو۔
(حضرت شیخ علیم الدینؒ)

(۱۷۴) اطاعتِ رب ہی سب سے افضل عبادت ہے۔
(حضرت شیخ علیم الدینؒ)

(۱۷۵) عاشقانِ الٰہی اگرچہ زردی مائل جسم رکھتے ہوں ان کی خدمت میں زندگی گذار دو۔
(حضرت شیخ علیم الدینؒ)

(۱۷۶) ہر جانب اللہ جل شانہ ہی جلوہ فرما ہے، دیکھنے والی نظر پیدا کرو۔
(حضرت شیخ علیم الدینؒ)

(۱۷۷) والدین ہی کی خدمت تمہارے لئے کافی ہے۔
(حضرت شیخ علیم الدینؒ)

(۱۷۸) حقوق العباد کا خیال رکھو، کیونکہ سب کی بہتری اسی میں پوشیدہ ہے۔
(حضرت شیخ علیم الدینؒ)

(۱۷۹) خود بھی اچھی باتیں سیکھو اور دوسروں کو بھی سکھاؤ۔
(حضرت شیخ علیم الدینؒ)

(۱۸۰) جس نے آرام پسند کیا ہے وہ جلد ہی تباہی کا شکار ہوجاتا ہے۔
(حضرت شیخ علیم الدینؒ)

(۱۸۱) راتوں کو جاگو! تاکہ کوئی غمزدہ نہ ہو، جس کو تمہاری ضرورت ہو۔
(حضرت شیخ علیم الدینؒ)

(۱۸۲) عقلمند بغیر بھوک کے کھانا نہیں کھاتا۔
(حضرت شیخ علیم الدینؒ)

(۱۸۳) غریبی نعمت ہے، صبر و شکر سے قبول کرو۔
(حضرت شیخ علیم الدینؒ)

(۱۸۴) وہ امیری لعنت ہے جس کی وجہ سے اللہ کی یاد سے بندہ غافل ہو جائے۔
(حضرت شیخ علیم الدینؒ)

(۱۸۵) خود کو اہل علم کے سپرد کردو تاکہ اللہ کے نور سے مستفید ہوسکو۔
(حضرت شیخ علیم الدینؒ)

(۱۸۶) اپنے ذمہ لگائے ہوئے کاموں کو احسن طریقہ سے مکمل کرو۔
(حضرت شیخ علیم الدینؒ)

(۱۸۷) وعدہ خلافی نہ کرو، کیونکہ وعدہ پورا کرنا ایمان کی نشانی ہے۔
(حضرت شیخ علیم الدینؒ)

(۱۸۸) کسی کام کا معاوضہ کام کی نوعیت سے بڑھ کر مت لو۔
(حضرت شیخ علیم الدینؒ)

(۱۸۹) افسوس اس درویش پر جو رات کو سوئے اور دن کو پیٹ بھر کر کھائے۔
(حضرت خواجہ عثمان ہارونیؒ)

(۱۹۰) دنیا ایک جہنم کی طرح ہے، جہاں اللہ کا حصول ناممکن نظر آتا ہے۔
(حضرت خواجہ عثمان ہارونیؒ)

(۱۹۱) فقر و فاقہ اختیار کرو۔
(حضرت خواجہ عثمان ہارونیؒ)

(۱۹۲) جس قدر خواہشات نفسانی کو دور کروگے اللہ کی راہ اسی قدر جلد ملے گی۔
(حضرت خواجہ عثمان ہارونیؒ)

(۱۹۳) اللہ راز و نیاز درویش پر عیاں ہوتے ہیں۔
(حضرت خواجہ عثمان ہارونیؒ)

(۱۹۴) اللہ کے بندوں کو اللہ کے سوا کسی اور کی حاجت نہیں ہوتی۔
(حضرت خواجہ عثمان ہارونیؒ)

(۱۹۵) درویش کو چاہئے کہ اپنے احوال کو عوام الناس سے پوشیدہ رکھے۔
(حضرت خواجہ عثمان ہارونیؒ)

