زکوٰة کے مسائل

زکوٰة، دولت کی تقسیم کا انقلابی نظام

س… زکوٰة سے عوام کو کیا فوائد ہیں؟ یہ بھی ایک قسم کا ٹیکس ہے جس کو رفاہِ عامہ پر خرچ کرنا چاہئے، اس موضوع پر تفصیل سے روشنی ڈالئے۔

ج… میں آپ کے مجمل سوال کو پانچ عنوانات پر تقسیم کرتا ہوں، زکوٰة کی فرضیت، زکوٰة کے فوائد، زکوٰة ٹیکس نہیں بلکہ عبادت ہے، زکوٰة کے ضروری مسائل اور زکوٰة کے مصارف۔

زکوٰة کی فرضیت:

زکوٰة، اسلام کا اہم ترین رُکن ہے، قرآنِ کریم میں اس کی بار بار تاکید کی گئی ہے، اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد میں بھی اس کی اہمیت و افادیت اور اس کے ادا نہ کرنے کے وبال کو بہت ہی نمایاں کیا گیا ہے۔

قرآنِ کریم میں ہے:

“والذین یکنزون الذھب والفضة ولا ینفقونھا فی سبیل الله فبشرھم بعذاب الیم۔ یوم یحمٰی علیھا فی نار جھنم فتکویٰ بھا جباھھم وجنوبھم وظھورھم ھٰذا ما کنزتم لأنفسکم فذوقوا ما کنتم تکنزون۔”

(التوبہ: ۳۴، ۳۵)

ترجمہ:…”جو لوگ سونے اور چاندی کا ذخیرہ جمع کرتے ہیں اور اسے اللہ کے راستے میں خرچ نہیں کرتے، انہیں دردناک عذاب کی خوشخبری سنادو۔ جس دن ان سونے، چاندی کے خزانوں کو جہنم کی آگ میں تپاکر ان کے چہروں، ان کی پشتوں اور ان کے پہلووٴں کو داغا جائے گا، (اور ان سے کہا جائے گا کہ) یہ تھا تمہارا مال جو تم نے اپنے لئے جمع کیا تھا، پس اپنے جمع کئے کی سزا چکھو۔”

حدیث میں ارشاد ہے کہ: “اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے، ۱:اس بات کی شہادت دینا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں، اور یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں۔ ۲:نماز قائم کرنا۔ ۳:زکوٰة ادا کرنا۔ ۴:بیت اللہ کا حج کرنا۔ ۵:رمضان المبارک کے روزے رکھنا۔

“قال عبدالله: قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: بنی الاسلام علیٰ خمس: شہادة ان لا الٰہ الا الله وان محمدا عبدہ ورسولہ، واقام الصلٰوة وایتاء الزکٰوة وحج البیت وصوم رمضان۔”

(رواہ البخاری ومسلم واللفظ لہ ج:۱ ص:۳۲)

ایک اور حدیث میں ہے کہ: “جس شخص نے اپنے مال کی زکوٰة ادا کردی، اس نے اس کے شر کو دُور کردیا۔”

“من ادّی زکٰوة مالہ فقد ذھب عنہ شرہ۔”

(کنز العمال حدیث:۱۵۷۷۸، مجمع الزوائد ج:۳ ص:۶۳، وقال الھیثمی رواہ الطبرانی فی الاوسط واسنادہ حسن وان کان فی بعض رجالہ کلام)

ایک اور حدیث میں ہے کہ: “جب تم نے اپنے مال کی زکوٰة ادا کردی تو تم پر جو ذمہ داری عائد ہوتی تھی، اس سے تم سبکدوش ہوگئے۔”

“عن ابی ھریرة رضی الله عنہ ان رسول الله صلی الله علی وسلم قال: اذا ادّیت زکٰوة مالک فقد قضیت ما علیک۔”

(ترمذی ج:۱ ص:۷۸، ابنِ ماجہ ص:۱۲۸، مطبوعہ نور محمد کارخانہ کراچی)

ایک اور حدیث میں ہے کہ: “اپنے مالوں کو زکوٰة کے ذریعہ محفوظ کرو، اپنے بیماروں کا صدقے سے علاج کرو، اور مصائب کے طوفانوں کا دُعا و تضرع سے مقابلہ کرو۔” (ابوداوٴد)

ایک حدیث میں ہے کہ: “جو شخص اپنے مال کی زکوٰة ادا نہیں کرتا، قیامت میں اس کا مال گنجے سانپ کی شکل میں آئے گا، اور اس کی گردن سے لپٹ کر گلے کا طوق بن جائے گا۔”

“عن عبدالله بن مسعود رضی الله عنہ عن رسول الله صلی الله علیہ وسلم قال: ما من احد لا یوٴدّی زکٰوة مالہ الا مثل لہ یوم القیامة شجاعًا اقرع حتی یطوق عنقہ۔”

(سننِ نسائی ج:۱ ص:۳۳۳، و سننِ ابنِ ماجہ ص:۱۲۸، واللفظ لہ)

اس مضمون کی بہت سی احادیث ہیں، جن میں زکوٰة نہ دینے پر قیامت کے دن ہولناک سزاوٴں کی وعیدیں سنائی گئی ہیں۔

زکوٰة کے فوائد:

حق تعالیٰ شانہ نے جتنے اَحکام اپنے بندوں کے لئے مقرّر فرمائے ہیں ان میں بے شمار حکمتیں ہیں جن کا انسانی عقل احاطہ نہیں کرسکتی، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے زکوٰة کا فریضہ عائد کرنے میں بھی بہت سی حکمتیں رکھی ہیں، اور سچی بات یہ ہے کہ یہ نظام ایسا پاکیزہ و مقدس اور اتنا اعلیٰ و ارفع ہے کہ انسانی عقل اس کی بلندیوں تک رسائی حاصل کرنے سے قاصر ہے، یہاں چند عام فہم فوائد کی طرف اشارہ کرنا چاہتا ہوں۔

