منتخب گو ہر افشاں اقوال

منتخب!گوہر افشاں اقوال
مواعظِ حسنہ
نصائحِ دانش
نکاتِ دانش
سلک مروارید
(۱) میزانِ عمل میں سب سے زیادہ بھاری عمل حسن خلق ہے۔
(افصح العرب)

(۲) دین حسن خلق ہی کا نام ہے، بدخو بد خلق کی جگہ دوزخ ہے، اگرچہ نماز پڑھے اور روزہ رکھے۔
(افصح العرب)

(۳) خوئے بد عبادت کو اس طرح تباہ کردیتی ہے جس طرح سرکہ شہد کو۔
(افصح العرب)

(۴) جو دنیوی حیثیت میں تم سے زیادہ ہے اُسے مت دیکھو کہ ناشکری پیدا ہوگی۔
(افصح العرب)

(۵) حق بات کہنے سے مت رُکو، اگرچہ جابر بادشاہ کیوں نہ ہو، کہ وہ نہ تو تمہاری عمر سے ایک ساعت کم کرسکتا ہے اور نہ تمہاری روزی سے ایک دانہ کم، یہ سب سے بڑا جہاد ہے۔
(افصح العرب)

(۶) پاک نفس آدمی شہرت میں عورتوں سے بھی زیادہ شرماتا ہے۔
(افصح العرب)

(۷) جب عقل کامل ہوجاتی ہے تو بولنا کم ہوجاتا ہے۔
(حضرت ابوبکر صدیقؓ)

(۸) طالبِ دنیا کو علم پڑھانا رہزن کے ہاتھ تلوار بیچنا ہے۔
(حضرت عمر فاروقؓ)

(۹) تہمت کی جگہ بیٹھ کر اس شخص پر ملامت نہ کرو جو تم پر بدگمانی کرے۔
(حضرت عمر فاروقؓ)

(۱۰) کسی کے خلق پر اعتماد نہ کرو، تاوقتیکہ اُسے غصہ کے وقت نہ دیکھ لو۔
(حضرت عمر فاروقؓ)

(۱۱) کسی کی دیانتداری پر اعتماد نہ کرو، تاوقتیکہ طمع کے وقت اس کو نہ آزمالو۔
(حضرت عمر فاروقؓ)

(۱۲) ملامتِ خلق کا شکوہ نہ کرو، کہ ذاتِ حق بھی زبان خلق سے محفوظ و سلامت نہیں رہی ہے۔
(حضرت عمر فاروقؓ)

(۱۳) آدمیوں کی تین قسمیں ہیں: ۱۔پورے، ۲۔آدھے، ۳۔لاشے۔ پورے آدمی وہ ہوتے ہیں جن کی رائے اور مشورہ دونوں ہوں، نصف آدمی وہ ہیں جن کی رائے تو ہو مگر مشورہ نہ دے سکیں، اور لاشے وہ آدمی ہیں جن کی رائے اور مشورہ دونوں نہ ہوں۔
(حضرت امام حسینؓ)

(۱۴) جو کوئی عورت مرے اور اس کا خاوند اس سے راضی ہو تو وہ جنت میں جائےگی۔
(حضرت ام سلمہؓ)

(۱۵) جب شوہر اپنی بیوی کو اپنی ضرورت کے لئے بلائے تو اُسے آنا چاہئے، اگرچہ کھانا پکا رہی ہو۔
(طارق ابن علیؒ)

(۱۶) عورت اپنے شوہر کی اجازت کے بغیر کہیں نہ جائے، کوٹھے پر نہ چڑھے، دروازہ پر آئے، ہمسایوں سے مخالفت نہ کرے، آپس کی رنجش کسی کے سامنے ظاہر نہ کرے، شوہر کی ضرورت کی چیزوں کو مہیا رکھے اور اس کے مال کی حفاظت کرے۔
(امام ترمذیؒ)

(۱۷) گناہ سے جسم کو دور رکھنا عوام کا تقویٰ ہے اور ماسوا اللہ کے مشاہدہ سے بدل اجتناب اور پرہیز کرنا خواص کا تقویٰ ہے۔
(امام قتریؒ)

(۱۸) جو غصہ کرے متکبر ہے، جو گالی دے وہ کمینہ ہے، جو انتقام کے درپئے ہو وہ درندہ ہے، اور جو ضبط کرجائے وہ صابر اور کامل انسان اور محبِّ خدا ہے۔
(غوثِ اعظمؒ)

(۱۹) کلام شروع کرنے سے پہلے تامل کرلینا اس سے بہتر ہے کہ کرنے کے بعد اُسے موقوف کیا جائے۔
(ابوالحسن عوفیؒ)

