اخلاقی جواہر پارے

(۱) سچا ایمان وہ ہے جس کو ہم خود سچ جانیں اور پر بھروسہ رکھیں۔
(۲) ضمیر صرف حق و راستی کا دوسرا نام ہے۔
(۳) برائی کرنے کی نسبت برائی کا برداشت کرنا بہتر ہے۔
(۴) کبھی کبھی بیوقوف بھی عقلمندوں کو صلاح دے سکتے ہیں۔
(۵) برے بہانوں کی نسبت بہانہ نہ کرنا ہی اچھا ہے۔
(۶) تکلیفوں کو خاک پر مگر مہربانیوں کو سنگِ مرمر پر لکھو۔
(۷) ہر کام جو دل سے کیا جائے وہ آسان ہے۔
(۸) تلوار کی نسبت شکم پروری نے زیادہ نقصان کئے ہیں۔
(۹) بھوکا پیٹ کسی کی نہیں سنتا۔
(۱۰) بند منہ میں کبھی مکھیاں نہیں پڑتیں۔
(۱۱) بدقسمتی گھوڑے پر سوار ہوکر آتی ہے اور پیدل جاتی ہے۔
(۱۲) ایک کھلا ہوا صندوق ایک دیانتدار آدمی کو ترغیب دیتا ہے۔
(۱۳) جو کسی چیز پر شبہ نہیں کرتا وہ کچھ نہیں جانتا۔
(۱۴) جو قصور وار ہے وہ سمجھتا ہے کہ سب لوگ اسی کی برائی کرتے ہیں۔
(۱۵) جس شخص کو اپنا راز بتادیتے ہو تم اپنی آزادی اس کے ہاتھ میں دے دیتے ہو۔
(۱۶) بھلا کرو مگر یہ پرواہ نہ کرو کہ کس کے ساتھ کر رہے ہو۔
(۱۷) الزام دینا آسان ہے، مگر اس سے اچھا کرکے دکھلانا مشکل ہے۔
(۱۸) زندگی تھوڑی ہے، لیکن تمہاری تباہی کے لئے اگر تم تباہ ہونا چاہتے ہو تو بہت لمبی ہے۔
(۱۹) چھوٹا دشمن کہیں نہیں ہے۔ ؎
ہے غذا جن کی بغض اور عناد
بر سر کیں ہیں اک زمانے سے
وہ نہیں چوکتے کسی صورت
اچھے اچھوں کو کاٹ کھانے سے
(۲۰) تلافی کرنے میں کبھی یہ خیال نہ کرو کہ اب بہت دیر ہوگئی ہے۔

(۲۱) معاف کرو اور فراموش کرو۔
(۲۲) کوئی اچھا وعدہ بیوقوف کو باندھ لینے کے لئے کافی ہے۔
(۲۳) جس گناہ سے عذر کیا جائے اس کو گویا دوبارہ سرزد کیا۔
(۲۴) جو بِلی مندر میں رہتی ہے اور وہ دیوتا سے نہیں ڈرتی۔
(۲۵) کسی کے چتا پر جلنے سے خیالات کو جب تک ہی عبرت رہتی ہے جب تک کہ ہر شخص مرگھٹ سے گھر لوٹ کر نہ آئے۔
(۲۶) کیا بیل کا زخم کوّے کے لئے رحم کا مقام ہے۔
(۲۷) مہربانی سے ملنا دعوت دینے کی نسبت اچھا ہے۔
(۲۸) سب سے بڑی حکومت غصہ کو محکوم کرنا ہے۔
(۲۹) غیبت سننے والا خود غیبت کرنے والا شمار ہوتا ہے۔
(۳۰) جتنی زیادہ امید رکھو گے اتنی ہی تکلیف اٹھاؤ گے۔
(۳۱) بیکار آدمی یا چور ہوتا ہے یا بیمار۔
(۳۲) اُدھار کے حلوے سے نقد کا طمانچہ اچھا ہے۔
