جائیداد کی تقسیم میں ورثاء کا تنازع

مرحوم کے بھتیجے، بھتیجیاں اور ان کی اولاد ہو تو وراثت کی تقسیم

س… میرے دوست کے پھوپھا کا انتقال دس روز قبل ہوگیا تھا، مرحوم کی کوئی اولاد نہیں ہے، لہٰذا جائیداد فساد کی جڑ بنی ہوئی ہے، کچھ لوگ کہتے ہیں مسجد یا مدرسے میں دے دو، اور کچھ لوگ کہتے ہیں کہ جن لوگوں کا حق بنتا ہے انہیں دے دو۔ وارث اس طرح سے ہیں: مرحوم کے بڑے بھائی کے چار بیٹے تھے، بہن کوئی نہیں۔ جن میں سے تین بیٹے پہلے ہی انتقال کرچکے ہیں، اب ایک بیٹا حیات ہے۔ یاد رہے کہ تین مرحوم بیٹوں کی اولادیں زندہ ہیں، یعنی مرحوم کے وہ پوتا پوتی کہلاتے ہیں۔ دُوسرے نمبر پر مرحوم کے چھوٹے بھائی کی اولاد میں تین بیٹے اور دو بیٹیاں موجود ہیں۔ کچھ لوگوں کا کہنا یہ بھی ہے کہ جائیداد دو حصوں میں تقسیم کرلو، آدھی جائیداد بڑے بھائی کی اولاد والے رکھ لیں، اور آدھی جائیداد چھوٹے بھائی کی اولاد والے رکھ لیں، بہنوں کو کوئی حصہ نہ دیں۔ جبکہ دونوں بہنیں مرحوم کی حقیقی بھتیجی ہیں، اور جبکہ بھتیجے اور پوتے حق دار بن رہے ہیں۔ اب آپ یہ بتائیں قرآن اور حدیث سے مرحوم کی جائیداد کے بارے میں شرعی حکم کیا ہے؟ کون کون حق دار ہیں اور کس طرح سے ہیں؟ آیا کہ مرحوم کی دونوں حقیقی بھتیجیاں حق دار ہیں یا نہیں؟ اور اگر کوئی کسی کی حق تلفی کرتا ہے تو اس کی سزا اللہ کے یہاں کیا ہے؟

ج… سوال کے مطابق مرحوم کے چار بھتیجے (ایک بڑے بھائی کا بیٹا، اور تین چھوٹے بھائی کے بیٹے) جو زندہ ہیں، وہ مرحوم کے وارث ہیں۔ اس لئے مرحوم کی جائیداد ان چار بھتیجوں کو برابر برابر تقسیم کردی جائے، جو بھتیجے مرحوم کی زندگی میں فوت ہوگئے ان کی اولاد کو کچھ نہیں ملے گا، اس طرح جو بھتیجیاں زندہ ہیں وہ بھی وارث نہیں، ان کو بھی کچھ نہیں ملے گا۔ صرف چار بھتیجے جو زندہ ہیں ان کو یہ جائیداد ملے گی۔

شوہر کا بیوی کے نام مکان کرنا اور سسر کا دھوکے سے اپنے نام کروانا

س… میرے شوہر کا مکان جو کہ انہوں نے اپنے انتقال سے قبل میرے نام کردیا تھا، میرے سسر نے میرے شوہر کے انتقال کے بعد دھوکے سے اپنے نام کروالیا، جس کا پتا میرے سسر کے انتقال کے بعد چلا، جناب سے پتا کرنا ہے کہ کیا یہ شرعی طور پر دُرست ہے؟ اگر نہیں تو اس کا حل کیا ہے؟

ج… اگر شوہر نے وہ مکان آپ کے نام کردیا تھا اور قبضہ بھی آپ ہی کا تھا تو شرعاً وہ مکان آپ ہی کا ہے، خسر نے غلط کام کیا اور ان کے مرنے کے بعد جن لوگوں نے اس مکان کو اپنا تصوّر کیا وہ بھی گنہگار ہیں، ان کو چاہئے کہ وہ مکان آپ کو دے دیں۔

مرحوم کا قرضہ اگر کسی پر ہو تو کیا کوئی ایک وارث معاف کرسکتا ہے؟

س… میرے والد محترم سے ایک شخص نے کچھ رقم بطور قرض لی، اس کے عوض اپنا کچھ قیمتی سامان بطور زَرِ ضمانت رکھوا دیا، مقرّرہ میعاد پوری ہونے پر جب وہ شخص نہیں آیا، والد محترم نے مجھ سے کہا کہ فلاں شخص ملے تو اس سے رقم کی وصولی کا تقاضا کرنا اور اس کی امانت یاد دِلانا، کئی مرتبہ وہ شخص ملا، میں نے والد محترم کے انتقال کا بتایا اور اس سے اپنی رقم کا مطالبہ کیا، اس شخص نے کہا کہ وہ رقم نہیں دے سکتا، اسے یہ رقم معاف کردی جائے، اور اس کی امانت اس کو واپس دے دی جائے، اپنی موت اور اس کی امانت کی حفاظت کی کوئی گارنٹی نہ ہونے کے ڈَر سے میں نے اس کی امانت اس کے حوالے کردی۔

۱:… کیا میں نے صحیح کیا؟

۲:… کیا میں والد محترم کی طرف سے اس قرض دار کو رقم معاف کرسکتا ہوں؟

۳:… یا اور کوئی طریقہ ہو تو تحریر فرمادیں۔

ج… آپ کے والد کے انتقال کے بعد ان کی رقم وارثوں کے نام منتقل ہوگئی، آپ اگر اپنے والد کے تنہا وارث ہیں اور کوئی وارث نہیں، تو آپ معاف کرسکتے ہیں، اور اگر دُوسرے وارث بھی ہیں تو اپنے حصے کی رقم خود تو معاف کرسکتے ہیں اور دُوسرے وارثوں سے معاف کرانے کی بات کرسکتے ہیں (بشرطیکہ تمام وارث عاقل و بالغ ہوں)۔

بھائیوں کا باپ کی زندگی میں جائیداد پر قبضہ

س… ہمارے والد صاحب نے دو شادیاں کی تھیں، جس میں سے ہم تین بہن بھائی ہیں، دو بھائی اور میں، ایک بہن، میری والدہ بھی اور میرے بھائیوں کی والدہ بھی وفات پاچکی ہیں، والد صاحب ابھی زندہ ہیں، ہمارے والد صاحب کی زمین ہے جس پر میرے دو بھائی قابض ہیں اور دونوں نے الگ الگ ہوکر زمین کا بٹوارہ کرلیا ہے، مگر میں اپنا حصہ باپ کی زمین سے لینا چاہتی ہوں، شریعتِ محمدی کے مطابق مجھے میرے باپ کی زمین میں سے کتنا حصہ آتا ہے؟ کیونکہ میرے والد، بھائیوں کی طرف داری کرتے ہیں، باپ کی جائیداد میں میرا کتنا حصہ ہے؟ اور میری ماں الگ ہے اس کا کتنا حصہ ہے؟

ج… آپ کی والدہ اور آپ کے بھائیوں کی والدہ دونوں وفات پاچکی ہیں، لہٰذا ان کا حصہ تو ختم، دو بھائی اور ایک بہن ہو تو بہن کا پانچواں حصہ بیٹھتا ہے، یعنی جائیداد کے پانچ حصے کئے جائیں تو دو دو حصے دونوں بھائیوں کے ہیں اور ایک حصہ آپ کا، آپ کے بھائیوں کا باپ کی زندگی میں جائیداد پر قابض ہوکر آپ کو محروم کردینا جائز نہیں، آپ کے بھائیوں پر شرعاً فرض ہے کہ وہ آپ کا حصہ ادا کریں۔

بھائی، بہنوں کے درمیان شرعی ورثہ پر تنازع

س… کسی شخص کی وراثت کی تقسیم کا مسئلہ ہے، ثالثوں میں دو جماعتیں ہوگئی ہیں، ایک طرف وہ لوگ ہیں جو کہ دِین دار ہیں، اور دُوسری طرف وہ لوگ ہیں جو کہ دُنیادار ہیں۔ دِین دار لوگ یہ کہتے ہیں کہ جائیداد منقولہ و غیرمنقولہ کا حساب لگاکر بہنوں کا حصہٴ ملکیت بھائیوں کے نام منتقل کردو۔ بھائی حسبِ ضرورت بہنوں کا خرچہ اُٹھاتے رہیں اور جب اس کا دینے کا وقت آئے گا تو اس کو دے دیں، اس طرح آئندہ بہنوں کا حقِ ملکیت نہ رکھا تو مسائل نہیں پیدا ہوں گے، ورنہ جائیداد بہنوں کو دینے سے اس کے شوہروں اور بچوں کو مسائل پیدا ہوں گے۔