(۲۰) چار چیزوں کو چار چیزوں سے بچانا چاہئے، حسد سے دل کو، کذب و غیبت سے زبان کو، ریاء سے عمل کو اور حرام خوری سے پیٹ کو۔
(حضرت عطارؒ)

(۲۱) بہترین خلائق وہ شخص ہے جو دوسروں سے بھلائی کرتا ہے، اور بد ترین خلائق وہ جو دوسروں کو نقصان پہنچاتا ہو۔
(حضرت عطارؒ)

(۲۲) دشمن سے ایک بار تو دوست سے ہزار بار ڈرو، کیونکہ دوست اگر دشمن ہوجائے تو اُسے گزند پہنچانے کے ہزاروں طریقے معلوم ہیں۔
(قاضی ابن معروفؒ)

(۲۳) فقیر ہونے کا کوئی شخص اس وقت مستحق ہوتا ہے کہ اس فانی دنیا میں کوئی چیز اس کے لئے باقی نہ ہو، اور اس کام کا تمام سرمایہ حقیقت میں آخرت ہو۔
(حضرت خواجہ ہندؒ)

(۲۴) جو چیز زوال پذیر ہو اس کو جمع کرنا فضول ہے۔
(حکیم عبد اللہؒ)

(۲۵) جاہل وہ ہے جو اپنی خطا پر نادم نہ ہو اور کبھی اپنے قصور کو تسلیم کرے۔
(حکیم عبد اللہؒ)

(۲۶) اس شخص کی زندگی لاحاصل ہے جس سے دنیا میں کوئی نیک کام گناہ کے سواء نہ ہو۔
(حکیم عبد اللہؒ)

(۲۷) بے نفس آدمی وہ ہے جو اپنی مذمت اور دوسروں کی تعریف سے خوش ہو۔
(حکیم عبد اللہؒ)

(۲۸) چا ہزار اقوال میں سے چار کلمے منتخب ہیں، دو یاد رکھنے اور دو بھول جانے کے قابل ہیں، خدا اور موت کو یاد رکھو اور اپنی نیکی و دوسرے کی بدی کو بھول جاؤ۔
(حضرت حکیم لقمانؑ)

(۲۹) عقلمند کے لئے وہ وقت نہایت مشکل ہے جب کسی بات کے اظہار و اخفاء دونوں میں خرابی پیدا ہونے کا احتمال ہو۔
(حضرت حکیم لقمانؑ)

(۳۰) کم گو، کم خور اور کم آزار: ہمیشہ سلامت، خوش اور مصیبتوں سے محفوظ رہتا ہے۔
(حکیم بزرجمہر)

(۳۱) یہ چار عادتیں بچوں کی اگر بڑوں میں ہوں تو وہ ابدال کا مرتبہ حاصل کرلیں: اول یہ کہ اگر انہیں کسی سے تکلیف پہنچتی ہے تو وہ کسی سے شکایت نہیں کرتے، دوم یہ کہ وہ اپنے کھانے پینے کی فکر نہیں کرتے، سوم یہ کہ جو چیز انہیں ملتی ہے اُسے دوسرے روز کے لئے نہیں بچاتے، چہارم یہ کہ جب باہم لڑتے ہیں تو کینہ نہیں رکھتے۔
(حکیم جالینوس)

(۳۲) اصلاحِ نفس عقل سے کرو، اور عقل کو آئینہ بناؤ کہ تمہیں اس میں اپنے افعال نظر آئیں۔
(حکیم مہادرجین)

(۳۳) جس طرح ملاح ہر ہوا میں کشتی نہیں چلاتا، اسی طرح عقلمند کو چاہئے کہ جو خیال دل پر گذرے اس کی پیروی نہ کرے۔
(حکیم باسیوس)

(۳۴) عاقل وہ ہے کہ جب کوئی خطا سرزد ہو تو اپنے نفس کی مذمت کرے۔
(حکیم سولون)

(۳۵) جو شخص بوالہوس اور لذاتِ نفسانی میں مبتلا نہیں وہ افلاس کو مصیبت نہیں سمجھتا اور جو بندہ شکم نہیں اُسے مفلسی کا کوئی خوف نہیں۔
(حکیم سینکار)

(۳۶) کسی شخص کو نقصان پہنچانا خود نقصان برداشت کرنے سے بھی بُرا ہے۔
(حکیم سقراط)

(۳۷) میاں بیوی کا عجیب رشتہ ہے کہ مرد و عورت نکاح ہوجانے سے دنیا کی سب چیزوں میں شریک ہوجاتے ہیں، یہ بات کسی اور رشتہ میں نہیں پائی جاتی، مال مشترک، آبرو مشترک، خوشی مشترک اور رنج و غم مشترک۔
(مولوی نذی احمد)