۱:… آج پوری دُنیا میں سوشلزم کی بات ہو رہی ہے، جس میں غریبوں کی فلاح و بہبود کا نعرہ لگاکر انہیں متمول طبقے کے خلاف اُکسایا جاتا ہے، اس تحریک سے غریبوں کا بھلا کہاں تک ہوتا ہے؟ یہ ایک مستقل موضوع ہے، مگر یہاں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ امیر و غریب کی یہ جنگ صرف اس لئے پیدا ہوئی کہ اللہ تعالیٰ نے متمول طبقے کے ذمہ پسماندہ طبقے کے جو حقوق عائد کئے تھے ان سے انہوں نے پہلو تہی کی، اگر پورے ملک کی دولت کا چالیسواں حصہ ضرورت مندوں میں تقسیم کردیا جائے اور یہ عمل ایک وقتی سی چیز نہ رہے، بلکہ ایک مسلسل عمل کی شکل اختیار کرلے، اور امیر طبقہ کسی ترغیب و تحریص اور کسی جبر و اکراہ کے بغیر ہمیشہ یہ فریضہ ادا کرتا رہے اور پھر اس رقم کی منصفانہ تقسیم مسلسل ہوتی رہے تو کچھ عرصے کے بعد آپ دیکھیں گے کہ غرباء کو امیروں سے شکایت ہی نہیں رہے گی، اور امیر و غریب کی جس جنگ سے دُنیا جہنم کدہ بنی ہوئی ہے، وہ اس نظام کی بدولت راحت و سکون کی جنت بن جائے گی۔

میں صرف پاکستان کی ملتِ اسلامیہ سے نہیں، بلکہ دُنیا بھر کے انسانوں اور معاشروں سے کہتا ہوں کہ وہ اسلام کے نظامِ زکوٰة کو نافذ کرکے اس کی برکات کا مشاہدہ کریں اور سرمایہ دار ملکوں کی جتنی دولت کمیونزم کا مقابلہ کرنے پر صَرف ہو رہی ہے وہ بھی اسی مد میں شامل کرلیں۔

۲:… مال و دولت کی حیثیت انسانی معیشت میں وہی ہے جو خون کی بدن میں ہے، اگر خون کی گردش میں فتور آجائے تو انسانی زندگی کو خطرہ لاحق ہوجاتا ہے، اور بعض اوقات دِل کا دورہ پڑنے سے انسان کی اچانک موت واقع ہوجاتی ہے۔ ٹھیک اسی طرح اگر دولت کی گردش منصفانہ نہ ہو، تو معاشرے کی زندگی خطرے میں ہوتی ہے، اور کسی وقت بھی حرکتِ قلب بند ہوجانے کا خوف طاری رہتا ہے۔ حق تعالیٰ نے دولت کی منصفانہ تقسیم اور عادلانہ گردش کے لئے جہاں اور بہت سی تدبیریں ارشاد فرمائی ہیں، ان میں سے ایک زکوٰة و صدقات کا نظام بھی ہے، اور جب تک یہ نظام صحیح طور پر نافذ نہ ہو اور معاشرہ اس نظام کو پورے طور پر ہضم نہ کرلے تب تک نہ دولت کی منصفانہ گردش کا تصوّر کیا جاسکتا ہے، اور نہ معاشرہ اختلال و زوال سے محفوظ رہ سکتا ہے۔

۳:… پورے معاشرے کو ایک اکائی تصوّر کیجئے، اور معاشرے کے افراد کو اس کے اعضاء سمجھئے، آپ جانتے ہیں کہ کسی حادثے یا صدمے سے کسی عضو میں خون جمع ہوکر منجمد ہوجائے تو وہ گل سڑکر پھوڑے پھنسی کی شکل میں پیپ بن کر بہ نکلتا ہے۔ اسی طرح جب معاشرے کے اعضاء میں ضرورت سے زیادہ خون جمع ہوجاتا ہے تو وہ بھی سڑنے لگتا ہے، اور پھر کبھی تعیش پسندی اور فضول خرچی کی شکل میں نکلتا ہے، کبھی عدالتوں اور وکیلوں کے چکر میں ضائع ہوتا ہے، کبھی بیماریوں اور اسپتالوں میں لگتا ہے، کبھی اُونچی اُونچی بلڈنگوں اور محلات کی تعمیرات میں برباد ہوجاتا ہے (اور اس بربادی کا احساس آدمی کو اس وقت ہوتا ہے جب اس کی گرفتاری کے وارنٹ جاری ہوجاتے ہیں اور اسے بیک بینی و دوگوش یہاں سے باہر نکال دیا جاتا ہے)۔

قدرت نے زکوٰة و صدقات کے ذریعہ ان پھوڑے پھنسیوں کا علاج تجویز کیا ہے، جو دولت کے انجماد کی بدولت معاشرے کے جسم پر نکل آتی ہیں۔

۴:… اپنے بنی نوع سے ہمدردی، انسانیت کا عمدہ ترین وصف ہے، جس شخص کا دِل اپنے جیسے انسانوں کی بے چارگی، غربت و افلاس، بھوک، فقر و فاقہ اور تنگ دستی و زبوں حالی دیکھ کر نہیں پسیجتا، وہ انسان نہیں جانور ہے، اور چونکہ ایسے موقعوں پر شیطان اور نفس، انسان کو انسانی ہمدردی میں اپنا کردار ادا کرنے سے باز رکھتے ہیں، اس لئے بہت کم آدمی اس کا حوصلہ کرتے ہیں، حق تعالیٰ شانہ نے اپنے کمزور بندوں کی مدد کے لئے امیر لوگوں کے ذمہ یہ فریضہ عائد کردیا ہے، تاکہ اس فریضہٴ خداوندی کے سامنے وہ کسی نادان دوست کے مشورے پر عمل نہ کریں۔

