14اگست ہمارے لئےیومِ تشکراوریوم احتساب ہے

چودہ اگست ہماری قومی زندگی کا سب سے یادگار دن ہے۔ اس کی عزت اس کی اہمیت، آزادی کی جنگ لڑتے کشمیریوں اور فلسطینیوں سے پوچھیں تو معلوم ہو، یہ دن محض ایک دن ہی نہیں، ایک نعمت ہے، جس نے ہماری نسلوں کو آزادی کی فضاؤں میں پلنے بڑھنے کا موقع دیا۔ ہمارے بوڑھوں کو عزت سے جینے اور مرنے کا حق دیا۔ ہمارے جوانوں کو روشن مستقبل دیا۔برطانوی اقتدار کے خاتمے کے لیے برصغیر کے مسلمانوں نے جو عظیم قربانیاں دی ہیں اور جو بے مثال جدوجہد کی ہے۔ یہ ان کے اسلام اور دو قومی نظریے پر غیر متزلزل ایمان و یقین کا واضح ثبوت ہے۔ انہی قربانیوں اور مسلسل جدوجہد کے نتیجے میں بالآخر پاکستان کا قیام عمل میں آیا تھا۔پاکستان کرہ ارض کا واحد ایسا ملک ہے جس کی بنیاد ایک نظریہ پر رکھی گئی اور وقت کی سفاک طاقتوں سے اس نظریہ کو منوانے کیلئے اسلامیان ہند نے جو انگنت قربانیاں دیں اقوام عالم کی تاریخ میں ان کی مثال نہیں ملتی،پاکستان کا قیام شب قدر، جمعۃ الوداع ماہ رمضان المبارک 1368ھ بمطابق 14 اگست 1947ء عمل میں آیا۔ ظہور پاکستان کا یہ عظیم دن جمعۃ الوداع ماہ رمضان المبارک اور شب قدر جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے، محض اتفاق نہیں ہے بلکہ خالق و مالک کائنات کی اس عظیم حکمت عملی کا حصہ ہے۔13 اپریل 1948 ء کو اسلامیہ کالج پشاور میں تقریر کرتے ہوئے بانی پاکستان نے فرمایا:-” ہم نے پاکستان کا مطالبہ زمین کا ایک ٹکڑا حاصل کرنے کے لیے نہیں کیا بلکہ ہم ایسی جائے پناہ چاہتے تھے جہاں ہم اسلامی اصولوں کے مطابق زندگی بسر کر سکیں”

اگرچہ تمام حالات خراب ہی سہی مگر آج بھی ہم آزادی کی نعمت سے مستفید ہورہے ہیں اوریہ آزادی ایک بہت بڑی نعمت ہے۔ آج یوم آزادی کا دن ہم سے تقاضا کرتاہے کہ ایک بار پھر ہم اسی جذبے کے ساتھ کھڑے ہوں جسکے ساتھ ہمارے اسلاف قیام پاکستان کے وقت کھڑے تھے، جب وطن عزیز کومہاجرین کی آبادکاری کا مسئلہ درپیش تھا، وسائل نہ ہونے کے برابر تھے مگر ایک عزم تھا، خواب کو حقیقت میں بدل دینے کا عزم۔ ہمارے پاس آج وسائل بہت ہیں، کچھ حصہ تباہ ہوا ہے تو بفضل الہیٰ بہت بڑا حصہ سلامت ہے۔ آج اگر ہم سندھی، پنجابی، بلوچی اور پختون کی بجائے ایک سچا پاکستانی مسلمان بن کر سوچیں تو بہت جلد حالات بدلیں گے اور وطن عزیر امن کا گہوارہ ہوگا۔ کھیت ہرے بھرے اور بازار پررونق ہونگے۔ ہر لب خندہ اور ہر چہرہ شاداب ہوگا۔14اگست 2020ء ہمارا یومِ تشکر ہے کہ اس روز اللہ تعالیٰ نے ہمیں آزادی کے ساتھ یہ موقع عطا فرمایا ،14اگست ہمارے لئے یومِ احتساب ہے کہ ہم یہ جائزہ لیں، جو عہد ہم نے اللہ تعالیٰ سے اور اس قوم سے کیا تھا، کیا اس کی تکمیل کے لئے بامعنی پیش قدمی کرسکے ہیں؟ اور اگر ایسا نہیں کرسکے تو اس میں کون اور کس درجے کا ذمہ دارہے؟اورپاکستان صرف حکمرانوں کا نہیں بلکہ ہم سب پاکستانیوں کا گھر ہے۔ جب پاکستان ہم سب کا گھر ہے تو پھر اس کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں سمیت ہر قسم کی حفاظت بھی ہمارے ذمہ داری ہے۔ اسلام کے نام پر قائم ہونے والی مملکت پاکستان کی تعمیر و ترقی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں۔ اسی میں ہم سب کی بقا ہے۔یہی قوم کی اپنے وطن کے ساتھ وفاداری ہے۔ ملک پاکستان ربِّ کائنات کی طرف سے ایک عظیم نعمت ہے، جن مقاصد کے لئے مسلمانوں نے جدوجہد کی تھی، وہ ضرور حاصل ہوںگے انشاء اللہ تعالیٰ!کیونکہ آزادی کے اصل محرک اور ہیروز وہ قدوسی صفات لوگ ہیں کہ جنہوں نے پسینے سے وضو کیا، خون سے غسل کیا، ہتھکڑی کو ہاتھوں کا زیور اور بیڑی کو پاؤں کی پازیب سمجھا، جہنم زار جیلوں کو، وحشت ناک کوٹھریوں کو اور اندھیر قید خانوں کو سجدہ گاہ بنایا، پھانسی کے پھندوں کو معطر پھولوں کا ہار سمجھا، پھانسی گھاٹ کو زندگی کا تریاق جانا، توپوں کے دھانوں کو جاوداں زندگی کا شاٹ کٹ راستہ جانا، ملک و قوم کی آزادی کے لیے خون دینے کو مقصد حیات جانا،کٹے، مرے، پیٹے لیکن نہ جھکے، نہ بکے نہ ہٹے،حالانکہ تشکیل پاکستان تب ہی ممکن ہوئی جب فرنگی سامراج یہاں سے نکلا،اور فرنگیوں کو یہاں سے نکالنے والے یہی علمائے حق اور علمائے دیوبندکفن بر دوش لوگ تھے،اگر فرنگی کی حکومت آج بھی ہوتی تو پاکستان نہ ہوتا،قوم کو جشن آزادی کے موقعہ پر قافلہ حریت کے ان بے سروسامان مجاہدوں، غازیوں اور شہیدوں کو نہیں بھولنا چاہیے۔ آزادی کا یہ حصول کوئی آسان کام نہیں تھا جیسا کہ شاید آ ج سمجھا جانے لگا ہے۔ نواب سراج الدولہ سے لے کر سلطان ٹیپو شہید اور آخری مغل تاجدار بہادر شاہ ظفر تک کی داستاں ہماری تاریخ حریت و آزادی کی لازوال داستان ہے۔ 1857ء کی جنگ آزادی کے المناک واقعات بھی اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ سات سمندر پار سے تجارت کی غرض سے آنے والی انگریز قوم کی مسلسل سازشوں، ریشہ دوانیوں اور مقامی لوگوں کی غداریوں کے نتیجے میں برصغیر میں مسلمانوں کی حکومتیں یکے بعد دیگرے ختم ہوتی چلی گئیں۔

بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ ’’تحریکِ آزادی میں علمائے حق کا کوئی کردار نہیں ۔‘‘ یہ بات سراسرحقائق کے خلاف ہے۔ علمائے کرام نے آزادی کی تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا، مثال کے طور پر 1600 کے بعد انگریز ہندوستان میں داخل ہوا اور اس کی آزادی پر ڈاکہ ڈالا،اور 1803 میں شاہ عبدالعزیزؒ نے انگریزوں کے خلاف جہاد کا فتویٰ صادر فرمایا۔ تحریک کی کمان سید احمدؒ اور ان کے شاگرد خاص شاہ اسماعیلؒ نے کی اور اپنے رفقاء کے ساتھ مل کر کئی علاقوں میں انگریز کو شکستِ فاش دی۔ 1831 میں سید احمدؒ اور شاہ اسماعیلؒ بالاکوٹ کے مقام پراپنے رفقا کے ہمراہ شہید ہوگئے۔ 1857 کی جنگِ آزادی کا اہم ترین معرکہ ’’شاملی‘‘ کے میدان میں ہوا، جہاں انگریز کو سخت جانی و مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔ اس معرکے کے سپہ سالار حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ تھے۔ ان کے خاص کمانڈروں میں حافظ محمد ضامنؒ، مولانا محمد قاسم نانوتویؒ اور مولانا رشید احمد گنگوہیؒ جیسے جلیل القدر علما تھے۔ اس معرکے میں بے شمار علما و طلبہ شہید ہوئے۔ مسلمانوں کو شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ مولانا فضل حق خیرآبادیؒ اور دیگر علما کو فتویٔ جہاد کے جرم میں کالے پانی کی سزا دی گئی۔ مفتی کفایت علی بدایونیؒ کو جنگ آزادی کی پاداش میں تختۂ دار پر لٹکادیا گیا۔ 1857 ءکی شکست کے بعد مولانا محمد قاسم نانوتویؒ اور دیگر اکابرین نے اسلامی روایت کے تحفظ اور ملک کی آزادی کی خاطر 1866 ءمیں قصبہ دیوبند میں ’’دارالعلوم‘‘ نامی علمی درس گاہ کی بنیاد ڈالی جو آگے چل کر آزادی کی تحریکوں کا مرکز و سرچشمہ ثابت ہوئی۔ دارالعلوم دیوبند کے شیخ الہند مولانا محمود حسن نے آزادی کیلئے ’’تحریک ریشمی رومال‘‘ شروع کی۔ 1917 ءمیں غداری کی وجہ سے حجازِ مقدس سے شیخ الہند کو گرفتار کرکے مولانا حسین احمد مدنیؒ، مولانا عزیر گلؒ، مولانا حکیم نصرت حسینؒ، مولانا وحید احمدؒ کے ہمراہ بحیرہ روم میں واقع جزیرہ مالٹا کی جیل میں جلاوطن کردیا گیا۔ 1919 ءمیں مولانا محمد علی جوہرؒ نے انگریزوں کے خلاف تحریکِ خلافت شروع کی۔ مولانا شوکت علیؒ اور ابوالکلام آزادؒ جیسے عظیم قائدین بھی ساتھ تھے۔ مفتی محمد شفیع عثمانیؒ اور سید ابومحمد دیدار علی شاہ الوریؒ نے ’’مطالبۂ پاکستان‘‘ کو مدلل فتاویٰ کی صورت میں پیش کرکے تحریک آزادیٔ پاکستان میں فیصلہ کن اور موثر ترین کردار ادا کیا۔ مولانا سید محمد نعیم الدین مراد آبادیؒ نے مطالبہ پاکستان کی پرزور حمایت کا اعلان کیا۔ شاہ احمد نورانی کے والد ماجد عبدالعلیم صدیقی قادری نے قیامِ پاکستان کے مطالبے کو عالمی سطح پر اُجاگر کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ 15؍ اگست 1947 کو کراچی میں مولانا شبیر احمد عثمانیؒ نے جبکہ مشرقی پاکستان مولانا ظفر احمد عثمانیؒ نے تلاوتِ قرآن اور دعا کے بعد پاکستان کی پہلی پرچم کشائی کا اعزاز حاصل کیا۔ 