(۳۳) جو چیز شیروں کو لومڑی بنادیتی ہے وہ ضرورت ہے۔
(۳۴) خوبصورتی اور بیوقوفی کی اکثر رفاقت ہوتی ہے۔
(۳۵) کمال اور اقبال ایک جگہ جمع نہیں ہوتے۔
(۳۶) خوف ہوشیاری کا ایک جزو ہے۔
(۳۷) غلطی کرنا انسانی اور معاف کرنا خدائی صفت ہے۔
(۳۸) عام عیب عیب نہیں رہتا۔
(۳۹) سدا کی ہائے ہائے کوئی نہیں سنتا۔
(۴۰) کسی بلاء کے واقع ہونے سے اس کا خطرہ بہت سخت ہے۔
(۴۱) ظالم کی نیند اس کی بیداری سے بہتر ہے۔
(۴۲) ایک پرہیز سو علاج کے بہتر ہے۔
(۴۳) حسد محسود تک پہنچنے سے پہلے حاسد کو مار دیتا ہے۔
(۴۴) دھوئیں سے بچنے کے لئے اپنے آپ کو آگ میں مت پھینکو۔
(۴۵) وقت پر ایک ٹانکا بے وقت کے سو ٹانکوں کی مصیبت سے بچاتا ہے۔
(۴۶) موت ایک سیاہ رنگ کا اونٹ ہے جو ہر شخص کے دروازے پر کھڑا ہوتا ہے۔
(۴۷) اپنے لئے مقام رہائش پسند کرنے سے پہلے ہمسائیوں کو دیکھ بھال لو۔
(۴۸) اگر کوئی شخص نیک کام کرے تو صرف گھر والوں کو معلوم ہوتا ہے، مگر برے کام دور دراز تک پہنچ جاتے ہیں۔
(۴۹) افراط سے پیا جائے تو امرت بھی بس ہے۔
(۵۰) دوائی پر اعتبار رکھنے سے وہ مؤثر ہوجاتی ہے۔
(۵۱) ہر شخص کے لئے اپنی ہی سمجھ بادشاہ ہے۔
(۵۲) تمہارا دشمن خواہ ریت کی رسّی ہو، مگر اُسے دشمن کہہ کر ہی پکارو۔
(۵۳) آدمی تین ہی اچھے ہیں: ایک وہ جو مرگیا، دوسرا وہ جو ابھی بیدار نہیں ہوا، تیسرا وہ جس سے تعلق نہیں۔
(۵۴) ایک عورت بھید نہیں چھپاسکتی بلکہ اُسے چھپانے کے لئے دوسرے کو دے دیتی ہے۔
(۵۵) اس شخص کے گھر کو کیوں آگ لگاتے ہو جس کے ہاں دو عورتیں ہیں۔
(۵۶) ایک خوشی سے ایک سو غم منتشر ہوسکتے ہیں۔
(۵۷) ہماری خوشیاں پائمال اور ہمارے رنج عمیق ہیں۔
(۵۸) محنت تقدیر کا دایاں ہاتھ ہے۔
(۵۹) محنت سے مصیبت بھاگتی ہے۔ ؎
بالشت سنگ بھی اگر مل جائے
چین سے اُس پہ سوتی ہے محبت
نرم ہو لاکھ بستر سنجاب
اس پہ بے چین ہوتی ہے عشرت
(۶۰) اگر تم چاہتے ہو کہ دھوکہ نہ کھاؤ تو تین دُکانوں سے قیمت دریافت کرلو۔
(۶۱) خریدار کے لئے سو آنکھیں بھی کم ہیں اور بیچنے والے کے لئے ایک ہی زیادہ ہے۔
(۶۲) قرض کا روپیہ وقت کو مختصر کردیتا ہے اور دوسروں کا کام کرنا وقت کو لمبا کردیتا ہے۔
(۶۳) تمہارا قرض خواہ تمہاری صحت چاہے گا اور تمہارا مقروض تمہاری بیماری۔

(۱) جس کے پاس زیادہ ہوتا ہے اس کو اور بھی زیادہ کی خواہش ہوتی ہے۔