(۱۹۶) صبر کرنا ایسا ہے جیسا جہاد نفس میں ضبط نفس۔
(حضرت خواجہ عثمان ہارونیؒ)

(۱۹۷) اتنا کھاؤ کہ زندگی کے لوازمات پورے ہوں، اتنا مت کھاؤ کہ بےصبری و ناشکری اور غفلت پروان چڑھے۔
(حضرت خواجہ عثمان ہارونیؒ)

(۱۹۸) نماز اور شریعتِ محمدی کا منکر کافر ہے۔
(حضرت خواجہ عثمان ہارونیؒ)

(۱۹۹) صبر کرنے والے ہمیشہ کامیاب رہتے ہیں، اس لئے تمہیں بھی چاہئے کہ صبر کرو۔
(حضرت خواجہ عثمان ہارونیؒ)

(۲۰۰) حاجت مندوں کی مدد کرنے والا تو اللہ کا دوست ہوتا ہے۔
(حضرت خواجہ عثمان ہارونیؒ)

(۲۰۱) جس نے عزت نفس کو پامال نہ کیا وہ کسی بھی صورت فقیر نہیں ہوسکتا۔
(حضرت خواجہ عثمان ہارونیؒ)

(۲۰۲) اے احمق! تو نے کبھی اللہ پر بھروسہ تو کیا ہوتا!
(حضرت مولانا فخر الدین محب النبیؒ)

(۲۰۳) علم شریعت کا حصول ممکن ہے، ہر شخص پر لازم ہے کہ عام علوم حاصل کرنے سے پیشتر علم شریعت حاصل کرے۔
(حضرت مولانا فخر الدین محب النبیؒ)

(۲۰۴) خود غرضی قابل نفرت چیز ہے۔
(حضرت مولانا فخر الدین محب النبیؒ)

(۲۰۵) دنیاداروں نے ہمیشہ ناپائیدار چیزوں پر توکل کیا مگر ان چیزوں نے دھوکہ دیا۔
(حضرت مولانا فخر الدین محب النبیؒ)

(۲۰۶) دنیا کی آرائش نے دنیا کو فریب دیا اور عاقبت بد اندیش کے تقاضے پیدا کئے۔
(حضرت مولانا فخر الدین محب النبیؒ)

(۲۰۷) دنیا اگرچہ دنیاداروں کے لئے بہشت ہے لیکن عاقبت میں ان کا کچھ حصہ نہیں۔
(حضرت مولانا فخر الدین محب النبیؒ)

(۲۰۸) اے نادان! دنیا سے دل نہ لگا، یہ عارضی ٹھکانہ ہے۔
(حضرت مولانا فخر الدین محب النبیؒ)

(۲۰۹) کبھی بھی دنیوی آلائش میں دل نہ لگا۔
(حضرت مولانا فخر الدین محب النبیؒ)

(۲۱۰) جب بھی کوئی فقر پر آیا، مقربینِ حق نے اس کو وہی پیار دیا جو ان کو ان کے خدا نے دیا۔
(حضرت مولانا فخر الدین محب النبیؒ)

(۲۱۱) سماع، بندگانِ خدا کو نعمت سے مالا مال کرتی ہے، اس لئے سماع اہل اللہ پر جائز ہے۔
(حضرت مولانا فخر الدین محب النبیؒ)

(۲۱۲) عاشقِ خدا کی خدمت قبول کرو۔
(حضرت مولانا فخر الدین محب النبیؒ)

(۲۱۳) اخلاق پیدا کرو، کیونکہ اوصاف حمیدیہ بھی ان اخلاق ہی پر منحصر ہیں۔
(حضرت مولانا فخر الدین محب النبیؒ)

(۲۱۴) عاشقِ خدا پر عاشق ہو، کیونکہ ہوسکتا ہے وہ بھی اپنے عشق میں تمہیں مبتلا کرلے۔
(حضرت مولانا فخر الدین محب النبیؒ)