(۳۸) سچ کڑوا ہے اس لئے کوئی پسند نہیں کرتا، جھوٹ میٹا ہے اس لئے سب بولتے ہیں۔
(بلھے شاہ)

(۳۹) اگر یہ منظور ہو کہ اپنے راز سے دشمن بھی واقف نہ ہونے پائے تو اس راز کو دوست سے بھی نہ کہنا چاہئے۔
(نوشیروان عادل)

(۴۰) دلی قوت کو بیکار چھوڑ دینا سب سے بڑی کاہلی ہے۔
(سرسید احمد خان)

(۴۱) وہ شخص جو مذہب سے عاری ہو وہ اس گھوڑے کی مانند ہے جس کو لگام نہ ہو۔
(لاطینی)

(۴۲) لوگ تعریف کرنے کی نسبت خوشامد کرنا زیادہ سہل پاتے ہیں۔
(جین پال)

(۴۳) فقیری و نیستی بری سہی، مگر تونگری اس سے بھی بری ہے، جبکہ برے کاموں میں اوقات بسر کرادے۔
(غریقوربوس، نصرانی راہب)

(۴۴) نئی صبح کا آغاز ہورہا ہے، سونے والو! بیدار ہوجاؤ، بیدار ہونے والو! کھڑےہوجاؤ، کھڑے ہونے والو! اپنے فرائض کی انجام دہی میں مصروف ہوجاؤ، واجب التعظیم مادر وطن اپنے ہر فرزند سے قربانی کی خواہاں ہے۔
(ایک جاپانی محب وطن)

(۴۵) ایک حسین اور باعصمت خاتون خدائے قدوس کی صفتِ کاملہ کا نمونہ، فرشتوں کی حقیقی شان و شوکت، زمین کا نادر معجزہ اور دنیا کی عجیب ترین چیز ہے۔
(تھیلد)

(۴۶) جو شخص مصیبت کا بوجھ خوش اسلوبی سے اٹھاسکتا ہے وہی سب سے بہتر کام کرتا ہے۔
(ملٹن)

(۴۷) جو شخص کمینہ کاموں کے کرنے سے ڈرے وہ سب سے بہادر ہے۔
(جانسن)

(۴۸) حیوانات پر رحم کرنا فیاضی کی عمدہ مشق ہے۔
(سر آرتھر پلس)

(۴۹) منصف مزاج وہ شخص ہے کہ اگر اس کے بیٹے سے بھی کوئی قصور ہوجائے تو اس کو بھی نہ چھوڑے۔
(نوذر)

(۵۰) دیو کی سی طاقت اپنے آپ میں رکھنا اچھا ہے، مگر دیو کی طرح اُسے استعمال کرنا برا ہے۔
(۵۱) بزرگی کی تین نشانیاں ہیں: اول یہ کہ دوسرے لوگ اُسے بزرگ سمجھیں، دوم یہ کہ وہ خود اپنے تئیں بزرگ نہ جانے، سوم یہ کہ جب میصبتوں میں گھر جائے تو سچائی کو نہ چھوڑے۔
(زرتشت)

(۵۲) بڑھاپا زندگی کی مسرتوں کو کم لیکن زندگی کی ہوس کو زیادہ کرتا ہے۔
(گولڈ اسمتھ)