(۲) بڑی بڑی آرزوؤں کے لئے قبر کے سوا کسی جگہ صبر نہیں۔
(۳) خواہ ایک جھوٹ تیز ہی ہو مگر سچ اس کو جا پکڑتا ہے۔
(۴) ایک جھوٹ سے بہت سے جھوٹ لازم آتے ہیں۔
(۵) جھوٹے کے آگے سچا رَو مرے۔
(۶) دولت ایک معشوق ہے بے وفا، عمر ایک حریف ہے گریز پا، اُس کو قیام نہ اِس کو دوام۔
(۷) دولت اس کی ہے جو اس کو کھاتا ہے، نہ اس کی ہے جو اس کو کماتا ہے۔
(۸) بہت زیادہ تھیلے کو پھاڑ ڈالتا ہے۔
(۹) دشمن تمہارا سب سے بڑا افلاس ہے۔
(۱۰) جاہل طلب کرتا ہے مال کو اور عقلمند طلب کرتا ہے کمال کو۔
(۱۱) مرے ہوؤں پر مت روؤ، بلکہ بیوقوفوں پر گریہ کرو۔
(۱۲) ایک بیوقوف ہی ایک گڑھے میں دو مرتبہ گرتا ہے۔
(۱۳) صرف ایک بیوقوف اور اس کا روپیہ جلدی ہی جدا ہوجاتے ہیں۔
(۱۴) بیوقوف آبپاشی کے بغیر ہی بڑھتے پھولتے ہیں۔
(۱۵) ایک بیوقوف اس سے بھی زیادہ سوال پوچھ سکتا ہے کہ جس کے سات عقلمند آدمی بھی جواب نہ دے سکیں۔
(۱۶) خدا بیوقوفوں کو سلامت رکھے! کیونکہ ان کے بغیر عقلمندوں کو روٹی بھی نہ ملے گی۔
(۱۷) اس دنیا میں بدمعاشوں کی نسبت بیوقوف زیادہ کر گذرتے ہیں۔
(۱۸) جو بات کان میں بتلائی جائے وہ اکثر سو سو میل کے فاصلے سے سنی جاتی ہے۔
(۱۹) ایک لمبی زبان زندگی کو چھوٹا بنادتی ہے۔
(۲۰) جو اپنی زبان کو اپنے قابو میں رکھتا ہے وہ سر بچالیتا ہے۔

(۲۱) لڑائی اور محبت میں سب کچھ جائز ہے۔
(۲۲) جہاں محبت پتلی ہو عیب موٹے نظر آتے ہیں۔
(۲۳) اگر غریبی کے بعد دولت ملے تو وہ اچھی ہوتی ہے، بہ نسبت اس کے کہ دولت کے بعد غریبی ہو۔
(۲۴) زبردست کا ہاتھ چلتا ہے اور غریب کی زبان۔
(۲۵) حیاء اور مفلسی میں بیر ہے۔
(۲۶) غریبوں کو قانون پیستا ہے اور امیر قانون کو پیستے ہیں۔
(۲۷) ہر ایک مفلس آدمی احمق شمار ہوتا ہے۔
(۲۸) دوستی کی قرابت بہ نسبت رشتہ کی قرابت کے بہتر ہے۔
(۲۹) ٹوٹی ہوئی دوستی جُڑ سکتی ہے مگر ثابت نہیں ہوسکتی۔
(۳۰) سب لوگ جو ایک شخص کو اچھا کہتے ہیں اس کے دوست ہی نہیں ہیں۔
(۳۱) اس دنیا میں جو ہم لے لیتے ہیں اس میں سے نہیں بلکہ جو ہم دے دیتے ہیں اس سے ہم دولتمند بن سکتے ہیں۔
(۳۲) بڑھیا بیوی، بوڑھا کتا اور نقد روپیہ تین وفادار دوست ہیں۔
(۳۳) ہر شخص خیال کرتا ہے کہ جتنی عقل اس کے حصہ میں آتی ہے اس کو اس سے زیادہ مل گئی ہے۔