۵:… مال، جہاں انسانی معیشت کی بنیاد ہے، وہاں انسانی اخلاق کے بنانے اور بگاڑنے میں بھی اس کو گہرا دخل ہے، بعض دفعہ مال کا نہ ہونا انسان کو غیرانسانی حرکات پر آمادہ کردیتا ہے، اور وہ معاشرے کی ناانصافی کو دیکھ کر معاشرتی سکون کو غارت کرنے کی ٹھان لیتا ہے۔

بعض اوقات وہ چوری، ڈکیتی، سٹہ اور جوأ جیسی قبیح حرکات شروع کردیتا ہے، کبھی غربت و افلاس کے ہاتھوں تنگ آکر وہ اپنی زندگی سے ہاتھ دھولینے کا فیصلہ کرلیتا ہے، کبھی وہ پیٹ کا جہنم بھرنے کے لئے اپنی عزّت و عصمت کو نیلام کرتا ہے، اور کبھی فقر و فاقہ کا مداوا ڈھونڈنے کے لئے اپنے دین و ایمان کا سودا کرتا ہے، اسی بنا پر ایک حدیث میں فرمایا گیا ہے:

“کاد الفقر أن یکون کفرًا۔” (رواہ البیہقی فی شعب الایمان، مشکوٰة ص:۴۲۹، وعزاہ فی الدر المنثور ج:۶ ص:۴۲۰، ابن ابی شیبة والبیھقی فی شعب الایمان وذکرہ الجامع الصغیر، معزیًا الی ابی نُعیم فی الحلیة، وقال السخاوی طرفہ کلھا ضعیف کما فی المقاصد الحسنة وفیض القدیر شرح جامع الصغیر ج:۴ ص:۵۴۲، وقال العزیزی (ج:۴ ص:۲) ھو حدیث ضعیف، وفی تذکرة الموضوعات للشیخ محمد طاھر الفتنی (۱۷۴) ضعیف ولٰکن صح من قول ابی سعید)

یعنی “فقر و فاقہ آدمی کو قریب قریب کفر تک پہنچادیتا ہے۔” اور فقر و فاقہ میں اپنے منعمِ حقیقی کی ناشکری کرنا تو ایک عام بات ہے۔

یہ تمام غیرانسانی حرکات، معاشرے میں فقر و فاقہ سے جنم لیتی ہیں، اور بعض اوقات گھرانوں کے گھرانوں کو برباد کرکے رکھ دیتی ہیں، ان کا مداوا ڈھونڈنا معاشرے کی اجتماعی ذمہ داری ہے، اور صدقات و زکوٰة کے ذریعے خالقِ کائنات نے ان بُرائیوں کا سدِ باب بھی فرمایا ہے۔

۶:… اس کے برعکس بعض اخلاقی خرابیاں وہ ہیں جو مال و دولت کے افراط سے جنم لیتی ہیں، امیرزادوں کو جو جو چونچلے سوجھتے ہیں، اور جس قسم کی غیرانسانی حرکات ان سے سرزد ہوتی ہیں، انہیں بیان کرنے کی حاجت نہیں، صدقات و زکوٰة کے ذریعے حق تعالیٰ نے مال و دولت سے پیدا ہونے والی اخلاقی برائیوں کا بھی انسداد فرمایا ہے، تاکہ ان لوگوں کو غرباء کی ضروریات کا بھی احساس رہے اور غرباء کی حالت ان کے لئے تازیانہٴ عبرت بھی ہے۔

۷:… زکوٰة و صدقات کے نظام میں ایک حکمت یہ بھی ہے کہ اس سے وہ مصائب و آفات ٹل جاتی ہیں جو انسان پر نازل ہوتی رہتی ہیں، اسی بنا پر بہت سی احادیثِ شریفہ میں بیان فرمایا گیا ہے کہ صدقہ سے رَدِّ بلا ہوتا ہے، اور انسان کی جان و مال آفات سے محفوظ رہتی ہے۔

عام لوگوں کو دیکھا گیا ہے کہ جب کوئی شخص بیمار پڑجائے تو صدقے کا بکرا ذبح کردیتے ہیں، وہ مسکین یہ سمجھتے ہیں کہ شاید بکرے کی جان کی قربانی دینے سے مریض کی جان بچ جائے گی، ان لوگوں نے صدقے کے مفہوم کو نہیں سمجھا، صدقہ صرف بکرا ذبح کردینے کا نام نہیں، بلکہ اپنے پاک مال سے کچھ حصہ خدا تعالیٰ کی رضا کے لئے کسی ضرورت مند کے حوالے کردینے کا نام ہے، جس میں ریا و تکبر اور فخر و مباہات کی کوئی آلائش نہ ہو، اس لئے جب کوئی آفت پیش آئے، صدقے سے اس کا علاج کرنا چاہئے، آپ جتنی ہمت و استطاعت رکھتے ہیں تو بازار سے اس کی قیمت معلوم کرکے اتنی قیمت کسی محتاج کو دے دیجئے، یا بکرا ہی خرید کر کسی کو صدقہ کردیجئے، الغرض بکرے کو ذبح کرنے کو رَدِّ بلا میں کوئی دخل نہیں، بلکہ بلا تو صدقے سے ٹلتی ہے، اس لئے صرف شدید بیماری نہیں، بلکہ ہر آفت و مصیبت میں صدقہ کرنا چاہئے، بلکہ آفتوں اور مصیبتوں کے نازل ہونے سے پہلے صدقے سے ان کا تدارک ہونا چاہئے، ہمارا متمول طبقہ جس قدر دولت میں کھیلتا ہے، بدقسمتی سے آفات و مصائب کا شکار بھی اسی قدر زیادہ ہوتا ہے۔