(۱) کڑوی بات انسان کو غمزدہ بنادیتی ہے، لیکن بھلی بات سے اُسے ایک گونہ خوشی حاصل ہوتی ہے۔
(۲) خوشی سے انسان کے چہرے پر نور برستا ہے، لیکن رنجیدہ کرنے والی بات سننے سے اس کی ماہیت بگڑجاتی ہے۔
(۳) بیوقوف وہ ہے جو اپنے عیبوں پر نگاہ نہیں ڈالتا اور کسی کی نصیحت نہیں سنتا۔
(۴) عقلمند وہ ہے جو اچھی صحبت میں بیٹھے، بری بات زبان سے نہ نکالے اور میانہ روی اختیار کرے۔
(۵) محنتی اور جفاکش آدمی کی نیند خواہ وہ کم کھائے یا زیادہ میٹھی ہوتی ہے، لیکن مال کی زیادتی اُسے کبھی آرام سے نہ سونے دے گی۔
(۶) دنیا میں کامیاب ہونا اپنی قوت، اپنے حوصلہ اور اپنی روحانی طاقت پر منحصر ہے۔
(۷) جس نے خاموشی اختیار کی اس نے گویا اپنی زندگی بڑھائی۔
(۸) ہمیں اپنی سستی اور گرم بستروں کو چھوڑ کر انسانی زندگی کو بامعنیٰ کرنے والے فرائض کی انجام دہی میں دیگر اقوام کی طرح لگ جانا چاہئے۔
(۹) بنی ہوئی راہ پر چلنے والے تو سبھی ہوتے ہیں، مگر دوسروں کے لئے راستہ صاف کرنے والے دنیا میں بہت کم ہیں۔
(۱۰) جس کے دل میں معافی کی اعلیٰ صفت موجود ہو بدخواہ لوگ اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے، جہاں گھاس پھوس نہیں ہے وہاں گری ہوئی آگ خود بخود بجھ جاتی ہے۔
(۱۱) رحم اور انصاف میں بہت بڑا فرق ہے، جہاں رحم ہے وہاں انصاف نہیں اور جہاں انصاف ہے وہاں رحم کی کوئی حقیقت نہیں۔
(۱۲) تمہاری دلیل اگر وزن دار ہو تو بھی اُسے حوصلہ اور سنجیدگی کے ساتھ ثابت کرو، یہ نہیں کہ دوسرے کو غلط نقطہ پر چلتے دیکھ کر قہر میں آجاؤ۔
(۱۳) اپنے نوکر پر بہت زیادہ خوشی ظاہر نہ کرو، ورنہ وہ سست اور نکمّے بن جائیں گے، اس قدر سادہ لوح مت ہوجاؤ کہ سب لوگ تمہارے دل میں گھر کرلیں۔
(۱۴) جو بات تمہارے دل میں پیدا ہوا اس کو پہلے ہی سے درست نہ سمجھو، بلکہ اس کی اصلیت پر غور کرو۔
(۱۵) کسی سے ہنسی مذاق کرتے وقت حوصلہ ہاتھ سے نہ چھوڑو، ورنہ انسانیت کے رتبہ سے گر جاؤ گے اور پھر الٹا تمہارا مذاق ہونے لگے گا۔
(۱۶) ہم ہنسی اور دل لگی کے دو مواقع بتاتے ہیں، ایک دوستوں میں اور دوسرے اپنی بیوی کے ساتھ۔
(۱۷) فضول باتوں میں، ضرورت سے زیادہ سونے میں اور بلا ضرورت گھومنے میں عزیز وقت کو برباد کرتے ہوئے کہیں تم بھی برباد نہ ہوجاؤ۔
(۱۸) مصیبت کے دنوں میں اپنی پہلی حالت کو یاد نہ کرو بلکہ حوصلہ سے کام لو، اور اس بات پر غور کرو کہ بہت سے لوگ تم سے بھی زیادہ تکلیف میں مبتلا ہیں۔
(۱۹) سچے کو منہ نوچنے والا، شجاع کو بے رحم، سیدھے کو بیوقوف، صاحب دبدبہ کو مغرور، فصیح کو یاوہ گو اور مستقل مزاج کو سست کہتے ہیں، غرضیکہ ایسی کوئی خوبی نہیں جس پر حاسدوں نے اعتراض نہ کیا، ورنہ صادق القول کو برائی کی کیا ضرورت ہے، جس کا دل پاک ہو اُسے تیرتھ سے کیا فائدہ؟
(۲۰) لائقوں کو دوستوں کی کیا کمی؟ اہل سخاء کو زیور سے کیا زیبائش؟ اہل ہنر کو دولت کی کیا ضرورت؟ اور موذیوں کو مزے میں کیا نقصان ہے؟
(۲۱) عمر تھوڑی ہے اور کام بہت ہے، پس عقلمند وہی ہے جو اپنی قیمت عمر کو ضروری ضروری کاموں میں صرف کردے۔