11؍ ستمبر 1948ء میں جب بانیٔ پاکستان قائداعظم کا انتقال ہوا تو ان کی وصیت کے مطابق مولانا شبیر احمد عثمانیؒنے ان کی نماز جنازہ کی امامت فرمائی۔ مارچ 1949 میں دستور ساز اسمبلی نے ’’قراردادِ مقاصد‘‘ کے عنوان سے قرارداد منظور کی تو اسلام کی بنیادی تعلیمات، اساسی احکامات اورا ہم جزئیات کو آئین کا حصہ بنانے میں مولانا شبیر احمد عثمانیؒ اور ان کے رفقائے کار نے بھرپور کردار ادا کیا، اور آج بھی علمائے کرام ملک کی تعمیر و ترقی اور قوم کی فلاح و بہبود میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں۔

اورجوحضرات یہ سوچتے ہیںکہ پاکستان نےاب تک کونسا کارنامہ سرانجام دیا ہے ان کے لئے عرض ہے کہ یہ وہ پاکستان ہے جس نے 63 سال کی عمر میں 8 جنگیں لڑیں تقسیم کے وقت1948 کشمیر کی جنگ، 1965 میں ہندستان کی مسلط کردہ جنگ، 1971 میں ہندوستان کی مسلط کردہ جنگ، 1999 میں کارگل کی جنگ، دنیا کی سپر پاور روس سے افغانستان میں جنگ، دنیاکی سب سے بڑی 50 لاکھ مہاجروں کو اپنے ملک میں پناہ دی. موجودہ دوسری سپر پاور امریکہ سے جنگ اس کے باوجود پاکستانیوں پاکستان زندہ ہے بلکہ ایٹمی قوت بھی ہے. یہ وہ پاکستان ہے جس کے خلاف اسرائیل، انڈیا اور امریکہ نے اتحاد کرلیا ہے لیکن اس وقت تک اللہ کے حکم سے ناکام ہیں یہ وہ پاکستان ہے جس نے عرب اسرائیل جنگ میں اسرائیل کے چھ ایف سولہ جہاز گرائے تھے جب کہ سارا عرب اسرائیل کے آگے گھٹنے ٹیک چکا تھا. یہ وہ پاکستان ہے جس نے سری لنکا کی 60000 آرمی کو انڈیا کے تربیت یافتہ تامل ٹاگر کے خلاف تربیت و مدد فراہم کی۔

14 اگست کو برسہا برس کی جدوجہد کے بعد ایک خدا، ایک رسولﷺ اور ایک قرآن پر ایمان رکھنے والوں نے ایک قائد کی قیادت میں پاکستان اس نظریہ کی بنیاد پر حاصل کیا کہ مسلمان ایک علیحدہ قوم ہیں جس کا طرز زندگی، ثقافت اور دین سب سے الگ ہے۔ ’’ہم دونوں قوموں میں صرف مذہب کا فرق نہیں، ہمارا کلچر ایک دوسرے سے الگ ہے۔ ہمارا دین ہمیں ایک ضابطہ حیات دیتا ہے جو زندگی کے ہر شعبے میں ہماری رہنمائی کرتا ہے ہم اس ضابطہ کے مطابق زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں۔اس لئے ہمیں اس جشن آزادی کے موقع پر پاکستان کی خاطر سوچنے اور کام کرنے کا پختہ ارادہ کرکے اس پر عمل کرنا ہوگا ۔۔ یہ مت سوچو کہ پاکستان نے کیا دیا بلکہ یہ سوچو کہ تم نے پاکستان کو کیا دیا ہے،ہمیں اپنی احساسِ ذمہ داری کو محسوس کرنا چاہئیے۔ اِس ملک کی حفاظت سلامتی اور تعمیرو ترقی میں کردار ادا کرنا آپ کا میرا سب کا فرض ہے۔ امید ہے اس 14 اگست کا سورج پاکستان میں امن و خوشحالی کا پیغام لے کر طلوع ہوگا انشاءاللہ ۔