(۲۱۵) سماع سننے والے ہمیشہ بلند حوصلہ ثابت ہوئے۔
(حضرت مولانا فخر الدین محب النبیؒ)

(۲۱۶) سماع اہلِ درد کی دواء ہے۔
(حضرت مولانا فخر الدین محب النبیؒ)

(۲۱۷) سماع کو کان کی کھڑکی کھول کر سنو، تاکہ دل انوارِ الٰہی کو قبول کرے۔
(حضرت مولانا فخر الدین محب النبیؒ)

(۲۱۸) اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرنے والے کبھی شکست سے دوچار نہیں ہوتے۔
(حضرت سید سدید الدین حذیفہ مرعشیؒ)

(۲۱۹) اللہ تعالیٰ پر جس کا اعتقاد نہ ہو وہی فاسق و مشرک ہے۔
(حضرت سید سدید الدین حذیفہ مرعشیؒ)

(۲۲۰) اللہ انہی کا ساتھ دیتے ہیں جو اس پر بھروسہ کرتے ہیں۔
(حضرت سید سدید الدین حذیفہ مرعشیؒ)

(۲۲۱) اللہ پر بھروسہ نہ کرنے والا کسی پر بھی بھروسہ نہیں کرسکتا۔
(حضرت سید سدید الدین حذیفہ مرعشیؒ)

(۲۲۲) اللہ کی مخلوق ہوتے ہوئے اللہ کی نافرمانی بہت غلط ہے۔
(حضرت سید سدید الدین حذیفہ مرعشیؒ)

(۲۲۳) دوسروں کی خدمت کرنا ہی انسانیت کی خدمت ہے۔
(حضرت سید سدید الدین حذیفہ مرعشیؒ)

(۲۲۴) حقداروں کا حق غصب کرنے والا انسانیت سے خارج ہے۔
(حضرت سید سدید الدین حذیفہ مرعشیؒ)

(۲۲۵) مسلمانو! نادان و بیوقوف کی سی زندگی مت گذارو، اپنے حقیقی مالک کا شکر ہمیشہ ادا کرتے رہو۔
(حضرت سید سدید الدین حذیفہ مرعشیؒ)

(۲۲۶) اپنے آپ کو اتنا قابل بناؤ کہ سبھی لوگ تمہارے گرویدہ بن جائیں۔
(حضرت سید سدید الدین حذیفہ مرعشیؒ)

(۲۲۷) جو رزق خدا پر قناعت کرگیا اس کی بھوک و پیاس مٹ گئی اور دنیوی اشیاء کی پرواہ نہ کی۔
(حضرت سید سدید الدین حذیفہ مرعشیؒ)

(۲۲۸) دوسروں کی خاطر مرنے والے ہمیشہ خدا کا قرب تلاش کرتے ہیں۔
(حضرت سید سدید الدین حذیفہ مرعشیؒ)

(۲۲۹) خدا اور مخلوق کے درمیان حجاب (پردہ) ہے۔
(حضرت سید سدید الدین حذیفہ مرعشیؒ)

(۲۳۰) خدا کی باتوں کو بغور سنو کیونکہ وہ تمہاری باتیں بھی اپنے کانوں سے سننے کو تیار ہے۔
(حضرت سید سدید الدین حذیفہ مرعشیؒ)

(۲۳۱) بزرگ کامل کی زندگی خدا کے توکل پر رہتی ہے، وہ بے نیاز رہتا ہے، بلکہ دنیا اور دنیادار ان کے محتاج ہیں۔
(حضرت سید سدید الدین حذیفہ مرعشیؒ)

(۲۳۲) حرص و ہوسِ دنیا چھوڑو، کیونکہ یہ اصل ایمان نہیں۔
(حضرت سید سدید الدین حذیفہ مرعشیؒ)

(۲۳۳) دوسروں کو دھوکہ دینے کے بجائے ان کی مدد کرو۔
(حضرت سید سدید الدین حذیفہ مرعشیؒ)

(۲۳۴) زندگی میں موت کو مت بھولو۔
(حضرت سید سدید الدین حذیفہ مرعشیؒ)