دُوسری طرف جو دُنیادار لوگ ہیں، وہ کہتے ہیں کہ جائیداد منقولہ و غیرمنقولہ سے اتنی آمدنی ہے کہ وہ بہنوں کے اخراجات کے لئے کافی ہے، اور اس آمدنی کا حصہ (بہنوں) کے اخراجات کے بعد بھی بچے گا، تو یہ طریقہ منتقل نہ کرو، بلکہ شرعی طریقے کے مطابق حقِ ملکیت رہنے دو، اس طرح بہنوں کو آئندہ اس جائیداد کے نفع اور آمدنی میں حصہ ملتا رہے گا، اور جس وقت ضرورت ہو اس کو بہنوں کی رضامندی سے فروخت کردو۔

اس مسئلے کو حل کردیں شرعی اور اخلاقی طور پر بھی کون سا طریقہ صحیح ہے؟

ج… شرعی حصوں کے مطابق جائیداد تقسیم کرکے بہنوں کی جائیداد ان کے حوالہ کردی جائے، اور اگر وہ غیرشادی شدہ ہیں تو بھائی احتیاط کے ساتھ ان کا حصہ نکالیں اور ان پر خرچ کریں، جب وہ شادی شدہ ہوجائیں تو جائیداد اور اس کی آمدنی ان کے حوالے کردیں۔

موروثی مکان پر قبضے کے لئے بھائی، بہن کا جھگڑا

س… عرض ہے کہ ہم دو بہن، بھائی ہیں (ایک بھائی، ایک بہن)، والدین گزر گئے، ترکہ میں ایک مکان ہے، جس میں ہم رہتے ہیں، میری بہن نے ایک مکان خریدا، مجھے اس میں منتقل کردیا۔ تقریباً ساڑھے چار سال بعد میری بہن نے وہ مکان فروخت کردیا، پھر مجھے اس گھر میں (جو کہ ہمارے والدین کا تھا) نہیں آنے دیا، میں کرائے کے مکان میں رہنے لگا، تقریباً اَٹھارہ سال ہوگئے کرایہ کے مکان میں رہتے ہوئے، میں کرائے کی مد میں تقریباً: ۲۰۰,۴۲ روپے ادا کرچکا ہوں۔ میں نے برادری میں درخواست دی تو پنچوں نے میری بہن کو بلایا اور میری درخواست بتائی، جس پر میری بہن نے ساڑھے چار سال کا کرایہ ۲۰۰روپے ماہوار کے حساب سے: ۸۰۰,۱۰ روپے ذمہ لگایا، اس کے علاوہ میری بہن نے میری طرف ۰۰۰,۲ روپے قرضہ بتایا اور کلمہ پڑھ کر کہا کہ یہ میرے ہیں، اس کے علاوہ (والدین کے مکان میں جو ترکہ میں ہے) بجلی لگوائی:۴۰۰ روپے، پانی کا نل لگوایا:۳۰۰ روپے، گیس لگایا:۵۰۰ روپے، مرمت مکان:۰۰۰,۵ روپے، اس طرح جنرل ٹوٹل: ۰۰۰,۱۹ روپے ہوئے۔ پنچوں نے پھر میرا حساب کیا کہ ترکہ کے مکان میں ۱۹۵۹ء سے رہتی ہو، اور یہ مکان میری بہن سے (جس میں، میں ساڑھے چار سال رہا) بڑا ہے، لہٰذا اس کا کرایہ کم از کم ۲۰۰ روپے ماہوار لگاوٴ، تقریباً ۲۸ سال ہوئے جس کا کرایہ: ۲۰۰,۶۷ روپے ہوا، اور سولہ سو (۶۰۰,۱) روپے نقد کے ہیں، کل رقم: ۸۰۰,۶۸ روپے ہوئے۔ لہٰذا شریعت کی رُو سے بتائیں یہ رقم بہن، بھائی میں کس طرح تقسیم کی جائے؟ اور مکان کس طرح تقسیم کیا جائے؟ مہربانی فرماکر بہن کا علیحدہ اور بھائی کا علیحدہ حصہ بتایا جائے تاکہ یہ معاملہ نمٹ جائے۔

ج… والدین نے جو مکان چھوڑا ہے، اس پر دو حصے بھائی کے ہیں، اور ایک حصہ بہن کا، لہٰذا اس کے تین حصے کرکے دو بھائی کو دِلائے جائیں اور ایک بہن کو۔

۲:… بہن جو دو ہزار کا قرضہ بھائی کے نام بتاتی ہے، اگر اس کے گواہ موجود ہیں یا بھائی اس قرضے کا اقرار کرتا ہے تو بھائی سے وہ قرضہ دِلایا جائے، ورنہ بہن کا دعویٰ غلط ہے، خواہ وہ کتنی ہی دفعہ کلمہ پڑھ کر یقین دِلائے۔

۳:… بہن نے اپنے بھائی کو جس مکان میں ٹھہرایا تھا، اگر اس کا کرایہ طے کرلیا تھا تو ٹھیک ہے، ورنہ وہ شرعاً کرایہ وصول کرنے کی مجاز نہیں۔

۴:… بھائی کے مکان میں جو وہ ۲۸ سال تک رہی، چونکہ یہ قبضہ غاصبانہ تھا اس لئے اس کا کرایہ اس کے ذمہ لازم ہے۔

۵:… بہن نے اس مکان میں جو بجلی، پانی اور گیس پر روپیہ خرچ کیا، یا مکان کی مرمت پر خرچ کیا، چونکہ اس نے بھائی کی اجازت کے بغیر اپنی مرضی سے کیا، اس لئے وہ بھائی سے وصول کرنے کی شرعاً مجاز نہیں۔

خلاصہ یہ کہ بہن کے ذمہ بھائی کے: ۲۰۰,۶۷ روپے بنتے ہیں، اور شرعی مسئلے کی رُو سے بھائی کے ذمہ بہن کا ایک پیسہ بھی نہیں نکلتا۔ تاہم پنچایت والے صلح کرانے کے لئے کچھ بھائی کے ذمہ بھی ڈالنا چاہیں تو ان کی خوشی ہے۔

نوٹ:… اگر یہ مسائل سمجھ میں نہ آئے ہوں، تو دو سمجھ دار آدمی آکر مجھ سے زبانی سمجھ لیں۔

بھائی، بہنوں کا حصہ غصب کرکے ایک بھائی کا مکان پر قبضہ

س:۱… ہمارے والد صاحب کا مکان جو کہ عرصہ ۲۱ سال سے ہمارے بڑے بھائی نے قبضہ کر رکھا ہے، اور اس مکان میں اپنی مرضی سے بجلی، گیس، پانی لگوایا اور مکان بھی بنوایا، مگر ہماری اجازت نہیں تھی۔ والد صاحب زندہ تھے مگر ان سے بھی اجازت نہیں لی، بلکہ والد صاحب کو گھر سے نکال دیا اور والد صاحب کی ایک کھڈی تھی وہ بھی اُکھاڑ کر پھینک دی۔ والد صاحب کو انتقال ہوئے ۱۰ سال ہوگئے ہیں، ہم کل ۳ بھائی ۴ بہنیں، ایک والدہ۔ اس وقت مکان کی قیمت تقریباً ایک لاکھ ۷۵ ہزار روپے ہے، اس کا حساب بتادیجئے کہ بھائی اور بہن اور والدہ کا حصہ کتنا ہوگا؟

س:۲… دُوسرے یہ کہ بھائی نے جو رقم مکان بنوانے میں اور بجلی، گیس، پانی لگوانے میں صَرف کی، اسی میں سے کٹے گی یا ۲۱ سال سے مکان پر قابض ہونے کی وجہ سے کرایہ کی صورت میں برابر ہوگی؟

ج۱:… آپ کے والد مرحوم کا مکان ۸۰ حصوں پر تقسیم ہوگا، دس حصے تمہاری والدہ کے، چودہ چودہ حصے تینوں بھائیوں کے، اور سات سات حصے چاروں بہنوں کے، ایک لاکھ ۷۵ ہزار کی رقم میں درج ذیل حصے بنتے ہیں:

والدہ کا حصہ: ۸۷۵,۲۱

ہر بھائی کا حصہ: ۶۲۵,۳۰

ہر بہن کا حصہ: ۵۰/۳۱۲,۱۵

ج:۲… بڑے بھائی نے مکان پر جو خرچ کیا ہے وہ چونکہ دُوسرے حصہ داروں کی اجازت کے بغیر خرچ کیا ہے، اس لئے اَز رُوئے قانون تو اس کا معاوضہ لینے کا حق دار نہیں، مگر اس کی رعایت کرتے ہوئے یہ کیا جائے کہ اکیس سال سے کرائے کی مد میں اس کے ذمہ جو رقم بنتی ہے اس کو منہا کرکے باقی رقم اس کو دے دی جائے۔