(۳۴) جس کو عقل نہیں وہ پچھلی باتوں پر فکر کرتا ہے۔
(۳۵) عقل خود بکمال، فرزند خود بکمال۔
(۳۶) عقلمند جانتا ہے کہ وہ کچھ نہیں جانتا، اور بیوقوف جانتا ہے کہ وہ سب کچھ جانتا ہے۔
(۳۷) غریب بیل پر دُگنا بوجھ لادا جاتا ہے۔
(۳۸) دنیوی سرسبزی اور بہبودی نقش بر آب کی مثال ہے۔
(۳۹) دنیا بمنزلہ ایک چکی کے ہے، کبھی یہ آٹا پیستی ہے اور ایک دن یہ ہمیں بھی پیس دے گی۔
(۴۰) آسمان کے جالے سے کہیں پناہ نہیں ملتی۔
(۴۱) جسم منہ کہ ذریعہ سے تباہ ہوجاتا ہے۔
(۴۲) جب تک مچھلی نظر نہ پڑے بگالا بھگت ہے۔
(۴۳) شکر میٹھی ہوتی ہے خواہ اندھیرے میں ہی ہو۔
(۴۴) کل ہی تو جوگی بنا ہے اور ایڑیوں تک جٹائیں لٹک رہی ہیں۔
(۴۵) اندھا لاٹھی ایک بار کھوتا ہے۔
(۴۶) جس ہانڈی میں کھاؤ اس میں چھید مت کرو۔
(۴۷) لاٹھی کو لاکھ گھن کھا جائے ہندڈیا پھوڑنے کو کافی ہے۔
(۴۸) گدھا بوڑھا تو ہوگیا مگر اپنے مالک کے گھر کا راستہ نہ آیا۔
(۴۹) جو لوگ کام نہیں کرتے وہ سب سے زیادہ مصروف ہوتے ہیں۔
(۵۰) اگر تم مرغا ہو تو ہانک دو اور اگر تم مرغی ہو تو انڈے دو۔
(۵۱) ڈھول کی آواز اس لئے ہوتی ہے کہ اس کا پیٹ خالی ہوتا ہے۔
(۵۲) رات کا وقت شریروں کے لئے دن ہے۔
(۵۳) بوڑھے کتے بلاوجہ نہیں بھونکتے۔
(۵۴) بوڑھے پرندے بھوسے پر نہیں پکڑے جاتے۔
(۵۵) ہر ایک آدمی کا کمزور پہلو بھی ہوتا ہے۔
(۵۶) نہ ہونے کی نسبت بدیر ہونا اچھا ہے۔
(۵۷) کوئی قاعدہ نہیں جس میں استثناء نہ ہو۔
(۵۸) جس چوہے کا ایک سوراخ ہے وہ آسانی سے پکڑا جاتا ہے۔
(۵۹) بوڑھی گائے کا خیال ہے کہ وہ کبھی بچھیا نہیں تھی۔
(۶۰) بوڑھے کوّے پکڑنے مشکل ہیں۔

(۶۱) شکاری پرندے گایا نہیں کرتے۔
(۶۲) دوسری مرتبہ کے خیالات بہتر ہوتے ہیں۔
(۶۳) منحوس خبریں اکثر درست ثابت ہوتی ہیں۔
(۶۴) دنیا میں جھکنے کے سواء کہیں کھڑا نہیں ہوا جاتا۔
(۶۵) آگ لگ جانے پر کنواں کھودنا بے فائدہ ہے۔
(۶۶) ابتداء اچھی ہو تو خوب ہے مگر انتہاء اچھی اور بھی خوب ہے۔
(۶۷) اچھی ابتداء کرنے سے کام آدھا ہوجاتا ہے۔
(۶۸) جب لوگوں کو پتہ لگتا ہے کہ زندگی کیا چیز ہے تو یہ آدھی خرچ ہوچکتی ہے۔
(۶۹) زندگی کا ہر ایک دن تمہاری تاریخ کا ایک ورق ہے۔
(۷۰) دوست کا گھورنا بیوقوف کے مسکرانے سے بہتر ہے۔