اس کا سبب بھی یہی ہے کہ وہ اپنے مال کی زکوٰة ٹھیک ٹھیک ادا نہیں کرتے، اور جتنا اللہ تعالیٰ نے ان کو دیا ہے، اتنا اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے۔

۸:… زکوٰة و صدقات کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ اس سے مال و دولت میں برکت ہوتی ہے، اور زکوٰة و صدقات میں بخل کرنا آسمانی برکتوں کے دروازے بند کردیتا ہے، حدیث میں ہے کہ: “جو قوم زکوٰة روک لیتی ہے، اللہ تعالیٰ اس پر قحط اور خشک سالی مسلط کردیتا ہے، اور آسمان سے بارش بند ہوجاتی ہے۔” (طبرانی، حاکم)

ایک اور حدیث میں ہے کہ چار چیزوں کا نتیجہ چار چیزوں کی شکل میں ہوتا ہے:

۱:- جب کوئی قوم عہدشکنی کرتی ہے تو اس پر دُشمنوں کو مسلط کردیا جاتا ہے۔

۲:- جب وہ ما انزل الله کے خلاف فیصلے کرتی ہے، تو قتل و خونریزی اور موت عام ہوجاتی ہے۔

۳:- جب کوئی قوم زکوٰة روک لیتی ہے تو ان سے بارش روک لی جاتی ہے۔

۴:- جب کوئی قوم ناپ تول میں کمی کرتی ہے تو زمین کی پیداوار کم ہوجاتی ہے اور قوم پر قحط مسلط ہوجاتا ہے۔ (طبرانی)

خلاصہ یہ کہ خدا تعالیٰ کا تجویز فرمودہ نظامِ زکوٰة و صدقات انقلابی نظام ہے، جس سے معاشرے کو راحت و سکون کی زندگی نصیب ہوسکتی ہے، اور اس سے انحراف کا نتیجہ معاشرے کے افراد کی بے چینی و بے اطمینانی کی شکل میں رونما ہوتا ہے۔

۹:… یہ تمام اُمور تو وہ تھے جن کا تعلق دُنیا کی اسی زندگی سے ہے، لیکن ایک موٴمن جو سچے دِل سے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان رکھتا ہو، یہ دُنیوی زندگی ہی اس کا منتہائے نظر نہیں، بلکہ اس کی زندگی کی ساری تگ و دو آخرت کی زندگی کے لئے ہے، وہ اس دارِ فانی کی محنت سے اپنا آخرت کا گھر سجانا چاہتا ہے، وہ اس تھوڑی سی چند روزہ زندگی سے آخرت کی دائمی زندگی کی راحت و سکون کا متلاشی ہے۔ عام انسانوں کی نظر صرف اس دُنیا تک محدود ہے، اور وہ جو کچھ کرتے ہیں صرف اسی دُنیا کی فلاح و بہبود کے لئے کرتے ہیں، جس منصوبے کی تشکیل کرتے ہیں، محض اس زندگی کے خاکوں اور نقشوں کو سامنے رکھ کر کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے صدقات و زکوٰة کے ذریعہ اہلِ ایمان کو آخرت کے بینک میں اپنی دولت منتقل کرنے کا گُر بتایا ہے، زکوٰة و صدقات کی شکل میں جو رقم دی جاتی ہے وہ براہِ راست آخرت کے بینک میں جمع ہوتی ہے، اور یہ آدمی کو اس دن کام آئے گی جب وہ خالی ہاتھ یہاں کی چیزیں یہیں چھوڑ کر رُخصت ہوگا:

“سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا، جب لاد چلے گا بنجارا”

اس لئے بہت ہی خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو اپنی دولت یہاں سے وہاں منتقل کرنے میں پیش قدمی کرتے ہیں۔

۱۰:… انسان دُنیا میں آتا ہے تو بہت سے تعلقات اس کے ساتھ وابستہ ہوتے ہیں، ماں باپ کا رشتہ، بہن بھائیوں کا رشتہ، عزیز و اقارب کا رشتہ، اہل و عیال کا رشتہ وغیرہ وغیرہ۔