والدین کی جائیداد سے بہنوں کو کم حصہ دینا

س… ہم الحمدللہ چار بہنیں اور دو بھائی ہیں، محترم والد مرحوم کے انتقال کے وقت ہمارے چچا صاحب نے ترکہ کا بڑا حصہ کاروبار، جائیداد وغیرہ بھائیوں کے نام منتقل کردیا تھا، اور بہنوں کو اشک شوئی کے لئے تھوڑا بہت دے دیا تھا، جب ان سے ترکہ کی تقسیم کی بنیاد دریافت کرنے کی جسارت کی تو انہوں نے فرمایا کہ باپ کا نام جاری رکھنے کے لئے مصلحت کا یہی تقاضا ہے۔ محترمہ والدہ صاحب الحمدللہ حیات ہیں اور بہت ضعیف ہیں، ان کے نام لاکھوں روپے کی جائیداد ہے، انہی چچا صاحب نے والدہ صاحبہ کی جائیداد فروخت کراکر لاکھوں روپے دونوں بھائیوں کو تقسیم کرادئیے اور بہنوں کو صرف چند ہزار روپے والدہ صاحب نے دے دئیے۔ الحمدللہ دونوں بھائی پہلے ہی سے کروڑپتی ہیں اور محترم چچا صاحب ان کو بہت چاہتے ہیں، برائے مہربانی اَز رُوئے شریعت فرمائیں کہ روپیہ کی، اولاد میں اس طرح کی تقسیم جائز ہے؟ اور چچا صاحب کا رول شریعت کے مطابق صحیح ہے؟

ج… آپ کے والد مرحوم کا ترکہ (ادائے قرض و نفاذِ وصیت کے بعد، اگر کوئی وصیت کی ہو) ۲۴ حصوں پر تقسیم ہوگا، آٹھ حصے آپ کی والدہ کے، ۱۴، ۱۴ دونوں بھائیوں کے، اور ۷، ۷ حصے چاروں بہنوں کے۔ اللہ تعالیٰ -جس نے یہ حصے مقرّر فرمائے ہیں- آپ کے چچا سے زیادہ اپنے بندوں کی مصلحت کو جانتا ہے، اس لئے آپ کے چچا کا حکمِ الٰہی سے انحراف کرنا گناہ ہے،جس سے آپ کے چچا کو توبہ کرنی چاہئے اور دُوسروں کی دُنیا کی خاطر اپنی آخرت برباد نہیں کرنی چاہئے۔ بہنوں کا جو حصہ بھائیوں نے لے لیا ہے وہ ان کے لئے حلال نہیں، ان کو لازم ہے کہ بہنوں کو واپس کردیں، ورنہ ساری عمر حرام کھانے کا وبال ان پر رہے گا اور قیامت کے دن ان کو بھرنا ہوگا، والله اعلم!

جائیداد میں بیٹیوں اور بہن کا حصہ

س… مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے والدین کی طلاق ہمارے بچپن میں ہوگئی تھی، ہم تین لڑکیاں ہیں اور ہماری عمریں اُس وقت ایک، دو اور چار سال کی تھیں، ہمارے والد نے ہمیں کبھی بھی خرچہ نہیں دیا۔ مولانا صاحب! ہماری ملاقات اپنے والد سے ۲۴ سال کے بعد ہوئی، اس وقت تک دو بہنوں کی شادی ہوچکی تھی۔ ایک مہینے پہلے ہمارے والد کا انتقال ہوگیا ہے، والد صاحب ایک مکان، ایک دُکان چھوڑ گئے ہیں، جو انہوں نے ہماری پھوپھی کے نام چھوڑا ہے، جس میں پچاس تولے سونا اور نقدی بھی شامل ہے۔ مولانا صاحب! اب ہماری پھوپھی کہتی ہیں کہ تم بہنوں کا اس پورے اثاثے میں کوئی حق نہیں۔ انہوں نے ہمارے باپ کی جائیداد میں سے ایک پائی بھی نہیں دی۔ ہماری پھوپھی ”شارجہ“ میں مقیم ہیں، اور اپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ خوش حال زندگی گزار رہی ہیں۔ مولانا صاحب! میں بہت پریشان ہوں، ساری زندگی ہمارے باپ نے ہمیں کچھ بھی نہیں دیا۔ ہماری پھوپھی کا کہنا ہے کہ ساری جائیداد ان کے نام ہے، اور اس میں سے وہ ہم بہنوں کو کوئی حصہ نہیں دیں گی۔ مولانا صاحب! آپ مجھے بتائیے کہ قیامت کے دن ایسے باپ کے لئے کیا حکم ہے کہ جو دُنیا میں اپنی اولادوں کو دربدر کردیتا ہے اور مرنے سے پہلے ان کو ان کا حق نہیں دیتا، ایسے لوگوں کے لئے کیا حکم ہے جو سب کچھ جان بوجھ کر دُوسروں کے حق پر قبضہ جماتے ہیں؟

ج… آپ کے والد کے ترکہ میں دو تہائی آپ تینوں بہنوں کا حق ہے، اور ایک تہائی آپ کی پھوپھی کا حصہ ہے۔ آپ کی پھوپھی کا فرض ہے کہ اس پوری جائیداد میں دو تہائی بیٹیوں کو دے دے، اگر وہ ایسا نہیں کرتی تو اس کی دُنیا و آخرت دونوں برباد ہوجائیں گی، اور اللہ تعالیٰ کی ایسی مار پڑے گی کہ دیکھنے والوں کو اس پر رحم آئے گا․․․!

بارہ سال پہلے بہنوں کے قبضہ شدہ حصے کی قیمت کس طرح لگائی جائے؟

س… بھائیوں نے باپ کے انتقال کے بعد بہنوں کی بلااجازت و مرضی کے تمام منقولہ و غیرمنقولہ جائیداد اپنے نام منتقل کرلی اور بہنوں کے حصے کاغذی کتاب میں درج کرلئے، کاغذی قیمت کی صورت میں۔ اس طرح بہنوں کو نہ صرف اس جائیداد منقولہ و غیرمنقولہ سے ہونے والی آمدنی و منافع سے محروم کیا، جو اس سے حاصل ہوتی تھی، بلکہ اس اضافے سے بھی محروم کیا جو کہ مارکیٹ میں اس کی قیمت سے ہوا، جبکہ ان جائیدادوں سے ہونے والی آمدنی کا حصہ بہنوں کا اتنا تھا کہ ان کے خرچے کا بار بھائیوں پر نہیں تھا، اگر قیمت لگا بھی لی تھی تو اس کو صرف کاغذی حد تک رکھا اور اس پیسے کو کسی بھی سرمایہ کاری میں نہیں لگایا، اس طرح زَر کی قدر میں کمی کا موجب بنے۔ چنانچہ بہنیں بارہ سال پہلے کے ایک روپے جس کی آج ویلیو ۲۰ پیسے ہے، قبول نہیں کرتیں، بلکہ بھائیوں سے کہتی ہیں کہ وہ جائیداد ہمیں دے دیں اور کل روپیہ جو ہمیں دے رہے ہیں وہ خود لے لیں۔ دُوسری بات یہ کہ ماضی میں جب بھی بہنوں نے تقاضا کیا تو خالی جیب دِکھادی اور بھائی اپنی جائیدادیں مزید خریدتے رہے۔

ج… بہنوں کا یہ مطالبہ حق بجانب ہے کہ ان کو قیمت نہیں بلکہ جائیداد کا حصہ دیا جائے، البتہ اگر بہنوں نے اپنی خوشی اور رضامندی سے اپنا حصہ بھائیوں کے ہاتھ فروخت کردیا تھا تو وہ قیمت وصول کرسکتی ہیں، مگر دس برس تک قیمت بھی ادا نہ کرنا صریح ظلم ہے۔

جائیداد سے عاق کردہ بیٹے سے باپ کا قرضہ ادا کروانا

س… باپ نے اپنے بیٹے کو ملکیتِ جائیداد سے محروم کردیا ہے، اور اس کو گھر سے نکال دیا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ باپ کا کہنا ہے بیٹے کو کہ تم اپنی بیوی کو طلاق دو۔ جبکہ بیوی بیٹے کے ساتھ صحیح ہے، اس میں کوئی عیب وغیرہ نظر نہیں آتا۔ اب باپ یہ کہتا ہے کہ کچھ قرضہ ملکیت کے اُوپر ہے وہ تم اُتار دو، بیٹا ہر چیز سے محروم ہے تو کیا یہ قرضہ بیٹے کے اُوپر لگ سکتا ہے؟