(۲۳۵) جس نے موت کو بھلادیا وہ موت سے پہلے ذلیل و خوار ہوا۔
(حضرت سید سدید الدین حذیفہ مرعشیؒ)

(۲۳۶) عاشقِ الٰہی کے در و دیوار کو مقدس جانو۔
(حضرت سید سدید الدین حذیفہ مرعشیؒ)

(۲۳۷) دل و نگاہ کی ہر شئے سے بڑھ کر حفاظت کرو۔
(حضرت سید سدید الدین حذیفہ مرعشیؒ)

(۲۳۸) عاشقِ الٰہی سے درد دل طلب کرو، تاکہ تمہاری اصل زندگی کا آغاز ہو۔
(حضرت سید سدید الدین حذیفہ مرعشیؒ)

(۲۳۹) خدا کو مت بھولو اور خوفِ خدا کرو۔
(حضرت سید سدید الدین حذیفہ مرعشیؒ)

(۲۴۰) سوزِ دل اصل عشق حقیقی ہے۔
(حضرت سید سدید الدین حذیفہ مرعشیؒ)

(۲۴۱) اگر تم خوشی چاہتے ہو تو نہیں پاسکتے، کیونکہ یہ جنت میں ہوگی۔
(حضرت ابو تراب بخشیؒ)

(۲۴۲) تم جنت طلب نہ کرو، بلکہ ایسا عمل اپناؤ کہ خود جنت تمہاری طلبگار ہو اور تم دوزح سے نہ بھاگو بلکہ ایسی شئی سے بھاگو کہ جس کی وجہ سے خود دوزخ تم سے بھاگے۔
(حضرت ابو تراب بخشیؒ)

(۲۴۳) جب تک رازِ الٰہی معلوم نہیں ہوتا دریائے عبودیت سے عبور حاصل نہیں ہوتا۔
(حضرت ابو تراب بخشیؒ)

(۲۴۴) اپنے اوقات اور انفاس، دونوں کی نگہبانی کرو۔
(حضرت ابو تراب بخشیؒ)

(۲۴۵) سب سے بڑا اخلاق یہ ہے کہ تقدیر کے سامنے جھگڑو، ضد کرکے اس کو بدلنا چاہو اور تغلبِ آرزو اور دعاء سے اس کو پلٹنے کی خواہش کرو۔
(حضرت ابو تراب بخشیؒ)

(۲۴۶) جو شخص صرف خدا کے لئے کوئی کام کرے وہ ضرور ثواب پائے گا۔
(حضرت ابو تراب بخشیؒ)

(۲۴۷) جو تمہیں معلوم نہیں دوسرے سے پوچھ لو، یہی تمہارے حق میں بہتر ہے۔
(حضرت ابو تراب بخشیؒ)

(۲۴۸) خلق کی راہ میں حق اور حق کی راہ میں خلق نہیں ہے۔
(حضرت ابو تراب بخشیؒ)

(۲۴۹) صادق شخص کی علامت یہ ہے کہ لوگوں کے ساتھ ملا جلا رہے اور دل میں اکیلا ہو، صرف خدا تعالیٰ اس کے ساتھ ہو۔
(حضرت ابو تراب بخشیؒ)

(۲۵۰) سب اطاعتوں سے افضل اوقات کی حفاظت ہے، کوئی لمحہ بیکاری اور عبث باتوں میں صرف نہ کرو۔
(حضرت ابو تراب بخشیؒ)

(۲۵۱) فرمایا: طریقت کی راہ شیطان سے سیکھو کہ اس نے مردودِ خلائق ہونا پسند کی مگر حق کو سجدہ نہ کیا۔
(حضرت ابو تراب بخشیؒ)

(۲۵۲) موحد وہ ہے کہ اگر اس کے سامنے تمام عالم درہم برہم ہوجائے تو بھی اُسے ذرہ بھر پریشانی نہ ہو۔
(حضرت ابو تراب بخشیؒ)