لیکن موٴمن کا ایک رشتہ اپنے خالق و محسن اور محبوبِ حقیقی سے بھی ہے، اور یہ رشتہ تمام رشتوں سے مضبوط بھی ہے اور پائیدار بھی، دُوسرے سارے رشتے توڑے بھی جاسکتے ہیں اور جوڑے بھی جاسکتے ہیں، مگر یہ رشتہ کسی لمحے نہ توڑا جاسکتا ہے نہ اس کا چھوڑنا ممکن ہے، یہ دُنیا میں بھی قائم ہے، نزع کے وقت بھی رہے گا، قبر کی تاریک کوٹھری میں بھی رہے گا، میدانِ محشر میں بھی اور جنت میں بھی، جوں جوں زندگی کے دور گزرتے اور بدلتے رہیں گے، یہ رشتہ قوی سے قوی تر ہوتا جائے گا، اور اس کی ضرورت کا احساس بھی سب رشتوں پر غالب آتا جائے گا۔ اس رشتے کی راہ میں سب سے بڑھ کر انسان کی نفسانی خواہشات حائل ہوتی ہیں، اور ان خواہشات کی بجاآوری کا سب سے بڑا ذریعہ مال ہے، زکوٰة و صدقات کے ذریعہ اللہ تعالیٰ اس کی خواہشات کو کم سے کم کرنا چاہتے ہیں، اور بندے کا جو رشتہ اس کے ساتھ ہے اس کو زیادہ سے زیادہ مضبوط بنانا چاہتے ہیں، اس لئے جو صدقہ کسی فقیر و مسکین کو دیا جاتا ہے، وہ دراصل اس کو نہیں دیا جاتا، بلکہ یہ اپنی مالی قربانی کا حقیر سا نذرانہ ہے، جو بندے کی طرف سے محبوبِ حقیقی کی بارگاہ میں پیش کیا جاتا ہے، چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ جب بندہ صدقہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے اپنے دستِ رضا سے قبول فرماتے ہیں اور پھر اس کی پرورش فرماتے رہتے ہیں، قیامت کے دن وہ صدقہ رائی سے پہاڑ بناکر بندے کو واپس کردیا جائے گا۔ پس حیف ہے! ہم بارگاہِ رَبّ العزّت میں اتنی معمولی سی قربانی پیش کرنے سے بھی ہچکچائیں اور حق تعالیٰ شانہ کی بے پایاں عنایتوں اور رحمتوں سے خود کو محروم رکھیں۔

زکوٰة ٹیکس نہیں:

اُوپر کی سطور سے یہ حقیقت بھی عیاں ہوگئی کہ زکوٰة ٹیکس نہیں، بلکہ ایک اعلیٰ ترین عبادت ہے، بعض لوگوں کے ذہن میں زکوٰة کا ایک نہایت گھٹیا تصوّر ہے، وہ اس کو حکومت کا ٹیکس سمجھتے ہیں، جس طرح کہ تمام حکومتوں میں مختلف قسم کے ٹیکس عائد کئے جاتے ہیں، حالانکہ زکوٰة کسی حکومت کا عائدہ ٹیکس نہیں، نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلامی حکومت کی ضروریات کے لئے اس کو عائد کیا ہے، بلکہ حدیث میں صاف طور پر ارشاد ہے کہ زکوٰة مسلمانوں کے متمول طبقے سے لے کر ان کے تنگ دستوں کو لوٹادی جائے گی۔

اسی طرح یہ سمجھنا بھی غلط ہے کہ زکوٰة دینے والے فقراء و مساکین پر کوئی احسان کرتے ہیں، ہرگز نہیں! بلکہ خود فقراء و مساکین کا مالداروں پر احسان ہے کہ ان کے ذریعے سے ان لوگوں کی رُقوم خدائی بینک میں جمع ہو رہی ہیں، اگر آپ کسی کو بینک میں جمع کرانے کے لئے کوئی رقم سپرد کرتے ہیں تو کیا آپ اس پر احسان کر رہے ہیں؟ اگر یہ احسان نہیں تو غرباء کو زکوٰة دینا بھی ان پر احسان نہیں!

پہلی اُمتوں میں جو مال اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں نذرانے کے طور پر پیش کیا جاتا تھا، اس کا استعمال کرنا کسی کے لئے بھی جائز نہیں تھا، بلکہ وہ سوختنی قربانی کہلاتی تھی، اسے قربان گاہ میں رکھ دیا جاتا تھا، اب اگر آسمان سے آگ آکر اسے راکھ کر جاتی تو یہ قربانی کے قبول ہونے کی علامت تھی، اور اگر وہ چیز اسی طرح پڑی رہتی تو اس کے مردُود ہونے کی نشانی تھی۔ حق تعالیٰ نے اس اُمتِ مرحومہ پر یہ خاص عنایت فرمائی ہے کہ اُمراء کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ جو چیز حق تعالیٰ کی بارگاہ میں پیش کرنا چاہیں اسے ان کے فلاں فلاں بندوں (فقراء و مساکین) کے حوالے کردیں۔ اس عظیم الشان رحمت کے ذریعہ ایک طرف فقراء کی حاجات کا انتظام کردیا گیا اور دُوسری طرف اس اُمتِ مرحومہ کے لوگوں کو رُسوائی اور ذِلت سے بچالیا گیا، اب خدا ہی جانتا ہے کہ کون پاک مال سے صدقہ کرتا ہے؟ اور کون ناپاک مال سے؟ کون ایسا ہے جو محض رضائے الٰہی کے لئے دیتا ہے؟ اور کون ہے جو نام و نمود اور شہرت و ریا کے لئے؟ الغرض زکوٰة ٹیکس نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں نذرانہ ہے، یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اسے قرضِ حسن فرمایا ہے: “کون ہے جو اللہ کو قرضِ حسن دے؟ پس وہ اس کے لئے اس کو کئی گنا بڑھادے۔” (البقرہ)

یہاں صدقات کو “قرضِ حسن” سے اس لئے تعبیر کیا گیا ہے کہ جس طرح قرض واجب الادا ہے، اسی طرح صدقہ کرنے والوں کو مطمئن رہنا چاہئے کہ ان کا یہ صدقہ بھی ہزاروں برکتوں اور سعادتوں کے ساتھ انہیں واپس کردیا جائے گا۔ یہ مطلب نہیں کہ خدا تعالیٰ کو کسی کی احتیاج ہے، یہی وجہ ہے کہ صدقہ فقیر کے ہاتھوں میں جانے سے پہلے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پہنچ جاتا ہے، اور فقیر گویا اس دینے والے سے وصول نہیں کر رہا، بلکہ یہ اس کی طرف سے دیا جارہا ہے جو سب کا داتا ہے۔