ج… اگر بیوی کا قصور نہ ہو تو والدین کا یہ مطالبہ کہ لڑکا اس کو طلاق دے، ناجائز ہے۔ ۲: اولاد کو وراثت سے محروم کرنا حرام ہے، اور محروم کرنے پر بھی وہ وراثت سے محروم نہیں ہوگا، بلکہ دُوسرے وارثوں کی طرح ”عاق شدہ“ کو بھی وراثت ملے گی۔ ۳:باپ کے ذمہ جو قرضہ ہو، اگر باپ نادار ہو اور اولاد کے پاس گنجائش ہو تو باپ کا قرضہ ضرور ادا کرنا چاہئے، لیکن اگر باپ مال دار ہے، قرضہ ادا کرسکتا ہے، یا اولاد کے پاس گنجائش نہیں تو قرضہ باپ کو ادا کرنا چاہئے، لیکن اگر باپ نے ادا نہ کیا تو اس کی موت کے بعد جائیداد میں سے پہلے قرضہ ادا کیا جائے گا، بعد میں جائیداد تقسیم ہوگی۔

والد صاحب کی جائیداد پر ایک بیٹے کا قابض ہوجانا

س… زید بڑا بھائی ہے، نوکری کرکے اپنے بچوں کا پیٹ پالتا ہے، خالد کے انتقال کے بعد دُوسرے بھائی نے دُکان کھولی، زید اس کو کہتا ہے اس میں میرا حق ہے، مگر دُوسرا بھائی کہتا ہے کہ یہ میری ذاتی ہے۔ ایسے ہی والد صاحب کی ملکیت سے جو غلہ نکلتا ہے اس میں بھی زید کو حصہ نہیں دیتا اور کہتا ہے کہ میں سب کو خرچہ دیتا ہوں۔ واضح ہو کہ زید کے دو بھائی شادی شدہ ہیں، تیسرا بھائی بھی اس کے ساتھ رہتا ہے، سب ایک گھر میں رہتے ہیں، حکمِ شرعی صادر فرماویں۔

ج… والد کا ترکہ تو تمام شرعی وارثوں میں شرعی حصوں کے مطابق تقسیم ہونا چاہئے، اس پر کسی ایک بھائی کا قابض ہوجانا غصب اور ظلم ہے۔ باقی جتنے بھائی کمانیوالے ہیں ان کے ذمہ والدہ اور چھوٹے بھائیوں کا خرچہ بقدرِ حصہ ہے۔ دُکان میں اگر بھائی نے اپنا سرمایہ ڈالا ہے تو دُکان اس کی ہے، اور اگر والد کی جائیداد ہے تو وہ بھی تقسیم ہوگی۔

والدین کی وراثت سے ایک بھائی کو محروم رکھنے والے بھائیوں کی شرعی سزا

س… میرا مسئلہ یہ ہے کہ جو سامان وغیرہ وراثت کا ہو، یعنی ماں باپ کا گھریلو سامان جو کافی مقدار میں ہو اور دُشمنی اور مخالفت کی بنا پر دو بھائی آپس میں تقسیم کرلیں اور تیسرے بھائی کو علم تک نہ ہو کہ وراثت کا مال تقسیم ہوچکا ہے، محض دُشمنی اور مخالفت کی بنا پر تیسرے بھائی کو بالکل بے دخل کردیں، حالانکہ تینوں بھائی سگے ہوں اور ایک بھائی کا حق مار لیں۔ تو بزرگوار! ایسے بھائیوں اور ایسے وراثت کی تقسیم کا خدا تعالیٰ کے نزدیک اور حدیثِ نبوی میں کیا حکم ہے؟ کیا اس طرح انسان گنہگار نہیں ہوتا؟ اور آخرت میں کیا انجام ہوگا؟

ج… والدین کی وراثت میں تمام اولاد اپنے اپنے حصے کے مطابق برابر کی شریک ہے، پس دو بھائیوں کو وراثت تقسیم کرلینا اور تیسرے بھائی کو محروم کردینا نہایت سنگین گناہ ہے، آخرت میں ان کا انجام یہ ہوگا کہ ان کو اس سامان کے بدلے میں اپنی نیکیاں دینی ہوں گی، اس لئے ہر مسلمان کو ایسے گناہوں سے توبہ کرنی چاہئے اور ایسے غاصبانہ و ظالمانہ برتاوٴ سے پرہیز کرنا چاہئے۔

حصہ داروں کو حصہ دے کر مکان سے بے دخل کرنا

س… میرا مکان جس میں، میں اپنے آٹھ بچوں کے ساتھ (جن میں ایک لڑکا شادی شدہ ہے) رہتا ہوں، مکان میری مرحومہ بیوی کے نام ہے، حکومت کے کاغذات میں بیوی کے ساتھ میرا نام درج ہے، یہ مکان بیوی مرحومہ کے والد نے عنایت فرمایا تھا۔ قرآن و سنت کی روشنی میں فرمائیں کہ اس مکان پر میرا حق ہے یا نہیں؟ اور کیا میں اس بات کا حق رکھتا ہوں کہ اگر کوئی بیٹا یا بیٹے کی بیوی وجہ فساد ہے تو ان کو مکان سے بے دخل کردُوں؟

ج… مکان آپ کی مرحومہ بیوی کا تھا، اس کے انتقال پر چوتھائی حصہ آپ کا اور باقی تین حصے مرحومہ کی اولاد کے ہیں، لڑکوں کا حصہ لڑکیوں سے دُگنا۔ آپ حصہ داروں کو حصے سے محروم نہیں کرسکتے، ان کا حصہ ادا کرکے ان کو بے دخل کرسکتے ہیں۔

مرحوم کے مکان پر دعویٰ کی حقیقت

س… ایک مکان رہائشی مرحوم شخص ”الف“ کا ہے، اور تاحال تمام سرکاری دفاتر میں اسی کے نام پر ہے۔ مرحوم کی ایک بیٹی مسماة ”ر“ تمام سرکاری واجبات ادا کرتی چلی آرہی ہے، اس نے ایک شخص ”م“ کو یہ مکان دسمبر ۱۹۷۵ء میں کرایہ پر دیا تھا (صرف ۶ ماہ کے لئے) یہ معاملہ زبانی ہوا تھا، کیونکہ کرایہ دار کا اپنا مکان زیر تعمیر تھا، چند ماہ بعد کرایہ دار ”م“ نے مرحوم ”الف“ کے ایک وارث ”خ“ سے مئی ۱۹۷۶ء میں اس مکان کا سودا خرید و فروخت بالا بالا ہی کرلیا، اور بقول کرایہ دار اس نے اس سلسلے میں ۱۵ ہزار روپیہ پیشگی ادا کیا تھا، اس معاملے کا کوئی غیرجانبدار گواہ بھی نہیں۔ بدقسمتی سے جس وارث یعنی ”خ“ نے یہ سودا کیا تھا وہ بھی فروری ۱۹۸۸ء میں انتقال کرچکا ہے، واضح رہے کہ اس سودے میں مرحوم ”الف“ کے دیگر وارثان کا کوئی دخل و واسطہ نہ تھا، نہ ہی اس سودے کی بذریعہ اخبار تشہیر کی گئی، اور نہ ہی کسی سرکاری ادارے میں اس کی رجسٹریشن ہوئی۔ بعدہ مئی ۱۹۷۶ء سے لے کر تاحال کرایہ دار نے کوئی کرایہ بھی ادا نہیں کیا، اس کی مسلسل خاموشی نے بھی معاہدے کو مشکوک کردیا ہے۔ جبکہ مرحوم کی بیٹی مسماة ”ر“ کے حق میں دیگر وارثان بشمول مرحوم وارث ”خ“ بھی ۱۹۷۶ء میں دستبردار ہوچکے ہیں (جس کی بذریعہ اخبار تشہیر کی جاچکی ہے)۔ اب کرایہ دار اس بات پر مصر ہے کہ مرحوم وارث ”خ“ سے کئے ہوئے مبینہ معاہدہٴ خرید و فروخت پر عمل درآمد کیا جائے اور اسے حقِ ملکیت منتقل کیا جائے، جبکہ مرحوم ”الف“ کے بقیدِ حیات وارثان یہ کہتے ہیں کہ: نہ ہم نے کرایہ دار ”م“ سے کوئی معاہدہ کیا ہے، اور نہ ہی ہم نے کوئی رقم پیشگی وصول پائی ہے، یا لی ہے، اور سوال یہ ہے کہ جب مرحوم ”الف“ کی جائیداد متروکہ وارثان کے نام ہی منتقل نہیں ہوئی تو کسی اور کے نام کیسے منتقل کردی جائے؟