(۲۲) موت زندگی کا تاج ہے، اگر موت نہ ہوتی تو غریبوں کی زندگی بے فائدہ تھی، اگر موت نہ ہوتی تو جینے کا نام زندگی نہ ہوتا۔
(۲۳) متقی لوگ ریاضت کا بوجھ اٹھاتے ہیں، صابر ہوتے ہیں۔
(۱) تین چیزوں کی قلت ہی بہتر ہے:
قلت الطعام،
قلت المنام
اور قلت الکلام۔
(۲) غلطی کے تین درجے ہیں:
سہواً،
عمداً
اور خطاءً۔
(۳) یقین کے تین درجے ہیں:
علم الیقین،
عین الیقین
اور حق الیقین۔
(۴) تین قسم کے نشے بہت تیز ہیں:
نشۂ دولت،
نشۂ حسن
اور نشۂ علم۔
(۵) تین چیزیں تین چیزوں سے حاصل نہیں ہوسکتیں:
جوانی خضاب سے،
تونگری آرزو سے
اور صحت دواؤں سے۔
(۶) دوست تین قسم کے ہوتے ہیں:۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(۷) تین آدمی صرف تین موقعوں پر پہچانے جاتے ہیں:
بہادر لڑائی کے وقت،
دانا غصہ کے وقت
اور دوست ضرورت کے وقت۔
(۸) یہ چار چیزیں بنیادِ فساد ہیں:
زن،
زمین،
زر،
زیور۔
(۹) یہ چار چیزیں جب تک بہم نہ پہنچیں تحریری کام نہیں ہوسکتا:
دل،
دماغ،
دیدہ و دوست۔
(۱۰) ان چار چیزوں کے تھوڑے کو بہت سمجھنا چاہئے:
اول آگ کہ اس کے تھوڑے میں بھی جلانے کی وہی طاقت ہے جو زیادہ میں ہے،
دوسرے بیماری خواہ کتنی ہی کم ہو مضطر بنادیتی ہے،
تیسرے قرض کہ قرض خواہ سے ایک درہم میں اتنی ہی شرم ہے جتنی کہ ہزار دینا سے،
چوتھے دشمن کو خواہ وہ کتنا ہی حقیر اور کمزور ہو، مگر اپنا داؤ چلائے بغیر نہیں رہتا۔
(۱۱) نمازیوں کی چار قسمیں ہیں:
ٹھاٹھ کی، آٹھ کی، گھاٹ کی اور تین سو ساٹھ کی، ٹھاٹھ کی وہ جو پنجگانہ پڑھتے ہیں، آٹھ کی وہ جو آٹھ دن میں ایک مرتبہ جمعہ پڑھتے ہیں، گھاٹ کی وہ جو مجبوراً نمازِ جنازہ پڑھنے کھڑے ہوجاتے ہیں، اور تین سو ساٹھ کی جو صرف عیدین کے شاملِ نماز ہوتے ہیں۔
(۱۲) عشق کے چھ درجے ہیں:
رجحان،
میلان،
دلچسپی،
محبت،
عشق،
جنون۔
(۱۳) طبقاتِ دوزخ سات ہیں:
سقر،
سعیر،
لظیٰ،
حطمہ،
جحیم،
جہنم
اور ھاویہ۔
(۱۴) طبقاتِ بہشت آٹھ ہیں:
خلد، دار السلام، دار القرار، جنت عدن، جنت المأویٰ، جنت النعیم، علیین، جنت الفردوس۔
(۱۵) مدارجِ راحت چھ ہیں:
پہلی راحت جسمانی، دوسری راحت دولت کی فراوانی، تیسری راحت فرمانبردار بیوی، چوتھی راحت خدمت گذار بیٹا، پانچویں راحت سرکاری عہدہ پر سرفرازی اور چھٹی راحت شہر میں قیام و قرار۔
(۱۶) ماہِ رمضان کے تین مدارج ہیں:
پہلے دس روزے رواں، درمیانی دس روزے دواں اور آخری دس روزے پراں، رواں یعنی چلنے والے، دواں یعنی دوڑنے والے، پراں یعنی اُڑنے والے۔
(۱۷) عالم بے عمل، مومِ بے عسل، سخی بے زر، درخت بے ثمر، ہرزہ گو آدمی، بولتا ہوا جانور، احمق انسان، ناطق حیوان، تیغ بے جوہر بے مصرف و ناچیز، عالم بدکار، سوتا ہوا سوار، جاہل پرہیزگار، پیادہ تیز رفتار، حاکمِ بے عدل، اندھا کنواں، مالدار بخیل، ابر بے باراں اور منعمِ بے کرم دونوں جہاں میں رو سیاہ۔
(۱۸) جانِ پدر! تیری طاعت کا ستارہ کب تک تیری مرادوں کے موافق چمکتا رہے گا، آخر کو تو فلک کا بھائی تو نہیں۔