زکوٰة حکومت کیوں وصول کرے؟

رہا یہ سوال کہ جب زکوٰة ٹیکس نہیں، بلکہ خالص عبادت ہے، تو حکومت کو اس کا انتظام کیوں تفویض کیا جائے؟ اس سوال کا جواب ایک مستقل مقالے کا موضوع ہے، مگر یہاں مختصر طور پر اتنا سمجھ لینا چاہئے کہ اسلام پورے معاشرے کو ایک اکائی قرار دے کر اس کا نظم و نسق اسلامی حکومت کے سپرد کرتا ہے۔ اس لئے وہ فقراء و مساکین جو اسلامی معاشرے کا جزو ہیں ان کی ضروریات کا تکفّل بھی اسلامی معاشرے کی قوّتِ مقتدرہ کے سپرد کرتا ہے، اور اس کفالت کے لئے اس نے صدقات و زکوٰة کا نظام رائج فرمایا ہے، فقراء و مساکین کی کفالت کی سب سے بڑی ذمہ داری حکومت پر عائد کی گئی ہے، اس لئے اس مد کے لئے مخصوص رقم کا بندوبست بھی حکومت کا فریضہ ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ جو لوگ حکومت کی جانب سے صدقات کی وصولی و انتظام پر مقرّر ہوں، حدیثِ پاک میں ان کو “غازی فی سبیل اللہ” کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے۔ (ابوداوٴد، ترمذی) جس میں ایک طرف ان کی خدمات کو سراہا گیا ہے، اور دُوسری طرف ان کی نازک ذمہ داری کا بھی انہیں احساس دلایا گیا ہے۔ یعنی اگر وہ اس فریضے کو جہاد فی سبیل اللہ سمجھ کر ادا کریں گے تب اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہوں گے، اور اگر انہوں نے اس مال میں ایک پیسے کی بھی خیانت روا رکھی تو انہیں اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ وہ خدائی مال میں خیانت کے مرتکب ہو رہے ہیں، جو ان کے لئے آتشِ دوزخ کا سامان ہے، چنانچہ ایک حدیث میں ارشاد ہے کہ: “جس شخص کو ہم نے کسی کام پر مقرّر کیا، اور اس کے لئے ایک وظیفہ بھی مقرّر کردیا، اس کے بعد اگر وہ اس مال سے کچھ لے تو وہ غنیمت میں خیانت کرنے والا ہوگا۔” (ابوداوٴد)

زکوٰة کے چند مسائل:

زکوٰة ہر صاحبِ نصاب مسلمان پر فرض ہے، اس کے مسائل حضراتِ علمائے کرام سے اچھی طرح سمجھ لینے چاہئیں، میں یہاں چند مسائل درج کرتا ہوں، مگر عوام صرف اپنے فہم پر اعتماد نہ کریں، بلکہ اہلِ علم سے اچھی طرح تحقیق کرلیں۔

۱:… اگر کسی شخص کی ملکیت میں ساڑھے باون تولے (۳۵ء۶۱۲ گرام) چاندی یا ساڑھے سات تولے (۵ء۸۷ گرام) سونا ہے، یا اتنی مالیت کا نقد روپیہ ہے یا پھر اتنی مالیت کا مالِ تجارت ہے، تو اس پر زکوٰة فرض ہے۔

۲:… اگر کسی شخص کے پاس کچھ چاندی ہو، کچھ سونا ہو یا کچھ روپیہ یا کچھ مالِ تجارت ہو، اور ان سب کی مجموعی مالیت ساڑھے باون تولے (۳۵ء۶۱۲ گرام) چاندی کے برابر ہو تو اس پر بھی زکوٰة فرض ہوگی۔

۳:… کارخانے اور فیکٹری وغیرہ کی مشینوں پر زکوٰة نہیں، لیکن ان میں جو مال تیار ہوتا ہے اس پر زکوٰة ہے، اسی طرح جو خام مال کارخانے میں موجود ہو، اس پر بھی زکوٰة ہے۔

۴:… سونے چاندی کی ہر چیز پر زکوٰة ہے، چنانچہ سونے چاندی کے زیور، سونے چاندی کے برتن حتیٰ کہ سچا گوٹا، ٹھپّا، اصلی زری، سونے چاندی کے بٹن، خواہ کپڑوں میں لگے ہوئے ہوں، ان سب پر زکوٰة فرض ہے۔

۵:… کارخانوں اور ملوں کے حصص پر بھی زکوٰة واجب ہے، جبکہ ان حصص کی مقدار بقدرِ نصاب ہو یا دُوسری قابلِ زکوٰة چیزوں کو ملاکر نصاب بن جاتا ہو، البتہ مشینری اور فرنیچر وغیرہ استعمال کی چیزوں پر زکوٰة نہیں ہوگی، اس لئے ہر حصے دار کے حصے میں اس کی جتنی قیمت آتی ہے، اس کو مستثنیٰ کرکے باقی کی زکوٰة ادا کرنا ہوگی۔

۶:… سونا چاندی، مالِ تجارت اور کمپنی کے حصص کی جو قیمت زکوٰة کا سال پورا ہونے کے دن ہوگی، اس کے مطابق زکوٰة ادا کی جائے گی۔

۷:… سال کے اوّل و آخر میں نصاب کا پورا ہونا شرط ہے، اگر درمیان سال میں رقم کم ہوجائے تو اس کا اعتبار نہیں۔