الف:… آیا مرحوم ”الف“ کے بقیدِ حیات وارثان، مرحوم ”الف“ کے ایک وارث ”خ“ جو اَب خود بھی مرحوم ہوچکے ہیں، سے کئے ہوئے مبینہ مشکوک معاہدے کے پابند ہیں یا نہیں؟

ب:… مرحوم ”الف“ کی بیٹی مسماة ”ر“ اب بیوہ ہوچکی ہے، اور اس کی دو یتیم بچیاں ہیں، جو بسبب اَمرِ مجبوری رشتہ داروں میں مقیم ہیں، اور کرایہ دار صاحب ان کو کرایہ بھی ادا نہیں کر رہے ہیں، حالانکہ وہ بیوہ ہونے کے باوجود سرکاری واجبات ادا کر رہی ہیں۔

ج:… اب چونکہ کرایہ دار، کرایہ ادا نہیں کر رہا، لہٰذا وہ ناجائز قابض یا غاصب ہے یا نہیں؟ نیز غاصب کے لئے شرعی سزا کیا ہے؟

د:… سرکاری عمال غاصب سے حقِ پدری نہ دِلوانے پر کسی شرعی سزا کے مستوجب ہیں یا نہیں؟

ہ:… وہ رقم (جو ۱۹۷۶ء سے ۱۹۸۸ء تک) کرایہ کی مد میں جمع ہے، اس پر زکوٰة واجب الادا ہے یا نہیں؟

ج… الف مرحوم کے فوت ہوجانے کے بعد یہ مکان اس کے وارثوں کا ہے، اور ان کی مشترک ملکیت ہے، جس چیز میں کئی شخص شریک ہوں اس کو کوئی ایک شخص دُوسرے شرکاء کی رضامندی کے بغیر فروخت نہیں کرسکتا، لہٰذا کرایہ دار کے بقول ”خ“ نے اس کے ہاتھ جو مکان فروخت کیا ہے، یہ سودا کالعدم ہے، اور اس کی بنیاد پر اس شخص کا یہ دعویٰ کرنا کہ میں نے یہ مکان خرید لیا ہے، غلط ہے، اور اس کے لئے قبضہ رکھنا حرام ہے، چونکہ تمام وارثان ”الف“ مرحوم کی بیٹی کے حق میں اپنے حصے سے دستبردار ہوچکے ہیں، اس لئے اس مکان کی تنہا مالک اب مرحوم کی بیٹی ہے۔ ایک بیوہ کے مکان پر ناجائز قبضہ کرنا اور اس کا کرایہ بھی نہ دینا، بدترین غصب اور ظلم ہے، جو اس غاصب اور ظالم کی دُنیا و آخرت کو برباد کردے گا۔ سرکاری حکام، بلکہ ہر مسلمان کا فرض ہے کہ بیوہ کی اور اس کے یتیم بچوں کی مدد کریں اور اس غاصب کے ظالمانہ چنگل سے نجات دِلائیں، جو لوگ باوجود قدرت کے ایسا نہیں کریں گے وہ بھی اس وبال میں شریک ہوں گے۔ کرائے کی رقم جب تک وصول نہ ہوجائے اس پر زکوٰة نہیں۔

اس پلاٹ کا مالک کون ہے؟

س… میں (غلام محمد ولد غلام نبی) نے اپنے بھائی غلام صابر ولد غلام نبی کو گورنمنٹ ہاوٴسنگ سوسائٹی کا پلاٹ حاصل کرنے کے لئے اپنے خرچے سے ممبر بنایا، میرا بھائی گورنمنٹ میں ملازم تھا، اس واسطے وہی ممبر بن سکتا تھا، سوسائٹی نے ممبرشپ کی رسید مجھے دے دی، جبکہ میرے بھائی غلام صابر نے مجھے اس کا وارث مقرّر کیا، اور سوسائٹی آفس کو خط لکھ دیا گیا۔ ۱۹۶۱ء میں سوسائٹی آفس نے میرے بھائی غلام صابر کو خط لکھا کہ بذریعہ قرعہ اندازی زمین کی الاٹمنٹ کا بندوبست کیا ہے۔ میرے بھائی صاحب نے مجھے خط لکھا کہ مجھے جتنی زمین درکار ہو اس کے مطابق سوسائٹی آفس میں روپیہ بھردیں، میں نے ۳۰۰ گز کے پلاٹ کے لئے سوسائٹی آفس میں بذریعہ بینک ڈرافٹ روپے بھردئیے۔ مگر ایک سال بعد سوسائٹی آفس نے میرے نام بینک ڈرافٹ واپس بھیج دیا اور لکھ دیا کہ آئندہ جب الاٹمنٹ ہوگی آپ کو مطلع کردیں گے۔ کئی سال بعد میرے کراچی کے پتے پر میرے بھائی غلام صابر کے نام سوسائٹی آفس نے لکھا کہ پلاٹ تمہارے نام الاٹ کردیا گیا ہے، میں نے فوراً اس پلاٹ کی قیمت ادا کردی، اور اسی پلاٹ کی جنرل پاور آف اٹارنی اپنے بھائی صاحب غلام صابر سے راولپنڈی جاکر لے لی۔ اس کے بعد بھائی صاحب کی وفات ہوگئی، تمام تر اخراجات میں نے اپنے پاس سے کئے ہیں، تمام کارروائی پوری کرنے کے بعد جب پلاٹ پر قبضہ لینے کا وقت آیا تو سوسائٹی آفس نے کہا کہ تمہارا بھائی وفات پاچکا ہے، اس واسطے جنرل پاور آف اٹارنی اور وراثت سب ختم ہوگئی، اب وارث صرف اس کے بیوی بچے ہیں۔ میں نے تمام حالات آپ کی خدمت میں پیش کردئیے ہیں، آپ مہربانی فرماکر قرآن پاک اور حدیث کی روشنی میں مجھے بتائیں کہ اس پلاٹ کی ملکیت میری ہے کہ نہیں؟ میں نے جو حالات لکھے ہیں ان سب کے دستاویزی ثبوت موجود ہیں۔

ج… آپ نے حالات کی جو تفصیل دستاویزی حوالوں کے ساتھ لکھی ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جو پلاٹ آپ کے مرحوم بھائی جناب غلام صابر صاحب کے نام پر لیا گیا وہ درحقیقت آپ کی ملکیت ہے، مرحوم بھائی کا صرف نام استعمال ہوا، ورنہ یہ ان کی ملکیت نہیں تھی، بلکہ اس کی ملکیت آپ کی تھی، اس لئے مرحوم کی وفات کے بعد بھی شرعاً آپ ہی اس پلاٹ کے مالک ہیں۔ علاوہ ازیں چونکہ مرحوم نے آپ کو مختارنامے میں وارث قرار دیا تھا اور متعلقہ ادارے کو قانونی طور پر اس سے مطلع بھی کردیا تھا، اس لئے اگر بالفرض یہ پلاٹ مرحوم کی ملکیت ہوتا تب بھی چونکہ مرحوم کی وصیت آپ کے حق میں تھی، لہٰذا وصیت کے تحت یہ پلاٹ آپ ہی کو ملتا ہے۔ بہرحال شرعاً آپ اس پلاٹ کے مالک ہیں اور اس کو اپنے نام منتقل کراسکتے ہیں، واللہ اعلم!