(۱۹) وہ شخص جس کا ستارہ اقبال پر نہ ہو اس کے تمام ہنر خلق میں نامقبول ہوتے ہیں، اس کی شجاعت دیوانگی، اس کی فصاحت حشو، اس کی سخاوت گزاف، اس کی کریمی فساد و نمود اور اس کا فضل فضول شمار ہوتے ہیں۔
(۲۰) جو لوگ دولت کے ساتھ محبت رکھتے ہیں در حقیقت ان کو نہ تو موت ہی یاد ہے اور نہ خدا پر ہی اعتقاد ہوتا ہے۔
(۲۱) اگر الحمد چاہو تو ابنائے زمانہ سو بار پڑھیں گے، لیکن ایک دینار کے لئے گدھے دلدل میں پھنس کر رہ جاتے ہیں۔
(۲۲) دو سادھوؤں کی آپس میں ملاقات ہوئی، ایک نے دوسرے سے پوچھا کہ آپ کس پنتھ کے چیلے ہیں؟ تو دوسرے نے جواب دیا کہ میں کوئی پنتھ وغیرہ کو تو نہیں جانتا، البتہ آٹا دیکھ کہ کس کے پاس زیادہ ہے، مطلب یہ ہے کہ خاندانی شرافت اور علم و ہنر کو کوئی نہیں جانتا، جس کے پاس مال ہو وہ خواہ ہزار عیب دار ہو لیکن اسی کا بول بالا ہے اور اہل دنیا اسی کی قدر کرتے ہیں۔
(۲۳) بے زر اگر اولادِ رسول ہے
تو بھی دنیا میں نامقبول ہے
(۲۴) جاہل کے خیال اور عمل میں بہت کم وقفہ ہوتا ہے۔
(۲۵) بدزبانی اور طول کلامی سے بچنے کا گر یہ ہے کہ اپنے کلام میں کیا، کیسے، کیوں، کہاں اور کس طرح کے الفاظ نہ آنے دو۔
(۲۶) دنیا کی ہرضرورت کا خاتمہ ایک نئی ضرورت پر ہوتا ہے اور اس کا خاتمہ دوسری ضرورت پر حتی کہ عمر ختم ہوجاتی ہے۔
(۲۷) افلاطون نے موسی علیہ السلام سے پوچھا کہ:
اگر آسمان کمان بن جائیں، حوادث تیر ہوجائیں اور خدا تعالیٰ تیر انداز ہو تو انسان کہاں جائے؟ فرمایا: تیر انداز سے قریب ہوجائے!
(۲۸) دنیا میں اگر کوئی محنت کا قدرداں ہوتا تو گدھا سب سے زیادہ قابل قدر ہوتا۔
(۲۹) نصف عمر امیدوں کے پالنے میں اور بقیہ نصف نامرادی کے ماتم میں کٹ جاتی ہے۔
(۳۰) آم آم کر سینچے نکل گئے ببول
بیٹھن لاگے چھاؤں میں جنہے لگ گئے سول
(۳۱) روز قیامت کے سوال و جواب اور عذاب و ثواب سے مجھے کوئی خطرہ نہیں، بلکہ رنج ہے تو اس بات کا کہ دنیا کے آدمیوں کی شکلیں پھر دیکھنی پڑیں گی۔
(۳۲) بد عادت میں اگر زوال نہ ہوسکے تو اعتدال ہی غنیمت ہے۔
(۳۳) جسم ہند میں رہے اور دل مکے میں تو بہتر ہے کہ اس سے کہ جسم مکہ میں رہے اور دل ہند میں۔
(۳۴) دنیا میں آلام سے بچنے اور آرام حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ خاموشی ہے۔ ؎
لبِ خاموش کا دونوں جہاں میں بول بالا ہے
وہی محفوظ رہتا ہے جس کے در پہ تالا ہے
(۳۵) تیری گفتار اگر موتی بھی بکھیرے، خاموشی اس سے بہتر ہے، خردمند صدف کی مانند خاموش رہتا ہے، ہرچند کہ اس میں موتی بھرے ہوں۔
(۳۶) جس طرح شبنم سے کنواں نہیں بھرسکتا اسی طرح حریصوں کی آنکھ کا کاسہ نعمتِ دنیا سے نہیں بھر سکتا۔
(۳۷) بہار سبزہ و گل دیکھ کر دل نے مئے نوشی کی خواہش کی، لیکن شیشے سے قدح تک ہی پہنچا تھا کہ بہار ختم ہوگئی۔
(۳۸) ایامِ غنچگی میں اس قدر جفائے باغباں دیکھی اور بعد گل بننے کے خدا جانے کیا کیا گل کھلیں گے۔
(۳۹) حباب اپنی سربلندی کی وجہ سے پائمالِ موج ہوتا ہے اور غبار اپنی خاکساری کی وجہ سے اوجِ آسمان تک پہنچ جاتا ہے۔
(۴۰) دنیا میں بغیر سخت کے کامیابی مشکل ہے، پتھر سے آگ نکالنا لوہے کا ہی کام ہے۔