مثلاً: ایک شخص سال شروع ہونے کے وقت تین ہزار روپے کا مالک تھا، تین مہینے کے بعد اس کے پاس پندرہ سو روپے رہ گئے، چھ مہینے بعد چار ہزار روپے ہوگئے، اور سال کے ختم پر ساڑھے چار ہزار روپے کا مالک تھا، تو سال پورا ہونے کے وقت اس پر ساڑھے چار ہزار روپے کی زکوٰة واجب ہوگی، درمیان سال میں اگر رقم گھٹتی بڑھتی رہی، اس کا اعتبار نہیں۔

(نوٹ: آج کل ساڑھے باون تولے چاندی کی قیمت پونے تین ہزار روپے ہے)

۸:… پراویڈنٹ فنڈ پر وصول یابی کے بعد زکوٰة فرض ہے، وصول یابی سے پہلے سالوں کی زکوٰة فرض نہیں۔

۹:… صاحبِ نصاب اگر پیشگی زکوٰة ادا کردے، تب بھی جائز ہے، لیکن سال کے دوران اگر مال بڑھ گیا تو سال ختم ہونے پر زائد رقم ادا کردے۔

زکوٰة کے مصارف:

۱:… زکوٰة صرف غرباء و مساکین کا حق ہے، حکومت اس کو عام رفاہی کاموں میں استعمال نہیں کرسکتی۔

۲:… کسی شخص کو اس کے کام یا خدمت کے معاوضے میں زکوٰة کی رقم نہیں دی جاسکتی، لیکن زکوٰة کی وصولی پر جو عملہ حکومت کی طرف سے مقرّر ہو، ان کا مشاہرہ اس فنڈ سے ادا کرنا صحیح ہے۔

۳:… حکومت صرف اموالِ ظاہرہ کی زکوٰة وصول کرے گی، اموالِ باطنہ کی زکوٰة ہر شخص اپنی صوابدید کے مطابق ادا کرسکتا ہے۔

(کارخانوں اور ملوں میں تیار ہونے والا مال، تجارت کا مال اور بینک میں جمع شدہ سرمایہ “اموالِ ظاہرہ” ہیں، اور جو سونا، چاندی، نقدی گھروں میں رہتی ہے، ان کو “اموالِ باطنہ” کہا جاتا ہے۔)

۴:… کسی ضرورت مند کو اتنا روپیہ دے دینا جتنے پر زکوٰة فرض ہوتی ہے، مکروہ ہے، لیکن زکوٰة ادا ہوجائے گی۔

زکوٰة ادا کرنے کے فضائل اور نہ دینے کا وبال

س… زکوٰة دینے پر کیا خوشخبری اور نہ دینے پر کیا وعید ہے؟

ج… زکوٰة دینے سے مال پاک ہوتا ہے، اور حق تعالیٰ کی رضا حاصل ہوتی ہے، اور نہ دینے سے مال ناپاک رہتا ہے، اور خدا تعالیٰ ناراض ہوتا ہے۔ قرآنِ کریم اور حدیثِ نبوی میں زکوٰة نہ دینے کے بہت سے وبال بیان فرمائے گئے ہیں، ایسا مال سانپ کی شکل میں مال دار کو کاٹے گا اور کہے گا کہ میں تیرا وہی مال ہوں جس کو تو جمع کرتا تھا اور خدا تعالیٰ کے راستے میں خرچ نہیں کرتا تھا۔

قرآنِ کریم اور احادیثِ شریفہ میں زکوٰة و صدقات کے بڑے فضائل بیان کئے گئے ہیں، اور زکوٰة نہ دینے پر شدید وعیدیں وارد ہوئی ہیں، ان کی تفصیل حضرت شیخ سیّدی و مرشدی مولانا محمد زکریا کاندہلوی مہاجرِ مدنی نوّر اللہ مرقدہ کی کتاب “فضائلِ صدقات” میں دیکھ لی جائے، یہاں اختصار کے پیشِ نظر ایک ایک آیت اور حدیث فضائل میں، اور ایک ایک آیت اور حدیث وعید میں نقل کرتا ہوں۔

زکوٰة و صدقات کی فضیلت:

“مثل الذین ینفقون اموٰلھم فی سبیل الله کمثل حبة انبتت سبع سنابل فی کل سنبلة مائة حبة والله یضٰعف لمن یشاء والله واسع علیم۔ الذین ینفقون اموٰلھم فی سبیل الله ثم لا یتبعون ما انفقوا منًّا ولا اذًی لھم اجرھم عند ربھم ولا خوف علیھم ولا ھم یحزنون۔” (البقرہ: ۲۶۱، ۲۶۲)

ترجمہ:…”جو لوگ اللہ کی راہ میں اپنے مالوں کو خرچ کرتے ہیں ان کے خرچ کئے ہوئے مالوں کی حالت ایسی ہے جیسے ایک دانے کی حالت جس سے (فرض کرو) سات بالیں جمیں (اور) ہر بالی کے اندر سو دانے ہوں اور یہ افزونی خدا تعالیٰ جس کو چاہتا ہے عطا فرماتا ہے اور اللہ تعالیٰ بڑی وسعت والے ہیں جاننے والے ہیں۔ جو لوگ اپنا مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں پھر خرچ کرنے کے بعد نہ تو (اس پر) اِحسان جتاتے ہیں اور نہ (برتاوٴ سے) اس کو آزار پہنچاتے ہیں، ان لوگوں کو ان (کے اعمال) کا ثواب ملے گا ان کے پروردگار کے پاس، اور نہ ان پر کوئی خطر ہوگا اور نہ یہ مغموم ہوں گے۔”

(ترجمہ حضرت تھانوی)