مرحوم کا اپنی زندگی میں بہن کو دئیے ہوئے مکان پر بیوہ کا دعویٰ

س… ایک شخص کا ۱۹۷۰ء میں انتقال ہوا، جس نے جائیداد لاہور اور حیدرآباد سندھ میں کافی چھوڑی تھی۔ مرحوم نے سگی بہن کو ہندوستان سے ۱۹۴۸ء میں بلایا، جس کو رہنے کے لئے مکان حیدرآباد سندھ میں دیا، جس میں وہ رہتی رہی۔ مرحوم خود لاہور میں اپنی دو بیویوں اور بچیوں کے ساتھ رہتے تھے۔ انتقال کے بعد دُوسری سب جائیداد بیواوٴں نے فروخت کردی، اس میں سے ایک بیوہ، مرحوم کے چند سال کے بعد مرگئی، مرنے والی بیوہ کے کوئی اولاد نہیں تھی۔ بیوہ کے مرنے کے بعد دُوسری بیوہ اپنی دو لڑکیوں کے ساتھ آکر حیدرآباد سندھ کے اس مکان میں آباد ہوگئی، وہ مکان جو کہ مرحوم نے اپنی زندگی میں بہن کو لے کر دیا تھا، اب اس وقت حیدرآباد سندھ کی جائیداد میں مرحوم کی بہن، مرحوم کی بیوہ اور دو لڑکیاں رہتی ہیں، اب بیوہ اس مکان کو بھی فروخت کرنا چاہتی ہے، جس مکان کو مرحوم اپنی بہن کو دے کر گیا تھا، جبکہ مرحوم کی بہن ۱۹۴۸ء سے حیدرآباد سندھ کے مکان میں آباد ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ بہن کا بھائی کی جائیداد میں کوئی حصہ ہے یا نہیں؟ اور اگر ہے تو پوری جائیداد میں ہے یا صرف اس مکان میں جس میں وہ رہتی ہے؟ اور حق ہے تو کتنا کتنا؟ کس کس کا حق و حصہ ہے؟

ج… اگر مرحوم کی کوئی نرینہ اولاد نہیں تھی تو مرحوم کی کل جائیداد (تجہیز و تکفین، ادائے قرضہ جات اور تہائی مال میں نفاذِ وصیت کے بعد) اَڑتالیس حصوں میں تقسیم ہوگی، تین تین حصے بیواوٴں کے، سولہ، سولہ حصے دونوں لڑکیوں کے، اور باقی ماندہ دس حصے اس کی بہن کے۔ اس سے معلوم ہوا کہ بہن، مرحوم کی پوری جائیداد کے اَڑتالیس حصوں میں سے دس حصوں کی مالک ہے۔

کسی کی جگہ پر تعمیر کردہ مکان کے جھگڑے کا فیصلہ کس طرح ہوگا؟

س… میری ایک غیرشادی شدہ لڑکی بعمر ساڑھے ۴۳ سال ہے، میرا ایک پلاٹ ناظم آباد نمبر۳ میں ۳۷۴ گز کا تھا، اور اب بھی ہے، اس پر مفلسی کی وجہ سے صرف دو کمرے تعمیر تھے، میری یہ لڑکی برطانیہ سے ایم ایس سی کی ڈگری حاصل شدہ ہے اور سعودی عرب مدینہ منوّرہ میں ملازم ہے، میں نہیں چاہتا تھا کہ میرا مکان بنے، لیکن اس نے اور کچھ بھائیوں نے زور دیا کہ ”بنے“، میں مان گیا، میری دیکھ بھال میں وہ پیسہ بھیجتی گئی اور مکان بنتا گیا، کچھ دن حساب رکھا، بعد میں یہ سوچ کر کہ اگر کچھ پیسہ میرے تصرف میں آہی گیا تو اولاد کا پیسہ والد کے لئے جائز ہے، تو حساب چھوڑ دیا۔ اور مکان ۱۹۷۸ء میں پورا ہوگیا، اور دُکانیں اور پہلی منزل کرایہ پر دی ہوئی ہیں، اور اُوپر والی منزل پر میں مع بیوی بچوں کے رہائش پذیر ہوں۔ اب وہ لڑکی کہتی ہے کہ پیسے مکان پر بہت کم لگائے، غبن کرگئے اور کھاگئے، اور میرا کرایہ سب کھاگئے، حساب نہیں رکھا، اور حساب نہ رکھنے کا بنیادی الزام بددیانتی اور غبن ہے، اور ناگفتنی گالی اور گندے گندے خط مجھے لکھے، اور مجھے بدنام کرنے کی کوشش کر رہی ہے، مکان میرے نام ہے، کہتی ہیں کہ نکلو میرے مکان سے اور سارا مکان میرے نام کردو۔ میرا کہنا ہے کہ نیچے والی منزل اور دُکانیں تم لے لو اور اُوپر والی منزل ہماری رہائش کے لئے چھوڑ دو، مگر وہ راضی نہیں۔ میں کہتا ہوں: تمہارا پیسہ ضرور لگا ہے، جتنا لگا ہے اس سے زائد مالیت کا حصہ وصول کرلو، مگر وہ مکان کو شراکت میں نہیں رکھنا چاہتی ہیں۔ دریافت طلب امر یہ ہے کہ جو رقم اس کی میرے تصرف میں آگئی کیا وہ حقوق العباد ہے؟ اور عنداللہ میں دَین دار ہوں؟ جبکہ میں نے بنوانے اور دوڑ دُھوپ کا کوئی معاوضہ نہیں لیا۔ یہ پڑھے لکھے گھرانے کا حال ہے، مجھے ایسے خطوط لکھتی ہے جو ارذل سے ارذل انسان بھی اپنے باپ کو نہیں لکھتا۔ کہتی ہیں کہ مکان سے نکل جاوٴ، جہاں چاہے رہو، سڑک پر رہو، اور تین سال کا پچھلا دو ہزار روپے کے حساب سے کرایہ دو۔ سمجھ نہیں آتا کہ کیا کروں؟ براہِ کرم شرعی لحاظ سے کوئی فیصلہ صادر فرمادیں۔

ج… صاحبزادی کا پیسہ آتا تھا، آپ نے اپنا (یعنی اپنی اولاد کا) سمجھ کر خرچ کیا ہے، آپ پر اس کا کوئی معاوضہ نہیں۔ مکان کی عمارت آپ کی صاحبزادی کی ہے، اور زمین آپ کی، اس کا شرعی حکم یہ ہے کہ اگر مصالحت کے ذریعے کوئی بات طے ہوجائے تو اس کے مطابق عمل کیا جائے، ورنہ آپ اس کو کہہ سکتے ہیں کہ اپنا مکان اُٹھائے اور آپ کی جگہ خالی کردے، اور شرعاً اس کو آپ کی جگہ خالی کرنی لازمی ہے۔

آپ نے جو پڑھے لکھے گھرانے کی شکایت ہے، وہ فضول ہے، یہ تعلیمِ جدید کا اثر ہے، ببول بو کر جو شخص آموں کی توقع رکھتا ہے، وہ احمق ہے․․․!

مرحومہ کا ترکہ خاوند، ماں باپ اور بیٹے میں کیسے تقسیم ہو؟

س… عرض یہ ہے کہ میری شادی موٴرخہ ۲۶/جون ۱۹۹۲ء کو ہوئی، شادی کے گیارہ ماہ بعد موٴرخہ ۱۸-۱۹/مئی کی درمیانی رات کو تقریباً تین بجے میری بیوی کے ہاں لڑکا پیدا ہوا، زچگی کے تقریباً ساڑھے چھ گھنٹے بعد ۱۹/مئی ۱۹۹۳ء کو صبح تقریباً ساڑھے نو بجے میری بیوی اپنے خالقِ حقیقی سے جاملی، بچہ حیات ہے، میری بیوی کے انتقال کے پونے تین ماہ بعد میری بیوی کے والد اور اس کے بھائیوں نے میرے گھر آکر جہیز واپس کرنے کا مطالبہ کیا، مجھے جہیز واپس کرنا چاہئے یا نہیں؟ جبکہ میرا بچہ اور میرے والدین حیات ہیں، میری بیوی کے والدین بھی حیات ہیں۔ مندرجہ بالا صورتِ حال میں مجھے کیا کرنا چاہئے؟ قرآن و سنت کی روشنی میں جواب سے مستفید فرمائیں۔

ج… مرحومہ کا جہیز اور اس کا تمام ترکہ ۱۲ حصوں پر تقسیم ہوگا، ان میں سے ۳ حصے شوہر کے، دو دو حصے ماں باپ کے، اور باقی ۵ حصے بچے کے ہیں۔

مرحومہ کے والدین کا جہیز واپس کرنے کا مطالبہ غلط ہے، ماں باپ دونوں کا ایک تہائی حصہ ہے، اگر وہ چاہیں تو لے لیں، چاہیں تو بچے کے لئے چھوڑ دیں۔

دادا کی جائیداد میں پھوپھی کا حصہ

س… ایک میری سگی پھوپھی ہیں، وہ چاہتی ہیں کہ آدھی زمین حصے میں لیں گی جبکہ پہلے عدالت و پٹواری کے کاغذات میں اپنا نام درج نہیں کرایا تھا، اب پھوپھی مجھ سے زمین کا حصہ لینا چاہتی ہیں۔ مفتی صاحب! شریعت میں کتنا حصہ پھوپھی کو آتا ہے؟

ج… آپ کے دادا کی جائیداد میں آپ کی پھوپھی کا حق آپ کے والد مرحوم سے نصف ہے، یعنی دادا کی جائیداد کے تین حصے ہوں گے، دو حصے آپ کے تھے، اور ایک حصہ آپ کی پھوپھی کا، دادا کی جائیداد کا ایک تہائی حصہ اپنی پھوپھی کو دے دیجئے۔