(۴۱) گوشت و پوست کی زیادتی سے ہی اگر تو اپنا شرفِ امتیاز چاہتا ہے تو بیل اور گدھے تجھ سے اس شرف میں زیادہ ممتاز ہیں۔
(۴۲) اللہ تعالیٰ کے در پر ساکن ہوکر بے خانہ بن، شمع پر دعویٰ نہ کر پروانہ بن۔
(۴۳) اے درویش! گودڑ کے سینے سے پہلے اگر تو اپنے لبِ سوال کو سی لے تو بہتہر ہے۔
(۴۴) دنیا میں خوشی کی نسبت غم بہت زیادہ ہے، گریۂ شمع تمام شب اور خندۂ صبح دم بھر اور عید صرف ایک دن اور محرم کا عشرہ ہے۔
(۴۵) مہر و ماہ کی مانند تمام دنیا کو بھر کر دیکھا، لیکن منزل آسائش کہیں نہ پائی۔
(۴۶) عذر و توبہ کے ساتھ عذابِ خالق سے رہائی ہوسکتی ہے لیکن خلق کے خلق سے کوئی نہیں بچ سکتا۔
(۴۷) دنیا میں اگر مردانہ زندگی حاصل نہ ہو تو مردوں کا جان دنیا ہی زندگی ہے۔
(۴۸) اگر بنیاد کی اینٹ ٹیڑھی رکھی جائے تو آسمان تک دیوار ٹیڑھی ہی بنے گی۔
(۴۹) صنعتِ صانع پر آنکھ کھول اور لب بند کر، کیونکہ استاد کے خط کو دیکھنا پڑھنے کی نسبت زیادہ مفید ہے۔
(۵۰) جبکہ تو آنکھ رکھتا ہے اور ایک عالم تیرے سامنے جلوہ گر ہے تو پھر تجھے معلّم یا کتاب کی کیا ضرورت ہے؟
(۵۱) کنج خرابات میں موافق ہونا خرقہ میں منافق ہونے سے بہتر ہے اور صوفیٔ خام سے میخوار ہونا اچھا ہے۔
(۵۲) کلیسا میں جانا اور زنار باندھنا بہتر ہے اس سے کہ تو تقلید کے ساتھ مسلمان ہو۔
(۵۳) زاہدانِ ریاکار کی مسواک اس لئے ہے کہ دندانِ طمع تیز کریں اور تسبیح اس لئے کہ لوگوں کے عیب شمار کریں
(۵۴) دانت نعمت کھاتے کھاتے گھس گئے، لیکن زبان شکایت کرتے کرتے نہ گھسی۔
(۵۵) خلق خدا کے ساتھ ایسا سلوک کرو کہ اگر دوسرے تم سے ایسا سلوک کریں تو تم اس سے راضی رہو۔
(۵۶) دیر و حرم نیک لوگوں سے خالی ہوگئے، نہ اس خلیل رہا نہ اس میں زرتشت۔
(۵۷) جس شخص پر نیکی کا گمان کیا گیا غور سے دیکھا تو اس میں کوئی پوشیدہ عیب ضرور پایا گیا، عمر بھر باغ جہاں کی گلگشت کی، لیکن جس میوہ کو دیکھا اس کے اندر سختی ضرور پائی۔
(۵۸) جلدی کے ساتھ دوزخ میں جانا جنت کے زیادہ انتظار سے بہتر ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
(۵۹) غائب کا اثر حاضر کی نسبت کم ہوتا ہے۔
(۶۰) سگِ حضوری بہتر از متعدیاں دوری۔
(۶۱) دل کیا ہے سینہ کے اندر سوز و تف، تن کیا ہے رنج و غم کا ہدف، القصہ میری جان لینے کے مقصد سے زندگی ایک طرف ہے اور موت ایک طرف۔
(۶۲) اپنی نظر کو قابو میں رکھو، کہ ایسا دُز تیز دست ہے کہ جوہر کے ہاتھ سے بزور گوہر کو اُڑا لے جاتا ہے۔
(۶۳) مرید نے شاہ صاحب سے پوچھا کہ آپ اتنے موٹے کیوں ہو؟ کہا: نفس کتا ہے، ہم اس کو مار چکے ہیں اور کتا مرنے کے بعد پھولتا ہے، مرید نے کہا: مردار کو کوڑے پر پھینکو، ساتھ کیوں لئے پھرتے ہو۔
(۶۴) دنیا میں صرف دو مذہب ہیں:
نیک
اور بد۔
(۱) خوش خلق جنت میں اعلیٰ مراتب پائے گا، اگرچہ عبادت کم رکھتا ہو۔
(۲) خوش خو کبھی غمزدہ نہیں ہوتا، اگرچہ مبتلائے مصیبت ہو اور بد خو کبھی خوش نہیں رہتا اگرچہ ہر طرح کی راحت ہو۔