حدیث:… “عن ابی ھریرة رضی الله عنہ قال: قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: من تصدق بعدل تمرة من کسب طیب، ولا یقبل الله الا الطیب، فان الله یتقبلھا بیمینہ ثم یربیھا لصاحبھا کما یربی احدکم فلوہ حتی تکون مثل الجبل۔ متفق علیہ۔”

(مشکوٰة ص:۱۶۷ باب فضل الصدقہ)

ترجمہ:…”حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: جو شخص ایک کھجور کے دانے کے برابر پاک کمائی سے صدقہ کرے، اور اللہ تعالیٰ صرف پاک ہی کو قبول فرماتے ہیں، تو اللہ تعالیٰ اس کو اپنے دست میں لے کر قبول فرماتے ہیں، پھر اس کے مالک کے لئے اس کی پرورش فرماتے ہیں، جس طرح کہ تم میں سے ایک شخص اپنی گھوڑی کے بچے کی پرورش کرتا ہے، یہاں تک کہ وہ (ایک کھجور کے دانے کا صدقہ قیامت کے دن) پہاڑ کے برابر ہوجائے گا۔”

زکوٰة ادا نہ کرنے پر وعید:

“والذین یکنزون الذھب والفضة ولا ینفقونھا فی سبیل الله فبشرھم بعذاب الیم۔ یوم یحمٰی علیھا فی نار جھنم فتکویٰ بھا جباھھم وجنوبھم وظھورھم ھذا ما کنزتم لأنفسکم فذوقوا ما کنتم تکنزون۔”

(التوبہ: ۳۴، ۳۵)

ترجمہ:…”جو لوگ سونا چاندی جمع کر کر رکھتے ہیں اور ان کو اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے، سو آپ ان کو ایک بڑی دردناک سزا کی خبر سنادیجئے۔ کہ اس روز واقع ہوگی کہ ان کو دوزخ کی آگ میں (اوّل) تپایا جاوے گا، پھر ان سے ان لوگوں کی پیشانیوں اور ان کی کروٹوں اور ان کی پشتوں کو داغ دیا جائے گا، یہ وہ ہے جس کو تم نے اپنے واسطے جمع کرکے رکھا تھا، سو اَب اپنے جمع کرنے کا مزہ چکھو۔” (ترجمہ حضرت تھانوی)

حدیث:… “عن ابن مسعود رضی الله عنہ عن النبی صلی الله علیہ وسلم قال: ما من رجل لا یوٴدّی زکٰوة مالہ الا جعلہ الله یوم القیامة فی عنقہ شجاعًا۔ ثم قرأ علینا مصداقہ من کتاب الله: ولا یحسبن الذین یبخلون بما اٰتٰھم الله من فضلہ۔ الاٰیة۔”

(رواہ الترمذی والنسائی وابن ماجہ، مشکوٰة ص:۱۵۷، کتاب الزکوٰة)

ترجمہ:…”حضرت ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ: جو شخص اپنے مال کی زکوٰة ادا نہیں کرتا، قیامت کے دن اس کا مال گنجے سانپ کی شکل میں اس کی گردن میں ڈال دیا جائے گا۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مضمون کی آیت ہمیں پڑھ کر سنائی۔ آیت کا ترجمہ یہ ہے: اور ہر گز خیال نہ کریں ایسے لوگ جو ایسی چیز میں بخل کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنے فضل سے دی ہے کہ یہ بات کچھ ان کے لئے اچھی ہوگی، بلکہ یہ بات ان کی بہت بُری ہے، وہ لوگ قیامت کے روز طوق پہنادئیے جائیں گے اس کا جس میں انہوں نے بخل کیا تھا۔”

(آل عمران: ۱۸۰، ترجمہ حضرت تھانوی)

زکوٰة کے ڈَر سے غیرمسلم لکھوانا

س… ایک صاحب نے ایک بیوہ عورت کو مشورہ دیا ہے کہ اگر وہ اپنے آپ کو غیرمسلم لکھوادیں تو زکوٰة نہیں کٹے گی، کیا ایسا کرنے سے ایمان پر اثر نہیں ہوگا؟

ج… کسی شخص کا اپنے آپ کو غیرمسلم لکھوانا کفر ہے، اور زکوٰة سے بچنے کے لئے ایسا کرنا ڈبل کفر ہے، اور کسی کو کفر کا مشورہ دینا بھی کفر ہے۔ پس جس شخص نے بیوہ کو غیرمسلم لکھوانے کا مشورہ دیا اس کو اپنے ایمان اور نکاح کی تجدید کرنی چاہئے، اور اگر بیوہ نے اس کے کفریہ مشورہ پر عمل کرلیا ہو تو اس کو بھی ازسرِنو ایمان کی تجدید کرنی چاہئے۔

اسی کے ساتھ حکومت کو بھی اپنے اس نظامِ زکوٰة پر نظرِثانی کرنی چاہئے جو لوگوں کو مرتد کرنے کا سبب بن رہا ہے۔ اس کی آسان صورت یہ ہے کہ حکومت مسلمانوں کے مال سے جتنی مقدار “زکوٰة” کے نام سے وصول کرتی ہے (یعنی اڑھائی فیصد) اتنی ہی مقدار غیرمسلموں کے مال سے “رفاہی ٹیکس” کے نام سے وصول کرلیا کرے، اس صورت میں کسی کو زکوٰة سے فرار کی راہ نہیں ملے گی اور غیرمسلموں پر رفاہی ٹیکس کا عائد کرنا کوئی ظلم و زیادتی نہیں، کیونکہ حکومت کے رفاہی کاموں سے استفادے میں غیرمسلم برادری بھی برابر کی شریک ہے، اور اس فنڈ کو غیرمسلم معذوروں کی مدد و اعانت اور خبرگیری میں خرچ کیا جاسکتا ہے۔