دادا کے ترکہ میں دادی کے چچازاد بھائی کا حصہ

س… آزاد کشمیر میں میرے دادا کی زمین ہے گاوٴں میں جو کہ ۶۰ کنال تھی، کچھ تو میں نے ۱۰ سال پہلے فروخت کردی تھی اور کچھ باقی ہے، آج سے تقریباً ۴۰، ۴۵ سال پہلے کی بات ہے، میری سگی دادی کا انتقال ہوگیا، تو میرے دادا نے دُوسری شادی کرلی اور پھر کچھ سال بعد میرے دادا کا بھی انتقال ہوگیا، اور پھر کچھ ہی سال بعد میرے والد کا بھی انتقال ہوگیا، اور میری سوتیلی دادی جو کہ بیوہ ہوگئی تھی بعد میں میری موجودگی میں ۲۵ سال پہلے فوت ہوئی۔ میرے دادا اور سوتیلی دادی کی کوئی بھی اولاد نہیں ہوئی، اور سوتیلی دادی کا ایک سگا بھائی تھا جو کہ ۵ سال پہلے فوت ہوگیا، اور اس کے بیٹے بھی ہیں، اور آج تک انہوں نے میرے سے سوتیلی دادی کے حصے کی بات نہیں کی، لیکن سوتیلی دادی کا ایک چچازاد بھائی ہے، اس نے عدالت و پٹواری کے کاغذات میں میری سوتیلی دادی کا نصف حصہ یعنی آدھی زمین اپنے نام پر کی ہوئی ہے، اور اب اتنے سال کے بعد وہ میرے سے وصول کرنا چاہتا ہے، اور میری والدہ بھی ہیں جو کہ اب تیسرے نکاح میں ہے، اور میرے بھی بچے بیوی ہیں۔ مولانا صاحب! شریعت میں کتنا حصہ سوتیلی دادی کے اس چچازاد بھائی کو ملتا ہے؟

ج… جو صورتِ مسئلہ آپ نے لکھی ہے، اس جائیداد میں آپ کی سوتیلی دادی کے چچازاد بھائی کا کوئی حق نہیں بنتا، آپ کی دادی مرحومہ کا وارث اس کا حقیقی بھائی تھا، اس کی موجودگی میں چچازاد بھائی وارث نہیں ہوتا۔ اس نے جو کاغذات میں نصف جائیداد اپنے نام کرالی ہے یہ شرعاً ناجائز اور حرام ہے، اس کا فرض ہے کہ اس جائیداد سے دستبردار ہوجائے ورنہ اپنی قبر اور آخرت گندی کرے گا۔

آپ کے دادا کی جائیداد میں آٹھواں حصہ آپ کی سوتیلی دادی کا حق تھا، اور سوتیلی دادی کے انتقال کے بعد اس کا بھائی اس حصے کا وارث تھا، اگر بھائی نے حصہ نہیں لیا تو چچازاد بھائی کو حصہ لینے کا کوئی حق نہیں۔

مرحوم کی وراثت کیسے تقسیم ہوگی؟ جبکہ ورثاء میں بیوہ، لڑکی اور دو بہنیں ہوں

س… میری ادلے بدلے کی شادی ۱۹۸۰ء میں ہوئی، میرے خاوند کا انتقال ۱۹۸۲ء میں سعودی عرب میں ایکسیڈنٹ کے ذریعے ہوا، میری ایک بیٹی ۹ سال کی ہے، میرے خاوند کی بینک (پنجاب) میں تقریباً ۰۰۰,۱۵ روپے کی رقم جمع ہے۔ میرے ساس اور سسر انتقال کرگئے ہیں، کوئی دیور نہیں ہے، ۴ نندیں ہیں، جن میں دو بیوہ ہیں، اور ان کی اولادکی شادی بھی ہوچکی ہے۔ میرے خاوند گھر میں سب سے چھوٹے تھے، ایکسیڈنٹ کی رقم کے سلسلے میں سعودی عرب کی حکومت سے ۱۹۸۲ء سے خط و کتابت جاری ہے، ان کی تمام طلبیں پوری کردی ہیں، لیکن ابھی تک رقم نہیں ملی۔ اس کے علاوہ حق مہر میں شادی کے موقع پر میرے خاوند نے مکان لکھ کر دیا تھا، اس کے علاوہ میرے سسر کا مکان جس میں میری ایک نند (بیوہ) رہ رہی ہے، اس مکان کی تقسیم کس طرح ہوگی؟ میرے خاوند کے انتقال کے بعد سے میں اپنی والدہ کے ہاں رہ رہی ہوں، کیونکہ ان سے تعلقات اچھے نہیں ہیں، اور تقریباً دس سال سے ان سے بات چیت نہیں ہے، اور یہ پنجاب میں رہائش پذیر ہیں، خاوند کے انتقال کے بعد ابھی تک میں نے شادی نہیں کی۔

۱:… پنجاب میں ایک بینک میں ۰۰۰,۱۵ روپے کی رقم کی تقسیم۔

۲:… ایکسیڈنٹ کی رقم میں کس کس کا حصہ بنتا ہے؟

۳:… حق مہر میں جو مکان لکھ کر دیا ہے، کس کا حصہ ہے اور کتنا ہے؟

۴:… سسر کے مکان میں میرا کتنا حصہ ہے؟

جائیداد آسانی سے مجھے کس طرح مل سکتی ہے؟ تاکہ مجھے عدالت کی طرف نہ جانا پڑے، آسان حل بتائیں۔

ج… آپ کے شوہر نے جو مکان آپ کو حق مہر میں لکھ دیا تھا، وہ تو آپ کا ہے، اس میں تقسیم جاری نہیں ہوگی۔ اس مکان کے علاوہ آپ کے مرحوم شوہر کا کل ترکہ ۹۶ حصوں پر تقسیم ہوگا، جن میں سے ۱۲ حصے آپ کے، ۴۸ حصے آپ کی بیٹی کے، اور نو نو حصے مرحوم کی چاروں بہنوں کے۔ پندرہ ہزار کی رقم میں آپ کا حصہ ہے: ایک ہزار آٹھ سو پچھتّر روپے (۸۷۵,۱)، آپ کی بیٹی کا حصہ ہے سات ہزار پانچ سو روپے (۵۰۰,۷) اور مرحوم کی ہر بہن کا حصہ تین سو اکیاون روپے چھپن پیسے (۵۶ء۳۵۱)۔ سعودی حکومت کی جانب سے جو رقم آپ کے مرحوم شوہر کے سلسلے میں ملے گی اس کی تقسیم بھی مندرجہ بالا اُصول کے مطابق ہوگی، یعنی اس میں سے آٹھواں حصہ آپ کا، نصف حصہ آپ کی بیٹی کا، اور باقی ماندہ رقم مرحوم کی بہنوں پر تقسیم ہوگی۔

اگر آپ کے شوہر کا انتقال آپ کے سسر کی زندگی میں ہوگیا تھا تو سسر کے مکان میں آپ کا اور آپ کی بیٹی کا کوئی حق نہیں، وہ مکان آپ کی نندوں کو ملے گا، اور اگر آپ کے سسر کا انتقال آپ کے شوہر سے پہلے ہوا تو اس مکان کی قیمت کے ۲۸۸ حصے کئے جائیں گے، ان میں سے آپ کے ۱۲ حصے، آپ کی بیٹی کے ۴۸ حصے، اور آپ کی ہر نند کے ۵۷ حصے ہوں گے۔

مردے کے مال سے پہلے قرض ادا ہوگا

س… میرے بھائی کی شادی ۱۹/ستمبر ۱۹۸۰ء کو ہوئی، اور دو مہینے بعد یعنی ۲۸/نومبر کو اس کا انتقال ہوگیا۔ میرے بھائی نے مرنے سے پہلے ۱۴ تولے کے جو زیورات بنوائے تھے اس کی کچھ رقم اُدھار دینی تھی، میرے بھائی نے دو مہینے کا وعدہ کیا تھا، لیکن وہ رقم ادا کرنے سے پہلے اپنے خالقِ حقیقی سے جاملا۔ آپ قرآن و سنت کی روشنی میں جواب دیں کہ رقم لڑکے کے والدین ادا کریں گے یا لڑکے کے بنائے ہوئے زیورات میں سے وہ رقم ادا کردی جائے؟