(۳) بدخوئی ایسا بڑا گناہ ہے کہ کوئی عبادت سودمند نہیں ہوتی۔
(۴) جو شخص کوئی گناہ پردے سے کرتا ہے اس کی ٹوہ لگانا تجسس کہلاتا ہے جو کبیرہ گناہ ہے۔ ؎
جب ذاتِ خداوندی رکھتی ہے میرا پردہ
زاہد نہ کسی کے جا تو عیب و ثواب اندر
(۵) فضول باتوں کا سننا خطرات نفسانی کا تخم ہے۔
(۶) عقلمند سوچ کر بولتا ہے اور بیوقوف بول کر سوچتا ہے۔
(۷) زبان اگرچہ تلوار نہیں پر تلوار سے زیادہ تیز ہے، بات اگرچہ تیر نہیں مگر تیز سے زیادہ زخمی کرتی ہے۔
(۸) زندگی میں انسان کی ناکامی پر غور نہ کرو، کیونکہ بہت سے انسان اس وجہ سے بھی ناکام رہتے ہیں کہ وہ دیانتداری کا خیال زیادہ رکھتے ہیں۔
(۹) احمق اور دانا کی، امیر اور غریب کی، تندرست اور بیمار کی، جوان اور بوڑھے کی، شریف اور شریر کی، ظالم و عادل کی دوستی ہوسکتی ہے مگر قیام پذیر نہیں۔
(۱۰) غافل کے پاس دم بھر بیٹھنا دن بھر کی اصلاح کو برباد کردیتا ہے۔
(۱۱) کسی سے اپنے استقبال کے خواہاں نہ رہو اور خود موت کے استقبال کے لئے تیار رہو۔
(۱۲) روزی کی وسعت آدمی کے لئے دین کی سلامتی اور دل کی فراغت کا سبب ہے۔
(۱۳) وہ جانور بروز محشر داد طلب ہوگا جس کو بلاوجہ مارا یا زیادہ بوجھ لادا گیا ہوگا۔
(۱۴) لعنت ہے اس پر جو مظلوم کی مدد نہ کرے، جب ظلم ہوتا دیکھے اور ہٹانے کی قدرت رکھے۔
(۱۵) علم سیکھے بغیر گوشہ گیری موجب تباہی ہے۔
(۱۶) عالم بے عمل کی صحبت دل سے عظمتِ اسلام نکال دیتی ہے۔
(۱۷) تنہائی سے زیادہ کسی حال میں امن نہیں اور قبروں کی زیارت سے زیادہ کوئی ناصح نہیں۔
(۱۸) انسان تنہائی میں فرشتہ سے برتر، حیوان سے بدتر ہے، اور یہ اس علم و عقل پر منحصر ہے۔
(۱۹) خاص بندے عوام کے ساتھ تبھی عذاب دئے جاتے ہیں جبکہ وہ گناہ دیکھ کر منع کرنے سے خاموشی اختیار کرتے ہیں۔
(۲۰) عیب کرنے والا بد ہے اور عیب کے ظاہر کرنے والا بدتر ہے۔
(۲۱) انکساری یہ ہے کہ آدمی کو غصہ ہی نہ آئے۔
(۲۲) متکبر کا ادنی نشان یہ ہے کہ غصہ ضبط نہ کرسکے۔
(۲۳) نیک کرداری کی کھلی نشانی آدمی کی رفتار و گفتار ہے۔
(۲۴) محض لباس سے مردم شناسی نہیں ہوسکتی، کیونکہ آدمی کا بنانے والا خدا ہے اور لباس کا درزی۔
(۲۵) مالدار کو بخل، حاکم کو طمع، جوان کو سستی، عابد کو غرور اور سخی کو افسوس ضعیف کردیتا ہے۔ ؎
عجب واعظ کی یارب دیندار
عداوت ہے اُسے سارے جہاں سے
(۲۶) بے احسان سخاوت، قدرت میں عفو، دولت میں تواضع اور عداوت میں نیکی جوانمردی ہے۔
(۲۷) وہ شخص آپ سے کیونکر پیار کرسکتا ہے جس سے آپ پیار نہیں کرتے، کیونکہ دونوں انسان ہیں۔
(۲۸) جبکہ آپ دوسروں کو تعصب کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، کیوں دوسرے بھی آپ کو اُسی نظر سے نہ دیکھیں، کیونکہ کمزوری ہر انسان میں موجود ہے۔
(۲۹) جس حال میں آپ کو دوسروں کی بھلائی کا خیال نہیں، کیوں دوسرے بھی آپ کی بھلائی کے خواہاں ہو، کیونکہ یہ تقاضائے بشریت ہے۔
(۳۰) انسان کا شرف علم و ادب سے ہے نہ کہ مال و نسب سے۔