ج… اگر آپ کے مرحوم بھائی کے ذمہ قرض ہے تو جو زیورات انہوں نے بنوائے تھے ان کو فروخت کرکے قرض ادا کرنا ضروری ہے، والدین کے ذمہ نہیں۔ وہ زیورات جس کے پاس ہوں وہ قرض ادا نہ کرنے کی صورت میں گنہگار ہوگا۔ مردہ کے مال پر ناجائز قبضہ جمانا بڑی سنگین بات ہے، مرحوم کی مملوکہ اشیاء میں (ادائے قرض کے بعد) وراثت جاری ہوگی، اور مرحوم کے بچے کی پیدائش تک اس کی تقسیم موقوف رہے گی، اگر لڑکے کی پیدائش ہوئی تو مرحوم کا کل ترکہ ۲۴ حصوں پر تقسیم ہوگا، چار چار حصے والدین کے، تین حصے بیوہ کے، اور باقی تیرہ حصے لڑکے کے ہوں گے، اور اگر لڑکی کی پیدائش ہو تو بارہ حصے لڑکی کے، تین بیوہ کے، چار ماں کے اور پانچ باپ کے۔

بیٹے کے مال میں والد کی خیانت

س… میرے بڑے بھائی نے کراچی میں یورپ جانے سے پہلے کاغذات امانت رکھے میرے پاس، والد لاہور سے آئے ہوئے تھے، ان کو معلوم ہوا تو کاغذات انہوں نے مجھ سے لے لئے، میں سمجھا دیکھنے کے لئے لئے ہیں، واپس کردیں گے، مگر انہوں نے واپس دینے سے انکار کردیا، کیونکہ ان کی رقم بنتی ہے بھائی پر، فرمانے لگے: جب تک رقم نہیں دے گا، کاغذات نہیں دُوں گا۔ مزید فرمایا کہ: باپ کو یہ حق حاصل ہے کہ اولاد کی اجازت کے بغیر چاہے استعمال کرے، فروخت کرے۔ جب بھائی یورپ سے آیا تو اس نے امانت رکھے ہوئے کاغذات طلب کئے، میں نے صورتِ حال بتلائی، تو وہ کہنے لگے کہ: ”اگر والد صاحب کی رقم میری طرف بنتی ہے تو مجھ سے براہِ راست بات کریں، اور کاغذات میں نے آپ کے پاس بطور امانت رکھے تھے ان کی واپسی تمہاری ذمہ داری ہے، واپس لاوٴ۔“ اب سوال یہ ہے کہ باپ کو یہ حق حاصل ہے کہ بیٹے کی امانت میں (خواہ وہ امانت دُوسرے بیٹے کی ہو) خیانت کرے؟ شرع کی رُو سے امانت میں کن حالات میں خیانت کی جاسکتی ہے؟ کیا ایسا باپ حسنِ سلوک کا مستحق ہے؟ براہِ کرم بتائیں کہ ہم ان سے کیا رویہ اختیار کریں؟

ج… والد کو یہ حق نہیں تھا کہ بھائی کے ضروری کاغذات جو اس نے دُوسرے بھائی کے پاس بطور امانت رکھوائے تھے، لے لے، اور کہے کہ چونکہ اس لڑکے پر میرا قرض ہے اس لئے میں یہ کاغذات لیتا ہوں۔ والد کو چاہئے کہ اپنا قرض بیٹے سے وصول کرے اور کاغذات اس بیٹے کو واپس کردے جس سے لئے تھے، تاکہ وہ امانت واپس کرسکے۔ والد نے یہ مسئلہ بھی غلط بتایا کہ باپ کو بیٹے کا مال لینے یا اس کو فروخت کرنے کا حق ہے۔ صحیح مسئلہ یہ ہے کہ والد اگر حاجت مند اور ضرورت مند ہو اور اس کے پاس کچھ مال نہ ہو، اس صورت میں بیٹے کا مال لے سکتا ہے تاکہ گزر اوقات کرسکے، ہر صورت میں والد کو یہ حق حاصل نہیں۔

بیوہ کے مکان خالی نہ کرنے کا موقف

س… ایک شخص کا انتقال ہوگیا، مرحوم کے مکان پر اس کی بیوی کا قبضہ ہے، اور مرحوم کے نام بینک میں کیش رقم بھی ہے، گھر میں استعمال کا سامان بھی ہے، مرحوم کا ایک لڑکا اور دو لڑکیاں ہیں، اور مرحوم کی والدہ، تین بہنیں اور چار بھائی بھی بقیدِ حیات ہیں، اور اب مرحوم کی بیوی کہتی ہے کہ میں یہ مکان کسی صورت خالی نہیں کروں گی۔ ہاں کیش رقم اور مکان کی قیمت ملاکر شرعی طور پر وراثت تقسیم کردو اور کیش جو مجھے اور میرے بچوں کو ملے گا وہ مکان کی قیمت سے کاٹ کر تم ماں، بھائی اور بہن آپس میں تقسیم کرلو۔ کیا مرحوم کی اہلیہ کا یہ موقف صحیح ہے؟ واضح ہو کہ کیش کی ساری تفصیلات کہاں کہاں اور کس بینک میں ہے صرف مرحوم کی بہن اور بھائی کو معلوم ہے۔

ج… مرحوم کا کل ترکہ ۹۶ حصوں پر تقسیم ہوگا، ان میں سے ۱۶ حصے مرحوم کی والدہ کے (یعنی چھٹا حصہ)، ۱۲ حصے اس کی بیوہ کے (یعنی آٹھواں حصہ)، ۱۷، ۱۷ حصے دونوں لڑکیوں کے، اور ۳۴ حصے لڑکے کے ہیں۔ مرحوم کے بھائی بہنوں کو کچھ نہیں ملے گا۔

بیوہ کا یہ موقف صحیح ہے کہ والدہ کا حصہ بینک کیش میں سے دے دیا جائے، اس سے اور اس کے بچوں سے مکان خالی نہ کرایا جائے۔

غیرمسلموں کی طرف سے والد کے مرنے پر دی ہوئی رقم کی تقسیم کس طرح ہو؟

س… میرے والد صاحب کا انتقال بحری جہاز کے ایک حادثے میں ہوا تھا، وہ ایک غیرمسلم اور غیرملکی کمپنی کے جہاز میں ملازم تھے۔ ان کی کمپنی نے تلافیٴ جان کے طور پر کچھ رقم بھجوائی ہے، جو کہ ہمیں پاکستانی عدالت کے ذریعہ اسلامی شریعت کے مطابق ملے گی۔ ہمارا خاندان تین بھائی، چار بہنوں اور والدہ پر مشتمل ہے۔ کمپنی نے یہ رقم کمپنی کے قانون کے مطابق بھیجی ہے۔ جس کے تحت والدہ کا اور سب سے چھوٹے کا حصہ جو کہ نابالغ ہے سب سے زیادہ ہوتا ہے، ہر ایک کے نام کے ساتھ اس کے حصے کی واضح صراحت کردی گئی ہے، جبکہ عدالت یہ رقم ہمیں شریعت کے مطابق دے رہی ہے، سوال یہ ہے کہ اس رقم کی تقسیم کمپنی کے متعین کردہ طریقے سے ہونی چاہئے یا اسلامی شریعت کے مطابق؟

ج… اسلامی شریعت کے مطابق ہونی چاہئے۔

کیا میراث کا مکان بہنوں کی اجازت کے بغیر بھائی فروخت کرسکتا ہے؟

س… کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہٴ میراث میں جس میں کہ ہم چھ بہنیں اور ایک بھائی ہے، والدین نے وراثت میں ایک دو منزلہ مکان چھوڑا ہے، والد اور والدہ دونوں انتقال کرچکے ہیں، مکان کی اصل وارث میری والدہ تھیں، ہماری چار بہنوں کی شادی ہوچکی ہے، اور دو بہنیں کنواری ہیں، بھائی بھی شادی شدہ ہیں، مکان کو بھائی نے کرایہ پر دیا ہوا ہے، کیا وہ ہم بہنوں کی مرضی کے خلاف مکان بیچ سکتا ہے یا نہیں؟ اس میں ہم بہنوں کا کیا حصہ ہے شریعت کی رُو سے؟ اور اس کے علاوہ مکان کے کرایہ میں بھی ہم بہنوں کا حصہ ہے یا نہیں؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں ہم سب کا الگ الگ حصہ کیا ہوگا؟

ج… اس مکان کے آٹھ حصے ہوں گے، ایک ایک حصہ چھ بہنوں کا، اور دو حصے بھائی کے، مکان کا جو کرایہ آتا ہے اس میں بھی یہی آٹھ حصے ہوں گے۔ بھائی کے ذمہ شرعی فریضہ ہے کہ وہ بہنوں کا حصہ ان کو ادا کرے، اور چونکہ وہ مکان کے ایک چوتھائی حصے کا مالک ہے، تین چوتھائی بہنوں کا حصہ ہے، اس لئے وہ تنہا مکان نہیں بیچ سکتا۔